سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۹

    ۲:۱۴   اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ فِيْهِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ   ۚ   يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِىْٓ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ    ۭ   وَاللّٰهُ مُحِيْطٌۢ بِالْكٰفِرِيْن(۱۹)

۱:۱۴:۲      اللغۃ

 ۱:۱۴:۲(۱)    [اَوْ] حرف عطف ہے جو عموما اردو کے "یا"اور انگریزی کے"OR"کے معنی دیتا ہے۔استعمال کے لحاظ سے عام طور پر تو یہ ’’دوچیزوں میں شک‘‘ یا ’’ابہام‘‘(بات کو واضح نہ ہونا) یا تخیر (چننے کا اختیار)کے لیے آتا ہے۔ [جیسے اردو میں کہیں ’’وہ آج یا کل آئے گا‘‘ تو ’’یا ‘‘ شکل یا ابہام کو ظاہر کرتا ہے مگر ’’یہ کتاب لے لو‘‘یا ’’وہ‘‘ میں ’’یا‘‘ تخیر کے معنی دے رہا ہے]۔ اور کبھی کبھی یہ (اَوْ)  بلکہ، اور’’ تاوقتیکہ‘‘ یعنی ’’جب تک کہ‘‘کے معنی بھی دیتا ہے اور اس آخری معنی کے لحاظ سے یہ (اَوْ) بعد میں آنے والے فعل مضارع کو (’’اَنْ‘‘مقدرہ کی بنا پر)نصب بھی دیتا ہے۔ اس کے استعمال کی یہ مختلف مثالیں قرآن کریم میں ہمارے سامنے آئیں گی اور یہاں ’’اَوْ‘‘  تخییر کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور شک ابہام کے لیے بھی۔ یعنی پہلی مثال بھی ممکن ہے اور دوسری بھی جو سمجھ لو۔ایک مثال اوپر۱۳:۲ میں گزری دوسری اب  بیان ہو رہی ہے۔

۱:۱۴:۲(۲)     [كَصَيِّبٍ] میں ’’ک‘‘ حرف الجرّ ہے جو یہاں تشبیہ کے معنوں کے لیے آیا ہے۔ ’’ كَ ‘‘ کے مختلف معنی اور استعمال پر اس سے پہلے البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲(۱)]میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔

          لفظ ’’ صَيِّبٍ ‘‘ (جو یہاں مجرور بالجر ہے) کا مادہ ’’ص و ب‘‘ اور وزن اصلی ’’فَیْعِلٌ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’صَیْوِبٌ‘‘تھی۔ جس میں یائے ساکنہ کے بعد آنے والی ’’و‘‘ کو ’’ی‘‘ میں تبدیل کرکے مدغم کردیا جاتا ہے۔ اور یوں یہ لفظ ’’ صَيِّب ‘‘ کی صورت میں لکھا اور بولا جاتا ہے۔ البتہ کبھی کبھار یہ لفظ اپنی اصلی شکل ’’صَوْیِبٌ‘‘  میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض نحویوں کے نزدیک اصلی شکل ’’ صَوْیِبٌ‘‘ بروزن ’’فَعْیِلٌ‘‘ہے۔ مگر یہ اس لیے درست نہیں کہ اس صورت میں (صَوْیِبٌ) تو تعلیل کے بعد ’’صَوِیْبٌ‘‘ ہوجانا چاہئے۔ [1]

·       اس مادہ سے (صوب)سے فعل ثلاثی مجرد ’’صاب یصُوب صَوْبًا‘‘(باب نصر سے)آتا ہے۔ یہ فعل لازم اور متعددی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔اور اس کے معانی میں ’’اترنا، قصدکرنا، پڑنا، برسنا، جالگنا، انڈیلا اور بہانا‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کا کوئی صیغہ کسی معنی میں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس (مادہ) سے باب ِافعال کے مشتقات (اسماء و افعال) بکثرت (۷۵ کے قریب)آئے ہیں۔ ثلاثی مجرد سے تو صرف دو جامدماخوذ لفظ آئے ہیں ایک یہی زیر مطالعہ لفظ ’’صَیِّبٌ‘‘اور دوسرا ’’صَوَاب‘‘ (النبأ:۳۸)۔ جس کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔

·       لفظ ’’ صَيِّبٌ ‘‘ جو اپنے مادہ سے ایک اسم جامدما خوذ  ہے، اس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’سحابٌ ذُوصوبٍ‘‘ یعنی ’’صوب‘‘ (پانی کی بوچھاڑ والا بادل جس کا ترجمہ ’’بارش بھرا بادل‘‘ہے۔ اور اسی لیے ’’مینہ، بارش یا زور کی بارش‘‘ کو بھی ’’صَیِّب‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ ’’زور‘‘ والا مفہوم اس مادہ کے فعل ثلاثی مجرد کے معنی ’’انڈیلنا‘‘ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ لفظ (صَيِّب) قرآن کریم میں صرف اسی(ایک) جگہ آیا ہے۔

۱:۱۴:۲(۳)    [مِنَ السَّمَاۗءِ] یہ ’’مِنْ‘‘+’’السماء‘‘کا مرکب ہے۔ یہاں یہ حرف الجر (من) ابتدائیہ یعنی ابتداء الغایۃ کے مفہوم میں آیا ہے جس کا اردو ترجمہ ’’سے‘‘ یا ’’کی طرف سے‘‘ہوگا۔ مِنْ کے معانی و استعمالات البقرہ:۳ [۱:۲:۲(۵)]میں بیان ہوچکے ہیں۔ اور ’’ السماء ‘‘ کا مادہ ’’س م و‘‘ اور وزن (لام تعریف کے بغیر) ’’فَعَالٌ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’سَمَاوٌ‘‘ تھی جس میں الف ممدودہ کے بعد آنے والی ’’و‘‘ (اور ’’ی‘‘ بھی) ھمزہ (ء) میں بدل جاتی ہے۔ (یہ قاعدہ ’’اجوف‘‘ اور ’’ناقص‘‘مادوں میں اکثر استعمال ہوتا ہے)

·       اس مادہ (سمو)سے فعل ثلاثی مجرد ’’سما یَسمُو سُمُوًا‘‘ (باب نصر) کے معنی ’’اوپر اٹھنا، بلند ہونا‘‘ہیں۔[دیکھیے ۱:۱:۱ میں"اسم‘‘ کی بحث]۔ لفظ ’’سَماءٌ‘‘ اردو فارسی کے ’’آسمان‘‘اور انگریزی کے SKYیاHEAVEN کے ہم معنی ہے۔ تاہم عربی میں بارش اور بادل کو بھی ’’سماء‘‘ کہتے ہیں۔ اور اضافت کے ساتھ اس کے معنی چھت (سقف) کے بھی ہوتے ہیں مثلاً  ’’سماء البیت‘‘کے معنی ’’گھر کی چھت‘‘ہی ہیں۔ لفظ ’’سماء‘‘ عربی زبان میں زیادہ تر مونث مگر کبھی کبھار مذکّر کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع زیادہ تر جمع مؤنث سالم کی طرح ’’سماوات‘‘ ہی آتی ہے۔ یہ لفظ (سماء) قرآن کریم میں، زیادہ تر معرف باللام (السماء) ہوکرٗ  کل ۱۲۰ جگہ آیا ہے جس میں صرف ایک جگہ (ا  لمزمل:۱۸) یہ مذکر استعمال ہوا ہے۔

·       [فِيْهِ] جو ’’فی‘‘(حرف الجر) +ہ (ضمیر مجرور برائے واحد غائب مذکّر)ہے اس کا اردو ترجمہ یہاں ’’جس میں‘‘ ہوگا۔ ’’ فیہ ‘‘ کے بارے میں مفصّل بات البقرہ:۲ کے ضمن میں [۱:۱:۲(۵) میں]ہوچکی ہے۔

[ظُلُمَاتٌ] یہ اس لفظ کارسمِ املائی ہے رسم قرآنی پر ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی)اس لفظ کا مفرد (واحد) ’’ظُلْمَۃٌ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ظ ل م‘‘ اور وزن ’’فُعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کے استعمال بلکہ خود لفظ ’’ظلمات‘‘ کے اشتقاق، معنی اور اس کے قرآنی استعمال پر البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲(۹)]میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۴:۲(۴)     [وَرَعْدٌ] کی ’’و‘‘ تو عاطفہ (بمعنیِء ’’اور‘‘) ہے۔ اور لفظ ’’رَعْد‘‘ کا مادہ ’’ر ع د‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’رعَد یرعُد‘‘  اور رعِد یرْعَد رَعْدًا ’’(باب نصر اور سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی حقیقی معنی ’’(بادل کا) گرجنا‘‘ہیں۔ پھر اردو کے ’’گرجنا‘‘ کی طرح عربی میں بھی اس کے کئی بامحاورہ استعمال ہوتے ہیں (مثلاً’’ڈرانا، دھمکانا‘‘وغیرہ)۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ لفظ ’’رعْدٌ‘‘ جو دراصل مصدر ہے کے دو معنی ہیں ’’گرجنا‘‘ اور ’’گرج(کی آواز)‘‘ قرآن کریم میں یہ لفظ صرف دو جگہ اور وہ بھی دوسرے معنی (گرج) کے لیے آیا ہے۔ ایک یہاں (البقرۃ:۱۹) بصورت نکرہ اور دوسری جگہ (الرعد:۱۳) بصورت معرفہ (الرعد) وارد ہوا ہے۔ بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’گرج‘‘ ہی کیا ہے بعض نے ’’رعد‘‘ ہی رہنے دیا ہے جسے پڑھے لکھے لوگ سمجھ سکتے ہیں اور بعض نے خطوط وحدانی کے ساتھ بعض الفاظ کے اضافہ کے ترجمہ کیا ہے یعنی ’’اور(بادل) گرج (رہا ہو)‘‘ کی صورت میں ۔ جسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔

۱:۱۴:۲(۵) [وَبَرْقٌ] کی ’’وَ‘‘ بھی عاطفہ ہے۔ اور ’’برق‘‘ کا مادہ ’’ب ر ق‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد زیادہ تر تو ’’برَق یبرُق بَرْقًا‘‘ (باب نصر سے)آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’آسمان میں بجلی کا چمکنا‘‘ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’بَرق البَرْقُ‘‘ (بجلی کوندی) یا ’’برَق السماءُ‘‘ (آسمان میں بجلی کی چمک ظاہر ہوئی)اردو کے مصدر ’’چمکنا‘‘ کی طرح عربی میں بھی یہ فعل بطور محاورہ ’’چمکنا دمکنا، ’’سنورنا "اور "بننا ٹھننا‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس باب سے اور ان معنوں کے لیے اس فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ صرف مصدر آیا ہے۔

·       البتّہ اسی مادہ فعل مجرد ’’برِق یبرَقُ بَرَقًا‘‘ (باب سمع سے)  ’’دہشت زدہ ہونا‘‘کے معنوں میں آتا ہے۔اور اس باب سے (اور ان معنوں میں)فعل ماضی کا  ایک صیغہ(بَرِقَ) قرآن کریم میں بھی(صرف)ایک جگہ(القیامہ:۷) وارد ہوا ہے۔

·       کلمہ "بَرْقٌ" اس مادہ سے باب نصر کے فعل کا مصدر ہے اور اس کے معنی"چمکنا" بھی ہوسکتے ہیں اور ’’(بجلی کی)چمک‘‘ بھی ان دونوں معنی کے لحاظ سے اس کا تعلق بنیادی طور پر ’’ آسمانی بجلی‘‘سے ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ (بَرْقٌ) مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں کل پانچ جگہ وارد ہوا ہے۔

۱:۱۴:۲(۶)    [يَجْعَلُوْنَ] کا مادہ ’’ج ع ل‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْنَ‘‘ہے۔ یعنی یہ فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس مادہ (جعل) سے فعل ثلاثی مجرد عموماً ’’جعَل… یَجْعَل جَعْلًا‘‘(باب فتح سے)آتا ہے اور اس کےمتعددمعنی ہیں (۱)’’…کو پیدا کرنا‘‘ (۲)…کو بنانا (۳)… کو بنا ڈالنا (۴) …کو مقرر کرنا (۵) …کو تیار کرنا (۶) …کو ڈالنا، ڈال لینا یا دے لینا (۷) … کو عطا کرنا (۸) … کو خیال کرنا، سمجھ بیٹھنا (۹) … کو برابر ٹھیرانا (۱۰) … سے کوئی کام کروانا (۱۱) (کسی فعل کو) شروع کرنا وغیرہ۔ ان ( مذکورہ بالا) میں سے اکثر معنوں کے لیے یہ دو مفعول کے ساتھ آتا ہے جیسے … کو …بنا دینا اور دونوں مفعول بنفسہ (منصوب) آتے ہیں۔ تاہم کبھی یہ صرف ایک مفعول کے ساتھ ہی آتا ہے۔ مثلاً ’’پیدا کرنا‘‘ یا ’’ڈالنا‘‘ کی صورت میں نمبر۱۰ اور نمبر۱۱  والے معنوں کی صورت میں یہ کسی دوسرے فعل کے مضارع کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اور اس استعمال کے کچھ خاص قواعد ہیں۔

·       یہ فعل (جعَل) قرآن کریم میں بکثرت اور مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً یہاں (زیر مطالعہ آیت میں)یہ فعل ’’ڈالنا، ڈال لینا، دے لینا‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ جس کا بامحاورہ اردو ترجمہ بعض نے ’’ٹھونس لینا‘‘سے کیا ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (جعل) سے فعل ثلاثی مجرد کے مختلف صیغے ۳۴۵ جگہ اور بعض مشتقات ۶ جگہ آئے ہیںـــ

۱:۱۴:۲(۷)     [اَصَابِعَھُمْ] میں آخری ’’ھم‘‘ تو ضمیر مجرور بمعنی ’’ان کا؍کی‘‘ ہے اور لفظ ’’ اَصَابِعَ ‘‘ (جو یہاں منصوب ہے) کا مادہ ’’ص ب ع‘‘ اور وزن ’’اَفَاعِلُ‘‘ (غیر منصوب)ہے۔ ’’اَصَابع‘‘ کا واحد ’’اصْبعٌ‘‘ ہے جو ابتدائی ہمزہ(ا) اور ’’ب‘‘ کی مختلف حرکات کے ساتھ چھ سات مختلف طریقوں سے بولا جاتا ہے تاہم اس کی زیادہ مستعمل اور لہٰذا زیادہ صحیح صورتیں دو ہی ہیں ’’اِصْبَعٌ‘‘ اور ’’اِصبِعٌ‘‘ (دونوں طرح)۔ اور اس کے معنی ’’ہاتھ یا پاؤں کی انگلی‘‘ ہیںـــ عربی زبان میں یہ لفظ (اصبع) زیادہ تر مونث اور کبھی کبھار مذکر بھی استعمال ہوتا ہے۔

·       اس مادہ (صبع)سے فعل ثلاثی مجرد ’’صبَع یصبَع صبعًا‘‘ (باب فتح سے) بغیر صلہ کے (صبعَہٗ) ’’کسی کو متکبر بنا دینا‘‘ اور ’’تکبر پر اکسانا‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ اور (زیادہ تر) ’’علی‘‘ یا ’’باء‘‘(بِ) کے صلہ کے ساتھ(یعنی  صبع علیہ وبہ) ’’کسی کی طرف انگلی سے اشارہ کرنا‘‘ یا ’’انگلی کے اشارے سے رہنمائی کرنا‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ صرف یہی کلمہ ’’اصابع‘‘ (بصورت جمع) ہی صرف دو جگہ (البقرہ:۱۹  اور نوح:۷)میں وارد ہواہے۔

۱:۱۴:۲(۸)     [فِىْ اٰذَانِهِمْ] جو فی+آذان+ھم کا مرکب ہے۔ ’’فی‘‘ اور ’’ھم‘‘ کے معنی پہلے کئی جگہ بیان ہوچکے ہیں۔ کلمہ ’’آذان‘‘  کا مادہ ’’ أذن‘‘ اور وزن ’’اَفْعَالٌ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’أَأْذَانٌ‘‘ تھی جس میں ھمزہ متحرکہ و ساکنہ کے جمع ہونے کی بنا پر’’أَأْ‘‘‘ کو (وجوبا) ’’آ‘‘ بنا لیا جاتا ہے (اس کے قرآنی ضبط پر بعد میں بات ہوگی)۔ اس لفظ (آذان) کا واحد (مفرد) ’’أُذُنٌ‘‘ (بروزن فُعُلٌ)ہے جس کے معنی ’’کان‘‘(سننے والا عضو) ہیں اور یہ لفظ (أُذُن) عربی میں ہمیشہ بطور مؤنث استعمال ہوتا ہے۔

اس مادہ (اذن) سے فعل ثلاثی مجرد ’’اَذِنَ یَأْذَن اِذنًا‘‘ (باب سمع سے)مختلف صلات کے ساتھ مختلف معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱) اَذِن بِ… … (کسی بات) کو جان لینا (۲) اَذِن الیہ (کسی کی بات پر کان دھرنا یا توجہ سے سننا) (۳) اَذِنَ لہ (کسی کو اجازت دینا) اور (۴) اذِن عَلَیْہِ (کسی سے اندر آنے کی اجازت مانگنا) وغیرہ۔ ا ن میں سے قرآن کریم میں یہ فعل صرف نمبر۱ اور نمبر۳ والے معنوں میں استعمال ہواہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (اذن) سے فعل مجرد کے مختلف صیغے ۲۳ جگہ اور مزید فیہ کے ابواب تفعیل، تفعّل، افعال اور استفعال کے کچھ صیغے ۱۹ جگہ اور جامد و مشتق اسماء کے بعض صیغے ۵۹ جگہ آئے ہیں جن میں سے لفظ ’’اُذن‘‘ (واحد) پانچ دفعہ اور ’’آذان‘‘ (جمع) گیارہ دفعہ آئے ہیں۔

۱:۱۴:۲(۹)    [مِنَ الصَّوَاعِقِ] یہ مِنْ +الصواعق کا مرکب جارّی ہے ’’مِنْ‘‘ کے معنی و استعمال پر البقرہ :۳ [۱:۲:۲(۵)]میں بات گزر چکی ہے۔ ’’الصواعق‘‘ (جو معرف باللام اور مجرور ہے) کا مادہ ’’ص ع ق‘‘ اور وزن (لام تعریف کے بغیر) ’’فَوَاعِلُ‘‘ ہے جو شبہ ’’مَفَاعل‘‘ہے[2]   اور منتہی الجموع ہونے کے باعث غیر منصرف بھی ہے۔ اور اس لفظ (صواعق) کا واحد (مفرد) صاعقۃٌ ہے جس کے ایک معنی ہیں ’’آسمانی (گرنے والی) بجلی‘‘ یعنی (LIGHTNING) یا اس (بجلی) کی کڑک (THUNDERBOLT)۔

·       اس مادہ  (صعق) سے فعل ثلاثی مجرد مختلف ابواب سے مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (۱) صعَق یصعَق صعقًا (باب فتح سے)کے ایک معنی ’’آسمان کا کسی پر بجلی گرانا یا بجلی کا کسی پر گرنا‘‘ہیں۔ یہ فعل بطور متعدی بغیر کسی صلہ کے آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’صَعَقَتْہُ السماءُ اَوِ الصَاعِقَۃُ‘‘ یعنی آسمان (السماء) یا بجلی (الصاعقۃ) نے اس کو ’’بجلی زدہ‘‘ کردیا اور اسی فعل سے جدید استعمال ہے ’’صَعق التیارُ الکھر بائیُ الرجلَ=اس (آدمی) کو (انسانی تیار کردہ) بجلی نے جھٹکا دیا)‘‘(۲)اور ’’صعِق یَصعَق صَعَقًا ‘‘(باب سمع سے)کے ایک معنی ’’بجلی کا کڑک کی (یا کسی جانور کا خوفناک)آواز نکالنا‘‘ہوتے ہیں اور (۳) اسی باب (سمع)سے بصیغہ معروف بطور فعل لازم ’’صعِقَ‘‘ یا بصیغہ مجہول’’صُعِق‘‘(دونوں طرح)مگر مصدر ’’صَعْقًا‘‘(بسکون عین)کے ساتھ آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’کسی خوفناک آواز سے بے ہوش ہوجانا یا مرنا‘‘ـــ قرآن کریم میں یہ فعل (مجرد) مندرجہ بالا پہلے دو معنی (نمبر۱، نمبر۲)میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ صرف آخری (تیسرے) معنوں کے لیے قرآن کریم میں اس فعل کے (بابِ سمع سے)ماضی معروف کا ایک ہی صیغہ (الزمر:۶۸) اور مضارع مجہول کا بھی صرف ایک صیغہ (الطور:۴۵) استعمال ہوا ہے۔ اس طرح بے ہوش ہونے والے کو ’’صَعِقٌ‘‘ (فَرِحٌ کی طرح) کہتے ہیں۔ یہ لفظ بھی قرآن کریم میں صرف ایک جگہ (الاعراف:۱۴۲) آیا ہے۔

·       لفظ ’’صَاعِقَۃٌ‘‘ (جو زیر مطالعہ لفظ ’’الصواعق‘‘ کا مفرد نکرہ ہے)مندرجہ بالا پہلے معنی (نمبر۱) کے لحاظ سے مصدر بمعنی ’’بجلی گرنا‘‘بھی ہے۔ اور خود اس گرنے والی بجلی کو بھی ’’صاعِقۃ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ (صاعقۃ) بھی معرفہ نکرہ مفرد مرکب مختلف صورتوں میں قرآن کریم کے اندر چھ دفعہ آیا ہے۔ اور اس کی جمع ’’الصواعق‘‘ قرآن کریم میں صرف دو دفعہ استعمال ہوئی ہے۔ ایک یہاں (زیر مطالعہ آیت میں) اور دوسرے (الرعد:۱۳) میں ۔

۱:۱۴:۲(۱۰)    [حَذَرَ الْمَوْتِ] یہ ایک مرکب اضافی ہے جو ’’حذر‘‘ (مضاف) اور ’’الموت‘‘ (مضاف الیہ)پرمشتمل ہے۔ دونوں کی لغوی تفصیل یوں ہے۔ ’’حَذَرٌ‘‘ (جس کی ’’ر‘‘ کی حرکت فتحہ (ــــــَــــ)پر ’’الاعراب‘‘ میں بحث ہوگی) کا مادہ ’’ح ذ ر‘‘ اور وزن ’’فَعَلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’حذِر … یَحذَر حِذرًا وَ حَذَرًا ‘‘ (باب سمع سے) بطور فعل متعدی براہِ راست مفعول (بنفسہ) کے ساتھ بھی اور ’’مِنْ‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی ـــاستعمال ہوتا ہے۔ یعنی ’’حَذِرَہٗ وحذِر مِنْہ‘‘ دونوں طرح درست ہے اور اس کے معنی ہیں ’’…سے بچ کر رہنا‘‘ … سے بہت محتاط ہونا یا … کے بارے میں احتیاط برتنا، …سے ہوشیار رہنا‘‘ وغیرہ ہیں۔

بعض دفعہ اس فعل (حذِر) کا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے ۔ اس وقت اس کا ترجمہ فعل لازم کی طرح ’’محتاط رہنا‘‘ یا ’’خبر رہنا‘‘سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل سے، اپنے مفعول کے ذکر کے ساتھ بھی اور اس کے بغیر بھی صرف مضارع اور امر کے مختلف صیغے کل۱۲ جگہ آئے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل سے ماضی کا کوئی صیغہ نہیں آیا اور ’’مِنْ‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی یہ فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ فعل ثلاثی مجرد کے علاوہ اس مادہ (حذر) سے بعض اسماء مشتقہ اور مصدر پانچ جگہ اور اس مادہ سے باب تفعیل کا فعل  مضارع بھی دو جگہ استعمال ہوا ہے۔زیر مطالعہ لفظ (حذرَ) اس کےفعل ثلاثی مجرد کا مصدر ہے جس کا ترجمہ ’’ڈر، اندیشہ یا خوف‘‘سے کیا جاسکتا ہے۔

·       اس (مندرجہ بالا)ترکیب کے دوسرے لفظ ’’ الموت‘‘ کا مادہ ’’م و ت‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر)’’فَعْلٌ‘‘ہے (ترکیب میں یہ لفظ بوجہ اضافت مجرور آیا ہے)اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’مَاتَ یَمُوتُ مَوْتًا‘‘(باب نصرسے اور دراصل مَوَتَ یَمْوُتُ) آتا ہے اور اس کے مشہور اور بنیادی معنی ’’مرنا، مرجانا، جسم سے روح کا نکل جانا‘‘ہیں۔ اور اس فعل کے عربی زبان میں مختلف محاوراتی استعمالات (مثلاً ’’زمین کا بے آباد ہونا، ہوا کا رک جانا ، راکھ میں چنگاری تک کا ختم ہوجانا، کپڑے کا بوسیدہ ہونا، راستے کا متروک ہوجانا وغیرہ)کی بنیادیہی معنی ہیں۔

·       لفظ ’’مَوْت‘‘ جو دراصل فعل ثلاثی مجرد کا مصدر ہے اردو بلکہ فارسی پنجابی وغیرہ کئی اسلامی زبانوں میں اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ اتناکثرت سے مستعمل ہے کہ اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ۔۔قرآن کریم میں اس مادہ (م و ت) سے فعل ثلاثی مجرد کے (ماضی، مضارع، امر نہی کے)مختلف صیغے چالیس کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب ِافعال سے فعل کے صیغے ۲۱ جگہ اور لفظ ’’موت‘‘ اور اس کے مادہ سے دیگر مشتقات سو سے زائد دفعہ وارد ہوئے ہیں۔

[وَاللّٰهُ]’’وَ‘‘ یہاں بلحاظ معنی عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور مستأنفہ بھی۔ اور اسم ِجلالت (اللّٰہ) پر ’’بسم اللّٰہ‘‘ کے ضمن میں بات ہوچکی ہے[۱:۱:۱(۲) میں]

۱:۱۴:۲(۱۱)     [مُحِيْطٌ] کا مادہ ’’ح و ط‘‘ اور وزن اصلی ’’مُفْعِلٌ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’مُحْوِطٌ‘‘تھی۔ جس میں حرف علت ’’وِ‘‘کی حرکت کسرہ(ــــــِــــ)اس کے ماقبل ساکن حرف صحیح"حْ" کو دے کر اب اس "و" کو اپنے ماقبل کی حرکت (ــــــِــــ) کے موافق حرف علّت ’’ی‘‘ میں بدل کر بولا اور لکھاجاتا ہےـــ اسی مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’حاط… یحُوط حَوْطًا‘‘(باب نصر سے اور دراصل حوَط یَحْوُط) بطور فعل متعدی مفعول بنفسہ کے ساتھ (بغیر صلہ کے)استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ’’حاطَہٗ‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ’’…کی حفاظت کرنا، … کی دیکھ بھال کرنا‘‘ اور یہی فعل (اسی باب سے) ’’باء (بِ)‘‘کے صلہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’حاط بہٖ‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس وقت اس کے معنی ’’…پر آپڑنا، …پر اترنا‘‘ہوتے ہیں ـــتاہم قرآن کریم میں اس مادہ (حوط)سے فعل ثلاثی مجرد کا کوئی صیغہ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’ مُحِيْط ‘‘اس مادہ (حوط) سے بابِ افعال کا صیغہ اسم الفاعل ہے۔ باب ِاِفعال سے فعل ’’احاط یُحِیط احاطۃً‘‘ ہمیشہ ’’باء(بِ)‘‘ کے صلہ کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’اَحَاط بہ‘‘ کہتے ہیں اس کے معنی ’’…کو گھیر لینا، …سے پوری طرح باخبرہونا‘‘ہوتے ہیں۔ کوئی فعل جب لازما ًکسی صلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہو تو اس سے بننے والے اسم الفاعل اور اسم المفعول کے ساتھ بھی وہی صلہ لگتا ہے  [دیکھئے ۱:۶:۱(۵)] ا س لیے یہاں مُحِيطْ بِ… آیا ہے۔ گویا یہ ’’یُحِیطُ بِ…‘‘ کے برابر ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (حوط) سے صرف باب ِافعال کے ہی اَفعال اور اسماء مشتقہ کے مختلف صیغے ۲۷ جگہ آئے ہیں۔

۱:۱۴:۲(۱۲)     [بِالْكٰفِرِيْنَ] میں ’’بِ‘‘ تو صلہ کی ہے(یعنی مُحِیْط کے ساتھ لگنے والی) اور لفظ ’’الکافرین‘‘ (جو معرّف باللام اور مجرور بالجر)ہے کا مادہ ’’ک ف ر‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فاعِلین‘‘ ہے اور یہ لفظ ’’کافر‘‘ کی جمع سالم ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کفَر … یکفُر کفرا (کفر کرنا، ناشکری کرنا وغیرہ)کے معانی اور طریق ِاستعمال پر البقرہ:۶[۱:۵:۲)]میں بحث ہوچکی ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل کے ثلاثی مجرد سے ہی افعال کے مختلف صیغے ۲۹۰جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب تفعیل کے صیغے ۱۴ جگہ اور مختلف اسماء مشتقہ کے صیغے ۲۲۰ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ اس سے اس مادہ کے اَفعال اور اسماء کے قرآن کریم میں بکثرت استعمال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

 

۲:۱۴:۲      الاعراب

اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ فِيْهِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ ۔۔۔  ۚ   يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِىْٓ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ    ۭ   ـــوَاللّٰهُ مُحِيْطٌۢ بِالْكٰفِرِيْن

یہ (زیر مطالعہ) آیت دراصل تین جملوں پر مشتمل ہے۔ جن کے اعراب کی تفصیل یوں ہے:۔

·       [اَوْ] حرفِ عطف ہے اور اس کا تعلق اس سے پہلی آیت (نمبر۱۷۔جس پر۱۳:۲ میں بات ہوئی ہے)کے ابتدائی لفظ ’’ مَثَلُھم‘‘سے ہے یعنی دراصل عبارت بنتی ہے ’ اَوْ مَثَلُھم‘‘(یا ان کی مثال)۔۔’’اَوْ‘‘ یہاں شک کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور تخیر کے لیے بھی (دیکھیے اوپر حصہ"اللغۃ میں ۱:۱۴:۲)

[کصیِّب] کا کاف الجر (کَ) بلحاظ معنی تشبیہ کے لیے ہے۔ گویا ’’ کمثل صیّب ‘‘ ہے۔ اور یہاں ’’صیِّبٍ‘‘ سے بھی مراد ’’اصحاب ِصَیّبٍ‘‘ (یعنی بارش والے، بارش میں موجود یا مبتلا لوگ)ہیں۔ یعنی تشبیہ بارش سے نہیں بلکہ ’’بارش والو ں کی حالت‘‘سے ہے۔ اور مقدر عبارت ’’اَوْ مثلھم کمثل اصحاب صیِّب ‘‘ بنتی ہے۔ اس لیے کہ آگے چل کر اسی آیت میں (ان لوگوں کے لیے ہی) جمع مذکر کے الفاظ ’’ یجعلون ‘‘اور ’’ھم‘‘ وغیرہ آئے ہیں جو ’’صیِّب‘‘ نہیں بلکہ ’’اصحابِ صیِّب‘‘کے لیے ہی ہوسکتے ہیںـــ بہرحال یہ مرکب (کصیِّب) جار مجرور مل کر ایک محذوف (غیر مذکور مگر مفہوم) مبتدأ (مَثَلُھُمْ) کی خبر یا قائم مقام خبر ہے اور یہ (صیِّبٍ) نکرہ موصوفہ ہے یعنی ان کی تنوین تنکیر سے ’’جوکہ‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں یعنی جو کہ" من السماء‘‘ہے اور یہ (مِنَ السَّماءِ) بھی جار (مِنْ) اور مجرور (السماءِ) مل کر ’’صَیّب‘‘کی صفت ہونے کے لحاظ سے محلاً مجرور ہے۔ اس کا ’’مِنْ‘‘ ابتداء الغایہ کے لیے بھی ہوسکتا ہے (کہ بارش کس طرف سے آرہی ہے) اور مِنْ بیانیہ بھی کہہ سکتے ہیں (یعنی پانی کی بوچھاڑ کی وضاحت ہے کہ وہ اوپر ۔ آسمان سے آرہی ہے)۔ (فیہ) جار (فی) اور مجرور (ہ) مل کر خبر مقدم ہے جس میں ھاء الضمیر (ہ)کا مرجع ’’صیِّب‘‘ہے۔ اور[ظلمات]مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور [وَرَعدٌ] اور [وَبَرْقٌ] ہر دو بھی واو عاطفہ کے ذریعے ’’ظلمات‘‘ پر معطوف ہیں۔ یعنی یہ تینوں کلمات (ظلماتٌ و رعدٌ و برقٌ)مبتدأ مؤخر کا کام دے رہے ہیں۔ اس طرح ’’ فیہ ظلمات ورعد وبرق‘‘ کا ترجمہ ہوگا ’’اس میں ہے ظلمات اور رعد اور برق‘‘ (یعنی اندھیرے اور گرج  اور چمک) اور یہ پورا جملہ بھی " صَیِّبٌ "کی صفت ہے۔اس طرح مندرجہ بالا ترکیب کے کے مطابق یہاں تک کہ حصہ آیت (او کصیّبٍ … وبرق) کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے یا (ان کی مثال ایسی صیِّب (بارش) (میں پھنسے لوگوں)کی مانند ہے جو کہ من السماء  (آسمان سے آرہی) ہے جس میں ظلمات ورعد وبرق (اندھیرے گرج اور بجلی کی چمک) ہو‘‘۔

·       [يَجْعَلُوْنَ] فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘مستتر ہے اور یہاں (یجعلون)سے شروع ہونے والا جملہ ’’اصحاب صیِّب (بارش والوں)‘‘کا بیان یا صفت یا حال بھی ہوسکتا ہے۔ اور الگ مستقل جملہ (مستأنفہ)بھی ہوسکتا ہے۔ [اَصَابِعَھم] یہ مضاف (اصابع) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر پورا مرکب اضافی فعل ’’ یجعلون‘‘کا مفعول بہ ہے (یعنی اپنی انگلیوں کو) اسی لیے ’’اصابع‘‘ یہاں منصوب ہے اور اس کی نصب کی علامت ’’ع‘‘ کا فتحہ (ــــــَــــ)ہے۔ [فی آذانھم] میں ’’فی‘‘ تو حرف الجر ہے اور ’’آذانِ‘‘ اس کی وجہ سے مجرور ہے جس کی علامت ِجر ’’ن‘‘ کا کسرہ (ــــــِــــ) ہے اور یہ (آذان) آگے مضاف بھی ہے اس لیے خفیف (لام تعریف اور تنوین کے بغیر)ہے۔ آخری ’’ھُمْ‘‘ ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے جس کی ’’ھا‘‘ ماقبل کے مکسور ہونے کی وجہ سے مکسور (ھِم)ہوگئی ہے۔ اور یہ سارا مرکب جارّی (فیِ آذانھم) متعلق فعل" یجعلون" ہے۔ یا اسے اس فعل (یجعلون)کے دوسرے مفعول کا قائم مقام سمجھ کر محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔ [من الصواعق]یہ جار (من) اور مجرور (الصواعق)مل کر (جو دراصل تو ’’ من صوتِ الصواعق ‘‘  کا مفہوم رکھتا ہے یعنی ’’صواعق‘‘ کی آواز کی وجہ سے) فعل ’’ یجعلون‘‘ سے متعلق ہے اور اس کے مفعول لہٗ کا کام دے رہا ہے گویا محلاً منصوب ہے یعنی "صواعق (بجلیوں کی کڑک والی آواز)سے بچنے کے لیے ایسا کرتے ہیںـــاور [حذرَالموتِ] مرکب اضافی ہے جس میں (مضاف)لفظ ’’ حذر‘‘مفعول لہ ثانی ہے اسی لیے منصوب ہے جس کی علامت نصب ’’ر‘‘کی فتحہ(ــــــَــــ)ہے اور یہ مضاف ہونے کی وجہ سے "حَذَرًا"کا  "حَذَرَ  رہ گیا ہے۔ اور ’’الموت‘‘ اس (حذر) کا مضاف الیہ مجرور ہے اس طرح اس  (حذرالموت)کا ترجمہ ہوگا۔ ’’موت کے ڈر یا اندیشے سے ، یا موت سے بچنے کے لیے ‘‘اور یہ دوسرا مفعول لہٗ پہلے مفعول لہٗ (من الصواعق)کے ساتھ مقیّد ہے۔ یعنی دونوں کو ملا کر ترجمہ ہوگا ’’بجلیوں کی (کڑک)کی وجہ سے موت (کے اندیشے)سے (بچنے کے لیے)۔ اسی کا نسبتاً بامحاورہ ترجمہ ‘‘ کڑک کے سبب موت کے ڈر سے‘‘ یا ’’ کڑک کے سبب موت کے اندیشہ ‘‘سے کیا گیا ہے۔ یعنی بیشتر مترجمین نے یہاں ’’مِنْ‘‘ کا ترجمہ ’’مِنْ تعلیلیہ‘‘کے ساتھ کیا ہے۔[دیکھیے من کے معانی ۱:۲:۲(۵) میں]

[وَاللّٰهُ] کی ’’واو‘‘ اعتراضیہ ہے یعنی جملہِء معترضہ کے شروع میں آئی ہے اور اسے ’’واو الاستیناف ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہاں سے ایک نیا جملہ (معترضہ) شروع ہوتا ہے جس کا اپنے سے پہلے جملے پر بلحاظ معنی عطف نہیں بنتا۔ اردو میں یہ فرق محض ترجمہ سے ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا اردوترجمہ تو ’’اَوْر‘‘ سے ہی کیا جاسکتا ہے مگر دراصل اس میں اور پھر یہ بھی تو ہے کہ "مفہوم موجود ہے۔ اور اگر چاہیں تو اس ’’واو‘‘ کو حالیہ قرار دے کر اس کا ترجمہ ’’حالانکہ‘‘ سے بھی کیا جاسکتا ہے اور بعض مترجمین نے ایسا ہی کیا ہے اور "[اللّٰہُ] یہاں مبتدأ (لھٰذا) مرفوع ہے اور اس کی خبر[محیطٌ]ہے جو اسی لیے مرفوع ہے اور [بالکافرین] جارّ (بِ) اور مجرور (الکافرین) مل کر متعلق خبر (محیط)ہے۔ اس طرح یہ جملہ اسمیہ (واللہ محیط بالکافرین) کا ایک جملہ معترضہ ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے جس بجلی اور اس کی چمک کا ذکر ہوا ہے وہ اس سے اگلی (آنے والی) آیت میں بھی چل رہا ہے۔ اور درمیان میں یہ ’’  واللہ محیط بالکافرین‘‘ ایک جملہ معترضہ کے طور پر آیا ہے یعنی ایک مسلسل مضمون کے درمیان آنے والا ضمنی جملہ جس میں کسی دوسرے مضمون کی طرف توجہ دلائی جاتی ہےـــ مبتدأ خبر ہونے کی بنا پر اور اس لیے کہ ’’محیط‘‘ اس الفاعل کا صیغہ ہے، جملہ ’’ واللہ محیط بالکافرین ‘‘ کا بنیادی لفظی ترجمہ تو ہونا چاہئے ’’اور اللہ گھیر لینے والا ہے کافروں کو‘‘ اس میں ’’کو‘‘ عربی ’’بِ‘‘ کا ترجمہ ہے جو دراصل فعل ’’احاط‘‘ کا صلہ ہے۔ تاہم محاورہ اور مفہوم کو ذہن میں رکھتے ہوئے بیشتر مترجمین نے "محیط" کا ترجمہ ’’گھیرے میں لیے ہوئے ہیں‘‘ یعنی ’’یُحِیط‘‘ کی طرح کردیا ہے۔

 

۳:۱۴:۲     الرسم

          زیر مطالعہ آیت میں کل ۲۱ کلمات ہیں ان میں سے بیشتر کلمات کا رسم عثمانی اور رسم املائی یکساں ہے۔ صرف چار کلمات بلحاظ رسم عثمانی تفصیل طلب ہیں اور یہ ہیں ’’ ظلمات، اصابعَھم،الصواعق"اور "الکافرین‘‘ (اور یہ ان کی رسم املائی ہے) ان کے رسم عثمانی کی تفصیل یوں ہے۔

·       [ظُلُمٰتٌ] جو عام رسم معتاد میں ’’ظلمات‘‘ باثبات الالف بعد المیم لکھا جاتا ہے ، رسم عثمانی کے مطابق یہ لفظ قرآن کریم میں ہر جگہ بحذف الاف بعد المیم یعنی ’’ ظلمت‘‘ لکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ کلمہ معرفہ  یانکرہ کل ۳۳ بار آیا ہے۔اور ہر جگہ اس کا رسم قرآنی بحزف الف یعنی ’’ ظلمت‘‘ ہے[نیز دیکھیے سابقہ آیت البقرہ:۱۷یعنی ۳:۱۳:۲]

·       [اصابِعَھم] رسم املائی میں تو اسی طرح باثبات الف (بین الصاد والباء) لکھا جاتا ہے تاہم اس کا رسم عثمانی مختلف فیہ ہے۔ تمام عرب اور افریقی ملکوں (ماسوائے لیبیاکے)کے مصاحف میں اسے محذوف الالف (بعد الصاد) یعنی بصورت’’اَصٰبِعَھُمْ‘‘لکھا جاتا ہے اور یہ حذف الالف ابوداؤد سلیمان بن نجاح (المتوفی ۴۹۶) کی طرف منسوب قول پر مبنی ہے۔ جب کہ لیبیا والے مختلف فیہ رسم میں ابوداؤد کے استاد عثمان بن سعید الدانی (المتوفی ۴۴۴ھ) کو حجت مانتے ہیں اور الدانی نے (بلکہ اس کے بعد مصنّف الشاطبی المتونی۵۹ھ نے بھی)اس کلمہ کے محذوف الالف ہونے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس وجہ سے لیبیا میں اسے ’’اصابعھم‘‘ باثبات الالف ہی لکھا گیا ہے۔ برصغیر میں صحت کے اہتمام کے ساتھ چھپنے والے مصاحف (مثلاً انجمن حمایت اسلام، لاہور یا بمبئی کے بعض مصاحف) میں بھی اسے باثبات الف ہی لکھا گیا ہے اور اسے یکسر غلط رسم ہرگز نہیں کہاجاسکتا۔ جیسا کہ مدینہ یونیورسٹی کے دو استاتذہ نے برصغیر کے مصاحف کی اغلاط الرسم کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے۔ پاکستان میں صرف ’’تجویدی قرآن‘‘ کے اندر ’’مصحف ِحکومت ِمصر‘‘ کے اتباع کی میں یہ کلمہ بحذف الف لکھا گیا ہے۔

·       [الصواعق] جو عام رسم املائی میں اسی طرح باثبات الالف (بعد الواو)لکھا جاتا ہے۔ اس کے رسم عثمانی کے بارے میں بھی مذکور ہ بالا کلمہ (اصابعھم) والا اختلاف ہے یعنی عرب اور افریقی ملکوں کے مصاحف میں ابوداؤد کے قول کی بناء پر اسے محذوف الالف کرکے یعنی بصورت ’’الصوعق‘‘ لکھتے ہیں۔ جب کہ لیبی مصاحف میں الدانی کی عدم صراحت کی بنا پر اسے باثبات الالف (الصواعق)لکھا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ ان تمام کلمات میں جو عام عربی املاء میں باثبات الف لکھے جاتے ہیں ان کے رسم عثمانی میں بحذف الف لکھاجانا صرف اس صورت میں ضروری ہوتا ہے جب ائمہ رسم نے اس کے حذف کی تصریح کی ہو۔ اور جہاں حذف کی تصریح نہیں تو اسے اثبات (الف)پر ہی محمول کیا جاتا ہے۔ یہ کلمہ (الصواعق) برصغیر کے مصاحف میں بھی اسی طرح باثبات ِالف ہی لکھا جاتا ہے تاہم یہاں اثبات الف کی وجہ وہ نہیں جو لیبیا والے بیان کرتے ہیں بلکہ شاید سہواً ہیـــ یا پھر ایران اور ترکی کے مصاحف کے اتبّاع میں ایسا لکھا گیا۔ تاہم اسے یکسر غلط رسم ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ جیسا کہ مدینہ یونیورسٹی کے دو سعودی اساتذہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے۔

[الْكٰفِرِيْنَ] یہ لفظ عام عربی املاء میں تو باثبات الالف بعد الکاف لکھاجاتا ہے یعنی بصورت ’’الکافرین‘‘۔ تاہم اس کا عثمانی رسم ہر جگہ بحذف الف ہے یعنی ’’الکفرین‘‘ اور یہ تمام ائمہ رسم کے مطابق متفق علیہ رسم ہے۔ برصغیر میں بھی اسے عموماً بحذف الف ہی لکھا جاتا ہے جیسا کہ لاہور، بمبئی اور دہلی کے مطبوعہ مصاحف میں دیکھا جاسکتا ہے۔

          ترکی، ایران اور چین کے مصاحف میں مذکورہ بالا چاروں کلمات باثبات الف لکھنے کا رواج ہوگیا ہے جو ’’ظلمات‘‘ اور ’’الکافرین‘‘ کے معاملے میں تو متفقہ رسم عثمانی کی صریح مخالفت اور لہٰذا سخت غلطی ہے یہ ’’ ظلمت‘‘ اور ’’ الکفرین ‘‘ ہی لکھے جانے چاہئیں۔ البتّہ ’’ اصابعھم‘‘ اور ’’ الصواعق‘‘ کی صورت میں رسم کے مختلف فیہ ہونے کی بنا پر اسے یکسر غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم ایرانی یا ترک کاتبوں کے سامنے (لیبیا والوں کی طرح) ابو داؤد اور الدانی کا اختلاف نہیں تھا۔ بلکہ غالباً ان ملکوں میں رسم املائی کے اتباع کے باعث یہ ’’غلطی‘‘ عام ہوگئی جسے محض اتفاقاً فنی اعتبار سے غلطی نہیں کہا جاسکتا۔ اس قسم کے اختلافِ رسم کے کئی نمونے آگے چل کر بھی ہمارے سامنے آئیں گے۔

 

۴:۱۴:۲     الضبط

          زیر مطالعہ آیت کے کلمات کے متفق یا مختلف ضبط کو درج ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے:۔

 

 



[1]   دیکھئے ابن الانباری (البیان) ج۱ص۶۱ـــ نیز عکبری (التبیان) ج۱ ص۳۵۔

 

  [2] البقرہ: ۱:۱۱:۲(۳)ضاحت گزر چکی ہے۔