سورۃ  البقرہ آیت نمبر ۱۳

۱۰:۲      وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآاٰمَنَ السُّفَہَآئُ ط اَلَآاِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَآئُ ط وَلٰکِنْ لاَّ یَعْلَمُونَ (۱۳)

۱۰:۲:۱      اللغۃ

       [وَاِذَا]اس میں ’’وَ‘‘  تو بمعنی ’’اور‘‘ہے۔ ’’وَ‘‘ کے معانی و استعمالات پر الفاتحہ:۵ میں بات ہوچکی ہے [دیکھئے  ۱:۴:۱ (۳)]اور ’’ اذا ‘‘ کے یہاں معنی ’’جب یا جب کبھی یا جس وقت‘‘ کے ہیں۔ ’’ اذا ‘‘ کے استعمالات اور اقسام (بلحاظ معنی) پر البقرہ:۱۱ میں بات ہوچکی ہے۔[دیکھئے۱:۹:۲(۱)]

         [قِیْلَ] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فُعِلَ‘‘ ہے اور شکل اصلی ’’قُوِلَ‘‘ تھی۔ اس مادہ کے فعل مجرد کے معنی و استعمال پرـــ اور خود اسی فعل ماضی مجہول ’’ قیل ‘‘ کے معنی وغیرہ پر ابھی اوپر بحث ہوچکی ہے [۱:۷:۲(۵)]

       [لَہُمْ] ’’لام‘‘ کا تعلق ’’ قیل ‘‘ سے ہے۔ ’’ اذا ‘‘ کے معنیٔ شرط کی وجہ سے یہاں قیل کا ترجمہ ماضی کی بجائے حال میں کیا جائے گا۔ اس طرح ’’واذاقیل لھم ‘‘ کا ترجمہ ’’اور جب کہا جاتا ہے ان سے‘‘ ہے اور سلیس ترجمہ ’’جب ان سے کہا جاتا ہے‘‘ہوگا۔

       [آمِنُوْا] کا مادہ ’’ا م ن‘‘اور وزن اصلی ’’اَفْعِلُوْا‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’أَأْمَنُوا ‘‘ تھی۔ جس میں پہلے دونوں ’’ھمزے‘‘ مل کر ’’آ‘‘ ہو گئے۔ آمِنُوْا=  تم ایمان لاؤ۔   یہ لفظ (آمِنوا) اس مادہ سے باب ِافعال کا صیغہ امر (جمع مذکر حاضر)ہے۔ اس مادہ کے فعل مجرد اور باب افعال کے معنی اور استعمالات پر بحث پہلے ہوچکی ہے[دیکھئے۱:۲:۲(۱)]

۱:۱۰:۲(۱)     [کَمَا] یہ ’’ک‘‘ حرف الجّر (جو بلحاظ معنی حرف تشبیہ بمعنی ’’مانند‘‘ ہے) اور ’’ما‘‘ (موصلہ بمعنی ’’جو کہ‘‘، ’’جو چیز کہ‘‘) سے مرکب ہے۔ اس طرح اس (کَما) کے لفظی معنی ہوں گے۔ ’’مانند اس (چیز) کے جو کہ‘‘ پھر اسی کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’جیسا کہ‘‘، ’’جیسے کہ‘‘اور ’’جس طرح کہ‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اور یہ اکٹھا ایک ہی لفظ شمار ہوتا ہے۔

  [ آمَنَ]  کا مادہ ’’أ م ن‘‘ اور وزن (اصلی) ’’أفْعَلَ ‘‘ ہے۔ یعنی یہ باب ِافعال سے فعل ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس کے باب اور معنی و استعمال پر بھی بات ہوچکی ہے۔ دیکھئے البقرہ :۳ یعنی۱:۲:۲(۱) میں۔ لفظی ترجمہ ہے ’’وہ ایمان لایا‘‘ اور سیاق عبارت کے مطابق ’’ایمان لائے ‘‘ یا ’’ایمان لے آئے ہیں‘‘ سے ترجمہ ہوگا۔کیونکہ آگے فاعل بصیغئہ جمع ہے۔

[النّاسُ]کے مادہ و اشتقاق وغیرہ پر مفصل بحث البقرہ:۸ کے تحت ہوچکی ہے[دیکھئے۱:۷:۲ (۳) میں ]اس کا ترجمہ ’’لوگ‘‘ ہے مگر سیاق ِعبارت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’دوسرے لوگ‘‘، ’’اور لوگ‘‘ یا ’’سب لوگ‘‘ کیا گیا ہے۔

[قَالُوْا] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس کے فعل مجرد کے معنی وغیرہ کے لیے دیکھیے ۱:۷:۲ (۴)۔یہاں شروع میں (#)آجانے کی وجہ سے اس فعل ماضی (قالوا) کا ترجمہ ’’کہتے ہیں‘‘ نہیں  بلکہ جواب ِشرط ہونے کی وجہ سے ’’تو کہتے ہیں‘‘ ہوگا۔

[أَنُؤْمِنُ] میں ابتدائی ’’أ‘‘ تو استفہامیہ (بمعنی کیا؟) ہے اور ’’نُؤمِنُ‘‘ کا مادہ ’’ام ن‘‘ اور وزن ’’نُفْعِلُ‘‘ ہے جو اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع (صیغہ جمع متکلم) ہے۔ اس کے مادہ وباب اور   معنی وغیرہ کے لیے۱:۲:۲(۱) کی طرف رجوع کیجئے۔ اس کا لفظی ترجمہ تو ’’کیا ہم مان لیں ؍ایمان لائیں‘‘ ہوگا جس کو بعض حضرات نے ’’کیا ہم مسلمان ہوجائیں؟‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جسے مفہوم کے لحاظ سے ہی درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور بعض نے اس سے اگلی عبارت کو ملحوظ رکھ کر بامحاورہ ترجمہ کیا ہے۔ اس کا ذکر ابھی آئے گا۔

[كَمَا آمَنَ] پر ابھی اوپر (اسی آیت میں) بات ہوچکی ہے یعنی ’’جس طرح ایمان لایا‘‘ ، ’’ یا  لائے‘‘

۱:۱۰:۲(۲)     [السُّفَهَاۗءُ]  کا مادہ ’’س ف ھ‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فُعَلَاءُ‘‘ (غیر منصرف) ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد زیادہ تر ’’سفِہ یسفَہ سفاھۃً وَ سَفَھًا‘‘ عموماً (باب سمع سے) آتا ہے۔ اور اس کے عام معنی تو ہیں ’’بے وقوف ہونا، عقل سے خالی ہونا، بدھو ہونا، احمق ہونا‘‘ یعنی یہ فعل لازم ہے۔ تاہم بعض دفعہ یہ فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے۔یعنی ’’بے وقوف بنانا، مت مار دینا، احمق بنا دینا‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔

·       بعض اہل علم (اصحاب ِلغت) کا کہنا ہے ۱۔کہ یہ فعل با ب ’’سمع‘‘سے تو متعدی معنی کے لیے آتا ہے اور لازم کے معنی  میں یہ باب ’’کرُم‘‘ سے استعمال ہوتا ہے اور اس لیے اس سے اسم الفاعل (سافِہٌ) کی بجائے صفت مشبہ ’’سَفِیْہ‘‘ (بوزن ’’فعیل‘‘) آتی ہے۔ جس کے معنی ہیں ’’احمق یا  بیوقوف‘‘ اور کتبِ لغہ کے ’’بیانات‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے۲۔ کہ ’’باب سمع ‘‘ سے آنے والے پانچ چھ افعال ایسے ہیں جو عام طور پر بطور ’’لازم‘‘ استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم کبھی کبھی یہ فعل متعدی کے طور پر بھی آتے ہیں۔ اس قسم کے افعال میں سے ’’سفِہ‘‘ اور ’’بطِر‘‘ قرآن کریم میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ اور بعض (مثلاً ’’اَلِمَ‘‘یا ’’رشِد‘‘) سے کوئی صیغۂ فعل تو نہیں مگر کچھ اسمائے مشتقہ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

·       اس مادہ (سفہ) سے ثلاثی مجرد کے صرف ایک صیغۂ ماضی (البقرہ: ۱۳۰) کے علاوہ کوئی اور فعل قرآن کریم میں نہیں آیا۔ البتّہ کچھ مصدر اور مشتقات (سَفَہٌ، سَفَاھَۃٌ، سَفِیْہٌ اور سُفَھَاءُ) استعمال ہوئے ہیں زیر مطالعہ لفظ ’’ السفَهَاۗءُ ‘‘ صفت مشبہ ’’سَفِیْہ‘‘ کی جمع مکسر معرف باللام ہے۔ اور یہ جمع غیر منصرف بھی ہےـــ اس طرح  كَمَا/ آمن/ السفهاءُ ‘‘ کا ترجمہ ہوگا ’’جیسا/جیسے/ جس طرح۔ مسلمان ہوئے/ ایمان لائے/بیوقوف/احمق "اور اسی کو زیادہ بامحاورہ بنانے کے لیے بعض مترجمین نے اس سے سابقہ کلمات کو بھی ساتھ ملا کر ’’ انؤمن کماآمن السفھاء ‘‘ کا مجموعی ترجمہ ’’کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لائیں؟‘‘ کیا ہے۔ مفہوم درست مگر الفاظ (نص) سے ذرا ہٹ کر ہے۔ کیونکہ اس میں ’’آمن‘‘ کا ترجمہ نہیں آیا۔ اور بعض نے محاورے کے جوش میں اسی حصہ آیت کا ترجمہ ’’کیا ہم بھی اُلّو بن جائیں جس طرح اُلّو ایمان لائے ہیں‘‘ کر دیا ہے۔ یہ کسی طرح درست نہیں کہا جاسکتا ۔ اس لئے کہ اس میں تو ’’ اَ نُؤْمِنُ ‘‘ کا ترجمہ ’’کیا ہم اُلّو بن جائیں‘‘ کر دیا گیاہےـــ ترجمہ میں الفاظ اور محاورہ میں توازن رکھنا ہی تو مُتَرجم کے لیے دشوار ہے مگر اسی میں اس کا کمال ہے۔

]ألَا اِنَّھُمْ[ کے تینوں اجزاء (ألَا ، اِنَّ اور ھم) پر اور اس ترکیب کے تراجم پر ابھی اوپر والی آیت البقرہ  ۱۲ [۱:۹:۲(۷)]میں بات ہوچکی ہے۔

[ھُمُ السُّفَهَاۗءُ] میں ابتدائی ’’ھم‘‘ (ضمیر فاصل) کا ترجم ’’وہی، وہی تو‘‘ ہوگا۔ اور ’’السفھاء‘‘ کے معنوں پر بھی اوپر بحث ہو چکی ہے ۱:۱:۲(۲)]میں) اب آپ اس حصہ ءآیت (الاانھم ھم السفھاء) کا گزشتہ آیت (۱۲) کے آخری حصہ (الاانھم ھم المفسدون) کے ترجمہ سے موازنہ کرتے ہوئے خود ترجمہ کرسکتے ہیں۔

[وَلٰكِنْ]کے معنی اور استعمال پر بھی  ابھی اوپر [۱:۹:۲(۸)] میں بات ہوئی ہے۔

۱:۱۰:۲(۳)     [لَا يَعْلَمُوْنَ] کا ابتدائی ’’لا‘‘ تو فعل میں منفی کے معنی پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اور ’’یَعْلَمُوْن‘‘ کا مادہ ’’ع ل م‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْن‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’علِم … یعلَم عِلْمًا‘‘ (باب سمع سے) بکثرت استعمال ہوتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ’’…کو جاننا یاجان لینا‘‘ ہیں ۔ تاہم یہ کبھی ’’کسی چیز کی حقیقت جان لینا‘‘ اور اس کے بارے میں یقین حاصل کرلینا‘‘ (یعنی تَیَقَّنَ) کے معنوں میں آتا ہے۔ اس وقت اس کے دو مفعول مذکور ہوتے ہیں۔ جیسے ’’ عَلِمْتُمُوْهنّ مؤْمناتٍ ‘‘ (الممتحنہ:۱۰) میں آیا ہے۔

·       اور اگر صرف ’’جاننا، پہچان لینا‘‘ (عَرَف) کے معنوں میں ہو تو صرف ایک مفعول کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے ’’ يعلمُ خَاۗىِٕنَةَ الاعينِ ‘‘ (المؤمن:۱۹) میں ہے اور یہ استعمال قرآن کریم میں بکثرت ہے (دو سو سے بھی زائد مقامات پر)۔اور ان معنوں کے لیے اس کا مفعول بنفسہٖ(صلہ کے بغیر) بھی آتا ہے جو کوئی اسم بھی ہوسکتا ہے اور ’’أنْ‘‘ سے شروع ہونے والا کوئی جملہ بھی ـــاور بعض دفعہ اس فعل پر باء(بِ) کا صلہ بھی آتا ہے۔ جیسے ’’ يعلَمُون بِما غفَر لي ‘‘(یٰس :۲۶) میں ہے۔ یعنی یہ فعل ’’علِمہٗ اور علِم بِہ‘‘ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور اس (صلہ والے فعل) سے ہی صفت مشبہ ’’علیم ‘‘ اور افعل التفضیل ’’اعلمُ‘‘ اکثر اسی صلہ (بِ) کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔

·       اور کبھی یہ فعل (علِم) فعل لازم کی طرح ’’عالم ہونا، صاحب علم ہوجانا‘‘ کے معنوں میں بھی آتا ہے اس وقت اس کے ساتھ مفعول مذکور نہیں ہوتا  جیسے ’’ والذین لایعلمون ‘‘ (الزمر:۹) اور ’’جو جاہل ہیں‘‘ کے معنوں میں آیا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل کا یہ استعمال (بحذفِ مفعول) بھی بکثرت آیا ہے۔ اور جب یہ فعل اللہ تعالیٰ کے بارے میں آئے تو اس کے معنی ’’ظاہر کردینا، واضح کردینا یا فرق کردینا‘‘ کے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ’’ واللہ یعلم المفسد مِنَ المصلح ‘‘ (البقرہ:۲۲۰) میں اور بہت سے دوسرے مقامات پر اس کی مثالیں ملتی ہیں۔

 

 

۲:۱۰:۲      الاعراب

          وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآاٰمَنَ السُّفَہَآئُ ط اَلَآاِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَآئُ ط وَلٰکِنْ لاَّ یَعْلَمُونَ (۱۳)

        آیت کا ابتدائی حصہ (واذا … سے السفھاء تک) دراصل دو جملوں پر مشتمل ہے جو شرط اور جواب شرط کے طور پر ایک بڑا جملہ بناتے ہیں۔ آخری حصہ (ألَا انھم سےلایعلمون تک) بھی دراصل دو جملے ہیں جن کو واو عاطفہ سے ملادیا گیا ہے۔ اعراب کی تفصیل یوں ہے۔

·       (وَاِذَا) میں ’ ’ وَ‘‘ استیناف (الگ جملے کی ابتداء) کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور عطف کے لیے بھی اور ’’اذا‘‘ (گزشتہ آیت نمبر۱۱ کی طرح) یہاں بھی ظرفیہ شرطیہ ہے [دیکھیے ۱:۹:۲(۱)] اس لیے اگلے فعل ماضی کا ترجمہ ’’فعل حال‘‘ سے ہوگا۔ ]قیل[ فعل ماضی مجہول۔ صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور اس کا نائب فاعل ’’قَوْل ‘‘ محذوف ہے یعنی دراصل ’’قیل قولٌ ھُو آمنوا‘‘ ہے۔ [لَھُم]جار (لِ) اور ضمیر مجرور (ھم)مل کر متعلق فعل ’’قیل‘‘ ہیں۔ یعنی یہ ’’لام‘‘ اس آدمی (مفعول) کو متعیّن کرتا ہے جس سے بات کی گئی۔ [آمِنوا] فعل امرِ حاضر کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ اور دراصل تو اسی ’’آمِنوا‘‘ کو ہی فعل مجہول ’قیل‘‘ کا نائب فاعل سمجھنا چاہئے مگر بعض نحوی حضرات کہتے ہیں کہ جملہ قائم مقام فاعل (نائب فاعل) نہیں بن سکتا  اور اسی لیے وہ اس (آمِنوا) سے پہلے لفظ ’’قولٌ‘‘ محذوف ماننے پر مجبور ہوئے ہیں۔ بعض جدید نحوی (مثلاً ڈاکٹر شوقی ضیف کہتے ہیں کہ جملہ فاعل یا نائب فاعل بن سکتا ہے۔   [1]

 [کَما] یہ حرف جارّ (کَ) اور ’’مَا‘‘ (جو موصولہ بمعنی مصدریہ ہے) کا مرکب ہے اور اس کی وجہ سے نحوی حضرات [آمن الناسُ]کو جو دراصل فعل (آمن) اور فاعل (الناس) کا مرکب جملہ ہےـــ اس میں فعل کو مصدر مضاف اور ’’الناس‘‘ کو مضاف الیہ کی طرح سمجھتے ہیں۔ اور ’’کما‘‘ کو ایک مصدر محذوف کی صفت سمجھتے ہیں گویا کہ اس حصہ آیت (آمنوا کما آمن الناس) کی ’’تقدیر‘‘ (یعنی مفہوم عبارت) کچھ یوں بنتی ہے۔ ’’آمنوایماناً  کما ایمان الناس‘‘ـــ یا ’’آمنوا ایمانًا مِثلَ ایمانِ النَاس‘‘ یا ’’آمنوا ایمانا مثل ما آمن الناس‘‘ یعنی ’’لوگوں کے ایمان جیسا ایمان لاؤ‘‘ـــ تاہم اردو میں ’’کما‘‘ کا ترجمہ ’’جیسا کہ ‘‘ جس طرح کہ ’’کرلینے سے اس کے مصدری معنی لینے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ فعل ماضی کے ساتھ ہی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مترجمین نے اس جملہ ’’کما آمن الناس‘‘ کے ترجمہ ’’کما‘‘ (جس طرح کہ، جیسا کہ) کے بعد ’’آمن الناس‘‘ کا ترجمہ فعل اور فاعل کے ساتھ ہی کیا ہے (لوگ ایمان لائے ہیں)۔ یہ ترجمہ عربی الفاظ سے بھی قریب تر بنتا ہے اور محاورہ کے بھی مطابق ہے۔ اس لیے نحوی حضرات کے تکّلف کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ یہاں تک جملہ کا شرط والا حصہ پورا ہوجاتا ہے اس کے بعد [قَالُوا] سے شرط کی جزاء یا جوابِ شرط کی ابتداء ہوتی ہے۔ اور شرط اور جواب شرط کے ماضی کا صیغہ ہونے کی وجہ سے کوئی جازم اور مجزوم نہیں ہے  اگرچہ وہ محلاً مجزوم سمجھے جاسکتے ہیں۔ [أنومن] میں ’’أ‘‘ استفہامیہ ہے اور یہاں استفہام انکار کے معنوں میں ہے۔ اور ’’نؤمن‘‘ فعل مضارع ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’نحن‘‘ مستتر ہے۔ [کما] پر ابھی بات ہوئی ہے۔ یہاں بھی اس کی اعرابی پوزیشن سابقہ ’’کما‘‘ کی سی ہے۔[آمن السفھاء] فعل اور فاعل (مرفوع) پر مشتمل ہے اور یہاں پر ’’أنومن کما آمن السفھاء‘‘ کو بعض نحوی حضرات کے بقول تقدیراً ’’ انومن ایمانًا مثل ایمان السفھاء‘‘ سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر اردو محاورے کے لیے اس تکلّف کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سیدھا لفظی ترجمہ ہی اردو محاورے کے عین مطابق ہی بنتا ہے۔ یعنی ’’کیاہم ایمان لائیں جیسا کہ بے وقوف (لوگ) ایمان لائے ہیں‘‘ـــ اور چونکہ یہاں استفہام میں دراصل مفہوم انکار کا ہے، اس لیے عبارت کا اصل مفہوم بنتا ہے کہ ’’ہم اس طرح کا ایمان تو نہیں لائیں گے‘‘

·       [ألَا] حرف ِآغاز (استفتاح) بمعنی ٔتنبیہ ہے۔ اس لفظ کے مختلف  تراجم پر ابھی اوپر بحث "اللغۃ"میں بات ہوچکی ہے۔ اور [اِنَّھُمْ] میں ’’اِنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل اور ’’ھم‘‘ ضمیر منصوب اس (اِنَّ) کا اسم ہے۔ [ھم السفھاء] میں ’’ھم‘‘ ضمیر فاصل ہے جس کا اردو ترجمہ ’’ہی ‘‘ یا ’’ہی تو‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اور ’’السفھاء‘‘ ’’اِنَّ‘‘ کی خبر (لہٰذا) مرفوع ہے۔ علامتِ رفع آخری ھمزہ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے۔ اس طرح ’’ الا انھم ھم السفھاء‘‘ کا ترجمہ ہوگا۔ ’’سن لو! یقیناً وہ خود ہی بے وقوف ہیں‘‘

·       [وَلٰكِنْ] میں ’’وَ‘‘ عاطفہ اور ’’لکن ‘‘ حرف استدراک ہے جس کے معنی وغیرہ وغیرہ پر ابھی اوپر("اللغۃ "کے تحت)بات ہوئی ہے۔       

[لایعلمون]فعل مضارع منفی مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ (مستتر)ہے۔ اور یہ پورا جملہ اپنے سے سابقہ جملے (الاانھم ھم السفھاء) پر عطف ہے ۔تاہم اردو میں ’’ولکن‘‘ کا ترجمہ ’’لیکن‘‘ سے کیا جاتا ہے اردو محاورے میں یہاں واوِ عاطفہ کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔

 

 ۳:۱۰:۲     الرسم

          وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآاٰمَنَ السُّفَہَآئُ ط اَلَآاِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَآئُ ط وَلٰکِنْ لاَّ یَعْلَمُونَ (۱۳)

اس آیت کے تمام کلمات کا رسم قرآنی اور رسم املائی یکساں ہے حتیٰ کہ کلمہ ’’ ولکن ‘‘ کا بحذف الف (بعد اللام) لکھا جانا بھی دونوں میں مشترک ہے۔ اس کے متعلق آیت نمبر ۱۲ میں مفصل بات ہوئی تھی۔۲:۹:۳ میں

 ۴:۱۰:۲      الضبط

آیت کے کلمات کے متفقہ یا مختلف فیہ ضبط کو حسب ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ 

 

 



       [1] تجدید النحوص ۱۶۰ اور ص ۲۵۹