کتابت مصاحف اور علم الرسم

 کتابت مصاحف اور علم الرسم Adobe PDF format
 کتابت مصاحف اور علم الرسم Microsoft Word format

(۱) "الجمع الصوتی الاول للقرآن" کے مؤلف ڈاکٹر لبیب السعید نے اپنی کتاب کی تمہید میں علامہ عبد اللہ یوسف علی کے ترجمہ قرآن کے دیباچہ سے یہ عبارت (بصورت ترجمہ) نقل کی ہے:

’’لیس فی الدنیا کتاب وضعت فی خدمتہ مثل ہذہ الکثرۃ من المواھب التی وضعت فی خدمۃ القرآن –   ولا مثل ھذہ الوفرۃ من العمل والوقت والمال‘‘ (۱)

       اصل انگریزی عبارت یوں ہے:

“There is no book in the world in whose service so much talent, so much labour ،so much time and money have been expended as has been the case with the Quran.(2)

       خدمت قرآن کے بیسیوں میدان اور مطالعۂ قرآن کے سینکڑوں عنوان ہیں۔ اور قرآن کریم سے متعلق یہ "علمی میدان" اور "علمی عنوان" متعدد تحریکات اور سینکڑوں – تالیفات کو وجود میں لائے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم اور بنیادی میدان ہے، النص القرآنی(کلمات قرآن) کی (مصحف میں (۳)) کتابت – اور اسی (کتابت مصحف) کے قواعد و ضوابط کے بیان کا علمی عنوان ہے۔ "علم الرسم" – اور  اس علم کا مختصر سا تعارف ہی اس مقالہ کا مضوع ہے۔

(۲) عربی زبان میں "لکھائی" کے لیے متعدد (قریباً) ہم معنی الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً الکتابۃ، الخط، الزبر، السطر، الرقم، الرشم (بالشین)، الرسم اور الھجاء وغیرہ (۴)۔ ان میں سے قرآن کریم کی کتابت کے ضمن میں لفظ "خط" سے عموماً خطاطی اور خوشنویسی کا بیان اور اس کی تاریخ مراد لی جاتی ہے۔ اور یہ خطاط اور مؤرخ خط کا میدان ہے۔ اور "الھجاء" اور "الرسم" (اور اس کے مشتقات) اور ان پر مبنی بعض تراکیب، املاء قرآن (۵) کے اصول وقواعد کے معنوں میں ایک علم اور فن کا اصطلاحی نام بن چکے ہیں۔

گزشتہ چودہ صدیوں میں اس علم کے نام کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً ابتداء میں تو کتابت یا خط کے لفظ ہی سامنے آئے (۶) پھر  آگے چل کر مختلف اسباب وعوامل کی بنا  پر اس کے لیے "ھجاء" کا استعمال شروع ہوا۔ مثلاً "ھجاء المصاحف" ، "ھجاء مصاحف الامصار" ، "ھجاء التنزیل" وغیرہ۔ لفظ "الھجاء" کے لفظی معنی ہیں: حرفوں (کےناموں) کی ابتدائی آوازوں سے لفظ بنانا۔ مثلاً بکر کا  ھجاء "ب ک ر" ہے۔  اس طرح ھجاء المصاحف کا مطلب ہوا: قرآن کے لفظوں کو لکھنے کے لیے ان کے حرفوں کو ترتیب وار گن کر باہم جوڑنے کا طریقہ یا اس کے قواعد۔

قریباً پانچویں صدی ہجری سے لفظ "الرسم" اور "مرسوم" کا استعمال شروع ہوا مثلاً "رسم المصحف" ، "رسم مصاحف الامصار"، "مرسوم المصاحف" ، "رسم القرآن" ، "مرسوم خط التنزیل" وغیرہ۔ ابن خلدون (ت۸۰۸ھ) نے اسے فن الرسم اور الرسم المصحفی لکھا ہے (۷)۔ قلقشندی نے اسے المصطلح الرسمی اور الاصطلاح السلفی کہا ہے(۸)۔

گیارھویں بارھویں صدی ہجری سے "رسم" کے ساتھ (ترکیب میں) حضرت عثمانؓ یا  ان کی طرف منسوب مصاحف کا نام زیادہ استعمال ہونے لگا مثلاً "رسم المصاحف العثمانیہ" ، "رسوم مصاحف عثمان" ، "رسم المصحف الامام" اور "الرسم العثمانی" وغیرہ۔ آج کل اس کے لیے جامع اصطلاح "علم الرسم" یا صرف "الرسم" اختیار کی جاتی ہے۔ اس لفظ کے علی الاطلاق استعمال کی صورت میں یعنی کسی توصیفی یا اضافی ترکیب کے بغیر – بھی اس سے مراد "رسم المصحف" ہی ہوتا ہے۔ اردو میں اس کے لیے  "رسم قرآن" ، "قرآنی رسم الخط" یا "رسم عثمانی"(۹) کےالفاظ اور فارسی میں "املاء قرآن" اور بعض دفعہ "رسم مصحف" کی اصطلاح کا رواج ہے۔

الرسم کے لفظی معنی ہیں اثر یا نشان – اور اس کی جمع  رسوم (آثار – نشانات) آتی ہے۔ غالباً قرآن کریم کی کتابت کے آداب و قواعد کے لیے اس لفظ کے مختص ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں عہد نبوی اور عہد راشدین کی کتابت اور طریق املاء کو ایک یادگار کے طور پر محفوظ کر لینے کا تصور شامل ہو گیا ہے۔ اسی تاریخی پہلو کی طرف اشارہ کے لیے "علم الرسم" کی تعریف ہی"الخط المرسوم فی المصاحف العثمانیہ" سے کی جاتی ہے (۱۰) اوراسے رسم عثمانی کہنے کی بنیاد بھی تاریخی ہے۔

چونکہ املاء قرآن بعض باتوں میں عام عربی املاء سے مختلف ہے اس لیے دونوں کا فرق واضح کرنے کے لیے بعض دفعہ عام املاء کے لیے بھی "رسم" کا لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے مگر ترکیب کے ساتھ مثلاً [الرسم القرآنی یا  الرسم الاصطلاحیکے مقابلے پر] الرسم الاملائی ، الرسم القیاسی  یا الرسم المعتاد کہہ لیتے ہیں(۱۱)۔ اوران دونوں کے باہمی فرق اور اختلاف کی وجہ سے  علم الرسم کی منطقی حد (تعریف) یوں بیان کی جاتی ہے  "ھو علم تعرف بہ مخالفات خط المصاحف العثمانیۃ لاصول الرسم القیاسی(۱۲) [علم الرسم وہ علم ہے جس کے ذریعے مصاحف عثمانیہ کی املاء میں رسم قیاسی کی مخالفت اور اختلافات کا پتہ چلتا ہے]۔

(۳) علم الرسم کی مندرجہ بالا تعریف اور تعارف سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا تعلق حضرت عثمانؓ اور ان کے مصاحف سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ  علم الرسم کی تمام کتابوں میں سب سے پہلے جمع و تدوین قرآن کے تین معروف مراحل یعنی عہد نبوی، عہد صدیقی اور عہد عثمانی میں اس عمل کے دواعی اور اس کی کیفیت سے بحث کی جاتی ہے۔ قرآن کریم کے اس عثمانی ایڈیشن یعنی  مصاحف عثمانیہ کی تیاری ایک معروف واقعہ ہے۔ یہاں اس کی تفصیلات میں جانا باعث طوالت ہو گا نیز اس وقت ہمارا اصل مرکزی موضوع بھی یہ نہیں ہے۔ تاہم چونکہ  "علم الرسم" کی بنیاد یہی مصاحف عثمانیہ بنے، اس لیے اصل موضوع  (الرسم) کی مناسبت سے ان مصاحف کے بارے میں چند امور قابل ذکر ہیں۔

۱) حضرت عثمانؓ کا زمانہ خلافت محرم۲۴ھ تا ذی الحجہ ۳۵ھ یعنی بارہ سال ہے۔ اس دوران حضرت عثمانؓ کا یہ مصاحف کی تیاری والا کام کب شروع ہوا؟ اور کب اختتام کو پہنچا؟ اس بارے میں مختلف روایات ہیں۔ تاریخی بحث کی تفصیل میں گئے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کام ۲۵ھ تا ۳۰ ھ کی درمیانی مدت میں ہی مکمل ہو گیا تھا(۱۳)۔ گویا یہ کام آنحضرت ﷺ کی وفات سے ۱۵ تا ۲۰ سال کے اندر اندر۔ اور غارِ حرا میں پہلی وحی کے نزول سے پچاس سال سے بھی کم عرصے میں (۱۴) سرانجام دیا جا چکا تھا۔

۲) ان مصاحف کی کتابت میں سب سے اہم کردار حضرت زید بن ثابت کا تھا۔ انہوں نے عہد نبوی میں بھی کتابتِ وحی کا کام کیا تھا۔ عہد صدیقی میں قرآن کریم کی صحف [چھوٹے چھوٹے اجزاء – جن میں سے ہر ایک جزء کم از کم ایک سورت پر مشتمل تھا(۱۵)] میں مکمل کتابت میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا۔ اس ۱۵-۲۰ سال کے عرصے میں عربی املاء کے اصول و قواعد میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوا۔[یہ تغیرات پہلی صدی ہجری کے اواخر میں سامنے آتے ہیں]۔ اور اہم کاتب بھی ایک ہی آدمی رہا۔ اس لیے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت زیدؓ بن ثابت یا ان کے ساتھ کام کرنے والے کمیٹی کے دوسرے ارکان نے مصاحفِ عثمانیہ کی کتابت اسی طریق املاء کے مطابق کی جو اس وقت حجاز خصوصاً مدینہ منورہ میں رائج تھا۔ اور یہ طریق املاء یقیناً عہد نبوی میں رائج خط اور املاء سے مختلف نہیں تھا۔

۳) مصاحفِ عثمانیہ نقط اور اعجام سے معرّی تھے۔اس لیے ہر نسخہ کے ساتھ پڑھانے والا ایک مستند قاری بھی بھیجا گیا تھا۔ عہد نبوی سے ہی تعلیم قرآن کی بنیاد محض تحریر پر نہیں بلکہ تلقی اور سماع پر رکھی گئی تھی۔ لوگوں نے اپنی روزانہ تلاوت کے لیے اپنے علاقے کے صدر مقام پر بھیجے گئے مصاحفِ عثمانیہ سے اپنے لیے مصاحف تیار کرنا اور کراناشروع کر دیئے۔ اب ہر نیا مصحف مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک – یا ان سے ہو بہو نقل کردہ کسی ایک نسخہ (مصحف) – کی صحیح نقل ہوتا تھا۔ قرآن کریم کی درست قراء ت استاد کی شفوی تعلیم پر – اور قرآن کی درست کتابت مستند اصل سے ہو بہو نقل پر- منحصر تھی۔ مصاحفِ عثمانیہ کی اس ہو بہو نقل کو ہی مصاحفِ عثمانیہ کے رسم (طریق املاء) کا التزام کہا جاتا ہے۔

۴) حضرت عثمانؓ نے کتنے مصاحف تیار کرائے تھے اور وہ کس کس شہر میں بھیجے گئے؟ روایات میں ان کی تعداد چار سے آٹھ تک بیان کی گئی ہے (۱۶) دو نسخے (مصحف)تو مدینہ منورہ میں رہے ایک پبلک کے لیے مسجد نبوی میں رکھا گیا اور ایک حضرت عثمانؓ کی ذاتی نگرانی میں رہا، جسے المصحف الامام بھی کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مکہ مکرمہ، کوفہ،  بصرہ اور دمشق میں ایک ایک  مصحف (مع قاری) بھیجا جانا ثابت ہے [چار مصاحف والی روایت میں غالباً صرف ان مصاحف کی بات کی گئی ہے جو مدینہ منورہ سے باہر بھیجے گئے تھے۔]۔کہتے ہیں کہ ایک ایک نسخہ یمن اور بحرین کے لیے بھی بھیجا گیا تھا، بلکہ بعض نے بحرین کی بجائے مصر یں ایک نسخے کے بھیجے جانے کا ذکر بھی کیا ہے(۱۷)۔تاہم جن مصاحفِ عثمانیہ سے نقل ہو کر مزید مصاحف تیار ہوئے اور جن کے رسم کا گہری نظر سے لفظ بہ لفظ بلکہ حرف بحرف تنقیدی اور تقابلی مطالعہ کر کے  "علم الرسم" کی بنیاد رکھی گئی۔ اس میں صرف پانچ مقامات کے مصاحف عثمانیہ [یا ان سے تیار ہونے والے مصاحف] کا ذکر کتب رسم میں کیا جاتا ہے۔ یعنی مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور دمشق کے مصاحف (۱۸)۔

۵) جغرافیائی اعتبار سے اسلامی مملکت کے مختلف حصوں کے لیے ان ارسال کردہ مصاحفِ عثمانیہ کی مرکزی حیثیت کچھ اس طرح مقرر کر دی گئی یا عملاً ہو گئی کہ مکہ اور مدینہ کے مصاحف تمام جزیرہ نمائے عرب کے لیے- بصرہ اور کوفہ کے مصاحف تمام مشرقی علاقوں کے لیے اور دمشق کا مصحف شام کے علاوہ تمام مغربی (افریقی) علاقوں کے لیے – نئے مصاحف کی تیاری کے لیے اصل کا کام دینے لگے – ان مصاحف – اور ان کی نقول کو مکی، مدنی، کوفی، بصری اور شامی کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔

۶) آگے چل کر علماء رسم نے مختلف مصاحف کے ذکر کے لیے کچھ اصطلاحات مقرر کر لیں مثلاً مدینہ منورہ کے دونوں نسخوں (خاص اور پبلک والے) کا ذکر کرنا ہوتا تو "مدنیین" کہتے اور "مدنیین" اور مکی (یعنی تینوں کا) ذکر کرنا ہوتا تو "الحجازیہ" یا "الحرمیۃ" کہتے اور کوفی اور بصری (دونوں)کے لیے مجموعی طور پر "العراقیین" کی اصطلاح استعمال کرتے- تاہم یہ اصطلاحات اس وقت استعمال کرتے جب اصل مصاحفِ عثمانیہ مراد ہوتے اور اگر ان سے تیار ہونے والی نقول مراد ہوتیں تو صرف مصاحفِ عراقی، مصاحفِ اھل الشام وغیرہ کہہ کر ذکر کیا جاتا (۱۹)- کتب الرسم میں ان اصطلاحات کا استعمال عام ہے۔

(۴)  ان مراکز خمسہ میں سے ہر ایک مرکزی شہر میں وہاں قیام پذیر صحابہؓ کے ہاتھوں قراء کی ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جو قراء ت کے ساتھ رسم الکلمات (کا طریقہ) بھی بیان کرتے تھے یعنی ادھر بھی توجہ دلاتے تھے – نقط و اعجام سے معرّی مصحف سے قراء ت روایت کی بنا پر اور استاد سے بالمشافہ ہی سیکھی جا سکتی تھی۔ تاہم اس مروی قراء ت کے مطابق اپنا (ذاتی) مصحف تیار کرنے کے لیے مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک سے یا اس سے نقل شدہ کسی مصحف سے نقل مطابق اصل کئے بغیر بھی چارہ نہ تھا۔ کیونکہ باجماع صحابہؓ یہی مصاحف صحت کا معیار قرار پائے تھے۔ اس طرح شروع سے ہی قراءت اور رسم ساتھ ساتھ چلے۔

       اور یہ "نقل مطابق اصل" کا کام اس لیے بھی ضروری تھا یا یوں کہئے کہ "نقل صحیح" کے اس عمل سے یہ بات بھی سامنے آنے لگی تھی کہ مصاحفِ عثمانیہ میں ایسے کلمات بھی ہیں، جن کی کتابت میں کوئی یکساں اصول اختیار نہیں کیا گیا تھا مثلاً لفظ "کتاب"کہیں الف کے ساتھ اور کہیں بحذف الف (کتب) لکھا گیا تھا۔ یا مثلاً  لفظ "نعمۃ" یا "رحمۃ" عموماًتو تائے مربوطہ (ۃ)کے ساتھ ہی لکھے گئے مگر بعض مقامات پر تائے مبسوط (ت)کے ساتھ لکھے گئے تھے۔ اور ایک ہی مصحف کے اندر اس قسم کے تفاوت اور اختلاف کی متعدد صورتیں موجود تھیں۔ آگے چل کر ایسے تمام مقامات کا حصر اور کتابت مصاحف میں اس فرق کو برقرار رکھنا علم الرسم کا ایک اہم مسئلہ بن گیا۔

(۵)  جیسا کہ ابھی بیان ہوا صحابہؓ نے مصاحف کی کتابت اپنے زمانے کے رائج "طریق املاء" یا رسم کے مطابق ہی کی تھی۔ اس زمانے میں یہی طریق املاء عام کتابت کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا اور یہ طریقہ تابعین (بلکہ تبع تابعین) کے دَور تک جاری رہا (۲۰)۔کہ قرآنی املاء اور عام عربی املاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ ایک لفظ جس طرح قرآن میں لکھا جاتا تھا۔ شعر و ادب میں یا کسی سرکاری یا ذاتی مراسلات وغیرہ میں بھی اسی املاء کے ساتھ لکھا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کی قرآنی املاء (یا رسم) کے بعض طریقے عام عربی املاء میں اس طرح رچ بس گئے کہ اس کی بعض یادگاریں عام عربی املاء میں اب تک محفوظ ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذکر ابھی آگے چل کر آئے گا۔

(۶)  جب کوفہ اور بصرہ کی چھاؤنیاں علمی مرکز کے طور پر اُبھریں اور یہاں عربی زبان و لغت اور شعر و ادب کے ساتھ ساتھ صَرف اور نحو کے علوم کی ایجاد اور تدوین ہوئی- اور علمی، سرکاری اور روزمرہ کی سطح پر عربی زبان میں کتابت کی بھی بکثرت ضرورت پڑنے لگی، تو علماء وقت نے عربی املاء کو صرفی اور نحوی اصولوں کی روشنی میں یکساں اور کلی قواعدکے ماتحت کرنا ضروری سمجھا۔ اور اس کے لیے بنیادی طور پر املاء کلمات میں ’’صوتی اصول‘‘ (The Phonetic Principle) یعنی لفظ کو اس کے نطق یا تلفظ کے مطابق لکھنے کا اصول اختیار کرنے کو ترجیح دی گئی مثلاً یہ کہ:

أ۔   الف لینہ متوسطہ کو ہمیشہ بصورت الف ہی لکھنا چاہیے (۲۱) اس لیے جو واؤ صرفی تعلیل کی بناپر الف میں بدل جائے (بلحاظ تلفظ) اسے لفظ میں بصورت الف ہی لکھنا چاہیے اس قاعدے کے تحت ’’صلوٰۃ‘‘ کو صلاۃ اور ’’نجوۃ‘‘ نجاۃ لکھنابہتر سمجھا گیا۔

ب۔    اسی طرح واؤ جمع کے بعد زائد الف لکھنا تو تسلیم کر لیا گیا (مثلاً  ضربوا اور قالوا میں) مگر کسی ناقص واوی کے صیغہ مضارع واحد غائب (مثلاً  یدعو، یمحو) میں واؤ کے بعد الف لکھنا غلط قرار دیا گیا (۲۲)۔

ج۔    اسی  (الف لینہ متوسطہ) والےقاعدے کے تحت جمع مؤنث سالم کی آخری ’’ت‘‘ سے پہلے الف لکھنا بھی ضروری سمجھا گیا  (مسلمات، حسنات میں)۔

د۔    اسی طرح صیغہ جمع مؤنث غائب کے ساتھ التباس سے بچنے کے لیے ماضی جمع متکلم میں بھی آخر پر الف کا لکھنا ضروری قرار پایا۔ اس قاعدے کی بنا پر ہی  ’’انزلنہ‘‘ کو انزلناہ کی شکل میں لکھنے لگے وغیرہ وغیرہ۔ قرآن کریم میں پہلی شکل استعمال کی گئی تھی۔

       اس طرح صرفی اور نحوی قواعد کی روشنی میں ھجاء اور املاء کے قیاسی قواعد کے ارتقاء کا ایک دَور شروع ہوا اور اس کے اصول وقواعد میں تغیر وتبدل اور اصلاح وترمیم کا عمل جاری رہا(۲۳)[اور کسی حد تک یہ اب بھی جاری ہے] اور اس فن یعنی املاء قیاسی کے اصول وقواعد پر مشتمل مستقل کتابیں لکھی جانے لگیں (۲۴)۔

       املاء قیاسی کی اصلاح اور اس کے انضباط کی اس صرفی و نحوی مہم کے نتیجے میں لوگوں نے بہت سے کلمات کا قدیم ھجاء اور املاء ترک کر دیا اور ان کو نئے اصولوں کے مطابق لکھنے لگے (۲۵) تاہم رسم قرآنی کو ان قواعد کے تحت لانے کو قبول نہیں کیا گیا اور قرآن کریم کی کتابت بدستور "نقل مطابق اصل" کے اصول پر برقرار رکھی گئی۔ اس طرح قرآن کریم میں لوگوں کو ان قواعد نحو کی "خلاف ورزی" کی بکثرت مثالیں نظر آنے لگیں۔ حالانکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ قرآنی رسم تو کبھی ان قواعد کے تابع تھا ہی نہیں۔

(۷)  املاء اور ھجاء کے قدیم اصولوں میں ان تبدیلیوں اور اصلاحات کے باوجود کُتّاب مصاحف کے ہاں عثمانی مصاحف کے طریق املاء یا رسم الخط کا اتباع جاری رہنے کی کچھ وجوہ تھیں مثلاً:

الف     ۔    اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ اس ’’رسم‘‘ میں اب ایک طرح سے تبرک اور تقدیس کا پہلو پیدا ہو گیا تھا [اور رسم قرآنی کا یہ پہلو کبھی بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا گیا]۔

ب۔   دوسرے ایک طویل عرصے کے استعمال سے  کُتّاب مصاحف اس طریق املاء سے مانوس بھی ہو گئے تھے(۲۶)۔

ج۔    تیسرے یہ بھی کہ مصحف کی کتابت کسی مصحف سے ہی براہ راست اور ہو بہو نقل پر منحصر تھی۔ اس سے بھی ’’رسم‘‘ سے منحرف ہونے کی گنجائش کم ہی نکلتی تھی۔

       دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کلمات کا قدیم یا قرآنی طریق املاء (یا رسم الخط) کثرت استعمال کی بنا پر ذہنوں میں اس طرح رچ بس گیا تھا کہ اسے املاء قیاسی کے علمبرداروں نے بھی اپنی اصلی صورت پر برقرار رکھنا قبول کر لیا، بلکہ ان کلمات کو قرآنی املاء کے ساتھ لکھنا ہی درست قرار دیا۔ آج بھی عام عربی املاء (الرسم المعتاد) میں بکثرت ایسے کلمات ملتے ہیں جن کی املاء ’’صوتی اصول‘‘ (The Phonetic Principle) یعنی نطق کے مطابق کتابت کے اصول کی بجاءے ایک طرح سے ’’تاریخی اصول‘‘ (the Historic Principle)کے تحت کی جاتی ہے۔ مثلاً:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، لا الہ الا اللہ، الّذین، ھٰھُنا، لٰکِنْ، ھذا، ذالک، اولئک، ھؤلاءِ اُولُـوْ، ھٰاَنتم، اُولاءِ، اُولاتُ، بلٰی، حتّٰی، متٰی، اِلٰی وغیرہ۔جن کو اگر رسم املائی کے صوتی یا نحوی اصل پر مبنی قواعد کے مطابق لکھا جائے تو ان کی شکل یوں ہو جائے گی: باسم اللاَّہ الرحمان الرحیم، لا اِلاہ الا اللاَّہ، اَللَّذین، ھاھنا، لاکن، ھاذا، ذالک، اُلائِک، ھا اُلاءِ، اُولُـوْ ، ھا انتم، اُلاءِ ، اُلاتُ ، بلا ، حتّا ، متا اور اِلا۔(۲۷)۔

(۸)  دریں اثنا نقط وشکل اور علامات ضبط کی ایجاد و اختراع نے قرآنی (اور عام عربی) کلمات کا تلفظ نسبتاً آسان کر دیا تھا۔ تاہم قیاسی یا عام املاء کے مطابق لکھی ہوئی عبارت پڑھ لکھ سکنے والے آدمی کے لیے قرآنی املاء یا رسم المصحف کا رسم قیاسی سے یہ اختلاف ایک الجھن کا باعث بنتا تھا۔اور غالباً اسی لیے امام مالک بن انسؒ (ت۱۷۹ھ) سے یہ مشہورسوال پوچھا گیا تھا کہ کیا قرآنی املاء کو بھی جدید املاء کے سانچے میں ڈھال لیا جائے؟ جس کا جواب انہوں نے نفی میں دیا تھا اور سلف کے طریقے کے مطابق  رسم المصحف کو  علی حالہ برقرار رکھنے پر زور دیا تھا۔ البتہ انہوں نے بچوں کی تعلیم میں سہولت کے لیے (قاعدے یا تختی کی صورت میں) رسم عثمانی سے ہٹ کر قیاسی املاء کے مطابق (اسباق) لکھنے کو جائز قرار دیا تھا (۲۸)۔

       یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسم قرآنی بیشتر رسم قیاسی کے مطابق ہی ہے۔ صرف ایک قلیل تعداد کلمات کی ایسی ہے جن میں اختلاف ہے۔ قرآن کریم کے ستر ہزار سے زائد کلمات میں سے قریباً نوے فیصد (۹۰%) کلمات کی املاء عام قیاسی کے مطابق ہی ہے (۹۲)۔دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ عربی رسم الخط دورِ صحابہ تک اتنی پختگی کو پہنچ چکا تھا کہ اس میں ترمیم و اصلاح کی بڑی محدود سی ضرورت درپیش آئی۔

(۹)   فریضۂ حج کے ذریعے وسیع اسلامی مملکت کے مغربی (افریقہ واندلس) اور مشرقی (ایشیا) علاقوں سے لوگوں کو حرمین شریفین میں آنے کا موقع ملتا رہتا تھا (۳۰) اس کے علاوہ طلب علم کے لیے بھی لوگ ایک علاقے سے دوسرے علاقوں خصوصاً بڑے شہروں کا رخ کرتے تھے۔ ان علمی اور دینی رحلات (سفروں) میں اہل علم کو اپنے اپنے مختص علم وفن کی تحصیل اور تکمیل کے مواقع میسر آتے تھے۔ قراءات اور علم الرسم کے شائقین کو اس ضمن میں مصاحف امصار [یعنی مختلف صوبائی صدر مقامات میں بھیجے گئے مصاحف عثمانیہ یا ان سے تیار کردہ اس علاقے کے مصاحف] دیکھنے، بلکہ ان کا تقابلی اور تنقیدی مشاہدہ کرنے کا مواقع ملے تو دقتِ نظر سے کام لینے والوں کو یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بعض قرآنی کلمات کی املاء یا رسم کسی ایک علاقے کے (مثلاً عراقی) مصاحف میں ایک طریقے سے اور کسی دوسرے علاقے کے (مثلاً شامی یا مکی) مصاحف میں کسی دوسرے طریقے سے کی گئی تھی۔

       اس طرح علماءِ رسم کو کتابتِ مصاحف کے ضمن میں تین قسم کے املائی اختلافات سے واسطہ پڑنے لگا:

۱۔     رسم المصحف کا عام رسم قیاسی سے اختلاف۔

۲۔    ایک ہی مصحف کے اندر بعض کلمات کا مختلف مقامات پر مختلف رسم میں لکھا ہوا ملنا۔

۳۔    مصاحف امصار (علاقائی مصاحف) کا بعض کلمات کے رسم میں باہمی اختلاف۔

ذیل میں بطور نمونہ ہر قسم کے اختلافات کی کچھ مثالیں دی جاتی ہیں:

۱۔     رسم قیاسی اور رسم قرآنی کا اختلاف:-

رسم قرآنی                                 رسم قیاسی

اَلْئٰنَ                                           الآنَ

اِیّٰـیَ                                              اِیَّایَ

العُـلَمٰؤُا                                          العُـلَمَاءُ

جِایْْءَ                                      جِـیْْءَ

لِـشَایْْءٍ                                            لِـشَیْْءٍ

لَاَ اذْبَحَـنَّہٗ                                       لَاَذْبَحَنَّہٗ

دُعٰـؤا                                       دُعـاء

ساُورِیْکم                                     ساُریکم

لَـتَّخَذْتَ                                               لَاتَّخَذْتَ

الَّـیْل                                           اللَّـیْل

الاِنسٰن                                                الاِنسان

سَلٰسِلاَ                                         سَلٰسِلَ

یَبْنَؤْمَّ                                          یَابْنَ أُمَّ

بِاَیْیدٍ                                            بِاَیْدٍ

اَفَائِنْ                                          اَفإنْ

اَلّٰتِیْ                                                   اَللَّاتِیْ

نُـنْجِیْ                                         نُـنْجِیْ

                                                وغیرہ

۲۔    ایک ہی مصحف میں کلمات کی مختلف املاء:-

ایک جگہ                                          دوسری جگہ

کِتٰب                                                  کِتاب

قٰل                                                             قال

طَغَا                                                           طَغٰی

لدا                                                             لدی

اَیَّھا                                                            اَیُّہَ

مانَشاءٔ                                                        ما نَشٰؤُا

اِبْرَاھٖم                                                اِبْرَاھِیمْ

کَیْ لا                                                 کَـیْلا

جَزاؤُا                                                 جَزاءُ

اَئِذا                                                            أَءِذا

یَمْحُوا                                                 یَمْحُ

شَعائِر                                                شَعٰئِرْ

تَبٰرَکَ                                                 تَبارَکَ

                                               وغیرہ

۳۔    مصاحف امصار کے اختلاف:-

بعض مصاحف میں                                 اور بعض مصاحف میں

تُکذِّبان                                                    تُکَذِّبٰن

طائف                                                 طٰئف

خائف                                                 خٰئفِ

صٰفّٰت                                                 صافّات

کِیْدُونِ                                                کِیْدُونِی

شرکاؤھم                                             شرکائھم

ذواالعصْف                                           ذا العَصْف

تجری تحتَھا                                 تجری من تحتِھا

منھا مُنقَلَبا                                            منھما مُنْقَلَبا

۴۔    مصحف میں مماثل کلمات کی مختلف املاء:-

        مائۃ  میں الف ہےمگر فئۃ   بحذف الف ہے  اللطیف میں دو لام موجود مگر  الیّل ہر جگہ صرف ایک لام کے ساتھ،  ایَّاک میں تو الف ہے مگر  اِیّٰیَ میں محذوف ہے۔  لدا الباب الف کے ساتھ، مگر  لدی الحناجر یاء کے ساتھ،  جِایْءَ میں الف موجود مگر  سِیْءَ الف کے بغیر اٰبْوٰب بحذف الف مگر  اَکْوَاب باثبات الف لَاَ اذْبَحَنَّہمیں زائد الف موجود مگر  لَاُعَذّبَنَّہ اس زیادۃ کے بغیر ہے۔  مِن وَرایِءحِجَاب بزیادۃ یاء مگر  مِن وراءِ جُدُر بغیر زیادۃ واؤ جمع کے بعد ہر جگہ الف زائد موجود مگر صرف چار افعال  جاءُو ، فَاءُو ، باءُو اور   تبوءُومیں غیر موجود وغیرہ (۳۱)۔

۵۔    اس کے ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ بعض کلمات کی قرآنی املاء، قیاسی املاء سے زیادہ سائنٹفک اور قیاس صرفی ونحوی سے زیادہ قریب اور لہٰذا بہتر ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

قیاسی املاء                                                قرآنی املاء

        اشتراء            کی بجائے                           اشترٰہ          زیادہ بہتر ہے

مَثْواہ            "                                           مَثْوٰہ              ""

اِحداھما                                               "                                              اِحدٰھما                         ""   

یَغشاھا                  "                                            یَغشٰھا         ""    

ترضاہ                  "                                            ترضٰہ        ""    

نَجّاکم           "                                           نَجّٰکم          ""    

تَقْواھا           "                                            تَقْوٰھا          ""    

                                                وغیرہ

(۱۰)  ہر کاتب مصحف کا یہ فرض تھا کہ وہ کتابتِ مصحف میں ان اختلافات سے آگاہ ہو اور جس علاقے کے لیے وہ مصحف لکھ رہا ہو یا جس علاقے کے مصحف سے وہ لکھ رہا ہو، کتابت میں یعنی رسم کلمات میں اس علاقے کی خصوصیاتِ رسم کو ملحوظ رکھے۔ نقل صحیح میں ان چیزوں کے نظر انداز ہونے کا امکان تو نہیں رہتا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر خطاط یا خوشنویس کم علم ہوتے ہیں اور پیشہ ور خطاط جلدی کی خاطر اس قسم کی شرائط کو اکثر ملحوظ نہیں رکھتے۔ اس لیے رسم المصحف پر ماہرانہ نظر رکھنے والے اہل علم نے ایسی کتابیں لکھنا شروع کیں جو  کُتّابِ مصاحف کی راہنمائی کر سکیں اور ان کو فرداً فرداً ان تمام مقامات سے آگاہ کر سکیں جہاں املاء میں رسم قرآنی کے مطابق درست املاء سے بھٹک جانے کا خطرہ موجود ہو۔

       دوسرے اسلامی علوم کی طرح اس علم میں بھی تالیف کی ابتداء ایسے مختصر "رسائل" سے ہوئی جن میں عموماً کسی ایک پہلو سے جزوی معلومات ہوتی تھیں۔ آہستہ آہستہ متفرق رسائل کی معلومات کو یکجا کر کے علم الرسم پر بڑے مجموعے تیار ہوئے، یہاں تک کہ تدوین عروج کو پہنچی اور اس فن کی امہات الکتب تالیف ہوئیں۔ اس کے بعد انتخاب، تلخیص اور شروع کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ علم الرسم کی کتابوں میں سے بعض میں مصاحف عثمانیہ کی (تیاری کی) تاریخ کو بھی ساتھ شامل کر لیا گیا اور بعض کتابوں میں مرسوم المصاحف کے اختلافات کی تعلیل اور توجیہہ کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا اور بعض میں رسم عثمانی کے التزام یا عدم التزام کی بحث کو بھی لے لیا گیا۔ ان چیزوں کی ابھی آگے وضاحت آئے گی۔

       مختلف اسلامی علوم کی تدوین اور ان پر تالیفات کے سلسلے میں یہ ایک عجیب بات سامنے آتی ہے کہ بعض علوم پر کسی ایک علاقے میں زیادہ کام ہوا اور بعض علوم پر دوسرے خطے میں مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کی جمع و تدوین اور اس علم کی امہات الکتب کی تالیف کا بیشتر کام مشرقی اسلامی ملکوں میں سرانجام پایا۔ اس کے برعکس علم الرسم کی جمع وتدوین اور اس فن کی امہات الکتب کی تصنیف وتالیف کا کام عالم اسلام کے مغربی حصے خصوصاً اندلس میں زیادہ ہوا(۳۲)۔

       اہل مشرق کی تالیف کردہ کتب حدیث (بخاری ومسلم وغیرہ) کو مغرب میں پذیرائی حاصل ہوئی اور اہل مغرب کی تالیف کردہ کتب علم الرسم کو اہل مشرق نے اپنے لیے راہنما بنایا۔ بلکہ یہ کتابیں بلا اختلاف مسلمانوں کے تمام مذاہب ومسالک کے ہاں مستند مانی جاتی ہیں۔ نامہ آستان قدس شمارہ  ۲،۱ دورہ نہم میں عزیز اللہ جوینی کا ایک مضمون بعنوان "املاء قرآن" شائع ہوا تھا جس میں مضمون نگار نے املاءقرآن پر اہم اور بنیادی کتابوں میں الدانی، المراکشی اور ارکاٹی کی کتابوں کو ہی گنوایا ہے۔ ان کا قدرے تفصیلی ذکر ابھی آگے آ رہا ہے۔ البتہ اس نے دو ایرانی مؤلفین کی کتابوں کا نام بھی لیا ہے۔ ان کا ذکر ہم پہلے ہی کئے دیتے ہیں۔

(۱)احمد بن حسین اصفہانی نیشاپوری (ت ۳۸۱ھ) کی "اختلافِ ہجاء قرآنی"(جو غالباً فارسی میں ہے) اور (۲) حافظ اصفہانی کی "کتاب المصاحف" (۳۳)۔

       علم الرسم پر اس قدر زیادہ کام ہوا ہے کہ اس فن کی تمام کتابوں کا شمار بھی کارِ دشوار ہے۔ اس کثرتِ تالیفات کا ایک سبب غالب یہ بھی بنا کہ مصاحف کی تیاری مسلمانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا ایک جزء تھا (اور ہے)۔ ہر مسلمان کو نہیں تو کم از کم ہر مسلمان کنبہ کو ایک مصحف کی ضرورت ہوتی تھی اس بناء پر ہر ایک کاتبِ مصحف کے پاس ایک مختصر راہنمائے رسم قرآنی کی قسم کی کتاب یا رسالہ کا ہونا ضروری تھا۔ جس میں کم از کم ضروری مقامات کی املاء کے بارے میں معلومات اور ہدایات موجود ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے ایسے تمام مقامات کی سورت بسورت نشان دہی پر مبنی متعدد مختصر کتب بھی لکھی گئیں۔

       ذیل میں ہم ترتیب زمانی کے ساتھ اس علم پر لکھی گئی بعض اہم"ابتدائی" اور "انتہائی" تالیفات اور ان کے مؤلفین کا مختصراً ذکر کرتے ہیں۔ جس سے اس علم کے عہد بعہد ارتقاء کا کچھ اندازہ ہو سکے گا۔

(۱۱)   علم الرسم پر تالیفات:

       سب سے پہلے ہمیں ابن الندیم کے ہاں اس علم پر یا اس کے بعض پہلوؤں پر لکھی ہوئی کچھ کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے ایک عنوان ’’الکتب المؤلفہ فی مقطوع القرآن وموصولہ‘‘ہےجس کے تحت اس نے تین مؤلفین کے نام لیے ہیں۔ (۱) عبد اللہ بن عامر الیحصبی (ت ۱۱۸ ھ)۔ (۲) حمزہ بن حبیب الزیات (ت۱۵۶ھ) اور (۳) علی بن حمزہ الکسائی (ت۱۸۹ھ) اسی کتاب (الفہرست) میں ’’الکتب المؤلفہ فی اختلاف المصاحف‘‘کے عنوان کے تحت آٹھ مؤلفین اور ان کی کتابوں کے نام ملتے ہیں۔

(۱)عبد اللہ بن عامر الیحصبی (ت۱۱۸ھ)کی کتاب ’’اختلاف مصاحف الشام والحجاز والعراق‘‘ (۲) علی بن حمزہ الکسائی (ت۱۸۹ھ) کی ’’کتاب اختلاف مصاحف اھل المدینہ واھل الکوفہ واھل البصرۃ‘‘ (۳) خلف بن ھشام البزاز (ت۲۲۹ھ) کی کتاب ’’اختلاف المصاحف‘‘ (۴) یحیی بن زیاد الفراء (ت۲۰۷ھ) کی کتاب ’’اختلاف اھل الکوفہ والبصرہ والشام فی المصاحف"‘‘ ان کے علاوہ ابن الندیم نے ابو حاتم سجستانی (ت۲۵۵ھ)، ابو داؤد وسجستانی، المدائنی اور محمد بن عبد الرحمن الاصفہانی میں سے ہر ایک کی کتاب ’’اختلاف المصاحف‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔

ابتدائی دور میں رسم کے موضوع پر کے موضوع پر لکھی گئی متعدد کتابوں کے لیے ھجاء المصاحف یا کتاب الھجاء کا نام بھی ملتا ہے۔ ’’الکتب المؤلفہ فی ھجاء المصاحف‘‘ کے تحت ابن الندیم نے تین مؤلفین کا ذکر کیا ہے: (۱) یحیی بن الحارث الذماری (ت۱۴۵ھ)  (۲) احمد بن ابراہیم اوراق (ت۲۷۰ھ) اور (۳) ابن شبیب (۳۴)۔ صاحب المقنع نے الغازی بن قیس الاندلسی (ت۱۹۹ھ)کی ’’فی ھجاء المصاحف‘‘ اور محمد بن عیسیٰ الاصفہانی (ت۲۵۳ھ) کی ’’ھجاء المصاحف‘‘ کا ذکر کیا ہے(۳۵)۔ غانم قدوری نے ھجاء المصاحف کے عنوان سے لکھی گئی چار مزید کتابوں کا اضافہ کیا ہے: (۱) ابن مقسم العطار (ت۳۶۲ھ) کی ’’اللطائف فی جمع ھجاء المصاحف‘‘ (۲) ابو العباس المھدوی (ت۴۳۰ھ) کی ’’ھجاء مصاحف الامصار‘‘ [اس کتاب کا ایک جزء مجلہ معہد المخطوطات جلد ۱۹ میں شائع ہو چکا ہے] (۳) مکی بن طالب القیسی (ت۴۳۷ھ) کی ’’ھجاء المصاحف‘‘ اور (۴) ابن معاذ الجھنی (ت۴۴۲ھ) کی البدیع فی ھجاء المصاحف‘‘ (۳۶) [یہ کتاب بھی غانم قدوری کی تحقیق کے ساتھ عراق کے مجلہ المورد- العدد الرابع سنہ ۱۴۰۷ ھ میں شائع ہو چکی ہے] (۳۷)۔ ’’کتاب الھجاء‘‘ کے عنوان کے تحت ابن الندیم نے الکسائی، الفراء، ابو حاتم سجستانی اور ابن بشار الانباری (ت۳۲۷ھ) کی کتابوں کا ذکر کیا ہے (۳۸) مگر یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ ان کا تعلق "ھجاء قرآنی" سے تھا یا ھجاء قیاسی (نحوی) سے تھا۔یہاں تک علم الرسم پر تالیفات کا ابتدائی یا تشکیلی دَور ختم ہوتا ہے۔

  1.   اس کے بعد مذکوہ بالا آخری تین مؤلفین المھدوی، القیسی اور الجھنی کی معاصر مگر اس فن کی "دیو قامت" شخصیت سامنے آتی ہے یعنی ابو عمر و عثمان بن سعید الدانی الاندلسی (ت ۴۴۴ھ) جو اپنے زمانے میں ابن الصیرفی کے نام سے مشہور تھے اور جن کی کل تصانیف کی تعداد سو سے زیادہ بیان کی گئی ہے جن میں سے گیارہ کتابیں علم الرسم سے متعلق تھیں اور ان میں سب سے اہم سب سے مشہور اور سب سے مفید تر کتاب المقنع الکبیر تھی۔ جس کی تلخیص خود مؤلف نے المقنع الصغیر کی صورت میں کی (۳۹) اور جو ’’المقنع فی معرفۃ مرسوم مصاحف اھل الامصار‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ الدانی کی یہ کتاب علم الرسم پر لکھی گئی تمام پیشرو کتابوں کی جامع اور اپنے بعد آنے والی کتابوں کی بنیاد ٹھہری۔ اس کتاب میں الدانی نے لفظ رسم اور مرسوم بکثرت استعمال کیا ہے(۴۰)۔ چنانچہ بعد کی کتابوں کے عنوانات پر عموماً یہی لفظ غالب نظر آتا ہے اور کم از کم عنوان کتب میں لفظ ’’ھجاء‘‘  کا استعمال آہستہ آہستہ متروک ہو جاتا ہے۔

الدانی کے بعد اس علم پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے خصوصاً قابل ذکر حسب ذیل ہیں۔ اہم کتابوں کے ساتھ ہم نے کچھ مزید تعارفی نوٹ بھی بڑھا دیا ہے۔

(۱)    ابو بکر احمد بن علی الخطیب البغدادی (ت۴۶۳ھ) کی "تلخیص المتشابہ فی الرسم" (۴۱)۔

  1. التنزیل فی ھجاء المصاحف‘‘ جو اس کی چھ جلدوں پر مشتمل ایک بڑی کتاب ’’التبیین لھجاء التنزیل‘‘ کی خود تیار کردہ تلخیص تھی۔ یہ غالباً آخری بڑی کتاب ہے جس کے عنوان میں لفظ ’’ھجاء‘‘ استعمال ہوا۔ اگرچہ یہ کتاب ابھی تک شائع نہیں ہوئی تاہم اس کے کچھ مخطوطات (القاہرہ اور دمشق وغیرہ میں) موجود ہیں۔ یہ ابو داؤد الدانی کے نامور تلامذہ میں سے تھے۔ ہمارے زمانے میں شائع ہونے والے چند اہم صاحف (قرآنی ایڈیشنوں) کی تیاری میں الدانی اور ابو داؤد کی کتابوں کو ہی رسم المصحف کی بنیاد بنایا گیا ہے اور ان دونوں میں اختلاف کی صورت میں مصری، سعودی اور شامی مصاحف میں ابو داؤد کو اور لیبی ’’مصحف الجماھیریہ‘‘ کی تیاری میں الدانی کے قول کو ترجیح دی گئی ہے (۴۲)۔

(۳) ابو الحسن علی بن محمد المرادی (ت۵۶۳ھ) کی ’’المنصف‘‘۔

  1. اللطائف فی رسم المصاحف‘‘۔

(۵) القاسم بن فیرّہ الشاطبی (ت ۵۹۰ھ) کا قصیدہ’’رائیہ فی الرسم الموسوم بعقیلۃ اتراب القصائد فی اسنی المقاصد‘‘۔ یہ معمولی اضافوں (کل چھ کلمات) کے ساتھ المقنع للدانی کا خلاصہ ہے۔ اسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کی متعدد شروح لکھی گئیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر ابھی آئے گا۔

(۶) ابو طاہر العقیلی اسماعیل بن ظاہر (ت ۶۲۳ھ) کی ’’مختصر ما رسم فی المصحف الکریم‘‘(۴۳)۔

(۷) ابن وثیق الاندلسی (ت۶۵۴ھ) کا ’’رسالہ فی رسم المصحف‘‘۔

(۸) محمد بن ابراہیم الشریشی الخراز (ت ۷۱۸ھ) کی ’’مورد الظمآن فی رسم احرف القرآن‘‘۔ یہ منظوم کتاب ہے اور الخرازکی ہی ایک سابق تالیف ’’عمدۃ البیان‘‘  کا خلاصہ ہے۔اس کتاب کے دو حصے (یکجا) ہیں۔ پہلا علم الرسم سے متعلق ہے اور دوسرے حصے کا موضوع علم الضبط ہے اور اسے مورد الظمآن کی ذیل یا ضبط الخراز بھی کہتے ہیں۔ مورد الضمآن چونکہ اپنے سے پہلی چار اہم کتابوںالمقنع، التنزیل، المنصف اور العقیلہ سےماخوذ ہے اس لیے اس کو بھی اہل علم میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کی بھی کئی شروح لکھی گئیں جن میں سے بعض کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔

(۹) ابو العباس المراکشی الشھیر بابن البناء (ت ۷۲۱ھ) کی ’’عنوان الدلیل فی مرسوم خط التنزیل‘‘۔ اس کتاب میں رسم المصحف کے عام خط سے مختلف ہونے کی عجیب وغریب "باطنی" قسم کی تعلیلات اور توجیہات بیان کی گئی ہیں۔ اصل کتاب تو ابھی تک نہیں چھپی البتہ زرکشی نے البرہان میں اس کے طویل اقتباسات دیئے ہیں(۴۴)۔

  1. روضۃ الطرائف فی رسم المصاحف‘‘ یہ لامیہ قصیدہ ہے جو شاطبی کے   رائیہ   کی طرز پر لکھا گیا۔
  2. کشف الاسرار فی رسم مصاحف الامصار‘‘۔ اس کتاب کے دو باب حاتم صالح الضامن کی تحقیق کے ساتھ مجلۃ المورد – العدد الرابع ۱۴۰۷ھ میں شائع ہو چکے ہیں (۴۵)۔

اس کے بعد ہمیں گیارہوں بارہویں صدی میں بعض ایسی تالیفات کا پتہ چلتا ہے جن کے نام (عنوان) میں خلیفۂ راشد حضرت عثمانؓ یا ان کے مصاحف کا نام آتا ہے۔ یہ سب مخطوطات ہیں اور بیشتر مجہول المؤلف بھی ہیں۔ مثلاً:

  1. الطارف الطریفۃ فی رسم المصاحف العثمانیہ الشریفہ‘‘۔
  2. جامع الکلام فی رسم المصحف الامام۔
  3. رسالہ فی بیان قواعد رسم المصحف العثمانی۔
  4. – زبدۃ البیان فی رسوم مصاحف عثمان (۴۶)۔

(۱۳) علم الرسم پر تالیفات کا یہ سلسلہ چودہویں صدی ہجری کے آخر تک بھی جاری رہا ہے۔ اس متأخر دور کی کتابوں میں سے قابل ذکر حسب ذیل ہیں۔ یہ سب (کم از کم ایک دفعہ) طبع ہو چکی ہیں (۴۷)۔

(۱)    الشیخ برکات بن عریشہ الھورینی کی کتاب  ’’الجوھر الفرید فی رسم القرآن المجید‘‘۔

(۲)   الشیخ محمد ابو زید کی  ’’فتح الرحمٰن وراحۃ الکسلان‘‘۔

(۳)   الشیخ عبد الرحمن محمد الھواش کی ’’تشحیذ الاذھان فی رسم آیات القرآن‘‘۔

(۴)   ابو عبید رضوان بن محمد المخللاتی (۱۳۱۱ھ)  نے ’’ارشاد القراء والکاتبین الی معرفۃ رسم الکتاب المبین‘‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی اور رسم عثمانی کے مطابق ایک مصحف بھی شائع کرایا۔

(۵)   المتولی محمد بن احمد بن الحسن نےایک ارجوزہ ’’اللؤلؤا المنظوم‘‘ کے نام سے لکھا جس کی شرح الشیخ حسن بن خلف الحسینی نے ’’الرحیق المختوم‘‘ کے نام سے لکھی۔

(۶)   الشیخ محمد بن علی بن خلف الحسینی (۱۳۵۷ھ) نے ’’ارشاد الحیران الی معرفۃ ما یجب اتباعہ فی رسم القرآن‘‘ نام کا ایک رسالہ تالیف کیا جو دراصل (اس زمانے کے) ہندوستان سے بھیجے گئے ایک استفسار کا جواب تھا۔

(۷)   الشیخ محمد بن حبیب اللہ الشنقیطی (۱۳۶۳ھ) نے ’’ایقاظ الاعلام لوجوب اتباع رسم المصحف الامام‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا۔ مرحوم رسم قرآنی کے بارے میں سختی سے نظریۂ توقیف کے حامی تھے۔ اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

(۸)   محمد غوث بن ناصر الدین ارکاٹی کی کتاب ’’نثر المرجان فی رسم نظم القرآن‘‘ علم الرسم کے موضوع پر سب سے مبسوط کتاب ہے جو سات جلدوں میں حیدر آباد دکن سے ۹۴-۱۳۳۹ھ میں قریباً دس برس میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب خدمت قرآن کے لیے استقامت سے کام کرنے اور "محنت عشق" (Love Labour)کی ایک زندہ اور روشن مثال ہے۔

(۹)   الشیخ علی محمد الضباع استاد جامع الازہر نے ’’سمیر الطالبین فی رسم وضبط الکتاب المبین‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ تالیف کیا۔ یہ چھوٹی سی کتاب بقول مؤلف المقنع، التنزیل اور العقیلہ کے مسائل کا جامع خلاصہ ہے۔ اس میں بات سمجھانے کا مختصر مگر قابل فہم انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ان کی تمام آراء سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا تاہم مجموعی طور پر کتاب پر "بقامت کہتر بقیمت بہتر" کی مثل صادق آتی ہے۔

(۱۴)  علم الرسم کی ’’امھات الکتب‘‘ میں سے الشاطبی کے قصیدہ ’’العقیلہ‘‘ اور الخراز کی ’’مورد الظمآن‘‘ کو اساتذہ ٔ فن کے ہاں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی متعدد شروح لکھی گئیں۔ علم الرسم پر اہم تالیفات کی کوئی فہرست ان شروح کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں کہلا سکتی۔ لہٰذا ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔

       شاطبی کے ’’عقیلہ اتراب القصائد‘‘ کی اہم شروح یہ ہیں:-

(۱)     علم الدین علی بن محمد السخاوی (ت ۶۴۳ھ) کی شرح ’’الوسیلہ الی کشف العقیلہ‘‘۔

(۲)   برہان الدین عمر بن ابراہیم الجعبری (ت ۷۳۲ھ) نے ’’خمیلۃ ارباب المراصد فی شرح عقیلۃ اتراب القصائد‘‘ کے نام سے اس کی شرح لکھی (۴۸)۔

(۳)   ابو البقاء علی بن عثمان ابن القاصح (ت ۸۰۱ ھ) نے ’’تلخیص الفوائد وتقریب المتباعد‘‘ کے نام سے اس کی شرح لکھی۔ یہ کتاب چھپ چکی ہے اور غالباً  العقیلہ کی شروح میں سے واحد مطبوعہ شرح ہے۔

(۴)   ملا علی بن سلطان القاری الھروی (ت ۱۰۱۴ ھ) کی شرح کا نام ’’الھبات السنیہ العلیہ علی ابیات الرائیہ فی الرسم‘‘ ہے۔

(۵)   مشہور روسی عالم موسی جار اللہ رستو فدانی (ت ۱۳۶۸ ھ)  نے بھی العقیلہ کی شرح لکھنا شروع کی تھی جو غالباً مکمل نہ ہو سکی (۴۹)۔

اور الخراز کی  مورد الظمآن کی شروح میں سے اہم یہ ہیں:-

(۱)    الشیخ حسین بن علی الرجراجی (ت ۸۴۰ ھ) کی شرح کا نام ہے۔ ’’تنبیہ العطشان علی مورد الظمآن‘‘۔

(۲)   ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عبد الجلیل التنسی (ت ۸۹۹ ھ) نے ’’الطراز علی ضبط الخراز‘‘ کے نام سے مورد الظمآن کی صرف ذیل (ضبط والے حصے) کی شرح لکھی۔ یہ ابھی تک طبع نہیں ہوئی۔

(۳)   ابو محمد عبد الواحد بن احمد بن علی ابن عاشر الانصاری (ت ۱۰۴۰ ھ) کی ’’فتح المنان المروی بمورد الظمآن‘‘سب سے مشہور شرح ہے۔ اس شارح نے حصہ رسم کے آخر پر ’’الاعلان بتکمیل مورد الظمآن‘‘ کے نام سے ایک تکملہ بھی لکھا،جس کا مقصد دوسری قراءات کو بھی شامل کرنا تھا کیونکہ اصل "مورد" صرف قراءات نافع پر مبنی تھی۔

(۴)   الشیخ ابراہیم بن احمد المارغنی التونسی (۱۳۲۵ تاریخ تکمیل کتاب) کی ’’دلیل الحیران شرح مورد الظمآن‘‘ کے کئی ایڈیشن تونس اور مصرسے شائع ہو چکے ہیں اس کتاب کے رسم والے حصے میں ابن عاشر کی فتح المنان سے اور ضبط والے حصے کے لیے التنسی کی ’’الطراز‘‘ سے زیادہ مدد لی گئی ہے۔

(۵)   الشیخ احمد محمد ابو زیتحار نے ’’لطائف البیان فی رسم القرآن شرح مورد الظمآن‘‘ کے نام سے طلبہ کے استفادہ کے لیے ایک مختصر شرح لکھی ے مؤلف خود جامع الازہر کے اساتذہ میں سے ہیں۔

(۱۵) ماضی قریب میں علم الرسم کے مسائل یونیورسٹی سطح پر ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیے مقالات کے موضوع بھی بنے ہیں، مثلاً:

(۱)    عبد الحی حسین الفرماوی نے ۱۹۷۴ء میں کلیہ اصول الدین جامعہ الازہر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا موضوع تحقیق تھا  ’’رسم المصحف ونقطہ‘‘۔

(۲)   غانم قدوری الحمد نے ۱۹۷۶ء میں کلیہ دار العلوم جامعۃ القاہرہ سے ایم اے کی ڈگری جس مقالہ کی بنیاد پر حاصل کی اس کا عنوان تھا ’’رسم المصحف - دراسۃ لغویۃ تاریخیۃ‘‘ یہ مقالہ ایک کتاب کی شکل میں عراق کی ھجرہ کمیٹی کی طرف سے بھی شائع ہو چکی ہے۔ اور اس موضوع پر بہت جامع اور کام کی کتاب ہے۔ مقالہ نگار نے اس سے بکثرت استفادہ کیا ہے۔

       گزشتہ اوراق میں علم الرسم پر لکھی گئی پچاس کے قریب کتابوں کا ذکر آ گیا ہے (پیراگراف ۱۱ تا ۱۴ میں)۔ یہ فہرست ذرا طویل لگتی ہے تاہم اس علم کے ارتقاء کے بیان کے لیے کم از کم اہم کتابوں کا ذکر کئے بغیر بھی چارہ نہ تھا۔ دوسری طرف یہ فہرست علم الرسم پر لکھی گئی کثیر التعداد کتابوں کا ایک معمولی سا خاکہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس علم پر لکھی گئی تمام کتابوں کا شمار بھی ایک کارِ دشوار ہے۔ اور یہ طویل سلسلۂ تالیفات جو قریباً چودہ سو سال سے بغیر انقطاع کے جاری ہے۔ اس بات پر شاہد ہے کہ اس علم پر کتنی توجہ مرکوز کی گئی ۔ اور اس کی وجہ کو سمجھنا چنداں مشکل بھی نہیں ہے۔ آخر اس علم کا تعلق قرآن کریم کی درست کتابت سے ہے جو اسلامی معاشرے کی بنیادی دینی ضرورت ہے اور ایک مسلسل اور جاری عمل ہے۔

       تاہم اس طویل فہرست میں سے علم الرسم کی اصل امہات الکتب صرف چار ہی شمار ہوتی ہیں یعنی المقنع، التنزیل، العقیلہ اور المنصف۔ یا پھر وہ کتابیں جن کی تالیف ان کتب اربعہ سے استمداد پر مشتمل ہو مثلاً ’’مورد الظمآن للخراز‘‘ یا ’’نثر المرجان‘‘ جو اس علم کی تمام کتابوں کی جامع ہے۔

       باقی کتابوں کی حیثیت شرح یا تلخیص کی ہے یا پھر ترتیب و تبویب اور اسلوب و انداز کا فرق ہے۔

(۱۶)  علماء رسم نے تمام کلماتِ قرآن کی کتابت (املاء) کا بنظر غائر مطالعہ اور مشاہدہ (مصاحف میں) کیا اور خصوصاً ان کلمات کا تجزیہ کیا جن میں اختلاف کتابت کی کوئی صورت پائی جاتی ہے۔ پھر ان املائی اختلافات سے کچھ قواعد کلیہ مستنبط کئے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ جملہ اختلافات یا احکامِ رسم کو مندرجہ ذیل چھ قواعد کے تحت منحصر کیا جا سکتا ہے: حذفؔ ، زیادۃؔ ، ھمزؔ (رسم ھمزہ) ، بدلؔ ، وصلؔ وفصل اور ’’قراءت کا تنوع‘‘۔

       ایک عجیب بات یہ ہے کہ رسم قیاسی کے علماء نے بھی اپنے اصول ان میں سے پہلے پانچ قواعد پر ہی استوار کئے ہیں (۵۰)۔ (صرف چھٹا قاعدہ علم الرسم سے مختص ہے)۔ اور بیشتر صورتوں میں ان قواعد کے تحت کلمات کا طریق املاء رسم قیاسی اور رسم قرآنی میں یکساں رہتا ہے۔ [یہ بات پہلے بھی لکھی جا چکی ہے کہ رسم قرآنی نوے فیصد رسم قیاسی کے مطابق ہوتا ہے]۔ البتہ رسم قیاسی اور رسم قرآنی میں ان قواعد کے اطلاق میں فرق ہے جس سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ علم الرسم کے ان ’’قواعد ستہ‘‘  کا مختصر بیان یا ان کا تعارف کچھ یوں ہے:

(۱)حذف: کے تحت ان کلمات سے بحث کی جاتی ہے جن کی کتابت میں کوئی حرف محذوف مگر نطق میں موجود ہوتا ہے یعنی وہ حرف لکھا نہیں جاتا مگر پڑھا ضرور جاتا ہے۔ یہ محذوف حرف عموماً  ’’ا‘‘   ’’و‘‘  یا  ’’ی‘‘ ہوتے ہیں۔ اگرچہ ایک آدھ مثال ’’ن‘‘  یا ’’ل‘‘ کے حذف کی ملتی ہے۔ اس کی مثال ’’الرحمن‘‘ ، داؤد ، اور ’’النبین‘‘ کے کلمات ہیں جو دراصل الرحمان، داوود، اور النبیین پڑھے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس قسم کے کلمات کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور کتب رسم میں ان سب کا فرداً  فرداً  ذکر موجود ہے۔

(۲) زیادۃ: سے مرادیہ ہے کہ بعض دفعہ کسی کلمہ میں کوئی حرف لکھا تو جاتا ہے مگر پڑھا نہیں جاتا۔ یہ زائد حرف بھی ہمیشہ ’’ا‘‘  ’’و‘‘ یا  ’’ی‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال ’’مِاَئۃ‘‘ ، ’’اولٰئک‘‘ اور ’’بِاَییْد‘‘ ہیں جو علی الترتیب مِئَۃ ، الائک اور بِاَیْدٍ پڑھے جاتے ہیں۔[آپ نے محسوس کر لیا ہو گا کہ ’’اولئک‘‘ میں حذف اور زیادۃ  دونوں قاعدے کارفرما ہیں]۔

(۳) الھمز یا  رسم ھمزہ: یعنی ہمزہ کی کتابت اور رسم کی مختلف صورتوں کا بیان۔ ان میں سے بعض صورتیں رسم قیاسی سے موافق ملتی ہیں اور بعض مختلف ہوتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں کتابت ہمزہ کے قواعد خاصے طویل ہیں۔

(۴) بدل: کے تحت ان کلمات کو بیان کیا جاتا ہے جن کی املاء میں ایک حرف کی بجائے کوئی دوسرا حرف لکھا جاتا ہے حالانکہ تلفظ کا تعین وہی پہلا حرف کرتا ہے مثلاً الف کی بجائے ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘  لکھنا۔ اس کی مثال الصلوۃ، بلٰی اور حتٰی یا  متٰی میں ملتی ہے۔جو علی الترتیب ’’الصلاۃ‘‘ ، ’’بلا‘‘ اور ’’حتا‘‘ یا ’’متا‘‘ پڑھے جاتے ہیں۔ [یہاں بھی آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ بلی ، حتی اور متی کا قیاسی اور قرآنی رسم یکساں ہے البتہ لفظ صلوٰہ کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کی مثالیں تو اردو میں بھی متعارف ہیں مثلاً ادنی، اعلی، موسیؑ، عیسیؑ وغیرہ]۔

(۵) وصل وفصل:جسے قطع اور وصل بھی کہتے ہیں۔ اس قاعدہ کے تحت یہ بیان ہوتا ہے کہ دو کلمات (حرف اور اسم یا اسم اور اسم) کو ملا کر یا الگ الگ لکھنے کا قاعدہ کیا مثلاً فِی مَا  اور فیما۔ اَیْن ما اور اَیْنما، اَمْ مَنْ اور امّنْ ، یَوْمَ   ھُم اور یَومَھُم وغیرہ۔

(۶) قراء ت کا تنوع: یا اختلاف قراء تین۔ اس میں ان مخصوص کلمات کی املاء کا قاعدہ بیان ہوتا ہے۔ جن میں دو بالکل مختلف مگر بتواتر ثابت قراءتین ہوتی ہیں۔ اس میں محتمل القراءات رسم کے علاوہ [جس کی مثالیں قرآن کریم میں بکثرت ملتی ہیں۔ ایک مثال لفظ ’’ملک‘‘ ہےجو  مالک بھی پڑھا جاتا ہے اور ملک بھی]۔  وہ کلمات بھی آتے ہیں جو مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک میں ایک قراءات کے مطابق اور کسی دوسرے میں دوسری قراءات کے مطابق لکھے گئے تھے۔ اس کی ایک مثال سورۃ الکہف کی آیت ۳۲ میں وارد کلمہ ’’مِنْھَا‘‘ کا بعض مصاحف میں ’’مِنْھُما‘‘ (بصیغۂ تثنیہ) لکھنا ثابت ہے۔ اور ورش کی قراءات میں اب بھی اسی طرح بصیغۂ تثنیہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

(۱۷) علم الرسم کے مؤلفین میں مواد کو مرتب شکل میں پیش کرنے کے لیے عموماً دو رجحانات پائے جاتے ہیں۔

(۱)     بعض علماء اپنی کتاب کو مذکورہ بالا "قواعد ستہ" کی ترتیب کے مطابق ابواب و فصول میں تقسیم کر لیتے ہیں اور پھر ان قواعد ستہ میں سے ہر ایک کی کچھ ضمنی تقسیمات بھی کر لیتے ہیں اور ہر ایک قاعدے کے تحت آنے والے کلمات کے بیان میں قرآن کریم کی ترتیب سور کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، مثلاً: سب سے پہلے حذف کے تحت سورت بسورت الحمد سے  والناس تک ان کلمات کو بیان کرتے جائیں گے جن کا تعلق قاعدہ (حذف) سے ہے۔ اور اس میں بھی پہلے محذوف للالف الفاظ، پھر محذوف الواو، پھر محذوف الیاء اور آخر پر محذوف النون اور محذوف اللام کلمات کا ذکر ہو گا۔ وھکذا المھدوی، الجھنی، الدانی، الشاطبی، الجعبریاور الخراز کی تالیفات میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے (۵۱)۔

(۲)   دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پورے قرآن کو الفاتحہ سے والناس تک ایک ایک سورت کو لیتے ہیں اور ہر سورت میں بہ ترتیب آیات ان کلمات کا ذکر کرتے ہیں جن کی املاء میں قواعد ستہ میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد قاعدے استعمال ہوئے ہوں۔ اس طریقے میں عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی کلمہ پہلی دفعہ سامنے آتا ہے تو نہ صرف اس کا قاعدہ بیان کرتے ہیں بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ لفظ قرآن میں جہاں جہاں بھی آیا ہے اسی قاعدے کے تحت لکھا جاتا ہے یا اس کے کوئی استثناءات بھی ہیں۔

       مثلاً سورۃ البقرہ میں ’’ذلک‘‘ کے متعلق بتائیں گے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں جہاں بھی آیا ہے (کیف وقع) بحذف الف ہی لکھا جاتا ہے۔ [رسم قیاسی والا بھی یہی کہے گا کہ ذلک  ہر جگہ اور ہر موقع پر بحذف الف ہی لکھا جاتا ہے]۔ پھر ’’الکتٰب‘‘ کےمتعلق بتائیں گے کہ یہ لفظ پورے قرآن میں بحذف الف لکھا جاتا ہے۔ سوائے چار مواقع کے جن کا ذکر اپنے اپنے موقع پر آئے گا۔ اسی طرح ’’اولئک‘‘ میں خذف(الف) بھی ہے اور زیادۃ (واو) بھی ہے اور جہاں بھی آتا ہے اسی طرح لکھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ (۵۲)۔ اب آگے جہاں جہاں کلمات ’’ذلک‘‘ اور ’’اولئک‘‘  آئیں گےان کے متعلق کچھ بیان نہیں کیا جائے گا۔ یا زیادہ سے زیادہ یہ لکھ دیا جائے گا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ البتہ اگر کلمہ ’’الکتب‘‘ کا کوئی اثبات الف والا موقع آیا تو کہیں گے کہ یہاں اسے ’’کتاب‘‘ لکھنا ہے۔

       اس طریقے میں چونکہ مؤلف پہلی دفعہ سامنے آنے والے کلمہ کے متعلق بات کر دیتا ہے۔ اس لیے اس لفظ کے مکرر آنے پر قاعدہ مکرر بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی کتاب کا ابتدائی حصہ قواعد کے بیان سے بھرا ہوتا ہے اور آخری حصہ مختصر رہ جاتا ہے۔

              اس طریقے پر لکھی گئی کتابوں میں ابو داؤد کی التنزیل، ابو طاہر العقیلی کی (فی مرسوم المصاحف)، ابن وثیق کا (رسالہ فی رسم المصحف) اور ایک مجہول مؤلف کی کتاب (جامع الکلام فی رسم المصحف الامام)قابل ذکر ہیں۔ اور اس طریقے پر لکھی ہوئی سب سے جامع اور مبسوط کتاب ارکاٹی کی ’’نثر المرجان فی رسم نظم القرآن‘‘ ہے (۵۳)۔

(۱۸) علم الرسم پر تالیفات کے اس طویل سلسلے اور اس فن کے بارے میں اس سارے اہتمام کی غرض وغایت یہ ہے کہ کاتب مصحف کو رسم قرآنی کے احکام سے آگاہی حاصل ہو تاکہ کلام اللہ کی کتابت میں رسم قرآنی کی انفرادیت کو برقرار رکھا جا سکے اور اسے عام رسم املائی یا رسم قیاسی کے ساتھ خلط ملط نہ کر دے۔ جب رسم قرآنی اور رسم املائی کے اختلاف کی بات ہوتی ہے تو اکثر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ شاید عہد نبوی یا راشدین میں دو طریق املاء موجود تھے۔ یا یہ کہ رسم قیاسی موجود تھا مگر کُتّابِ مصاحف نے (کسی وجہ سے) اس کی خلاف ورزی کی۔ یہ نظریہ سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے عہد نبوی وراشدین میں املاء عربی کی وہی صورت موجود تھی جس میں مصاحف لکھے گئے۔ رسم املائی اور اس کے قواعد تو دوسری صدی ہجری میں وجود میں آئے۔ تاہم جب عام پڑھے لکھے لوگ ان قواعد سے شناسا ہوئے اور ان کو ہر دو رسم (قرآنی اور املائی) میں فرق اور اختلاف نظر آیا تو اس کی وجوہ پر غور کیا جانے لگا۔ اور اس تحقیق و تفتیش میں رسم قیاسی کو اصل اور رسم قرآنی کو اس سے متفرع سمجھ کر گاڑی کو گھوڑے کے آگے آگے لگا دیا گیا (۵۴)۔

بہرحال ہر دو رسم کے درمیان فی الواقع موجود اختلاف (چاہے جس وجہ سے ہو!) کی بناء پر یہاں دو سوال اہل علم کے ذہن میں اُبھرے۔ اور یہ سوال آج بھی موجود ہیں:

(۱)     ایک تو یہ کہ رسم املائی اور رسم قرآنی میں یہ اختلافات کیوں ہیں؟ اور خود رسم قرآنی میں بعض کلمات کی املاء میں اتفاق کی بجائے یہ اضطراب کیوں موجود ہے؟ کہ ایک لفظ کہیں ایک طریقے سے اور کہیں دوسرے طریقے سے لکھا جاتا ہے؟

(۲)   دوسرے یہ کہ کیا ان اختلافات کو برقرار رکھنا ضروری ہے؟

(جواب نفی میں ہو یا اثبات میں مگر) کیوں؟ کس وجہ سے؟

پہلے سوال کے جواب میں اس وقت تک تین نظریات پیش کئے گئے ہیں:

پہلا نظریہ:

       یہ ہے کہ رسم المصحف توقیفی ہے اور یہ اسرار الہی میں سے ایک سرّ ہے۔ قرآن مجید لوح محفوظ میں اسی "رسم" کے ساتھ لکھا گیا تھا۔ اور آنحضرت ﷺ کاتبِ وحی کو ہر لفظ کی مخصوص املاء بھی بتا دیتے اور اسی کے ساتھ لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ ہماری عقل اس کی وجہ کو نہیں پا سکتی۔ ہمارا کام فقط اس کا اتباع کرنا ہے وغیرہ(۵۵)۔ پھر بعض لوگوں نے رسم قرآنی کے ان ’’اسرار وحکم‘‘  تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور رسم قرآنی کی ایسی عجیب وغریب تعلیلات اور توجیہات پیش کیں جو سراسر غیر معقول اور ناقابل قبول ہیں۔ اس کی سب سے بری مثال ابو العباس مراکشی کی کتاب ہے۔ بعض نے نحوی بنیادوں پر بھی بعض تعلیلات پیش کی ہیں جن میں نسبتاً معقولیت کا پہلو پایا جاتا ہے (۵۶)۔

       یہ نظریہ (توقیف) معقولیت سے بعید ہے۔ اس لیے کہ ایک تو آنحضرتﷺ کی ’’امیۃ‘‘ (لکھنا پڑھنا نہ سیکھنا)قرآن سے ثابت ہے۔ دوسرے روایتًا بھی کاتبانِ وحی کو طریق املاء کلمات کے بارے میں قطعا کوئی ہدایات ثابت نہیں ہیں۔ جب رسم قرآنی کے اتباع کے وجوب والتزام کے بارے میں بعض دوسرے معقول اور وزنی دلائل موجود ہیں تو اس بے سند اور غیر معقول استدلال کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے؟ خیال رہے التزام رسم عثمانی الگ بات ہے اور نظریہ توقیف الگ۔ دونوں کو ایک سمجھنا غلط مبحث ہے (۵۷)۔

دوسرا نظریہ:

       رسم قرآنی کی اسل کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ رسم اصطلاحی ہے یعنی مصاحف عثمانیہ کے کاتبوں نے بعض حکمتوں اور مصلحتوں کی بناء پر اس قسم کا رسم الخط یا طریق املاء اختیار کیا۔ مثلاً ایک حکمت احتمال القراءات المتواترہ یا قراءت عرضۂ اخیرہ یا اشتمال الاحرف السبعہ    کا اہتمام تھا۔یہ علم القراءات کے ماہرین کی توجیہہ ہے۔ اس بات کی کوئی واضح نقلی دلیل موجود نہیں ہے کہ صحابہؓ یا مصاحف عثمانیہ کے کاتبوں نے اس موقع پر بعض کلمات کے لیے کوئی خاص نیا طریق املاء ’’ایجا‘‘ کیا تھا۔ جہاں باہمی اختلاف کی صورت میں کُتّابِ مصاحف کومعاملہ حضرت عثمانؓ کے سامنے پیش کرنے کا حکم بیان ہوا ہے۔ تو اس میں ایک لفظ ’’تابوت‘‘  کی املاء کا معاملہ اوپر جانے کی روایت تو ملتی ہے لیکن ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ مثلاً کاتب نے کہاں ایک لفظ بحذف الف لکھنا ہے اور کہاں باثبات الف - یا (مثلاً) واو جمع کے بعد کہاں الف زائد لکھنا ہے اور کہاں نہیں لکھنا ہے وغیرہ۔ املاء کلمات کے لیے کوئی طریقہ (اصطلاح) وضع کرنے کا نظریہ اس لیے بھی معقول نہیں لگتا کہ صحابہؓ کا آنحضورﷺ کے وقت میں بلکہ ان کے سامنے لکھے جانے والے طریق املاء کو ترک کر کے اس کی بجائے کوئی نیا طریق املاء اختیار کرنا بہت مستبعد معلوم ہوتا ہے۔

       البتہ علامہ ابن خلدون نے اس کی یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ عہد نبوی بلکہ راشدین تک عربی کے علم الاملاء کا ارتقاء ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ کتابت کو حجاز میں متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور املاء کے قواعد و ضوابط ابھی کمال پختگی کو نہیں پہنچے تھے بلکہ ایک قسم کے عبوری دَور سے گذر رہے تھے اور یہی چیز صحابہؓ کے کلمات کے لکھنے میں املاء کے اختلاف اور اضطراب کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ یہ ایک طرح سے اس میدان میں صحابہؓ کی ’’علمی کمزوری‘‘ کا ایک مظہر ہے۔ ابن خلدون نے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس سے صحابہ کی (خدانخواستہ) توہین کا کوئی پہلو نہیں نکلتا اس لیے کہ کتابت اور املاء کی مہارت کی حیثیت ذاتی کمال کی نہیں بلکہ ایک اضافی کمال کی ہے(۸۵)۔ تاہم اس کے اس جرأت مندانہ اور محققانہ نظریہ پر بھی تین قسم کے ردّ عمل سامنے آئے ہیں:

الف۔   رسم میں نظریۂ توقیف کے حامیوں نے تو خود ابن خلدون کو گستاخ اور جاہل بنا ڈالا اور بعض نے تو ابن خلدون کے موقف کے پہلے حصے کو بیان کیا مگر (عمداً) دوسرے حصے کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش بھی کی ہے (۹۵)۔

ب۔    رسم المصحف کے مخالفوں اور ’’ھجاء حدیث‘‘ اور ’’رسم جدید‘‘ کے حامیوں نےا بن خلدون کی رائے کو اپنے لیے ایک عمدہ ہتھیار خیال کیا۔ اسے رسم المصحف کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا زریں موقع سمجھا اور اسے اپنی زبان درازی اور صحابہ کے علم میں طعن کے لیے گویا بطور استدلال یا تائید استعمال کیا۔ اس کی ایک مثال ایک مصری مؤلف محمد عبد اللطیف کی کتاب ’’الفرقان‘‘ میں ’’ھجاء القرآن ورسمہ‘‘ کے عنوان کے تحت نظر آئے گی۔ جس میں رسم المصحف کے خلاف اپنا سارا زہر اگلنے کے بعد آخر پر ابن خلدون کا اقتباس اس موقف کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ ’’رسم المصحف کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہے‘‘ - یہ کتاب حکومتِ مصر نے ضبط کر لی تھی (۶۰)۔

ج۔           بعض اعتدال پسند منصف مزاج اہل علم نے ابن خلدون کے نظریہ کو سراہا ہے اور اسے رسم قرآنی اور رسم قیاسی کے باہمی اختلافات کی ایک معقول توجیہہ قرار دیا ہے(۶۱)  اوریہ کہ ابن خلدون ہرگز صحابہؓ کی شان میں کسی گستاخی کا مرتکب نہیں ہوا نہ اس نے کبھی یہ کہا کہ رسم المصحف کو ترک کرنا چاہیے اور نہ ہی اس نے مصری تجدد پسند عبد العزیز فہمی(۶۲)  یا مؤلف ’’الفرقان‘‘ کی طرح صحابہؓ یا رسم المصحف کے بارے میں جہل یا سخافت وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ بلکہ اس نے تو رسم المصحف کی تقدیس اور تکریم کی معقول وجہ بھی بیان کر دی ہے۔ البتہ اس نے قائلین توقیف کی غیر معقول تعلیلات پر تنقید ضرور کی ہے۔

تیسرا نظریہ:

       رسم قرآنی اور عام رسم املائی میں اختلافات کی توجیہہ کا ایک (تیسرا نظریہ) ہمارے زمانے میں سامنے آیا ہے۔ عربی خط (کتابت اور املاء) کی تاریخ اور اس کے ارتقاء پر اثری اکتشافات کے نتیجے میں دستیاب ہونے والے بعض نقوش و لواح اور کتابات (Inscriptions) کے حوالے سے جو جدید تحقیق ہوئی ہے(۳۶)  اس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ زمانہ قبل از اسلام اور بعد از اسلام (عہد نبوی وراشدین تک) حجاز میں جو قواعدِ کتابت اور طریق املاء رائج تھا اس کی اصل نبطی خط تھا (۴۶) جوشمالی علاقوں (شام وغیرہ) سے حجاز میں آیا تھا۔ اور یہ کہ اس زمانے کی عربی املاء (جو مصاحف عثمانیہ کی تیاری تک رائج تھی) کے کم از کم چار مظاہر تو صاف نبطی الاصل ہیں: (۱) نقط و شکل سے عاری ہونا (۲) وسط کلمہ میں الف کا محذوف ہونا (مالک: ملک) (۳) تائے تانیث (ۃ) کو تائے مبسوطہ(ت) کی شکل میں لکھنا اور (۴) رسم ہمزہ کے بعض طریقے مثلاً ہمزہ مضمومہ کے بعد ’’و‘‘  لکھنا (جیسے اُولئک میں)اور یہ چاروں مظاہر رسم قرآنی میں موجود ہیں (۶۵)۔

       املاء عربی کے ارتقاء کے اس عبوری نظریہ سے ایک ہی مصحف کے اندر کسی لفظ کی کتابت کے اختلاف کی بھی توجیہہ ہو جاتی ہے۔ نبطی خط میں حجاز کے اندر آنے کے وقت تک (کم از کم بھی دو صدیوں کے ارتقاء کی بدولت) املاء کے قواعد میں اگرچہ ایک حد تک پختگی تو آ چکی تھی تاہم ابھی ان میں اتنا استحکام اور اتنی یکسانیت پیدا نہیں ہوئی تھی اور بعض کلمات کو کبھی ایک ہجاء کے ساتھ اور کبھی دوسرے ہجاء کے ساتھ لکھ لیا جاتا تھا (۶۶)۔ یہ تو اسلام کی برکت سے اور کتابتِ مصاحف اور اسلامی علوم کی بدولت ایسا ہوا کہ عربی املاء نے یکسانیت اور استحکام کے سارے مدارج جلدی سے طے کر لیے اور جس کی وجہ سے ’’رسم قیاسی‘‘ ایک مستقل علم بن گیا جس پر مستقل تالیفات وجود میں آ گئیں (۷۶)۔ اور اسی (تیسرے) نظریہ سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرامؓ خصوصاً  کُتّابِ مصاحف اپنے زمانے میں رائج طریقہ ہائے املاء و کتابت سے پوری طرح باخبر تھے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ابھی یہ علم خود طفولیت میں ہو۔ مگر صحابہؓ کا اس کے بارے میں علم ہرگز طفل مکتب کا سا نہیں تھا۔ ویسے یہ علم بھی اس وقت تک اپنی طفولیت سے نکل کر بلوغ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ صحابہؓ کے طریق املاء میں کلمات کی صرفی ونحوی ’’استعداد‘‘ یا ’’بنیاد‘‘ سے آگاہی کا پتہ چلتا ہے (خصوصاً قاعدہ بدل کے اطلاق میں) (۶۸)۔ بعد میں آنے والے رسم قیاسی کی اصل بنیاد یہی ظہورِ اسلام کے وقت رائج طریق املاء وہجاء ہی تھا۔ بہت کم اصول و قواعد تبدیل کرنے پڑے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اس وقت کا معیاری طریق ہجار وہی تھا جو بعد میں رسم قرآنی کہلایا اور رسم قیاسی اسی میں سے نکلا۔ اور یہی وجہ ہے بیشتر قواعد میں رسم قرآنی رسم قیاسی کے مطابق ہے۔ تمام ’’مخالفات‘‘ محدود اور محصور ہیں۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ شاید رسم قیاسی کو مسخ کر کے رسم قرآنی تیار کیا گیا۔ رسم قیاسی تو اس وقت تک موجود ہی نہ تھا اور حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم اپنے زمانے کے معروف طریق املاء کے مطابق ہی لکھا گیا ہے۔

       اور اس تیسرے نظریہ کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ دَور صحابہؓ میں ایک بھی ایسا واقعہ بیان نہیں ہوا کہ رسم قرآنی - قرآن کی تلاوت یا قراءت میں کسی صعوبت یا الجھن کا باعث بنا ہو۔ یہ بات سب سے پہلے امام مالک (ت ۱۷۹ ھ) کے زمانے میں سامنے آئی۔جب رسم قیاسی کے اصول وقواعد مرتب ہو چکے تھے اور روزمرہ کی زندگی میں یہی ’’نیا‘‘ رسم قیاسی استعمال ہونے لگا تھا اور لوگ اس سے مانوس ہو چکے تھےا ور ’’پرانا‘‘ طریق املاء اب صرف کتابتِ مصاحف تک محدود ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ عجیب اور غیر مانوس لگنے لگا تھا۔ رسم قرآنی کے معاملے میں آج کل عرب ملکوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو بالکل اسی قسم کی صورتِ حال درپیش ہے ۔

(۱۹)  رسم المصحف اور رسم قیاسی کے درمیان اختلاف کی توجیہہ کے بارے میں مذکورہ بالا (تین) مواقف سے ہی اس (دوسرے) سوال کے بھی مختلف جواب سامنے آتے ہیں کہ ’’کیا رسم قرآنی اور رسم قیاسی کے اس فرق و اختلاف کو برقرار رکھنا ضروری ہے؟‘‘ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ’’کیا کتابتِ مصاحف میں علم الرسم کے اصولوں [جو رسم مصاحفِ عثمانیہ پر مبنی ہیں] کی پابندی واجب ہے؟ اور ان کی خلاف ورزی واقعی حرام ہے؟‘‘

       اس سوال کے جواب میں یعنی رسم عثمانی کے التزام یا عدم التزام کے بارے میں بھی تین مواقف سامنے آتے ہیں (۶۹)۔

(۱)    وجوب التزام یعنی پابندی لازمی ہے -  خلاف ورزی ناجائز ہے۔

(۲)   جواز عدم التزام یعنی پابندی لازمی نہیں - خلاف ورزی جائز ہے۔

(۳)   وجوب عدم التزام یعنی پابندی جائز نہیں - خلاف ورزی لازمی ہے۔

لہٰذا ہر ایک موقف کے قائلین اور ان کے دلائل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

پہلا موقف:

       کتابتِ مصاحف میں رسم عثمانی (یا علم الرسم کے اصولوں) کے التزام کے وجوب کے قائلین میں جمہور علماء سلف و خلف شامل ہیں۔ یعنی یہ اہل علم کی اکثریت کا موقف ہے۔ اس موقف کی تائید میں امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ، (بلکہ بقول جعبری ائمہ اربعہ)۔ تمام ائمہ رسم (مثل الدانی وغیرہ) اور بیشتر مفسرین و محدثین، مثل نظام الدین نیشاپوری، البیہقی، الطحاوی، القاضی عیاض اور عبد الرحمن المغربی وغیرھم کے اقوال وآراء پیش کئے جاتے ہیں (۷۰)۔ [تاہم یہ سب قائلین توقیف نہیں ہیں]۔ اور اس موقف کی تائید میں دلائل یہ پیش کئے گئے ہیں کہ:-

(۱)    آنحضرت ﷺ کے سامنے (اس زمانے میں رائج) رسم کے مطابق قرآن لکھا جاتا رہا۔ اور آنحضرتﷺ نے اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت اسی رسم کے مطابق لکھا ہوا قرآن چھوڑا۔ گویا اس رسم کو کم از کم بھی سنت تقریری کی حیثیت تو حاصل ہے اور اگر آنحضرتﷺ کے کتابتِ قرآن سے شغف اورا س کے اہتمام کو دیکھا جائے تو یقینا اسے واجب بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

(۲)   عہد صدیقی اور عہد عثمانی میں مصحف کی کتابت اسی طریقے پر ہوئی - بلکہ ایک ہی کاتب کے ہاتھوں ہوئی - اور مصاحفِ عثمانیہ ہی باجماع صحابہؓ آئندہ ہمیشہ کے لیے اور سب کے لیے کتابتِ مصاحف کی بنیاد قرار پائے۔

(۳)   آنحضرتﷺ کے بعد تمام صحابہؓ، تابعین، تبع تابعین ائمہ مجتہدین کا (جن کے زمانے میں رسم قیاسی موجود تھا) سب کا اس رسم پر اتفاق ثابت ہے۔ کسی سے اس کی مخالفت ثابت نہیں ہے (۷۱) اہل تشیع سے بھی اس کی حمایت اور تائید ثابت ہے اور وہ قاری اور کاتب ہر ایک کے لیے اس سے آگاہ ہونا ضروری گردانتے ہیں (۷۲)۔

(۴)   یہ عہد نبوی کا رسمِ قرآن ہے۔ اس وجہ سے اسے ایک تاریخی اہمیت بلکہ تقدیس اور تکریم کا درجہ بھی حاصل ہے اور مسلمانوں پر اس کی حفاظت واجب ہے (۷۳)۔ اور اسی غرض کے لیے علم الرسم جیسا مہتم بالشان علم وجود میں آیا۔

(۵)   یہی رسم اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ عہد نبوی سے لے کر آج تک قرآن کریم کی کتابت میں ایک حرف تک کا تغیر و تبدل نہیں۔ [ھجاء کلمات کے حروف گن کر جوڑنے کا نام ہی تو ہے] بلکہ کسی نبرہ (دندانہ) تک کو بھی نہیں بدلا گیا (مثلاً  بِاَیْید، باَیّیکم میں) حتیٰ کہ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائےکہ اس رسم میں فنی قواعد کے لحاظ سے کوئی نقص یا کمی رہ گئی تھی۔ توا س کی بھی اصلاح نہیں بلکہ حفاظت کی گئی ہے۔ اور نہ ہی محض اس وجہ سے کبھی قرآن غلط پڑھا گیا ہے۔

دوسرا موقف:

       رسم قرآنی کے عدم التزام کے جواز کے قائلین کا موقف یہ ہے کہ کتابتِ مصاحف میں رسم عثمانی کے التزام کی بجائے املاء قیاسی یا قواعد عامہ کا اتباع اور استعمال جائز ہے۔ اس نظریہ کے حامیوں میں علامہ ابن خلدون اور قاضی ابو بکر الباقلانی کا نام لیا جاتا ہے۔ مؤخر الذکر خصوصاً اس نظریہ کے پرجوش حامی تھے (۷۴)۔ اس موقف کے حق میں یہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں:-

(۱)    رسم یا املاء کی حیثیت اشارات اور علامات کی ہے لہٰذاجو طریق املاء بھی درست تلفظ پر دلالت کرتا ہے اسی کا اتباع صواب ہے۔

(۲)   رسم عثمانی قرآن کی درست قراءت میں صعوبت اور التباس کا باعث بنتا ہے۔ تیسیر اور عدم حرج کے اصول شرعی کی بنا پر  - جدید اور متعارف طریق املاء کو اختیار کرنا کیوں ناجائز قرار دیا جا سکتا ہے؟

(۳)   قرآن، سنت یا اجماعِ امت سے کتابتِ مصحف میں کسی خاص رسم کا قطعی وجوب ثابت نہیں ہے اور نہ ہی آنحضرتﷺ سے کسی کاتبِ وحی کو املاء اور ھجاء کلمات میں کوئی خاص طریقہ اختیار کرنے کی کوئی ہدایت ثابت ہے۔

(۴)   قرآن وحدیث میں کسی متعین رسم کی پابندی کا حکم یا اس کی خلاف ورزی سے نہی اور یا اس خلاف ورزی پر کوئی وعید یا تہدید وارد نہیں ہوئی ہے۔

تیسرا موقف:

       وجوب عدم التزام کے قائلین کا موقف یہ ہے کہ عوام الناس کے لیے کتابت مصاحف میں عام املائی قواعد کی پابندی کرنی چاہیے اور رسم عثمانی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رسم عثمانی کی پابندی کے ساتھ لکھے جانے والے مصاحف صرف خواص اور اہل علم کے لیے مختص ہونے چاہئیں (۷۵)۔ اس نظریہ کے قائلین میں بد الدین الزرکشی (صاحبِ البرھان) اور شیخ عز الدین بن عبد السلام شامل ہیں۔ اور اس موقف کے صرف پہلے ’’عوامی قرآن‘‘ والے حصے کے قائلین بکہ حامیوں میں مصر کے جدید علماء میں سے الشیخ حسین والی اور احمد حسن الزیات کا شمار بھی ہوتا ہے (۷۶)۔

       اس موقف کے حق میں یہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں:-

(۱)    رسم عثمانی کے مطابق کتابت عوام کے لیے تلاوت اور قراءتِ قرآن میں دقت اور مشقت کا باعث بنتی ہے اور ان سے بعض دفعہ سنگین غلطی کا ارتکاب ہو سکتا ہے جو الٹا باعث گناہ ہوتا ہے۔

(۲)   تاہم رسم عثمانی کو محض یادگارِ سلف ہونے کی حیثیت سے باقی رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایک چیز کا یادگار ہونا اور بات ہے اور روزمرہ کے استعمال میں لانا دوسری بات ہے۔ اس لیے ’’رسم عثمانی‘‘ والے مصاحف صرف خواص اہل علم تک محدود رہنے چاہئیں۔

       اور غالباً اسی نظریہ سے متأثر ہونے اور اسی رفع التباس کی بنا پر ہی اہل مشرق (ایشیائی ممالک) میں بہت سی چیزوں میں رسم عثمانی سے بالفعل (عملاً) خلاف ورزی کا رواج ہو گیا ہے (۷۷) اوراہل مغرب (افریقہ) میں بھی رسم عثمانی کا التزام اس وجہ سے پایا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں امام مالکؒ کا واضح قول ثابت ہے اور افریقہ اور مغرب میں زیادہ تر فقہ مالکی کا اتباع کیا جاتا ہے (۷۸)۔

ان دو  نظریوں [جواز عدم التزام اور وجوب عدم التزام] کے قائلین کا ایک مشترکہ استدلال یہ بھی ہے کہ جزیرہ نمائے عرب میں کتابت عہد نبوی سے تھوڑا عرصہ پہلے متعارف ہوئی تھی۔ اور اس کے جاننے والوں کی تعداد بھی محدود ہی تھی۔ گویا عربی املاء نزول قرآن کے وقت اپنے عہد طفولیت میں تھی اور کتابت میں حاذق اور ماہر لوگ کم ہی تھے۔ اس لیے اس میں قواعد کے لحاظ سے یکسانیت اور پختگی ابھی نہیں آئی تھی (۷۹)۔ لہٰذا ایک مقدس اور متبرک یادگار کے طور پر اس (رسم) کی حفاظت تو ضرور ہونی چاہیے مگر اسے معمول بہ بنانے میں کئی مفاسد ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان مؤخر الذکر دو نظریوں کے حامیوں میں سے کسی نے صحابہؓ یا رسم المصحف کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی نہیں کی۔ [جس کے مرتکب دو مصری تجدد پسند عبد العزیز فہمی اور مؤلف ’’الفرقان‘‘ ہوئے ہیں] (۸۰) بلکہ ان کا موقف اور مقصد صرف قراءت قرآن میں سہولت پیدا کرنا اور التباس اور خطا کے امکانات کو روکنا ہی معلوم ہوتا ہے۔

(۲۰) بہر حال امت کی غالب اکثریت کتابتِ مصحف میں رسم المصحف یا رسم عثمانی کی پابندی کی قائل رہی ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن مصاحف کے اندر رسم عثمانی کی (عموماً غیر ارادی) خلاف ورزی موجود ہوتی ہے ان کے بھی سر ورق پر ’’مطابق رسم عثمانی" لکھا ہوتا ہے (۸۱)۔اہل مشرق میں جو رسم عثمانی کی خلاف ورزی کی زیادہ مثالیں ملتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ نقل صحیح کا التزام کرنے کی بجائے حافطہ اور قیاس سے کام لینا ہے۔ پیشہ ورانہ عجلت بھی اس کا باعث بنتی ہے اور بڑا سبب کُتّابت مصاحف کی کم علمی اور کتابت کی ماہرانہ نگرانی اور پڑتال کا فقدان ہے۔ مصاحف کے مصححین حضرات بھی رسم کی اغلاط سے یا تو خود بھی بے خبر ہوتے ہیں یا رسم کی بجائے حرکات کی اغلاط پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ نظریاتی حد تک لوگ ہمیشہ رسم عثمانی کے التزام کے قائل رہے ہیں۔ بلکہ محتاط کاتب نقل صحیح کی پابندی بھی کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ منقول عنہ نسخہ میں ہی اغلاط موجود ہوں (۸۲)۔

       دور طباعت میں جب رسم عثمانی کی (عملی) مخالفت کی مثالیں بکثرت سامنے آنے لگیں (قلمی دور میں ان کا دائرہ محدود تھا) تو اہل علم میں اس کے تدارک کا داعیہ پیدا ہوا جس کے نتیجے میں علم الرسم کے قواعد کی پابندی پر مبنی بعض مصاحف تیار ہوئے (۸۳) جن میں مصری، شامی، سعودی، تونسی اور لیبی مصاحف قابل ذکر ہیں۔ تجدد پسندوں کی انتہا پسندی کے خلاف رد عمل کے طور پر بھی رسم عثمانی کے حق میں داعیہ کی تجدید کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

       جہاں تک رسم عثمانی کی وجہ سے قراءت میں التباس والے اعتراض کا تعلق ہے تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ علم الضبط کے ذریعے اس مشکل پر مکمل قابو پا لیا گیا ہے۔ اور یوں بھی قرآن کریم کی تعلیم صرف کتابت پر کبھی منحصر نہیں رہی۔ اس کے لیے عہد نبوی سے جاری - تلقی وسماع کے طریقے پر استاد یا شیخ سے شفوی طور پر (زبانی) تلفظ اور اداء کا سیکھنا ناگریز ہے۔ بلکہ اس طریقے  کے بغیر تو آپ کسی بھی زبان کا پڑھنا یا بولنا نہیں سیکھ سکتے۔

       عرب ممالک کے خواندہ لوگوں کے لیے رسم الخط کی ثنویت (روزمرہ میں رسم قیاسی اور تلاوت میں رسم عثمانی سے واسطہ پڑنا) التباس اور صعوبت کا باعث بنتی ہے۔ ورنہ دنیا میں لاکھوں(بلکہ شاید) کروڑوں ایسے مسلمان ہیں جو اسی رسم عثمانی کے مطابق (بیشتر مطابقت ہی ہوتی ہے) لکھے ہوئے مصاحف سے اپنے علاقے میں رائج علامات ضبط کی بنا پر ہمیشہ درست تلاوت کرتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں ’’عوام‘‘ کا نام تو محض ایک "نعرہ" کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ورنہ ضرورت تو پڑھے لکھے عربی دانوں کو رسم قرآن سے شناسا کرنے کی ہے رسم قرآنی کو ترک کرنا اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ بلکہ اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں (۸۴)۔ جب کہ رسم عثمانی کے التزام میں متعدد علمی اور دینی فوائد کا امکان غالب ہے (۸۵)۔

(۲۱)  البتہ رسم عثمانی کے بارے میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اس کی بنیاد روایت پر ہے اور روایت میں اختلاف کا پیدا ہونا ایک طرح سے ناگریز ہے۔ یہاں بھی اختلاف روایات موجود ہے۔ خود مصاحف عثمانیہ یا مصاحفِ امصار کے اندر طریق ہجاء اور املاء کے اختلافات سے علم الرسم کی کتابوں میں بحث کی جاتی ہے اور کتب رسم میں ایک اختلاف بیان کر کے عموماً ساتھ یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے کہ اب ہمارے ہاں فلاں صورت پر عمل کیا جاتا ہے۔ مثلاً المارغنی نے لکھا ہے کہ اس کی شرح مورد کی بنیاد ’’بیان ماجری بہ العمل فی قطرنا التونسی‘‘ (اہل تونس کے معمول بہ قواعد کا بیان) ہے۔ اسی طرح علی محمد الضباع نے اکثر جگہ اختلاف روایات بیان کر کے ساتھ اس قسم کے فقرے لکھے ہیں کہ ’’جری علیہ المغاربۃ‘‘ (اہل مغرب کا عمل اس پر ہے) یا مثلاً ’’علیہ جری عملنا‘‘ (ہمارا عمل اس پر ہے) یا مثلاً ’’وعلیہ العمل‘‘(اور عمل اس پر ہے) (۸۶) وغیرہ۔

       پھر علماء رسم میں کسی اختلاف کی صورت میں ترجیح راجح کے اصول بھی بعض دفعہ مختلف ہوتے ہیں مثلاً مصری، سعودی اور شامی علماء الدانی کے مقابلے پر (بصورت اختلاف) اس کے شاگرد ابو داؤدکے قول کو ترجیح دیتے ہیں [مصری، شامی اور سعودی مصاحف اسی اصول پر تیار ہوئے ہیں]۔مگر لیبیا والے ابو داؤد کے مقابلے پر الدانی کے قول کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ لیبیا سے حال ہی میں شائع ہونے والے "مصحف الجماھیریہ"میں کم وبیش ۱۳۶ مقامات پر الدانی کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے مصری یا سعودی مصحف کی (رسم میں) مخالفت کی گئی ہے (۸۷)۔ اس مخالفت سے قراءت یا تلفظ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(۲۲) پاکستان میں حکومت اور ناشرین قرآن - دونوں ہی رسم قرآنی یا رسم عثمانی کی حقیقت اور اس کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔ سعودی علماء علم الضبط اور علم الرسم میں فرق ہی نہیں کر سکے۔ اور وہ اپنے یا عرب ملکوں کے ضبط کو وحی کا درجہ دیتے ہیں۔ اور اس کے مخالف ضبط والے مصاحف کا اپنی مملکت میں داخلہ بند کر دیا ہے اور عوام کے لیے تلاوتِ قرآن جیسے کام میں رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کر دی ہیں۔*

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*    1986ء میں مؤلف حج کے لیے گئے تھے۔ مدینہ منورہ میں انہوں نے سعودی علماء سے پاکستان میں طبع شدہ مصاحف کے ضبط اور رسم کے صحیح ہونے پر سیر حاصل بحث کی۔ الحمدللہ اسی کے نتیجہ میں 1988ء سے مکتبہ ملک فہد مدینہ منورہ سے پاکستان میں رائج ضبط اور رسم کے مطابق قرآن شائع ہوا‘ جو اب تمام دنیا میں ملتا ہے۔ (مرتب)

       ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئےضرورت اس امر کی محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان میں اہل علم کا ایک بورڈ [ضروری نہیں کہ وہ منظور شدہ سرکاری ’’علماء‘‘ ہوں] علم الرسم کی روشنی میں متفق علیہ کلمات کی ایک فہرست تیار کرے اور پھر مختلف فیہ کلمات کی ایک پوری فہرست بنائی جائے۔ خصوصاٍ جن کا تعلق کوفی مصحف یا قراءت حفص سے ہو۔ کیونکہ اس علاقے میں یہی رائج ہیں۔ اور اگر باقی تمام مصاحف پر مبنی اور رائج رسماً مختلف فیہ کلمات کی فہرست بھی بن جائے تو یہ ایک مزید علمی خدمت ہو گی۔ اس طرح تمام مختلف فیہ کلمات کی بھی ایک جامع فہرست بن جائے جس میں اختلاف کی تمام مروی صورتیں جمع کر دی جائیں۔ اس کے بعد کتابت مصاحف کی نگرانی کا ایسا بندوبست کر دیا جائے کہ کم از کم متفق علیہ امور کی خلاف ورزی ہرگز نہ ہونے پائے۔ اور مختلف فیہ کلمات کی مروی دو یا تین صورتوں میں سے ہی کسی ایک صورت کا اختیار کرنا لازمی ہو۔ اور اس میں چاہے اپنے علاقے کے مصحف (یعنی کوفی) کے رسم کو ترجیح دی جائے۔ بہرحال بیان کردہ اور مروی مختلف فیہ صورتوں سے باہر کوئی

صورت اختیار نہ کی جائے۔

       اگر حکومت پاکستان کو خدا یہ توفیق دے (ویسے یہ اس کی دستوری ذمہ داری بھی ہے) کہ وہ ان اصولوں کے مطابق رسم عثمانی کے التزام پر مبنی ایک نسخہ قرآن (کا مسودہ) تیار کرائے یا بطور نمونہ ہی محدود تعداد میں شائع کر دے۔ اس کے بعد تمام ناشرین کو رسم کی حد تک اسی کے اتباع کا پابند کر دے (۸۸)۔ البتہ اس کے لیے ضبط کی علامات وہی اختیار کی جائی جو برصغیر میں عام طور پر رائج ہیں۔ ہاں اگر کہیں اس سے بہتر علامت ضبط ملے تو اسے بھی اختیار کر لینا چاہیئے۔ یا ضرورتاً کوئی نئی علاماتِ ضبط ایجاد بھی کی جا سکتی ہیں۔ تاہم عملاً اس کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ ہمارا نظام ضبط عرب ملکوں میں رائج ضبط سے زیادہ ترقی یافتہ بھی ہے اور ہمارے لوگوں کے لیے موزوں اور مانوس بھی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خدمت ہو گی ویسے بھی اپنے اسلامی تشخص کی بناء پر پاکستان کا اس معاملے میں اپنے برادر اسلامی ملکوں سے پیچھے رہ جانا کوئی عزت کی بات نہیں ہے۔

حوالے اور حواشی

۱۔      لبیب ص: ۲۴

۲۔     یوسف علی (مقدمہ) ص: ۹

۳۔     مصحف (مثلث المیم)کے معنی ہیں جامع المصحف۔ اس اصطلاح کے اندر تدوین و جمع قرآن کی پوری داستان جھلکتی نظر آتی ہے [مصحف او مصحف کے معنی اور ان کے باہمی تعلق کی مزید وضاحت کے لیے دیکھئے Denffer   ص: ۴۴ اور دلیل ص۱۶]۔ عہد خلافت راشدہ خصوصاً عہد عثمانی سے لفظ ’’مصحف‘‘ نسخۂ قرآن کے معنی میں استعمال ہوتا چلا آیا ہے اس کی جمع ’’مصاحف‘‘ ہے۔ جہاں ’’نسخہ ہائے قرآن‘‘ کہنا ہو، اس کے لیے یہی لفظ (مصاحف) استعمال کرنا چاہیے۔ قرآن کی جمع ’’قرآنوں‘‘ یا ’’قرآن ھا‘‘یا "Qurans"کا استعمال درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن متعدد نہیں بلکہ ایک ہی ہے۔

۴۔     دلیل ص: ۴۰، سمیر : ص: ۲۷،  غانم ص: ۱۵۵

۵۔     ’’املاء‘‘ بھی عربی لفظ ہے اور اس کے معنی "لکھوانا" یا (Dictation) کے ہیں۔ تاہم اردو فارسی میں یہ لفظ انگریزی Spelling کے مترادف ہے۔ عربی میں اس مقصد کے لیے لفظ ’’ھجاء‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ عربی میں اسی لفظ کے کچھ اور معنی بھی ہیں۔

۶۔     مذکورہ الفاظ میں سے ’’الکتابۃ، الخط، الزبر، السطر اور الرقم‘‘ سے افعال اور مشتقات قرآن کریم میں مستعمل ہوئے ہیں۔

۷۔     مقدمہ ج: ۱ ، ص: ۷۸۴

۸۔     قلقشندی  ج: ۳   ص: ۱۷۲

۹۔      حضرت عثمانؓ نے خود کوئی مصحف نہیں لکھا تھا۔ یہ مصاحف (عثمانیہ) ان کے حکم سے تیار کرائے گئے تھے۔ اس لیے ان کے طریق املاء کے لیے ’’رسم عثمانی‘‘ کی اصطلاح وجود میں آئی۔ جن لوگوں کو بوجوہ یہ اصطلاح پسند نہیں وہ رسم مصحف یا رسم قرآنی وغیرہ کہہ لیتے ہیں۔ مراد سب کی ایک ہی ہے یعنی ’’علم الرسم‘‘۔

۱۰۔     تلخیص  ص: ۵

۱۱۔      المیسر (مقدمہ)‘  ص: اول

۱۲۔     دلیل‘  ص: ۴۰، سمیر‘    ص: ۳۰

۱۳۔    تجزیہ روایات کے لیے دیکھئے البری‘  ص ۴۳- ۴۵ اور غانم‘ ص: ۱۲۶

۱۴۔     نیز دیکھئے Denffer  ‘ ص: ۵۴- ۵۵، جہاں مراحل جمع قرآن کی ترتیب زمانی کو ایک سادہ مگر عمدہ چارٹ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

۱۵۔     دلیل‘ ص: ۱۵-۱۶

۱۶۔     البری  ‘ ص: ۴۵ ببعد، دلیل‘ ص: ۱۸

۱۷۔    البری‘ ص: ۴۷

۱۸۔     دلیل‘ ص:۱۹

۱۹۔     سمیر ‘ ص: ۱۷

۲۰۔    تفصیل کے لیے دیکھئے غانم‘ ص: ۱۹۸ اور‘ ص: ۷۳۰

۲۱۔     نخبہ ‘ ص: ۲۳

۲۲۔    یہی کتاب (نخبہ)‘ ص: ۵۷-۵۸

۲۳۔    ابن درستویہ (ت ۳۴۶ھ) نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں یہ لکھا ہے کہ اس سے پہلے لوگوں نے اپنی اپنی رائے کے مطابق اصول املاء وضع کئے جن میں بہت سے غلط بھی ہیں۔ اور یہ کہ اس نے اپنی کتاب کو قیاس نحوی سے زیادہ قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیکھئے ابن درستویہ‘ ص:۶

۲۴۔    ابن الندیم نے اس قسم کی کتابوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے مثلاً ابو حاتم سجستانی کی کتاب الخط والھجاء(الفہرست‘ ص:۸۸)ابن درستویہ کی کتاب المتمم اور کتاب الھجاء (الفہرست‘ ص: ۹۴-۹۵)اور الکسائی کی کتاب الھجاء (الفہرست‘ ص: ۹۸)وغیرہ اس قسم کی مزید کتابوں کے ذکر کے لیے دیکھئے غانم‘ ص: ۷۳۱ ببعد۔

۲۵۔    غانم‘ ص: ۱۹۸

۲۶۔    اس زمانے تک پیشہ ورانہ اور فنی خطاطی کی طرف بھی پیش رفت شروع ہو گئی تھی۔ تابعین میں سے ابو حکیمہ، مطر اور مالک بن دینار کی عمدہ خطاطی اور (پیشگی طے کئے بغیر) اجرت پر مصاحف لکھنے کا ذکر ملتا ہے۔ دیکھئے  المصاحف‘  ص: ۱۳۰-۱۳۲

۲۷۔    الکردی‘   ص: ۱۳۳

۲۸۔    یہ واقعہ علم الرسم کی قریباً تمام کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے مثلاً دیکھئے المقنع‘ ص: ۹، الکردی‘ ص: ۱۰۳-۱۰۴، دلیل‘ ص: ۲۳-۲۴، غانم‘ ص: ۱۹۹ اور  سمیر‘ ص: ۱۸

۲۹۔    الخلیفہ‘ ص: ۲، دلیل‘ ص: ۴۱، سمیر‘ ص: ۲۷

۳۰۔    اور اس زمانے میں لوگ خصوصاً اہل علم تعلیمی اور دینی و علمی اغراض کے لیے حرمین میں فی الواقع طویل قیام کیا کرتے تھے۔ نہ تو آج کل کی طرح چالیس دن کے اندر حرمین سے نکل جانے کی پابندی تھی اور نہ ہی وہ لوگ خریداری (Shopping) کے دلدادہ ہوتے تھے۔

۳۱۔    اس قسم کے املائی اختلافات کی مزید یکجا امثلہ کے لیے دیکھئے الفرقان‘ ص: ۶۴، الکردی‘ ص: ۱۲۸-۱۳۱، اور المیسر (مقدمہ)‘ ص:’’و‘‘ ، ’’ز‘‘ اور ویسے تو علم الرسم کی ہر کتاب اسی قسم کے اختلافات کے بیان سے بھری پڑی ہے۔

۳۲۔    اور اس کی بڑی وجہ غالباً اس بارے میں امام مالکؒ کا مشہور فتوی بھی تھا۔ افریقہ اور اندلس میں زیادہ تر فقہ مالکی ہی رائج ہوئی اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں اب تک غالب اکثریت اسی مذہب (فقہ) کی پیرو ہے۔

۳۳۔   تفصیل کے لیے دیکھئے نامہ آستان‘ ص: ۱۵-۱۹

۳۴۔   ابن الندیم کے مذکورہ بالا حوالوں کے لیے دیکھئے  الفہرست‘ ص: ۵۴، ص: ۵۵ اور  ص: ۸۷۔

۳۵۔   المقنع‘ ص: ۲۲، ص: ۲۳

۳۶۔    غانم‘ ص: ۱۷۲-۱۷۳

۳۷۔   دیکھئے  المورد‘  ص: ۲۷۱ تا ۳۱۶

۳۸۔   الفہرست‘ ص: ۸۷ ، ۹۸، ۱۰۰  اور ۱۱۲

۳۹۔    دلیل‘ ص: ۲۵-۲۶، غانم‘ ص: ۱۷۴

۴۰۔    غانم‘ ص۱۵۶ جس میں لکھا ہے کہ ’’ویظھر فیہ نزوع شدید الی استخدام مادۃ (رسم) للدلالۃ۔ خاصۃ علی خط القرآن‘‘۔

۴۱۔     یہ کتاب غالباً طبع ہو چکی ہے اگرچہ اشارہ واضح نہیں ہے۔ دیکھئے  المورد‘ ص: ۴۱۳

۴۲۔    دیکھئے ان مصاحف کے ضمیمہ ہائے ’’التعریف‘‘ - مصری مصحف‘ ص:’’د‘‘ سعودی مصحف’ ص:’’ أ   ‘‘  اور لیبی مصحف‘ ص: ’’ج‘‘ اور ’’و‘‘۔

۴۳۔   غانم‘ ص: ۳۸۸  اور ص: ۱۷۹۔ ادارہ تحقیقات اسلامی کے مخطوطہ میں کنیت ’’ابن الطاہر‘‘ اور باب کا نام طاہر کی بجائے ’’ظافر‘‘ لکھا ہے اور کتاب کا نام ’’فی مرسوم خط المصحف مرتباً علی سور القرآن الکریم‘‘ دیا گیا ہے۔ مقالہ نگار نے اسی مخطوطہ سےا ستفادہ کیا ہے۔

۴۴۔   البرھان: ج:۱ ‘ ص: ۳۸۰-۴۳۰۔ نیز اس پر تنقید کے لیے دیکھئے صبحی‘ ص: ۲۷۷ اور المیسر (مقدمہ)‘ ص: ’’ ی‘‘ ، ’’ و‘‘ ، ’’ ک‘‘ اور اس کی بعض تعلیلات پر تبصرہ کے لیے دیکھئے  الکردی‘ ص: ۱۵۴-۱۵۶

۴۵۔    دیکھئے  المورد‘ ص: ۴۱۳- ۴۳۲

۴۶۔    ان چار مخطوطات میں سے نمبر ۲ (جامع الکلام…..) کا ذکر غانم قدوری نے اپنی کتابیات میں کیا ہے (غانم‘ ص: ۷۸۹)۔ باقی کا ذکر مجلہ المورد العدد العاشر ۱۹۸۱ء میں شائع ہونے والے ابتسام مرھون الصفار کے ایک تحقیقی مضمون بعنوان ’’معجم الدراسات القرآنیۃ المطبوعہ والمخطوطہ‘‘ میں آیا ہے۔

۴۷۔   تفصیل کے لیے دیکھئے  غانم‘ ص: ۱۸۴-۱۸۵

۴۸۔   زرکلی نے اس کا نام ’’خمیلۃ ارباب المقاصد‘‘ لکھا ہے (زرکلی‘ ج:۱ ، ص: ۴۹) اور غانم قدوری نے اپنی کتابیات میں اس مخطوطہ کا نام خمیلہ (جمیلہ) دونوں طرح لکھا ہے۔ علم الرسم میں الجعبری کے اپنے قصیدہ لامیہ ’’روضۃ الطرائف‘‘ کا الگ ذکر اوپر پیراگراف ۱۲ میں نمبر ۱۰ پر ہو چکا ہے۔

۴۹۔    غانم‘ ص: ۱۷۸

۵۰۔    ذرا دیکھئے ابن درستویہ‘ ص: ۷ تا ۹۔ (فہرست مندرجات) اسی سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ قواعد خمسہ ہی وہاں بھی موجود ہیں۔

۵۱۔     ان مؤلفین اور ان کی کتب کا تعارف مقالہ ھذا کے پیراگراف نمبر ۱۱ اور نمبر ۱۲ میں کرایا جا چکا ہے۔

۵۲۔    العقیلی‘ ورق: ۵/الف

۵۳۔   ان کتابوں کا اجمالی ذکر اسی مقالہ کے پیراگراف نمبر ۱۲ میں گزر چکا ہے۔ ارکاٹی اور العقیلی کی کتاب (مخطوطے کا فوٹو سٹیٹ) مقالہ نگار کے پاس موجود ہیں۔ باقی کتابوں کے بارے میں غانم قدوری کے بیان پر اعتماد کیا گیا ہے دیکھئے  غانم‘ ص: ۱۸۶۔

۵۴۔    مزید وضاحت کے لیے دیکھئے  غانم‘ ص: ۷۳۴-۷۳۵

۵۵۔    سمیر‘ ص: ۲۳-۲۵، الزرقانی‘ ص: ۳۷۰  و‘ ص: ۳۷۵، الکردی‘ ص: ۱۹۳ اور خصوصاً ‘ ص: ۲۲۵-۲۲۷۔ ان میں سے اکثر نے صاحب الابریز شیخ عبد العزیز الدباغ کا ایک اقتباس بھی نقل کیا ہے۔

۵۶۔    نمونہ کے لیے دیکھئے  البرھان‘ ص: ۳۸۰ ببعد اور  الکردی‘ ص: ۱۵۴ ببعد۔

۵۷۔   الکردی‘ ص: ۲۲۴ ببعد۔ خصوصاً الکردی کے ایک سوال کے جواب میں حبیب اللہ شنقیطی مرحوم کا خط جو مؤلف نے پورا شائع کر دیا ہے۔ نیز مؤلف نے نظریۂ توقیف کے ناقابل قبول ہونے پر نہایت عمدہ دلائل دیئے ہیں۔ طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ہم یہ پوری بحث مقالہ میں لے آتے۔ جو  الکردی ص‘ ۹۸- ۲۰۱  پر دیکھی جا سکتی ہے۔

۵۸۔    ہم نے یہاں ابن خلدون کی رائے کی صرف تلخیص پیش کی ہے۔ مکمل بحث مقدمہ‘ ص: ۷۴۷-۷۴۸ پر دیکھی جا سکتی ہے۔

۵۹۔    اس کی ایک مثال سمیر‘ ص: ۲۱ پر ملتی ہے جہاں مؤلف نے ابن خلدون کا ادھورا اقتباس دے کر اس کے نظریہ کو ’’افراط‘‘ اور صحابہؓ کی شان کے منافی قرار دیا ہے۔

۶۰۔    الفرقان‘ ص: ۵۴ تا ‘ ص: ۹۱۔ نیز دیکھئے  غانم‘ ص: ۲۱۲۔ جہاں اس کتاب کا پورا قصہ لکھا ہے۔

۶۱۔     اس کی ایک مثال مصری مؤلف عبد الجلیل عیسٰی ہیں۔ جنہوں نے ابن خلدون کو داد دی ہے۔ دیکھئے المیسر (مقدمہ)‘ ص: ’’ ی‘‘  تا  ’’ ل‘‘۔

۶۲۔    یہ فھمی صاحب، مصطفی کمال کی طرح، عربی کو بھی بحروف لاطینی لکھنے کے پرجوش حامی تھے اس کے لیے اس نے ایک کتاب ’’الحروف اللاتینیۃ لکتابۃ العربیۃ ‘‘ (قاہرۃ ۱۹۴۴ء)لکھی جس میں اس نے رسم المصحف کو  سخیف (احمقانہ) لکھا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے  غانم‘ ص: ۲۱۲۔

۶۳۔    اردو میں غالباً اب تک اس موضوع پر بھی کوئی قابل ذکر تحقیقی کام (یا کسی ایسے کام کا ترجمہ تک) نہیں ہوا ہے۔ انگریزی (اور بعض دوسری یورپی زبانوں میں بھی) اور عربی میں اس پر اچھا مواد دستیاب ہے مثلاً صلاح الدین المنجد، سھیلہ  الجبوری، نیبہ  عبود، صفدی، ماری شمل اور غانم قدوری کی تالیفات قابل ذکر ہیں۔

۶۴۔    نامی‘ ص: ۷، عبود‘ ص: ۱۴،۳،۲۔ ذنون‘ ص: ۷ ببعد اور نقشبندی‘  ص: ۲۰۳ ببعد۔

۶۵۔    المنجد ‘ ص: ۱۹  اور  المورد‘ ص: ۳۹-۴۱

۶۶۔    اس کی مثال کچھ ایسی ہے جیسے ہمارے ہاں انگریزی کے دو ہجاء، برطانوی اور امریکی رائج ہیں۔ بلکہ اردو کے بھی دو ہجاء چلتے ہیں ایک عام معروف ہجاء اور دوسرا انجمن ترقی اردو کا سرکاری ہجاء۔

۶۷۔    دیکھئے مقالہ ھذا کا حاشیہ نمبر ۲۴

۶۸۔    رسم قیاسی کی اتنی ترقی اور استحکام کے باوجود املاء کے بعض طریقوں میں رسم قیاسی کے مقابلے پر آج بھی رسم قرآنی زیادہ علمی اور زیادہ سائنٹفک ہے مثلاً ’’اشترلہ‘‘ کے قرآنی رسم کے مقابلے پر رسم قیاسی کا ’’اشتراء‘‘ علمی اعتبار سے یقیناً ناقص ہے مزید مثالوں کے لے دیکھئے مقالہ ھذا کا پیراگراف نمبر ۹ کے آخر پر دی گئی فہرست کلمات۔

۶۹۔    القاضی‘ ص: ۷۹ ببعد، الخلیفہ‘  ص: ۲  اور مجلۃ الکلیہ‘ ص: ۳۴۲ ببعد۔

۷۰۔    سمیر ‘  ص : ۱۸-۲۰، مجلہ الکلیہ‘ ص: ۳۴۲، الزرقانی‘ ص: ۳۷۲

۷۱۔    القاضی‘ ص: ۸۴

۷۲۔    نامہ آستان‘ ص: ۱۵، تجوید القرآن‘  ص: ۷

۷۳۔   یہ "حفاظت ورثہ" والی بات جذباتی ہی نہیں اپنے اندر ایک تہذیبی بلکہ قانونی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ برسبیل تذکرہ مصر کے ایک ناشر کے خلاف رسم قیاسی کے ساتھ لکھا ہوا ایک مصحف چھاپنے پر مقدمہ چلا۔ عدالت نے ناشر کے خلاف فیصلہ دیا اور نسخہ کی ضبطی کا حکم جاری کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک ’’نقطہ توجہ‘‘ یہ لکھا کہ "آثار سلف کی حفاظت ترقی یافتہ اقوام کا فریضہ اولین ہے۔ ’’یہی وجہ ہے کہ انگریز شکسپیئر (یا دوسرے قدیم شعرا مثل چوسر وغیرہ) کا کلام ان ہی کے زمانے کے ہجاء وغیرہ کے ساتھ چھاپنا ضروری خیال کرتے ہیں اور وہ کسی طابع یا ناشر کو اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے۔ حالانکہ تین چار سو سال میں انگریزی زبان بدل کر کچھ سے کچھ ہو چکی ہے۔ تو پھر قرآن کے بارے میں یہ اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟‘‘ واقعہ کی اصل روایت کے لیے دیکھئے  القاضی‘  ص: ۸۶-۸۷۔

۷۴۔   الزرقانی‘ ص: ۳۷۳-۳۷۴۔ جہاں الانتصار للباقلانی کا ایک طویل اقتباس بھی دیا گیا ہے۔

۷۵۔   القاضی‘ ص: ۷۹-۸۰، مجلۃ الکلیہ‘ ص: ۳۴۸۔ قریباً یہی بات امام مالکؒ نے کہی تھی کہ بچوں کی تعلیم کے لیے رسم عثمانی سے ہٹ کر لکھنا جائز ہے (دیکھئے  دلیل‘ ص: ۲۴)

۷۶۔    القاضی‘  ص: ۸۲-۸۳

۷۷۔   القاضی‘ ص: ۸۰ ۰بحوالہ التبیان) ، الکردی‘ ص: ۱۹۷-۱۹۸

۷۸۔   افریقی ممالک میں بچہ جتنا حصہ قرآن پڑتا ہے وہ تختی پر نقل کر کے استاد کو دکھاتا بھی ہے۔ بلکہ اس مقصد کے لیے وہاں حروف سے بھی پہلے مکمل کلمات کا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ اس چیز سے وہاں مصحف کی نقل صحیح اور رسم عثمانی کی حفاظت کی روایت قائم ہو گئی ہے۔ جسے بوجوہ اہل مشرق برقرار نہیں رکھ سکے۔

۷۹۔    القاضی‘ ص: ۸۱۔ ہم اس پر ابھی پیراگراف ۸۱کے آخر پر تنقید اور تبصرہ کر چکے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ دوبارہ اسے بھی مستحضر کر لیا جائے۔

۸۰۔    ان دونوں کے متعلق بھی پیراگراف ۱۸ میں ’’دوسرا نظریہ‘‘ کے تحت بات ہو چکی ہے۔ نیز دیکھئے حاشیہ نمبر ۶۰ مقالہ ھذا۔

۸۱۔     مثلاً راقم الحروف کے پاس بمبئی سے مطبوعہ دو مصحف (ایک ۱۲۸۹ھ کا اور دوسرا ۱۳۰۴ھ کا) ایسے موجود ہیں جن پر صرف رسم عثمانی نہیں بلکہ ’’مصحف سیدنا عثمان‘‘ کے رسم سے موافقت کا خصوصی ذکر ہے۔ مگر وہ رسم کی اغلاط سے یکسر میرا نہیں ہیں۔

۸۲۔    راقم الحروف نے ایک دفعہ پیر عبد الحمید مرحوم سے (جو تاج کمپنی کے مشہور کاتب مصاحف تھے) یہ پوچھا کہ ’’آپ کتابت مصحف میں رسم عثمانی کا التزام کس طرح کرتے ہیں؟‘‘ انہوں نے رسم عثمانی سے یکسر بے خبری کا اظہار کیا۔ میرے دوبارہ سوال پر کہ ’’پھر آپ کے پاس کلمات قرآن کی ٹھیک املاء اور درست ہجاء کا کیا معیار ہے؟‘‘ تو انہوں نے بتایا کہ ’’میں اور کچھ نہیں جانتا صرف انجمن حمایت اسلام کا مطبوعہ نسخہ قرآن سامنے رکھ کر ٹھیک ٹھیک نقل کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔ انجمن کا یہ نسخہ اپنی صحت کی بجا شہرت رکھتا ہے اگرچہ رسم کے نقطہ نظر سے وہ بھی اغلاط سے خالی نہیں ہے۔

        اس مقابلے پر راقم الحروف ہی کے پاس ضلع جھنگ کے ایک صاحب علم کاتب کا لکھا ہوا ایک خاندانی قلمی مصحف ایسا بھی ہے جس میں کاتب خاص خاص جگہوں پر بین السطور یا حاشیہ میں ’’بحذف الف‘‘ یا ’’بزیادۃ الواو‘‘ وغیرہ کا نوٹ دے کر بعض دفعہ ساتھ کسی اہم کتاب الرسم مثلاً ’’العقیلہ‘‘  کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔

۸۳۔   اس قسم کے مصاحف کی تیای کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لیے دیکھئے  القاضی:۹۱-۹۴، غانم‘ ص:۶۰۱-۶۰۹۔

۸۴۔   مزید وضاحت کے لیے دیکھئے  الزرقانی‘  ص: ۳۹۰ ببعد۔

۸۵۔    تفصیل کے لیے دیکھئے  سمیر‘  ص: ۲۲-۲۳۔ القاضی‘ ص: ۸۶-۸۷ اور الزرقانی‘ ص: ۳۶۶ ببعد۔

۸۶۔    دیکھئے  دلیل‘ ص: ۵  اور   سمیر‘  ص: ۶۷،۵۰،۴۰،۳۶ اور ۷۶ وغیرہ متعدد مقامات پر۔

۸۷۔   دیکھئے مقالہ ھٰذا کا حاشیہ نمبر ۴۲۔

۸۸۔   الازھر کی مجلس فتویٰ کی طرف سے ۱۳۵۵ھ میں (بذریعہ مجلۃ الازھر) یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ رسم عثمانی کی پابندی کے بغیر قرآن کریم کی طباعت ناجائز ہے۔ اس کے بعد سے طباعت مصاحف میں اس التزام کے بارے میں ایک تحریک سی پیدا ہو گئی ہے۔ مگر جدید اور قیاسی املاء کے عادی خواندہ لوگوں کے لیے رسم قرآنی میں کیسے سہولت پیدا کی جائے؟ اس سوال کا ایک جواب تو دقت نظر سےاختیار کردہ علامات ضبط کا نظام ہے۔ دوسرا علاج اس کا الازھر والوں نے ۱۳۶۸ھ میں ایک دوسرے فتویٰ کی صورت میں دیا جس کی روسے یہ جائز قرار دیا گیا کہ اصل متن تو رسم عثمانی کے مطابق ہی رہے مگر نیچے ذیل (فٹ نوٹ) کے طور پر ’’مشکل‘‘ کلمات کو جدید املاء یا رسم معتاد کی شکل میں الگ بھی لکھ دیا جائے۔ چنانچہ عبد الجلیل عیسی کے حاشیہ کے ساتھ ’’المصحف المیسر‘‘ اس اصول پر علماء الازھر کی نگرانی میں تیار ہو کر شائع ہوا تھا۔ یہ بھی اس مسئلہ کا ایک عمدہ حل ہے۔ تاہم غالباً پاکستان میں اس کی ضرورت نہیں۔ یہ پڑھے لکھے عربوں کے مسئلہ کا حل ہے۔ ہمارے ہاں رسم عثمانی کا مکمل التزام درکار ہے۔ اور اس کے پڑھنے کے لیے ہمارا نظام ضبط اور استاد کی تعلیم کافی ہے۔

"مفتاح المـــراجـع"

       مقالہ کی تیاری میں جن کتب اور مجلات وغیرہ سے مددل لی گئی ہے۔ تکرار میں طوالت سے بچنے کے لیے ان کے حوالے اختصار کے ساتھ مذکور ہوئے ہیں۔ ذیل میں ان تمام حوالوں کی ’’مفتاح‘‘ ابجدی ترتیب کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ اس میں بیان کتابیات کے روایتی طریقے پر ہر ایک حوالے کے متعلق ضروری معلومات شامل ہیں۔

۱۔       البرھان: امام بدردین الزرکشی۔ البرھان فی علوم القرآن ۔ عیسی البابی۔ القاھرہ- ۱۹۵۷ء۔

۲۔      البری: عبد اللہ خورشید البری   ـــ   القرآن وعلومہ فی مصر دار المعارف القاھرہ، ۱۹۶۹۔

۳۔     تجوید القرآن: علی بن محمد الحسینی کا رسالہ تجوید القرآن بزبان فارسی- یہ رسالہ ایک ایرانی مصحف مترجم بترجمہ آقائی معزی کے ساتھ شامل ہے جسے کتاب فروشی اسلامی تہران نے ۱۳۷۷ ھ میں شائع کیا تھا۔

۴۔      تلخیص: علی بن عثمان ابن القاصح   ــــ تلخیص الفوائد وتقریب المتباعد (شرح العقیلہ للشاطبی) مصطفی البابی- القاھرہ، ۱۳۶۸ء۔

۵۔     الخلیفہ: دکتور یوسف الخلیفہ ابو بکر السودانی کا مقالہ ’’الرسم القرآنی وصعوبات التعلیم الناتجۃ عنہ‘‘ جو سعودی عرب کے اخبار ’’المدینۃ المنورہ‘‘ کی اشاعت ۱۲ شوال ۱۴۰۱ء میں شائع ہوا تھا۔

۶۔      ابن درستویہ: عبد اللہ بن جعفر الشھیر بابن درستویہ کتاب الکتّاب. مطبعہ کاثولیکیہ بیروت، ۱۹۲۷ء۔

۷۔     دلیل: ابراہیم بن احمد المارغنی- دلیل الحیران شرح مورد الضمآن- مکتبہ الکلیات الزھریۃ القاھرہ- ت (سنہ ندارد)۔

۸۔     ذنون: یوسف ذنون الموصلی کا مقالہ’’قدیم وجدید فی اصل الخط العربی وتطورہ فی عصورہ المختلفہ‘‘- جو عراق کے مجلہ ’’العد الرابع‘‘ ۱۴۰۷ھ میں شائع ہوا۔

۹۔      الزرقانی: عبد العظیم الزرقانی: مناھل العرفان فی علوم القرآن- عیسی البابی، القاھرہ، ۱۳۷۲ھ۔

۱۰۔     الزرکلی: خیر الدین الزرکلی، الاعلام- الطبقہ الثالثہ- بیروت، ب- ت (سنہ ندارد)

۱۱۔      سعودی مصحف: سعودی حکومت کا شائع کردہ ’’مصحف المدینۃ النبویۃ‘‘ ۱۴۰۶ء۔

۱۲۔     سمیر: علی محمد الضباع، سمیر الطالبین فی رسم وضبط الکتاب المبین، مکتبہ ومطبعۃ المشھد الحسینی- القاھرہ ب ت (سنہ ندارد)۔

۱۳۔    صبحی: دکتور صبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن، دار العلم للملایین- بیروت، ۱۹۶۴ء۔

۱۴۔     عبود: انگریزی مراجع میںAbbot Nabia  دیکھئے۔

۱۵۔ العقیلی: ابن الطاھر اسماعیل بن ظافر العقیلی- ’’فی مرسوم خط المصاحف‘‘ ادارہ تحقیقات اسلامی کا مخطوطہ [مقالہ کا پیراگراف ۱۲ (۶) اور حاشیہ ۴۳ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔]

۱۶۔     غانم: غانم قدوری الحمد، رسم المصحف، دراسۃ لغویۃ تاریخیۃ- بغداد، ۱۴۰۲ھ یہ کتاب عراق کی ھجرہ کمیٹی نے شائع کی ہے۔

۱۷۔    الفرقان: محمد محمد عبد اللطیف (ابن الخطیب) الفرقان، مطبعۃ دار الکتب المصریہ، القاھرہ، ۱۳۶۷ھ - ۱۹۴۸ء (حاشیہ ۶۰ اور ۸۰ پر بھی نظر ڈال لیجئے)۔

۱۸۔     الفہرست: ابن الندیم  الفہرست، المطبعہ الرحمانیہ بمصر، القاھرہ، ۱۳۴۸ھ۔

۱۹۔     القاضی: عبد الفتاح القاضی، تاریخ المصحف الشریف، مکتبہ ومطبعۃ المشھد الحسینی، القاھرہ، ب - ت (سنہ ندارد)

۲۰۔    قلقشندی: ابو العباس احمد بن علی القلقشندی- صبح الاعشی فی کتابۃ الانشاء- وزارۃ التقافۃ والارشاد القومی- مصر ۱۹۶۳۔

۲۱۔     الکردی: محمد طاھر بن عبد القادر الکردی الخطاط- تاریخ القرآن- غرائب رسمہ وحکمہ- مصطفی البابی- القاھرہ، ۱۳۷۲ھ - ۱۹۵۳ء۔

۲۲۔    لبیب: دکتور لبیب السعید۔ الجمع الصوتی الاول للقرآن، دار المعارف القاھرہ، ب ت ۔

۲۳۔    لیبی مصحف: حکومت لیبیا کا شائع کردہ ’’مصحف الجماھیریہ‘‘ ، طرابلس، ۱۹۸۶ء۔

۲۴۔    مجلۃ: مجلۃ کلیۃ القرآن الکریم والدراسات الاسلامیۃ  بالجامعۃ الاسلامیۃ، (المدینۃ المنورہ) العدد الاول، ۱۴۰۲ھ۔

۲۵۔    المصاحف: ابن ابی داؤد السجستانی- کتاب المصاحف- المطبعہ الرحمانیہ بمصر، ۱۳۵۵ھ - ۱۹۳۶ء۔

۲۶۔    مصری مصحف: حکومت مصر کا شائع کردہ ’’مصحف الملک‘‘ القاھرہ، ۱۳۷۷ھ۔

۲۷۔    مقدمہ: علامہ عبد الرحمن ابن خلدون- مقدمہ کتاب العبر، دار الکتاب اللبنانی، بیروت، ۱۹۶۱ء۔

۲۸۔    المنجد: دکتور صلاح الدین المنجد، دراسات فی تاریخ الخط العربی، منذ بدایتہ الی نھایۃ العصر الاموی- دار الکتاب الجدید- بیروت، ۱۹۷۳ء۔

۲۹۔    المورد: وزارۃ الثقافۃ والاعلام- عراق کے سرکاری مجلہ المورد کا عدد خاص- العد د الرابع، ۱۴۰۷-۱۹۸۶ء [المورد کے ۱۹۸۱ء کے ایک عدد سے بھی کچھ استفادہ کیا گیا ہے۔ اس کا ذکر وہیں کر دیا گیا ہے]۔

۳۰۔    المیسر: عبد الجلیل عیسی  المصحف المیسر دار القلم، القاھرہ ، ۱۳۸۲ھ۔

۳۱۔    نامی: خلیل یحیی نامی کا مقالہ’’اصل الخط العربی وتاریخ تطورہ الی ما قبل الاسلام‘‘ جو مجلہ کلیہ الآداب- الجامعہ المصریہ کے شمارہ مئی ۱۹۳۵ میں شائع ہوا تھا۔

۳۲۔    نخبہ: عبد الفتاح الخلیفہ- نخبۃ الاملاء- مطبعۃ المعاھد بمصر، القاھرہ، ۱۳۴۵ھ- ۱۹۲۶ء

۳۳۔   نقشبندی: اسامہ ناصر النقشبندی کا مقالہ ’’مبدأ ظہور الحروف العربیۃ وتطورھا لغایۃ القرن الاول الھجری‘‘ جو عراق کے مجلہ المورد- العد د الرابع ۱۴۰۷ھ میں شائع ہوا ہے۔

۳۴۔   نامۂ آستان: نامۂ آستان قدس، مشھد- ایران، شمارہ  ۱ و ۲ دورہ نہم (محرم صفر ۱۳۹۱ھ)۔

۳۵۔   یوسف علی: دیکھئے انگریزی میں Yusuf Ali

ENGLISH REFERENCES

1.     ABBOT, NABIA: The Rise of the North Arabic Script and its Karanic Development Chicago, 1939.

2.     DENFFER, Ahmad Von: An Introduction to the Sciences of the Quran Islamic Foundation, Leicester (U.K), 1973.

3.     Yusuf Ali, Allam.A: The Holy Quran, Translation & commentary. Islamic Centre, Washington D.C (N.D).