سورۃ البقرہ آیات  ۱۰۴  اور  ۱۰۵

۲ : ۶۳        يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا    ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ)۱۰۴) مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭ وَاللہُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ     ۭ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ(۱۰۵)

۲ : ۶۳ : ۱        اللغۃ

[يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا . . . .]

(۱)  ’’ يٰٓاَيُّہَا ‘‘. . . . (اے) یہ’’یا + ایُّ + ھا ‘‘ کا مجموعہ ہے جو مل کر حرفِ  ندا ’’یا‘‘ کا ہی کام دیتا ہے، البتہ اس کے استعمال میں مذکر مٔونث الگ الگ صورتِ کلمہ سے کی جاتی ہے۔ اس مجموعی کلمہ (يٰٓاَيُّہَا) کی مفصل لغوی نحوی بحث البقرۃ : ۲۱ [۲ : ۱۶ : ۱ (۱)]   میں گزری تھی۔

(۲) ’’ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ (وہ لوگ جو ایمان لائے)۔ اس کے ابتدائی اسم موصول (الَّذِيْنَ) کے استعمال اور املاء وغیرہ پر الفاتحہ : ۷ [۱  : ۶ : ۱(۱) ]  میں بات ہوئی تھی۔ اور ’’ اٰمَنُوْا ‘‘ کے باب مادہ، معنی وغیرہ کے لئے دیکھئے البقرہ : ۳  [۲ : ۲ : ۱ (۱) ] ۔ یہی پوری ترکیب (الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) پہلی دفعہ البقرہ: ۱۴ [ ۲ : ۱۱ : ۱ (۱) ] میں گزری ہے ۔ یہاں شروع میں حرف نداء (یاایھا) لگنے  سے اس کا ترجمہ بصورتِ خطاب ہوگا  ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘‘۔ اسی کا شستہ ترجمہ ’’اے ایمان والو‘‘ کیا جاسکتا ہے۔

(۳) ’’ لَا تَقُوْلُوْا ‘‘ (تم مت کہو، تم نہ کہو)یہ فعل (قال یقول) (کہنا) سے فعل نھی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس فعل کی لغوی وضاحت البقرہ :       ۸ [۲ : ۷ : ۱ (۵) ] میں گزری ہے۔  ’’ لَا تَقُوْلُوْا ‘‘ کا وزن اصلی ’’لا تفعلوا‘‘ اور شکل اصلی ’’ لَا تَقُوْلُوْا ‘‘ تھی، جس میں متحرک حرف علت کی حرکت اس سے ماقبل ساکن حرف صحیح کو دے دی جاتی ہے اور اس سے فعل نھی کی گردان ’’ لا تقل ، لا تقولا، لا تقولوا، لا تقولی، لا تقولا اور لا تقلن ‘‘ ہوگی۔

(۴) [رَاعِنَا] اس میں آخری ’’نا‘‘ تو ضمیر منصوب (بمعنی ’’ہم کو ، ہمیں‘‘) ہے اور ابتدائی لفظ ’’راعِ‘‘ کا مادہ ’’ر ع ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فاعل‘‘ ہے۔ یعنی یہ باب مفاملہ سے فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’راعی‘‘ تھی، مگر ناقص افعال جب مجزوم ہوتے ہیں (جس کی ایک شکل فعل امر ہونا ہے) تو لام کلمہ کے طور پر آنے والا حرف علت (و  یا  ی) کتابت اور تلفظ سے گر جاتا ہے۔ یوں یہ لفظ اب بوزن ’’فاعِ‘‘ رہ گیا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’رعَی یَرعَی (رَعَیَ یَرْعَی) رَعْیاً و مَرْعیً ‘‘ (فتح سے ) کے بنیادی معنی ہیں ’’جانور کی حفاظت کرنا خوراک مہیا کرکے یا دشمن سے بچا کر۔‘‘ پھر اس میں ’’مویشیوں کا (گھاس وغیرہ کو) چرنا (چرجانا) یا ان کو (اس میں) چرانا (چرنے کے لئے چھوڑنا)‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی یہ فعل تو متعدی ہی ہے اور اِس کا مفعول ’’گھاس یا چراگاہ‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’مویشی وغیرہ‘‘ بھی۔ مثلاً کہیں گے: ’’رَعَتِ المَاشِیَۃْ الْکَلَلأَ‘‘ (مویشیوں ) (الماشیۃ) نے گھاس (الکلأ) کو چرلیا۔ چر گئے) اور ’’’رعی الماشیۃ‘‘ (اس نے مویشیوں کو چرانے کے لئے کھلا چھوڑ دیا یعنی چرایا) . . . . اور اگر ’’راعَی علٰی فلان ‘‘ کہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے ’’اس نے فلاں کے مویشی چرائے۔‘‘ پھر اس سے یہ فعل ’’نگرانی کرنا‘ حفاظت کرنا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، مثلاً کہتے ہیں ’’رَعَی الشَّی ‘‘ (اس نے چیز کی حفاظت کی) مگر اس  صورت میں اس کا مصدر زیادہ تر ’’رعایۃ‘‘ آتا ہے (اسی سے ہمارا اردو کا لفظ ’’رعایت‘‘ بنا ہے)اور اسی (حفاظت کرنا والے) معنی سے لفظ ’’رعیۃ‘‘ ماخوذ ہے جو اردو میں تائے مبسوط کی املا کے ساتھ (رعیت) استعمال ہوتا ہے۔ یعنی زیر نگرانی یا زیر حفاظت افراد کا مجموعہ۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد (رَ عَی یَرْعَی) سے صرف دو صیغۂ فعل دو ہی جگہ آئے ہیں۔ ان میں ایک جگہ (الحدید: ۲۷) تو یہ ’’حفاظت کرنا‘‘ کے معنی میں ہے اور دوسری جگہ (طہٰ : ۵۴) یہ ’’چرانا‘‘ کے معنی میں ہی آیا ہے۔ مزید فیہ کے بابِ مفاعلہ سے صرف یہی ایک صیغہ (’’راعِ‘‘ نَا) دو جگہ آیا ہے۔ اس پر ہم ابھی مزید بات کریں گے . . . . اس کے علاوہ  اس کے فعل مجرد سے بعض مشتقات اور مصادر (راعون، الرعا ء ، رعایۃ اور مَرعَی وغیرہ) بھی پانچ چھ جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (راعِنا) کا پہلا حصہ ’’راعِ‘‘ (جیسا کہ اوپر بیان ہوا) اس مادہ (رعی) سے باب مفاعلہ کا صیغہ امر ہے۔ اس باب سے فعل ’’راعَی . . . .  یُراعِی  رِعاءً  و مُراعاۃً  کے معنی  ہوتے ہیں: ’’ . . . .کو ملاحظہ کرنا . . . . کا لحاظ کرنا . . . .کی طرف (ازراہِ کرم) متوجہ ہونا، التفات کرنا ‘‘ بعض دفعہ اس پر ’’الیٰ ‘‘ کا صلہ بھی لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’راعی الرجل وراعی الی الرجلِ‘‘ (اس نے آدمی کی طرف توجہ کی) ۔ قرآن کریم میں یہ فعل بغیر صلہ کے ہی آیا ہے اور یوں ’’راعنا‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ہماری طرف توجہ یا التفات فرمائیے‘‘۔ (صیغہ فعل تو واحد مذکر مخاطب ہے یعنی ’’توالتفات کر، توجہ دے ‘‘ کے معنی میں، مگر چونکہ اس میں خطاب آنحضور ﷺ کو ہوتا تھا اس لئے صیغہ تعظیم کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے ) . . . . یوں اس عبارت کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’ایمان والو! تم مت کہو : ہم پر توجہ فرما‘‘. . . . تاہم اس کا ترجمہ کیا گیا ہے ’’ایمان والو! (آنحضرتﷺ کو متوجہ کرنے کے لئے ) ’’راعِنا‘‘ کا استعمال مت کرو ‘‘. . . . اس کی وجہ؟

·       کتب تفسیر میں منقول ہے کہ صحابہ کرام ؓ اکثر نبی کریم ﷺ کو ان لفظوں (یعنی  اس صیغہ فعل) سے مخاطب کرتے تھے۔ یہودی آپؐ کو ان ہی الفاظ میں مخاطب کرتے ہوئے یا تو زبان مروڑ کر ’’رَاعِینا‘‘ کہتے تھے جس کا مطلب بنتا ہے ’’ہمارے چرواہے ‘‘. . .  یا عربی زبان ہی کے ایک اور فعل ’’رَعَنَ یَر عَنُ ‘‘ (بمعنی احمق ہونا)سے اس فاعل کا صیغہ حال ’’راعِناً‘‘ دبی زبان میں کہہ دیتے ۔ اور بعض نے لکھا ہے کہ وہ اس لفظ ’’راعِناَ‘‘ سے ملتا جلتا عبرانی زبان کا کوئی لفظ بولتے تھے جس کے معنی ’’تجھے کچھ سنائی نہ دے ‘‘ بنتے تھے۔ ایک دفعہ مشہور صحابی حضرت سعد بن معاذؓ نے کسی یہودی کی اس خباثت کو (اس لفظ کے استعمال میں )تاڑ لیا اور اسے آئندہ اس سے باز رہنے کی دھمکی دی تو اس نے کہا ’’تم بھی تو رسول اللہ (ﷺ) کو اسی لفظ سے مخاطب کرتے ہو۔‘‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو اس لفظ (رَاعِناَ) کے استعمال سے ہی روک دیا گیا۔ اب اگر کوئی یہ لفظ (اچھے مفہوم میں بھی)استعمال کرتا تو وہ گویا اپنے منافق یا یہودی ہونے کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتا ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو اسی مفہوم کا ایک اور لفظ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ (جس پر ابھی آگے بات ہوگی)استعمال کرنے کا حکم دیا . . . .

·       تو یہ ہے وجہ اس عبارت کا مندرجہ بالا ترجمہ (مسلمانو ’’راعِنا ‘‘ کہا ہی نہ کرو۔ یہ لفظ ہی استعمال نہ کرو)کرنے کی۔ یہودیوں کی اس شرارت اور ناشائستگی کا مزید وضاحت کے ساتھ ذکر سورۃ النساء : ۶۴ میں  آیا ہے اور اس حکم کی غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ کے بارے میں بے ادبی کے ادنیٰ شائبہ (شک) سے بھی بچنا ضروری ہے اور اس لحاظ سے یہ حکم محض وقتی یا عارضی نوعیت کا نہیں بلکہ دائمی نوعیت کا ہے۔ اور ضمناً اس میں یہ سبق بھی ہے کہ کسی سے مخاطبت میں (چاہے وہ مخالف ہو یا دشمن ہی کیوں نہ ہو) شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جس کے نمونے ہمارے سیاست دانوں کی ’’زبان‘‘ میں اکثر ملتے ہیں۔

·       اردو کے تو قریباً سب ہی مترجمین نے ’’رَاعِنا‘‘ نہ کہو  ، یا اسی سے ملتا جلتا ترجمہ کیا ہے البتہ انگریزی اور فارسی کے بعض مترجمین نے ’’رَاعِنا‘‘ کا (اور آگے آنے والے لفظ ’’انظرنا‘‘ کا)لفظی ترجمہ بھی کردیا ہے [مثلاً ’’رَاعِنا‘‘ = مارا رعایت کن اور ’’اُنظُرنا ‘‘ = مارا در نظردار) یا ’’راعِنا‘‘ (Listen to us) اور ’’اُنْظُرنَا ‘‘ (Have patience with us)کی صورت میں ] مگر اس کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ بلحاظ معنی تو ’’رَاعِنا‘‘ اور ’’اُنْظُرنا‘‘ = قریباً مترادف ہی تھے۔ بعض (مثلاً عبداللہ یوسف علی) نے ان کلمات کا نہ تو ترجمہ کیا ہے اور نہ اصلی لفظ رہنے دیئے ہیں بلکہ ’’مبہم اور غیر واضح الفاظ میں مخاطب نہ کرو ‘‘. . . .   اور  ’’واضح مؤدبانہ زبان استعمال کرو‘‘ کی صورت (انگریزی) میں ترجمہ کیا ہے جو ظاہر ہے تفسیری ترجمہ ہے۔

(۲) [. . . . وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا] کی کلمہ دار وضاحت یوں کی ہے:

(۱) ’’ وَقُوْلُوا ‘‘ (اور تم کہو، کہا کرو) لفظ ’’ قُوْلُوا ‘‘ (جس کا مادہ ’’ق و ل ‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلُوا ‘‘ ہے، یعنی یہ قَالَ یَقُولُ (کہنا) سے فعل امر کا صیغہ ہے ) اس سے پہلے یہ لفظ اسی صیغہ کے ساتھ البقرہ : ۵۸ [ ۲ : ۳۷ : ۱ (۴) ] میں گزرچکا ہے۔

(۲) ’’ انْظُرْنَا ‘‘ (ہم کو دیکھئے ، ہم پر بھی نظر (کرم کی) ڈالئے۔ اس میں بھی آخری ’’نَا ‘‘ تو ضمیر منصوب (بمعنی ’’ہم کو‘‘)ہے اور ’’انْظُرْنَا ‘‘ بروزن انصرنا (اُفْعُلْ)صیغہ امر ہے۔اس کے فعل ’’نَظَرَ . . . .   یَنْظُرُنَظْراً‘‘ (. . . .کو دیکھنا کو نظر میں رکھنا)کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ : ۵۰ [ ۲ : ۳۲ :۱ (۱۴) ] میں بات ہوئی تھی۔ یہ فعل متعدی ہے اور کسی صلہ کے بغیر اور مختلف صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے۔ مثلاً ’’ نَظَرہ ‘‘ کا مطلب (اس نے اسے (ذرا غور سے) دیکھا) (یا اس کا منتظر رہا) بھی ہیں اور اسی (نَظَرَ ہٗ) کے معنی ’’اس کی حفاظت اور نگرانی کی‘‘ بھی ہیں اور ’’اس کو مہلت یا فرصت دی‘‘ کے بھی۔ اور ’’نَظَرَ فِیہِ‘‘ کا مطلب ہے ’’اس نے اس میں غورو تدبر کیا‘‘ اور ’’نَظَرَ اِلَیْہِ‘‘ کے معنی ’’اس کی طرف نظر دوڑائی ۔ اسے دیکھا‘‘ ہیں۔

·       قرآن کریم میں اس فعل سے بکثرت صیغہ ہائے فعل استعمال ہوئے ہیں اور قرآن میں یہ فعل کسی صلہ کے بغیر (مفعول بنفسہ کے ساتھ یا اس کے حذف کے ساتھ) بھی آیا ہے اور ’’فِی‘‘ اور ’’اِلٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی مندرجہ بالا تمام معانی کے لئے (مختلف جگہ) استعمال ہوا ہے۔

·       یہاں زیر مطالعہ لفظ ’’اُنظُرناَ ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ’’ہم کو دیکھئے ہم پر نظر کیجئے ہمیں فرصت دیجئے ‘‘ ہی بنتا ہے (یعنی بصیغہ تعظیم)۔ اس سے ظاہر ہے کہ بلحاظ معنی تو ’’ رَاعِنا ‘‘ کا مترادف ہی ہے مگر اس لفظ  ( رَاعِنَا) کے ادا کرنے میں اندر کی خباثت کا ’’دبا دبا ‘‘ اظہار ممکن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس لفظ کے استعمال سے ہی روک دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نے اردو میں اس ساری عبارت (لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا) کا (جو اوپر نمبر۱ و نمبر ۲ میں زیر بحث آئی ہے )کا ترجمہ ’’تم مت کہو ’’رَاعِنَا‘‘ اور (اس کی بجائے) تم ’’ اُنْظُرْ نَا‘‘ کہا کرو‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔

(۳) ’’ وَاسْمَعُوا ‘‘ (اور تم سنو، سن لو)۔ یہ فعل ’’سَمِعَ یَسْمَعُ ‘‘ (سننا) سے صیغہ امر ہے۔ اس عام مستعمل فعل مجرد پر بحث البقرہ : ۷ [۲ : ۶ : ۱ (۳) ] میں اور پھر البقرہ : ۷۵ [ ۲ : ۴۷ : ۱ (۳) ] میں گزر چکی ہے۔

·       مندرجہ بالا دونوں عبارتوں (لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا)میں جونہی اور امر کے صیغے ہیں ان میں سے پہلے دو (لَاتَقُولُوا اور قُولُوا) کا تعلق تو نبی کریمﷺ سے ہے۔ یعنی ان کے بعد ’’ لِلنَّبِیِّ ‘‘ مقدر ہے (نبی ﷺ سے یوں مت کہو بلکہ یوں کہو)۔ آخری صیغۂ امر (وَاسْمَعُوا) کا تعلق بظاہر اس دیئے گئے حکم سے ہے۔ اسی لئے اس کا ترجمہ ’’خوب سن رکھو، بغور سنو‘‘ کی صورت میں بھی کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس ’’سننے‘‘ کا تعلق بھی آنحضور ﷺ کی بات سے ہو۔ اس لئے بعض نے اس کا ترجمہ ’’ سنتے رہو، سنتے رہا کرو‘‘ سے بھی کیا ہے، کیونکہ فعل ’’ اسمعوا‘‘ کے بعد اس کا ’’مفعول‘‘ محذوف ہے جو مندرجہ بالا دو امکانات سے خالی نہیں ہے۔

(۳) [وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ ] (اور کافروں کے لئے دردناک سزا ہوگی)

(۱) ’’ وَلِلْكٰفِرِيْن ‘‘ جو ’’و ‘‘ (اور ) + ’’لِ ‘‘ (کے لئے) + الکافرین (کافروں)کا مجموعہ ہے۔ ’’ و ‘‘ عاطفہ کئی جگہ گزری ہے۔ لام الجر (لِ) کے معانی اور موقع استعمال پر الفاتحہ : ۲ [ ۱ : ۲ : ۱ (۴) ] میں بات ہوئی تھی۔ اور کلمہ ’’ الکافرین ‘‘ جو فعل مجرد کَفر یکفُر (کفرکرنا، انکارکرنا) سے اسم الفاعلین مجرور ہے۔ یہی لفظ البقرہ : ۱۹ [ ۲ : ۱۲ : ۱ (۱۴) ] میں گزرا ہے اور فعل ’’کَفَر ‘‘ پر البقرہ : ۶ [ ۲ : ۵ : ۱ (۱) ] میں بات ہوئی تھی۔

(۲) ’’ عَذَابٌ ‘‘ (سزا، مار، عذاب) ویسے تو اردو میں عام متعارف لفظ ہے، تاہم اس کی لغوی بحث کے لئے البقرہ : ۷ [۲ : ۶ : ۱ (۶) ] دیکھ لیجئے۔       

(۳) ’’ اَلِــيْمٌ ‘‘ (دردناک، دکھ دینے والا، دکھ بھرا) جو مادہ ’’ ا ل م ‘‘ سے ’’فَعِیْلٌ‘‘ کے وزن پر صفت مشبہ ہے۔ مزید لغوی وضاحت کے لئے دیکھئے البقرہ : ۱۰ [ ۲ : ۸ : ۱ (۹) ] مندرجہ بالا اکٹھی ترکیب (توصیفی) یعنی ’’ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ ‘‘ پہلی دفعہ البقرہ : ۱۰[۲ : ۸ :۱ (۹) ) میں گزری ہے۔

(۴) [مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ ] اس عبارت میں نیا لفظ صرف ’’ اَھْل ‘‘ ہے  جس پر ذرا تفصیلی بات ہوگی۔ باقی کلمات بالواسطہ یا بلاواسطہ پہلے گزرے ہیں۔ ان کا صرف ترجمہ اور گزشتہ حوالہ لکھ دینا کافی ہوگا۔

(۱)  ’’ مَا يَوَدُّ ‘‘ (نہیں چاہتا، دل نہیں چاہتا، ذرا بھی پسند نہیں کرتا، وہ خوش نہیں)ابتدائی ’’مَا ‘‘ نافیہ (بمعنی ’’نہیں ‘‘)ہے (دیکھئے البقرہ : ۳ [ ۲ : ۲ : ۱ (۵)] اور فعل ’’ يَوَدُّ ‘‘ جو ’’ و دد‘‘ مادہ سے صیغہ مضارع بروزن ’’یَفْعَلُ ‘‘ ہے، اس فعل مجرد (وَ دَّ یَوَدُّ چاہنا) کے باب، معنی اور استعمال وغیرہ کی البقرہ : ۹۶ [ ۲ : ۵۹ : ۱ (۴) ] میں کلمہ ’’یَوَدُّ‘‘ ہی کے ضمن میں وصاحت کی جاچکی ہے۔

(۲) ’’ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘ (وہ لوگ جو کافر ہوئے )بعینہ یہی صلہ موصول سب سے پہلے البقرہ : ۶ [۲: ۵ : ۱ (۱)] میں گزرا ہے۔ ضرورت ہو تو اُدھر رجوع کریں۔

(۳) ’’ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ ‘‘ (کتاب والوں میں سے۔ اہل کتاب میں سے)کلمہ ’’ مِنْ ‘‘ (جو یہاں بیان یا تبعیض کے لئے ہے) کے لئے دیکھئے البقرہ : ۳ [۲ : ۲ : ۱ (۵) ] اور لفظ ’’ الکتاب ‘‘ (کتاب جس سے یہاں مراد آسمانی کتاب۔ توراۃ و انجیل ہے) کی لغوی بحث بھی البقرہ : ۲ [ ۲ : ۱ : ۱ (۲) ] میں گزری ہے۔ چاہیں تو دیکھ لیجئے۔ کلمہ ’’ اَھْلٌ ‘‘ (جو عبارت میں مجرور اور خفیف ہے) کا مادہ ’’اھل‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ ‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’ اَھَلَ یَأھُلُ أَھْلًا‘‘ (نصر سے)کے ایک معنی ’’ . . . . سے شادی کرلینا‘‘ہیں۔ کہتے ہیں ’’ اھل فلانۃ ‘‘ (اس نے فلاں عورت سے شادی کرلی)اور یہی فعل بطور ’’لازم‘‘ شادی شدہ ہوگیا کے معنی بھی دیتا ہے اور ’’آباد ہونا ‘‘ کے بھی۔ مثلاً کہتے ہیں : ’’اھَل المَکانُ ‘‘ (اَھُولاً مصد کے ساتھ) یعنی مکان آباد ہوگیا۔ (اس میں گھروالے آبسے)اور فعل ’’اَھِلَ یَا ھَلُ اھلاً ‘‘ (سمع سے)کے معنی ’’ . . . . سے مانوس ہونا ‘‘بھی  ہیں مگر اس صورت میں اس پر ’’با ‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ کہتے ہیں ’’اَھِلَ بہ‘‘ (وہ اس کے ساتھ مانوس ہوگیا)۔ اسی سے پالتو جانوروں (بخلاف جنگلی یعنی وحشی کے) کو بھی ’’ اھلیٌّ ‘‘ کہتے ہیں مثلاً ’’ حِمار اھلیُّ‘‘ (پالتو، گھریلو گدھا)۔ اور بطورِ فعل مجہول بھی یہ فعل لازم والے معنی دیتا ہے مثلاً کہیں گے ’’ اُھِلَ المَکانُ ‘‘ (مکان آباد ہوگیا، کرلیا گیا) آباد مکان کو ’’مَأ ھول ‘‘ کہتے ہیں۔ اور ’’الارضُ المأھولۃ ‘‘ ’’ وہ زمین ہے جہاں آبادی (یعنی مکانات)بن جائیں ‘‘۔ مجرد کے علاوہ عربی زبان میں اس مادہ سے مزید فیہ کے متعدد ابواب سے فعل مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآنِ کریم میں اس سے کسی قسم کا کوئی صیغہ فعل (نہ مجرد نہ مزید فیہ) کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔

زیر مطالعہ لفظ ’’ اَھْل ‘‘ فعل مجرد سے مصدر بھی ہے اور اسم بھی۔ اور یہ بھی متعدد معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اس میں بنیادی مفہوم ’’نسب، دین، گھر، وطن، پیشہ، شہر وغیرہ کی وجہ سے اکٹھے ہونے والوں ‘‘ کا ہے۔ اسی لئے اس کا ترجمہ ’’ گھر والے، بیوی، قریب رشتہ دار، پیروکار، حقدار، مالک، لائق، مستحق، باشندے (رہنے والے) ‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے اور قرآن کریم میں یہ تمام معانی  مختلف مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ اس لفظ کی جمع سالم آتی ہے یعنی ’’ اَھْلُون ‘‘ اور’’ اَھْلِینَ ‘‘ (بصورت نصب یا جر) اور جمع مکسر ’’اَھالِی‘‘ ہے جو قرآن میں نہیں آئی۔

یہ لفظ بصورت واحد یا جمع ہر صورت میں مضاف ہوکر ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مضاف الیہ کوئی اسم ظاہربھی ہوسکتا ہے اور کوئی ضمیر بھی۔ اردو میں عموماً ’’ اھل  . . . . ‘‘ کا ترجمہ  ’’والے ، والا‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اور اس لحاظ سے خود لفظ ’’ اھل‘‘ (واحد)میں بھی مجموعہ یا جمع کا مفہوم موجود ہوتا ہے اور جمع سالم زیادہ تر ’’گھر والوں یا قریبی رشتہ داروں ‘‘ کے معنی میں ہی آتی ہے ورنہ زیادہ تر واحد، جمع، مذکر، مؤنث سب کے لئے لفظ ’’ اَھْل‘‘ ہی استعمال ہوتا ہے۔مثلاً کہیں گے ’’ ھُوَ/ ھِیَ / ھُمْ / ھُنَّ اَھْلُ کَذَا یا اَھْلٌ لِکذا ‘‘ (اس چیز کے اہل ، مستحق، حقدار ہیں

·       عربی میں خوش آمدید (Welcome)کے لئے یہی لفظ ’’ اَھْلاً ‘‘ (منصوب)استعمال ہوتا ہے ’’ اَھْلاً وَسَھلاً ‘‘ کا اصل مطلب ہے ’’ جِئتَ اھلاً وَ نَزلتَ مکاناً سھلاً ‘‘ (تو گھر والوں کے پاس آیا اور  میدانی جگہ میں اترا ‘‘ (سَھْل کے معنی ہیں میدانی علاقہ بخلاف ریتلے یا پہاڑی کے) یعنی ’’یہاں تیری سواری کے جانور کے لئے بھی چارہ گھاس بآسانی مل جائے گا‘‘۔

·       لفظ ’’ اھل ‘‘ قرآن کریم میں کسی اسم ظاہر کی طرف مضاف ہو کر ۵۴ جگہ اور ضمائر کی طرف مضاف ہوکر ۶ جگہ آیا ہے اور بصورت جمع سالم مضاف ہوکر بھی کل چھ مقامات پر آیا ہے۔ زیر مطالعہ جگہ میں یہ ’’الکتٰب‘‘ کی طرف مضاف ہوکر آیا ہے یعنی ’’کتاب والے ‘‘ اور اس سے مراد عموماً یہودی یا عیسائی لئے جاتے ہیں۔

’’ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ ‘‘ (اور نہ ہی مشرکوں میں سے (کوئی)‘‘۔ ’’واو ‘‘ عاطفہ (اور) اور ’’لا‘‘ نافیہ (نہیں)کے بعد لفظ ’’ الْمُشْرِكِيْنَ ‘‘ مادہ ’’ ش ر ک ‘‘ سے باب افعال کا صیغہ اسم الفاعلین بروزن (لا م تعریف کے بغیر ) ’’ مُفْعِلِینَ ‘‘ ہے۔ اس بات کے فعل  ’’اَشْرَک . . . .  یُشْرِکُ ‘‘ (شریک بنانا)کے معنی و طریق استعمال پر البقرہ : ۹۶ [۲ : ۵۹ : ۱ (۳) ] میں بات ہوئی تھی۔

·       زیر مطالعہ لفظ  ’’ الْمُشْرِكِيْنَ ‘‘ کے لفظی معنی تو ہیں۔ ’’شرک کرنے والے (خدا کے ساتھ کسی کو ) حصّہ دار ٹھہرانے والے‘‘۔اور یہ کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم چونکہ زمانہ قبل از اسلام میں اہل عرب کا عام مذہب بت پرستی اور شرک ہی تھا اِس لئے قرآن کریم میں ان کو ’’مشرک‘‘( مشرکون۔ مشرکین) کہہ کر ذکر کیا گیا ہے۔ اس لئے اُردو میں اِس کا لفظی ترجمہ کرنے کی بجائے صرف ’’مشرکوں‘‘  یا ’’مشرکین‘‘ کے اردو استعمال سے ہی کیا گیا ہے اگرچہ بعض نے ’’شرک والوں‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔

·       اس ترکیب  ’’ ولاالمشركينَ ‘‘ پر مزید بحث ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔ اور زیر مطالعہ عبارت ایک نامکمل جملہ ہے جس کا ترجمہ تو بنتا ہے ’’ اور نہیں چاہتے وہ لوگ جو کافر ہوئے  کتاب والوں میں سے اور نہ ہی شرک والوں (میں سے) . . . .‘‘ ’’ مایوَدُّ ‘‘ کا ترجمہ ’’دل نہیں چاہتا، ذرا بھی پسند نہیں کرتے، خوش نہیں ‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ’’ذرا بھی ‘‘ کا اضافہ اردو محاورے کی بنا پر ہی کیا گیا ہے۔ پھر اردو میں فاعل کے جمع ’’ اَلَّذِینَ کَفَرُوا ‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’یَوَدُّ ‘‘ کے بصیغہ جمع ترجمہ کرتے ہوئے ترجمے کے فعل کے مطابق ’’ان لوگوں کا جو کافر ہوئے‘‘ (دل نہیں چاہتا)یا کافر لوگ (پسند نہیں کرتے، خوش نہیں) کی صورت دی گئی ہے۔

’’مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ‘‘ کا ترجمہ ڈبل منفی (مَا اور لاَ) کے آنے کی بناء پر ’’اہلِ کتاب/  کتابی / ہوں یا مشرک‘‘۔ ’’ خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکوں میں سے وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ۔۔۔۔۔‘‘ یہ جملہ مکمل ہوگا اگلی عبارت کے ساتھ جس میں بیان ہوا ہے کہ وہ کیا چیز پسند نہیں کر رہے؟ کس سے خوش نہیں؟

(۵) [. . . .اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ]

(کہ اتارا جائے تم پر بھلائی میں سے (کچھ بھی)تمہارے رب کی طرف سے)

(۱) ’’ أَنْ ‘‘ (یہ کہ ، یہ بات کہ ، کہ)دیکھئے البقرہ: ۲۶ [۲ : ۱۹ : ۱ (۲) ] میں۔

(۲) ’’ يُّنَزَّلَ ‘‘ (اتارا جائے، نازل کیا جائے)۔یہ مادہ ’’ن ز ل‘‘ سے باب تفعیل کا صیغہ مضارع مجہول ہے۔ اس فعل ( نزَّل یُنَزِّل=اتارنا )کے معنی و استعمال پر البقرہ : ۲۳ [۲ : ۱۷ : ۱ (۲) ] میں بات ہوئی تھی۔

(۳) ’’ عَلَيْكُمْ ‘‘ (تمہارے اوپر، تم پر)دیکھئے الفاتحہ : ۷ [۱ : ۶ : ۱ (۵) ] میں ’’ عَلَیْھِمْ ‘‘۔

(۴) ’’ مِّنْ خَيْرٍ ‘‘ (بھلائی میں سے  (کچھ)، کچھ بھلائی، کوئی بھی بھلائی)

’’مِنْ ‘‘ کے اس استعمال (تنصیص نکرہ)کے لئے دیکھئے بحث استعاذہ اور دوبارہ البقرہ : ۳ [۲ : ۲ : ۱ (۵) ] میں۔ کلمہ ’’خَیْر ‘‘ کی لغوی بحث البقرہ : ۵۴ [۲ : ۳۴ : ۱ (۵) ] میں گزری ہے۔ اس زیر مطالعہ ترکیب ’’ مِّنْ خَيْرٍ ‘‘ پر مزید بحث ’’الاعراب ‘‘ میں ہوگی۔

(۵) ’’ مِّنْ رَّبِّكُمْ ‘‘ (تمہارے پروردگار کی جانب سے، طرف سے)۔

یہاں ’’مِنْ ‘‘ ابتدائیہ ہے (دیکھئے [ ۲ : ۲ : ۱ (۵)] میں ’’مِنْ‘‘ کی بحث)کلمہ ’’ رَبّ‘‘ (جو خود بھی اردو میں مستعمل ہے)کی لغوی بحث کے لئے دیکھئے الفاتحہ : ۱[۱ : ۲ : ۱ (۳)]

·       چونکہ ’’ اَنْ يُّنَزَّلَ ‘‘ کے بعد (نائب فاعل ’’خَیر ‘‘ ہے جو عربی میں مذکر ہے اس لئے صیغہ فعل مذکر آیا ہے مگر اردو ترجمہ ’’بھلائی، نیک بات وغیرہ‘‘ مؤنث ہے اس لئے ’’ يُّنَزَّلَ ‘‘کا اردو ترجمہ بصیغہ مؤنث ’’اتاری جائے، نازل کی جائے‘‘ سے کیا گیا ہے۔ بہت سے مترجمین نے ’’ اَنْ يُّنَزَّلَ ‘‘ کا ترجمہ ’’ کہ اترے یا نازل ہو‘‘ سے کیا ہے جو بلحاظ مفہوم ہی درست ہے ورنہ بظاہر یہ ’’ ینزِل ‘‘ (مجرد)کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’نصیب ہو (تم کو) سے کیا ہے جو اردو محاورے کے لحاظ سے تو درست ہے مگر اصلی عبارت سے بہت ہٹ کر ہے . . . . اس طرح یہ زیر مطالعہ حصہ عبارت اپنے سے سابقہ عبارت (یعنی نمبر ۱ و نمبر ۲ مندرجہ بالا )سے مل کر ایک پورا مربوط جملہ بنتا ہے۔ اسی لئے ان عبارتوں کے شروع اور آخر میں خالی نقطے (. . . .)ڈالے گئے ہیں۔

(۶) [وَاللہُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ] اس عبارت میں نیا لفظ صرف ’’ يَخْتَصُّ ‘‘ ہے جس پر مفصل بات ہوگی۔ باقی کلمات اس سے پہلے گزر چکے ہیں، ان کا صرف ترجمہ اور گزشتہ حوالہ کافی ہوگا۔

(۱) ’’ وَاللہُ ‘‘ (اور اللہ تعالیٰ)۔ واوِ عاطفہ بار بار گزری ہے۔ اسم جلالت ’’ اَللہُ ‘‘کی لغوی بحث اگر دیکھنا چاہیں تو ’’ بِسْمِ اللہ‘‘کی بحث  [۱ : ۱ : ۱(۲)] کی طرف رجوع کریں۔

(۲) ’’ يَخْتَصُّ ‘‘کا مادہ  ’’خ ص ص‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْتَعِلُ ‘‘ ہے۔ یعنی یہ دراصل ’’ يَخْتَصِصُ ‘‘تھا ۔ پھر پہلا ’’ص‘‘ ساکن کرکے دوسرے ’’ص‘‘ میں مدغم کر دیا جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد دو مختلف ابواب سے مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔  اور یہ بطور فعل لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور بصورت متعدی اس کے مفعول کے ساتھ مختلف صلات مزید مختلف معنی پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً ’’ خَصَّ یَخُصُّ خُصُوصاً  ’’ (نصر سے)کے معنی ہیں ’’خاص ہونا‘‘۔ یعنی یہ ’’عام ہونا‘‘ کی ضد ہے مثلاً کہتے ہیں ’’خصَّ الشَّیء ‘‘ (چیز خا ص ہوگئی) اور ان معنی کے لحاظ سے یہ فعل لازم ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ (جیسا اُوپر معنی بیان کرنے سے ظاہر ہے) اُردو میں بہت زیادہ استعمال ہونے والے دو لفظ ’’خاص‘‘ اور ’’عام‘‘ خالص عربی الفاظ ہیں۔ ’’خاص‘‘ تو اسی فعل ’’ خَصَّ یَخُصُّ ‘‘ سے اسم الفاعل ہے، یعنی یہ دراصل ’’ خَاصٌّ ‘‘ ہے اور عام بھی ایک دوسرے عربی فعل ’’ عَمَّ یَعُمُّ عُمُوماً ‘‘ (عام ہونا)سے اسم الفاعل ہے، یعنی وہ بھی دراصل ’’عَامٌّ ‘‘ ہی ہے تاہم اُردو میں یہ دونوں لفظ ’’ ص‘‘ اور ’’م ‘‘ کی تشدید کے بغیر مگر اپنے اصل عربی معنی میں مستعمل ہیں۔ حتیٰ کہ ’’ خَصَّ ‘‘ کا ترجمہ بھی ’’خاص ہونا ‘‘ سے کرنا پڑتا ہے۔

 (۳) اسی سے یہ فعل بطور متعدی ’’ خاص کر لینا ‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’ خَصَّ فُلاناً بِالشَّیءِ خُصُوصِیَّۃً ‘‘ (اس نے فلاں کو اس چیز کے ساتھ خاص کردیا)یعنی وہ چیز صرف اسی کو دی کسی دوسرے کو نہیں دی ۔

 (۴) ’’ خصَّ الشَّیءَ لِنفسہٖ‘‘ (اس نے اس چیز کو اپنے لئے خاص کر لیا یعنی اپنے لئے چن لی)۔

(۵) ’’خَصَّ یَخَصُّ خَصاصاً و خَصاصَۃً ‘‘ (فتح سے)کے معنی ہیں ’’وہ غریب اور تنگ دست ہوگیا‘‘ (اور اسی کا مصدر ’’خَصَاصَۃً  ‘‘ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے)۔ ’’ خَصَاص ‘‘ یا ’’ خَصَا صَۃ ‘‘ لکڑی سرکنڈے وغیرہ کے بنے مکان کی ’’درزوں‘‘ کو کہتے ہیں جو غربت کی علامت ہے۔ ویسے کسی ’’ درز ‘‘ یا  ’’ درمیانی خالی جگہ ‘‘ کو بھی خصاص کہتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’ بدَ القمرُ مِن خصاص الغَیم ‘‘ (چاند بادلوں کی ’’درز ‘‘ یا ’’ درمیانی خالی جگہ ‘‘ سے نمودار ہوا)۔

تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کسی طرح کا کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس سے مشتق لفظ ’’ خَاۗصَّةً   ‘‘ صرف ایک جگہ (الانفال: ۲۵) اور اس کا ایک مصدر ’’ خَصَاصَةٌ  ‘‘ بھی صرف ایک جگہ (الحشر: ۹) ہی میں آیا ہے۔ جن پر مزید بات حسب موقع ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’ یختصّ ‘‘ اس مادہ سے باب افتعال کا فعل مضارع صیغہ واحد مذکر غائب ہے ۔ اس باب سے فعل ’’ اِخْتَصَّ یَخْتَصّ اختصاصاً ‘‘ بھی فعل مجرد کے بیان کردہ (مذکورہ بالا) چاروں معانی کے لئے ترتیب وار اسی طرح استعمال ہوتا ہے۔ یعنی (۱) ’’اِختصَّ الشَّیءَ ‘‘ (خاص ہونا) (۲) ’’اِختصَّ فلاناً بالشیءِ ‘‘ (خاص کر لینا یعنی فلاں کو ہی دینا) (۳) ’’ اختصَّ الشییءَ لِنفسہٖ ‘‘ (اپنے لئے خاص کر لینا)اور (۴) ’’ اختصَّ ‘‘ (تنگ دست ہونا)۔ یعنی استعمال کے لحاظ سے دونوں فعل ایک جیسے ہیں۔ زیر مطالعہ عبارت میں یہ فعل مندرجہ بالا دوسرے (نمبر۲) معنی کے لئے آیا ہے یعنی ’’(کسی کو کسی چیز کے لئے )خاص کرتا ہے، مخصوص کر لیتا ہے، خاص کر دیتا ہے ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ۔ کس کو؟ اور کس چیز کے لئے ؟ اس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اس باب سے صرف یہی صیغہ فعل قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے، یہاں اور پھر آل عمران : ۷۴ میں۔

(۳) ’’ بِرَحْمَتِہٖ ‘‘ (اس کی/اپنی رحمت کے ساتھ/کے لئے)

یہاں  باء ’’بِ ‘‘ تو وہی ہے جس کے فعل ’’ خَصَّ اور اختصَّ ‘‘ کے مفعول کے بعد استعمال کی اوپر بات ہوئی ہے اور اس کا ترجمہ یہاں ’’ کے لئے ‘‘ بھی کرسکتے ہیں اور باء سببیہ سمجھ کر ’’کے ساتھ، سے ‘‘ کی صورت میں بھی کیا گیا ہے۔ کلمہ ’’ رحمۃ ‘‘ (جو اردو میں ’’ رحمت ‘‘ کی املاء سے رائج ہے) کی لغوی وضاحت البقرہ: ۶۴[۲ : ۴۱ : ۱ (۵)] کے بعد گزری ہے۔

(۴) ’’ مَنْ یَشَاءُ  ‘‘ (جس کو چاہتا ہے وہ)۔ اس میں ’’ مَنْ ‘‘ اسم موصول (بمعنی ’’وہ جو کہ ‘‘)یہاں دراصل فعل ’’ یَخْتَصُّ‘‘ کا مفعول ہے اور فعل ’’ یَشَاءُ ‘‘ (وہ چاہتا ہے )جو ’’ ش ی ء ‘‘ مادہ سے بروزن ’’ یَفْعَلْ ‘‘ فعل مضارع ہے، اس کے باب اور معنی وغیرہ ’’شَاءَ یَشَاءُ ‘‘ پر البقرہ : ۲۰ [۲: ۱۵ : (۸) ] میں کلمہ ’’شَاءَ‘‘ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔

·       پس اس عبارت کا ترجمہ بنتا ہے ’’ اور اللہ خاص کرلیتا ہے اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے ‘‘ جس کی سلیس اردو مفعول کو پہلے لانے سے ’’ جس کو چاہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر لے ‘‘ کی صورت بھی دی گئی ہے۔ اور بعض نے اردو محاورے کے لئے ’’بِرَحْمَتِہٖ ‘‘ کا ترجمہ فعل سے بھی پہلے کیا ہے، یعنی ’’ اللہ اپنی رحمت سے جسے چاہے مخصوص کرلے ‘‘ کی صورت میں. . . .  ویسے بھی اردو میں جملہ فعلیہ میں فعل آخر پر لایا جاتا ہے جب کہ عربی میں وہ شروع میں لگتا ہے۔ اس عبارت پر مزید بحث ’’الاعراب ‘‘ میں بھی دیکھ لیجئے۔

(۷) [وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ] (اور اللہ بڑے فضل والا ہے)

(۱) ’’ وَاللہُ ‘‘(اور اللہ تعالیٰ) ’’وَ ‘‘ یہاں عطف اور استیناف دونوں کی ہوسکتی ہے۔ اردو ترجمہ بہرحال ’’ اور ‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اسم جلالت (اللہُ) ’’بِسْمِ اللہ ‘‘ کی بحث میں دیکھئے۔

(۲) ’’ذُوْ ‘‘ (والا)۔ جس کی ’’ ذ  ‘‘ پڑھنے میں ’’الفضل ‘‘ کے پہلے لام ’’ل ‘‘ سے ملا دی جاتی ہے اور اس کی علامت رفع ’’ و ‘‘ اور ’’الفضل‘‘ کا ابتدائی ہمزۃ الوصل (۱) تلفظ سے ساقط ہوجاتے ہیں۔ اس اسم ’’ ذُو‘‘ کے استعمال پر اور اس کی مذکر مؤنث واحد تثنیہ جمع رفع نصب جر کی مختلف صورتوں (ذُو، ذَا، ذِی وغیرہ) پر مفصل بحث البقرہ : ۸۳[ ۲ : ۵۱ : ۱ (۲])میں کلمہ’’ ذِی ‘‘ کے سلسلے میں کی جاچکی ہے۔

(۳) ’’ الْفَضْلِ ‘‘(فضل ، مہر)۔ اس لفظ کی لغوی بحث کے لئے دیکھئے البقرہ : ۶۴[۲ : ۴۱ : ۱ (۵)] جہاں یہ لفظ پہلی دفعہ آیا تھا۔ اور اس کے مادہ اور فعل مجرد وغیرہ کی بات البقرہ : ۴۷ [۲ : ۳۱ : ۱ (۱)] میں ہوئی تھی۔

(۴) ’’ الْعَظِيْمِ ‘‘ (بہت بڑا)۔اس لفظ کے مادہ، باب فعل وغیرہ اور خود اسی لفظ کی بناوٹ پر البقرہ : ۷ [۲ : ۶ : ۱ (۷) ] میں بات ہوئی تھی۔

·       اس عبارت کا ترجمہ اوپر ساتھ ہی لکھ دیا گیا ہے۔ بعض نے ’’ والا ‘‘ کی بجائے ’’ بڑے فضل کا مالک ‘‘ اور ’’ بڑا فضل رکھتا ہے ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔ اور بعض نے ’’ اللہ کافضل بہت بڑا ہے ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو عربی عبارت کی ساخت اور ترکیب سے بہت ہٹ کر ہے۔ یہ تو ’’فَضَلُ اللہِ عَظٍیمٌ ‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

 

۲ : ۶۳ : ۲        اَلا عراب

زیر مطالعہ قطعہ یوں تو متعدد چھوٹے بڑے (نحوی)جملوں پر مشتمل ہے جن میں سے بعض وادِعاطفہ کے ذریعے مل کر ایک جملہ بن جاتے ہیں۔ اس لئے ترکیب نحوی کے لئے اس عبارت کو دراصل پانچ جملوں میں ہی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پانچ جملوں میں سے ہر ایک کے آخر پر کم از کم وقف مطلق کی علامت (ط)لگتی ہے۔ یا پھر اس کے ساتھ آیت مکمل ہوتی ہے جو خود علامت وقف ہے۔ تفصیل یوں ہے:

(۱)                                                 يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا

[يٰٓاَيُّہَا]حرف ندا یاایک انداز ِ ندا ہے جس میں بیک وقت دو حرف ندا ’’ یا ‘‘ اور ’’ ایھا‘‘ استعمال ہوئے ہیں (نحوی حضرات    ’’ ایھا ‘‘ کے ’’ ایُّ ‘‘ کو منادیٰ نکرہ مقصودہ (بمعنی ’’وہ کہ ‘‘)اور ’’ ھَا ‘‘ کو حرف تنبیہ (متوجہ کرنے کی آواز)کہتے ہیں) [الذین] منادیٰ اسم موصول ہے  (نحوی حضرات اسے ’’ ایھا ‘‘ کا بدل کہتے ہیں کیونکہ وہ اسے ہی اصل ’’ منادیٰ نکرہ مقصودہ ‘‘ کہتے ہیں) ’’الذین‘‘ کو یہاں منادیٰ مفرد سمجھ کر مرفوع محلاً قرار دیا جاسکتا ہے۔ [آمَنُوا]فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین (ھُمْ) جملہ فعلیہ بن کر اسم موصول (الذین)کا صلہ ہے اور دراصل تو پورا صلہ موصول منادیٰ ہے۔ [لَاتَقُوْلُوْا] کی ابتدائی ’’ لا ‘‘لائے نھی (ناھیہ) ہے اور ’’ تَقُوْلُوْا ‘‘ فعل مضارع مجزوم (بلائے نہی)ہے۔ یعنی ’’ لَا تَقُوْلُوْا ‘‘ فعل نھی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ [رَاعِنَا] اصل کے لحاظ سے تو یہ صیغہ فعل امر (رَاعِ)مع مفعول بہ (نَا)پورا جملہ ہے مگر یہاں یہ بطور حکایت آیا ہے اور اس کے معنی نہیں بلکہ خود لفظ ’’ رَاعِنَا ‘‘مراد ہے یعنی ’’مت کہو  رَاعِنَا ‘‘اس طرح خود یہ جملہ ’’ رَاعِنَا ‘‘ یہاں ’’ لَا تَقُوْلُوْا ‘‘ کا مفعول (مقول)ہو کر محل نصب میں ہے۔ [وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے [قُولُوا] جو صیغہ امر جمع مخاطب مذکر ہے، ’’ لَا تَقُوْلُوْا ‘‘ پر عطف ہے۔[اُنْظُرنَا] بھی دراصل صیغہ فعل امر (اُنظر)مع اپنے مفعول بہ (نا) کے جملہ فعلیہ ہے اور یہ جملہ ’’قُولُوا‘‘ کا مفعول بہ (مقول)ہو کر محلاً منصوب ہے۔ [وَاسْمَعُوْا] واو عاطفہ ہے جس سے اگلا فعل ’’ اِسْمَعُوْا ‘‘(جو فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے) سابقہ فعل ’’قُولُوا‘‘ پر عطف ہے۔ یعنی ’’ . . . . کہو اور سنو‘‘۔ اور یہاں اس فعل ’’ اِسْمَعُوْا ‘‘کا مفعول بہ محذوف ہے (یعنی یہ بات سن لو یا رسول (­ﷺ)کی بات پر کان دھرو وغیرہ)

(۲) وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ

·       [وَ ] یہاں مستانفہ ہے، ایک الگ مضمون اور جملہ شروع ہوتا ہے [لِلْكٰفِرِيْنَ] لام الجر (لِ) اور مجرور (الکافرین)مل کر خبر مقدم کا کام دے رہے ہیں۔ [عَذَابٌ] مبتدا نکرہ مؤخر ہے لہٰذا مرفوع بذریعہ تنوین رفع (ـــــٌـــــ) ہے اور یہ موصوف بھی ہے اور یہ موصوف بھی ہے کیونکہ آگے اس کی صفت [الیم] ہے جو نکرہ اور مرفوع (اپنے موصوف کی طرح)ہے اور دراصل تو یہ مرکب توصیفی (عَذَابٌ اَلِــيْمٌ) مبتدا مؤخر ہے۔

(۳)  مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ

[مَا] نافیہ ہے اور[يَوَدُّ]فعل مضارع معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ [الَّذِيْنَ] اسم موصول فعل ’’ يَوَدُّ ‘‘کا فعل (لہٰذا) محلاً مرفوع ہے۔ مبنی ہونے کے باعث اس میں ظاہراً کوئی علامت رفع نہیں ہے [كَفَرُوْا]فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین (ھُمْ)جملہ فعلیہ بن کر صلہ (الذین کا)ہے اور دراصل صلہ موصول مل کر (الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) فعل ’’یَوَدُّ ‘‘ کا فاعل ہیں۔ [مِنْ] حرف الجر یہاں تبعیض (کا ایک حصہ کے معنی میں) یا بیان (وضاحت کے طور پر ’’از قسم‘‘کے معنی میں) کے لئے ہے [اَھْلِ الْكِتٰبِ] مضاف (اھل )اور مضاف الیہ (الکتاب)مل کر (مِن کی وجہ سے )مجرور بالجرہیں۔ ’’اھل‘‘ مجرور بھی ہے اور مضاف ہو کر خفیف بھی ہے اور ’’الکتاب‘‘ مجرور بالا ضافہ ہے اور بلحاظ معنی یہ (مِن اھلِ الکتابِ)مرکب جاری ’’الذین کفروا‘‘کا حال بھی سمجھا جاسکتا ہے (یعنی اہل کتاب میں سے ہوتے ہوئے کافر)۔ [وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ]یہاں ’’المشرکین‘‘ بذریعہ ’’وَ‘‘ ’’اہلِ الکتاب ‘‘پر عطف ہے۔ اسی لئے یہ بھی مجرور بالجر ’’ مِنْ ‘‘ ہے۔ اور ’’ لا‘‘یہاں تاکید کے لئے آیا ہے۔ کیونکہ اگر یہاں صرف ’’ والمشرکین‘‘ ہی ہوتا تو نحوی اعتبار سے ٹھیک ہی ہوتا۔ ’’ لا‘‘ کے آنے سے  اب اس کا ترجمہ  ’’ اور نہ ہی مشرکوں میں سے‘‘ ہوگا۔ اسی کو مترجمین نے ’’کافر اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکوں میں سے ‘‘ (کوئی بھی نہیں چاہتا۔ سب ہی پسند کرتے ہیں) کی صورت دی ہے۔ [ٍأَن]حرف ناصب مضارع (بمعنی ’’کہ ‘‘)ہے، جو اگلے فعل کے ساتھ مل کر اس فعل میں مصدری معنی بھی پیدا کرتا ہے، جو یہاں بھی ممکن ہے۔ [يُّنَزَّلَ] فعل مضارع مجہول منصوب ’’بِأَ ن ‘‘ہے۔ علامت نصب ’’لَ ‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ [عَلَيْكُمْ]جار مجرور (علیٰ +کُم) مل کر متعلق فعل ’’ ینزّل‘‘ ہیں اور یہ جملہ (ان ینزل علیکم) فعل ’’ مایَودُّ ‘‘ کا مفعول بہ لہٰذا محلاً منصوب ہے ۔ یا اگر ’’ أن ‘‘ کو مصدریہ سمجھ لیں تو بتاویل مصدریہ عبارت ’’ تنزیلَ‘‘ کے طور پر (کا نازل ہونا)بھی اس فعل کا مفعول بنے گا . . . . (یعنی مصدر مؤول ’’تنزیل‘‘ منصوب سمجھا جائے گا)[مِنْ] حرف الجر یہاں تنصیص (قطعیت)نکرہ کے لئے ہے جسے بعض نحوی زائدہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ [خَيْرٍ] مجرور بالجر ہے۔ یہ دراصل ’’خیرٌ ‘‘ (بطور نائب فاعل برائے فعل مجہول ’’ینزَّل ‘‘)مرفوع ہوتا جس کا ترجمہ ’’کچھ بھلائی‘‘ ہوتا ۔ اب ’’ مِنْ ‘‘ کی وجہ سے اس کی تنکیر میں مزید قطعیت پیدا ہوئی جس کی وجہ سے اردو ترجمہ (مِنْ خَیر کا)’’کچھ بھی بھلائی ‘‘ ’’بھلائی میں سے کچھ بھی‘‘ہوگا۔ ترکیب نحوی کے لحاظ سے اب یہ (مِنْ خَیر) بطور نائب الفاعل محلاً مرفوع ہے۔ [مِنْ] یہاں ’’ مِنْ ‘‘ ابتدائیہ بمعنی ’’ کی طرف سے ‘‘ ہے اور [ربِّکم] مرکب اضافی (رَبِّ + کُم) مجرور بالجر ہے ’’ رَبّ ‘‘ مجرور بالجر اور بوجہ اضافت خفیف ہے اور یہ پورا مرکب جاری (من ربکم) ’’ خَیر ‘‘ (جو نکرہ موصوفہ بھی ہے)کی صفت ہے یعنی ’’کچھ بھی ایسی بھلائی جو تمہارے رب کی طرف سے ہو ‘‘۔ یوں اس سارے جملے کے تین بڑے حصے یوں ہیں۔ فعل (مایودّ)، فاعل (الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ) اور مفعول (اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ

(۴) وَاللہُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ

[وَ] بہتر ہے کہ استیناف کی سمجھی جائے ۔ [اللہُ]مبتدا لہٰذا مرفوع ہے۔ [يَخْتَصُّ]فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعل (اور مابعد عبارت سمیت) اس (اللہ) کی خبر ہے۔ [بِرَحْمَتِہٖ] یہ پورا مرکب جاری (جس میں باء الجر کے بعد ’’ رحمۃ‘‘ مجرور بالجر اور مضاف (لہٰذا خفیف)ہے اور ضمیر مجرور ’’ ہ ‘‘ مضاف الیہ ہے)متعلق فعل ’’يَخْتَصُّ ‘‘ ہے جو معفول پر مقدم ہو کر آیا ہے [مَنْ] اسم موصول فعل ’’ يَخْتَصُّ ‘‘کا مفعول بہٖ لہٰذا محلاً منصوب ہے بلکہ دراصل یہاں (موصول)سے مفعول شروع ہوتا ہے۔ [یشاء] فعل مضارع مع ضمیر الفاعل جملہ فعلیہ بن کر ’’ مَن ‘‘ کا صلہ ہے اور یہ صلہ موصول مل کر ’’ یختص‘‘ کا مفعول بہ ہیں۔ لہٰذا محلاً منصوب ہیں ۔ یہاں ’’یشاء ‘‘ کے بعد اسم موصول ’’ مَنْ ‘‘ کے لئے ایک ضمیر عائد محذوف ہے یعنی یہ دراصل ’’یَشَاءُ ہ‘‘ (وہ چاہتا ہے اس کو / جس کو)تھا۔ اور اس جملے کی سادہ نثر یوں بنتی ہے ’’ یختصُّ مَن یشاء برحمتہٖ ‘‘ مگر متعلق فعل (برحمتہٖ)کو مفعول (مَن یَشاء) پر مقدم کرنے سے عبارت میں ادبی (شاعری کی سی)خوبی بھی پیدا ہوتی ہے اور ’’برحمتہٖ ‘‘ میں ایک زور بھی پیدا ہوتا ہے جسے ’’رحمت ہی سے ، رحمت ہی کے لئے ‘‘ سے بھی ظاہر کیا جاسکتا ہے۔

(۵)وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ

[وَ]عاطفہ یا مستانفہ ہوسکی ہے۔  [اللہُ] مبتدا مرفوع ہے اور [ذو الفضل]مضاف (ذُوْ۔ جو ہمیشہ مضاف ہو کر ہی استعمال ہوتا ہے) اور مضاف الیہ (الفضل) مل کر خبر مرفوع ہے۔ علامت رفع ’’ذُوْ ‘‘ کی ’’ و ‘‘ ہے (جو نصب میں الف (ذَا)اور جر میں ’’ی‘‘(ذِی) ہوجاتی ہے)۔ [العظیم] الفضل (مجرور بالاضافہ)کی صفت ہے اسی لئے معروفہ اور مجرور ہے۔ یعنی ’’ذُوْ ‘‘ کا پورا مضاف الیہ یہ مرکت توصیفی ’’ الفضل العظیم ‘‘ ہے۔

 

۲ : ۶۳ : ۳       الرسم

بلحاظ رسم اس قطعہ میں قابل توجہ صرف چار لفظ ہیں۔ ا ن میں سے بھی ایک کا رسم مختلف فیہ ہے، باقی تین کا متفق علیہ ہے۔ ویسے یہ تینوں کلمات پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ یہ چار لفظ ’’ یایھا، راعنا، للکفرین اور الکتب ‘‘ ہیں۔ تفصیل یوں ہے:

(۱) ’’ یایھا‘‘ جس کا قیاسی املاء ’’یاایھا ‘‘ ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں اس کے حرف ندا ’’یا‘‘ کا ا لف کتابت میں حذف کر دیا جاتا ہے (بصورت ’’یایھا‘‘)بلکہ قرآن کریم میں حرف ندا ’’یا‘‘ ہر جگہ بحذف الف ہی لکھا جاتا ہے اور یہ متفق علیہ رسم ہے۔ نیز دیکھئے البقرہ : ۲۱ [۲ : ۱۶ : ۳ ] میں ’’ یایھا الناس ‘‘ کا رسم۔

(۲) ’’راعِنا‘‘ کے رسم میں اختلاف ہے، ابوداود کی طرف منسوب قول کے مطابق یہ بخذف الالف بعد الراء لکھا جاتا ہے، چنانچہ بیشتر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں یہ اسی حذف کے ساتھ بصورتِ ’’رعنا‘‘ لکھا جاتا ہے۔ پھر بذریعہ ضبط اس الفظ کو ظاہر کرتے ہیں. . . .  الدانی نے اس کے حذف الف کی تصریح نہیں کی جو اثبات کو مستلزم ہے، چنانچہ لیبیا اور تمام مشرقی ممالک (ایران، ترکی، برصغیر)میں اسے باثبات الف بصورت ’’راعِنا ‘‘ لکھا جاتا ہے۔

(۳) ’’للکفرین ‘‘ جس کا عام رسم املائی ’’للکافرین ‘‘ ہے، قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ’’الکفرین ‘‘ (اور الکفرون بھی) بحذف الالف بعد الکاف لکھا جاتا ہے  . . . .بلکہ رسم قرآنی میں عمومات تمام جمع مذکر سالم بحذف الف ہی لکھے جاتے ہیں۔ مستثنیات کا ذکر اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ دیکھئے البقرہ : ۱۹ [۲ : ۱۴ : ۳ ]

(۴) ’’ الکتب ‘‘ جس کا رسم املائی ’’الکتاب‘‘ ہے، قرآن کریم میں چار خاص مواقع کے سوا یہ یہاں اور ہر جگہ بالاتفاق بحذف الالف بعد التاء لکھا جاتا ہے۔ دیکھئے البقرہ : ۲ [۲ : ۱ : ۳]

 

۲ : ۶۳ : ۴      الضبط