سورۃ البقرہ آیت نمبر  ۲۳ اور ۲۴

۱۷:۲      وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ  مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا  فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ ص وَادْعُوْا شُہَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (۲۳) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُواالنَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُج  اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ (۲۴)

۱:۱۷:۲      اللغۃ

       ]وَ[ کے معنی و استعمال پر الفاتحہ:۱   یعنی ۱:۴:۱(۳) میں  بات ہو چکی ہے۔

۱:۱۷:۲(۱)      ]اِنْ[ یہ حرف  عربی زبان میں کئی معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ اہم مواقع حسب ذیل ہیں:۔

(۱)      ’’اِنْ ‘‘ شرطیہ  ـــ زیادہ تر یہ حرف ِشرط کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔اور اس صورت میں یہ دو فعل مضارع کو جَزْم دیتا ہے یعنی جو فعل مضارع شرط میں آئے اور جو جوابِ شرط میں آئے دونوں مجزوم ہوتے ہیں اگر مضارع کی بجائے فعل ماضی آئے (جیسے آیت زیر مطالعہ میں دودفعہ آیا ہے) تو اس پر اس (اِنْ) کا کوئی عمل نہیں ہوتا۔ ’’ اِنْ ‘‘ شرطیہ کا اردوترجمہ عموما’’اگر‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ جیسے ’’اِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ‘‘ (اگر تم لَوٹو گے تو ہم بھی لَوٹیں گے)۔

(۲)     اِنْ نافیہ : یہ ’’لیس‘‘ اور ’’ما‘‘ (نافیہ) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اگرچہ عموماً اِنْ کا عمل (اسم کو رفع اور خبر کو نصب دینا) نہیں کرتا۔ زیادہ تر اس کے بعد جملے میں حرف استثناء ’’اِلَّا‘‘ آتا ہے۔ اس کا ترجمہ عموماً ’’نہیں (ہے/ہیں/ہو)‘‘سے کیا جاتا ہے۔ جیسے ’’اِنِ الکافِرُون اِلَّا فی غرور‘‘(نہیں ہیں کافر مگر دھوکے میں) بامحاورہ ترجمہ کے لیے ایسی صورت میں اس کا ترجمہ ’’صرف‘‘ یا محض کے ساتھ مثبت جملے کی صورت میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً (کافر محض دھوکے میں ہیں)

(۳)    اِنْ مخفّفہ: یہ دراصل ’’ اِنَّ ‘‘ ہی ہوتا ہے اس کا ترجمہ بھی وہی ’’بے شک‘‘ یا ’’یقینا‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔ البتہ   اس کا حرف مشبہ بالفعل والا عمل (اسم کو نصب اور خبر کو رفع دینا) عموماً ختم ہو جاتا ہے۔   اس کی خبر پر ’’لام‘‘ (لَ) لگتا ہے جو دراصل ’’ اِنْ ‘‘ کے اسم یا خبر پر آنے والا’’لام مزحلقہ ‘‘ ہی ہوتا ہے مگر ’’اِنْ‘‘  مخففہ  کی صورت میں نحوی اسے"لامِ فارقہ" کہتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے ہی "اِنْ "مخففہ کو اِنْ شرطیہ یا  اِنْ نافیہ سے الگ پہچانا جا تا ہے۔

(۴)    کبھی  اِنْ شرطیہ کو لائے نافیہ کے ساتھ ملا کر لکھ دیتے ہیں یعنی ’’اِنْ لا‘‘ کو ’’اِلَّا‘‘ کی طرح لکھتے ہیں۔ اس وقت اس کی ’’ اِلَّا استثنائیہ‘‘ سے تمیز ضروری ہے۔ اور اس کا ترجمہ ’’اگرنہ‘‘ سے کیا جاتا ہے۔’’ اِنْ لا ‘‘ کی یہ صورت (اِلَّا) قرآن کریم میں متعدد جگہ ہمارے سامنے آئے گی۔

(۵)کبھی ’’ اِنْ زائدہ‘‘ ہوتا ہے اور یہ عموماً ’’ما‘‘ (نافیہ، موصولہ اور مصدریہ) یا ’’ ألاَ (استفتاحیہ)کے بعد آتا ہے۔ اس کا کوئی الگ ترجمہ نہیں کیا جاسکتا البتہ اس سے معنوں میں تاکید اور زور کا پہلو پیدا ہوجاتا ہے۔ اس قسم کے ’’ اِنْ ‘‘(زائدہ) کا قرآن میں غالباً استعمال نہیں آیا البتہ عربی اشعار میں یہ آتا ہے۔ اس لیے نحو کی کتابوں میں اس کی مثالیں بھی اشعار سے ہی دی جاتی ہیں۔[1]

·       ’’ اِنْ ‘‘ کی مندرجہ بالا مختلف صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’ اِنْ ‘‘  کا اردوترجمہ حسب ِموقع ’’اگر‘‘، ’’نہیں‘‘ اور ’’بے شک‘‘ سے کیا جاتا ہے۔

 [كُنْتُمْ]  کا مادہ ’’ک و ن‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْتُمْ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل تو ’’کَوَنْتُمْ‘‘ تھی  ـــ عرب لوگ بولتے وقت اجوف (وادی یا یائی) کے ماضی کے ایسے (لام کلمہ ساکن ہونے والے) تمام صیغوں میں ’’واو‘‘ (یا’’  ی‘‘) کو گرا دیتے ہیں اور فاء کلمہ (جو یہاں ’’ک‘‘ ہے) کو فعل کے باب نصرَ یا کرُم سے ہونے کی صورت میں ضمہ (ـــــُـــــ) اور باقی تمام ابواب سے آنے کی صورت میں اسے (فاء کلمہ کو) کسرہ (ـــــِــــ) دے کر بولتے ہیں۔ اس قاعدے کے تحت ہی ’’ کَوَنْتُمْ ‘‘ سے ’’ كُنْتُمْ ‘‘  بن گیا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’کان یکُون کَوْنا‘‘ (باب نصر سے) بمعنی ’’ہونا، ہوجانا‘‘ کے استعمال پر البقرہ:۱۰  یعنی ۱:۸:۲(۱۰)میں بات ہوچکی ہے۔ اکثر تو یہ فعل (ماضی ہو یا مضارع، بطور فعل ناقص استعمال ہوتا ہے۔ اور اپنے اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتا ہے۔ کبھی یہ (کان یکون) مستقل اور مکمل فعل کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اسے ’’ناقصہ ‘‘ کی بجائے (کان) ’’تامہ‘‘ کہتے ہیں اور اس صورت میں اس کی خبر نہیں ہوتی بلکہ صرف اس کا فاعل مذکور ہوتا ہے۔ موقع استعمال کے لحاظ سے اس کے معنی متعین کرنے کے کچھ اصول ہیں جن کا بیان حسب ضرورت اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

]فِىْ رَيْبٍ[ ’’فِی‘‘ کے معانی و استعمال اور ’’ریب‘‘ کے مادہ‘  فعل مجرد اور معنی وغیرہ کی بحث البقرہ: ۲ یعنی ۱:۱:۲(۴) اور(۵)میں گزر چکی ہے ـــ  یہاں ’’ فی ریبٍ‘‘ کا ترجمہ ’’کسی قسم کے شک میں‘‘ ہوگا۔

]مِمَّا[ جو دراصل ’’مِن+مَا‘‘ ہے۔ ’’مِنْ‘‘ اور ’’مَا‘‘ کے مختلف معانی البقرہ:۳ یعنی ۱:۲:۲(۵) میں بیان ہوچکے ہیں۔ یہاں ’’مِنْ‘‘ محض ’’میں سے‘‘کی بجائے ’’کے بارے میں‘‘کے معنی میں آیا ہے اور مَاموصولہ (بمعنی جو کچھ یا جو کہ)ہے۔ اس طرح یہاں ’’ مِمّا ‘‘ کا ترجمہ  ہے ’’اس چیز کے بارے میں جو کہ‘‘ ـــ  اگرچہ بعض مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’میں سے‘‘ کی بناء پر ’’اس سے جو کہ‘‘کے ساتھ بھی کردیا ہے مگر ان کا بھی مفہوم وہی ’’(کے بارے میں" والا)ہے۔ البقرہ:  ۳یعنی ۱:۱:۲(۵)میں آنے والے ’’ مِمّا ‘‘ اور اس (زیر مطالعہ) ’’ مِمَّا ‘‘ کے معنوں میں فرق کو ذہن میں رکھیے۔

۱:۱۷:۲(۲)      ]نَزَّلْنَا[ کا مادہ ’’ن ز ل‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْنَا‘‘ ہے۔ یعنی اس مادہ سے باب تفعیل کا فعل ماضی صیغہ جمع متکلم ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد  ـــ نزَل ینزِل نزولًا ـــ  کے معنی وغیرہ پر البقرہ:۴ یعنی ۱:۳:۲(۲)میں بات ہوچکی ہے۔ اس مادہ (نزل) سے باب تفعیل کے فعل ’’نَزَّل …یُنَزِّل تنزیلًا‘‘ کے معنی ’’…کو اتارنا، …کو نازل کرنا‘‘ ہیں یہ فعل ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ اس کا مفعول (یعنی جو چیز اتاری جائے) مذکور نہیں ہوتا۔ البتہ دوسرا مفعول (جس کی طرف کوئی چیز اتاری جائے) اگر مذکور ہو تو وہ ’’علی‘‘ یا ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ مذکور ہوتا ہے۔

بعض اصحاب لغت [2]  کے نزدیک ’’تنزیل‘‘ (مصدر تفعیل) میں ’’بتدریج اور کئی بار یکے بعد دیگرے‘‘ اتارنے کا مفہوم ہوتا ہے جب کہ ’’اِنْزَال‘‘ (مصدر اِفْعَال)اس سے زیادہ عام ہے یعنی اس میں کسی بھی طریقے پر اتارنا مراد ہوسکتا ہے۔ تدریجی ہو یا غیر تدریجی۔ ایک ہی بار ہو یا کئی بار۔

۱:۱۷:۲(۳)      ]عَلٰي عَبْدِنَا[ ’’عَلٰی‘‘ کے معنی و استعمال پر اس سے پہلے الفاتحہ:۷ یعنی ۱:۶:۱(۳)میں بات ہوچکی ہے۔ جویہاں ’’پر‘‘ یا ’’کے اوپر‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔

·       ’’ عبدنا‘‘ میں آخری ’’نا‘‘ تو ضمیر مجرو ر متصل بمعنی ٔ ’’ہمارا‘‘ ہے اور ’’عَبْدٌ‘‘ (جو یہاں مجرور بھی ہے اور مضاف بھی۔ اور اس لیے بصورت ’’عَبْدِ‘‘ آیا ہے) کا مادہ ’’ع ب د‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے ـــ  اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد عَبَدَ یعبُد عبادۃً  ـــ کے باب اور معنی وغیرہ پر الفاتحہ:۵  یعنی ۱:۴:۱(۲)میں بات ہوچکی ہے۔

·       کلمہ ’’عَبْدٌ‘‘ جو اس مادہ سے ایک اسم جامد ہے ـــ  کے بنیادی معنی دو ہیں اور قرآن کریم میں یہ ان دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔

(۱)     بندہ، مملوک(زیر ملکیت) جسے انگریزی میں SLAVE، فارسی میں بندہ اور اردو میں غلام سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان معنوں میں یہ لفظ مذکر کے لیے آتا ہے اور اس کی مونث ’’أَمَۃٌ‘‘ (لونڈی) ہے۔]اور یہ لفظ بھی قرآن کریم میں وارد ہوا ہے جس پر بحث اپنی جگہ ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ[ ۔ ان معنوں  کے لیے لفظ ’’ عبدٌ ‘‘ کی جمع عموما ’’عَبِیْدٌ‘‘ آتی ہے۔ اگرچہ ’’عِباد‘‘ بھی مستعمل ہے اور خود قرآن کریم میں یہ دونوں جمعین (عبِیْد اور عِباد) اسی معنی کے لیے آئی ہیں۔

(۲)     ’’ عبد ‘‘ کے دوسرے معنی ہیں ’’مطیع، عبادت گزار اور اطاعت شعار شخص‘‘ اس صورت میں یہ لفظ مذکر و مؤنث دونوں پر بولا جاتا ہے اور عموماً اس کی جمع ’’عِباد‘‘ آتی ہے۔ اہل جاہلیت (عرب) اسے اپنے غیر اللہ معبودوں کے مطیع اور عابد کے معنی میں بھی استعمال کرتے تھے بلکہ بتوں اور دیوتاؤں کے ناموں کی طرف مُضاف کرکے نام بھی رکھتے تھے مثلاً عبد الشمس، عبد العزّٰی وغیرہ۔ اسی لیے اسلام میں ان دوسرے معنی میں ’’ عبد ‘‘کی اضافت کسی بھی غیر اللہ کی طرف حرام اور ناجائز ہے۔البتہ پہلے معنی کے لحاظ سے درست ہوسکتی ہے۔

·       اور ان دونوں معنی کے لحاظ سے ہر انسان (بلکہ جنّ یا فرشتہ بھی) اللہ تعالیٰ کا ’’ عبد ‘‘ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ (عبد) ۔ واحد یا بصورت ِجمع ـــ  جب اللہ تعالیٰ کے پاک نام کی طرف (جیسے عبد اللہ) یا اللہ تعالیٰ کے لیے کسی ضمیر کی طرف مضاف ہو( جیسے عبدہٗ، عبدنا میں) تو یہ عموماً اس (عبد) کی ایک بڑی عزت اور تکریم کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے یہاں (آیتِ زیر مطالعہ میں)’’ عبدنا ‘‘آیا ہے۔ اس قسم کے مزید استعمالات آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گے۔

۱:۱۷:۲(۴)     [فَأْتُوْا بِسُوْرَةٍ[  ـــ یہ دو لفظ ہیں ایک فعل ’’فَأْتُوْابِ…‘‘ اور ایک اسم ’’سُوْرَۃ‘‘ــ  ہر ایک کی الگ الگ لغوی تشریح کی جاتی ہے:۔

          ’’ فَأتُوْا بِ…‘‘ بھی دراصل تین کلمات یعنی ’’فَ+اِئْتُوا+بِ کا مرکب ہے۔ اس کی ابتدائی فاء (فَ) تو حرف عطف بمعنی ٔ ’’پس‘‘ یا ’’تو پھر‘‘ ہے۔ اور آخری باء (بِ) فعل کا صلہ ہے جو اس کے معنی متعین کرتا ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان ہوگا۔

·       فعل ’’ اِئْتُوْا‘‘ کا مادہ ’’أ ت ی‘‘ اور وزن اصلی ’’اِفْعِلُوْا‘‘ہے۔ یعنی یہ فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’اِئْتِیُوْ ا‘‘تھی۔ جس میں واو الجمع سے ماقبل والی یاء (ی) جو لام کلمہ ہے ساقط کر دی جاتی ہے۔ اَور اس سے ماقبل    کے عینِ کلمہ کو (جو یہاں ’’ت‘‘ ہے) مکسور (تِ) ہونے کی بناء پر ضمہ (ـــــُـــــ) دے دیا جاتا ہے۔ (اگرعین کلمہ مفتوح یا مضموم ہو تو وہ ضمہ (ــــُـــــ)یا فتحہ (ــــــَــــ) برقرار رہتا ہے)  ـــ   اور شروع کا ’’اِءْ ‘‘ یا اِءْ ؎‘‘ ( #) مہموز کے قاعدہ تخفیف کی بناء پر اب ’’اِیْ‘‘ میں بدل جاتا ہے (دو ہمزوں کے جمع ہونے کی بنا پر جن میں پہلا مکسور اور دوسرا ساکن ہے) تاہم چونکہ اس (اِءْ؎ =اِیْ؎")# کا پہلا ہمزہ ہمزۃ الوصل اور دوسرا (اصل مادہ کا) ہمزۃ القطع ہے (جو ضرورتًا ’’ی‘‘ میں بدل دیا گیا ہے۔ اس لیے جب اس (اِءْ؎  یااِیْ؎)#  سے پہلے ’’واو‘‘ یا ’’فاء‘‘ عاطفہ آجائے تو یہ ’’ی‘‘ میں بدل جانے والا ہمزہ ساکنہ (تلفظ میں) دوبارہ لَوٹ آتا ہے۔ مگر اب اس کے شروع والا ہمزۃ الوصل تلفظ بلکہ کتابت میں بھی گرادیا جاتا ہے ـــ  البتہ اگر ’’فَ‘‘ یا ’’وَ‘‘ کی بجائے کسی اور حرف (عطف)سے ملائیں تو یہ ہمزۃ الوصل لکھنے میں برقرار رہتا ہے۔ (اگرچہ پڑھنے میں نہیں آتا) جیسے ’’ ثُمَّ ائْتُوا ‘‘ (طہ : ۶۴) میں ہے۔

·       اس مادہ (أ ت ی)سے فعل ثلاثی مجرد ’’أتٰی  یَأْتِی   اِتْیانًا‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اس کے معنی دو ہیں (۱) آنا۔ جو لازم ہے مگر بعض دفعہ ’’جاء‘‘ کی طرح اس کے ساتھ ایک مفعول بھی آجاتا ہے۔ (جیسے ’’جاء ہ‘‘یا ’’اتاہ‘‘ میں) اس وقت اس کا ترجمہ ’’… کے پاس آنا‘‘ ہوتا ہے (۲) … (کوئی کام) …کرنا۔ یعنی بطور متعدی آتا ہے۔ جیسے  ’’اتی الامرَ‘‘ اس نے وہ کام کیا‘‘ مختلف صلات (عموماً ’’بِ‘‘ یا ’’علی‘‘ کے ساتھ یہ فعل مختلف معنی دیتا ہے ۔ مثلاً’’أَتی بِ … =کو لانا،’’أَتی علی …=پر سے گزرنا، …کو ختم کردینا وغیرہ۔ اس کے یہ تمام استعمالات قرآن کریم میں آئے ہیں۔ جن کا بیان اپنے اپنے موقع پر آئے گا۔ ان شاء اللہ

·       یہاں (زیر مطالعہ آیت میں)یہ فعل باء(بِ) کے صلہ کے ساتھ بمعنی ’’لانا، لے آنا‘‘ آیا ہے۔ اور یہ ’’ فَأتوا بِ ‘‘ اسی سے فعل امر کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ’’تم لے آؤ‘‘ ـــ  فعل مجرد ’ ’’أتٰی یأتِی ‘‘ سے فعل امر ’’اِئْتِ‘‘ (دراصل اِئْتِیْ،  اِئتِیا، اِئتُوا، اِئتِیْ، ائُتِیا اور اِئتِیْنَ‘‘ )بنتا ہے جس کے تمام صیغوں میں ہمزہ کو یاء(ی) میں بدل کر پڑھا اور لکھا جاتا ہے یعنی ’’اِیْتِ، اِیْتیا، اِیتُوا، اِیْتِیْ، اِیْتِیا، اور اِیْتِینَ‘‘ کی صورت میں اور کسی ماقبل متحرک (’’وَ‘‘ یا  فَ وغیرہ)سے ملنے کی صورت میں اصل مادہ والا ہمزہ (جو بوجہ تخفیف ’’ی‘‘ میں بدلا تھا) پھر لوٹ آتا ہے۔ جیسا کہ ابھی اوپر ’’ فأتوا ‘‘ کی اصلی اور استعمالی شکل کے سلسلے میں بیان ہوا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل امر کے صرف تین صیغے ’’ ’اِئتِ ، اِئْتِیا اور اِئْتُوا ‘‘ ( یعنی واحد ، تثنیہ اور جمع حاضر کے صیغے) ۳۸ جگہ آئے ہیں۔ زیادہ تر ماقبل متحرک سے مل کر اور ایک آدھ جگہ اس کے بغیر (صرف ھمزۃ الوصل کے ساتھ) بھی ـــ  یہ سب صورتیں اپنی اپنی جگہ ہمارے سامنے آئیں گی۔ ان شاء اللہ

۱:۱۷:۲(۵)      ]بِسُوْرَةٍ[ میں ابتدائی باء (بِ) تو فعل اتٰی یَأتِی کا صلہ ہے۔ جس کی وضاحت ابھی اوپر کی گئی ہے۔ اور لفظ ’’سورۃٌ‘‘ کا مادہ ’’س و ر‘‘ یا بقول بعض ’’س ء ر‘‘ہے اور وزن دونوں صورتوں میں ’’فُعْلَۃٌ‘‘ ہے ان مادوں کے افعال ثلاثی مجرد کے باب ‘ معنی اور لفظ ’’سورۃ‘‘ کے ساتھ اس کے تعلق کے بارے میں سورۃ الفاتحہ کے تعارفی حصے میں بات ہوئی تھی۔ چونکہ قطعہ بندی کا طریقہ اس کے بعد اختیار کیا گیا اس لیے یہاں ہم اس بحث کا اعادہ کیے دیتے ہیں

          لفظ’’سورہ ‘‘کی لغوی اصل کے بارے میں دو قول ہیں:

۱: پہلا قول: اس کا مادہ ’’س و ر‘‘ اور وزن ’’فُعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس کا فعل ثلاثی مجرد سَار یسُور سَوْرًا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: بلند ہونا، دیوار پر چڑھنا‘‘ ـــ  اس مادہ سے ہی باب ’’تفعّل‘‘ کا ایک صیغہ فعل ’’تَسَوَّرُوا‘‘ قرآن کریم میں آیا ہے (ص:۲۱) ـــ  اور اس مادہ سے ہی لفظ ’’سُوْر‘‘ بمعنی شہر کی فصیل (بیرونی حفاظتی دیوار) آتا ہے اور یہ لفظ بھی قرآن کریم میں (الحدید:۱۳) آیا ہے۔ اس لفظ (سُوْرٌ) کے ایک معنی درجہ اور منزلت بھی ہیں اور عربی زبان میں کامل اور مکمل (بلحاظ عمر وقوت) اونٹنی کو بھی ’’سُوْرَۃٌ ‘‘ کہتے ہیں۔

۲: دوسرا قول: یہ ہے کہ اس کا مادہ ’’س ء ر‘‘ اور وزن ’’فُعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سَأَر یَسْأَرُ سُؤْرًا (باب فتح سے) اور سئِر یَسْأَرُ سُؤْرًا(باب سمع سے) آتا ہے۔ اور ہر دو کے معنی ہیں۔ باقی بچنا، کچھ حصہ باقی رہ جانا‘‘ اور ’’سُؤْرۃٌ‘‘ کے معنی ہیں ’’بقایا حصہ‘‘یا (صرف) ’’حصّہ‘‘۔۔ اوراس میں ہمزہ ساکنہ ماقبل متحرک کو اس حرکت کے موافق حرف (ا ، و ، ی) کی صورت میں پڑھنا جائز ہے یعنی عرب اس طرح بھی بولتے ہیں اس بناء پر ’’سُؤْرۃٌ‘‘ کو ’’سُوْرۃٌ‘‘ بولنا بھی جائز ہے۔ ویسے یہ مادہ (س ء ر) اوراس سے کوئی فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔

          اس طرح لفظ ’’سورۃ‘‘ میں رتبہ، درجہ ، منزلت، ایک مکمل وحدت (UNIT) اور حصہ کے معنی شامل ہیں۔ اب یہ لفظ اصطلاحاً  قرآن کریم کے ایک مقررہ حصے پر بولا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں کل ایک سو چودہ (۱۱۴) سورتیں ہیں جن کے نام اور آیتوں کی اندرونی ترتیب سب توقیفی ہے۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہے۔ لفظ ’’سورۃ‘‘ اپنے  ان ہی اصطلاحی معنوں اور اسی صورت کے ساتھ اردو، فارسی میں بھی مستعمل ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ یہاں اس کی املاء ’’سورت‘‘ (لمبی ت کے ساتھ) ہے۔

۱:۱۷:۲(۶) ]مِنْ مِّثْلِهٖ[جو مِن+مثل +ہ کا مرکب ہے۔ اس میں ’’مِنْ‘‘ بمعنی ’’کچھ‘‘ یا ’’ازقسم‘‘ ہے۔ یعنی یہ تبعیض کا بھی ہوسکتا ہے۔ اور بیانیہ بھی ـــ ]دیکھئے ۱:۲:۲ (۵)[ ـــ اورآخری ’’ہ‘‘ (ھا) ضمیر مجرور متصل بمعنی ’’اس کا‘‘ ہے۔

·       لفظ ’’مِثْلٌ‘‘ کا مادہ ’’م ث ل‘‘ اور وزن ’’فِعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ کے فعل مجرد کے بارے میں (جو قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا) اس سے پہلے البقرہ: ۱۷ یعنی ۱:۱۳:۲(۱)میں بات ہوچکی ہے۔

          ’’ مِثْلٌ ‘‘ اسی مادہ سے ایک اسمِ جامد ہے۔ اور اس کے معنی ہیں ’’مانند‘‘ نظیر، جیسا، ویسا ہی‘‘ یہ لفظ عموما ًواحد تثنیہ جمع، مذکرمونث سب کے لیے یکساں رہتا ہے یعنی کہیں گے ’’ھو مثلُہ، ھما مثلہ، ھی مثلہ، ھم مثلہ، اور ھُنَّ مِثلُہ‘‘ ـــ  اور کبھی جمع کے لیے ’’اَمثال‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’ھم اَمثالُکم‘‘ قرآن کریم میں اس لفظ کے اس طرح بصورت واحد اور بصورت جمع استعمال کی (دونوں طرح کی) مثالیں موجود ہیں۔

          اردو کے بعض مترجمین نے یہاں ’’مِن‘‘ کو بیانیہ سمجھتے ہوئے ’’ مِن مثلِه ‘‘ کا ترجمہ ’’اس قسم کی، جو اس کے ہم پلہ ہو، اس کے جوڑ کی ‘‘سے کیا ہے۔ اور بعض نے ’’مِنْ‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے ترجمہ ’’اس کی مانند، اس جیسی، اسی جیسی، اس طرح کی‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ یعنی صرف ’’مثل‘‘ کے ترجمہ پر اکتفاکیا ہے۔ نیز دیکھئے ’’ الاعراب‘‘

۱:۱۷:۲(۷)      ]وَادْعُوْا[ میں ابتدائی ’’واو‘‘ تو عاطفہ بمعنی ’’اور ہے‘‘    اور ’’ادْعُوْا‘‘ کا مادہ ’’د ع و‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلُوْا‘‘ ہے۔ یعنی یہ فعل امر کا صیغۃ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’اُدْعُوُوْا‘‘ تھی جس میں واو الجمع سے ماقبل آنے والی واو مضمومہ (جو لام کلمہ ہے) ساقط کردی جاتی ہے اور عین کلمہ (جویہاں’’ع‘‘ ہی ہے) کا ضمہ برقرار رہتا ہے۔ (ابھی اوپر ’’فَأتوا‘‘ کے بیان میں یہ قاعدہ تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ ’’اُدْعُوْا‘‘ کا ابتدائی ھمزۃ الوصل واو عاطفہ سے ملنے کے باعث تلفظ سے ساقط ہو جاتا ہے۔ اگرچہ خطاً (کتابت میں)برقرار رہتا ہے۔

·       اس مادہ (دعو)سے فعل ثلاثی مجرد ’’دعا… یدعُو دُعاءً وَ دَعْوَۃً وَ دَعْوًی‘‘ ـــ  جو دراصل دعَوَ یَدْعُوُ دُعاوًا تھا۔ (باب نصر سے) آتا ہے۔ اور اس کے معنی ہیں ’’ …کو پکارنا، …سے دعا مانگنا، …کو (مدد کے لیے) بلانا‘‘۔ اور اگر مصدر ’’ دعوۃ‘‘ہو  ـــ یعنی ’’دَعا دَعْوَۃٌ‘‘ تو اس کے معنی عموماً کھانے پر بلانے کے ہوتے ہیں۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی استعمال ہوتا ہے اور عموماً مفعول بنفسہٖ کے ساتھ( بغیر صلہ کے)آتا ہے۔ تاہم مختلف صلات (لِ ، علی، الی) کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے جس سے اس کے معنی بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل (ثلاثی مجرد) کے، صلہ کے ساتھ اور صلہ کے بغیر مختلف صیغے  ۱۷۰ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ اور اس سے مختلف مصادر اور اسماء مشتقہ کے چالیس (۴۰)کے قریب الفاظ اور باب افتعال سے بھی اَفْعال کے چار صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ ان سب کا بیان اپنی اپنی جگہ پرآئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۱:۱۷:۲(۸)     ]شُهَدَاۗءَكُمْ[ میں آخری ’’کُم‘‘ تو ضمیر مجرور متصل ہے۔ جس کا ترجمہ ’’تمہارے، اپنے ‘‘ کے ساتھ ہوگا۔ اور ’’شھداءَ‘‘جو یہاں منصوب ہے۔ کا مادہ ’’ش ھ د‘‘ اور وزن(بصورت رفع)  ’’فُعَلَاءُ‘‘ (غیر منصرف) ہے جو ’’شھیدٌ‘‘ بروزن ’’فعِیْلٌ‘‘ کی جمع مکسر ہے۔ اس مادہ (شھد) سے فعل ثلاثی مجرد ’’شَھِدَ…یشھَدُ شُھُودًا (باب سَمِع سے) بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں‘‘ ـــ  کے موقع پر موجود ہونا، …کا معائنہ کرنا‘‘ اور اگر اسی باب (شھِدیشھَد) سے مصدر شھادۃً ہو تو اس کے معنی ’’گواہی دینا اور بچشم خود یکھنا‘‘ کے ہوتے ہیں۔ اور کبھی یہ اقرار کرنا اور جان لینا‘‘کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اور مختلف صلات(مثلاً لِ ،بِ،  علی) کے ساتھ اس کے معنی مختلف ہوجاتے ہیں۔ جن میں سے بعض قرآن کریم میں بھی آئے ہیں۔

·       اس (زیرِ مطالعہ) لفظ ’’ شهداء ‘‘ کا واحد ’’شہید‘‘ ہے جو اس مادہ کے فعل ثلاثی مجرد سے اسم صفت یا اسم مبالغہ بروزن ’’فعیل‘‘ ہے۔ اور یہ اسی فعل سے اسم فاعل ’’شاھد‘‘ (گواہ) کے معنی بھی دیتا ہے۔ اور خود قرآ ن کریم میں بھی (کم از کم البقرہ: ۲۸۲میں تو) یہ ان ہی معنوں میں آیا ہے۔ تاہم ’’ شھید ‘‘ کے معنی میں ’’شاھد‘‘ سے زیادہ وسعت اور عموم ہے۔اس کے معنی میں ’’موقع پر حاضر رہنا، موجود ہونا، دیکھنا اور نگرانی کرنا، نظر رکھنا اور نگہبانی کرنا‘‘ کا مفہوم شامل ہے۔ اسی لیے بعض نے اس لفظ (شھید) کے معنی ’’سب کچھ جاننے والا‘‘ اور ’’ جس کے علم سے کوئی چیز غائب نہ ہو‘‘ بیان کئے ہیں۔ تاہم خود لفظ ’’شھید‘‘ میں یہ معنی موجود نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ استعمال ہونے والے بعض الفاظ یہ معنی پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً ’’ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْد ‘‘(المجادلہ:۶، المائدہ:۱۱۷ وغیرہ) کی قسم کی عبارتوں میںـــ  اور چونکہ شھید بمعنی ’’گواہ‘‘ میں ایک طرح سے (جس کے حق میں گواہی دی جائے اس کی)حمایت او ر مدد کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے۔ اس لیے’’ شھید ‘‘کے ایک معنی ’’مدد گار اور حمایتی‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہاں(زیر ِمطالعہ آیت میں) بیشتر اردو مترجمین نے ’’شھداء‘‘ کا ترجمہ ’’مددگاروں، حمایتیوں‘‘ کی صورت میں کیا ہے ـــ   راہِ خدا میں جان دینے والے کے لیے لفظ ’’شھید‘‘ قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔  (صرف ایک موقعہ پر  ـــ آل عمران:۱۴۰ ـــ  ان معنی کا امکا ن ہے) تاہم حدیث شریف میں استعمال ہونے کی بناء پر یہ ’’اصطلاح‘‘ مسلمانوں میں رائج ہوگئی ہے۔ اور اب تو اس کے بے محابا استعمال سے ایک  کامطعون  دوسرے کا شہید ہے۔

·       اس مادہ (شھد) سے فعل ثلاثی مجرد کے مختلف صیغے ۴۴ دفعہ اور اس سے مشتق اسماء و مصادر کے مختلف صیغے قرآن کریم میں ۱۰۷ دفعہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ بابِ افعال سے کچھ صیغے سات جگہ اور باب استفعال کے بھی دو صیغے وارد ہوئے ہیں۔ خود یہ لفظ (شھداء) قرآن میں بیس (۲۰)جگہ اور اس کا واحد (شھید)  کل ۳۶ دفعہ استعمال ہوا۔ ہے ان مختلف استعمالات سے حسبِ موقع اس کے معنوں کا تعین کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

۱:۱۷:۲(۹)      [مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ[ کے اسم جلالت (اللہ) پر لغوی بحث سورۃ الفاتحہ کے شروع میں ۱:۱:۱(۲)ہوچکی ہے۔ اور ’’ من دونِ ‘‘میں ’’مِن‘‘ حرف جر ہے جو ’’من قبل‘‘ اور ’’من بعد‘‘ کی طرح لفظ ’’دون‘‘ کے معنی کی وضاحت کرتا ہے۔

·       لفظ ’’ دُوْنَ ‘‘ جس کا مادہ ’’دون‘‘ اور وزن ’’فُعْلٌ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’دان یَدُون دُوْنًا‘‘ (باب نصر سے) بمعنی گھٹیا یا کمزور ہونا آتا ہے۔ بلکہ تاہم قرآن کریم میں تو اس مادہ سے کسی قسم کا (مجرد یا مزید فیہ) فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       لفظ ’’ دُوْنٌ ‘‘دراصل تو ’’معرب‘‘ ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’کم تر، گھٹیا، ناقص اور حقیر‘‘ کے ہیں اور اسی معنی میں یہ اردو فارسی میں بھی مستعمل ہے۔ جیسے ’’دنیائے دوں‘‘میں۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفط بطور اسم معر ب کہیں استعمال نہیں ہوا ـــ  اس لفظ (دُوْن) کا زیادہ استعمال ظرفیت (حقیقی یا معنوی) کے لیے ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے یہ ہمیشہ منصوب اور مضاف ہو کر (قبل اور بعد کی طرح) استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’ دُوْنَ الْجَــهْرِ‘‘ (الاعراف:۲۰۵) دُوْنَ الْعَذَاب( السجدہ:۲۱) دُوْنَ اللّٰهِ  (الصفّٰت: ۸۶) میں  ـــ اور اس (اضافت والی) صورت میں بیشتر اس سے پہلے ’’مِنْ‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’مِن دونِ اللہِ ‘‘ (آیت زیر مطالعہ میں)۔ اس اضافت والے استعمال کی صورت میں اس لفظ (دون) کے حسبِ موقع متعدد معنی ہوتے ہیں۔ مثلاً (۱)… کے علاوہ، …کے سوا ، (۲) …کو چھوڑ کر (۳) … کے خلاف (۴) … کے بغیر  (۵)… کے مقابلے پر (۶) … سے کم تر ، (۷) … کے نیچے (۸)… کے ہمراہ (۹)… کے سامنے (۱۰)…کے پیچھے (۱۱)… کے درمیان (۱۲) … کے نزدیک (نقطوں والی خالی جگہ اس کے مضاف الیہ کے لیے ہے)۔

·       قرآن کریم میں یہ لفظ (دُوْنَ) ’’مِن‘‘ کے بغیر صرف ۹ جگہ مگر ’’مِن‘‘ کے ساتھ ۱۳۲ جگہ آیا ہے ـــ  زیر مطالعہ آیت میں مترجمین نے عموماً اس کا ترجمہ ’’…کے سوا، …سے الگ اور … کے مقابلے پر‘‘ سے کیا ہے۔

۱:۱۷:۲(۱۰)       ]اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ[ میں ’’ اِن ‘‘ شرطیہ بمعنی ’’اگر‘‘ہے اور ’’ كنتم ‘‘ فعل ناقص بمعنی ’’تم ہو‘‘ہے۔ ان دونوں کلمات (’’ان‘‘ اور ’’کنتم‘‘) پر ذرا تفصیلی لغوی بحث اوپر اسی زیرِ مطالعہ آیت کے شروع میں ہوچکی ہے۔دیکھئے ۱:۱۷:۲(۱)

·       ’’ صٰدقين‘‘جس کی عام عربی املاء ’’صادقین‘‘ ہے کا مادہ ’’ص د ق‘‘اور وزن ’’فاعلین‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد’’ صدَق … یصدُق صدقًا‘‘ (باب نصر سے)آتا ہے اور یہ لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اس کے بنیادی معنی توہیں (۱) ’’سچا ہونا، سچ بولنا یا سچ کہنا‘‘ مگر کبھی یہ (۲) ’’سے سچ بولنا، …کا وفادار رہنا، …کو سچاکرنا یعنی اس کا سچ ثابت کرنا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس (دوسری) صورت میں اس کا مفعول  ـــ بلکہ بعض دفعہ دو مفعول  ـــ مذکور ہوتے ہیں۔ یعنی (۱) جس سے سچ بولا جائے اور (۲) جس چیز کے بارے میں سچ بولاجائے  ـــ دونوں ہی مفعول منصوب(بغیر صلہ کے۔ بنفسہ) ہوکر آتے ہیں۔ جیسے ’’ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ (آل عمران: ۱۵۲) یا ’’ ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ (الانبیاء:۹)میں ہے ان تمام استعمالات کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

·       ’’صادقِین‘‘ کا واحد ’’صادق‘‘ہے جو اس فعل مجرد (صَدق) سے اسم الفاعل ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’سچ بولنے والا‘‘ کی بجائے صرف ’’سچا‘‘ (اسم ِصفت) سے کرتے ہیں۔ یہ مادہ (ص دق) مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے مختلف ابواب (تفعیل اور تفعل) سے بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے ـــ قرآن کریم میں اس سے فعل مجرّد کے صیغے ۱۵ جگہ اور مزید فیہ کے ابواب سے اَفعال کے مختلف صیغے ۱۶ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ثلاثی مجرد مزید فیہ کے مختلف مصادر اور اسماء مشتقہ کے مختلف صیغے سو (۱۰۰)سے زیادہ جگہ آئے ہیں۔ ان سب پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ

۱:۱۷:۲(۱۱)      ]فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا[ یہ دراصل چار کلمات یعنی ف+اِنْ +لَمْ+تَفْعَلُوْا کا مرکب ہے۔ ابتدائی فاء (فَ) یہاں حرف ِربط کا کام دے رہی ہے اس کا اردو ترجمہ ’’پھر‘‘ یا ’’پس ‘‘ ہی ہوگا۔ اور ’’اِنْ‘‘ حرف ِشرط ہے۔ بمعنی ’’اگر‘‘۔

          ’’فَ‘‘ کے معنی و استعمالات کی مزید وضاحت کے لیے البقرہ: ۲۲ یعنی ۱:۱۶:۲(۱۰) اور ’’اِنْ ‘‘ کے معانی و استعمالات کے لیے (اوپر) البقرہ: ۲۳  ـــ ۱:۱۷:۲(۱)دیکھئے۔ ’’ لَمْ ‘‘ حرفِ جازم ہے۔ جس کے الگ اپنے کوئی معنی نہیں ہوتے مگر یہ فعل مضار ع کی شکل اور معنی میں تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ یعنی یہ (لَمْ) فعلِ مضارع پر داخل ہو (یعنی پہلے آئے)تو اس (فعل مضارع) کو مجزوم کردیتا ہے اور بلحاظ معنی اس (مضارع) میں فعل ماضی منفی بجحد یعنی زور اور تاکید کے ساتھ نفی کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔

’’ تفعلوا ‘‘  کا مادہ ’’ف ع ل‘‘ اور وزن بھی ’’تَفْعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس مادہ (ف ع ل)کے تین حرفوں کو علم الصرف میں مادہ اور وزن کی بنیاد ٹھہرایا جاتا ہے۔ تاہم اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ’’فعَل… یَفعَلُ فَعْلاً‘‘(باب فتح سے)کے معنی ہوتے ہیں ’’…(کوئی کام) …کرنا‘‘ یہ فعل متعدی ہے تاہم استعمال میں اکثر اس کا مفعول غیر مذکور ہوتا ہے۔ اور اگرچہ عربی زبان میں اس مادہ سے باب انفعال اور افتعال سے بھی (مختلف معنی کے لیے)فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے صرف فعل مجرد سے ہی افعال اور اسمائے مشتقہ کے مختلف صیغے بکثرت (قریباً ۱۰۸ جگہ)وارد ہوئے ہیں۔

·       یہاں اس فعل (مضارع) پر ’’لَمْ‘‘ داخل ہونے (یعنی شروع میں آجانے) کی وجہ سے اس کی شکل ’’ لَمْ تفعلوا‘‘رہ گئی ہے۔ (جس میں فعل کا آخری ’’ن‘‘ بوجہ جزم گر گیا ہے)۔ اور بلحاظ معنی اب اس کا ترجمہ ’’تم نے کیا ہی نہیں‘‘ ہوگا۔ یعنی مطلق نفی مثلاً ’’مَافَعَل‘‘ (اس نے نہیں کیا) کی بجائے اس میں ’’نفی جحد‘‘ (زور کے ساتھ انکار) کے معنی پیدا ہوگئے ہیں۔ یہاں اس فعل کا مفعول (یعنی کون سا کام نہیں کیا؟) محذوف ہے۔ یعنی تقدیر عبارت ’’ فان لم تفعلوہ ‘‘ (اگر تم نے وہ (کام) نہ کیا)۔ اور یہ محذوف مفعول پچھلی آیت میں بیان کردہ چیلنج (قرآن کی ایک سورت کی مثال لاسکنا) سے متعین ہوجاتا ہے ـــ

·       اسی لیے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’ایسا‘‘ /’’یہ کام‘‘ /’’اتنی بات‘‘ نہ کرسکو‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اور یہ ’’سکنا‘‘ والا ترجمہ اردو محاورہ کی بنا پر ہی درست ہے۔ ورنہ یہاں ’’استطاعت‘‘ کے لیے تو کوئی فعل نہیں آیا  ـــ اسی طرح بعض حضرات نے ’’لم تفعلوا‘‘ کا ترجمہ ’’نہ لاسکو‘‘ کے ساتھ کیا ہے اور یہ سابقہ فعل ’’ فَأتوابسورۃ (ایک سورۃ تو لاؤ) کے حوالے سے ہی درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ ورنہ اس فعل کے لحاظ سے تو یہ ترجمہ لفظ سے ذرا ہٹ کر ہی ہے کیونکہ یہاں عبارت ’’فَاِن لم تأتُوا‘‘ تو نہیں ہے۔

]وَلَنْ تَفْعَلُوْا[ کا مادہ اور وزن (تَفْعَلُوا کی حد تک) وہی ہے جو ابھی اوپر ’’لم تفعلوا‘‘ کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔ البتہ یہاں (واو عاطفہ کے علاوہ) فعل مضارع پر حرف ناصب ’’ لَنْ ‘‘ کے آجانے سے (جس کے لَمْ کی طرح اپنے الگ کوئی معنی نہیں ہیں)فعل منصوب ہوگیا ہے۔ یعنی اس کا آخری ’’ن‘‘ گر گیا ہے ـــ  اور بلحاظ معنی اس میں مستقبل کے لیے نفی جحد (زور سے انکار) کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے یعنی ’’تم ہرگز نہ کرو گے‘‘ ـــ  اور عبارت کے مفہوم اور اردو محاورے کی رعایت سے ترجمہ ’’ہرگز نہ کر سکو گے‘‘ کی صورت میں کرنا ضرور ی ہے۔ اس لیے کہ یہاں اگر لفظی ترجمہ (تم ہرگز نہ کرو گے)کیا جائے تو اس میں ارادہ اور نیت کی نفی سمجھی جاتی ہے اور اس سے مفہوم ہی کچھ اور ہوجاتا ہے۔ اصل مقصود تو ’’استطاعت‘‘ کی نفی ہے جو فعل ’’سکنا‘‘ کے ذریعے ہی ظاہر کی جاسکتی ہے۔

          بعض حضرت نے فعل میں نفی جحد کا زور مدنظر رکھتے ہوئے ’’ولن تفعلوا‘‘ کا ترجمہ ’’قیامت تک نہ کرسکو گے‘‘ کیا ہے  ـــ جسے تفسیری ترجمہ قرار دے کر ہی درست کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آیت کی عبارت میں تو ’’قیامت تک‘‘کے لیے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔

]فَاتَّقُوا[ میں ’’فَ‘‘  تو عاطفہ بمعنی ’’پس، اس لیے‘‘ ہے۔ اور ’’اتقوا‘‘ کا مادہ ’’و ق ی‘‘ اور وزن اصلی ’’اِفتَعِلوا‘‘ ہے۔ اس کی اصل شکل ’’اِوْ تَقِیُوا‘‘ تھی۔ جس میں ابتدائی ’’و‘‘ کو عرب لوگ قاعدہ کلیہ کی طرح (ہمیشہ) ’’ت‘‘ میں بدل کر بولتے ہیں۔(۱) اسی سے یہ قائدہ لیا گیا ہے کہ ’’مثال واوی‘‘ کی ’’و‘‘ بابِ افتعال میں ’’ت‘‘  میں بدل کر  اور مدغم ہو کر لکھی اور بولی جاتی ہے ـــ   اس طرح اس فعل کے شروع کا حصہ ’’اِوْ تَ‘‘ بدل کر ’’اِتَّ ‘‘ ہو جاتا ہے۔ اور آخری حصّہ ’’قِیُوا‘‘ کے واو الجمع سے ماقبل لام کلمہ (ی) ساقط ہو کر اس سے ماقبل مکسور ’’ق‘‘ (عین کلمہ) کو مضموم کردیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ لفظ ’’ اِتَّقُوا ‘‘ بن جاتا ہے جو اس مادہ (و ق ی) سے باب افتعال کے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔

          اس مادہ کے فعل ثلاثی مجرد کے باب، معنی اور استعمال پر البقرہ:۲یعنی ۱:۱:۲(۷) میں بات ہوچکی ہے۔ بلکہ وہیں اس مادہ (وقی) سے باب افتعال کے فعل کے معنی اور اس فعل میں واقع ہونے والی صرفی تعلیل کا ذکر بھی ہوچکا ہے۔

]النَّارَ[ جو لفظ ’’نار‘‘ کی معرف باللام شکل ہے جو یہاں منصوب ہے ۔ اور لفظ ’’نار‘‘ کا مادہ ’’ن و ر‘‘ اورو زن اصلی ’’فَعَلٌ‘‘ ہے۔ شکل اصلی ’’نَوَرٌ‘‘ ہے۔ جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لفظ ’’نار‘‘بن جاتا ہے۔اس مادہ (ن و ر) سے فعل مجرد کے باب ومعنی نیز لفظ "نار" کے معنی (آگ) البقرہ:۱۷یعنی ۱:۱۳:۲(۳)میں بیان ہوچکے ہیں۔

]الَّتِىْ[ اسم موصول برائے واحد مونث ہے جس کا ترجمہ ’’وہ جو کہ ‘‘ہے ۔اسماء موصولہ پر۱:۶:۱(۱)میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۷:۲(۱۲)      ]وَقُوْدُھَا[ میں آخری ’’ھا‘‘ تو ضمیر مجرور متصل (مؤنث) ہے اور لفظ ’’وَقود‘‘ کا مادہ ’’و ق د‘‘ اور وزن ’’فَعُول‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد اور اس کے باب و معنی وغیرہ میں البقرہ ۱۷ یعنی ۱:۱۳:۲(۲)میں بیان ہوچکے ہیں۔ اور اس فعل مجرد کے ایک مصدر ’’وُقُود‘‘ (بضم الواو) بمعنی ’’جلنا‘‘ کا ذکر بھی وہاں ہوچکا ہے۔

·       لفظ ’’ وَقود ‘‘ (بفتح الواو) اس مادہ سے ایک اسم جامد ہے اور اس کے معنی ’’ایندھن‘‘ ہیں۔ یہی معنی لفظ ’’وِقاد‘‘ بروزن ’’کِتاب ‘‘ اور ’’وَقِید‘‘ بروزن قتیل کے بھی ہیں۔ تاہم یہ دونوں (مؤخر الذکر) لفظ قرآن کریم میں کہیں نہیں آئے۔ البتہ زیر مطالعہ لفظ ’’ وَقود ‘‘چار جگہ آیا ہے۔ اس طرح ’’ التی وقودھا ‘‘ کاترجمہ ’’وہ جو کہ ایندھن اس کا ‘‘ کی بجائے با محاورہ ترجمہ ’’جس کا ایندھن‘‘ کیا جائے گا۔

]النَّاسُ[ کا مشہور مادہ ’’ن و س‘‘ اور وزن اصلی (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَلٌ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ، اس میں واقع ہونے والی تعلیل اور دوسرے امکانی مادوں وغیرہ پر مفصل بحث البقرہ:۸  یعنی ۱:۷:۲(۳)میں ہوچکی ہے زیر مطالعہ آیت میں ’’الناس‘‘ کا ترجمہ ’’لوگ‘‘ کرنے کی بجائے ’’آدمی‘‘ کرنا زیادہ موزوں لگتا ہے۔

۱:۱۷:۲(۱۳)      ]وَالْحِجَارَةُ[ واو العطف(وَ) اور لام تعریف (ال) کو نکال کر باقی لفظ ’’ حِجَارۃٌ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ح ج ر‘‘ اور وزن ’’فِعَالَۃٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’حجَر… یحجُر حُجْرًا حَجْرًا حِجْرًا ‘‘ (باب نصر سے)آتا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’…کو روک دینا، …کو منع کرنا، یہ فعل ہمیشہ متعدی آتا ہے۔ اور اسکے دو مفعول ہوتے ہیں (۱) جس چیز سے روکا جائے یہ ہمیشہ بنفسٖہ آتا ہے اور (۲) وہ جس کو روکا جائے اس پر ’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’حجر علیہ الامرَ‘‘(اس کو اس معاملہ سے روک دیا) زیادہ تر یہ قانونی اور عدالتی ممانعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اس مادہ (حجر) سے قرآن کریم میں کسی قسم کے فعل (مجرد یا مزید فیہ) کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس سے ماخوذ مختلف المعنی جامد اور مشتق اسماء بیس (۲۰)کے قریب مقامات پر آئے ہیں جن کا بیان اپنی اپنی جگہ پرآئے گا۔ ان شا ء اللہ تعالیٰ۔

·       یہ لفظ (حجارَة) جو معرفہ ونکرہ مختلف صورتوں میں قرآن کریم کے اندر دس جگہ وارد ہوا ہے۔ جمع کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد ’’حَجَرٌ‘‘ہے جس کے معنی ہیں ’’پتھر‘‘ ـــ  اور یہ(صیغہ واحد)بھی معرف باللام ہوکر قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے۔ لفظ ’’حَجَرٌ‘‘ کی جمع مکسر ’’حِجَارۃٌ‘‘ کے علاوہ ’’اَحْجَار حِجارٌ‘‘ اور’’ اَحْجُر‘‘ وغیرہ بھی استعمال ہوتی ہیں تاہم قرآن کریم میں ’’حِجَارۃ‘‘ کے علاوہ کوئی دوسری جمع مستعمل نہیں ہوتی ـــ

۱:۱۷:۲(۱۴)      ]اُعِدَّتْ[ کا مادہ ’’ع د د‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعِلَتْ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’اُعْدِدَتْ‘‘ تھی۔ جس میں فعل مضاعف کے قاعدۂِ ادغام کے مطابق پہلی ’’دِ‘‘ کی کسرہ عین ساکنہ (عْ) کو دے کر ہر دو دال (دْدَ) کو مدغم (دَّ) کر دیا گیا یعنی اُعْدِدَت=اُعِدْدَتْ=اُعِدَّتْ۔

·       اس مادہ ( عدد) سے فعل ثلاثی مجرد ’’عَدَّ …یعُدُّ عدًّا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے دو(۲)معنی ہیں (۱)… کو گننا، … شمار کرنا، (۲) … کو …سمجھنا، خیال کرنا‘‘ یہ فعل ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے مثلاً عَدَّهُمْ  (مریم: ۹۴) اس نے ان کو گن لیا ـــ  دوسرے معنی (خیال کرنا) کے لیے یہ ’’حَسِب"   اور ’’ظنَّ‘‘ کے ہی معنوں میں اور ان کی طرح دو مفعول کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے ’’عَدّ زیدًا عالمًا‘‘ (اس نے زید کو عالم سمجھایا علماء میں شمار کیا)۔ قرآن ِ کریم میں اس دوسرے استعمال کی صرف ایک مثال ہے  سورۃ ص۔ ۶۲  میں۔

 اس فعل مجرد کے مختلف صیغے قرآن کریم میں سات جگہ وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی مادہ سے جامد اور مشتق اسماء کے متعدد صیغے ۲۸ مقامات پر آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’ اُعِدّتْ ‘‘ اس مادہ (عدد) سے باب ِاِفعال کے فعل ماضی مجہول کا صیغہ  واحد مونث غائب ہے۔ اس باب (اِفعال) سے فعل ’’اَعَدّ … یُعِدُّ ‘‘ (دراصل اَعْدَد یُعْدِدُ) اِعْدَادًا‘‘بھی ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے معنی ہیں’’…کو تیار کرنا یا تیار رکھنا‘‘اس طرح صیغہ’ ’ اُعِدَّتْ ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوگا۔ ’’ وہ تیار کی گئی یا تیار  رکھی گئی‘‘ ـــ  اسی معنی کو مختلف مترجمین نے ’’تیار ہے، تیار کی ہوئی ہے، تیار رکھی ہے، تیار ہوئی رکھی ہے یا تیار کی گئی ہے‘‘ کی صورت میں ظاہر کیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان مختلف تراجم میں فعل مجہول کے مفہوم کو کس کس طرح شامل ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے الفاظ کا انتخاب کس طرح کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ ’’ اُعِدَّتْ ‘‘کے فعل ماضی مطلق کا ترجمہ ماضی قریب کے ساتھ’’(ہے لگا کر) کرنے کی وجہ بعض تفسیری تقاضے بھی ہیں۔

قرآن کریم میں اس مادہ(عدد) سے باب اِفعال کے صرف فعل ہی کے مختلف صیغے بیس (۲۰)جگہ آئے ہیں۔

]لِلْكٰفِرِيْنَ[ میں سے ابتدائی لام الجر (لِ) اور لام تعریف (ا ل) ـــ  (جن کو بصورت ’’لِلْ‘‘ لکھا جاتا ہے) ـــ  کو نکال کر باقی لفظ ’’کافرین‘‘ نکلتا ہے۔ جس کا مادہ ’’ک ف ر‘‘ اور وزن ’’فاعِلینَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ، اس کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۶  یعنی ۱:۵:۲(۱)اور البقرہ:۱۹  یعنی ۱:۱۴:۲(۱۴)میں بات ہوچکی ہے ـــ   اسی فعل مجرد (کفَر یکفُر کُفْرًا) سے اسم الفاعل ’’کافر‘‘ کی جمع مذکر سالم ’’کافرون یا کافرین‘‘ہے ـــ  کافر کے لفظی معنی تو ’’انکار کرنے والا‘‘ہیں۔ تاہم اصطلاحاً اس سے مراد توحید، رسالت یا آخرت (وغیرہ) کا منکر ہے۔ اور چونکہ یہ لفظ اپنے اصطلاحی مفہوم کے ساتھ اردو میں متعارف ہے۔ اس لیے ’’ للکافرین‘‘ کا ترجمہ ’’کافروں کے لیے‘‘ کر لیا جاتا ہے۔

۲:۱۷:۲     الاعراب

          زیر مطالعہ دو آیات چھوٹے چھوٹے سات جملوں پر مشتمل ہیں جن میں سے بیشتر آپس میں شرط اور جوابِ شرط کا تعلق رکھتے ہیں اور مل کر جملہ شرطیہ بنتے ہیں۔اور بعض ’’واو‘‘ عاطفہ یا ’’فاء‘‘ عاطفہ (برائے رابطہ) کے ذریعے باہم مربوط ہیں۔ تمام جملوں کی ترکیب اعرابی کی تفصیل یوں ہے:

(۱)      وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ  مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا

          اس میں ابتدائی واو ]’’وَ‘‘[ استیناف کی ہے کیونکہ اس کا سابقہ آیت یا اس کے آخری حصہ (وانتم تعلمون) پر بلحاظ معنی عطف ہو ہی نہیں سکتا۔ آیت زیر مطالعہ کے ذریعے ایک الگ بات شروع کی گئی ہے۔ ]اِنْ[ شرطیہ ہے اور ]كُنْتُمْ[ فعل ناقص (ماضی) ہے جس میں اس کا اسم ’’انتم‘‘ بصورت ضمیر مستتر ہے ۔ اگرچہ فعل ماضی ہونے کی وجہ سے حرفِ شرط (اِنْ) کا اس (كُنْتُمْ) پر کوئی ’’عمل‘‘ نہیں ہوا۔ تاہم نحو کی اصطلاح میں یہاں ’’ كُنْتُمْ ‘‘ کو محلاً مجزوم کہہ سکتے ہیں۔ ]فی ریبٍ[ جار (فی) اور مجرور (ریبٍ) مل کر اس ’’ کنتم ‘‘ کی خبر محذوف کا کام دے رہا ہے۔ ]مِمَّا[ جار مجرور (’’من +ما‘‘ موصولہ) مل کر ’’فی ریبٍ ‘‘ سے متعلق ہے۔ یعنی یہ ’’من‘‘ بیانیہ ہے جو اس ’’ریب‘‘ (شک) کی وضاحت کرتا ہے کہ کون سا شک؟ کس کے بارے میں؟  ـــ ]نزلنا[ فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر تعظیم (نحن)بصورت ’’نَا‘‘ فعل کے صیغہ میں موجود ہے۔[3]   یعنی ’’ہم نے اتارا‘‘ اس (نزّلنا) میں دراصل ایک ضمیر عائد محذوف ہے۔ یعنی دراصل (تقدیر عبارت) ’’ نزّلناہ ‘‘ہے۔

]علی عبدنا[ میں ’’علی‘‘ حرف الجر ’’عبد‘‘ مجرور بالجر اور آگے مضاف (لہٰذا خفیف یعنی لامِ تعریف اور تنوین سے معری)ہے۔ علامت جر ’’د‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ)ہے اور ’’نا‘‘ ضمیر مجرور متکلم ’’صیغۂ تعظیم‘‘ کے ساتھ ہے اور یہ (نا) ’’عبد‘‘کا مضاف الیہ ہے۔ یہ پورا مرکب جارّی ـــ  ’’ علی عبدنا‘‘ ـــ  فعل ’’نزّلنا‘‘سے متعلق ہے یعنی ’’(ہم نے اتارا) اپنے بندے پر ‘‘ ـــ  یہاں تک بیانِ شرط پر مشتمل پہلا جملہ (یا جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ)مکمل ہوتا ہے۔ آگے جوابِ شرط شروع ہوتا ہے۔

(۲)      فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ ۔

          ]فَأتوا[ میں ’’فَ‘‘ جوابِ شرط کے شروع میں حرف رابطہ کا کام دے رہی ہے اور ’’اِیْتُوا‘‘ (دیکھئے اوپر بحث اللغہ) فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ جس میں ضمیر فاعلین متصل ’’اَنْتُمْ‘‘ بصورت ’’واو‘‘ (فأتوا) موجود ہے۔ ]بسورۃ[ میں حرف الجر ’’بِ‘‘ دراصل فعل ’’ فأتوا ‘‘ کا صلہ ہے جس سے اس (اَ تی بِ) میں ’’لے آنا‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اور کلمہ ’’سورۃٍ‘‘ مجرور بالجر ہے اور یہ جار مجرور (بسورۃٍ) بحیثیت مفعول (فاتواکا) ہونے کے محلِ نصب میں ہے۔ ]من مثلہ[ یہ سارا مرکب جارّی ]جس میں ’’مِن‘‘ حرف الجر ، ’’مثلِ‘‘ مجرور بالجر اور آگے مضاف بھی ہے جس میں علامت جر ’’ل‘‘ کا کسرہ (ــــــِــــ) ہے اور آخری ’’ ہ ‘‘ مضاف الیہ ضمیر مجرور ہے[ لفظ ’’سورۃ ‘‘ کی صفت (یا بیان)ہے۔ یعنی ایسی ’’سورۃ‘‘ جو ’’ مِن مثلہ‘‘ہو۔

·       ’’مثلہ‘‘ کی ضمیر مجرور کا مرجع یا قرآن کریم (مانزلنا) ہے یا آنحضرت ہوسکتے ہیں (عبدنا)۔ پہلی صورت میں ترجمہ ہوگا‘‘ کوئی یا ایک سورت اس (قرآن) کی جیسی ۔ یعنی کسی درجے میں بھی اس سے ملتی جلتی‘‘ ـــ  اور دوسری صورت میں ترجمہ ہوگا’’کوئی سورت (لے آؤ) ہمارے بندے جیسے یعنی کسی درجے میں مماثلت رکھنے والے (مثلا’’امّی‘‘ ہونے کے لحاظ سے) آدمی کی طرف سے‘‘ ـــ  ضمیر (ہ) کے لیے یہ دو ’’مرجع‘‘ والا اِمکان مفسرین اور اصحاب ِبلاغت کے لیے نکتہ آفرینی کا باعث تو بنتا ہے۔[4] تاہم ہمارے مترجمین (اردو فارسی، انگریزی) میں سے کسی نے بھی ’’ مثلہ‘‘ کی ضمیر مجرور کا مرجع ’’ عبدنا‘‘ کو قرار نہیں دیا۔ بلکہ سب نے ’’ مَانزَّلنا (ہ)‘‘ یعنی قرآن کو ہی اس کا مرجع سمجھ کر ترجمہ ’’اس قسم کی ‘‘، ’’اس جیسی‘‘، ’’اس کے ہم پلہ‘‘، ’’اس کے جوڑ کی‘‘ اور ’’اس طرح کی‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ یہ جملہ (۲) سابقہ جملے کا جواب شرط ہے مگر اس سے اگلا جملہ (۳) بھی بذریعہ واوالعطف اسی (جواب شرط) کا ہی ایک حصہ ہے۔

(۳)     وَادْعُوْا شُہَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ

          ]وَ[ عاطفہ ہے اور ]ادْعُوْا[ فعل امرصیغہ جمع مذکر حاضر ہے اور یہ فعل بذریعہ واو العطف سابقہ فعل ’’ فَأتوا ‘‘ پر بھی عطف ہوسکتا ہے (اور اس کے بعد والا جملہ بھی پہلے جملہ پر عطف ہوسکتا ہے) ]شُهَداءَكُم[ مرکب اضافی ہے جس میں ’’شھداء‘‘ مضاف اور ضمیر مجرور ’’کم‘‘ مضاف الیہ ہے۔ اور یہ (مرکب) سابقہ فعل ’’ وادعُوا ‘‘ کا مفعول بہ منصوب ہے اور اس میں علامت ِنصب ’’شھداء‘‘ کے آخری ھمزہ (ء) کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ ]مِنْ دُونِ اللّٰهِ[ مرکب جارّی ہے جس میں ’’مِن‘‘ حرف الجر، ’’دون‘‘ ظرف مجرور اور (آگے)مضاف ہے اور ’’اللہِ‘‘ مضاف الیہ (لھٰذا)مجرور ہے۔ اور یہ سارا مرکب جارّی (من دون اللہ) ’’ شھداءکم ‘‘کے حال یا اس کی صفت کا کام دے رہا ہے۔ یعنی بلالو اپنے حمایتیوں کو (جو) اللہ کے سِوا (بنارکھے) ہیں‘‘۔ یہاں تک کا جملہ (وادعوا شھداءکم من دون اللہ) سابقہ جملہ (۲) پر عطف ہوکر جوابِ شرط میں بھی داخل سمجھا جاسکتا ہے۔ اور اسے اس کے بعدآنے والے اگلے جملے (۴) کا جوابِ شرط (مقدم)بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

(۴)     اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ

          ]اِنْ[ حرف شرط ہے اور ]کنتم[ فعل ناقص صیغہ ماضی جمع مذکر حاضر ہے جس میں مستتر ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ اس (فعل ناقص) کا اسم ہے اور ’’ اِنْ ‘‘ کی وجہ سے اس (کنتم) کو محلاً مجزوم کہا جاسکتا ہے ]صادقین[’’ کنتم‘‘ (فعلِ ناقص) کی خبر (لہٰذا)منصوب ہے اور اس میں علامتِ نصب آخری نون سے پہلے والی ’’ی‘‘ ماقبل مکسور (ـــــِــــ ی)‘‘ہے جو جمع مذکر سالم میں نصب اور جر کی علامت ہوتی ہے۔ اس پورے جملہ شرطیہ ’’ اِنْ کنتم صادقین‘‘ کا جوابِ شرط یا تو اس سے پہلے والا جملہ ’’ وادعوا شھداءکم من دون اللہِ ‘‘ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یا اس (ان کنتم صادقین)کے بعد ایک فعل محذوف کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی ’’فافعَلُواذالِک‘‘ (تو پھر یہ کر دکھاؤ)۔

(۵)     فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا

          ] فَ[ فاء استیناف کی ہے یعنی یہاں سے ایک الگ جملہ (شرطیہ)شروع ہورہا ہے ـــ  ویسے اس (مندرجہ بالا ’’ف‘‘ کے بعد آنے والے) جملے کا ایک معنوی تعلق سابقہ جملے (آیت نمبر ۲۳) سے قائم ہے کیونکہ یہ ’’فَ‘‘ ایک مطالبہ (چیلنج) کے بعد جواب ِ شرط کی طرح آنے والے جملے سے پہلے حرفِ ربط کا کام بھی دے رہی ہے۔ ]اِنْ[ شرطیہ ہے یعنی یہاں سے ایک اور (نیا) جملہ شرطیہ شروع ہوتا ہے۔ ]لم تفعلُوا[ میں ’’لَمْ‘‘ حرفِ جازم ہے۔ اور بلحاظ معنی نافیہ بھی ـــ  اور ’’تفعلوا‘‘ فعل مضارع مجزوم بِلَمْ ہے۔ جس میں علامت ِجز م آخری ’’ن‘‘ کا حذف ہے۔ (خیال رہے یہاں فعل مضارع ’’اِن‘‘ شرطیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’ لَمْ ‘‘ کی وجہ سے مجزوم ہے)۔ ]وَ[اسے واو اعتراضیہ کہہ سکتے ہیں جو جملۂ معترضہ کے شروع میں آتی ہے۔ اردو ترجمہ اس کا بھی ’’اَوْر‘‘ہی ہوگا۔ اور ]لَنْ[ حرف ِناصب ہے اور بلحاظ معنی نافیہ بھی۔ اور ]تَفْعَلُوا[ یہاں مضارع منصوب بِلَنْ ہے۔ اس منصو ب اور مجزوم مضارع کے معنی پر ابھی اوپر ’’بحث اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے۔ اس طرح یہ جملہ فعلیہ (وَلَنْ تفعلوا) پہلے شرط والے جملے (فان لم تفعلوا)اور آگے آنے والے جوابِ شرط جملے (فاتقوا…، والحجارۃ تک) جو آگے (۶) میں آرہا ہے  ـــ کے درمیان جملہ معترضہ کا کام دے رہا ہے۔ اور یہاں دونوں (مجزوم و منصوب) ’’تفعلوا‘‘ کے بعد ایک ضمیر مفعول محذوف ہے۔ یعنی تقدیر عبارت بنتی ہے۔ ’’ فان لم تفعلوا(ہ) ولن تفعلو (ہ)‘‘ اس ضمیر محذوف کے ساتھ ترجمہ پر ابھی اوپر ’’بحث اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے۔]۱:۱۷:۲(۱۱)میں[۔

(۶)     فَاتَّقُواالنَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ

شروع کی ]فَ[ یہاں بھی جواب شرط (جملے) کے لیے حرفِ ربط کا کام دے رہی ہے ]اِتَّقو[ فعل امر حاضر جمع مذکر ہے جس میں آخری واو الجمع (و) ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘کی علامت ہے ]النّارَ[ اس فعل (فاتقوا) کا مفعول (لھٰذا) منصوب ہے علامتِ نصب ’’ر‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے۔

          ]التی[ اسم موصول ہے برائے واحد مؤنث ہے (النار مونث سماعی ہے) جو اپنے مابعد کی عبارت (صلہ) سمیت ’’النار‘‘ کی صفت کے طور پر آرہا ہے۔ لھٰذا یہ (التی) محلاً منصوب ہے۔]وَقُودُھا[ یہ مرکب اضافی  (جس میں ’’وقود‘‘ مضاف اور ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ مضاف الیہ ہے)مبتدأ ہے۔ اسی لیے ’’وقودُ‘‘ مرفوع ہے اور اس کی علامت ِرفع ’’د‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ ) ہے۔ ]الناسُ[ یہ ’’ وَقُوْدُھَا ‘‘ کی خبر ہے (اور اسی لیے) مرفوع ہے ۔ یہاں بھی علامتِ رفع ’’س‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ)ہے  ]وَالحجارةُ[’’واو‘‘ تو عاطفہ ہے اور ’’الحجارۃُ‘‘کا عطف ’’الناسُ‘‘ پر ہے اور اسی لیے مرفوع ہے علامتِ رفع ’’ۃُ‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے۔ اس طرح یہ جملہ اسمیہ ’’ وَقُوْدُھَا الناسُ والحجارۃُ ‘‘   ’’ الَّتِىْ ‘‘ کا صلہ ہے ۔ اور صلہ موصول (الَّتِىْ۔۔۔۔الْحِجَارَۃُ) النار کی صفت ( لھذا محلاً) منصوب ) ہے۔ اور یہ پورا جملہ (فَاتَّقُواالنَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ) سابقہ جملے (۵) کا جوابِ شرط ہے۔

(۷)     اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ

          ]اُعِدَّتْ[ فعل ماضی مجہول صیغہ واحد موءنث غائب ہے جس میں نائب فاعل کے لیے ضمیر ’’ھی‘‘ مستترہے۔ جو ’’ النار‘‘ یا ’’ التی‘‘ کے لیے ہے۔ ]لِلکافرین[ جارّ (لِ) اور مجرور (الکافرین) مل کر متعلق فعل (اُعِدَّتْ) ہیں  ـــ  اور یہ جملہ (اُعِدَّتْ للکافرین) لفظ ’’ النار ‘‘ کا حال ہے اسی لیے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’تیار ہوئی رکھی ہے‘‘ سے کیا ہے۔ اور اس میں یہ گنجائش بھی ہے کہ اس پورے جملے ’’ اُعِدَّتْ للکافرین‘‘ کو ’’ التی ‘‘(نمبر۶) میں) کے صلہ سے متعلق قرار دے کر اسے ’’ النار‘‘ ہی کی دوسری صفت سمجھا جائے۔ اس صورت میں اس(اعدت للکافرین) سے پہلے ’’ والتی ، (اور جو کہ) مقدر سمجھا جائے گا۔

 

۳:۱۷:۲      الرسم

          ان دو زیرِ مطالعہ آیات (البقرہ:۲۳۔۲۴) میں آنے والے قریبا ًتمام کلمات (جو تیس کے لگ بھگ ہیں) کا رسم (املائی)عام عربی املاء اور رسم المصحف (رسم عثمانی) ایک جیسا ہے۔ البتہ صرف تین کلمات یعنی ’’ مِمَّا‘‘ ، ’’ صدقين ‘‘اور’’للکفرین‘‘  کا رسم (املاء) وضاحت طلب ہے ـــ  وھو ھذا۔

(۱)      ’’ مِمَّا ‘‘ کے رسم پر البقرہ:۳ میں یعنی ۳:۲:۲ (۲) میں بھی بات ہوئی تھی۔ یہاں ذرا سی وضاحت کی ضرور ت ہے۔ یہ تو ابھی بحث اللغۃ میں  یعنی ۱:۱۷:۲(۱)کے بعد بتایا جاچکا ہے کہ یہ ’’ مِمَّا ‘‘ دراصل ’’مِنْ‘‘ (حرف الجر) اور ’’ما‘‘ (موصولہ) کا مرکب ہے۔ یہ مرکب قرآن کریم میں کل ۱۱۵ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ اسی طرح ملا کر (موصول) لکھا جاتا ہے۔ (بصورت ’’ مِمَّا ‘‘) البتہ صرف تین مقامات پر یہ مقطوع (الگ الگ کرکے) لکھا جاتا ہے ( یعنی ’’مِنْ مّا‘‘ کی شکل میں) اور یہ تین مقامات (۱) النساء:۲۵، (۲) الروم:۲۸ اور (۳) المنافقون:۱۰ہیں  ـــ پھر ان تین مقامات میں سے بھی پہلا یعنی النساء:۲۵ میں اس کا مقطوع (من ما) لکھنا تو متفق علیہ ہے البتہ الروم:۲۸ والے لفظ کے بارے میں ابوداؤد کا اور المنافقون:۱۰ والے لفظ کے بارے میں الدانی کا اختلاف منقول ہے۔[5] باقی تمام مقامات پر (جس میں زیر ِمطالعہ آیت بھی شامل ہے) یہ ہمیشہ موصول (مِمّا) ہی لکھا جاتا ہے۔

(۲)    کلمہ ’’ صدقین ‘‘ جس کا رسم املائی ’’صادقین‘‘ ہے، قرآن کریم میں یہاں ( آیت زیر مطالعہ میں) بلکہ ہر جگہ بحذف الالف بعد الصاد (بصورت ’’ صدقين‘‘) لکھا جاتا ہے۔ لفظ ’’صادقین‘‘ (نصب و جر میں) قرآن کریم میں کل پچاس جگہ اور ’’صادقون‘‘ (بحالت رفع) کل چھ (۶) جگہ آیا ہے اور یہ ان تمام (۵۶) مقامات پر بحذف الف ’’ صدقین یاصدقون‘‘ہی لکھا جاتاہے۔ چاہے معرف باللام ہو یا نکرہ  ـــ  البتہ اس کا واحد ’’صادق‘‘ جو قرآن کریم میں کل تین جگہ (مریم : ۵۴، المؤمن:۲۸ اور الذاریات:۵) آیا ہے۔ یہ ہر جگہ باثبات الالف بعد الصاد یعنی ’’صادق‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ بلکہ اسی سے علمائے رسم نے ایک قاعدہ نکالاہے کہ قرآن کریم میں اسم الفعل کے وزن پر آنے والا لفظ ہمیشہ ’’باثبات الف‘‘ لکھا جاتا ہے اور اس کی جمع مذکر سالم ہر جگہ ’’بحذف الف‘‘ لکھی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ سو فیصد قاعدہ (کلیہ)نہیں ہے۔

(۳)     لفظ ’’ للکافرین‘‘ (جس سے پہلے لام الجر اور لام تعریف ملا کر بصورت ’’لِلْ‘‘ لکھا جاتا ہے) کا معاملہ بھی بلحاظ رسم واملاء ’’صادقین‘‘ جیسا ہی ہے۔ یعنی یہ بھی بصورت جمع مذکر سالم تو ہر جگہ بحذف الالف بعد الکاف (کفرون، کفرین) ہی لکھا جاتا ہے۔ اس صورت (جمع مذکر سالم کی) میں یہ لفظ قرآن کریم میں کل ۱۲۹ جگہ آیا ہے (جس میں زیرِ مطالعہ آیت کا لفظ بھی شامل ہے) اور ہر جگہ یہ بحذف الف ہی لکھا جاتا ہے البتہ بصورت واحد (کافر بروزن فاعل) یہ ہر جگہ باثبات الف(کافر) ہی لکھا جاتا ہے اور ایسے (واحد والے) کل پانچ مقامات ہیں (البقرہ:۴۱  و ۲۱۷، الفرقان: ۵۵، التغابن:۲ اور النباء:۴۰)

          ان دولفظوں (صادق اور کافر) کی واحد جمع کی باثبات الف اور بحذف الف کتابت (مصحف میں) تمام علمائے رسم کا متفقہ مسئلہ ہے اس لیے ایران، ترکی، چین اور بعض دفعہ برصغیر میں جو ان کی جمع باثبات الف (صادقین، کافرین) لکھنے کا رواج ہوگیا ہے تو یہ رسمِ عثمانی یا رسم ِمصحف کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کی اصلاح ہونی چاہئے۔

 

۴:۱۷:۲      الضبط

          زیر مطالعہ یہ آیات کے ضبط میں نمایا ں اختلافات کو آپ مندرجہ ذیل نمونوں سے سمجھ سکتے ہیں۔ قواعد اور اصول ضبط (اور جن ملکوں میں اس پر عمل کیا جاتا ہے) اس سے پہلے متعدد بار بیان ہوچکے ہیں۔ ملتی جلتی یعنی یکساں صورتِ ضبط کی تکرار نہیں کی گئی ہے۔

 



[1]   دیکھئے معجم النحو ص ۶۶۔ المنھاج فی ااقواعد و و الاعراب  صفحہ ۲۰۴    اور الاعراب الکامل (عبدالقادر) ص ۶۸

 

  [2] مثلاً راغب۔ دیکھئے مفردات

 

[3]  خیال رہے کہ جب ’’جمع‘‘ ضمیر متصل یا منفصل اللہ تعالیٰ کے لیے آئے تو اسے ضمیر فاعلین یا صیغہ جمع کی ضمیر کہنے کی بجائے احتراماً اور عقیدۃً ’’ضمیر تعظیم‘‘ کہتے ہیں۔

 

    [4] مثلاً دیکھئے زمخشری (الکشاف) ج۱ص۲۴۲ یا الدردیش (اعراب القرآن) ج۱ص۵۷۔

 

[5] دیکھئے المقنع(للدانی)ص۶۹، العقیلہ(للشاطبی) ص۸۷ اور لطائف البیان(شرح مورد الظمآن للخراز)ج ۲:ص ۵۹