سورۃ البقرہ آیات  ۱۰۶  اور  ۱۰۷

۲ : ۶۴       مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا    ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(۱۰۶) اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ    ۭ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ(۱۰۷)

۲ : ۶۴ : ۱       اللغۃ

لغوی اعتبار سے تو اس قطعہ میں صرف ایک ہی لفظ ’’ نَنْسَخْ ‘‘ نیا ہے، باقی تمام کلمات براہ راست یا بالواسطہ پہلے گزر چکے ہیں۔ لہٰذا عبارت کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کلمہ کا ترجمہ مع گزشتہ حوالہ لکھ دینا کافی ہوگا۔

۲ : ۶۴ : ۱ (۱)     [مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا. . . .]

(۱) ’’ مَا ‘‘ (جو بھی ۔ جس کو بھی) یہاں ’’ مَا ‘‘ موصولہ بطور شرطیہ ہے، دیکھئے [۲ : ۲ : ۱ (۵) ]

(۲) ’’ [نَنْسَخْ] ‘‘کا مادہ ’’ن س خ ‘‘ اور وزن ’’نَفْعَلْ ‘‘ ہے۔ یعنی یہ فعل مجرد سے صیغہ مضارع مجزوم جمع متکلم ہے (جزم کی وجہ ’’الاعراب ‘‘ میں آئے گی)۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’ نَسَخَ. . . . ینسَخُ نَسْخا‘‘ (فتح سے ) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’ . . . .کو (اس کی جگہ سے)ہٹا دینا۔ مٹا دینا ‘‘ (اس کی جگہ کوئی دوسری چیز لائی جائے یا نہ لائی جائے)۔ اس فعل کا مفعول بنفسہٖ (منصوب )آتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ’’نسخَتِ الریح الأثرَ‘‘ (ہوا نے نشان کو مٹا دیا)۔پھر اس فعل میں بلحاظ استعمال کئی مفہوم پیدا ہوتے ہیں۔

(۱)  بعض دفعہ اس میں کسی چیز کو ہٹا کر خود (فاعل کا)اس کی جگہ لے لینے کا مفہوم ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ’’نسخ الشیبُ الشبابَ ‘‘ (بڑھاپے نے جوانی کو ہٹا دیا، یعنی خود اس کی جگہ لے لی) 

(۲) اور بعض دفعہ ان ہی معنوں کے لئے ہٹائی جانے والی چیز تو عبارت میں مفعول بنفسہٖ (منصوب) ہو کر آتی ہے مگر اس کی جگہ لائی جانے والی چیز کا ذکر ’’بِ‘‘ (کے ذریعے) کا صلہ لگ کر ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نسخ شیئا بشیءٍ ‘‘ (اس نے ایک چیز کو کسی دوسری چیز سے ہٹا دیا یعنی پہلی کو ہٹا کر دوسری اس کی جگہ لایا)تاہم یہ ’’بِ ‘‘ کے صلہ والااستعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔ 

(۳) پھر اسی سے اس فعل میں ’’ہٹا کر دوسری جگہ لے جانا ‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نسختِ الشمسُ الظلَّ ‘‘ (سورج نے سائے کو ہٹا دیا، یعنی اسے دوسری جگہ لے گیا) اور  

(۴) پھر اس ’’منتقل کرنا‘‘ سے اس میں اصل کے مطابق ’’نقل کرنا‘‘ کے معنی آتے ہیں یعنی اصل کو ہٹائے یا مٹائے بغیر بلکہ اسے ثابت اور برقرار رکھتے ہوئے اس جیسی دوسری چیز تیار کر لینا۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نسخَ الکتاب ‘‘ (اس نے کتاب(سے دوسری کتاب یا عبارت)حرف بحرف نقل کرلی ، لکھ لی۔)

·                قرآن کریم کی کتابت میں (عموماً)استعمال ہونے والے خط کو ’’ خطِ نسخ‘‘ (جو عربی خطوطِ جمیلہ کی ایک قسم ہے)اسی لئے کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا ہر نسخہ ہمیشہ کسی دوسرے نسخہ سے (بلحاظ طریق املاء و ہجاء)ہو بہو نقل کیا جاتا ہے۔ [خود ’’نسخۃ‘‘کا لفظ، جو فعل نسَخ ینسَخ سے ہی ماخوذ ایک اسم ہے، قرآن کریم میں آیا ہے ](الاعراف: ۱۵۴) جس کے اصل معنی تو ہیں ’’جس سے نقل کیا گیا‘‘ (منقول عنہ) تاہم جو ’’نقل کیا گیا ‘‘ (منقول) اسے بھی ’’نسخۃ‘‘ ہی کہتے ہیں، کیونکہ وہ اصل کا قائم مقام ہے۔ یہ لفظ (نسخہ) اردو میں (بعض دوسرے معانی کے لئے بھی)مستعمل ہے۔

·                   اور اس فعل ’’نَسَخَ ‘‘کے ان ہی (مندرجہ بالا)معانی میں استعمال کی بناء پر راغب ؒ نے (مفردات میں) لکھا ہے کہ ’’نَسْخ ‘‘میں ’’ازالۃ‘‘ (یعنی اصل کو ہی ہٹایا مٹا دینا) کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور کبھی (اصل کے) ’’اثبات‘‘(برقرار رکھنا)کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور کبھی بیک وقت دونوں مفہوم موجود ہوتے ہیں۔

·                   اور اس ’’ہٹا دینا، مٹانا‘‘ سے ہی اس فعل ’’نسَخ ینسَخ‘‘کا ایک ترجمہ ’’منسوخ کردینا‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے اور کیا گیا ہے۔ (’’منسوخ‘‘ خود اس فعل سے اسم المفعول ہے بمعنی ’’ہٹادیا ہوا‘‘) اور چونکہ اردو . . . .خصوصاً پرانی اردو . . . .میں ’’موقوف کرنا‘‘ بمعنی ’’ہٹادینا، برطرف کرنا‘‘ (مثلاً نوکری سے)بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے بعض مترجمین قرآن نے اس کا ترجمہ ’’موقوف کرنا‘‘ بھی کیا ہے۔

·                اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں صرف فعل مضارع کے دو ہی صیغے دو جگہ آئے ہیں (دوسرا صیغہ الحج: ۵۲ میں ہے)۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب استفعال سے ایک صیغہ فعل اور ثلاثی مجرد سے ماخوذ ایک اسم ’’نُسْخَۃ ‘‘بھی ایک جگہ آیا ہے (جس کا ابھی اوپر ذکر ہوا ہے)۔

·                قرآن کریم میں یہ فعل مجرد (دونوں جگہ )اپنے اصل بنیادی (’’ہٹا دینا‘‘ والے) معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اس طرح یہاں ’’مَا نَنْسخْ‘‘کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’جو بھی / جس کو بھی ہم ہٹا دیتے ہیں /موقوف کر دیتے ہیں / منسوخ کر دیتے ہیں‘‘۔ بعض مترجمین نے ’’ کر دیتے ‘‘ کی بجائے (جس میں ’’تکمیل ‘‘ یعنی ’’پوری طرح کرنا ‘‘ کا مفہوم ہے) صرف ’’کرتے ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو لفظ سے زیادہ قریب ہے۔ بعض نے زمانہ حال کی بجائے صرف مضارع یعنی ’’ کردیں‘‘ سے ہی ترجمہ کیا ہے۔ (عربی میں مضارع زمانہ حال اور مستقبل دونوں کا مفہوم رکھتا ہے) جب کہ بعض حضرات نے ضمیر تعظیم کا لحاظ کرتے ہوئے ’’ ہم منسوخ فرمادیں ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ البتہ جن حضرات نے ’’مَا ‘‘ کا ترجمہ (’’جو بھی / جس کو بھی ‘‘ کی بجائے ) ’’ جب ‘‘ سے کیا ہے یہ محلِ نظر ہے، کیونکہ یہ تو ’’ اِذَا ‘‘ یا ’’ اِذْ ‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے ۔ اور ’’ مَا ‘‘اگر ظرفیہ بھی ہو تو اس کا اردو ترجمہ ’’جب تک یا جتنی دیر تک‘‘ ہوتا ہے۔

(۳) ’’ مِنْ آیۃٍ‘‘ (کسی آیت میں سے / کوئی بھی آیت) ’’ مِن ‘‘ جو مشہور حرف الجر ہے یہاں تبعیض کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور تنصیص نکرہ (نکرہ کی قطعیت اور تاکید)کے لئے بھی۔ دیکھئے البقرہ: ۳ [۲ : ۲ : ۱ (۵)]۔ پہلی  (تبعیض کی)صورت میں اس مرکب کا ترجمہ ’’ کسی آیت / میں سے / کا کچھ حصہ ‘‘ ہوسکتا ہے۔ مترجمین میں سے بعض نے اس کا ترجمہ ’’ آیتوں میں سے ‘‘ کی صورت میں کیاہے جس میں واحد کا بصورتِ جمع ترجمہ تفسیری ہی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح بعض نے ’’کسی آیت کا حکم‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ’’حکم ‘‘ کا اضافہ بھی تفسیری ہے۔ دوسری صورت (تنصیص) میں اس کا ترجمہ ’’کوئی بھی آیت / جس بھی آیت کو / کسی بھی آیت کو‘‘ ہونا چاہیے۔ اکثر مترجمین نے ’’بھی ‘‘ کے بغیر صرف ’’کوئی آیت / کسی آیت ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو بظاہر صرف لفظ ’’آیۃٍ ‘‘کا ترجمہ لگتا ہے۔ تنصیص کے مفہوم کے لئے اردو میں ’’بھی‘‘ کا لانا ضروری تھا، تاہم ’’کسی یا کوئی ‘‘ میں نکرہ کا مفہوم آگیا ہے۔ بعض نے صرف ’’جو آیت / جس آیت ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جس میں نہ تبعیض کا مفہوم ہے نہ تنصیص والی تاکید اور قطعیت کا۔ دوسرا لفظ ’’ آیۃ ‘‘ہے جس کا مادہ ’’ أ ی ی ‘‘اور وزن اصلی (غالباً) ’’فَعَلَۃٌ ‘‘ ہے۔ اس پر مفصل بحث البقرہ : ۳۹ [۲ : ۲۷ : ۱ (۵) ] میں گزر چکی ہے۔ اس لفظ کے قرآنی ضبط پر آگے بات ہوگی، کیونکہ یہاں جو ہم نے اسے ’’آ ‘‘کے ساتھ لکھا ہے یہ عام املائی رسم ہے۔

(۴)  [اَوْ نُنْسِہَا] یہ دراصل تین کلمات اَوْ + نُنْسِ + ھَا کا مرکب ہے۔ان میں سے ’’ اَوْ ‘‘ (بمعنی ’’یا ‘‘) کے استعمال پر البقرہ : ۱۹ [۲ : ۱۴ : ۱ (۱) ] میں بات ہوچکی ہے۔ آخری لفظ ’’ھَا‘‘ضمیر واحد مؤنث غائب (بمعنی ’’ اس کو‘‘) ہے اور . . . .کلمہ  ’’نُنْسِ‘‘کا مادہ ’’ ن س ی ‘‘ اور وزن اصلی ’’نُفْعِلُ‘‘ ہے۔ یعنی یہ بابِ افعال سے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ جمع متکلم ہے (جزم کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی)یہ اصل میں ’’نُنْسِئی‘‘تھا۔ جزم کی وجہ سے ’’ نُنْسِئی ‘‘ہوگیا اور ناقص مجزوم کے قاعدے کی بنا پر آخری ’’ی ‘‘گر کر اس کی (استعمالی)صورت ’’ نُنْسِ ‘‘ہوگئی جس کا وزن اب ’’نُفْعِ‘‘ رہ گیا ہے۔

·                اس مادہ سے فعل مجرد ’’نَسٍیَ یَنْسَی ‘‘(بھول جانا، ترک کرنا)کے باب اور معانی و استعمال پر البقرہ : ۴۴ [۲ : ۲۹ : ۱ (۸)] میں مفصل بات ہوچکی ہے (کلمہ تَنْسَوْ نَ کے ضمن میں)۔

·                   اس سے باب افعال کے فعل ’’اَنْسٰی یُنْسِی اِنْساءً ‘‘(دراصل اَنْسٰی یُنْسٍی اِنْسایًا)کے معنی ہیں: بھلا دینا، ذہن سے اتار دینا، فراموش کردینا۔ اس معتدی فعل کے ہمیشہ دو مفعول اور دونوں بنفسہٖ (منصوب)آتے ہیں۔ پہلا مفعول وہ شخص ہوتا ہے جس کو بھلا دیا جائے یا اس کے ذہن سے اتار یا جائے  . . . .دوسرا مفعول وہ چیز یا بات ہوتی ہے جو اس (شخص)کو بھلا دی جائے اور جس کو اس (شخص )کے ذہن سے اتار دیا جائے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’ اَنْسَی الرَّجلَ الشیءَ ‘‘(اس نے آدمی کو چیز بھلا دی، فراموش کرادی) اور قرآن کریم میں ہے نَسُوا اللہَ فَاَنْسَاھُمْ اَنُفُسَھُمْ (الحشر: ۱۹)یعنی ’’ وہ بھول گئے اللہ کو تو اس نے بھلا دیئے ان کو ان کے (اپنے)نفس (جانیں)۔‘‘

·                   بعض دفعہ اس فعل کا ایک مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو سیاق عبارت سے سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل (اَنْسٰی یُنْسِی)کے مختلف صیغے سات جگہ آئے ہیں اور ان میں سے چھ مقامات پر دونوں مفعول مذکور ہوئے ہیں۔ صرف ایک (زیر مطالعہ) آیت میں پہلا مفعول محذوف ہے۔ گویا یہاں ’’ نُنْسِھَا‘‘ دراصل ’’ نُنْسِکَھَا ‘‘ سمجھا جائے گا (یعنی ہم بھلا دیتے ہیں تجھ کو وہ)اور ’’وہ ‘‘ (ھَا)سے مراد آیت ہے جو پہلے مذکور ہے۔ اور یہاں مقدر (محذوف) ضمیر منصوب (کَ)بظاہر مخاطب اول (رسول اللہﷺ) کے لئے ہے۔

·                   اس طرح ’’اَوْنُنْسِھَا ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’یا ہم بھلا دیتے ہیں (تجھے) اس کو / یا ہم اتار دیتے ہیں (تیرے )ذہن سے اس کو / یا ہم فراموش کرادیتے ہیں (تجھے / ذہنوں سے) اس کو ‘‘. . . .جسے  اکثر مترجمین نے ’’بھلا دیتے ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے ۔ ایک آدھ نے ’’بھلا دیں ‘‘ (بصورتِ مضارع)کیا ہے۔ بعض نے ’’ فراموش کرنا / کرانا  ‘‘ استعمال کیا ہے اور ایک نے ’’ذہن سے اتاردینا‘‘ سے کام لیا ہے۔

·                   سوائے ایک مترجم کے سب نے ’’نُنْسِ ‘‘ میں مستترضمیر (نَحْنُ =ہم)کا ترجمہ نہیں کیا، بلکہ سابقہ فعل ’’ نَنْسَخْ ‘‘ کے ترجمہ میں ’’ہم‘‘ کے استعمال کو کافی سمجھا ہے۔ اس طرح یہاں منصوب ضمیر مفعول (ھَا)کا ترجمہ بھی (غالباً محاورے کی بنا پر) اکثر نے نظر انداز کر دیا ہے۔ اور سابقہ لفظ ’’آیت‘‘ (مِنْ آیۃٍ) کے ذکر پر اکتفا کیا ہے (کیونکہ یہ ضمیر (ھَا)اسی (آیۃ)کے لئے ہے۔ صرف ایک دو مترجمین نے اس کے لئے ترجمہ میں ’’ اس کو / اسے ‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ اور بعض نے دوبارہ لفظ آیت استعمال کرتے ہوئے اس ’’ھَا‘‘کا ترجمہ ’’اس آیت (ہی)کو‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ اسی طرح مقدر (غیر مذکور)مفعول اول کا ذکر بھی قریباً سب نے نظر انداز کیا ہے۔ صرف ایک آدھ نےاس کے لئے قوسین میں بطور وضاحت (تمہارے) اور ایک نے (ذہنوں سے) کے ساتھ ترجمہ کیا ہے. . . . بلحاظ  مفہوم سب تراجم یکساں ہیں۔

۲ : ۶۴ : ۱ (۲)     [نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا] یہ کلمات بھی پہلے گزر چکے ہیں، اس لئے یہاں ہر ایک کا مختصراً ذکر اور گزشتہ حوالہ کافی ہوگا۔

(۱) ’’ نَاْتِ ‘‘ جس کا مادہ ’’ ا ت ی ‘‘اور وزن اصلی ’’نَفْعِلُ ‘‘ہے، یہ ثلاثی مجرد کے فعل ’’ أَتَی یَأْتِی‘‘(دراصل أَتَیَ یَأْتِیُ)سے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ جمع متکلم ہے جو ابھی اوپر مذکور کلمہ ’’ نُنْسِ‘‘ کی طرح تعلیل ہو کر  نَأْتِیُ = نَأْتِیْ =  نَأْتِ  بنا ہے اور اب اس کا وزن ’’ نُفْعِ‘‘ رہ گیا ہے ۔ اس فعل مجرد (اَتَی یَاْتِی)کے باب، معانی اور استعمال پر مفصل بات البقرہ : ۲۳ [۲ : ۱۷ : ۱ (۴)]میں کلمہ ’’فَاْتُوا ‘‘کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ یہاں اس کا ترجمہ ’’ بِ ‘‘کے صلہ کی بناء پر (جو اگلے کلمہ ’’بِخَیْرٍ‘‘کے شروع میں ہے)یعنی ’’نَاْتِ بِ . . . . = تو ہم لاتے ہیں‘‘. . . . ہوگا۔

(۲)  ’’ بِخَیْرٍ ‘‘ ابتدائی ’’ بِ ‘‘ تو فعل ’’نَاْتِ ‘‘کا صلہ ہے (جس سے فعل اَتٰی بِ . . . . ’’ لے آنا‘‘ کے معنی دیتا ہے)اور کلمہ ’’خَیْر‘‘ یہاں افعل التفضیل کے معنی میں ہے، یعنی ’’بہتر، زیادہ اچھا / اچھی‘‘. . . .اس لفظ (خَیر)کے معنی اور استعمال پر البقرہ: ۵۴ [۲ : ۳۴ : ۱ (۵) ] میں بات ہوچکی ہے۔

(۳)  ’’مِنْھَا ‘‘ جو دو کلمات (مِنْ + ھَا) کا مرکب ہے، اس میں من یہاں ’’تفضیلیۃ‘‘ ہے اور مجاوزۃ (آگے نکلنا )کا مفہوم دیتی ہے۔ دیکھئے البقرہ : ۳ [۲ : ۲ : ۱ (۵) ] اور ھَا ضمیرمؤنث واحد غائب بمعنی ’’ اس ‘‘ ہے۔ یوں ’’مِنْھَا‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’اس سے / اس کے مقابلے پر / اس کی نسبت۔‘‘

(۴) ’’ اَوْ مِثْلِہَا ‘‘ یہ بھی (اوپر مذکور ’’اَوْنُنْسِھَا‘‘کی طرح )دراصل تین کلمات ’’ اَوْ + مِثْلِ + ھَا کا مرکب ہے۔ ’’اَوْ‘‘ (بمعنی ’’یا‘‘)مختلف مفہوم دیتا ہے۔ دیکھئے : البقرہ: ۱۹ [۲ : ۱۴ : ۱ (۱)] ’’مِثْل‘‘ کا ترجمہ ’’مانند، جیسا، ہم پلہ، برابر‘‘ اور ’’کی مثل‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لفظ کے مادہ معنی اور استعمال پر البقرہ: ۲۳ [۲ : ۱۷ : ۱ (۶) ] میں بات ہوئی تھی۔ اور ضمیر مجرور (ھا) کا ترجمہ ’’ اس کی / کا‘‘ ہے مگر مثل کے ساتھ مل کر اس (مثلھا) کا ترجمہ ’’ اس جیسی، ویسی ہی ‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض نے ’’مثل اس کے ، اس کے برابر اور ان کی مانند‘‘ (آیت کو بمعنی جمع لے کر)بھی کیا ہے اور بعض نے صرف ضمیر کی بجائے اس کے مرجع کو بھی ساتھ لے کر ترجمہ ’’اس آیت ہی کی مثل ‘‘ سے بھی کیا ہے۔ مفہوم سب کا ایک ہے۔

·                   یوں اس حصہ آیت (نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ تو (اس ’’تو‘‘ کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) ہم لاتے / لے آتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر / اس کی مثل / مثل اس کی / اس جیسی / ویسی ہی ۔ ‘‘ زیادہ تر مترجمین نے ان ہی مذکور متبادل الفاظ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے، البتہ اردو عبارت کی ساخت کے اعتبار سے فعل کا ترجمہ جملے کے آخر پر لائے ہیں۔ البتہ بعض نے بصورت مستقبل ترجمہ ’’لائیں گے‘‘ کے ساتھ کیا ہے، جس کی بلحاظ سیاق عبارت چنداں ضرورت نہ تھی۔ بعض مترجمین نے ’’نَاْتِ بِ. . . . ‘‘کا ترجمہ ’’پہنچاتے، بھیج دیتے/نازل کر دیتے ہیں‘‘ کی صورت میں کیا ہے جو بلحاظ مفہوم درست ہے، اگرچہ لفظ سے قدرے ہٹ کر ہے۔ بعض نے ضمیر ’’ھَا‘‘کا ترجمہ دونوں جگہ (مِنْھَا اور مِثْلِھَا)ضمیر کے مرجع ’’ آیۃ‘‘(کے اسم ظاہر )کے ساتھ کیا ہے یعنی ’’ اس آیت سے بہتر یا اس آیت ہی کی مثل‘‘ کی صورت میں . . . .اوربعض نے ’’مِثْلِھَا‘‘ کا ترجمہ ’’دیسی ہی اور آیت‘‘ سے کیا ہے۔ یہ سب وضاحتی یا تفسیری ترجمے ہیں، ورنہ ضمیر کا بصورت ضمیر ترجمہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ اکثر نے یہی کیا ہے۔

·                   زیر مطالعہ آیت کے اس حصہ میں (جس پر ابھی دو حصے کرکے بات ہوئی ہے ، یعنی ’’ماَ نَنْسَخْ. . . . نُنْسھَا ‘‘اور نَأتِ . . . . مِثْلِھَا‘‘کی صورت میں)اس کے مجموعی ترجمے میں یہ جو کسی آیت کو منسوخ کرنے یا بھلا دینے اور پھر ویسی ہی بلکہ اس سے بہتر آیت لانے کا ذکر ہے (اور قرآن کریم کی ایک اور آیت ’’ وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ  . . . .الخ‘‘(النحل: ۱۰۱)میں بھی یہی مضمون ہے)۔ اس کا تعلق ’’نسخ فی القرآن ‘‘ کی مشہور بحث سے ہے اور اس موضوع پر مستقل تصانیف بھی ہیں (جن میں ایک مصری عالم ڈاکٹر مصطفی زید کی ایک ہزار صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں شائع شدہ کتاب ’’النسخ فی القرآن ‘‘ قابل ذکر ہے)اور تفسیر مباحث بھی . . . .جن میں بہت کچھ افراط اور تفریط سے بھی کام لیا گیا ہے۔ بہرحال ’’نسخ‘‘ کی اصطلاحی تعریف (کسی حکم کو ہمیشہ کے لئے اور ہر شخص کے لئے ختم کر دینا)کے مطابق اور ان معنوں میں قرآن کریم کی کوئی آیت مطلقاً منسوخ نہیں ہے۔ جزوی اور وقتی نسخ کے لئے الگ اصطلاحات (عام، خاص، مطلق، مقید وغیرہ) بھی موجود ہیں۔ اس بناء پر اس پیچیدہ بحث کے لئے کسی اچھی اور معتمد علیہ تفسیر یا اصول تفسیر یا علوم القرآن کی کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی کتاب ’’الکفوزالکبیر‘‘ میں اس پر بہت عمدہ بحث کی گئی، جو اہل علم کے لئے تحقیق اورتفہیم کے نئے راستے بھی کھولتی ہے۔

۲ : ۶۴ : ۱ (۳)      [اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ]

(۱)  ’’ اَلَمْ تَعْلَمْ ‘‘ کا ابتدائی ہمزہ (أَ) استفہام کے لئے ہے (بمعنی ’’کیا‘‘ ؟) ہمزۂ استفہام سیاق و سباق عبارت کے مطابق متعدد مفہوم دیتاہے۔ اس کے بعض استعمالات البقرہ : ۶ [۲ : ۵ : ۱ (۳)] نیز البقرہ : ۴۴ [ ۲ : ۲۹ : ۱ (۵)] میں بیان ہوئے تھے۔ یہاں یہ تعجب یا تقریر (اقرار)کا مفہوم دیتا ہے، اوراگلا لفظ ’’ لَمْ تَعْلَمْ ‘‘ فعل علم یعلم بمعنی ’’ جاننا، جان لینا ‘‘ سے صیغہ مضارع منفی بِلَم ہے۔ فعل ’’عَلِم‘‘ کے معنی و استعمال پر [ ۱ : ۲ : ۱ (۴) ] اور [ ۲ : ۱۰ : ۱ (۳) ] میں بات ہوئی تھی۔ اور فعل مضارع پر ’’لَمْ ‘‘ کے استعمال اور اس کے اثر پر البقرہ : ۳۳ [۲ : ۲۳ : ۱ (۲ )] میں (اَلَمْ اَقُلْ کے ضمن میں) بات ہوئی تھی کہ لَمْ مضارع کو بلحاظ صورت جزم دیتا ہے اور بلحاظ معنی اسے ماضی منفی مع جحد (بزور انکار)بنا دیتا ہے۔ اس طرح یہاں ’’اَلَمْ تَعْلَمْ‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’کیا تونے جانا ہی نہیں ؟ ‘‘ اسی کو بعض نے ’’کیا نہ جانا تونے ؟ ‘‘ اور ’’کیا تم نہیں جانتے ؟ ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جبکہ بعض نے اسے مزید بامحاورہ اور سلیس کرتے ہوئے ’’کیا تجھ کو / تم کو / تجھے / تمہیں معلوم نہیں / خبر نہیں ‘‘ کی صورت دی ہے۔ لفظ ’’معلوم ‘‘ فعل ’’عَلِمَ ‘‘ سے اسم المفعول ہے اردو میں رائج اور معروف ہے۔

(۲)  ’’ اَنَّ اللہَ ‘‘ (کہ بیشک اللہ تعالیٰ) ۔ یہ ’’ أَ نَّ‘‘ بھی ’’إِنَّ‘‘کی اخوات (بہنوں) یعنی ’’إِنَّ ، أَنَّ ،کَانَّ ، لَیْتَ ،  لِکنَّ و لَعَلَّ ‘‘میں سے ایک ہے، جو حروف مشبہ بالفعل بھی کہلاتے ہیں اور جو سب اپنے اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں۔ ہر ایک پر بات اپنے موقع پر ہوگی۔ ’’ أَ نَّ ‘‘ پر مختصراً بات البقرہ : ۶ [ ۲ : ۵ : ۱] میں ہوئی تھی۔ ’’ إِ نَّ ‘‘ اور ’’ أَ نَّ ‘‘دونوں کے معنی یکساں ہیں (بے شک، یقینا، بلاشبہ ، تحقیق) البتہ ان کے موقع استعمال میں فرق ہوتا ہے۔ گرامر کی بڑی کتابوں میں تو ان کے مواقع استعمال کے لمبے چوڑے قواعد لکھے ہوتے ہیں، مثلاً یہ کہ دس مواقع ایسے ہیں جہاں لازماً ’’ إِ نَّ ‘‘(بکسر ہمزہ) آتا ہے۔ اور آٹھ مواقع ایسے ہیں جہاں لازماً ’’ أَ نَّ ‘‘(بکسر ہمزہ )آتا ہے۔ اور آٹھ مواقع ایسے ہیں جہاں لازماً ’’ أَ نَّ ‘‘ (بفتح ہمزہ)آتا ہے اور نو کے قریب ایسے مواقع ہیں جہاں ’’ إِ نَّ، أَ نَّ ‘‘دونوں طرح استعمال ہوسکتے ہیں۔  [1]  آپ مختصراً اتنا یاد رکھیں کہ کسی جملے کی ابتدا میں تو ہمیشہ ’’ إِ نَّ ‘‘ ہی استعمال ہوتا ہے، مگر جملے کے درمیان میں ’’ أَ نَّ ‘‘ آتا ہے۔ البتہ فعل ’’قّالَ یَقُولُ‘‘ کے کسی صیغے کے بعد درمیان کلام بھی ’’ إِ نَّ ‘‘ آئے گا۔ مثلاأَشْھَدُ أَنّ . . . . ‘‘آتا ہے مگر ’’أَقُوُلُ إِنَّ. . . . ‘‘کہیں گے۔ اس فرق کی وجہ سے ہی ’’ إِ نَّ ‘‘ کا ترجمہ تو ’’بے شک اور یقیناً‘‘ کرتے ہیں مگر ’’ أَ نَّ ‘‘کا ترجمہ ’’ کہ بیشک۔ کہ یقینا‘‘ کیا جاتا ہے۔ بلکہ اردو محاورے میں تو بعض دفعہ صرف ’’کہ ‘‘ پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے، جیسا کہ اس (زیر مطالعہ) موقع پر اکثر مترجمین نے کیا ہے۔

·                   اسم جلالت (اللہ) کے بارے میں لغوی بحث ’’بسم اللہ ‘‘ یعنی [۱ : ۱ : ۲]میں گزری ہے۔

(۳)  ’’ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ‘‘(ہر چیز پر ہر وقت اور ہر طرح سے قدرت رکھنے والا ہے)۔ اس عبارت (کے تمام کلمات پر البقرہ:۲۰ [۲ : ۱۵ : ۱ (۱۰ ۔ ۱۱)] میں بحث ہوچکی ہے۔ اور یہی عبارت قرآن کریم میں قریباً ۳۵ مقامات پر آئی ہے۔ یہاں (اور باقی جگہوں پر بھی) اکثر نے ترجمہ ’’ہر چیز پر قادر ہے ‘‘ سے کیا ہے۔ اردو محاورہ کے لحاظ سے یہ ترجمہ درست ہے۔ تاہم ہم نے اوپر جو ترجمہ لکھا ہے وہ قَادِرٌ (اسم الفاعل)اور قَدِیر (الصفۃ المشبھۃ) کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ شاید اسی لئے اردو کے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’قدرت رکھتا ہے ‘‘ اور ’’سب کچھ کرسکتا ہے ‘‘ سے کیا ہے۔

·                   [اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ]بعینہ یہی عبارت ابھی اوپر (۱) اور (۲) میں گزری ہے، لفظی ترجمہ ہے ’’کیا تونے جانا ہی نہیں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ‘‘۔ بامحاورہ اور سلیس تراجم اوپر دیکھئے۔

۲ : ۶۴ : ۱ (۴)     [لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ] (اس ہی کے لئے ہے بادشاہی / سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی)

(۱) ’’ لَہٗ ‘‘یہ لام الجر (لِ) + (ہ) ضمیر مجرورہ ہے۔لام الجر ضمیروں کے ساتھ مفتوح (لَ)آتا ہے۔اس لام (لِ)کے مختلف معانی و استعمالات پر الفاتحہ : ۲ [۱ : ۲ : ۱ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔ یہاں یہ  ’’کے لئے ، کا (حق)، کی (ملکیت)‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ اس لئے اس کا ترجمہ ’’واسطے اس کے ہے / اس ہی کے لئے ہے / اسی کی ہے / اسی ہی کی ہے‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے اور چونکہ اس سے پہلے ’’أَنَّ اللہَ‘‘ آیا ہے اور ’’لَہٗ‘‘کی ضمیر اللہ کے لئے ہے اس لئے مترجمین نے محاورے کے مطابق اللہ کے ساتھ ’’اس‘‘کو جمع نہیں کیا بلکہ ’’اس‘‘ کی بجائے اسم جلالت ’’اللہ‘‘لگا کر ترجمہ کیا ہے، یعنی اللہ ہی کے لئے / اللہ ہی کی‘‘ کی صورت میں اور ’’ہی ‘‘ لگانے کی وجہ ’’لہ‘‘کا پہلے آنا ہے۔ اس پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

(۲)   ’’ مُلْكُ ‘‘جو یہاں مضاف ہے ، کا مادہ ’’ م ل ک ‘‘اور وزن ’’فُعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’مَلَکَ یَمْلِکُ= مالک ہونا‘‘کے معانی باب اور استعمال پر الفاتحہ : ۴ [ ۱ : ۳ : ۱ (۱)] میں بات ہوئی تھی اور پھر البقرہ: ۱۰۲ [۲ : ۶۲ : ۲ (۱)] میں خود یہی لفظ (مُلْکُ)پہلی دفعہ گزر چکا ہے۔ یہ لفظ مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف حالتوں میں قرآن کریم کے اندر پچاس کے قریب مقامات پر آیا ہے اور اس کے بنیادی معنی میں قوت، قبضہ اور حکم کا مفہوم ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’بادشاہی، حکمرانی، سلطنت، اقتدار‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے مذکور ہو تو اس کے معنی ’’حقیقی بادشاہی اور اقتدار اعلیٰ‘‘ کے ہوتے ہیں۔

(۳)  ’’ السَّمٰوٰتِ ‘‘جس کا مادہ ’’س م و ‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر)’’فعَالات‘‘ہے۔ یہ ’’السَّماء‘‘ (آسمان)کی جمع مؤنث سالم ہے۔ لفظ ’’السَّماء‘‘ (واحد)پربات البقرہ : ۱۹ [۲ : ۱۴ : ۱ (۳)]میں ہوئی تھی اور ’’سمٰوٰت‘‘(جمع نکرہ)کا لفظ پہلی دفعہ البقرہ: ۲۹ [۲ : ۲۰ : ۱ (۱۰)] میں زیر بحث آیا تھا۔ (سَبْعَ سمٰوٰتٍ کے ضمن میں) ’’ السَّمٰوٰتِ ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’آسمانوں‘‘ ہے۔

(۴)  ’’ وَالْاَرْضِ ‘‘میں ’’و‘‘ تو عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘)ہے اور لفظ ’’الارض‘‘(بمعنی ’’زمین‘‘)کے مادہ اور معنی وغیرہ پر پہلی دفعہ البقرہ: ۱۱ [۲ : ۹ : ۱ (۱۴)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

اس طرح اس پوری عبارت (اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ)کو ملا کر اس کا بامحاورہ و سلیس ترجمہ (لفظی ترجمے اوپر لکھ دیئے گئے ہیں) ’’لہ‘‘کی ضمیر ’’و‘‘کی بجائے اس کے مرجع ’’اللہ‘‘کو استعمال کرتے ہوئے ’’اللہ / ہی کو /ہی کے لئے/ ہی کو / ہے بادشاہی /سلطنت / بادشاہت / آسمانوں اور زمین کی ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ بعض نے اردو جملے کی ساخت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’آسمان /آسمانوں اور زمین کی سلطنت / بادشاہت اسی اللہ کی / خدا ہی کی ہے ‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’أَنَّ اللہَ لَہٗ‘‘ کی ترکیب کی وجہ سے ترجمہ ’’کہ حق تعالیٰ (اللہ)ایسے ہیں کہ خاص ان ہی کی ہے . . . . ‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ تمام تراجم کا مفہوم یکساں ہے۔

۲ : ۶۴ : ۱ (۵)    [وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ  . . . .]اس حصہ عبارت کے  تمام کلمات بھی پہلے گزر چکے ہیں۔ ہر ایک کی مختصراً وضاحت یوں ہے:

(۱)  ’’وَ‘‘کا ترجمہ تو ’’اور ‘‘ ہی سے ہوگا۔ تاہم یہ ’’و‘‘استیناف کے لئے ہے کیونکہ یہاں سے ایک نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ اور اسی لئے اس سے سابقہ جملے کے آخر پر وقف مطلق ’’ط‘‘لکھا گیا ہے۔ مستانفہ واو (یا واو الاستیناف)پر البقرہ: ۸ [۲ : ۷ : ۱ (۱)]میں مفصل بات ہوئی تھی۔

(۲)  ’’مَا‘‘(نہیں ہے)۔ یہاں ’’مَا‘‘ نافیہ مشابہہ بِلیس ہے ، جسے ’’مَاالحجازیۃ ‘‘بھی کہتے ہیں، دیکھئے البقرہ : ۳ [۲ : ۲ : ۱ (۵)]۔

(۳)  ’’ لَكُمْ ‘‘ (تمہارے لئے ، تمہارا، تمہارے واسطے)اس میں ضمیر مجرور (کم)بمعنی ’’تم‘‘ سے پہلے لام الجر (لِ)ہے جو ضمیر کی وجہ سے مفتوح ہے۔ لام الجر کے مختلف معانی پر الفاتحہ : ۱ [۱ : ۲ : ۱ (۲)] بات ہوئی تھی۔

(۴)  ’’ مِّنْ دُوْنِ اللہِ ‘‘(اللہ کے سوا / کے بغیر/ کے مقابلے پر)بعینہ یہی ترکیب البقرہ: ۲۴ [۲ : ۱۷ : ۱ (۹)] میں گزر چکی ہے۔ وہاں ’’دُونَ‘‘ کے بطور رظف مضاف (جو اکثر مجرور ’’بِمِنْ‘‘ بھی آتا ہے)کے استعمال اور اس کے ۱۲ مختلف معانی پر بات ہوئی تھی۔ یہ لفظ (دُون)مختلف تراکیب میں (اور زیادہ تر مجرور ’’بِمِن ‘‘ ہوکر)قرآن کریم میں ۹۲ مقامات پر آیا ہے۔

·                   اس طرح اس حصہ عبارت (وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور نہیں ہے تمہارے لئے سوائے اللہ کے ‘‘ جسے زیادہ تر نے ’’اللہ کے سوا‘‘ اور بعض نے ’’خدا کے سوا‘‘ یا حق تعالیٰ کے سوا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ ’’واسطے تمہارے / تمہارے لئے‘‘ کو اکثر نے ’’تمہارا‘‘ کی سلیس اور بامحاورہ شکل دی ہے۔ بعض نے ’’تم مسلمانوں کا‘‘سے ترجمہ کیا ہے جسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔

۲ : ۶۴ : ۱ (۶)     [. . . . مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ]یہ حصہ عبارت سابقہ (مندرجہ بالا)عبارت کے ساتھ (بلحاظ ترکیب جملہ)مربوط ہے۔ اسی لئے اس عبارت کے آخر پر اور اس عبارت کے شروع میں نقطے (. . . .)ڈالے گئے ہیں۔ اس (زیر مطالعہ)عبارت کے بھی سب الفاظ بلحاظ ’’مادہ‘‘تو پہلے گزر چکے ہیں، البتہ بلحاظ ساخت و اشتقاق دو لفظ ’’وَ لِّی‘‘ اور ’’نَصِیر‘‘نئے ہیں، لہٰذا ان کی وضاحت ضروری ہے۔ تفصیل یوں ہے:

(۱)   ’’ مِنْ ‘‘ یہاں تنصیصِ نکرہ کے لئے ہے، یعنی اس سے نکرہ میں مزید عموم اور تاکید کا مفہوم ہوتا ہے۔ دیکھئے البقرہ : ۳ [۲ : ۲ : ۱ (۵)] اسے ’’ مِن زائدہ‘‘ بھی کہتے ہیں، اس کی وجہ سے اگلے لفظ (وَلٍی اور نَصِیر)سے پہلے ترجمہ میں ’’ کوئی بھی‘‘ لگے گا۔

(۲)   ’’ وَ لِی‘‘ کا مادہ ’’ و ل ی ‘‘ اور وزن ’’فَعِیل‘‘ہے (جو یہاں مجرور آیا ہے)گویا یہ لفظ دراصل ’’وَلِیْیٌ‘‘تھا جس میں آخری دو ’’ی‘‘(یْ ی) مدغم ہو کر ’’ی‘‘ بن گئی ہیں۔

·                   اس مادہ سے فعل مجرد ’’وَلِیَ یَلِی‘‘ =قریب ہونا، آس پاس ہونا ‘‘ پر البقرہ: ۶۴ [ ۲ :۱ ۴ : ۱ (۴)] میں بات ہوئی تھی۔ یہ لفظ (وَ لِیّ)اس فعل مجرد سے صفت مشبہ کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور اسم مبالغہ بھی۔ پہلی صورت میں اس کا مطلب ہوگا ’’ہر وقت، ہر جگہ قریب اور پاس ‘‘ اور دوسری صورت میں اس کا مطلب ہوگا ’’بہت زیادہ قریب اور پاس‘‘. . . . اسی لئے اس لفظ کا ترجمہ ’’دوست / یار / حمایتی / حامی‘‘کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اور اس کا ترجمہ ’’سرپرست / کارساز‘‘بھی ہوسکتا ۔ ان سب الفاظ میں  بنیادی مفہوم ’’قرب اور نزدیکی‘‘کا ہے، چاہے وہ بلحاظ مکان (جگہ) ہو یا بلحاظ نسب یا بلحاظ دین یا بلحاظ حمایت اور دوستی ہو . . . .لفظ ’’وَلِیِّ‘‘ قرآن کریم میں مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف اعرابی حالتوں میں ۴۴ جگہ استعمال ہوا ہے اور اکثر جگہ اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کا ’’وَلِیّ‘‘کہا گیا ہے۔ اسی لفظ کی جمع مکسر ’’اَولیاءُ‘‘(غیر منصرف)ہے اور یہ لفظ بھی قرآن کریم میں چالیس سے زائد جگہ وارد ہوا ہے۔

(۳)  ’’ وَلا‘‘(اور نہ ہی)’’وَ‘‘بمعنی ’’اور ‘‘ کئی دفعہ گزر چکا ہے اور ’’لَا‘‘بمعنی ’’نہ / نہیں ‘‘ یہاں ’’مَا نافیہ ‘‘کے بعد آیا ہے ، لہٰذا ’’نفی‘‘ کے مفہوم کی تکرار کے باعث اس کا اردو میں صحیح مفہوم ’’نہ ‘‘ کے بعد ’’ہی ‘‘ لگانے سے واضح ہوسکتا ہے۔

(۴)  ’’ نَصِيْر ‘‘ (مددگار)۔ جس کا مادہ ’’ن ص ر‘‘اور وزن ’’فَعِیل‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’نصَر ینصُر۔ مدد کرنا‘‘ کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ: ۴۸ [۲ : ۳۱ : ۱ (۷)] میں بات ہوئی تھی۔ خیال رہے ’’نصَر‘‘کا اصل مفہوم ایسی مدد کرنا ہوتا ہے جو آدمی کو (دشمن وغیر کے مقابلے پر)کامیاب کر دے۔ لفظ ’’نَصِیر‘‘اس فعل سے اسم المبالغہ کا صیغہ ہے (عموماً صفت مشبہ فعل لازم سے اور اسم مبالغہ فعل متعدی سے آتا ہے)۔ اردو میں قریباً سب نے ہی اس کا ترجمہ ’’مددگار‘‘ کیا ہے۔

·                یوں اتنی عبارت (. . . . مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ . . . . کوئی بھی دوست اور نہ  ہی کوئی مددگار‘‘۔ جیسا کہ ابھی مذکور ہوا لفظ ’’وَ لِیّ‘‘کا ترجمہ بعض دوسرے الفاظ (حمایتی ، حامی، کارساز، سرپرست وغیرہ)سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ نَصِیر کا ترجمہ ’’مدد والا‘‘ بھی کیا گیا ہے جو خالص اردو ترکیب ہے۔ اکثر نے یہاں ’’مِنْ‘‘ کے ترجمہ میں ’’کوئی‘‘ کے ساتھ ’’بھی‘‘ کو اور ’’وَلَا‘‘ کے ترجمہ میں ’’نہ‘‘ کے ساتھ ’’ہی‘‘کو نظر انداز کیا ہے۔ البتہ بعض نے نکرہ (کوئی)کی تکرار کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ ’’نہ کوئی دوست ہے نہ کوئی مددگار ‘‘ کوئی نہیں حامی اور نہ کوئی مددگار‘‘ کی صورت میں کیا ہے اور بعض نے (شاید اردو محاورہ کی خاطر) ایک جگہ ’’کوئی‘‘اور دوسری جگہ ’’نہ ‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ یعنی ’’کوئی دوست اور نہ مددگار / کوئی حمایتی ہے اور نہ مددگار / کوئی حمایتی اور نہ مددگار‘‘ کی صورت میں۔ جبکہ بعض حضرات نے اردو جملے کی ساخت کا لحاظ رکھتے ہوئے سابقہ عبارت (وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ)کے ’’مَا‘‘کا ترجمہ آخر پر بصورت ’’نہیں‘‘لائے ہیں۔ مثلاً ’’کوئی یار و مددگار بھی نہیں / کوئی دوست / یار ومددگار نہیں ‘‘ کی صورت میں. . . . تمام تراجم کامفہوم یکساں ہے۔ البتہ جس نے ’’کوئی بھی / نہ ہی ‘‘ کے ساتھ یا ’’کوئی‘‘ اور ’’نہ ‘‘کی تکرار سے ترجمہ کیا ہے وہ اصل سے قریب تر ہے۔

 

۲ : ۶۴ : ۲         الاعراب

زیرمطالعہ دو آیات میں سے ہر ایک بلحاظ مضمون دو الگ الگ جملوں پر مشتمل ہے، اسی لئے دونوں آیتوں میں ہر جملے کے اختتام پر وقف مطلق کی علامت ’’ط‘‘ لگائی گئی ہے۔ پہلی آیت کا پہلا حصہ جملہ شرطیہ ہے، یعنی یہ شرط اور جزاء (جواب شرط)دونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ایک جملے کے اعراب کی تفصیل یوں ہے۔

(۱)مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا۔

(ما)موصولہ شرطیہ (بمعنی ’’ جو کچھ بھی کہ‘‘)ہے جس کی وجہ  سے اگلا صیغہ فعل [ننسخ] مجزوم ہے، علامت جزم لام کلمہ (خ)کا سکون ہے۔ اور اس لحاظ سے ’’مَا‘‘اس فعل کا مفعول مقدم ہے جو محلاً منصوب ہے، جس میں مبنی ہونے کی وجہ سے کوئی ظاہری علامت نصب نہیں ہے۔ [مِن]جار اور [آیۃٍ]مجرور ہے۔ اس مرکب جاری میں اگر ’’من‘‘ کو تبعیض کے لئے سمجھا جائے تو پھر ’’مِن آیۃٍ‘‘اس ’’ما‘‘کی صفت بنے گا یعنی ’’جو کچھ بھی کہ کسی آیت میں سے ‘‘ یا ’’جو کچھ حصہ آیت بھی‘‘ اور چونکہ ’’ما‘‘محلاً منصوب ہے لہٰذا یہ مرکب جاری بھی محلاً منصوب ہی ہوگا۔ اور اگر ’’مِنْ‘‘زائدہ برائے تنصیص نکرہ سمجھیں تو پھر بلحاظ محل (موقع)اسم شرط (ما)کا حال یا اس کی تمیز بن سکتا ہے (حال اور تمیز دونوں منصوب ہوتے ہیں لہٰذا اس صورت میں بھی ’’ مِن آیۃٍ ‘‘محلاً منصوب ہی بنے گا)حال ہو تو ترجمہ بنے گا ’’جو کچھ بھی کوئی بھی آیت ہوتے ہوئے (منسوخ ہو)‘‘ اور تمیز کی صورت میں ترجمہ کچھ یوں ہوگا ’’جو کچھ بھی کہ کسی بھی آیت کی مقدار ‘‘ [یہ ایسے ہے جیسے ’’عندی رطلٌ زیتاً=میرے پاس ایک رطل (ایک پیمانہ)تیل ہے . . . .کی بجائے کہہ سکتے ہیں ’’عندی رطل مِن زیتٍ‘‘مطلب ایک ہی ہے]۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ یہ حال  یا تمیز والی بات الٹی طرف سے کان کو ہاتھ لگانے والا تکلف ہی ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ مرکب جاری (مِن آیۃٍ) کا تعلق ’’مَا‘‘سے ہی ہے، یا بصورت تبعیض یابصورت تنصیص (اور دونوں صورتوں میں ترجمہ کا اصل فرق حصہ ’’اللغۃ‘‘میں بھی بیان ہوچکا ہے۔ [اَو]حرف عطف اور [نُنْسِھا]میں ’’ننس‘‘مضارع صیغہ جمع متکلم ہے جو سابقہ مجزوم (بوجہ شرط)فعل ’’نَنْسَخ‘‘پر معطوف ہوکر مجزوم ہے۔ علامت جزم حرف علت لام کلمہ (ی) کا سقوط ہے (اصل نُنْسِی تھا)اور ’’ھا‘‘ضمیر منصوب اس فعل ’’نُنْسِ‘‘کا مفعول بہ ہے۔ یہاں تک جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ (بیان شرط)مکمل ہوتا ہے۔ آگے جواب شرط (جزاء) شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ [نَاْتِ]جو صیغہ مضارع جمع متکلم ہے اسی (جواب شرط ہونے کی)وجہ سے مجزوم ہے۔ علامت جزم یہاں بھی حرفِ علت لام کلمہ (جو یہاں بھی ’’ی‘‘تھی)کا سقوط ہے (یہ دراصل ’’نَاْتِیْ‘‘تھا) . . . .شرط اور جزاء کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں، ان میں سے بڑی واضح اور عمدہ صورت (شرط کے)مضارع مجزوم کے جواب میں مضارع مجزوم  (بغیر ’’فا‘‘کے )کا لاناہے۔ اسی جواب شرط ہونے کی وجہ سے ’’نَاْتِ‘‘کے ترجمہ سے پہلے اردو میں ’’تو‘‘لگتا ہے۔ [بخیرٍ]جار (بِ)اور مجرور (خَیْرٍ)کا تعلق فعل ’’نَاْتِ‘‘سے ہے ۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ حرف الجر (بِ)تو فعل (نَاْتِ)کا صلہ ہے جس سے ’’اَتٰی یَاْتِی بِ‘‘میں ’’لے آنا‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح لفظ ’’خَیْر‘‘یہاں مفعول ہونے کے لحاظ سے محلاً منصوب ہے کیونکہ اگر اس صلہ (بِ)کے بغیر اس فعل کے یہی (لے آنا والے)معنی ہوتے تو عبارت ’’نَاْتِ خَیْراً‘‘ہوتی۔ [منھا]من حرف الجریہاں تفضیلۃ ہے جو افعل التفضیل کے ساتھ استعمال ہوتا ہے (جو یہاں ’’خَیْر‘‘ہے) اور ’’ھَا‘‘ضمیر مجرور مفضل منہ (جس پر فضیلت دی جائے) کے لئے ہے اور اس کا مرجع لفظ ’’آیۃ‘‘ہے جو پہلے گزر چکا ہے (یعنی اس آیت سے زیادہ اچھی / بہتر) [اَوْ]حرف عطف اور [مِثْلِھَا] مضاف (مثل)اور مضاف الیہ (ھا۔ ضمیر مجرور )مل کر ’’او‘‘کے ذریعے لفظ ’’آیۃ‘‘ہی پر عطف ہے جس کے لئے ’’ھا‘‘(ضمیر)پہلے بھی آچکی ہے۔ اب آپ اس بیان اعراب کے بعدحصہ اللغۃ میں بیان کردہ تراجم کی لغوی وجہ کے علاوہ نحوی وجہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں تک شرط اور جواب شرط مکمل ہوکر ایک مضمون ختم ہوا ہے، لہٰذا یہاں وقف مطلق ہونا چاہیے۔

(۲)  اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ

[ا]ہمزۂ استفہام برائے تقریر (اقرار کا مفہوم)ہے اور [لَمْ تَعْلَمْ]میں ابتدائی ’’لَمْ‘‘حرف جازم مضارع ہے جس سے مضارع کے معنی الٹ کر (قلب ہو کر)ماضی اور وہ بھی منفی کے ہو جاتے ہیں، اس لئے ’’لَمْ‘‘کو حرف جزم و نفی و قلب بھی کہتے ہیں۔ ’’تَعْلَمْ‘‘مضارع مجزوم ’’بِلَمْ‘‘ہے، علامتِ جزم لام کلمہ (م)کا سکون ہے [اَنَّ]حرف مشبہ بالفعل ہے اور [اللہَ]اس کا اسم منصوب ہے، علامت نصب آخری ’’ہ ‘‘کی فتحہ ہے۔ [عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ] یہ مرکب جاری ہے جس میں ’’ عَلٰي ‘‘حرف الجر کے بعد ’’كُلِّ ‘‘مجرور ہے اور آگے مضاف بھی ہے۔ علامت جز  آخری ’’لِ ‘‘ کی کسرہ ہے کیونکہ یہ خفیف (لام تعریف اور تنوین کے بغیر)بھی ہے اور ’’ شَيْءٍ ‘‘اس (کُل)کا مضاف الیہ (لہٰذا)مجرور ہے، علامت جر تنوین الجر (ـــــٍـــــ)ہے اور یہ پورا مرکب جاری (عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ)متعلق خبر (مقدم)ہے، یعنی اس کا تعلق اگلے لفظ [قديرٌ]سے ہے جو ’’ان‘‘کی خبر مرفوع ہے۔ علامت رفع تنوین رفع (ـــــٌـــــ)ہے گویا اصل عبارت یوں بنتی تھی کہ ’’ اِنَّ اللہَ قَدِيْرٌ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ ‘‘مگر فاصلہ (آیت کے آخری لفظ)کی رعایت سے متعلق خبر (عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ)کو خبر (قَدِيْرٌ) پر مقدم کر دیا گیا ہے، جس سے قدرت کے کمال اور وسعت کی تاکید کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اسی تاکید کے مفہوم کو بعض نے ’’سب کچھ کرسکتا ہے‘‘کے (ترجمے کے )ذریعے ظاہر کیا ہے۔

(۳)  اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔

[اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ]ابھی اوپر گزرا ہے۔ اگلی عبارت میں [لَہٗ]جار مجرور (لام الجر (لِ)+ضمیر واحد مذکر مجرور (ہٗ)مل کر خبر مقدم ہے جسے قائم خبر بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ خبر ہی کا کام دے رہا ہے۔ اس کے بعد مُلْک اپنے بعد والی پوری ترکیب اضافی سمیت مبتدا مؤخر (لہٰذا)مرفوع ہے۔ علامت رفع ’’ک‘‘کا ضمہ ہے کیونکہ یہ لفظ آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ [السَّمٰوٰتِ]مضاف الیہ (لہٰذا)مجرور ہے، علامت جر آخری ’’اتِ‘‘ہے جو جمع مؤنث سالم میں اعراب کی علامت ہوتی ہے (. . . .ات)۔[و] عاطفہ ہے جس سے [الارض]’’السمٰوٰت‘‘پر معطوف ہوکر (خود بھی)مجرور بالاضافہ ہوگیا ہے، علامت جر ’’ضِ‘‘کی کسرہ (ـــــِــــ)ہے کیونکہ الارض معرف باللام بھی ہے۔ یوں یہ پورامرکب اضافی (مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ) مبتداء مؤخر ہے جس کی خبر مقدم کا کام ’’لہ‘‘ (جار مجرور . . . .)دے رہا ہے۔ اور یہ پورا جملہ اسمیہ (مبتدا مؤخر + خبر مقدم) ’’ان‘‘ کی خبر لہٰذا محلاً مرفوع ہے۔ گویا اصل جملہ کی طرح سے۔ ’’ اَنَّ اللہَ مَالِکُ/ مَلِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ‘‘بنتا تھا مگر ’’لہ‘‘کو خبر مقدم بنا کر ’’اسی ہی کے لئے /اسی ہی کا ہے‘‘ کا زور دار مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔ یہ زور اور تاکید عام سادہ جملہ اسمیہ کے ذریعے ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔

(۴)  وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۔

[وَ]مستانفہ ہے جس کا ترجمہ تو ’’اور ‘‘ ہی کیا جاتا ہے مگر اس میں ’’اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے ‘‘ کا مفہوم ہے، اسی لئے بعض نے اس ’’و‘‘ کے ترجمہ کی قوسین میں یوں وضاحت کی ہے ’’اور (یہ بھی سمجھ رکھو کہ )‘‘۔ [مَا] نافیہ حجازیہ ہے [لکم]جار مجرور (ل + کم) خبر مقدم (یا قائم مقام خبر)ہے جس کا مبتدا مؤخر آگے آرہاہے۔ [مِّنْ دُوْنِ اللہِ] میں من جارہے جو ظروف سے پہلے اکثر لگتا ہے۔ ’’دون‘‘ظرف مکان ہے جو آگے مضاف بھی ہے، اور ’’اللہ‘‘مضاف الیہ مجرور ہے۔ اگر شروع میں ’’مِن‘‘نہ ہوتا تو ظرف منصوب ہوکر مضاف ہوتا یعنی بصورت ’’دون اللہ‘‘(اور یہ ترکیب بھی قرآن کریم میں بہت جگہ آئی ہے۔ یہ مرکب (من دون اللہ )آگے آنے والے مبتداء مؤخر (ولی)سے متعلق ہے، یعنی اسی کا حال یا صفت کہہ سکتے ہیں۔ [مِن]زائدہ برائے تنصیص نکرہ ہے۔ [وَلِیٍّ]مبتدأ مؤخر لہٰذا محلاً مرفوع ہے مگر یہ مجرور ’’بمن‘‘ہے اور اسی ’’من‘‘کی وجہ سے ’’من ولی‘‘کا ترجمہ ’’کوئی بھی دوست / حمایتی‘‘ بنتا ہے۔ [و]عاطفہ ہے اور [لَا]تاکید نفی کے لئے ہے (صرف ’’نفی‘‘(نہیں)تو ابتدائی ’’مَا‘‘(الحجازیۃ)میں بھی مودجود تھی) اسی تاکید کی وجہ سے یہاں ’’لا‘‘کا ترجمہ ’’نہ ہی‘‘سے ہوگا [نصیر]واو عاطفہ کے ذریعہ مبتدا مؤخر (ولی)پر معطوف ہے۔ گویا دوسرا مبتداء مؤخر ہے۔ یہ بھی محلاً مرفوع ہے، اگرچہ مجرور   بِمِن (وَلیِّ)پر عطف کی وجہ سے لفظاً مجرور ہی ہے۔ گویا اصل منفی (بمَا)جملہ بنتا تھا ’’مَالَکُم وَلِیٌ و نَصِیرٌ‘‘(نہیں ہے تمہارا کوئی دوست اور مددگار)[اور یہ بالکل ایسا ہے جیسے کہیں ’’مَالَہ ابنٌ وَ بِنتٌ۔ اس کی کوئی بیٹا ، بیٹی نہیں ہے‘‘]۔ پھر ’’وَلِیّ‘‘کے شروع میں ’’من‘‘زائدہ برائے تنصیص لگنے سے ’’مِن وَلٍیٍّ‘‘کے معنی ’’کوئی بھی دوست‘‘ ہے اور واو عاطفہ کے بعد تاکید نفی کے لئے ’’لا‘‘لگا کر ’’ولا‘‘کے معنی ہوئے ’’اور نہ ہی‘‘۔ پھر اس دوست/مددگار کی صفت یا حال کے طور پر اور تاکید کا مفہوم پیدا کرنے کے لئے ’’مِن دُون اللہِ‘‘کو مبتدا مؤخر سے بھی مقدم کر دیا گیا ہے، ورنہ سادہ جملہ ’’مَالَکُم وَ لِیٌّ وَ نَصِیرٌ مِن دُون اللہِ‘‘بھی ہوسکتا تھا مگر اس میں وہ تاکید اور نفی کے عموم (وسیع تر مفہوم)والی بات نہ ہوتی۔

 

۲ : ۶۴ : ۳      الرسم

اس قطعہ آیات کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے ماسوائے صرف ایک کلمہ ’’السمٰوٰت‘‘ کے جس کا رسم املائی تو ’’سَمَاوَات‘‘ہے مگر رسم عثمانی میں بالاتفاق یہاں اس کی کتابت میں دونوں الف (’’م‘‘ کے بعد والا اور ’’و‘‘کے بعد والا)حذف کر دیئے جاتے ہیں۔ اور پھر پڑھنے کے لئے ان کو بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی لفظ کے رسم پر سب سے پہلے البقرہ: ۲۹ [۲ : ۲۰ : ۳] میں بات ہوئی تھی ، چاہیں تو اسے بھی دوبارہ دیکھ لیجئے۔

 

۲ : ۶۴ : ۴        الضّبط

اس (زیر مطالعہ) قطعہ کے ساتھ ہم اپنی اختلافات ضبط کے بارے میں ’’تحریری‘‘ نمونے پیش کرنے کی پالیسی میں تھوڑی سی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ اس تبدیلی کی وضاحت سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’رسم‘‘ و ’’ضبط‘‘ کے باہمی تعلق / ان کی اہمیت اور ضبط میں اختلاف کے بنیادی اسلوب کے بارے میں بعض تعارفی امور مختصراً بیان کردیئے جائیں (ان میں سے بعض چیزوں کی طرف مقدمہ کتاب میں بھی اشارہ کردیا گیا تھا)۔

ہم نے کتاب کے اصل موضوع ’’لغات و اعراب‘‘ کے ساتھ قرآن کریم کے ’’رسم‘‘ اور ’’ضبط‘‘ کے قواعد کا بیان اہل شوق اور اصحاب ذوق کی ضیافت طبع کے لئے شامل کررکھا ہے۔ ’’رسم‘‘ کا تعلق قرآنی عبارات کی درست کتابت، طریق ہجاء و املاء سے ہے، جب کہ ’’ضبط‘‘ کا تعلق قرآن کریم کی مکتوب عبارت کو (بذریعہ حرکات)درست پڑھنے سے ہے، اگرچہ قرآن کریم کے متعدد کلمات کو مسلمہ اور مستند (سات یا دس)قراء ات کے مطابق مختلف صورتوں میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ تاہم بنیادی طور پر تمام قراء ات رسم کے تابع ہوتی ہیں یعنی کلمہ کی ہجاء اور املاء کا طریقہ ایک ہی ہوتا ہے مگراس کو کسی خاص طریقے پر پڑھنے کے لئے حرکات مختلف طریقے سے لگائی جاتی ہیں۔

·       اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ سورۃ الفاتحہ میں ’’مَالِک‘‘کو ’’مَلِک‘‘بھی پڑھنا خود رسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔ تاہم اس کا قرآنی (عثمانی)رسم ’’مٰلِک‘‘(الف کے بغیر)ہے۔ اب ’’مَالِک‘‘والی قراء ت (مثلاً عاصم، الکسائی اور خلف وغیرہ، جن میں سے حفص عن عاصم کی قراء ت ہی تمام ایشیائی ممالک میں رائج ہے) کے لئے اسے ضبط کے ساتھ بصورت ’’مٰلِک‘‘لکھتے ہیں۔ مگر ’’مَلِک‘‘والی قراء ت (مثلاً ورش اور قالون (عن نافع)اور الدوری (عن ابی عمرو)کی روایت کے مطابق اسے ’’مَلِک‘‘ ہی کے ضبط سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ تاہم بعض دفعہ ایک ہی قراء ت کے باوجود ضبط میں فرق ہوتا ہے۔ مثلاً (قراء ت حفص ہی کے مطابق) ’’مَالِک‘‘ پڑھنے کے لئے ’’مٰلِک‘‘کے علاوہ (جو بیشتر مشرقی ممالک کا ضبط ہے . . . .)اسی لفظ کو بصورت’’مَٰلِک‘‘  بھی لکھتے ہیں( جو بیشتر عرب اور افریقی ممالک کا ضبط  ہے ۔ ۔۔) البتہ بعض ایشیائی ملکوں (خصوصاً ایران اور ترکی) میں (جہاں حفص والی قراء ت ہی رائج ہے)لفظ کااصل رسم الخط بگاڑ کر اس کا طریق ہجاء ہی اپنی ضرورت (قراء ت)کے مطابق بدل کر ’’مَالِک‘‘ہی کر دیا گیا ہے۔ جو رسم عثمانی کی خلاف ورزی اور لہٰذا اصولی طور پر ایک غلط بات ہے  . . . .بلکہ ان ملکوں میں رسم عثمانی کی اور بھی بہت سی خلاف ورزیوں کا رواج ہوگیا ہے۔

·                اس طرح قرآنی یا عثمانی ’’رسم‘‘ کو تو ایک بنیادی حیثیت اور تقدس حاصل ہے مگر ’’ضبط‘‘ میں ہر ملک کے اپنے عام تعلیمی قواعد اور علمی مزاج کے مطابق ہمیشہ اصلاح اور تبدیلی ہوتی رہی ہے بلکہ یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ بیشتر عرب اور افریقی ممالک میں ضبط کے قواعد عربی صرف و نحو کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں مگر برصغیر اور دیگر ایشیائی ملکوں میں یہ قاعدے گرامر سے زیادہ صوتی قواعد کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ بعض ممالک کا طریق ضبط بلحاظ قواعد زیادہ دقیق اور جامع ہے۔ جب کہ بیشتر (عجمی )ممالک میں طریق ضبط کے قواعد اختصار اور اجمال پر مبنی ہوتے ہیں جن کی تفصیل استاد سے زبانی معلوم ہوتی ہے۔

·                   بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’ضبط‘‘ خواہ کتنا ہی دقیق اور جامع ہو پھر بھی قرآنی کلمات کی درست قراء ت کے لئے استاد کی زبانی تعلیم کے بغیر چارہ نہیں۔ بلکہ قراء ت کے بعض طریقے تو محض علامات ضبط کے ذریعے سکھائے ہی نہیں جاسکتے (مثلاً روم، اشمام، امالہ، اختلاس وغیرہ) ہر ایک ملک میں رائج ضبط کے بنیادی قواعد (اجمالاً یا تفصیلاً) کسی ’’قرآنی قاعدہ‘‘کے ذریعے اور استاد کی عملی تعلیم سے سکھائے اور پڑھائے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ کسی ایک طریق ضبط کے مطابق پڑھا ہوا . . . .خصوصاً  ناظرہ خوان      . . . .کسی دوسرے ملک کے طریق ضبط کے مطابق لکھے گئے نسخہ قرآن (مصحف)سے درست تلاوت ہرگز نہیں کرسکتا۔

·                                  ضبط کے ان مختلف طریقوں میں فرق کی بعض نمایاں وجوہ (یا مظاہر) کی بنیاد حسب ذیل امور ہیں۔

(۱)  حرکات ثلاثہ (زبر، زیر، پیش)کی شکل میں فرق اور ان حرکات کی صورت کے مطابق (علامت)تنوین کی مختلف صورتوں اور ان کے مواقع استعمال میں اختلاف ، مثلاً اخفاء و اظہار کے لئے الگ الگ یا یکساں صورت تنوین۔

(۲) علامت سکون کی شکل میں فرق اور اس کے مواقع استعمال یا عدم استعمال کا اختلاف۔

(۳) علامت تشدید (ـــــّـــــ)اور اس کے مواقع استعمال میں فرق ، خصوصاً اوراد غام تام اور ناقص کی صورت میں اسے استعمال کرنا یا نہ کرنا۔

(۴) مُظہرۃ اور مُخفاۃ (’’ن‘‘اور ’’م‘‘)کا فرق ظاہر کرنا یا نہ کرنااور مکتوب یا ملفوظہ نون ساکنہ کے ’’م‘‘ میں اقلاب کو ظاہر کرنا یا نہ کرنا۔

(۵) ھمزۃ القطع کے لئے علامات کا فرق (#)اور ان کے مواقع استعمال میں اختلاف۔

(۶) ہمزۃ الوصل کو ظاہر کرنے کے مختلف طریقے، جن میں سب سے سادہ اور سہل (اگرچہ غیر علمی)طریقہ برصغیر اور بہت سے ایشیائی ممالک کا ہے۔ اور نسبتاً پیچیدہ اور ناقص طریقہ عرب ممالک کا ہے کیونکہ اس میں زیادہ بھروسہ قاری کی عربی دانی پر کیا گیا ہے۔ اور سب سے جامع اور علمی طریقہ افریقی ممالک کا ہے۔

(۷) رسم میں محذوف (مگر قراء ت میں ملفوظ) حروف کو ظاہر کرنے کے طریقے میں اختلاف (مثلاً ’’لہٗ‘‘کے بعد والی ’’و‘‘، ’’بِہٖ‘‘کے بعد والی ’’ی‘‘اور ’’مٰلک‘‘کے میم کے بعد والا الف)

(۸)رسم میں زائد موجود (مگر غیر ملفوظ)حروف کو ظاہر کرنے کا طریقہ (مثلاً ’’اُولٰئک‘‘میں ’’ی‘‘)

(۹) ’’و‘‘ اور ’’ی‘‘ ممدودہ کو علامت سکون دینا یا نہ دینا۔

(۱۰) خاص علامات ضبط (اشمام، روم، اختلاس، اِمالہ وغیرہ)استعمال کرنا یا نہ کرنا۔

(۱۱) لام الف کے احکام کا فرق یعنی ’’لا‘‘ کا کون سا سرا الف ہے اور کونسا لام۔

(۱۲) بعض حروف کے طریق اعجام میں فرق۔ افریقی ممالک ہی میں آخر پر آنے والے حروف ’’ینفق‘‘(ی ن ف ق) کو نقطے سے خالی رکھنا۔ اگرچہ اب بعض افریقی ملکوں میں ان دونوں چیزوں (ف ق کےاعجام اور آخر والے حروف ’’ینفق‘‘والا قاعدہ) میں مشرقی ملکوں والا طریقہ اختیار کیا جانے لگا ہے۔

·                اور اسی (مذکورہو بالا)فرق اور اختلاف کے مطالعہ اور مشاہدہ کے لئے کتاب میں ’’ضبط‘‘ کی بحث بھی شامل کردی گئی ہے۔ یہ فرق قواعد کے بیان کی صورت میں بھی واضح کیا جاسکتا ہے (جیسا کہ شروع میں کیا بھی گیا تھا) اور ایک ہی تلفظ اور قراء ت کے باوجود مختلف ضبط کے تحریری نمونے سامنے لانے سے بھی وضاحت کی جاسکتی ہے (جیسا کہ ہم کرتے چلے آئے ہیں)اور چونکہ دنیا بھر میں رائج قرآنی ضبط کی تمام صورتوں کو بطور نمونہ سامنے لانا ممکن نہ تھا اس لئے ہم نے صرف چار قسم کے (نمائندہ) نمونے پیش کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ یعنی علی الترتیب (۱)برصغیر میں رائج ضبط (جس سے ہم بخوبی آشنا ہیں) (۲)ایران اور ترکی میں رائج ضبط (جو بہت سی باتوں میں مماثل ہوتا ہے)  (۳)مصر اور ایشیائی عرب ممالک میں رائج طریق ضبط اور (۴)افریقی ممالک کا طریق ضبط (جو بہت سی باتوں میں عرب ممالک کے ضبط سے مشابہ ہوتا ہے)۔

·             اس کے بعد ہم نے اب تک عموماً ہر قطعہ آیات کے ہر ایک کلمہ کے لئے اس ’’چہار گانہ‘‘ضبط کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب (اگرچہ خاصی دیر کے بعد)یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو لفظ یا مرکب پہلے گزر چکا ہے اس کا آئندہ صرف گزشتہ حوالہ دے دیا جائے گا۔ اور اب بطور نمونہ صرف ان الفاظ اور مرکبات کو لیا جائے گا جو پہلی دفعہ سامنے آئیں گے یا ن میں ضبط کا کوئی خاص قاعدہ سامنے آئے گا۔ خیال رہے کہ اکثر الفاظ (یا مرکبات) کے حروف کے ضبط کاماقبل اور مابعد والے حروف کے تلفظ (اور لہٰذا ضبط)سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس لئے ایک ایک (مفرد)لفظ کی بجائے بعض دفعہ مرکب (کم از کم دو)الفاظ کو لینا پڑے گا۔

·          اب اس نئی پالیسی کے تحت زیر مطالعہ قطعہ آیات کے کلمات کے ضبط کی صورت یوں بنتی ہے . . . .پہلے ہم ترتیب وار ان کلمات کا (گزشتہ حوالے کے ساتھ)ذکر کرتے ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں۔

’’مَا‘‘یہ لفظ اس سے پہلے ۴۵ دفعہ گزر چکا ہے۔ پہلی دفعہ البقرہ : ۴ [۲ : ۳ : ۴] میں اس کے ضبط پر بات ہوئی تھی۔

’’مِنْ‘‘یہ لفظ مفرد مرکب اور ضبط کی مختلف صورتوں (مظہرہ، مخفاۃ یا متحرک)کے ساتھ پچاس سے زائد دفعہ گزر چکا ہے۔ یہاں یہ نون مظہرہ ہے۔ پہلی دفعہ نون مظہرہ کاضبط البقرہ: ۴۹ [۲ : ۳۲ : ۴]میں آیا تھا۔ (نون مخفاۃ کاضبط پہلی دفعہ البقرہ: ۴ [۲ : ۳ : ۴]میں گزرا ہے) ’’اَوْ‘‘پہلی دفعہ البقرہ: ۱۹ [۲ : ۱۴ : ۴]میں گزرا ہے۔

’’بِخَیر‘‘لفظ ’’خَیْر‘‘پہلی دفعہ البقرہ: ۵۴ [۲ : ۳۴ : ۴]میں دیکھئے۔

’’مِنْھَا‘‘یہ لفظ اس سے پہلے آٹھ دفعہ گزر چکا ہے۔ پہلی دفعہ البقرہ: ۲۵ [۲ : ۱۸ : ۱۴] میں آیا تھا۔ البتہ ما قبل کی تنوین کے ساتھ زیر مطالعہ میں پہلی دفعہ آیا ہے جس کی وجہ سے ’’م‘‘پر تشدید آئی ہے یعنی ’’مِّنْھا‘‘کی صورت میں . . . .’’اَوْ ‘‘کا حوالہ ابھی گزرا ہے۔

’’اَلَمْ تَعْلَمْ‘‘ میں سے ’’اَلَمْ‘‘کا ضبط پہلی دفعہ البقرہ: ۳۳ [۲ : ۲۳ : ۴] کے ’’اَلَمْ اَقُلْ‘‘میں گزرا ہے۔ ’’تَعْلَمْ‘‘کے ضبط میں کسی کا اختلاف نہیں، سوائے اس کے کہ بعض علامت سکون ’’ہ‘‘استعمال کرتے ہیں۔

’’ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ‘‘یہ پورا جملہ البقرہ: ۲۰ میں گزر چکا ہے، اور اس کے کلمات کے ضبط کے لئے دیکھئے [۲ : ۱۵ : ۴] صرف اس فرق کے ساتھ کہ یہاں ’’اَنَّ‘‘ ہے اور وہاں ’’اِنَّ‘‘تھا۔

’’مُلْک‘‘ پہلے البقرہ: ۱۰۲ میں گزر چکا ہے [۲ : ۶۲ : ۴]۔

’’السَّمٰوٰت والارض‘‘کے تمام کلمات کے ضبط پر البقرہ: ۳۳ [۲ : ۲۳ : ۴] میں بات ہوئی تھی۔

’’وَمَا لَکُمْ‘‘میں سے ’’وَ‘‘ سب سے پہلے الفاتحہ : ۵  میں آیا تھا۔ ’’ما‘‘ پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔ ’’لَکُمْ‘‘اس سے پہلے ’’م‘‘ کے سکون اور مابعد والے میم کی تشدید کے ساتھ [۲ : ۲۰ : ۴] میں گزرا ہے۔ ویسے ’’لَکُمْ‘‘ مختلف صورتوں میں دس دفعہ گزر چکا ہے۔

’’مِنْ دُوْنِ اللہِ‘‘پوری ترکیب کا ضبط البقرہ: ۲۳ [۲ : ۱۷ : ۴] میں گزر چکا ہے۔

·                   باقی نئے کلمات اور تراکیب کے ضبط کے نمونے درج ذیل ہیں:

 

 

 



[1] مثلاً چاہیں تو دیکھ لیجئے معجم النحو، ص ۶۹ تا ۷۴ ۔