سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۵

۱۸:۲        وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ    ۭ   كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَـــرَةٍ رِّزْقًا    ۙ   قَالُوْا ھٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ    ۙ    وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا    ۭ    وَلَھُمْ فِيْهَآ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ     ڎ    وَّھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ    (۲۵)

۱:۱۸:۲        اللغۃ

۱:۱۸:۲(۱)      ]وَبَشِّرْ[میں ابتدائی واو عاطفہ یہاں بمعنئِ استیناف ہے جس کا اردو ترجمہ بہر حال"اَوْر"سے ہی ہوگا۔واو الاستیناف پر مفصّل بات البقرہ:۸یعنی ۱:۷:۲(۱)میں گزرچکی ہے۔اور"بَشِّرْ"(جس میں ساکن"رْ"کو آگے ملانے کے لیے کسرہ(ـــــِــــ)دی گئی ہے) کامادہ ’ب ش ر‘‘ اورو زن ’’فَعِّلْ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد مختلف ابواب سے مختلف معنی کے لیے آتا ہے۔ مثلاً (۱) بشَر یبشِرُ بَشْرًا (باب ضرب اور نصر سے) آئے تو اس کے معنی ’’دباغت کے لیے کھال کو چھیلنا‘‘ ہوتے ہیں اور صرف باب نصر سے اس کے معنی ’’مونچھوں کو اتنا کٹواناکہ نیچے سے بَشَرَۃ (جلد) ظاہر ہوجائے‘‘ ہوتے ہیں (۲)بشَر یبشُر بُشْرًا (نصرسے) کے معنی ’’خوش ہونا‘‘ ہیں اور باب سَمِع سے مگر مصدر ’’بِشْرًا‘‘کے ساتھ بھی یہی معنی دیتا ہے (۳) بشَرہ بکذا بُشراً  بَشراً  بِشراً (نصر سے)سے متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’…کو…سے خوش کرنا‘‘اور (۴) ’’بشَر بشِر  بِشْرًا بکذا‘‘ (باب ضرب اور سمِع سے) بمعنی ’’…سے خوش ہونا‘‘ آتا ہے جب کہ (۵)بشُرَ بَشارَۃً (بابِ کرم سے) سے ’’خوبصورت ہونا‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے (کسی باب سے اور کسی معنی کے لیے) فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال  نہیں ہوا۔ اس مادہ سے زیادہ تر اَفعال باب تفعیل سے (۳۸ جگہ)، باب مفاعلہ سے (صرف دو صیغے) باب استفعال سے (چھ جگہ) اور باب ِاِفعال سے (صرف ایک صیغہ) آئے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر مشتقات ستر (۷۰)سے زیادہ مقامات پر آئے ہیں۔

          زیر مطالعہ لفظ ’’بَشِّرْ‘‘ اس مادہ(بشر) سے باب تفعیل کا فعلِ امر صیغہ واحد مذکر حاضر ہے ـــ اور اس باب سے فعل ’’بَشَّرَ…یُبَشِّرُ تبشرًا‘‘ کے معنی ہیں ’’…کو خوشخبری سنانا‘‘ ـــ ایسی خبر سنانا جس سے اس کے چہرے پر ’’بِشْر‘‘(خوشی کے آثار)ظاہر ہوں‘‘اس طرح یہ فعل متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کامفعول (جسے خوشخبری دی جائے)بغیر کسی صلہ کے (بنفسہٖ) منصوب آتا ہے۔ اور جس چیز کی خوشخبری دی جائے اس پر یا تو باء(بِ)داخل ہوتی ہے( شروع میں لگتی ہے) یا ’’اَنَّ‘‘ سے شروع ہونے والا ایک جملہ ہوتا ہے جو دراصل ’’بِاَنَّ‘‘ ہی ہوتا ہے۔ یعنی اس ’’اَنَّ‘‘ سے پہلے ایک (بِ) مقدر ہوتا ہے جیسے آیت زیر ِمطالعہ میں ہے۔ اور یہ استعمال بھی قرآن کریم میں صرف اسی ایک جگہ آیا ہے۔ ورنہ یہ دوسرا مفعول (جس کی خوشخبری دی جائے) ہر جگہ (قریباً ۳۶ جگہ) یا تو ’’بِ‘‘ کے ساتھ مذکور ہوا یا پھر مذکور ہی نہیں ہوا یعنی محذوف ہوتا ہے۔

·       اس فعل (بَشَّرَ)کے ساتھ ’’بِ‘‘ یا ’’اَنَّ‘‘کے استعمال کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ اگر کلام طویل ہو جائےتو یہ"بِ" حذف کرنا جائز ہے مگر مختصر کلام میں یہ حذف ناجائز ہے۔ مثلاً بَشَّرَہُ بِاَنَّ لہ الجنَّۃَ کو ’’ بَشِّرَہ اَنَّ لہ الجنَّۃَ‘‘ کہنا درست ہے مگر ’’بَشَّرَہٗ بِالْجَنَّۃَ‘‘ کو ’’بَشَّرَہ الجنَّۃ‘‘ کہنا غلط ہے۔ آگے چل کر اس فعل کے ’’باء‘‘کے حذف یا اثبات کے ساتھ استعمال کی کئی مثالیں سامنے آئیں گی۔

·       ’’تبشیر‘‘ کے بنیادی معنی ’’اچھی خبر دینے‘‘ کے ہوتے ہیں۔ البتّہ کبھی طنزاً اور تحکماً ’’دوزخ کی خوشخبری دینا‘‘ یا ’’عذاب کی خوشخبری دینا‘‘کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

·       [اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا]’’ اَلَّذِيْنَ‘‘ اسم موصول برائے جمع مذکر بمعنی ’’وہ لوگ جو کہ  /ان لوگوں کو جو‘‘ہے اور فعل ’’آمنوا‘‘ کا مادہ ’’ا م ن‘‘اور وزن ’’اَفْعَلُوْا‘‘ ہے۔ یعنی یہ فعل ’’آمن یُؤمِنُ اِیْمَانًا‘‘ (باب اِفعال) سے فعل ماضی معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ یعنی ’’وہ ایمان لائے‘‘۔۔ یہاں اٰمَنُوا بغیر صلہ(بِ یالِ) کے آیا ہے۔ اس لیے کہ اصطلاحی معنی میں یہ بات موجود ہے کہ کن چیزوں پر ایمان مراد ہے یعنی ’’توحید، رسالت، آخرت وغیرہ پر ایمان لائے‘‘ ـــ جن امور پر ایمان لانا اسلام کی بنیادکی پہچان ہے۔ ’’الذین‘‘ کی مزید وضاحت کے لئے الفاتحہ:۷ یعنی ۱:۶:۱(۱)اور ’’آمنوا‘‘کے مادہ فعل مجرد، باب اور معانی کی مزید وضاحت کے لیے البقرہ:۳ یعنی ۱:۲:۲(۱)کی طرف رجوع کی کیجئے۔

۱:۱۸:۲(۲)     [وَعَمِلُوْا] میں ’’وَ‘‘ تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ہے  ـــاور ’’عَمِلُوا‘‘ کا مادہ ’’ع م ل‘‘ اور وزن ’’فَعِلُوا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’عمِلَیَعْمَلُ عَمَلاً‘‘ (باب سمع سے آتا ہے)اور اس کے معنی (۱) (کوئی کام) کرنا (۲) (عمل) کرنا (۳) (محنت) کرنا (۴) (کام)سر انجام دینا (۵) …کو تیار کرنا (۶) …کو بنانا اور (۷) …کو بجا لانا‘‘ہوتے ہیں۔ یہ فعل متعدی ہے اور اکثر اس کے ساتھ اس کا مفعول (بنفسٖہ) مذکور ہوتا ہے۔ بعض اہل ِلغت نے لکھا ہے کہ ’’باب سمِع‘‘ سے یہ واحد فعل ہے۔ جس کا مصدر ’’فَعَلٌ‘‘کے وزن پر آتا ہے ۔ ورنہ عموماً (اس باب کے مصدر کا وزن) ’’فَعْلٌ‘‘ آتا ہے۔

·       اردو میں خود لفظ ’’عمل‘‘متعارف اور متداول ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ’’عمل کرنا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’’عَمِل یعمَل‘‘ مطلقا اچھے یا برے ہر قسم کے کام ــــــ (کرنے) کے لیے آتا ہے۔ اچھے یا برے کی تمیز عبارت یا اس کے سیاق و سباق  سے ہوتی ہے ـــ عربی زبان کے دو لفظ ’’عمَلٌ‘‘ اور فِعْلٌ (فَعَلَ یَفْعَلُ فِعْلاً) سے قریباً ہم معنی ہیں اور اردو میں دونوں کا ترجمہ ’’عمل‘‘ اور ’’فعل‘‘ کے علاوہ ’’کام‘‘سے کیا جاتا ہے۔ تاہم ’’عمِل یعمَل‘‘ کے معنی عموماً ’’کام کرنا‘‘ہوتے ہیں اور ’’فعَل یفعَل‘‘ کا ترجمہ صرف ’’کرنا‘‘ کیا جاتا ہے۔ اس فرق کوراغب (مفردات میں) اور بعض دیگر اہل لغت نے یوں سمجھایا ہے کہ ’’عمل‘‘ میں قصد، ارادہ اور کوشش (سے کرنے) کا مفہوم شامل ہوتا ہے۔ جب کہ ’’فعل‘‘ عمل بلا قصد‘‘ کو بھی کہتے ہیں یعنی  فعل ’’عمل‘‘ سے زیادہ عام ہے یا عمل فعل سے زیادہ خاص ہوتا ہے۔

          یہ فعل (عمِل یعمَل) قرآن کریم میں کثیر الاستعمال ہے۔ صرف ثلاثی مجرد سے ہی اس کے مختلف صیغے ۲۷۵ جگہ آئے ہیں اور اسماء، مصادر اور دیگر مشتقات ۸۰ سے زائد مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ اور موقع استعمال کے لحاظ سے اس فعل کے مختلف معنوں کا (جو اوپر بیان ہوئے ہیں)تعیّن ہوتا ہے۔

۱:۱۸:۲ (۳)    [الصّٰلِحٰتِ] جس کی عام عربی املاء ’’الصالحات‘‘ہے۔ اس کا مادہ ’’ص ل ح‘‘اور وزن (لام تعریف کے بغیر)اور بصورت رفع ’’فاعلاتٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’صلَح یصلحُ صلاحاً‘‘(عموما باب نصر سے)آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’ٹھیک ٹھاک ہونا، خرابی یا برائی سے پاک ہونا، قابل ہونا یا صلاحیت والا ہونا‘‘اور اس طرح اس میں ’’نیک ہونا‘‘ کامفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اور اس سے اسم الفاعل مذکّر ’’صالحٌ‘‘بمعنی نیک مرد اور مونث’’صَالِحَۃٌ‘‘ بمعنی نیک عورت آتا ہے۔ اور لفظ ’’صالحۃٌ‘‘نیک عمل اور اچھے کام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر تو ’’صالح‘‘ یا ’’صالحۃ‘‘ صفت کا کام دیتے ہیں۔ اور نیک عمل(واحد کے لیے) ’’عمل صالحٌ‘‘ (نیک کام) اور ’’نیک اعمال‘‘ (جمع کے لیے) ’’اعمالٌ صالحۃٌ‘‘ یا ’’اعمالٌ صالحاتٌ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ پھر جمع مونث کا موصوف حذف کردیتے ہیں اور ’’الصالحات‘‘ سے مراد ہی یا تو ’’النساء الصالحات‘‘ یعنی نیک عورتیں ہوتی ہیں۔ یا   ’’الاعمال الصالحات‘‘ یعنی نیک  اعمال یا صرف ’’نیکیاں‘‘مراد ہوتی ہیں ۔ یہ لفظ (الصالحات) بمعنی نیک عورتیں تو قرآن کریم میں صرف ایک جگہ (النساء:۳۴) آیا ہے اور بمعنی نیک اعمال یا ’’اچھے کام‘‘ ساٹھ سے زیادہ جگہ آیا ہے۔

·       اس مادہ (ص ل ح)سے فعل ثلاثی مجرد کا بھی صرف ایک ہی صیغہ (صَلَحَ) صرف دو جگہ (الرعد:۲۳ اور المؤمن:۸) آیا ہے۔ مزید فیہ میں سے صرف بابِ اِفعال کے مختلف صیغے ۲۸ جگہ آئے ہیں۔ اور مجرد و مزید فیہ سے اسماء مشتقہ وغیرہ کے مختلف الفاظ پچاس کے قریب مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

          [اَنَّ لَھُمْ] ’’اَنَّ‘‘ کے معنی ’’بے شک‘‘ یقینا اور ’’لھم‘‘ کا ترجمہ ’’اُن کے لیے ‘‘ ہے یعنی ’’بے شک اُن کے لیے ہیں؍ ہوں گے‘‘(کیونکہ آگے جمع کا صیغہ آرہا ہے)۔

۱:۱۸:۲(۴)     [جنّٰتٍ] جس کی عام عربی املاء ’’جنات‘‘ ہے۔ اس کا مادہ ’’ج ن ن‘‘ اور وزن ’’فَعْلَاتٌ‘‘ ہے۔ یعنی اس کی اصلی شکل ’’جنْنَات‘‘ تھی پھر دونوں ’’ن‘‘ مدغم ہوگئے۔ اور یہ (جنات) ’’جَنَّۃٌ‘‘ بروزن فَعْلۃ‘‘ کی جمع مونث سالم ہے۔

          اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’جَنَّیَجُنُّ جَنَانًا‘‘ (عموما  باب نصر سے) آتا ہے۔ اور اس کے معنی ہیں …کو چھُپا لینا، …کو ڈھانپ لینا، یعنی یہ فعل متعدی ہے اور کبھی (باب ضرب سے) ’’جنَّ یَجِنُّ جَنًّا‘‘ بطور فعل لازم بمعنی ’’پوشیدہ ہونا، چھپنا‘‘ بھی آتا ہے( تاہم یہ استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا) اور بطور فعل متعدی اس کا مفعول بنفسہ بھی آتاہے اور ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی۔ یعنی ’’جنَّہٗ و جنَّ علیہ‘‘ (اس نے اس کو ڈھانپ لیا) اور اگر اس فعل کا فاعل ’’اللیلُ‘‘ کسی مفعول کے ذکر کے بغیر آئے مثلاً ’’جنَّ اللیلُ‘‘ تو اس کے معنی ’’تاریک ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے فعل ماضی کا ایک ہی صیغہ ایک جگہ (الانعام:۷۶) آیا ہے اور وہ بھی ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ۔ اس مادہ سے فعل مجرد بصورت مجہول ’’جُنَّ الرَّجلُ جُنونا‘‘ ’’پاگل ہوجانا‘‘ کے معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس سے بھی فعل کا کوئی صیغہ نہیں آیا۔ البتہ اس مادہ (جنن) سے مختلف اسماء اور مشتقات کے مختلف صیغے دو سو (۲۰۰) سے زائد جگہ وارد ہوئے ہیں۔

          اہل لغت نے اس مادہ (جنن) کی یہ خصوصیت بتائی ہے کہ اس سے مشتق ہونے والے تمام افعال و اسماء میں چھپنے یعنی ’’پوشیدگی‘‘ کا مفہوم موجود ہوتا ہے جیسے : الجِنُّ، جُنَّۃ (ڈھال)، جَنَّۃ (گھنا باغ)، اَجِنَّۃ (جَنِیْن کی جمع)، مجنونٌ، جِنَّۃٌ (جن)وغیرہ۔ اور یہ کلمات تو قرآن کریم میں آئے ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز۔

          قرآن میں استعمال نہ ہونے والے مگر پوشیدگی کی خصوصیت کے مظہر الفاظ میں سے الجنَن(قبر)، المِجَنّ (ڈھال)، اَلْجَنِیْنَ (بچہ جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہو)نیز الجنِین (قبر میں مدفون)اور الجَنَان (قلب، دل) قابل ذکر ہیں۔ [1]

’’جَنَّۃٌ‘ کے اصل بنیادی معنی بھی ایسا ’’گھنا باغ‘‘ ہے جس کی زمین سورج کی شعاعوں سے پوشیدہ رہے یا جس کی چھاؤں نے زمین کو چھپا رکھا ہو۔ بعض اہل زبان’’جَنّۃ‘‘ صرف اس باغ کو کہتے ہیں جس میں انگور اور کھجور کے پودے اور درخت موجود ہوں۔ ورنہ اسے صرف ’’حدیقۃ‘‘ کہتے ہیں۔[2]

·       قرآن کریم یہ لفظ (’’جَنَّۃ‘ یا اس کی جمع ’’جنَّات‘‘)مطلقاً باغ یا باغات کے معنی میں بھی آیا ہے۔ تاہم زیادہ تر اس سے مراد وہ باغ (الجنّۃ) یا باغات (جنات) ہیں جن کا آخرت (مابعد الموت زندگی) میں نیک لوگوں کو ملنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ (اور ان معنوں میں یہ لفظ بصورت واحد یا جمع ایک سو بیس کے مقامات پر مذکور ہوا ہے)۔ اور اس لحاظ سے یہ ایک خاص اسلامی اصطلاح ہے۔ اور اس کاترجمہ عموماً فارسی لفظ ’’بہشت‘‘سے کیا جاتا ہے جس کے اصل معنی چاہے کچھ تھے (ایران میں ’’اردی بہشت‘‘ ایک مہینے کا نام بھی ہے) مگر اب وہ لفظ ’’الجنّۃ‘‘کے مترادف(IDENTICAL) بن چکا ہے۔ اور خود لفظ ’’جنّت‘‘ بھی اپنے ہی اصطلاحی معنی کے ساتھ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ اس لفظ کے عام لغوی معنی اور اصطلاحی معنی کا تعیّن عبارت کے اندر سیاق و سباق سے ہوجاتا ہے۔

۱:۱۸:۲(۵)     [تَجْرِیْ] کا مادہ ’’ج ر ی‘‘ اور وزن اصلی ’’تفْعِلْ‘‘ ہے۔ اور اس کی اصلی شکل ’’تَجْرِیُ‘‘ تھی جس میں آخری یاء(ی) اپنے ماقبل کے مکسور ہونے کی بناء پر ساکن ہوجاتی ہے۔

          اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’جرَی یجرِی جَرْیًاومَجْریً‘‘(باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو پانی کا بہنا بلکہ تیزی سے بہنا‘‘ہیں۔ پھر اس سے اس میں ’’گزرنا، رواں ہونا، جاری ہونا، دوڑنا (گھوڑے کا)، چلنا(ہوا یا کشتی کا)کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے افعال کے مختلف صیغے ۵۷ جگہ اور مختلف اسماء و مشتقات سات جگہ آئے ہیں۔ یہاں ’’تجری‘‘ کا ترجمہ ’’چلتی ہیں/ بہتی ہیں/ہوں گی بہہ رہی ہیں‘‘ سے کیا گیا ہے۔

۱:۱۸:۲(۶)     [مِنْ تَحْتِھَا] یہاں ابتدائی ’’مِنْ‘‘ بمعنی ’’سے‘‘ہے اور آخری ضمیر مجرو ر’’ھا‘‘ کے معنی یہاں ’’اس کے یا ان کے ‘‘ہوں گے۔ اور لفظ ’’تحت‘‘ کے معنی ہیں ’’… کے نیچے‘‘ اس لفظ (تحت) کا مادہ یہی (ت ح ت) ہی ہے۔ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ تاہم اس مادہ سے عربی زبان میں کوئی فعل استعمال نہیں ہوتا۔ اور لفظ ’’تحتٌ‘‘ بھی کبھی معرب استعمال نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ظرف مکان کی حیثیت سے ہمیشہ بصورت ’’تحتَ‘‘ مضاف ہوکر ہی استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اس سے پہلے ’’مِنْ‘‘ لگتا ہے۔ (جیسے یہاں آیت زیر ِمطالعہ میں ہے) اس صورت میں اسے ’’من تحتِ…‘‘ ( آخری تاء کے کسرہ کے ساتھ اور مجرور) پڑھا جاتا ہے۔ کبھی اس کا مضاف الیہ محذوف کردیا جاتا ہے۔ اس وقت یہ ضمہ (ــــُـــــ) پر مبنی پڑھا جاتاہے۔ مثلاً ’’مِنْ تحتُ‘‘ ـــ تاہم یہ آخری استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔ (اگرچہ ’’قبل‘‘ اور ’’بعد‘‘اس طرح مستعمل ہوئے ہیں) البتہ پہلی ـــ اضافت والی  ـــ دونوں صورتیں ’’تحتَھا‘‘ اور’’ مِن تحتھا‘‘  قرآن کریم میں آئی ہیں۔ ’’تَحْت‘‘ کبھی بطور اسم آتا ہے اور اس کی جمع ’’تُحُوتٌ‘‘ آئی ہے۔ یہ لفظ قرآن میں تو نہیں آیا مگر حدیث میں علاماتِ قیامت کے سلسلے میں آیا ہے۔ چاہیں تو ’’القاموس‘‘ میں اس کے معنی دیکھ لیجئے۔

۱:۱۸:۲(۷)     [اَلْاَنْھٰرُ] (جس کا رسم املائی ’’الانھار‘‘ہے)کا مادہ ’’ن ھ ر‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’افْعَالٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’نھَرینْھَر نَھْرًا‘‘(باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے مختلف معنی ہوتے ہیں مثلا (۱) (پانی کا) زور سے بہنا (۲)پانی کا بہتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانا (۳) زمین کو پھاڑنا یا اتنا کھودنا کہ پانی نکل آئے  (۴) زبان سے کسی غصے کا اظہار کرنا، … کو جھڑکنا‘‘ یعنی یہ فعل لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور متعدی کی صورت میں اس کا مفعول (اگرمذکور ہو تو) بنفسہ (منصوب)آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرّد صرف آخری یعنی (۴) معنی کے لیے اور وہ بھی صرف دوجگہ (الاسراء:۲۳ اور الضحیٰ:۱۰) آیا ہے۔ یہ فعل اپنے دیگر معانی کے لیے قرآن میں استعمال نہیں ہوا۔

·       لفظ ’’اَنھار‘‘ صیغہ جمع (مکسر) ہے اس کا واحد ’’نَھْرٌ‘‘ اور ’’نَھَرٌ‘‘ہے (قرآن کریم میں صرف دوسری صورت  ـــ’’نَھَرٌ‘‘ بفتح الھاء ـــاستعمال ہوئی ہے)۔پہلی صورت ’’نَھْرٌ‘‘ بسکون الھاء ـــاردو میں عام مستعمل ہے اس لیے ’’انھار‘‘کا اردو ترجمہ ’’نہریں‘‘ ہی کیاجاتا ہے۔ البتہ عربی زبان میں لفظ ’’نَھْرٌ‘‘ انسان کی بنائی ہوئی نہر (CANAL) کے علاوہ دریا (RIVER) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآن کریم میں بھی ان دونوں معنی کے لیے آیا ہے۔

·       [کُلَّمَا] ظرف بمعنی ’’جب کبھی بھی، جب بھی‘‘ہے۔ اس کی بناوٹ، معنی اور استعمال پر البقرہ:۲۰ یعنی ۱:۱۵:۲(۳)میں بات ہوچکی ہے۔

·       [رُزِقُوْا] کا مادہ ’’رزق‘‘ اور وزن ’’فُعِلُوْا‘‘ہے یعنی یہ اس مادہ کے فعل مجرد کا صیغہ ماضی مجہول (جمع مذکر غائب)ہے۔ جس کا ترجمہ’’ تو ان کو عطا کیا گیا‘‘ہے مگر یہاں ’’کُلّمَا‘‘ میں معنی شرط کی موجودگی کے باعث اس کا ترجمہ مستقبل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ یعنی ’’دئے جائیں گے، ملے گا ان کو، ان کو دیا جائے گا‘‘ کی صورت میں۔ اس فعل کے باب، معنی اور استعمال کی بحث کے لیے دیکھئے البقرہ:۳یعنی ۱:۲:۲(۶)

·       [مِنْھَا] جو حرف جار ’’مِنْ‘‘ بمعنی میں سے ]دیکھئے ۱:۲:۲(۵)[اور ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ بمعنی اس کا مرکب  ہے یعنی اس میں سے۔

·       [مِنْ ثَمَرَۃٍ] کا ابتدائی ’’مِنْ‘‘ حرف الجر بیانیہ بمعنی ’’میں سے‘‘ اور ’’کی قسم کا‘‘ہے اور ’’ثَمَرَۃٌ‘‘ کا مادہ ’’ث م ر‘‘ اور وزن ’’فَعَلَۃٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب، معنی اور استعمال کی وضاحت کے لئے البقرہ: ۲۲ یعنی ۱:۱۶:۲(۱۱)کو دیکھئے۔ جہاں ’’ثمرۃٌ‘‘ کی تائے وحدت اور اس کے ترجمہ کی بات بھی کی گئی ـــ یہاں زیر ِمطالعہ آیت میں اس تائے وحدت اور مِنْ بیانیہ(دیکھئے۱:۲:۲(۵) کی وجہ سے ’’مِن ثمرۃٍ‘‘ کا ترجمہ ’’میووں سے، کوئی میوہ، کوئی پھل، کسی پھل اور کسی قسم کاپھل‘‘ کیا گیاہے۔

·       [رِزْقًا] کا مادہ ’’رزق‘‘ اور وزن ’’فِعْلًا‘‘ہے۔ یہ فعل مجرد ’’رزَق یرزُق رزقًا‘‘(دیکھئے۱:۲:۲(۶)) کا مصدر بمعنی ’’روزی دینا، بھی ہے اور اسم بمعنی ’’روزی‘‘ بھی  ـــیہاں اس کے ترجمہ کا تعین بحث الاعراب میں کیا جائے گا۔ (جو ابھی آگے آئے گی)

·       [قَالُوْا] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ہے۔ جس کی اصلی شکل ’’قَوَلُوْا‘‘تھی۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب ، معنی اور اس میں واقع ہونے والی تعلیل وغیرہ کے بارے میں البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۴)دیکھئے۔

·       [ھٰذَا الَّذِیْ] ھٰذا =یہ اور الّذی=وہ جو کہ۔ اس طرح اس (ھٰذا الَّذی) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’یہ ہے وہ جو‘‘ جس کا بامحاورہ ترجمہ بیشتر مترجمین نے ’’یہ وہی ہے جو، یہ تو ہی ہے جو‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ بعض نے صرف ’’یہ تو‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔ مگر اس میں ’’الذی‘‘ کا ترجمہ نظر انداز ہوگیا ہے۔ اسمائے اشارہ (جن میں سے ایک یہ ’’ھذا‘‘ ہے) کا بیان۱:۱:۲(۱) میں اور اسمائے موصولہ (جن میں سے ’’الذی‘‘بھی ہے) کا بیان ۱:۶:۱(۱)میں گزر چکا ہے۔

·       [رُزِقْنَا] کا مادہ ’’رزق‘‘او روزن ’’فُعِلْنَا‘‘ہے۔ یعنی یہ اس فعل مجرد کا (جس پر بات ۱:۲:۲(۶) میں ہوچکی ہے) ماضی مجہول صیغہ جملہ متکلم ہے۔ جس کا ترجمہ ’’دئے گئے ہم، ملاتھا ہم کو، ہم کو ملا تھا؍ مل چکا تھا، ہمیں مل چکا ہے، کی صورت میں کیا ہے۔

·       [مِنْ قَبْلُ] میں ’’قبل‘‘ کا مضاف الیہ محذوف ہے اس لیے اس کا ترجمہ ’’پہلے ہی یا پہلے بھی‘‘ہوگا۔ اگرچہ بعض مترجمین نے ’’اس سے پہلے، اس سے پیشتر‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’مِنْ قبلِ ذلک‘‘کی طرح اور بعض نے صرف ’’قَبْل‘‘ کا ترجمہ ’’پہلے‘‘کردیا ہے۔ جس میں’’مِنْ‘‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والازور (ہی)موجود نہیں ہے۔ ’’قَبْل‘‘کے معنی اور استعمال پر البقرہ :۴ یعنی ۱:۳:۲(۴)میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۱۸:۲(۸)     [وَاُتُوْابِہ] میں ابتدائی ’’واو‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور ’’اُتُوْا‘‘ کا مادہ ’’ا ت ی‘‘ اوروزن اصلی ’’فُعِلُوْا‘‘ہے۔ اس کی اصل شکل ’’اُتِیُوْا‘‘ تھی۔ جس میں واو الجمع سے ماقبل آنے والی ’’یاء‘‘(جو لام کلمہ ہے)کو ساقط کر دیا جاتا ہے اور پھر اس سے ماقبل کی ’’تاء‘‘ کو (جو عین کلمہ ہے)مکسور ہونے کی وجہ سے مضموم کردیا جاتا ہے۔ یہ قاعدہ آپ اب تک بہت سے افعال (مثلاً" اشتروا، مَشَوْا، فأتُوْا، اتقُوا وغیرہ) میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔

·       اس مادہ (اتی) سے فعل مجرد کے باب ’’اتی یاتی اتیاناً‘‘ کے معنی (آنا، کرنا وغیرہ) پر ابھی  اوپر۱:۱۷:۲(۴) میں بات ہوچکی ہے۔ اس فعل کے ساتھ ’’بِ‘‘ کا صلہ آئے تو اس کے معنی ’’لانا‘‘ ہوتے ہیں۔ یعنی ’’اتی بِ…=…کو لے آنا۔ اور اسکے مجہول فعل ’’اُتِیَ بِ… کے معنی (مصدری) ہوں گے، …کے پاس لایا جانا‘‘ زیر ِمطالعہ لفظ ’’اُتوبہ‘‘ اسی فعل ماضی مجہول کا صیغہ جمع مذکرغائب ہے۔ یوں ’’اُتُوْابِہ‘‘ کا ترجمہ لفظی ہوگا ’’ان کے پاس لایا گیا وہ (فلاں چیز)‘‘اور اردو مترجمین نے ’’اُتُوابِہ‘‘ کا ترجمہ ’’ان کو وہ دیا ہی جائے گا، ان کے پاس آئے گا وہ‘‘کیا ہے۔ اور بعض نے فعل ماضی کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے یعنی ’’انہیں دیا گیا وہ‘‘ جب کہ بہت سے حضرات نے یہاں ’’بہ‘‘ کی ضمیر کو محاورے کی خاطر نظر انداز کرتے ہوئے (کیونکہ اس سے اگلے لفظ ’’متشابھا‘‘ میں اس کا مفہوم (بلحاظ محاورہ) شامل ہوجاتا ہے) لہٰذا انہوں نے ’’اتوابِ…‘‘ کا ترجمہ ’’وہ لائے جائیں گے، ان کے پاس آئے گا، ان کو دیے جائیں گے، ملے گا ان کو، ان کو ملا کریں گے، ان کو دیا ہی جائے گا‘‘کے ساتھ کیا ہے۔ دی یا لائی جانے والی چیز کے لیے (ضمیر ’’ ہ‘‘کا) بلفظ جمع ترجمہ کرنے کی گنجائش ’’من ثمرۃ‘‘ اور ’’رزقاً‘‘ کے الفاظ میں (بلحاظ مفہوم) نکلتی ہے۔

۱:۱۸:۲(۹)     [مُتَشَابِھَا] کا مادہ ’’ش ب ھ‘‘اور وزن ’’مُتَفَاعِلٌ‘‘ (متشابھاً بلحاظ شکل منصوب ہے جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا۔ صرف مزید فیہ کے مختلف ابواب (تفعیل، تفعل، تفاعل، مفاعلۃ اور افتعال) سے مختلف معنوں کے لیے آتا ہے۔ ان میں سے قرآن کریم میں اس مادہ سے صرف تفعیل ، تفاعل اور افتعال سے اَفعال، اسماء اور مشتقات کے مختلف صیغے ۱۲ جگہ وارد ہوئے ہیں ۔

·       لفظ ’’متشابہٌ‘‘ اس مادہ (شبہ) سے باب تفاعل کا صیغہ اسم الفاعل ہے۔ اس باب سے فعل ’’تشابہَ یتشابہ تشابُھًا‘‘کے معنی ہیں ’’باہم ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہونا‘‘باب تفاعل کی ایک خصوصیت ’’مشارکت‘‘ہے۔ یعنی اس میں ہمیشہ کسی کام کے دو فاعلوں کے باہمی فعل کا ذکر ہوتا ہے۔ اس لیے ’’تشابہ َالشییءُ‘‘ کہنا غلط ہے بلکہ کہیں گے ’’تشابہَ الشیئانِ‘‘(وہ دو چیزیں باہم ملتی جلتی ہیں) ـــ یا مثلاً کہیں گے ’’تشابہ زیدٌ و بکرٌ‘‘ یعنی اس فعل کا فاعل ایک نہیں بلکہ دو ہوتے ہیں ـــ اور اس کے اسم الفاعل (متشابہٌ کا ترجمہ بھی صرف ’’ملنے جلنے والا‘‘ نہیں بلکہ ’’دوسرے سے ملنے جُلنے والا‘‘ یعنی ’’باہم ملتا جلتا‘‘ ہوگا۔ اسی لیے مختلف مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ ایک طرح کا، ایک صورت کے، ایک ہی صورت کے ، ایک ہی طرح کے، ملتی جلتی صورتیں، ہم شکل اور ملتا جلتا ہوا۔ ‘‘کی صورت میں کیا ہے۔ ان سب الفاظ کا مفہوم تو ایک ہی ہے البتہ بلحاظ محاورہ بعض الفاظ دوسروں سے بہتر کئے جاسکتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ بعض مترجمین کا انتخاب الفاظ زیادہ بہتر ہے۔

          [وَلَھُمْ فِیْھَا] یہ ’’وَ‘‘ (اور)+’’لِ‘‘ ( کے لیے، لام الجر ضمیر کے ساتھ مفتوح پڑھا جاتاہے) + ’’ھُم‘‘ (اُن) +’’فِیْ‘‘(میں) +’’ھا‘‘(اس)کا مرکب ہے یوں اس کا ترجمہ ہوگا ’’اور اُن کے لیے اس میں (ہوگا)‘‘ اس کی مزید وضاحت ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

۱:۱۸:۲(۱۰)     [اَزْوَاجٌ] کا مادہ ’’زوج‘‘ اور وزن ’’اَفْعَالٌ‘‘ہے۔ یہ جمع کا صیغہ ہے جس کا واحد ’’زَوْجٌ‘‘بروزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’زاجَ(بینھم) یزُوج زوجاً‘‘(باب نصر سے)آتا ہے۔ اور اس کے معنی (کے درمیان) اشتعال پیدا کرنا، لڑائی ڈالنا‘‘ہوتے ہیں۔ تاہم یہ فعل عربی زبان میں بھی قلیل الاستعمال ہے۔ حتٰی کہ بعض معاجم (ڈکشنریوں) میں اس کے ذکر کو ہی نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اور قرآن کریم میں تو یہ فعل (مجرد)کہیں آیا ہی نہیں  ـــالبتہ اس مادہ (زوج) سے باب تفعیل کے کچھ صیغے صرف پانچ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ ان پر اپنے موقع پر بات ہوگی۔ ان شاء اللہ

·       لفظ ’’ازواج‘‘ کا واحد ’’زوج‘‘ ہے اور یہ دونوں لفظ واحد، تثنیہ، جمع، مفرد مرکب، معرفہ، نکرہ مختلف حالتوں میں قرآن کریم  کے اندر ستّر (۷۰) جگہ آئے ہیں۔

’’زَوْج‘‘ کے بنیادی معنی ہیں ’’(کسی چیز کے) جوڑے میں سے ایک ‘‘ جب پورا جوڑا مراد لینا ہو تو عربی میں صیغہ تثنیہ استعمال کرتے ہیں یعنی ’’زوجَان‘‘ (بصورت رفع) یا ’’زَوْجَیْن‘‘ (بصورت نصب یا جر) ـــ زوجَین کا مطلب ’’دو جوڑے یعنی چار افراد‘‘ نہیں ہوتا۔ بلکہ ’’پورا جوڑا‘‘ مراد ہوتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’زوجا حمامٍ‘‘ (کبوتروں کا جوڑا۔ ایک نر ایک مادہ)یا ’’زوجا نِعالٍ‘‘ (جوتوں کا جوڑا یعنی دونوں پاؤں کے لیے)۔ اس طرح ’’زوجین‘‘ کا مطلب ’’میاں بیوی‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’مرد و عورت ‘‘بھی۔

·       میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کا ’’زوج‘‘ہے ( اور تمام ’’جوڑوں‘‘میں یہی باہمی تعلق ہے یعنی ہر ایک دوسرے (ساتھی) کا زوج ہوتا ہے)۔ اس لفظ ’’زَوْج‘‘ کا کسی حد تک (یعنی صرف میاں بیوی کی حد تک) مناسب مترادف انگریزی کا لفظSPOUSE ہوسکتا ہے۔ جو شوہر (HUSBAND) اور بیوی (WIFE) دونوں پر بولا جاتا ہے۔ یعنی ہر ایک دوسرے کا SPOUSE ہے۔ اور انگریزی میں بھی یہ لفظ (SPOUSE) زیادہ تر شاہی جوڑے (ملکہ و بادشاہ اور راجہ ورانی) کے لیے بولا جاتا ہے ـــ اس کے مقابلے پر عربی کے لفظ ’’زَوْج‘‘ میں بہت زیادہ وسعت ہے۔ یہ لفظ صرف میاں بیوی اور مرد و عورت کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتا  ـــبلکہ کسی بھی نرو مادہ کے جوڑے کو  ـــوہ حیوانات سے ہوں یا نباتات سے  ـــ’’زوجَیْن‘‘کہا جاتا ہے۔ بلکہ یہ لفظ ہر اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ’’بصورت جوڑا‘‘ استعمال ہوتی ہے۔ جیسے جوتا (نعل)، جراب (جَورب)، دستانہ(قفّاز)وغیرہ۔ یا جن چیزوں کا دو مستقل ’’ساتھیوں‘‘ کے طور پر ذکر کیا جاتا ہو۔ جیسے دن رات، کڑوا میٹھا وغیرہ فارسی کا لفظ ’’ہمسر یا جفت‘‘ کسی حد تک ان معنی کے قریب ہے۔ اردو میں اس قسم کا کوئی ایک لفظ نہیں ہے۔ لہٰذا عبارت کے سیاق و سابق کی بنا پر اس کا ترجمہ ’’خاوند‘‘ یا ’’بیوی‘‘ یا صرف ’’جوڑا‘‘ کر لیا جاتا ہے۔ اور اس سے مراد دراصل ’’جوڑے کا ایک فرد ہوتا ہے۔

·       قرآن کریم میں لفظ ’’ازواج‘‘ (بصیغہ جمع) آٹھ کے قریب مقامات پر تو مطلقاًکسی چیز کے جوڑے یا ’’جوڑوں‘‘کے معنی میں آیا ہے۔ اور تین جگہ (البقرہ:۲۳۰و۲۳۲ اور المجادلہ:۱) ’’خاوند‘‘ اور ’’خاوندوں‘‘ کے معنی میں آیا ہے ـــ باقی تمام  ـــپچاس سے زائد  ـــمقامات پر یہ لفظ (ازواج) یا اس کا واحد (زَوْج) بیویوں یا بیوی کے معنی میں آیا ہے۔ اور ان معنوں میں یہ لفظ اس دنیوی زندگی کے بعض مسائل مثلا نکاح، طلاق، وراثت، حجاب، ظہار وغیرہ کے قرآنی احکام کے بیان کے لیے بھی آیا ہے۔ اور اخروی زندگی کے انعامات کے ضمن میں بھی (کم از کم دس سے زیادہ مقامات پر)مذکور ہوا ہے (اس پر مزید بحث ابھی آگے آرہی ہے) ۔

·       عربی میں بیوی کے لیے لفظ ’’زوجۃ‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے (جس کی جمع ’’زوجات‘‘ ہوتی ہے۔ بعض اہل لغت نے لکھا ہے  کہ[3]

بیوی کے لیے ’’زوجہ‘‘ کا لفظ صرف نجد کی بولی میں یا بعض دیگر قبائل عرب کے ہاں استعمال ہوتا ہے مگر حرم (مکہ مکرمہ)یا حجاز کے لوگ میاں بیوی دونوں کے لیے ’’زَوج‘‘ ہی استعمال کرتے ہیں۔ (جس کی جمع ازواج ہے)اور اس مقصد کے لیے یہی لفظ قرآن کریم میں آیا ہے ۔(زوجۃ یا زوجات کا لفظ قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا) فقہاء بھی التباس سے بچنے کے لیے بیوی کے لیے ’’زوجۃ‘‘ کا لفظ لیتے ہیں ـــ

۱:۱۸:۲(۱۱)     [مُطَھَّرَۃٌ] کا مادہ ’’ط ھ ر‘‘اور وزن ’’مُفَعَّلَۃٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’طھَرُ یطھُر طھارۃً‘‘ (باب نصر اور کرُم سے) آتا ہے اور اس کے معنی (جسمانی یا روحانی گندگی وغیرہ سے) ’’پاک صاف ہونا‘‘ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل ثلاثی مجرد کا صرف ایک صیغہ ایک جگہ (البقرہ:۲۲۲) آیا ہے۔ اور افعل التفضیل کا صیغہ (اطھر) چار جگہ آیا ہے۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب تفعیل سے (اَفعال کے صیغے) ۹ جگہ، باب تفعّل سے کچھ صیغے ۴ جگہ اور مصادر و اسماء مشتقہ کے مختلف صیغے دس جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·       لفظ ’’مُطَھَّرَۃ‘‘ اس مادہ (طھر) سے باب تفعیل کا صیغۃ اسم المفعول برائے مونث ہے۔ اس باب کے فعل ’’طَھَّریُطَھِّرُ تَطھرًا‘‘کے معنی ہیں  ’’…کو پاک کرنا‘‘(جسمانی یا روحانی یا اخلاقی آلائش سے)۔اس طرح ’’مُطَھَّرۃ‘‘ کے معنی ’’پاک صاف کی ہوئی‘‘ یا مطلقاً ’’پاکیزہ، پاک، PURIFIEDیاPURE‘‘ ہیں۔ یہ لفظ (مطَھَّرَۃ) قرآن پاک میں پانچ جگہ آیا ہے۔ جن میں سے تین جگہ ’’ازواج مطھرۃ‘‘ کی ترکیب (توصیفی) کے ساتھ آیا ہے۔ اور اس ترکیب کا ترجمہ مختلف اردو مترجمین نے ’’پاک صاف کی ہوئی بیبیاں، پاک صاف بیبیاں، پاک بیویاں، ستھری عورتیں، صاف ستھری بیبیاں، پاکیزہ عورتیں اور پاکیزہ بیویاں‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ ان تمام تراجم میں ’’زن‘‘یا ’’عورت‘‘ کا لفظ بھی ’’بیوی‘‘ ہی کے ہم معنی آیا ہے۔ انگریزی مترجمین نے زیادہ تر لفظ SPOUSE اختیار کیا ہے جو ’’ازواج‘‘ کا موزوں مترادف ہے۔ فارسی مترجمین نے بیشتر تو ’’زنانِ پاک شدہ یا پاک کردہ شدہ‘‘سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے ’’جفت ہائے پاک وپاکیزہ‘‘سے ترجمہ کیا ہے یعنی ’’جوڑے‘‘ (جو ازواج کا لفظی ترجمہ ہے) بہر حال ان تمام تراجم میں ’’بیوی‘‘ کا مفہوم صراحۃً یا اشارۃً موجود ہے۔ اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے اور کتب حدیث سے نہ صرف ان معنی کی تائید ہوتی ہے بلکہ اس آنے والی زندگی کے اس (جنسی) پہلو کے بارے میں بعض مزید تفصیلات بھی ملتی ہیں۔

·       ہمارے بعض ’’روشن خیال‘‘، ’’مفکّرین قرآن‘‘ کو آخرت کی زندگی کے انعامات میں ’’بیویوں‘‘کے ذکر سے کچھ ایسی شرم آئی کہ انہوں نے اس ترکیب (ازواج مطہرۃ) کے معنی ہی توڑ مروڑ کو لغت اور نحو کے آسرے پر کچھ یوں نکالے کہ ’’ازواج‘‘ تو لغۃً میاں بیوی (یا نر و مادہ) دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اور ’’مطھّرہ‘‘کی تانیث بھی عورتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’جمع مکسر کی صفت عموماً واحد مؤنث آتی ہے۔‘‘کے اصول پر ہے۔ لھٰذا ’’ازواج مطھرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’پاکیزہ جوڑے‘‘ ہونا چاہئے اور چونکہ آیت میں ’’وَلَھُمْ‘‘ (اور ان مردوں کے لیے) بھی موجود ہے۔ لہٰذا پاکیزہ جوڑے کی بجائے ’’پاکیزہ رفیق‘‘ سے ترجمہ کر کے اپنی دانست میں تو انہوں نے آخرت کی زندگی سے ’’بیوی‘‘ کا تصوّر نکال باہر کیا ور اس کی بجائے(’’COMRADE‘‘)رفیق  کا ’’دلکش‘‘ تصوّر پیش کردیا۔

·       اور چلیے ’’ازواج مطھرہ‘‘ (زیرِ مطالعہ لفظ) کی حد تک تو یہ منطق کچھ کام دے جاتی ہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ قرآن کریم میں تو آخرت کے انعامات میں ’’بیویوں‘‘ کا ذکر کئی طریقوں سے اور متنوع الفاظ کے ساتھ متعدد مقامات پر آیا ہے۔ اور بعض جگہ ضمیر جمع مؤنث (ھُنَّ) کے ساتھ اور بعض خالص زنانہ صفات کے ساتھ ان کا ذکر آیا ہے (مثلاً دیکھئے الرحمن:۵۶، الواقعہ:۳۶ اور النبأ:۳۳) ـــیہاں منکرین سنت کو بھی اپنے خود ساختہ تصوّرات کا سہارا لے کر قرآن کریم میں مذکور ایسی ’’عورتوں ‘‘ کو آنے والے دور کے قرآنی معاشرہ کی ’’عالی مرتبت بیگمات‘‘ کہنا پڑا۔ اور ان کے بارے میں بیان کردہ قرآنی صفات کے لیے بھی مادہ اور اشتقاق (لغوی) کے جنگل میں گھس کر (عربوں کے محاورے اور استعمال کو برطرف رکھتے ہوئے) کسی اپنے مفید مطلب معنی کو گھسیٹ کر لے آئے اور اس سے اپنی مرضی کا ’’دور کی کوڑی‘‘ والا (FAR FETCHED) ’’مفہوم‘‘ نکال لیا  ـــمثلاً ’’ابکارا‘‘ (الواقعہ:۳۶)=’’اعلیٰ تربیت یافتہ‘‘ ’’عُرُبًا ‘‘ (الواقعہ:۳۷)= ’’فصیح اللسان‘‘ ’’ اَتْرَابًا‘‘ (الواقعہ:۳۷) ’’ہم مزاج، ہم گِل  ’’ وَّكَوَاعِبَ  ‘‘(النباء:۳۳)=’’شرف و مجد کے پیکر ‘‘ وغیرہ  ـــمحض زور قلم کے شیدائی مگر عربی زبان سے ناواقف لوگ ہی اس پر سر دھن سکتے ہیں۔ ورنہ یہ کوئی ایسے لفظ نہیں ہیں جن کے معنی عربی معاجم (ڈکشنریوں) میں مل نہ سکتے ہوں یوں ’’کولمبس‘‘ بننے کی خواہش الگ بات ہے۔ عربی زبان کے بین الاقوامی شہرت کے حامل پروفیسر عبد العزیزالمیمنی مرحوم ان ’’لوگوں‘‘ کی زبان کے ساتھ اس بازیگری کی بناء پر (جس کے مشاہدہ اور تجربہ کا موقع خود ان لوگوں کے ایک بڑے زعیم نے پروفیسر صاحب کو کراچی میں قیام کے دوران بہم پہنچایا تھا) کہا کرتے تھے: ’’ایسا لگتا ہے ان لوگوں کا مقصد ’’لغات القرآن ‘‘ کو سمجھنا نہیں بلکہ ایک نئی زبان ’’تصنیف‘‘ کرنا ہے۔‘‘

·       بات یہ ہے کہ دنیا کو رہبانیت، تجرد اور ’’برہم چریہ‘‘ جیسی ناقبل عمل اور غیر فطری تعلیم دینے والوں کے ’’اعتراضات‘‘سے گھبرا کر ہمارے ان ’’روشن خیال‘‘ مفکرین کا ’’ازواج مطھرۃ‘‘ کی قسم کے الفاظ کے معنی کو توڑنے مروڑنے کے لیے ’’لغت ِقرآن‘‘کے کونوں کھدروں میں چھپتے پھرنا، نہ تو دین کی خدمت ہے نہ علم کی علامت  ـــ اور آخرت کی زندگی میں عورتوں یا بیویوں کے ذکر سے گھبرانا اور شرمانا بھی یا تو بعض جاہلی اور غیر فطری مذاہب کی تعلیمات کے اثر کی وجہ سے ہے اور یا پھر محض فیشن اور منافقت ہے۔ کیونکہ جنت (اور آخرت) میں زوجیت کے وجو کا قائل ہونے سے شرمانے والے یا اس پر اعتراض کرنے والے اکثر وہ لوگ ہیں جو کسی عورت سٹینو یا سیکرٹری کے بغیر نہ دفتر چلاسکتے ہیں نہ کاروبار ـــ وہ اس سواری میں سفر نہیں کر سکتے جس میں کوئی من موہن ’’میزبان (HOSTESS)  نہ ہو ـــ وہ اس مجلس کو مہذب نہیں سمجھتے جہاں بے حجاب اور بے باک عورتیں رونق افروز نہ ہوں  ـــحتی کہ وہ مرنے کے لیے بھی کسی ایسے ہسپتال یا نرسنگ ہوم کو منتخب کرتے ہیں۔ جس میں دم واپسیں تک خوشنما(SMART) نرسوں کے سرہانے موجود ہونے کا امکان ہو ـــ ایسے لوگوں کو یہ کیوں کر زیب دیتا ہے کہ وہ قرآن میں ’’پاکیزہ بیوی‘‘ کے ذکر سے بھی چڑیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری حسی، ذہنی اور روحانی استعدادوں کی طرح جنسی استعداد اور اس کی ’’پاکیزہ تکمیل ‘‘ کا بھی کامل اور مکمل انسان کی شخصیت کا لازمی حصّہ ہے اور اگر انسانی شخصیت (HUMAN PERSONALITY) کی بقاء کو تسلیم کرنا ہے تو اس کی پوری شخصیت  (ENTIRELY, IN TOTALITY) کی بقاء کو ماننا پڑے گا۔ محض ایک ذہنی یا تجریدی (ABSTRACT) قسم کی بقاء تو اس کی تکمیل نہیں بلکہ اس میں ایک کمی ہے۔ نقص ہے۔ اور اس بارے میں اسلام کا موقف بالکل معتدل اور حقیقت پسندانہ (REALISTIC) ہے۔ باقی تمام نظریات یا تو افراط و تفریط کا مظہر ہیں یا کسی نفسیاتی وہم (COMPLEX) کانتیجہ۔

·       اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قرآن کریم میں آخرت کی جن نعمتوں اور لذتوں کا (یا جن سزاؤں اور دکھوں کا)ذکر آیا ہے۔ ان کا معاملہ ایک لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی صفات کے بیان کی طرح ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا بیان بشری محسوسات کے مطابق ہی کیاگیا ہے۔ مگر ساتھ ’’ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْء ‘‘ (الشوریٰ:۱۱) کہہ کر ہر قسم کی مماثلت اور مشابہت کی بھی نفی کر دی گئی ہے ـــ اسی طرح آخرت کی نعمتوں کے بیان سے بھی بنیادی طور پر تو ہماری اپنی بشری محسوسات ہی کی روشنی میں ایک تصور ابھرتا ہے۔ مگر قرآن کریم میں یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ یہ نعمتیں انسانی علم کی رسائی سے ماوراء ہیں۔ ’’ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ  (…السجدہ:۱۷) اور اسی کی تفسیر میں صحیحین کی مرفوع حدیث میں آیا ہے۔ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ‘‘ (میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز تیار کی ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی، نہ کسی کان نے سنی اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال تک آیا یا آسکتا ہے)۔ تو جو چیز انسانی تخیل و تصور کی دسترس سے بھی ماوراء ہے اس کو اپنی دنیاوی نعمتوں اور لذتوں پر قیاس کرنا بھی غلط ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ آخرت کی نعمتوں (یا سزاؤں) کا جو ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ ان کی حقیقت ان الفاظ سے بھی قریب تر ہی ہوگی جن میں قرآن کریم  نے ان کو بیان کیا ہے۔ یا جس طرح صحیح احادیث میں ان کا بیان آیا ہے۔ تاہم اس کی اصل حقیقت امور غیبیہ (الغیب) میں سے ہے ہم اس کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں ’’آمنا بہ کل من عندربنا‘‘ (آل عمران:۷) ان کی حقیقت نوعیت اور تفصیلات کا جاننا نہ ضروری ہے اور نہ ہی ممکن۔ بھلا آپ چھ ماہ یا ایک سال کے بچے کو ان نعمتوں اور لذتوں یادکھوں اور پریشانیوں کا تصور کیوں کر دے سکتے ہیں جن سے خود اس کو تیس چالیس سال کی عمر میں واسطہ پڑے گا۔

·       اس کتاب میں ہمارا مقصد تفسیر ِقرآن کی باریکیوں میں جانا ہزگز نہیں ہمارا اصل دائرہ ’’لغات و اعراب‘‘ ہی ہے۔ تاہم یہاں ہمیں اس بحث میں اس لیے الجھنا پڑا کہ یہاں ’’لغات‘‘ کے نام پر ہی ’’گھپلا‘‘ کرنے کا ایک نمونہ سامنے آیا ـــ اور اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب کوئی آدمی قول ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے نیاز  ـــبلکہ اس کا منکر  ـــہو کر قرآن کریم کو صرف زبان (لغت و نحو)کے زور پر سمجھنا چاہتا ہے اور وہ بھی اہل زبان کے محاورے اور استعمال کی بجائے صرف زبان کی مبتدیانہ معلومات کی بناء پر اورمعجم (ڈکشنری)میں بیان کردہ مختلف معانی میں سے کسی ایک مفید ِمطلب بات میں کھینچا تانی کرکے کچھ نہ کچھ نکال لانے پر تُل جاتا ہے۔ [4] تو اس کے ذہن کی کجی (زیغِ قلب)کے باعث اس پر کیا کیا ’’انکشافات‘‘ ہوتے ہیں۔

·       اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آخر یہ لوگ اس نئی معنی آفرینی سے کس کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی عربی دان یہودی یا عیسائی تو ان لوگوں کے اس معذرت خواہانہ (APOLOGETIC) جدید ’’مفہوم‘‘کو قبول کرکے تعلیماتِ قرآن پر اعتراض کرنے سے باز نہیں آنے کا۔ عربی زبان سے ناواقف اور سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر و مخالف لوگ ہی ان ’’انکشافات‘‘ پر سر دھنیں تو دھنیں اس قسم کے بعض مقامات پر آگے چل کر بھی ہمارے سامنے آئیں گے۔

[وھم فیھا]=وَ (اور) +ھم( وہ سب) +فِی(میں)+ھَا (اس)کا مرکب ہے یہ سب الفاظ کئی بار گزرچکے ہیں۔ ترجمہ ہوگا۔ ’’وہ سب اس میں…."

۱:۱۸:۲(۱۲)    [خالِدُونَ] (یہ اس لفظ کا رسم املائی ہے۔ رسم قرآنی پر آگے۔ ’’الرسم‘‘میں بات ہوگی) اس لفظ کا مادہ ’’خ ل د‘‘ اور وزن ’’فاعِلُون‘‘ ہے اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’خلَد یخلُد خُلُودًا وخُلْدًا (باب نصر سے) آتا ہے۔ اور ’’بَقِیَ اور دَامَ‘‘کے معنی دیتا ہے یعنی ’’کسی جگہ ہمیشہ کے لیے رہنا۔ آخر تک رہنا ۔ کسی جگہ مسلسل بسنا‘‘ ـــ لفظ ’’خالِدُون‘‘ (جو ’’خالدٌ‘‘ کی جمع مذکر سالم ہے) اس فعل مجرد سے اسم الفاعل کا صیغہ جمع ہے اور اس کے لفظی معنی تو ہیں ’’ہمیشہ رہنے والے، بسنے والے‘‘اردو کے بعض مترجمین نے تو اسی طرح تحت اللفظ ترجمہ ہی کیا ہے۔ مگر اکثر نے اردو محاورے کا لحاظ رکھتے ہوئے ’’ہمیشہ رہیں گے‘‘ یا ’’ہمیشہ کے لیے ہوں گے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ جو محاورہ اور مفہوم کی بناء پر ہی درست ہے ورنہ بظاہر تو یہ ’’خالدون‘‘ کی بجائے ’’یخلدون‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔

·       اس فعل مجرد (خلَد یخلُد) سے فعل کے صرف دو صیغے اور مزید فیہ کے بابِ افعال سے بھی فعل کے صرف دو ہی صیغے قرآن کریم میں آئے ہیں۔ البتّہ ثلاثی مجرد اور مزید فیہ کے بعض مصادر اور اسماء مشتقہ۸۰ سے زائد جگہ آئے ہیں۔ جن میں زیادہ لفظ ’’خالدٌ‘‘ اوراس کے تثنیہ اور جمع سالم کے صیغوں کی ہے۔

 

۲:۱۸:۲     الاعراب

          آیت زیرِ مطالعہ دراصل پانچ مستقل چھوٹے جملوں پر مشتمل ہے جن میں سے بعض واو عاطف کے ذریعے باہم ملا دئے گئے ہیں۔ اعراب کی تصیل یوں ہے۔

(۱)      وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ   ۔

           [وَ] عاطفہ ہے جو اس (آنے والے) جملے کو سابقہ جملے (آیت)سے ملاتی ہے۔ [بشِّرْ] فعل امر صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ جس میں ضمیر فاعل ’’انتَ‘‘مستتر ہے۔ [الَّذِیْنَ] اسم موصول یہاں فعل (بشِّرْ) کا مفعول بہ ہوکر منصوب ہے۔ یعنی ’’تو خوشخبری سنا ان لوگوں کو جو کہ …‘‘ [آمنوا] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘جملہ فعلیہ بن کر ’’الذین‘‘کا صلہ ہے۔ (بلکہ یہاں سے صلہ شروع ہوتا ہے)۔[وعملوا] میں ’’وَ‘‘ عاطفہ ہے جس کے ذریعے ’’عملوا‘‘ کا ’’آمنوا‘‘ پر عطف ہے۔ [الصالحات] فعل ’’عملوا‘‘ کا مفعول بہ(لھذا) منصوب ہے۔ اس میں علامتِ نصب آخری ’’ت‘‘ کا کسرہ (ـــــِــــ)ہے۔ کیونکہ یہ جمع مونث سالم ہے۔ [أَنَّ] حرف مشبہ ّبالفعل ہے جس سے پہلے ایک ’’باء‘‘ محذوف ہے جو فعل ’’ بشّر‘‘کے بعد آتی ہے یعنی دراصل یہ ’’بِأَنَّ‘‘ ہی ہے۔

[لھم] جار (لِ) اور مجرور (ھم) مل کر ’’أَنَّ‘‘ کی خبر مقدم کا کام دے رہا ہے اور [جناتٍ] اس (أنَّ) کا اسم موخر ہے گویا دراصل عبارت ’’ان جناتٍ لھم‘‘تھی۔ ’’لھم‘‘ کے مقدّم ہونے سے اس میں ’’ان ہی کے لیے (ہیں)‘‘ کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔ [تجری] فعل مضارع معروف صیغہ واحد مؤنث غائب ہے جس کی تانیث اس کے فاعل (جو آگے آرہا ہے) کی جمع تکسیر کی وجہ سے ہے ۔ [من تحتھا] جار مجرور [’’مِنْ‘‘ جار+ تحت ظرف مضاف مجرور +ھا ضمیر مجرور] مل کر فعل ’’تجری‘‘سے متعلق ہے اور [الانھارُ] فعل ’’تجری‘‘کا فاعل (لھذا)مرفوع ہے گویا اس عبارت کی سادہ نثر یوں بنتی ہے۔ ’’تجری الانھار من تحتھا‘‘اور یہ پوراجملہ فعلیہ (تجری من تحتھا الانھار) لفظ ’’جناتٍ (نکرہ موصوفہ) کی صفت ہوکر محلاً منصوب ہے۔ (کیونکہ ’’جناتٍ‘‘ اسم ’’انّ‘‘ منصوب تھا) اگر صرف ’’تجری‘‘کو ’’جنات‘‘ کی صفت سمجھ لیاجائے تو ترجمہ ہوجائے گا ’’ایسے باغات جو بہتے ہیں‘‘اور یہ بالکل غلط ہوگا۔ کیونکہ باغات نہیں بہتے بلکہ نہریں بہتی ہیں۔ پورے فقرے (تجری من تحتھا الانھار) کو ’’جنات‘‘ کی صفت ماننے سے ترجمہ ہوگا ’’ایسے باغات جو کہ بہتی ہیں (یا ہوں گی) ان کے نیچے نہریں‘‘ یعنی جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی یعنی اس میں پانی رواں ہوگا (دریا یا نہر نہیں بلکہ اس کا پانی بہتا ہے مگر عربی اردو  دونوں کے محاورے میں ’’بہنے‘‘ کے فعل کی نسبت دریا یا نہر کی طرف ہی کی جاتی ہے۔ اس پورے لمبے جملے میں ’’الذین امنوا و عملوا الصالحات‘‘ تو فعل ’’بشر‘‘ کا پہلا مفعول (جس کو خوشخبری دی جائے)ہے اور ’’أن لَھُمْ جنات تجری من تحتھا الْاَنھٰر‘‘ پورا جملہ اس (بشِّرْ) کا دوسرا مفعول (جس چیز کی خوشخبری دی جائے)ہے۔

(۲) كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَـــرَةٍ رِّزْقًا

·       [کلَّما] میں ’’مَا‘‘ ظرفیہ بمعنی ’’جب‘‘ ہے اور ’’کلّ‘‘ کا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے ’’کلّ ‘‘بھی ظرفیت کے ساتھ منصوب (کُلَّ) ہوگیا ہے۔ اور یہ پوری ترکیب (کُلَّما)ظرف ِ زمان بمعنی شرط ہے یعنی ’’جب کبھی بھی‘‘ یا ’’جب بھی ‘‘کے معنی دیتا ہے۔ [رُزِقوا] فعل ماضی مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس میں ضمیر متصل ’’ھم‘‘نائب فاعل کے لیے موجود ہے۔ [منھا] جار مجرور متعلق فعل (رُزِقوا)ہے یعنی ’’وہ دیے گئے یا ان کو دیا گیا اس میں سے ‘‘ تاہم شرط کی بنا پر ترجمہ مستقبل کے ساتھ ہوگا۔ (شرط ماضی پر نہیں ہوتی)۔ یعنی ’’ان کود یا جائے گا اس میں سے‘‘ ـــ اس (منھا) کی ضمیر مجرور (ھا) ’’جنات‘‘ کے لیے ہے۔ [من ثمرۃ] یہ جار (من) مجرور (ثمرۃٍ) مل کر سابقہ ’’منھا‘‘ کا بدل ہے اور بدل الاشتمال ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے کہیں ’’اکلت من بستانک من الرمان شیئا‘‘ (میں نے تیرے باغ میں سے انار میں سے کچھ کھایا) اس میں ’’من الرمان‘‘ ’’من بستانک‘‘ کا بدل الاشتمال ہے۔ ترجمہ ہوگا۔ ’’کِسی پھل میں سے یا کوئی پھل‘‘ [رزقاً] یہ فعل ’’رزِقوا‘‘کا مفعول ثانی (لھذا) منصوب ہے (پہلا مفعول ضمیر نائب فاعل ’’ھم‘‘تھی)۔ اس طرح ’’کلما رزقوا منھا من ثمرۃ رزقا‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’جب کبھی بھی وہ دیے جائیں گے (ان کو دی جائے گی) ان (باغات) میں سے (یعنی) کسی (قسم کے) پھل سے کچھ روزی یا غذاء‘‘ ـــ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ’’رزقاً‘‘  کو مفعول لہٗ سمجھ لیا جائے اس صورت میں عبارت کے آخری حصے کا ترجمہ ہوگا۔ ’’روزی یا غذا کی خاطر‘‘ اردو کے صرف ایک مترجم نے ’’رزقا‘‘ کو مفعول سمجھ کر ترجمہ ’’کسی پھل کی غذا ‘‘کیا ہے۔ بیشتر حضرات نے اسے مفعول لہٗ سمجھ کر ہی ترجمہ ’’کھانے کو‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ اور اگر یہاں ’’من ثمرۃ ‘‘ (کچھ پھل )کا ذکر نہ ہوتا تو ’’رزقا‘‘ کو فعل ’’رزقوا‘‘ کا مفعول مطلق بھی سمجھا جاسکتاتھا۔مگر یہاں بات اب بھر پور روزی کی نہیں ہورہی جو مفعول مطلق کا تقا ضا  تھا ـــ اس پورے جملے (کلما رزقوا منھا من ثمرۃ) کو ’’جنات‘‘ کی صفت ثانیہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اور اسے جملہ مستأنفہ (الگ جملہ) بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ ایک نامکمل جملہ ہے اس لیے کہ اس میں صرف شرط کا بیان ہوا ہے جوابِ شرط اس سے اگلے جملے میں ہے جس کے ساتھ مل کر یہ جملہ شرطیہ مکمل ہوگا ـــ یعنی

(۳) قَالُوْا ھٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ

           [قالوا] فعل ماضی کا صیغہ مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ہے۔ مگر یہاں سے ’’کُلَّما‘‘والے جملے کا جوابِ شرط شروع ہورہا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ مستقبل کی طرح ’’تو کہیں گے‘‘ہوگا۔ [ھذا] اسم اشارہ مبتداً مرفوع ہے۔ [الذی] اسم موصول (ھذا) کی خبر ہے لھذا مرفوع ہے۔ [رزِقْنا] فعل ماضی مجہول صیغہ جمع متکلم ہے۔ جس میں ضمیر مرفوع متصل ’’نَا‘‘ نائب فاعل کا کام دے رہی ہے۔ اور یہ جملہ فعلیہ (رزقنا) ’’الذی‘‘ کے صلہ کا ہی ایک حصہ ہے جس میں ضمیر عائد محذوف ہے۔ یعنی دراصل ’’رزِقناہ‘‘ ہے۔ [من قبل] من حرف الجر ّاور ’’قبل‘‘ ظرف ہے۔ اور یہاں اس کا مضاف الیہ محذوف ہے اس لیے یہ ضمہ (ـــــُـــــ) پر مبنی رہ گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’پہلے بھی‘‘ہوگا ـــ اور یہ جار مجرور (من قبل) فعل ’’رُزِقنا‘‘سے متعلق ہے۔ اور یہ سارا جملہ (رزقنا من قبل)اسم موصول "الذی"کا صلہ ہے اور یہ صلہ موصول مل کر "ھذا" کی پوری خبر بنتا ہے ۔اس پورے جملہ اسمیہ (ھذالذی رزقنا من قبل) کا لفظی ترجمہ ہوگا ’’یہ وہ ہے جو دیا گیا ہم کو پہلے بھی‘‘۔

(۴) وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا

          [وَ] یہاں حالیہ بھی ہوسکتی ہے اس صورت میں ’’وَ‘‘ کے بعد ایک ’’قَدْ‘‘ محذوف سمجھا جائے گا اور اس کا تعلق سابقہ جملے کے ساتھ ہوگا۔ یعنی وہ یہ بات کہیں گے۔ (قالوا…مندرجہ بالانمبر۳) اس حالت میں کہ ان کو دیا جاچکا (اتوا) … اور چاہیں تو اسے واو الاستیناف سمجھ لیں یعنی یہاں سے ایک نیا جملہ شروع ہورہا ہے اس صورت میں اس کااردو ترجمہ صرف ’’اور‘‘ سے کیا جائے گا۔ [اُتُوا] فعل ماضی مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس میں ضمیر مرفوع متصل ’’ھم‘‘ موجود ہے۔ (آخری ’’و‘‘ کی شکل میں) جو نائب فاعل کا کام دے رہی ہے۔ [بِہ] جا رمجرور متعلق فعل ’’اُتُوا‘‘ ہے یعنی پہلے فعل ’’اتی یاتی‘‘ پر ’’بِ‘‘ لگا کر اسے متعدی بنایا گیا اور پھر متعدی سے مجہول بنایا گیا ہے ـــ ضرورت ہو تو اس ’’اتوابہ‘‘ کی لغوی بحث اوپر دیکھ لیجئے۔یعنی ۱:۱۸:۲(۸)میں ـــ ’’بہ‘‘ کی ضمیر مجرور ’’رزق‘‘ کے لیے ہے (جس کا ’’رُزِقنا‘‘ میں ذکر ہے) یوں ’’اتوابہ‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’ان کے سامنے لایا گیا وہ (رزق)‘‘ ـــ

[متشابھا] حال ہے (نصب کی وجہ یہی ہے) یعنی ’’ملتا جلتا ہوا‘‘ یا اردو محاورے کے مطابق صرف ’’باہم ملتا جلتا ‘‘اس طرح اس جملہ (واتوا بہ متشابھًا) کا ترجمہ بطور جملہ مستانفہ یوں ہوگا ’’اور ان کو لائے گئے (وہ دیئے گئے) وہ (رزق یا پھل) باہم ملتا جلتا ‘‘

(۵)     وَلَھُمْ فِيْهَآ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ    

          [وَ] عاطفہ اور [لھم] جار مجرور مل کر خبر مقدم کا کام دے رہاہے۔ ضمیر ’’ھم‘‘ کا مرجع ’’الذین امنوا…‘‘ ہے۔ [فیھا] یہ جار مجرور متعلق خبر (لھم) ہے اور اس میں ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ ’’جنات‘‘ کے لیے ہے۔ [ازواجٌ] مبتدأ مؤخر (نکرہ) مرفوع ہے۔ [مطھرۃ] ’’ازواج‘‘ کی صفت ہے چونکہ موصوف جمع مکسر ہے لہٰذا اس کی صفت بصیغہ واحد مونث آئی ہے۔ اس طرح اس جملے (ولھم فیھا ازواج مطھرۃ) کا ترجمہ ہوگا ’’اور ان کے لیے (ہونگی) ان (باغات) میں پاکیزہ بیویاں‘‘یہ جملہ ’’و‘‘ عاطفہ کے ذریعےاپنے سے سابقہ جملے پر عطف ہے۔

(۶)       وَّھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ

          [وَ] عاطفہ اور [ھم] مبتدأ مرفوع ہے۔ [فیھا] جار مجرور متعلق خبر (جو آگے آرہی ہے)ہے۔ یہاں بھی ضمیر ’’ھا‘‘ کا مرجع ’’جنات‘‘ ہی ہے۔ [خلدون] ھم کی خبر مرفوع ہے۔ علامتِ رفع آخری نون اعرابی سے پہلے آنے والی ’’و‘‘ ماقبل مضموم (ـــــُـــــ وْ) ہے جو جمع مذکر سالم میں علامتِ رفع ہوتی ہے۔ یہ عبارت سادہ نثر میں ’’وھم خالدون فیھا‘‘تھی جس میں فاصلہ آیت کی رعائت سے ’’خالدون‘‘ آخر پر لایا گیا ہے اور ’’فیھا‘‘کے مقدم ہونے سے اس میں ’’اس ہی میں‘‘ کا مفہوم بھی پیدا ہوگیا ہے۔

          نوٹ: آپ نے دیکھا کہ یوں تو یہ آیت (زیر مطالعہ) قریباً  چھ چھوٹے جملوں پر مشتمل ہے جس کو علامات وقف کے ذریعے (مثلاً وقفِ مطلق ’’ط‘‘ لگا کر) اوّلاً تین بڑے جملوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی پہلا جملہ ’’الانھار‘‘ پر دوسرا ’’متشابھًا‘‘ پر اور تیسرا ’’خالدون‘‘پر ختم ہوتا ہے۔ پھر ان جملوں میں سے بعض آپس میں اس قدر مربوط ہیں (مثلاً شرط اور جواب شرط ہونے کی بناپر دیکھئے نمبر۲ مندرجہ بالا) کہ ان کے درمیان وقف کرنا درست نہیں۔ اس لیے وہاں علامتِ وقف ناجائز (لا) لگائی گئی ہے۔ علامات الوقف ہمیشہ عبارت کی ترکیب نحوی کے پیش نظر مقرر کی جاتی ہیں۔ اعراب اور ترکیب نحوی کے اختلاف کی بناء پر مختلف ملکوں کے علماء کے نزدیک وقف کی جگہوں اور علامتوں میں فرق بھی ہوتا ہے۔ ہم نے اوپر (شروع آیت میں)برصغیر کے حوالے سے یہ علامت درج کی ہیں۔ مگر جملوں کے علیحدہ علیحدہ اعراب میں بعض دوسرے امکانات بھی بیان ہوئے ہیں۔

 

۳:۱۸:۲      الرسم

وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ    ۭ   كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَـــرَةٍ رِّزْقًا    ۙ   قَالُوْا ھٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ    ۙ    وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا    ۭ    وَلَھُمْ فِيْهَآ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ     ڎ    وَّھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ    (۲۵)

          زیرِ نظر مطالعہ آیت (جو قریباً ۳۵ کلمات پر مشتمل ہے)کے بیشتر کلمات کا رسم عثمانی اور رسم املائی یکساں ہے صرف سات کلمات بلحاظ رسم عثمانی توجہ طلب ہیں یعنی ’’الصالحات، جنات، الانھار، کلما، متشابھا، ازواج اور خالدون‘‘ ـــ (یہاں ہم نے ان تمام کلمات کو رسمِ املائی کے مطابق ہی لکھا ہے۔ تاکہ آپ کو ان کے رسم عثمانی کا فرق معلوم ہوجائے۔

          اب ہم ان میں سے ہر ایک کے رسم پر بالتفصیل بات کرتے ہیں

·       مندر جہ بالا کلمات میں سے چار کلمات یعنی ’’الصالحات، جنات، الانھار اور خالدون تو رسمِ عثمانی میں بالاتفاق بحذف الف لکھے جاتے ہیں۔ یعنی قرآن کریم میں ان کو ہمیشہ اور ہر جگہ ’’الصلحت‘‘، ’’جنت‘‘، ’’الانھر‘‘اور ’’خلدون‘‘کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔ نوٹ کیجئے ’’الصلحت‘‘میں سے دو الف حذف ہوئے ہیں (ایک ’’ص‘‘ کے بعد دوسرا ’’ح‘‘کے بعد)۔ ’’جنت‘‘ میں ایک الف (’’ن‘‘کے بعد) ’’الانھر‘‘میں ایک الف (’’ھ‘‘کے بعد) اور ’’خلدون‘‘ میں بھی ایک الف (’’خ‘‘ کے بعد) حذف ہوا ہے۔

·       ترکی، ایران اور چین کے مصاحف میں یہ چاروں کلمات باثبات الف یعنی رسم املائی کی طرح لکھنے کا رواج ہوگیا ہے جو متفقہ رسم عثمانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ برصغیر کے اکثر اہلِ علم کُتّابِ مصاحف (مثلاًمنشی ممتاز علی۔ دہلی۔ محمد قاسم لدھیانوی اور میرزا محمد علی۔بمبئی)نے ان چاروں کلمات کو بحذف الف ہی لکھا ہے (یعنی رسم عثمانی کے مطابق)۔

آیت زیرِ مطالعہ کے دوکلمات ’’متشابھًا‘‘ اور ’’ازواج‘‘ میں الف( پہلے کلمہ میں ’’ش‘‘ کے بعد اور دوسرے کلمہ میں ’’و‘‘ کے بعد) کے حذف یا اثبات میں اختلاف ہے۔ الدانی نے المقنع میں یہاں حذفِ الف کی تصریح نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ لیبیا کے ’’مصحف الجماھیریہ‘‘ میں یہ دونوں کلمات باثبات الف (متشابھًا اور ازواج کی شکل میں) لکھے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں۔ برصغیر میں ـــ (مثلاً انجمن حمایتِ اسلام کے نسخہ میں) بلکہ ترکی، ایران اور چین کے مصاحف میں بھی یہ دونوں کلمات باثباتِ الف ہی لکھے جاتے ہیں ـــ اس کے برعکس الدانی کے شاگرد ابوداؤد کی تصریح کی بنا  پر [5]عرب اور افریقی ممالک (ماسوائے لیبیا) کے مصاحف میں یہ کلمات بحذف الف لکھے جاتے ہیں ـــ  (یعنی ’’متشبھا‘‘ اور ’’ازوج‘‘ کی صورت میں) گویا برصغیر کے مصاحف بلحاظ ’’رسم‘‘ بہت سی چیزوں میں اہل لیبیا کے مصاحف کے موافق ہیں۔ اگر چہ وجہ موافقت مختلف ہے۔ اہلِ لیبیا الدانی اور ابوداؤد میں اختلاف کی صورت میں ’’الدانی‘‘کے قول کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ عام عرب ممالک اس صورت میں ابوداؤد کے قول کو فائق سمجھتے ہیں۔ البتّہ برصغیر کے مصاحف میں ترکی اور ایران کے مقابلے پر ’’رسم‘‘ کی اغلاط نسبتاً کم ہیں ـــ اور اہل لیبیا سے ان کی  ـــبعض کلمات میں موافقت غالباً محض اتفاق ہے[6]

·       ساتویں کلمہ (چھ کلمات پر اوپر بات ہوئی ہے)’’کُلَّما‘‘ کے رسمِ عثمانی کے بارے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ کلمہ قرآن کریم میں ہر جگہ موصول (یعنی ’’کُلَّ‘‘ اور ’’مَا‘‘کو ملا کر)لکھا جاتا ہے۔یہ لفظ مجموعی طور پر قرآن کریم میں سترہ دفعہ آیا ہے۔ ان میں سے صرف پانچ مقامات (النساء:۹۱، الاعراف:۳۸، ابراہیم:۳۴، المومنون:۴۴ اور الملک:۸) پر اسے مقطوع (بصورت ’’کلَّ مَا‘‘) لکھنے کا ذکر کتبِ رسم میں آیا ہے) بلکہ ان میں سے بھی متفق علیہ مقطوع تو صرف ایک جگہ (ابراہیم:۳۴)ہے۔ باقی مقامات پر اسےمقطوع یا موصول لکھنے میں اختلاف ہے۔[7]ان سب مقامات کی وضاحت اپنی اپنی جگہ ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

 

۴:۱۸:۲     الضبط

          ضبط کے نمونوں میں عموماً یہ ترتیب ملحوظ رکھی جاتی ہے پہلے پاکستانی طریقِ ضبط لکھا جاتاہے۔ اس کے بعد ایرانی اور ترکی ضبط (بالعموم ملتا جلتا ہے) اس کے بعد عرب ملکوں کا ضبط اور آخر پر افریقی ممالک کا ضبط بتایا جاتا ہے۔ افریقی ممالک میں ہمزئہ قطع (کی علامت قطع کو) کئی طریقوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔(#)  اور بعض افریقی ملکوں ( مثلا تونس اور لیبیا) میں عرب ملکوں کی طرح ’’ء‘‘کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ہم نے افریقی ممالک کے ضبط میں زیادہ تر"E" کو ہی علامتِ قطع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جن کلمات کا ضبط سب جگہ یکساں ہے۔ اسے صرف ایک دفعہ ہی لکھا گیا ہے۔ زیرِ مطالعہ آیت میں اختلافاتِ ضبط کو مندرجہ ذیل نمونوں کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔

 

 

 

25a

 

 

 

25b

 

 

 

 

 

 



[1]  دیکھئے اعراب ثلاثین سورۃ (لابن خالویہ) ص ۲۴۰ و ۲۴۱۔

[2] دیکھئے البستان مادہ ’’جنن‘‘

 

 [3] مثلاً دیکھئے "LANE'S LEXICON"  تحت مادہ ’زوج

 

 [4] ان لوگوں کی زبان کے ساتھ اس قسم کی دھاندلی کو یوں سمجھئے کہ مثلاً انگریزی کے لفظ "KIND"کے عام ڈکشنری  کے کم از کم تین معنی تو موجود ہیں۔یعنی (۱) مہربان (۲) قِسم اور (۳) جنس یا سامان (بمقابلہ ’’نقد‘‘ مثلاً)۔ اب اگر کوئی آدمی کسی عبارت میں ان تینوں میں سے ایک مقرر معنی ہی مراد لینا چاہے (قطع نظر اس بات کے کہ عبارت اسے قبول کرتی ہے یا نہیں) اس لیے کہ وہ معنی ڈکشنری میں بہر حال موجود ہے تو کیا اہل زبان ایسے آدمی کو احمق نہیں کہیں گے؟ کِسی عبارت میں کِسی لفظ کے معنی (مراد)کو اہل زبان کا محاورہ اور سیاق اور سباق متعین کرتا ہے نہ کہ صرف ڈکشنری۔ یا اس کے ساتھ بازیگری ـــاور قرآن کریم کے معاملے میں تو مأثور معنی کو مقدم رکھنا بھی ضروری ہے۔

 

    [5] جس کا ذکر بعد کے مصنفین  مثلاً صاحب ’’مورد المظمآن‘‘ نے کیا ہے۔ ابوداؤد کی کتاب ’’التنزیل فی ھجاء المصاحف‘‘ ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔ اس کے مندرجات کے بارے میں ہماری معلومات کا ذریعہ بعد کی تالیفات ہی ہیں خصوصاً مورد الظمآن للحزاز (المتوفی ۷۱۸ھ) مثلاً ان دوکلمات کے حذف الف کا ذکر دیکھئے دلیل الحیران (شرح مورد الظمآن) ص۹۲ اور ص۱۰۲

 [6]  اس موضوع پر بالتفصیل بحث الفاتحہ:۶  یعنی ۳:۵:۱ میں لفظ ’’الصراط‘‘کے رسم کے ضمن میں ہوچکی ہے۔

 [7]  دیکھئے دلیل الحیران للمارغنی ص۹۶۔ ۲۹۵ اور الشاطبی (العقیلہ) ص۹۲