سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۴ اور ۱۵

وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُ وْنَ (۱۴)

اَللّٰہُ یَسْتَہْزِیُٔ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ (۱۵)

۱:۱۱:۲      اللغۃ

[وَاِذَا] پر ابھی اوپر البقرہ:۱ [ ۱:۹:۲(۱)] میں بات ہوچکی ہے

۱:۱۱:۲(۱)      ]لَقُوْا[ کا مادہ ’’ل ق ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعِلُوا‘‘ ہے۔ اس کی شکل اصلی ’’لُقِیُوْا‘‘ تھی۔ ناقص کے قاعدے کے تحت واو الجمع سے ماقبل آنے والا لام کلمہ (ی) گر گیا اور اس سے ماقبل (عین کلمہ یعنی  ق) چونکہ مکسورتھا لہٰذا وہ مضموم ہوگیا اور یوں  اب یہ لفظ بصورت ’’ لقوا ‘‘ مستعمل ہے۔ اس مادہ (لقی) سے فعل ثلاثی مجرد لقِیَ… یَلْقٰی لِقاءً (باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’کسی کے سامنے آجانے پر (پہلے سے طے کئے بغیر) اس سے ملاقات ہوجانا‘‘ اس کا عام اردو ترجمہ ’’…سے ملنا، …سے ملاقات کرنا‘‘ ہے۔ اور حسب موقع یہ ’’…کے سامنے آجانا، پیش آنا اور … کو پانا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے اور پھر اس سے اس میں ’’…کے مقابلے پر آنا، …کومقابلے پر پانا، …کا سامنا کرنا،…سے مقابلہ ہونا، …کو سامنے پانا یا دیکھ لینا، …سے تکلیف اٹھانا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ فعل حسی اور معنوی دونوں طرح کی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

·       یہ فعل بنیادی طور پر متعدی ہے اور اس کا مفعول ہمیشہ بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) آتا ہے مثلاً ’’ لقيَا غلامًا ‘‘ (الکھف:۷۴) اور ’’ اذالقیتم فئۃً ‘‘ (الانفال:۴۵) میں ’’غلامًا‘‘ اور ’’فئۃ‘‘ علی الترتیب مفعول بہٖ ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے ۱۵ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ جن میں یہ فعل اپنے تمام بنیادی اور ثانوی معنوں کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے ابواب افعال، تفعیل، تفعل، تفاعل، مفاعلہ اور افتعال سے بھی مختلف اَفعال اور اسماء مشقتہ اور مصادر ۱۳۰سے زائد مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ

        زیرِ مطالعہ کلمہ ’’ لقوا ‘‘ اس فعل مجرد سے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکرغائب ہے اور اس کاترجمہ ’’اذا‘‘ شرطیہ کے بعد آنے کی وجہ سے فعل حال میں کیا جائے گا  اگرچہ بعض نے فعل مضارع کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے۔ یعنی ’’ اذالقوا ‘‘جب وہ ملتے ہیں یا جب وہ ملیں۔‘‘

        [الَّذين] اسم موصول[ دیکھئے ۱:۶:۱(۱)]بمعنی ’’وہ سب جو کہ‘‘

       [اٰمَنُوْا] کا مادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلُوْا‘‘ ہے جو دراصل ’’أَأْمَنُوا‘‘ تھا پھر مھموز کے قاعدئہ تخفیف کے ماتحت ’’آمنوا‘‘ بنا۔ یہ اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل ماضی معروف (صیغہ جمع مذکر غائب) ہے۔ اس کے بابِ افعال کے معنی وغیرہ پر پہلے بات ہوچکی ہے[ ۱:۲:۲(۱) میں]یہاں ’’آمنوا‘‘ کے معنی تو ہیں، وہ ایمان لائے۔ تاہم کس پر ایمان لائے! کا جواب ـــ یعنی فعل کا مفعول  ــــ مذکور نہیں ہوا۔ جو ’’ایمان‘‘ کے اصطلاحی معنوں کی وجہ سے خود بخود سمجھا جاتا ہے۔ لفظ ’’ایمان‘‘ جب مطلقاً بولا جائے تو اس سے کن امور پر ایمان لانا مراد ہوتا ہے؟ اس کا کچھ ذکر تو اسی سورۃ (البقرہ) کی ابتدائی آیات (نمبر۳، نمبر۴) میں گزراہے۔ آگے چل کر بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ ’’ایمان‘‘ کے معنی و مطلب کا بیان آئیگا۔

[قَالُوْٓا] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ شکل ِاصلی ’’قَوَلُوْا‘‘ تھی جس میں واو متحرکہ اپنے ماقبل کے مفتوح ہونے کے باعث ’’الف ‘‘ میں بدل گئی۔ اس مادہ کے فعل ثلاثی مجرد قال یقول قولاً (کہنا) پر بات ہوچکی ہے[۱:۷:۲(۵) میں]

[ آمَنَّا] کامادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفعَلْنَا‘‘ ہے۔ یہ بھی (مندرجہ بالا’’آمنوا‘‘ کی طرح) اس مادہ سے باب ِافعال کا فعل ماضی (صیغۂ جمع متکلم) ہے اس کا ترجمہ ہے، ہم ایمان لے آئے ‘‘ یہاں بھی کس پر؟ کا ذکر نہیں کیا گیاـــ اور یہاں بھی لفظ ’’ایمان‘‘ کا مطلق استعمال اس کے اصطلاحی شرعی معنوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

۱:۱۱:۲(۲)      [وَاِذَا خَلَوا] کے ’’واذا‘‘ کے معنی و استعمال کی تفصیل کے لیے دیکھئے البقرہ:۱۲یعنی ۱:۹:۲(۱)ـــ  اور ’’خَلَوْا‘‘ کا مادہ ’’خ ل و‘‘ اوروزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’خَلَوُوْا‘‘ تھی۔ جس میں واو الجمع سے ماقبل والا لام کلمہ (و) گرگیا اور اس کے ماقبل عین کلمہ (ل) کی فتحہ (ــــــَــــ) برقرار رہی۔ یوں یہ لفظ ’’خَلَوْا‘‘ بن گیا جس کا وزن اب ’’فَعَوْا‘‘ رہ گیا ہے۔ اس مادہ سے  فعل ثلاثی مجرد ’’خلا یَخلُو خلاءً وخُلُوًّا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’خالی ہونا‘‘ (یعنی اندر کی ساری چیز کا نکل جانا)۔ اسی سے اس میں کسی چیز یا وقت  وغیرہ کے لیے"گزر جانا" کے معنی پیدا ہوتے ہیں ۔یہ فعل لازم ہے اور ان معنوں کے لیے  اس کے ساتھ کوئی صلہ استعمال نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں یہ زیادہ تر (بیس(۲۰)سے زائد جگہ) اسی طرح (بغیر صلہ) استعمال ہواہےـــ پھر ’’خالی ہونا‘‘ سے ہی اس میں ’’اکیلا ہونا‘‘ اور ’’علیحدگی میں ہونا‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔

·       اس فعل کے ساتھ مختلف صلات (مثلاً ’’بِ، عن، من ، علی، الی ، مع) مل کر اسے مزید مختلف معنی دیتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں یہ صرف ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ ہی آیا ہے اور وہ بھی صرف دو جگہ (اسی سورۃ ـــالبقرہ کی آیت نمبر ۱۴  اور  ۷۶ میں) اور ’’خلاالی…‘‘ کے معنی ہیں: …کے پاس اکیلے ہونا، اکیلے جانا، تنہا ہونا، خلوت میں پہنچنا یا … کے ساتھ اکیلے ہونا گویا’’الی‘‘ بمعنی مع (برائے معیت) آتاہے۔ اردو کے اکثر مترجمین نے یہاں اس فعل کا ترجمہ مندرجہ بالا مصدری معنی کے ساتھ کیا ہے۔ کلمہ ’’ خَلَوْا ‘‘ اس فعل (خلایخلو) سے فعل ماضی معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔

۱:۱۱:۲(۳)     [اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ] اس میں ’’ اِلى ‘‘تو گزشتہ فعل (خلوا) کا صلہ ہے۔ جس کے معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ یہ (اِلی) مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ حسب موقع ’’…تک‘‘ (یعنی کسی وقت تک یا کسی جگہ تک) ، …کے پاس، …کے نزدیک، …کے لیے، …کے ساتھ، سے کیا جاسکتا ہے ـــاور کلمہ ’’شیاطین‘‘(جو یہاں ضمیر"ھم"کی طرف مضاف ہے) لفظ "شیطان" کی جمع ہے۔ اس کے مادہ اور اس کے معانی پر ’’استعاذہ‘‘ کی بحث میں بات ہوئی تھی۔ یعنی اس کا مادہ ’’ش ط ن‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’ش ی ط‘‘ بھی ـــاور اس طرح اس لفظ (شیطان) کا وزن پہلی صورت میں ’’فَیْعال‘‘ اور دوسری صورت میں ’’فُعْلانٌ‘‘ ہوگا۔ اس طرح لفظ ’’شیاطین‘‘ (بصورت جمع) کا وزن (شطن سے ’’فَیاعیل‘‘ اور (شیط سے) ’’فعالین‘‘ بنتا ہے۔ لیکن یہ دونوں وزن جمع مکسر کے معروف اوزان میں سے نہیں ہیں۔ اس لیے ان کو ’’شبہ مفاعیل یا مماثل مفاعیل‘‘ وزن کہا جاتا ہے جو منتہی الجموع کے ایک وزن ’’فعالیل‘‘ کا ہم وزن ہے۔

·       اور یہاں وزن سے مراد (ف ع ل پر مبنی) صرفی وزن نہیں ہے۔ بلکہ صرف حروف کی تعداد اور حرکات کی ترتیب کے لحاظ سے مشابہ و مماثل ہونا مراد ہے۔ اس لحاظ سے فعالیل، فیاعیل یا  فعالین سب مماثل ’’مفاعیل‘‘ ہیں۔ اس طرح ’’سلاطین، مصابیح، تصاویر وغیرہ کو ’’شبہ مفاعیل ‘‘جمع مکسر کہتے ہیں۔ اور کلمہ ’’شیاطین‘‘ بھی اس طرح کی جمع ہے۔ اور منتہی الجموع سے مشابہت کی بناء پر یہ غیر منصرف (جمع) ہے۔ یہاں اس کے آخر پر کسرہ (ــــــِــــ) آگے مضاف ہونے کی وجہ سے آیا ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک ’’شیاطین‘‘ اپنے واحد ’’شیطان‘‘ کی جمع مذکر سالم (شَیْطَانُونَ) کی ایک غیر قیاسی صورت ہے۔ کیونکہ بعض شاذ صورتوں میں اس کی جمع شَیاطون (مرفوع) اور شیاطین (منصوب یا مجرور) استعمال ہوئی ہے۔

·       لفظ (شیطان) کے مختلف معانی اور استعمالات (بحث استعاذہ میں گزرچکے ہیں) کو سامنے رکھتے ہوئے بعض حضرات نے یہاں (آیت زیر ِمطالعہ میں) ’’شیاطین‘‘ کا ترجمہ ’’سرداروں‘‘ یا ’’شریر سرداروں‘‘ کیا ہے۔ اور بیشتر مترجمین نے، مزید وضاحت کو وظیفہ مفسّر سمجھتے ہوئے، اس کا ترجمہ ’’شیطانوں‘‘ ہی رہنے دیا ہے جو اردو محاورہ میں مستعمل لفظ ہے۔

۱:۱۱:۲(۴)     [قَالُوْا اِنَّا مَعَكُمْ] جو قالو +اِنَّ+نَا+مَعَ+کُم  سے مل کر بنا ہے۔ اس میں لفظ ’’قالوا‘‘ کے مادہ اور وزن پر اسی آیت میں (اوپر) اور اس کے معنی و استعمال پر ۱:۷:۲(۵) میں بات ہوچکی ہے۔ یہاں بھی اس کا ترجمہ ’’اذا‘‘ شرطیہ کے جواب میں آنے کی وجہ سے حال یا مستقبل میں ہوگا۔ یعنی ’’توکہتے ہیں‘‘ کی صورت میں۔ ’’ اِنَّا ‘‘ دراصل اِنَّ (حرف مشبہ بالفعل)+نَا(ضمیر متکلم منصوب) کی دوسری شکل ہے۔ اور اس کے معنی ’’بے شک ہم‘‘ کے ہیں جس کا ترجمہ ’’یقینا ہم تو‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔

·       اور لفظ’’مَعَ‘‘ (جس کا عام اردو ترجمہ ’’…کے ساتھ‘‘ہے) اکثر اہل لغت کے نزدیک یہ ایک اسم ہے کیونکہ کبھی کبھی یہ حال ہوکر تنوین کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے معاً (یکجا۔ اکٹھے ہوتے ہوئے)۔ اگرچہ اس کا یہ استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا ـــبعض نحویوں کے نزدیک یہ ایک حرف ہے جو جہاتِ ستہ (فوقَ، تحتَ، خلفَ، اَمامَ، یمین اور یسار) کی طرح ظرف کے طور پر ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کا ظرفِ زمان یا ظرف مکان ہونا اس کے مضاف الیہ سے معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً ’’مع زید‘‘ میں مکان کا مفہوم موجود ہے اور ’’مع الفجر‘‘ میں زمان کاـــ

·       اور بعض دفعہ مکان یا زمان سے قطع نظر صرف ’’ساتھی، حامی اور مددگار‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس وقت اس کا مضاف الیہ اس چیز کو (جو عموماً کوئی شخص یا جماعت ہوتی ہے) ظاہر کرتا ہے جس کی مدد کی جارہی ہو اور جس کا ساتھ دیا جارہا ہو۔ خصوصاً جہاں اللہ تعالیٰ کی معیّت کا ذکر ہو جیسے ’’اِنَّ اللہَ مَعَنَا‘‘ اور ’’اِنَّ رَبِّی مَعِی‘‘ میں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو زمان و مکان سے ماوراء ہےـــ  ویسے بعض دفعہ عبارت کا سیاق و سباق بھی یہ مفہوم پیدا کردیتا ہے۔ مثلاً اسی (زیر مطالعہ) عبارت ’’ اِنّا معكم ‘‘ میں محض کسی وقت یا جگہ پر اجتماع (اکٹھا ہونا) کی بجائے ’’یار اور مددگار‘‘ ہونے کا مفہوم موجود ہے۔ تاہم اردو محاورے میں ’’کسی کے ساتھ ہونا‘‘ میں بھی حسبِ موقع ’’کسی کا ساتھ دینا‘‘ کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اردو مترجمین نے ’’مَعَکم‘‘ کا ترجمہ ’’تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کیا ہے جو لفظ سے بھی قریب تر ہے۔ البتّہ ’’اِنَّا‘‘ کا ترجمہ بعض نے ’’بے شک ہم، بلاشبہ ہم‘‘ سے کیا ہے اور بعض نے ’’ہم تو‘‘ کیاہے جو محاورے کے اعتبار سے درست ہے مگر جن حضرات نے صرف ’’ہم‘‘ سے ترجمہ کیا ہے وہ عبارت سے دور ہے کیونکہ وہ محض ’’ نَحْنُ ‘‘ کا ترجمہ ہے اس میں ’’اِنَّ‘‘ والی تاکید مفقود ہے۔

۱:۱۱:۲(۵)    [اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ] ’’ اِنَّمَا ‘‘ کے معنی اور استعمال پر ابھی البقرہ :۱۱ [۱:۹:۲(۵) میں] میں بات ہوچکی ہے۔ ’’نَحْنُ ‘‘ (ہم) معروف ضمیر ہے۔ ’’ مُسْتَهْزِءُوْنَ ‘‘کا مادہ ’’ھ ز ء‘‘ اور وزن ’’مُسْتَفْعِلُوْن‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ھَزَأَ یَھْزأُ ھَزْءً ا(باب فتح سے)اور ھَزِئَ یَھْزأُ ھُزْءً ایا ھُزُءًا (باب سمع سے)’’بِ‘‘  یا ’’مِن‘‘ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ یعنی ’’ھَزَأَ یا  ھَزِئَ  مِنْ … …وَ بِ‘‘ اور اس کے معنی ہوتے ہیں ’’…سے ہنسی کرنا، …کوبنانا، …سے دل لگی کرنا‘‘ـــ اور بعض اہل لغت کے نزدیک باب سمِع سے آئے تو اس کے ساتھ ’’باء(بِ)‘‘ کا صلہ آتا ہے ’’مِن‘‘کا نہیں۔ یعنی ’’ھزِ ئَ بِہ‘‘ کہیں گے۔ ھزِیءَ منہ کہنا درست نہیں ہے۔  [1] تاہم اکثر کتب لغت میں یہ تمیز روا نہیں رکھی گئی بلکہ دونوں ابواب سے دونوں صلات کے ساتھ ایک ہی معنی بیان کئے گئے ہیں۔ اور یہ فعل کسی بھی صلہ کے بغیر بھی مختلف معانی کے لیے (ان ہی دوابواب سے) استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد) کا کوئی صیغہ کسی طرح استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس کا مصدر ’’ھُزُءٌ‘‘(بصورت ’’ھُزُوٌ‘‘) قرآن کریم میں گیارہ جگہ آیا ہے۔

        زیر ِمطالعہ کلمہ ’’ مُسْتهزِءون ‘‘ اس مادہ (ھزء) سے باب استفعال کا صیغہ اسم الفاعل (جمع مذکر سالم) ہے۔

اور باب استفعال سے فعل ’’استھزأ یستھزِئُ استھزاءً‘‘ بھی ہمیشہ ’’بِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ’’استھزأبہ‘‘ کہتے ہیں۔ (’’ استھزأہُ‘‘یا ’’ استھزأ منہ‘‘کہنا غلط ہے)۔ معنی کے لحاظ سے یہ (باب استفعال کا فعل)’’ھز ئَ ‘‘ (ثلاثی مجرد) کے مترادف اور ہم معنی ہے۔ اس کا مصدر ’’استھزاء‘‘ اردو میں بھی متعارف اور مستعمل ہے۔ اس طرح اس اسم الفاعل (مستھزءون) کا اردو ترجمہ ’’استہزاء کرنے والے، ٹھٹھا کرنے والے، ہنسی کرنے والے، یا بنانے والے ‘‘ ہونا چاہئے۔ تاہم اردو کے قریباً تمام ہی مترجمین نے (غالبا اردو محاورہ کا لحاظ رکھتے ہوئے)’’ مستهزءون‘‘ کا ترجمہ فعل مضارع ’’نستھزِئُ ‘‘ کی طرح کر دیا ہے یعنی ’’ہم ٹھٹھا کرتے ہیں، ہنسی کرتے ہیں، استہزاء کرتے ہیں، بناتے ہیں، دل لگی کرتے ہیں‘‘ کی صورت میں ـــبلکہ بعض نے تو بصورت فعل ماضی یعنی ’’ہم بنا رہے تھے‘‘ سے ترجمہ کردیا ہے۔ اسی طرح بعض حضرات نے اس کے ساتھ مفعول کا اضافہ کرکے ترجمہ کردیا ہے۔ (یعنی ’’مسلمانوں سے‘‘ ’’مسلمانوں کو‘‘ یا ’’ان کے ساتھ ‘‘ کا اضافہ کرکے) اسے اپنے مفہوم کے لحاظ سے تو ضیحی یا تفسیری ترجمہ تو کہہ سکتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ قرآن کریم کی اصل عبارت سے ذرا ہٹ کر ہے۔

      [اللّٰہ] کے مادہ و اشتقاق وغیرہ کی بحث سورۃ الفاتحہ [۱:۱:۱(۲)]میں گزر چکی ہے۔

[يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ] میں فعل ’’ يَسْتَهْزِئُ ‘‘ کا مادہ ’’ھ ز ء‘‘ اور وزن ’’یَسْتَفْعِلُ‘‘ہے۔ یعنی یہاں یہ فعل اپنے مادہ سے باب ِاستفعال کے فعل مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اور ’’بِھم‘‘ کی ’’بِ‘‘ اس فعل کے صلہ کے طور پرآئی ہے۔ اس فعل کے اس صلہ کے ساتھ استعمال (اِسْتَھزَأبِ…) اور اس کے معنی پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے اس طرح ’’ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ‘‘ کا ترجمہ ہوگا: ’’وہ ان سے ٹھٹھا کرتا ہے، ان کا مذاق اڑاتا ہے، استہزاء کرتا ہے‘‘ وغیرہ۔

۱:۱۱:۲(۶)      [وَيَمُدُّھُمْ]میں ’’وَ ‘‘تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔ اور فعل ’’ يَمُدُّ ‘‘ کا مادہ ’’م دد‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْعُلُ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل تو ’’یَمْدُدُ‘‘تھی۔ پھر مضاعف کے قاعدے کے مطابق درمیانی ’’دُ‘‘ کا ضمہ (ــــــُـــــ) اس کے ماقبل ساکن ’’م‘‘ کو دے کر ’’یَمُدْدُ‘‘ اور پھر ادغام ہوکر ’’یَمُدُّ‘‘ بنا۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ مَدَّ… یَمُدُّ مَدًّا‘‘ (باب نصر سے)آتا ہے اور اس کے معنی ہیں’’…کو لمبا کرنا، …کو دراز کرنا، پھیلانا یا کھینچنا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور اس کا مفعول (جو ہمیشہ بنفسہ آتا ہے) ’’حبلٌ (رسّی)‘‘، ’’بصَر‘‘ (نظر یا نگاہ) ، ’’صوت‘‘ (آواز) اور ’’عمر‘‘ (زندگی) ہوتے ہیں ۔ عام طور پر یہ فعل متعدی ہی استعمال ہوتا ہے۔ بعض دفعہ یہ بطور فعل لازم (طویل ہونا، پھیلنا یا بڑھنا کے معنی میں) بھی آتا ہے۔ مثلاً اگر ’’النھار‘‘ (دن) یا ’’البحر‘‘ (سمندر) فاعل ہوتو ـــ تاہم قرآن کریم میں یہ بطور فعل لازم کہیں استعمال نہیں ہواـــ

        اور بطور فعل متعدی اس کے مذکور ہ بالا معنوں سے ہی اس میں ’’…کو ڈھیل دینا، مہلت دینا، بڑھا دینا یا ترقی دینا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ کہ اس آیت میں بیشتر مترجمین نے ’’ وَيَمُدُّھُم ‘‘ کا ترجمہ ’’اور وہ ان کو ڈھیل دیتا ہے‘‘ اور ’’ڈھیل دیتے چلا جاتا ہے۔‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے ۱۳ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے صرف باب افعال سے کچھ صیغے اور بعض مصدر اور مشتق اسماء ۱۸ جگہ آئے ہیں۔

        ان سب پر انشاء اللہ اپنے اپنے موقع پر بات ہوگی۔

۱:۱۱:۲(۷)     [فِىْ طُغْيَانِهِمْ] جو فِىْ (میں)+ طغیان (جس کے معنی ابھی بیان ہوں گے) +ھم (ان کی) کا مرکب ہے۔ اس میں لفظ ’’طُغیان‘‘ مادہ ’’ط غ ی‘‘ اور وزن ’’فُعْلان‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد طَغٰی یَطْغٰی (باب فتح سے) اور طَغِیَ یَطْغی طغیاناً(باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’حد سے بڑھنا یا بڑھ جانا‘‘ ہیں۔ یعنی یہ فعل لازم ہے۔ بلکہ مادہ ’’ط غ و‘‘(واوی) سے بھی فعل مجرد طغا یطغُوا (باب نصر سے) ان ہی معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد) کے ماضی اور مضارع کے مختلف مستعمل صیغوں (جو بارہ(۱۲) کے قریب مقامات پر آئے ہیں) پر غور کرنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں یہ فعل ہمیشہ یائی اللام اور باب فتح سے ہی استعمال ہوا ہے۔ البتہ ایک دو مأخوذ اسماء (مثلاً  طغوی یا  طاغوت) واوی اللام ہیں۔

        اس مادہ سے مزید فیہ کے صرف باب ِافعال کا ایک ہی صیغہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔ (ق:۲۷) یہ مزید فیہ فعل اور ثلاثی مجرد سے کچھ اسمائے مشتقہ (مثلاً طاغون یا طاغین اور الطاغیۃ)  واوی یائی دونوں مادوں سے مشتق قرار دیئے جاسکتے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’طُغیان‘‘ ثلاثی مجرد کا ایک مصدر ہے، قرآن کریم میں یہ مفرد یا مرکب شکل میں ۹ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ اس مادہ کے فعل ثلاثی مجرد کے (مذکورہ بالا) بنیادی معنوں کی بناء پر اس (طغیان) کا ترجمہ ’’سرکشی‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔ اگرچہ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’شرارت‘‘ بھی کیا ہے، جسے ’’منطقی‘‘ ترجمہ کہا جاسکتا ہے۔ یعنی جو عموماً ’’سرکشی‘‘ کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔

۱:۱۱:۲(۸)     [يَعْمَھُوْنَ] کا مادہ ’’ع م ھ‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْن‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’عَمِہَ یَعْمَہُ عَمَھًا‘‘ (باب سمع اور فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں۔ کوئی راستہ یا جواب نہ سوجھنے نے پر حیران ہوکر کبھی آگے کبھی پیچھے جانا‘‘، ’’متردد اور متحیر ہونا‘‘ـــ اور اسی سے اس کانسبتاً آسان ترجمہ ’’حیران  و سرگرداں ہونا، ٹامک ٹوئیے مارنا، بہکتے پھرنا اور بھٹکتے رہنا"کیا گیا ہے ۔اور بعض نے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ "عقل کا اندھا ہونا‘‘ بھی کیا ہے۔ کیونکہ جس طرح مادہ ’’ع م ی‘‘ (جس کا استعمال ابھی آگے آیت ۱۸[ ۱:۱۳:۲(۱۴)]میں آرہا ہے) کے بنیادی معنی ’’بصارت کا اندھا ہونا‘‘ ہیں۔ اسی طرح اس مادہ (ع م ھ) کے بنیادی معنی ’’بصیرت کا اندھا ہونا‘‘ ہیں۔

        اس مادہ سے قرآن کریم میں صرف اسی فعل (عَمِہ) سے مضارع معروف جمع مذکر غائب کا (یہی) صیغہ ’’ یعمھون‘‘ کل سات مرتبہ وارد ہوا ہے۔ اس سے کوئی اور اسم یا فعل قرآن کریم میں نہیں آیا۔ ’’ یعمھون ‘‘ کاترجمہ مندربالا معانی کی روشنی میں عموماً فعل حال سے کیا گیا ہے۔ مثلاً ً ’’بہکتے ہیں، حیران و سرگردان ہورہے ہیں، بہک رہے ہیں‘‘ ۔ بعض حضرات نے فعل مضارع کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے یعنی ’’پڑے ٹامک ٹوئیے مارا کریں، بھٹکتے رہیں، بہکے پھریں‘‘ بعض نے فعل کا ترجمہ جملہ اسمیہ کی طرح ’’عقل کے اندھے ہیں‘‘ کی صورت میں کیا ہے جو مفہوم کے اعتبار سے درست مگر لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔


۲:۱۱:۲     الاعراب

وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُ وْنَ (۱۴)

اَللّٰہُ یَسْتَہْزِیُٔ بِہِمْ ـــــــــ  وَیَمُدُّہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ (۱۵)

        اس قطعہ میں دو آیا ت ہیں جو بلحاظ ترکیب نحوی پانچ چھوٹے جملوں پر مشتمل ہیں۔ پہلی آیت میں تین جملے ہیں جن میں سے پہلے دو شرطیہ جملے ہیں اور تیسرا جملہ گو بلحاظ ترکیب مستقل جملہ ہے مگر ترکیب میں اسے دوسرے جملہ شرطیہ کا حصہ ہی سمجھنے کی گنجائش موجود ہے۔ دوسری آیت دو فعلیہ جملوں پر مشتمل ہے جو واو عاطفہ کے ذریعے ملائے گئے ہیں۔ عام متعارف ’’رموزِ اوقاف‘‘ استعمال کرنے کی بجائے ہم نے نحوی لحاظ سے مستقل جملوں کے درمیان علامت وقفہ ( ـــــــــــ) ڈال دی ہے۔ اعراب کی تفصیل یوں ہے۔

·       [وَ]عاطفہ بھی ہوسکتی ہے یعنی جملے کا عطف سابقہ جملے (واذاقیل … لایعلمون) پر بھی ہوسکتا ہے اور اسے واو الاستیناف بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس سے ایک نئے جملے یا منافقین کی ایک اور خرابی کا بیان شروع ہوتا ہے۔

[اذا] شرطیہ ظرفیہ ہے یعنی اس میں شرط (جب بھی، جب کبھی  بھی) اور ظرف یعنی وقت اور جگہ (’’جس وقت بھی‘‘ اور ’’جس جگہ بھی‘‘) کا مفہوم موجود ہے۔ (لَقُوْا) فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے جو منافقین کے لئے ہے جن کا ذکر آیت:۸ [۷:۲]سے چل رہاہے۔ یہاں بھی فعل ماضی کا ترجمہ ’’اذا شرطیہ‘‘ کی وجہ سے حال میں کیا جائے گا یعنی ’’جب وہ ملتے ہیں‘‘ [الذین]اسم موصول (جمع مذکر) یہاں فعل ’’ لقوا ‘‘ کا مفعول بہٖ ہوکر منصوب ہے جس میں مبنی ہونے کے باعث ظاہراً کوئی علامت ِنصب نہیں ہے۔ [آمَنُوا]فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین (مستتر) ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر ’’الذین‘‘ کا ’’صلہ‘‘ ہے اور یہ صلہ موصول (الذین آمنوا) ’’ واذالقوا ‘‘ کے ساتھ مل کر جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ یعنی بیانِ شرط بنتے ہیں۔ [قالوا] فعل ماضی معروف مع ضمیرفاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ ہے اور یہاں سے جوابِ شرط شروع ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’تو کہتے ہیں‘‘ہوگا۔ فعل ماضی ہونے کے باعث یہاں شرط اور جوابِ شرط کے فعل (لقوا ـــ اورـــ قالوا)’’جزم‘‘ سے بری ہیں۔[آمنا] فعل ماضی معروف جمع متکلم مع ضمیر ’’نحن‘‘ہے۔ اور فعل قالوا کا مفعول بہٖ ہو کر محلاً منصوب ہے۔ اس جملے ’’قالوا آمنا‘‘ کے ساتھ پہلا جملہ شرطیہ مکمل ہوتا ہے۔

·       (وَ) یہاں عاطفہ ہے جو دو جملوں کو ملا رہی ہے۔ [اذا] مثل سابق شرطیہ ظرفیہ ہے اور [خلَوْا] فعل ماضی معروف جمع مذکر غائب مع ضمیر فاعلین مستتر (ھم) ہے۔ اس کا ترجمہ بھی بوجہ شرط حال میں ہوگا ’’تنہا ہوتے ہیں‘‘۔ اور اس کے بعد [اِلٰى شياطينهم]میں حرف الجر ’’الی‘‘ فعل ’’خلَوْا‘‘ کا صلہ ہے۔ اور ’’ شیاطینھم ‘‘مرکب اضافی (شیاطین مضاف +ھم ضمیر مجرور مضاف الیہ) مجرور بالجر (الی) ہے۔ یہاں تک یعنی ’’ واذاخلَوْاالی شیاطینھم ‘‘ کے ساتھ بیانِ شرط ختم ہوتا ہے۔ اس کے فوراً بعد [قالوا] جو فعل ماضی ہے، سے جوابِ شرط شروع ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں (شیاطینھم کے بعد) وقف جائز نہیں ہے۔ اس لیے یہاں ’’لا‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اس کا ترجمہ بھی  ’’تو کہتے ہیں‘‘ ہوگا۔[ اِنَّا] ’’اِنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل ہے اور اس میں ’’نَا‘‘ ضمیر منصوب متصل اس (اِنَّ) کا اسم (منصوب) ہے یعنی ’’اِنَّنَا‘‘ سے ہی ’’ اِنَّا ‘‘ بنا ہے۔ [مَعَكم]میں ظرف (مَعَ) اپنے مضاف الیہ (کُم) سمیت ’’ اِنَّ ‘‘ کی خبر (یا قائم مقام خبر) ہے۔ اس کے بعد آگے ’’ اِنَّمَا ‘‘ سے شروع ہونے والا جملہ اگرچہ ترکیب نحوی کے لحاظ سے ایک مستقل جملہ ہے۔ مگر ’’ اِنَّا معكم ‘‘ اور اس کے بعد والا جملہ (جو ’’انما‘‘ سے شروع ہوتا ہے) دونوں کا تعلق ’’قالوا‘‘ سے ہے یعنی یہ دونوں ہی منافقین کے قول  ہیں اس لیے یہاں بھی (مَعَکم کے بعد) وقف جائز نہیں سمجھا گیا  جسے اوپر باریک ’’لا‘‘ لکھ کر ظاہر کیا جاتا ہے۔

·       [اِنَّمَا] میں ’’مَا‘‘ کا فّہ اور ’’ اِنَّ ‘‘ مکفوفہ ہے۔ یہ ’’مَا‘‘اِنَّ کا عمل (بطور حرف مشبہ بالفعل) روک دیتا ہے۔ اور حصر و تاکید کے معنی دیتا ہے۔ اس (انما) کا ترجمہ ’’بات صرف یہ ہے کہ ‘‘ یا ’’حقیقت صرف یہ ہے کہ ‘‘ ہونا چاہئے مگر اردو محاورے میں یہاں صرف ’’بیشک‘‘ سے ترجمہ کیاجاتاہے (اِنَّ کی طرح)۔ ]نَحْنُ[ ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے۔ یعنی ’’ہم‘‘ـــ ’’انما‘‘ کے ساتھ مل کر "انما نحن‘‘ کا ترجمہ ’’ہم تو محض‘‘ سے کیا گیا ہے جس میں ’’انما‘‘ کے حصر والا مفہوم آجاتا ہے۔ [مُستھزءون] نحن (مبتدأ) کی خبر (لہٰذا) مرفوع ہے اور یہ دوسرا جملہ اسمیہ " انما نحن مستھزءون ‘‘ پہلے جملہ (اِنَّا مَعَکم) کی تاکید ہے اور یہ دونوں جملے مل کر فعل ’’قالوا‘‘ کا مقولہ ہونے کے باعث محلاً منصوب سمجھے جاسکتے ہیں۔ اور دونوں ’’مقول‘‘ جملے جوابِ شرط ہونے کی حیثیت سے ایک ہی جملہ (بلحاظ مفہوم) شمار ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ دوسرا جملہ شرطیہ مکمل ہوتا ہے اس لیے ان کے درمیان وقف جائز نہیں ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ہے۔ اور ان دونوں شرطیہ جملوں میں فعل ماضی کے تمام صیغوں کا ترجمہ فعل حال سے کیا جائے گا۔کیونکہ شرط زمانۂ ماضی کے لیے نہیں ہوتی۔

        یہاں آیت کے آخر پر (مستھزءون کے بعد) لازماً وقف کرنا چاہئے ورنہ اس سے اگلی آیت (اللہ یستھزئ بھم …) بھی پچھلی آیت میں بیان کردہ قولِ منافقین کا ایک جزء بننے کا احتمال پیدا ہوتا ہے۔

·       [اَللّٰهُ]مبتدأ (لہذا) مرفوع ہے۔ اور [يستهزِئُ] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعل (ھو) پورا جملہ (فعلیہ) بن کر خبر ہے۔ جسے محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں۔ [بهم] جارّ (بِ) اور مجرور (ھم) مل کر فعل ’’ يستهزئُ ‘‘کے متعلق ہیں۔بلکہ حرف الجر (بِ) فعل ’’ يستهزئُ ‘‘ کا صلہ ہونے کے باعث بِهِمْ ‘‘ یہاں مفعول ہوکر موضع نصب میں ہے۔ مبتدأ خبر مل کر ایک جملہ اسمیہ مکمل ہوا۔ خیال رہے اللہ کی طرف ’’استھزاء‘‘ کی نسبت بطور مشاکلت ہے اور اس کا مطلب ہے ’’وہ ان کو اس استہزاء کی ویسی ہی سزا دے گا‘‘۔ اس کے بعد

·       [وَ] عاطفہ ہے جو بعد میں آنے والے فعل (یمدُّ) کو سابقہ فعل (يستهزئ) پر عطف کرتی ہے یا پہلے جملہ(اللہ يستهزئ بھم) کو (’’وَ‘‘کے) بعد والے جملے سے ملاتی ہے۔ ]يَمُدُّھُمْ[ میں ’’ یمدُّ ‘‘ تو فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعل مستتر ’’ھو‘‘ ہے جو ’’اللہ‘‘ کے لیے ہے۔ اور ’’ھم‘‘ ضمیر متصل یہاں (فعل یمدُّ کا) مفعول بہٖ منصوب ہے۔ یعنی ’’وہ ڈھیل دیتا ہے ان کو ‘‘ـــ اور ضمیر ’’ھم‘‘(ان) کا مرجع منافقین ہیں۔

[فی طغیانھم] میں ’’فِی‘‘ حرف الجر ہے اور ’’طغیانھم ‘‘مرکب اضافی ہے جس میں لفظ ’’طغیان‘‘ تو بوجہ ’’جر‘‘ مجرور ہے۔ علامتِ جر ’’نِ‘‘ کا کسرہ (ــــــِــــ)ہے اور یہ آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف (لام تعریف اور تنوین سے بری) ہے۔ اور ضمیر ’’ھم‘‘ مضاف الیہ ہو کر مجرور (بالاضافہ) ہے۔ اور [یعمھون] فعل مضارع جمع مذکر غائب مع ضمیر فاعلین مستتر ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ ہے۔ یعنی ’’وہ بھٹکتے پھرتے ہیں‘‘ اور یہ (یعمھون) ’’یمدّھم‘‘ کی ضمیر مفعول (ھم) کا حال ہوکر محلاً منصوب ہے یعنی ’’ان کو ڈھیل دیتا ہے اس حالت میں کہ وہ بھٹکتے پھرتے ہیں‘‘۔

        مرکب جاری ’’ فی طغیانھم‘‘ کو موقع کے لحاظ سے (۱) فعل ’’ یمدھم ‘‘ سے متعلق بھی قرار دے سکتے ہیں یعنی ’’ یمدھم فی طغیانھم‘‘ اور اگر چاہیں تو (۲) اس (فی طغیانھم) کو ’’یعمھون‘‘ (حال) سے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ’’ یعمھون فی طغیانھم۔‘‘ پہلی صورت میں اس عبارت (یمدھم فی طغیانھم+ یعمھون) کاترجمہ ہوگا (۱) ’’وہ ڈھیل دیتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں دارنحالیکہ (اور حالت یہ ہے کہ) وہ حیران و سرگردان ہورہے ہیں۔‘‘ اور دوسری صورت میں ترجمہ ہوگا (۲) ’’وہ ڈھیل دیتا ہے ان کو اس حالت میں کہ وہ اپنی سرکشی میں حیران و سرگردان ہیں‘‘ اردو کے بیشتر مترجمین نے دوسری ترکیب کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ البتہ بعض مترجمین نے (غالباً) اردو محاورے کا خیال کرتے  ہوئے عربی کے ’’حال‘‘ کا ترجمہ ’’درانحالیکہ‘‘ یا ’’اس حالت میں کہ‘‘ یا ’’حالت یہ ہے کہ‘‘ کی صورت میں کرنے کی بجائے صرف ’’کہ‘‘ سے کر لیا ہے یعنی ـــ’’کہ اپنی سرکشی میں ٹامک ٹوئیے ماریں‘‘ یا ’’کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔‘‘ تاہم یہ ’’کہ‘‘ یہاں بمعنی ’’تاکہ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ یہاں عربی عبارت میں کوئی ’’لامِ کَیْ‘‘ یا ’’لام صیرورت‘‘ (جس کا ترجمہ ’’نتیجہ یہ کہ ‘‘ہوتا ہے)نہیں ہےـــ اسی طرح بعض نے اس (فی طغیانھم یعمھون) کا ترجمہ ’’شرارت میں بھٹکتے ہوئے ‘‘ کیا ہے۔ اس میں ایک تو ضمیر ’’ھم‘‘ کا ترجمہ ’’اپنی ‘‘ چھوٹ گیا ہے دوسرے (فعل) ’’یعمھون‘‘ کا ترجمہ (اسم) ’’عامھین‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے جو اگرچہ لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے تاہم دونوں (یعمھوناور عامھین) کے حال واقع ہونے کی وجہ سے درست ہے۔

 

۳:۱۱:۲      الرسم

        ان دو آیات میں سے بلحاظ رسمِ عثمانی صرف حسب ذیل کلمات تفصیل طلب ہیں۔

        لقوا ۱؎،امنوا۲؎ ،قالو۳؎ ، خلوا۴؎ ۔ شیاطینھم۵؎ ۔مستھزءون۶؎ اور طغیانھم۷؎۔

        (۱) ان میں سے پہلے چار کلمات فعل ماضی کے صیغہ ہائے جمع مذکر غائب ہیں۔ ان میں واو الجمع آتی ہے اور اس واو الجمع کے بعد ایک زائد الف لکھا جاتا ہے۔ ویسے یہ (واو الجمع کے بعد الف زائدہ لکھنا) رسم املائی اور رسم عثمانی دونوں کا قاعدہ ہے۔ ہم نے یہاں اس کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ قرآنی رسم میں بعض جگہ واو الجمع کے بعد یہ زائد الف نہیں لکھا جا تا۔ ان کا ذکر اپنے موقع پر ہوگا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

(۲) ’’ شَيٰطِيْنِهِمْ ‘‘ میں کلمہ ’’شیٰطِین‘‘رسم قرآنی (عثمانی)میں بالاتفاق اسی طرح بحذف الف (بین الیاء والطاء) لکھا جاتا ہے اور ’’ھم‘‘ کو ہمیشہ آخری ’’ن‘‘ کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے۔ ترکی و ایران اور برصغیر کے بعض مصاحف میں اس کو عام عربی املاء کے مطابق بصورت ’’شیاطینھم‘‘ لکھنا  رسمِ عثمانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔

(۳)  "مستهزءون ‘‘ میں ’’ز‘‘ اور ’’و‘‘ کے درمیان والا ہمزہ (ء) اصل رسمِ عثمانی (عثمانی مصاحف) میں نہیں لکھا گیاتھا۔ اس لیے ا ب اسے ہمزہ(ء)قطع کے لیے مقرر کردہ کسی علامت قطع( #) سے ظاہر کرتے ہیں۔ اور اسی لیے اس ہمزہ کو عام قواعد کے مطابق [2] ’’ی‘‘ یا ’’و‘‘ کی کرسی پر (ئو  یا  ؤو) نہیں لکھتے (یعنی بصورت مستھزئون یا مستھزؤن)۔ کیونکہ اس طرح لکھنے سے اصل رسم عثمانی پر ایک حرف (یعنی ’’ی‘‘ بصورت نبرہ (دندانہ) یا ’’و‘‘) کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہمزہ کو ظاہر کرنے والی علامت قلمی دور میں اسی لیے سرخ سیاہی سے لکھی جاتی تھی۔ دورِ طباعت میں اس کے لیے علاماتِ ضبط کی طرح ایک الگ مستقل علامت (#) اختیار کی جاتی ہے اسے اصل ہجا(SPELLING) پر اضافہ نہیں کہہ سکتے۔ ۔۔اور اس ہمزہ (بین الزای والواو) کو کتابتِ عثمانی میں ساقط کرنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ بعض قراء توں میں اسے ’’مستھزِیُون‘‘ اور بعض میں’’مستھزُون‘‘ بھی پڑھا گیا ہے۔[3]    اس  طرح اس لفظ کا  رسم عثمانی دونوں قراء توں میں کا محتمل ہے۔

(۴) ’’طغیانھم‘‘ میں لفظ ’’طغیان‘‘ ( جو ضمیر ’’ھم‘‘ کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے) کے رسم (عثمانی) کے بارے میں الف (بین الیاء والنون) کے حذف و اثبات میں اختلاف ہے۔ صرف ابو داؤد (سلیمان بن نجاح) کے حوالے سے (ان کی اصل کتاب ’’التنزیل‘‘ اب تک طبع نہیں ہوئی۔ بعد کے مصنفین ان کے حوالے سے بات کرتے ہیں) اس (الف) کے محذوف ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ ’’ طُغْيٰنِهِمْ ‘‘ کی صورت میں لکھا جانا چاہئے۔چنانچہ مصری، شامی، سعودی اوربیشتر افریقی مصاحف میں اسی بناء پر یہ اسی طرح محذوف الالف لکھا گیا ہے۔

·       دوسری طرف نثر المرجان (ارکاٹی)، دلیل الحیران (المارغنی) اور لطائف البیان (ابوزیتحار) میں تصریح کی گئی ہے کہ الدانی (عثمانی بن سعید) کے نزدیک یہ عام قاعدہ ہے کہ ’’فُعْلان‘‘کے وزن پر آنے والے تمام کلمات اثبات الف کے ساتھ لکھے جاتے ہیں [4]   اِلّا یہ کہ اس کے خلاف تصریح موجود ہو۔ اور یہ تصریح اس لفظ (طغیان) کے بارے میں کم از کم ’’الدانی‘‘ نے تو نہیں کی ہے۔ بلکہ صاحب ِنثر المرجان نے ’’خلاصۃ الرسوم‘‘ اور ’’خزانۃ الرسوم‘‘کے حوالے سے بھی یہاں الف کا اثبات بیان کیاہے۔ اور غالبًا یہی وجہ ہے کہ مشرقی ممالک (ترکی، ایران، برصغیر وغیرہ) کے مصاحف میں اسے عام عربی املاء کے مطابق ’’ طغیانھم‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔اور اسی بناء پر لیبی مصحف میں"طغیانھم"(باثبات الف)لکھا گیا ہے کیونکہ بصورت اختلاف اہل لیبیا"الدانی"کے قول کو ابوداؤد کے قول پر ترجیح دیتے ہیں۔جب کہ مصری،شامی،سعودی،اور بیشتر افریقی ممالک میں بصورت اختلاف الدانی کی بجائے ابوداؤد کے قول کو راجح سمجھا جاتا ہے لہذا وہاں کے مصاحف میں یہ لفظ بحذ الف"طغینھم"لکھا جاتا ہے۔

 

۴:۱۱:۲     الضبط

        قطعہ زیر مطالعہ کے کلمات میں متفقہ یا مختلف فیہ ضبط کو درج ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ خصوصاً ’’ مستھزءون ‘‘ اور ’’ يستهزئ "میں ہمزہ کی پوزیشن اور اس کا طریقِ ضبط قابلِ غور ہے۔ اس کے بارے میں ہم نے آخر پر ’’نوٹ‘‘ میں کچھ وضاحت کر دی ہے۔

 

­14-15 Shiatinihima

 

 

 

 

 

 

 

 

 

14-15 Shiatinihimb

نوٹ: ایران اور ترکی میں ’’ مُسْتَهْزِءُوْنَ ‘‘ کا ہمزہ ’’واو‘‘ کے اوپر لکھتے ہیں اور ترکی کے مصاحف میں  اس ’’و‘‘(#)کے نیچے باریک لفظ ’’مد‘‘ لکھ دیتے ہیں تاکہ قاری اسے صرف ( ــــــُـــــ ) سے نہ   پڑھے بعض مصاحف میں اسے ضمہ معکوس (ـــــــٗـــــ) سے لکھتے ہیں ’’ ؤ ٗ‘‘ کی صورت میں۔ افریقی مصاحف میں ’’یستھز ئ ‘‘ میں ہمزہ کو ’’ی‘‘ کے دائیں کنارے پر لکھتے ہیں اور یہ اس لیے بہتر ہے کہ افریقی اور عرب ممالک میں یاء ماقبل مکسور کو علامت سکون سے خالی رکھا جاتا ہے۔ یعنی ’’فِیْ تو صرف ’’فیِ‘‘ لکھتے ہیں۔ اس طرح ان کا قاری اس لفظ کو پہلی نظر میں ’’زِیْ‘‘ پڑھ سکتا ہے۔ اگر ہمزہ ’’ ئ ‘‘ کے پہلے سرے پر ہوگا تو وہ یہ غلطی نہیں کرے گا۔ اس لحاظ سے عرب ملکوں کا ضبط ناقص ہے۔

برصغیر میں تمام علامات سے خالی ’’ی‘‘ کو پڑھا ہی نہیں جاتا۔ اس لیے یہ التباس پیدا نہیں ہوگا۔



[1] مد القاموس (LANE) تحت مادہ  ھزء ۔

 

[2] اس قسم کے ہمزہ کی عام املائی کتابت کے قاعدہ کے لیے دیکھئے ’’نخبۃ الاملاء‘‘ (عبدالفتاح خلیفہ) ص۱۴

[3] اتحاف فضلاء البشر (للبناء) ج۱ ص۳۷۹۔ نیز کتاب الاشارات (عبد اللہ بابڑزئی) ص۱۔

 

[4] دلیل الحیران ص۸۰، لطائف البیان ج۱ ص۲۹ اور نثر المرجان ج۱ص ۱۱۱۔