سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۱ اور ۱۲

۹:۲ وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَ رْضِ    ۙ   قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ    (۱۱) اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ  (۱۲)

۱:۹:۲      اللغۃ

۱:۹:۲ (۱) [ وَاِذَ] ’’ وَ ‘‘ تو ’’اور‘‘ کے معنی میں ہے۔ اور ’’اِذَا‘‘ حرف ہے۔ خیال رہے کہ کلمہ کی اس قسم یعنی کسی ’’حرف‘‘ کے مادہ یا وزن کی بات عموماً نہیں کی جاتی۔ بعض ’’حرف‘‘ بلحاظ مادہ صرف ایک یا دو حروف  پرمشتمل ہوتے ہیں۔[1] مثلاً ’’ وَ ‘‘ یا ’’فی‘‘ اور بعض تین یا اس سے زیادہ حروف مل کر بنے ہوتے ہیں مثلاً ’’عَلٰی‘‘ یا ’’لَعَلَّ‘‘ وغیرہ۔ یہ اپنے ’’ڈھانچہ‘‘ کے لحاظ سے یک حرفی، دو حرفی یا  سہ حرفی ’’مادہ‘‘ پر مشتمل سمجھتے جاتے ہیں اور عربی معاجم (ڈکشنریوں) میں یہ اسی ترتیب کے لحاظ سے مناسب جگہ پر بیان ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’وَ‘‘ پر ’’واو کی پٹی‘‘ (باب الواو) کے شروع میں بات ہوگی اور ’’فِیْ‘‘ پر ’’ف و و‘‘ کے بعد اور ’’ف ی أ ‘‘سے پہلےـــ اور ’’علی‘‘ کے معانی اور استعمالات ’’ع ل و‘‘ کے بعد مگر ’’ع م …‘‘ کی ’’پٹی‘‘ سے پہلے بیان ہوں گےـــ اسی طرح اس حرف ’’ اذا ‘‘ کے معانی و استعمال کی وضاحت مادہ ’’اذی‘‘ کے بیان کے بعد ملے گیـــ یعنی حروف کو ڈکشنریوں میں عموماً ان کی ابجدی ترتیب کے مطابق جگہ دی جاتی ہے۔ اس لیے کہ ان کی بناوٹ میں کوئی تبدیلی یا تعلیل واقع نہیں ہوتی۔

·       بہر حال یہ حرف (اذا) زیادہ تر دومعنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے:۔

۱۔      ’’جب، جب کبھی یا جب بھی‘‘ کے معنی میںـــ اور اس وقت اسے ’’ اذا  ظرفیہ یا شرطیہ‘‘ کہتے ہیں۔

۲۔     ’’تو اچانک، ٹھیک اسی وقت، وہیں، ناگہاں، دیکھا تو‘‘ کے معنوں میں اور اس وقت اسے ’’ اذا فجائیہ‘‘ کہتے ہیں۔

·       ’’ اذا ‘‘ظرفیہ عموما زمانہ مستقبل کے لیے آتا ہے ـــ اور چونکہ اس میں شرط کا مفہوم ہوتا ہے اس لیے بھی اس سے حال یا مستقبل (زمانہ) ہی سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ شرط ماضی پر نہیں آتی۔ تاہم استعمال کے لحاظ سے ’’ اذا  ظرفیہ‘‘ کے بعد زیادہ تر فعل ماضی کا صیغہ آتا ہے(یعنی بصورت جملہ فعلیہ)۔ اگرچہ کبھی فعل مضارع اور بہت کم اس کے بعد کوئی اسم(بصورت جملہ اسمیہ) آتاہے۔ شرط اور مستقبل کے مفہوم کی بناء پر ’’ اذا ‘‘ کے بعد آنے والے فعل ماضی کا ترجمہ حال یا مستقبل میں ہی کیا جاتاہے۔  کبھی ’’ اذا ‘‘ صرف ’’لمّا‘‘ الحینیہ (بمعنی ’’جب‘‘) استعمال ہوتا ہے تو اس سے فعل ماضی ہی سمجھا جاتا ہے۔

·       ’’ اذا  فجائیہ‘‘ کے بعد  عموماً کوئی اسم یا کوئی پورا جملہ اسمیہ آتا ہے۔ اور یہ ابتدائے کلام میں استعمال نہیں ہوتا۔ ’’اذا شرطیہ‘‘ کے برعکس اس کو کسی جواب (شرط) کی ضرورت نہیں ہوتی۔

        ’’ اذا  ظرفیہ‘‘ شرطیہ یا غیر شرطیہ اور ’’ اذا  فجائیہ ‘‘ کی مختلف مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ بلکہ بعض جگہ ایک ہی آیت میں دونوں قسم کے ’’ اذا ‘‘ اکٹھے بھی آجائیں گے۔ ان سب پر اپنے اپنے موقع پر بات کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۱:۹:۲(۲)     [قِيْلَ] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فُعِلَ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’قُوِلَ‘‘ تھی۔عربوں کی زبان پر واوِ مکسورہ ماقبل مضموم کا تلفظ ثقیل (گراں) گزرتا ہے۔ اس کے لیے وہ یا تو ’’واو‘‘ کو ساکن کردیتے ہیں۔ چنانچہ بعض قبائل اسے ’’قُوْلَ ‘‘ بولتے ہیں [2]    تاہم اکثر یہاں ’’واو‘‘ کو بھی ’’یاء‘‘ (ی) میں بدل دیتے ہیں اور پھر اس ’’ی‘‘ سے پہلے اس کے موافق حرکت یعنی کسرہ (ــــــِــــ)  دے دیتے ہیں اور یوں یہ لفظ ’’ قِيْلَ ‘‘ بن جاتا ہے۔ اور یہی لغات زیادہ فصیح سمجھی جاتی ہے۔ اس مادہ (قول) سے فعل ثلاثی مجرد ’’قال یقول قولاً‘‘ (نصر سے) بمعنی ’’کہنا، بات کرنا‘‘ آتا ہے اس کے معنی اور طریقِ استعمال وغیرہ پر پہلے البقرہ:۸ میں بات ہوچکی ہے۔[دیکھیے ۱:۷:۲(۵)]۔زیر مطالعہ لفظ (قِيْلَ) اس فعل مجرد سے ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور اس کا ترجمہ ’’کہا گیا‘‘ ہونا چاہئے۔ مگر اس سے پہلے ’’اِذا‘‘ ظرفیہ شرطیہ آجانے کی وجہ سے اب اس کا ترجمہ حال یا مستقبل کے ساتھ ہوگا۔ یعنی ’’جب بھی کہا جاتا ہے‘‘ یا ’’جب بھی کہا جائے گا‘‘۔

[لَھُمْ] جو  لَ+ھم کا مرکب ہے۔ اس میں ’’لَ‘‘ تو لام الجر ّ ہےجو ضمائر کے ساتھ مفتوح آتی ہے۔ اور ’’ھم‘‘ ضمیر مجرور ہےـــ یہاں ’’لام‘‘ فعل ’’قال‘‘ کے ساتھ استعمال ہونے والا صلہ  ہے [تفصیل کے لیے دیکھیے ۱:۲:۱(۲)]خیال رہے کہ جب ’’ قال ‘‘بطور فعل مجہول استعمال ہو جس سے بات کی جائے وہ کوئی ضمیر ہوتو دوسرے افعال کی طرح اس کی گردان قِیْل، قِیْلَا، قِیْلُوْا … وغیرہ استعمال نہیں ہوتی کیونکہ اس کے مفعول (جس سے بات کی جائے) سے پہلے لام الجر بطور صلہ آتا ہے اور صلہ کے ساتھ استعمال ہونے والے فعل کا مجہول اپنے صلہ کے ساتھ ضمیروں کے بدلنے سے استعمال ہوتا ہے مثلاً کہیں گے۔ قِیْلَ لَہُ۔ قِیْلَ لَھُمَا، قِیْلَ لھم، قیل لھَا الخـــ صلہ کے ساتھ استعمال ہونے والے فعل کے مجہول (مبنی للمفعول) استعمال کی ایک دوسری مثال اور وضاحت کے لیے دیکھیےالفاتحہ :۷ میں ’’غضب‘‘ کی بحث[۱:۶:۱ (۵) میں ]اس طرح یہاں ’’لَھُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’ان کے لیے‘‘ کی بجائے ’’ان کو ‘‘ یا ’’ان سے‘‘ہوگا۔

۱:۹:۲(۳)    [لَا تُفْسِدُوْا] اس کامادہ ’’ف س د‘‘ اور وزن ’’لَا تُفْعِلُوْا‘‘ ہے۔ جس کے شروع میں ’’لَا‘‘ برائے ’’نھی‘‘ ہے۔ یعنی یہ فعل نھی کا صیغہ ہےـــ اس  مادہ سےفعل ثلاثی مجرد ’’فسَد یفسُد فسادًا‘‘ (زیادہ تر باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہوتے ہیں: ’’بگڑ جانا، خراب ہوجانا‘‘ پھر اس سے ’’خوبیوں سے خالی ہونا، بُری حالت میں ہونا، حدِ اعتدال سے گزرنا، نظام میں گڑ بڑ ہونا، بربادی اور تباہی کی حالت میں ہونا‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور ان ہی معنوں کے لئے یہ بعض دفعہ باب ’’ضَرب‘‘ اور باب ’’کرُم‘‘ سے بھی آتا ہے۔ اور یہ ہمیشہ بطور فعل لازم ہی آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد) کا ماضی کا صیغہ تین جگہ (البقرہ:۲۵۱، الانبیاء:۲۲ اور المؤمنون:۷۱) پرآیا ہے (ہر جگہ ماضی مفتوح العین کے ساتھ)  ۔قرآن کریم میں اس مادہ سے زیادہ تر باب اِفعال سے مختلف افعال اور دیگر مشتقات استعمال ہوئے ہیں۔ (۳۶ جگہ) سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’ لَا تُفْسِدُوْا ‘‘ بھی اس مادہ (فسد) سے باب افعال کا فعل نہی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ باب افعال سے اس فعل ’’اَفْسَد…یُفْسِد، اِفسادًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’…کو بگاڑ دینا‘‘، ’’…کو خراب کردینا‘‘، ’’…کے نظام میں گڑبڑ کردینا‘‘ یا ’’ابتری پھیلانا ‘‘ـــ یعنی یہ فعل متعدی ہوتا ہے۔ (اگرچہ یہ کبھی بطور لازم بمعنی ’’فَسَدَ‘‘ بھی استxعمال ہوتا ہے)۔ اس کا مفعول اس کے ساتھ بنفسہٖ(بغیر صلہ کے) آتا ہے جیسے قرآن کریم میں ایک جگہ آیا ہے۔

        اَفْسَدُوْهَا (النمل :۳۴) چونکہ اس مادہ (فسد) کے فعل مجرد کا مصدر’’فساد‘‘ اردو میں مستعمل ہے (اگرچہ اپنے اصل عربی مفہوم سے ذرا ہٹ کر) اس لیے اردو میں ’’اِفساد‘‘ (مصدر اِفعال) کا ترجمہ ’’فساد ڈالنا، فساد کرنا اور زیادہ تر فساد پھیلانا‘‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔

۱:۹:۲(۴)     [فِى الْاَ رْضِ] میں ’’فِی‘‘ تو حرف الجر بمعنی ’’میں‘‘ ہے۔اور الأ رض (جو معرف باللام ہے) کا مادہ ’’ارض‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد باب نَصر، کرُم اور سمِعَ سے مختلف معنوں (مثلاً زمین کا نباتات سے بھر جانا یا لکڑی کودیمک لگ جانا وغیرہ) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دیمک کو عربی میں ’’اَرضۃ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ وہ جس چیز کو کھاتی ہے اسے مٹی کی مانند کردیتی ہے۔ دو سری طرف زمین کو ’’ارض‘‘ کہنے میں یہ مناسبت بھی ہے کہ زمین بھی ، جو اس کے اندر جاتا ہے، اسے دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ عربی زبان میں یہ مادہ (ارض) مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتّہ لفظ ’’ارض‘‘ مختلف صورتوں ـــمفرد مرکب معرفہ نکرہ  وغیرہ ـــ میں ساڑھے چار سو(۴۵۰ )سے زیادہ دفعہ وارد ہوا ہے۔

·       لفظ ’’ارض‘‘ مؤنث سماعی ہے مگر خلافِ قیاس اس کی جمع مذکر سالم کی طرح ’’ارضون ـــ ارضین‘‘ بھی آتی ہے اور مکسر جمع کئی طرح بنتی ہے۔ زیادہ مشہور ’’اراضیٍ‘‘ ہے جو (معمولی فرق کے ساتھ) اردو میں بھی مستعمل ہے۔ (قرآن کریم میں اس (ارض) سے جمع کا کوئی لفظ نہیں آیا ہے)ـــ اردو میں اس کا ترجمہ زیاہ تر’’زمین‘‘ کیاجاتا ہے۔ اور جب یہ لفظ معرف باللام ہو (الا رض) تو عموماً اس سے مراد پورا’’کرہ ارضی‘‘ ہوتا ہے۔ یعنی EARTH PLANET جس پر ہم رہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے کبھی کوئی خاص خطہ زمین یا ’’منطقہ‘‘ بھی مراد ہوتا ہے۔ ۔۔اور جب یہ نکرہ (ارض)استعمال ہو تو اس سے مراد بالعموم ’’کرّہ زمین کا کوئی خطہ یا حصّہ‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اس وقت اس کا ترجمہ ’’علاقہ، ملک، یا سرزمین‘‘ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

·       زیر مطالعہ آیت میں لَا تُفْسِدُوْا (فساد مت ڈالو /پھیلاؤ /کرو) کے بعد ’’ فى الا رض ‘‘ کا لفظی ترجمہ (زمین میں) ہی بہتر ہے۔ اگرچہ بعض مترجمین نے شاید اردو محاورے کے مدِّنظر رکھتے ہوئے اس (فی الارض) کا ترجمہ ’’زمین پر‘‘ سے بھی کیا ہے جو اصل عربی لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔ اس لیے کہ عربی میں ’’افسد علی الارض‘‘ کہنا درست نہیں ہے مگر اردو میں ’’زمین پر‘‘ یا ’’زمین میں فساد‘‘ دونوں طرح درست ہے۔

[قَالُوا] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوا‘‘ ہے۔ شکل اصلی ’’قَوَلُوْا‘‘ تھی جس واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لفظ ’’ قالوا ‘‘ بن گیا۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے معنی واستعمال پر بات گزر چکی ہے [۱:۷:۲ (۵)پر]فعل ماضی کا صیغہ ہونے کی وجہ سے ’’ قالوا ‘‘ کا ترجمہ ’’انہوں نے کہا‘‘ ہونا چاہئیے تھا مگر اس سے پہلے جملے میں ’’اذا‘‘ کے آجانے کی وجہ سے (جو ظرفیہ شرطیہ ہے) اور ’’جواب ِ شرط‘‘ ہونے کی وجہ سے اب اس کا ترجمہ ’’تو کہتے ہیں/ کہیں گے‘‘ سے ہوگا۔

۱:۹:۲(۵)     [اِنَّمَا] یہ دراصل اِنَّ +مَا ہے۔ یہ ’’ما‘‘ زائدہ کہلاتا ہے اس لیے کہ یہاں یہ نہ تو نافیہ ہوسکتا ہے نہ استفہامیہ اور نہ ہی موصولہ ۔ تاہم یہ زائد بمعنی ’’بے کار یا فالتو‘‘ نہیں ہے (اور اس معنی میں قرآن کے اندر کوئی لفظ بلکہ حرف بھی زائد نہیں ہے) بلکہ اس سے عبارت میں ایک ’’حصر‘‘ (پابندی) اورتاکید کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور اس ’’ ما‘‘ کو ’’مائے کا فّہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ (ما) اپنے سے پہلے والے ’’اِنَّ یا اَنَّ ‘‘ کا عمل (نصب دینا) بھی روک دیتا ہے۔ اور اس (انما) کے بعد کوئی فعل بھی آسکتا ہے جب کہ صرف ’’ اِنَّ ‘‘ کے بعد تو کوئی اسم ہی آتا ہے۔ ۔۔یہ ’’ انّما ‘‘ ہمیشہ موصول (یعنی ’’ اِنَّ ‘‘ اور ’’ ما‘‘ کوملا کر انما) لکھاجاتا ہے اور اب یہ ایک ہی کلمہ شمار ہوتا ہے۔ اور اس کا مفہوم تو ہے ’’بات/حقیقت تو صرف اتنی ہی ہے کہ‘‘…جس کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’سوائے اس کے نہیں کہ ‘‘ سے یا مزید مختصر کرتے ہوئے ’’صرف‘‘، ’’فقط‘‘ یا ’’محض‘‘ سے بھی ہوسکتا ہے۔ جس کا کام اردو لفظ ’’تو‘‘ بھی دیتا ہے۔ اور اسی لیے اکثر اردو مترجمین نے اگلی ضمیر (نحن) سمیت [انما نحن] کا ترجمہ ’’ہم تو‘‘ ہی سے کیا ہے۔ البتہ بعض نے اس کا ترجمہ ’’ہمارا کام تو‘‘ سے بھی کیا ہے۔ لیکن اس محاورے کی وجہ سے پھر اگلے لفظ (مصلحون) کا ترجمہ بھی اسم فاعل کی بجائے مصدر (اصلاح) سے کرنا پڑا جو محاورہ و مفہوم کے لحاظ سے درست مگر اصل عبارت سے بعید ہے۔

۱:۹:۲(۶)     [مُصْلِحُوْن] کا مادہ ’’ص ل ح‘‘ اور وزن ’’مُفعِلُونَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد عموماً باب نصر سے اور بعض دفعہ باب ’’فتَح‘‘یا ’’سمِعَ‘‘ اور ’’کرُم‘‘ سے بھی آتا ہے اور ہر صورت میں اس کے معنی ’’ٹھیک ہونا، ٹھیک کام کرنا، نیک ہونا، اچھا ہونا، کھراہونا، دیانت دار ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ یعنی یہ فعل لازم ہے اور ’’صلاح‘‘، ’’صلاحیۃ‘‘، ’’صُلْح‘‘ اور ’’مصلحۃ‘‘ اس کے مختلف مصادر ہیں جن میں سے بعض (قدرے معنوی فرق کے ساتھ) اردو میں بھی مستعمل ہیں (البّتہ قرآن کریم میں ان میں سے صرف لفظ ’’صُلْح‘‘ آیا ہے) قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے فعل ماضی کے صرف دو صیغے استعمال ہوئے ہیں (الرعد:۲۵ اور المؤمن:۸) البتہ اس سے مشتق اسم الفاعل (صالح) مختلف صورتو ں (واحد جمع مذکر مؤنث وغیرہ) میں اورمصدر (صلح) ایک سو کے قریب مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’ مصلحون‘‘ اس مادہ (صلح) سے بابِ افعال کا صیغہ اسم الفاعل (جمع سالم مذکر) ہے۔ اور اس باب سے فعل اَصلح… یُصْلِح اصلاحًا کے معنی ’’…کو ٹھیک کرنا، …کو سنوارنا، … کی اصلاح کرنا‘‘ ہیں بلکہ عربی لفظ ’’اصلاح‘‘ جو باب افعال کا مصدر ہے، اپنے اصل عربی معنوں کے ساتھ اردو میں متعارف اور متداول ہے۔ البتہ اردو میں مصدری معنی پیدا کرنے کے لیے بعد میں کوئی مصدر لگادیتے ہیں۔ مثلاً ’’اصلاح کرنا‘‘، ’’اصلاح ہونا‘‘ وغیرہ۔

·       اس طرح ’’ مصلحون‘‘ کا ترجمہ ’’اصلاح کرنے والے، سنوارنے والے، صلح کرانے والے‘‘ ہے۔ بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ’’سنوارتے ہیں‘‘یا ’’اصلاح کررہے ہیں‘‘ کیا ہے جو اردو محاورہ و مفہوم کے لحاظ سے درست مگر اصل عربی عبارت (نص) سے ذرا ہٹ کر ہے۔ کیونکہ ’’اسم‘‘ کا ترجمہ ’’فعل‘‘ سے کردیا گیا ہے قرآن کریم میں اس مادہ (صلح) سے ثلاثی مجرد کے علاوہ صرف باب اِفعال سے افعال کے متعدد صیغے ۲۸ جگہ اور اس باب سے مشتق اسماء و مصادر کل ۱۲ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔

۱:۹:۲(۷)      [أَلَا] کو حرفِ استفتاح کہتے ہیں۔ یعنی اس سے کسی حقیقت کے بیان کا آغاز ہوتا ہے۔ اور اس میں تنبیہ (خبردار کرنے) کا مفہوم ہوتا ہے۔ یعنی مخاطب کو اس حقیقت کی طرف (جو اس کے بعد بیان ہوتی ہے) متوجہ کرنے کے لیے یہ حرف (أَلَا) کلام کے شروع میں لاتے ہیں۔ یہ متوجہ کرنا کبھی ’’جھڑکنے‘‘ کے معنوں میں ہوتا ہے اور کبھی نرمی سے کسی چیز کی طرف ترغیب دلانے کے لیے بھی آتا ہے۔ تنبیہ کے لیے آئے تو عموماً اس کے بعد ’’اِنَّ‘‘ یا کوئی حرف ندا آتا ہے۔ اور تحضیض(طلب و ترغیب) کے لیے آئے تو عموماً اس کے بعد کوئی فعل آتا ہےـــ خیال رہے کہ یہ (ألا) اکٹھا ایک ہی لفظ ہے۔ بعض دفعہ یہ (ألا) مرکب ہوتا ہے یعنی أ (استفہامیہ) اور لا (نافیہ) سے مل کر بنا ہوتا ہے۔ اس کا ترجمہ ’’کیانہیں؟‘‘ سے ہوتا ہے۔ عبارت کے سیاق وسباق سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں کونسا ’’ ألا ‘‘ہے۔

·       تنبیہ اور استفتاح کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو مترجمین نے ’’ ألَا ‘‘ کا ترجمہ ’’خبر دار رہو، سن رکھو، یاد رکھو،سن لو، سنوجی، سنتا ہے؟، سن تو اور دیکھو!‘‘ سے کیا ہے۔ یہ تمام ترجمے اردو محاورے کی بناء پر  درست ہیں۔ اس لیے کہ ’’ ألا ‘‘ کی طرح کا کوئی مختصر بدل اردو میں نہیں ملتا۔

[اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ] جو اِنَّ +ھُم+ھُم+المُفسدون کا مرکب ہے۔ جس کا لفظی ترجمہ ’’بے شک وہ ہی تو "المفسدون" ہیں‘‘ اس میں کلمہ ’’المفسدون‘‘ کا مادہ ’’ف س د‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’مُفْعِلُوْن‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب ِافعال کا اسم الفاعل (جمع مذکر سالم) ہے۔ اس باب (افعال) اور لفظ ’’فساد‘‘ کے معنی و استعمال پر ابھی اوپر (۱:۹:۲(۳))  میں بات ہوچکی ہے۔ اس کے مطابق ہی اردو مترجمین نے ’’مفسدون‘‘ کا ترجمہ ’’فساد کرنے والے، بگاڑنے والے، خرابی کرنے والے، مفسد اور فسادی‘‘ سے کیا ہے۔ خیال رہے کہ اردو محاورے میں لفظ ’’مُفْسِد‘‘ جمع کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔

۱:۹:۲(۸)     [وَلٰكِنْ] جو ’’وَ+لٰکِن‘‘ کا مرکب ہے۔ اس میں ’’لٰکِنْ‘‘، ’’لٰکِنَّ‘‘ (حرف مشبہ بالفعل) ہی کی دوسری شکل ہے۔ اور یہ دونوں (لٰكِنْ اور لٰکِنَّ) ہر طرح اردو کے لفظ ’’لیکن کے ہم معنی ہیں۔ البتہ استعمال میں یہ فرق ہے کہ ’’ لٰكِنَّ ‘‘ کے بعد ہمیشہ کوئی اسم (منصوب)آتا ہے ۔ جب کہ ’’ لٰکِنْ ‘‘ کے بعد فعل یا اسم دونوں لائے جاسکتے ہیں۔ نیز ’’ لٰکِنْ ‘‘ غیر عامل ہے یعنی یہ اپنے بعد آنے والے اسم کو نصب نہیں دیتا۔ عربی میں یہ عموماً ’’ وَلٰکِن ‘‘ (یعنی ماقبل ایک واو عاطفہ کے ساتھ) استعمال ہوتا ہے۔ جس (واو) کا اردو ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور صرف ’’لیکن‘‘ ہی سے کام چل جاتا ہے۔

        [لَّا يَشْعُرُوْنَ] کا مادہ ’’ش ع ر‘‘ اور وزن ’’لا یَفْعُلُوْن‘‘ ہے۔ جس میں ’’لا‘‘ نافیہ ہے (جس سے فعل میں نفی کے معنی پیدا ہوئے ہیں)۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد اور اس کے معنی و استعمال پر مفصّل بات پہلے البقرہ:۱۱ کے ضمن میں ہوچکی ہے۔[دیکھیے:۔۱:۸:۲(۵)میں]

 

۲:۹:۲       الاعراب

وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَ رْضِ    ۙ   قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ    (۱۱) اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ  (۱۲)

اس قطعہ میں دو آیات ہیں۔ ہر ایک آیت ایک لمبے جملے پر مشتمل ہے مگر دراصل ہر ایک آیت دو جملو ں میں منقسم ہے۔ پہلی آیت کے دوجملے شرط اور جواب شرط کے تعلق سے ایک جملہ بنتے ہیں جب کہ دوسری آیت کے دو جملے واو عاطفہ کے ذریعے مل کر ایک جملہ بنتے ہیں۔ ہر ایک جملے کے اعراب کی تفصیل یوں ہے:

·       [وَ] کو یہاں اگرچہ عاطفہ بھی قرار دیاجاسکتا ہے جو مابعد والے جملے کو سابقہ جملے سے ملاتی ہے۔ اس صورت میں سابقہ آیت (۱۰) میں بیان کردہ  عذاب (ولھم عذاب اليم) کا ایک سبب تو "کانوایکذبون‘‘ ہوا (جوآیت نمبر ۱۰ کا آخری حصہ ہے) اور دوسرا سبب یہ جو اَبْ اگلے جملے میں بیان کیا گیا ہے (…واذاقیل لھم…) یعنی بسبب اس کے کہ جب ان کو کہا جاتا ہے …الخ۔ گویاوہ  دو وجہ سے مستحقِ عذاب ٹھہرے۔ لیکن یہ معنی تب موزوں ہوتے جب یہاں ’’اذا‘‘ شرطیہ کی بجائے ’’اِذْ‘‘ ہوتا جو زمانہ ماضی اور تعلیل (وجہ بتانا) کے لیے آتا ہےـــ لہٰذا یہاں اس ’’وَ‘‘ کو واوالاستیناف سمجھنا زیادہ بہتر ہے۔ اس سے ایک نئی بات اور نئے جملے کا آغاز ہوتا ہے ۔ یعنی ان کے ایک اور عیب کا ذکر شروع ہوتا ہے۔

[اِذَا] یہاں شرطیہ ظرفیہ ہے اور زمانہ مستقبل یا حال کا مفہوم رکھتا ہے۔ جس کا ترجمہ ’’جب‘‘ یا ’’جب بھی‘‘ یا ’’جب کبھی بھی‘‘ ہوسکتا ہے۔

        [قِیْلَ] فعل ماضی مجہول صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اور اس کا نائب فاعل لفظ ’’قول‘‘  مخذوف ہے ۔ یعنی جب ’’ لاتفسدوا… الخ‘‘ کے ’’قول‘‘ (کی بات) کی جاتی ہے (محذوف نائب فاعل ’’قَوْلٌ‘‘ کو مضاف سمجھتے ہوئے)۔ [لَھُم] جار (لِ) اور مجرور (ھم) مل کر متعلق فعل (قیل) ہے یعنی ’’کہا جاتا ہے ان کو یا ان سے‘‘ یہ بیان ہوچکا ہے(۱:۷:۲ (۵)میں )کہ فعل ’’قال‘‘ کے بعد مخاطب کا ذکر ہو تو اس پر ’’لام‘‘ کا صلہ آتا ہے۔

         [لَا تُفْسِدُوْا] میں ’’لا‘‘ نہی کے لیے ہے اور اس نے ’’ تفسدوا ‘‘ کو مضارع مجزوم بنادیا ہے۔ اور اسمیں علامتِ جزم آخری نون کا حذف ہے (جو دراصل ’’تفسدون‘‘ تھا)۔ [فِى الْاَ رْضِ] بھی جار (فی) اور مجرور (الارض) مل کر متعلق فعل (لاتفسدوا) ہے۔ ار دومیں اس کا بامحاورہ ترجمہ فعل سے پہلے ہوگا۔ یعنی ’’تم مت ڈالو فساد اندر زمین کے‘‘ کی بجائے ’’تم زمین میں فساد مت ڈالو‘‘ ہوگا۔ یہاں تک جملہ کا شرط والا حصّہ مکمل ہو جاتا ہے اور اب اس کے بعد اس کا جواب شرط شروع ہوتا ہے۔

·       [قَالُوْٓا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع  مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے اور یہ ’’ان لوگوں‘‘ کے لیے ہے جن کی بات ہورہی ہے۔ اگرچہ یہاں سے جواب ِشرط شروع ہوتا ہےتاہم صیغہ ماضی ہونے کے باعث افعال (قِيل اور قالوا) نہ جازم ہیں نہ مجزوم اگرچہ ان کو محلاً مجزوم کہا جاسکتا ہے۔ [اِنّما] میں ’’ما‘‘ کا فّہ اور ’’اِنَّ‘‘ مکفوفہ ہے۔ یعنی اس کا عمل (ما بعد اسم کو نصب دینا) روک دیا گیا ہے۔ (کفَّ یکُفُّ:روک دینا) اور معنی میں ’’حصر‘‘ (تاکید اور پابندی) کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے جس کے معنی اور ترجمہ پر اوپر بحث ’’اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے۔ [نَحْنُ] جمع متکلم کی ضمیر مرفوع منفصل ہے جو یہاں مبتدأ کا کام دے رہی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تو ’’ہم‘‘ ہے مگر پہلے ’’ اِنّما ‘‘ آجانے کی وجہ سے اس (انمانحن) کا موزوں ترجمہ ’’ہم تو ‘‘ یا ’’ہم تو بس‘‘ سے ہوگا۔ [مُصْلِحُوْنَ] ’’نحن‘‘ کی خبر اور لہٰذا مرفوع ہے۔ علامتِ رفع اس میں آخری نون سے پہلی ’’واو‘‘ (ـــــُــــ وْ) ہےـــ اور یہ پورا جملہ (انمانحن مصلحون) فعل ’’ قالوا ‘‘ کا مقول (جو بات کہی گئی) مفعول ہونے کے باعث محلاً منصوب ہے اور پھر یہ مکمل جملہ (قالوا مصلحون) جواب شرط ہو کر آیت کے ابتدائی جملے (واذا … فی الارض) کو مکمل کرتا ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت کا پہلا حصہ( جملہ ) شروع ہوتا ہے ۔

·       [اَلَا] حرف استفتاح بمعنی تنبیہ ہے (دیکھئے اوپر۱:۹:۲(۷) میں)۔[اِنَّھم] میں ’’اِنَّ حرف مشبہ بالفعل ہے اور ’’ھم‘‘(ضمیر منصوب) اس کا اسم ہے۔ [ھم المفسدون] میں اگرچہ ’’ھم‘‘ کومبتدا (مرفوع) اور ’’المفسدون‘‘ کو اس کی خبر ِ(مرفوع) قرار دے کر اس پورے جملہ اسمیہ (ھم المفسدون) کو ’’اِنَّھم (کے اِنَّ) کی خبر بنایاجاسکتا ہے۔ تاہم بہتریہ ہے کہ اس دوسرے ’’ھم‘‘ کو ضمیر فاصل سمجھا جائے ۔ اس لیے کہ اس کے بعد ’’ اِنَّ ‘‘ کی خبر معرفہ(المفسدون)آ رہی ہے۔اس طرح اس کا اردو ترجمہ"وہ ہی تو" (مفسدون ہیں)ہوگا۔ ضمیر فاصل اور خبرمعرفہ کی اس ترکیب سے پیدا ہونے والے مفہوم کے زور اور تاکید کو اردو مترجمین نے ’’وہی ہیں‘‘، ’’یہی لوگ‘‘، ’’وہی‘‘ اور ’’ یہ بلاشبہ‘‘ سے ظاہر کیا ہے۔ یہاں تک اِنّ کا اسم اور خبر مل کر ایک جملہ مکمل ہوتا ہے۔ آگے آیت کا دوسر ا حصہ (جملہ) شروع ہوتا ہے۔

·       [وَلٰكِنْ] میں واو عاطفہ ہے اور ’’لکِنْ‘‘ مخففہ ہے یعنی یہ ’’لکِنَّ‘‘ (ثقیلہ مشددہ) کی ہی دوسری شکل ہے جو غیر عامل ہے اور بلحاظ معنی یہ حرف استدراک ہے جس کو اردو میں ’’مگر‘‘ یا ’’لیکن‘‘ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ [لایشعرون] میں لانا فیہ ہے اور ’’یشعرون‘‘ فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ شامل ہے اور یہ جملہ فعلیہ ہے۔ پھر یہ پورا جملہ (ولکن لایشعرون) اپنے سے پہلے جملے (الاانھم ھم المفسدون) پر عطف ہوکر پوری آیت (نمبر۱۱)کو ایک مکمل جملہ بناتا ہےـــ

 

۳:۹:۲     الرسم

        اس قطعہ کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے البتّہ اس میں خصوصا قابلِ ذکر ’’لکِنْ‘‘ کا رسم ہے جو لکھا تو بحذف الف (بعد اللام) جاتا ہے مگر پڑھا ’’لَاکِن‘‘ جاتا ہے۔ اس لفظ کا یہ رسم بھی رسم املائی (عام معتاد عربی ہجاء) پررسمِ قرآنی (عثمانی) کے اثرات کا ایک مظہر ہے۔ عام عربی املاء کے قواعد پر لکھی گئی کتابوں میں بھی ’’ ’لکن ‘‘(ثقیلہ ہو یا مخففہ) کی املاء میں الف کے اس حذف کا خصوصاً ذکر کیاجاتا ہے۔[3]

 

۴:۹:۲     الضبط

        قرآنی کلمات کے ضبط کے بارے میں اب تک عموماً ہم تین چیزوں کا ذکر کرتے آئے ہیں (۱) طریقِ ضبط (یعنی علامتِ ضبط کے استعمال) کا فرق۔ (۲) کِن ملکوں میں کون سا طریق ضبط رائج ہے اور (۳) اختلاف ِضبط کے کچھ مکتوبی نمونے (جن میں طریق کتابت تو پاکستانی نسخ مگر طریق ضبط مختلف ملکوں کا ہوتا ہے)۔[4]    اگر اب تک کی گئی ’’الضبط‘‘ سے متعلق بحثوں کو آپ نے بغور مطالعہ فرمایا ہے تو آپ جان چکے ہوں گے کہ طریق ضبط کا فرق کن امور میں پایا جاتا ہے۔ بنیادی طورپر یہ کل دس پندرہ امور ہیں مثلاً :۔

۱۔      ھمزۃ الوصل کی علامت کا ترک یا استعمال ۔

۲۔     ابتدائی ھمزۃ القطع کی علامتِ قطع کا ترک یا استعمال۔

۳۔     حرکات طویلہ (’’الف‘‘ماقبل مفتوح، ’’واو‘‘ماقبل مضموم اور ’’یاء‘‘ما قبل مکسور یعنی مدّاصلی کے لیے علامات ضبط اور ان کے طریق ِاستعمال کا فرق۔

۴۔     محذوف (مگر ملفوظ) حروفِ مد (ا ، و ، ی) کے اثبات (برائے تلفظ) کے طریق ضبط کا فرق۔ ( جس میں ہائے کنایہ اور اسم ِجلالت کے لام کے اشباع کا طریق ِضبط اور اس کے لیے مختلف علامات کا استعمال بھی شامل ہے)

۵۔     مکتوب (مگر غیر ملفوظ) حروف (زیادۃ فی الھجاء) میں حرف ِزائد پرعلامتِ زیادۃ (یا علامت تنسیخ) ڈالنے یا نہ ڈالنے کا فرق۔

۶۔     تنوین اخفاء اور تنوین اظہار میں یکسانیت یا تمیز کا فرق۔

۷۔     نون ساکنہ مظہرہ یا مخفاۃ (یعنی ساکن نون کے لیے اخفاء یا اظہار) کے لیے کسی مخصوص علامت (سکون وغیرہ) کے استعمال یا عدم استعمال کافرق۔

۸۔     عام (یا تنوین کے ملفوظی) ساکن ’’نون‘‘ کے مابعد ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘میں اور ساکن ’’ط‘‘ کے بعد ’’ت‘‘ میںـــ ادغام ناقص کی صورت میں حرفِ مدغم (ن یا ط) اور مدغم فیہ حرف (و ، ی، ت) پر علامت ِسکون یا تشدید ڈالنے یا نہ ڈالنے کا فرق۔

۹۔      تنوین کے ملفوظی یا عام ساکن نون کے مابعد کے حروف (لَمْ نَرَ) میں ادغام تام ّکی صورت میں حرف ِمدغم اور حرف ِمدغم فیہ کے لیے علامت ِضبط (سکو ن اور تشدید) کے استعمال کرنے یا نہ کرنے کا فرق۔

۱۰۔     تنوین کے ملفوظی (یا عام) ساکن نون کے مابعد حرف باء (بِ) واقع ہونے کی صورت میں اس(نون) کے اقلاب بمیم کے لیے کسی علامت کے استعمال یا اس کے ترک کا فرق۔

۱۱۔     تنوین کے نون (ملفوظی) کے بعد آنے والے مشدد یا  ساکن حرف کے ساتھ اتصال کے لیے کِسی علامت ِضبط کا استعمال یا اس کے ترک کا فرق۔

۱۲۔     بعض افریقی ممالک میں متطرف (آخرپر واقع ہونے والے) حروف ’’ینفق‘‘ کا عدم اعجام (نقطوں سے خالی چھوڑنا) نیز ’’ف‘‘ اور ’’ق‘‘ کے طریقِ اعجام (بصورت (#)کا فرق۔

۱۳۔    ایشیائی اور افریقی ممالک میں ’’لا‘‘ کے ’’الف‘‘ اور ’’لام‘‘ کے تعین کا فرقـــ اور اس کے نتیجے میں طریق ِضبط کا فرق۔

۱۴۔    بعض مصاحف میں (۱) ’’راء‘‘ اور ’’لام‘‘ کی ترقیق یا تفخیم کے لیے خاص علامت یا (۲) ’’ب‘‘ سے پہلے آنے والی ساکن میم پرعلامتِ اخفاء یا (۳) قلقلہ کے لیے خاص قسم کی علامتِ سکون ـــکے استعمال کا فرق۔

۱۵۔     اور مندرجہ بالا تمام طریقہ ہائے ضبط میں علاماتِ ضبط کی صورت میں شکل کا تفاوت۔ مثلاً

(۱لف) حرکاتِ ثلاثہ قصیرہ میں فتحہ(ـــــَــــ) کو (ترچھا) (# )یا=(افقی) لکھنا #))یا کسرہ کو اسی طرح ترچھا (ـــــِـــــ)  # یا افقی (#) لکھنا یا ضمہ(#)  کومختلف شکل میں لکھنا۔

(ب)   اسی طرح تنوینِ رفع کو(#)  کی صورت میں یا تنوین نصب کو (#) لکھنا یا تنوینِ جر کو (#) کی صورت میں لکھنا۔

(ج)   علامتِ سکون کے طور پر(#)کااستعمال۔

(د)    علامتِ تشدید کو(#)کی اشکال میں لکھنا۔

(ھ)     علامتِ اشباع کے طور پر(#)  کااستعمال۔

(و)    ھمزہ قطع کی علامت قطع  کے لیے (#)  کی صورت میں استعمال کرنا۔

(ز)    ھمزۃالوصل کے لئے (#) استعمال کرنا اور اس ہمزۃ الوصل ما قبل مفتوح ہوتو (#) اور ما قبل مکسور ہوتو (#) اور ما قبل مضموم ہوتو  (#) کی شکل میں لکھنا

        مذکورہ بالا قواعدِ ضبط اور علامت ِضبط کے استعمال کی بیشتر صورتیں اب تک بیان ہوچکی ہیں ـــاور یہ بھی بیان ہوچکاہے کہ کون سا طریق ِضبط یا کون سی علاماتِ ضبط کون سے علاقوں یا ملکوں میں رائج ہیں۔ کسی ایک آدھ قاعدہ (مثلاً تنوین کے ملفوظی نون ساکنہ کے مابعد کے ساکن یا مشدد حرف کے ساتھ اتصال کے طریقہ) یا بعض مخصوص قواعد ِضبط (مثلاً امالہ یا اشمام کا طریق ِضبط) کی مثالیں ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آئی ہیںـــ

        لہٰذا اب سے ہم قواعد اور طریق ِضبط کو بار بار بیان کرنے کی بجائے صرف مکتوبی شکل میں (بطورِ نمونہ) علاماتِ ضبط اور ان کے استعمال کے فرق کو واضح کردینا ہی کافی سمجھیں گےـــ البتہ جب کوئی خاص نیا قاعدہ یا کِسی لفظ کے ضبط میں کوئی خاص فرق سامنے آئے گا تو اس کی وضاحت کر دی جائے گی۔ اور ھمزئہ قطع کے بارے میں بھی۔

        اس طرح زیر مطالعہ قطعہ (آیات)میں اختلافِ ضبط کی حسب ِذیل صورتیں موجود ہیں:

       

 



 [1]  کلمئہ ’’حرف‘‘ دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ابجد کے حرف، یعنی ا ب پ ث…… ی تک۔ میں سے ہر ایک ایک حرف ہے ان کو حروف المبانی کہا جاتا ہے۔ دوسرے کلمہ کی سہ گانہ تقسیم (اسم فعل حرف) کے ایک جزء کے طور پر۔ چونکہ یہ مختلف معنی دیتے ہیں۔ اس لیے ان کو حروف المعانی کہا جاتا ہے۔

 

 [2] دیکھئے اعراب القرآن (للنحاس) ج۱ ص ۱۱۸

 

    [3] مثلاً دیکھئے کتاب الکُتَّاب (لابن دُرُ سْتوَیَہ ص۴۳۔)

  [4] ہر ملک میں رائج خطِ مصحف (اور وہ بھی ماہرانہ خطاطی کے ساتھ) کی ہو بہو نقل ناممکن نہیں تو د شوار ضرور ہے۔ ہمارے دیئے ہوئے نمونے کسی ملک  کے اصل مصحف کی خطاطی کے معائنہ اور مشاہدہ کا بدل تو نہیں ہوسکتے۔ البتہ ان کے ذریعے اختلافِ ضبط کو بڑی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ اور یوں کسی غیر مانوس طریقِ ضبط کا اپنے ملک کے طریقِ ضبط سے مقابلہ کرکے آپ اس (غیر مانوس) ضبط کو پڑھنے کی مشکل پر بھی قابو پاسکتے ہیں۔