نوٹ 2: مسجد خالد، لاہور کے پہلے خطیب کرنل اختر مرحوم نے ایک مثال کے ذریعے علم القین اور عین الیقین کا فرق اس طرح واضح کیا کہ ایک عام آدمی بھی بڑی آسانی سے اس کو سمجھ لیتا ہے۔ مثال یہ ہے کہ دو آدمی بازار سے ہو کر اپنے گھر جا رہے تھے۔ کسی نے ان کو اطلاع دی کہ اس راستے پر آگے تمھارا دشمن بیٹھا ہے۔ اس راستے سے مت جائو۔ ایک آدمی نے اس اطلاع پر یقین کرلیا اور راستہ بدل کر بخیریت گھر پہنچ گیا۔ دوسرے آدمی نے یقین نہیں کیا۔ آگے جا کر جب وہ دشمن کے ہتھے چڑھ گیا تب اس کو یقین آیا اس مثال میں ایک اَن دیکھی حقیقت کا علم دونوں کو دیا گیا۔ پہلے آدمی نے اس علم پر یقین کر لیا۔ اس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اس علم سے فائدہ اٹھانے یا کسی خطرے سے بچائو کرنے کے لیے عمل کرنے کا موقع باقی رہتا ہے۔ دوسرے آدمی نے علم پر یقین نہیں کیا۔ آگے جا کر جب اس کو دشمن نظر آیا تو اس کو یقین آ گیا۔ اس کو عین الیقین کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت عمل کرنے کا موقع باقی نہیں رہتا۔ آیات۔ 5 تا 7۔ میں اسی حقیقت کی نشاندہی اس انداز میں کی گئی ہے کہ کاش تم لوگ علم الیقین کی افادیت کو سمجھتے۔ اب نہیں سمجھ رہے ہو تو آگے جا کر دوزخ کو دیکھ کر عین الیقین تو حاصل ہو جائے گا لیکن اس کا فائدہ کوئی نہیں ہو گا۔ اس حوالہ سے اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ سارا اجروثواب علم الیقین پر ہے اور اسی کا دوسرا نام ایمان بالغیب ہے۔ جدید تعلیم یافتہ کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایمان بالغیب کا مطالبہ غیر فطری ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے کیونکہ غیب پر ایمان لانے کی صلاحیت انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ (Inbuilt) ہے۔ اس کی تشریح آیت۔ 2:3، نوٹ۔ 2 میں کی جا چکی ہے۔

مورخہ 16۔ صفر 432 ھ ۔ بمطابق 21۔ جنوری 2011ئ۔"

"لَتَرَوُنَّ الْجَــحِيْمَ    Č۝ۙ

لَتَرَوُنَّ الْجَــحِيْمَ ۝ ۙ"

"ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِيْنِ   Ċ۝ۙ

ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِيْنِ ۝ ۙ

 

 (آیت۔7۔) تَعْلَمُوْنَ کا مفعول ہونے کی وجہ سے عِلْمَ الْیَقِیْنِ حالت نصب میں ہے۔ ثُمَّ لَتَرَوْنَّ کا مفعول ھَا کی ضمیر ہے اور عَیْنَ الْیَقِیْنَ حال ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ عِلْمَ الْیَقِیْنِ اور عَیْنَ الْیَقِیْنِ دونوں مرکب اضافی ہیں لیکن اضافت کے ساتھ ترجمہ کرنے سے ان اصطلاحات کا مفہوم واضح نہیں ہوتا اس لیے ان کا ترجمہ اردو محاورے کے مطابق ہو گا۔"

"ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ   Ď۝ۧ

ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ ۝ۧ

 

(آیت۔8) اَلنَّعِیْمِ پر لام جنس ہے۔"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"وَالْعَصْرِ  Ǻ۝ۙ

[وَالْعَصْرِ: قسم ہے زمانے کی ]

 

نوٹ 1: العصر (زمانہ) کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی جسے حال کہتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی اِن صفات سے خالی تھے وہ بالآخر خسارے میں پڑ کر رہے۔ اور گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کا مطلب سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ جو زمانہ اب گزر رہا ہے یہ دراصل وہ وقت ہے جو ہر ایک شخص کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان کے کمرے میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیز رفتاری سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہو جائے گا۔ پس گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر جو بات اس سورہ میں کہی گئی ہے کہ وہ یہ ہے کہ یہ تیز رفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہو کر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر صرف کر رہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں۔ نفع میں صرف وہ لوگ ہیں جو ان چاروں صفات سے متصف ہو کر دنیا میں کام کریں۔ (تفہیم القرآن)"

"اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ   Ą۝ۙ

[ان الْانسَان لَفِيْ خُسْرٍ: بیشک تمام انسان یقینا خسارے میں ہیں]

 

نوٹ 2: اس سورہ میں خسارے سے بچنے کے لیے جن چار صفات کا ذکر ہے وہ یہ ہیں ایمان۔ عملِ صالح۔ تواصی بالحق۔ تواصی بالصبر۔ ان میں ایمان اور عملِ صالح خود انسان کی ذات سے متعلق ہیں۔ ان کا معاملہ واضح ہے اور کسی تشریح کا محتاج نہیں، البتہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر قابل غور ہیں۔ تواصی کا لفظ وصیت سے بنا ہے۔ کسی شخص کو تاکید کے ساتھ مؤثر انداز میں نصیحت کرنے کا نام وصیت ہے۔ اسی وجہ سے مرنے والا اپنے بعد کے لیے جو ہدایات دیتا ہے اس کو بھی وصیت کہا جاتا ہے۔ لفظ حق اور صبر کے معنی میں ایک احتمال یہ ہے کہ حق سے مراد صحیح عقائد اور اعمال صالحہ کا مجموعہ ہو اور صبر سے مراد تمام گناہوں اور برے کاموں سے بچنا ہو۔ ایسی صورت میں حق کا حاصل امر بالمعروف ہو گیا اور صبر کا حاصل نہی عن المنکر ہو گیا، یعنی وہ ایمان اور عمل صالح جس کو انسان نے خود اختیار کیا ہے اس کی تاکید اور نصیحت دوسروں کو کرنا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ حق سے مراد صحیح اعتقادات لیے جائیں اور صبر کے مفہوم میں تمام نیک اعمال کی پابندی اور برے کاموں سے بچنا شامل ہو۔ حافظ ابن تیمیہ کے ایک رسالے کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ تواصی بالحق سے مراد دوسرے مسلمانوں کی علمی اصلاح ہے اور تواصی بالصبر سے مراد عملی اصلاح ہے۔

 اس لحاظ سے اس سورہ میں مسلمانوں کو ایک بہت بڑی ہدایت دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کا اپنے عمل کو قرآن وسنت کے تابع کر لینا جتنا اہم اور ضروری ہے اتنا ہی اہم اور ضروری یہ بھی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایمان اور عمل صالح کی طرف بلانے کی مقدور بھر کوشش کرے ورنہ صرف اپنا عمل نجات کے لیے کافی نہ ہو گا۔ خاص طور سے اپنے اہل وعیال، متعلقین اور احباب کے برے اعمال سے غفلت برتنا اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے، اگرچہ خود وہ کیسے ہی اعمال صالحہ کا پابند ہو۔ اس معاملہ میں عام مسلمان بلکہ بہت سے خواص تک غفلت میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ہدایت پر عمل کی توفیق نصیب فرما دے۔ (معارف القرآن)

 آج (1432 ھ۔ 2011ئ) کے پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہ معاملہ اب غفلت برتنے سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو، اور اس میں بھی خاص طور سے نہی عن المنکر کو ہم لوگ دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی سمجھ کر معیوب سمجھتے رہے۔ پھر جب بات اس سے بھی آگے بڑھی تو پہیہ الٹا گھومنا شروع ہو گیا۔ یعنی اب ہم لوگ نہی عن المنکر کے فریضے کو نہ صرف اپنے لیے معیوب سمجھتے ہیں بلکہ یہ فریضہ سرانجام دینے والے کو اس کام سے منع کرتے ہیں اور اپنے مقدور بھر روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ الاماشاء اللہ۔ ہمارا دوسرا المیہ یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ یہ فریضہ سرانجام دینے کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں تو پھر وہ داروغہ بن بیٹھتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کی اجازت اپنے حبیب ﷺ کو بھی نہیں دی تھی۔ ان دونوں انتہائی (extereme) رویوں کی بنیادی وجہ ایک ہی ہے، اور وہ یہ کہ اس فریضے کو سرانجام دینے کے لیے قرآن وحدیث کا مطلوبہ متوازن طرزعمل ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم میں سے جو لوگ اس کو فرض سمجھتے بھی ہیں تو انھوں نے اس کو فرض کفایہ یعنی مولوی لوگوں کی ذمہ داری قرار دے کر خود کو فارغ کرلیا ہے۔ حالانکہ یہ فرض عین ہے یعنی فرداً فرداً ہر شخص پر اس کے ظروف واحوال کے مطابق فرض ہے۔ اسی ذہنی خلا کو پر کرنے کی نیت سے کچھ عرصہ پہلے فائونڈیشن کے میگزین میں شائع ہونے والے چند مضامین کو یکجا کر کے ’’ اصلاحِ معاشرہ‘‘ کے عنوان سے شائع کر کے تقسیم کیا گیا تھا پھر اسے جینے کا سلیقہ کورس میں شامل کردیا گیا۔ جن طلبا کے پاس یہ کتابچہ نہیں ہے وہ اپنے رول نمبر کے حوالے سے یہ کتابچہ بلامعاوضہ طلب کر لیں۔

 اس ضمن میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اوپر معارف القرآن کی عبارت میں کہا گیا ہے کہ اس فریضہ سے پہلو تہی کرنا اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے۔ یہاں نجات کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو میدان حشر سے براہ راست جنت میں داخلے کا پروانہ نصیب ہو جائے۔ اس میں اس عقیدے کی نفی نہیں ہے کہ گنہگار اہل ایمان اپنے گناہوں کے بمقدار سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال لیے جائیں گے۔

مورخہ 18۔ صفر 14532 ھ بمطابق 23۔ جنوری 2011ئ۔"

"اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ Ǽ۝ۧ

[اِلَّا الَّذِينَ اٰمَنُوْا: سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے][ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: اور انھوں نے عمل کیے نیکیوں کے][ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ: اور باہم تاکید کی اس حق (دین) کی][ ڏ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ: اور باہم تاکید کی ثابت قدم رہنے کی]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ     Ǻ۝ۙ

[وَيْلٌ لِكُلِ: تباہی ہے ہر ایک][ هُمَزَةٍ: بہت طعنہ زنی کرنے والے][ لُّمَزَةِۨ: بہت عیب جوئی کرنے والے کے لیے]

 

ترکیب: (آیات۔ 1 تا 4) ھُمَزَۃٌ۔ لُمَزَۃٌ۔ حُطَمَۃٌ یہ تینوں الفاظ اسمائے صفت ہیں اور ان تینوں پر تائے مبالغہ ہے۔

 

نوٹ 1: سابق سورۃ العصر اور اس سورہ کے مضمون میں نہایت واضح مناسبت یہ ہے کہ سابق سورہ میں فلاح پانے والے انسانوں کا کردار بیان ہوا ہے اور اس سورہ میں اس کے بالکل ضد کردار بیان ہوا ہے جو روپیہ گن گن کر رکھتے ہیں اور لوگوں کے حقوق ادا کرنا تو درکنار، کسی کو اگر دیکھ پائیں کہ وہ ادائے حقوق کے معاملے میں عملاً وقولاً سرگرم ہے تو اپنے طعن وطنز سے اسے تنگ کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا حوصلہ پست کر دیں تاکہ ان کی بخالت پر پردہ پڑا رہے اور ان کو خفت وندامت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ قرآن نے بخیل سرمایہ داروں کے اس کردار کی طرف جگہ جگہ اشارہ کیا ہے۔ مثلاً سورۃ توبہ کی آیت۔49۔ میں ہے۔ ’’ جو لوگ خوش دلی سے انفاق کرنے والے اہل ایمان پر ان کے صدقات کے باب میں نکتہ چینی کرتے ہیں اور جو غریب اپنی محنت مزدوری سے انفاق کرتے ہیں، ان پر پھبتیاں چست کرتے ہیں، اللہ نے ان لوگوں کا مذاق اڑایا اور ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔ ‘‘ (تدبر قرآن)

نوٹ 2: اس سورہ کو اگر ان سورتوں کے تسلسل میں رکھ کر دیکھا جائے جو سورہ زلزال سے یہاں تک چلی آ رہی ہیں تو آدمی بڑی اچھی طرح یہ سمجھ سکتا ہے کہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں کس طریقے سے اسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات کو لوگوں کے ذہن نشین کیا گیا تھا۔ سورۂ زلزال میں بتایا گیا کہ کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی ایسی نہ ہوگی جو اس نے دنیا میں کی ہو اور وہ آخرت میں اس کے سامنے نہ آ جائے۔ سورہ عادیات میں اس کشت وخون اور غارت گری کی طرف اشارہ کیا گیا جو عرب میں ہر طرف برپا تھی۔ پھر یہ احساس دلانے کے بعد کہ خدا کی دی ہوئی طاقتوں کا یہ استعمال اس کی بہت بڑی ناشکری ہے، لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ اسی دنیا میں ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی میں صرف افعال ہی کی نہیں بلکہ نیتوں تک کی جانچ پڑتال ہو گی۔ سورۂ قارعہ میں قیامت کا نقشہ پیش کرنے کے بعد لوگوں کو خبردار کیا گیا کہ آخرت میں انسان کے انجام کا انحصار اس پر ہو گا کہ اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے یا ہلکا۔ سورۂ تکاثر میں اس ذہنیت پر گرفت کی گئی جس کی وجہ سے لوگ مرتے دم تک دنیا کے عیش و آرام اور جاہ ومنزلت میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ پھر اس کے برے انجام سے آگاہ کیا گیا کہ ایک ایک نعمت جو یہاں تمھیں مل رہی ہے اس کے لیے تمھیں اپنے رب کو جواب دینا ہو گا کہ اسے کیسے حاصل کیا اور کہاں استعمال کیا۔ سورۂ عصر میں بتا دیا گیا کہ نوع انسانی کا ایک ایک فرد خسارے میں ہے اگر اس میں مذکورہ چار صفات نہ ہوں۔ اس کے بعد یہ سورہ آئی ہے جس میں جاہلیت کی سرداری کا ایک نمونہ پیش کر کے لوگوں کے سامنے گویا یہ سوال رکھ دیا گیا کہ یہ کردار خسارے میں کیوں نہ ہو۔ (تفہیم القرآن)"

"الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ   Ą۝ۙ

[الَّذِي جَمَعَ مَالًا: جس نے جمع کیا کچھ مال][ وَّعَدَّدَهٗ: اور وہ بار بار گنتا رہا اس کو]"

"يَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗٓ اَخْلَدَهٗ  Ǽ۝ۚ

[يَحْسَبُ ان مَالَهٗٓ: وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال][ اَخْلَدَهٗ: دوام بخشے گا اس کو]

 

 

(آیت۔3) اَنَّ کا اسم مَالَہٗ ہے اس لیے یہ حالت نصب میں ہے اور یہ اَخْلَدَ کا فاعل ہے۔ اس سے متصل ہٗ کی ضمیر مفعولی گزشتہ آیت میں اَلَّذِیْ کے لیے ہے۔

 

نوٹ 3: آیت۔3۔ کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے حیاتِ جاوداں بخش دے گا یعنی دولت جمع کرنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں وہ ایسا منہمک ہے کہ اسے اپنی موت یاد نہیں رہی اور اسے کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ایک وقت یہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہونا ہے۔"

"كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ  Ć۝ڮ

[كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ: ہرگز نہیں! اس (شخص) کو لازماً پھینکا جائے گا][ فِي الْحُطَمَةِ: اس بہت روندنے والی میں]"

"وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَةُ  Ć۝ۭ

[وَمَآ اَدْرٰىكَ: اور تو نے کیا سمجھا][ مَا الْحُطَمَةُ: کیا ہے وہ بہت روندنے والی]"

"نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ   Č۝ۙ

[نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ: (وہ) اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے]

 

 

(آیت۔6) نَارُ اللّٰہِ خبر ہے۔ اَلْمُوْقَدَۃْ۔ نَارْ کی صفت ہے اس لیے اس پر تاۓ تانیث ہے۔ اس خبر کا مبتدا ھِیَ محذوف ہے۔"

"الَّتِيْ تَـطَّلِــعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَةِ   Ċ۝ۭ

[الَّتِيْ تَـطَّلِــعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَةِ: جو چڑھتی ہے دلوں پر]

 

 

آیت۔7۔ میں افگدۃ کا لفظ آیا ہے جو فواد کی جمع ہے اور جس کے معنی دل کے ہیں۔ لیکن یہ لفظ اس عضو کے لیے استعمال نہیں ہوتا جو سینے کے اندر دھڑکتا ہے بلکہ اس مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے شعور وادراک، جذبات وخواہشات، عقائد وافکار اور نیتوں اور ارادوں کا مقام ہے۔ دلوں تک اس آگ کے پہنچنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ آگ اس جگہ تک پہنچے گی جو انسان کے فاسد عقائد اور ناپاک خواہشات وجذبات کا مرکز ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وہ آگ دنیا کی آگ کی طرح اندھی نہیں ہوگی کہ مستحق اور غیر مستحق سب کو جلا دے بلکہ وہ ایک ایک مجرم کے دل تک پہنچ کر ہر ایک کو اس کے جرم کے مطابق عذاب دے گی۔ (تفہیم القرآن) ۔

مورخہ 20۔ صفر 1432 ھ۔ بمطابق 25۔ جنوری 2011 ء"

"اِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ   Ď۝ۙ

[انهَا عَلَيْهِمْ: بیشک وہ (آگ) ان پر][ مُّؤْصَدَةٌ: اوپر سے بند کی ہوئی ہے]

 

 

 (آیت۔8) اِنَّ کا اسم اس کے ساتھ ھَا کی ضمیر ہے جو نَارٌ کے لیے ہے۔ مُؤْصَدَۃٌ اس کی خبر ہے اس لیے اس پر تائے تانیث ہے۔"

"فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ    ۝ۧ

[ فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ: دراز کیے ہوئے ستونوں میں]

 

 

 (آیت۔9) فِیْ عَمَدٍ متعلق خبر ہے اِنَّھَا کی اور مُمَدَّدَۃٍ صف ہے عَمَدٍ، جو جمع مکسر ہے۔ اس لیے اس کی صفت واحد مؤنث آئی ہے۔"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ    Ǻ۝ۭ

[اَلَمْ تَرَ: کیا تو نے غور نہیں کیا][ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ: کیسا کیا تیرے رب نے][ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ: ہاتھی والوں کے ساتھ]

 

نوٹ 1: سورہ بروج کے نوٹ۔2۔ میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یمن کے بادشاہ نے اللہ پر ایمان لانے والے عیسائیوں کو آگ میں زندہ جلا دیا تھا۔ اس ظلم کا بدلہ لینے کے لیے حبشہ کی عیسائی حکومت نے یمن پر حملہ کردیا اور 525 ء میں اس پورے علاقے پر حبشی حکومت قائم ہو گئی تھی یمن پر جو حبشی فوج حملہ آور ہوئی تھی اس کے دو سردار اریاط اور ابرہہ بعد میں آپس میں لڑ پڑے مقابلہ میں اریاط مارا گیا اور ابرہہ ملک پر قابض ہو گیا۔ یمن میں پوری طرح اپنا اقتدار مضبوط کر لینے کے بعد ابرہہ نے اس مقصد کے لیے کام شروع کیا جو ابتدا سے رومی سلطنت اور حبشی عیسائیوں کے پیش نظر تھا۔ یعنی عرب میں عیسائیت پھیلانا اور اس تجارت پر قبضہ کرنا جو بلادِ مشرق (یعنی انڈونیشیا، ہندوستان وغیرہ) اور رومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ اس مقصد کے لیے اس نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا گھر) تعمیر کرایا۔ اس کی تکمیل کے بعد اس نے حبشہ کے بادشاہ کو لکھا کہ میں عربوں کا حج کعبہ سے اس کلیسا کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں گا۔ اس نے یمن میں علی الاعلان اپنے اس ارادے کا اظہار کیا اور اس کی منادی کرا دی۔ اس پر کسی عرب یا قریشی نے یا چند قریشی نوجوانوں نے مشتعل ہو کر کلیسا کو گندا کردیا یا اس کو آگ لگائی۔ لیکن یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ابرہہ نے خود اپنے کسی آدمی سے ایسی کوئی حرکت کرائی ہو تاکہ اسے مکہ پر حملہ کرنے کا بہانہ مل جائے۔ بہرحال اس واقعہ کے بعد اس نے کعبہ کو ڈھا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ 570 ء یا 571 ء میں وہ ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں دو عرب سرداروں نے اپنے اپنے لشکر جمع کر کے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر دونوں کو شکست ہوئی۔

 حضرت ابن عباس  (رض)  سے روایت ہے کہ یہ لشکر جب عرفات کے قریب پہنچا تو حضرت عبدالمطلب اس کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کو یہاں تک آنے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ کو اگر کوئی چیز مطلوب تھی تو ہمیں کہلا بھیجتے ہم اسے لے کر خود آپ کے پاس حاضر ہو جاتے۔ اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ یہ گھر امن کا گھر ہے، میں اس کا امن ختم کرنے آیا ہوں۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ یہ اللہ کا گھر ہے اور اس نے آج تک کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا ہے۔ ابرہہ نے کہا ہم اس کو منہدم کیے بغیر نہیں پلٹیں گے۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ آپ جو کچھ چاہیں لے لیں اور واپس چلے جائیں۔ مگر ابرہہ نے انکار کردیا اور اپنے لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت ابن عباس  (رض)  کی روایت میں اونٹوں کے قصے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

 یہ امر بالکل واضح ہے کہ مکہ اور اس کے آس پاس کے قبائل اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اس لیے یہ بالکل قابل فہم بات ہے کہ قریش نے اس کی مزاحمت کی کوئی کوشش نہ کی۔ ابرہہ کے لشکر سے واپس آ کر حضرت عبدالمطلب نے قریش والوں سے کہا کہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو جائے۔ پھر وہ قریش کے چند سرداروں کو لے کر حرم میں حاضر ہوئے اور کعبے کے دروازے کا کُنڈا پکڑ کر انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر اور اس کے خادموں کی حفاظت فرمائے۔ اس وقت خانۂ کعبہ میں 360 بت موجود تھے لیکن اس وقت یہ لوگ ان سب کو بھول گئے اور انھوں نے صرف اللہ کے آگے دست سوال پھیلایا۔ ان کی جو دعائیں تاریخوں میں منقول ہیں ان میں اللہ واحد کے سوا کسی دوسرے کا نام تک نہیں پایا جاتا۔ دعائیں مانگ کر حضرت عبدالمطلب اور ان کے ساتھی بھی پہاڑوں میں چلے گئے۔

 دوسرے روز ابرہہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا مگر اس کا خاص ہاتھی محمود، جو آگے آگے تھا یکایک بیٹھ گیا۔ اس کو بہت تَبرَ مَارے گئے، آنکسوں سے کچو کے دئیے گئے یہاں تک کہ اسے زخمی کردیا گیا مگر وہ نہ ہلا۔ اسے کسی اور سمت موڑ کر چلاتے تو وہ دوڑنے لگتا مگر مکہ کی طرف موڑا جاتا تو فوراً بیٹھ جاتا اور کسی طرح آگے بڑھنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں لیے ہوئے آئے اور لشکر پر اِن کی بارش کر دی۔ جس پر یہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع ہو جاتا اور ہڈیاں نکل آتیں۔ خود ابرہہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان لوگوں نے یمن کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ سب کے سب اسی وقت ہلاک نہیں ہوئے۔ کچھ تو وہیں ہلاک ہوئے اور کچھ بھاگتے ہوئے راستے بھر گرتے چلے گئے، ابرہہ بھی خشعم کے علاقے میں پہنچ کر مرا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں عرب کے دوسرے سردار نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حبشیوں کو صرف یہی سزا دینے پر اکتفا نہ کیا بلکہ تین چار سال کے اندر یمن سے حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ واقعہ فیل کے بعد یمن میں ان کی طاقت ٹوٹ گئی۔ جگہ جگہ یمنی سردار علم بغاوت لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک یمنی سردار نے شاہ ایران سے فوجی مدد طلب کر لی۔ ایران سے صرف ایک ہزار فوج چھ جہازوں کے ساتھ آئی تھی جو حبشی حکومت کا خاتمہ کر دینے کے لیے کافی ہو گئی۔ یہ 575 ء کا ہے۔

 یہ اتنا بڑا واقعہ تھا جس کی تمام عرب میں شہرت ہو گئی۔ بہت سے شعراء نے قصائد کہے۔ ان تمام قصائد میں یہ بات بالکل نمایاں ہے کہ سب نے اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اعجاز قرر دیا اور کہیں اشارہ وکنایتہ بھی یہ نہیں کہا کہ اس میں ان بتوں کا بھی کوئی دخل تھا جو کعبہ میں پوجے جاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قریش نے دس سال تک اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کی۔ جس سال یہ واقعہ پیش آیا اہل عرب اسے عام الفیل کہتے ہیں۔ اور اسی سال رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ ہوئی۔ محدثین اور مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ محرم میں پیش آیا تھا اور حضورﷺ کی ولادت ربیع الاوّل میں ہوئی تھی۔ اکثریت یہ کہتی ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت واقعہ فیل کے پچاس دن بعد ہوئی۔

 جو تاریخی واقعات اوپر دئیے گئے ہیں ان کو نگاہ میں رکھ کر سورۂ فیل پر غور کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس سورہ میں اس قدر اختصار کے ساتھ صرف اصحاب فیل پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ذکر کر دینے پر کیوں اکتفا کیا گیا۔ واقعہ کچھ پرانا نہ تھا اور مکہ کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا۔ تمام اہل عرب اس بات کے قائل تھے کہ ابرہہ کے حملے سے کعبے کی حفاظت کسی دیوی دیوتا نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کی تھی۔ قریش کے سرداروں نے اللہ ہی سے مدد کے لیے دعائیں مانگی تھیں۔ پھر اس واقعہ سے وہ اس قدر متاثر رہے کہ کئی سالوں تک انھوں نے اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی تھی۔ اس لیے سورۂ فیل میں تفصیلات کے ذکر کے بجائے صرف اس واقعہ کو یاد دلا دینا کافی تھا تاکہ قریش کے لوگ خصوصاً اور اہل عرب عموماً سوچیں کہ محمد ﷺ جس چیز کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دوسرے تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کی جائے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 462 تا 469 سے ماخوذ)"

"اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ   Ą۝ۙ

[اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ: کیا اس نے نہیں کیا ان کے دائو کو][ فِيْ تَضْلِيْلٍ: تباہ کرنے میں]

 

نوٹ 2: آیت۔2۔ میں لفظ کَید استعمال کیا گیا ہے جو کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے خُفیہ تدبیر کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں کیا چیز خفیہ تھی۔ ابرہہ ساٹھ ہزار کا لشکر ہاتھیوں کے دستے کے ساتھ لے کر اعلانیہ یمن سے مکہ آیا تھا اور اس نے یہ بات چھپا کر نہیں رکھی تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھانے آیا ہے۔ اس لیے یہ تدبیر تو خفیہ نہ تھی۔ البتہ اس اعلانیہ کاروائی کے پیچھے جو نیت تھی وہ خفیہ تھی اور وہ حبشیوں کی یہ غرض تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھا کر اور تمام اہل عرب کو مرعوب کر کے تجارت کا وہ راستہ عربوں سے چھین لینا چاہتے تھے جو جنوبِ عرب سے شام ومصر کی طرف جاتا تھا۔ اس مقصد کو انھوں نے چھپا کر رکھا تھا اور ظاہر یہ کیا تھا کہ ان کے کلیسا کی جو بےحرمتی عربوں نے کی ہے اس کا بدلہ وہ ان کا معبد ڈھا کر لینا چاہتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)"

"وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ   Ǽ۝ۙ

[وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا: اور اس نے بھیجے ان لوگوں پر کچھ پرندے][ اَبَابِيْلَ: جھنڈ در جھنڈ ہوتے ہوئے]

 

نوٹ 3: ابابیل کا لفظ جمع کا ہے مگر اس کا کوئی مفرد (واحد) مستعمل نہیں ہے۔ اس کے معنی پرندوں کے غول کے ہیں اور یہ کسی خاص پرندے کا نام نہیں ہے۔ اردو میں ایک خاص چڑیا کو ابابیل کہتے ہیں، یہاں وہ مراد نہیں ہے بلکہ یہ پرندے عجیب طرح کے تھے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے۔ جسامت میں کبوتر سے چھوٹے تھے اور ان کے پنجے سرخ تھے۔ یہ کوئی ایسی جنس تھی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی اور نہ بعد میں دیکھی گئی۔ (معارف القرآن) ۔

مورخہ 11۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 15۔ فروری 2011ئ۔"

"تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ   Ć۝۽

[تَرْمِيْهِمْ: جو پھینکتے تھے ان پر][ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ: کچھ پتھر مٹی کے پتھر میں سے]"

"فَجَــعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ  Ĉ۝ۧ

[فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَاكُوْلٍ: پھر اس نے کردیا ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ   Ǻ۝ۙ

[لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ: (ہم نے ہلاک کیا اصحاب فیل کو) قریش کو مانوس کرنے کے واسطے]

 

ترکیب: (آیت۔1) اِیْلَافٌ باب افعال کا مصدر ہے۔ اس پر حروف جارہ کا لِ داخل ہوا جس نے اس کو جَرّ دی ہے اور مضاف ہونے کی وجہ سے اس کی تنوین ختم ہوئی ہے۔ قُرَیْشٍ اس کا مضاف الیہ ہے۔ بات کا مرکب جاری سے شروع ہونا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ محذوف مانا جائے۔ چنانچہ مفسرین کے ایک گروہ نے پچھلی سورت کے ساتھ معنوی تعلق کی بنا پر یہاں اِنَّا اَھْلَکْناھُمْ یا اِنَّا اَھْلَکْنَا اَصحٰبَ الْفِیْلِ کو محذوف مانا ہے۔ دوسرے گروہ نے اس کا تعلق اس جملہ سے مانا ہے جو آگے آ رہا ہے یعنی فَلْیَعْبُدْوْا ہم پہلی رائے کو ترجیح دیں گے۔

 

نوٹ 1: اس پر تو مفسرین کا اتفاق ہے کہ معنی اور مضمون کے اعتبار سے یہ سورت سورۂ فیل ہی سے متعلق ہے اور شاید اسی وجہ سے بعض مصاحف میں ان دونوں کو ایک ہی سورت کی طور پر لکھا گیا تھا اور ان کے درمیان بسم اللہ نہیں لکھی گئی تھی مگر حضرت عثمان (رض)  نے جب تمام مصاحف قرآن کو جمع کر کے ایک نسخہ تیار فرمایا اور تمام صحابہ کرام (رض)  کا اس پر اجماع ہوا، تو اس میں ان دونوں کو الگ الگ سورتوں کے طور پر لکھا گیا اور دونوں کے درمیان بسم اللہ لکھی گئی۔ (معارف القرآن)

نوٹ 2: اس سورہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے جس سے اس سورہ کے مضمون اور سورۂ فیل کے مضمون کا گہرا تعلق ہے۔

 قریش کا قبیلہ نبی ﷺ کے جداعلیٰ قُصَیّ بن کلاب کے زمانے تک حجاز میں منتشر تھا۔ قُصَیّ نے ان کو مکہ میں جمع کیا اور بیت اللہ کا انتظام اس قبیلہ کے ہاتھ آ گیا۔ اس نے اطرافِ عرب سے آنے والے حاجیوں کی خدمت کا بہترین انتظام کیا۔ قُصَیّ کے بعد اس کے بیٹوں عبد مناف اور عبدالدّار کے درمیان یہ انتظامات تقسیم ہو گئے۔ عبدمناف کے چار بیٹے تھے۔ ان میں ہاشم، حضرت عبد المطلب کے والد اور رسول اللہ ﷺ کے پردادا تھے۔ ہاشم کو سب سے پہلے یہ خیال آیا کہ اس بین الاقوامی تجارت میں حصہ لیا جائے جو شام ومصر اور بلادِ مشرق (یعنی ہندوستان، انڈونیشیا وغیرہ) کے درمیان ہو رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران کی حکومت اس تجارتی راستے پر قابض ہو چکی تھی جو شمالی علاقوں اور خلیج فارس کے راستے سے رومی سلطنت اور بلادِ مشرق کے درمیان ہوتی تھی۔ اس لیے جنوبی عرب سے بحر احمر کے ساحل کے ساتھ ساتھ جو تجارتی راستہ شام ومصر کی طرف جاتا تھا، اس کا کاروبار بہت چمک اٹھا تھا۔ دوسرے تجارتی قافلوں کی بہ نسبت قریش کو یہ سہولت حاصل تھی کہ راستے کے تمام قبائل بیت اللہ کے خادم ہونے کی حیثیت سے ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کے قافلوں پر ڈاکے نہیں مارتے تھے اور نہ ان سے رہگذر کے وہ بھاری ٹیکس وصول کرتے جو دوسرے قافلوں سے وصول کیا جاتا تھا۔ ہاشم نے انہی تمام پہلوئوں کو دیکھ کر تجارت کی اسکیم بنائی اور اس میں اپنے باقی تین بھائیوں کو شامل کیا۔ یہ اسکیم کامیاب رہی اور ان کی تجارت تیزی سے ترقی کرنے لگی۔

 اس تجارت کی وجہ سے قریش کے لوگوں کو شام۔ مصر۔ عراق۔ ایران۔ یمن اور حبش کے لوگوں سے تعلقات کے مواقع حاصل ہوئے۔ اور مختلف ملکوں کی ثقافت وتہذیب سے براہ راست سابقہ پیش آنے کے باعث ان کی دانش وبینش کا معیار اتنا بلند ہوتا چلا گیا کہ کوئی دوسرا قبیلہ ان کی ٹکر کا نہ رہا۔ ان بین الاقوامی تعلقات کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ عراق سے یہ لوگ وہ رسم الخط لے کر آئے جو بعد میں قرآن مجید لکھنے میں استعمال ہوا۔ عرب کے کسی دوسرے قبیلے میں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہ تھے جتنے قریش میں تھے۔ یہ حالات تھے جب مکہ پر ابرہہ کی چڑھائی کا واقعہ پیش آیا۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو عرب میں قریش ہی کی نہیں خود کعبہ کی دھاک بھی ختم ہو جاتی۔ مکہ تک حبشیوں کی پیش قدمی کے بعد رومی سلطنت آگے بڑھ کر شام اور مکہ کے درمیان کا تجارتی راستہ بھی اپنے قبضہ میں لے لیتی اور قریش اس سے زیادہ خستہ حالی میں مبتلا ہو جاتے جس میں وہ قُصَیّ بن کلاب سے پہلے مبتلا تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حبشیوں کی ساٹھ ہزار فوج کو تباہ کردیا اور مکہ سے یمن تک سارے راستے اس فوج کے لوگ گر گر کر مرتے گئے، تو کعبہ کے بیت اللہ ہونے پر تمام اہل عرب کا ایمان پہلے سے بدرجہ زیادہ مضبوط ہو گیا ساتھ ہی قریش کی دھاک بھی ملک بھر میں پہلے سے زیادہ قائم ہو گئی۔

 نبی ﷺ کی بعثت کے زمانے میں یہ حالات سب ہی کو معلوم تھے، اس لیے ان کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورہ کے چار مختصر فقروں میں قریش سے صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ جب تم مانتے ہو کہ یہ گھر بتوں کا نہیں بلکہ اللہ کا گھر ہے اور جب تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں اس گھر کے طفیل یہ امن عطا کیا، تمھاری تجارت کو یہ فروغ بخشا اور تمھیں فاقہ زدگی سے بچا کر یہ خوشحالی نصیب کی، تو تمھیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ (تفہیم القرآن ج 6۔ ص 474 تا 476 سے ماخوذ)

مورخہ 13۔ ربیع الاوّل 1432 ھ بمطابق 17۔ فروری 2011ئ۔"

"اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّيْفِ   Ą۝ۚ

[اٖلٰفِهِمْ: ان کو مانوس کرنا][ رِحْلَةَ: سفر سے][ الشِّتَاۗءِ: سردی کے][ وَالصَّيْفِ: اور گرمی کے]

 

(آیت۔2) اٰلٰفِھِمْ میں اِیلَافِ کی جَرّ بتا رہی ہے کہ پچھلے مرکب جارّی لِاِیْلَافِ قُرِیْشٍ کا بدل ہے اِیْلاَفٌ دو مفعول کا تقاضہ کرتا ہے۔ کس کو مانوس کیا اور کس چیز سے مانوس کیا۔ یہاں اِیْلاَفِ کا مفعول اول ھِمْ کی ضمیر ہے اور رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ مفعول ثانی ہے"

"فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ   Ǽ۝ۙ

[فَلْيَعْبُدُوْا: تو چاہیے کہ یہ لوگ بندگی کریں][ رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ: اس گھر کے مالک کی]"

"الَّذِيْٓ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ   ڏ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ   Ć۝ۧ

[الَّذِيٓ اَطْعَمَهُمْ: وہ جس نے کھانے کو دیا ان کو][ مِّنْ جوعٍ: بھوک میں][ وَّاٰمَنَهُمْ: اور جس نے امن دیا ان کو][ مِّنْ خَوْفٍ: خوف میں]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ    Ǻ۝ۭ

[اَرَءَيْتَ الَّذِي: کیا تو نے دیکھا اس کو جو][ يُكَذِّبُ: جھوٹ جانتا ہے][ بِالدِّيْنِ: بدلے (کے دن) کو]

 

نوٹ 1: اس سورہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آخرت پر ایمان نہ لانا، انسان کے اندر کس قسم کے اخلاق پیدا کرتا ہے۔"

"فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ   Ą۝ۙ

[فَذٰلِكَ: تو وہ،][ الَّذِي: وہ ہے جو][ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ: دھکا دیتا ہے یتیم کو]

 

 آیات۔2 اور 3۔ میں ان کفار کی حالت بیان کی گئی ہے جو اعلانیہ آخرت کو جھٹلاتے ہیں۔ اور آخری چار آیتوں میں ان منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جو بظاہر مسلمان ہیں مگر دل میں آخرت اور اس کی جزاوسزا کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ مجموعی طور پر دو گروہوں کے طرز عمل کو بیان کرنے سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرانا ہے کہ انسان کے اندر ایک مستحکم اور پاکیزہ کردار عقیدۂ آخرت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ (تفہیم القرآن)"

"وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ   Ǽ۝ۭ

[وَلَا يَحُضُّ: اور وہ ترغیب نہیں دیتا (کسی کو)][ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ: مسکین کا کھانا (دینے) پر]

 

نوٹ 2: آیت۔3۔ میں اگر اِطْعَامِ الْمِسْکِیْن کہا گیا ہوتا تو معنی یہ ہوتے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتا۔ لیکن طَعَامِ الْمِسْکِیْن کے معنی یہ ہیں کہ وہ مسکین کا کھانا اس کو دینے پر نہیں اکساتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو کھانا مسکین کو دیا جاتا ہے وہ دینے والے کا کھانا نہیں ہے بلکہ اسی مسکین کا کھانا ہے۔ یعنی دینے والا کوئی بخشش نہیں دے رہا ہے بلکہ مسکین کا حق ادا کر رہا ہے۔ (تفہیم القرآن)"

"فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ   Ć۝ۙ

[فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِيْنَ: تو بربادی ہے نمازیوں کے لیے]

 

نوٹ 3: آیت۔4۔5۔ کے متعلق حضرت انس  (رض)  فرماتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے فِیْ صَلَا تِھِمْ سَاھُوْن نہیں فرمایا بلکہ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ فرمایا ہے۔ ہم نماز میں بھولتے تو ضرور ہیں مگر نماز سے غافل نہیں ہیں۔ اس لیے ہمارا شمار منافقوں میں نہیں ہو گا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض)  سے ان کے صاحبزادے مصعب بن سعد نے پوچھا کہ آپ نے اس آیت پر غور فرمایا کیا اس کا مطلب نماز چھوڑ دینا ہے یا اس سے مراد نماز پڑھتے ہوئے خیال کسی اور طرف چلا جانا ہے۔ خیال ہٹ جانے کی حالت ہم میں سے کس پر نہیں گزرتی۔ حضرت سعد  (رض)  نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز کے وقت کو ضائع کرنا اور اسے وقت ٹال کر پڑھنا ہے۔ (تفہیم القرآن)

مورخہ 16۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 20 فروری 2011ئ۔"

"الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ   Ĉ۝ۙ

[الَّذِينَ هُمْ: یہ وہ لوگ ہیں جو][ عَنْ صَلَاتِهِمْ: اپنی نماز سے][ سَاهُوْنَ: غافل ہونے والے ہیں]"

"الَّذِيْنَ هُمْ يُرَاۗءُوْنَ   Č ۝ۙ

[الَّذِينَ هُمْ: یہ وہ لوگ ہیں جو][ يُرَاۗءُوْنَ: ریاکاری کرتے ہیں]"

"وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ   Ċ۝ۧ

[وَيَمْنَعُوْنَ: اور روکتے ہیں][ الْمَاعُوْنَ: گھریلو اشیاء کو (گردش سے)]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ   Ǻ۝ۭ

[انآ اَعْطَيْنٰكَ: بیشک ہم نے عطا کی آپؐ کو][ الْكَوْثَرَ: بےانتہا (خیر)]

 

 

نوٹ 1: کوثر کے معنی ہیں بہت زیادہ بھلائی اور بہتری۔ یہاں اس سے کیا چیز مراد ہے اس کے متعلق متعدد اقوال ہیں۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس لفظ کے تحت ہر قسم کی دینی ودنیوی اور حِسی ومعنوی نعمتیں داخل ہیں جو آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے طفیل اس امت کو ملنے والی تھیں۔ ان میں سے ایک بہت بڑی نعمت وہ حوض کوثر ہے جس کے پانی سے آپ ﷺ اپنی امت کو محشر میں سیراب فرمائیں گے۔ بعض روایات سے اس کا محشر میں ہونا اور اکثر سے جنت میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔ علماء نے اس کی تطبیق یوں کی ہے کہ اصل نہر جنت میں ہوگی اور اسی کا پانی میدان حشر میں کسی حوض میں جمع کردیا جائے گا۔ (ترجمہ شیخ الہند (رح) )

 یہ انتہائی سخت وقت ہو گا جبکہ ہر ایک اَلْعَطَش۔ اَلْعَطَش (پیاس پیاس) پکار رہا ہو گا۔ اس وقت آپ ﷺ کی امت اس حوض پر حاضر ہوگی اور اس سے سیراب ہوگی لیکن کچھ لوگ محروم رہیں گے۔ اس کے بارے میں حضورﷺ نے بار بار اپنے زمانے کے لوگوں کو خبردار کیا کہ میرے بعد تم میں سے جو لوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں گے ان کو اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا۔ میں کہوں گا یہ میرے اصحاب ہیں تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ ﷺ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا ہے۔ پھر میں ان کو دفع کروں گا اور کہوں گا کہ دور ہو۔ یہ مضمون بکثرت روایات میں بیان ہوا ہے۔ (بخاری۔ مسلم۔ مسند احمد۔ ابن ماجہ وغیرہ) ۔

 اسی طرح حضور ﷺ نے اپنے دور کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میرے طریقے سے ہٹ کر چلیں گے اور اس میں ردوبدل کریں گے انھیں اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ اے رب یہ تو میرے ہیں، میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا ّآپ کو نہیں معلوم کہ انھوں نے آپ ﷺ کے بعد کیا کیا تغیرات کیے اور الٹے ہی پھرتے چلے گئے۔ پھر میں ان کو دفع کروں گا۔ اور حوض پر نہ آنے دوں گا۔ اس مضمون کی بہت سی روایات احادیث میں ہیں۔

(بخاری۔ مسلم۔ مسند۔ احمد۔ ابن ماجہ) (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 493 تا 495 سے ماخوذ)"

"فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ Ą۝ۭ

[فَصَلِ لِرَبِكَ: تو آپؐ نماز پڑھیں اپنے رب کے لیے][ وَانحَرْ: اور آپؐ اونٹ قربان کریں]

 

ن ح ر

[نَحْرًا] (ف) گلے میں چوٹ لگانا۔ ذبح کرنا۔]

[ اِنْحَرْ فعل امر ہے۔ تو ذبح کر۔ قربانی کر۔ زیر مطالعہ آیت۔2۔ ]"

"اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ Ǽ۝

[ان شَانئَكَ: بیشک آپؐ سے بغض رکھنے والا][ هُوَ الْاَبْتَرُ: ہی بالکل بےنام و نشان ہے۔]

 

 

ب ت ر

[بَتْرًا: (ن) کاٹنا۔ اللہ کا کسی کو بےاولاد کرنا۔ کسی کی نسل کو کاٹنا۔]

[بَتَرًا: (س) کٹ جانا۔ بےاولاد ہونا۔ نسل کٹا ہونا۔]

[ اَبْتَرُ اَفْعَلُ کا وزن ہے بےاولاد۔ نسل کٹا۔ جس کی موت کے بعد اس کا خلف یعنی نام لیوا کوئی نہ ہو، نہ اولاد ہو اور نہ رشتہ دار یا احباب میں کوئی نام لیوا ہو زیر مطالعہ آیت۔3۔ (ایسا لگتا ہے کہ یہ لفظ افعل الوان وعیوب اور افعل تفضیل، دونوں کے مفاہیم کا جامع ہے۔ بےاولاد یا نسل کٹا ہونا، الوان وعیوب کا مفہوم ہے اور کوئی خلف نہ ہونا (افعل وتفضیل کا مفہوم ہے)]

 

نوٹ 2: جب حضورﷺ نبی بنائے گئے اور آپ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی کہ قریش کے لوگ کہنے لگے کہ محمد ﷺ اپنی قوم سے کٹ کر ایسے ہو گئے ہیں جیسے کوئی درخت اپنی جڑ سے کٹ گیا ہو اور کچھ مدت بعد سوکھ کر پیوند خاک ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی اولاد نرینہ میں بڑے صاحب زادے قاسم (رض)  تھے اور چھوٹے حضرت عبداللہ (رض)  تھے۔ پہلے حضرت قاسم (رض)  کا انتقال ہوا پھر حضرت عبداللہ (رض)  نے بھی وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا کہ محمد ﷺ ابتر ہیں۔ ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے جوان کا قائم مقام بنے۔ جب وہ مر جائیں گے تو ان کا نام دنیا سے مٹ جائے گا اور ان سے تمھارا پیچھا چھوٹ جائے گا۔ ایسی ہی باتیں ابوجہل، عقبہ بن ابی معیط وغیرہ سے بھی منقول ہیں۔ حضورﷺ کا اپنا چچا، جس کا گھر بالکل آپ ﷺ کے گھر سے ملا ہوا تھا، دوڑتا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور ان کو یہ خوشخبری دی کہ آج رات محمدﷺ کی جڑ کٹ گئی۔ قریش اس لیے آپ ﷺ سے بگڑے تھے کہ آپ ﷺ صرف اللہ ہی کی بندگی کرتے تھے اور ان کے شرک کو آپ ﷺ نے اعلانیہ رد کردیا تھا۔ اس کی وجہ سے پوری قوم میں جو مرتبہ اور مقام آپ ﷺ کو نبوت سے پہلے حاصل تھا وہ آپ ﷺ سے چھین لیا گیا تھا اور آپ ﷺ گویا برادری سے کاٹ کر پھینک دئیے گئے تھے۔ آپ ﷺ کے چند مٹھی بھر ساتھی سب بے یارومددگار تھے۔ یہ تھے وہ انتہائی دل شکن حالات جن میں سورۂ کوثر حضورﷺ پر نازل کی گئی۔

(تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 489 تا 490 سے ماخوذ)

 اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبیﷺ ابتر آپ ﷺ نہیں ہیں بلکہ آپ ﷺ کے یہ دشمن ابتر ہیں۔ یہ قرآن کی اہم پیشنگوئیوں میں سے ایک پیشنگوئی تھی جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اس وقت کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار کیسے ابتر ہو جائیں گے۔ لیکن چند سالوں میں حالات بالکل پلٹ گئے اور وہ بالکل بےنام نشان ہو گئے۔ آج لاکھوں انسان آپ ﷺ ہی سے نہیں بلکہ آپﷺکے ساتھیوں کے خاندانوں سے اپنی نسبت کو باعث عزت وشرف سمجھتے ہیں۔ کوئی سید ہے، کوئی علوی ہے، کوئی عباسی، ہاشمی، صدیقی، فاروقی، عثمانی، زبیری ہے تو کوئی انصاری ہے۔ مگر نام کو بھی کوئی ابوجہلی یا ابولہبی نہیں پایا جاتا۔ تاریخ نے ثابت کردیا کہ ابتر حضورﷺ نہیں بلکہ آپ ﷺ کے دشمن ہی تھے اور ہیں۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص۔ 497 سے ماخوذ)

مورخہ 17۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 21 فروری 2011 ء"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ    Ǻ۝ۙ

[قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ: آپؐ کہہ دیجئے اے کافرو ]

 

نوٹ 1: مکہ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی ﷺ کی دعوت اسلام کے خلاف قریش کے معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا، لیکن ابھی قریش کے سردار اس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضورﷺ کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا۔ اس لیے وقتاً فوقتاً وہ آپ ﷺ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تاکہ آپ ﷺ ان میں سے کسی کو مان لیں۔ اس سلسلہ میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ہی مجلس میں نہیں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر کفار قریش نے اِس قسم کی تجویزیں پیش کی تھیں۔ اور اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک ہی دفعہ دو ٹوک جواب دے کر ان کی اس امید کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ دین کے معاملہ میں کچھ دو اور کچھ لو کے طریقے پر ان سے کوئی مصالحت کرلیں گے۔

 اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ مذہبی رواداری کی تلقین کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ آج کل کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں، بلکہ اس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار کے دین، ان کی پوجا پاٹ اور ان کے معبودوں سے قطعی براءت کا اعلان کردیا جائے۔ اور انھیں بتا دیا جائے کہ دین کفر اور دین اسلام ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ ان کے باہم مل جانے کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات اگرچہ ابتدائً قریش کے کفار کو مخاطب کر کے ان کی تجاویز مصالحت کے جواب میں کہی گئی تھی لیکن اسے قرآن مجید میں درج کر کے تمام مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے یہ تعلیم دے دی گئی ہے کہ دین کفر جہاں جس شکل میں بھی ہے مسلمانوں کو اس سے براءت کا اظہار کرنا چاہیے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 500۔ 501 سے ماخوذ) ۔"

"لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ   Ą۝ۙ

[لَآ اَعْبُدُ: میں بندگی نہیں کرتا][ مَا: اس کی جس کی][ تَعْبُدُوْنَ: تم لوگ بندگی کرتے ہو]"

"وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ   Ǽ۝ۚ

[وَلَآ انتم عٰبِدُوْنَ: اور نہ تم لوگ بندگی کرنے والے ہو][ مَآ: اس کی جس کی ][ اَعْبُدُ: میں بندگی کرتا ہوں]

 

نوٹ 2: آیت۔3۔ میں اور۔5۔ میں مَا اَعْبُدْ آیا ہے۔ عربی زبان میں ما کا لفظ عموماً بےجان یا بےعقل چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور ذی عقل ہستیوں کے لیے مَنْ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں مَنْ اَعْبُدْ کہنے کے بجائے مَااَعْبُدْکیوں کہا گیا۔ عام طور پر اس کے چار جواب مفسرین نے دئیے ہیں۔ یہ چاروں تاویلات اگرچہ ایک ایک لحاظ سے درست ہیں اور عربی زبان میں ان سب کی گنجائش ہے، لیکن ان میں سے کسی سے بھی وہ اصل مدعا واضح نہیں ہوتا جس کے لیے مَنْ اَعْبُدْ کہنے کے بجائے مَا اَعْبُدُ کہا گیا ہے۔

 دراصل عربی زبان میں کسی شخص کے لیے جب مَنْ کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مقصود اس کی ذات کے متعلق کچھ کہنا یا پوچھنا ہوتا ہے۔ اور جب مَا کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اس کی صفت کے بارے میں استفسار یا اظہار خیال ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اردو میں جب ہم کہتے ہیں یہ صاحب کون ہیں تو مقصد اس شخص کی ذات سے تعارف حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مگر جب ہم کہتے ہیں یہ صاحب کیا ہیں۔ تو اس سے یہ معلوم کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ شخص کیا کرتا ہے یا اس کے پیشے میں اس کا مقام ومنصب کیا ہے۔ مثلاً اگر وہ کسی درسگاہ سے تعلق رکھتا ہے تو کیا وہ لکچرر ہے۔ پروفیسر ہے کس علم یا فن کا استاد ہے۔ کیا ڈگریاں رکھتا ہے وغیرہ۔ اگر آیت میں یہ کہا جاتا کہ لَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَنْ اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم اس ہستی کی عبادت کرنے والے نہیں جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں مشرکین یہ کہہ سکتے تھے کہ اللہ کی ہستی کو تو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کی بھی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ کہا گیا کہ لَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہواکہ جن صفات کے معبود کی عبادت میں کرتا ہوں ان صفات کے معبود کی عبادت کرنے والے تم نہیں ہو اور یہی وہ اصل بات ہے جس کی بنا پر نبی ﷺ کا دین منکرین خدا (یعنی دہریوں) کے سوا تمام اقسام کے کفار کے دین سے قطعی طور پر الگ ہو جاتا ہے کیونکہ نبی ﷺ کا خدا ان سب کے خدا سے بالکل مختلف ہے۔ ان میں سے کسی کا خدا چھ دن میں دنیا پیدا کرنے کے بعد ساتویں دن آرام کرنے والا ہے۔ حضرت یعقوب سے کشتی لڑتا ہے اور عُزَیْرنامی ایک بیٹا رکھتا ہے۔ کسی کا خدا دوسروں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے اپنے اکلوتے بیٹے کو صیلب پر چڑھا دیتا ہے۔ کسی کا خدا بیوی بچے رکھتا ہے مگر اس کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کسی کا خدا انسانی شکل میں روپ دھار کر زمین پر انسانوں کے لیے کام کرتا ہے وغیرہ۔ غرض خدا کو ماننے والے کفار بھی اس خدا کو نہیں مانتے جس کی صفات کی تعلیم قرآن دیتا ہے۔ ان صفات کے معبود کی عبادت محمد ﷺ اور ان کی پیروی کرنے والوں کے سوا دنیا میں کوئی بھی نہیں کر رہا ہے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 505۔ 506 سے ماخوذ)

نوٹ 3: اس سورہ میں کافروں کی طرف سے پیش کی ہوئی مصالحت کی مختلف صورتوں کو بالکل رد کر کے اعلان براءت کیا گیا۔ مگر سورۃ الانفال کی آیت۔61۔ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ کفار اگر صلح کی طرف جھکیں تو آپ ﷺ بھی جھک جائیے یعنی صلح کر لیجیے اور مدینہ میں یہود سے آپ ﷺ کا معاہدۂ صلح مشہور ومعروف ہے۔ اس ضمن میں صحیح بات یہ ہے کہ جس قسم کی مصالحت سے اس سورہ میں اعلان براءت کیا گیا وہ جیسے اس وقت حرام تھی، آج بھی حرام ہے اور جس صورت کی اجازت سورۂ انفال میں آئی ہے اور میثاقِ مدینہ سے عملاً ظاہر ہوئی، وہ جیسے اس وقت جائز تھی آج بھی جائز ہے۔ بات صرف موقع ومحل اور شرائط صلح کو دیکھنے اور سمجھنے کی ہے۔ اس کا فیصلہ خود رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے جس میں کفار سے معاہدہ کو جائز قرار دینے کے ساتھ ایک استثنا کا ارشاد ہے اِلاَّ صُلْحًا اَحَلَّ حَرَامًا اَوْحَرَّمَ حَلَالاً۔ یعنی ہر صلح جائز ہے سوائے اس صلح کے جس کی رو سے اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال یا حلال کی ہوئی چیز کو حرام قرار دیا گیا ہو۔ (معارف القرآن)

مورخہ 18۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 22 فروری 2011ئ۔"

"وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ   Ć۝ۙ

[وَلَآ انا عَابِدٌ: اور نہ (ہی) میں بندگی کرنے والا ہوں][ مَا عَبَدْتم: اس کی جس کی تم لوگوں نے بندگی کی]"

"وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ   Ĉ۝ۭ

[وَلَآ انتم عٰبِدُوْنَ: اور نہ تم لوگ بندگی کرنے والے ہو][ مَآ اَعْبُدُ: اس کی جس کی میں بندگی کرتا ہوں]"

"لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ   Č۝ۧ

[لَكُمْ دِيْنُكُمْ: تمھارے لیے تمھارا دین ہے][ وَلِيَ دِيْنِ: اور میرے لیے میرا دین ہے]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ    Ǻ۝ۙ

[اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ: جب آئے اللہ کی مدد][ وَالْفَتْحُ: اور وہ فتح ]"

"وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا  Ą۝ۙ

[وَرَاَيْتَ النَاسَ: اور آپؐ دیکھیں لوگوں کو][ يَدْخُلُوْنَ: داخل ہوتے ہوئے][ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا : اللہ کے دین میں گروہ در گروہ ہوتے ہوئے]ۙ

 

 

نوٹ 1: آیت۔2۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ زمانہ رخصت ہو جائے جب ایک ایک دو دو کر کے لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے اور وہ وقت آ جائے جب پورے پورے قبیلے ازخود مسلمان ہونے لگیں۔ آیت۔3۔ کا مطلب ہے کہ اپنے رب کی قدرت کا یہ کرشمہ جب تم دیکھ لو تو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اس میں حمد کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کامیابی کے متعلق تمھارے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ یہ تمھارے اپنے کمال کا نتیجہ ہے۔ بلکہ اس کو سراسر اللہ کا فضل وکرم سمجھو۔ اس پر اس کا شکر ادا کرو اور دل وزبان سے اس کا اعتراف کرو۔ تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنے میں ایک پہلو تعجب کا بھی ہے۔ جب کوئی مُخیّر العقول واقعہ پیش آتا ہے تو آدمی سبحان اللہ کہتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کی قدرت سے ایسا حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے ورنہ دنیا کی کسی طاقت کے بس میں یہ نہیں تھا۔

 وَاسْتَغْفِرْہُ کا مطلب ہے کہ اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اس نے تمھارے سپرد کی تھی اس کو انجام دینے میں جو بھول چوک کوتاہی ہوئی ہو، اس سے درگزر فرمائے۔ یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے۔ کسی انسان سے اللہ کے دین کی کیسی بھی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو اور اس کی عبادت وبندگی میں کتنی بھی محنت اس نے کی ہو، اس کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آنا چاہیے کہ میں نے اپنے رب کا حق ادا کر دیا۔ بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کرسکا اور اسے دعا مانگنی چاہیے کہ مجھ سے جو بھی کوتاہی ہوئی ہے اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمائے۔ (تفہیم القرآن)

 حضرت عائشہ  (رض)  فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو یہ دعا کرتے تھے۔ سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلیْ۔ حضرت اُم سلمہ (رض)  فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد اٹھتے بیٹھتے اور آتے جاتے ہر وقت یہ دعا پڑھتے تھے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیہِ (معارف القرآن)

مورخہ 19۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 23۔ فروری 2011ئ۔"

"فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ     ڼ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا  Ǽ۝ۧ

[فَسَبِحْ: تو آپؐ تسبیح کریں][ بِحَمْدِ رَبِكَ: اپنے رب کی حمد کے ساتھ][ وَاسْتَغْفِرْهُ: اور آپؐ مغفرت مانگیں اس سے][ انهٗ كَان تَوَّابًا: بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ    Ǻ۝ۭ

[تَبَّتْ: تباہ ہوں][ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ: ابولہب کے دونوں ہاتھ][ وَّتَبَّ: اور وہ (بھی) تباہ ہو]

 

ترکیب: (آیت۔1) تَبَّتْ واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ اسی کا فاعل یَدَانِ ہے۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نون تثنیہ گرا ہوا ہے۔ تَبَّ واحد مذکر غائب ہے۔ اس کا فاعل اس میں شامل ھُوَ کی ضمیر ہے۔ افعال ماضی میں خبر دینے کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور دعا مانگنے کا بھی۔ (دیکھیں آیت۔2: 72، نوٹ۔2) اس آیت کے خبریہ اور دعائیہ، دونوں ترجمے درست مانے جائیں گے۔ ہم دعائیہ کو ترجیح دیں گے۔

 

نوٹ 1: قرآن مجید میں یہ ایک ہی مقام ہے جہاں دشمنانِ اسلام میں سے کسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے حالانکہ مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اسلام اور محمد ﷺ کی عداوت میں ابولہب سے کسی طرح کم نہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس شخص کی وہ کیا خصوصیت تھی جس کی بنا پر اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ وجہ یہ ہے کہ عربی معاشرے کی اخلاقی قدروں میں صلۂ رحمی کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور قطع رحمی کو بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ عرب کی انہی روایات کا یہ اثر تھا کہ قریش کے دوسرے خاندانوں اور ان کے سرداروں نے تو حضور ﷺ کی شدید مخالفت کی مگر بنوہاشم نے نہ صرف آپ ﷺ کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ آپ ﷺ کی حمایت کرتے رہے، حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے تھے۔ قریش کے دوسرے خاندان اس حمایت کو عرب کی روایات کے عین مطابق سمجھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے کبھی بنوہاشم کو یہ طعنہ نہیں دیا کہ تم اپنے آبائی دین سے منحرف ہو گئے ہو۔ اس اخلاقی اصول کو صرف ایک شخص نے توڑ ڈالا۔ اور وہ تھا ابولہب جو آپ ﷺ کا سگا چچا تھا۔ یہاں تک کہ نبوت کے ساتویں سال جب قریش نے بنوہاشم کا معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کیا اور بنو ہاشم کے تمام خاندانوں نے رسول اللہ ﷺ کی حمایت پر ثابت قدم رہتے ہوئے شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے تو تنہا یہی ابولہب تھا جس نے اپنے خاندان کا ساتھ دینے کے بجائے قریش کا ساتھ دیا۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 520 تا 523 سے ماخوذ۔ اس کے باقی جرائم کی تفصیل ان ہی صفحات میں دیکھی جا سکتی ہے)

نوٹ 2: جب رسول اللہ ﷺ پر آیت وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قبیلہ قریش کے لوگوں کو آواز دی تو لوگ جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں تمھیں خبر دوں کہ دشمن صبح شام میں تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے تو کیا تم لوگ میری تصدیق کرو گے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ہاں ضرور تصدیق کریں گے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمھیں ڈراتا ہوں ایک عذاب شدید ہے۔ یہ سن کر ابولہب نے کہا تَبًّالَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا۔ اس آیت۔1۔ میں پہلا جملہ تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ بطور بددعا کے ہے یعنی ابولہب ہلاک ہو جائے۔ اور دوسرا جملہ وَتَبَّ خبر یہ ہے۔ گویا بددعا کے ساتھ اس کا اثر بھی بتا دیا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔ بددعا کا جملہ مسلمانوں کے شفاء غیظ کے لیے ارشاد فرمایا گیا کیونکہ جب ابولہب نے آپ ﷺ کی شان میں تَبًّا کہا تو مسلمانوں کے دل کی خواہش تھی کہ وہ اس کے لیے بددعا کریں۔ حق تعالیٰ نے گویا ان کے دل کی بات خود فرما دی۔ (معارف القرآن)

 یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے کہ ایک فعل کو دعائیہ اور دوسرے کو خبریہ مانا جائے۔ اس لیے منطقی تقاضا یہ ہے کہ تَبَّتْ ، تَبَّ اور مَا اَغْنٰی تینوں افعال کو یا تو دعائیہ مانا جائے یا خبریہ۔ ہم نے دعائیہ کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ اس وقت کے اہل ایمان کے دل کی آواز تھی۔ اور جہاں تک دعا کے پورا ہونے کا مسئلہ ہے تو اس وقت بھی آج بھی ہر اہل ایمان کا ایمان ہے کہ اللہ کا فرمان اٹل ہے۔ اس لیے خبر دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ (مرتب)"

"مَآ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَمَا كَسَبَ  Ą۝ۭ

[مَآ اَغْنٰى عَنْهُ: کام نہ آئے اس کے][ مَالُهٗ: اس کا مال][ وَمَا: اور وہ جو][ كَسَبَ: اس نے کمایا]

 

(آیت۔2) مَا اَغْنٰی مَا کو نافیہ بھی مانا جا سکتا ہے اور استفہائیہ بھی، دونوں ترجمے درست ہوں گے۔ ہم نافیہ کو ترجیح دیں گے۔ مَاکَسَبَ میں مَا موصولہ ہے

 

نوٹ 3: کَسَبَ کے معنی ہیں کمانا۔ یعنی وقت، محنت اور اپنے وسائل خرچ کر کے کوئی چیز حاصل کرنا۔ ظاہر ہے اس میں وہ مال بھی آتا ہے جو انسان کماتا ہے، معاشرے میں وہ مقام ومرتبہ بھی جو وہ کوشش کر کے اپنے لیے بناتا ہے، وہ انصار واعوان بھی جو وہ اپنے تعلقات کے ذریعہ بناتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق آدمی کا بیٹا بھی اس کا کسب ہے۔ یہاں آیت۔2۔ میں مال کا ذکر پہلے آ چکا ہے اس لیے وَمَا کَسَبَ میں مال کے علاوہ باقی دوسری کمائیاں مراد ہیں جس میں بیٹے بھی شامل ہیں۔ ابولہب کے انجام سے یہ سب معانی مناسبت رکھتے ہیں۔ کیونکہ بدر کی شکست کے سات روز بعد اس کو طاعون کی گلٹی نکلی جس کو عرب میں عَدَسَہ کہتے ہیں اور جو چھوت کی بیماری ہے۔ اس لیے سب گھر والوں نے اس کو الگ ڈال دیا اور اسی بےکسی کی حالت میں وہ مر گیا۔ تین روز تک لاش پڑی رہی۔ جب سڑنے لگا تو بیٹوں نے مزدوروں سے اٹھوا کر مٹی میں دبوا دیا۔ اس وقت مال، اولاد، تعلقات، کچھ بھی اس کے کام نہ آیا۔

مورخہ 20۔ ربیع الاول 1432 ھ"

"سَيَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ  Ǽ۝ښ

[سَيَصْلٰى نَارًا: وہ گرے گا ایک ایسی آگ میں جو][ ذَاتَ لَهَبٍ: شعلے والی ہے]

 

 (آیت۔3) سَیَصْلٰی کا فاعل اس میں شامل ھُوَ کی ضمیر ہے۔ (آیت۔4) وَامْرَاَتُہٗ کی رفع بتا رہی ہے کہ یہ سَیَصْلٰی کا فاعل ثانی ہے۔ اس کا حال ہونے کی وجہ سے حَمَّالَۃَ حالت نصب میں ہے۔"

"وَّامْرَاَتُهٗ   ۭ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ  Ć۝ۚ

[وَّامْرَاَتُهٗ ۭ : اور اس کی عورت (بھی)][حَمَالَةَ الْحَطَبِ: بہت ہی اٹھانے (لیے پھرنے) والی ہوتے ہوئے لگائی بجھائی کو]"

"فِيْ جِيْدِهَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ   Ĉ۝ۧ

[فِيْ جِيْدِهَا: اس کی گردن میں][ حَبْلٌ: ایک ایسی رسی ہے جو][ مِّنْ مَّسَدٍ: کھجور کے ریشے سے (بٹی) ہے]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ    Ǻ۝ۚ

[قُلْ: آپؐ کہیے][ هُوَ: حقیقت بس یہ ہے کہ][ اللّٰهُ اَحَدٌ: اللہ یکتا ہے]

 

ترکیب: (آیت۔1) اس کی مختلف ترکیبیں کی گئی ہیں۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ ھُوَ ضمیر الشان ہے۔ اَللّٰہُ مبتدا اور اَحَدٌ اس کی خبر ہے۔

 

نوٹ 1: قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں بالعموم کسی ایسے لفظ کو ان کا نام قرار دیا گیا ہے جو ان میں وارد ہوا ہو۔ لیکن اس سورہ میں لفظ اخلاص کہیں وارد نہیں ہوا۔ اس کو یہ نام اس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے جو شخص بھی اس کو سمجھ کر اس کی تعلیم پر ایمان لے آئے گا وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا۔ جب رسول اللہ ﷺ توحید کی دعوت لے کر اٹھے تھے اس وقت دنیا کے مذہبی تصورات کیا تھے۔ (اس کا ایک ہلکا سا جائزہ سورۂ کافرون کے نوٹ۔2۔ کے آخر میں دیا ہوا ہے۔ مرتب) اس حالت میں جب اللہ وحدہٗ لاشریک کو ماننے کی دعوت دی گئی تو لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی تھا کہ وہ رب آخر کس قسم کا ہے کہ تمام معبودوں کو چھوڑ کر تنہا ایک ہی رب اور معبود ماننے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ان سوالات کا جواب چند الفاظ میں دے کر اللہ کی ہستی کا ایسا واضح تصور پیش کردیا جو تمام مشرکانہ تصورات کا قلع قمع کر دیتا ہے اور اس کی ذات کے ساتھ مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کی آلودگی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں اس سورت کی بڑی عظمت تھی اور آپ ﷺ مسلمانوں کو اس کی اہمیت محسوس کراتے تھے تاکہ وہ کثرت سے اس کو پڑھیں اور لوگوں میں اسے پھیلائیں۔ احادیث میں کثرت سے یہ روایات بیان ہوئی ہیں کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ مفسرین نے اس ارشاد کی بہت سی توجیہات بیان کی ہیں۔ ہمارے نزدیک سیدھی بات یہ ہے کہ قرآن جس دین کو پیش کرتا ہے اس کی بنیاد تین عقیدے ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت۔ یہ سورہ چونکہ خالص توحید کو بیان کرتی ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 530 تا 533 سے ماخوذ)

نوٹ 2: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے اس سورہ سے بڑی محبت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی محبت نے تمھیں جنت میں داخل کر دیا۔ ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص صبح اور شام قل ھواللہ احد اور مُعَوِّذَتَیْنِ (یعنی سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ لیا کرے تو یہ اس کو ہر بلا سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو ایسی تین سورتیں بتاتا ہوں کہ جو تورات، انجیل، زبور اور قرآن، سب میں نازل ہوئی ہیں۔ اور فرمایا کہ رات کو اس وقت تک مت سوئو جب تک ان تین کو نہ پڑھ لو۔ (یعنی مُعَوِّذَتَیْنِ اور قل ھواللہ احد) (معارف القرآن) ۔

مورخہ 21۔ ربیع الاول 1432 ھ بمطابق 25۔ فروری 2011 ء"

"اَللّٰهُ الصَّمَدُ   Ą۝ۚ

[اللّٰهُ الصَّمَدُ: اللہ ہی قطعی بےنیاز ہے]

 

ص م د

[ صَمْدًا: (ن۔ ض) حاجت روائی کے لیے کسی کا قصد کرنا۔ رجوع کرنا۔]

[ صَمَدٌ ایسی ہستی جس کی طرف حاجت روائی کے لیے رجوع کیا جائے اور جس کو کسی سے بھی رجوع کرنے کی ضرورت نہ ہو، بےنیاز۔ اللّٰہُ لصَّمَد (اللہ قطعی بےنیاز ہے) ۔ 112:2۔]

 

(آیت۔2) اَللّٰہُ مبتد اور اَلصَّمَدُ اس کی خبر معرفہ ہے۔ اس پر جو الف لام ہے اس کو اگر لام تعریف مانیں تو بین السطور مطلب یہ ہو گا کہ متعدد ہستیاں صمد ہیں اور یہاں کسی مخصوص صمد کی بات ہو رہی ہے یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس پر لام جنس ہے۔"

"لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ   Ǽ۝ۙ

[لَمْ يَلِدْ: اس نے جنا ہی نہیں][ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ: اور نہ ہی وہ جنا گیا]"

"وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ    Ć۝ۧ

[وَلَمْ يَكُنْ: اور ہوا ہی نہیں][ لَهٗ كُفُوًا: اس کا مماثل (اس کے جیسا)][ اَحَدٌ: کوئی ایک بھی]

 

ک ف ء

[کَفْاً: (ف) لَوٹنا۔ اعتدال سے متجاوز ہونا۔]

[ مُکافَئَۃً: (مفاعلہ) برابری کرنا۔ ہم پلہ ہونے کی کوشش کرنا۔]

 کُفُوًا بربری والا۔ ہم پلہ۔ مماثل۔ آیت 112:4۔ ]

 

(آیت۔4) لَمْ یَکُنْ کا اسم اَحَدٌ ہے اس لیے یہ حالت رفع میں ہے۔ اور یَکُنْ کی خبر ہونے کی وجہ سے کُفُوًا حالت نصب میں ہے۔ سادہ جملہ یوں ہو سکتا ہے وَلَمْ یَکُنْ اَحَدٌ کُفُوًا لَّہٗ۔"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ    Ǻ۝ۙ

[قُلْ اَعُوْذُ: آپؐ کہیے میں پناہ میں آتا ہوں][ بِرَبِ الْفَلَقِ: صبح کے مالک کی]"

"مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ   Ą۝ۙ

[مِنْ شَرِّ مَا: اس کے شر سے جو][ خَلَقَ: اس نے پیدا کیا]

 

نوٹ 4: سورۂ فلق کی آیت۔2۔ میں یہ بات قابل غور ہے کہ شر کو پیدا کرنے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی گئی، بلکہ مخلوقات کی پیدائش کی نسبت اللہ کی طرف اور شرکی نسبت مخلوقات کی طرف کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو شر کے لیے نہیں پیدا کیا ہے۔ اس کا ہر کام خیر اور کسی مصلحت ہی کے لیے ہوتا ہے۔ البتہ مخلوقات کے اندر جو اوصاف اس نے اس لیے پیدا کیے ہیں کہ ان کی تخلیق کی مصلحت پوری ہو، ان سے بعض اوقات اور بعض اقسام کی مخلوقات سے اکثر شررونما ہوتا ہے۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ 5: قرآن مجید کے آغاز اور اس کے اختتام میں جو مناسبت ہے وہ بھی ذہن میں واضح ہونی چاہیے۔ قرآن کریم کو حق تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ سے شروع فرمایا ہے جس کا خلاصہ حق تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد اس کی مدد حاصل کرنا اور اس سے صراطِ مستقیم کی توفیق مانگنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور صراطِ مستقیم یہی دو چیزیں ہیں جن میں انسان کی دنیا ودین کے سب مقاصد کی کامیابی مضمر ہے۔ لیکن ان دونوں چیزوں کے حصول میں اور حصول کے بعد ان کے استعمال میں ہر قدم پر شیاطین جن واِنس کے مکروفریب اور وسوسوں کا جال بچھا رہتا ہے۔ اس لیے اس جال کو پاش پاش کرنے کی موثر تدابیر استعاذہ پر قرآن کو ختم کیا گیا۔ (معارف القرآن)"

"وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ   Ǽ۝ۙ

[وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ: اور اندھیرا کرنے والے (یعنی رات) کے شر سے][ اِذَا وَقَبَ: جب وہ چھا جائے]

 

و ق ب

[وَقْباً: (ض) آنا۔ جیسے چاند کا گہن میں آنا۔ تاریکی پھیلنا۔ آیت 113:3۔ ]"

"وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ    Ć۝ۙ

[وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ: اور پھونک مارنے والیوں کے شر سے][ فِي الْعُقَدِ:ِٖگِرہوں میں]

 

ن ف ث

[ نَفْثًا: (ن۔ ض) منہ سے تھوڑا سا تھوک نکالنا یا تھوتھوکرنا۔ جادو کے گنڈوں پر پھونک مارنا۔]

[ نَفَّاثٌ مؤنث نَفَّاثَۃٌ۔ فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بار بار یا کثرت سے پھونک مارنے والا۔ آیت۔ 113:4۔ ]"

"وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ   Ĉ۝ۧ

[وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ: اور حسد کرنے والے کے شر سے][ اِذَا حَسَدَ: جب وہ حسد کرے]"

"بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ       ۝

"

"قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ    Ǻ۝ۙ

[قُلْ اَعُوْذُ: آپؐ کہیے میں پناہ میں آتا ہوں][ بِرَبِ النَاسِ: انسانوں کے پروردگار کی]

 

نوٹ 1: سورۂ فلق اور سورۂ ناس، یہ دونوں سورتیں ایک ساتھ، ایک ہی واقعہ میں نازل ہوئیں۔ ابن قمّ (رح)  نے ان دونوں سورتوں کی تفسیر یکجا لکھی ہے۔ اس میں فرمایا کہ ان دونوں سورتوں کے منافع اور برکات سے سب لوگوں کی ضرورت ایسی ہے کہ کوئی انسان ان سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ ان کو سحر، نظر بد اور تمام جسمانی اور روحانی آفات دور کرنے میں تاثیر عظیم حاصل ہے۔ اس کا واقعہ اس طرح ہے کہ نبی کریم ﷺ پر ایک یہودی نے جادو کردیا تھا جس کے اثر سے آپ ﷺ بیمار ہو گئے تھے۔ جبرئیل ؑ نے آ کر آپ ﷺ کو اطلاع دی کہ آپ ﷺ پر ایک یہودی نے جادو کیا ہے اور جس چیز پر عمل کیا گیا ہے وہ فلاں کنویں میں ہے۔ آپ ﷺ نے وہاں آدمی بھیجے جو وہ چیز کنویں میں سے نکال لائے۔ اس میں گرہیں لگی ہوئی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان گرہوں کو کھول دیا اور آپ ﷺ تندرست ہو گئے۔ جبرئیل ؑ نے آپ ﷺ کو اس یہودی کا نام بتا دیا تھا اور آپ ﷺ اس کا جانتے تھے، مگر اپنے نفس کے معاملہ میں کسی سے انتقام لیں آپ ﷺ کی عادت نہیں تھی، اس لیے آپ ﷺ نے اس یہودی سے عمر بھر کچھ نہ کہا۔ (معارف القرآن) ۔

نوٹ 2: جو لوگ سحر (جادو) کی حقیقت سے ناواقف ہیں ان کو تعجب ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کا اثر کیسے ہو سکتا ہے۔ سحر کی حقیقت اور اس کے اقسام واحکام پوری تفصیل کے ساتھ سورۂ بقرہ کی تفسیر میں جلد اول صفحہ 217 تا 223 میں بیان کیے جا چکے ہیں، وہاں دیکھ لیے جائیں۔ یہاں اس کا جو خلاصہ جاننا ضروری ہے وہ اتنا ہے کہ سحر کا اثر بھی طبعی اسباب کا اثر ہوتا ہے۔ جیسے آگ سے جلنا یا گرم ہونا، پانی سے سرد ہونا، کسی سبب سے بخار آ جانا یا کسی مرض کا پیدا ہو جانا وغیرہ۔ یہ سب امر طبعی ہیں جن سے انبیاء مستثنیٰ نہیں ہوتے۔ اسی طرح جادو کا اثر بھی اسی قسم سے ہے اس لیے بعید نہیں۔ (معارف القرآن)

 اس جادو کے واقعہ میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ ﷺ کے منصب نبوت میں قادع (عیب لگانے والی) ہو۔ ذاتی حیثیت سے اگر آپ ﷺ کو زخمی کیا جا سکتا ہے، اگر آپ ﷺ کو گھوڑے سے گر کو چوٹ لگ سکتی ہے، اگر آپ ﷺ کو بچھو کاٹ سکتا ہے، اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس تحفظ کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا تھا، تو آپ ﷺ اپنی ذاتی حیثیت میں جادو کے اثر سے بیمار بھی ہو سکتے تھے۔ نبی پر جادو کا اثر ہونا تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ سورۂ طٰہٰ میں ہے کہ فرعون کے جادوگروں نے جو لاٹھیاں اور رسیاں پھینکی تھیں ان کے متعلق عام لوگوں نے ہی نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آ رہی ہیں۔ اور اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام خوفزدہ ہو گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی کہ خوف نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے۔ اب رہا یہ اعتراض کہ اس طرح تو کفار مکہ کے اس الزام کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ نبی ﷺ کو وہ سحر زدہ آدمی کہتے تھے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ کفار آپ ﷺ کو سحرزدہ آدمی اس معنی میں نہیں کہتے تھے کہ آپ ﷺ جادو کے اثر سے بیمار ہو گئے ہیں، بلکہ اس معنی میں کہتے تھے کہ کسی جادوگر نے معاذ اللہ آپ کو پاگل کردیا ہے اور اسی پاگل پن میں آپ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں۔ اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ کفار کا یہ الزام ایسے واقعہ پر سرے سے چسپاں ہی نہیں ہوتا جس کے متعلق تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذاتِ محمد ﷺ پر ہوا تھا، نبوت محمد ﷺ اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 555۔ 556)

نوٹ 3: ان سورتوں کے معاملہ میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا جھاڑ پھونک کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے اور یہ کہ جھاڑ پھونک مؤثر بھی ہے یا نہیں؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ بکثرت احادیث میں یہ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رات کو سوتے وقت معوذتین (یعنی سورۂ فلق اور سورۂ ناس) یا بعض روایات کے مطابق معوذات (یعنی سورۂ اخلاص اور معوذتین) تین مرتبہ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتے اور پورے جسم پر ہاتھ پھیر لیتے۔

 اس معاملہ میں شرعی مسئلہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ایک طویل حدیث کے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے وہ لوگ بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے جو نہ داغنے کا علاج کراتے ہیں نہ جھاڑ پھونک کراتے ہیں، نہ فال لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے داغنے سے علاج کرایا اور جھاڑ پھونک کرائی، وہ اللہ پر توکل سے بےتعلق ہو گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  (رض)  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دس چیزوں کو ناپسند فرماتے تھے جن میں سے ایک جھاڑ پھونک بھی ہے سوائے معوذتین یا معوذات کے۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں حضور ﷺ نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرما دیا تھا پھر بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو، اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے۔ کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے۔ بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ شفا دینے والی ہے بلکہ اللہ پر بھروسہ کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔

 ایک مرتبہ نبی ﷺ بیمار ہوئے تو جبرئیل ؑ نے آ کر پوچھا کہ کیا آپ ﷺ بیمار ہو گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ جبرئیل ؑ نے کہا:

بِسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُّؤْذِیْکَ مِنْ شَرِّْکُلِّ نَفْسٍ اَوْعَیْنٍ حَاسِدٍ اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ ترجمہ۔ اللہ کے نام سے میں جھاڑتا ہوں آپؐ کو تمام ایسی چیز سے جو اذیت دے آپؐ کو ہر ایک نفس کے شر سے یا حسد کرنے والے کی آنکھ (کے شر) سے اللہ شفا دے آپؐ کو اللہ کے نام سے میں جھاڑتا ہوں آپؐ کو۔

 اس کے علاوہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے زہریلے جانوروں کے کاٹے، ذباب کے مرض اور نظربد کے جھاڑنے کی اجازت دی۔ جبکہ دوا سے علاج کرنے کی آپ ﷺ نے تاکید کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے اور تم لوگ دوا کیا کرو۔ آپ ﷺ نے خود بھی لوگوں کو بعض امراض کے علاج بتائے جیساکہ احادیث میں باب الطب کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے۔ لیکن دوا بھی اللہ ہی کے حکم اور اذن سے نافع ہوتی ہے۔ اب اگر دوا سے علاج کرنے کے ساتھ اللہ کے کلام اور اس کے اسماء حسنیٰ سے بھی استفادہ کیا جائے تو یہ بات مادہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے۔ البتہ یہ صحیح نہیں ہے۔ کہ دوا سے علاج کو چھوڑ دیا جائے اور صرف جھاڑ پھونک سے ہی کام لینے پر اکتفا کیا جائے۔ (تفہیم القرآن۔ ج 6۔ ص 557 تا 560 سے ماخوذ)"

"مَلِكِ النَّاسِ   Ą۝ۙ

[مَلِكِ النَاسِ: انسانوں کے بادشاہ کی]"

"اِلٰهِ النَّاسِ   Ǽ۝ۙ

[اِلٰهِ النَاسِ: انسانوں کے حاجت روا، مشکل کشا، پناہ دہندہ کی]"

"مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ڏ الْخَنَّاسِ   Ć۝۽

[مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ڏ الْخَنَاسِ: بار بار وسوسہ اندازی کرنے والے بار بار دبک جانے والے کے شر سے]

 

ترکیب: اَلْوَسْوَاسِ اور اَلْخَنَّاسِ دونوں اسم المبالغہ ہیں جو ایک طرح سے اسم الصّفہ ہوتے ہیں۔ (دیکھیں آسان عربی گرامر، حصہ سوم پیراگراف 1:60۔ اس لیے اَلْخَنَّاسِ کو مضاف الیہ اَلْوَسْوَاسِ کی صفت ماننے کی گنجائش نہیں ہے اور اَلْخَنَّاسِ کو شَرِّ کا مضاف الیہ ثانی مانا جائے گا۔ اَلْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ کا موصوف یہاں محذوف ہے۔ آگے آیات ۔4۔5 میں اسی محذوف موصوف کی وضاحت ہے۔"

"الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ   Ĉ۝ۙ

[الَّذِي يُوَسْوِسُ: وہ جو وسوسہ اندازی کرتاہے][ فِيْ صُدُوْرِ النَاسِ: انسانوں کے دلوں میں]"

"مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ    Č۝ۧ

[مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَاسِ: جو جنوں اور انسانوں میں سے ہوتا ہے]"