سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۱ اور ۲۲

۱۶:۲     يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ، ۙ(۲۱) الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً   ۠   وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ   ۚ   فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۲۲)

۱:۱۶:۲      اللغۃ

۱:۱۶:۲(۱)      ]يٰآ اَيُّهَا[ یہ دراصل تین حروف (کلمات) پر مشتمل ہے یعنی یا+ایّ+ھا سے مرکب ہے۔ ان میں سے ’’یا‘‘ تو حرف ندا ہے جو عربی میں کسی کو پکارتے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ عموماً ’’اے‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اور ’’اَیُّ‘‘ ایک مبنی برضمہ (یعنی ہمیشہ ضمہ (ــــــُــــ) کے ساتھ ختم ہونے والا( لفظ ہے (یہ استفہام والا ’’اَیٌّ‘‘ نہیں جس کے معنی ’’کون سا‘‘ ہوتے ہیں اور جو معرب ہوتا ہے) اس کا کوئی خاص الگ ترجمہ تو نہیں کیا جاسکتا مگر اسے ’’تو جو…‘‘ یا ’’وہ جو…‘‘ کے مفہوم میں لیا جاسکتا ہےـــ اور آخری ’’ھا‘‘ ضمیر نہیں بلکہ صرف کلمہ تنبیہ ہے جو مخاطب کو متوجّہ کرنے کے لیے حرف ِندا کے ساتھ لگتا ہے۔ جیسے ہم پنجابی (اور اردو) میں کسی کو پکارتے وقت اس (منادیٰ) کے نام کے آخری حصّے کو ذرا لمبا کرکے بولتے ہیں مثلاً ’’نعیم‘‘ کو پکارتے وقت یا تو ’’نعی ی ی ی م‘‘ کہہ کر یا ’’نعیم ُو و و…‘‘ کی مانند بولتے ہیں۔ عربی میں اس مقصد کے لیے ’’ھا‘‘ منادٰی سے پہلے استعمال کرتے ہیں۔

·          اس طرح ان تینوں حرفوں (یا+ای+ھا) کا الگ معنی تو بنتا ہے: اے تو  /  وہ جو…۔ اور یہ ہمیشہ کسی معرف باللام منادٰی (جسے پکارا جائے) کے شروع میں ایک حرف ِندا کی مانند لگتے ہیں۔ مثلاً ’’ یاایھاالرجل‘‘ کا اصل مفہوم تو بنتا ہے ’’اے وہ کہ (جو/تو) مرد ہے‘‘ مگر محاورے میں اس کا مطلب ’’اے مرد!‘‘ ہی لیا جاتا ہے۔

·       اس بات کو یوں سمجھئے کہ حرف ندا ’’یَا‘‘ کسی معرف باللام منادٰی کے ساتھ استعمال نہیں ہوسکتا۔  [1] اس لیے کہ ندا کا تقاضا ہے کہ ’’یَا‘‘ کو کھینچ کو بولا جائے اور لام تعریف کا (بوجہ ھمزۃ الوصل) تقاضا یہ ہے کہ اس سے ماقبل کو اس میں ملا دیا جائے۔ اس لیے ’’یا‘‘ کی لمبی آواز کو بچانے کے لیے، عربی میں اس ’’یَا‘‘اور منادٰی کے درمیان مذکر کے لیے ’’اَیُّھَا‘‘ اور مؤنث کے لیے ’’اَیَّتُھَا‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اور لکھنے میں ان سے پہلے صرف ایک ’’ی‘‘ کا اضافہ ہوتا ہے (یعنی ’’یَا‘‘ کو بحذف الف لکھا جاتا ہے جسے پڑھا ’’یَا‘‘ہی جاتا ہے) یعنی ان دونوں لفظوں کو ’’یایّھا‘‘ اور ’’ یایَّتھا‘‘ لکھا جاتا ہے۔اور کبھی یہ ندا کی "یاء" ساقط کر کے صرف " اَیُّھا"اور" اَیَّتُھا" لکھتے (اور بولتے) ہیں۔ اور عملاً یہ صرف ایک حرفِ ندا ’’یا‘‘ کا کام ہی دیتا ہے یعنی ’’یا‘‘ کے ساتھ بھی اور اس کے بغیر بھی یہ ’’اَے‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح یہاں’’يٰاَيُّهَا النَّاسُ ‘‘ کا ترجمہ ’’اے تم/ وہ جو لوگ ہو‘‘ کرنے کی بجائے صرف ’’اے لوگو‘‘ کیا جاتا ہے۔

          ]النَّاسُ[ کے مادہ، وزن وغیرہ کے بارے میں اس سے پہلے البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۳) میں بحث ہوچکی ہے۔

۱:۱۶:۲(۲)      ]اعْبُدُوْا[ کا مادہ ’’ع ب د‘‘ اور وزن ’’اُفْعُلُوْا‘‘ ہے (ھمزئہ وصل ہونے کی وجہ سے ابتدائی’’ا‘‘ پر کوئی حرکت نہیں دی گئی بلکہ ’’الناس‘‘ کا مضموم ’’سین‘‘ ہی ’’ اعْبدوا‘‘کے ’’عین‘‘سے ملا دیا جاتا ہے)۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد عبد یعبد عِبادۃً (نصرسے)اور اس کے معانی وغیرہ کے بارے میں الفاتحہ: ۵ یعنی ۱:۴:۱(۲) میں بات ہوچکی ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (عبد) سے افعال و اسماء کے مختلف صیغے ۲۷۵ جگہ آئے ہیں اور اس کے یہ مختلف استعمالات اس کے معانی یعنی ’’عبادت‘‘ کا مفہوم اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے میں مدد بھی دیتے ہیں۔

          ]رَبَّكُمُ[ یہ ’’ربّ‘‘ (پروردگار)+کُم (تمہارا، اپنا) سے مرکّب ہے۔ کلمہ ’’ربّ‘‘ کے مادہ۔ وزن اور معانی وغیرہ پر سورۃ الفاتحہ کی ابتداء میں بات یعنی ۱:۲:۱(۳) میں بات ہوچکی ہے۔

]الَّذِىْ[ اسم موصول (بمعنی ’’وہ جو کہ‘‘ یا ’’وہ جس نے کہ‘‘) ہے اسماء موصولہ پر بھی ۱:۶:۱(۱) میں بحث گزرچکی ہے۔

۱:۱۶:۲(۳)      ]خَلَقَكُمْ[ جو ’’ خَلَقَ ‘‘(اس نے پیدا کیا) +کُم (تم کو) کا مرکب ہے۔ اس میں لفظ ’’ خَلَق ‘‘ کا مادہ ’’خ ل ق‘‘ اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد خلَقیخلُق خَلْقًا (زیادہ تر باب نصر سے)آتا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’چمڑے(یا کپڑے وغیرہ) سے کوئی چیز کاٹ کر بنانے سے پہلے اس کے ناپ، ڈیزائن اور صورت وغیرہ کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا‘‘ پھر ’’مطلقاً کسی چیز کو ایک مقررہ اندازے کے مطابق بنانا‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس طرح اس میں ’’(کسی چیز) کو بنانا‘‘ یا ’’…کو پیدا کرنا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ چاہے یہ ’’بنانا یا پیدا کرنا‘‘ کسی سابقہ نمونے کے مطابق اور کسی مقررہ مواد (سامان) سے بنانا ہو(جیسے انسان یا حیوان کی نر اور مادہ سے پیدا ئش) یا کسی نمونے اور سامان کے بغیر بالکل نئے سرے سے (پہلی دفعہ) بنانا یا پیدا کرنا ہو (جیسے زمین یا آسمان کی پیدائش) اور ان (مؤخر الذکر) معنوں میں اس (فعل)کا استعمال صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے۔ تاہم اس بناوٹ یا پیدائش میں بھی ایک پیمائش اور ساخت کی موزونیت کا ٹھیک اور درست اندازہ (تقدیر) کے معنی شامل ہوتے ہیں۔

·       عربی زبان میں اس مادہ (خلق) سے فعل باب نصرَ اور سمِع سے (خَلِق یخلَقُ) ’’بوسیدہ ہونا‘‘ کے معنوں کے لیے اور باب کرُم سے (خلُق یخلُق) ’’عمدہ یا موزوں ہونا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم میں ’’نصر‘‘ کے علاوہ کسی دوسرے باب یا اس کے معنوں کے لیے اس کا کوئی فعل استعمال نہیں ہوا۔ البتہ باب ’’نصَر‘‘ سے ’’پیدا کرنا یا بنانا‘‘ کے علاوہ ـــایک آدھ جگہ ـــ’’گھڑ لینا‘‘ کے معنی میں بھی آیا ہے (مثلاً العنکبوت:۱۷) قرآن کریم میں اس مادہ (خلق) سے فعل ثلاثی مجرد کے افعال و اسماء کے بکثرت صیغے اور باب افتعال اور تفعیل سے ایک دو اسماء مشتقہ سمیت کل ۲۶۱ جگہ مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں۔

]وَالَّذِيْنَ[ جو ’’وَ‘‘ (بمعنی ’’اور‘‘) اور ’’الذین ‘‘(بمعنی ’’وہ سب جو کہ‘‘) کا مرکب ہے۔ ’’وَ‘‘ کے معانی پر ۱:۴:۱(۳) میں اور ’’الذین‘‘ (اور دیگر اسماء موصولہ پر ۱:۶:۱(۱) میں بات ہو چکی ہے۔

]مِنْ قَبْلِكُمْ[ جو مِنْ (سے)+قبل (پہلے)+کم (تم) کا مرکب ہے۔ ’’من‘‘ کے معنی اور استعمال پر ۱:۲:۲(۵) میں اور ’’قبل‘‘ کے بارے میں البقرہ:۴  یعنی  ۱:۳:۲(۴)میں بحث گذر چکی ہے۔ آخری ’’کُمْ‘‘ یہاں جمع مذکر حاضر کی ضمیر متصل مجرور ہے۔ اس کا اردو ترجمہ یہاں ’’تم‘‘ ہی ہوگا۔

۱:۱۶:۲(۴)      ]لَعَلَّكُمْ[ یہ ’’ لَعَلَّ ‘‘(شاید کہ)+کُمْ (تم) کا مرکب ہے۔ اس میں ’’لَعَلَّ‘‘ حروف مشبہ بالفعل میں سے ایک حرف ہے۔ اور یہ اسی طرح آخری ’’لام‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) پر مبنی ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس کے بنیادی حروف (یا مادہ) ’’ل ع ل‘‘سے اس ’’لَعَلَّ‘‘ کے سوا اور کوئی فعل یا اسم استعمال نہیں ہوتا۔ تمام حروف مشبہ بالفعل کی طرح ’’ لَعَلَّ‘‘ کا اسم ہمیشہ منصوب اور اس کی خبر مرفوع ہوتی ہے۔ معنی کے لحاظ سے اس (لَعَلَّ) میں زیادہ تر تو قع (۱)اور ’’ترجِی‘‘ (امید رکھنا) کا مفہوم ہوتا ہے تاہم کبھی یہ امکان(۲) (ممکن ہونا) اور (۳) تعلیل (وجہ بیان کرنا) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ان مختلف معانی کو سامنے رکھتے ہوئے اردو میں اس کا بامحاورہ ترجمہ(۱) ’’امید ہے کہ،(۲) ’’ شاید کہ‘‘،(۳)’’عجب نہیں کہ ‘‘ اور(۴) ’’تاکہ‘‘سے کیا جاتا ہے۔

۱:۱۶:۲(۵)      ]تَتَّقُوْنَ[کا مادہ  ’’و ق ی‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفْتَعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’تَوْتَقِیُوْنَ‘‘ تھی۔ جس میں پہلی واو ساکنہ کو ’’ت‘‘ میں بدل کر مدغم کردیتے ہیں (یہ قاعدہ مثال واوی سے باب افتعال کے تمام افعال میں اور مہموز کے صرف ’’اخذ‘‘ سے افتعال میں جاری ہوتا ہے یعنی اہلِ عرب ان افعال کویوں بولتے ہیں) اس طرح ’’تَوْتَ، تَتَّ‘‘ ہوجاتا ہے اور باقی حصے (قِیُوْن) میں ’’ق‘‘ کی کسرہ ہونے کی بناء پر ’’ی‘‘ کو دے کر خود اس ’’ی‘‘ کو گرا دیا جاتا ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ کسی بھی ناقص فعل کے واو الجمع والے صیغوں میں (جس میں فعل ماضی کا جمع مذکر غائب، فعل مضارع کے جمع مذکر غائب اور حاضر (اور فعل مضارع کا جمع مذکر حاضر شامل ہیں) اصل لام کلمہ (’’و‘‘ یا ’’ی‘‘) کو گرادیا جاتا ہے۔ اور اگر اس سے پہلے حرف ـــجو عین کلمہ ہوتا ہےـــ مکسور ہو تو اسے مضموم کردیا جاتا ہے (فتحہ یا ضمہ ہوتو اسے اسی طرح رہنے دیتے ہیں) ناقص واوی ہو یا یائی سب کے واو الجمع والے صیغوں کو عرب لوگ اسی طرح بدل کر بولتے ہیں اور ان کے اسی تلفظ کے طریقے سے گرامر والوں نے مندرجہ بالا قاعدہ تعلیل نکالاہےـــ اسی قاعدہ کے تحت ہمارے زیر مطالعہ لفظ کا آخری حصّہ ’’قِیُونَ‘‘سے ’’قُوْنَ‘‘ ہوجاتا ہے اور مندرجہ بالا دونوں تبدیلیوں (تَوْت سے ’’تَتّ‘‘ اور قیون سے ’’قُوْنَ‘‘) کے بعد پورا لفظ ’’ تَتَّقُوْنَ ‘‘ کی شکل میں استعمال ہوتا ہے۔

·       اس مادہ (و ق ی)کے فعل ثلاثی مجرد کے باب، معنی اور استعمال پر البقرہ:۲  یعنی ۱:۱:۲(۷)میں بات ہوچکی ہے۔ ’’متقین‘‘ کی طرح ’’ تتقون ‘‘ بھی باب افتعال سے ہے۔ اور اس مادہ (و ق ی) سے باب افتعال کے فعل ’’اِتّقَی یتَّقی اتِّقاءً‘‘ (دراصل اِوْتَقَی یَوْتَقِیُ  اِوْتِقایٌ) کے بنیادی معنی ہیں ’’… سے بچنا‘‘۔ ۔۔پھر اردو محاورے میں بعض دفعہ اس کا ترجمہ ’’…سے ڈرنا ‘‘ بھی کر لیاجاتا ہے۔ تاہم اصل بنیادی معنوں کو سامنے رکھتے ہوئے اردو مترجمین ’’ اِتقاء ‘‘(مصدر) کا ترجمہ اکثر’’بچنا، پرہیز گار بن جانا، پرہیز گاری پکڑنا، پرہیزگار ہونا، پرہیز گاری ملنا‘‘ سے کرتے ہیں ـــ’’بچنا‘‘ کے ساتھ ترجمہ کرتے وقت مفعول بہٖ(جس سے بچنا مقصود ہے)اگر مذکور نہ ہو (جیسے یہاں ہے) تو اس کا تعین عبارت کے سیاق و سباق سے کرلیاجاتا ہے۔ مثلاً یہاں (آیت زیر مطالعہ میں) ’’دوزخ یا عذاب‘‘(سے بچنا) مراد لیا جاسکتا ہے۔

]الَّذِىْ[ کا ترجمہ ’’وہ جو کہ ‘‘/  ’’وہ جس نے کہ‘‘  ہوگا نیز دیکھئے ۱:۶:۱(۱)۔

          ]جَعَلَ[ کا مادہ ’’ج ع ل‘‘ اور وزن ’’فَعَل‘‘ ہے۔ یعنی یہ ماضی معروف کاپہلا (واحد مذکر غائب) صیغہ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (جَعَلیجعَل جَعْلًا) کے باب اور معنی و استعمال پر البقرہ :۱۹  یعنی ۱:۱۴:۲(۶)میں بات ہوچکی ہے۔

]لَكُمُ[ جو لام الجر (لِ) بمعنی ’’کے لیے ‘‘+کُمْ (تمہارا، تمہارے) کا مرکب ہے۔ لام الجر ضمائر کے ساتھ ہمیشہ مفتوح آتا ہے۔ اس کے معانی اور استعمال پر الفاتحہ:۲ ـــ۱:۲:۱(۴)میں بات ہوچکی ہے۔

]الْاَرْضَ[ کا مادہ ’’أرض‘‘ اور وزن (لام تعریف کو نکال کر) ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل وغیرہ اور لفظ ’’ارض‘‘ کے معنی وغیرہ کے بارے میں البقرہ:۱۱ کے ضمن میں ۱:۹:۲(۴) پر بحث گزر چکی ہے۔ یہاں ’’ الارض‘‘ کا ترجمہ ’’زمین‘‘ یعنی کرّہِ ارضی سے کیا جاتا ہے۔

۱:۱۶:۲(۶)     [ فِرَاشًا[ کا مادہ ’’ف ر ش‘‘ اور وزن ’’فِعالٌ‘‘ ہے (جویہاں بوجہ نصب ’’فِعالاً‘‘ ہو گیا ہے) اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد فرَش یفِرُش فِراشًا (باب نصر اور ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’…کو بچھانا، پھیلانا‘‘ لفظ ’’فَرْشٌ‘‘ (جو اردو میں عام مستعمل ہے) اسی فعل کا ایک مصدر ہے جو بمعنی اسم مفعول (مَفْرُوش= بچھایا ہوا) استعمال ہوتا ہے۔ اور زیرِ مطالعہ لفظ ’’فِراش‘‘ بھی اسی فعل کا مصدر ہے اور ’’فرش‘‘ کے (اردو والے) معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا اردو ترجمہ ’’بچھونا یا فرش‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کا صرف ایک صیغہ آیا ہے (الذاریات :۲۸) البتّہ ’’فرش، فِراش، فُرُش(جو فرش کی جمع ہے)‘‘ اور الفَرَاش (جو فراشَۃ کی جمع ہے) کے کلمات چار پانچ جگہ آئے ہیں۔ لفظ ’’فَرْش‘‘ اور ’’فراش‘‘ کے بچھونے کی بجائے کچھ اَوْر معنی بھی ہوتے ہیں ان کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ (الانعام: ۱۴۲ اور القارعہ:۴)

۱:۱۶:۲(۷)      ]وَالسَّمَاۗءَ[ میں ’’وَ‘‘ تو عاطفہ (بمعنی’’اور‘‘) ہے اور ’’السماء‘‘ کا مادہ ’’س م و‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَالٌ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’سَمَاوٌ‘‘ تھی مگر الف ممدودہ کے بعد آنے والی ’’و‘‘ (اور ’’ی‘‘ بھی)  ’’ء‘‘ کی شکل میں لکھی اور بولی جاتی ہے۔ اس مادہ (سمو) سے فعل ثلاثی مجرد ’’سَمَا یَسْمُوْ سُمُوًّا‘‘(دراصل سمَوَ یسمُوُ) باب نصر سے آتا ہے اور یہ ’’بلند ہونا، اونچا ہونا‘‘ اور چند دیگر معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کا ذکر ’’بسم اللہ‘‘ کی بحث میں سورۃ الفاتحہ کے شروع میں ہوچکا ہے۔] ۱:۱:۱(۱) میں [۔تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ مزید فیہ (تفعیل) کے کچھ صیغے آئے ہیں جن کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ۔

لفظ ’’ السّماء ‘‘ (یا ’’سماء‘‘) اگرچہ عربی زبان میں متعدد معنی رکھتا ہے (مثلاً   ا ٓسمان ، چھت، گھوڑے کی پیٹھ، بادل، بارش وغیرہ) تاہم اردو میں اس کا ترجمہ ’’آسمان‘‘ ہی کیا جاتا ہے اور قرآن کریم میں یہ زیادہ تر استعمال بھی ان ہی معنوں میں ہوا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ (سماء)اور اس کی جمع ’’سماوات‘‘ معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں تین سو سے زیادہ دفعہ آئے ہیں۔ عربی میں لفظ ’’سماء‘‘ بیشتر مؤنث (سماعی) ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کی جمع مؤنث سالم آنے کی وجہ یہی ہے۔ اگرچہ اس کی جمع مکسر ’’اَسْمِیَۃ، سُمِیٌّ اور سمِیً‘‘ وغیرہ بھی آتی ہے تاہم قرآن کریم میں یہ (جمع مکسر) کہیں استعمال نہیں ہوئی۔ قرآن کریم میں غالباً صرف ایک جگہ (المزمل:۱۸) یہ لفظ (سماء) مذکر بھی استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس کی تذکیر یا تانیث دونوں جائز ہیں۔

۱:۱۶:۲(۸)      ]بِنَاۗءً[ کا مادہ ’’ب ن ی‘‘ اور وزن ’’فِعالٌ‘‘ہے۔ (فِراش کی طرح) اس کی اصلی شکل ’’بِنایٌ‘‘ تھی جس میں الف ممدودہ کے بعد والی ’’ی‘‘ عربوں کے تلفظ کے قاعدے کے مطابق ’’ ء‘‘ میں بدل گئی ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’بَنَی یَبْنِیْ بِناءً… و بُنْیَانًا‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: … (مکان یا دیوار وغیرہ) کو تعمیر کرنا یا بنانا‘‘ اس فعل مجرد سے مختلف صیغے قرآن کریم میں گیارہ جگہ اور جامد و مشتق اسماء کے صیغے بھی گیارہ ہی جگہ آئے ہیں۔

لفظ ’’ بناء ‘‘ دراصل تو فعل ثلاثی مجرد کا مصدر ہے مگر یہ بمعنی اسم مفعول استعمال ہوتا ہے (مصدر اسم الفاعل اور اسم المفعول دونوں طرں استعمال ہوسکتا ہے) یعنی یہ لفظ تعمیر کردہ مکان یا عمارت اور کبھی صرف ’’چھت‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے۔

]وَاَنْزَلَ[ میں ’’وَ‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے ۔ اور ’’اَنْزَل‘‘ کا مادہ ’’ن زل ‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (نزَل ینزِل نُزولاً=اترنا) اور اس سے بابِ اِفعال (جس سے یہ فعل ’’ اَنْزَل ‘‘ ہے) کے معنی و استعمال وغیرہ کی البقرہ:۴  یعنی ۱:۳:۲(۲)میں وضاحت ہو چکی ہے۔

ـــیہاں اس (زیر مطالعہ )آیت میں بعض مترجمین نے ’’ اَنْزَلَ ‘‘ کا ترجمہ ’’اتارا‘‘ کی بجائے ’’برسایا‘‘ سے کیا ہے جو محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے اگرچہ اصل لفظ سے قدرے ہٹ کر ہے۔

]مِنَ السَّمَاۗءِ[ یہ ’’مِنْ‘‘ (سے) +’’السَّماء‘‘ (آسمان) سے مرکّب ہے۔ ’’مِنْ‘‘ کے معانی و استعمالات پر۱:۲:۲(۵) میں  اور لفظ ’’السماء‘‘ کے مادہ اور معنی وغیرہ پر ابھی اوپر ـــ۱:۱۶:۲(۷) میں  بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۶:۲(۹)     ]مَاءً[ کا مادہ ’’م و ہ‘‘ اور وزنِ اصلی ’’فَعَلٌ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’مَوَہٌ‘‘ تھی جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل گئی اور آخری ’’ہ‘‘ خلافِ قیاس ’’ء‘‘ میں  بدل گئی ہے۔‘‘ اسی لیے ’’ماءٌ‘‘ کی جمع مکسر ’’مِیاہٌ‘ اور ’’امواہٌ‘‘ آتی ہے۔ ]قرآن کریم میں اس لفظ (ماء) سے جمع کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا[۔

          اس مادہ ( م و ہ) سے فعل ثلاثی مجرد ’’ ماہَ یمُوْہُ مَوھًا‘‘ (باب نصر سے اور دراصل ’’مَوَہَ یَمْوُہُ‘‘)اور"ماہَ یَمَاہُ مَوْھًا"(باب سمِعَ سے اور دراصل ’’مَوِہ یمْوَہُ‘‘)  آتا ہے۔ اور اس کے کئی معنی ہوتے ہیں مثلاً ’’کنویں میں پانی کا زیادہ ہونا‘‘ یا ’’کشتی میں پانی آجانا‘‘ وغیرہ۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد یا مزید فیہ کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہواـــ بلکہ اس مادہ (م و ہ) سے صرف یہی ایک لفظ ’’ماء‘‘ معرفہ نکرہ مفرد اور مرکب شکل میں کل ۶۳ جگہ وارد ہوا ہے۔ اس لفظ (ماء) کا اردو ترجمہ ’’پانی‘‘، انگریزی’’Water‘‘ اور فارسی ’’آب‘‘ ہے۔ اور کبھی یہ بمعنی ’’عرق‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ زیرِمطالعہ آیت میں بعض اردومترجمین نے اس (ماء) کا ترجمہ ’’مینہ یا بارش‘‘ سے کیا ہے جو مفہوم اور محاورہ کے لحاظ سے اور سیاق ِعبارت کی وجہ سے درست ہے۔ اگرچہ اصل لفظ سے ہٹ کر ہے۔

۱:۱۶:۲(۱۰)     ]فَاَخْرَجَ بِهٖ[ یہ ایک پورا فقرہ ہے جو دراصل چار کلمات پر مشتمل ہے یعنی یہ ’’ف+‘‘(پس)+ ’’اَخْرَجَ‘‘(اس نے نکالا)+’’بِ‘‘(… کے ساتھ، … سے) +’’ہ‘‘ (اُس کا مرکب ہے ان چار کلمات میں سے دو (فا اور با یعنی ’’فَ ‘‘ اور ’’بِ‘‘) تو حرف ہیں ایک (’’ہ‘‘) اسم (ضمیر) ہے۔ اور ایک (اَخْرَجَ) فعل ہے۔ ہر ایک کلمہ کے معنی و استعمال کی تفصیل یوں ہے۔

(۱)      فا ]فَ[ بنیادی طور پر تو ایک حرفِ عطف ہے جو دو مفرد یا مرکب اسماء یا دو اَفعال یا دو جملوں کو ایک دوسرے سے ملانے کا کام دیتا ہے۔ بلحاظ معنی اس کی خصوصیت ’’ترتیب‘‘ہے۔ یعنی یہ دو (یا زیادہ) چیزوں یا ’’فعلوں‘‘ میں پہلے، دوسرے تیسرے وغیرہ کا مفہوم رکھتا ہے۔ اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ عموماً’’پس‘‘ پھر اور کبھی ’’اَور‘‘ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ جیسے جاء زیدٌ فَبَکْرٌ یا  جاءَ زیدٌ فَجلَس میں ہے۔زید آیا پھر بکرــــ یا زید آیا اور بیٹھ گیا۔

 (۲)     اس (ف) کی دوسری معنوی خصوصیت ’’تعقیب‘‘ہے ۔یعنی یہ دوسری چیز یا دوسرے فعل کا ظہور یا وقوع پہلی چیز یا فعل کے (فوراً) بعد ہونے کا مفہوم دیتا ہے۔ سوائے کسی قدرتی وقفہ کے جو پہلے اور دوسرے فعل کے درمیان ہو۔ مثلاً تزوَّج فَوُلِدلہُ (اس نے شادی کی پھر اس کا بچہ ہوا)۔ اس صورت میں  یہ (فَ)"ثُمَّ" کے معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے ۔ اس کا اردو ترجمہ ’’پھر‘‘، ’’اس کے بعد‘‘، ’’پس‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔

(۳)     اس (ف) کی تیسری معنوی خصوصیت ’’سببیت‘‘ ہے یعنی اس (فَ) کے بعد والی بات اس سے پہلے والی بات کا سبب ہونا ظاہر کرتی ہے۔ کبھی اس کے برعکس ’’فَ‘‘سے ماقبل والی بات اس کے مابعد والی بات کا سبب ہوتی ہے اور کبھی (بعض خاص شرائط کے ساتھ جن کی تفصیل کتب نحو میں ملتی ہے) ’’سببیت‘‘ کے معنی دینے والی ’’فَ‘‘(فاء السببیہ) فعل مضارع کو نصب بھی دیتی ہے (یعنی جب کسی کام کا نتیجہ فعل مضارع کی صورت میں بیان ہورہا ہو تو) ان (سببیت کی) صورتوں میں اس ’’فا‘‘(فَ) کا اردو ترجمہ ’’تو پھر‘‘ ، ’’اس لیے‘‘، ’’چنانچہ‘‘، ’’مبادا(ایسانہ ہو کہ)‘‘، ’’اس بنا پر‘‘، ’’تاکہ ‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔

(۴)     کبھی یہ (ف) کسی شرط کے جواب میں حرف ِربط کا کام دیتی ہے۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’تو‘‘، ’’تو پھر‘‘ یا ’’تب‘‘ سے ہوسکتا ہے۔

(۵)     اور کبھی ’’واو الاستیناف‘‘ کی طرح یہ فا (فَ) بھی مستأنفہ ہوتی ہے یعنی اس سے ایک نئے جملے کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وقت اس کا ترجمہ ’’پس‘‘، ’’سچ مچ‘‘ کر سکتے ہیں۔

(۶)     اور کبھی یہ (فَ) ’’اِذا فجائیہ‘‘ (بمعنی تو اچانک، پس ناگہاں) کے شروع میں لگتی ہے اور ’’اَمَّا‘‘ کے جواب میں آنے والے جملے کے شروع میں تو اس (ف) کا لگانا لازمی ہوتا ہے۔

          ان مختلف استعمالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس ’’فا‘‘ (فَ) کا اردو ترجمہ حسب ِموقع ’’پس، پھر تو پھر‘‘اور تب ، یوں، چنانچہ، اس لیے، تاکہ ، بعد میں، کم از کم، مبادا، ورنہ تو، سچ مچ کی صورت میں کیا جاتاہے۔

]اَخْرَج[ کا مادہ ’’خ ر ج‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلَ‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ (خ ر ج) سے باب اِفْعال کا فعل ماضی معروف کا پہلا (واحد مذکر غائب کا) صیغہ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد خَرَج یخرُج خُرُوْجًا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’نکلنا، باہر نکل آنا یا نکل جانا‘‘ اور یہ ہمیشہ بطور فعل لازم استعمال ہوتا ہے (یعنی اس سے فعل مجہول نہیں بنتا) بعض صلات (مثلاً فی، علی) کے ساتھ یہ بعض دوسرے معانی (مثلاً ماہر ہونا، بغاوت کرنا وغیرہ) کے لیے بھی آتا ہے۔ مگر ان کے مفہوم میں یہ بنیادی معنی (نکلنا والے) شامل ہوتے ہیں۔

·       ’’ اَخرج ‘‘ اس مادہ سے باب افعال کا فعل ہے۔ باب ِافعال سے اس فعل ’’ اَخْرَج … یُخْرِج اِخْراجًا‘‘ کے مشہور معنی تو ہیں ’’… کو نکالنا، … کو نکال دینا، … کو نمایاں کرنا‘‘ اگرچہ یہ بعض دوسرے معنوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم وہ (دوسرے) معنی قرآن کریم میں نہیں آئے۔ یہاں (زیر ِمطالعہ آیت میں) بعض مترجمین نے اس فعل (اَخرَج) کا ترجمہ ’’پیدا کرنا‘‘ سے کیا ہے(یعنی پیدا کئے پھل)۔ یہ صرف مفہوم یا محاورہ کے لحاظ سے ہی درست ہے ورنہ لفظی معنی تو ’’نکالنا‘‘ ہی ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر نے اس کا ترجمہ یہاں ’’نکالنا‘‘ کے ساتھ ہی کیا ہے۔

]بِهٖ[ اس میں آخری ضمیر مجرور (ہ) کا ترجمہ تو یہاں ’’اس‘‘ ہوگا اور ’’با‘‘(بِ) کے معنی (یہاں) کے ساتھ کے سبب سے ، کے ذریعے ہیں اس (بِ یا ’’با‘‘) کے معانی و استعمالات پر اس سے پہلے استعاذہ کی بحث میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۶:۲(۱۱)     ]مِنَ الثَّمَرٰتِ[ یہ مِنْ (میں سے)+الثمرات (پھلوں) سے مرکب ہے۔ ’’مِن‘‘ کے معانی و استعمال پر ’’استعاذہ‘‘ کے ضمن میں نیز البقرہ :۳  یعنی ۱:۲:۲(۵)میں بات ہوچکی ہے۔ اور ’’ثَمَرَاتٌ‘‘ جس کی معرف باللام مجرور شکل ہی ’’الثمراتِ‘‘ ہے) کا مادہ ’’ث م ر‘‘ اور وزن ’’فَعَلاتٌ‘‘ ہے اور یہ لفظ ’’ثَمْرَۃٌ‘‘ بروزن ’’فَعْلَۃٌ‘‘ دونوں طرح کی جمع مؤنث سالم ہے۔

·       اس مادہ (ثمر) سے فعل ثلاثی مجرد عموماً ’’ثَمر یثمُر ثُمُورًا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے۔ اور اس کے معنی ’’(درخت کا) پھل لانا‘‘ اس کے پھل لگنے یا پکنے کا وقت آنا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہیں گے ’’ثَمر الشجُر(درخت پر پھل لگا)‘‘ اور ثمِر یثمَر (باب سمع سے) ’’پھلنا پھولنا‘‘، زیادہ ہونا (دولت وغیرہ کا)‘‘ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کا کسی طرح کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ البتہ باب ِافعال سے فعل ماضی کے ایک دو صیغے آئے ہیں (الانعام :۹۹، ۱۴۱) ان پر اپنی جگہ بات ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       کسی بھی درخت یا پودے کے پھل کو عربی میں ’’ثَمَرٌ‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ’’ثُمَرٌ‘‘ بلحاظ جنس ہر اس چیز کو کہیں گے جو کسی درخت کا پھل (کہلاتی)ہے۔ اس میں سے کچھ پھل یا ایک پھل کی بات کرنا ہو تو اسے عربی میں ’’ثمَرۃٌ‘‘ کہتے ہیں۔ اور اس آخری ’’ۃ‘‘ کو تائے وحدت کہتے ہیں۔ ایک پھل یا کچھ پھل کی جمع بنانا ہوتو انہیں ’’ثمَراتٌ‘‘ (یعنی چند پھل) کہتے ہیں ــِـ یہ کسی شے کی پوری جنس میں سے اسی جنس کی کسی ایک چیز کو بذریعہ تائے وحدت ذکرکرنے والا قاعدہ قرآن کریم میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ’’شَجَرٌ‘‘ (جنس درخت ـــ ہر وہ شے جو درخت کہلاتی ہے۔)اور ’’شجَرۃٌ‘‘ (کوئی ایک درخت) اسی طرح ’’بَقَرٌ‘‘ (جنس یعنی وہ تمام جانور جو گائے یا بیل کہلاتے ہیں) اور ’’بَقَرَۃٌ‘‘ (جنس بقر سے ایک جانور) وغیرہ۔ اس قسم کے بہت سے الفاظ آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گے۔

          بعض مترجمین نے ’’پھلوں‘‘ کے عام مفہوم کی بجائے ’’ثمرات‘‘ کا ترجمہ ’’میوے‘‘ کیا ہے جو اردو میں خاص خاص درختوں کے پھل یا پھل کی خاص قسمو ں کے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ ہر ’’میوہ‘‘ (کسی درخت یا پودے کا) پھل ہوتا ہے مگر ہر (درخت یا پودے کا) پھل میوہ نہیں کہلاتا ۔ لفظ ’’ثمر‘‘، ’’ثمرۃ‘‘، ’’الثمرات‘‘  اورثمرات (بصورت واحد جمع مفرد مرکب) قرآن کریم میں کل ۲۲ جگہ آئے ہیں۔

]رِزْقًا لَّكُمْ[ اس میں ’’لَکُمْ‘‘ تو جارّ (لِ) اور مجرور (کم) بمعنی ’’تمہارے لیے‘‘ہے۔ لام الجر (لِ)کے معنی و استعمال پر الفاتحہ:۲ یعنی ۱:۲:۱(۴)میں بات ہوئی تھی۔

          اور ’’رِزقًا‘‘ کا مادہ ’’ر ز ق‘‘ اور وزن ’’فِعْلاً‘‘ ہے جو لفظ ’’رِزْقٌ‘‘ (بروزن فِعْلٌ) کی منصوب شکل ہے۔ اس مادہ (رزق) سے فعل ثلاثی مجرد ’’رزَق…یرزُق رزقًا‘‘ (روزی دینا، عطا کرنا) کے معنی وغیرہ اس سے پہلے البقرہ :۳  یعنی ۱:۲:۲(۶) میں بیان ہوچکے ہیں۔ یہاں ’’ رزقا ‘‘ اسی فعل مجرد کا مصدر ہے۔ اس کے (عبارت میں) معنی کا تعین ’’الاعراب ‘‘کے ذریعے ہوگا یعنی وہاں بیان ہوگا۔

]فَلَا تَجْعَلُوْا[ کے شروع کی ’’فا‘‘(ف) تو عاطفہ ہے (بمعنی پس، یا اس لیے) ہے اور’’لا تجْعَلوا ‘‘  کا مادہ ’’ج ع ل‘‘ اور وزن اس کا’’لا تَفْعَلُوا‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ کے فعل مجرد سے فعل نہی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کے مختلف معانی اور استعمالات پر البقرہ: ۱۹  کے تحت ۱:۱۴:۲(۷)میں بات ہوچکی ہے۔ یہاں یہ فعل ’’بنانا، مقرر کرلینا ‘‘کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

]لِلّٰهِ[ جو لام الجر (لِ) اور اسم جلالت( اللہ) کا مرکب ہے اس کے معنی وغیرہ الفاتحہ کے شروع میں۱:۳:۱(۴) میں  بیان ہوچکے ہیں۔

۱:۱۶:۲(۱۲)      ]اَنْدَادًا[ کا مادہ ’’ن د د‘‘ اور وزن ’’اَفْعالًا‘‘ ہے جو لفظ ’’نِدٌّ‘‘(بروزن فِعْلٌ) کی جمع مکسر (کی منصوب شکل)ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ندَّ  یَنِدُّ   ندًّا‘‘ (باب ضرب سے)  اونٹ کا بھاگ کر جدھر منہ آئے چلے جانا‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل (مجرد یا مزید فیہ) کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔

          کلمہ ٔ ’’نِدٌّ‘‘ (جو زیر مطالعہ لفظ ’’انداد‘‘ کا مفرد ہے) اس مادہ (ندد) سے ایک اسمِ جامد ہے اور اس کے معنی ہیں ’’مثل‘‘ یا ’’نظیر‘‘ اس لفظ (نِدٌّ) کے ہم معنی لفظ ندید بھی ہے ]مگر یہ ـــ ندیدـــ قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا]۔ ویسے لفظ ’’نِدّ‘‘ بصیغہ واحد بھی قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ البتّہ اس کی جمع ’’ اندادا ‘‘ قرآن کریم میں چھ جگہ آئی ہے۔

کسی شے کا ’’نِدّ‘‘ (یا ندید) اسے کہتے ہیں جس میں اس شے سے ایک خاص قِسم یا خاص نوعیت کی (جوہری یا بنیادی) مماثلت ہو اور جس میں کسی بھی قسم کی مماثلت (اور مشابہت) ہوا سے اس کی ’’مِثْل‘‘ کہتے ہیں اس تعریف اور معنی کی رو سے ہر ’’نِدّ‘‘ مثل ہےـــ مگر ہر مِثْل ’’نِدّ‘‘ نہیں ہے ۔ یہ باریک فرق راغب نے ’’مفردات‘‘ میں بیان کیا ہے۔ (دیکھئے مادہ ’’ندد‘‘)اسی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے اردو مترجمین نے ’’نِدّ‘‘ کا ترجمہ ’’شریک‘‘، ’’برابر‘‘، ’’مقابل‘‘،’’ ہم پلہ‘‘، ’’ہم سر‘‘، یا’’ برابر والا‘‘ سے کیا ہے جو ’’نِدّ‘‘ کے پورے مفہوم کو واضح کرتے ہیں۔  اور جومحض ’’مانند‘‘ یا ’’جیسا‘‘ یعنی ’’مثل‘‘ کے مفہوم سے بالکل جدا ہے۔

۱:۱۶:۲(۱۳)     ]وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ[ اس کی ابتدائی واو (وَ) کے معنوں کا تعین ابھی آگے بحث ’’الاعراب ‘‘ میں ہوگا۔

          ’’ اَنْتُم‘‘  جو جمع مذکر مخاطب کے لیے ضمیر مرفوع منفصل ہے اور جس کا اردو ترجمہ ’’تُم‘‘ ہے۔ یہ لفظ دراصل ’’اَنْتُمُوْ‘‘ تھا مگر لکھے اور بولنے میں اس کی آخری ’’و‘‘ گرا کر ’’م‘‘ کو ساکن کر دیا جاتا ہے۔ البتہ جب یہ ضمیر متصل مرفوع (بشکل ’’انتم‘‘) یا منصوب (بشکل’’کُمْ‘‘) بعض خاص کلمات سے پہلے آئے تو اس کی یہ ’’واو‘‘ میم الجمع کے بعد) لَوْٹ آتی ہے اور اسے ’’تُمُوْ‘‘ یا ’’کُمُوْ‘‘ پڑھتے ہیں۔ اس کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

]تَعْلَمُوْنَ [ کا مادہ ’’ع ل م‘‘ اور وزن ’’تفعلون‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’علِم… یعلَم عِلمًا‘‘ (باب سمِع سے)آتا ہے۔ اور اس کے معنی ’’…کو جاننا، سمجھ لینا‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی ہوتا ہے۔ اس کا مفعول عموماً تو بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے مگر کبھی یہ ’’باء‘‘ (ب) کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے یعنی "عَلِمَہ اور علم بہ"دونوں طرح کہہ سکتے ہیں۔قرآن کریم میں یہ فعل زیادہ تر بغیر صلہ کے مگر بعض جگہ صلہ(بِ) کے ساتھ  بھی استعمال ہوا ہے ـــاس مادہ (علم) اور اس کے فعل ثلاثی مجرد کے بعض معانی پر الفاتحہ:۲ ]۱:۲:۱(۴)[اور البقرہ:۱۳ یعنی ۱:۱۰:۲(۳)میں بات ہوئی تھی۔

 

۲:۱۶:۲     الاعراب

          زیر ِمطالعہ یہ دوآیات بنیادی طور پر چھ جملوں پر مشتمل ہیں جن میں سے بعض جملے صلہ کا کام دیتے ہیں اور صلہ موصول مل کر جملے کا ایک حصہ بنتا ہے ۔اور بعض جملے واو عاطفہ اور فاء عاطفہ کے ذریعے باہم ملائے گئے ہیں جس سے ایک مربوط لمبا جملہ بنتا ہے ۔ تفصیل یوں ہے:

(۱)    یاایھاالناس میں ]یا ایھا[ حرف نداء ہے اور ]الناس[ منادٰی مفرد ہونے کے باعث مرفوع ہے۔

          نحویوں کے نزدیک یہاں حرف ندا (یا ایھا) یَا+اَیُّ+ھا کا مرکب ہے ۔میں اصل حرف ندا تو ’’یَا‘‘ ہی ہے۔ "اَیُّ" منادٰی (اور مبنی بر ضمہ) ہے۔ اور نحوی اسے (منادٰی مضاف کی طرح) محلاً منصوب شمار کرتے ہیں اور اس کے بعد ’’ھا‘‘ (ضمیر نہیں بلکہ) حرفِ تنبیہ ہے۔(دیکھئے اوپر۱:۱۶:۲(۱)میں)

·       تاہم عملاً اور فعلا ًیہ صورت ہے کہ یہ سارا مرکب (یا ایّھا) حرفِ ندا کا ہی کام دیتا ہے۔ یہ صرف معرف باللام منادٰی پر داخل ہوتا ہے۔ اور مذکر مؤنث کے لیے اس کے الگ الگ صیغے ہیں (ایّھا اور ایّتھا) اس طرح یہاں لفظ (الناس) نحویوں کے نزدیک اصل منادی (اَیُّ) کا بدل یا اس کی صفت ہے۔ مگر  ـــ فنّی باریکی بر طرف  ـــ سیدھی سی بات یہی ہے کہ یہی (الناس) ہی یہاں منادٰی ہے۔ اگر یہ بدل یا صفت ہوتا تو اس کا لانا لازمی نہ ہوتا۔ مگر اس کے لائے بغیر ’’منادٰی‘ کا مفہوم ہی نہیں بنتا۔ پس ’’ یاایّھاالناسُ ‘‘ کا نحوی ترجمہ ’’اے تو / وہ جو لوگ ہو‘‘ کی بجائے سیدھا بامحاورہ اردو ترجمہ ہوگا ’’اے لوگو!‘‘ یا صرف ’’لوگو!‘‘ـــ

(۲)   اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ

          ]اعْبُدُوْا[ فعل امر معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ جس میں ’’و‘‘ فاعل کی ضمیر مستتر (انتم) کا کام دے رہی ہے یعنی ’’تم عبادت کرو‘‘ ]رَبَّكُم[ یہ مضاف (ربّ) اور مضاف الیہ (ضمیر مجرو ر’’کُمْ‘‘) مل کر فعل اعبدوا‘‘ کا مفعول بہ ہے اور اس لیے منصوب ہے۔ اس میں علامتِ نصب ’’ربَّ‘‘ کی باء (ب) کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ ]الذی[ اسم موصول ہے جو اپنے صلہ (مابعد آنے والے اگلے جملہ) کے ساتھ مل کر’’رَبَّكم‘‘ کی صفت بنے گا۔ اس طرح یہاں ’’ الذی‘‘ دراصل منصوب ہی ہے۔ اگرچہ مبنی ہونے کے باعث اس میں کوئی علامتِ (اعراب) ظاہر نہیں ہے ]خَلَقَكم[ میں ’’خلَق‘‘ تو فعل ماضی معروف ہے۔ جس میں ضمیر فاعل ’’ھُوَ‘‘ مستتر ہے اور ’’کُمْ‘‘ یہاں ضمیر متصل منصوب اس فعل (خلَق) کا مفعول بہٖ ہے اور یہ جملہ (خلقکم) الذی کا صلہ ہے۔ اس طرح ’’ الذی خلقکم ‘‘ (وہ جس نے کہ پیدا کیا تم کو) صلہ موصول مل کر ’’ربَّکم‘‘ کی صفت ہے ]والذین[ میں ’’وَ‘‘ توعاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) ہے اور ’’الذین‘‘ اس موصول معطوف ہے۔ اس کا عطف ’’ خلقکم‘‘ کی ضمیر منصوب ’’کُمْ‘‘ پر ہے۔ یعنی بلحاظ معنی تقدیر عبارت (UNDERSTOOD) یوں ہے: ’’وَ (خَلَقَ) الذین‘‘ ]من قبلِکم[ میں ’’مِنْ، حرف الجر‘‘ ’’قبلِ‘‘ ظرف (مجرور بوجہ ’’مِنْ‘‘) مضاف ہے اور ’’کُمْ‘‘ مضاف الیہ ضمیر مجرور ہے یعنی ’’تم سے پہلے ‘‘(ہوئے ہیں)۔ اور یہ مرکب جارّی (من قبلِکم) ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے۔ اور یہ صلہ موصول مل کر (الذین من قبلکم) ’’ خلقکم‘‘ کی ضمیر منصوب مفعول بہ (کُمْ) پر عطف ہے۔ یعنی ’’ خلقکم و (خلق) الذین من قبلکم ‘‘ (اس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو (بھی پیدا کیا) جو تم سے پہلے (ہوئے ؍ تھے)۔

(۳)   لَعَلَّكمْ تتقون: میں ]لعلّ[ حرف مشبہ بالفعل ہے جو ’’ترجّی اور توقع‘‘ یعنی ’’شاید کہ‘‘، ’’امید ہے کہ‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ اور ]كم[ اس ’’لَعَلَّ‘‘ کا اسم (لہذا) منصوب ضمیر ہے اور ]تتقون[ فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکرحاضر ہے۔ جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘مستتر ہے اور یہ (تتقون)ایک مکمل جملہ فعلیہ ہے جو لعلکم کی خبر کا کام دے رہاہے۔ (یعنی امید ہے کہ تم بچو گے) اور یہ پورا جملہ (لعلکم تتقون) یہاں ایک طرح سے فعل امر (اعبدوا) کے جواب میں ’’جواب شرط‘‘ کے مفہوم میں آیا ہے۔ یعنی یہ ایک الگ مستقل جملہ ہے۔ اپنے سے سابقہ جملے (یاایھاالناس … قبلکم) کا کوئی نحوی جزء یا حصہ نہیں ہے۔

(۴)   الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً

          ]الذی[ اسم موصول ہے جو بعد میں آنے والے ’’صلہ‘‘ سمیت سابقہ آیت کے ’’ رَبَّكم ‘‘ کی دوسری صفت (پہلی صفت ’’ الذی خلقکم والذین من قبلکم‘‘تھی جیسا کہ اوپر  میں بیان ہوا ہے۔) یا بدل ہونے کے باعث محل نصب میں ہےـــ اور چاہیں تو یہاں (الذین سے) شروع ہونے والے (صلہ موصول) جملے کو ایک محذوف مبتدأ (ھُوَ) کی خبر (لہذا محلا ًمرفوع) بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ]جَعَلَ [ فعل ماضی ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھُوَ‘‘ مستتر ہے۔ اور (یہاں جعل سے اسم موصول (الذی کا صلہ شروع ہوتا ہے۔ ]لَكم[جا رمجرور متعلق فعل (جعَل) ہے یعنی ’’بنایا؍پیدا کیا تمہارے لیے‘‘ـــ ]الارض[ فعل ’’جَعَل‘‘ کا مفعول اوّل اور ]فِرَاشًا[ اس کا مفعول ثانی ہے۔ اور یہ اس صورت میں ہے اگر جعل کے معنی ’’بنانا‘‘مقرر کرنا لئے جائیں۔ لیکن اگر فعل ’’ جَعَل ‘‘ بمعنی ’’پیدا کرنا، لیاجائے تو پھر’’الارضَ‘‘ اس کا مفعول اور ’’فراشا‘‘ اس (مفعول یعنی (الارض )کا حال ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ]والسماءَ[ کا ’’السماء‘‘ بھی (واو تو عاطفہ ہے) اسی ’’جعل‘‘ بمعنی بنانا کا مفعول اول اور ]بناءً[ مفعول ثانی ہے یعنی اس کا عطف ’’ فِرَاشًا ‘‘ پر ہے ـــ  اور یہاں بھی اگر ’’ جعَل ‘‘ بمعنی ’’خلَق‘‘ (پیدا کیا) لیا جائے تو پھر ’’السماء‘‘ کو مفعول اور ’’ بناءً ‘‘ کو اس (مفعول) کا حال کہہ سکتے ہیں ـــتاہم اردو میں محاورے کی خاطر پہلے معنی (مفعول اول اور ثانی والے) کے ساتھ ترجمہ کرنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے (یعنی اس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت)۔ کیونکہ دوسری ترکیب (حال والی) کے ساتھ ترجمہ (اس نے پیدا کیا تمہارے لیے زمین کوفرش ہوتے ہوئے اور آسمان کو چھت ہوتے ہوئے) بے محاورہ اور عجیب سا لگتا ہے۔ اردو محاورے کے لحاظ سے ’’ لکم ‘‘ کاترجمہ پہلے اور ’’ جعل ‘‘ کا ترجمہ سب سے آخر پر ہونا چاہئے (یعنی ’’جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا‘‘) تاہم بیشتر مترجمین نے کلمات کی عربی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ جعل‘‘ کا ترجمہ ’’شروع میں کر دیا ہے۔ ’’جس نے بنایا…‘‘ بعض مترجمین نے ’’کو‘‘ کی بجائے ’’زمین کا فرش‘‘ اور ’’آسمان کی چھت‘‘(بنائی) سے ترجمہ کیا ہے جو عربی ترکیب عبارت سے بعید ہے۔ اگرچہ مفہوم و محاورہ کے لحاظ سے غلط نہیں ہے۔ اسی طرح بعض حضرات نے ’’ فراشا ‘‘ اور ’’بناء‘‘ کی تنکیر (نکرہ ہونا) کالحاظ رکھتے ہوئے ’’ایک فرش‘‘ اور ’’ایک چھت‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو زیادہ بہتر ہے۔

(۵)   وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً

          (وَ) عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور ]انزل[ ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ مستتر ہے اور یہ فعل (انزل) سابقہ فعل ’’جعل‘‘ پر عطف ہے یعنی ’’بنایا… اور اتارا…‘‘ ]مِنَ السماءِ[ جارّ (مِنْ) اور مجرور (السماءِ) مل کر فعل ’’انزَلَ‘‘ سے متعلق ہیں ]یعنی اتارا۔ کہاں سے؟ اور جواب ہے ’’آسمان سے‘‘ [ ـــاس کے بعد ]ماءً[ فعل ’’ انزل ‘‘ کا مفعول بہ (لھٰذا) منصوب ہے جس کی علامت نصب آخری ’’ء‘‘ کی تنوین نصب ( ــــــًــــ) ہے۔ یہ جملہ سابقہ جملہ(۴) پر عطف ہے۔

(۶)   فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ

          ]فَاَخْرَجَ[ میں فاء (فَ) عاطفہ ہے جس کا ترجمہ یہاں ’’پس یا چنانچہ‘‘ سے ہوسکتا ہے اور ’’اَخْرَجَ‘‘ سابقہ (حصہ آیت) کے فعل ’’ اَنْزَل ‘‘ پر عطف ہے۔ یعنی ’’اتارا پس نکالا‘‘ ]بِہٖ[ جار (بِ) اور ضمیر متصل مجرور (ہ) مل کر فعل ’’اَخْرَج‘‘ سے متعلق ہیں اور یہاں یہ (بِ) سببیہ ہے یعنی ’’نکالا‘‘ اس کے ذریعے سے یا اس کے سبب سے‘‘ اور ضمیر مجرور (بہ) کا مرجع ’’ماءً‘‘ ہے (دیکھئے مندرجہ بالانمبر۵) یعنی ’’اس پانی کے ذریعے نکالا‘‘ ]من الثمرات­[ یہ جار (مِنْ) اور مجرور (الثمرات) مل کر فعل ’’ اخرج ‘‘ کے مفعول کی جگہ لے رہا ہے۔ اس لیے اسے محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔ گویا دراصل ’’ اخرج الثمراتِ ‘‘(اس نے پھل نکالے) تھا پھر’’الثمرات‘‘ پر ’’مِنْ‘‘ لگا ـــ  اب اگر اس ’’مِنْ‘‘ کو تبعیض کامانیں تو ترجمہ ہوگا۔ ’’پھلوں میں سے بعض ‘‘ اور اگر ’’مِنْ‘‘ کو بیانیہ سمجھا جائے تو ترجمہ ہوگا ’’قسم قسم کے پھل‘‘۔یہی وجہ ہے کہ بعض مترجمین نے ’’مِن‘‘ کی تبعیض کی بناء پر ’’ من الثمرات ‘‘ کا ترجمہ ’’کچھ پھل‘‘ کیا ہے۔ اور بعض نے ’’مِن‘‘ کو بیانیہ سمجھتے ہوئے ’’نواع و اقسام کے پھل‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ اور اکثر مترجمین نے اس ’’مِنْ‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’ من الثمرات ‘‘ کا ترجمہ صرف ’’پھل‘‘ یا ’’میوے‘‘ کر دیا ہے۔ یہ محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے تو درست ہے۔ تاہم ’’مِن‘‘ کو شامل کرنے والا ترجمہ بہتر قرار دیا جاسکتا ہے۔

          ]رزقًا[ یہ ’’ اخرج ‘‘کا مفعول لہ ہے یعنی ’’برائے رزق‘‘، ’’روزی کے لیے‘‘ـــ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے (رزقًاکو) فعل ’’اخرَجَ‘‘ کا مفعول بہ مانیں اور ’’ من الثمرات ‘‘کو اس کا بیان یا وضاحت سمجھ لیں تو ترجمہ ہوگا ’’اس نے نکالا کچھ رزق  ازقسم میوہ جات‘‘ ـــاردو مترجمین میں سے بعض نے مفعول لہٗ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’کھانے کو، غذا کو‘‘(یعنی کے طور پر) جب کہ بعض نے مفعول بہ سمجھ کر ’’نکالا رزق، نکالا کھانا‘‘ سے ترجمہ کیا ہےـــ ہمارے خیال میں مفعول لہٗ والی ترکیب کے ساتھ ترجمہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ ]لَكُمْ[ جار مجرور (لِ +کُم) ایک طرح سے ’’رزقًا‘‘ (نکرہ موصوفہ) کی صفت کا کام بھی دے سکتا ہے۔ یعنی ’’وہ رزق جو تمہارے لیے ہے‘‘ـــ جن حضرات نے ’’رزقا‘‘ کا ترجمہ مفعول بہ سمجھ کر ’’رزق یا کھانا‘‘ کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مفعول لہٗ سمجھ کر ترجمہ (رزق/ روزی) کھانے کے لیے "کے ساتھ ہی "لکم " کا ترجمہ بھی ’’تمہارے لیے‘‘ کرنے سے پورا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’کھانے کے لیے تمہارے لیے‘‘۔ اس کی اردو محاورے میں گنجائش نہیں۔ اس لیے انہوں نے ’’رزقًا‘‘ کو مفعول بہ بنا کر ترجمہ کردیا ’’کھانا تمہارے لیے‘‘ـــ اور بعض نے ’’لکم‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرتے ہوئے صرف ’’تمہارے کھانے کو‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ یعنی مفعول لہ ہی سمجھ کر ترجمہ کیا ہے۔ یہ جملہ بھی بذریعہ ’’فاء‘‘ سابقہ جملہ (نمبر۵ )پر عطف ہے۔

(۷)     فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

          ]فَلاتجعلوا[ میں ابتدائی فاء (فَ) یہاں عاطفہ مگر تعلیل (وجہ بتا نا)کے معنوں میں ہے۔ اس کا اردو مفہوم ’’پس اس بناء پر ‘‘ یا لھٰذا (اس لیے) بنتا ہے ’’لاتجعلوا‘‘ فعل نہی معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ جس میں’’ لائے نہی‘‘ کے باعث مضارع مجزوم ہو کر اس کاآخری ’’ن‘‘گرگیا ہے۔ اور اس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ جس کی علامت ’’تجعلوا‘‘ کی ’’واو‘‘ ہے۔

          ]لِلّٰہ[جار مجرو مل کر فعل ’’لاتجعلوا‘‘کے مفعول ثانی کی جگہ لے رہا ہے اور ]اندادًا[اس کا مفعولِ اول ہے۔ گویا تقدیر(اصل) عبارت یوں تھی ’’ فلاتجعلوااندادًا للہ‘‘ اور ’’لِلہ‘‘ کا ترجمہ ’’اللہ کے لیے ‘‘ کی بجائے ’’اللہ کا‘‘ بھی ہوسکتا ہے اس لیے بعض حضرات نے ’’لاتجعلواللہ اندادًا ‘‘ کا ترجمہ ’’نہ ٹھہراؤ  تم اللہ کے ہم سر‘‘ یا ’’تم اللہ کے ہمسر نہ ٹھہراؤ‘‘ سے کیا ہے۔ اور یہ الفاظ سے قریب تر ہونے کے باعث بہت درست ترجمہ ہے۔ بعض نے یہاں ’’لا تجعلوا‘‘ کا ایک (پہلا) مفعول محذوف مان کر ـــاور ’’ا ندادًا ‘‘ کو مفعول ثانی سمجھ کر ترجمہ کیا ہے۔ گویا تقدیر (اصل) عبارت کچھ یوں بنائی ہے ـــ’’لاتجعلوا ،ـــ احدًا‘‘ یا ’’مخلوقاً‘‘،ـــ ’’ اندادًا لِلہ ‘‘ (ویسے چونکہ ’’اندادا‘‘ جمع ہے اس لیے محذوف مفعول اول ’’احدا‘‘ یا اس کی بجائے ’’مِنْ احدٍ‘‘(کوئی بھی) یا ’’ اٰلِھَتَکم‘‘ ( اپنے معبودوں کو) سمجھاجاسکتا ہے) اس طرح ترجمہ ہوگا ’’کسی کو‘‘ یا ’’کوئی نہ بناؤ اللہ کے ہم پلہ، ہم سر، برابر والے کے مقابل‘‘ـــ اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے مترجمین نے ان الفاظ (’’کسی کو‘‘ اور ’’کوئی‘‘) کے اضافہ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے ورنہ آیت میں تو اس کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔ یہ محذوف مفعول کا ہی ترجمہ ہوسکتا ہے جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔ اگرچہ اصل (عبارت) پر ایک اضافہ ہے۔ اور اس اضافہ کے بغیر والا ترجمہ (تم اللہ کے ہمسر نہ بناؤ) زیادہ بہتر ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے ]وَ[ اس ’’واو‘‘ کو یہاں عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) بھی کہہ سکتے ہیں اور حالیہ (بمعنی ’’حالانکہ‘‘) بھی۔ اور اس کے بعد ]اَنْتُم[ ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے۔ (اسی لیے مرفوع ضمیر لائی گئی ہے) ]تَعْلَمُون[ فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین ’’ انتم ‘‘ یعنی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اور یہ پورا جملہ فعلیہ (تعلمون) ’’ انتم ‘‘ (مبتدأ) کی خبر ہے پھر یہ پورا جملہ اسمیہ ہو کر (انتم تعلمون) حال ہونے کی بنا پر (اگر ’’واو‘‘ کو حالیہ سمجھا جائے تو) محل نصب میں ہے۔ اسی لیے اردو کے بعض مترجمین نے اس (وانتم تعلمون) کا ترجمہ ’’جان بوجھ کر‘‘ یا ’’جانتے بوجھتے ہوئے‘‘ سے کیا ہے۔ اگرچہ بعض نے ’’واو‘‘ کو عاطفہ سمجھ کر سیدھا ترجمہ ’’اور تم جانتے ہو‘‘ سے بھی کر دیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہاں ’’واو‘‘ کو حالیہ سمجھنا زیادہ موزوں ہے۔

 

۳:۱۶:۲     الرسم

          ان دو (زیر ِمطالعہ) آیات کے قریباً تمام کلمات کی املاء معتاد (عام عربی املاء) اور رسم ِعثمانی ایک جیسا ہی ہے۔ البتہ صرف تین کلمات ’’ یاایھا ‘‘، ’’فراشاً ‘‘ اور ’’ الثمرات ‘‘ کا رسم قابل ذکر ہے۔

(۱)      حرف ِنداء ’’یا ایھا‘‘ کو ہمیشہ ’’یا یھا‘‘ لکھا جاتا ہے۔ یعنی شروع کے ’’یا‘‘ کو بحذف الف ہی لکھا جاتا ہے پھر اس پر علامتِ ضبط ڈال کر اس کا تلفظ ’’یا‘‘ ہی رہتا ہے۔ اور اس ’’ی‘‘ کو ’’ایھا‘‘ کے ابتدائی ہمزہ (بصورت الف) کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے۔ یعنی ’’یا یّھا‘‘ کی صورت میں ۔ اسے الگ الگ ’’یا ایھا‘‘ لکھنا غلط ہے۔ مگر ترکی اور ایران کے مصاحف میں یہ غلطی عام ہے۔ اور اس (کلمۂ ندا) کی عام عربی املاء بھی یہی (یا یھا) ہے جو عربی املاء پر رسم عثمانی کے اثرات کا ایک مظہر ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ رسمِ عثمانی کے مطابق حرفِ ندا ’’یا‘‘ ہر جگہ بحذف الف ہی لکھا جاتا ہے۔ (چاہے ساتھ ’’ایھا‘‘ ہو یا نہ ہو) مثلاً قرآن مجید میں ’’یموسی‘‘ اور ’’یا ھل الکتاب‘‘ لکھا جاتا ہے اگرچہ عام عربی املاء میں اسے"یا موسی" اور "یااھل الکتاب"لکھا جاتا ہے۔

(۲)     کلمہ ’’ الثمرات ‘‘ کے بارے میں علمائے رسم کا اتفاق ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میںـــ یہاں اور ہرجگہ ـــ بحذف الا لف بعد الراء ‘‘ لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’الثمرات‘‘ ۔ پھر بذریعہ ضبط اس محذوف الف کو تلفظ میں لایا جاتا ہے۔ یعنی یہ الف (بعد الراء) لکھا نہیں جاتا مگر پڑھا ضرورجاتا ہے۔ ترکی اور ایران کے مصاحف میں اسے باثبات الف لکھنے کی غلطی عام ہے۔

(۳)    کلمہ ’’ فراشا ‘‘کے رسم عثمانی میں اختلاف ہے۔ ابوداؤد سلیمان بن نجاح ـــکی تصریح کی بناء پر عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الف بعد الراء لکھا جاتا ہے۔ یعنی ’’فرشاً‘‘ کی صورت میں ۔پھر پڑھنے کے لیے اس محذوف الف کو ضبط کے ذریعے واضح کیاجاتا ہے۔ لیبیا والے الدانی (م۶۶۶ھ )کی عدم تصریح کی بناء پر اسے باثبات الف بعد الراء لکھتے ہیں یعنی ’’فراشا‘‘ اور یہی اس کی املاء معتادبھی ہے۔ الدانی نے المقنع میں اور الشاطبی نے (العقیلہ میں) اس لفظ کے محذوف الالف ہونے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ تمام مشرقی ممالک۔ ترکی، ایران، برصغیر، چین وغیرہ کے مصاحف میں بھی اسے باثبات الف (فراشا) ہی لکھا جاتا ہے مگر ان کے سامنے اہل ِلیبیا والی وجہ نہیں بلکہ غالباً تساہل یا عام عربی املاء کے اتباع میں یہ رواج ہوگیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ الدانی اور الشاطبی کی خاموشی ہی اس کا سبب بنی ہو ـــکیونکہ ابوداؤ دکی کتاب ’’التنزیل‘‘ (جو ابھی تک کہیں طبع نہیں ہوئی) کا چرچا عرب اور افریقی ملکوں میں (بالواسطہ ہی سہی مگر)عام ہے جب کہ مشرقی ممالک میں زیادہ تر الدانی اور الشاطبی ہی متعارف ہیں۔

 

۴:۱۶:۲      الضبط

زیر مطالعہ دو آیات میں کلمات کے ضبط کا اختلاف مندرجہ ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے:۔

21-22a Ayat

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

21-22b Ayat

 ملحوظہ: اختلافِ ضبط کی مندرجہ بالا صورتوں میں ایک دو چیزیں خصوصاً قابلِ غور ہیں۔

(۱)      تنوین کے ملفوظی نون ساکن کے بعد اگر ’’یرملون‘‘ میں سے کوئی حرف آجائے تو حرف ِمنّون کو تنوین کی ایک حرکت (ــــــَــــ یا ــــــِــــ یا ـــــــُـــــ)(#) کے ساتھ اس (حرفِ  یرملون) میں مدغم کر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے اس حرفِ مدغم فیہ پر علامتِ تشدید ڈالی جاتی ہے اس کی مثال آپ نے اوپر ’’ رزقًا لَّكُمْ ‘‘ میں دیکھی ہے۔ اگر ایسے حرف منّون کے بعد ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ ہو تو اس سے ادغام میں غنہ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ صرف برصغیر میں ایسی ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ پر علامت ِتشدید ڈالی جاتی ہے۔ جس کی مثالیں آپ نے اوپر ’’ فراشًاوَّ ‘‘، ’’ بِنَاۗءًوَّ ‘‘ او ر’’ اَنْدَادًوَّ ‘‘ میں دیکھی ہیں۔ البتہ اس میں غنّہ پڑھنے کا طریقہ طالب علم کو زبانی سمجھا دیا جاتا ہے (کہ تنوین یا نون ساکن کے بعد ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ ہو تو ’’نون‘‘ غنہ کے ساتھ پڑھنا چاہئے) پاکستان کے صرف تجویدی قرآن میں اس قسم کی تنوین کیلئے غنہ کی ایک خاص علامت مقرر کی گئی ہے ۔(#)عجیب بات ہے کہ عرب اور افریقی ممالک ـــ بلکہ ایران اور ترکی میں بھی ـــاس قسم کی (تنوین کے بعد آنے والی) ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ پر علامت تشدید نہیں ڈالی جاتی جیسا کہ مندرجہ بالا الفاظ میں آپ نے دیکھا۔ البتہ اس تنوین  کو تنوین اخفاء (ـــــًـــــ، ــــــٍــــ ، ـــــــُــــُــــ) کی شکل دے دی جاتی ہے۔ غالبا وہاں بھی غنہ کا قاعدہ زبانی ہی بتایا جاتا ہو گاکیونکہ یہ تجوید کا ایک اہم قاعدہ ہے۔ اسے قراء ت میں نظر انداز تو نہیں کیا جاسکتا ۔

(۲)     دوسری قابلِ توجہ بات ہائے کنایہ کا ضبط ہے۔ برصغیر میں یہ ضبط بصورت کسرہ (ــــــِــــ) حرکت ِاشباع یعنی کھڑی زیر (ــــــٖــــ) سے اور بصورت ضمہ (ــــُـــــ) ضمہ معکوس ( ــــــٗــــ) سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ مثلاً ’’بِہٖ‘‘ اور ’’لَہٗ‘‘ میںـــ تمام عرب اور افریقی ملکوں میں اس مقصد کے لیے متعلقہ ’’ھا‘‘ پر صرف کسرہ (ـــــِــــ) اور ضمہ (ـــــُـــــ) ڈال کر بصورت کسرہ ساتھ ایک باریک سی ’’ی‘‘ یا ’’ے‘‘ سطر سے نیچے یا سطر سے اوپر لکھتے ہیں اور بصورت ضمہ (ـــــُـــــ ) ساتھ ایک باریک سی ’’و‘‘اسی طرح (سطر سے اوپر یا نیچے) ڈال دیتے ہیں یہ ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ قلمی دور میں ’’سرخ سیاہی‘‘ سے لکھی جاتی تھی اب دورِ طباعت میں اسے کتابت کے عام قلم کی بجائے باریک قلم سے لکھا جاتا ہے۔ یعنی ’’بِہِ ے‘‘ اور ’’لَہُ و‘‘ کی صورت میں ۔ اس کا نمونہ آیت ِزیر مطالعہ کے کلمہ ’’بہ‘‘ میں دیکھئے۔

(۳)     عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں نون ساکنہ مخفاۃ (اخفاء کے ساتھ پڑھے جانے والے ساکن نون۔ یعنی جس کے بعد حرف حلقی نہ ہو) پر علامت سکون ڈالی ہی نہیں جاتی جسے آپ نے اوپر ’’ انتم ‘‘، ’’ انداداً ‘‘ ، ’’من‘‘ اور ’’ انزل ‘‘میں ملاحظہ کیا ہوگا بعض مصاحف (مثلاً تجویدی قرآن اور مصحف حلبی) میں اس قسم کے اخفاء کے لیے ’’نون‘‘ پر خاص قسم کی علامت ِسکون ڈالی گئی ہے۔

(۴)     صرف افریقی ممالک میں ’’ف‘‘ کو (  (# کی طرح اور ’’ق‘‘ کو  ((# کی طرح لکھا جاتا ہے اور کلمہ کے آخر پر آنے والے ’’ن‘‘، ’’ی‘‘، ’’ف‘‘ اور ’’ق‘‘ کو نقطوں سے خالی رکھا جاتا ہے اس کی مثالیں آپ نے اوپر’’ مں‘‘  ’’  تتقوں ‘‘، ’’ تعلموں ‘‘ میں ’’ الذیں ‘‘ میں ملاحظہ کی ہیں۔ ایسی مثالیں اس سے پہلے بھی گزر چکی ہیں۔

(۵)    بعض افریقی ممالک کے مصاحف میں ’’لِلّہِ‘‘(#) کو ہر جگہ اس طرح لکھتے ہیں کہ صرف ابتدائی لام اور آخری ھا کی کسرہ (ـــــِـــــ)  لکھ دی جاتی ہے اور درمیانی ’’لام‘‘ کو ہر طرح کی حرکت سے خالی رکھا جاتا ہے ۔ اور غانا میں تو اسے لکھتے بھی خاص انداز میں ہیں ۔یعنی بصورت (  (# (جیسے ہمارے ہاں  اردو فارسی میں ’’اللہ یار ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔) ویسے وَاللہُ ، بِاللہِ( #) وغیرہ میں وہ درمیانی لام پر تشدید اور حرکت ڈالتے ہیں صرف بصورت ’’لِلہِ‘‘   (#)ایسا نہیں کرتے۔ پڑھنے کا طریقہ غالباً استاد سے زبانی سیکھا جاتا ہوگا۔

 

 



   [1]   البتّہ ’’یَا اَللہُ‘‘ کہہ سکتے ہیں (یعنی ھمزئہ وصل کی بجائے ھمزئہ قطع کے ساتھ) اور اس مقصد (یعنی اللہ عزوجل کو پکارنے) کے لیے شروع میں ’’یَا‘‘ لگانے کی بجائے آخر پر ’’مَّ‘‘ لگانا زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے یعنی ’’اَللّٰھُمَّ‘‘ کی صورت میں اس پر مزید بحث آگے آئے گی۔