سورۃ البقرہ آیت نمبر  ۱۰۹ اور ۱۱۰

۲ : ۶۶      وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۚۖ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ۝۰ۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ۭ  اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(۱۰۹) وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ ۭ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ(۱۱۰)

۲ : ۶۶ : ۱      اللغۃ

۲ : ۶۶ : ۱ (۱) [وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ]

(۱)  ’’ وَدَّ ‘‘کا مادہ ’’ و د د ‘‘اور وزن (اصلی)’’فعل‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجردباب سمع اور فتح دونوں سے آتا ہے۔ یعنی. . . . وَدَّ  یَوَدُّ وَدًّا  وَ مَوَدَّ ۃٌ  ماضی مضارع دراصل وَدَدَ یَوْدَدُ تھے، پھر مضاعف کے قاعدے کے مطابق صیغہ ماضی میں مثل اول متحرک کو ساکن کرکے مثل ثانی میں مدغم کر دیا جاتا ہے یعنی وَدَدَ  =وَ دْدَ=  وَ دَّ . . . .اورصیغہ مضارع میں متحرک مثل اول کی حرکت ماقبل ساکن حرف علت ’’و ‘‘ کو منتقل ہوجاتی ہے اور اب ساکن مثل اول مثل ثانی میں مدغم ہوجاتا ہے یعنی یَوْدَدُ= یَوَدْدُ = یَوَدُّ ۔اس فعل میں بنیادی معنی ’’ . . . .سے محبت کرنا،  . . . .کو دل سے چاہنا،  . . . .کو دوست رکھنا‘‘ ہیں اور پھر اس میں ’’ . . . .کی تمنا کرنا ۔ آرزو کرنا اور   . . . .کی خواہش کرنا ‘‘  کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔

اس فعل کا مفعول بنفسہ بھی آتا ہے۔ لیکن زیادہ تر اس کا مفعول حرف تمنا ’’لَوْ‘‘(کاش کہ)یا ’’اَنْ‘‘(کہ) سے شروع ہونے والے جملے کی صورت میں آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے ۱۶ جگہ آئے ہیں جن میں سے صرف ایک جگہ (آل عمران: ۱۱۸) یہ مفعول بنفسہ کے ساتھ آیا ہے۔ تین جگہ ’’اَنْ‘‘کے ساتھ باقی سب جگہ ’’لَوْ‘‘کے ساتھ آیا ہے اور بعض دفعہ دونوں معنی کو اردو میں صرف ’’چاہنا‘‘یا ’’دل سے چاہنا‘‘ کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔ اس فعل مجرد کے متعدد مصادر آئے ہیں، ان میں سے دو (وَدٌّ (بضم الواو)اور ’’ مَوَدَّ ۃٌ ‘‘قرآن کریم میں آئے ہیں۔ نیز مزید فیہ کے باب مفاعلہ سے ایک صیغہ فعل کے علاوہ اس مادہ سے متعدد ماخوذ و مشتق اسم (وَدُوْد، وَ دٌّ اور مَوَدَّ ۃٌ وغیرہ)بھی قرآن میں وارد ہوئے ہیں۔ نیز دیکھئے البقرہ: ۹۶ [۲ : ۵۹ : ۱ (۳)] زیر مطالعہ فعل ’’ وَ دَّ‘‘صیغہ ماضی ہے مگر بیان واقعہ اور سیاق چاہتے / یہ چاہتے ہیں‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ ایک آدھ نے ’’چاہا‘‘(بصورت ماضی) بھی ترجمہ (لفظی)کیا ہے اور بعض نے ’’ وَ دٌّ ‘‘ کا فاعل ’’اہل کتاب‘‘(جن کا ذکر آگے آرہا ہے) کی بجائے ان کے ’’دل‘‘کو ہی بتا کر بامحاورہ بصورت’’ . . . .کا دل چاہتا ہے ‘‘سے کیا ہے، جس میں ’’تمنا‘‘ والا مفہوم موجود ہے۔

(۲)  ’’ كَثِيْرٌ ‘‘ (بہت سے / بہت / بہتیرے) ۔ جو ’’ک ث ر‘‘سے فعیل کے وزن پر اسم مبالغہ ہے اردو. . . . میں مستعمل ہے۔ اس کے متعلق مفصل بحث البقرہ: ۲۶ [۲ : ۱۹ : ۱ (۱۰)]میں ہوئی تھی۔

(۳) ’’مِنْ‘‘ (میں سے)بہت دفعہ گزرا ہے۔ نیز دیکھئے البقرہ:۳ [۲ : ۲ : ۱ (۵)]

(۴) ’’ اَھْلِ الْكِتٰبِ ‘‘ (کتاب والے / کتابی / اہل کتاب) اس ترکیب اضافی میں ’’کتاب‘‘تو معروف لفظ ہے۔ دیکھئے البقرہ: ۲ [۲ : ۱ : ۱ (۲)]اور ’’أھْل‘‘. . . . جس کا مادہ ’’اھل‘‘اور وزن فَعْلٌ ہے فعل مجرد ’’اَھَلَ یَأ ھُلُ‘‘(نصر سے) کے معنی ’’ آباد ہونا‘‘ ہیں اور جو زیادہ تر مجہول استعمال ہوتا ہے، مثلاً ’’اُھِلَ الْمَکَانْ ‘‘ (جگہ آباد کی گئی / ہوگئی۔اس میں رہنے والے آگئے) . . . .تاہم اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغۂ فعل قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ بلکہ صرف یہی لفظ (اَھْل)مرکب صورتوں میں ۱۲۱ مقامات پر آیا ہے اور اس کی  جمع سالم ’’اَھْلُونَ‘‘مختلف حالتوں (رفع، نصب، جر)میں مضاف ہو کر بصورت ’’اَھْلوُ . . . ./     اَھلِی  . . . . ‘‘چھ دفعہ آئی ہے، بلکہ یہ لفظ ’’اَھْل ‘‘واحد ہو یا جمع ہمیشہ مضاف ہوکر ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع مکسر ’’اَھَالٍ‘‘(بروزن لَیالٍ = راتیں)بھی آتی ہے۔ تاہم یہ جمع (مکسر)قرآن کریم میں نہیں آئی اور یہی جمع اردو میں بصورت ’’اَھالِی‘‘ استعمال ہوتی ہے، جو دراصل عربی ہی ہے۔

·       لفظ ’’اَھل‘‘  کا اردو ترجمہ موقع استعمال کی مناسبت سے ’’گھر والے۔ افراد کنبہ۔ قریبی رشتہ دار۔ بیوی بچے۔ پیروکار۔ حقدار ۔ مالک۔ مستحق۔ سزاوار۔ باشندے ‘‘ کی صورت میں اور بعض دفعہ ’’مضاف، اصحاب اور اُولُو ‘‘کی طرح) ’’والے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کرتے ہیں مثلاً اھل القرٰی (بستیوں والے)،اھل البَیتِ (گھر والے)اھل النّارِ (دوزخ والے) وغیرہ اور جمع کے مفہوم کے باوجود یہ لفظ عموماً بصورتِ واحد ہی استعمال ہوتا ہے۔ صرف ایک جگہ (المدثر: ۵۶) یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے ’’سزاوار‘‘، لائق‘‘ اور ’’والا‘‘ (واحد)کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ یعنی ’’اَھْلُ التَّقْوٰی وَ اَھْلُ الْمَغْفِرَۃِ‘‘(ڈرنے کے لائق اور بخشش والا)۔

’’اھل الکتاب‘‘ کا ترجمہ تو ’’کتاب والے‘‘ ہے۔ عموماً اس سے مراد مسیحی اور یہودی لئے جاتے ہیں۔ اور زیر مطالعہ آیت میں بھی یہ ترکیب اسی مفہوم کے ساتھ آئی ہے . . . .اس حصہ آیت (وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتابِ)کا ترجمہ لفظی بنتا ہے ’’ دل سے چاہا بہتیروں نے کتاب والوں میں سے ‘‘ جس کی ایک بامحاورہ صورت ‘‘ دل چاہتا ہے بہت سے اہل کتاب / کتاب والوں / کتابیوں کا‘‘ بھی ہے، تاہم اکثر مترجمین نے ’’اہل کتاب‘‘ کی اردو میں رائج (فارسی)ترکیب کو ہی استعمال کیا ہے اور اردو محاورے کے مطابق فعل (وَدَّ)کا ترجمہ بھی آخر پر لائے ہیں، یعنی بہت سے اہل کتاب / اکثر اہل کتاب / اہل کتاب سے بہت سے لوگ / اہل کتاب میں سے بہتیرے چاہتے ہیں / دل سے تو یہ چاہتے ہیں / دل ہی سے چاہتے ہیں‘‘کی صورت میں۔

۲ : ۶۶ : ۱ (۲)     [لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا]

(۱)  ’’لَوْ‘‘(کاش /کہ / کسی طرح)۔ گرائمر والے اسے حرف تقدیر بھی کہتے ہیں کیونکہ عموماً اس کے ذریعے کوئی اندازہ بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ ’’تمنا‘‘کے مفہوم میں آیا ہے۔ مزیددیکھئے [۲ : ۱۵ : (۷)]

(۲)  ’’ يَرُدُّوْنَكُمْ ‘‘(پھیر دیں / پھیر کر / پھر سے بنادیں / بنالیں وہ تم کو . . . .)اس میں آخری ضمیر منصوب (کُمْ)بمعنی ’’ تم کو / تمہیں ‘‘ ہے اور اس سے پہلے صیغۂ فعل (مضارع)’’یرُدُّونَ‘‘کا مادہ ’’ردد‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْعُلُونَ‘‘ہے، جو دراصل ’’یَرْدُدُوْنَ‘‘تھا، پھر مثل اول کی حرکت اس سے ماقبل ساکن (ر)کو دے کر مثلین کو مدغم کر دیا گیا، یعنی یَرْدُدُوْنَ۔ یَرُدْدُوْنَ۔ یَرُدُّوْنَ۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’رَدَّ یَرُدُّ‘‘(دراصل رَدَدَ۔ یَرْ دُ دُ)رَدًّ  اَوْ  مَرَدًّا (باب نصر سے )کے بنیادی معنی ’’پھیردینا، واپس لانا ‘‘ ہیں۔ اس فعل کے استعمالات اور معانی پر البقرہ: ۸۵ [۲ : ۵۲ : ۱ (۸)] میں بات ہوئی تھی۔ یہاں اس کے جو مختلف لفظی یا بامحاورہ تراجم کئے گئے ہیں وہ اوپر لکھ دئیے گئے ہیں۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔

(۳) ’’مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ‘‘ (تمہارے ایمان / لائے / لاچکنے / لے آئے / مسلمان ہوئے / ہونے / (کے) پیچھے / کے بعد)۔ اس پوری ترکیب جاری پر تو آگے ’’الاعراب‘‘میں مزید بات ہوگی۔ مرکب کے ابتدائی حصہ (مِنْ بَعْدِ)کے استعمال اور معنی پر البقرہ : ۵۱ [۲ : ۳۳ : ۱ (۷)]میں بحث ہوچکی ہے۔ اور ’’ . . . . اِیمَانِکُم‘‘کی آخری ضمیر مجرور (کُمْ)تو بمعنی ’’ تمہارا / تمہارے‘‘ ہے۔ اور لفظ ’’اِیمَان‘‘(بمعنی ’’ایمان لے آنا‘‘) پر ( جو بابِ افعال کا مصدر ہے ) البقرہ: ۳ [۲ : ۲ : ۱(۱)] میں بات ہو چکی ہے ۔ ’’ایمان لے آنا‘‘ کی بجائے ’’مسلمان ہونا‘‘ کا ترجمہ بلحاظ مفہوم (زیر مطالعہ عبارت کی حد تک تو) درست ہے۔ تاہم ’’ایمان‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کے باہمی تعلق اور دقیق فرق کے بارے میں ذہن میں واضح تصور ہونا چاہیے جو قرآن کریم کی مختلف آیات میں موجودہے اور محتاج مطالعہ ہے۔

(۴) ’’ كُفَّارًا ‘‘ (کافر)اس لفظ کی (یہاں)نصب پر تو آگے ’’الاعراب‘‘میں بات ہوگی۔ لغوی اعتبار سے یہ لفظ (کُفَّار) اسم الفاعل (کَافِر‘‘کی ایک جمع مکسر ہے جو قرآن کریم میں کم و بیش بیس جگہ آئی ہے (ایک اور جمع مکسر ’’الکَفَرَۃ‘‘بھی ایک جگہ آئی ہے)ورنہ زیادہ تر تو قرآن کریم میں اس لفظ کی جمع مذکر سالم ’’الکَافِرُون۔ الکَافِرِین)ہی استعمال ہوئی ہے۔ اس لفظ کے مادہ (ک ف ر)سے فعل مجرد کے باب معنی وغیرہ پر پہلی دفعہ البقرہ: ۶ [۲ : ۵ : ۱ (۱)]میں مفصل بات ہوئی تھی۔ یہ الفاظ (کَافِر۔ کُفَّار)اردو میں اتنے متعارف ہیں کہ ترجمہ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ اردو میں لفظ ’’کَافِر‘‘بطور جمع بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’کافر بھاگ گئے‘‘  میں۔ اسی لئے اکثر مترجمین نے ’’کُفَّار‘‘کا ترجمہ ’’کافر‘‘ ہی کر دیا ہے۔ ایک آدھ نے سابقہ عبارت (پھیر دیں)کی مناسبت سے اس لفظ کا ترجمہ ’’کفر کی طرف‘‘ کیا ہے جو بلحاظ مفہوم ہی درست قرار دیا جاسکتا ہے۔

·       الفاظ اور تراکیب کے الگ الگ لفظی اور بامحاورہ ترجموں کی مدد سے (جو اوپر دیئے گئے ہیں)اب آپ مندرجہ بالا دونوں حصہ عبارت (وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا)کا ترجمہ مختلف انداز (مگر یکساں مفہوم)میں کرسکتے ہیں۔ تاہم ابھی یہ عبارت آگے چلتی ہے اور پورا ترجمہ اختتام آیت کے بعد ہی ممکن ہوگا۔

۲ : ۶۶ : ۱ (۳)     [. . . .حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ. . . .]

(۱)  ’’ حَسَدًا ‘‘(حسد / جلن / سے / کی وجہ سے / رکھ کر / کے سبب / کی راہ سے) اس لفظ کی (یہاں)نصب پر تو ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔ اس کا مادہ (جیسا کہ ظاہرہے)’’ح س د‘‘اور وزن ’’فَعَلٌ‘‘ہے جو یہاں منصوب آیا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد حَسَدَ . . . .یَحْسُدُ حَسَدًا (نصر سے )آتا ہے اور اس کا عام اردو ترجمہ ’’ . . . .سے حسد کرنا‘‘کرسکتے ہیں۔کیونکہ لفظ ’’حَسَد‘‘ (جو اس فعل مجرد کا مصدر ہے)اردو میں رائج اور مستعمل ہے۔ عربی میں اس لفظ (اور اس کے فعل)کا مطلب ہے ’’کسی مستحق شخص کی کسی خدا داد نعمت کو خود چھین لینے یا کم از کم اس شخص سے چھن جانے کی خواہش اور تمنا رکھنا‘‘۔ اور اس مقصد کے لئے ہر طرح کی تدبیر کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ جس شخص سے حسد کیا جائے اور جس چیز (نعمت)کی وجہ سے حسد کیا جائے وہ دونوں مفعول بنفسہ (منصوب)بھی آتے ہیں اور دوسرے مفعول (وجہ حسد چیز)پر ’’عَلٰی‘‘بھی لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’حَسَدَہُ الشَّئَ  وَ حَسَدَہُ عَلیَ الشَّئِ‘‘(اس نے اس سے چیز کا / کی وجہ سے / حسد کیا)۔ بعض دفعہ دوسرا مفعول (وجہ حسد)محذوف یا غیر مذکور ہوتا ہے اور بعض دفعہ دونوں مفعول محذوف ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل سے تین صیغے (تین جگہ)آئے ہیں اور تینوں طرح استعمال ہوتے ہیں [یعنی دونوں مفعول کے حذف کے ساتھ، صرف دوسرے مفعول کے حذف کے ساتھ اور دوسرے مفعول پر ’’عَلٰی‘‘کے ساتھ]بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’جلن‘‘ یا ’’دلی جلن‘‘ کی صورت میں کیا ہے، جو حسد کی خاصیت یا حاسد کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔

(۲)  ’’ مِّنْ عِنْدِ. . . . ‘‘(کے پاس سے / . . . .کی ہی جانب سے / . . . .کی طرف سے) ’’عِنْدَ‘‘(ظرف منصوب)کی اصل، اس کے معنی و استعمال اور اس پر ’’مِنْ‘‘(الجارۃ)کے استعمال پر البقرہ: ۵۴ [۲ : ۳۴ : ۱ (۸)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

(۳)  ’’ . . . . اَنْفُسِہِمْ. . . . ‘‘(. . . .ان کی جانوں کے / . . . .اپنے اندر کے / . . . .ان کے دلوں ہی . . . ./اپنے ہی دلی . . . .)عربی کے کسی بھی مرکب جاری یا اضافی کی طرح اس پوری ترکیب (مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ)کے اردو ترجمہ میں پہلے ’’ اَنْفُسِہِمْ ‘‘اور پھر  ’’ مِنْ عِنْدِ . . . . ‘‘کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے اسی لئے اس کا بالکل لفظی ترجمہ ’’جانوں اپنی کے پاس سے ‘‘ کیا گیا ہے جسے بامحاورہو کرنے کے لئے ’’اپنے اندر سے / خود ان کے دلوں ہی سے / ان کے نفسوں میں سے / اپنے ہی دلوں سے ‘‘ کی صورت دی گئی ہے۔

’’انفسھم‘‘میں آخری مجرور ضمیر ’’ھم‘‘ بمعنی ’’ان کے ‘‘ ہے اور ’’اَنْفُس‘‘بمعنی ’’جانیں‘‘جمع مکسر ہے، جس کا واحد ’’نفسٌ‘‘ہے۔ اس مفرد کلمہ (نفس)اور خود زیر مطالعہ ترکیب (انفسِھم)سے ملتی جلتی ترکیب ’’انفسَھم‘‘ [یعنی صرف ’’انفس‘‘کی اعرابی حالت کے فرق کے ساتھ ] پر البقرہ  ۹[۲ : ۸ : ۱ (۴)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

·       اس طرح اس پورے حصہ عبارت (حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’حسد سے پاس جانوں اپنی کے ‘‘ یا ’’حسد کر کر (کرتے ہوئے )اپنے اندر سے ‘‘. . . .جسے بامحاورہو کرتے ہوئے ’’بسبب اپنے دلی حسد کے / حسد کی وجہ سے جو خود ان کے دلوں ہی سے ہے / اپنے دلی حسد کی وجہ سے / اپنے ہی دلوں کی جلن سے / اپنے دلوں میں حسد رکھ کر / اپنے دل کی جلن سے / حسد کی راہ سے جو ان نفسوں میں (ہے)‘‘ کی صورت دی گئی ہے۔ ان تمام تراجم میں ’’انفس‘‘کا ترجمہ ’’دل / دلوں‘‘ سے کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اس میں ایک اندرونی پوشیدہ کیفیت کا ذکر ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں ’’نفوس / انفس (جانوں)صُدور (سینوں) قلوب (دلوں)‘‘کئی مقامات پر قریباً ہم معنی (یا ایک جیسی نفسیاتی کیفیت کے لئے )استعمال ہوئے ہیں۔ بعض تراجم میں لفظ ’’جو‘‘لانے کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘میں بیان ہوگی۔

۲ : ۶۶ : ۱ (۴)     [. . . . مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ]

(۱)   ’’ مِّنْۢ بَعْدِ مَا ‘‘(پیچھے اس کے جو / بعد اس کے کہ / باوجودیکہ/ حالانکہ) ’’ مِّنْۢ بَعْدِ. . . . ‘‘تو ابھی اوپر گزرا ہے ۔ یہاں ’’ مِّنْۢ بَعْدِ. . . . ‘‘کا مضاف الیہ وہ جملہ ہے جو ’’مَا‘‘سے شروع (ہوکر . . . .الحق)پر ختم ہوتا ہے۔ اس سے پہلے یہی ترکیب (مِّنْۢ بَعْدِ مَا. . . .) البقرہ : ۷۵ [۲ : ۴۷ : ۱ (۵)]میں زیر بحث آچکی ہے۔ اس کے ’’ما‘‘کی مصدریت پر آگے ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔

(۳)   ’’ تَبَيَّنَ ‘‘(ظاہر ہوگیا / چکا / کھل چکا / واضح ہوچکا / خوب ظاہر ہوچکا) اس لفظ کا مادہ ’’ب ی ن‘‘اور وزن ’’تَفَعَّل‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب تفعُّل کا صیغہ ماضی (واحد مذکر غائب)ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب ، معنی اور استعمال کے بیان کے علاوہ اس سے مزید فیہ کے باب تفعیل کے معنی وغیرہ پر بھی البقرہ: ۶۸ [۲ : ۴۳ : ۱ (۶)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

·       ’’تَبَیَّنَ یَتَبَیَّنُ‘‘کے معنی عموماً تو ہوتے ہیں ’’ظاہر اور واضح ہوجانا ‘‘ اور چونکہ باب تفعُّل کی ایک خصوصیت ’’تکلف، کوشش اور بنانا سنوارنا ‘‘ بھی ہے اس لئے اس فعل کا زیادہ بہتر مفہوم ’’خوب ظاہر ہوجانا، اچھی طرح واضح ہوجانا ‘‘ کی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہے۔ جس شخص وغیرہ پر بات واضح ہوجائے اس کے لئے عربی میں لام (لِ)کا صلہ لگتا ہے ، مثلاً کہیں گے ’’ تَبَيَّنَ  لَہُ‘‘ (اس پر / کے لئے / واضح ہوگیا)یعنی اس کے اردو ترجمہ میں ’’ کے لئے ‘‘ کی بجائے ’’پر‘‘ لگ سکتا ہے، مگر عربی میں ’’ تَبَيَّنَ عَلَیْہِ‘‘کہنا غلط ہوگا۔

·       اوپر ہم نے اس فعل کے معنی فعل لازم کی صورت میں بیان کئے ہیں، تاہم یہی فعل بطور متعدی بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی یہ فعل ’’خوب واضح کرنا، ظاہر کرنا ‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً کہہ سکتے ہیں ’’ تَبَيَّنَ الشَّیْءٌ‘‘(چیز واضح ہوگئی)اور ’’ تَبَيَّنَ الشَّیْءَ ‘‘(اس نے چیز واضح کر دی) . . . .بلکہ  یہ عجیب بات ہے کہ اس مادہ (ب ی ن) سے فعل مجرد کی ایک صورت [بَانَ یَبِینُ بَیاناً]کے علاوہ اس سے باب تفعیل ، تفعّل، اِفعال اور استفعال سے بھی فعل لازم اور متعدی دونوں طرح (اور ہم معنی)استعمال ہوتے ہیں، مثلاً کہیں گے بَانَ الشَّئُ و بَیَّنَ وَ تَبَیَّنَ و اَبَانَ وَ اسْتَبَانَ (سب کا مطلب ہے چیز واضح ہوگئی)اور اسی کو بطور متعدی یوں بھی کہہ سکتے ہیں۔ بَانَ الشَّئَ و بَیَّنَہُ وَ تَبَیَّنَہٌ و اَبَانَہُ وَ اسْتَبَانَہُ (سب کا مطلب ہے ’’ اس نے چیز کو واضح دیا‘‘)’’ بَانَ یَبِینُ‘‘ اور ’’بَیَّنَ یُبَیِّنُ‘‘کے متعلق یہی بات (لازم متعدی استعمال والی)البقرہ: ۶۸ [۲ : ۴۳ : ۱ (۶)] میں بھی بیان ہوئی تھی۔ باب ’’تفعّل‘‘ کی وضاحت یہاں ہوگئی ہے۔ اسی مادے سے باب افعال اور استفعال کے استعمال آگے آئیں گے۔

·       ثلاثی مجرد والا استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا مگر مذکورہ بالا مزید فیہ کے چاروں افعال قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں اگرچہ قرآن کریم میں اس مادہ سے باب تفعیل اور اور افعال کا زیادہ استعمال بطور متعدی اور باب تفعل اور استفعال کازیادہ استعمال بطور لازم ہوا ہے۔

·       اس فعل (تَبَیَّنَ)کے ایک معنی ’’کسی بات یا معاملے کی وضاحت کے لئے (جلد بازی کی بجائے ٹھنڈے دل سے) غور وفکر سے کام لینا‘‘ بھی ہیں جس کا عام فہم اردو ترجمہ ’’تحقیق کر لینا، تحقیق سے کام لینا، اچھی طرح تحقیق کر لینا‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔  یہ استعمال بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ آیا ہے۔ مزید بات حسب موقع ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·       اس فعل (تَبَیَّنَ) سے مختلف صیغے قرآن کریم میں کم و بیش اٹھارہ جگہ آئے ہیں ۔ ان میں سے گیارہ جگہ یہ فعل لام کے صلہ کے ساتھ (یعنی جس پر بات واضح ہو اس کے ذکر کے ساتھ)آیا ہے، باقی مقامات پر عمومی وضاحت (مثلاً سب ہی پر)کے لئے آیا ہے یا ’’تحقیق کر لینا‘‘ کے معنی میں آیا ہے اور کم از کم ایک موقع (سباء: ۱۴) پر اس کے لازم متعدی دونوں طرح استعمال کا امکان بھی ہے۔

(۳) ’’لَھُمْ‘‘(ان کے لئے /ان پر)یہ لام الجر+ ضمیر جمع غائب (ھم) کا مرکب ہے جس میں ضمیرکی آخری ساکن میم کو آگے ملانے کے لئے ماقبل والی ہائے مضمومہ (ہُ)کی مناسبت سے ضمہ (ـــــُـــــ)دیا گیا ہے۔ یہاں لام الجر ’’لِ‘‘جو ضمیر کے ساتھ آنے کی وجہ سے ’’لَ‘‘ہوگیا ہے) وہی صلہ ہے جو فعل تَبَیَّنَ کےساتھ (. . . .پر واضح ہونا)کے مفہوم کے لئے آتا ہے جس کے لئے یہاں ضمیر ’’ھُمْ‘‘ہے جس سے مراد (مرجع)اہل کتاب کی وہ اکثریت ہے جس کا ذکر شروع آیت میں آیا ہے۔

(۴)  ’’الحَقُّ‘‘(حق /سچ)اپنے بہت سے (بنیادی)عربی معانی کے ساتھ یہ لفظ اردو میں اتنا متعارف اور مستعل ہے کہ اس کی ترجمہ کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ ویسے اس کے متعلق مفصل لغوی بحث البقرہ:۲۶ [۲ : ۱۹ : ۱ (۶)]میں گزر چکی ہے۔

·       اس طرح اس حصہ آیت (مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پیچھے / بعد / اس کے جو کہ ظاہر / واضح ہوگیا ان کے لئے حق) جسے بامحاورہ بناتے ہوئے ’’بعد اس کے / اس کے بعد کہ /ظاہر ہوچکا /کھل چکا / ان پر / حق‘‘ کی صورت دی گئی ہے۔ بعض نے جملے کی اردو ترتیب و ترکیب کی بناء پر ’’ تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ‘‘کے ترجمہ میں ’’ الْحَقُّ ‘‘ کا ترجمہ پہلے پھر ’’لَھُمْ‘‘کا ترجمہ اور آخر پر فعل ’’ تَبَيَّنَ ‘‘کا ترجمہ کیا ہے، یعنی بصورت ’’ حق ان پر خوب ظاہر ہوچکا ہے / (حالانکہ )حق بات ان پر کھل چکی ہے ‘‘ اور بعض نے اردو جملے کی اسی ترکیب کی بناء پر سب سے پہلے ’’لَھُمْ‘‘کا ترجمہ اور پھر ’’الحَقُّ‘‘کا ترجمہ اور بعد میں فعل ’’ تَبَيَّنَ ‘‘کا ترجمہ کیا ہے (اردو کے جملہ فعلیہ میں فعل ۔فاعل مفعول کے بعد، آخر پر  آتا ہے)یعنی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ترجمہ کو ’’ان پر حق ظاہر ہوچکا/واضح ہوچکاہے  ‘‘ کی صورت دی ہے. . . . اور ایک ترجمہ ’’حق واضح ہوئے پیچھے ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اس میں ’’لھم‘‘ کا ترجمہ نظر انداز ہوگیا ہے اگرچہ مفہوم درست ہے۔

مندرجہ بالا چار حصہ ہائے عبارت [(۱)وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتَابِ (۲)لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا (۳)حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ (۴)مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ]کا مجموعی ترجمہ (کیونکہ یہ دراصل ایک ہی مربوط طویل جملہ ہے)جزوی فرق کے ساتھ . . . .عموماً چاروں اجزاء جملہ کی اسی ترتیب کے ساتھ کیا گیا ہے۔ البتہ دو مترجمین نے (غالباً اردو محاورہ کی خاطر)پہلے ’’ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتَابِ ‘‘کا، پھر ’’ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ ‘‘کا ترجمہ کرنے کے بعد (اردو جملہ فعلیہ کے مطابق)فعل ماضی ’’وَدَّ‘‘کا ترجمہ (بزمانہ حال)اور پھر اس کے بعد ’’ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔ یعنی بصورت ’’اہل کتاب سے بہت سے لوگ / بہت سے اہل کتاب / دل میں حسد رکھ کر / اپنے دل کی جلن سے / یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد / ایمان لاچکنے کے بعد / پھر تم کو / تم کو پھر / کافر بنا دیں۔‘‘ اگرچہ اس ترجمہ کی بڑی وجہ تو اردو محاورہ  اور جملے کی اردو ترتیب کا لحاظ ہی ہے، تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کلمہ ’’حَسَدًا‘‘ کا تعلق فعل ’’وَدَّ‘‘ سے ہے یا فعل ’’یَرُدُّونَ‘‘ سے ؟ لہٰذا اس پر مزید بات ’’الاعراب‘‘میں ہوگی۔

کم از کم ایک مترجم نے ’’غالباً اردو محاورے کے جوش میں ) آیت کے مذکورہ بالا تمام اجزاء کی ترتیب کو الٹ پلٹ کر (یعنی پہلے (۱)۔۔ وَدَّ پھر(۴)+ وَدَّ پھر(۳)اور آخر پر(۲)کرتے ہوئے)ترجمہ یوں کیا ہے ’’اکثر اہل کتاب / باوجودیکہ ان پر حق ظاہر ہوچکا ہے / (پھر بھی)اپنے دلی حسد کی وجہ سے /چاہتے ہیں کہ / تمہارے ایمان لائے پیچھے پھر تم کو کافر بنادیں‘‘۔ یہ ترجمہ اردو محاورے کے لحاظ سے بھی اور مفہوم عبارت کو واضح کرنے کے لحاظ سے بھی بہت عمدہ ہے۔ مگر اس قسم کے ترجمہ کو بین السطور (عربی عبارت کے نیچے)لکھنے سے عام (غیر عربی دان)قاری کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کس عبارت کا کہاں اور کیا ترجمہ کیا گیا ہے ؟ . . . .اس قسم کے  بامحاورہ ، رواں اور سلیس (اور آزاد )ترجمہ کے لئے مناسب یہ ہے کہ اصل (پوری)مجموعی عربی عبارت (بصورت آیات یا قطعۂ  آیات) اور ترجمہ الگ الگ ایک دوسرے کے بالمقابل یا اوپر نیچے ــــــ مگر بین السطور نہیں ــــــ لکھےجائیں، جیسا کہ اکثر انگریزی تراجم میں اور بعض تفاسیر میں کیا گیا ہے۔ جہاں تک اصل ترجمہ کی صحت، انتخابِ الفاظ کی موزونیت اور اصل (عربی عبارت) کی نحوی ترکیب کی رعایت کا تعلق ہے تو اِس کو جانچنا تو عربی دانی کا محتاج ہے۔

۲ : ۶۶ : ۱ (۵)     [فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ]

عبارت میں دو کلمات (اعفوا / اصفحوا‘‘نئے یعنی پہلی دفعہ (بلحاظ مادہ)آئے ہیں، جن کی وضاحت توجہ طلب ہوگی۔ باقی کلمات بلحاظ اصل پہلے گزر چکے ہیں۔

(۱)  ’’ فَاعْفُوْا ‘‘یہ دراصل ’’ف‘‘ + ’’اُعْفُوا‘‘ہے  جس میں ہمزۃ الوصل ’’فَ‘‘کے ساتھ ملا کر بصورت ’’فَا‘‘لکھا جاتا ہے مگر پڑھا نہیں جاتا  . . . .ابتدائی فاء (فَ)عاطفہ ہے جو یہاں فاء رابطہ بھی ہوسکتی ہےاور فاء فصیحہ بھی۔مزید دیکھئے البقرہ: ۲۲ [۲ : ۱۶ : ۱ (۱۰)]نیز آگے ’’الاعراب‘‘میں۔ بہرحال اس کااردو ترجمہ ’’سو پھر / پس پھر / پس / تو‘‘سے ہوگا۔

’’اُعْفُوا‘‘کا مادہ ’’ع ف و‘‘اور وزن اصلی ’’اُفْعُلُوْا‘‘ہے یعنی یہ فعل امر حاضر کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ یہ دراصل ’’اُعْفُوُوْا‘‘تھا، پھر ناقص کی گردانوں میں استعمال ہونے والے قاعدہ ـــــُـــــ وُوْا= ـــــُـــــ وْا‘‘کے مطابق پہلی ’’و‘‘ (جو بوجہ ضمہ (ـــــُـــــ)ثقیل تھی) گر کر صورت کلمہ ’’ اُعْفُوا ‘‘رہ گئی۔ جس کا وزن اب ’’اُفْعُوا‘‘رہ گیا ہے۔ اس کی املاء ’’ اُعْفُوا ‘‘میں آخری صامت الف جو الف الوقایہ کہلاتا ہے، واو الجمع پر ختم ہونے والے تمام صیغوں کے آخر پر لکھا جاتا ہے، تاہم یہ پڑھنے میں نہیں آتا۔ اور اسی لئے عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اس پر الف زائدہ صامتہ کی علامت باریک گول دائرے ’’ہ‘‘کی صورت میں ڈالتے ہیں۔ برصغیر کے مصاحف میں اس الف کو ہر طرح کی علامات ضبط سے خالی رکھا جاتا ہے جس کا مطلب ہے یہ تلفظ میں نہیں آئے گا۔

·       اس مادہ (ع ف و) سے فعل مجرد ’’عَفَا یَعْفُو عَفْواً‘‘(ماضی دراصل ’’عَفَوَ‘‘ تھی جس میں ’’ ـــــَــــ وَ= ـــــَــــ ۱ ‘‘ کے مطابق  ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے اور مضارع ’’یَعْفُو‘‘کی آخری واو کا ضمہ (ــــُـــــ)بوجہ ثقل گرادیا جاتا ہے) باب نصر سے آتا ہے جس کا عام ترجمہ ’’معاف کردینا‘‘کیا جاتا ہے اور جسے بعض دفعہ ’’درگزر کرنا، چھوڑ دینا اور جانے دینا ‘‘کی صورت بھی دیتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ فعل متعدد معانی کے لئے ــــــ لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور خود قرآن کریم میں بھی نہ صرف یہ فعل (عَفَا یَعْفُو)بلکہ اس کا مصدر (اور اسم) ’’العَفْو‘‘بھی کم از کم ایک سے زیادہ معنوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ بعض علماءِ لغہ اور اصحاب معاجم نے اس کے اصل اور بنیادی معنی کی نشاندہی کی ہے اور پھر اس بنیادی معنی کا اس فعل کے مختلف معانی سے تعلق کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثلاً صاحب ’’لسان العرب‘‘نے اس کی اصل ’’مَحْو وَ طَمس‘‘(’’مٹانا‘‘۔ ’’مٹ جانا‘‘۔ خیال رہے مصدر معروف و مجہول کا ایک ہی ہوتا ہے)کو قرار دیا ہے۔ صاحب ’’المفردات‘‘(راغب ؒ) نے اس کی اصل ’’القَصد لتناول الشیءِ‘‘ (چیز کو لے لینے کا ارادہ کر لینا)بتائی ہے اور صاحب ’’مقالیس اللغۃ‘‘(ابن فارسؒ)نے اس کی دو ’’اصلیں‘‘(بنیادی معنی)بیان کی ہیں (جو باہم متضاد بھی ہیں)یعنی ترک الشئ  و طلبُہ (چیز کو چھوڑ دینا / یا اسے طلب کرنا)۔ ’’طلب کرنا‘‘ والے معنی میں یہ فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔

·       اس فعل مجرد کے چند اہم معانی اور استعمال کی صورتیں یوں ہیں:

(۱)  مٹا دینا اور مٹ جانا (متعدی و لازم ہر دو)کے لئے ۔ کہتے ہیں ’’عفتِ الریحُ الآثارَ‘‘(ہوا نے نشانات مٹا دیئے) اور ’’عفتِ الآثارُ / عَفا الاثرُ‘‘(نشانات مٹ گئے / نشان مٹ گیا)۔ راغبؒ کے نزدیک اس کا مطلب ہے : ’’گویا ہوا نے نشانیوں کو مٹانے کے لئے ہاتھ ڈالنے کا ارادہ کیا‘‘ یا ’’ آثار / اثر نے خود بوسیدگی اور نابود ہونے کا ارادہ کر لیا‘‘۔ اور ابن فارس ؒ کے نزدیک ’’جب حفاظت و نگہداشت ترک کر دی تو گویا مٹا دیا. . . . یاجب کسی شے کی نگہداشت ترک کردی گئی تو مٹ گئی ‘‘(تَرْک =چھوڑ دینا / چھوڑ دیا جانا)۔

(۲) زیادہ کرنا، بڑھا دینا / زیادہ ہوجانا۔ بڑھ جانا (متعدی نیز لازم)کے لئے ۔ مثلاً کہتے ہیں ’’عَفَا الشئَ‘‘(چیز کو زیادہ کر دیا / لمبا کر دیا / چھوڑ دیا) مثلاً عفا الشَعَر او النبتَ (بالوں یا پودوں (وغیرہ)کا کاٹنا چھانٹنا چھوڑ دیا، بڑھنے دیا، چنانچہ وہ بڑھ گئے / لمبے یا زیادہ ہوگئے۔‘‘ اور اسی سے حدیث شریف میں آیا ہے قُصُّوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى (مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 14) [مونچھوں (کے بالوں)کو کاٹو اور داڑھیوں (کے بالوں)کو لمبا ہونے دو (چھوڑ دو)]۔اور فعل کے لازم استعمال میں کہتے ہیں ’’عَفا الشیئُ (چیز زیادہ ہوگئی۔ یا ضرورت سے زائد ہوگئی)بظاہر ’’مٹا دینا /مٹ جانا ‘‘ اور ’’بڑھا دینا / بڑھ جانا ‘‘ لغت اضداد (یعنی ایک ہی لفظ کے دو ایسے معنی جو ایک دوسرے کے ’’الٹ‘‘اور ’’ضد‘‘ہوں)معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر بنیادی معنی (ترک کرنا / چھوڑ دینا) کو سامنے رکھیں تو ایک معنی میں ’’حفاظت اور نگہداشت چھوڑ دینا ‘‘ کا مفہوم اور دوسرے معنی میں ’’کانٹ چھانٹ اور قطع و برید کو چھوڑ دینا ‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔ لغت اضداد نہیں ۔[1]

 (۳) ’’معاف کردینا ‘‘ کے معنی ہیں یہ فعل ہمیشہ متعدی استعمال ہوتا ہے (اور قرآن کریم میں یہ زیادہ تر ان ہی معنی کے لئے آیا ہے)اور اس مقصد کے لئے بنیادی طور پر اس کے دو مفعول ہوتے ہیں: جس کو معاف کیا جائے اور جو چیز (گناہ وغیرہ) معاف کی جائے۔ اور اس کے لئے کبھی ایک مفعول پر اور کبھی دوسرے مفعول پر (زیادہ تر تو)’’عَن‘‘لگتا ہے اور بعض دفعہ ’’لام الجر‘‘ (لِ) لگتا ہے۔ قرآن کریم میں ’’عَنْ‘‘کا استعمال زیادہ آیا ہے اگرچہ ایک دفعہ لام (لِ) بھی آیا ہے . . . .ان (معاف کر دینے والے) معنی کے لئے یہ فعل کئی طرح استعمال ہوتا ہے ، مثلاً کہتے ہیں ’’عَفا عنہ‘‘(اس نے اس کو معاف کردیا)اور ’’عفا عنہ ذنبَہ‘‘ (اس نے اس کو اس کا گناہ معاف کردیا)اور ’’عفا عَن ذَنبِہٖ‘‘(اس نے اس کے گناہ سے معافی دے دی)اور ’’عفا لَہٗ ذنبَہ‘‘(اس نے اس کے لئے (یعنی اسکو)اس کا گناہ معاف کردیا)ان سب استعمالات میں ’’ گناہ کی سزا ترک کر دینے ‘‘ یا ’’ گناہ کے نتائج مٹا دینے‘‘ یا ’’ گناہ کے ازالہ کے ارادہ کرنے‘‘کی صورت میں اصل بنیادی مفہوم (ترک /محو / قصد)موجود ہے۔

·       عام عربی میں فعل مجرد کے علاوہ اس سے مزید فیہ کے مختلف ابواب سے بھی متعدد اور مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس کا استعمال صرف فعل مجرد ہی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس فعل مجرد سے مختلف صیغے قرآن کریم میں ۲۷ مقامات پر وارد ہوئے ہیں، جن میں سے صرف ایک جگہ یہ ’’زادَ وَ کَثُرَ‘‘(زیادہ ہوجانا)کے معنی میں آیا ہے، باقی ۲۶ جگہوں پر یہ فعل ’’معاف کر دینا‘‘والے معنی کے ساتھ ہی استعمال ہوا ہے اور ان میں سے صرف ایک جگہ اس سے فعل مجہول لام الجر کے ساتھ (عُفِیَ لَہٗ کی صورت میں)آیا ہے۔ باقی ۲۵ مقامات پر اس سے معروف کے صیغے ہی آئے ہیں۔ البتہ ان (۲۵) میں سے نو (۹) مقامات پر مفعول اول (جن کو معافی ملی )پر ’’عَنْ‘‘ کے استعمال (مثلاً عنکم۔ عنھم۔ عنک۔ عَنّا۔ عن طائفۃٍ)وغیرہ کی صورت میں اور مفعول ثانی (جس بات کی معافی ملی)کے حذف کے ساتھ (فعل)آیا ہے۔ جبکہ آٹھ (۸)مقامات پر مفعول اول (جس کو معافی ملی)کے حذف اور مفعول ثانی (جس پر معافی ملی) پر ’’عن‘‘کے استعمال (مثلاً عَمَّا سَلَفَ ۔ عَنْ ذٰلِکَ۔ عَن سُوْ ءٍ / السَّیِّئَاتِ اور عَنْ کَثیرٍ کی صورت میں)کے ساتھ آیا ہے۔ باقی آٹھ مقامات پر یہ فعل مفعول اول و ثانی ہر دو کے حذف کے ساتھ استعمال ہوا ہے جو عبارت کے سیاق و سباق سے سمجھے جاتے ہیں۔ فاعل کا ذکرکبھی بطور اسم ظاہر (مثلاً اللہ)اور اکثر بصورت ضمیر فاعل آیا ہے۔

·       اکثر مترجمین نے ’’فَاعْفُوْا‘‘کا ترجمہ ’’پس / سو / تم معاف کرو‘‘ سے کیا ہے‘ بعض نے ’’معاف کرتے رہو‘‘ اختیار کیا ہے ۔ اس کے علاوہ’’ درگزر کرو‘‘ ، ’’چھوڑ دو‘‘اور ’’جانے دو‘‘ سے بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔ مفہوم ایک ہی ہے۔

·       فعل کے مذکورہ بالا استعمالات کے علاوہ اس مادہ (اور فعل مجرد)سے مشتق اور ماخوذ بعض کلمات (مثلاً العَفْو ، عَفُوّ اور العَافِین)بھی آئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

البتہ برسبیل تذکرہ غالباً یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ اردو میں عام استعمال ہونے والے بعض کلمات (مثلاً ’’معاف‘‘، ’’عافیت‘‘ اور ’’استعفاء‘‘کا تعلق اسی مادہ (عفو)سے ہے، اگرچہ یہ الفاظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوئے۔ کلمہ ’’معاف‘‘ اور (اس کا اردو حاصل مصدر)’’معافی‘‘اردو میں اتنا متعارف ہے کہ فعل ’’عفا یعفو‘‘ کا ترجمہ ہی معاف کرنا، معافی دینا‘‘ کرنا پڑتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بعض دفعہ عربی کے (بلحاظ اشتقاق) خاصے مشکل الفاظ اردو میں بغیر تکلف کے استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ لفظ (معاف)ہے جو دراصل ’’عفو‘‘مادہ سے باب مفاملہ ’’عَافَی یُعَافِی مُعَافاۃً و عِفاءً و عَافِیۃً‘‘(صحت و تندرستی دینا / چھوٹ دینا)کے یا تو مصدر (مُعافاۃ) کی بگڑی ہوئی شکل ہے یا اسی (باب مفاعلہ والے)فعل سے اسم الفاعل ’’مُعافٍی‘‘یا اسم المفعول ’’مُعافًی‘‘کی بدل ہوئی شکل ہے۔ لفظ ’’عَافِیۃ‘‘(جس کی اردو فارسی املاء ’’عافیت‘‘ ہے)عربی کی طرح اردو فارسی میں ’’صحت و تندرستی‘‘کے معنی میں متعارف ہے۔ بظاہر یہ لفظ فعل ’’عَفا یعفُو‘‘سے صیغہ اسم الفاعلۃ (مؤنث)ہے لیکن دراصل یہ باب مفاملہ کا ایک مصدر ہے (جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے)باب مفاملہ سے بعض مصادر ’’فاعلۃ‘‘کے وزن پر بھی آجاتے ہیں۔ اور لفظ ’’استعفاء‘‘(کام ترک کرنے کی اجازت چاہنا)تو جیسا کہ ظاہر ہے ’’عفو‘‘ سے باب استفعال کا مصدر ہے۔

(۲) ’’ وَاصْفَحُوْا ‘‘ کی ابتدائی ’’وَ‘‘عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ہے۔ اور’’اِصْفَحُوْا ‘‘ (جو فعل امر حاضر جمع مذکر ہے اور جس کا ابتدائی مکسور ہمزۃ الوصل ’’و‘‘کی وجہ سے تلفظ میں نہیں آتا)کا مادہ ’’ص ف ح‘‘ اور وزن ’’اِفْعَلُوا‘‘ہے، اس سے فعل مجرد ’’صَفَحَ یِصْفَحُ صَفْحًا‘‘(باب فتح سے)آتا ہے اور اس کے متعدد معانی اور استعمالات ہیں اور سب میں بنیادی معنی ’’الگ الگ پھیلانا اور چوڑا کرنا‘‘کے ہیں مثلاً ’’صَفَحَ الْکَلْبُ ذِرَاعَیہ‘‘(کتے نے دونوں (اگلے بازو پھیلا دیئے)اور ’’صفَح ورقَ المُصحَف ‘‘(اس نے قرآن مجید کا ایک ایک ورق پھیلاتے ہوئے سامنے سے گزارا یعنی دیکھ ڈالا)اور ’’صفَح الناسَ اَوِ القومَ‘‘(اس نے لوگوں کو (بغرض معائنہ و پڑتال)ایک ایک کرکے سامنے پیش کیا) ۔ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل ان میں سے کسی بھی معنی کے لئے استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ قرآن کریم میں تو . . . .جہاں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے چھ جگہ آئے ہیں  . . . .یہ  فعل صرف ایک ہی معنی ’’درگزر کرنا / خیال میں نہ لانا‘‘ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ یعنی یہ بھی گویا گزشتہ فعل (عفا یعفو)کے ہم معنی ہے اور (اس کی طرح)اس فعل کے ساتھ بھی ’’عن‘‘استعمال ہوتا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ ’’عفا یعفو‘‘کے ساتھ بعض دفعہ دونوں مفعول (شخص اور گناہ)مذکور ہوتے ہیں (جیسے ’’عفا عنہ ذنبَہ‘‘ میں ہے)مگر اس فعل (صفَح یصفَح)میں ’’عن‘‘کے بعد صرف ایک مفعول (شخص یا گناہ)ہی مذکور ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’صفَح عنہ‘‘(اس نے اس شخص سے درگزر کیا) یا کہتے ہیں ’’صفَح عَن ذنبِہٖ‘‘(اس نے اس کے گناہ سے درگزر کیا)یعنی اس فعل میں ’’صفَح عنہ ذنبَہ‘‘نہیں کہتے۔ البتہ جب ’’عن‘‘ ساتھ استعمال نہ ہو تو دونوں افعال (عفا اور صفَح)کے دونوں مفعول محذوف بھی کر دیئے جاتے ہیں جیسے زیر مطالعہ دونوں کے صیغہ امر ’’فاعفُوا وَاصفَحوا‘‘(معاف کر دو / درگزر کر دو)میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس کو معاف کرو اور کیا معاف کرو؟ البتہ یہ بات سیاق عبارت سے سمجھی جاسکتی ہے۔

·       ہم معنی اور مترادف ہونے کے باوجود ’’عَفْوٌ‘‘اور ’’صَفْحٌ‘‘میں ایک لطیف فرق ہے ’’عفو‘‘(عفا یعفو)کا مطلب ہے ’’ترکِ  عقوبت‘‘یعنی کسی کو اس کے جرم و گناہ کی سزا کا ارادہ ترک کر دینا‘‘ جب کہ ’’صفْح‘‘(صفَح یصفَح) کا مطلب ہے ترک تثریب یعنی گناہگار اور مجرم کو ملامت اور سرزنش بھی نہ کرنا۔ اور اسی لئے صاحب المفردات نے لکھا ہے کہ ’’صفح‘‘ ’’عفو‘‘ سے بھی بڑا طرز عمل ہے کیونکہ کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی کو (سزا) معاف تو کردیتا ہے مگر ملامت کر گزرتا ہے۔ یعنی ترک عقوبت قدرے آسان ہے مگر ’’ترک ملامت‘‘ نسبتاً مشکل اور زیادہ بلند ہمتی کا کام ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اکثر جگہ ’’عفو‘‘کے معاًبعد ’’صفح‘‘ کا حکم آیا ہے۔

اس  فعل کے مصدر (صَفْح)کا بطور اسم استعمال ’’کسی چیز کی چوڑائی جو آپ کے سامنے ہو‘‘کے لئے ہوتا ہے اور اسی لئے ’’صفحٌ‘‘کے معنی ’’جانب‘‘اور ’’طرف‘‘کے ہوتے ہیں اور ’’صفح‘‘ اور ’’صفحۃ‘‘ رخسار کو بھی کہتے ہیں۔ کسی ورق کے دونوں صفحے عربی میں ’’صفحتان‘‘اور ’’صفحتا الورقۃ‘‘ کہلاتے ہیں اور یہ لفظ (صفحہ)  ہماری روز مرہ کی زبان میں مستعمل ہے۔ اس طرح اس فعل ’’صفح یصفح‘‘کے مفہوم کی اصل یہی ہے کہ گویا سزا بلکہ ملامت سے بھی چہرہ دوسری طرف کر لیا جائے یعنی چہرے سے بھی ملامت ظاہر نہ کی جائے۔

·       عام عربی میں اس مادہ (ص ف ح)سے فعل مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے مختلف ابواب سے بھی فعل مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں (جو ڈکشنریوں میں دیکھے جاسکتے ہیں)تاہم قرآن کریم میں اس سے صرف فعل مجرد کے ہی چند صیغے چھ جگہ آئے ہیں اور ان میں سے صرف ایک جگہ یہ فعل ’’عن‘‘کے ساتھ آیا ہے، باقی مقامات پر ’’عن‘‘محذوف ہے، یعنی مفعول (شخص یا گناہ)غیر مذکور ہے، تاہم سیاق عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اور ان چھ میں سے چار مقامات پر ’’عفو‘‘اور ’’صفح‘‘ سے صیغہ امر معاً مذکورہوئے ہیں۔ اکثر مترجمین نے ’’اصفحوا‘‘ کا ترجمہ ’’درگزر کرو‘‘ سے ہی کیا ہے، صرف ایک ترجمہ میں ’’خیال نہ کرو‘‘ آیا ہے جس میں ترک ملامت کا مفہوم واضح ہے۔

(۳) ’’حتَّی‘‘(یہاں تک کہ / جب تک کہ نہ) ’’حتی‘‘کے معانی اور استعمالات پر مفصل بات البقرہ: ۵۵ [۲ : ۳۵ : ۱ (۲)]میں گزر چکی ہے۔

(۴) ’’ يَاْتِيَ اللہُ . . . . ‘‘(اس کا ترجمہ اس سے اگلی عبارت (بامرہ)کے ساتھ مل کر ہی ممکن ہوگا)۔   اس میں دوسرے حصہ اسم جلالت (اللہ)کی لغوی بحث اگر دیکھنا چاہیں تو بحث بِسْمِ اللہ [۱ : ۱ : ۱(۲)] میں دیکھ لیجئے۔

·       پہلے حصہ ’’یأْتِی‘‘کا مادہ ’’أ ت ی‘‘اور وزن ’’یَفْعِلُ‘‘ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد کا صیغہ مضارع منصوب ہے (نصب پر بات آگے ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی) اس فعل مجرد ’’أَتَی یَأْتِی= آنا ۔ کرنا‘‘کے معنی اور استعمال پر سب سے پہلے البقرہ: ۲۳ [۲ : ۱۷ : ۱ (۴)]میں (کلمہ ’’فَاْتُوا‘‘کے ضمن میں)بات ہوچکی ہے۔ اس کے بعد اس فعل کے متعدد صیغے گزر چکے ہیں مثلاً ’’اُتُوا‘‘[۲ : ۱۸ : ۱ (۸)]میں۔ ’’یَاْ تِیَنَّ‘‘البقرہ: ۳۸ [۲ : ۲۷ : ۱ (۲)] میں ’’یَاْتُوا‘‘[۲ : ۵۲ : ۱ (۵)]اور ’’نَاْتِ‘‘ابھی اوپر گزرا ہے [۲ : ۱۷ : ۱ (۴)] میں۔ اس فعل پر باء (بِ)لگنے سے اس کے معنی میں تبدیلی (یعنی اَتَی بِ . . . .  =لانا۔ لے آنا)کی بات بھی ہوئی تھی۔

(۵)  ’’ بِاَمْرِہٖ ‘‘جو بِ + امر + ہ  کا مرکب ہے اس میں آخری ضمیر مجرور ’’ہ‘‘(بمعنی. . . . اس کا / اپنا) ہے اور ابتدائی باء (بِ) وہی صلہ ہے جو فعل اتی یاتی (بمعنی ’’آنا‘‘)پر لگ کر اس میں ’’لانا۔ لے آنا‘‘ کے معنی پیدا کرتا ہے۔ باقی لفظ ’’امر‘‘جس کا مادہ اور وزن بالکل ظاہر ہیں (ا م ر ‘‘ سے فَعْلٌ یہ اس مادہ سے فعل مجرد ’’امریامر =حکم دینا‘‘ کا مصدر ہے جو زیادہ تر بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ فعل مجرد (امر یامرْ)کے معنی اور استعمال پر سب سے پہلے البقرہ : ۲۷[۲ : ۱۹ : ۱ (۱۶)] میں بات ہوئی تھی۔ اور اس کے بعد اس کے متعدد صیغہ ہائے فعل گزر چکے ہیں مثلاً ’’تَاْمُرُوَن‘‘ البقرہ: ۴۴ [۲ : ۲۹ : ۱ (۶)]سے متصل پہلے۔ اور ’’تُؤمَرُوُنَ‘‘البقرہ : ۶۸[۲ : ۴۳ : ۱ (۸)]کے متصل بعد گزرا ہے۔

·       کلمہ ’’اَمْر‘‘ایک کثیر الاستعمال اور متعدد معانی کا حامل لفظ ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ کم و بیش ڈیڑھ سو جگہ آیا ہے۔ اور کم از کم دس کے قریب متنوع معانی میں استعمال ہوا ہے۔ ان مختلف معانی کو بلحاظ اصل دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے استعمالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا ایک طرح سے بنیادی (یا جامع)ترجمہ بھی (یوں تو صرف)دو لفظوں میں کیا جاسکتا ہے یعنی (۱) حکم اور(۲)معاملہ۔ باقی تراجم ان کی فرع (قسم )ہیں۔

·       پہلے معنی (حکم)کا تعلق اس مادہ کے فعل مجرد (اَمَر =حکم دینا)سے ہے ، یعنی یہ اس فعل کا مصدر بھی ہے اور بطور حاصل مصدر یا اسم مصدر بھی استعمال ہوتا ہے۔ گرائمر میں جسے ہم امرونہی (فعل)کہتے ہیں، شرعی یا قانونی اعتبار سے وہ دونوں ’’حکم‘‘ ہی ہوتے ہیں۔ اس اصل کی بناء پر لفظ ’’امرٌ‘‘کے تراجم (بلحاظ استعمال)’’فرمان، فرمانروائی۔ حکومت۔ حکمرانی۔ اختیار۔ فیصلہ‘‘ کی صورت میں بھی کئے جاسکتے ہیں اور کئے گئے ہیں۔ ان سب میں مشترک مفہوم ’’حکم‘‘ کا ہے ۔ ان معنی میں امر کی جمع ’’اَوَامِر‘‘آتی ہے (تاہم یہ جمع قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوئی)

·       دوسرے معنی (معاملہ)کا بظاہر تو اس مادہ (ا م ر)کے کسی فعل سے تعلق نہیں ہے۔ البتہ (شاید) یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن کاموں کے بارے میں ’’حکم‘‘دیا جاتا ہے یا کسی ’’حکم‘‘کے نتیجے میں جوباتیں یا چیزیں سامنے آتی ہیں ان ہی کو ’’معاملہ‘‘یا ’’معاملات‘‘کہتے ہیں، جس کے لئے فارسی میں ’’کار‘‘اور انگریزی میں affair یا matterاستعمال ہوتے ہیں۔ اس مفہوم میں لفظ ’’اَمر‘‘کی جمع ’’اُمور‘‘ آتی ہے (اور خود یہ جمع بھی قرآن کریم میں ۱۳ جگہ آئی ہے)بلکہ یہ لفظ (امور بمعنی ’’معاملات‘‘)اردو میں بھی مستعمل ہے۔

·       اور چونکہ لفظ ’’معاملہ‘‘ہر طرح کے اقوال و افعال کے لئے عام ہے، اس لئے . . . .موقع  استعمال کے لحاظ سے . . . .لفظ’’اَمر‘‘ کا ترجمہ ’’کام ۔ بات ۔ چیز ۔ واقعہ ۔ حالت ۔ حال ۔ قدرت ۔ مشیت ۔ مرضی ۔ رائے۔ خواہش اور ارادہ‘‘کی صورت میں کیا جاسکتا ہے اور کیا گیا ہے۔ اور بعض دفعہ ایک ہی جگہ دو مختلف معانی بھی لئے جاسکتے ہیں۔

·       یوں اس پورے  [۲ : ۶۶ : ۱ (۵)]والے حصہ عبارت (فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پس / سو / تم معاف کردو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ لائے حکم اپنا‘‘ جس کی سلیس صورت ’’سو معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے‘‘ ہے۔ بعض نے ’’فَاعْفُوا‘‘کے لئے ’’جانے دو ۔ چھوڑ دو ‘‘ (جس میں ’’ترک کرنا‘‘کا مقہوم ہے)اختیار کیا ہے۔ ’’حتی‘‘ کا ترجمہ بعض نے ’’تا آنکہ‘‘سے کیا ہے جو اصل سے بھی مشکل ہے۔ بعض نے اِس کا ترجمہ ’’جب تک‘‘سے کیا ہے مگر پھر اردو محاورے کے مطابق فعل (یاتی)کے ترجمہ پر ’’نہ‘‘نہیں لگایا۔ بلکہ شاید ’’اس وقت تک جب کہ‘‘کے مفہوم کی بناء پر صرف ’’لائے‘‘سے ہی ترجمہ کیا ہے۔ بیشتر مترجمین نے ’’لائے‘‘کی بجائے ’’بھیج / بھیج دے‘‘ کو لیا ہے جو بلحاظ مفہوم اچھا ترجمہ ہے اگرچہ لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔ بعض نے تعظیماً (حکم)’’صادر فرمائے / بھیجیں‘‘سے ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے ’’حکم‘‘ کے ساتھ ’’دوسرا‘‘ یا ’’کوئی اور‘‘کا اضافہ کیا ہے۔ سباق عبارت کا تقاضا ہے۔

۲ : ۶۶ : ۱ (۶)      [اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ]

بعینہ یہی (پوری)عبارت سب سے پہلے البقرہ: ۲۰ [۲ : ۱۵ : ۱ (۱۰۔۱۱)]میں آئی تھی  جہاں اس کے تمام کلمات پر مفصل بات ہوئی تھی۔ اور پھر معمولی فرق کے ساتھ یہی عبارت البقرہ: ۱۰۶ [۲ : ۱۴ : ۱ (۳)]میں بھی زیر بحث آئی تھی۔

۲ : ۶۶ : ۱ (۷)     [وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ]

ٹھیک یہی عبارت سب سے پہلے البقرہ: ۴۳ میں [۲ : ۲۹ : ۱۱ (۲)] کے آخر پر اور پھر [۲ : ۲۹ : ۱ (۳۔۴)] میں گزر چکی ہے جہاں اِس عبارت کے کلمات پر بات ہوئی تھی۔ اس کا عام لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اور قائم رکھو نماز کو اور دو  / ادا کرو زکوٰۃ‘‘۔جسے ’’اقامۃ الصلٰوۃ‘‘کے جامع مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے (جس پر سب سے پہلے البقرہ: ۳ [۲ : ۲ : ۱ (۳۔۴)]میں مفصل بات ہوئی تھی) ’’نماز / کی پابندی رکھو / ادا کرتے رہو / درست رکھو / پابندی سے پڑھو / اور زکوٰۃ دیتے رہو‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ’’صَلوٰۃ‘‘کا ترجمہ بصورت ’’نماز‘‘ کرنے کی وجہ بھی [۲ : ۲ : ۱ (۴)] میں اور ’’زکوۃ‘‘کا ترجمہ نہ کرنے کی وجہ [۲ : ۲۹ :  (۴)]میں بیان ہو چکی ہے۔ ضرورت ہو تو ان مقامات پر دوبارہ نظر ڈال لیجئے۔

۲ : ۶۶ : ۱ (۸)     [وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ. . . .]

دراصل یہ شرط اور جواب شرط پر مبنی پورے جملے کا صرف ابتدائی حصہ (بیانِ شرط)ہے۔ لہٰذا اس کے پورے ترجمہ پر اگلی عبارت (بقایا)کی وصاحت کے بعد بات ہوگی۔ پہلے ہم اس (زیر مطالعہ)حصہ عبارت کے کلمات کی لغوی بحث کو لیتے ہیں۔ تمام کلمات براہ راست (موجودہ شکل میں)یا بالواسطہ (بلحاظ مادہ)پہلے گزر چکے ہیں۔

(۱) ’’وَ‘‘مستانفہ ہے اسی لئے اس سے سابق جملے کے آخر پر وقفِ مطلق کی علامت (ط)لگی ہے۔ ترجمہ ’’اور ‘‘ ہی ہوگا۔

(۲) ’’مَا‘‘یہاں موصولہ شرطیہ ہے جس کا ترجمہ تو ’’جو کچھ بھی کہ‘‘ہے، مگر بیشتر مترجمین نے صرف ’’جو کچھ‘‘ یا ’’جو‘‘ پر ہی اکتفا کیا ہے۔

(۳) ’’ تُقَدِّمُوْا ‘‘کا مادہ ’’ق د م‘‘اور وزن ’’تفعلوا‘‘ہے جو اس مادہ سے باب تفعیل کے فعل مضارع مجزوم (جزم کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)کا صیغہ جمع حاضر مذکر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد متعدد ابواب سے، بعض خاص صلات کے ساتھ یا کسی صلہ کے بغیر بھی بطور فعل لازم و متعدی مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے باب ، معنی اور استعمالات پر البقرہ: ۹۵ [۲ : ۵۸ : ۱ (۴)]میں بات ہوئی تھی۔ اور وہیں اس سے بابِ تفعیل کے فعل ’’قَدَّمَ یُقَدِّمُ تَقْدِیما‘‘کے معنی (=آگے کرنا / لانا / بھیجنا / پیش کرنا / آگے ہونا / بڑھنا / پہل کر جانا وغیرہ )بھی زیر بحث آچکے ہیں۔ یعنی اس فعل کے متعدی اور لازم استعمال کا بھی ذکر ہوا تھا۔ یہاں ہم اس فعل (جس سے ایک صیغہ فعل (. . . .تُقَدِّمُوا. . . .)اس وقت زیر مطالعہ ہے) کے قرآنی استعمال کے متعلق چند امور (مزید)بیان کرنا چاہتے ہیں۔

·       متعدی استعمال کی صورت میں اس کا مفعول براہ راست (بنفسہٖ)آتا ہے جس کی کم از کم چار قرآنی مثالیں موجود ہیں (ص: ۶۰ ، ۶۱ المجادلہ : ۱۲ ، ۱۳)۔ ویسے یہ فعل قرآن مجید میں بطور متعدی قریباً ۲۵ جگہ آیا ہے، بعض مقامات پر (مثلاً البقرہ: ۲۲۳ اور الفجر: ۲۴) اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور)ہے اور بیشتر مقامات پر مفعول مقدَّم (یعنی فعل سے پہلے)بصورت ’’ما‘‘ (صلہ موصول ہو کر ) آیا ہے اور ہر جگہ ضمیر عائد محذوف ہے۔ اور اکثر  اِس (مفعول محذوف یا بصورتِ صلہ موصول) سے مراد انسان کے اعمال اور افعال ہوتے ہیں‘ جیسے یہاں زیر مطالعہ عبارت میں ’’ وَمَا تُقَدِّمُوْا۔۔۔‘‘  آیا ہے جس کا ترجمہ بنتا ہے ’’ اور جو کچھ بھی کہ تم آگے / پہلے بھیجوگے / بھیج دو گے‘‘ْ ۔ (یعنی اعمال )

(۴)’’ لِاَنْفُسِكُمْ‘‘ جو لام الجر (لِ = کے لئے) +  انفس (جانیں)+ ضمیر مجرور ’’کُمْ ‘‘ (بمعنی تمہاری/ (اپنی) کامرکب ہے۔ لام الجر کے معانی اور استعملات پر مفصل بات الفاتحہ ۲ [۱:۲:۱(۲)] میں گزری ہے۔

·       لفظ ’’ اَنْفُسْ‘‘ جمع مکسر ہے جس کا واحد ’’ نَفُسْ‘‘ (بمعنی ’’جان‘‘ ) ہے۔ اِس کلمہ (اَنْفُسْ)  کے مادہ ‘ باب‘ فعل اور معانی وغیرہ پر سب سے پہلے البقرہ   ۹ [۱:۸:۲(۴)] میں بات ہو چکی ہے  اور اس کے بعد سے یہ دونوں لفظ اب تک متعدد بار آچکے ہیں ۔ یوں اِس حصّہ عبارت (لِاَنْفُسِكُمْ)  لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ واسطے اپنی جانوں کے‘‘ ۔ جسے سلیس اور با محاورہ ترجمہ کرتے ہوئے ’’ اپنی جانوں کے لئے/   اپنے واسطے / اپنے لئے ‘‘ کی شکل دی گئی ہے۔ بعض نے ۔۔۔ غالباً آگے آنے والے لفظ ’’خیر‘‘ کی مناسبت سے ۔۔۔ ’’اپنی بھلائی کے لئے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے‘ جو بلحاظ مفہوم ہی درست ہے۔

(۵) ’’ مِّنْ خَيْرٍ‘‘ یہ دونوں لفظ متعدد بار گزر چکے ہیں ۔ ’’ مِنْ ‘‘ کے استعمال پر البقرہ :۳ [۱:۲:۲(۵)] میں بات ہوئی تھی ۔ اور کلمہ ’’خیر‘‘ پر بحث البقرہ : ۵۴ [۱:۳۴:۲(۵)] میں دیکھئے ۔ یہاں یہ لفظ اسم تفضیل کے طور پر نہیں بلکہ عام اسم (ذات) کے طوار پر ’’بھلائ یا نیکی‘‘ کے معنی میں آیا ہے یا اسے اسم صفت ( بمعنی اچھّا ‘ عمدہ ) بھی سمجھ سکتے ہیں مگر اِس صورت میں اس کا ایک موصوف (مثلاً ’’عمل ‘‘) محذوف سمجھنا پڑے گا‘ جبکہ اسم ذات کے طور پر لینے  میں کسی مقدر یا محذوف کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح ’’ مِنْ ‘‘ یہاں بیانیہ بھی ہو سکتا ہے جس میں ابتدائی ’’مَا‘‘ (جو کچھ بھی کہ ) کا بیان یا وضاحت ہے۔ اس لئے اِس کا ترجمہ ’’از قسم / کی قسم سے ‘‘ ہو سکتا ہے ۔اور اس ’’ مِنْ ‘‘ کو تبعیض کے لیے بھی لے سکتے ہیں۔ اِس صورت میں  اور اِس کا ترجمہ ’’۔۔۔ کا کچھ بھی ‘۔۔میں سے کچھ بھی‘ ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے ۔ اِس طرح ’’  مِّنْ خَيْرٍ‘‘  کا ترجمہ ’’از قسم نیکی  /  بھلائی کی قسم سے ‘‘ بھی ہو سکتا ہے اور بصورت ’’کسی نیکی سے کچھ بھی‘‘۔۔۔۔ اور دونوں قسم کے تراجم کو سلیس و با محاورہ بنانے کے لئے صرف ’’بھلائی/ نیک کام‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ہے‘ جو بلحاظ مفہوم درست ہے ‘ اگرچہ اِس میں ترکیب الفاظ کی باریکی کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔

·       یوں اِس پورے حصّہ عبارت (وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ)  کا لفظی ترجمہ بنے گا ’’ اور جو کچھ بھی کہ تم آگے بھیجو گے واسطے اپنی جانوں کے بھلائی کی قسم سے کچھ بھی‘‘ ۔۔۔ جس کو سلیس و با محاورہ بنانے کے لیے بعض نے تو اصل عربی میں عبارت کی مجموی ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے اور صرف ’’  مِنْ خَيْرٍ‘‘ کی ترجمہ میں اختصار سے کام لیتے ہوئے ترجمہ ’’ جو کچھ آگے بھیجو گے / بھیج دو گے اپنے واسطے / اپنے لئے بھلائی‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ اکثر نے اردو کے جملہ فعلیہ کو سامنے رکھتے ہوئے فعل کا ترجمہ آخر پر کے کے علاوہ اصل  عربی عبارت ( کی ترکیب و ترتیب) کو بھی آگے پیچھے کر دیا ہے ( نیز دیکھئے حصّہ ’’الاعراب‘‘ ) مثلاً بعض نے ’’مَا‘‘  کے بعد پہلے  ’’  مِنْ خَيْرٍ‘‘ سے ابتداء کرتے ہوئے ‘ پھر ’’ لِاَنْفُسِكُمْ‘‘ کو لیا ہے اور آخر پر ’’ تُقَدِّمُوْا‘‘ کو۔ اور یوں ترجمہ بنا: ’’  جو کچھ بھلائی اپنےلئے  /  اپنے واسطے آگے / پہلے سے بھیجو گے / بھیج دو گے‘‘۔ اور اسی کی بعض نے  ’’جو نیک کام بھی اپنی بھلائی کے واسطے /  لئے آگے بھیجو گے / جمع کرتے رہو گے‘‘ کی صورت دی ہے ۔ اِس میں ’’اپنے لیے ‘‘ کی بجائے ’’اپنی بھلائی کے لئے ‘‘ اور  ’’بھیجو گے‘‘ کی بجائے ’’جمع کرتے رہوگے ‘‘ ایک طرح سے تفسیری ترجمہ ہے جو بلحاظ مفہوم ہی درست ہے ‘ ورنہ اصل عبارت سے ذرا ہٹ کر ہے ۔ اسی طرح بعض نے ’’ لِاَنْفُسِكُمْ‘‘ سے ابتداء کرتے ہوئے ترجمہ کو ’’ اور اپنی جانوں کے لیے جو بھلائی آگے بھیجو گے‘‘ کی شکل دی ہے۔ تمام تراجم بلحاظ مفہوم یکساں ہیں اور اصل (عرب) نص اور (اردو) محاورے میں توزن رکھنے کی کوششوں کا ایک مظہر (یا نمونہ) ہیں ۔

۲ : ۶۶ : ۱ (۹)     [۔۔۔تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ]

یہ سابقہ جملے (وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ)  کا ہی ایک حصّہ( جوابِ شرط) بنتا ہے۔

(۱)’’ تَجِدُوْہُ‘‘ کی آخری ’’ہُ‘‘ تو ضمیر منصوب (بمعنی ’’اس کو‘‘) ہے اور ’’ تَجِدُوا‘‘ (ضمیر مفعول کے بغیر لکھنے پر فعل کی واو الجمع کے بعد الف الوقایۃ لکھنا ضروری ہے) کا مادہ ’’و ج د‘‘ اور وزنِ اصلی ’’تَفْعِلُوْا‘‘ہے ‘ یعنی یہ اِس کے فعل مجرد سے صیغہ مضارع معروف مجزوم ہے (جزم کی وجہ سے ’’الاعراب‘‘ میں دیکھئے) گویا یہ دراصل ’’ تَوْجِدُوْنَ‘‘ تھا۔ پھر مثال واوی اور باب ضرب سے ہونے کے باعث مضارع معروف میں ’’و‘‘ (فاء کلمہ) گر جاتی ہے اور مجزوم ہونے کی بنا پر آخر اِعرابی (صیغہ جمع مذکر والا) گر گیا۔ یوں اب اِس کا وزن ’’تَعِلُوْا‘‘ رہ گیا ہے۔

·             اِس مادہ سے فعل مجرد وَجَدَ یَجِدُ کےباب‘ معانی اور استعمال وغیرہ البقرہ: ۹۶ [۱:۵۹:۲(۱)] میں  بیان ہو چکےہیں ۔ یہاں ’’ تَجِدُوْہُ‘‘ کا ترجمہ ’’تو تم پاؤگے اِس کو ‘‘ بنتا ہے۔ ’’تو‘‘ کا  اضافہ جواب شرط ہونے کی وجہ سے ہے، جسے محاورے کی وجہ سے اکثر نے نظر انداز کرتے ہوئے ترجمہ ’’پاؤ گے اس کو / وہ پاؤ گے / اس کو پالو گے / اسے پاؤ گے / پالو گے‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ بعض نے ’’اس کا ثواب پاؤ گے‘‘ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے اور بلحاظ مفہوم ہی درست ہے۔

(۲) ’’ عِنْدَ اللہِ ‘‘ (اللہ کے پاس / ہاں) کلمہ ’’عِنْدَ‘‘کے معنی و استعمال وغیرہ کے لئے دیکھئے البقرہ: ۵۴ [۲ : ۳۴ : ۱ (۶)]اور اس کے بعد سے یہ لفظ مختلف تراکیب میں کم از کم دس دفعہ گزر چکا ہے۔ بعض نے اس جزء (عنداللہ)کے ترجمہ میں اسم جلالت (اللہ)کے لئے بھی ہمارے ہاں عام متداول فارسی لفظ ’’خدا‘‘استعمال کیا ہے، تاہم اکثر نے اصلی عربی لفظ کو ہی لیا ہے اور یہی بہتر ہے۔

·       یوں اس جواب شرط حصہ عبارت (. . . .تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ)کا ترجمہ بنا ’’تو تم پاؤ گے اس کو اللہ کے پاس / ہاں‘‘جسے بیشتر حضرات نے اردو کے جملہ فعلیہ کی ساخت کو ملحوظ رکھتے ہوئے فعل کا ترجمہ آخر پر کیا ہے۔ یعنی ’’اسے / اس کو /اللہ/ خدا / کے ہاں / یہاں / پاس / پاؤ گے / پالوگے‘‘کی صورت میں۔ اکثر نے ضمیر فاعلین ’’تم‘‘ کا ترجمہ نہیں کیا کیونکہ وہ اردو کے صیغہ فعل سے خود بخود سمجھی جاتی ہے۔

اب آپ عبارت کے ان دونوں حصوں (نمبر ۸، نمبر ۹ بالا) . . . .جو مل کر مکمل جملہ شرطیہ بنتا ہے . . . .کا ترجمہ بآسانی کرسکتے ہیں۔

۲ : ۶۶ : ۱ (۱۰)     [اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ]

اس جملے کے تمام الفاظ پہلے گزر چکے ہیں، بلکہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ قریباً یہی جملہ (بصورت ’’وَاللہُ بَصٍیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ اس سے پہلے البقرہ: ۹۶ [۲ : ۵۹ : ۱ (۶)]میں گزرا ہے۔

(۱) ’’ اِنَّ اللہَ ‘‘(بے شک اللہ تعالیٰ)’’اِنَّ‘‘حرف مشبہ بالفعل کہلاتا ہے، پہلی دفعہ البقرہ: ۶ [۲ : ۵ : ۱]میں گزرا ہے۔

(۲) ’’بِمَا‘‘(اس کو جو کہ)۔ اس کی باء (بِ) تو فعل ’’ بَصْرَبِہٖ ‘‘(اسے دیکھا)کے صلہ والی ہے اور ’’ما‘‘موصولہ ہے جو کئی دفعہ گزری ہے۔

(۳) ’’ تَعْمَلُوْنَ ‘‘(تم کرتے ہو ۔ کام کرتے ہو)اس کے فعل مجرد ’’عمل‘‘(سمع سے)کے معنی باب وغیرہ پر البقرہ : ۲۵ [۲ : ۱۸ : ۱ (۲)]میں بات ہوئی تھی۔ اور ’’بِمَا تَعْمَلُوْنَ ‘‘کا مصدریت کے ساتھ ترجمہ ’’تمہارے کام‘‘بھی ہوسکتا ہے۔

(۴) ’’ بَصِيْرٌ ‘‘ (خوب دیکھنے والا ۔ ہر وقت دیکھنے والا)جیسا کہ ظاہر ہے اس کا مادہ ’’ب ص ر‘‘اور وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے جو فعل مجرد ’’ بَصِرَہٗ / بَصُرَ بِہ‘‘(. . . .کو دیکھ لینا / دیکھنا)سے صفت مشبہ ہے۔ اس فعل کے استعمال پر بات البقرہ: ۷ [۲ : ۶ : ۱ (۴)] میں اور پھر البقرہ: ۱۷ [۲ : ۱۳ : ۱ (۱۱)]میں ہو چکی ہے۔

صفت مشبہ ہونے کی بنا پر ’’ بَصِيْر ‘‘ کا ترجمہ ہے ’’خوب اچھی طرح اور ہر وقت دیکھنے والا‘‘۔

·       اس طرح اس حصہ عبارت (اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ)کا لفظی ترجمہ ہوگا ’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس کو جو کہ تم کرتے ہو اچھی طرح دیکھنے والا ہے ‘‘ جسے بامحاورہ و سلیس کرنے کے لئے ’’یقینا تم جو کچھ کررہے ہو اللہ اس کا خوب دیکھنے والا ہے ‘‘ کی صورت بھی دی گئی ہے۔ تاہم بعض نے ’’ بَصِيْرٌ ‘‘کا ترجمہ صفت مشبہ کی طرح کرنے کی بجائے صیغہ فعل (یَبْصُرُبِ. . . .)کی طرح کیا ہے یعنی ’’دیکھتا ہے‘‘البتہ بیشتر حضرات نے صفت مشبہ کے دوام اور استمرار والے مفہوم کو ’’دیکھ رہا ہے‘‘کی صورت میں ظاہر کیا ہے اور اکثر نے ’’بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘(جو کچھ بھی تم کرتے ہو) کا ترجمہ ’’ . . . .مَا‘‘کو مصدریہ سمجھتے ہوئے  . . . .تمہارے کام / تمہارے کاموں کو / تمہارے سب کاموں کو / تمہارے سب کئے ہوئے کاموں کو ‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ اور قریباً سب نے ہی عربی عبارت کی ترتیب کے مطابق ابتداء ’’بے شک اللہ / خدا‘‘سے ہی کی ہے (البتہ ایک مترجم نے محاورہ  ہی کی بناء پر ترجمہ کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر کی ہے یعنی ’’یقینا جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو خوب دیکھنے والا ہے)۔ اس طرح عبارت کے اکثر تراجم کی مجموعی صورت کچھ یوں بنتی ہے . . . .’’ یقیناً / بے شک اللہ / خدا / جو  کچھ بھی تم کرتے ہو / تمہارے کام / کاموں کو/ سب کاموں کو / تمہارے کئے ہوئے کاموں کو دیکھتا ہے / دیکھ رہا ہے / کی دیکھ بھال کررہا ہے ‘‘۔

 

۱ : ۶۶ : ۲        الاعراب

بلحاظ مضمون اس قطعہ کو سات جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے پہلے وہ اپنے مضمون کی بناء پر دراصل ایک ہی جملہ بنتے ہیں۔ خیال رہے ’’الاعراب‘‘ کے بیان میں ’’جملہ‘‘سے مراد کم و بیش ایک مستقل مضمون کی بناء پر باہم مربوط عبارت ہوتی ہے جس کا ایک معیار کسی علامت وقف کا استعمال ہے  . . . .ورنہ  خالص نحوی نقطۂ نظر سے تو محض ایک صیغہ فعل بھی مستقل جملہ (فعلیہ ہوتا ہے۔ اس طرح باعتبار مضمون اس عبارت کے اجزاء (جملوں)کی تقسیم اور ہر ایک کی نحوی وضاحت یوں بنتی ہے:

(۱)  وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا

[ودَّ] فعل ماضی (واحد غائب مذکر )ہے [کثیر]اس کا فاعل (لہٰذا)مرفوع ہے اس لئے آخر پر تنوین رفع (ــــٌـــــ)ہے [مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ]یہ پورا مرکب جاری (جس میں حرف الجر ’’مِن‘‘کے بعد مجرور ’’اھل الکتاب ‘‘خود مرکب اضافی ہے یعنی ’’اھل‘‘مضاف لہٰذا خفیف بھی ہے اور ’’الکتاب‘‘مجرور بالاضافہ ہے) فاعل (کثیرٌ)کی صفت کا کام دے رہا ہے [لَوْ]حرف تمنیّ (تمنا)ہے جسے ’’لَو مصدریہ‘‘بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے بعدوالے فعل کو مصدر مؤول کے معنی دیتا ہے۔ [يَرُدُّوْنَكُمْ] میں ’’کُم‘‘تو ضمیر منصوب مفعول بہ ہے اور فعل ’’یردُّون‘‘مضارع کا صیغہ ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھُمْ‘‘بصورت واو الجمع مستتر ہے اور یہ عبارت ’’لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ ‘‘فعل ’’وَدَّ‘‘کا مفعول لہٰذا محلاً منصوب ہے۔ مصدر مؤول کی صورت میں عبارت ’’ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ ‘‘ (گویا)’’رَدَّکم‘‘(تم کو لوٹا دینا)سمجھی جائے گی یعنی ’’ وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ رَدَّکُم‘‘(بہت سے اہل کتاب تم کو لوٹانا چاہتے ہیں)[مِنْ بَعْدِ. . . .] جار (مِنْ)اور مجرور (بَعْد)مل کر ظرف ہیں (دراصل تو ’’بعد‘‘)ظرف زمان ہے جو مجرور بالجر ہوکر آیا ہے) اور ’’بعد‘‘آگے مضاف بھی ہے (ہر ظرف عموماً مضاف ہو کر ہی استعمال ہوتا ہے) [ایمانِکم] مرکب اضافی ہے جس میں مضاف الیہ تو ضمیر مجرور ’’کُم‘‘ہے اور کلمہ ’’اِیمان‘‘جو آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہوگیا ہے اپنے سے ماقبل ظرف (بعد)کا مضاف الیہ بھی ہے، اس لئے اس کی تنوین الجر (ــــٍـــــ) اب صرف ایک کسرہ (ـــــِــــ)رہ گئی ہے۔ [کُفَّاًرا]فعل ’’یردُّون‘‘کا مفعول ثانی ہے (مفعول اول ’’لویردُّونکم‘‘یا ’’رَدَّکم‘‘تھا)۔دراصل تو فعل ’’رَدَّ یَرُدُّ‘‘ (لوٹا دینا) کا مفعول ایک ہی ہوتا ہے لیکن یہاں چونکہ یہ ’’صَیَّرَ‘‘(بنا دینا یعنی . . . .کو. . . .بنا دینا) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس لئے اس کو دو مفعول الاٹ کئے جاسکتے ہیں۔ تاہم بعض نحویوں نے اس (کُفَّارًا)کو ’’یَرُدُّونکم‘‘کی ضمیر مفعول (اول)کا حال قرار دیا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا ’’لوٹا دیں تم کو کافر ہوتے ہوئے / لوٹادیں تم کو اس حالت میں کہ (تم) کافر ہووو‘‘ مگر اِس پیچیدہ ترکیب کو اکثر نحویوں نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔ ویسے ’’حال‘‘ کا اردو ترجمہ بھی فہم سے بالا تر ہی رہ جاتا ہے جبکہ مفعول ثانی کی صورت میں اردو ترجمہ بھی آسان ہے، یعنی ’’وہ تم کو بنانا چاہتے کافر‘‘اور ہمارے تمام مترجمین نے معمولی فرق عبارت کے ساتھ یہی ترجمہ کیا ہے۔

(۲)’’حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ‘‘

یہ عبارت نہ بلحاظ مضمون ایک مستقل جملہ بنتی ہے (جو اپنا مطلب سمجھانے کے لئے کسی دوسری عبارت کا محتاج نہ ہو)اور نہ ہی نحوی اعتبار سے کوئی جملہ بنتا ہے (بلکہ نحوی لحاظ سے تو صرف اس کا آخری حصہ ’’ تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ‘‘ ہی جملہ بن سکتا ہے) دراصل یہ پوری عبارت سابقہ جملے (نمبر ۱)پر، [جو بلحاظ مضمون بھی اور بلحاظ نحو بھی ایک مکمل جملہ ہے اور اسی لئے ’’کُفَّارًا‘‘ کے بعد وقف جائز کی علامت (ج)لکھی ملتی ہے] تبصرہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی کے مضمون کے بعض پہلوؤں کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ لہٰذا یہ نحوی اعتبار سے اسی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور یوں اسی جملہ (نمبر ۱)کا ہی حصہ بنتی ہے اور اسی لئے سابقہ جملے کے آخر پر (کُفَّارًا کے بعد)علامت وقف جائز ’’ج‘‘ کے اوپر ’’صلے‘‘بھی لکھا جاتا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ اگرچہ بلحاظ مضمون ایک جملہ ختم ہوتا ہے، تاہم بلحاظ ترکیب نحوی (اعراب)اس کے مابعد والی عبارت بھی اسی (سابقہ جملے) سے ملی ہوئی بنتی ہے۔ اس عبارت کی وجوہ اعراب کچھ یوں ہیں۔ [حَسَدًا]مفعول لاجلہ (لَہٗ)ہے، اس لئے منصوب ہے۔ علامت نصب تنوین نصب (ــــًـــــ)ہے۔ اور یہ فعل ’’وَدَّ‘‘کا مفعول لہٗ بھی ہوسکتا ہےاور فعل ’’یَرُدُّونَ‘‘کا بھی۔ پہلی صورت میں ترجمہ ہوگا ’’دل سے چاہتے ہیں. . . . ازراہِ حسد‘‘ یعنی ’’بہت سے اہل کتاب دل میں حسد رکھ کر / پنے دل کی جلن سے / اپنے دلی حسد کی وجہ سے / یہ چاہتے ہیں‘‘ اس میں ’’حَسَداً‘‘کا اصل ترجمہ تو ’’حسد رکھ کر / جلن سے / حسد کی وجہ سے ‘‘ ہے۔ باقی ’’دل میں / دل کی / دلی‘‘ کا تعلق دراصل اگلی عبارت ’’ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ ‘‘سے ہے (چاہے ’’حَسَداً‘‘کو ’’وَدَّ‘‘سے متعلق سمجھیں یا ’’یَرُدُّونَ‘‘سے) اردو کے کم از کم تین مترجمین نے اسی طرح (یعنی ’’ حَسَداً ‘‘کو فعل ’’ وَدَّ ‘‘کا مفعول لہ سمجھ کر )ترجمہ کیا ہے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے۔ تاہم بیشتر مترجمین نے دوسری صورت یعنی ’’ حَسَداً ‘‘کو فعل ’’یردُّون (کُمْ)‘‘کا مفعول لہٗ سمجھ کر ترجمہ کیا ہےیعنی تم کو دوبارہ کافر بنانے کی ’’کوشش‘‘ یا ’’عمل‘‘ (جس کا مفہوم خود فعل ’’رَدَّ‘‘میں موجود ہے)کا باعث حسد ہے۔ یہ تراجم حصہ اللّغۃ [(۲ : ۶۶ : ۱ (۳ اور ۴)]میں گزر چکے ہیں یعنی ’’ . . . .کافر بنادیں /کر ڈالیں تم کو محض حسد کی وجہ سے / حسد کی راہ سے جو ان کے نفسوں / دلوں میں ہے / دلی حسدکی وجہ سے / دلوں کی جلن سے ‘‘ وغیرہ کی صورت میں . . . .ان میں سے بعض تراجم میں ’’جو‘‘ کا استعمال ’’ حَسَدًا ‘‘کے نکرۂ موصوفہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور ’’ان کے نفسوں / دلوں / دلی / دلوں کی ‘‘ کے الفاظ کا تعلق اگلی عبارت ’’من عندِ انفسِھم‘‘سے ہی ہے، یعنی ’’حسد‘‘ کا سرچشمہ تو ان کے نفس (دل)ہی ہیں، چاہے یہ حسد ’’خواہش‘‘ (ودّ) کا باعث ہو یا ’’کوشش / عمل ‘‘ (ردّ) کا باعث ہو۔

[مِّنْ عِنْدِ. . . .]جار (مِنْ)اور مجرور (صرف مضاف ’’عِنْدَ‘‘)ہیں جس کی وجہ سے ’’عِنْدَ‘‘کی دال کی کسرہ (ـــــِــــ)آئی ہے اور ’’مِنْ‘‘یہاں ابتداء الغایۃ کے لئے ہے جسے میں ابتدائیہ بھی کہتے ہیں  ۔ دیکھئے [۲ : ۲ : ۱ (۵)]. . . .یعنی  یہ بتاتی ہے کہ اس (حسد) کا منبع کہاں ہے ؟  . . . .اور  یہ [. . . .انفسھم]ہے۔ یہ مرکب اضافی جس میں آخری ’’ھُم‘‘تو ضمیر مجرور ہے اور کلمہ ’’انفُس‘‘ سابقہ ظرف (عِندَ)کا مضاف الیہ ہونے کے باعث مجرور بھی ہے مگر آگے (’’ھم‘‘کی طرف)مضاف ہونے کے باعث اس کی تنوین الجر (ــــٍـــــ)خفیف ہو کر کسرہ (ـــــِــــ) رہ گئی ہے . . . .یوں اس پورے مرکب جاری (مِن عندِ انفُسِھم)کا تعلق ’’حَسَدًا‘‘سے ہی ہے، چاہے ’’حَسَدًا ‘‘کا تعلق جس بھی فعل سے ہو ۔ [مِّنْۢ بَعْدِ مَا. . . .]’’ مِّنْۢ بَعْدِ. . . . ‘‘ ابھی اوپر جملہ نمبر۱ میں (مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْمیں)گزرا ہے اور مندرجہ بالا’’ مِّنْ عِنْدِ ‘‘کی نحوی پوزیشن بھی وہی ہے، یعنی حرف الجر (مِنْ)کے بعد ظرف (بَعْد / عند)مجرور اور آگے مضاف ہیں۔ البتہ یہاں (زیر مطالعہ حصہ عبارت میں)اگلا مضاف الیہ کوئی ایک اسم یا مرکب اضافی (ایمانکم / انفسھم کی طرح)کا نہیں بلکہ یہ مضاف الیہ ’’ما‘‘سے شروع ہونے والا ایک جملہ فعلیہ ہے جس کے ساتھ یہ ’’ما‘‘مصدریہ ہو کر اس فعل کو مصدر موؤل بھی بنا سکتا ہے . . . .بعینہ  اسی ترکیب (مِن بعدماَ. . . .)اور اس کے ’’ما‘‘کی مصدریت کے لئے دیکھئے البقرہ: ۷۵ [۲ : ۴۷ : ۱ (۵)] اور اسی چیز (ما مصدریہ)کا ذکر یہاں بھی (ابھی آگے)ہوگا۔ [تَبَیَّن]فعل ماضی ہے۔ [لَھُمْ]یہ مرکب جاری (لام الجر ’’لِ‘‘ + ضمیر مجرور ’’ھُم‘‘)اس فعل (تَبَیَّن)سے متعلق ہے۔ اس (لِ)کا اردو ترجمہ اس فعل (تَبَیَّن) کے ساتھ بصورت ’’پر‘‘کرنا پڑتا ہے . . . .دیکھئے  اوپر [۲ : ۶۶ : ۱ (۴)] میں۔ [الحَقّ]فعل ’’ تَبَیَّن ‘‘کا فاعل (لہٰذا)مرفوع ہے۔ اصل میں اس کی سلیس عبارت ’’مِن بعد ما تبیَّنَ الحقُّ لھم‘‘ بنتی ہے۔ اردو ترکیب  جملہ میں اس ’’لھم‘‘کا ترجمہ آخر پر بھی کرسکتے ہیں اور ’’مِن بَعدِ مَا‘‘کے فوراً بعد بھی اور ’’مَا‘‘کو مصدریہ سمجھ لیں تو عبارت (مقدر یا مؤول)بنے گی۔ ’’ مِّنْۢ بَعْدِ تَبَيَّنَ الْحَقُّ لَہُم ‘‘(بعد واضح ہوجانے حق کے ان پر / حق کے ان پر واضح ہوجانے کے بعد)تاہم ہمارے اکثر مترجمین نے اس (مصدریت والے)ترجمہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’ تَبَيَّنَ ‘‘کا بطور فعل (ظاہر ہوچکا / ہوگیا وغیرہ)ہی ترجمہ کیا ہے۔ صرف ایک ترجمہ بصورت ’’ظاہر / واضح ہوئے پیچھے ‘‘ آیا ہے، اس میں ’’واضح ہوئے‘‘ بظاہر ’’واضح ہونے‘‘ کے (مصدری)مفہوم میں ہی آیا ہے اور یہ پورا مرکب (مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُم الْحَقُّ) بھی (حَسَدًا’’ مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ ‘‘ کی طرح)یا تو فعل ’’وَدَّ‘‘سے متعلق ہے، یعنی حق واضح ہونے کے بعد بھی ازراہ حسد یہ خواہش رکھتے ہیں اور یا پھر فعل ’’یَردُوُّنَ‘‘سے متعلق ہے یعنی حق واضح ہونے کے بعد بھی ازراہ حسد اس کوشش میں ہیں کہ تم کو لوٹا دیں۔ اسی کوشش کے مفہوم کو بعض مترجمین نے ’’کسی طرح لوٹا دیں / پھیر دیں‘‘ سے ظاہر کیا ہے۔ ’’لَوْ‘‘کے ’’کاش کہ ‘‘ میں بھی ’’ یہ کس طرح‘‘ (کے عمل یا کوشش)کامفہوم موجود ہے۔ اور چونکہ اس پوری عبارت یادونوں عبارتوں (حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ اور مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ)کا ترجمہ جملہ نمبر۱ کے فعل ’’وَدَّ ‘‘ یا ’’یَرُدُّونَ‘‘سے بنتا ہے اس لئے اردو کے ایک آدھ مترجم نے عبارت کی اصل عربی ترتیب کی بجائے اجزائے جملہ کی اردو ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجمہ ’’اکثر اہل کتاب (كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتَابِ)باوجودیکہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے (مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ)اپنے دلی حسد کی وجہ سے (حَسَدًا من عندِ انفُسٍھم)چاہتے ہیں (ودَّ)‘‘کی صورت میں کیا ہے۔ مفہوم تو درست ہے مگر ترجمہ میں ’’محاورے کا ہیضہ‘‘بھی واضح ہے۔

(۳) فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ

[فَاعْفُوْا] ’’اُعْفُوا‘‘(فعل امر حاضر)سے پہلے والی فاء (فَ)یہاں’’فاء فصیحۃ‘‘کے طور پر آئی ۔ یعنی فاء رابطہ جو کسی مقدر (غیر مذکور )شرط کے جواب کے طور پر آتی ہے۔ دیکھئے البقرہ: ۹۱[۲ : ۵۶ : ۲ (۵)]میں۔ یہاں یہ مقدر شرط کچھ یوں بنتی ہے ’’اذا کان امرھم کذلک فاعفوا. . . . ‘‘(جب ان کا معاملہ یوں ہی ہے تو. . . .)یہاں ’’کذلک‘‘ان کے اوپر بیان کردہ رویہ کے لئے ہے [وَاصْفَحُوْا]میں ’’و‘‘عاطفہ ہے اور ’’ اصْفَحُوْا ‘‘فعل امر حاضر ہے۔ یہاں ان دونوں افعال (اعفوا اور اصفحوا)کے مفعول محذوف ہیں۔ یعنی یہ نہیں بیان ہوا کہ ’’کن‘‘سے اور ان کے ’’کون سے‘‘فعل سے درگزر کرو، مگر سیاق عبارت سے ’’اہل کتاب کی اکثریت کے عزائم اور منصوبے‘‘ سمجھے جاسکتے ہیں۔ [حَتّٰی]یہاں بطور حرف نصب آیا ہے جس کے بعد ایک مقدر ’’أن‘‘کے باعث مضارع منصوب ہوجاتا ہے اور اسی لئے [یَأُتِیَ]فعل مضارع منصوب ہے۔ علامت نصب آخری ’’ی‘‘ (لام کلمہ)کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے۔ اور چونکہ ’’اَن‘‘(یعنی ’’ حتی اَن‘‘ والا مقدر)مصدریہ بھی ہوتا ہے اس لئے مصدر مؤول کے ساتھ ’’حَتّٰی‘‘(حرف الجر ہوکر )’’ حَتّٰى يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ‘‘سے مقدر یا مٔوول عبارت بصورت ’’ حَتّٰى اِتیانِ امرِ اللہ ‘‘(یعنی اللہ کے حکم آنے تک)بنے گی۔ تاہم یہ خواہ مخواہ کی فنی پیچیدگی اور محض فعل کا مصدر بنانے کی مشق ہے، اس لئے ہمارے کسی مترجم نے بھی اسے اختیار نہیں کیا، بلکہ سب نے سیدھا سادہ فعل کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اس بناء پر اسم جلالت [اللہ]یہاں اس فعل (یاتی)کا فاعل (لہٰذا)مرفوع ہے۔ [بامرہٖ]کی ابتدائی باء (بِ)وہ صلہ ہے جو فعل ’’أَتَی۔آنا ‘‘پر لگ کر اسے ’’ . . . .کو لانا، لے آنا، لے آنا‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ باقی حصہ ’’امرہ‘‘مرکب اضافی ہے جس میں ’’امر‘‘مضاف ہے جو باء (بِ)کی وجہ سے مجرور اور آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہے، یعنی اس کی تنوین ایک کسرہ (ــــــِــــ)میں بدل گئی ہے اور آخر پر ضمیر مجرور (ہ)ہے۔ یوں یہ پورا مرکب جاری (بامرِہ)متعلق فعل ’’یاتی‘‘ہے اور آپ اسے اس کا مفعول (لہٰذا محلاً منصوب)بھی کہہ سکتے ہیں۔

(۴)  اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ . . . .بعینہ یہی جملہ سب سے پہلے البقرہ: ۲۰ میں آیا تھا اس کے اعراب کے لئے دیکھئے [۲ : ۱۵ : ۲] کے آخر پر۔

(۵) وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ . . . .  بعینہ یہی عبارت جو دو جملوں پر مشتمل ہے سب سے پہلے البقرہ: ۴۳ میں گزری ہے۔ اس کی اعرابی بحث کے لئے دیکھئے [۲ : ۲۹ : ۲] میں جملہ نمبر۲۔ اس کے بعد یہی عبارت البقرہ: ۸۳ میں بھی آئی تھی، جس کے اعراب پر بات [۲ : ۵۱ : ۲]میں جملہ نمبر ۵ میں ہوئی تھی۔

(۶) وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ

[وَ]مستانفہ ہے۔ یہاں سے ایک الگ مضمون شروع ہوتا ہے۔ اسی لئے اس سے پہلی عبارت کے آخر پر وقف مطلب (ط)ہے۔ [مَا]موصولہ شرطیہ ہے بمعنی ’’جو کچھ بھی کہ‘‘جو یہاں اگلے فعل الشرط (تُقَدِّمُوْا)کا مفعول مقدم ہوکر محل نصب میں ہے۔ مبنی ہونے کی وجہ سے ’’مَا‘‘میں ظاہراً کوئی علامت نصب نہیں ہے۔ [تُقَدِّمُوْا]فعل مضارع مجزوم (صیغہ جمع مذکر حاضر )ہے۔ جزم کی وجہ اس سے پہلے اسم الشرط جازم (مَا)کا آنا ہے اور اس (فعل الشرط)کی علامت جزم آخری نون (اعرابی)کا گر جانا ہے۔ اب اس کے واو الجمع میں ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘شامل ہے۔ [لِاَنْفُسِكُمْ]یہ مرکب جاری جو لام الجر (لِ)+ انفُس + کم کامرکب ہے اور جس میں ’’انفسکم‘‘مرکب اضافی ہے اور ’’انفس‘‘مجرور اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے۔ علامت جر کسرہ (ــــــِــــ)ہوگئی ہے۔ یہ پورا مرکب جاری (لانفُسِکم)فعل ’’تقدِّموا‘‘سے متعلق ہے اور [مِن خَیْر] جار (مِن)+ مجرور (خَیْرٍ)مل کر اس فعل (تُقَدِّمُوا)کے مفعول مقدم (مَا)کی صفت یا تمیز ہے جس میں ’’مِن‘‘تبعیضیہ بھی ہوسکتا ہے اور بیانیہ بھی۔ دیکھئے [۲ : ۲ : ۱ (۵)] یہاں تک کہ حصہ عبارت (وَما تقدِّموا لانفسِکم مِن خیرٍ) کی سلیس و سادہ شکل (فعل فاعل مفعول کی عام ترتیب کے مطابق )’’وَما تقدِّموا میں خیرٍ لانفسِکم‘‘ ہوتی ۔ اب ’’لِانَفُسِکم‘‘کی تقدیم سے اس میں ’’اپنی ہی جانوں کے لئے / اپنے ہی لئے ‘‘ کا مفہوم ہے۔ [تَجِدُوہٗ]کی آخری ’’ہ‘‘تو ضمیر منصوب (مفعول) ہے اور ’’تَجِدُوا‘‘(ضمیر مفعول کے بغیر واو الجمع کے بعد الف الوقایہ لکھنا ضروری ہوتا ہے)فعل مضارع مجزوم ہے۔ جزم کی وجہ جو اب شرط میں آنا ہے اور علامت جزم آخری نون کا گرنا ہے (دراصل صیغہ مضارع ’’تَجِدُون‘‘تھا) اور واو الجمع میں ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘موجود ہے۔ یہاں فعل ’’وجَد یجِد‘‘صرف ایک مفعول کے ساتھ بمعنی ’’پالینا / حاصل کرنا‘‘آیا ہے۔ [عندَ اللہِ] میں ’’عِنْدَ‘‘ظرف مکان مضاف (لہٰذا)منصوب ہے، علامت نصب ’’د‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے اور اسم جلالت اس کا مضاف الیہ ہوکر مجرور ہے اور یہ مرکب ظرفی فعل ’’تَجِدُوا‘‘سے متعلق ہے، یعنی اس میں ’’کہاں / کس جگہ پاؤ گے‘‘ کا جواب ہے۔

(۷) اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ  . . . .اس سے ملتا جلتا جملہ ’’وَاللہُ بصیرٌ بما یَعْمَلون‘‘البقرہ: ۹۶ میں گزرا ہے جس کے اعراب پر [۲: ۵۹ : ۲] کے جملہ نمبر۵ میں بات ہوچکی ہے۔ بہرحال یہاں جملہ [اِنَّ]حرف مشبہ بالفعل سے شروع ہوتا ہے اور اسم جلالت [اللہ]اس ’’اِنَّ‘‘کا اسم ہوکر منصوب ہے۔ [بِمَا]باء جارہ یہاں فعل (بصُربِہ ۔ کو دیکھنا)کے صلہ والی ہے اور ’’مَا‘‘اسم موصول مجرور (بِالبَاء)ہے اور ’’مَا‘‘ مبنی ہے، اس لئے اس میں ظاہراً کوئی علامت جر نہیں ہے۔ [تعمَلُون] فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘شامل ہے اور یہ جملہ فعلیہ (فعل فاعل)ہوکر موصول ہے جس میں ضمیر عائد محذوف ہے ، یعنی دراصل ’’تعمَلونہٗ‘‘تھا۔ اور یہ صلہ موصول (مَا تعمَلون)باء الجر کے ساتھ (بصورت ’’بَما تعمَلوُن‘‘متعلق خبر مقدم ہے اور [بَصِیرٌ]خبر ’’اِنَّ‘‘(لہٰذا)مرفوع ہے جملے کی سادہ نثر ’’ اِنَّ اللہَ بَصِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ‘‘بنتی ہے جس میں رعایت فاصلہ کی بناء پر متعلق خبر (بما تعمَلون)کو مقدم کر دیا گیا ہے۔ خیال رہے فعل ’’یبصُرب اور صفت مشبہ ’’بصیرٌبِ . . . . ‘‘دونوں کا مطلب تو ’’ . . . .کودیکھتا / دیکھنے والا ‘‘ بنتا ہے مگر صفت مشبہ میں دوام و استمرارکا مفہوم ہے جیسا کہ حصہ ’’اللّغۃ‘‘میں بیان ہوا۔

 

۲ : ۶۶ : ۳       الرّسم

بلحاظ رسم مطالعہ قطعہ میں صرف چار لفظ قابل ذکر ہیں یعنی ’’الکتٰب، ایمَانُکم ، الصلٰوۃ اور الزکٰوۃ‘‘. . . .ان میں سے ’’ایمانکم‘‘کا رسم عثمانی مختلف فیہ ہے۔ باقی تین کا رسم متفق علیہ ہے۔ یہ چاروں الفاظ پہلے بھی گزر چکے ہیں . . . .’’الکتب‘‘ کے رسم کے لئے دیکھئے البقرہ: ۲ [۲ : ۱ : ۳] میں نمبر۲۔ ’’ایمانکم‘‘کے لفظ ’’ایمان‘‘ کے رسم کے اختلاف کے لئے دیکھئے البقرہ: ۹۳ [۲ : ۵۷ : ۳] میں نمبر۶۔ ’’الصلوۃ‘‘ کے رسم پر بحث کے لئے دیکھئے البقرہ: ۳ [۲ : ۲ : ۳] میں نمبر۱ اور پھر ’’الصلٰوۃ اور الزکٰوۃ‘‘دونوں کے رسم کے لئے دیکھئے البقرہ: ۴۳ [۲ : ۲۹ : ۳]میں نمبر۲۔

 

۲ : ۶۶ : ۴      الضبط

اس قطعہ سے صرف بعض چیدہ الفاظ (مفرد و مرکب)کے ضبط بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔ اکثر الفاظ پہلے متعدد بار گزر چکے ہیں یا ان کے ضبط میں صرف حرکات کی شکل کا اختلاف ہے۔

 

 

 



[1] دیکھئے ’’مقاییس اللغۃ‘‘ ج۴ ، ص ۵۸۔