سورۃ البقرہ آیت  ۱۰۸

۲ : ۶۵    اَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُىِٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ ۭ وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ  (۱۰۸)

۲ : ۶۵ : ۱       اللغۃ

اس آیت میں بھی بالکل نیا اور بلحاظ مادہ پہلی دفعہ آنے والا لفظ تو صرف ’’السبیل‘‘ ہے۔باقی تمام کلمات براہ راست (اپنی اسی موجودہ شکل میں)یا بالواسطہ (یعنی اصل مادہ کے لحاظ سے)پہلے گزر چکے ہیں۔ اس لئے ہم عبارت کو چھوٹے چھوٹے جملوں (یاجملوں سے ملتے جلتے حصوں) میں تقسیم کرکے ہر ایک جزء کے کلمات کی وضاحت کریں گے یا حسب ضرورت گزشتہ حوالہ دیتے جائیں گے۔

۲ : ۶۵ : ۱ (۱)      [اَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ . . . .]

(۱)  ’’اَمْ‘‘ (آیا / کیا ؟ / بلکہ / شاید) اس کی دو اقسام یعنی ’’ اَمْ متّصلہ‘‘ اور ’’اَمْ منقطعہ‘‘پر بات البقرہ : ۶ [ ۲ : ۵ : ۱ (۴)] میں ہوچکی ہے۔

(۲)  ’’ تُرِيْدُوْنَ ‘‘ (تم ارادہ کرتے ہو)اس کا مادہ ’’ر و د‘‘ اور وزن ’’تُفْعِلُونَ‘‘ہے۔ یہ دراصل ’’ تُرْوِدُوْنَ ‘‘ تھا۔ پھر ’’ ـــــُـــــ  ــــْــــ  وِ  ــــُــــ ــــِــــ یْ ‘‘کے مطابق ’’ وِ‘‘ کی حرکت (ـــــِــــ)ماقبل ساکن (رْ)کو منتقل ہوئی اور پھر خود ’’وْ‘‘ بوجہ ماقبل مکسور کے ’’یْ ‘‘ میں بدل گئی یعنی تُرْوِدُوْنَ  = تُرِوْدُوْنَ =  تُرِیْدُوْنَ۔گویا یہ اس مادہ سے بابِ اِفعال کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔

·             اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (جو قرآن کریم میں نہیں آیا)اور اس سے بابِ افعال کے فعل ’’اَرادَ یُرِیدُ ‘‘کی اصل صورت، اس کی تعلیل اور معنی (قصد کرنا، چاہنا، ارادہ کرنا)پر البقرہ: ۲۶ [ ۲ : ۱۹ : ۱ (۸)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ اس طرح اس صیغہ (تُرِیدُون)کا لفظی ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے۔ تاہم اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’کیا تم یہ چاہتے ہو ‘‘ سے کیا ہے۔ بعض نے ضمیر مخاطب کے بغیر ترجمہ بصورت ’’کیا یہ چاہتے ہو ‘‘ کیا ہے جس میں اردو محاورے کے مطابق ’’تم‘‘کا مفہوم موجود ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’کیا تم مسلمان بھی چاہتے ہو ‘‘ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے۔ اس میں ’’بھی ‘‘ کا استعمال آگے آنے والی عبارت ’’کَمَا سُئِلَ. . . . ‘‘کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

(۳)   ’’اَنْ‘‘(یہ کہ / کہ)کے استعمال اور معانی پر البقرہ : ۲۶ [۲ : ۱۹ : ۱ (۲)] میں پہلی دفعہ مفصل بات ہوئی تھی  ۔ اس کے بعد اب تک یہ لفظ نو دفعہ گزر چکا ہے۔ یہاں یہ مصدریہ ناصبہ ہے۔ اس کی وجہ سے ترجمے میں (یہ کہ)آتا ہے جسے اردو محاورے کے مطابق جملے میں جدا کر کے استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی ’’کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ‘‘ کی صورت میں۔

(۴)  ’’ تَسْـــَٔـلُوْا ‘‘ (’’کہ‘‘ : تم پوچھو، سوال کرو) اس کا مادہ’’س ء ل ‘‘اور وزن ’’تَفْعَلُوا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد’’ سَأَلَ یَسْأَلُ‘‘ (= مانگنا، پوچھنا، سوال کرنا)کے باب اور استعمالات کے متعلق البقرہ : ۶۱ [۲ : ۳۹ : ۱ (۱۳)] میں وضاحت کی جاچکی ہے۔ ’’تسألوا ‘‘اس فعل سے صیغہ مضارع منصوب (جمع حاضر)ہے، علامتِ نصب آخری نون کا گرنا ہے (دراصل تَسألونَ)تھا واو الجمع کے بعد الف لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح ’’اَنْ تسألوا‘‘کا مجموعی ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ’’ . . . .کہ سوال کرو‘‘اس کے مصدری ترجمہ پر ’’الاعراب‘‘ میں مزید بات ہوگی۔

(۵)  ’’رَسُولَکُمْ‘‘(تمہارے (اپنے)رسول کو)۔اس کو آخری حصہ (کُمْ)تو ضمیر مجرور ہے بمعنی ’’تمہارا‘‘۔ پہلا لفظ ’’رَسُول‘‘ اس سے پہلے البقرہ: ۸۷ [ ۲ : ۵۳ : ۱ (۱  و ۴)] میں گزرا ہے اور وہاں اس کی لغوی وضاحت بھی ہوئی تھی جس کا یہاں دوبارہ مختصراً ذکر کیاجاتا ہے۔ اس کا مادہ ’’ر س ل‘‘ اور وزن ’’فَعُوْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’بالوں کا لمبا ہونا اور اونٹ کا نرم رفتار ہونا‘‘ کے لئے آتا ہے، تاہم یہ فعل قرآن مجید میں استعمال نہیں ہوا، بلکہ قرآن کریم میں یہ مادہ بصورت فعل صرف بابِ افعال سے استعمال ہوا ہے۔ لفظ ’’رَسُول‘‘اس مادہ سے کسی متروک الاستعمال فعل کا مصدر بمعنی ’’رِسَالۃ‘‘ (پیغام) ہے اور مصدر بمعنی اسم الفاعل بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’پیغام والا / پیغمبر‘‘۔ اصل میں مصدر ہونے اور ’’فَعُول‘‘ کے وزن پر ہونے کی وجہ سے ہی یہ لفظ (رسول)مذکر مؤنث واحد جمع کے لئے یکساں رہتا ہے۔ مثلاً ھُوَ رسولٌ ۔ ھی رسولٌ۔ ھُم رسولٌ اور ھُنَّ رسولٌ کہہ سکتے ہیں اور اسی لئے قرآن کریم میں ایک جگہ (الشعراء: ۱۶) یہ لفظ مبتدأ (جمع)کے لئے خبر (بلفظ واحد)آیا ہے یعنی ’’ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ اردو میں اس کے لئے فارسی لفظ ’’پیغمبر‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے اور خود لفظ ’’رسول‘‘اپنے اصطلاحی معنی (اللہ کے پیغام لانے والا )کے ساتھ عام رائج ہے۔ اور اسی لئے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

۲ : ۶۵ : ۱ (۲)     [كَـمَا سُىِٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ]

(۱) ’’کَمَا‘‘ (جیسے / جیسا کہ / جس طرح) یہ کاف الجر اور ’’مَا‘‘ موصولہ کا مرکب ہے ’’کَ‘‘ بمعنی ’’مثل‘‘ بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس پر مفصل بحث البقرہ : ۱۳ [ ۲ : ۱۰ : ۱ (۱)] میں گزری ہے جہاں یہ لفظ دو دفعہ وارد ہوا ہے۔

(۲) ’’سُئِلَ‘‘(سوال کیا گیا / پوچھا گیا / سوال کیے جاچکے / ہوچکے) مادہ ’’س ء ل‘‘اور وزن ’’فُعِلَ ‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد کا صیغہ ماضی مجہول ہے۔ اس فعل مجرد پرابھی اوپر ’’ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا ‘‘میں اور اس سے پہلے البقرہ: ۶۱ [۲ : ۳۹ : ۱ (۱۳)] میں بات ہوچکی ہے کیونکہ ان لوگوں (قومِ موسیٰ علیہ السلام) نے کئی بار اور متعدد  ناروا سوال پوچھے تھے اور ماضی مجہول کا صیغہ دوسرے محذوف مفعول مطلق کی بناء پر واحد جمع دونوں معنی کا متحمل ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم میں اس مجہول فعل کے مختلف صیغے تین جگہ آئے ہیں۔ اس کے یہاں مصدری معنی پر آگے ’’الاعراب‘‘ میں مزید بات ہوگی۔

(۳)  ’’مُوْسٰی‘‘مشہور پیغمبر کا نام ہے۔ یہ لفظ پہلی دفعہ البقرہ : ۵۱ [۲ : ۳۳ : ۱ (۲)] میں آیا تھا اور وہاں اس کے اشتقاق اور معنی پر بھی بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک یہ لفظ نو دفعہ گزر چکا ہے۔

(۴)  ’’مِنْ قَبْلُ‘‘(پہلے بھی / اس سے پہلے) یہ ترکیب جاری سب سے پہلے البقرہ : ۲۵ [۲ : ۱۸ : (۷)] میں زیر بحث آچکی ہے اور پھر البقرہ: ۸۹ [۲ :۵۴ : ۱ (۳)] میں بھی گزر چکی ہے۔ ’’مِنْ‘‘الجارہ اور ظرف ’’قبل‘‘ کے الگ الگ استعمال اور معانی پر البقرہ : ۴ [ ۲ : ۳ : ۱ (۴)] میں بات ہوئی تھی۔

·          یوں اس عبارت (کما سُئِل موسیٰ من قبل)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’جیسا کہ سوال کیا گیا تھا موسیٰ کو پہلے بھی / اس سے پہلے ) اردو محاورے کے مطابق یہاں تمام مترجمین نے ’’کو‘‘ کی بجائے ’’ سے ‘‘ کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے سوال کو جمع کا مفہوم دے کر ترجمہ ’’سوال ہوچکے ہیں موسیٰ سے پہلے ‘‘ کی صورت میں کیا ہے جس میں یہ ابہام رہ جاتا ہے کہ شاید یہ سوالات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کسی کو پیش کئے گئے۔ اسی لئے بعض مترجمین نے ’’مِنْ قَبْل‘‘کا ترجمہ ’’ اس سے پہلے ‘‘ اور بعض نے ’’اس سے قبل موسیٰ علیہ السلام سے بھی‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ بعض نے ’’جس طرح کے ’’سوال‘‘ کے لئے ’’بیہودہ درخواستیں ‘‘ اور ’’ایسی ایسی بے جا درخواستیں ‘‘ (کی جاچکی ہیں)کی صورت میں ترجمہ کیا ہے جس سے پیغمبر (حضرت موسیٰ علیہ السلام کا احترام اور سوال کی نوعیت کی وضاحت (تفسیر)مقصود ہے۔

۲ : ۶۵ : ۱ (۳)    [وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ]

(۱)  ’’وَ‘‘ (اور)یہاں مستانفہ ہے جس کے متعلق [۲ : ۷ : ۱ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔ یہاں یہ ’’اور یہ بھی سوچ لو کہ ‘‘ کا مفہوم رکھتی ہے۔

(۲)  ’’مَنْ‘‘(جو کوئی بھی کہ / جو کوئی / جو شخص / جس شخص نے)۔ یہاں یہ (مَنْ) شرطیہ موصولہ ہے، دیکھئے البقرہ: ۸ [۲ : ۷ : ۱ (۴)]

(۳)  ’’یَتَبَدَّلْ‘‘(لیوے / لے لے /اختیار کرے  . . . .کو بدلے. . . .  کے بدلے / لے . . . .بدلے کے)اس کا مادہ ’’ب د ل‘‘اور وزن ’’یَتَفَعَّلْ‘‘ہے، یعنی یہ اس مادہ سے بابِ تفعّل کاصیغہ مضارع (واحد مذکر غائب) مجزوم ہے (جزم کی وجہ ’’اعراب‘‘ میں آئے گی)اور اس میں آخری ساکن لام (ل)کو آگے ملانے کے لئے کسرہ (ـــــِــــ)دی گئی ہے (بصورتِ ’’لِ‘‘)اس مادہ سے فعل مجرد (جوقرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا)کے معنی وغیرہ پر۔ نیز اس سے باب تفعیل کے استعمال پر البقرہ : ۵۹ [ ۲ : ۳۷ : ۱ : (۹)] میں اور اسی مادہ سے باب استفعال کے استعمال پر البقرہ : ۶۱ [۲ : ۳۹ : ۱ (۹)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ان (گزشتہ)دونوں مواقع پر ’’بَدَّلَ ‘‘ اور ’’اِسْتَبْدَلَ ‘‘کے مفعول ثانی پر باء (بِ)کے صلہ کے استعمال پر ـــــــ ضرورت ہو تو ایک دفعہ نظر ڈال لیجئے۔

·       زیر مطالعہ فعل ’’یَتَبَّدَل‘‘استعمال اور معنی کے لحاظ سے فعل ’’ اِسْتَبْدَلَ ‘‘کی مانند ہے، البتہ باب ’’تفعّل‘‘میں فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جبکہ ’’ اِسْتَبْدَلَ ‘‘صرف متعدی فعل ہے۔ یعنی ’’تَبَدَّلَ‘‘کے معنی ’’تَغَیَّرَ‘‘(بدل گیا، تبدیل ہوگیا)بھی ہوتے ہیں اور ’’تبدَّل الشَّی ءَ بِالشَّیْ ءِ‘‘ہی کے معنی ’’ اِسْتَبْدَلَ الشَّی ءَ بِالشَّیْ ءِ ‘‘(بدل کر (۱)کو لے لیا بدلے / کے بجائے (۲)کے)بھی ہوتے ہیں اور اس فعل کے (باب تفعّل سے)متعدی استعمال میں بھی (باب استفعال کی طرح)ایک مفعول (جو چیز بدلے میں لی جائے)تو مفعول بنفسہٖ منصوب ہوکر اوردوسرا مفعول (جو چیز بدلے میں دے دی جائے) ’’بِ‘‘کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس باب (تفعّل) سے فعل کے مختلف صیغے تین جگہ آئے ہیں۔ اور ہر جگہ یہ فعل متعدی اور ہر دو مفعول کے ذکر سمیت آیا ہے۔ جیسا کہ زیر مطالعہ آیت میں ہے۔

·       ’’الْکُفرَ‘‘(کفر کو /(لے لے)کفر)۔ یہ فعل مجرد ’’کفَر یکفُر ‘‘کا مصدر ہے جس کا وزن (لام تعریف نکال کر )’’فُعْلٌ‘‘ہے۔ اس فعل کے باب اور معنی وغیرہ پر سب سے پہلے البقرہ: ۶ [۲ : ۵ : ۱ (۱)]میں بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک اس فعل سے مختلف صیغے پندرہ جگہ گزر چکے ہیں۔ البتہ یہ مصدر (الکُفر)یہاں پہلی دفعہ آیا ہے۔ یہ لفظ (کُفر)اپنے پورے اصطلاحی معنی کے ساتھ اردو میں عام مستعمل ہے۔ اس لئے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ البتہ بعض نے اس کا ترجمہ بصورت ’’انکار‘‘کیا ہے۔

(۵) ’’ بِالْاِيْمَانِ ‘‘(بدلے / بجائے ایمان / یقین کے، ایمان کے بدلے میں)ابتدائی ’’بِ‘‘ تو وہ صلہ ہے جو فعل ’’تبدَّل‘‘(اور ’’استبدل‘‘)کے دوسرے مفعول (جو چیز بدلے میں دے دی جائے) پر لگتا ہے۔ ’’الاِیمَان‘‘ کا مادہ ’’ا م ن‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر ’’اِفعال‘‘)ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب افعال کا مصدر ہے۔ یہ دراصل ’’اِءْمَان‘‘تھا۔ مہموز کے قاعدۂ تخفیف (ءِ ءْ =ءِ یْ)کے مطابق دوسرا ساکن ہمزہ پہلے متحرک ہمزہ کی حرکت (ـــــِــــ)کے موافق حرفِ علت (ی)میں بدل گیا۔ یوں یہ لفظ ’’اِیْمَان‘‘ہوگیا۔

·       باب افعال کے اس فعل (آمَن یؤْمِنُ ایماناً)کے معنی اور استعمال پر سب سے پہلے البقرہ : ۳ [۲ : ۲ : ۱ : (۱)] میں مفصل بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک اس فعل سے مختلف صیغے قریباً بیس جگہ آچکے ہیں۔ البتہ مصدر (ایمان)یہاں پہلی دفعہ آیا ہے ۔ یہ لفظ (ایمان)بھی ایک اصطلاح کے طور پر اردو میں اتنا رائج اور متعارف ہے کہ اکثر مترجمین نے اس کے ترجمہ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

·       یوں اس زیر مطالعہ حصہ آیت (وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور جو کوئی بدل کر لے لے کفر بجائے ایمان کے ‘‘ پھر اسے جملے کی اردو ساخت (Syntax)کے مطابق ’’جو کوئی ایمان کے بدلے / بدل میں کفر لے لے / اختیار کرے ‘‘ کی صورت دی گئی ہے۔ اکثر حضرات نے اردو میں بھی اصل عربی فعل کی طرح مضارع کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ البتہ بعض نےاس کا ترجمہ (غالباً شرط کے مفہوم کی بناء پر)فعل مستقبل کے ساتھ صورت’’ لے لے گا / اختیار کرے گا ‘‘ کیا ہے۔ عربی میں مضارع ہی حال اور مستقبل دونوں کا کام دیتا ہے۔ البتہ جن حضرات نے اس کا ترجمہ فعل ماضی کے ساتھ بصورت ’’ایمان کے بدلے کفر لیا‘‘ کیا ہے تو یہ اردو محاورے کی وجہ سے ہے۔ بعض نے ایمان کا ترجمہ ’’ایمان لانے کی بجائے ‘‘ سے اور ’’کفر‘‘ کا ترجمہ ’’کفر کی باتیں کرنا‘‘ سے کیا ہے، جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔

۲ : ۶۵ : ۱ (۴)     [فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ]

(۱) ’’ فَقَدْ ‘‘(پس تحقیق / سو یقینا / تو بیشک) اس میں پہلی ’’فَ ‘‘ (جو زیادہ تر عاطفہ بمعنی ’’پھر / پس /‘‘  آتی ہے)یہاں جو اب شرط پر داخل ہونے کے باعث اس کا ترجمہ ’’تو ‘‘ سے ہوگا اور ’’قَدْ ‘‘حرف تحقیق ہے۔ اس کے معنی اور استعمال پر البقرہ: ۶۰ [۲ : ۳۸ : ۱ (۸)]میں بات ہوچکی ہے۔ قَدْ (بے شک)کبھی فَقَدْ (پس بیشک)اور کبھی ’’لَقَدْ‘‘کی صورت میں (یعنی لامِ تاکید + حرف تحقیق)بھی استعمال ہوتا ہے۔

(۲)   ’’ ضَلَّ ‘‘(بھٹک گیا / گمراہ ہوا / بہک گیا / دور جاپڑا)جس کا مادہ ’’ض ل ل‘‘اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ہے، کے معانی اور استعمال پر الفاتحہ : ۷ [۱ : ۶ : ۱ (۶)]میں بات ہوچکی ہے۔ اور اس کے بعد اس سے باب افعال کا صیغہ مضارع ’’یُضِلُّ‘‘(گمراہ کرتا ہے)البقرہ: ۲۶ میں اور ایک اسم (مصدر)’’ضَلالَۃ‘‘بھی البقرہ: ۱۶ میں گزرے ہیں۔

(۳)  ’’سَوَاءٌ‘‘(درمیان / برابر  /ٹھیک وسط / یکساں)کے مادہ (سوو)وزن اور معانی و استعمال پر البقرہ : ۶ [۲ : ۵ : ۱ (۲)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ یہاں یہ لفظ بصورت ’’ سَوَاءَ ‘‘یعنی منصوب اور خفیف ہوکر آیا ہے جس کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی۔

(۴)  ’’ السَّبِيْلِ ‘‘ (راستہ / راہ) کا مادہ ’’س ب ل‘‘ اور وزن ’’فَعِیلٌ‘‘ہے (عبارت میں لفظ معرف باللام اور مجرور آیا ہے) اس مادہ سے فعل مجرد بہت کم استعمال ہوتا ہے بلکہ اکثر کتب (معاجم)میں اس کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔البتہ مزید فیہ کے ایک دو ابواب سے مختلف معانی کے لئے فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے مشتق صرف یہی اسم (سَبِیل)مفرد، مرکب، معرفہ، نکرہ اور مختلف حالتوں (رفع، نصب، جر)میں قریباً ۱۶۶ جگہ وارد ہوا ہے اور اس کی جمع مکسر ’’سُبُلٌ‘‘بھی مختلف تراکیب کی صورت میں کم و بیش دس جگہ آئی ہے۔

لفظ ’’سَبِیل‘‘کے بنیادی معنی ’’راستہ‘‘ کے ہی ہیں اور یہ لفظ مذکر مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے بلکہ خود قرآن کریم میں بھی یہ دونوں طرح آیا ہے (مثلاً مذکر استعمال کے لئے دیکھئے ’’الاعراف: ۱۴۶‘‘اور مؤنث استعمال کے لئے دیکھئے ’’یوسف: ۱۰۸ ‘‘ اتفاق کی بات ہے کہ اردو میں مذکر ترجمہ ’’راستہ‘‘ اور مؤنث ترجمہ ’’راہ‘‘ بالکل مترادف ہیں۔قرآن کریم میں یہ لفظ ’’سَبِیل‘‘بعض دوسرے معانی مثلاً ’’ذمہ داری، گرفت ، الزام ، مواخذہ ، باز پرس ‘‘ کے لئے (خصوصاً ’’علٰی‘‘کے ساتھ) اور بمعنی ’’سنگت ، قریبی تعلق ، بھی (’’مَعَ‘‘کے ساتھ)استعمال ہوا ہے۔ تاہم غور سے دیکھا جائے تو ان سب معانی کے پیچھے ’’راستہ‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں اس لفظ کے بعض مخصوص اور بامحاورہ استعمال کی صورتیں بھی آئی ہیں مثلاً ’’ابن السَّبیل‘‘ اور ’’سبیل اللہ‘‘جن پر حسب موقع بات ہوگی۔انشائ اللہ۔

اور ان ہی بامحاورہ صورتوں میں سے زیر مطالعہ ترکیب ’’سواءَ السَّبِیل‘‘ہے جس کا لفظی ترجمہ تو ہے ’’راستے کا ٹھیک درمیان‘‘ یا ’’درمیانی حصہ‘‘جس میں راستہ سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہونے کامفہوم ہے۔ اس لئے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’سیدھا راستہ ‘‘ ’’سیدھی راہ‘‘سے اور بعض نے ’’راہ راست‘‘اور ’’ٹھیک راستہ‘‘سے کیا ہے۔

·                   یوں اس حصہ آیت ’’ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ‘‘کالفظی ترجمہ بنتا ہے ’’تو بیشک وہ بھٹک گیا راستے کی ٹھیک درمیانی جگہ سے ‘‘ جسے بعض نے جملے کی عربی ساخت کے مطابق فعل کا ترجمہ پہلے کرتے ہوئے بصورت ’’ پس تحقیق / تو / وہ گمراہ ہوا / بھولا / بہکا / بھٹک گیا / سیدھی راہ / سیدھے راستے / سے ‘‘ کیا ہے۔ جبکہ بعض نے اجزائے جملہ کی اردو ترتیب کے مطابق فعل کا ترجمہ بعد میں کیا ہے۔یعنی ’’تو / سو وہ یقیناً / بلاشک راہ راست / سیدھی راہ / سیدھے راستے سے دور جاپڑا / بھٹک گیا / بہک گیا ‘‘ کی صورت میں۔

 

۲: ۶۵ : ۲      الا عراب

آسانی کے لئے یہاں بھی ہم زیر مطالعہ آیت کو (بحث ’’اللغۃ‘‘ کی طرح)چار جملوں (حصوں) میں تقسیم کرکے ’’اعراب‘‘ کی بات کریں گے۔

(۱)   اَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ  . . . .

[اَمْ] یہاں منقطعہ ہے کیونکہ عبارت میں اس سے پہلے کوئی (ءَ)ھمزۃ التسویہ (دیکھئے [۲ : ۵ : ۱ (۳)])نہیں آیا۔ ایسا ’’اَمْ‘‘عموماً ’’بَلْ أَ‘‘. . . . (بلکہ کیا / بلکہ شاید)کے معنی دیتا ہے۔ [تُرِيْدُوْنَ] فعل مضارع معروف صیغہ جمع حاضر مذکر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’اَنْتُم‘‘مستتر ہے۔ [اَنْ]ناصبہ مصدریہ ہے [دیکھئے ۲ : ۱۹ : ۱ (۲)] اور [تسئلوا]فعل مضارع منصوب (بِاَن)ہے، علامت نصب آخری نون کا گرنا ہے۔ اس صیغہ میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘شامل ہے۔ اور [رَسُوْلَكُمْ] میں ’’رَسول‘‘ مفعول  (فعل ’’ تسئلوا‘‘  کا) لہذا منصوب ہے علامتِ نصب ’’لَ‘‘ کی فتحہ ہے کیونکہ یہاں لفظ ’’رَسول‘‘  آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘مضاف الیہ ہے۔ یعنی دراصل تو پورا مرکب اضافی (رَسُولَکم)مفعول ہے۔ اور چونکہ ’’اَن‘‘کے بعد والے فعل مضارع سمیت مصدر کے معنی میں سمجھا جاسکتا ہے (جسے مصدر مؤول کہتے ہیں)لہٰذا یہاں ’’ان تسئلوا‘‘کی بجائے لفظ ’’سوال‘‘ لگ سکتا ہے (بلحاظ مفہوم) مقدر عبارت ’’اَتریدون سُوالَ رسولِکم‘‘ہوگی ۔ گویا اس عبارت کا ترجمہ ’’چاہتے ہو کہ سوال کرو‘‘ کی بجائے ’’چاہتے ہو سوال کرنا / پوچھنا اپنے رسول سے ‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم اردو کے تمام مترجمین نے اس (مصدری)ترجمہ کو نظر انداز کیا ہے ۔ سب نے ’’کہ سوال کرو‘‘ سے ہی ترجمہ کیا ہے۔ مصدری ترجمے کی  کی صورت میں ’’اَن‘‘کا ترجمہ (کہ)کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

(۳)  كَـمَا سُىِٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ

(كَـمَا)میں کاف الجر (کَ)تشبیہہ کے لئے ہے بمعنی ’’مانند‘‘ اور ’’مَا‘‘موصولہ (بمعنی ’’ جو کہ ‘‘ہے )دیکھئے [۲ : ۱ : ۱ (۱)] [سُئل] فعل ماضی مجہول برائے واحد مذکر غائب ہے جس کا فاعل مذکور نہیں (مراد قوم موسٰیؑ ہے) اس کے بعد [مُوسیٰ] نائب فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے (جس میں ظاہراً کوئی علامت رفع نہیں ہے) اور چونکہ ایسے موقع پر ’’ما‘‘ بھی مصدریہ استعمال ہوسکتی ہے یعنی ’’مَا‘‘اور اس کے بعد والا فعل مل کر اس فعل کا مصدر (بلحاظ معنی) سمجھا جاسکتا ہے۔ گویا یہاں ’’مَا سُئِل‘‘کو مصدر (موول)’’سوال‘‘ سمجھیں تو عبارت ’’کمَا سُئِل مُوسیٰ ‘‘کو ’’کَسُوالِ موسیٰ‘‘سمجھا جاسکتا ہے۔ خیال رہے مصدر فعل معروف اور مجہول دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے۔ یعنی ’’سوال‘‘کا مطلب ’’ پوچھنا / سوال کرنا ‘‘ بھی ہو سکتا ہے اور ’’پوچھا جانا / سوال کیا جانا ‘‘ بھی ۔ اس لئے ابھی اوپر ’’ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا ‘‘(فعل معروف) کا مصدر بھی ’’سوال‘‘ ہی بنا تھا اور یہاں ’’ما سُئِل‘‘ کی مصدری صورت بھی وہی ’’سوال‘‘ ہی بنتی ہے۔ گویا سابقہ اور موجودہ عبارت کے مصدر موول ہوسکنے والے حصہ عبارت    ’’ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَـمَا سُىِٕلَ مُوْسٰى ‘‘کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی ظاہر کرسکتے ہیں (سمجھانے کے لئے ) ’’تُرِیدُون سُؤالَ رَسولِکُم کسُؤالِ (قومِ موسیٰ نبیَّھم)مُوسیٰ‘‘ . . . .اردوکے صرف ایک مترجم نے ’’کماسئل‘‘ کا مصدری ترجمہ ’’جیسا سوال‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ [مِن قبل] میں ’’مِن‘‘جارہ ہے مگر مجرور ’’قبل‘‘ مبنی برضمہ (ـــــُـــــ) ہے، کیونکہ اس کا مضاف الیہ محذوف ہے۔ گویا دراصل ’’مِن قبلِ سُئوالِکم‘‘(تمہارے پوچھنے سے پہلے) تھا۔ اور یہاں اس ’’مِن قبلُ‘‘کا ذکر صرف تاکید کے لئے ہے ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے جو سوال کئے گئے وہ پہلے (قبل)کی بات ہی تو ہے۔ اسی لئے ’’کَمَا‘‘اور ’’مِن قبل‘‘کا ترجمہ ’’ویسے ہی سوال پہلے بھی‘‘کیا گیا ہے۔

(۳)   وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ. . . .

(وَ)یہاں مستانفہ ہے [مَنْ]موصولہ شرطیہ ہے جس کی وجہ سے اگلا فعل مضارع (صیغہ)واحد مذکر غائب [يَتَـبَدَّلِ] مجزوم ہے، علامت جزم ’’ل‘‘ کا سکون ہے (جسے صرف آگے ملانے کے لئے کسرہ (ـــــِــــ) دی گئی ہے) [الکُفرَ]اس فعل مضارع کا مفعول (لہٰذا)منصوب ہے علامت نصب ’’ر‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)ہے (معرف باللّام ہونے کی وجہ سے)[بالِایمانِ] کی ابتدائی ’’بِ‘‘جارہ صلہ فعل ہے اور یہاں یہ ’’باء‘‘تعویض (کے بدلے)کے لئے ہے (’’بِ‘‘ کے استعمال کے لئے چاہیں تو بحث ’’استعاذہ‘‘ دیکھ لیں)اور. . . . ’’الایمانِ‘‘ مجرور بالجر ہے۔یہاں تک اس جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ (بیانِ شرط)مکمل ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ (جوابِ شرط)آگے آرہا ہے۔

(۴)  فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ

[فَ]عاطفہ یہاں جوابِ شرط کے رابطہ کے لئے (بمعنی ’’تو / سو‘‘)ہے اور [قَدْ]حرف تحقیق ہے۔ [ضَلَّ]فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر واحد مذکر غائب ’’ ھُوَ ‘‘بطور فاعل شامل ہے [سَواءَ]مفعول بہٖ منصوب ہے۔ علامت نصب آخری ’’ءَ‘‘کی فتحہ (ـــــَــــ)ہے۔ کیونکہ یہ آگے مضاف الیہ ہونے کے باعث خفیف بھی ہے ۔ [السَّبِیلِ]مضاف الیہ مجرور ہے، علامت جر ’’لِ‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ)ہے۔ عبارت کا یہ حصہ جواب شرط ہے جسے نحوی لوگ محلاً مجزوم کہتے ہیں۔ اگرچہ یہاں جواب شرط میں فعل مجزوم نہیں آیا۔

 

۲ : ۶۵ : ۳      الرسم

زیرمطالعہ آیت کے تمام کلمات کا رسم عثمانی اور رسم املائی یکساں ہے ماسوائے دو کلمات یعنی ’’ تَسْـــَٔـلُوْا ‘‘ اور  ’’ بِالْاِيْمَانِ ‘‘ کے تفصیل یوں ہے:

·       ’’ تَسْـــَٔـلُوْا ‘‘(جس کا عام رسم املائی تو ’’ تَسْأَلُوا‘‘ہے، کیونکہ عام قاعدۂ املایہ ہے کہ ہمزۂ مفتوحہ اگر کسی لفظ کے درمیان میں ہو (یعنی ابتداء یا آخر میں نہ ہو)تو اسے الف (۱)پر لکھا جاتا ہے، تاہم عام املاء میں اسے کبھی بصورت ’’ تَسْـــَٔـلُوْا ‘‘ بھی لکھتے ہیں جو رسم املائی اور رسم عثمانی دونوں کے لحاظ سے غلط ہے۔ مگر رسم عثمانی میں یہ لفظ بصورتِ ’’ تَسْـــَٔـلُوْا ‘‘لکھا جاتا ہے۔یعنی اس کی ’’کرسی‘‘ والا الف (۱)حذف کر دیا جاتا ہے مگر ’’س‘‘ (ساکنہ) اور ’’ل‘‘ (متحرکہ)کے درمیان ہمزہ (ء)کی کرسی کے لئے کوئی نبرہ (دندانہ)بھی نہیں بنایا جاتا۔ تھوڑی سی لمبی خالی جگہ (س اور ل کے درمیان)چھوڑی جاتی ہے جس پر ہمزۂ قطع بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔ مزید وضاحت (برائے کتابت ہمزہ)کے لئے دیکھئے [۲ : ۱۱ : ۳] میں کلمہ ’’مُستھزِءُ ون‘‘کا رسم اور [۲ : ۲۲ : ۳] میں کلمہ ’’اَنبِئُونی‘‘کی بحث رسم۔ بعض ممالک (مثلاً ایران)میں اسے جو بصورت ’’تسئلوا‘‘ (ہمزہ کو ’’ی‘‘کے دندانہ /نبرہ پر)لکھتے ہیں تو یہ رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے۔ بخلاف کلمہ ’’سُئِلَ‘‘کے (جو آگے آرہا ہے)کہ اس کے لئے رسم املائی اور رسم عثمانی دونوں میں نبرہ (یعنی دندانہ برائے ’’ی‘‘)ڈالا جاتا ہے۔ یعنی ’’س‘‘ اور ’’ل‘‘کے درمیان بصورت ’’سل‘‘اور پھر اس دندانہ کے اوپر یا نیچے ہمزہ (ء)اور اس کی حرکت کو بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے مختلف طریقے ہیں جیسا کہ ضبط میں آئے گا۔

·       دوسرے کلمہ ’’اِیمان‘‘(بالا یمان میں )کے رسم میں اختلاف ہے۔ الدانی نے اس میں الف کے حذف (جو ’’م‘‘ اور ’’ن‘‘ کے درمیان ہے)کی تصریح نہیں کی جو اثبات کو مستلزم ہے۔ اس لئے افریقہ میں سے لیبیا اور کئی مشرقی ممالک (برصغیر میں ترکی ایران وغیرہ کے مصاحف میں اسے باثباتِ الف بصورت ’’بِالِایمَان‘‘لکھا جاتا ہے۔جبکہ ابوداؤد کی طرف منسوب قول کے مطابق بیشتر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الف (بین المیم والنون) بصورت ’’بِالایمٰن‘‘ لکھا جاتا ہے۔

 

۲ : ۶۵ : ۴     الضبط

ذیل میں ہم زیر مطالعہ قطعہ کے کلمات کے لئے قرآنی ضبط کے مختلف طریقے نمونوں کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔ جو کلمات پہلے گزر چکے ہیں ان کا بحث ضبط والا گزشتہ حوالہ لکھنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ بعض کلمات کے ضمن میں کچھ مزید وضاحت (صرف نمونہ کے علاوہ) بھی کی گئی ہے۔