سورۃالبقرہ  آیت نمبر۱ اور ۲

 ۱:۲      الۗمّۗ     Ǻ(۱)ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ فِيْهِ   ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ(۲)

·       سورۃ البقرہ بلحاظ زمانہ نزول مدنی (بعد ہجرت)  دور کی سورت ہے۔ اس سورت کی آیات کو فی طریقۂ شمار کے مطابق ۲۸۶ ہیں۔ (اور یہی گنتی مصر اور تمام ایشیائی ممالک میں رائج ہے)   بصری گنتی کے مطابق سورت کی آیات ۲۸۷، مدنی (اول و ثانی ہر دو) کے مطابق ۲۸۵ اور یہی (۲۸۵) مکی اورشامی گنتی ہے۔ مواضع اختلاف کی طرف اپنی اپنی جگہ پر اشارہ کر دیا جائے گا۔

۱:۱:۲       اللغۃ

       (الم) حروف مقطعات میں سے ہے۔ ان حروف کے ساتھ کوئی لغوی یا نحوی بحث وابستہ نہیں ہے۔ البتہ ان کے طریق تلاوت (تلّفظ)کے قواعد اور طریق رسم (املاء) کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ان کے ’’معانی‘‘ کی بحث کسی اچھی تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جو بیشتر قیاس آرائیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ بعض معقول اور بیشتر غیر معقول۔ بہر حال اس کا تلفظ ’’اَلِفْ لَامْ مِیْمْ‘‘ہے۔

·         خیال رہے کہ عربی میں حروف تہجی کے نام ’’معرب‘‘ ہوتے ہیں مثلاً ’’اَلِفٌ یا الفًا یا الفٍ‘‘ حسب موقع استعمال ہو سکتا ہے۔ مگر حروفِ مقطعات میں ہر حرف کا تلفظ اس کے نام (کے آخری حرف) پر وقف کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یعنی ’’اَلفٌ، لَامٌ، مِیْمٌ‘‘کہنے کی بجائے ’’الِفْ، لام، مِیمْ‘‘ بولا اور پڑھا جاتا ہے۔ تاہم یہ حروف لکھے ملا کر جاتے ہیں۔ مزید وضاحت عنوان ’’الرسم‘‘ کے تحت آئے گی۔  (۳:۱:۲ میں)

۱:۱:۲ (۱ )     [ذٰلِکَ] واحد مذکر کے لئے اسم اشارہ بعید ہے۔ (عربی میں لفظ ’’کتاب‘‘ مذکّر ہے) اور اس کے معنی ہیں ’’وہ‘‘ـــخیال رہے کہ اس اسم کا مادہ ’’ذل ک‘‘ نہیں ہے بلکہ اس کی اصل مذکر کے لئے ’’ذا‘‘ اور مؤنث کے لئے ’’ذی‘‘ یا ’’ذہ‘‘ یا ’’تی‘‘ ہے۔ اس لئے عربی معاجم (ڈکشنریوں) میں ’’باب الذال‘‘ کے شروع ہی میں اس پر بات کی جاتی ہے۔ اسماء اشارہ کی اصل گردان تو یوں ہے۔

                                        رفع             نصب           جر

                        [واحد            ذا                                                                                   ذا                                                                                   ذا

(للمذکّر)      [تثنیہ           ذَان                                                                        ذَ ینْ                                                                      ذَین

                        [جمع            اولائِ                                                                  اولائِ                                                                  اولائِ

                                        رفع             نصب           جر

                        [واحد           ذی  /تی                                                        ذی /  تی                                                       ذی  /تی

(للمؤنث)      [تثنیہ           تانِ                                                                            تَینِ                                                                       تَینِ

                        [جمع            اولائِ                                                                  اولائِ                                                                  اولائِ

        ان اسماء پر (شروع میں) اشارہ قریب کے لئے لفظ ’’ھا‘‘ لگاتے ہیں جس سے ھذا، ھذان اور ھؤلاءِ  اور ھذہ ، ھاتان اور ھؤلاء ِبنتے ہیں اور اشارہ بعید کے لئے ان (اصل اسماء اشارہ)کے آخرپرک یا لِکَ‘‘لگاتے ہیں۔جس سے’’ذالِک،ذانِک،اولئِک اور تِلْکَ(دراصل تِیک) تانِک اور اولئِک بنتے ہیں۔ اس سے زیادہ تفصیل کسی اچھی عربی قاموس (ڈکشنری) یا نحو کی کسی اچھی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ؎[1]

·       یہ بحث کہ یہاں (ذٰلِكَ الْكِتٰبُمیں) اشارۂ قریب (یہ) کی بجائے اشارۂ بعید (وہ) کیوں آیا ہے اور ہم اس کا ترجمہ ’’وہ‘‘ کی بجائے ’’یہ‘‘ سے کیوں کرتے ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اشارۂ بعید تعظیم کے لئے بھی آتا ہے۔ (جیسے فارسی میں ’’آنحضرتؐ ‘‘ کہتے ہیں) مزید وجوہ کے لئے کسی اچھی تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ ان مختلف تفسیری اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے کئی مترجمین نے ’’ذٰلِكَ الْكِتٰبُ‘‘ کا ترجمہ ہی ’’یہ وہ کتاب ہے جس…‘‘ سے کیا ہے۔ مختصراً یہ سمجھ لیجئے کہ بعض دفعہ قریب اور بعید کے اسماء اشارہ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال کر لئے جاتے ہیں۔   ؎[2]

·       بعض نحوی حضرات نے اس کلمہ (ذٰلِكَ) کی بناوٹ سے بحث کرتے ہوئے اس کی اصلی ’’ذا‘‘ اور اس پر ’’ک یا  لِک‘‘ کے اضافہ کی وجہ کے ساتھ ’’لام‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ) اور ’’ک‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) کی وجہ بیان کرنے کا تکلف بھی کیا ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ یہ عربوں کا استعمال ہے اور اسی استعمال میں ذلک کی شکل کا ضمیر خطاب کے مطابق بدلنا (یعنی ذالِکُمْ، ذالِکُنَّ وغیرہ ہوجانا) بھی شامل ہے اگرچہ معنی وہی (وہ) رہتے ہیں۔

۱:۱:۲(۲)     [الْكِتٰبُ] کا مادہ ’’ک ت ب‘ اور وزن ’’فِعالٌ ‘‘ہے (’’ال‘‘ کے بغیر)۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کتَبَ ۔۔۔یَکتُبُ کِتَابًا(باب نصر سے) آتا ہے۔اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’۔۔۔ لکھنا‘‘ پھر اس سے بعض محاورے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی اور عموماً بغیر صلہ کے (مفعول بنفسہٖ کے ساتھ) استعمال ہوتا ہے اور کبھی ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ (زیادہ تر بمعنی ـــپر لازم قرار دینا) بھی آتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ فعل زیادہ تر تو ثلاثی مجرد (معروف اور مجہول) آیا ہے اور مزید فیہ کا ایک آدھ صیغہ بھی آیا ہے جس کاذکر اپنے اپنے مقام پر آئے گا۔

·       لفظ ’’ کتاب‘‘دراصل اس فعل کا ایک مصدر ہے مگر یہاں (آیت زیر مطالعہ میں) یہ مصدر بمعنی اسم المفعول (مکتوب) استعمال ہوا ہے۔ مصدر کا کبھی بطور اسم فاعل اور کبھی بطور اسم مفعول استعمال ہونا عربی زبان میں عام ہے۔ خود قرآن کریم میں اس کی متعدد مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ (لفظ ’’ربّ‘‘ میں مصدر بطور اسم فاعل استعمال ہونے کی مثال آپ ابھی سورۃ الفاتحہ کے شروع میں دیکھ چکے ہیں۔۱:۲:۱(۳) میں ( یہ لفظ (کتاب) قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ (مختلف صورتوں مثلاً معرفہ نکرہ، مفرد، مرکّب، جمع اور مختلف حالتوں ـــرفع نصب جر ـــمیں یہ لفظ کل ۲۶۱ دفعہ وارد ہوا ہے)ـــ اور اس کے معنی بھی حسب موقع مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کتاب خصوصاً  آسمانی کتاب۔ نو شتہ، تحریر، خط، نامہ ، تقدیر (الٰہی)، فرمان، حکم وغیرہ، ان سب معنوں میں ’’لکھنا‘‘ کا بنیادی مفہوم موجود ہوتا ہے۔

[لَارَیْبَ فِیْہِ]یہ دراصل چار کلمات ’’لا‘‘، ’’ریب‘‘، ’’ِفی‘‘ اور ’’ہ‘‘ پر مشتمل ہے۔ ہر ایک کی الگ الگ وضاحت کی جاتی ہے۔

۱:۱:۲(۳)      ’’لَا‘‘ یہ نفی کاحرف ہے (یعنی اس میں ’’نہ‘‘، ’’نہیں‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے) اور یہ کئی طرح استعمال ہوتا ہے:

        ۱۔ کبھی یہ اپنے سے بعد والے لفظ (جسے اس کا اسم کہتے ہیں) کی پوری جنس کی نفی کے لئے آتا ہے۔ (جیسے یہاں آیت زیرِ مطالعہ میں ہے) اس وقت اسے لائے نفیٔ جنس (فارسی ترکیب) یا لا لنفی الجنس (عربی ترکیب) کہتے ہیں۔ اس کا اسم ایک فتحہ (ــــــَــــ) کے ساتھ نصب میں آتا ہے اور اس کاـــا اردو ترجمہ عموماً ’’کوئی۔۔۔۔ہی نہیں‘‘،  یا ’’کسی قسم کا۔۔۔۔ہے ہی نہیں‘‘ یا ’’کوئی بھی۔۔۔۔نہیں‘‘ یا مختصراً ’’کوئی۔۔۔۔نہیں‘‘ سے کر لیتے ہیں۔ (ـــ خالی نقطوں والی جگہ ’’لا‘‘ کے اسم کے لئے ہے)۔

        ۲۔کبھی یہ (لا) ’’عاطفہ‘‘ ہو کر آتا ہے واو عاطفہ کے ساتھ بھی اور اس کے بغیر بھی ‘ اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ ’’اور نہ ہیـــ ‘‘ سے کیا جاتا ہے (اس کی ایک مثال آپ ’’وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ‘‘ میں دیکھ چکے ہیں)

        ۳۔ کبھی ’’لا‘‘ ’’لیس‘‘ کی طرح استعمال ہوتا ہے اس وقت اسے ’’لا مشابھۃ بِلَیْس‘‘ یا ’’لا الحجازیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس صورت میں اس کا ترجمہ ’’ـــنہیں ہے‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔

        ۴۔ کبھی یہ کسی سوال کے جواب میں انکار یا بے خبری ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے۔ اس کا ترجمہ صرف ’’نہیں‘‘ کرتے ہیں۔

        ۵۔ اسی طرح یہ ’’لا‘‘ افعال کے ساتھ مل کر نفی اور نہی (روک دینا) کے معنی پیدا کرتا ہے ـــوغیرہ ـــ ’’لا‘‘ کے ان مختلف استعمالات کے کچھ قواعد اور اصول ہیں جن کی تفصیل یا ’’یاد دھانی‘‘ کے لئے کسی ڈکشنری یا نحو کی کسی کتاب پر نظر ڈال لینا چاہئے۔ آگے چل کر ’’لا‘‘ کے مزید مواقع استعمال ہمارے سامنے آئیں گے۔ اُس وقت ہم ’’الاعراب‘‘ کی بحث میں اُس جگہ استعمال ہونے والے ’’لا‘‘ کے نحوی قاعدے کی طرف بھی اشارہ کر دیا کریں گے۔

۱:۱:۲(۴)      ’’رَيْبَ‘‘  کا مادہ ’’ر ی ب‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ (مگر یائے لینہ کی وجہ سے اس کے پڑھنے کا طریقہ ، حرفِ صحیح سے، جدا ہے۔) اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’رَابَ … یَرِیبُ رَیْبًا (باب ضرب سے) بمعنی … کو’’ شک یا شبہ میں ڈالنا‘‘ ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ اس فعل کے بنیادی معنی ’’دل میں کھٹک، بے چینی، قلق یا اضطراب پیدا کرنا‘‘ کے ہیں۔ تاہم اس (کے ثلاثی مجرد فعل) سے قرآن کریم میں کوئی صیغہ نہیں آیا۔ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (مثلاً افعال اور افتعال) سے افعال کے کچھ صیغے اور کچھ مشتقات آئے ہیں جن کی وضاحت اپنے موقع پر ہوگی۔

        لفظ ’’ رَيْبَ‘‘ (جو مذکورہ بالا فعل کا مصدر بھی ہے اور اس سے اسم بھی ہے) قرآن کریم میں اٹھارہ (۱۸) جگہ آیا ہے۔ جس میں نو(۹) دفعہ تو یہی ترکیب ’’ لَارَیْبَ فِیْہِ‘آئی ہے۔

۵:۱:۱(۵)     ’’ فِیْہِ‘‘  میں ’’فِی‘‘ (حرف جاّر) اور ’’ہ‘‘ (ضمیر مجرور برائے واحد غائب مذکر) ہے۔

·       بعض دوسرے حروف جارّہ کی طرح ’’فِی ‘‘ کے بھی متعدد معانی اور مواقع استعمال ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ عموماً (۱) … میں‘‘ کیا جاتا ہے جو بہت سے مواقع استعمال کے لئے  موزوں ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ (فی) (۲) … کے ساتھ‘‘ (۳)….کی بنا پر (۴)…کے مقابلہ پر (۵)…کی نسبت (۶)… کے بارے میں کے معنی میں بھی آتا ہے اور بعض دفعہ یہ کسی دوسرے حرفِ جارّ مثلاً ’’علی‘‘، ’’ب‘‘، ’’الی‘‘ اور ’’مِن‘‘ کی جگہ یعنی ان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں فی ْ کا ترجمہ ’’میں‘‘ یا ’’کے بارے میں‘‘ کر سکتے ہیں۔

·       ’’ فِیْہِ‘‘ میں ’’فِیْ‘‘ کے بعد جو ضمیر مجرور ’’ ہ‘‘ ہے اسے ’’ھائے کنایۃ‘‘ بھی کہتے ہیں اور حسب موقع اس کا تلفظ ’’ہٗ‘‘ (ھُوْ)‘‘ ہٖ (ھِیٗ) ’’ ھُ‘‘ اور ’’ہِ‘‘ ہوسکتا ہے۔ اس (تلّفظ) کا قاعدہ یہ ہے کہ (ا) اگر اس کا ماقبل مضموم یا مفتوح ہو تو اسے ’’ ھُوْ‘‘ کی طرح بولتے ہیں جیسے رَسُولُہٗ اور رَسُولَہٗ، لَہٗ۔(۲)اگر ماقبل مکسور ہوتو اس کا تلفظ ھِیْ ہوتا ہے جیسے بِہٖ، کتابِہٖ۔(۳)اگر اس کا ماقبل ’’ی‘‘ کے علاوہ کوئی اور حرف ساکن، یا الف مدّہ یا واو ساکنہ (مدّہ یا لینہ) ہو تو اسے صرف ’’ہُ‘‘ بولتے ہیں مثلاً مِنْہُ، عَصَاہُ، اَخُوہُ یا اَتَوْہُ۔ (۴)اور اگر اس کا ماقبل یائے ساکنہ ہوتو اس کا تلفظ ’’ہِ‘‘ ہوتا ہے جیسے ’’ فِیہِ‘‘ میں اور یہی قاعدہ (ما قبل ساکن ’’یاء‘‘ والا) غائب کی دوسری ضمیروں ’’ ھُما، ھُمْ اور ھُنّ‘‘ پرچلتا ہے مثلاً’’ فِیھِما، فِیھُم اور فِیھنَّ ‘‘کی صورت میں البتہ واحد مؤنث ضمیر ’’ھا‘‘ پر یہ قاعدہ اطلاق پذیر نہیں ہوتا۔

·       ھائے کنایہ کے تلفظ کے مذکورہ بالا قواعد کا تعلق لغت یا نحو سے نہیں بلکہ قراء ۃ اورتجوید سے ہے۔ قرآن کریم میں تو قواعد کے مطابق حرکات لگی ہی ہوتی ہیں لیکن اس ’’ہ‘‘ کے تلفظ میں فرق اور اختلاف کی وجہ سمجھانے کے لئے ہم نے یہ قواعد بیان کئے ہیں  تاکہ آپ بغیر حرکات والی عبارت میں بھی اس کو درست طریقے پر پڑھ سکیں۔

۱:۱:۲ (۶)     [ھُدًی] کا مادہ ’’ھ د ی‘‘ اور وزن اصلی ’’ فُعَلٌ‘‘ ہے۔ اس کی شکل اصلی ’’ھُدَیٌ‘‘ تھی، جو بلحاظ تلّفظ ’’ھُدَیُنْ‘‘ تھا۔ اس میں یائے متحرکہ اپنے ماقبل کے مفتوح ہونے کی بنا پرالف میں بدل گئی یعنی ’’ھُدانْ‘‘ بن گیا۔ اب اس میں دو ساکن (ایک الف دوسرا نون) جمع ہوگئے لہٰذا الف کو گرادیا گیا تو یہ لفظ ’’ھُدَنْ‘‘ رہ گیا۔ اسی کو ’’ھُدًی‘‘ لکھتے ہیں تاکہ معلوم رہے کہ یہ ناقص یائی ہے۔ خیال رہے کہ اسی اوپر بیان کردہ قاعدۂ تعلیل کے مطابق ’’ھُدَیًا‘‘ اور ’’ھُدَیٍ‘‘ (منصوب و مجرور) بھی ’’ھُدًی‘‘ ہی رہ جاتے ہیں یعنی یہ لفظ رفع نصب جر تینوں حالتوں میں ’’ھُدًی‘‘ ہی رہتا ہے۔ اور اب اس کا وزن ’’فُعیً‘‘ رہ جاتا ہے۔ اس لفظ (ھُدًی) کی املا ء اور تلفظ قابلِ غور ہے ۔ اس میں ’’ی‘‘ دراصل ’’الف‘‘ کا کام دیتی ہے۔ یعنی بصورتِ نکرہ یہ ’’ھُدًا‘‘ کی طرح پڑھا جاتا ہے۔ مضاف یا معرف باللام ہوتے وقت اسے ’’ھُدا‘‘ اور ’’الھُدا‘‘ کی مانند پڑھا جاتا ہے۔ یہ قاعدہ اس قسم (ناقص یائی) کے تمام مصادر اور مشتقات پر اطلاق پذیر ہوتا ہے۔ ناقص واوی یائی سے مشتق بعض اور کلمات کے آخر پر ’’ ـًـی ‘‘  آنے کی وجہ بھی تعلیل کا مذکورہ بالا قاعدہ ہے (مثلاً ’’مُصطفیً‘‘میں)۔ [3] اس مادہ (ھدی)سے فعل ثلاثی مجرد کے استعمال کی بات سورۃ الفاتحہ میں ’’اھدنا‘‘ کے تحت گزر چکی ہے۔( ۱:۵:۱ میں)

·       ھُدًی اور ھِدایۃٌ دونوں اس فعل (ثلاثی مجرد) کے مصدر اور ہم معنی اسم بھی ہیں۔ اردو میں لفظ ھدایۃ (باملاء ھدایت) اپنے اصل عربی معنی (رہنمائی) کے ساتھ مستعمل ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ (ھدایۃ)استعمال نہیں ہوا۔ جب کہ ’’ھدی‘‘ لام تعریف کے ساتھ (الھدی) اور اس کے بغیریعنی نکرہ (ھدیً) اور مفرد و مرکب شکل میں۔ قرآن کریم میں دو سو (۲۰۰) کے قریب مقامات پر آیا ہے۔ اور ا س کے متعدد مواقع استعمال سے اس کے معنی میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ بنیادی معنی بھی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔

·       آیت زیر مطالعہ میں ’’ھُدیً‘‘ (مصدر) بمعنی اسم فاعل ’’ھادٍ‘‘ بھی لے سکتے ہیں۔ عربی میں مصدر کا اسم فاعل اور اسم مفعول کے معنی میں استعمال عام ہے۔ ’’رب‘‘ بمعنی اسم فاعل اور ’’کتاب‘‘ بمعنی اسم مفعول تو آپ ابھی پڑھ چکے ہیں۔

۱:۱:۲(۷)     (لِلْمُتَّقِیْنَ)یہ دراصل لِ + المتَّقِین ہے یعنی اس کے شروع میں لام الجر ہے اور ’’المُتَقِین‘‘ معرف باللام بھی ہے۔ اس لفظ (المتقین) کا مادہ ’’وق ی‘‘ اور وزنِ اصلی (بغیر لام تعریف کے) ’’مُفْتَعِلِیْنَ‘‘ ہے۔ جس کی شکل اصلی ’’مَوْتَقِیِیْنَ‘‘ تھی۔ جس میں مثال واوی کے باب افتعال والے قاعدہ کے تحت ’’وْ‘‘ کو ’’تْ‘‘ میں بدل کر اگلی ’’تَ‘‘ میں مدغم کردینے سے لفظ کا ابتدائی حصہ (مَوْتَ) ’’مُتَّ‘‘ میں بدل جاتا ہے پھر’’ق‘‘کے بعد آنے والی یائے مکسورہ کو جو دراصل لام کلمہ ہے) بھی بوجہ ثقل ساقط کر دیاجاتاہے۔ اس طرح لفظ ’’مُتَّقِیْنَ‘‘ حاصل ہوتا ہے۔

·       اس مادہ (وقی)سے، جو لفیفِ مفروق کی ایک مثال ہے، فعل ثلاثی مجرد وَقَی… یَقِیْ (دراصل وَقَیَ یَوْقِیُ) وِقایۃً (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی: ’’…کو… سے بچانا یا بچالینا‘‘ ہوتے ہیں یعنی یہ متعدی بمفعولین (دومفعول اور بغیر کسی صلہ کے آتا ہے یعنی اس کے ہر دو مفعول [جس کو بچایا جائے اور جس (چیز) سے بچایا جائے] مفعول بنفسہٖ (براہِ راست بغیر صلہ کے) آتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس کی بکثرت مثالیں سامنے آئیں گی ــــــ کبھی اس کے دوسرے مفعول سے پہلے مِنْ‘‘ بھی لگتا ہے۔ مثلاً ’’وَقاہٗ اللّٰہُ السُوئِ  یا  مِنَ السوئِ‘‘ تاہم قرآن مجید میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی  ـــ  اس مادہ (وقی) سے ثلاثی مجرد کے علاوہ باب افتعال سے کچھ اَفعال اور کچھ دیگر مشتقات قرآن کریم میں بکثرت (۲۵۵ جگہ) استعمال ہوئے ہیں ( صرف لفظ ’’ الْمُتَّقِین‘‘ چالیس سے زائد جگہ آیا ہے) سب کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔

·       لفظ ’’ مُتَّقِین‘‘ (جس کی رفعی حالت ’’مُتَّقُوْنَ‘‘ہے) کا واحد ’’ مُتَّقٍی‘‘ ہے جو اس مادہ (وقی) سے باب افتعال کے فعل اِتَّقٰی یَتَّقِیْ اِتِقَائً (دراصل اِوْتَقَیَ  یَوْتَقِیُ  اِوْتَقَایًا )سے صیغہ اسم فاعل ہے یعنی دراصل یہ ’’مُوْتَقِیٌ‘‘ (بوزنِ مَفْتَعِلٌ) ہے پھر اوپر متقین کے ضمن میں) بیان کردہ قاعدۂ تعلیل کے مطابق یہ ’’ مُتَّقٍی‘‘ رہ جاتا ہے۔ اس کی جمع سالم مذکر مرفوع ’’مُتَّقُوْن‘‘ (دراصل مُتَّقِیُوْن) اور منصوب ومجرور مُتَّقِیْنَ (دراصل   مُتَّقِیِیْنَ) استعمال ہوتی ہے۔

·       باب افتعال سے اس فعل --- اِتَّقٰی…یتَّقِی اتّقِائً--- کے اصل لغوی معنی تو ہیں ’’…سے اپنی بہت حفاظت کرنا‘‘، ’’… کے بارے میں سخت احتیاط سے کام لینا‘‘، ’’… سے سخت پرہیز کرنا‘‘، ’’… سے بچ کے رہنا‘‘ وغیرہ اور اس سے اس میں ’’… سے ڈرنا یاڈرتے رہنا‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ فعل ’’اِتَّقی‘‘ کا مفعول ہمیشہ بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے۔ اس کی مثالیں آگے آئیں گیـــ اس طرح لفظ ’’مُتَّقٍی‘‘ (جس کی جمع کی ایک صورت زیرِ مطالعہ لفظ ’’مُتَّقِین‘‘ ہے) کا ترجمہ ’’پرہیز گار ‘‘ کرنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس میں بچنا کا بنیادی مفہوم موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس (متّقی) کا ترجمہ ’’ڈرنے والا‘‘، ’’ڈر والا‘‘ یا ’’ڈر رکھنے والا‘‘ بھی کیا جاتا ہے اور اس صورت میں ’’ڈر‘‘ سے مراد ’’اللہ عزوجل کا ڈر‘‘ ہوتا ہے۔ یعنی ’’اللہ کی نافرمانی کے بُرے انجام سے ڈرنے والا‘‘ اس طرح اس لفظ (متقی) کے شرعی اصطلاحی معنی بنتے ہیں: ’’تمام شرعی واجبات کو محض کاغذی اور رسمی کارروائی کے طور پر نہیں بلکہ صحیح معنوں میں پوری توجہ اور احتیاط سے بجا لانے والا‘‘ اور ’’تمام شرعاً حرام اور ممنوع کا موں سے پوری طرح بچنے والا‘‘ اور یہ سب کچھ کسی ظاہری نگرانی یا دباؤ کے بغیر خود بخود (محض اللہ عزوجل کی خاطر) کرنے والاـــ‘‘

 

۲:۱:۲       الاعراب

       [الم] بذاتِ خود صرف تین حروف تہجی ہیں۔ یہ کوئی ’’کلمہ‘‘ نہیں کہ اس کا اعراب بیان کیا جائے۔[4]    تاہم بعض نحویوں نے اس کا اعراب بیان کرنے کا تکلف کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ (۱)یہ محلاً منصوب ہے کیونکہ اس سے پہلے ایک فعل (’’اُتْلُ‘‘ یا ’’اِقْرَأ‘‘) مقدر (Understood)ہے۔ (۲)یا محلاً مرفوع ہے۔ اس صورت میں اس سے پہلے ایک مبتدأ (مثلاً ھذا، ذالک، ھو، ھی وغیرہ) مقدّر مان لیا جاتا ہے۔ (۳)یا یہ مُقْسَمْ بہ ہو کر مجرور (محلاً) ہے۔ اس صورت میں اس سے پہلے ایک حرفِ قَسَم (’’و‘‘ یا ’’بِ‘‘) مقدر مانا جاتا ہے گویا ’’الم‘‘ کی قسم کھائی گئی ہے۔ (۴)’’الم‘‘  کو مبتدأ مرفوع سمجھ کر ’’ذلک‘‘ کو اس کی خبر مانا جائے (یعنی الم۔ یہ کتاب ہے)۔ مگر بعض نحویوں (مثلاً الزجاج) نے اسے غلط قرار دیا ہے۔[5]

درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ سب بے معنی تکلف ہے۔ ’’الم‘‘ کا یہاں کوئی اعراب نہیں یا پھر (۲)نسبتاً معقول صورت ہے۔

        [ذٰلِكَ الْكِتٰبُ] میں ’’ذلک‘‘ اسم اشارہ بعید للمذکر ہے اور بلحاظ اعراب اس میں حسب ذیل امکانات موجود ہیں:۔

(۱) ’’ذلک‘‘ مبتداء مرفوع ہے اور ’’الکتاب‘‘ اس کی خبر (معرفہ) ہو کر مرفوع ہے۔ اور اس میں لام عہد کا ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا: ’’یہ (وہی) کتاب ہے ‘‘ یا ’’یہ ہی تو کتاب ہے‘‘

(۲) ’’ذلک‘‘ اسم اشارہ اور ’’الکتاب‘‘ اس کا مشارٌ الیہ ہے (جسے اس کا بدل بھی کہہ سکتے ہیں) اور یہ پورا مرکب اشاری مبتدأ ہوکر مرفوع ہے۔ اس صورت میں اگلی عبارت ’’لَارَیْبَ فِیہ‘‘ (جس کے اعراب اور ترکیب کی بات ابھی آگے آرہی ہے) اس کی خبر ہے اور ترجمہ ہوگا: ’’یہ کتاب‘‘ ’لا ریب فیہ‘‘ ہے، یعنی ’’ یہ کتاب (وہ ہے) جس میں کچھ بھی شک نہیں ہے۔‘‘

(۳) ’’ذٰلِكَ الْكِتٰبُ‘‘ پورا مرکب کسی مقدر مبتدأ (مثلاً  ھُوَ) کی خبر مرفوع بھی ہوسکتا ہے اس کا ترجمہ ہوگا: وہ ’’یہ کتاب‘‘ ہے۔

        [لَارَیْبَ] میں ’’لَا‘‘ نفی جنس کے لئے ہے اور ’’رَیبْ‘‘ اس ’’لاَ کا اسم ہے جو ہمیشہ مبنی برفتحہ ہوتا ہے۔ [یعنی لائے نفی جنس اور اس کا اسم (اگر مفرد یعنی غیر مرکب لفظ ہو تو) ’’خَمسَۃَ عَشرَ‘‘ وغیرہ (۱۱سے انیس تک) اعداد کی طرح ہمیشہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے۔][6] یہاں ’’رَیبَ‘‘ کو منصوب (یا محلاً منصوب) بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ لائے نفسی جنس کا ’’اسم‘‘ ہے۔

        [فِیْہِ] جار مجرور مل کر ’’لَا‘‘ کے لئے قائم مقام خبر ہو کر محلًا مرفوع ہے۔ گویا دراصل ہے۔ ’’لا ریبَ (موجودٌ یا کائِنٌ)  فِیْہ‘‘ اور اس کا لفظی ترجمہ ہوگا:  ’’ نہیں ہے ـــکسی طرح کا شک ـــ اس میں۔ (یعنی اس کے منجانب اللہ ہونے میں)

(۱)     اور یہ پورا جملہ (لَارَیْبَ فِیْہ) ’’ذلک‘‘کی خبر ثانی ہو کر محلِ رفع میں ہے ( پہلی خبر ’’الکتاب‘‘ ہے) اس طرح ترجمہ ہوگا: ’’ یہ ہی کتاب ہے(اور یہ)’’لاریب فیہ‘‘ہے۔

(۲)    یا یہ جملہ (لَارَیْبَ فِیْہ) ’’ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ‘‘ (مرکب اشاری) کی خبر اوّل ہو کر محل رفع میں ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا: ’’یہ کتاب’’لا ریب فیہ‘‘ ہے‘‘۔

(۳)    یا یہ جملہ (لَارَیْبَ فِیْہ’’) ’’الکتاب‘‘ کا حال (محلًا منصوب) بھی ہو سکتا ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا: ’’یہ کتاب ‘‘لَارَیْبَ فِیْہ " ہو کر آئی ہے۔‘‘ مگر یہ ترجمہ اردو محاورے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو مترجمین نے اس ترکیب کو نظر انداز کر دیا ہے۔

        [ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ]میں ’’ھُدیً‘‘اسم مقصور ہے اس کا اعراب حرکات سے ظاہر نہیں ہوتا بلکہ اس کا اعراب ہمیشہ تقدیری یا محلی ہوتا ہے ’’ لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘جار مجرور مل کر ھُدیسے متعلق ہے اور اس کا ترجمہ ’’ ھُدی‘‘ کی نحوی ترکیب کے مطابق ہوگا (ھُدی= رہنمائی ، لِّلْمُتَّقِيْنَ= متقیوں کے لئے)۔ ترکیبِ نحوی کے لحاظ سے اس پورے مرکب یا جملہ (ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ) کے اعراب میں بھی کئی امکان ہیں مثلاً:

(۱)     یہ ’’ذٰلِكَ‘‘ کی تیسری خبر (پہلی الکتاب ۱؎ ) دوسری (لاریب فیہ۲؎ )ہے ، لہٰذا یہاں ’’ھدًی‘‘ محل رفع میں ہے ۔ اس صورت میں ترجمہ کی ’’ترتیب‘‘ یہ ہوگی: ’’یہ ہی کتاب ۱؎  ہے، لاریب فیہ ہے۔۲؎  ’’ھدی؎۳  للمتقین‘‘ ہے۔

(۲)    یا یہ (ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ) ’’ذلک الکتابُ‘‘ (مرکب اشاری) کی دوسری خبر مرفوع ہے اس صورت میں ترجمہ کی ترتیب یوں ہوگی: ’’یہ کتاب ۔ لاریب ۱؎  فیہ ہے۔ ھدی  ۲؎  للمتقین ہے۔‘‘

(۳)    اور یہ عبارت ایک مقدر مبتداً کی خبر مرفوع بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی (ھُوَ) ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ (اس صورت میں اصل خبر تو ’’ھدًی‘‘ ہوگی اور ’’لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ جار مجرور متعلق خبر ہوگا) اور ترجمہ ہوگا: ’’وہ’’ھدی‘‘ہے واسطے ’’متقیوں‘‘ کے‘‘۔

(۴)    اور یہ بھی ممکن ہے کہ ’’فِيْهِ‘‘ کو شبہ جملہ (جار مجرور) مقدم سمجھا جائے اور ’’ھدًی‘‘ کو اس کا مبتدأ مؤخر مرفوع قرار دیا جائے۔ اس صورت میں لائے نفی جنس کی خبر محذوف سمجھی جائے گی اور وقف ’’لَا رَيْبَ‘‘ پر ہونا چاہئے۔ اور فِيْه ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ پورا جملہ ’’ذلک الکتاب‘‘کی صفت یا خبر سمجھا جائے گا اور ترجمہ ہوگا: ’’اس میں ’’ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ ہے۔‘‘

(۵)    اور ’’ھدی‘‘ کو ’’ذٰلِكَ الْكِتٰبُ‘‘ کا حال (منصوب) بھی سمجھا جاسکتا ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا: ’’یہ کتاب …ھدی للمتقینہو کر آئی ہے۔ ‘‘ مگر یہ ترجمہ بھی اردو محاورے میں غیر مانوس لگتا ہے۔ دیکھئے اوپر(فیہ  میں )(۳)

·       آپ نے مصاحف (نسخہ ہائے قرآن) میں دیکھا ہوگا کہ اس آیت میں دو ’’علامت ِ معانقہ‘‘موجود ہیں۔ اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک علامت ِ معانقہ   پر وقف کر سکتے ہیں۔ دونوں پر نہیں ۔ اگر آپ مذکورہ بالا نحوی تراکیب پر غور کریں تو آپ اس ’’معانقہ   ڔ  ‘‘   کی وجہ سمجھ سکتے ہیں۔ بیشتر تراکیب کے مطابق فیہ کا تعلق اپنے سے پہلی عبارت کے ساتھ ہے (دیکھئے لاریب فیہ کے تحت(۱)، (۲)، (۳)اور ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ کے تحت بھی (۱)، (۲)، (۳) [صرف ایک ترکیب کے مطابق ’’فیہ‘‘اپنے سے بعد والی عبارت سے متعلق ہے (دیکھئے ’’ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ کے تحت (۴)]۔ گویا زیادہ نحوی تراکیب ’’ فِيْهِ‘‘ پر وقف کے حق میں جاتی ہیں ـــاور ’’فِيْهِ‘‘ کو آگے لے جانے (ملانے) سے لانفی جنس کی خبر بھی محذوف ماننا پڑتی ہے۔ تاہم اس ترکیب کو بھی نحویوں (اور قاریوں) نے اہمیت دی ہے۔ چنانچہ تمام افریقی (ماسوائے مصر) مصاحف میں یہ علامت ِ معانقہ نہیں ہوتی بلکہ ’’لَا رَيْبَ‘‘پر ہی علامت ِ وقف دی جاتی ہے۔

 

۳:۱:۲     الرسم

      الۗمّۗ     Ǻ۝ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ فِيْهِ   ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ

        (الم) کی کتابت اس کے تلفظ سے مختلف ہے۔ اس میں لام اور میم کو ملا کر (لم) لکھا جاتا ہے۔ (الف تو اپنے ما بعد کے ساتھ ملا کر لکھا جاسکتا ہی نہیں)۔ نہ تو اسے حروف تہجی کی طرح الگ الگ (ال م) لکھا جاتا ہے۔ (جیسے ہم مادہ کے حروف بتاتے وقت لکھتے آرہے ہیں)۔ اور نہ ہی اسے تلفظ کے مطابق (الف لام میم) لکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں تمام حروف مقطعات (جو بعض سورتوں کی ابتدأ میں آئے ہیں) کے لکھنے کا طریقہ یہی ہے اور یہ رسمِ عثمانی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لئے ان کا تلفظ شفوی (زبانی) تعلیم پر منحصر ہے۔

۳:۱:۲(۱)     [ذٰلِكَ] ہمیشہ بحذف الف لکھا جاتا ہے۔ یعنی ’’ذ‘‘ کے بعد الف نہیں لکھاجاتا۔ اگرچہ پڑھا ضرور جاتا ہے ـــــ نہ صرف قرآن کریم میں ہر جگہ بلکہ عام عربی املاء (رسم قیاسی) میں بھی ہمیشہ یہ لفظ ’’ذلک‘‘اسی املاء (بحذف الالف بین الذال واللام) سے لکھاجاتا ہے چاہے یہی شکل (ذلک) ہو یا اس کے آخر کا کافِ خطاب ضمیر مخاطب کی کسی شکل میں آئے مثلاً ذَلِکُما، ذَ لِکُم، ذَ لِکُن کی صورت میں۔ اس لفظ کی یہ املاء رسم عثمانی کے مطابق ہے اور عربی املاء میں رسمِ عثمانی کے اثرات کا ایک مظہر ہےـــ عربی زبان میں متعدد ایسے کلمات ہیں جن کی املاء آج بھی ان کے تلفظ کے مطابق نہیں بلکہ رسمِ عثمانی کے مطابق غیر قیاسی ہے۔ اس کی مثالیں اسماء اشارہ میں زیادہ ملتی ہیں۔ مثلاً ’’ھاذا‘‘ کی بجائے ’’ھذا‘‘، ’’ھااُلائِ‘‘ کی بجائے ’’ھؤلائِ‘‘ اور ’’اُلَائِک‘‘ کی بجائے ’’اُولٰئِکَ‘‘ لکھتے ہیں۔ قرآن میں بھی اور قرآن سے باہر بھی۔ اس قسم کی کئی مثالیں ہمارے سامنے آئیں گی۔

۳:۱:۲(۲)[ الْكِتٰبُ] کے شروع میں تو ہمزہ الوصل (لام تعریف کا) ہے اس لئے ’’ذلک‘‘ کے ’’ کَ‘‘ کو الکتاب کے ’’لْ‘‘ سے ملا کر پڑھا جاتا ہےـــ ائمۂِ رسم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ لفظ (کتاب) قرآن کریم میں ہمیشہ بحذف الف (کتب) لکھا جاتا ہے یعنی ’’ت‘‘ کے بعد ’’ا‘‘ نہیں لکھاجاتا۔ تاہم پڑھا ’’ کتاب‘‘ ہی جاتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ڈھائی سو (۲۵۰) سے زیادہ دفعہ آیا ہےـــ ان میں سے صرف چار مقررہ مقامات پر (الرعد: ۳۸، الحجر:۴، الکھف:۲۷اور النمل:۱)  اسے باثبات الف (کتاب) لکھا جاتا ہے باقی سب جگہ اسے بحذف الف ہی لکھاجاتا ہے۔ نکرہ ہو یا معرفہ، مفرد ہو یا کسی ترکیب میں آرہا ہو۔  [7] عا م عربی املاء میں اسے ہمیشہ باثبات الف (کتاب) لکھتے ہیں۔

        (لَا رَيْبَ   فِيْهِ) کی املاء عام (قیاسی) املاء ہے۔

[ھدًی] میں ’’د‘‘ کے بعد ’’ی‘‘ (خالی) لکھی جاتی ہے۔ اس لفظ کی یہ املاء رسم عثمانی کے مطابق بھی ہے اور اس کی قیاسی املاء بھی یہی (ھدی)ہے۔ کیونکہ یہ اسم مقصور ـــناقص یائی سے ـــ ہے مگر یہ پڑھا  ’’ھُدَنْ‘‘ جاتا ہے اور اس تلفظ کو ضبط کے ایک خاص طریقے سے ظاہر کیا جاتا ہے جس کا ذکر آگے ’’الضبط‘‘ میں آرہا ہے۔

[لِّلْمُتَّقِيْنَ]دو لام کے ساتھ لکھاجاتا ہے یعنی اس کا رسم بھی عام املاء کے مطابق ہی ہے۔ قاعدہ (قیاس) یہ ہے کہ جب ہمزۃ الوصل کے بعد لام ہو( مثلاً معرف باللام ہو یا الّذی وغیرہ کی صورت میں) اور اس سے پہلے بھی لام الجر یا لام تعجب وغیرہ آجائے تو اس ہمزۃ الوصل کا خطاً اور لفظاً دونوں طرح ساقط ہونا صرف رسم عثمانی کی خصوصیت نہیں بلکہ عام قیاسی املاء کا قاعدہ بھی یہی ہے۔

 

۴:۱:۲     الضبط

الۗمّۗ ۝ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ فِيْهِ   ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ

آیت زیر مطالعہ کے کلمات کو ضبط میں حسب ذیل امور قابل ذکر ہیں:

(۱)   الم کا ضبط اور (۲)باقی کلمات میں مواقع اختلافِ ضبط

(۱)بظاہر ’’الم‘‘ پر کوئی علاماتِ ضبط نہیں ہونا چاہئیں۔ اس لئے کہ تمام حروفِ مقطعات کا تلفظ رسم اور ضبط پر نہیں بلکہ شفوی (زبانی) تعلیم پر منحصر ہے۔ تاہم مصاحف میں اسے مختلف طریقوں سے ’’مضبوط‘‘ کر کے لکھاجاتا ہےـــ قرآن کریم میں حروفِ مقطعات کے ضبط کا عام قاعدہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ عربی زبان کے حروف تہجی میں سے جن حروف کا نام الف پر ختم ہوتا ہے۔ (اور یہ کل گیارہ حروف ہیں با، تا، ثا، حا، خا، را، طا، ظا، فا، ھا اور یا) ان پر علامت ِ ضبط برائے اشباع کھڑی زبر (ــــــٰــــ) یا چھوٹا الف لکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے حروف مقطعات میں ان میں سے صرف پانچ حرف (حؔ، رؔ، طؔ، ھؔ، اور یؔ) آئے ہیںـــ  اور جن (باقی سترہ) حروف تہجی کا نام تین حرف کی املاء ]وسطی ’’الف‘‘ یا ’’یا‘‘] کے ساتھ لکھاجاتا ہے (مثلاً لام، نون، میم، سین، کاف، صاد وغیرہ) ان پر علامت ِ مدّ #  ڈالی جاتی ہے۔ جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس حرف کا نام بولتے وقت (نام کی املاء میں آنے والی ’’ی‘‘ یا الف کو) ذرا کھینچ کرـــ لمبا کر کے بولنا یا پڑھنا ہے۔

·       بعض دفعہ ’’مقطعات‘‘ میں ایسے حرف جمع ہوجاتے ہیں جن میں سے (بلحاظ تلفظ) ایک (پہلے) کا آخری ’’حرف‘‘ اور دوسرے حرف کا (بلحاظ تلفظ) ابتدائی ’’حرف‘‘ ایک ہی ہوتا ہے (جیسے لام اور میم) تو اس کے لئے دوسرے حرف پر علامت ِ تشدید ڈالی جاتی ہے۔ مثلا " الۗمّۗ " تاہم یہ تشدید والا طریقہ ضبط  صرف برصغیر اور بعض افریقی ممالک  [مثلا تیونس،مراکش،غانا،اور لیبیا]میں اختیار کیا جاتا ہے ۔مذکورہ بالا افریقی ممالک میں"الم"کےضبط میں "الف"پر علامت قطع(جو عموما( (#کی شکل میں لکھی جاتی ہے)اور ساتھ فتحہ(ــــــَــــ)بھی ڈالتےہیں بشکل(أَ)اور لام پرمدّ(     #)اور فتحہ(ــــــَــــ)دونوں ڈالتے ہیں اور آخری "میم"پر تشدید(ــــــــّــــــ)اور مد# اور نیچے کسرہ(ــــــِــــ)بھی ڈالتے ہیں۔اسی طرح ان ملکوں میں(ھمزہ)اور حرکات کی صورت کے جزوی اختلاف کو نظرانداز کرتے ہوئے) الم کی مظبوط شکل: "#‘‘ نائیجیریا میں لام اور میم کے درمیان (دراصل لام پر)اور میم کے بعد مدّ ڈالتے ہیں۔(#)چین میں صرف"لام"کے اوپر ایک مدّ ڈالی جاتی ہے(#)عرب ممالک، ترکی، ایران اور سوڈان میں صرف ’’لام‘‘ اور ’’میم‘‘ پرمدّ ڈالنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ایران میں دونوں ’’مدّیں‘‘ اوپر نیچے کرکے (ایک موٹی دوسری باریک) لکھی جاتی ہیں اور لام کے بعد علامت ِ اشباع کھڑی زبر (ــــــٰــــ) بھی لکھ دی جاتی ہے(#) اس طرح مجموعی طور پر ’’الم‘‘ کے ضبط کی کُل چھ صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں جو اس بحث کے آخر پر بطور نمونہ درج کر دی گئی ہیں۔

·       لفظ ’’ھدی‘‘ کاضبط ہر ملک میں یکساں ہے یعنی ’’د‘‘ پر فتحتین یعنی دو زبر (ــًـ)ڈالتے ہیں اور ’’ی‘‘ کو ہر طرح کی علامت ِ ضبط سے خالی رکھاجاتا ہے۔ (تاہم یہ (ــًـ) تنوین نصب کی علامت نہیں ہے جیسے کتاباًیا جنۃًمیں ہے) تمام اسمائے مقصورہ مثلاً ضحیً، فتًی، مصطفیً وغیرہ کے ضبط کا یہی (ھدًی والا) طریقہ ہے۔ اور ان کا اعراب ظاہر نہیں ہوتا۔

(۲)آیت کے باقی کلمات میں اختلافِ ضبط کی حسب ذیل صورتیں موجود ہیں:۔

·       ہمزۃ الوصل کی علامت ڈالنا یا نہ ڈالنا۔ اس کا اثر کلمہ ’’الْكتٰب‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگاـــ ’’ا لْمُتَّقِيْنَ‘‘کے ہمزۃ الوصل کے ساقط ہونے کی وجہ ’’رسم‘‘ میں بیان ہوچکی ہے۔

·       محذوف الف کو ظاہر کرنے کے طریقے کا اختلاف۔ اس کا اثر ’’کتب‘‘ اور ’’ذلک‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

·       یائے ساکنہ ماقبل مکسور پر علامت ِ سکون ڈالنا یا نہ ڈالنا ــــ اور اس کے ماقبل کی حرکت بصورت کسرہ (ــــــِــــ) یا علامت ِ اشباع۔ کھڑی زیر (ــــــٖــــ) لکھنا۔ اس اختلاف کا اثر کلمہ ’’فِيْهِ ‘‘ اور ’’ لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا

·       الف ثابتہ (موجود) ماقبل مفتوح میں علامت ِ فتحہ (ــــــَــــ) کی بجائے علامت ِ اشباع ’’کھڑی زبر‘‘ (ــــــٰــــ) ڈالنا۔ یہ طریقہ صرف ایرانی مصاحف کی کتابت میں پایا جاتا ہے۔ اس کا مظہر کلمہ ’’لا‘‘ کا ضبط ہوگا۔

·       بعض افریقی ممالک میں نون متطرفہ (آخری نون) پر نقطۂ اعجام نہ ڈالنا یا اس نقطے کے موضع (جگہ) کا اختلاف۔ اس کا نمونہ کلمہ ’’ لِلْمُتَّقِيْنَ‘‘ کے ضبط میں سامنے آئے گا۔

·       افریقی ممالک (ما سوائے مصر و سوڈان) اور ایشیائی ممالک میں ’’لا‘‘ کے بارے میں یہ اختلاف کہ اس میں کونسا سرا ’’لام‘‘ اور کونسا ’’الف‘‘ہے اور اس اختلاف کی بنا پر ’’لام‘‘ اور ’’الف‘‘ کی حرکات کے موضع (جگہ) کے بارے میں اختلاف مثلاً یہاں)  (#

·       صرف تجویدی قرآن(پاکستان)میں  راء کی بلحاظ ترقیق یا تفخیم دو الگ صورتیں  (# )استعمال کرنا یہ فرق یہاں کلمہ"ریب"کے ضبط(بلکہ رسم) میں ظاہر ہوگا۔یہاں"#"مفخم ہےلہذا یہ لفظ،ریب،،#کی صورت میں لکھا گیا ہے۔

·        اس طرح اس آیت کے کلمات کی بلحاظ اختلاف ضبط حسب ذیل صورتیں ہمارے سامنےآتی ہیں۔:

شمار آیات کے سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہاں ’’الم‘‘ پر کوفی گنتی کے مطابق سورۃ البقرہ کی پہلی آیت ختم ہوتی ہے۔ (بسم اللّٰہ کو شامل کرکے یا اس کے بغیر بھی) یہی وجہ ہے کہ تمام ایشیائی اور بہت سے افریقی ممالک میں (جہاں کوفی گنتی رائج ہے)  الم(۱) پر آیات نمبر لکھا ہوتا ہے۔ باقی تمام طریقہ شمار آیات کے مطابق (جن میں ’’مدنی‘‘ گنتی بھی ہے جو نائجیریا، سوڈان اور لیبیا میں متداول ہے) سورۃ کی پہلی آیت ’’ لِّلْمُتَّقِيْنَ (۱) پر ختم ہوتی ہے اس طرح ’’الم‘‘ بلکہ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘  بھی پہلی آیت کا حصہ ہیں۔



  [1] مثلا النحوا فی ج 1 ص 298، تحدید النحوص

[2]  دیکھئے روح المعانی ج 1 ص 105

 

[3] جیسا کہ مقدمہ میں بیان ہو چکا ہے ہم اس مفروضے پر چل رہے ہیں کہ آپ ان قواعد (تعلیلات) سے آگاہ ہیں۔ ضرورت ہو تو استحضار کے لئے عربی ’’صرف‘‘ کی کسی کتاب میں ’’ناقص‘‘ کے بیان اور اس کے صیغوں میں ہونے والے تغیرات پر ایک نظر ڈال لیجئے۔

 

 [4] دیکھئے القیسی (مشکل اعراب القرآن) ج۱ ص۱۵

  [5] ابن الانباری (البیان) ج۱ ص۴۳ اور القیسی (مشکل) ج۱ ص۱۵ ـــ خیال رہے کہ ’’غیر ظاہر اعراب‘‘ میں رفع نصب جر تینوں ثابت کردکھانا عام نحوی بازی گری ہے جس کا ایک نمونہ آپ نے یہاں ملاحظہ کیا ہے۔

 

[6]    اگر لا لنفی الجنس کا اسم ’’مرکب‘‘ ہو کر آرہا ہو تو وہ منصوب تنوین (ـــــًـــــ) بھی آتا ہے مثالوں کے لیے دیکھئے تجوید النحو (شوقی ضیف) ص ۱۵۰یا نحو کی کسی کتاب میں لائے نفی جنس کا بیان۔ تاہم قرآن کریم میں یہ (مرکب اسم) کہیں استعمال نہیں ہوا۔

 

[7]   صرف صاحب نثرالمرجان نے ’’خزانۃ الرسوم‘‘ کے حوالے سے ایک پانچویں مقام پر بھی اثبات الف کا ذکر کیا ہے یعنی البقرہ:۱۰۱ میں۔ تاہم علم الرسم کی کسی اور کتاب میں یہ بات بیان نہیں ہوئی۔