سورۃ  البقرہ آیت نمبر ۲۰

۱۵:۲      يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ   ۭ   كُلَّمَآ اَضَاۗءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِيْهِ   ڎ   وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوْا    ۭ   وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَذَھَبَ بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ   ۭ   اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ  (۲۰)

۱:۱۵:۲     اللغۃ

۱:۱۵:۲(۱)     [يَكَادُ] کا مادہ ’’ک و د‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْعَلُ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’یَکْوَدُ‘‘ تھی جس میں حرف علت (و) کی حرکت(ـــــَــــ) اس کے ماقبل حرف صحیح (ک) کو دی جاتی ہے اور پھر یہ (و) اپنے سے ماقبل کی حرکت  فتحہ    (ــــــَــــ) کے موافق حرف (الف) میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے۔ تعلیل کے بعد اب اس کا وزن ’’یَفالُ‘‘ رہ گیا ہے۔

          اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’کادَ یکُوْد کَوْدًا‘‘(باب نصر سے) بمعنی ٔ  ’’مَنَع‘‘(روکنا)آتا ہے۔ تاہم اس باب سے اس فعل کا کوئی صیغہ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہواـــ زیادہ تر یہ باب سمِعَ سے ’’کاد یکادکَوْدًا‘‘(دراصل کوِدَ یَکْوَدُ)آتا ہے اور یہ افعال مقاربہ میں سے ہے۔ یعنی یہ ایک طرح کا فعل ناقص ہے جس کا ’’اسم‘‘ مرفوع اور ’’خبر‘‘ ہمیشہ کوئی فعل مضارع مرفوع (یا کبھی کبھار منصوب ’’بأن‘‘)ہوتا ہے۔ اور یہ کسی فعل کے ہونے یا نہ ہونے کے بس قریب ہی آلگنے کا پتہ دیتا ہے اور اس کے استعمال کے کچھ مقرر قواعد ہیں۔[1]    اور خود یہ فعل (کاد) ماضی مضارع مثبت منفی ہر طرح کے معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’کاد یفعَلُ‘‘(وہ کرنے ہی لگا تھا) یا ’’یَکادُ یفعَل‘‘ (وہ کرنے ہی لگا ہے)، ’’مَا کاد یفعل‘‘ (لگتا نہیں تھا کہ کرے گا) اور ’’اَن‘‘ لگا کر اسے ’کاد  یا مَاکادَ أن یفعَلَ‘‘بھی کہہ سکتے ہیں تاہم قرآن ِکریم میں یہ (أنْ  والااستعمال کہیں نہیں آیا۔ یہاں آیت زیر مطالعہ میں ’’ یکاد‘‘ کی خبر ’ يخطَفُ ‘‘ہے جس کے معنی پر ابھی بات ہوگی۔

·       کبھی یہ فعل (کَاد) ’’اَراد‘‘(ارادہ کرنا) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مگر جس فعل(کام) کا ارادہ ہو اس کا بھی فعل مضارع ہی اس (کاد یکاد)کے ساتھ اسی طرح استعمال ہوتا ہے جیسا کہ بطور فعل مقارب (اس کے ساتھ) آتا ہے اس استعمال کی صرف ایک مثال آگے چل کر (طہ:۱۵) آئے گی۔

]الْبَرْقُ] کے مادہ اور معنی (بجلی کی چمک)وغیرہ پر ابھی اوپر [۱:۱۴:۲(۵)] میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۵:۲(۲)     [يَخْطَفُ]  کا مادہ ’’خ ط ف‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُ‘‘ ہے ۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’خطِف… یَخطَفُ خَطْفًا‘‘ (باب سمع سے) اور ’’ خطَف… یخطِف خَطْفًا ‘‘(باب ضرب سے) بھی آتا ہے اور شاذ ’’ خطَف… یخطُف ‘‘(باب نصر سے)بھی آتا ہے اور تینوں کے ایک مشترک معنی ’’…کو اچک لینا، …کو جھپٹ لینا، …کو چھین لینا‘‘ ہوتے ہیں تاہم باب ’’نصر‘‘ والے استعمال کو متروک اور ردّی لغت سمجھا جاتا ہے۔[2]   بلکہ بہت سی کتب لغت میں تو یہ باب (نصر) بیان ہی نہیں کیا گیا۔ قرآن کریم میں یہ فعل ثلاثی مجردصرف باب سمِعَ سے ہی استعمال ہُوا ہے اور اس (فعل مجرد) سے ماضی اور  مضارع کے صرف تین ہی صیغے آئے ہیں اور مزید فیہ کے باب ’’تفعّل‘‘ سے بھی صرف فعل مضارع کے ہی تین صیغے وارد ہوئے ہیں۔

·       یہ لفظ’’ يخطَف ‘‘ثلاثی مجرد کا فعل مضارع(صیغہ واحد غائب مذکر)ہے جس کا اردو ترجمہ ’’ يَكادُ الْبَرقُ يَخْطَفُ ‘‘کے ساتھ مل کر ہوگا (جیسا کہ ابھی اوپر ’’کاد‘‘ کے طریق ِاستعمال میں بیان ہوا ہے) بیشتر اردو مترجمین نے فعل ’’خطف‘‘ کا ترجمہ ’’اچک لینا‘‘سے کیا ہے اور ’’ کاد ‘‘ کے ترجمہ میں ’’قریب ہے کہ ‘‘کو ترجیح دی ہے۔ اور یوں اس (یکاد البرق یخطف)کا سلیس ترجمہ ’’قریب ہے کہ بجلی اچک لے جائے ‘‘سے کیا ہے۔ بعض نے صرف ’’اچک لے‘‘ پر اکتفاء کیا ہے۔ بعض نے ’’بجلی یوں لگتی ہے کہ اچک لے جائے گی‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو ذرا  زیادہ بامحاورہ ہے۔ اور بعض نے ’’برق کی یہ حالت ہے کہ معلوم ہوتا ہے ابھی اس نے …لی‘‘ جو بامحاورہ سہی مگر ذرا ’’بھاری بھر کم‘‘ ترجمہ ہے۔ اور لفظی سے زیادہ تفسیری معلوم ہوتا ہے۔

]اَبْصَارَھُمْ] میں لفظ ’’ابصار‘‘ (’’ھم‘‘ تو ضمیر مجرور بمعنی ’’ان کی‘‘ہے) کا مادہ ’’ب ص ر‘‘ اور وزن ’’اَفْعَالٌ‘‘ ہے اور یہ جمع مکسر ہے جس کا مفرد (واحد) ’’بَصَرٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل وغیرہ بلکہ خود لفظ’’ابصار‘‘پر مفصّل بحث البقرہ:۷[۱:۶:۲(۴)] میں گزر چکی ہے۔یہاں لفظ "ابصار"کا ترجمہ بعض نے تو صرف ’’آنکھیں ‘‘ہی کیا ہے اور بعض نے اصل معنی مراد (یا محاورہ) کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’بینائی‘‘ بعض نے ’’نگاہوں‘‘بعض نے ’’بصارت‘‘ کیا ہے۔ جو سب ہم معنی ہی ہیں۔

۱:۱۵:۲(۳)     [كُلَّمَا[ یہ ’’کُلّ ‘‘ بمعنی ’’سب‘‘ اور ’’ما‘‘ ظریفہ بمعنی ’’جب تک‘‘ کا مرکّب ہے اور یہ پورا ایک لفظ شمار ہوتا ہے (اور اسی لیے ملا کر ہی لکھا جاتا ہے) اس میں ’’ کُلّ ‘‘ کی وجہ سے ’’عموم‘‘ اور ’’ما‘‘ کی وجہ سے ’’تکرار ‘‘کے معنی پیدا ہوتے ہیں اور اس کا اردو ترجمہ ’’جب کبھی بھی‘‘یا ’’جب بھی‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اور یہ ہمیشہ ’’کلمہ شرط‘‘ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ (كُلَّمَا)قرآن کریم میں کل ۱۷ جگہ آیا ہے۔ اس کے ابتدائی جزء (کُلّ) کے مادہ وغیرہ پر ابھی آگے اسی آیت کے آخر پر۱:۱۵:۲(۱۰)میں بات ہوگی۔

[اَضَاۗء]کا مادہ ’’ض و ء‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعَلَ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’اَضْوَأَ‘‘ تھی۔ جس میں ’’ واو‘‘ (حرف ِعلت) کی حرکت ِفتحہ (ــــــَــــ) اس کے ماقبل ساکن حرف صحیح (ض) کو دے کر خود اس ’’و‘‘ کو اپنے ماقبل کی حرکت (ــــــَــــ) کے موافق حرف (الف) میں بدل دیاجاتا ہے اور یوں یہ کلمہ ’’اضاء‘‘ کی صورت میں لکھا اور بولا جاتا ہے۔ ’’اضاءَ‘‘ بابِ افعال سے فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے جس کا ترجمہ ’’اس نے روشنی دی‘‘ ہے مگر اس کا ترجمہ ’’ كلّما ‘‘ کے معنی ٔ شرط کی بنا پر فعل ماضی کی بجائے فعل حال کے ساتھـــ اور ’’بجلی‘‘ کے اردو میں مؤنث ہونے کی وجہ سے مؤنث فعل کے ساتھ ـــکیا گیا ہے یعنی ’’روشنی دیتی ہے‘‘، ’’چمکتی ہے‘‘ کی صورت میں۔ اگرچہ بعض حضرات نے اصلی فعل کے ماضی ہونے کی بناء پر ماضی ہی کے ساتھ یعنی ’’چمکی، چمک ہوئی‘‘ کی صورت میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ اور یہ فعل لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے بعض نے ’’روشنی دینا‘‘ اور بعض نے ’’روشن ہونا‘‘ کا مفہوم لیا ہے۔ اس مادہ (ضوء) سے استعمال ہونے والے افعال اور ان کے معانی پر البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲(۵)] میں بحث ہوچکی ہے۔

[ لَھُمْ] یہ ’’لام‘‘ (جو دراصل ’’لِ‘‘ تھی مگر ضمیر سے پہلے آنے کی وجہ سے مفتوح آئی ہے اور جس کے معنی ’’کے لیے ‘‘ہیں)+ھُمْ (ضمیر مجرور بمعنی ’’اُن‘‘) کا مرکب ہے۔ اس طرح ’’ لَھُمْ ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ’’ان کے لیے ‘‘ بنتا ہے مگر اردو محاورہ کے اعتبار سے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ان پر‘‘کیا ہے۔ بعض نے ’’ان کو‘‘ یا ’’ان کے آگے‘‘ بھی کیا ہے۔ جب کہ بعض نے صرف فعل ’’اضاء‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے ’’ لَھُمْ ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کردیا ہے۔

۱:۱۵:۲(۴)     [مَشَوْا] کا مادہ ’’م ش ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ہے۔ اس کی اصل شکل ’’مَشَیُوا‘‘تھی جس میں واو الجمع سے پہلے آنے والی ’’یاء‘‘(اور ’’واو‘‘ہو تو بھی) گرادی جاتی ہے اور اس (جانے والی ’’یاء‘‘) کا ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے  اس کی فتحہ (ــــــَــــ) برقرار رہتی ہے اور یوں یہ لفظ ’’ مَشَوْا ‘‘ بن کر لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اور اس لفظ کی تعلیل ایک دوسرے طریقہ پر بھی بیان کی جاسکتی ہے کہ ’’مَشَیُوْا‘‘ میں یاء متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے مگر اب دو ساکن (’’الف‘‘اور ’’ی‘‘) اکٹھے ہونے کے باعث الف گرادیا جاتا ہے مگر ’’و‘‘ کو برقرار رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ صیغہ جمع کی علامت ہے یعنی الجبرا کی زبان میں ’’مَشَیُوْا=مَشَاوْا=مَشَوْا‘‘ہے۔

·       اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’مَشَی یَمْشِی مَشْیًا‘‘ (باب ضرب سے)آتا ہے اور اس کے معروف اور بنیادی معنی (کیونکہ یہ بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے) ’’پیدل چلنا‘‘ ہیں۔ اردو میں اس کا عام ترجمہ صرف ’’چلنا‘‘ ہی کر لیا جاتا ہے۔ مگر کہیں کہیں حسبِ موقع اس کا ترجمہ ’’چلنا پھرنا، چلتے رہنا، چلتے چلتے جانا‘‘(چلنا جاری رکھنا)کے ساتھ بھی کرنا پڑتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل ثلاثی مجرد سے ماضی، مضارع امر اور نہی وغیرہ افعال کے بائیس (۲۲) مختلف صیغے اور مصدر یا اسماء مشتقہ کے بھی دو ایک صیغے آئے ہیں۔

·       ’’ مَّشَوْا ‘‘اس مادہ کے فعل ثلاثی مجرد سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اور اس کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے۔ ’’وہ چلے یا چلتے گئے‘‘ لیکن یہاں سے (كلّما …) کا جوابِ شرط شروع ہوتا ہے اس لیے یہاں بھی فعل ماضی کی بجائے ’’حال‘‘ سے ترجمہ ہوگا۔ اور شروع میں ’’تو‘‘ بھی لگے گا۔ چنانچہ اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’چلنے لگتے ہیں، تو چل لیتے ہیں ، تو چلتے ہیں، تو چل پڑتے ہیں‘‘ کی صورت میں ہی کیا ہے اگرچہ بعض نے فعل ماضی کے ساتھ ہی ’’چلے‘‘’’چلنا شروع کیا‘‘ کی صورت میں بھی ترجمہ کر دیا ہے۔

[فِيْهِ] اس مرکّب جارّی (فی+ہ)کے ترجمہ وغیرہ پر ۱:۱:۲(۵) میں بات ہوچکی ہے یہاں اس کا ترجمہ تو ’’اس میں‘‘ہی بنتا ہے مگر ضمیر (ہ) کے فعل ’’اضاء‘‘سے متعلق ہونے کے باعث اکثر نے اس کا ترجمہ ’’اس کی روشنی میں، اس کے چاند نے میں ‘‘ کے ساتھ کیا جو اصل الفاظ سے ہٹ کر ہے۔ اگرچہ با محاورہ ضرور ہے۔

[وَاِذَا] کا ترجمہ ’’اور جب‘‘ یا ’’جس وقت ـــ‘‘ یعنی ’’وَ‘‘ تو یہاں عطف کے لیے ہے۔ اور ’’اذا‘‘ کے معانی و استعمال پر البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲(۱)]میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔

۱:۱۵:۲(۵)     [اَظْلَمَ] کا مادہ ’’ظ ل م‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ظلَم …یَظلِمُ ظُلْمًا (باب ضرب سے) آتا ہے اور یہ زیادہ تر بطور متعدی (بغیر صلہ کے) استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بنیا دی معنی تو ہیں ’’کسی چیز کو غلط جگہ پر رکھنا‘‘ پھر اس سے اس میں ’’…پر ظلم کرنا، …کی حق تلفی کرنا، …سے بے انصافی کرنا، … میں کمی کرنا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ فعل ایک مفعول کے ساتھ بھی آتا ہے اور دو مفعول کے ساتھ بھی مثلاً کہتے ہیں ’’ظلمَہُ‘‘(اس نے اس پر ظلم کیا) اور ’’ظلمَہ حقَّہ‘‘ (اس نے اس کے حق میں کمی کی) اور ’’بِ‘‘ کے صلہ کیساتھ اس کے معنی کفر کرنا بھی ہوتے ہیں یعنی  ظَلَمَ بِ …=کفربِ… اور کبھی اس کا ترجمہ فعل لازم کی طرح ’’ظالم ہونا یا بننا‘‘ کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے۔نیز دیکھئے البقرہ:۱۷[۱:۱۳:۲(۱۰)]

·       زیر مطالعہ لفظ (اَظْلَمَ)اس مادہ (ظلم) سے بابِ افعال کا فعل ماضی صیغہ واحد غائب مذکر ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَظْلَم یُظْلِمُ اِظْلاَمًا‘‘ متعدّی اور لازم دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ’’…اندھیرا کردینا، …کو تاریک بنادینا‘‘بھی ہوتے ہیں اور ’’اندھیرا ہونا، تاریک ہوجانا‘‘ بھی ـــ اور متعدی ہو تو مفعول بنفسہٖ کے ساتھ بھی آتا ہے مثلاً ’’اَظلمَ البیتَ‘‘(اس نے گھر میں اندھیرا کر دیا) اور ’’اظلم اللہُ اللیلَ‘‘ (اللہ نے رات کو تاریک کردیا) اور کبھی ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے۔ مثلاً ’’اَظْلَم علیہ ِاللیلُ‘‘(رات نے ان پر اندھیرا کردیا)ـــ اور بطور فعل لازم (سیاہ ہونا، تاریک ہونا کے معنی میں) اس کا فاعل عموماً  اللیلُ یا الشَعْرُ (بال) یا البحرُ(سمندر) آتا ہے۔ مثلاً "اظلم اللیلُ" (رات سیاہ یا تاریک ہوگئی) وغیرہ۔

·       یہاں آیت زیر مطالعہ میں ’’اذا‘‘ شرطیہ کے بعد آنے کی وجہ سے فعل ماضی ’’ اَظْلَمَ ‘‘ کا ترجمہ فعل حال سے کیا جانا چاہئے۔ اور بیشتر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ فعل متعدی کی بجائے فعل لازم سے کیا ہے یعنی ’’اندھیرا ہوتا ہے، اندھیرا ہو جاتا ہے،، اندھیرا چھا جاتا ہے‘‘ـــ اگرچہ بعض نے فعل ماضی کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے یعنی ’’اندھیرا پڑنا، تاریکی ہوئی، اندھیرا چھا گیا‘‘ کی صورت میں ۔ ایک آدھ نے بطور فعل متعدی ’’اندھیرا کرتی ہے‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ سب ترجمے یکساں اور ہم معنی ہیں۔ بس کسی میں ذرا محاورے کا زور زیادہ ہے کسی میں ذرا کم۔

[عَلَيْهِمْ] اس مرکب جاری (علی+ھم)کے معنی وغیرہ کے بارے میں ۱:۶:۱(۳)اور ۱:۶:۱:(۵) میں بھی بات ہوچکی ہے۔ مذکورہ دونوں مقامات کی طرح یہاں بھی ’’علی‘‘ فعل (اظلم) کے صلے کے طور پر آیا ہے جس کا اردو ترجمہ ’’ان پر‘‘ ہی ہے چاہے فعل بطور لازم سمجھا جائے یا بطور متعدی  ـــ یہ لفظی ترجمہ دونوں صورتوں میں ’’فٹ‘‘ ہوجاتا ہے۔

۱:۱۵:۲(۶)     [قَامُوْا] کا مادہ ’’ق و م‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوا‘‘ہے۔ شکل اصلی ’’قَوَمُوْا‘‘ تھی جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے یعنی اب اس کا وزن ’’فالُوْا‘‘ رہ گیا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کے باب، معنی اور استعمال کے بارے میں الفاتحہ:۶ کے ضمن میں۱:۵:۱(۴) پر بات ہوچکی ہے۔

·       زیرِ مطالعہ لفظ (قاموا)ثلاثی مجرد کا فعل ماضی صیغہ ٔ جمع مذکر غائب ہے۔ جواب ِشرط ہونے کے باعث یہاں بھی اس فعل کا ترجمہ ماضی کی بجائے حال سے ہونا چاہئے۔ چنانچہ بعض مترجمین نے ’’کھڑے رہ جاتے ہیں‘‘ اور ’’کھڑے ہوجاتے ہیں‘‘ سے ہی ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے اصل فعل ماضی کے ساتھ ہی ’’کھڑے رہ گئے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے اردو محاورے کا خیال رکھتے ہوئے صرف ’’کھڑے ‘‘ کی بجائے ’’کھڑے کے کھڑے ‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔

۱:۱۵:۲(۷)     [وَلَوْ]کی ’’واو‘‘ (وَ) عاطفہ (بمعنی ’’اَور‘‘) ہے اور ’’لَوْ‘‘ شرطیہ (بمعنی ’’اگر‘‘)ہے۔ اس طرح ’’ وَلَوْ ‘‘ کا ترجمہ ’’اور اگر‘‘ ہی ہوگا۔ کبھی حسب موقع ’’ وَلَوْ ‘‘ کا ترجمہ ’’اگرچہ ‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔

·       ’’ لَوْ ‘‘  حرفِ تقدیر ہے یعنی اس کے ذریعے کوئی اندازہ بیان کیا جاتا ہے۔ اور (۱) بنیادی طور پر تو یہ حرف شرط کا کام دیتا ہے مگر بلحاظ مفہوم یہ کبھی ’’تمنِّی‘‘ (خواہش اور تمنا کا اظہار) کبھی ’’مصدریت‘‘(یعنی ’’أَن‘‘ کی طرح بعد والے فعل کو مصدر کے معنی دینا) اور کبھی ’’امتناع‘‘(ایک چیز (شرط) کے نہ پائے جانے کو دوسری چیز(جواب شرط) کے بھی نہ ہونے کا سبب ٹھیرانا)کے معنی دیتا ہے (۲) شرطیہ ہوتے ہوئے بھی یہ ’’اِنْ‘‘ کی طرح فعل کو جزم نہیں دیتا اور اس کے جواب شرط پر عموماً لام (لَ) آتا ہے۔ اگرچہ کبھی نہیں بھی آتا اور عموماًیہ زمانہ ماضی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے بلکہ اگر مضارع کے ساتھ آئے تو عموماً اس میں بھی زما نۂ ماضی کے معنی پیدا کرتا ہے (۳) کبھی یہ تقلیل (کسی چیز کی تھوڑی مقدار یا تعداد کی طرف اشارہ کرنا) کے معنی بھی دیتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے کسی جوابِ شرط کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اس کا اپنے سے پہلے مضمون کے ساتھ تعلق ہوتا ہے (۴) کبھی اس کے بعد ’’لا‘‘ یا ’’ما‘‘ لگتا ہے یعنی ’’لَوْ لَا‘‘ یا ’’لَوْمَا‘‘ اس وقت اس میں عموماً ’’کیوں نہیں، ایسا کیوں نہ ہوا، یا اگر ایسا نہ ہوتا‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے۔

·       ’’ لَوْ ‘‘ کے ان مختلف استعمالات کو سامنے رکھتے ہوئے (جس پر لغت اور نحو کی کتابوں میں بعض دفعہ زیادہ مفصل بحث بھی کی گئی ہے) اردو میں اس کا ترجمہ حسب موقع (۱) اگر (۲)اگرچہ (۳) کاش کہ (۴) چاہے… (ہی سہی) (۵) ’’کہ‘‘یا ’’یہ کہ‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں ’’ لَوْ ‘‘ کے یہ تمام استعمالات آئے ہیں۔ آیتِ زیر مطالعہ میں ’’ وَلَوْ ‘‘ کا ترجمہ ’’اَوْر اگر‘‘سے ہی ہوگا۔ یہاں اس میں شرط کے ساتھ امتناع کے معنی بھی موجود ہیں۔

۱:۱۵:۲(۸)     [شَاءَ] کا مادہ ’’ش ی ء‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعِلَ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’شَیِئَ‘‘ تھی جس میں ’’یاء متحرکہ ماقبل مفتوح‘‘ الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے۔ یوں یہ لفظ ’’ شاءَ ‘‘ بنتا ہے۔

اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’شاءَ… یَشاءُ شَیْئًا وَ مَشِیْئَۃً‘‘ (دراصل شَیِئَ یَشْیَأُ باب سمع سے مثل خاف یخاف) آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں ’’…کا ارادہ کرنا، …کو چاہنا‘‘ عموماً اس کا مفعول محذوف ہوتا ہے اور یہ صرف اپنے فاعل (ضمیر ہو یا اسم ظاہر) کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے۔ کم از کم قرآن کریم میں ہر جگہ بحذف مفعول ہی آیا ہے سوائے ایک دو مقامات کے جہاں اس کا مفعول ’’أن‘‘ سے شروع ہونے والا کوئی (مصدر مؤوّل کے معنی میں)جملہ آیا ہے (مثلاً الفرقان:۵۷، المدثر:۲۷ اور التکویر:۲۸ میں)قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرّد ہی استعمال ہوا ہے جس سے ماضی مضارع وغیرہ کے مختلف صیغے ۲۳۶ جگہ آئے ہیں۔

          [اللہُ] اسم جلالت کے مادہ و اشتقاق وغیرہ کی بحث ’’بسم اللہ‘‘  ۱:۱:۱(۲)میں ہوچکی ہے۔

۱:۱۵:۲(۹)     [لَذَھَبَ] کے شرو ع میں جو لام(ل) ہے یہ جوابِ شرط کے طور پر ( ’’ وَلَوْ ‘‘ یعنی’’اور اگر‘‘ کے جواب پر)آئی ہے جس کا اردو ترجمہ ’’تو ‘‘ یا ’’تو ضرور ہی‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ اور ’’ذَھَبَ‘‘ کا مادہ ’’ذَ ھ ب‘‘اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ذھَب…یذھَب ذھاباً‘‘ (باب فتح سے)آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’جانا، چلے جانا، جاتے رہنا‘‘ہیں۔ یہ فعل لازم ہے۔ اور اپنے فاعل کے لحاظ سے اور مختلف صلات (بِ، عن، فیِ ، الی، علی)کے ساتھ متعدد معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جن میں سے بعض قرآن کریم میں بھی آئے ہیں (خصوصاً ’’بِ‘‘ اور ’’الی‘‘کے ساتھ)

·       جب اس فعل کے ساتھ باء (بِ) کا صلہ آئے تو یہ فعل متعدی ہوجاتا ہے۔ یعنی ’’ذَھَبَ بِ …‘‘ کے معنی ہیں: ’’…کو لے جانا‘‘ اور پھر محاورے میں اس (لے جانا) کے معنی ’’کوختم کرنا، سلب کرلینا، زائل کردینا‘‘ ہوتے ہیں۔نیز دیکھیے:۱:۱۳:۲(۸)۔

[بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ] شروع کی باء (بِ)تو مذکورہ بالا فعل ’’ذھَب‘‘کے صلہ کے طور پر آئی ہے جس سے فعل میں تعدیہ کے معنی پیدا ہوئے ہیں (یعنی ’’لے جانا، سلب کرلینا‘‘) جیسا کہ ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔ اور ’’ سَمْعِهِمْ‘‘ اور ’’ اَبْصَارِهِم ‘‘ پر البقرہ:۷ [۱:۶:۲(۳) اور(۴)]میں مفصل بحث گزر چکی ہے۔

·       یہاں بھی (البقرہ:۷ کی طرح) ’’سَمْعٌ‘‘ بمعنی قوت ِشنوائی (سننے کی حِس)اور ’’ابصار‘‘ (جس کا مفرد ’’بَصَرٌ‘‘ ہے)بمعنی بینائی (دیکھنے کی حِس)استعمال ہواہے۔ اس لیے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ان کے کان اور ان کی آنکھیں‘‘کیا ہے۔ بعض نے ’’گوش و چشم‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو فارسی کے لفظ ہیں مگر اردو ـــخصوصاً ادبی اردوـــ میں مستعمل ہیں۔ بعض نے سننے دیکھنے کی قوتیں‘‘ اور بعض حضرات نے مزید وضاحت کے لیے کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے کیونکہ وہ قوت ہی سلب ہوئی۔ کان اور آنکھ (اعضاء) تو برقرار رہے وہ تو غائب نہیں ہوئے۔

[اِنَّ اللّٰهَ]’’ اِنَّ ‘‘حرف مشبہ بالفعل ہے جس کا ترجمہ ’’بے شک، بلا شبہ، یقیناً، تحقیق‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اسم جلالت (اللہ) کی وضاحت ’’بسم اللہ‘‘میں گزر چکی ہے۔

۱:۱۵:۲(۱۰)     [عَلٰي كُلِّ شَىْءٍ] یہ مرکب جاری تین کلمات ’’ علی ، کُلّ اور شىْء ‘‘پر مشتمل ہے۔ ہر ایک کلمہ کے معنی کی تفصیل یوں ہے۔

·       ’’ علي ‘‘  حرف الجر ہے جس کا عام ترجمہ ’’پر، کے اوپر‘‘ کیاجاسکتا ہے۔ اس کے مزید معانی و استعمالات پر الفاتحہ:۷  یعنی ۱:۶:۱(۳)میں بات ہوچکی ہے۔

·       ’’ كُلّ ‘‘  کا مادہ ’’ک ل ل ‘‘ اور وزن (بحالت رفع) ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ کَلَّ یَکِلُّ کَلًّا‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے متعدد معنی ہیں مثلاً (۱) ’’تھک جانا، عاجز ہونا‘‘(۲) (تلوار یا چھری کا) ’’کند ہونا‘‘(۳) (زبان یا نظر کا) ٹھیک کام نہ کرنا‘‘ اور (۴) ’’اولاد اور والدین سے محروم ہونا‘‘ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی فعل کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ البتہ ثلاثی مجرد کے مذکور ہ بالا معنی سے مأخوذ دو لفظ ’’ کَلٌّ ‘‘ (النحل:۷۶) اور ’’کَلَالَۃٌ‘‘(النساء:۱۷۶:۱۲) آئے ہیں جن پر اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       لفظ ’’ كُلٌّ ‘‘ اگرچہ اسی مادہ (کلل)سے ماخوذ ایک اسم ِجامد ہے تاہم اس کے معنی کا اس مادہ سے مستعمل کسی بھی فعل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں (عربی زبان میں یہ مادہ ثلاثی مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے مختلف ابواب مثلاً تفعیل، تفعل، افتعال وغیرہ سے مختلف معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے) تاہم قرآن میں اس سے کوئی فعل نہیں آیا۔

·       اس لفظ (كُلٌّ) کے بنیادی معنی ’’استغراق‘‘ کے ہیں یعنی اس میں ’’سب کا سب، پورے کا پورا، یا صرف سب…، تمام…، ہر ایک…‘‘کا مفہوم ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ اکثرمضاف ہوکر  استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کا مضاف الیہ اس کے معنی متعین کرتا ہے۔ حتٰی کہ جب اس کے ساتھ مضاف الیہ نہیں ہوتا تب بھی اسے مقدرUNDERSTOOD) )سمجھا جاتا ہے۔ ۔۔اس کا مضاف الیہ عموماً ’’واحد نکرہ‘‘آتا ہے جیسے ’’کُلُّ رَجُلٍ‘‘ (ہر ایک  مرد یا سب مرد) یا جیسے یہاں ’’ كلّ شَیىءٍ ‘‘ بمعنی ’’ہر ایک چیز‘‘آیا ہے ـــ  اور اگر اس کا مضاف الیہ معرفہ ہو تو پھر اس مضاف الیہ کا ’’سب کچھ‘‘ مراد ہوتا ہے۔ جیسے ’’کُلّ الرجُلِ‘‘ (آدمی کا سب کچھ) یا ’’کُلُّ الکِتابِ‘‘ (پوری کی پوری کتاب)۔

·       یہ لفظ (كُلٌّ) توکید (تاکید) معنوی( جو توابع کی ایک قسم ہے)کے چھ مشہور کلمات [کُلٌّ، نَفْس، عیْنٌ ، کِلا ، کِلْتا اور جمیعٌ] میں سے بھی ایک ہے اور اس صورت میں اس کے ساتھ ’’مؤکّد‘‘ کے مطابق ایک ضمیر آتی ہے۔ جیسے ’’جاء الرجالُ کُلُّھمْ‘‘ یا ’’جاءت النساءُ کُلُّھن‘‘ وغیرہ میں۔ اس لفظ ’’ كُلٌّ ‘‘ کے استعمال کے مختلف قواعد نحو کی کسی کتاب میں توابع کے بیان میں ـــیا کسی اچھی عربی ڈکشنری (معجم) میں اسی لفظ (كلّ) کے تحت دیکھے جاسکتے ہیںـــ (اور اگر مستحضر (یاد نہیں) تو ضروردیکھ لینا چاہئے)۔

·       اور لفظ ’’ شَىْء ‘‘ کا مادہ ’’ش ی ء‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کے بارے میں ابھی اوپر "ولوشاء اللہ‘" کے ضمن میں بات ہوچکی ہے۔ یہ لفظ (شَیء) اس مادہ (ش ی ء) سے ماخوذ ایک اسم جامد ہے۔ اس کا اردو ہم معنی لفظ ’’چیز‘‘ اور انگریزی Thing"‘‘ہے۔ اور اس کا اطلاق وجو درکھنے والی ہر ’’چیز‘‘ پر ہوتا ہے۔ وہ کوئی شخص ہو یا کوئی بات یا کچھ اَور۔ یہ لفظ قرآن کریم میں ۲۷۹ مرتبہ آیا ہے۔

۱:۱۵:۲(۱۱)     [قَدِيْرٌ] کا مادہ ’’ق د ر‘‘ اور وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’قدَر… یَقْدِر قَدْرًا‘‘(باب ضرب سے)ہمیشہ بطور فعل متعدی اور عموماً مفعول بنفسہ کے ساتھ آتا ہے اور اس کے معنی ’’… کا اندازہ کرنا، … کی قدر اور تعظیم کرنا‘‘ اور ’’… میں کمی کرنا‘‘ ہوتے ہیں اور اگر اس کے ساتھ ’’علی‘‘  کا صلہ آئے (یعنی قَدَرَ علی…) تو اس کے معنی ’’…پر قدرت رکھنا، …پر قابو پانا، یا …پر قادر ہونا‘‘ ہوتے ہیںـــ لفظ ’’قَدِیْر‘‘ اس آخری(علی کے صلہ والے) فعل سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اور اس کے معنی ہیں ’’ہر وقت اور ہر طرح کی قدرت رکھنے والا‘‘ـــ قرآن کریم میں اس مادہ (قدر) سے ثلاثی مجرد اور مزید فیہ کے بابِ تفعیل سے مختلف معنوں کے لیے اَفعال کے صیغے ۴۱ جگہ اور مختلف جامد و مشتق اسماء ۹۱ جگہ آئے ہیں اور خود یہ لفظ ’’ قدیر‘‘۴۵ دفعہ آیاہے۔

 

۲:۱۵:۲      الاعراب

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ  ۔ ۭ ۔  كُلَّمَآ اَضَاۗءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِيْهِ   ڎ۔۔   وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوْا    ۔۔ۭ   وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَذَھَبَ بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ   ۔۔ۭ   اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ  (۲۰)

          یہ آیت بنیادی طور پر پانچ جملوں پر مشتمل ہے جن میں سے دو جملے واو عاطفہ کے ذریعے مل کر ایک لمبا جملہ بھی بن سکتے ہیں۔ باقی جملے الگ الگ ہیں اس لیے ان کے درمیان وقف مطلق ’’ط‘‘ کی علامت لکھی جاتی ہے۔ اعراب کی تفصیل یوں ہے۔

·       [یکاد]فعل مضارع ہے اور فعل مُقارب بھی ہے۔ [البرقُ] فعل ’’ یکاد ‘‘ کا اسم ہے اور (لھٰذا) مرفوع ہے اور [یخطف] فعل مضارع کا صیغہ ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھُو‘‘ مستتر ہے جو ’’البرق‘‘ کے لیے ہے۔ اور یہ (یخطف) ’’یکاد‘‘ کی خبر ہے (افعال مقاربہ کی ’’خبر‘‘ ہمیشہ کوئی فعل مضارع ہوتا ہے) جملے کے یہاں تک کے حصے (جو فعل مقارب اور اس کے اسم و خبر پر مشتمل ہے) یعنی ’’ یکاد البرق یخطف‘‘کے لفظی اور بامحاورہ تراجم ابھی اوپر ۱:۱۵:۲(۲) میں  بیان ہوچکے ہیں۔

[ابصارَھم]مضاف (ابصار) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر فعل ’’یخطف‘‘ کا مفعول بہ ہے اس لیے ’’ ابصار‘‘ منصوب ہے اور اس کی علامت ِنصب ’’ر‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ (اور مضاف ہونے کی وجہ سے ’’ابصار‘‘خفیف بھی ہے)۔ لفظ ’’ابصار‘‘ کے مختلف تراجم بھی اوپر حصہ ’’ لغۃ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔

·       [كُلَّمَا ] ظرف زمان ہونے کی بناء پر منصوب ہے علامت نصب اس میں لام کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ اور اس میں شرط کے معنی (جب بھی) بھی ہیں۔

[اَضَاءَ] فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھو‘‘مستتر ہے جس کا مرجع ’’البرق‘‘ہے۔ یہ فعل لازم بھی ہوتا ہے اور متعدی بھی۔ اگر یہاں اسے متعدی سمجھیں تو اس کا مفعول محذوف ہے۔ [لَھُمْ[جار (لِ) اور مجرور (ھم) مل کر متعلق فعل (اَضاء) ہے اور یہ جملہ فعلیہ (اضاء لھم) بیانِ شرط ہے۔ اسی لیے اس کا ترجمہ فعل ماضی کی بجائے حال سے کرنا مناسب ہے (دیکھئے اوپر حصّہ اللغۃ) [مَشوْا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے [فیہ[ جار (فی) مجرور (ہ) متعلق فعل ہے اور یہ پورا جملہ فعلیہ (مَشَوا فِيْهِ)جواب شرط ہے اس لیے اس کا اردو ترجمہ ’’تو‘‘ سے شروع ہوگا۔ اور شرط کی وجہ سے ماضی کی بجائے فعل حال سے ترجمہ زیادہ مناسب ہوگا۔(دیکھئے اوپر۱:۱۵:۲(۴)۔ یہاں تک شرط اور جواب شرط مل کر ایک جملہ شرطیہ مکمل ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ اس جملہ کی شرط اور جوابِ شرط میں کوئی فعل مجزوم نہیں ہوا۔ اس لیے کہ مجزوم تو صرف فعل مضارع ہوتا ہے جب کہ ’’ كلّما ‘‘کے بعد شرط اور جوابِ شرط کے فعل ہمیشہ بصیغۂ ماضی آتے ہیں اگرچہ بوجہ شرط ان میں مفہوم فعل حال کا پیدا ہوجاتا ہے۔

·       ]وَاِذَا’’[وَ‘‘ عاطفہ ہے اور ’’اذا‘‘ ظرفیہ ہے۔ جس میں وقت اور شرط کا مفہوم ہے (یعنی جب ‘ جس وقت) ]اظلم[فعل ماضی معروف کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ جس میں ضمیر فاعل ’’ھو‘‘مستتر ہے۔ یہ فعل بھی لازم متعدی دونوں طرح ہے اگر اسے یہاں متعدی سمجھیں تو اس کا بھی مفعول محذوف ہے۔ اسی لیے اس کا ترجمہ دونوں طرح کیا گیا ہے۔(دیکھئے اوپر حصہ"لغۃ"میں ۱:۱۵:۲(۵)۔

]علیھم[جار مجرور متعلق فعل (اظلَم) ہے  اور یہ جملہ (اَظلَم علیھم)بیان ِشرط  ہے۔ [قاموا[ فعل ماضی معروف مع فاعل (ضمیر مستتر ’’ھو‘‘) مکمل جملہ فعلیہ ہے اور یہی جواب شرط ہے اردو میں اس کا ترجمہ بھی ’’تو‘‘ سے شروع ہوگا اور یہاں  بھی فعل ماضی کا ترجمہ اذا شرطیہ کے جواب ہونے کی وجہ سے فعلِ حال میں ہوگا۔ اس لیے کہ شرط ماضی کے زمانہ پر نہیں ہوتی۔ اس کا ترجمہ دیکھیے ۱:۱۵:۲(۶) میںـــیہ جملہ شرطیہ (واذااظلم علیھم قاموا) سابقہ جملہ شرطیہ (کلما اضاء لھم مشوافیہ) کے ساتھ واو عاطفہ (وَ) کے ذریعے مل کر ایک مسلسل جملہ (بلحاظ مضمون) بنتا ہے۔

·       ]وَلَوْ[میں واو استینافیہ ہے یعنی یہاں سے ایک نیا جملہ شروع ہوتا ہے۔ اس کا بلحاظ معنی پہلے جملے سے عطف کا تعلق نہیں بن سکتا ۔ اگرچہ اردو ترجمہ   واوالاستیناف کابھی واو العطف کی طرح ’’اَور‘‘سے ہی کیا جاتا ہے مگر اصل فرق مفہوم کا ہوتا ہے یعنی واو الاستیناف میں دراصل ’’اور پھر یہ بھی تو ہے کہ ‘‘ کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ اور ’’لَوْ‘‘شرطیہ ہے (بمعنی ’’اگر‘‘) ۔ [شاءَ]فعل ماضی اور [اللہ] اس کا فاعل (لھٰذا) مرفوع ہے۔ علامتِ رفع آخری ’’ہ‘‘ کا ضمہ(ـــــُـــــ) ہے۔ اور یہ جملہ فعلیہ (شَاءَ اللّٰهُ) بیان شرط ہے۔ [لذھب]میں لام (لَ) جواب ِشرط (یعنی ’’لَوْ‘‘ کے جواب میں)ہے جس کا ترجمہ ’’تو‘‘ سے ہوگا۔ اور ’’ذَھَبَ‘‘ فعل ماضی مع ضمیر فاعل مستتر ’’ھو‘‘ہے جس کا مرجع اسم جلالت ہے۔ (بِسَمْعِهِمْ) میں باء (بِ) تو دراصل فعل (ذَھَبَ) کا صلہ ہے اور ’’ سَمْعِهم ‘‘ میں ’’سمع‘‘ مضاف اور ضمیر مجرور ’’ھم‘‘ مضاف الیہ ہے اور یہ مرکب اضافی ’’بِ‘‘ کی وجہ سے مجرور ہے جس کی علامت جر ’’سمع‘‘ کی ’’عین‘‘ کی حرکت کسرہ (ــــــِــــ) ہے اور یہ مرکب جارّی (بِسَمْعِهِمْ) فعل ’’ذھب‘‘ کا مفعول بہٖ ہونے کے لحاظ سے محلاً منصوب ہے۔ اور [وَاَبْصَارِهم] کا ’’اَبْصارِھم‘‘بھی مضاف (اَبْصَار) اور مضاف الیہ (ھِم) مل کر ’’وَ‘‘ کے ذریعے ’’ بِسَمْعِهم ‘‘ پر عطف ہے اس لیے ’’ابصارِ‘‘ بھی مجرور ہے اور اس کی علامت جر ’’ر‘‘ کی حرکت کسرہ (ــــــِــــ) ہے۔ اگرچہ ’’لَوْ‘‘ کے بعد آنے والے فعل کا ترجمہ ’’فعل ماضی سے ہی کیا جاتا ہے تاہم معنی شرط کی بناء پر اس کا ترجمہ زمانۂ حال  کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مترجمین نے دونوںطرح ترجمہ کیا ہے یعنی ’’اللہ چاہے تو لے جائے‘‘ اور ’’اللہ چاہتا تو لے جاتا‘‘ کی صورت میں۔ یہاں تک شرط اور جواب ِشرط مل کر یہ سب (ولوشاء اللہ لذھب بسمعھم وابصارھم ) ایک پورا جملہ شرطیہ مستانفہ (الگ) بنتا ہے۔

·       [اِنّ] حرف مشبہ بالفعل ہے اور [اللہَ] اس کا اسمِ منصوب ہے علامت نصب آخری ’’ہ‘‘ کی حرکت فتحہ (ــــــَــــ) ہے [عَلٰي] حرف الجر اور [كلِّ شَىْءٍ]مرکب اضافی ہے جس میں ’’کلِّ‘‘ مضاف ہے جو ’’علی‘‘ کی وجہ سے مجرور ہے اور مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہے اور ’’شَیْءٍ‘‘ مضاف الیہ (لھٰذا) مجرور ہے۔ علامت ِجر ’’ كلِّ ‘‘ میں لام کی حرکت کسرہ (ــــــِــــ) اور ’’ شَىْءٍ ‘‘میں آخری ہمزہ (ء) کے نیچے والی دو ’’زیریں‘‘ ہیں جن کو نحو کی زبان میں کہتے ہی، ’’تنوین الجر‘‘ ہیں۔ [قَدیرٌ]’’ اِنّ ‘‘ کی خبر (لھٰذا)مرفوع ہے۔ اس سے پہلے والا مرکب جاری (علی کل شیءٍ) دراصل متعلق خبر ہے جسے یہاں آیت کے ’’فاصلے‘‘کی رعایت سے مقدم کر دیا گیا ہے۔ یعنی اس کی عام عربی نثر (PARAPHRASING) تھی۔ ’’ ان اللہ قدیر علی کل شیئ‘‘ ہم پہلے بھی کہیں یہ بیان کرچکے ہیں کہ عبارت میں ’’ادبی حسن‘‘ پیدا کرنے کے لیے شعر کی طرح الفاظ کی اس قسم کی تقدیر وتاخیر قرآن کریم میں عام ہے۔ اور غالباً اسی کی بناء پر کفار مکہ آنحضرت ﷺ کو ’’شاعر‘‘اور قرآن کو شاعری (شعر) کہتے تھے۔ اگرچہ اصطلاحی اور فنی اعتبار سے اس میں شعر والی کوئی شے نہیں۔ قرآن اور ’’شعر‘‘ میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو وہ ادبی حُسن ہے۔ اور اس میں بھی قرآن کریم کا درجہ شعر ہی نہیں ’’ادبِ‘‘ عالیہ کے ہر نمونے سے بڑھ کر ہے۔

 

۳:۱۵:۲       الرسم

          آیت زیر ِمطالعہ کے تمام کلمات کی املاء (رسمِ املائی اور رسمِ عثمانی)یکساں ہے۔ صرف دو کلمات ’’ ابصارھم‘‘ (جو آیت میں دو دفعہ آیا ہے) اور ’’ كلَّما ‘‘ قابل ذکر ہیں:

(۱)     ’’ ابصارھم‘‘ میں رسم کے اختلاف اور اس کے اسباب پر اس سے پہلے البقرہ :۷ کے ضمن میں ۳:۶:۲  پرمفصّل بحث ہوچکی ہے جس کا تعلق اس کلمہ میں حذف یا اثباتِ الف (بعد الصاد) کے ساتھ یعنی ’’ ابصارھم ‘‘ یا ’’ابصرھم‘‘ کی صورت میں لکھنے سے ہے۔ بہر حال اس (ابصارھم) کا رسم مختلف فیہ ہے۔ اہل لیبیا ’’الدانی‘‘ کی عدم تصریح کی بنا پر اسے باثباتِ الف لکھتے ہیں اور تمام مشرقی ممالک کا تعامل بھی یہی ہے۔عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں ابوداؤد کی تصریح کی بنا پر اسے بحذف الف لکھا جاتا ہے۔

(۲)    ’’ كلّمَا ‘‘ قرآن کریم میں کل ۱۷ جگہ آیا ہے ان میں سے ۱۳ جگہوں پر اسے بالاتفاق موصول یعنی ’’کل‘‘ اور ’’ما‘‘ کو ملا کر (كلّما) لکھا جاتا ہے اور چار مقامات پر اس کو مقطوع( الگ الگ یعنی ’’کل ما‘‘) یا موصول (كلما) لکھنے میں اختلاف ہے۔ ان مقامات پر اس کلمہ کے رسم پر بات کی جائے گی۔ یہاں صرف یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آیت زیر مطالعہ ان مقامات میں سے ہے جہاں ’’ كلَّما ‘‘ کوموصول (ملاکر) لکھنے پر اتفاق ہے۔

 

۴:۱۵:۲     الضبط

زیر مطالعہ آیت کے کلمات میں ضبط کے اتفاق یا اختلاف کو درج ذیل نمونوں کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے:۔

 

 

 



  [1] جو اگر مستحضر (یاد) نہ ہوں تو نحو کی کسی کتاب سے ’’افعال مقاربۃ‘‘ کے بیان میں دیکھ لیجئے۔

 

  [2]  دیکھئے ’’مختار الصحاح (طبع دارالمعارف) تحت مادہ ’’خطف‘‘