سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۶

۱۲:۲     اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاالضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی ص فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ (۱۶)

۱:۱۲:۲       اللغۃ

 [اُولٰئِکَ ] اسم اشارہ بعید برائے جمع (مذکر ومونّث)ہے جس کا اردو ترجمہ ’’وہ سب‘‘ہے۔ اس کی اصل اور بناوٹ کے بارے میں دیکھئے البقرہ:۵ [۱:۴:۲(۱) میں]اور جملہ اسمائے اشارہ کے بارے میں دیکھئے البقرہ:۲[۱:۱:۲(۱)میں]

[الّذِیْن] اسم موصول برائے جمع مذکر ہے جس کا اردو ترجمہ ’’جو لوگ کہ‘‘ یا  ’’جن لوگوں نے کہ‘‘ یا ’’جنہوں نے کہ‘‘ ہوگا۔ اسمائے موصولہ پر الفاتحہ:۷[۱:۶:۱ (۱) میں ]بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۲:۲ (۱)      ([اشْتَرَوُا] کا مادہ ’’ش ر ی ‘‘ اور وزن اصلی ’’اِفْتَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’ اِشْتَرَیُوا‘‘ تھی جس میں ناقص کے قاعدے کے مطابق واو الجمع سے ماقبل والا ’’لام کلمہ‘‘ (جو یہاں ’’ی‘‘ ہے)گرگیا۔ اور اس سے ماقبل (عین کلمہ) چونکہ مفتوح ہے لہٰذا اس کی فتحہ (ــــــَــــ)برقرار رہی اور یوں لفظ ’’ اشْتَرَوُا ‘‘ بن گیا۔ جس کو بصورت وصل (جب وقف نہ کیا جائے)سابقہ کلمہ (الذین)کے ساتھ مل کر پڑھنے کے لیے ابتدائی ھمزۃ الوصل تلفظ میں نہیں آتا بلکہ ’’نَشْ‘‘ پڑھا جاتا ہے اور اسی (اِشْتَرَوْا) کو مابعد والے کلمہ (الضللۃ) سے ملانے کے لیے آخری ساکن واو (وْ) کو حرکت ضمہ(ـــــُـــــ) دی جاتی ہے ۔[1]  (اور تلفظ میں لفظ ’’الضلالۃ‘‘ کا ابتدائی ھمزۃ الوصل بھی گرجاتا ہے) تلفظ میں ساقط تمام حروف علامات ِضبط سے خالی رکھے جاتے ہیں۔

·       اس مادہ (ش ری) سے فعل ثلاثی مجرد ’’شرَی… یشرِیْ شِرًی‘‘(عموماً باب ضرب سے)آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’…کو بیچ دینا‘‘۔ کبھی یہ ’’خریدلینا‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ تر اس کے معنی ’’بیچ دینا ‘‘ ہی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مادہ (شری)اس باب (ضرب) سے بھی اور باب سمِعَ سے بھی بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد) کے ماضی اور مضارع کے مختلف صیغے جو کُل چار جگہ آئے ہیں، ہر جگہ یہ باب ضرب سے اور ’’بیچنا‘‘ کے معنوں میں ہی آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’ اِشْتَرَوْا ‘‘اس مادہ (شری) سے بابِ افتعال کا فعل ماضی صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ باب افتعال سے اس فعل ’’اشترَی… یَشترِی اِشتراءً‘‘ کے معنی بنیادی طور پر تو ’’… کو مول لے لینا‘‘ ،  ’’خرید لینا‘‘ ہی ہوتے ہیں اور کہیں کہیں یہ ’’بیچ دینا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ اور وجہ اس ’’اَضداد‘‘ کی یہ ہے کہ دراصل ’’خرید نا اور بیچنا‘‘ دو ایسے فعل ہیں جو بیک وقت سر انجام پاتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں ایک آدمی کوئی چیز ’’خرید رہا‘‘ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ وہ اس چیز کا عوض (یاقیمت) ’’بیچ رہا‘‘ (دے رہا) ہوتا ہے۔ یہی حالت کوئی ’’چیز بیچ کر‘‘ اس کی قیمت ’’خرید کر، لینے والے ‘‘ کی ہوتی ہے۔

        عربی زبان میں یہ دونوں فعل ـــشری (مجرد) اور اشتری (افتعال)ـــدونوں چیزوں ـــچیز اور قیمت کے لیے اس طرح استعمال ہوتے ہیں۔

شرَی (۱)… بِ… (۲)= (۱) کو (۲) کے بدلے بیچ دینا یعنی (۱) دے کر اس کے عوض (۲) لے لینا۔ اشتری… (۱) …بِ… (۲) =(۱) کو (۲) کے بدلے خرید لینا یعنی (۱) لے کر اس کے عوض (۲) دے دینا یعنی ’’شری کذا بکذا‘‘ میں بیچی جانے والی شے مفعول بنفسہ ہو کرآتی ہے اور جتنے میں وہ چیز بیچی یا جو عوض وصول کیا اس پر باء (بِ) کا صلہ داخل ہوتا ہے اور ’’اشتری کذا بِکذا‘‘ میں خریدی جانے والی شے تو مفعول بنفسہٖ ہو کر آتی ہے اور جتنے میں وہ چیز خریدی جائے یا جو عوض دیا جائے اس پر باء (بِ) کا صلہ آتا ہے۔ آپ مندرجہ بالا استعمال کو سمجھ لینے سے اور اسے مد نظر رکھ کر حسب موقع ان افعال کا اردو ترجمہ ’’بیچنا‘‘ یا ’’خریدنا‘‘ کرنے کی وجہ معلوم کرسکیں گے۔ اگرچہ ’’شری ‘‘ زیادہ تر ’’بیچنا‘‘ اور ’’اشتری‘‘ زیادہ تر ’’خریدنا‘‘ کے لیے ہی مستعمل ہوتے ہیں۔ یہاں (زیر مطالعہ لفظ) ’’ اشتروا‘‘ کا ترجمہ ’’انہوں نے مول لی، خریدلی، خرید کرلی، خریدی،‘‘ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ آگے مفعول مونّث آرہا  ہے۔

۱:۱۲:۲(۲)     [الضَّلَالَۃَ] (یہ اس لفظ کی عام عربی املاء ہے۔ اس کے رسم عثمانی پر آگے بحث ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی)۔ اس لفظ کا مادہ ’’ض ل ل‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَالَۃٌ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کے معانی اور اس کے لازم و متعدی استعمال (مثلاً گمراہ ہونا، کھوجانا یا گم کر بیٹھنا، کھو دینا وغیرہ) پر الفاتحہ :۷ [۱:۶:۱(۶)]میں تفصیلاً بات ہوچکی ہے۔ یہاں ’’ الضلالۃ ‘‘ کا ترجمہ ’’گمراہی‘‘ ہوگا۔

۱:۱۲:۲(۳)     [بِالْهُدَى] یہ بِ (کی بجائے)+الھدی (جس پر ابھی بات ہوگی) کا مرکّب ہے۔ ’’الھدی‘‘ کا لام تعریف ہٹا دیں تو باقی ’’ھُدًی‘‘ بچتا ہے۔ اس (ھدًی) کامادہ ’’ھ دی‘‘ اور وزن اصلی ’’فُعَلٌ‘‘ہے جو تعلیل کے بعد ’’فُعًی‘‘رہ گیا ہے۔ اس لفظ کی اصلی شکل  ’’ھُدَیٌ‘‘ تھی۔ یا یوں کہئے کہ تلفظ کے مطابق یہ ’’ھُدَیُنْ‘‘ تھا۔ یاء متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدلی اور یہ ’’ھُدان‘‘ہوگیا۔ التقاء ساکنین (یعنی دو ساکنـــ الف اور نونـــ اکھٹے ہونے) کے باعث الف گرادیا گیا اور باقی لفظ ’’ھُدَنْ‘‘رہ گیا۔ یہ ملفوظی صورت ہے۔ اسی کی مکتوبی صورت (املاء) ’’ھُدًی‘‘ ہے تاکہ معلوم رہے کہ اس کا لام کلمہ ’’ی‘‘ ہے۔ ریاضی کی زبان میں یہ تعلیل یوں بیان کی جاسکتی ہے۔ ھُدَیٌ=ھُدَیُنْ=ھُدان=ھُدَنْ=ھُدًی۔

·       اس مادہ (ھدی) سے فعل ثلاثی مجرد کے معنی اور استعمال پر اس سے پہلے الفاتحہ:۶[۱:۵:۱(۱)]میں بات ہوچکی ہے۔ ’’ھدیً‘‘ فعل ثلاثی مجرد کا ایک مصدر ہے۔ اس کا ہم معنی دوسرا لفظ ’’ھدایۃ‘‘ بھی اسی فعل کا مصدر ہے جو باملاء ’’ہدایت‘‘ اردو میں اپنے اصل عربی معنی (رہنمائی)کے ساتھ مستعمل ہے۔ اس لیے اکثر مترجمین ’’ھدی‘‘ کاترجمہ ’’ہدایت‘‘ ہی کرتے ہیں۔ لفظ ’’ ھدی‘‘مفرد ، مرکب، معرفہ نکرہ اور مختلف اعرابی حالتوں کے ساتھ قرآن کریم میں بکثرت (۸۵ جگہ) وارد ہوا ہے۔ البتہ کلمہ ’’ھدایۃ‘‘ قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔

۱:۱۲:۲(۴)     [فَمَا رَبِحَتْ] یہ ’’فَ‘‘ (پس)+مَا(نہیں۔ نہ) + رَبِحَتْ کا مرکّب ہے۔ اس میں آخری کلمہ ’’ رَبِحَتْ ‘‘ کا مادہ ’’رب ح‘‘ اور وزن ’’فَعِلَتْ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ربِح یربَحُ رِبحًا‘‘(باب سمع سے)استعمال ہوتا ہے اور اسکے بنیادی معنی ہیں ۔’’فائدہ پانا، نافع یا سود مند ہونا‘‘، ’’فائدہ مند ہونا‘‘، ’’نفع بخش ہونا‘‘ـــ یعنی یہ فعل لازم ہے اس کا کوئی مفعول نہیں آتاـــ مثلاً عربی میں یا تو کہیں گے ’’ربِح الرجُلُ فِی تجارتِہ‘‘ (آدمی نے فائدہ پایا ـــیاوہ نفع لایا ـــاپنی تجارت میں)۔ اور اسی مضمون کو عربی محاورے میں یوں بھی ادا کرتے ہیں کہ ’’رَبِحَتْ تجارَتُہ‘‘ (اس کی تجارت فائدہ مند ہوئی، نفع لائی، نافع ہوئی، سود مند ہوئی، نفع بخش ہوئی) اردو میں بعض مترجمین نے فعل ’’ رَبِحَتْ ‘‘ کا ترجمہ فعل متعدی کی طرح ’’نفع دیا‘‘ کر لیا ہے۔ جسے صرف مفہوم یا محاورے کے لحاظ سے ہی درست کہا جاسکتا ہے۔ لفظ کے اعتبار سے یہ ترجمہ اس لیے درست نہیں ہے کہ ’’ربِح‘‘  فعل لازم ہے اس کا مفعول نہیں ہوتا۔ یعنی عربی میں ’’ربحتہ تجارتُہ‘‘ (اس کو اس کی تجارت نے نفع دیا) کہنا بالکل غلط ہے۔ اس مادہ (ربح) سے فعل مجرد کا صرف یہی ایک صیغہ قرآن کریم میں صرف اسی جگہ استعمال ہوا ہے۔

۱:۱۲:۲(۵)     [تِجَارَتُھُمْ] جو تجارۃ+ھم (ان کی) کا مرکّب ہے۔ اس میں کلمہ ’’تجارۃٌ‘‘ کا مادہ ’’ت ج ر‘‘ اور وزن ’’فِعَالۃٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’تجَریتجُر تجارۃً‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’سوداگری کرنا‘‘ ہیں۔ اور خود لفظ ’’تجارۃ‘‘ اردو میں ’’تجارت‘‘ کی املاء کے ساتھ اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ مستعمل ہے۔ اس لیے اس فعل کا ترجمہ ’’تجارت کرنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ اسی سے اسم فاعل "تاجر"(بمعنی سوداگر) بھی اردو میں متداول ہے۔

·       اس فعل (’تجریتجُر) کا کوئی مفعول (بنفسہ)نہیں آتا اگر کہنا ہوکہ ’’فلاں چیز کی تجارت کی‘‘ تو عربی میں اس کے لیے فعل کے بعد …’’فی‘‘… استعمال ہوتا ہے مثلاً کہیں گے تجَرفی الْکُتبِ (کتابوں کی تجارت کی)ـــ اس مادہ (تجر) کی ایک لفظی خصوصیت قابلِ ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ واحد مستعمل مادہ ہے جس میں ’’ت‘‘ کے بعد ’’ج‘‘ ہے یعنی جس کا فاء کلمہ ’’ت‘‘ اور عین کلمہ ’’ج‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کا صرف مصدر ’’تجارۃ‘‘ ہی معرفہ نکرہ اور مفرد یا مرکب صورت میں کل ۹ جگہ آیا ہے۔ اس مصدر یا مادہ سے کوئی فعل یا کوئی اسم مشتق قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔

۱:۱۲:۲(۶)     [وَمَا كَانُوْا] جو وَ+مَا+کانوا تین کلمات کا مرکب ہے ان کلمات میں ’’وَ‘‘ کے معنی و استعمال پر الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱(۳)]میں اور ’’مَا‘‘ کے معانی پر البقرہ:۳ [۱:۲:۲(۵)]میں اور ’’ كانوا ‘‘ کے مادہ ، وزن اور فعل مجرد کے معنی اور استعمال پر نیز ’ کانوا ‘‘ کی اصل شکل (کَوَنُوا) اور اس میں واقع ہونے والی تعلیل وغیرہ کے بارے میں بھی البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲(۱۰)]میں بات ہوچکی ہے۔ یہاں ’’ وماکانوا ‘‘ کا ترجمہ ’’اور نہ ہوئے وہ‘‘ یا بامحاورہ ترجمہ ’’اورنہ ہی وہ ہوئے/ تھے‘‘ ہوگا۔

۱:۱۲:۲(۷) [مُهْتَدِيْنَ] کا مادہ ’’ھ د ی‘‘ اور وزن اصلی ’’مُفْتَعِلِیْنَ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’مُھْتَدِیِیْن‘‘تھی۔ جس میں دو ’’یاء‘‘ جمع ہونے کے باعث اصل مادہ کی یاء (جو لام ِکلمہ ہے) گرادی جاتی ہے اوریوں لفظ ’’ مُهْتَدِيْنَ ‘‘ رہ جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد اور اس کے معنی و استعمال پر الفاتحہ:۶ [۱:۵:۱(۱)]میں بات ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’ مھتدین‘‘ اس مادہ (ھدی) کے باب افتعال سے اسم الفاعل کا صیغہ جمع مذکر سالم ہے۔ اور اس باب سے فعل ’’ اِھتَدَی یھتَدِی اھتداءً‘‘ کے معنی ہیں: ’’راہ پانا، ہدایت پانا، ٹھیک طریقے پر چلنا‘‘ اور اس کے اسم ِفاعل ’’مُھْتدٍی‘‘ (بصیغہ واحد) کے معنی ہوں گے:

’’راہ پانے والا، ہدایت پانے والا‘‘۔ بنیادی طور پر یہ فعل لازم ہے اور اپنے فعل ثلاثی مجرد کی مطاوعت کے لیے آتا ہے۔ یعنی عربی میں کہیں گے ’’ھَداہ فاھْتدَی‘‘ (اس نے اس کو راہ دکھائی پس وہ راہ پاگیا)

·       کبھی اس فعل (اھتدی) کے ساتھ ’’الی‘‘ یا ’’لِ‘‘ (لام الجر) کا صلہ آتا ہے یعنی کہتے ہیں ’’ اھتدی اِلی کذا یا اھتدی لِکذا‘‘ یعنی اس نے فلاں چیز(کذا) کی طرف راہ پائی۔ تاہم یہ صلہ والا استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیاـــ اور کبھی اس فعل کے ساتھ فعل متعدی کی طرح ایک مفعول منصوب بھی آجاتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’ اھتدی الطریقَ الی کذا‘‘ (اس نے فلاں چیز کی طرف راہ پالی۔ یا اس کی طرف راہ پانے کا طلبگار ہوا)۔ اس طرح کے مفعول بنفسہ (کے ساتھ) آنے کی صرف ایک مثال قرآن کریم (النساء:۹۸) میں آئی ہے۔ عربی زبان میں یہ فعل (مندرجہ بالا کے علاوہ) کچھ اور معنی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’دلھن کو خاوند کے گھر بھیجنا‘‘ یا گھوڑے کاآگے رہنے والوں میں سے ہونا‘‘ـــ تاہم یہ فعل قرآن کریم میں ان معنی کے لیے کہیں استعمال نہیں ہوا۔۔۔ اس فعل (اھتدی) سے مختلف اَفعال اور اسماء مشتقہ قرآن کریم میں ساٹھ کے قریب مقامات پر وارد ہوئے ہیں اور ہر جگہ یہ اپنے بنیادی معنی ’’راہ پانا، ہدایت پانا، راہ راست پر قائم رہنا، ٹھیک راستے پر چلنا‘‘ وغیرہ کے مفہوم کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔

 

۲:۱۲:۲      الاعراب

  اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاالضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی ۔۔۔ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُہُمْ۔۔۔ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ

آیت زیر مطالعہ بنیادی طور پر  تین جملوں پرمشتمل ہے جن کو ہم (اوپر) لکھتے وقت ایک فاصلہ (۔۔۔)سے الگ الگ کردیا ہے پھر یہ تینوں جملے حروف عاطفہ (’’فَ‘‘ اور ’’وَ‘‘) سے باہم مربوط ہوکر ایک لمبا جملہ بناتے ہیں۔ اعراب کی تفصیل یوں ہے:۔

·       [اولئِکَ] اسم اشارہ صیغہ جمع ہے جو یہاں مبتدأ ہے لہٰذا مرفوع ہے مبنی ہونے کے باعث علامتِ رفع ظاہر نہیں۔ [الذین] اسم موصول ہے جو اپنے (آگے آنے والے) صلہ کے ساتھ مل کر (اولئک کی) پہلی خبر بنے گا۔ لہٰذا یہ بھی یہاں (خبر ہوکر)مرفوع ہے۔ اور مبنی ہونے کے باعث اس میں بھی ظاہراً کوئی علامت ِرفع نہیں ہے۔ [اشْتَرَوْا] فعل ماضی معروف (جمع مذکر غائب) ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے (جو ’’الذین‘‘ کے لیے ہے)۔ [الضلالۃ] فعل (اشترَوُا) کا مفعول بہ (لھذا) منصوب ہے علامت نصب آخری ’’ۃ‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے۔ ]بالھدی[ جار ّ(بِ) اور مجرور (الھدی جس میں اسم مقصور ہونے کے باعث علامت جر ظاہر نہیں ہے) مل کر فعل ’’اشتروا‘‘ سے متعلق ہیں۔ یہ فعل مع ضمیر فاعل، مفعول اور متعلق فعل سب مل کر (یعنی اشترواالضلالۃ بالھدی) اسم موصول ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے اور صلہ موصول مل کر (الذین اشترواالضلالۃ بالھدی) سب مبتدأ (اولئک) کی خبر اول بنتا ہے۔ جس کا ترجمہ لفظی ہوگا ’’وہ لوگ(ہیں) جنہوں نے خرید لیا گمراہی کو ہدایت کے بدلے‘‘۔۔ بعض نے ’’خریدلی‘‘ کی بجائے صرف ’’لے لی‘‘سے ترجمہ کیا ہے جو لفظ سے ہٹ کر ہے۔ اسی طرح بعض نے ’’کے بدلے‘‘ کی بجائے ’’کو چھوڑ کر‘‘ ترجمہ کیا ہے اور یہ بھی محاورے کے مطابق مگر لفظ سے ہٹ کر ہے۔

·       [فَمَا] میں ’’فَ‘‘ عاطفہ ہے جس میں تعقیب (پیچھے لگانا) کا مفہوم ہے۔ جسے اردو میں ’’پس‘‘ (یعنی پھر نتیجہ یہ ہوا کہ) سے ظاہر کرتے ہیں ۔۔۔اور ’’ما‘‘ نافیہ (بمعنی نہیں یا نہ ہی) [ربِحَتْ] فعل ماضی صیغہ واحد مونث غائب ہے۔اور فعل کی تانیث فاعل (تجارۃ) کی تانیث کی وجہ سے ہے۔ [تجارتُھم] مضاف (تجارۃُ) اور مضالف الیہ (ھُم) مل کر (پورا مرکب اضافی) فاعل ہے۔ اس لیے مضاف یعنی لفظ ’’تجارۃُ‘‘ مرفوع ہے۔ علامتِ رفع ’’تاء‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے۔ یہ منفی جملہ فعلیہ (فماربحت تجارتھم) ’’ اولئک (مبتدأ) کی دوسری خبر بنتا ہے۔

·       [وَمَا] میں واو عاطفہ (بمعنی اور) ہے۔ اور یہاں بھی ’’مَا‘‘ نافیہ ہے۔ (بمعنی ’’نہ‘‘ یا ’’نہ ہی‘‘) [کانوا] فعل ناقص صیغہ ماضی جمع مذکر غائب ہے۔ جس کا اسم ’’ھم‘‘اس کی آخری واو الجمع سے معلوم ہوتا ہے ۔ [مھتدین] ’’کانوا‘‘ کی خبر (لھٰذا)منصوب ہے اور اس کی علامتِ نصب آخری ’’ن‘‘ سے ماقبل والی (ـِـیْ)ہے کیونکہ یہ جمع مذکر سالم کا صیغہ ہے جس کی علامتِ رفع، ـــــُـــــ وْ ’ (نَ) اور نصب و جر ’’ ــِـ ی‘‘ (نَ) سے ظاہر ہوتی ہے اور یہ آخری منفی جملہ اسمیہ (وماکانوا مھتدین) ’’ اولىِٕك ‘‘ کی تیسری خبر بنتا ہے۔ اس طرح ’’ وماکانوا مھتدین" کاترجمہ ہوا ، اور نہ ہی وہ ہوئے راہ پانے والے۔ اسی کا بامحاورہ ترجمہ بعض نے ’’اور نہ ہی وہ ٹھیک راستے پر چلے‘‘ اور بعض نے ’’وہ راہ راست پر قائم نہ رہے‘‘ کیا ہے جو اس لحاظ سے درست نہیں کہ جملہ اسمیہ کا ترجمہ جملہ فعلیہ سے کردیا گیا ہے۔ اور بعض نے ’’وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو سابقہ ’’ذکر تجارت‘‘ کی وجہ سے بامحاورہ تو کہا جاسکتا ہے مگر نص (اصل قرآنی عبارت) سے بہت دور ہے۔

 

۳:۱۲:۲      الرسم

  اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاالضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی ص فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ

زیر مطالعہ آیت میں بلحاظ رسم عثمانی صرف دو لفظ ’’ الضلالۃ ‘‘اور ’’ تجارتھم‘‘ تفصیل طلب ہیں۔ باقی تمام کلمات کا رسمِ املائی اور رسم قرآنی یکساں ہے یہ بات پہلے مذکور ہو چکی ہے کہ ’’ اولئک ‘‘ اور ’’الذین‘‘ کا یہ رسم (املائی) دراصل رسم املائی پر رسمِ عثمانی کے اثرات کا ایک نمونہ ہے۔

کلمہ ’’ الضلالۃ ‘‘ (یہ اس کااملائی رسم ہے) قرآن کریم میں ہر جگہ (اور یہ لفظ مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں قرآن کریم کے اندر نو جگہ آیا ہے)بحذف الف (بین اللامین) یعنی بصورت ’’ الضللۃ‘‘لکھا جاتا ہے اور یہ علمائے رسم کا متفقہ مسئلہ ہے۔ جن مصاحف (مثلاً ترکی اور ایران) میں اسے باثبات الف لکھا گیا ہے تو یہ رسم عثمانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔

        لفظ ’’ تجارتھم ‘‘ کے ابتدائی حصے ’’تجارۃ‘‘ کی رسم املائی اسی طرح باثبات الف (بعد الجیم) ہے۔ یہ لفظ (تجارۃ) قرآن حکیم میں مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں کل نو (۹)جگہ آیا ہے۔ ہر جگہ اس کے رسم عثمانی میں اس کے الف (بین الجیم والراء) کے حذف واثبات میں اختلاف ہے۔ الدانی نے اس کے محذوف الالف ہونے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اور حذف پر عمل اسی صورت میں ہوتا ہے جب اس کی صراحت موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ لیبیا کے مصحف میں اسے ہر جگہ باثبات الف ’’تجارۃ‘‘ لکھا گیا ہے۔ بر صغیر میں صحت کے اہتمام سے شائع ہونے والے مصاحف (مثلاً انجمن حمایت ِاسلام کے نسخہ اور الفی قرآن مطبوعہ بمبئی) میں بھی اسے باثبات الف ہی لکھاگیا ہے۔

صاحب نثر المرجان نے خلاصہ الرسوم کے حوالے سے اس کا باثباتِ الف لکھا جانا ہی بیان کیاہے اور تمام مشرقی ممالک میں اسی پر عمل ہے۔ تاہم ابو داؤد (سلیمان بن نجاح)سے (مورد الظمآن وغیرہ میں) اس کلمہ (تجارۃ) کا بحذف الف لکھا جانا مروی ہے۔ شامی ،مصری، سعودی اور بیشتر افریقی ممالک میں اسی (بصورت اختلاف الدانی کی بجائے ابو داؤد کو ترجیح دینے کی) وجہ سے اسے بحذف الف ’’تجرتھم‘‘ لکھا جاتا ہے۔

 

۴:۱۲:۲      الضبط

  اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاالضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی ص فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ

زیر مطالعہ آیت میں بلحاظ دو کلمات ’’ اولئک ‘‘ اور ’’ الضللۃ ‘‘ قابلِ توجہ ہیں ’’اولئک‘‘ کے ضبط کے مختلف پہلوؤں پر البقرہ:۵ [۴:۴:۲(۹)] میں بالتفصیل لکھا جاچکا ہے۔ ان دونوں کلمات کے ضبط میں ’’لام‘‘ کے بعد والے محذوف الف کو ظاہر کرنے کے طریقے کا اختلاف بہت دلچسپ اور متنوع ہے جیسا کہ آپ نیچے دئے گئے نمونوں میں ملاحظہ کریں گے۔ باقی اختلافات وہی ھمزۃ الوصل، ھمزۃ القطع، زائد حروف پر علامتِ تنسیخ وغیرہ  پر مشتمل ہیں۔آیت کے تمام متفق یا مختلف ضبط والے کلمات کی مثالیں درج ذیل ہیں:۔

 

 



   [1] اور یہ ضمہ (ـــــُـــــ) اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ واو الجمع ہے اگر اصلی (مادہ کی) واو ساکن ہو تو اسے عام قاعدے (اذا حُرِّکَ حُرِّکَ بالکسر) کے تحت کسرہ (ــــــِــــ) ہی سے آگے ملاتے ہیں مثلاً :’’لَوِاسْتَطَعْنَا‘‘ کی ’’لَوْ‘‘ والی واوساکنہ میںـــ بعض نحویوں نے یہاں واو کو مضموم کرکے آگے ملانے کی کچھ اور وجوہ بھی بیان کی ہیں (بلکہ دور کی کوڑی لائے ہیں)آپ چاہیں تو دلچسپی کی خاطر دیکھئے ابن الانباری (البیان) ج۱ص۵۸، عکبری (التبیان) ج۱ ص۳۲ اور القیسی (مشکل) ج۱ ص۲۶۔