سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷ اور ۱۸

۱۳:۲       مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّآ اَضَآئَ تْ مَا حَوْلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لاَّ یُبْصِرُوْنَ (۱۷) صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ (۱۸)

۱:۱۳:۲     اللغۃ

۱:۱۳:۲(۱)     [مَثَلُہُم] یہ مَثَلُ (جس پر ابھی بات ہوگی) +ھم (ضمیر مجرور بمعنی ’’…ان کی‘‘) کا مرکّب ہے۔ اس میں لفظ ’’مَثَلٌ ‘‘ (جو عبارت میں مضاف ہونے کے باعث خفیف ہوکر ’’مَثَلُ‘‘ رہ گیا ہے) کا مادہ ’’م ث ل‘‘ اور وزن ’’فَعَلٌ ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’مثَل یمثُل مُثُولًا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’سیدھا کھڑا ہونا اور … کی مانند ہوجانا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور صلہ (عموماً ’’باء‘‘) کے ساتھ یہ بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ (مثل) سے فعل کا تو صرف ایک ہی صیغہ باب ’’تفعّل‘‘ سے صرف ایک جگہ (مریم:۱۶) آیا ہے۔ البتّہ اسماء کی مخلتف صورتیں مثلاً: ’’مَثَلٌ، مِثْلٌ، اَمْثَلٌ، مُثْلٰی اور تَمَاثِیْل‘‘ وغیرہ متعدد مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان کا بیان اپنی اپنی جگہ پرآئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

·       لفظ ’’مَثَلٌ‘‘ (جو قرآن کریم میں ستر (۷۰)کے قریب مقامات پر آیاہے) کے بنیادی معنی ہیں: ’’کسی (ایک) چیز کا حال کسی دوسری ملتی جُلتی چیز کے حوالے سے اس طرح بیان کرنا جس سے اس پہلی چیز کی وضاحت ہوجائے‘‘۔ اسی بنا پر اس لفظ (مَثَلَ) کا ترجمہ ’’مثال، حال، بیان، بات، کہاوت، صفت اور حالت‘‘ کے علاوہ ’’عبرت‘‘اور ’’علامت‘‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔

۱:۱۳:۱(۲)     [کَمَثِلِ] لفظ ’’مثل‘‘ کے بارے میں ابھی اوپر ضروری وضاحت کردی گئی ہے۔ لفظ ’’کاف‘‘ (کَ…) جو یہاں ’’مثل‘‘ سے پہلے آیا ہے۔ یہ ایک مشہور حرف الجر ہے جو (۱) زیادہ ترتشبیہ کے لیے آتا ہے۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’…کی مانند، …جیسا‘‘ ہوتا ہے جیسے ’’ھُوَ کالأ سدِ‘‘ (وہ شیر جیسا ہے) میں ـــ (۲) کبھی یہ کسی کی حالت یا صفت بتانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’بطور… (ہونے) کے‘‘یا ’’بحیثیت…کے ‘‘ سے کرنا پڑتا ہے مثلاً ’’اشتھرَ کَمُعَلَّمٍ کَبیرٍ‘‘ (وہ بطور ایک بڑا استاد ہونے کے (کی حیثیت سے) مشہور ہوا)میںـــ(۳) کبھی یہ ’’مَا‘‘ موصولہ کے شروع میں لگ کر ایک لفظ ’’کَمَا‘‘کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’اس لیے کہ‘‘ اور ’’جس طرح سے کہ‘‘ کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ تعلیل (سبب بتانے) کے معنی دیتا ہے۔ اس استعمال کی بعض مثالیں گزر چکی ہیں (مثلاً البقرہ:۱۳میں) اور بہت سی آگے ہمارے سامنے آئیں گی۔ (۴) کبھی یہ (کاف الجر) ’’زائد‘‘ ہوتا ہے مگر دراصل اس سے تاکید اور زور کے معنی پیدا ہوتے ہیں مثلاً ’’لیس کَمِثلہ شَیئٌ‘‘ میں جو دراصل تو ’’لیس شَیْیٌ مثلَہ‘‘ (کوئی چیز اس کی مانند نہیں) تھا مگر ’’مِثْلہ‘‘ پر کاف الجر لگنے سے اب معنی ’’اس کی تو مثال کی سی بھی کوئی شے نہیں‘‘ ہوں گے یعنی ’’مانند‘‘ تو درکنار ’’مانند سے ملتی جلتی‘‘ بھی کوئی چیز نہیں ہے۔

·       یہ تو اس (کاف) کے بطور حرف الجر استعمال کی کچھ مثالیں تھیں۔ اس کے علاوہ یہ (کَ) بطور ضمیر منصوب یا مجرور کے بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ’’تجھ کو یا تیرا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور یہی (کَ) اسماء اشارہ (برائے بعید) کے آخری حصے کے طور پر بھی آتا ہے۔ اس کا بیان البقرہ:۲ [۱:۱:۲(۱)]میں ہوچکا ہے۔

۱:۱۳:۲(۳)      [الَّذِى اسْـتَوْقَدَ] اس میں ’’الذی‘‘ تو اسم موصول برائے واحد مذکّر ہے جس کا ترجمہ یہاں ’’وہ جو کہ…‘‘، ’’جو جس نے کہ‘‘ ہوگا اور بعض جگہ حسب موقع اس کا ترجمہ ’’وہ جس کوکہ‘‘ یا ’’وہ کس کا کہ‘‘  سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسماء موصولہ کے بارے میں کچھ بیان الفاتحہ:۷ [۱:۶:۱(۱)]میں گزر چکا ہے۔

·       اور ’’ اسْـتَوْقَدَ ‘‘ کامادہ ’’و ق د‘‘ اور وزن ’’اِسْتَفْعَلَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد وقَد یَقِدُ (دراصل ’’یَوقِدُ‘‘) وُقُودًا (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’(آگ کا) جل اٹھنا‘‘ ہے یعنی اس کا فاعل عموماً ’’النار‘‘ ہی ہوتا ہے مثلاً کہیں گے ’’وقَدَت ِالنارُ تَقِدُ‘‘=آگ جل اٹھی [’’النار‘‘کے مونث سماعی ہونے کے باعث فعل کی تأنیث نوٹ کیجئے] قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد)سے کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتّہ مزید فیہ کے بعض ابواب مثلاًاِفعال اور استفعال سے کچھ اَفعال اور اسماء مشتقہ آئے ہیں جن کا بیان اپنی اپنی جگہ پر آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       ’’ اسـتَوقَدَ ‘‘ اس مادہ (وقد) سے باب استفعال کےفعل ماضی معروف کا پہلا صیغہ (واحد مذکر غائب)ہے۔ اس فعل ’’استَوْقَدَ یَستَوقِدُ استِیْقَادًا‘‘ (دراصل استِوْقَاد) کے معنی ’’(آگ کو) جلانا، روشن کرنا‘‘ بھی ہیں اور ’’(آگ کا) جلنا، روشن ہونا‘‘ بھی یعنی یہ فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (وقد)سے بابِ استفعال یہی ایک صیغہ صرف اسی(ایک)جگہ  اور وہ بھی بطور فعل متعدی کے آیا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’اس نے …کو جلایا، …کو سلگایا، …کو روشن کیا‘‘ سے کیا گیاہے۔

۱:۱۳:۲(۴)     [نارًا] لفظ ’’نَارٌ‘‘ (جس کی یہ منصوب شکل ہے) کا مادہ ’’ن و ر‘‘ اور وزن (اصلی) ’’فَعَلٌ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’نَوَرٌ‘‘ تھی۔ جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح‘‘ الف میں بدل گئی ہے۔ اس مادہ (نور) سے فعل ثلاثی مجرد نار ینور(دراصل نَوَر یَنْوُرُ) نَوْرًا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے متعدد معنی ہوتے ہیں جن میں سے ایک معنی ’’روشن کرنا‘‘ بھی ہیں۔تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کاـــ بلکہ کسی بھی باب سے ـــکوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ (صرف ایک آدھ اسم ِمشتق آیا ہے) لفظ ’’نارٌ‘‘ جو مفرد مرکب معرفہ نکرہ اور مختلف اعرابی حالتوں میں قرآن کریم کے اندر ۱۴۵ دفعہ آیا ہے، اس کے سب سے مشہور معنی ’’آگ‘‘ ہیں جو کبھی مجازاً بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال آگے چل کر المائدہ:۶۴ میں ہمارے سامنے آئے گی۔

۱:۱۳:۲(۵)      [فَلَمَّا[یہ ’’فَ‘‘ (عاطفہ بمعنی ’’ پس‘‘) +’’لَمَّا‘‘ (جس پر ابھی بات ہوگی) کا مرکب ہے۔ یہ ’’ لَمَّا ‘‘ ظرف بمعنئیِ’’حِیْنَ‘‘ یعنی ’’جب‘‘ یا ’’جس وقت‘‘ہے۔ اس میں شرط کے معنی تو شامل ہوتے ہیں مگر یہ جازم نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ فعل ماضی پر ہی آتا ہے۔ اس ’’ لَمَّا‘‘ کو نحوی حضرات ’’لَمَّا اَلحینیۃ‘‘ (وقت کے معنی والا ’’لَمَّا‘‘) کہتے ہیں اور بعض دفعہ اسے ’’حرف وجودٍ لِوجودٍ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اکثر اس کے بعد دو فعل آتے ہیں۔ جن میں سے دوسرا فعل پہلے فعل کے وجود (موجود ہونا) کی بنا پر آموجود ہوتا ہے۔ [جیسے یہاں آیت ِزیر مطالعہ میں پہلا فعل ’’ اضاءتْ ‘‘ اور اس کے بعد دوسرا فعل ’’ ذھبَ ‘‘ہے۔ ان پر ابھی بحث ہوگی] بعض نحوی اس ’’ لَمَّا‘‘ کو حرف رابطہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس سے دو فعلوں میں ربط قائم ہوجاتا ہے۔ اسی بناء پر ’’ فَلَمَّا کا(فاء سمیت) اردو ترجمہ ’’پس جب، توجب، پھر جب‘‘ یا صرف ’’جب‘‘ سے کیا گیا ہے۔ اس میں اس لیے اصل لفظ اور اردو محاورہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے اچھا ترجمہ ’’تو جب‘‘ بنتا ہے اس کے بعد ’’پس جب‘‘ہے (کیونکہ اس میں ’’فَ‘‘ سے زیادہ ’’ثُمَّ‘‘ کا ترجمہ ہے اگرچہ ’’فاء‘‘(فَ) اور ’’ثُمَّ‘‘ دونوں میں ترتیب کا مفہوم مشترک ہے) صرف ’’جب‘‘ میں ’’ لَمَّا‘‘ کاترجمہ ہے مگر ’’فَ‘‘ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

۱:۱۳:۲(۶)     [اَضَاءَتْ] کا مادہ ’’ض و ء‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعَلَتْ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’أَضْوَأَتْ‘‘ تھی۔ جس میں ’’وَ‘‘ کی حرکت فتحہ (ــــــَــــ) اس کے ماقبل ساکن حرف صحیح (ض) کو دے کر خود ’’واو‘‘ کو اپنے ماقبل کی حرکت (ـــــَــــ)کے مطابق حرف (الف) میں بدل کر لکھا  (اور پڑھا) جاتا ہے ـــاس مادہ (ض و ء) سے فعل ثلاثی مجرد’ ’ ضاءَ یَضُوْءُ (دراصل ضَوَءَ یَضْوُءُ) ضَوْءً ا‘‘ (باب نصر سے)آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں ’’روشنی دینا یا روشن ہونا‘‘۔ اس مادّہ سے بھی فعل مجرد کا کوئی صیغہ قرآنِ مجید میں نہیں آیا۔ البتہ اس کا ایک مصدر ’’ضِیاءٌ (جو دراصل ضِوَاءٌ تھا) اور بابِ افعال کے کچھ صیغے آئے ہیں۔ جن میں سےایک یہ ’’اَضاءَتْ ‘‘ بھی ہے۔

·       ’’ اَضاءَتْ ‘‘اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل ماضی صیغہ واحد مؤنث غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’أَضاءَ …یُضِیْئُ اِضَاء ۃً‘‘ (دراصل أَضْوَأ یُضْوِئُی اِضواءً) کے معنی ’’روشن کردینا‘‘ ہیں۔ بعض اہل ِلغت کا کہنا ہے کہ یہ فعل لازم بھی استعمال ہوتا ہے یعنی بمعنی ’’روشن ہونا‘‘ـــ اس لیے بعض مترجمین نے ’’ اضاءَتْ ‘‘ کا ترجمہ ’’جگمگا اٹھا‘‘ روشنی پھیلی بھی کیا ہے۔ ویسے یہاں فعل کی تانیث چونکہ ’’نار‘‘ کی وجہ سے ہے ا س لیے اس کا بنیادی ترجمہ ’’اس (مونث) نے روشن کردیا‘‘ ہی ہے۔

۱:۱۳:۲(۷) [مَا حَوْلَهٗ ]یہ تین کلمات یعنی ’’ما‘‘ (موصولہ بمعنی جو کچھ کہ)+’’حَوْل‘‘ (بمعنی ارد گرد آس پاس)+’’ہٗ ‘‘ (اس کا) سے مرکب ہے۔ اس میں لفظ ’’حَوْلٌ‘‘ کا مادہ ’’ح ول‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد حَال یحُول حَوْلًا۔ قال یقول کی طرح۔ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’بدل جانا یا جدا ہوجانا‘‘ پھر اس کے مختلف استعمالات اور متعدد معانی میں سے ایک معنی ’’حائل ہونا، آڑ بن جانا یا آڑ بنا دینا‘‘ بھی ہیں۔ جو قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے (مثلاً الانفال :۲۴، ھود:۴۳ اور سبأ:۵۴) ان کی تفصیل اپنی جگہ آئے گی۔ باب نصر سے مختلف معانی کے علاوہ یہ فعل (ثلاثی مجرد) باب سمِعَ سے ’’بھینگا ہونا‘‘ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ تاہم ان معنوں میں اور اس باب (سمع) سے یہ قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       فعل ثلاثی مجرد کی طرح کلمہ ’’حَوْل‘‘ کے بھی متعددمعانی ہیں۔ جن میں سے زیادہ مشہور معنی (۱) ’’برس‘‘ سال (۲) ’’قوت‘‘(تصرف کی قدرت) اور (۳) ’’ارد گرد، آس پاس‘‘ ہیں۔ ان معنوں میں سے پہلے معنی (برس یا سال) میں یہ لفظ قرآن کریم میں تین جگہ، اور تیسرے معنی(آس پاس) میں یہ لفظ پندرہ جگہ آیا ہے جن میں سے ایک مقام یہ زیر ِمطالعہ آیت والاہے۔ دوسرے معنی (قوت تصرف) کے لیے یہ لفظ قرآن مجید میں تو نہیں آیا۔ البتّہ اس کی معروف اور کثیر الاستعمال مثال’’لاحول ولا قوۃ الابااللہ‘‘ میں ہےـــ یہاں آیت میں ’’ ماحولہ ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ہوگا۔ جو کچھ اس کے آس پاس ہے ’’جسے صرف‘‘’’اس کا آس پاس‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

۱:۱۳:۲(۸)     [ذَھَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ] یہ ایک مکمل جملہ ہے جو پانچ کلمات پر مشتمل ہے۔ یعنی ’’ذھب+اللّٰہ+بِ+نور+ھم‘‘ کا مرکب ہے۔ ان میں سے ’’ذھبَ‘‘ کا مادہ ’’ذ ھ ب‘‘ اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد’ ’  ذھبَ یذھب ذھاباً‘‘ (باب فتح سے)آتا ہے اور اس کے معنی ’’جانا‘‘ یا ’’چلے جانا‘‘ ہیں۔ اور یہ ہمیشہ بطور فعل لازم استعمال ہوتا ہے۔ البتہ ’’باء‘‘(بِ) کے صلہ کے ساتھ یہ متعدی بن جاتا ہے یعنی ’’ذھَبَ بِ … ‘‘ کے لفظی معنی ’’…کو لے جانا‘‘اور بلحاظ محاورہ اس کے معنی ’’…کو مٹادینا‘‘ ختم کردینا‘‘ ہوجاتے ہیں۔ جس کی ایک مثال یہی زیر ِمطالعہ جملہ ہے۔ جس کا ترجمہ ’’لے گیا اللہ ان کی روشنی کو‘‘ یا ’’اللہ نے ان کی روشنی ختم کردی‘‘ہوگا۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ (ذھب) کے فعل ثلاثی مجرد سے اَفعال اور مختلف اسماء (مشتقہ) کل ۳۷ جگہ اور باب ِافعال سے مختلف صیغے ۱۱ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ لفظ ’’ذھَبٌ‘‘ بمعنی ’’سونا‘‘ (دھات) بھی اسی مادہ سے ہے جو قرآن کریم میں آٹھ دفعہ واردہوا ہے۔ ’’باء‘‘(بِ) کے علاوہ یہ فعل ثلاثی مجرد (ذھب یذھب) ’’عن‘‘، ’’ الی‘‘، ’’ علی‘‘ اور ’’فی‘‘(صلات) کے ساتھ بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں سے بعض قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ان سب چیزوں کا بیان حسب موقع آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       ’’ بِنُوْرِهِمْ ‘‘ میں ’’ب‘‘ تو ’’ذَھَبَ‘‘ کا صلہ ہے جس پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے اور آخر پر ضمیر مجرور ’’ھم‘‘ (بمعنی ’’ان کا‘‘)ہے۔ لفظ ’’نُوْر‘‘ کا مادہ ’’ن و ر‘‘ اور وزن ’’فُعْلٌ‘‘ہے جس کے آخری حرف (ر) کی حرکات اعرابی تبدیلی کے مطابق بدلتی رہتی ہیںـــ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد پر بحث ابھی اوپر لفظ ’’النار‘‘ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ [۱:۱۳:۲(۴) میں]۔

یہ لفظ (نور) مفرد و مرکب معرفہ نکرہ مختلف حالتوں میں قرآن کریم کے اندر کل ۴۳ دفعہ آیا ہے۔ اس کے معروف بنیادی معنی تو ’’روشنی‘‘ یا ’’اجالا‘‘ ہیں۔ اور (دنیا کی کم و بیش ہر زبان میں اس لفظ کے کسی مترادف کی طرح) قرآن کریم میں بھی یہ لفظ کہیں اپنے حقیقی بنیادی معنوں میں اور کہیں مجازی معنوں (علم ۔ہدایت وغیرہ) میں استعمال ہواہے۔

۱:۱۳:۲(۹)     [وَتَرَكَھُمْ] اس ’’وَ+تَرَک+ھم‘‘ میں ’’وَ‘‘ کے معنی ’’اَور‘‘ ہیں اور ’’ھُم‘‘کے معنی ’’ان کو‘‘ہیں۔ اور درمیانی لفظ ’’ترَک‘‘ کا مادہ ’’ت ر ک‘‘ اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’تَرَکَ…یَتْرُکُ تَرْکًا‘‘ (باب نصر سے) آیا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’…کو چھوڑ دینا یا چھوڑ جانا‘‘ یعنی یہ فعل متعدی ہے اور بعض دفعہ ایک کی بجائے دو مفعول کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اس کے معنی ’’جَعَلَ‘‘ کی طرح ’’…کر چھوڑنا یا …بنا دینا، بنا چھوڑنا یا کردینا‘‘ اور کبھی ’’…رہنے دینا‘‘ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل ثلاثی مجرد سے مذکورہ بالا دونوں معنوں میں یعنی ایک مفعول کے ساتھ اور دو مفعول کے ساتھ ـــافعال و اسماء کے مختلف صیغے ۴۳ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں فعل ’’تَرَک‘‘ اپنے ایک مفعول کے ساتھ آیاہے  اور اس کا ترجمہ ’’اس نے چھوڑ دیا‘‘ یا ’’وہ چھوڑ گیا‘‘ ہوگا۔

۱:۱۳:۲(۱۰)     [فِىْ ظُلُمٰتٍ]= فِی (میں، کے اندر) +ظلمٰت (اندھیروں، تاریکیوں)اس میں لفظ ’’ظُلُمَاتٌ‘‘ (برسم املائی)کا مادہ ’’ظ ل م‘‘ اور وزن ’’فُعُلَاتٌ‘‘ (بحالتِ رفع) ہے اور یہ ’’ظُلْمَۃٌ‘‘ (اندھیرا، تاریکی) بروزن ’’فُعْلَۃٌ‘‘ کی جمع مونث سالم ہے---اس مادہ (ظلم)سے فعل ثلاثی مجرد ظلَم…یظلِم ظُلْمًا(باب ضرب سے) آتا ہے جس کے معنی ہیں: ’’…پر ظلم کرنا، …کی حق تلفی کرنا‘‘ یہ ہمیشہ متعدی استعمال ہوتا ہے۔اور اس کا مفہوم بنفسہٖ (بغیر صلہ کے)آتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’ظلمَہُ‘‘ (اس نے اس پر ظلم کیا) عربی میں ’’ظلم علیہ‘‘ کہنا بالکل غلط ہےـــ اس مادہ (ظلم) سے بکثرت مشتقات (اَسماء و اَفعال)قرآن کریم میں آئے ہیں۔ صرف فعل ثلاثی مجرد کے فعل ماضی اور مضارع کے مختلف صیغے ہی ایک سو دس (۱۱۰) کے قریب مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ البتہ متعدد جگہوں پر اس فعل کا مفعول مخذوف ہے

·       زیرِ مطالعہ کلمہ ’’ ظلمات‘‘ قرآن کریم میں ہر جگہ بصورت جمع ہی آیا ہے۔ یعنی اس کا واحد ’’ظُلْمَۃٌ‘‘ کہیں استعمال نہیں ہوا ـــ یہ لفظ (ظلمات) مفرد مرکب معرفہ نکرۃ اور مختلف حالتوں میں قرآن کریم اندر پچیس کے قریب مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ کہیں اپنے حقیقی معنی (اندھیروں، تاریکیوں) میں اور کہیں اپنے مجازی معنوں( گمراہیوں، جہالتوں وغیرہ) کے لیے آیاہے ـــ  بلکہ یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم میں لفظ ’’نور‘‘ (روشنی) کہیں بصورت جمع (انوار) استعمال نہیں ہوا ـــاور لفظ ’’ظلمات‘‘ (اندھیرے)کہیں بطور واحد (ظلْمۃ) استعمال نہیں ہوا۔ کلمہ ’’نور‘‘قرآن کریم میں ۴۳ دفعہ آیا ہے اور ’’ظلمات‘‘۲۳ دفعہ۔ ان کلمات کے اس واحد اور جمع کے استعمال کی مفسرّین نے بعض عمدہ توجیہات بیان کی ہیں جس کے لیے کسی اچھی تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

۱:۱۳:۲(۱۱)     [لَا يُبْصِرُوْنَ] میں ’’لَا‘‘ تو نافیہ (بمعنی ’’نہیں‘‘) ہے اورفعل ’’ يُبْصِرُوْن ‘‘ کا مادہ ’’ب ص ر‘‘ اور وزن ’’یُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد بصِریبصَربصَراً (باب سمع سے) اوربصُریبصُربصارۃً (باب کرم سے) آتا ہے اور بلحاظ معنی (ہر دو باب سے) یہ بطور فعل لازم بھی استعمال ہوتا ہے اور بطور فعل متعدی بھی۔ بطور فعل لازم ’’بَصِرَ‘‘ کے معنی ہیں: ’’وہ مُبْصِر  ہوگیا‘‘ یعنی ’’اسے نظر آنے لگ گیا، وہ دیکھنے والاہوگیا، وہ بینا ہوگیا‘‘ اور بصُرَ کے معنی ہیں ’’وہ بصیر ہوگیا‘‘ یعنی ’’اس میں بصیرت پیدا ہوگئی، اس کا دل و دماغ روشن ہوگیا‘‘ اور فعل متعدی کی صورت میں اس فعل کے ساتھ (دونوں ابواب سے) باء (بِ) کا صلہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ’’بَصِرَبِ… اور  بَصُرَبِ…‘‘ کے معنی ہوں گے ’’اس نے …کو دیکھ لیا‘‘اور اس فعل میں محض آنکھ سے دیکھ لینا کی بجائے عقل اور دماغ سے سمجھ لینے کا مفہوم زیادہ ہوتا ہے اس لیے اس (بصُربہاور بصِربہ) کا بہتر ترجمہ وہ اس کو جان گیا،سمجھ گیا،بنتا ہے۔

·       بعض ڈکشنریوں  (مثلاً المنجد) میں اسے باء(ب) کے صلہ کے بغیر بھی متعدی لکھا گیا ہے یعنی "بصُرَہٗ  [1] اور بصِرہٗ"یا"بصُر بہ اور بصِر بہ" کو یکساں قرار دیا ہے۔  مگر ’’مد القاموس‘‘ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ بطور فعل متعدی اس کے ساتھ ’’بِ‘‘ کا استعمال زیادہ فصیح ہے۔  [2]اور ’’المعجم الوسیط‘‘ کے مؤلفین نے اس فعل کو صرف ’’بِ‘‘ کے ساتھ متعدی ورنہ لازم قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے ابھی اوپر بیان کیاہے۔[3]

قرآن کریم میں یہ فعل (مجرد) کہیں بطور فعل لازم استعمال نہیں ہوا۔ اور بطور فعل متعدی اس کا استعمال دو جگہ (طہ:۹۶، القصص:۱۱) فعل ماضی اور ایک جگہ (طہ:۹۶) فعل مضارع کی صورت میں ہوا ہے اور ہر جگہ باء(بِ) کے صلہ کے ساتھ اور صرف ’’باب کرم‘‘ سے ہی آیا ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’لایُبصرون ‘‘ اس مادہ سے باب اِفعال کا فعل مضارع منفی صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَبْصَریُبصِرُ ابصَارًا‘‘ زیادہ تر فعل متعدی کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ’’…کو دیکھنا، دیکھ لینا‘‘ ہوتے ہیں۔ عموماً اس کا مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے)آتا ہے۔ تاہم اکثر اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس باب سے افعال کے مختلف صیغے ۲۷ جگہ آئے ہیں۔ جن میں سے اپنے مفعول کے ذکر کے ساتھ یہ صرف ایک جگہ (الصافات:۱۷۵) استعمال ہوا ہے۔ باقی سب مقامات پر مفعول محذوف ہے جس کو سیاق عبارت سے متعین کیا جاسکتا ہے۔ آیت زیرِ مطالعہ کے اس حصّے ’’لایُبْصِرون‘‘ کا ترجمہ اکثر نے تو لفظی ’’وہ نہیں دیکھتے‘‘ کیا ہے۔ بعض نے اردو محاورہ کے مطابق ’’ان کو نظر نہیں آتا‘‘ کیا ہے۔ اور بیشتر نے محذوف مفعول کے ساتھ یعنی ’’وہ کچھ نہیں دیکھتے یا ان کو کچھ نہیں سوجھتا، یا کچھ دیکھتے بھالتے نہیں‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ اس ترجمہ میں ’’کچھ‘‘ اسی مفعول محذوف کی نمائندگی کرتا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ (بصر)سے فعل مجرد اور باب اِفعال کے علاوہ مزید فیہ کے ابواب ’’تفعیل‘‘ اور ’’استفعال‘‘ سے بھی افعال کے کچھ صیغے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مشتق اسماء و مصادر وغیرہ بکثرت (۱۱۷ جگہ) وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر اپنے اپنے موقع پر بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۱:۱۳:۲(۱۲)      ]صُمٌّ[ کا مادہ ’’ص م م‘‘ اور وزن اصلی ’’فُعْلٌ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’صُمْمٌ‘‘ تھی جس میں ساکن میم کو متحرک میں مدغم کرکے لکھا اور بولاجاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد صَمَّ…یصُمّ صَمًّا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’بند کرنا اور بند ہونا‘‘ ہیں یعنی یہ لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں صَمَّ الزجاجَۃَ=اس نے شیشی کا منہ (ڈھکنے وغیرہ سے، کارک سے) بند کردیا۔ تاہم ان معنوں میں یہ فعل یا اس کا کوئی مشتق قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا ہے۔ اور (لازم میں) کہتے ہیں: صَمَّتْ اُذُنُہ=اس کا کان بند ہوگیا=وہ بہرا ہوگیا۔ اور متعدی سے مجہول بنا کر یوں بھی کہہ سکتے ہیں ’’صُمَّتْ اذنُہ=اس کا کان بند کردیا گیا۔‘‘ لازم استعمال میں مصدر ’’صَمَمًا‘‘بھی آتا ہے۔ ’’باب نصر‘‘ کے علاوہ یہ فعل لازم کے معنی میں باب سمع سے صَمِمَ یَصْمَمُ (خلاف ِقیاس فکّ ادغام کے ساتھ) بھی ان (بہرا ہونا) ہی معنی کے لیے آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ صرف مدغم ہوکر ہی استعمال ہوا ہے۔ یہ فعل مجرد مذکور معنوں کے علاوہ بعض دیگر معانی (مثلاً کسی کی بات پر کان نہ دھرنا، ٹھوس یا سڈول ہونا، بُری طرح پیٹنا، بات ذہن میں بٹھا لینا وغیرہ کیلیے بھی آتا ہے جو ڈکشنریوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مگر یہ معنی قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوئے۔

·       اور اس فعل (مجرد) سے ہی ’’اَفْعَلُ‘‘ (الوان و عیوب کے لیے صفت) کے وزن پر غیر منصرف لفظ ’’اصمُّ‘‘ (داصل اَصْمَمُ) ہے جس کے معنی ہیں ’’بہرا  مرد‘‘۔ اور اس کی مونث ’’صَمَّاءُ (اصل میں صَمْمَاء)ہے بر وزن ’’فَعْلآءُ‘‘ ہے جس کے معنی ’’بہری عورت‘‘ ہیں۔ اور ہر دو (مذکرومؤنث) کی جمع مکسر ’’ صُمٌّ ‘‘ بروزن ’’فُعْلٌ‘‘آتی ہے اور یہی صیغہ زیرِ مطالعہ آیت میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی ’’بہرے‘‘ ہیں۔ اگرچہ ’’بہری عورتوں‘‘ کے لیے بھی عربی میں یہی لفظ استعمال ہوگا۔ قرآن کریم میں اس مادہ (صمم)سے فعل ثلاثی مجرد کے صرف دو صیغے، مزید فیہ کے باب اِفعال سے صرف ایک صیغہ اور اسماء مشتقہ میں سے یہی لفظ (صُمٌّ) بصیغہ جمع اور معرفہ یا نکرہ کل گیارہ دفعہ اور بصیغۂ واحد ’’اَصمُّ‘‘ بھی صرف ایک ہی دفعہ وارد ہوا ہے۔

۱:۱۳:۲(۱۳)     [بُكْمٌ] کا مادہ ’’ب ک م‘‘ اور وزن ’’فُعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد بَکِم یَبْکَمُ بَکْمًا (باب سمع سے)آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’گونگا ہونا‘‘اور باب کرم سے (بکُم یَبْکُم) ’’جان بُوجھ کر گونگا بن جانا یا چُپ سادھ لینا‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی بھی فعل کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ اسی فعل ثلاثی سے ہی اَفْعَلُ (الوان و عیوب) کے وزن پر لفظ ’’ابکم‘‘(غیر منصرف)آتا ہے جس کے معنی ’’گونگا‘‘ ہیں اور اس کی مؤنث ’’بَکمَآءُ‘‘ (گونگی) بروزن ’’فَعَلَاءُ‘‘ (غیر منصرف)آتی ہے اور مذکر مؤنث دونوں کی جمع مکسر ’’فُعْلٌ‘‘ کے وزن پر آتی ہے۔ اور یہی صیغہ ’’ بُكمٌ‘‘زیرِ مطالعہ آیت میں استعمال ہوا ہے یعنی ’’گونگے‘‘(مرد یا عورتیں)قرآن کریم میں لفظ ’’ابکم‘‘ (بصیغہ واحد مذکر) صرف ایک جگہ (النحل:۷۶) اور اس کا صیغہ جمع (بُکْمٌ) نکرہ معرفہ اور مختلف حالتوں (رفع نصب جر) میں کل پانچ دفعہ وارد ہوا ہے۔

۱:۱۳:۲(۱۴)     [عُمْىٌ] کا مادہ ’’ع م ی‘‘ اور وزن ’’فُعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد’’عَمِیَ یَعْمَی عَمیً‘‘ (باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے اصل بنیادی معنی تو ہیں ’’دونوں آنکھوں کی بینائی جاتے رہنا‘‘ پھر اس سے ’’اندھا ہونا‘‘اپنے حقیقی اور مجازی (مثلاً عقل کا اندھا ہونا وغیرہ) دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس فعل ثلاثی مجرد سے اسم صفت بروزن ’’اَفْعَلُ‘‘ (برائے الوان و عیوب) ’’اَعْمَی‘‘ بنتا ہے۔ جو دراصل ’’اَعْمَیُ‘‘ ہے۔ پھر اس میں یاء متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر بولی جاتی ہے۔ اگرچہ املاء ’’ی‘‘ کے ساتھ ہی برقرار رہتی ہے ـــ اس (اَعْمَی) سے مونث عَمْیَآءُ بر وزن فَعْلآءُ بنتی ہے اور ہر دو (مذکر مؤنث) کی جمع بروزن ’’فُعْلٌ، عُمْىٌ ‘‘آتی ہے جس کے معنی ’’اندھے (مرد) یا اندھی (عورتیں)‘‘ ہیں۔ کبھی اس (اعمی) کی جمع  ’’عُمْیَانٌ‘‘ بھی آتی ہے۔

·       اس مادہ (عمی)سے فعل ثلاثی مجرد کے چھ(۶) صیغے، باب اِفعال اور تفعیل سے ایک ایک صیغہ فعل اور اسماء مشتقہ کے مختلف صیغے پچیس (۲۵) جگہ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔ اور صرف یہی لفظ (عُمْىٌ) قرآن میں چھ دفعہ آیا ہے۔ مندرجہ بالا معنی کے علاوہ (۱) فعل ’’عَمِیَ‘‘، ’’خفیہ اور پوشیدہ ہونا‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے اور اس کے بعد عموماً ’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے ـــاور (۲)عقل کے اندھے کو عربی میں ’’عَمٍ‘‘ (دراصل عَمِیٌ) بھی کہتے ہیں۔ اس کی جمع سالم ’’عَمُونَ عَمِین‘‘آتی ہے۔ یہ دونوں استعمال بھی قرآن کریم میں آئے ہیں۔ ان پر مزید بات اپنی جگہ ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۱:۱۳:۲(۱۵)     [فَھُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ] جو فَ(پس) +ھم (وہ سب) +لا (نہیں) +یرجِعُون (جس پر ابھی بات ہوگی) کا مرکب (جملہ)ہے۔ اس میں ’’ يَرْجِعُون ‘‘ کا مادہ ’’رج ع‘‘ اور وزن ’’یَفْعِلُون‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’رجع یَرْجِعُ رُجُوعا وَ مَرْجِعًا‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’لوٹنا یا واپس آنا‘‘ بھی ہوتے ہیں اور ’’لَوٹا دینا یا واپس بھیج دینا‘‘ بھیـــ یعنی یہ فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآن کریم میں بھی اس فعل کا دونوں طرح (لازم و متعدی)استعمال موجود ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کے مختلف صیغے ۷۹ جگہ آئے ہیں جن میں سے ۴۲ جگہ بطور فعل متعدی مستعمل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس (ثلاثی مجرد) سے ہی اسماء مشتقہ کے بعض صیغے ۲۴ جگہ اور مزید فیہ کے باب تفاعل سے فعل کا صرف ایک صیغہ وارد ہوا ہے (البقرہ:۲۳ میں)

·       زیر مطالعہ حصّہ آیت میں فعل ’’ لایرجعون‘‘ بطور فعل لازم ہی آیا ہے۔ اس لیے اس کا مصدری ترجمہ ’’پھر آنا، پھرنا، پھر سکنا، لوٹنا، واپس ہونا، رجوع ہونا، لَوٹ سکنا اور دوبارہ راہ پر آنا‘‘ سے کیا گیا ہے۔ یعنی ’’نہیں پھریں گے‘‘ نہیں لَوٹیں گے وغیرہ کی صورت میں (صیغہ جمع مذکر غائب کے مطابق)۔ ان میں سے بعض تو لفظی تراجم ہیں اور بعض (مثلاً لوٹ سکنا یا دوبارہ راہ پر آنا) میں مفہوم اور اردو محاورے کو ہی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ گو لفظ سے ذرا دور ہی جانا پڑا ہے۔

 

۲:۱۳:۲       الاعراب

                        مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا۔۔۔ فَلَمَّآ اَضَآئَ تْ مَا حَوْلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِہِمْ۔۔ وَتَرَکَہُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لاَّ یُبْصِرُوْنَ۔۔۔ (۱۷) صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ ۔۔۔فَہُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ (۱۸)

          یہ قطعہ جس میں دو آیات ہیں دراصل پانچ جملوں پر مشتمل ہے جن میں سے بعض کو فاء (فَ) اور واو (وَ) کے ذریعے باہم عطف کردیا گیا ہے۔ تفصیل یوں ہےـــ

·       [مَثَلُہُمْ] مضاف مضاف الیہ (مَثل +ھم) مل کر مبتدا مرفوع ہے۔ علامت رفع مثل کی ’’لام‘‘ کی ضمہ (ـــــُـــــ)ہے۔ اور اس (لام) کی تخفیف (لام تعریف اور تنوین سے بری ہونا) اس کے مضاف ہونے کے باعث ہے۔ ’’ھم‘‘ ضمیر مجرور بوجہ اضافت آئی ہے یعنی ’’ان کاحال یا ان کی حالت یا مثال‘‘۔

[کَمثلِ] میں ’’کاف‘‘ (ک) حرف الجرّ اور ’’مَثل‘‘ مجرور بالجر ہے اور آگے مضاف بھی ہے، علامتِ جرّ اس میں ’’لام‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ)ہے اور یہ ’’مَثَل‘‘ بھی بوجہ مضاف ہونے کے خفیف ہے۔ [الذی] اسم موصول ہے اور یہاں مثل کا مضالف الیہ ہوکر مجرور اگرچہ مبنی ہونے کے باعث اس میں علامت ِجر ظاہر نہیں ہے اس طرح ’’ کمثل الذی ‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’مانند اس آدمی کے حال کے جس نے کہ‘‘۔۔ [استوقد] فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھو‘‘مستتر ہے۔ یہاں (اس فعل) سے اسم موصول ’’الذی‘‘ کا صلہ شروع ہوتا ہے۔ [نارًا] فعل ’’استوقد‘‘ کا مفعول بہٖ ہے۔ لھٰذا منصوب ہے ۔علامتِ نصب"ر"کی تنوین نصب (ـــــًـــــ) ہے۔یہ فعلیہ جملہ (استوقد نارًا) ’’الذی‘‘ کا صلہ بنا۔ اور صلہ موصول مل کر ’’کمثل‘‘ کا مضاف الیہ (لھٰذا محلاً مجرور) ہوکر مبتدأ( مثلھم) کی خبر کا کام دے رہا ہے اور یوں یہاں تک ایک جملہ اسمیہ ختم ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں تک کی عبارت (مثلھم کمثل الذی استوقد نارا) کا لفظی ترجمہ ہوگا۔ ’’ان کی حالت یا مثال مانند اس شخص کی حالت یا مثال کے ہے۔ جس نے جلائی یا روشن کی کچھ آگ‘‘ عبارت کو سلیس بنانے (مثلاً ان کی مثال اس کی سی ہے) کے علاوہ بعض مترجمین نے ’’آگ‘‘ سے پہلے ’’کہیں‘‘ یا ’’شب ِتاریک میں‘‘ کا اضافہ کردیا ہے۔ اس سے مفہوم تو واضح ہوجاتا ہے مگر اصل نص (عبارت) میں اس کے لیے کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ ’’کچھ‘‘ یا ’’ایک‘‘ (آگ) کا مفہوم ’’نارًا‘‘ کی تنکیر (نکرہ ہونا) میں موجود ہے اور کسی حد تک ’’کہیں ‘‘ کا مفہوم بھی اسی تنکیر میں شامل ہے۔

·       ]فلما[میں"فاء"(فَ)تو حرفِ عطف ہے جس کے ذریعے اس آگے والے جملے کا تعلق پہلے(سابقہ)جملے سے قائم کیاگیا ہے۔اور "لَمَّا"ظرف بمعنی "حین"ہے(بمعنی جب یا جس وقت)۔اور اس(لَمَّا)میں شرط کے معنی شامل ہیں مگر یہ جازم نہیں ہوتا اس لیے کہ اس کے بعد فعل ماضی ہے۔

]اَضَاءَتْ] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مؤنث غائب ہے جس میں ضمیر مستتر"ھِیَ"تقدیراً موجود ہے (خود بخودسمجھی جاتی ہے)اور فعل کا صیغہ تانیث"نار"کے لیے ہے (جو مؤنث سماعی ہے)یعنی"روشن کردیا اس(آگ) نے"اور اگر اس کو فعل لازم سمجھیں تو ترجمہ"روشن ہوگیا"بھی ہوسکتا ہے]مَاحَوْلَہٗ] میں"مَا"موصولہ بمعنی "وہ جو کہ"ہے۔اور"حَوْلَہ"مرکب اضافی("حول"مضاف اور"ہ"ضمیر مجرور مضاف الیہ مل کر)"مَا"کا صلہ ہےـــاور"حولَہ"میں"لام"کی فتحہ(ــــــَــــ)نصب کی علامت ہے۔کیونکہ حَوْل(بمعنی اردگرد یا آس پاس)ظرف مکان ہے جو(فوق،قبل وغیرہ کی طرح)ہمیشہ مضاف اور منصوب ہو کر استعمال ہوتا ہے۔اور"مَاحولہ"صلہ موصول مل کر فعل"اضاءت"(بصورتِ متعدی)کا مفعول بہٖ ہے اس طرح یہاں"ما"کو محلاً منصوب سمجھا جائے گا،(اگرچہ مبنی ہونے کے باعث اس میں علامت ِنصب ظاہر نہیں ہے)اور"ماحولَہ"کو مفعول فیہ(ظرف)سمجھ کر بھی منصوب قرار دیا جاسکتا ہےـــ یعنی روشن کرد یا اس کے آس پاس کو۔اور اگر فعل(اضاء ت)کو لازم سمجھیں تو پھر"ماحولَہ"اس کافاعل قرار دیا جاسکتا ہے۔اس صورت میں "ما"بلحاظ اعراب مرفوع ہوگا۔یعنی روشن ہو گیا اس کا آس پاس۔ اور اگرچہ "مَا"تذکیر وتانیث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے تاہم فعل"اَضاءَ ت"کی تانیث کا تقاضا یہی ہے کہ یہاں اسے متعدی سمجھ کر اس کی ضمیر فاعل کی بنا پر "نار"(آگ) کواس کا فاعل قرار دیا جائے۔یہاں تک جملہ شرطیہ کا شرط والا حصّہ مکمل ہوتا ہے۔

·       ]ذھب] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اور[اللہ] اس کا فاعل (لھٰذا مرفوع)ہے۔ یہاں سے جوابِ شرط شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ (ذھب کے) فعل ماضی ہونے کی بناء پر ’’جزم‘‘ نہیں ہے۔ [بِنورهِم] میں ’’بِ‘‘ حرف ِجرّ+نورِ (مضاف مجرور بوجہ جر) +ھم (مضاف الیہ ضمیر مجرور) یہ سارا مرکب جارّی (بنورھم) فعل ’’ذھب‘‘ سے متعلق ہے اور محلاً نصب میں ہے کیونکہ یہ فعل (ذھب) کے مفعول کے طور پر آیا ہے۔ اور یہ فعل (جو دراصل تو لازم ہے مگر)یہاں اپنے صلہ ’’باء(بِ)‘‘ کے ذریعے متعدی بن گیا ہے۔ اس طرح اس جملے کا(جو سابقہ جملے جواب شرط کا کام دے رہا ہے)کا ترجمہ ہوگا ’’تو لے گیا اللہ ان کی روشنی‘‘ اور بامحاورہ ترجمہ ’’زائل کردی، سلب کرلی، مٹادی‘‘ وغیرہ سے ہوگا۔

·       [وَتَرَكَھُم] میں واو عاطفہ ہے جس کے ذریعے یہ اگلاجملہ پچھلے جملے  پرعطف ہے۔ اور ’’ تَرك ‘‘ فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ جس میں ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ مستتر ہے (اور یہاں یہ ضمیر ’’اللہ‘‘تعالیٰ کے لیے ہے) اور آخر پر آنے والی ضمیر ’’ھم‘‘ منصوب ضمیر ہے جو فعل ’’ ترك ‘‘ کے مفعول بہٖ کے طور پر آئی ہے۔ یعنی ’’اس نے چھوڑ دیا ان کو‘‘ [فی ظلماتٍ] میں ’’فِی‘‘ حرف الجرّ ہے اور ’’ظلمات‘‘ مجرو بالجر ہے علامت جر آخری ’’ت‘‘ کی تنوین جو یعنی دو کسرہ (ـــــٍـــــ) ہیں۔ یہ مرکب جارّی فعل ’’ تَرَكَ ‘‘ سے متعلق ہے یعنی ’’اس نے چھوڑ دیا ان کو ـــ اندھیروں میں‘‘ اور فعل ’’ تَرَكَ ‘‘ کو اگر یہاں دو مفعول والے معنوں (جَعَل=بنادیا یا بنا کر چھوڑا) میں لیں تو  " فی ظلمات‘‘ کو دوسرے مفعول کی جگہ محلاًمنصوب بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ [4] اس صورت میں (ترکھم فی ظلمات) کا ترجمہ ہوگا ’’اس نے بنادیا یا بنا کر چھوڑا ان کو اندھیروں میں (رہنے والے یا پڑے ہوئے)

·       [لایبصرون] فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے۔ یہ فعل مضارع (جو دراصل خود ایک جملہ فعلیہ ہے) یہاں ’’فی ظلمات‘‘ کے حال مؤکد کے طور پر آیا ہے۔ یعنی ’’اندھیروں میں ان کی یہ حالت ہے کہ ان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا‘‘۔ ’’اندھیروں میں ہونا‘‘ کے اندر بھی ’’دیکھنے سے محروم ہونے‘‘ کا مفہوم تو موجود ہے مگر ’’لایبصرون‘‘ سے اس میں مزید تاکید اور وضاحت پیدا ہوگئی ہے اس لیے اسے حال مؤکد کہا جاتا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس ’’لایبصرون ‘‘ کو ہی فعل ’’تَرَکَ‘‘ کا مفعول ثانی سمجھ لیا جائے۔ اس صورت میں ’’ فی ظلمات‘‘ کو ظرف یا متعلق فعل ہی سمجھا جائے گا۔ اب مفہوم ہوگا ’’ان کو بنادیا اندھیروں کے اندر ایسے جن کو کچھ نظر بھی نہ آئے‘‘ یعنی ان کی حالت ’’اندھا اور پھر اندھیرے میں‘‘ کی سی کردی۔

·       [صُمٌّ] دراصل یہاں سے ایک الگ جملہ اسمیہ شروع ہوتا ہے جس کا مبتدأ  ’’ھم‘‘ یا ’’ اولٰىٕك ‘‘ محذوف (غیر مذکور)ہے جس کی خبر ’’ صُمٌّ ‘‘ہے یعنی ’’ھُمْ صُمٌّ ‘‘اور ’’ صُمٌّ ‘‘ کے نکرہ اور مرفوع ہونے کی یہی (خبر ہونا) وجہ ہے۔ اسی طرح [بُكْمٌ] خبر ثانی اور [عُمْىٌ] خبر ثالث ہے۔ اور اسی لیے یہ بھی نکرہ اور مرفوع ہیں یعنی ’’وہ بہرے گونگے اندھے (ہوچکے) ہیں‘‘۔ سیاق عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حسی اور جسمانی لحاظ سے ’’بہرے ،گونگے اور اندھے‘‘ مراد نہیں۔ بلکہ روحانی (نفسانی اور ذہنی) اعتبار سے ایسے لوگ مراد ہیں جو ’’حق‘‘ کے معاملے میں ایسے ہیں گویا کچھ سننے، بولنے اور دیکھنے سے محروم ہیں۔

·       [فَھُم]کی ’’فاء‘‘ (فَ) عاطفہ سببیہ ہے یعنی اس میں ’’پس یہی سبب ہے کہ‘‘ کا مفہوم موجود ہے اور ’’ھُم‘‘ ضمیر مرفوع مبتدأ ہے۔

[لَا يرجِعُون] میں ’’لا‘‘ نافیہ ہے اور ’’یرجعون‘‘فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘  مستتر ہے۔ اور یہ (لایرجعون) فعل فاعل مل کر ایک پورا جملہ فعلیہ ہے جو ’’فَھُمْ‘‘ کے ’’ھُمْ‘‘ کی خبر بنتا ہے۔ اور یہ پورا جملہ اسمیہ اپنے سے پہلے محذوف مبتدأ والے جملے (صم بکم عمی) پر ’’ف‘‘ کے ذریعے عطف ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ دراصل دونوں جملے مل کر بلحاظ معنی ایک ہی مربوط جملہ بنتے ہیں۔ یعنی ’’وہ تو اب بہرے، گونگے، اندھے ہوچکے ہیں پس وہ دوبارہ راہ پر نہیں آنے کے۔‘‘

 

۳:۱۳:۲      الرسم

          اس قطعہ ء ٓایات کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی ایک جیسا ہے۔ ماسوائے ایک کلمہ ’’ظلمات‘‘ کے جس کا رسم املائی تو یہی ’’ظلمات ‘‘ مگر قرآن کریم یں یہ لفظ بحذف الف (بعدالمیم) لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’ ظلمت ‘‘۔ اور یہ رسم عثمانی کا متفق علیہ مسئلہ ہے۔ ترکی، ایران اور بعض دیگر ممالک میں اسے باثبات الف یعنی رسم املائی کی طرح ’’ظلمات‘‘ لکھنے کا رواج ہوگیا ہے جو رسمِ عثمانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اور صرف اسی جگہ نہیں بلکہ قرآن حکیم میں جہاں جہاں بھی یہ لفظ آیا ہے ہر جگہ اسے حذف الف کے ساتھ (ظلمت) ہی لکھا جاتا ہے۔ یعنی اس کا رسمِ عثمانی ہر جگہ یہی ہے۔

 

 ۴:۱۳:۲       الضبط

مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّآ اَضَآئَ تْ مَا حَوْلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لاَّ یُبْصِرُوْنَ (۱۷) صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ (۱۸)

اس قطعہ میں آنے والے کلمات کے یکساں یا مختلف ضبط والے کلمات کو مندرجہ ذیل نمونوں میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔تنوین اخفاء واظہار کافرق خصوصاً قابل غور ہے:

 




[1] باب کرم کا استعمال محلِ نظر ہے الاّ یہ کہ خلافِ قیاس اور سماعی ہو۔ 

 [2] مد القاموس (LANE)  تحت مادہ ’’بصر‘‘۔

    [3]  المعجم الوسیط تحت مادہ  ’’بصر‘‘۔

 

[4] بلکہ بعض نحوی حضرات اس کا صرف یہی مطلب لیتے ہیں یعنی ’’متعدی بمفعولَیْن‘‘ جس میں مفعل اوّل تو ’’ھم‘‘ (تَرَكَھُمْ والا) اور مفعول ثانی ’’ فی ظلمات ‘‘ یا ’’لایبصرون‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ دیکھئے التبیان (العکبری) ج۱ص۳۳۔