سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۰۲ اور ۱۰۳

۲ :۶۲      وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ  ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ۤوَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ   ۭ وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ  ۭ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ   ۭ وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ   ۭ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ ۭ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىھُ مَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ   ڜ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖٓ اَنْفُسَھُمْ ۭ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ (۱۰۲) وَلَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌ   ۭ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ   (۱۰۳)

 

۱:۶۲:۲        اللغۃ

[وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ]

(۱)  ’’وَاتَّبَعُوا‘‘ (اور انہوں نے پیروی کی/وہ پیچھے لگ گئے) ۔ اس میں ابتدائی ’’و‘‘تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور ’’اِتَّبَعُوا‘‘ کا مادہ ’’ت ب ع‘‘ اور وزن ’’اِفْتَعَلُوا‘‘ ہے۔ اِس مادہ سے فعل مجرد (تبِع یتبَع=پیچھے چلنا، پیرو ہونا) کے باب، معنی اور استعمال وغیرہ پر البقرہ:۳۸[۱:۲۷:۲ (۹)] میں بات ہوئی تھی۔

·       زیر مطالعہ لفظ (اِتَّبَعُوا) اِسی مادہ سے بابِ افتعال کا صیغہ ماضی معروف (جمع مذکر غائب) ہے۔ باب افتعال کے اس فعل ’’اِتَّبَعَ. . . . . یَتَّبِعُ  اِتِّبَا عًا‘‘ کے معنی ہیں ’’. . . . . کی پیروی کرنا، . . . . . کے پیچھے لگ لینا، . . . . . کے پیچھے ہولینا، . . . . .کے پیچھے لگ جانا‘‘ وغیرہ۔ یہ فعل متعدی ہے اور (اپنے فعل مجرد کی طرح) اس کا مفعول بھی ساتھ ہی بنفسہٖ آتا ہے اور عموماً مذکور ہوتا ہے (یعنی محذوف نہیں ہوتا)۔ قرآنِ کریم میں اس باب (افتعال) سے اس فعل کے مختلف صیغے ۱۳۶ جگہ آئے ہیں اور صرف ایک جگہ (البقرہ:۱۶۶) میں مفعول غیر مذکور (محذوف) ہے۔ اس کے علاوہ اس سے اسم مفعول کا ایک ہی صیغہ (جمع مذکر سالم) دو جگہ آیا ہے۔

(۲) ’’مَا‘‘ (اس چیز کی جو کہ، اس کی جو) ــــ ’’ مَا ‘‘ موصولہ کے لیے دیکھئے [۱:۲:۲ (۵)]

(۳) ’’ تَتْلُو ‘‘ (پڑھتی ہے/ پڑھتے ہیں)۔ مجرد فعل کے اس صیغے (جس کے ’’رسم‘‘ کی بحث آگے آئے گی) کا مادہ ’’ت ل و ‘‘ ہے اور وزن ’’ تَفْعُلُ ‘‘ ہے۔ اس کے فعل مجرد (تَلَا یَتْلُو یعنی تَلَوَ یَتْلُوُ = پیچھے آنا۔ تلاوت کرنا) کے معنی اور استعمال وغیرہ پر البقرہ: ۲۴ [۱:۲۹:۲ (۹)] میں کلمہ ’’تَتْلُونَ ‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی ــــ یہ صیغہ (تَتْلُو) در اصل تو واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے کیونکہ آگے اس کا فاعل (شیاطین) جمع مکسر آ رہا ہے اِ س لیے اردو میں اِس کا ترجمہ بصورت مذکر ’’پڑھتے ہیں ‘‘ کیا جائے گا  ـــــــ نیزیہ صیغہ تو مضارع کا ہے جو حال اور مستقبل کے لئے آتا ہے مگر زیر مطالعہ عبارت میں یہ یہودیوں کی (ماضی اور حال کی) حالت بیان کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے اور اس سے پہلے ’’اتَّبَعُوا‘‘ کا صیغہ ماضی بھی آیا ہے، لہذا یہاں یہ ’’ تَتْلُو‘‘ ایک طرح سے ’’کَانَتْ تَتْلُو‘‘ کے مفہوم میں ہے اِس لئے اِس کا ترجمہ بصیغہ ماضی استمراری ’’پڑھا کرتے تے، پڑھتے تھے‘‘ کرنا موزوں ہے۔ بعض نے ’’پڑھنے پڑھانے‘‘ کے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اِس کا ترجمہ ’’چرچا کرتے تھے‘‘ کیا ہے۔

(۴) ’’الشَّیٰطِیْنُ‘‘ یہ لفظ اِسی طرح (بصیغہ جمع مگر مضاف) البقرہ: ۱۴ [۱:۱۱:۲ (۴)] میں (’’شَیٰطِینھم‘‘ کی شکل میں) گزر چکا ہے اور اِس کے مادہ وغیرہ کے بارے میں بحث ’’استعاذہ‘‘ میں اور پھر دوبارہ البقرہ: ۳۶ [۱:۲۲:۲ (۱)] میں بسلسلہ کلمہ ’’الشیطٰن‘‘ گزر چکی ہے۔ اِس کے معنی (خصوصاً بصیغہ جمع ہو تو) ’’تمام سرکش اور شیطان صفت جن اور انسان‘‘ ہوتے ہیں۔ اِسی لئے اُردو میں اس کا ترجمہ ’’شیطانوں‘‘ ہی کرلیا جاتا ہے۔ اس کے اسم پر بات آگے ہوگی۔

(۵) ’’عَلیٰ‘‘ اس حرف الجر کے معانی (پر، اُوپر وغیرہ) اور استعمال پر الفاتحہ: ۷ [۱:۶:۱ (۳) ] میں بات ہوئی تھی ــــــ یہ(علیٰ) کبھی کبھی بعض دوسرے حروف الجر (مثلاً بِ، عَنْ، فِی، لِ، مَعَ اور مِنْ) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ [1] زیر مطالعہ عبارت میں یہ ’’فِی‘‘ کے معنی میں آیا ہے یعنی ’’فِی مُلکِ سُلَیمَان‘‘ یا ’’فِی زَمَنِ مُلکِ سُلَیمان‘‘ اس کا یہی استعمال (فِی والا) القصص: ۱۵ میں بھی آیا ہے۔

(۶) ’’مُلْکِ سُلَیْمٰنَ‘‘ اِس کا ترجمہ تو ہے ’’سلیمان کی حکومت یا بادشاہت یا سلطنت‘‘ اور مراد ہے ’’ان کا عہدِ حکومت‘‘ یا ’’ان کی حکمرانی کا زمانہ‘‘۔ کلمہ ’’مُلک‘‘ کے مادہ اور اس سے فعل مجرد کے معنی وغیرہ الفاتحہ : ۴ [۱:۳:۱ (۱)] کلمہ ’’مَالِک‘‘ کے ضمن میں بیان ہوچکے ہیں اور ’’ملَک یملِک‘‘ کے ایک معنی ’’حاکم ہونا، حکمران ہونا‘‘ بھی ہیں اور اِسی سے ’’مَلِکٌ‘‘ بمعنی ’’بادشاہ‘‘ استعمال ہوتا ہے ــــــ لفظ’’مُلْک‘‘ (بمعنی بادشاہی، حکومت، حکمرانی) قرآنِ کریم میں مفرد مرکب معرفہ نکرہ صورتوں میں پچاس کے قریب مقامات پر آیا ہے۔

·       زیر مطالعہ مرکب (اضافی) کا دوسرا لفظ ’’سُلَیْمَان‘‘ (جس کے قرآنی رسم پر آگے بات ہوگی) بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک مشہور نبی کا نام ہے اِسی لئے یہ لفظ غیر منصرف ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک عظیم سلطنت کے حکمران بھی تھے بلکہ ان کا عہد (۹۷۰ تا ۹۴۵ قبل مسیح) بنی اسرائیل کی تاریخ  کا’’سنہری زمانہ‘‘ شمار ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق وہ نبی بھی تھے۔ جبکہ یہودی ان کو صرف ایک عظیم الشان یہودی حکمران سمجھتے ہیں اور وہ اِن کے عہد کے بارے میں جادو وغیرہ کی خرافات میں مبتلا ہوگئے تھے (اور یہ خرافات مسلمانوں میں بھی راہ پا گئی ہیں) جس کی طرف آیت زیر مطالعہ میں اشارہ ہے۔

۱:۶۲:۲ (۲)     [وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفُروْا]

(۱) ’’ وَ مَا ‘‘ (اور نہیں) ’’ وَ ‘‘ عاطفہ اور ’’ مَا ‘‘ نافیہ ہے۔ دیکھئے [۱:۲:۲ (۵)]

(۲) ’’ کَفَرَ ‘‘ (کفر کیا) فعل ’’ کَفَرَ یکفُر ‘‘ کے لئے دیکھئے [۱:۵:۲ (۱)] میں کلمہ ’’ کَفَرُوا ‘‘۔

(۳) ’’سُلَیْمَانُ‘‘ یعنی سلیمان علیہ السلام نے (کفر نہیں کیا تھا)

(۴) ’’ وَلٰکِنَّ ‘‘ (لیکن، بلکہ، مگر) ’’ لٰکِنَّ‘‘  حرفِ مشبہ بالفعل کیلئے دیکھئے [۱:۹:۲ (۸)]

(۵) ’’الشَّیَا طِینَ‘‘ (شیطانوں نے) اِس پر بحث ابھی اوپر گزری ہے۔

(۶) ’’ کَفَرُوا ‘‘ (اُنہوں نے کفر کیا) سیاقِ عبارت (بیان قصہ) کی مناسبت سے یہاں اس کا ترجمہ ’’کفر کرتے تھے‘‘ کرنا موزوں ہے۔

·       یوں پوری عبارت کا ترجمہ بنا ’’سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ کفر تو شیطانوں نے کیا‘‘ ـــــــ قرآن کو یہ تردید اس لئے کرنی پڑی کہ جاہل یہودیوں نے ایسی باتیں (جن کا آگے ذکر آ رہا ہے) حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کردی تھیں۔

۱:۶۲:۲ (۳)     [ یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ]

(۱) ’’ یُعَلِّمُوْنَ‘‘ (وہ سکھاتے ہیں۔) اس صیغۂ فعل کا مادہ ’’ع ل م ‘‘ اور وزن ’’یُفَعِّلُونَ‘‘ ہے۔ بابِ تفعیل کے اِس فعل ’’عَلَّمَ یُعَلِّمُ‘‘ (سکھانا) کے معنی وغیرہ البقرہ: ۳۱ [۱:۲۲:۲ (۱)] میں کلمہ ’’عَلَّمَ ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔ بیانِ قصہ کی بناء پر یہاں اس کا ترجمہ ’’سکھاتے تھے‘‘ کیا جا سکتا ہے۔

(۲) ’’ النَّاسَ ‘‘ (لوگوں کو) اِس لفظ (الناس) کے مادہ اور اشتقاق وغیرہ پر مفصل بحث البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۳)] میں دیکھئے۔

(۳) ’’السِّحْرَ‘‘ (جادو) یہ لفظ یہاں پہلی دفعہ آیا ہے۔ اِس کا مادہ ’’ س ح ر‘‘ اور وزن (لام تعریف کے بغیر) ’’فِعْلٌ‘‘ ہے۔ اِس مادہ سے فعل مجرد زیادہ تر ’’سحَر . . . . . یسحر سِحرًا‘‘ (فتح سے) آتا ہے اور اِس کے مشہور معنی ’’. . . . .  پر جادو کردینا‘‘ ہیں۔  یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ (ساتھ) آتا ہے اور اِس کا اصل مفہوم ’’کسی چیز کو اُس کی اصل حقیقت کی بجائے کسی دوسرے روپ میں دکھانا‘‘ ہے یعنی ’’کسی کی نظر بندی کر دکھانا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’سحَر الشیئَ عَن وَجھِہٖ ‘‘ (اس نے اسے وہ چیز اصل کی بجائے کچھ اور کر دکھائی یا چیز کی اصل حقیقت کو اس سے پھیر دیا، ہٹا دیا) پھر اِسی سے فعل میں دھوکا دینا کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ’’سحَر فلاناً بالشیئِ‘‘ کے معنی ہیں ’’خَدَعَہٗ‘‘ یعنی ’’اس نے فلاں کو اس چیز کے ذریعے دھوکا دیا‘‘ ـــــــ اور  اس کے ایک معنی ’’کسی کے دل و دماغ پر مسلط ہونا یعنی اس کے دل و دماغ پر ایسا قابو پانا کہ گویا وہ اس میں رہے ہی نہیں‘‘ بھی ہیں یعنی ’’سلَب لُبَّہ‘‘ (اس نے اس کی عقل چھین لی) گویا ’’اس پر جادو کا سا اثر کردیا‘‘ ــــــ اسی سے کہتے ہیں ’’سحَرہ بکلامِہٖ‘‘ (اس نے اس پر اپنی باتوں سے جادو کا سا اثر کیا) یا ’’سحرَتْہُ بِعَینھا‘‘ (اس عورت نے اپنی آنکھ سے اس کی مت مار دی)۔ عربی میں چاندی پر سونے کا ملمع کرنے کے لیے یہ فعل بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’سحر الفِضّۃَ‘‘ کے معنی ہیں ’’چاندی پر سونے کا رنگ چڑھا دیا‘‘۔ الغرض اِن تمام افعال میں مشترک معنی ’’کسی کے دل و دماغ پر شدید اثر ڈالنا‘‘ ہیں چاہے وہ اچھا ہو یا بُرا۔ اسی فعل کے ایک معنی ’’کسی کے پھیپھڑوں (یعنی سینے یا چھاتی) میں کوئی چیز مار دینا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ عربی میں پھیپھڑے کو ’’رِئَۃ‘‘ بھی کہتے ہیں اور ’’سُحْرَۃ‘‘ بھی ــــــ اور صاحب المفردات نے ان معنی کی ’’جادو کرنا‘‘ سے مناسبت بتائی ہے (یعنی کسی کے دل (خیالات یا صحت) پر بری طرح اثر انداز ہونا) اور اسی فعل کے ایک معنی ’’کسی چیز کو بگاڑ کے رکھ دینا‘‘ بھی ہیں۔ ’’جادو کرنا‘‘ میں یہ مفہوم بھی موجود ہے۔ باب سمع (سحِر یسحَر) سے اِس کے معنی ’’صبح سویرے کام میں لگنا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ اِس کا مصدر ’’سَحَرٌ‘‘ (صبح ہونا) ہے (بفتح السین والحاء)

·       قرآنِ کریم میں اس فعل مجرد سے تین صیغے تین ہی جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ یہ ’’جادو کردینا‘‘ یا ’’مت مار دینا ــــــ اور ہٹا دینا‘‘ (یعنی ’’أَفِکَ‘ ‘ اور ’’صَرَفَ‘‘) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ خصوصاً المومنون:۸۹ میں تو یہ مؤخر الذکر معنی میں ہی استعمال ہوا ہے جس کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ فعل مجرد کے تین صیغوں کے علاوہ اس مادہ سے مجرد اور مزید فیہ کے بعض مشتقات اور ماخوذ کلمات (سِحْرٌ۔ سَاحِرٌ۔ مُسَحَّرِین۔ سَحَّار۔ سَحَرَۃ۔ سَحَرٌ۔ اَسْحَار۔ مَسْحُور وغیرہ) ساٹھ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ (السِحر) اِس فعل کا ایک مصدر ہے اور فعل کے مذکورہ بالا معانی کی روشنی میں اس لفظ کے معنی ’’جادو، جاذبِ دل و دماغ چیز (سچ ہو یا جھوٹ)، دھوکا یا دھوکے کی بات، جادو بیانی اور جھوٹ‘‘ کی صورت میں بیان ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ معرفہ نکرہ مفرد مرکب صورتوں میں ۲۸ جگہ آیا ہے اور حسب موقع مندرجہ بالا معانی میں سے کوئی ایک مراد لیا جا سکتا ہے۔

·       زیر مطالعہ مقام پر یہ ’’جادو‘‘ ہی کے معنی میں آیا ہے، کیونکہ اگلی (آنے والی) عبارت میں اس کی جو کیفیت بیان ہوئی ہے وہ ان ہی معنی کی تائید کرتی ہے  ــــ صاحب المفردات نے جادو (سِحْر) کی تین اقسام یا اس کے (عام استعمال ہونے والے) تین مفہوم بیان کئے ہیں۔

(۱) محض ہاتھ کی صفائی یا نظر کا دھوکا (نظر بندی)۔ اس لحاظ سے یہ ’’شعبدہ بازی‘‘ کے معنی رکھتا ہے۔ ’’شعبدہ‘‘ اور ’’معجزہ‘‘ میں یہی فرق ہے کہ ’’شعبدہ‘‘ میں چیز کی اصلی حقیقت تو وہی رہتی ہے صرف دیکھنے والے کو ایک دوسرا روپ نظر آتا ہے جبکہ ’’معجزہ‘‘ میں چیز کی اصل حقیقت ہی بدل جاتی ہے۔ فرعون کے جادوگر اپنی شعبدہ بازی اور نظر بندی کے مقابلے پر موسٰی علیہ السلام کے ’’معجزہ‘‘ میں یہی فرق سمجھ کر ہی ’’ہم ایمان لائے‘‘ پکار اُٹھے تھے۔

(۲) ’’سِحْر‘‘ کی دوسری قسم یہ ہے کہ بعض خاص قسم کے شیطانی عملیات اور منتروں سے کسی کی صحت، کاروبار یا اس کے خیالات (مثلاً بغض و محبت) پر اثر انداز ہوا جائے جسے عرفِ عام میں ’’کالا علم‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس میں شیطان اور بعض شیطانی قوتوں سے مدد لی جاتی ہے۔ رہے عملیات اور منتروں کی تاثیر تو یہ بہرحال ایک حقیقت ہے جس کا مشاہدہ اتنے لوگوں نے کیا ہے کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق ناممکن ہے۔ تاہم (جیسا کہ ایسی آیت میں آگے آ رہا ہے) یہ کام دین و ایمان کو برباد کرنے والا ہے۔ مادی دنیا میں اس کی مثال ’’رشوت‘‘ کی دی جا سکتی ہے جس سے کئی مشکل کام کئے اور کرائے جا سکتے ہیں مگر انجام دونوںرشوت دینے اور لینے والے  ــــــــ کا جہنم کی آگ ہے۔

·       آیت زیر مطالعہ میں یہودیوں کے اسی ’’علم‘‘ کے گرویدہ ہونے کا ذکر ہے۔ قرآنِ کریم نے اس ’’علم‘‘ کو نہ تو صاف الفاظ میں مطلقا ً خرافات اور بے حقیقت قرار دیا ہے اور نہ ہی اسے ’’مؤثر بذاتہٖ‘‘ (خود کار تاثیر رکھنے والا) کہا ہے۔ جیسا کہ ہندوؤں، یہودیوں اور بعض دوسری اقوام کا خیال ہے۔ بلکہ اصل نفع و نقصان کا مالک ’’اللہ تعالیٰ‘‘ ہی کو قرار دیا ہے۔ مزید بر آں اس ’’علم‘‘ کے برباد کنندۂ آخرت‘‘ ہونے کو وضاحت اور تاکید سے بیان کیا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

(۳) سِحْر یا جادو کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تصور بعض عجمی (غیر عرب) لوگوں میں پایا جاتا ہے (اور عوامی کہانیوں میں اس کا ذکر ہوتا ہے) کہ بعض لوگ ’’جادو‘‘ کے زور سے کسی انسان کو کسی اور صورت (مثلاً مکھی یا گدھے) میں بدل دیتے ہیں۔ صاحب المفردات لکھتے ہیں کہ اہل علم و دانش کے نزدیک جادو کا یہ تصور بالکل از قسم خرافات ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

·       بہرحال زیر مطالعہ عبارت (یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ) کا ترجمہ تو بنتا ہے ’’وہ سکھاتے ہیں لوگوں کو جادو‘‘ جسے بعض نے ’’سحر کی تعلیم دیتے تھے‘‘ کی صورت دی ہے۔ لفظ ’’سِحْر‘‘ اُردو میں بھی مستعمل ہے اور اس سے مراد عملیات ، منتروں اور ٹونے ٹوٹکے یا ’’کالا علم‘‘ ہی لیا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں بظاہر مندرجہ بالا پہلی قسم (شعبدہ بازی) یا تیسری قسم (طلسمات) کی تعلیم دینا مراد نہیں ہے۔

۱:۶۲:۲ (۴)     [وَ مَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ]

اِس عبارت میں مشکل الفاظ تو صرف تین عجمی اسماء ہیں۔

(۱) ’’ وَ مَا ‘‘ (اور وہ جو کہ) اس کا ترجمہ یہاں دو طرح سے ہوسکتا ہے جس کی وجہ ترکیب نحوی کا فرق ہے۔ اس پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

(۲) ’’ اُنْزِلَ ‘‘ (اُتارا گیا) باب افعال کے اس فعل (جس کا یہ ماضی مجہول صیغہ واحد مذکر غائب ہے) کے معنی وغیرہ کے لئے البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۲)] میں یہی لفظ (اُنْزِلَ) دیکھئے۔

(۳) ’’عَلَی الْمَلَکَیْنِ‘‘ (دو فرشتوں پر)  ــــــ ’’عَلیٰ‘‘ تو معروف حرف الجر ہے جس کے استعمالات پر الفاتحہ:۷ [۱:۶:۱ (۳)]میں بات ہوئی تھی  ــــــ اور’’الْمَلَکَیْنِ‘‘ لفظ ’’المَلَک‘‘ کا تثنیہ مجرور ہے۔ اس لفظ (ملَک بمعنی فرشتہ) کے مادہ و اشتقاق وغیرہ کی مفصل بحث البقرہ:۳ [۱:۲۱:۲ (۲)] میں کلمہ ’’المَلائِکَۃ‘‘ کے ضمن میں ہوئی تھی۔

(۴) ’’بِبَابِلَ‘‘ کی ابتدائی ’’بِ‘‘ (باء) تو حرف الجر ہے جو یہاں ’’فِی‘‘ (میں)کے معنی میں آیا ہے اور ’’بَابِل‘‘ جنوبی عراق کے ایک قدیم شہر کا نام ہے جس کے کھنڈرات دریائے فرات کے مشرقی کنارے کے قریب پائے جاتے ہیں۔ عجمی ہونے کے باعث یہ ایک غیر منصرف اسم ہے۔ اسے انگریزی میں ’’Babylon‘‘ کہتے ہیں۔ اور یہودیوں کی تاریخ سے اس کا خاص تعلق ہے جسے یہودیوں ’’اسیرئ بابل‘‘  کا زمانہ ــــــ (Babylonian Captivty) کہتے ہیں۔

(۵) ’’ھَارُوتَ وَ مَارُوتَ‘‘ یہ بھی دو نام ہیں جو عجمی ہونے کے باعث غیر منصرف بھی ہیں ـــــ بظاہر یہاں یہ ’’بابل والے دو فرشتوں‘‘ کے نام کے طور پر آئے ہیں جسے بعض مفسرین نے ’’رمزیہ‘‘ (Symbolic) قرار دیتے ہوئے فرشتہ سیرت (نیک ) انسانوں کے نام سمجھا ہے۔ بہرحال اِس حصۂ  آیت کا ترجمہ بنا ’’اور وہ جو اتارا گیا بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت (نامی) پر‘‘ بعض نے ’’اُتارا/ نازل کیا گیا‘‘ کی بجائے ’’(جو) اُترا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو محاورے اور مفہوم کے لحاظ سے ہی درست کہا جا سکتا ہے ورنہ بظاہر تو یہ ’’اُنزِلَ‘‘ کی بجائے ’’نَزَلَ‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے ـــــ اِس ترجمے کے بعض دوسرے پہلوؤں پر حصہ ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔

۱: ۶۲: ۱ (۵)     [وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُولَا . . .]

عبارت میں کوئی نیا لفظ نہیں ہے۔ کلمات کا ترجمہ مع گزشتہ حوالہ درج ذیل ہے۔

(۱) ’’وَمَا‘‘ (اور نہیں) یہاں ’’مَا‘‘ نافیہ ہے دیکھئے البقرہ:۳ [۲: ۲: ۱ (۵)]

(۲) ’’یُعَلِّمَانِ‘‘ (وہ دونوں سکھاتے ہیں) اس کا ترجمہ اوپر والے ’’اور نہیں‘‘ سے ملا کر ہوگا یعنی ’’وہ دونوں نہیں سکھاتے‘‘۔ یہ صیغہ (جس کے رسم قرآنی پر آگے ’’الرسم‘‘میں بات ہوگی) فعل ’’عَلَّمَ یُعَلِّمُ‘‘ = (سکھانا، تعلیم دینا) سے مضارع معروف کا صیغہ تثنیہ مذکر غائب ہے۔ مزید دیکھئے البقرہ:۳۱ [۲: ۲۲: ۱ (۱)]میں۔

(۳) ’’مِنْ اَحَدٍ‘‘ (کسی ایک کو بھی) کلمہ ’’مِنْ‘‘ کے استعمالات کے لیے دیکھئے البقرہ:۳ [۲: ۲: ۱ (۵)] اور ’’اَحَد‘‘ کے مادہ اور اشتقاق کے علاوہ اس کے مثبت منفی طریقِ استعمال پر البقرہ: ۹۶ [۲: ۵۹: ۱ (۵)]  میں مفصل بات ہوئی تھی۔ یہاں لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’کسی ایک بھی میں سے کو‘‘۔ یہاں ’’کو‘‘ کیوں لگا ہے اس پر حصہ ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔

(۴) ’’حَتّٰی‘‘ (یہاں تک کہ۔ جب تک کہ نہ. . . .) اس حرف کے ناصب اور جار ہونے کے لحاظ سے استعمال پر البقرہ:۵۵ [۲: ۳۵: ۱ (۲)] میں مفصل بات ہوئی۔ اُردو میں اگر اس کا ترجمہ ’’یہاں تک کہ . . . ‘‘ سے کیا جائے تو بعد والے جملے (یا فعل) کا ترجمہ ’’مثبت‘‘ فعل کے ساتھ ہوتا ہے اور اگر ’’جب تک کہ . . ..‘‘ سے ترجمہ کریں تو اُردو میں ترجمہ ’’منفی‘‘ فعل کے ساتھ ہوگا، چاہے عربی میں اِس کے بعد ’’مثبت‘‘ فعل بھی ہو۔ جیسا کہ اگلے فعل سے ظاہر ہوگا۔

(۵) ’’یَقُولَا‘‘ (. . . .وہ دونوں کہتے ہیں یا (جب تک) وہ دونوں کہہ نہیں لیتے) فعل ’’قَالَ یَقُولُ=کہنا‘‘ جس سے ’’یَقُولَا‘‘ فعل مضارع منصوب صیغہ تثنیہ مذکر غائب ہے) کی لغوی بحث البقرہ:۸ [۲: ۷: ۱ (۵)] میں گزر چکی ہے۔

·       یوں اس حصہ آیت کا ترجمہ بنتا ہے ’’اور وہ دونوں نہیں سکھاتے کسی ایک کو بھی جب تک کہ وہ دونوں کہہ نہیں لیتے‘‘ ـــــــ بیانِ قصہ کی بناء پر یہاں بھی مضارع کا ترجمہ (کَانَا یُعَلِّمَانِ کی طرح) فعل ماضی سے کرنا درست ہے، یعنی ’’نہیں سکھاتے تھے/سکھلاتے تھے‘‘ بعض نے محاورہ کی بنا پر ’’سکھانے‘‘ کی بجائے ’’بتاتے‘‘ یا ’’بتلاتے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے کیونکہ اس میں ’’خفیہ‘‘ راز داری کی بات کا مفہوم ہے۔ اسی طرح بیشتر حضرات نے ’’مِنْ اَحَدٍ‘‘  کا ترجمہ صرف ’’کسی کو‘‘ ہی کردیا ہے۔ اس میں ’’مِنْ‘‘ والا زور نہیں ہے۔ صرف ایک دو نے ’’کسی کو بھی‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو زیادہ موزوں ہے۔ اکثر نے یہاں ’’حَتّٰی‘‘ کا ترجمہ ’’جب تک کہ نہ. . . ‘‘ سے کرتے ہوئے ’’یَقُولَا‘‘ کا ترجمہ ’’کہہ دیتے تھے، کہہ لیتے‘‘ سے کیا ہے اور چونکہ یہاں ’’حَتّٰی‘‘ کے بعد ایک ’’اَنْ‘‘ (کہ۔یہ کہ)مقدر ہے اس لیے ترجمہ ’’یہ نہ کہہ دیتے، یہ نہ کہہ لیتے‘‘ سے کیا گیا ہے۔ یہ عبارت نا مکمل جملہ ہے کیونکہ ’’یَقُولَا‘‘ کا مفعول (مقول) ابھی بیان نہیں ہوا جو آگے بیان ہورہا ہے۔

۲: ۶۲: ۱ (۶)     [. . . . .اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَاتَکْفُرْ]

اِس جملہ میں نیا لفظ ’’فِتنۃ‘‘ ہے جس کی لغوی وضاحت کی ضرورت ہوگی۔ باقی کلمات کا صرف اُردو ترجمہ اور گزشتہ حوالہ لکھنا کافی ہوگا۔

(۱) ’’. . . .اِنَّما نَحْنُ‘‘ (سوائے اس کے نہیں کہ ہم۔ ہم تو صرف ہم تو بس) ’’نَحْنُ‘‘ تو جمع متکلم کی ضمیر مرفوع بمعنی ’’ہم‘‘ ہے۔ ’’اِنَّما‘‘ (جو حرف مشبہ بالفعل ’’اِنَّ‘‘ اور ’’مَا‘‘ کافّہ مرکب ہے) اس کے معنی اور استعمال پر سب سے پہلے البقرہ:۱۱ [۲: ۹: ۱ (۵)] میں مفصل بات ہوئی تھی۔

(۲) ’’فِتْنَۃ‘‘ اس لفظ کا مادہ ’’ف ت ن‘‘ اور وزن ’’فِعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’فتَن . . . . یفتِن فَتْنًا وَ فِتْنَۃً وَ فُتُوْنًا وَ مَفْتُونًا‘‘ (ضَرب سے) آتا ہے۔ آخری تین مصدر قرآنِ کریم میں آئے ہیں پہلا نہیں آیا۔ (۱) اس کے بنیادی معنی ہیں ’’. . . . . . . .کو پرکھنا، کا امتحان لینا، کو آزمانا‘‘۔ اور اس کی اصل ’’سونے (چاندی وغیرہ) کو آگ پر پگھلا کر اس کے عمدہ یا خراب ہونے کا پتہ چلانا‘‘ ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’فتَن الصائغُ الذّھبَ‘‘ (سنار نے سونے کو پرکھنے کے لئے پگھلایا) اور اسی سے اس کے ایک معنی ’’آگ پر رکھنا یا آگ میں جلانا‘‘ بھی ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہے ’’ يَوْمَ هُمْ عَلَي النَّارِ يُفْتَنُوْنَ  ‘‘ (الذاریات:۱۳) یعنی وہ آگ میں جلائے جائیں گے۔ (۲) اور اسی سے اس میں ’’کسی کو مصیبت یا تکلیف میں ڈالنا‘‘ کے معنی بھی پیدا ہوتے ہیں جیسے ’’ اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ‘‘ (البروج:۱۰) میں ہے یعنی ’’انہوں نے اہل ایمان مَردوں اور عورتوں کو اذیت میں ڈالا‘‘ (۳) اور اسی لئے اس فعل کے ایک معنی ’’ . . .کو لبھا لینا‘‘ بھی ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’فتَنَتْہُ المَرأۃُ‘‘ عورت نے اس کو لبھا لیا یعنی آزمائش یا مصیبت میں ڈال دیا۔ قرآنِ کریم میں ان معنی میں فعل کا صیغہ تو کوئی نہیں آیا مگر لفظ ’’فتنۃ‘‘ (دل کو بہت پسند آنے والی شے کے معنی میں) متعدد جگہ استعمال ہوا ہے۔ بعض کتب لغت (مثلاً القاموس، البستان، المنجد، اللسان) میں لکھا ہے کہ ’’فتَن‘‘ لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے یعنی ’’فَتَنَ الرَّجُل فلاناً ففَتَن‘‘ کے معنی ہیں ’’آدمی نے فلاں کو آزمائش یا مصیبت میں ڈالا اور وہ (اس میں) پڑ گیا‘‘یا مثلاً’’فتَن الرّجلُ بالمرأۃِ‘‘ (آدمی عورت کی وجہ سے فتنہ میں پڑا)۔ اگرچہ اللسان میں اسے کمزور استعمال کہا گیا ہے۔ دوسرے معنی (فتنہ میں پڑنا) کے لیے اس کا صیغہ مجہول ہی استعمال ہوا ہے۔ اس فعل کا مفعول ہمیشہ بنفسہ آتا ہے۔ قرآنِ کریم میں جہاں بھی یہ فعل آیا ہے اس کا مفعول ساتھ مذکور ہوا ہے اور جس چیز کے ذریعے کسی چیز کو آزمائش میں ڈالا جائے اور پرکھا جائے اس پر ’’بِ‘‘ کا صلہ بھی آتا ہے اور ’’فِی‘‘ کا بھی۔ جیسے قرآنِ کریم میں ہے ’’فُتِنْتُم بِہٖ‘‘ (طٰہٰ:۹۰) یعنی ’’تم اس کے ذریعے آزمائش میں ڈالے گئے‘‘ اور ’’لِنَفْتِنَھُمْ فِیہِ‘‘ (طٰہٰ:۱۳۱، الجن:۱۷) یعنی ’’تاکہ ہم ان کو اس میں یا اس کے ذریعے آزمائیں)۔ بعض دفعہ یہ فعل ’’بہکانا‘‘ کے معنی میں آتا ہے (کہ یہ بھی آزمائش یا مصیبت کی ایک شکل ہے) اس صورت میں اس کے دوسرے مفعول (جس سے بہکا دیا جائے) پر ’’عَن‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ یہ استعمال بھی قرآنِ کریم میں دو جگہ آیا ہے ’’ ….اَنْ يَّفْتِنُوْكَ  عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْك. . . ‘‘ (المائدہ:۴۹) اور ’’ لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ. . . ‘‘ (الاسراء:۷۳)ـــــــ  ان کے علاوہ اس فعل کے بعض اور استعمالات بھی ہیں جو قرآنِ کریم میں نہیں آئے۔

·       الغرض اس فعل کے بنیادی معنی (آزمائش میں ڈالنا) اس کے تمام استعمالات پر مشترک نظر آتے ہیں، اگرچہ اس کا ترجمہ بعض دفعہ ’’مصیبت میں ڈالنا، ایذاء پہنچانا، حملہ آور ہونا، سزا دینا، بھٹکا دینا‘‘ کی صورت میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اس فعل مجرد (فتَن یفتِن) سے ماضی اور مضارع کے معروف اور مجہول مختلف صیغے ۲۳ جگہ آئے ہیں۔ اس سے مزید فیہ کے افعال اگرچہ عام عربی میں آتے ہیں تاہم قرآنِ کریم میں ایسا کوئی فعل نہیں آیا۔ اور اس مادہ سے مشتق اور ماخوذ مختلف کلمات (مثلاً فِتنَۃ، مَفتُون، فَاتِنِین وغیرہ) تیس سے زائد مقامات پر آئے ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’فِتْنَۃٌ‘‘ (جو اس فعل کا ایک مصدر بھی ہے) کے بنیادی معنی ’’آزمائش اور امتحان‘‘ ہی ہیں لیکن سیاق و سباق عبارت کے لحاظ سے اس کا ترجمہ ’’ابتلاء، ایذاء، تکالیف، گمراہی، دھوکہ، فساد، جھگڑا، اختلاف، فتنہ انگیزی، خانہ جنگی، حجت، معذرت، تختہ مشق (بننا)، جنون، دشمن اور زینت‘‘ سے کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً مال اور اولاد کو قرآنِ کریم میں ایک جگہ  ’’زِینَۃ‘‘ دوسری جگہ ’’فِتنۃ‘‘ اور تیسری جگہ ’’عَدُوّ‘‘ بھی کہا  گیا ہے۔ ان معانی کا آپس میں تعلق ظاہر ہے۔

(۳) ’’فَلَاتَکْفُرْ‘‘ (سو تو کفر نہ کر۔ ایمان نہ کھو‘‘۔ فعل ’’ کفَر یکفُر‘‘ اب تک کئی دفعہ آچکا ہے۔ زیر مطالعہ صیغہ ’’لَاتَکْفُرْ‘‘ (ابتدائی ’’فَ‘‘ تو عاطفہ سببیہ ہے) اس فعل سے صیغہ نہی بروزن ’’لَاتَفْعُلْ‘‘ ہے۔ مزید دیکھئے البقرہ۶ [۲: ۵: ۱ (۱)]

·       یوں اس عبارت (اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ . . . (کہ) سوائے اس کے نہیں کہ ہم آزمائش ہیں سو تو کفر نہ کر‘‘ ـــــــ جیسا کہ’’مفردات‘‘ میں بیان ہوا ہے۔ اکثر حضرات نے ’’اِنَّمَا‘‘ کا ترجمہ ’’تو، بس، صرف، نری‘‘ کے ساتھ کیا ہے یعنی (نَحْنُ سمیت) ’’ہم تو، ہم تو نری، ہم تو بس‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ہے جو اُردو محاورے کاتقاضاہے۔ ’’فَلَا تَکْفُرْ‘‘ کا ترجمہ ’’سو تو کافر مت ہو، ہیں کافر نہ بن جائیو، تو اپنا ایمان نہ کھو، تم کفر میں نہ پڑو، تم کفر اختیار نہ کرلینا‘‘ سے بھی کیا گیا ہے، سب کا مفہوم یکساں ہے۔ البتہ بعض تراجم میں تاکید کا پہلو زیادہ ہے۔ ’’فِتْنَۃٌ‘‘  کا ترجمہ یہاں ’’آزمائش‘‘‘ کے علاوہ ’’امتحان، آزمانے کو، آزمائش کے لیے‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ بعض نے ’’ذریعۂ آزمائش و امتحان‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اصل عربی میں ’’ذریعہ‘‘ کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔

۲: ۶۲: ۱ (۷)     [فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجہٖ]

بالکل نیا (پہلی دفعہ آنے والا) لفظ تو اس عبارت میں ’’المرء‘‘ ہے، باقی کلمات کا اصل مادہ یا موجودہ صورت ہی پہلے گزری ہے۔ تفصیل یوں ہے:

(۱) ’’فَیَتَعَلَّمُوْنَ‘‘ (پس وہ سیکھتے ہیں) اس صیغہ فعل کا مادہ ’’ع ل م‘‘ اور وزن (ابتدائی ’’فَا‘‘نکال کر) ’’یَتَفَعَّلُونَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (علِم یعلَم =جاننا) پر البقرہ:۱۳ [۲: ۱۰: ۱ (۳)] میں بات ہوچکی ہے۔ ’’یَتَعَلَّمُوْنَ‘‘ اس مادہ سے باب تفعّل کا فعل مضارع معروف جمع مذکر غائب ہے۔ باب تفعل سے فعل ’’تَعَلَّمَ . . .یَتَعَلَّمُ تَعَلُّمًا‘‘ کے معنی ہیں ’’. . . . . کو سیکھنا‘‘ یعنی ’’کسی چیز کی تعلیم حاصل کرنا‘‘۔ یہ فعل متعدی ہے

تاہم اردو میں اس کے مفعول پر ’’کو‘‘ نہیں لگتا کیونکہ فعل ’’سیکھنا‘‘ کا یہ مفعول اردو میں بنفسہٖ آتا ہے۔ یہاں بھی فعل مضارع (یَتَعَلَّمُوْنَ) کا ترجمہ بیانِ قصہ کی مناسبت سے فعل ماضی میں (سیکھتے تھے۔ سیکھ لیتے تھے وغیرہ سے) کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں باب تفعل کے اس فعل سے صرف یہی ایک صیغہ فعل (یَتَعلَّمُونَ) صرف اسی زیر مطالعہ آیت (البقرہ:۱۰۲) میں ہی دوبار آیا ہے۔

(۲) ’’مِنْھُمَا‘‘ (ان دونوں سے ) تثنیہ کی ضمیر مجرور (ھُمَا) یہاں ان دو فرشتوں (المَلَکَین) کے لیے ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ ’’مِنْ‘‘ حرف الجر ہے۔

(۳) ’’مَا‘‘ (وہ جو کہ) بعض نے ’’مَا‘‘ موصولہ کا وضاحتی ترجمہ ’’وہ چیز جو، وہ جادو جو، وہ سحر جو، وہ باتیں جو‘‘ کی صورت میں کردیا ہے جو مفہوم کا تقاضا ہے۔

(۴) ’’یُفَرِّقُونَ‘‘ (وہ جدائی ڈال دیتے ہیں) اس کا مادہ ’’ف ر ق‘‘ اور وزن ’’یُفَعِّلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (فرَق یفرِق=پھاڑنا، ڈرنا) کے معنی و استعمال کی بات البقرہ:۵۰[۲: ۳۲: ۱ (۱۰)] میں ہوئی تھی۔ یہ لفظ (یُفَرِّقُونَ) اس مادہ سے باب تفعیل کا مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس فعل ’’فرَّق . . . . . یُفَرِّق تفریقاً‘‘ کے معنی ہوتے ہیں ’’ . . . . . الگ کردینا، کو بکھیر دینا، جدا کردینا‘‘۔ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے جیسے ’’ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ ‘‘ (الروم: ۳۲) میں ہے یعنی ’’انہوں نے اپنے دین کو الگ الگ کردیا، بکھیر دیا‘‘ یا ’’دین میں تفرقہ ڈالا‘‘ اور اسی سے کہتے ہیں ’’فرّق الشَّعرَ‘‘ (اس نے بالوں میں مانگ نکالی) یہ استعمال قرآنِ کریم میں نہیں آیا۔ اسی سے اس فعل میں ’’دو چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا یا ان میں جدائی ڈال دینا‘‘  کا مفہوم پیدا ہوتا ہے مگر اس استعمال میں اس فعل کے بعد ’’بَیْنَ‘‘ (کے درمیان) ضرور آتا ہے (اور ’’بَیْنَ‘‘ کے بعد وہ دونوں چیزیں جن میں جدائی ڈال دی جائے بطور مضاف الیہ آتی ہیں) اسی (’’بَیْنَ‘‘ والے) استعمال میں اس فعل کے معنی ’’ . . . . . میں  تمیز کرنا یا . . . . . کے  درمیان فرق روا رکھنا‘‘ بھی ہوتے ہیں اور یہی فعل  بعض دیگر معانی مثلا ’’تقسیم کرنا (عَلٰی یا  فِی کے صلہ کے ساتھ) یا خوف دلانا‘‘ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے مگر یہ استعمال بھی قرآنِ کریم میں نہیں آیا۔ قرآنِ کریم میں اس فعل سے مختلف صیغے ۹ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سات جگہ تو یہ ’’بَیْنَ‘‘ والی ترکیب سے (جدائی ڈالنا، تفرقہ پیدا کرنا، فرق کرنا کے معنی میں) استعمال ہوا ہے اور دو جگہ مفعول بنفسہٖ کے ساتھ (’’ایک ہی چیز کے حصے بخرے کردینا‘‘ کے معنی میں) آیا ہے۔ یہاں بھی (بیانِ قصہ کی بناء پر) اس فعل کا ترجمہ بصورتِ ماضی کیا جا سکتا ہے یعنی ’’جدائی ڈال دیتے تھے‘‘ تاہم چونکہ وہ یہ کام کرتے چلے آئے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں اس لیے ہی عبارت میں صیغہ مضارع استعمال ہوا ہے۔

(۵) ’’بِہٖ‘‘ (اس کے ذریعے، اس کے ساتھ) یہاں ’’باء‘‘ سببیہ ہے اور ضمیر مجرور ’’ہ‘‘ ’’مَا‘‘ (یتَعلَّمون منھما ’’مَا‘‘ والا) موصولہ کی ضمیر عائد ہے۔ اس کا ترجمہ ہے (وہ چیز) ’’جس سے/جس کے ذریعے‘‘۔

(۶) ’’بَیْنَ . . . . . ‘‘(. . . . . کےدرمیان) اس کلمہ ظرف کے معنی اور استعمال پر البقرہ:۶۶ [۲: ۴۲: ۲ (۵)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

(۷) ’’ . . . . . المَرءِ‘‘ (مرد کے. . . . .) یہ لفظ یہاں مذکورہ بالا ظرف (بَیْنَ کا پہلا مضاف الیہ ہے (دوسرا آگے  آرہا ہے)۔ کلمہ ’’المرء‘‘ کا مادہ ’’م ر ء‘‘ اور وزن (لام تعریف کے بغیر) ’’فَعْلٌ‘‘ ہے (لفظ ’’المرء‘‘ عبارت میں مجرور بالاضافہ آیا ہے) اس مادہ سے فعل مجرد ’’مَرَأَ وَ مَرِیَٔ یَمْرَأُ‘‘ (باب فتح اور سمع سے) اور ’’مَرُؤَ یَمْرُؤُ‘‘ (کرُم سے) آتا ہے اور مصدر تینوں صورتوں میں ’’مَرَاءَۃٌ‘‘ ہی رہتا ہے اور تینوں صورتوں میں اس کے معنی ’’ . . . . . خوشگوار اور مزیدار ہونا‘‘ ہیں۔ اس کا فاعل عموماً ’’الطعام‘‘ ہوتا ہے مثلاً کہیں گے ’’مَرَأَ وَ مَرِیءَ  وَ مَرُؤَ الطَّعامُ مَراءَۃً‘‘ (کھانا خوشگوار ہوا۔ یعنی اس کے کھانے میں ذائقے وغیرہ کے لحاظ سے کوئی رکاوٹ نہ تھی بلکہ اسے ذوق و شوق سے کھایا جا سکتا تھا) اسی کا اُردو ترجمہ ’’پچنا‘‘ یا ’’پچتا ہونا‘‘ بھی کیا جاتا ہے اور ’’مزیدار‘‘ ہونا بھی  ـــــــ یہ فعل بنیادی طور پر لازم ہے اور کبھی یہ (صرف) باب ’’فتَح‘‘ سے متعدی بمعنی ’’کسی کو خوشگوار لگنا یا پسند آنا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے مگر اس صورت میں اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا فعل ’’ھَنَأَ یَھْنَأُ‘‘ یا ’’ھَنِئَ یَھْنَأُ ھَنْأً‘‘ (فتح اور سمع سے) اکٹھا مل کر استعمال ہے، معنی اس کے بھی خوشگوار اور مزیدار ہونا ہیں، مثلاً کہتے ہیں ’’ھَنَأَنِی و مَرَأنِی الطعامُ‘‘ (کھانا مجھے رچتا پچتا یعنی مزیدار لگا یا مجھے عمدہ معلوم ہوا) صرف اکیلا ’’مَرَأَنِی‘‘ اس معنی کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس صورت میں بابِ افعال سے فعل آتا ہے مثلا کہیں گے ’’اَمْرَأنِی الطعامُ‘‘ (کھانے نے مجھے مزہ دیا یا مجھے خوشگوار لگا) یہ دو ہم معنی افعال ’’ھنَأَ‘‘ اور ’’مَرَأَ‘‘ کا مل کر استعمال ہونا آگے چل کر سورۃ النساء:۴ کے معنی سمجھنے مدد دے گا۔

·             مندرجہ بالا استعمال کے علاوہ صرف بابِ سمع سے فعل ’’مرِئَ یمرَأُ‘‘ کے ایک معنی ’’عورت جیسی چال ڈھال یا اندازِ گفتگو ہونا‘‘ بھی ہیں، مثلاً کہیں گے ’’مرِئَ الرَّجلُ‘‘ (وہ آدمی عورت کی طرح حرکتیں یا باتیں کرنے لگا) اور صرف باب کرُم سے ’’مَرُأَ یَمْرُؤُ‘‘کے معنی ’’جوانمرد اور صاحبِ مروت ہونا‘‘ بھی ہوتے ہیں یعنی ’’مَرُأ الرّجلُ‘‘ (مرد با مروت تھا)

·                                            یہ اس فعل کے استعمال کی چند صورتیں ہیں۔ تاہم قرآنِ کریم میں اس فعل سے سی طرح (نہ مجرد نہ مزید فیہ) کا کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں معنی (کھانے کا خوشگوار، مزیدار ہونا) سے مشتق دو لفظ سورۃ النساء:۴ میں آئے ہیں، ان پر حسب موقع بات ہوگی۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’المَرء‘‘ اسی مادہ سے ماخوذ ایک لفظ ہے اور اس کے معنی ’’مرد‘‘ (الرجل) ہوتے ہیں جس کی مؤنث ’’المرأۃ‘‘ ہوتی ہے۔ بصورت مذکر نکرہ یہ لفظ عموماً ’’اِمْرُؤٌ‘‘ استعمال ہوتا ہے اور اس لفظ کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اعراب میں صرف آخری ایک حرف میں نہیں بلکہ آخری دو حرفوں میں تبدیلی آتی ہے مثلاً رفع میں ’’اِمْرُؤٌ‘‘ نصب میں ’’اِمْرَأً‘‘ اور جر میں ’’اِمْرِیءٍ‘‘ ہوجاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ بصورتِ نکرہ ان تینوں اِعراب کے ساتھ استعمال ہوا ہے (مثلاً رفع کے لیے دیکھئے النساء:۱۷۶، نصب کے لیے دیکھئے مریم: ۲۸ اور جر کے لیے دیکھئے النور:۱۱) اگرچہ بعض اہل عرب تینوں حالتوں میں اس کی ’’ر‘‘ کو مفتوح (رَ) اور بعض تینوں حالتوں میں ’’ر‘‘ کو مضموم (رُ) ہی بولتے ہیں تاہم قرآنِ کریم میں یہ لفظ بصورت نکرہ ’’ڈبل اعرابی تبدیلی‘‘ کے ساتھ ہی استعمال ہوا ہے۔

·       لفظ ’’اِمْرُؤٌ‘‘ اور اس کی تانیث ’’اِمْرَأَۃٌ‘‘ (جس کی ’’ر‘‘ اور ہمزہ (ء) تینوں صورتوں میں مفتوح ہی رہتے ہیں، تبدیلی صرف آخری تائے تانیث میں آتی ہے) ــــــ ان دونوں لفظوں کا ابتدائی ہمزہ ہمزۃ الوصل ہے یعنی ’’ابن‘‘ اور ’’اسم‘‘ کی طرح ہے کہ پہلے ’’وَ‘‘ وغیرہ لگنے سے اسے ملا کر پڑھتے وقت یہ ہمزہ لکھا تو جاتا ہے مگر تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے جیسے ’’وَامْرُءٌ‘‘، وَابْنٌ یا وَاسْمٌ ‘‘ میں ہوتا ہے۔

·       البتہ ان دونوں لفظوں پر اس (ہمزۃ الوصل والی) شکل میں لام تعریف نہیں لگتا یعنی ’’الاِمْرُءُ‘‘ یا  ’’الاِمْرَأَۃُ‘‘ استعمال نہیں ہوتا۔ بلکہ اس صورت میں یہ لفظ ’’المَرْءُ‘‘ اور ’’المَرْأَۃ‘‘ کی صورت میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اس کی مذکر شکل   ’’المَرْءُ‘‘ چار جگہ استعمال ہوئی ہے جن میں سے ایک یہ زیر مطالعہ مقام بھی ہے عورت کے لیے  معرف بالّلام   لفظ  ’’المَرْأَۃ‘‘ کہیں نہیں آیا بلکہ عورت کے لیے  وہی ہمزۃ الوصل والی نکرہ صورت ہی ہر جگہ استعمال ہوئی ہے۔ عام عربی میں یہ دوسری صورت (ہمزۃ الوصل کے بغیر والی) بصورت نکرہ ’’مَرْءٌ‘‘ اور ’’مَرْأَۃٌ‘‘ بھی استعمال ہوتی ہے مگر یہ صورتِ نکرہ بھی قرآن میں استعمال نہیں ہوئی۔

·       لفظ ’’اِمْرُءٌ‘‘ یا ’’مَرْءٌ‘‘ کی جمع ’’رِجالٌ‘‘ اور ’’اِمْرَأَۃٌ‘‘ یا ’’مَرأۃٌ‘‘ کی جمع ’’نِسَاءٌ‘‘ یا ’’نِسْوَۃٌ‘‘ آتی ہے۔ یعنی دونوں کلمات کی جمع مکسر اپنے اصل لفظ سے نہیں بنتی۔ بعض عربی ڈکشنریوں میں لکھا ہے کہ لفظ ’’امرُءٌ‘‘عورت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ گویا یہ لفظ انگریزی کے ’’Person‘‘ والے معنی بھی رکھتا ہے۔

·       قرآنِ کریم میں لفظ ’’امْرُءٌ‘‘ مختلف اعرابی حالتوں میں کل سات جگہ آیا ہے اور ’’امرأۃٌ‘‘ واحد تثنیہ کی شکل میں (مفرد یا مرکب) کل ۲۶ جگہ آیا ہے۔

(۸) ’’وَزَوْجِہٖ‘‘ (اور اس کی بیوی کے. . . . .) ’’وَ‘‘ یہاں عطف کے لئے ہے، آخری ضمیر مجرور ’’ہ‘‘ (بمعنی اس کا) ہے اور کلمہ ’’زَوْج‘‘ کے مادہ اور فعل وغیرہ کے استعمال پر اور خود لفظ ’’زوج‘‘ کے معنی پر البقرہ:۲۵ [۱۸:۲ :۱(۹)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

·       مفردات کی مندرجہ بالا وضاحت کے بعد زیر مطالعہ عبارت  اور تراجم کی روشنی میں اس زیر مطالعہ عبارت (فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِہٖ)کا لفظی ترجمہ بنے گا: ’’پس وہ سیکھتے ہیں ان دونوں سے وہ (چیز) جو کہ جدائی ڈالتے ہیں اس (جس) کے ذریعے درمیان مرد اور اس کی بیوی کے‘‘۔ اُردو میں اسے سلیس بنانے کے لیے اُردو فقرے کی ساخت کے مطابق بعض الفاظ کی تقدیم و تاخیر سے کام لینا پڑے گا مثلاً ’’وہ ان دونوں سے وہ (چیز) سیکھتے ہیں جس سے وہ مرد اور اس کی بیوی . . . . . یا میاں بیوی . . . . . میں جدائی ڈالتے ہیں‘‘۔ بعض نے ’’یُفَرِّقُونَ‘‘کا ترجمہ بصورت مضارع ’’جدائی ڈالیں‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔ بعض نے ’’بَیْنَ‘‘ کا ترجمہ دو دفعہ کیا ہے ’’مرد میں اور اس کی عورت میں‘‘. . . . . کیونکہ  اصل مقدّر عبارت ’’بَیْنَ الْمَرْءِ وَ بَیْنَ زَوْجِہٖ‘‘ ہے۔ ’’بَیْنَ‘‘ کے بعد دو مضاف الیہ ہوتے ہیں، اگر وہ دونوں مضاف الیہ ضمیریں ہوں تو لفظ ’’بَیْنَ‘‘ مکرر  (دو بار) آتا ہے کیونکہ ضمیر کا ضمیر میں اس طرح عطف نہیں ہوتا مثلاً ’’ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ‘‘ (الممتحنہ:۴) یعنی ’’ہمارے اور تمہارے درمیان‘‘ اور اگر کوئی اسم ظاہر اس کا مضاف الیہ ہورہا ہو تو لفظ ’’بَیْنَ‘‘ ایک ہی دفعہ استعمال ہوتا ہے۔ دوسری جگہ مقدر (Understood) ہوتا ہے۔ افعال ’’یَتَعَلَّمُوْن‘‘ اور ’’یُفَرِّقُونَ‘‘ کے فعل ماضی کی طرح ترجمہ کرنے کی وجہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔

۲: ۶۲: ۱ (۸)     [وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ]

اس عبارت میں نئے لفظ ’’ضَارِّین‘‘ اور ’’اِذْن‘‘ ہیں۔ باقی کلمات پہلے گزر چکے ہیں ایسے الفاظ کا صرف ترجمہ یا گزشتہ حوالہ لکھ دیا جائے گا۔

(۱)  ’’وَمَاھُمْ‘‘ (اور نہیں ہیں وہ) ویسے یہ تین کلمات ہیں یعنی یہ ’’وَ‘‘ عاطفہ (بمعنی اور) اور ’’مَا‘‘ (حجازیہ نافیہ) دیکھئے [۲: ۲: ۱  (۵)] اور ’’ھُمْ‘‘ ضمیر مرفوع (بمعنی وہ سب) کا مجموعہ ہے۔

(۲) ’’بِضَارِّیْنَ‘‘ اس لفظ کی ابتدائی ’’بَاء‘‘ (بِ) تو وہ ہے جو ’’ما‘‘ حجازیہ نافیہ کی خبر پر آتی ہے۔ اُردو میں اس کا الگ کوئی ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور عربی گرامر میں اسے ’’باء زائدہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس پر استعاذہ میں اور پھر البقرہ:۴۵ [۲: ۳۰: ۱(۱)] میں بات ہوئی تھی (یعنی ’’بِ‘‘ کے استعمالات پر)۔ کلمہ ’’ضَارِّینَ‘‘ کا مادہ ’’ض ر ر‘‘ اور وزن ’’فَاعِلِینَ‘‘ ہے یعنی یہ در اصل ’’ضارِرِینَ‘‘ تھا، پھر پہلی ’’ر‘‘ ساکن کرکے دوسری ’’ر‘‘ میں مدغم کردی جاتی ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’ضَرَّ . . . . .  یَضُرُّ ضَرًّا وَ ضُرًّا وَضَرَرًا‘‘(باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’ . . . . . کو نقصان پہنچانا، . . . . . کا نقصان کرنا، . . . . . کاکچھ بگاڑ دینا، . . . . . کوتکلیف، مصیبت، برائی یا ضرر پہنچانا‘‘۔ لفظ ’’ضرر‘‘ خود اُردو میں رائج ہے۔

·       یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ بھی آتا ہے اور ’’بِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی، مثلاً کہتے ہیں ’’ضَرَّہٗ وَ ضَرَّبِہٖ‘‘ (اس نے اسے نقصان پہنچایا) تاہم قرآن کریم میں یہ فعل ہر جگہ بغیر صلہ کے استعمال ہوا ہے۔ اس فعل کا مفعول ایک ہی ہوتا ہے تاہم قرآنِ کریم میں بعض مقامات پر اس فعل کے مفعول کے بعد ’’شَیْئًا‘‘ (کوئی چیز) اس طرح آیا ہے کہ گویا وہ ’’مفعول ثانی‘‘ ہے مگر نحوی اسے ’’مفعولِ مطلق‘‘ (ضرًّا) کے طور پر لیتے ہیں اور یہ (شَیئًا) بعض اور افعال (یَعْلَمُونَ، یَنْفَعُونَ وغیرہ) کے ساتھ بھی اسی طرح بطورِ مفعول مطلق استعمال ہوا ہے . . . . . قرآن کریم میں صرف ایک جگہ (الشعراء:۷۳) میں فعل ’’یَضُرُّوْنَ‘‘ کا مفعول محذوف (غیر مذکور) آیا ہے جو وہاں ماقبل فعل پر عطف سے فوراً سمجھا جا سکتا ہے۔

·       قرآنِ کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغہ ہائے فعل ۱۹ جگہ آئے ہیں۔ مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے باب مفاعلہ اور افتعال سے بھی فعل کے کچھ صیغے دس جگہ وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مجرد اور مزید فیہ کے بعض مصادر اور مشتقات (ضَرّ، ضُرّ، ضَرر، ضِرار، ضَارّ، ضَرَّاء، مُضَارّ اور مضطر وغیرہ) ۳۶ جگہ آئے ہیں۔ ان پر حسب موقع بات ہوگی۔ البتہ یہاں ایک بات کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بعض کتب لغت [2] میں بیان ہوا ہے کہ یوں تو اس فعل کے دو مصدر ضَرٌّ (بالفتح) اور ضُرٌّ (بالضم) ہم معنی ہیں تاہم جب نفع اور نقصان (ضر) کا اکٹھا ذکر ہو تو لفظ ’’ضَرّ‘‘ (بالفتح) استعمال ہوتا ہے  اور یہ استعمال ’’ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا ‘‘ وغیرہ کی شکل میں قرآنِ کریم میں دس جگہ آیا ہے۔ اگر صرف اکیلا ’’ضُرّ‘‘ ہو تو پھر وہ بالضم ہی آتا ہے اور اس استعمال کی مثالیں قرآنِ کریم میں ۱۹ جگہ آئی ہیں۔ دونوں لفظ مصدر (نقصان کرنا) بھی ہیں اور اسم (بمعنی نقصان، ضرر) بھی۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’ضَارِّین‘‘ اس فعل مجرد سے اسم الفاعلین (مجرور) ہے اور اس لحاظ سے اس کا ترجمہ ’’نقصان پہنچانے والے، نقصان کرنے والے، کچھ بگاڑ دینے والے یا ضرر (تکلیف، مصیبت وغیرہ) میں ڈالنے والے‘‘ ہوگا۔ عبارت کے اندر اس کا ترجمہ بطور صیغہ فعل بھی کیا گیا ہے جس پر ابھی آخر میں بات ہوگی۔

(۳) ’’بِہٖ‘‘ اس کے ذریعے سے، اس کے سبب سے، اس سے، اس کے ساتھ) یہاں بھی باء سببیہ ہے (دیکھئے اوپر ’’یُفرِّقُون بہٖ‘‘ میں)۔ آخری ضمیر مجرور برائے واحد غائب مذکر ہے جو مختلف حالات میں ’’ہٗ، ہٖ، ہِ اور ہُ‘‘ کی صورت میں پڑھی جاتی ہے (مثلاً  کِتابُہٗ، رَسُولِہٖ، عَلَیْہِ اور مِنْہ میں)

(۴) ’’مِنْ اَحَدٍ‘‘ (کسی ایک بھی کو، کسی ایک کو بھی) ’’مِنْ‘‘ (میں سے) یہاں تبعیضیہ ہے جو بعض دفعہ نکرہ پر اس کو مزید ’’نکرہ تر‘‘ بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی اس کے عموم کی تنصیص (قطعیت) یا تاکید کے لیے آتا ہے (دیکھئے [۲: ۲: ۱ (۵)]اور یہ استعمال قرآنِ کریم میں بہت عام ہے۔ دوسرے لفظ ’’اَحَد‘‘ (بمعنی کوئی ایک) میں بھی عموم نکرہ کا مفہوم موجود ہے۔ اس لفظ کے معنی اور استعمال پر مفصل بحث البقرہ:۹۶ [۲: ۵۹: ۱ (۵)]میں گزر چکی ہے۔ اور اس ترکیب (مِنْ اَحَدٍ) پر مزید بات آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی کیونکہ بظاہر اس کا لفظ ترجمہ بنتا ہے ’’کسی ایک بھی میں سے‘‘۔ ’’الاعراب‘‘ میں اس کے مندرجہ بالا محاورہ ترجمہ کی وجہ سامنے آئے گی۔

(۵) ’’اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ‘‘ (مگر ساتھ اللہ کے حکم کے، اللہ کے حکم کے بغیر) یہ عبارت چار کلمات ’’اِلَّا + بِ+ اِذْنِ+ اللہِ‘‘ کا مرکب ہے۔ کلمہ استثناء ’’اِلَّا‘‘ (’’مگر‘‘ جو اکثر ’’بغیر‘‘ اور ’’کے سوا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) اس کے معنی و استعمال پر قدرے مفصل بات البقرہ:۹ [۲: ۹: ۱ (۴)] میں ہوئی تھی۔ ’’باء‘‘ (بِ) کے مختلف معانی اور استعمالات استعاذہ نیز البقرہ: ۴۵ [۲: ۳۰: ۱ (۱)] میں دیکھئے۔ اسم جلالت ’’اللہ‘‘ کی لغوی بحث ’’بِسْمِ اللہ‘‘ میں گزری تھی۔ کلمہ ’’اِذْن‘‘ جو اسی مادہ (اذن) سے ’’فِعْلٌ‘‘ کے وزن پر اس سے فعل مجرد (’’اَذِنَ یَاْذَنُ اِذْنًا‘‘ =اجازت دینا) کا ایک مصدر ہے اس فعل کے باب معنی وغیرہ پر پہلی دفعہ البقرہ:۱۹ [۲: ۱۴: ۱ (۹)]میں کلمہ ’’ اٰذَانِهِمْ ‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ ’’اِذن‘‘ کے اصل معنی تو ’’اجازت‘‘ ہی ہیں مگر یہاں سیاقِ عبارت کی بناء پر اس کا ترجمہ ’’حکم‘‘ یا ’’ارادہ‘‘ کیا گیا ہے۔ لفظ ’’اِذن‘‘ قرآنِ کریم میں چالیس کے قریب مقامات پر آیا ہے اور ہر جگہ اسی طرح باء الجر (بِ) کے ساتھ اور لفظ ’’اللہ‘‘ یا اس کے لیے کسی ضمیر یا ہم معنی لفظ (مثلاً ’’ربّہ‘‘) کی طرف مضاف ہوکر استعمال ہوا ہے۔

·        مفردات کی مذکورہ بالا وضاحت کے بعد زیر مطالعہ عبار ت( وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ ) کا لفظی ترجمہ یعنی اصل بنیادی مفہوم یوں بنتا ہے ’’ اور نہیں ہیں وہ ( ہرگز) نقصان یا ضرر پہنچانے والے‘ اس کے ذریعے کسی ایک بھی میں سے (کو) مگر ساتھ حکم اللہ تعالٰی کے‘‘ ۔۔۔۔۔ اس کی سلیس عبارت اُردو میں ہوگی: ’’ اور وہ اللہ کے حکم کے سوا( بغیر ) اس (جادو) کے ذریعے کسی ایک کو بھی نقصان پہنچانے والے نہیں ہیں۔‘‘ بیشتر مترجمین نے یہاں اُردو محاورے کی بنا پر ’’ بِضَاۗرِّيْنَ ‘‘ کا ترجمہ اسم فاعل کے ساتھ کرنے کی بجائے فعل مضارع کی شکل میں اور ’’مَا‘‘ نافیہ کو ساتھ ملا کر ’’نہیں بگاڑ سکتے‘ نقصان نہیں کر سکتے‘ ضرر نہیں پہنچا سکتے‘‘ کی صورت میں کیا ہے یعنی ’’ لَا یَضُرُّوْنَ‘‘ کی طرح۔۔۔۔ مگر یہاں فعل ’’ سکنا‘‘ اس لئے لانا پڑا کہ یہاں ان کے ’’ارادہٗ ضرر‘‘ کی نفی نہیں کہ وہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں بلکہ ان کی ’’استطاعتِ ضرر‘‘  (نقصان پہنچاسکنے کی قوت) کی نفی ہے اور اس لیے آگے ’’اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ‘‘ آیا ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں ’’النّافع‘‘ اور ’’الضّار‘‘ بھی آئے ہیں، اس لئے کہ نفع و نقصان در حقیقت اسی کے ہاتھ میں ہے اور یہ مضمون قرآنِ کریم میں بتکرار اور مختلف اسالیب کے ساتھ بیان ہوا ہے اور عقیدۂ توحید کی بنیاد ہے۔ اسی طرح ’’مِنْ اَحَدٍ‘‘ کا ترجمہ ’’کسی ایک کو بھی‘‘ سے کیا گیا ہے۔ یہ زور اور تاکید خود لفظ ’’اَحَدٌ‘‘ اور پھر اس پر ’’مِنْ‘‘ لگانے سے پیدا ہوا ہے۔

۲: ۶۲: ۱ (۹)     [وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّھُمْ وَلَایَنْفَعُھُمْ]

نیا لفظ (پہلی دفعہ آنے والا) اس میں ’’لَایَنْفَعُ‘‘ ہے۔ جس پر ابھی آگے بات ہوگی۔ باقی کلمات کے ترجمہ اور گزشتہ حوالہ پر اکتفا کیا گیا ہے۔

(۱)  ’’وَیَتَعَلَّمُونَ‘‘ (اور وہ سیکھتے ہیں/تھے) یہ فعل بلکہ یہی صیغہ فعل ابھی اوپر (نمبر۷ میں ) گزر چکا ہے۔

(۲) ’’مَا‘‘ (وہ جو کہ/وہ چیز جو کہ) ’’مَا‘‘ موصولہ اسی آیت زیر مطالعہ میں تین دفعہ گزر چکا ہے۔

(۳) ’’یَضُرُّھُمْ‘‘ (نقصان پہنچاتا ہے ان کو) فعل ’’ضَرَّ یَضُرُّ ضَرًّا‘‘ (نقصان پہنچانا) پر ابھی اوپر ’’بِضَارِّیْنَ‘‘ کے سلسلے میں مفصل بات ہوئی ہے۔ فعل ’’یَضُرُّ‘‘ کا اصلی وزن ’’یَفْعُلُ‘‘ اور اصلی شکل ’’یَضْرُرُ‘‘ ہے جس میں ’’ر‘‘ ساکن ہوکر دوسری ’’ر‘‘ میں مدغم ہوجاتی ہے۔

(۴) ’’وَلَا یَنْفَعُھُمْ‘‘ (اور نہیں نفع دیتا/فائدہ پہنچاتا ان کو) یہ ’’وَ‘‘ عاطفہ (اور) + ’’لَا‘‘ نافیہ (نہیں) + ’’یَنْفَعُ‘‘ جس پر ابھی بات ہوگی + ’’ھُمْ‘‘ (ضمیر منصوب بمعنی ’’ان کو‘‘) کا مرکب ہے۔ ’’یَنْفَعُ‘‘ کا مادہ ’’ن ف ع‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’نَفَعَ . . . . . یَنْفَعُ نَفْعًا‘‘(فتح) سے آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’ . . . . . کو فائدہ پہنچانا،نفع دینا، . . . . . کا فائدہ کرنا‘‘ خود لفظ ’’نفع‘‘ اور ’’نافع‘‘ (اسم الفاعل بمعنی نفع بخش) اُردو میں مستعمل ہیں۔ یہ فعل بھی متعدی اور ہمیشہ مفعول بنفسہٖ کے ساتھ آتا ہے جیسے زیر مطالعہ عبارت میں۔ ’’لَایَنْفَعُھُمْ‘‘ میں ’’ھُمْ‘‘ ضمیر منصوب مفعول بہ ہے۔ قرآنِ کریم میں صرف ایک جگہ (سبا:۲۳ میں) اس کے مفعول پر لام الجر (لَ) بطور صلہ آیا ہے۔ اور تین جگہ اس کا مفعول محذوف ہوا ہے۔ فعل ’’نَفَعَ‘‘ اور ’’ضَرَّ‘‘ (جو ابھی اوپر گزرا ہے) ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ’’نَفْعٌ‘‘ اور ’’ضَرٌّ‘‘ ایک دوسرے کی ضد ہیں (خیر اور شر کی طرح) ’’الضّارّ‘‘ کی طرح ’’النّافع‘‘ بھی اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے کیونکہ در اصل ’’نفع یا نقصان‘‘ حقیقت میں تو صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔ قرآنِ کریم میں اس فعل مجرد (نفَع ینفَع) سے مختلف صیغہ ہائے فعل کل ۳۱ جگہ آئے ہیں اور اس کے مصدر و مشتقات (نفع، منافع وغیرہ بھی ۱۱ جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ عبارت  ’’وَلَا یَنْفَعُھُمْ‘‘ پورا جملہ فعلیہ ہے جس میں ’’لَا یَنْفَعُ‘‘ فعل مضارع معروف منفی مع ضمیر الفاعل ’’ھُوَ‘‘ ہے اور اس کا ترجمہ ہوگا ’’ اور نہیں نفع دیتا  / دے گا۔ نہیں فائدہ پہنچاتا  ان کو‘‘۔

·       یوں پوری زیر مطالعہ عبارت (وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّھُمْ وَلَایَنْفَعُھُمْ) کا اصلی لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور وہ سیکھتے ہیں وہ جو نقصان پہنچاتا ہے ان کو اور نہیں فائدہ پہنچاتا ان کو‘‘ ـــــــــ اس کی سلیس اردو تو یوں ہوسکتی ہے ’’اور وہ اس چیز کو سیکھتے ہیں جو ان کو نقصان پہنچاتی ہے (یا پہنچائے گی) اور ان کو فائدہ نہیں پہنچاتی (پہنچائے گی)‘‘۔ افعال ’’یَضُرُّ‘‘ اور ’’لَایَنْفَعُ‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ بعض حضرات نے ’’نقصان پہنچا سکتی اور نفع نہیں پہنچا سکتی‘‘ سے کیا ہے۔ یعنی یہ ان کی استطاعت سے باہر ہے۔ بعض نے مزید با محاورہ رتے ہوئے ’’جس سے ان کو نقصان ہے اور نفع نہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ یعنی فعلیہ کی بجائے جملہ اسمیہ سے ترجمہ کردیا ہے جو بہرحال مفہوم اور محاورہ کے لحاظ سے درست ہے۔ بعض نے ’’فائدہ نہیں‘‘ کے ساتھ ’’کچھ‘‘ کا اضافہ کیا یعنی ’’کچھ فائدہ نہیں دیتا‘‘ اصل عبارت میں ’’شیئاً‘‘ نہیں ہے مگر بطور محاورہ و مفہوم یہ درست سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بعض نے ’’جس میں نقصان ہی نقصان ہے فائدہ کچھ نہیں‘‘ سے ترجمہ کردیا جو محاورے کے زور میں اصل عبارت سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ اور جن حضرات نے ’’فائدہ نہیں پہنچتا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے وہ بھی درست نہیں کیونکہ فعل ’’نفَع‘‘ متعدی ہے، لازم نہیں۔

۲: ۶۲: ۱ (۱۰)     [وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰہُ مَالَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ]

اس عبارت میں بلحاظ ’’معنی‘‘ نیا لفظ ’’خَلاق‘‘ ہے۔ تفصیل یوں ہے:

(۱) ’’وَلَقَدْ‘‘ (اور البتہ، تحقیق۔ بے شک۔ ضرور ہی) ’’لَقَدْ‘‘ کے ابتدائی حرف تاکید ’’لَ‘‘ (لام مفتوحہ) پر البقرہ:۶۴ [۲: ۴۱: ۱ (۶)] میں اور حرفِ تحقیق ’’قَدْ‘‘ کے استعمال وغیرہ پر البقرہ:۶۰ [۲: ۳۸: ۱ (۸)] میں بات ہوئی تھی۔

(۲) ’’عَلِمُوا‘‘ (اُنہوں نے جان لیا۔ ان کو معلوم تھا) فعل ’’علِم یعلَم=جان لینا‘‘ پہلی دفعہ البقرہ: ۱۳ [۲: ۱۰: ۱ (۳)]میں گزرا ہے۔

(۳) ’’لَمَنْ‘‘ (البتہ جو بھی کہ، ضرور جو کوئی بھی کہ) اس کی ابتدائی لام مفتوحہ (لَ) وہی لام تاکید ہے جس کا گزشتہ حوالہ تشریح اوپر ’’لَقَدْ‘‘ میں گزرا ہے اور ’’مَن‘‘ اسم موصول بمعنی ’’وہ جو  ‘‘ ہے۔ اس کے استعمال اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۸ [۲: ۷: ۱ (۴)] میں مفصل بحث ہوئی تھی۔ یہاں ’’مَنْ‘‘ کو آگے ملانے کے لئے ’’ن‘‘ کو کسرہ (ــــــِــــ)دی گئی تھی ہے، حرف الجر ’’مِنْ‘‘کو آگے ملاتے وقت ’’ن‘‘ کو ’’فتحہ (ــــــَــــ) دی جاتی ہے۔

(۴) ’’اشْتَرَاہُ‘‘ (اس نے خریدا اُس (چیز) کوآخری ضمیر منصوب ’’ہ‘‘ بمعنی ’’اس کو ‘‘ ہے اور ابتدائی فعل ’’اشتَریٰ‘‘ ( ’’ہ‘‘ میں ’’یاء‘‘ کا نبرہ یا دندانہ فعل کی اسی آخری ’’ی‘‘  کا ہے جو بصورت الف پڑھی جاتی ہے) جو ’’ش ر ی‘‘ مادہ سے ’’اِفْتَعَلَ‘‘ کے وزن پر صیغہ ماضی ہے بمعنی ’’اس نے خرید کیا‘‘۔ مزید فیہ کے اس فعل پر مکمل بحث البقرہ: ۱۶ [۲: ۱۲: ۱ (۱)] میں صیغہ فعل ’’اشْتَرَوْا‘‘ کے ضمن میں گزری ہے۔

(۵) ’’مَا لَہٗ‘‘ (نہیں ہے/ہوگا اس کے لئے/اس کا) یہاں ’’مَا‘‘ نافیہ (بمعنی ’’نہیں‘‘) ہے اور ’’لَہٗ‘‘ کی ابتدائی لام یہاں لام الجر (بمعنی ’’کے لئے‘‘) ہے جو ضمیروں کے ساتھ مفتوح ہوکر آتی ہے ورنہ در اصل وہ مکسور (لِ) ہوتی ہے اور یہ ’’ کا/کے/کی‘‘ کا مفہوم بھی دیتی ہے۔ آخری ضمیر مجرور ’’ہ‘‘ یہاں بمعنی ’’اس‘‘ ہے۔

(۶) ’’فِی الاٰخِرَۃِ‘‘ (آخرت میں) حرف الجر ’’فی‘‘ کے معانی و استعمالات البقرہ:۲ [۲: ۱: ۱ (۵)] میں اور پھر البقرہ: ۲۰ [۲: ۱۴: ۱ (۵)]میں دوبارہ بیان ہوئے تھے۔ کلمہ ’’الاٰخِرَۃ‘‘ کے مادہ اور اشتقاق کے علاوہ اس کے لغوی اور اصطلاحی معنی پر البقرہ: ۴ [۲: ۳: ۱ (۵)] میں بالتفصیل بات ہوئی تھی۔ لفظ ’’ آخرت‘‘ اپنے اصطلاحی معنی میں اُردوفارسی میں رائج اور مستعمل ہے۔

(۷) ’’مِنْ خَلَاقٍ‘‘ (کچھ بھی حصہ، کچھ حصے میں سے بھی) اس کا ابتدائی ’’مِنْ‘‘ ان ہی معنی (نکرہ کی تنصیص یعنی اس میں قطعیت اور تاکید کے معنی پیدا کرنا) کے لئے ہے جو ابھی اوپر ’’مِنْ اَحَدٍ‘‘ میں گزرے ہیں۔

لفظ ’’خَلَاق‘‘ کا مادہ ’’خ ل ق‘‘ اور وزن ’’فَعَال‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’خلَق یخلُق= پیدا کرنا‘‘ کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ: ۲۱ [۲: ۱۶: ۱ (۳)] اور پھر البقرہ: ۲۹ [۲: ۲: ۱ (۶)] میں بات ہوئی تھی۔ زیر مطالعہ لفظ اسی فعل اور مادہ سے ماخوذ لفظ ہے اور اس کے معنی ’’نصیب یا حصہ ‘‘ ہیں۔ لفظ ’’خلق‘‘ میں بنیادی مفہوم صحیح اندازہ لگانا (التقدیر المستقیم) ہے اس لیے ’’خلاق‘‘ (نصیب اور حصہ) میں بھی ایک طرح سے ’’کسی صحیح اندازے سے مقرر ردہ حصہ‘‘ کا مفہوم ہے۔ عموماً اس کا استعمال کسی اچھی چیز (بھلائی اور خیر) میں سے حصے کا ہوتا ہے۔ یہ لفظ قرآنِ کریم میں مفرد مرکب مختلف شکلوں میں چھ جگہ استعمال ہوا ہے اور آخرت میں حصہ نہ ہونے کا مطلب آخرت کی بھلائیوں، نعمتوں میں کوئی حصہ نہ ہونا ہے۔ اس ’’مِنْ خَلَاق‘‘ کی ترکیب پر بھی مزید بحث آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

·       یوں اس زیر مطالعہ عبارت (وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرٰہُ مَالَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور بے شک ضرور ہی جان لیا انہوں نے کہ البتہ جس کسی نے بھی خریدا اس کو (تو) نہیں ہے/ہوگا اس کے لئے آخرت میں کچھ بھی حصہ‘‘ ــــــــ جس کی سلیس صورت بنتی ہے (یعنی اردو فقرے کی ساخت کے لحاظ سے) ’’اور ضرور جان لیا انہوں نے کہ بے شک جس نے بھی اسے خریدا اس کا آخرت میں کچھ بھی حصہ نہیں ہے/ہوگا‘‘۔ یہاں ’’عَلِمُوا‘‘ فعل ماضی کا صیغہ ہے مگر بعض مترجمین نے غالباً ’’ان کی حالت کے بیان‘‘ کی بناء پر اس کا ترجمہ فعل حال سے کیا ہے یعنی ’’جانتے ہیں‘‘ کی صورت میں، بعض نے ’’جان چکے ہیں‘‘ کو اختیا ر کیا۔ ’’لَقَدْ‘‘ کے ترجمے میں اگرچہ بعض ’’بے شک، ضرور‘‘ وغیرہ لائے ہیں مگر بیشتر مترجمین نے یہاں ’’لَقَدْ‘‘ کا ترجمہ کرنے کی بجائے ’’عَلِمُوا‘‘ کا ترجمہ (اردو محاورے کے مطابق) خوب جان چکے، خوب جانتے ہیں‘‘ سے کیا ہے۔ اسی طرح ’’ان کو معلوم ہے یا انہیں معلوم ہے‘‘ بھی ’’عَلِمُوْا‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ہے۔ بعض مترجمین نے ’’مِنْ‘‘ شرطیہ موصولہ کے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی کے فعل ’’اشتَریٰ‘‘ کا ترجمہ بھی فعل مستقبل کے ساتھ یعنی ’’خریدار ہوگا‘‘ کیا ہے تاہم اکثر نے ماضی کے ساتھ بصورت ’’خریدار ہوا، خریدا‘‘ (یہ ) ’’سودا لیا‘‘ ہی ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’اختیار کیا‘‘ کیا ہے جسے بلحاظ مفہوم ہی درست کہہ سکتے ہیں،ورنہ اصل لفظ سے تو بالکل ہٹ کر ہے۔

۲: ۶۲: ۱ (۱۱)     [وَلَبئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖ اَنْفُسَھُمْ]

اِس عبارت کے تمام کلمات پہلے گزر چکے ہیں البتہ بلحاظ معنی و استعمال نیا لفظ اس میں ’’شَرَوْا‘‘ ہے۔ لہٰذا باقی الفاظ کا صرف ترجمہ مع حوالہ لکھنا کافی ہوگا۔

(۱) ’’وَ‘‘ (اور) کو یہاں مستانفہ سمجھنا زیادہ بہتر ہے دیکھئے [۲: ۷: ۱ (۱)]

(۲) ’’لَبِئْسَ مَا‘‘ (بے شک کتنا بُرا/بہت ہی بُرا ہے وہ جو) اس کا ابتدائی لام مفتوحہ ’’لَ‘‘ وہی لام تاکید ہے جو اوپر (۱۰ میں) ’’لَمَنْ‘‘ میں گزرا ہے اور جو پہلی دفعہ [۲: ۴۱: ۱ (۶)] میں آیا تھا۔ دوسرا لفظ ’’بِئْسَ‘‘ (بمعنی کتنا ہی برا ہے‘‘) فعل ذم ہے۔ اس کے استعمال پر البقرہ:۹ [۲: ۵۵: ۱ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’مَا‘‘ یہاں موصولہ (بمعنی ’’جو کہ‘‘) ہے۔ ویسے پوری یہی ترکیب معمولی فرق کے ساتھ اس سے پہلے البقرہ:۹ [۲: ۵۵: ۱ (۱)] میں بصورت ’’بِئْسَمَا‘‘ گزر چکی ہے۔ ان دونوں کے ’’رسم‘‘ میں جو فرق ہے  اس پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی۔

(۳) ’’شَرَوْا‘‘ اس کا مادہ ’’ش ر ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوا‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’شَرَیُوا‘‘ ہونی چاہئے  مگر واو الجمع سے ماقبل حرفِ علت (جو یہاں ’’ی‘‘ ہے) تلفظ اور کتابت سے گر جاتا ہے۔ اور اس سے ماقبل عین کلمہ کی حرکت فتحہ (ــــــَــــ) برقرار رہتی ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’شَرَی یَشْرِی‘‘ بمعنی ’’بیچ دینا‘‘ پر البقرہ: ۱۶ [۲: ۱۲: ۱ (۱)] میں کلمہ ’’اشْتَرَوْا‘‘ کے ضمن میں بات ہوچکی ہے۔ بلحاظ استعمال یہ فعل مجرد یہاں پہلی دفعہ آیا ہے جو فعل ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے اس کا ترجمہ ہے ’’اُنہوں نے بیچ دیا، بیچ ڈالا‘‘۔

(۴) ’’بِہٖ‘‘ (اس کے بدلے میں، اس کے عوض، جس کے عوض) یہاں باء الجر (بِ) ’’باء التعویض‘‘ ہے۔ اس پر استعاذہ میں اور پھر البقرہ:۴۵ [۲: ۳۰: ۱ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔ یہاں آخری ضمیر مجرور ’’ہ‘‘ چونکہ اس سے پہلے آنے والے ’’ مَا ‘‘ موصولہ کے لیے ضمیر عائد ہے اس لیے اس کا ترجمہ ’’اس‘‘ کی بجائے ’’جس‘‘ سے کرنا اُردو محاورے کا تقاضا ہے۔

(۵) ’’اَنْفُسَہُمْ‘‘ (ان کی/اپنی جانوں کو‘‘ یہ مرکب اضافی اسی طرح اور ان ہی (حالتِ مفعولی والے) معنی میں پہلی دفعہ البقرہ:۹ [۲: ۸: ۱ (۴)] میں آیا تھا۔ اور وہاں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے۔

·            اس طرح اس زیر مطالعہ عبارت (وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖ اَنْفُسَھُمْ) کا ترجمہ ہوگا ’’اور بے شک کتنی ہی بُری وہ (چیز) جو کہ بیچ دیا اُنہوں نے جس کے بدلے اپنی جانوں کو‘‘. . . . . جس کی سلیس عبارت تو بنتی ہے ’’جس چیز کے عوض اُنہوں نے اپنا آپ بیچ دیا وہ کتنی بُری ہے‘‘ تاہم اکثر مترجمین نے الفاظ میں اتنی تقدیم و تاخیر نہیں کی بلکہ اصل عربی عبارت کی ترتیب کے مطابق ہی ترجمہ کیا ہے یعنی لفظی ترجمہ سے قریب رہے ہیں۔ البتہ بعض نے ’’لَبِئْسَ‘‘ کے لام تاکید کا ترجمہ نظر انداز کرکے ’’بِئْسَ‘‘ کا ترجمہ ’’بہت ہی برُا / بُری‘‘ کی صورت میں کردیا ہے۔ ’’مَا‘‘ موصولہ کا محاورے کے لحاظ سے وضاحتی ترجمہ ضروری تھا جسے ’’وہ چیز‘‘ ’’وہ مول‘‘ اور ’’وہ بدلہ‘‘ کی صورت میں ظاہر کیا گیا ہے۔

۲: ۶۲: ۱ (۱۲)     [لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ]

(۱) ’’لَوْ‘‘ ّ(اگر۔کاش کہ)  اس لفظ کے معنی و استعمال پر البقرہ:۲۰ [۲: ۱۵: ۱ (۷)] میں بات ہوئی تھی۔ زیر مطالعہ عبارت میں اس کا موزوں ترجمہ ’’کاش کہ‘‘ ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے ’’لَوْ‘‘ شرطیہ کی طرح ’’اگر‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اس صورت میں ایک مقدّر جوابِ شرط کی ضرورت ہوگی (مثلاً تو ایسا نہ کرتے وغیرہ)

(۲) ’’کَانُوا‘‘ (وہ ہوتے ۔ وہ تھے) بعینہ یہی صیغہ فعل البقرہ:۱۰ [۲: ۸: ۱ (۱۰)]میں پہلی دفعہ آیا تھا جہاں اس کی ساخت، مادہ، تعلیل اور معنی و استعمال پر بات ہوئی تھی۔

(۳) ’’یَعْلَمُونَ‘‘ (وہ جانتے ہیں۔ وہ جانتے۔ جان لیتے) ۔ فعل علِم یعلَم (جاننا) سے یہی صیغۂ فعل پہلی دفعہ البقرہ:۱۳ [۲: ۱:۱۰ (۳)] میں آیا تھا۔ یہاں ’’کَانُوا‘‘ کے ساتھ لگنے سے اس کے معنی ’’جانتے ہوتے‘‘ ہوگئے ہیں۔ اس پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

· اس پورے جملے کا ترجمہ تو ’’کاش وہ ہوتے جانتے‘‘ بنتا ہے جسے ’’کاش وہ جانتے‘‘ ’’کاش ان کو سمجھ ہوتی‘‘ اور ’’کاش ان کو عقل ہوتی‘‘ کی صورت بھی دی گئی تاہم ’’سمجھ ہوتی، عقل ہوتی‘‘ بظاہر ’’یَفْہَمُون‘‘ اور ’’یَعْقِلُون‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔ اسی طرح ’’لَوْ‘‘ کا ترجمہ شرطیہ (اگر) سے کرتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’اگر وہ جانتے ہوتے، اگر ان و سمجھ ہوتی، اگر وہ سمجھتے ہوتے‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ یہاں بھی ’’سمجھنا‘‘ والا ترجمہ کو محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے ہی ٹھیک کہہ سکتے ہیں۔ بعض نے ’’کسی طرح انہیں علم ہوتا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو در اصل ’’کاش کہ‘‘ کی ہی بامحاورہ شکل ہے۔

۲: ۶۲: ۱ (۱۳)     [وَلَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَۃٌ مّنْ عِنْدِ اللہِ خَیْرٌ]

اِس عبارت میں نیا (بلحاظ مادہ و معنی) لفظ ’’مَثُوبَۃ‘‘ ہے جس پر ذرا تفصیل سے بات ہوگی۔ باقی کلمات کا ترجمہ اور گزشتہ حوالہ دینا کافی ہوگا۔

(۱)  ’’وَلَوْ‘‘ (اور اگر) یہاں ’’لَوْ‘‘ شرطیہ ہی ہے جس کا گزشتہ حوالہ ابھی اوپر گزرا ہے ۔ ’’وَ‘‘ اگرچہ یہاں مستانفہ ہے مگر اس کا ترجمہ ’’اور‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔

(۲) ’’اَنَّھُمْ‘‘ بظاہر تو اس کا ترجمہ ’’کہ بے شک وہ ‘‘ ہونا چاہیے کیونکہ یہ حرفِ مشبہ بالفعل ’’اَنَّ‘‘ اور اس کے اسم (ھُمْ۔ ضمیر منصوب) کا مجموعہ ہے۔ تاہم عربی استعمال میں اگر ’’لَوْ‘‘ شرطیہ کے معاً بعد ’’اَنَّ‘‘ ہے تو اس ’’لَوْ اَنَّ‘‘ کا اکٹھا مفہوم ’’اگر تو‘‘ سے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’لَوْ اَنَّھُمْ‘‘ کا ترجمہ صرف ’’اگر  وہ ‘‘ سے کردیا ہے۔

(۳) ’’اٰمَنُوا‘‘ (وہ ایمان لائے) جس کا ترجمہ یہاں ’’لَوْ اَنَّھُمْ‘‘ (اگر وہ ) کی وجہ سے ’’ایمان لاتے‘‘ کیا جائے گا۔ دیکھئے البقرہ: ۳ [۲: ۲: ۱ (۱)]میں اس فعل کے مادہ، باب اور معنی وغیرہ کی بحث بسلسلہ کلمہ ’’یُؤْمِنُوْنَ‘‘۔

(۴) ’’وَاتَّقَوْا‘‘ (اور وہ پرہیزگاری کرتے۔ بچ کر رہتے) صیغہ فعل ’’اِتَّقَوْا‘‘ (جس کا مادہ ’’و ق ی‘‘ اور وزن اصلی ’’اِفْتَعَلُوا‘‘ ہے) اس کی لغوی بحث کے لیے دیکھئے البقرہ: ۲ [۲: ۱: ۱ (۷)]۔ یہ صیغہ در اصل ’’اِوْتَقَیُوا‘‘ تھا، جس میں پہلی ’’واؤ‘‘ تو ’’ت‘‘ بن جاتی ہے (مثالِ واوی جب باب افتعال سے آتا ہے تو اس میں یہ تبدیلی ضرور ہوتی ہے) اور آخری واو الجمع سے ماقبل والی ’’ی‘‘ گر کر اس سے پہلے حرف (عین کلمہ جو یہاں ’’ق‘‘ ہے) کی فتحہ برقرار رہتی ہے۔

(۵) ’’لَمَثُوْبَۃ‘‘: ابتدائی لام مفتوحہ برائے تاکید بھی ہے اور یہ جوابِ شرط پر آنے والی ’’لام‘‘ بھی ہے۔ البقرہ: ۶۴ [۲: ۴۱: ۱ (۶)] میں ’’لَ‘‘ کے معنی و استعمال پر مفصل بات ہوئی تھی۔ ’’مَثُوبَۃ‘‘ کا مادہ ’’ث و ب‘‘ اور وزن ’’مَفْعُلَۃٌ‘‘ یا ’’مَفْعُولَۃٌ‘‘ ہے یعنی در اصل یہ ’’مَثُوُبَۃ‘‘ یا ’’مَثوُوبَۃ‘‘ تھا۔ پھر متحرک حرفِ علت (و) کی حرکت (ـــــُـــــ) ماقبل ساکن حرفِ صحیح (ث) کو دی گئی اور دوسری صورت میں دو ساکن ’’واو‘‘ جمع ہونے کی بناء پر ایک ’’ و ‘‘ کو گرا دیا گیا اور یہ لفظ ’’مَثُوبَۃ‘‘ بنا اور پہلی شکل ’’مَثْوُبَۃ‘‘ کا اصل ہونا زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ (جیسا کہ آگے آئے گا) اس کا فعل لازم ہے اس سے اسم مفعول کا صیغہ نہیں بن سکتا۔ بہرحال اس کے مادہ (ث و ب) سے فعل مجرد ’’ثَابَ یَثُوبُ‘‘ (در اصل ثَوَبَ یَثْوُبُ) ’’ ثَوْبًا‘‘ (نصر) سے کے بنیادی معنی ہیں ’’کسی شخص یا چیز کا واپس اسی جگہ یا حالت میں لوٹ آنا جہاں سے وہ چلا تھا‘‘ یعنی ترجمہ ’’پلٹ آنا، واپس آجانا، اصلی جگہ جمع ہوجانا، مریض کا صحت یاب ہوجانا (حالت صحت کی طرف لوٹ آنا)‘‘ وغیرہ۔ اسی سے لفظ ’’ ثَوَاب ‘‘ بمعنی ’’اجر و جزاء‘‘ ہے کیونکہ اس میں بھی ’’واپس مل جانے‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔ اور بعض نے  ’’ثوب‘‘ [3]بمعنی ’’کپڑا‘‘ کی وجہ تسمیہ یہی بتائی ہے کہ ’’سُوت‘‘ آخر کار لوٹ کر یا اکٹھے ہوکر یہ شکل اختیار کرتا ہے۔ تاہم قرآنِ کریم میں اس فعل مجرد سے کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       قرآن ِ کریم میں اس مادے سے مزید فیہ کے باب تفعیل اور اِفعال سے کچھ صیغۂ فعل چار  جگہ آئے ہیں ۔ اس کے علاوہ مختلف مشتق اور ماخوذ اسماء (مثلاً ثَواب ‘ مَثَابَۃ‘ مثوبۃ ‘  ثِبَاب وغیرہ) بھی ۲۴ جگہ آئے ہیں ۔ ان پر ان شاءاللہ حسبِ موقع بات ہوگی۔

·       زیر مطالعہ لفظ (مَثُوبۃ) قرآنِ کریم میں صرف دو جگہ وارد ہوا ہے (یہاں اور پھر المائدہ:۶۰ میں) اور یہ لفظ بلحاظ معنی ’’ثَواب‘‘ کے مترادف ہے اور ’’ثواب‘‘  کا لفظ اُردو میں اتنا عام ہے کہ قریباً سب ہی مترجمین نے ’’مَثُوبَۃ‘‘ کا ترجمہ ’’ثواب‘‘ ہی کیا ہے۔ اگرچہ بعض نے ’’بدلہ، معاوضہ اور صلہ‘‘ کی صورت میں بھی ترجمہ کیا ہے۔

(۶) ’’مِنْ عِنْدِ اللہِ‘‘ (اللہ کے پاس سے، اللہ کے ہاں، اللہ کے یہاں کا) یہاں ’’مِنْ‘‘ ابتدائیہ بمعنی ’’سے، کی طرف سے‘‘ ہے دیکھئے [۲: ۳: ۱ (۵)]۔ ’’عِنْدَ‘‘ ظرف بمعنی ’’ . . . . . کے پاس‘‘ ہے۔ اس پر البقرہ:۵۴ [۲: ۳۴: ۱ (۶)] میں بات ہوئی تھی . . . . . اور یہی پوری ترکیب (مِنْ عِنْدِ اللہِ) ابھی اوپر البقرہ:۸۹ [۲: ۵۴: ۱ (۲)] میں بھی گزر چکی ہے۔

(۷) ’’خَیْرٌ‘‘ (بہترین، سب سے اچھا) اس لفظ کے مادہ، باب فعل اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۵۴ [۲: ۳۴: ۱ (۵)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

یوں اس عبارت (وَ لَو اَنَّھُمْ اٰمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَۃٌ مِّنْ عِنْدِ اللہ خَیْرٌ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو یقیناً ثواب جو اللہ کی طرف (ملتا) سب سے بہتر تھا‘‘ ـــــ ’’وَاتَّقَوْا‘‘ کا ترجمہ ’’پرہیز رکھتے، تقویٰ کرتے، پرہیزگار بنتے، تقویٰ اختیار کرتے‘‘ کی صورت میں بھی کیا گیا ہے۔ سب کا مفہوم یکساں ہی ہے۔ بعض نے ’’لَمَثُوبَۃٌ‘‘ کے ترجمہ (ثواب، بدلہ وغیرہ) کے ساتھ فقرہ مکمل کرنے کے لئے’’تھا، پاتے، ملتا، ہوتا‘‘ وغیرہ کا اضافہ کیا ہے جو ویسے ’’خیر‘‘ کا (جو خبر ہے) تقاضا ہے۔

۲: ۶۲: ۱ (۱۴)     [لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ]

(اگر وہ جانتے ہوتے) بعینہ یہی جملہ ابھی اوپر (۱۲) میں گزرا ہے۔

 

۲ : ۶۲ : ۲      الاعراب

ترکیب نحوی کے لئے  کے لئے اس عبارت کو ۱۳ جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اسی لئے ہر نحوی جملے کے آخر پر کوئی نہ کوئی علامت وقف دی گئی ہے۔

(۱)   وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ

[وَ]عاطفہ ہے جو اگلے فعل [اتبعوا] کو سابقہ آیت کے صیغہ فعل (نبَذ)پر عطف کرتی ہے [اتبعوا]فعل ماضی معروف جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ موجود ہے۔ [ما] موصولہ ہے جو یہاں فعل ’’اتبعوا‘‘ کا مفعول ہے، یا یوں کہئے کہ یہاں (اسم موصول)سے یہ مفعول شروع ہوتا ہے جسے محلاً منصوب کہا جائے گا۔ [تتلو] فعل   مضارع معروف صیغہ واحد مؤنث غائب ہے جو فاعل [الشیاطین] کے جمع مکسر آنے کی وجہ سے آیا ہے اور بیان قصہ کی بناء پر یہاں یہ بمعنی    ’’تَلَتْ ‘‘ (صیغہ ماضی مؤنث غائب) کے لئے آیا ہے۔ [علیٰ ملک سلیمن] علیٰ حرف الجر یہاں بمعنی ’’ فِی‘‘ آیا ہے اور ’’ مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ‘‘مضاف (مُلک) اور مضاف الیہ (سُلیمان) مل کر مجرورہیں اور اس سے پہلے لفظ ’’زَمَن‘‘محذوف ہے جو ’’ فِی‘‘ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ’’ مُلْک‘‘ تو یہاں مجرور بالجر ہے (علیٰ کی وجہ سے) اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے اور اس میں علامت جر آخری ’’ ک‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ)رہ گئی ہے ’’سلیمان‘‘ غیر منصرف ہے، اس لئے اس میں جر (جو بالا ضافہ ہے)کی علامت ’’ن‘‘ کی فتحہ ہے۔ سلیمان کا غیر منصرف ہونا عجمیت اور علمیت کی بنا پر ہے یعنی وہ ایک غیر عربی نام ہے۔

(۲)  وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ

[وَ]کو مستانفہ بھی کہہ سکتے ہیں اور اس میں حالیہ (بمعنی حالانکہ) ہونے کی گنجائش بھی ہے۔ [ماکفَر] فعل ماضی معروف واحد مذکر غائب منفی ہے اور یہ نفی ’’ما‘‘ نافیہ کے ذریعے واقع ہوئی ہے۔ [سلیمان] اس منفی فعل (ماکفر) کا فاعل لہٰذا مرفوع ہے۔ [ولــٰکِنَّ] و او العطف ہے اور ’’لٰکِنَّ ‘‘ حرف مشبہ بالفعل ہے جس کا اسم منصوب [الشَّیاطِینَ] ہے جو جمع سالم نہیں بلکہ جمع مکسر ہے اور [کفَروا] فعل ماضی معروف جملہ فعلیہ بن کر ’’ لٰکِنَّ‘‘کی خبر لہٰذا محلاً مرفوع ہے۔ [یُعَلِّمُونَ] فعل مضارع معروف ہے ضمیر الفاعلین ’’ھُمْ ‘‘ ہے جس کی علامت صیغہ فعل کی واوا الجمع (ـــــُــــ ـوْ)ہے۔[النَّاسَ] اس فعل (يُعَلِّمُوْنَ) کا پہلا مفعول (لہٰذا منصوب)ہے۔ علامت نصب ’’سَ ‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)ہے۔  (السِحرَ) اس فعل کا دوسرا مفعول منصوب ہے جس کی علامت ’’ رَ ‘‘ کی فتحہ(ـــــَــــ) ہے۔ اور یہ پورا جملہ فعلیہ (يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ)سابقہ فعل ’’کفَروا ‘‘ کی ضمیر الفاعلین کا حال بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی ’’انہوں نے کفر کیا اس حالت میں کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے ‘‘ یا اس جملہ کو    ’’ الشَّیاطینَ ‘‘ (اسمِ لٰکِنَّ)کی خبر ثانی کہہ سکتے ہیں ، یعنی ’’کفر بھی کیا اور تعلیم سحر کا کام بھی کیا‘‘۔

(۳)   وَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ

[وَ]برائے عطف ہے اور [مَا]موصولہ ہے جو واو عاطفہ کے ذریعے ’’ السحر‘‘ پر معطوف ہے یعنی ’’جادو‘‘ بھی سکھاتے تھے اور وہ بھی جو  . . . . ‘‘گویایہ ’’مَا ‘‘ (اپنے مابعد صلہ سمیت)فعل ’’یُعَلِّمُونَ ‘‘ کا ہی ایک اور مفعول ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے سابقہ جملے کے ’’مَا تَتْلُو ‘‘ پر عطف سمجھا جائے۔ اس صورت میں یہ فعل ’’ وَ اتَّبَعُوا‘‘ (اوپر جملہ نمبر۱ والا)کا مفعول ثانی بن سکتا ہے۔ یعنی وہ پیچھے لگ گئے اس کے جو شیاطین پڑھتے تھے اور اس کے بھی جو  . . . . (بابل میں اتارا گیا۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے)۔اردو مترجمین نے دونوں طرح ترجمہ کیا ہے یعنی مندرجہ بالا پہلی ترکیب کے مطابق بھی اور دوسری ترکیب کے مطابق بھی۔ بلکہ زیادہ تر  نے دوسری ترکیب کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ [اُنْزِلَ] فعل ماضی مجہول واحد مذکر غائب ہے جس میں نائب الفاعل ضمیر ’’ھُوَ‘‘ مندرجہ بالا ’’مَا ‘‘ موصولہ کے لئے ہے۔ [علَی المَلَکَیْنِ] میں علامت جر آخری نون سے ماقبل والی ’’ یاء ‘‘ ماقبل مفتوح  (ـــــَــــ یْ)ہے جو تثنیہ میں استعمال ہوتی ہے۔ [بِبَابِلَ]حرف الجر (بِ) اور مجرور (بابلَ) کو بھی ’’اُنْزِلَ‘‘ سے متعلق سمجھا جاسکتا ہے اور معناً اسے ’’ المَلَکَین‘‘ کا حال بھی کہہ سکتے ہیں۔ لفظ ’’بابل‘‘ بھی عجمی علم ہونے کے باعث غیر منصرف ہے اس لئے اس میں علامت جر آخری ’’لَ ‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)ہے [ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ] دونوں بذریعہ واواالعطف مل کر ’’المَلَکین‘‘ کا بدل ہے لہٰذا مجرور ہیں۔ یہ بھی عجمی نام ہیں اس لئے غیر منصرف ہیں اور علامت جر ان میں آخری ’’ت‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)ہے۔

بعض نحویوں نے  . . . .اور ہمارے زمانے کے  بعض مفسرین نے بھی اس جملے کے ابتدائی، ’’ مَا ‘‘ کو موصولہ کی بجائے ’’نافیہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس صورت میں ’’مَا اُنزِلَ‘‘ کا ترجمہ ہوگا ’’اور وہ نہیں اتارا گیا تھا ‘‘ (بابل میں دو فرشتوں پر)گویا یہ ہاروت ماروت کا قصہ ایک یہودی افسانہ ہے جس کی قرآن نے تردید کردی . . . .  اس جملے کی حد تک تو یہ نحوی توجیہ قابل قبول ہو سکتی ہے مگر اس کے بعد آنے والے جملوں میں یہ عبارت کسی طرح فٹ نہیں آتی۔ اسی لئے اہل علم کی اکثریت نے یہاں ’’مَا‘‘ کو موصولہ ہی قرار دیا ہے۔

(۴)  وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَكْفُرْ

[وَ]یہاں استیناف کے لئے ہے یعنی ایک الگ بات یا قصے کا دوسرا پہلو یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ [مَا]نافیہ ہے اور اس کی تائید آگے ’’حتیٰ‘‘ کے استعمال سے ہوتی ہے۔ [یُعَلِّمَانِ] (اس کے قرآنی رسم پر آگے بات ہوگی) فعل مضارع معروف صیغہ تثنیہ مذکر غائب ہے جس میں ضمیر الفاعلین ’’ھُمَا‘‘ ’’ المَلَکَین‘‘ کے لئے ہے۔ [مِنْ اَحَدٍ]یہ دراصل تو ’’ اَحَدًا‘‘ تھا جو فعل ’’یُعَلِّمَان‘‘ کا ایک مفعول تھا (دوسرامفعول یہاں محذوف ہے)پھر اس نکرہ ’’احداً ‘‘ (کسی ایک کو)پر عموم نکرہ کی قطعیت کے لئے ’’مِن‘‘ آیا ہے۔ اب یہ جار مجرور مل کر مفعول ہیں اور محلاً نصب میں ہیں اور اسی لئے ترجمہ ’’کسی ایک کو بھی ‘‘ ہوگا۔ [حَتّٰی]یہاں ’’اِلٰی اَنْ ‘‘ (یہاں تک کہ) کے معنی میں ہے اور اسی لئے بعض نے یہاں ’’ حَتّٰی‘‘ بمعنی ’’اِلَّا اَنْ ‘‘ ہی لیا ہے (مثلاً العکبری نے)جب کہ بعض نے اسے غلط قرار دیا ہے (مثلاً الدرویش نے) بلکہ اسے حرف غایت (یہاں تک کہ ، جب تک کہ، اس وقت تک جب کہ)ہی سمجھا ہے۔ ویسے اس بحث سے عبارت کے اصل مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ [یَقُولَا]فعل مضارع منصوب بوجہ ’’حتّٰی‘‘ہے۔ علامت نصب آخری ’’ن‘‘ (یقولان کا)گرنا ہے اور اس صیغہ تثنیہ کی ضمیر فاعل ’’ھما‘‘ بھی ’’ الملَکَین ‘‘ ہی کے لئے ہے۔ [اِنَّما] کی ’’ مَا ‘‘ کافہ اور ’’اِنَّ‘‘ مکفوفہ ہے یعنی ’’مَا ‘‘ نے ’’ اِنَّ‘‘ کا عمل روک دیا ہے اور اس میں حصر کے معنی پیدا ہوگئے ہیں ۔ [نَحْنُ] ضمیر مرفوع منفصل مبتداہے اور [فِتنۃُ]اس کی خبر ہے جو نکرہ بھی ہے اور مرفوع بھی۔ [فَلَا تَکْفُرْ]فاء (ف)یہاں فصیحہ ہے جو بغیر شرط کے جواب شرط کا مفہوم دیتی ہے۔ اردو ترجمہ اس کا بہرحال ’’سو‘‘ یا ’’پس‘‘ ہی ہوگا۔ ’’لَا تَکْفُرْ‘‘ فعل نہی صیغہ واحد مذکر حاضر ہے اور یہ پورا جملہ (اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَكْفُرْ) اوپر والے فعل ’’یَقُولَا‘‘ کا مقول (مفعول)ہو کر ایک طرح سے محل نصب میں ہے اور یہاں ’’اسے سیکھ کر‘‘ کے معنی کا ایک فعل محذوف ہے جو عبارت سے سمجھا جا جاتا ہے۔

(۵)  فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ

[فاء ۔ ف]کو یہاں مستانفہ سمجھنا زیادہ موزوں ہے۔ [یَتَعَلَّمُونَ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ ھُمْ ‘‘ ہے۔ [مِنْہُمَا]جار مجرور مل کر متعلق فعل (یَتَعَلَّمُونَ)ہیں۔

[مَا] موصولہ ہے، فعل (یَتَعَلَّمُونَ) کا مفعول لہٰذا محلاً منصو ب ہے بلکہ دراصل تو ’’ مَا ‘‘ کے بعد آنے والا صلہ بھی ساتھ مل کر مفعول بنے گا۔ [يُفَرِّقُوْنَ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھُمْ ‘‘ ہے اور [بِہٖ] جار مجرورمل کر اس فعل (يُفَرِّقُوْنَ) سے  متعلق ہیں۔ [بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ]میں  ’’ بَيْنَ ‘‘ تو ظرفِ منصوب ہے (جو ہمیشہ مضاف ہوکر ہی آتا ہے) اس کے بعد ’’ الْمَرْءِ ‘‘اس ظرف کا مضاف الیہ مجرور ہے، علامتِ جر آخری ’’ ء ‘‘کی کسرہ (ـــــِــــ)ہے کیونکہ یہ معرف باللام بھی ہے۔ اس کے بعد ’’ وَ ‘‘کے ذریعے بعد والے لفظ (زَوْجِہٖ) کو جو خود مرکب اضافی ہے ، کا پہلا جزء ’’زَوْج ‘‘ یہاں مجرور پر عطف کی بناء پر مجرور ہے اور آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہوگیا ہے۔ دراصل یہاں ’’ زَوْجِہٖ ‘‘ سے پہلے بھی ایک  ’’ بَيْنَ ‘‘مخذوف ہے یعنی ’’ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ ‘‘ہونا چاہیے تھا مگر جب وہ اسم ظاہر ’’ بَيْنَ‘‘ کے مضاف الیہ ہوں تو ’’ بَيْنَ ‘‘ کی تکرار نہیں کی جاتی۔ اور یہ پورا جملہ  (يُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ)’’ مَا ‘‘ موصولہ کا صلہ اور پھر یہ سارا صلہ موصول مل کر فعل ’’ یَتَعَلَّمُونَ ‘‘کا مفعول بنتا ہے۔

(۶)  وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ

[وَ] کو یہاں حالیہ ہی سمجھا جاسکتا ہے بمعنی ’’ حالانکہ ‘‘ [مَا]نافیہ حجازیہ ہے  (جس کی خبر پر باء الجر آتی ہے)۔ [ھُمْ]اس (مَا) کا اسم مرفوع ہے اور [بِضَاۗرِّيْنَ] میں باء الجرزائدہ ہے (ان معنی میں کہ اس کے بغیر بھی ’’ضَارِّینَ‘‘ خبر منصوب ہوسکتی تھی مگر اس ’’بِ ‘‘سے معنی میں ایک زور پیدا ہوتا ہے لہٰذا یہ محض بیکار نہیں ہے) اور یہ ’’ بِضَاۗرِّيْنَ ‘‘جار مجرور مل کر ’’ مَا ‘‘ کی خبر ہے جو محلاً نصب میں ہی ہے۔ [بِہٖ]جار  مجرور مل کر متعلق خبر (ضَارِّینَ)ہیں۔ [مِنْ اَحَدٍ] میں بھی دراصل تو      ’’ اَحَد ‘‘اسم الفاعل ’’ ضَارِّینَ ‘‘کا مفعول ہوکر نصب میں تھا مگر اس پر ’’ مِنْ‘‘ لگا کر اس کے عموم نکرہ میں قطعیت پیدا کی گئی ہے یعنی کسی ’’ایک ایک کو بھی ‘‘ یوں یہ   ’’ مِنْ اَحَدٍ ‘‘مفعول ہوکر (لفظاً مجرور مگر)محلاً منصوب ہے کیونکہ اسم الفاعل (جیسا کہ ’’ ضَارِّینَ ‘‘ ہے)بھی فعل کا ساعمل کرتا ہے۔ [اِلَّا]حرف استثناء ہے جو نفی کے بعد آنے سے ’’اداۃِ حصر‘‘ بن گیا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’مگر صرف ‘‘ ہوگا۔ [بِـاِذْنِ اللہِ]باءالجر کے بعد مضاف ’’اِذْن‘‘اور مضاف الیہ ’’اللہ‘‘ مل کر مرکب اضافی اس (باء)کی وجہ سے مجرور ہے۔اور یہ حصہ عبارت ’’ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ ‘‘بلحاظ معنی ’’ ضَارِّینَ ‘‘(فاعل)یا ’’ مِنْ اَحَدٍ ‘‘ (مفعول)دونوں کا حال سمجھا گیا ہے یعنی یہ نقصان اور ضرر ’’پہنچانا ‘‘ یا ’’پہنچنا‘‘ اسی حالت میں ہو سکتا ہے کہ اللہ کا اذن و حکم شامل ہو یعنی مقدر عبارت ’’ اِلَّا مَقْرُوناً بِاِذْنِ اللہِ‘‘بنتی ہے۔

(۷)  وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ

[وَ]عاطفہ ہے۔ [يَتَعَلَّمُوْنَ ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھُمْ ‘‘ ہے اور یہ سابقہ ’’ يَتَعَلَّمُوْنَ‘‘پر ہی عطف ہے ۔ [مَا]موصولہ ’’ يَتَعَلَّمُوْنَ ‘‘ کا مفعول بہ محلاً منصوب ہے۔ [يَضُرُّھُمْ] میں ’’یَضرُّ ‘‘ فعل مضارع معروف صیغہ واحد غائب مذکر ہے جس کی ضمیر فاعل ’’ھُوَ ‘‘ ما موصولہ کے لئے ہے اور ’’ھُمْ ‘‘ ضمیرمنصوب فعل ’’ يَضُرُّ ‘‘کا مفعول بہ ہے اور یہ جملہ ’’ يَضُرُّھُمْ ‘‘ ’’مَا ‘‘ کا صلہ ہے۔ اس کے بعد پھر [وَ]عاطفہ ہے اور [لَا يَنْفَعُھُمْ]میں ’’لَایَنْفَعُ ‘‘ تو فعل مضارع معروف منفی بلا مع ضمیر الفاعل ’’ھُوَ ‘‘ ہے اور اس کے آخر پر بھی ’’ھم‘‘ ضمیرمنصوب مفعول بہ ہے اور یہ جملہ (لَا يَنْفَعُھُمْ) بھی بذریعہ و او العطف ’’مَا ‘‘کا صلہ ہی بنتا ہے اور یہ صلہ موصول (ما یضرُّ ھم وَ لا ینفعُھم) مل کر فعل ’’ يَتَعَلَّمُوْنَ ‘‘کا مفعول بہ لہٰذا محلاً منصوب ہے۔

(۸)  وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ

[وَ]یہاں مستانفہ ہی ہوسکتی ہے۔ اس لئے اس عبارت کے شروع اور آخر میں وقفِ مطلق کی علامت (ط)ڈالی گئی ہے۔ [لَقَدْ]لامِ تاکید اور حرف تحقیق ’’قَد‘‘ کا مجموعہ ہے۔] عَلِمُوْا[ فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین  ’’ھُمْ‘‘ ہے اور [ لَمَنِ]کی ابتدائی لام مفتوحہ لام الابتداء ہے (جو مبتدا پر آتی ہے اور تاکید کے معنی پیدا کرتی ہے)اور ’’مَنْ ‘‘ یہاں اسم الموصول مبتدا ہے اور یہ شرطیہ بھی ہے۔ [اشْتَرٰىہُ] فعل ماضی معروف واحد مذکر غائب ((اشترٰی)کے ساتھ ضمیر منصوب (ہُ)مفعول بہ ہے۔ [مَا]نافیہ حجازیہ ہے۔ [لَہ]جار (ل) اور مجرور (ہ) مل کر اس ’’مَا ‘‘ کی خبر (قائم مقام خبر)کا کام دے رہا ہے جو اس کے اسم سے مقدم آئی ہے۔ [فی الاخرۃ]جار (ف)اور مجرور (الاخرہ)مل کر متعلق خبر یا بلحاظ معنی حال کا قائم مقام سمجھا جاسکتا ہے۔ (یعنی اس حالت میں کہ وہ  آخرت میں ہوگا کے مفہوم کی صورت میں)۔ [مِنْ خَلَاقٍ]’’مِنْ‘‘ جارہ زائدہ ہے اور ’’ خَلَق ‘‘نکرہ مجرور ’’بِمَنْ‘‘ ہے جس سے ’’ خَلَاقٍ ‘‘(کچھ حصہ)کے عموم نکرہ میں مزید قطعیت آتی ہے۔ یعنی کچھ حصے میں سے بھی نہیں ہوگا۔ یہاں دراصل لفظ ’’خَلَاقٌ‘‘ مرفوع تھا کیونکہ وہ ’’مَا‘‘ کا اسم یا مبتدا مؤخرتھا (جب خبر جار مجرور یا ظرف مضاف کی صورت میں مقدم آئے۔ جیسے یہاں ’’لَہٗ‘‘ ہے تو مبتدا مؤخر نکرہ ہوکر آتا ہے)۔ یہاں اگر جملہ منفی نہ ہوتا تو بنیادی عبارت ہوتی ’’لہ خَلاقٌ‘‘ (اس کے لئے کچھ حصہ ہے)جیسے کہیں ’’لہ ابنٌ ‘‘ اس کا ایک بیٹا ہے، پھر شروع میں ’’ما‘‘لگنے سے جملہ منفی ہوا۔ یعنی’’مالہ خلاقٌ‘‘بنا (اس کا کوئی حصہ نہیں ہے)پھر اس میں مبتدا مؤخر سے پہلے ’’ فِي الْاٰخِرَۃِ ‘‘ کا اضافہ ہوا۔یہ بعد میں بھی آسکتا تھا مگر اس تقدیم سے اس میں زور پیدا ہوا ہے یعنی ’’آخرت میں ہی ‘‘تو اس کا کچھ حصہ نہ ہوگا اور ’’خَلاق‘‘کو مزید قطعی نکرہ بنانے کے لئے ’’مِن‘‘ لگا۔یوں اس (مِن خَلاقٍ)کا ترجمہ ہوا ’’کچھ بھی حصہ‘‘۔ اس طرح یہ ’’ مِن خَلاقٍ ‘‘’’مَا‘‘کا اسم ہونے کی بناء پر محلاً مرفوع ہے اور یہ جملہ (لَمَنِ اشْتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ) اس لحاظ سے محلاً مرفوع ہے کہ یہ دراصل ابتدائی فعل ’’عَلِمُوا‘‘ کے دونوں مفعولوں کا قائم مقام ہے ۔ (فعل ’’عَلِمَ‘‘کے بعض دفعہ دو مفعول بھی آتے ہیں۔ دیکھئے الممتحنہ: ۱۰ میں ہے ’’ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ ‘‘)یعنی ’’انہوں نے جان لیا اس کے خریدار کو محروم آخرت‘‘ کے مفہوم کے ساتھ عبارت فعل ’’عَلِمُوا‘‘ کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے۔

(۹)  وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ

[وَ]عاطفہ ہے اور [لَبِئْسَ]کی ابتدائی لام مفتوحہ تاکید کے لئے آتی ہے اور ’’بِئْسَ ‘‘فعل ذم ہے جو جامد فعل ہے۔ [مَا]کو موصولہ سمجھیں تو یہ ’’ بِئْسَ ‘‘کا فاعل مرفوع ہے یا اسے نکرہ تامہ (بمعنی شَیأً)لیں تو اسے فعل ذم کی تمیز منصوب بھی سمجھ سکتے ہیں (نحوی افعال مدح و ذم کی دونوں طرح ترکیب کرتے ہیں۔ دیکھئے البقرہ : ۹ [۲ : ۵۵ : ۲ ] میں ’’بِئْسَمَا کے اعراب کی بحث)اور یہ فعل اور فاعل (لَبِئْسَ مَا)مل کر آگے آنے والے مبتدا (مخصوص بالذّم) کی خبر مقدم بنتی ہے۔ [شَرَوْا]فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھُمْ ‘‘ہے۔ [بِہٖ]جارمجرور متعلق فعل ’’ شَرَوْا ‘‘ اور [اَنْفُسَھُمْ] مضاف ’’اَنْفُس ‘‘ اور مضاف الیہ  (ھُمْ) مل کر فعل [شَرَوْا]  کا مفعول بہ ہے۔ اسی لئے ’’اَنْفُسَ ‘‘نصب میں ہے جس کی علامت ’’سَ ‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)ہے اس طرح یہ جملہ (شَرَوْا بِہٖ اَنْفُسَھُمْ)مخصوص بالذم ہوکر مبتداء ہے جس کی خبر مقدم جملہ فعلیہ ’’ لَبِئْسَ مَا ‘‘ہے۔

(۱۰)  لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ

[لَوْ] شرطیہ (بمعنی اگر)بھی ہوسکتا ہے اور حرف تمنی (بمعنی کاش کہ)بھی۔ دونوں صورتوں میں یہ کوئی عمل نہیں کرتا یعنی شرطیہ ہوتے ہوئے بھی جزم نہیں دیتا۔ [كَانُوْا]فعل ناقص صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں اسم کَان ’’ھُمْ‘‘ شامل ہے۔[ يَعْلَمُوْنَ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھُمْ‘‘ جملہ فعلیہ بن کر ’’کَانُوا‘‘ کی خبر ہے۔گویا ’’ لَو کَانُوا عَالِمِین‘‘کے مفہوم میں ہے۔ ’’لَوْ‘‘کو ’’تمنّی‘‘کے لئے سمجھیں تو یہ جملہ مکمل ہے۔ اگر ’’لَوْ ‘‘کو شرطیہ سمجھا جائے تو جواب شرط محذوف ہے مثلاً ’’لَمَّا فَعَلُوہٗ ‘‘(تو وہ ایسا نہ کرتے)۔

(۱۱)   وَلَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَۃٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ خَيْرٌ

[وَ]یہاں استیناف کی ہے اور [لَوْ]یہاں شرطیہ ہی ہے جسے بعض نحوی ’’ حرفُ امتناع لِا متناعٍ‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں کسی ایسی شرط کا بیان ہوتا ہے جس کا وجود نہیں (یعنی پائی نہ گئی)اس لئے اس کا جواب بھی ممتنع (ناقابل حصول) ہے۔ یعنی چونکہ شرط ممتنع (غیر موجود ہے) تو جواب شرط بھی ممتنع (غیر ممکن) ہوتا ہے۔ [اَنَّھُمْ] یہ حرف مشبہ بالفعل (اَنَّ)اور اس کا اسم (ضمیر منصوب ’’ھُمْ‘‘)ہے مگر چونکہ ’’لَوْ‘‘شرطیہ جملیہ اسمیہ پر داخل نہیں ہوتا اس کے بعد کوئی فعل ہی آنا چاہیے اس لئے نحوی اس ’’اَنَّھُمْ ‘‘کو ایک محذوف فعل (ثَبَتَ  = ثابت ہوجاتا )کے ہم معنی سمجھتے ہیں اور پھر اس (اَنَّھُمْ)کے بعد بصورت خبر آنے والے فعل کو مصدور مٔوول (بطورِ مصدر)اس محذوف فعل (ثَبَتَ)کا فاعل سمجھتے ہیں مثلاً یہاں اس ’’ اَنَّھُمْ ‘‘کی خبر ماضی کے دوصیغہ فعل [اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا]آئے ہیں اب یا تو یہ سیدھا شرطیہ جملہ ’’ لَوْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا ‘‘ہوتا تو ٹھیک تھا کہ ’’لَوْ ‘‘کے بعد فعل ہی آتا ہے لیکن اب ’’لَوْ‘‘کے بعد ’’ اَنَّھُمْ ‘‘آنے کی وجہ سے (جو جملہ اسمیہ کی ابتداء ہے) ان دونوں صیغہ ہائے فعل کے مصدر موٗوّل اس محذوف فعل کے فاعل مرفوع سمجھے جائیں گے۔ گویا یہ عبارت اب دراصل ’’لَوْ ثَبَتَ اِیمَانُھم وتَقوٰھُم‘‘سمجھی جائے گی یعنی اگر ان کا ’’ایمان اور تقویٰ ثابت ہوتا‘‘ یہ الجھن صرف اس لئے پیدا ہوئی کہ ’’لَوْ ‘‘کے بعد جملہ فعلیہ ہی آتا ہے اگر جملہ اسمیہ آجائے تو نحوی حضرات اسے کھینچ تان کر (ایک محذوف فعل کے ذریعے ہی سہی)جملہ فعلیہ بنا لیتے ہیں۔ اردو میں اس ’’ اَنَّھُمْ ‘‘کے ’’اَنَّ‘‘(کہ بے شک)کا ترجمہ نہ کرنے کی یہی وجہ ہے۔ کیونکہ ’’لَوْ ‘‘(اگر )کے ساتھ (بے شک)لگنے کا کوئی تک نہیں بنتا۔ اسی لئے نحوی اس ’’اَنَّ ‘‘کو فعل ’’ثَبَتَ‘‘کے معنی میں لیتے ہیں کہ ’’ثابت‘‘ اور ’’بے شک‘‘ ایک طرح سے ہم معنی ہیں۔ [لَمَثُوبَۃٌ]کے شروع میں لام الابتداء ہے جو بعض دفعہ بغرض تاکید مبتدا پر بھی لگتی ہے اور یہ جواب شرط (لَوْ)میں آنے والی لامِ مفتوحہ بھی ہوسکتی ہے۔ ویسے عموماً جو اب لَوْ میں آنے والے لام مفتوحہ کے بعد بھی جملہ فعلیہ ہی آتا ہے۔ اس لئے اسے لام الابتداء سمجھنا زیادہ بہتر ہے۔ ’’ لَمَثُوبَۃٌ ‘‘ یہاں مبتدا مرفوع ہے اور اس کے نکرہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر صفت موصوف (مرکب توصیفی)نکرہ آئے تو اس میں مبتداء بننے کی صلاحیت ہوتی ہے (جیسے  وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ)(البقرہ: ۲۲۱ میں ہے)یہاں بھی [مِنْ عِنْدِاللہِ]پورا مرکب جاری (مِن جارہ + عند ظرف مضاف + اللہ مضاف الیہ)مل کر ’’ مَثُوبَۃٌ ‘‘نکرہ موصوفہ کی صفت کا کام دے رہا ہے، یعنی ’’وہ ثواب جو اللہ کے ہاں سے ملتا تو وہ‘‘ کا مفہوم رکھتا ہے۔ [خَیْر]اس (مَثُوبَۃٌ)کی خبر مرفوع ہے۔

(۱۲)  لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ

یہی جملہ اوپر نمبر ۱۰ میں گزرا ہے۔

 

۲ : ۶۲ : ۳       الرسم

زیرمطالعہ آیات میں بلحاظ رسم قرآنی کل گیارہ کلمات قابل توجہ ہیں۔ ان میں سے چار کلمات کا رسم مختلف فیہ ہے اور سات کا متفق علیہ۔ یہ گیارہ کلمات حسب ذیل ہیں۔ تتلوا، الشیٰطین، سلیمٰن، لٰکن، ھاروت، ماروت، یعلّمٰن، اشترٰہ ، الاخرۃ، خَلَاق اور لَبئس مَا۔

تفصیل یوں ہے:

(۱) ’’تَتْلُوا ‘‘ : اس صیغہ فعل کی عام املاء ’’ تَتْلُوا ‘‘(واو کے بعد الف کے بغیر)ہے تاہم مصاحف میں اس کے آخر پر ایک زائد الف لکھا جاتا ہے (تَتْلُوا) اصل مصاحف عثمانی کے رسم میں متعدد کلمات میں الف زائدہ لکھا گیا تھا جن کا ذکر کتب الرسم میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض ’’زیادات‘‘ کو کسی قاعدے (عموم)کے تحت بھی بیان کیا گیا ہے ۔[4] (یا یوں کہئے کہ مصاحفِ عثمانی کے رسم سے یہ قاعدے اخذ کئے گئے) تاہم زیادہ تر ’’الف‘‘کی یہ زیادتی کسی قاعدہ قانون کے تحت نہیں بلکہ ’’نقل صحیح‘‘ کی بناء پر اس کی پابندی کی جاتی ہے۔ مثلاً رسم عثمانی میں ہر واو متطرفہ (آخر پر آنے والی واو) کے آخر پر عموماً ایک زائد الف لکھا گیا تھا چاہے وہ کوئی اسم مضاف ہو یا صیغہ فعل۔ مثلاً اولوا، بنوا ، مرسلوایا آمنوا ، لا تفسدوا، وغیرہ۔ بعد میں جب عربی املاء کو نحویوں نے ترقی دی اور اس کے قواعد بنائے تو اس قسم کا زائد الف صرف واوا لجمع والے صیغہ فعل کے لئے ضروری قرار دیا گیا باقی کلمات میں جہاں واو متطرفہ آئے وہاں اس کا لکھنا غلط قرار دیا گیا، تاہم قرآن کریم کی املاء نحوی قواعد املاء کے تحت نہیں بلکہ نقل اور روایت کے تحت اختیار  کی جاتی ہے۔ قرآن کریم کی املاء میں یہ واو الجمع (فعل) کے بعد الف زائدہ کا قاعدہ چلتا ہے۔ مثلاً اسی قطعہ میں سات افعال (اتبعوا، کفروا، شروا، کانوا، آمنوا ، اتقوا اور علموا )کے ساتھ آخر پر واو کے بعد الف زائدہ لکھا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس قاعدہ کے خلاف (یا اس سے مستثنیٰ) چھ صیغہ افعال آئے ہیں۔ ان پر حسب موقع بات ہوگی۔ اب یہ صیغہ فعل ’’تَتْلُو ‘‘تو واحد کا صیغہ ہے اور اس کی ’’واو‘‘ واوالجمع نہیں بلکہ اصل مادہ کی ’’و‘‘ ہے (تَلا یتلُو سے )۔ لہٰذا عام رسم املائی میں اس کے بعد زائد الف لکھنا غلط ہے مگر رسم عثمانی کے مطابق یہاں زائد الف لکھنا بالا تفاق ضروری ہے۔ قرآن کریم میں صیغہ فعل ’’یتلوا‘‘ (واحد مذکر)سات جگہ ، ’’تَتْلُوا‘‘(صیغہ واحد مؤنث غائب یا مذکر حاضر)۵ جگہ، ’’اَتْلُوا ‘‘(واحد متکلم)دوجگہ اور ’’نَتْلُوا ‘‘(جمع متکلم) ایک جگہ آیا ہے۔ ان تمام مقامات پر آخر میں الف زائدہ لکھا جاتا ہے۔ البتہ اگر ایسے صیغہ فعل کے ساتھ کوئی ضمیر منصوب (مفعول)آجائے تو پھر یہ الف نہیں لکھا جاتا۔

(۲) ’’الشّیٰطِین ‘‘ : اس کی عام املاء ’’ الشیَاطین ‘‘ (باثبات الف بعد الیاء)ہے مگر قرآن کریم میں بالاتفاق اسے یہاں اور ہر جگہ (اور یہ لفظ مفرد مرکب صورتوں میں ۱۸ جگہ آیا ہے) بحذف الالف بعد الیاء (الشّیٰطِین) لکھا جاتا ہے تاہم یہ الف پڑھا جاتا ہے اس لئے بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے اسی آیت میں یہ لفظ دوبار آیا ہے۔

(۳) ’’سلیمٰن ‘‘ : اس کی عام املاء ’’ سُلَیمان ‘‘یعنی باثبات الف بعد المیم ہے مگر قرآن کریم میں اسے یہاں اور ہر جگہ (اور یہ لفظ کل ۱۷ جگہ آیا ہے دو دفعہ تو اسی آیت میں ہے)بالاتفاق بحذف الالف بعد المیم (بصورت ’’ سلیمٰن ‘‘)ہی لکھا جاتا ہے۔

(۴) ’’لٰکِن ‘‘ :مخففہ (لٰکنْ) ہو یا مشددہ (لٰکِنَّ)قرآن کریم میں بلکہ عام عربی املاء میں بھی ہمیشہ ’’بحذف الالف بعد اللام ‘‘ لکھا جاتا ہے (قیاس تو ’’لاکِن‘‘ چاہتا تھا) اور اس کا یہ رسم املائی بھی عربی املاء پر رسم قرآنی (عثمانی)کے اثرات کا مظہر ہے۔

(۵)  ’’ھَارُوت ‘‘ : یہ بھی ایک عجمی (غیر عربی)نام ہے۔ اس کے الف بعد الھاء کے حذف یا اثبات میں اختلاف ہے۔ ابوداوٗد کی طرف منسوب قول حذف کے حق میں ہے جکہ الدانی سے اثبات منقول ہے۔ چنانچہ بیشتر عرب اور افریقی مصاحف میں اسے بحذف الف ’’ھروت‘‘لکھا جاتا ہے مگر برصغیر، ایران، ترکی وغیرہ کے علاوہ لیبیا کے مصاحف میں اسے باثباتِ الف ’’ ھَارُوت ‘‘لکھا جاتا ہے۔

(۶) ’’مَارُوت ‘‘: اس کی املاء میں بھی وہی مندرجہ بالا (ھَارُوت والا )اختلاف ہے۔ یعنی ابوداؤد کے مطابق یہ ’’مٰروُت‘‘ہے۔ مگر الدانی کے مطابق اس کی املاء ’’ مَارُوت ‘‘(باثباتِ الف)ہے۔

(۷) ’’یُعَلِّمٰنِ ‘‘: یہ فعل مضارع کا صیغہ تثنیہ مذکر غائب ہے۔ عام رسم املائی میں اسے ’’یعلِّمان‘‘(باثبات الف بعد المیم)لکھا جاتا ہے۔ تثنیہ کے صیغے کے بارے میں رسم قرآنی کا قاعدہ یہ بیان کیا گیا ہے۔[5] کہ تثنیہ کا الف (فعل میں ہو جیسے یہاں ہے یا کسی اسم مرفوع میں ہو جیسے ’’رَجُلَانِ ‘‘ میں ہے)یہ جب لفظ کے اندر واقع ہو یعنی متطرف (آخر پرالگ)نہ ہو (جیسے قالا، کانَتا یا مضاف مرفوع مثلا’’رَسُولَاَ رَبِّکَ ‘‘ میں ہے)تو ابوداؤد کے قول کے مطابق یہ الف تثنیہ ہر جگہ لکھاجاتا ہے البتہ بعض مقامات پر محذوف کیا جاتا ہے۔ جب کہ الدانی کے مطابق تثنیہ کا یہ الف (اسماء و افعال دونوں میں)لکھنے میں محذوف ہوتا ہے البتہ سورۂ الرحمن کے ’’تُکَذِّبَانِ ‘‘ دونوں طرح (بحذف اور باثبات)لکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایشیائی ممالک اور لیبیا کے مصاحف میں یہ لفظ بحذفِ الف ’’یُعَلِّمٰنِ‘‘لکھا جاتا ہے، جب کہ ابوداؤد کے قول پر عمل کرتے ہوئے بیشتر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے باثباتِ الف یعنی عام رسم املائی کی طرح ’’یُعَلِّمَانِ‘‘لکھا جاتا ہے اور وجہ اس اختلاف کی یہ ہے کہ اصل مصاحف عثمانی میں یہ (تثنیہ والے الفاظ) کہیں حذف الف اور کہیں اثبات الف کے ساتھ لکھے گئے تھے۔

(۸) ’’اِشْتَرٰہُ ‘‘ : اس کا ابتدائی صیغہ فعل ’’ اِشْتَرٰی‘‘ رسم املائی میں بھی آخر یہ ’’ی‘‘کے ساتھ ہی لکھا جاتا ہے جو پڑھی بصورت ’’الف ‘‘ ہی جاتی ہے۔ جب اس صیغہ کے بعد کوئی ضمیر بطور مفعول آرہی ہو (جیسے یہاں ہے)تو عام رسم املائی میں اس ’’ی‘‘ کو بصورت الف ہی لکھ دیتے ہیں (یعنی یہاں بصورت ’’اِشْتَرَاہُ ‘‘)تاہم قرآن کریم میں ایسی ’’ ی ‘‘جوتعلیلِ صرفی کی بنا پر الف میں بدل کر بولی جاتی ہو عموماً اسے ہر جگہ بصورت ’’یاء‘‘ ہی لکھا جاتا ہے البتہ اس کے بعد مستثنیات ہیں جو حسب موقع بیان ہوں گے۔ تعلیلِ صرفی کے نتیجے میں الف میں بدلنے والی ’’یاء‘‘ کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے الف بصورت ’’یاء‘‘ہی  لکھے جاتے ہیں (مثلاً اِلٰی، علٰی، حتی یتامیٰ، نجوی وغیرہ )جن میں سے بہت سے کلمات عام عربی میں بھی رسم قرآنی ہی کی طرح لکھے جاتے ہیں یعنی الف کے بصورت ’’ ی ‘‘لکھنے کے کچھ مقررہ قواعد مستنبط کئے گئے ہیں اور ہر قاعدہ کے کچھ مستثنیات ہیں  [6] لہٰذا ہم ایسے الفاظ پر حسب موقع فرداً فرداً بات کرتے جائیں گے۔ بہرحال یہ لفظ ’’اشترٰی‘‘ (صیغہ واحد مذکر غائب)ضمیر مفعول برائے واحد مذکر (ہُ)کے ساتھ قرآنِ کریم میں صرف دو جگہ آیا ہے اور دونوں جگہ بالاتفاق الف بصورت یاء کے ساتھ (یعنی ’’اشترٰہ ‘‘)ہی لکھا جاتا ہے۔

’’الاخِرَۃ ‘‘: اس لفظ کے رسم عثمانی پر جو رسم املائی کے مطابق ہی ہے (یا یوں کہئے کہ رسم املائی دراصل قرآنی پر ہی مبنی ہے) اس سے پہلے البقرہ: ۴ [۲ : ۳ : ۳ ] میں مفصل بات ہوئی تھی۔

’’خَلاق ‘‘: یہی اس کا رسم املائی بھی ہے۔ تاہم اس کے رسم عثمانی میں اختلاف ہے۔ ابوداؤد کے قول کے مطابق یہ ’’بحذف الالف بعد اللام‘‘ یعنی بصورت ’’خلٰق‘‘لکھا جاتا ہے۔ الدانی نے اس کے حذفِ الف کا ذکر نہیں کیا جو اثبات کو مستلزم ہے۔ بلکہ الدانی نے ’’فعّال‘‘ کے وزن پر آنے والے کلمات میں الف کے اثبات کی تصریح کی ہے۔ چنانچہ یہ لفظ بھی بیشترافریقی و عرب ممالک  کے مصاحف میں بحذف الف (خلٰق)لکھا جاتا ہے۔ اور لیبیا کے علاوہ تمام ایشیائی ممالک میں یہ باثبات الف (خَلاق)لکھا جاتا ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں (مفرد یا مرکب شکل میں)کل چھ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ یہی اختلاف ہے۔

’’ لَبِئْسَ مَا ‘‘: یہ دو لفظ یہاں بالاتفاق مقطوع لکھے جاتے ہیں  یعنی ’’ لَبِئْسَ ‘‘کے ’’س‘‘کو ’’ما‘‘ کے ساتھ ملا کرنہیں لکھا جاتا ہے (جیسا کہ چند مقررہ مقامات پر ’’بِئْسَ‘‘اور ’’ما‘‘کو موصول (ملاکر)لکھا جاتا ہے۔ مزید دیکھئے البقرہ: ۹ [۲ : ۵۵ : ۳ ] میں کلمہ ’’ بِئْسمَا‘‘کی بحث الرسم۔

 

۲ : ۶۲ : ۴      الضبط

زیر مطالعہ قطعہ میں ضبط کا کافی تنوع موجود ہے۔ تاہم اب ہم صرف ان کلمات کے ضبط کے نمونے دیں گے جن میں تنوع زیادہ ہے۔ اگر محض حرکات یا ہمزہ کی شکل کا فرق ہے۔

 

 

 



[1] دیکھئے ’’تناوب حروف الجر‘‘ للدکتور محمد حسن عواد (الارون) ص ۹۷ تا ۱۰۲۔

 

[2] مثلاً البستان، اللسان اور Lane

 

[3] دیکھئے المفردات للراغبؒ

 

[4] مثلاً دیکھئے سمیر الطالبین للضباع، ص ۷۲ ۔ المقنع للدانی، ص ۴۲ ۔ العقیلہ، ص ۵۵ ببعدٗ دلیل الحیران للمارعنی، ص ۲۲۴ ۔ ۲۵۲ ۔ ونثرالمرجان للارکاتی ، ۱ : ۶۱ تا ۶۵۔

 

[5] دیکھئے، سمیر الطالبین، ص ۳۷ ۔ المقنع ص ۱۷۔ شرح العقیلہ، ص ۴۷۔ و لطائف البیان لزیتحار ۱ : ۳۳ ونثر المرجان ۱ : ۳۱۔

 

[6] دیکھئے، المقنع ص ۶۳ ببعد، سمیر الطالبین ، ص ۸۵ ببعد، نثر المرجان ۱ : ۶۹ ببعد۔