سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۶ اور ۲۷

۱۹:۲        اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا     ۭ  فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ   ۚ   وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا  ۘ يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا    ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًا    ۭ   وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ(۲۶)الَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِه   ٖ  ۠   وَ يَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ   ۭ   اُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ   (۲۷)

۱:۱۹:۲       اللغۃ

]اِنَّ اللّٰهَ] اِنَّ(بے، شک، یقیناً) +اللہ (تعالیٰ) ـــ اسمِ جلالت (اللہ) کے مادہ و اشتقاق کی بحث ’’بسم اللہ‘‘ میں گزر چکی ہےیعنی۱:۱:۱(۲)میں

۱:۱۹:۲(۱)     [لَا يَسْتَحْىٖ] میں ’’لَا‘‘ تو نفی (’’نہیں‘‘کے معنی پیدا کرنے) کے لیے ہے۔ ’’ يَسْتحْىٖ ‘‘ کا مادہ ’’ح ی ی‘‘ اور وزن اصلی ’’یَسْتَفْعِلُ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’ يَسْتَحْیِىُ ‘‘تھی۔ جس میں پہلے تو فعل ناقص کے صیغۂ مضارع کی آخری مضموم ’’ی‘‘کو ماقبل مکسور کی وجہ سے ساکن کردیا جاتا ہے(جیسے یَرْمِیُ سے یَرْمِیْ اور یَقْضِیُ سے یَقْضِیْ ہوجاتا ہے)۔اس طرح اس فعل مضارع کے آخر پر ایک یائے مکسورہ اور اس کے بعد ایک یائے ساکنہ ہے۔ جسے ’’یِییْ‘‘ کی شکل میں لکھا جانا چاہئے تھا(یعنی بصورت ’’یَسْتَحْیِیْ‘‘) مگر قرآن کریم میں اسے صرف ایک ’’یاء‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ پھر ضبط کے ذریعے اس محذوف ’’ی‘‘ کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ (یعنی اس محذوف کو پڑھا ضُرور جاتا ہے)۔ اس پر مزید بحث ’’الرسم‘‘ اور ’’الضبط‘‘کے عنوان کے تحت ہوگی

·       اس مادہ (ح ی ی)سے فعل ثلاثی مجرد ’’حُیَّ یَحْیٰی حیاۃً‘‘(باب سمع سے) آتا ہے اور جو دراصل حَیِیَ یَحْیَیُ تھا پھر اس سے (۱) حَیِیَ یَحْیٰی بنا۔ جس میں ادغام (’’ی‘‘ کے دو دفعہ مضاعف ہونے کی وجہ سے) کرکے (۲) ’’حَیَّی یَحَییُّ‘‘ مَسَّ یَمَسُّ کی طرح) بھی استعمال کرتے ہیں اور صرف ماضی ادغام کے ساتھ اور مضارع بغیر ادغام کے بھی استعمال کرتے ہیں یعنی (۳)’’حَیَّی یَحْییٰ‘‘بولتے ہیں۔ اور قرآن کریم میں یہی آخری (تیسری) صورت (حَییَّ یَحْییٰ) استعمال ہوئی ہے۔ (الانفال:۴۲)۔ بعض قبائل عرب صیغۂ ماضی کو حَیِیَ (بروزن خَشِیَ و رَضِیَ)ہی استعمال کرتے ہیں اور ان تینوں صورتوں میں اس فعل مجرد کے معنی ہیں ’’زندگی پانا، زندہ ہونا، جاندا رہونا، حیات (زندگی) والا ہونا‘‘ ـــ عربی زبان میں حَیِیَ یَحْییٰ حَیَاءً‘‘ شر مانا، حیاء کرنا کے معنی میں بھی آتا ہے مگر ان معنی کے لیے یہ فعل (ثلاثی مجرد) قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ (مزید فیہ سے یہ معنی آئے ہیں جن پر ابھی بات ہوگی) ـــ اس فعل (ثلاثی مجرد)سے ماضی کا صیغۂ تثنیہ ’’حَیَا‘‘ہوگا اور صیغۂ جمع مذکر غائب ’’حَیُّوا‘‘ کے علاوہ ’’حَیُوْا‘‘ (یاء کی تخفیف کے ساتھ رَضُوْا اور خَشُوْا کی طرح)بھی استعمال کیا جاتا ہیں ـــ قرآن کریم میں اس مادہ (ح ی ی)سے فعل مجرد کے مختلف صیغے سات جگہ آئے ہیں، اس کے علاوہ مزید فیہ کے بعض ابواب(اِفعال، تفعیل اور استفعال)سے مختلف صیغے ۶۳ جگہ اور اور اس مادہ سے متعدد اسماء مشتقہ اور مصادر وغیرہ سو(۱۰۰) سے زائد مقامات پر آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ فعل ’’یستحی‘‘اس مادہ سے باب استفعال کے فعل مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اِسَتحْییٰیَسْتَحْیِیْ اِسْتِحْیَاءً‘‘کے تین معنی ہیں: (۱) … سے شرمانا، …سے جھینپنا، …سے عار کرنا(یعنی نفس کا کسی کام کی برائی کی وجہ سے اس کے کرنے میں گھٹن محسوس کرنا)  (۲) …کو زندہ بچالینا، اور اسی سے تیسرے معنی پیدا ہوتے ہیں یعنی …کوباقی چھوڑنا یا چھوڑ دینا۔

          پہلے معنی کے لیے اس کا مفعول بنفسٖہ بھی آتا ہے اور ’’مِنْ‘‘کے صلہ کے ساتھ بھی۔ مثلاً کہتے ہیں: استحیاہ اور استحییٰ منہ (وہ اس سے شرمایا) اور کبھی ’’من‘‘ کی بجائے ’’أَنْ‘‘ لگا کر ساتھ فعل مضارع کا ایک صیغہ لاتے ہیں مثلاً کہیں گے: ’’یَسْتَحْیِیُ أن…‘‘= وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ …)‘‘ جیسے یہاں آیتِ زیر مطالعہ میں ’’لایستحیی اَن یضربَ…‘‘ آیا ہے۔ یہاں بھی دراصل ’’اَن "سے پہلے ایک ’’مِن‘‘ محذوف سمجھا جاتا ہے یعنی ’’…مِنْ اَن یضربَ…‘‘ ہے۔

دوسرے اور تیسرے  معنی کے لیے کوئی صلہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ مفعول بنفسہٖ آتا ہے مثلاً استحیاہ=اسے زندہ بچالیا، رہنے دیا۔ یہ استعمال بھی قرآن کریم میں آگے آئے گا۔

·       بعض قبائل عرب (مثلاً بنو تمیم)اس فعل کو ’’استحیٰ یَسْتَحِیِ ‘‘ یعنی صرف ایک ’’یاء‘‘ (ی) سے بولتے ہیں مگر اہل حجاز کی بولی ’’استحْیٰی یَسْتَحْیِیُ‘‘ یعنی دو ’’یاء‘‘ کے ساتھ ہے۔ اور یہی بولی قرآن کریم میں آئی ہے۔ (بلحاظ ’’رسم‘‘ ایک ’’یاء‘‘ سے لکھا جانااور بات ہے تلفّظ میں دو ’’یاء‘‘ ہی آتی ہیں) ـــ اور یہ دو یاء والااستعمال اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ صَرفی قواعد کے مطابق لفیف مقرون (فعل) میں تعلیل صِرف لامِ کلمہ میں ہوتی ہے عین کلمہ میں نہیں ہوتی۔ ایک ’’یاء‘‘ کے ساتھ پڑھنے میں لام کَلمہ اور عین کلمہ دونوں میں تعلیل کردی جاتی ہے۔ جس کی اَفعال میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہوسکتا ہے کہ کثرتِ استعمال کی بناء پر ہی دوسری ’’یاء‘‘ کو بھی گرا دیا جاتا ہو۔ بہر حال یہ اہلِ حجاز کی لغت نہیں اور قرآن کریم میں استعمال بھی نہیں ہوئی۔

·       زیرِ مطالعہ آیت میں اس فعل کے دوسرے (مندرجہ بالا) معنی (یعنی زندہ بچالینا) تو فٹ نہیں آئے۔اس لیے اردو فارسی تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’شرمانا، جھینپنا، عارکرنا، شرم آنا‘‘ سے ہی کیا ہے۔ مثلاً ’’اللہ کچھ شرماتا نہیں ، جھینپتا نہیں، حیاء نہیں فرماتا، عار نہیں کرتا، ذرا نہیں شرماتا‘‘ کی صورت میں۔ البتہ بعض مفسّرین نے تیسرے معنی (باقی چھوڑنا)کو سامنے رکھتے ہوئے (اور بعض اہلِ لغت کے ’’استحیاء‘‘ کے ایک معنی استبقاء یعنی باقی چھوڑنا ۔۔۔بیان کرنے کی وجہ سے)’’ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا ‘‘ ـــ کے معنی ’’اللہ کسی (چھوٹی سے چھوٹی) چیز کو بھی نہیں چھوڑتا مثال بیان کرنے کے لیے‘‘ کی صورت میں بیان کئے ہیں۔ تاہم کسی مترجم نے ان معنی کو نہیں لیا۔ اور عام مفسرین نے بھی اسے (غالباً تکلف سمجھتے ہوئے) نظر انداز کیا ہے۔

۱:۱۹:۲(۲)     [اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا]یہ چار کلمات (اَنْ + يَضْرِبَ +مَثَلاً+ما) کا مجموعہ ہے جن کی الگ الگ وضاحت کی جائے گی۔ تاہم ان سب کو یکجا اس لیے لیا گیا ہے کہ ان سب کے ملنے سے ہی عبارت کا ایک مربوط مفہوم سامنے آتا ہے۔ جسے آخر پر بیان کیا جائے گا۔

[أَن] ایک حرف ہے[1]    جو زیادہ تر چار قسم کا (یعنی چار طرح استعمال) ہوتا ہے:

(۱)’’اَنْ‘‘ ناصبہ: جو مضارع پر داخل ہوکر اسے نصب دیتا ہے۔ اس کا عام ترجمہ ’’کہ‘‘کیا جاتا ہے لیکن بلحاظ مفہوم یہ مصدریہ ہوتا ہے اور اس لیے اسے ’’اَنْ مصدریہ‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی اَنْ کے بعد والے مضارع کا مصدری معنی بھی لیا جاسکتا ہے اسے مصدر مؤوّل کہتے ہیں۔ جیسے یہاں ’’ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا  ‘‘ کا مطلب ’’ضَرْبَ مثلٍ‘‘(مثال بیان کرنا)ہے۔ کبھی یہ (اَنْ) ماضی پر بھی آتا ہے وہاں ماضی پر عمل تو نہیں کرتا مگر معنی میں مصدریت پیدا ہوجاتی ہے۔جیسے ’’ بَلْ عَجِبُوْٓا اَنْ جَاۗءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ (ق:۲) میں ہے کہ ’’مَجْیِء مُنْذِرٍ‘‘ (ڈرانے والے کا آنا) کے ساتھ ترجمہ کیا جاسکتا ہے۔ کبھی یہ (’’اَنْ‘‘ مصدریہ) عبارت کے شروع میں آکر مصدر کو مبتداء بنا دیتا ہے یعنی ’’ اَنْ" محلاً مرفوع ہوتا ہے جیسے ’’وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ (البقرۃ:۱۸۴) میں ’’صیامُکم‘‘کے معنی دیتا ہے۔ اسی طرح کسی جملے میں ’’أن‘‘ اپنے مضارع کے ساتھ بلحاظ موقع نصب اور جر میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی اس کا مصدر مؤوّل بنائیں تو وہ محل نصب یا جر میں آتا ہے۔ اس کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ ہر ایک کی اپنی جگہ وضاحت ہوگی۔ انشاء اللہ۔

(۲) ’’اَنْ‘‘ مخففہ: کبھی یہ (اَنْ) أَنَّ (مشددہ) کی مخففہ شکل ہوتی ہے۔اس وقت یہ مضارع کو نصب نہیں دیتا جیسے عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْن (المزمل:۲۰) ترجمہ اس کا بھی ’’کہ‘‘ سے ہی ہوگا۔

 (۳)’’اَنْ‘‘ مفسرہ: کبھی یہ مفسرہ ہوتا ہے یعنی عربی کے ’’اَیْ‘‘ اور انگریزی کے   i.e.  کا کام دیتا ہے۔ اس وقت اس کا ترجمہ ’’یعنی کہ‘‘سے کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کی بکثرت مثالیں ہمارے سامنے آئیں گی۔

(۴)اَنْ زائدہ: کبھی یہ صرف تاکید کے لیے آتا ہے یعنی مندرجہ بالا معانی میں سے کسی کے لیے نہیں ہوتا جیسے ’’ فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ (یوسف: ۹۶)

(۵)کبھی یہ ’’لِئَلاَّ=لِأَنْ لَّا‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے اس کا ترجمہ ’’تاکہ ایسا نہ ہو کہ ‘‘سے کیا جاتا ہے۔ جیسے  يُـبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا (النساء :۱۷۶)

·       یہاں ہم نے ’’ اَنْ‘‘ کی اقسام اور ان کے استعمال کی بات قدرے تفصیل سے اس لئے کی ہے کہ آگے چل کر ہم ’’ اَن‘‘ کے بارے میں صرف یہ بتادینا کافی سمجھیں گے کہ یہاں ’’ اَنْ‘‘ مصدریہ ناصبہ ہے یا مفسرہ یا مخففہ یا زائدہ برائے تاکیدـــ وغیرہ اور اوپر جن آیات کے حوالے بطور مثال دئے گئے ہیں ان کی وضاحت بھی اپنے اپنے موقع پر کی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

·       [یَضْرِبَ] کا مادہ ’’ض ر ب‘‘ اور وزن ’’یَفْعِلُ‘‘ہے ( جو فعل مضارع کی منصوب صورت ہے) اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ضرَبیضرِبُ ضَرْبًا باب ’’ضَرب‘‘سے آتا ہے۔ بلکہ ’’باب ضرب کے نام رکھنے کی وجہ یہی فعل ہے جسے ماضی مفتوح العین اور مضارع مکسور العین والے فعل کے لیے بطور مثال برائے اختصار اختیار کیا گیا ہے۔ اس فعل (ضرب یضرب) کے بنیادی معنی ’’ہاتھ یا چھڑی وغیرہ سے مارنا، پیٹنا‘‘ ہیں۔ مگر مختلف صلات (مثلاً فِی، عَلی ، بِ ، عَنْ)کے ساتھ اور کسی قسم کے صلہ کے بغیر بھی ـــ بطو متعدی اور لازم ، متعدد معانی اور محاوروں میں استعمال ہوتا ہے۔ کتب لغت میں اس کے چالیس(۴۰) سے زیادہ استعمالات اور معانی مذکو رہوئے ہیں (مزید فیہ افعال کے معنی اس پر مستزاد ہیں)۔ خود قرآن کریم میں یہ کم از کم پانچ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس لیے اس کے معانی حسب موقع بیان کئے جائیں گے۔ ان میں سے ایک استعمال یہ

·       [یضربَ مَثَلاً]کا ہے۔ ’’ضَرَبَ مثلاً‘‘ کے معنی ہیں ۔ ’’مثَل مثَلاً‘‘ یعنی ’’ اس نے ایک تمثیل، یا کہاوت یا مثال بیان کی‘‘ ـــ [مَثَلٌ (اسم) اور مَثَلَ (فعل)کے معنی اور استعمال پر البقرہ:۱۷ یعنی ۱:۱۳:۲(۱)میں بات ہوچکی ہے] اسی لیے اردو کے مترجمین نے یہاں ’’اَن یضربَ‘‘ کا ترجمہ ’’بیان کرنا‘‘ یا ’’ذکر کرنا‘‘کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔

صرف اسی استعمال (ضرب مثلاً) کی مختلف صورتیں اور صیغے قرآن میں پچیس(۲۵) کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم میں یہ فعل صرف ثلاثی مجرد سے ہی استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس سے مزید فیہ کا کوئی فعل قرآن کریم میں نہیں آیا۔ اور فعل مجرد سے (ماضی مضارع ،امر، نہی وغیرہ کے) مختلف صیغے اور مصادر ساٹھ کے قریب جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ضَرَبَ کے دوسرے معانی اور استعمالات پر حسب موقع بات ہوگی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

[مثلاً مَّا]کا ’’ما‘‘ ابھامیہ [2]   جو کسی نکرہ کے ساتھ مل کر اسے مزید ’’نکرہ تر‘‘ کردیتا ہے۔ یعنی اس میں زیادہ عموم اور ابہام پیدا کرتا ہے اور ایک طرح سے یہ اپنے سے ماقبل اسم (نکرہ) کی صفت کا کام دیتا ہے۔ اور اس اسم کی رفع نصب یا جر کے لحاظ سے اسے بھی مرفوع منصوب یا مجرور کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ مبنی ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہوتی مثلا ہم کہیں گے (۱) ھل عندک کتابٌ ما؟ کیا آپ کے پاس کسی قسم کی (کوئی بھی) کتاب ہے؟ یا آپ کہہ سکتے ہیں (۲) اعطنی کتابًا ما۔ جس کا مطلب ہوگا۔ ’’مجھے کوئی سی کتاب (جو بھی آپ چاہیں)دیجئے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں (۳) ھل قرأتَ فی کتاب ٍماـ؟ یعنی کیا تو نے کسی بھی کتاب میں پڑھا ہے؟ ۔۔۔(مندرجہ بالا جملوں میں لفظ ’’کتاب‘‘ علی الترتیب رفع نصب اور جر میں استعمال ہوا ہے) ’’مَا‘‘ کے معنی قابل توجہ ہیں  ـــ ’ما‘‘کے اسی استعمال کی بناء پر اردو مترجمین نے یہاں ’’مثلاً مَّا‘‘ کا ترجمہ ’’کوئی سی مثال، کوئی مثال بھی ‘‘ یا صرف ’’کوئی مثال‘‘سے کیا ہے۔

·       تمام مشتمل علیہ کلمات کی اس الگ الگ وضاحت کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس عبارت (اَنْ یَضرِبَ مَثلاً مَا) کا بالکل لفظی ترجمہ تو ہوگا : ’’کہ وہ بیان کرے مثال کوئی سی بھی‘‘ اسی کو مختلف مترجمین نے ’’کہ بیان کرے کوئی مثال‘‘، ’’کہ بیان کردے کوئی مثال بھی‘‘، ’’کہ کسی چیز کی مثال بیان کرے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’اَن‘‘ کے مصدری استعمال کو سامنے رکھتے ہوئے (جس کا اوپر ذکر ہوا ہے) اس کا عبارت کا ترجمہ ’’مثال بیان کرنے میں‘‘، ’’کسی مثال کے بیان کرنے میں‘‘(نہیں شرماتا، جھینپتا) اور بعض نے مزید وضاحت کے لیے’’کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا جسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ ’’سمجھانے کو‘‘کے لیے اصل عبارت میں تو کوئی لفظ نہیں تاہم مفہوم یہی ہے۔

۱:۱۹:۲(۳)     [بَعُوْضَۃً] کا مادہ ’’ب ع ض‘‘ اور وزن ’’فَعُوْلَۃٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں منصوب واقع ہوا ہے جس کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’بعَضیَبْعَض بعضًا(البعَوضُ)باب فتح سے آئے تو اس کے معنی ہیں: … کو ’’بعوض‘‘ (مچھروں) نے کاٹا اور ستایا‘‘ یہ فعل اس باب سے (بمعنی ’’کاٹنا‘‘)صرف مچھر کے لیے اور اس کے ذکر (بعوض)کے ساتھ استعمال ہوتا ہے یا پھر بصیغہ مجہول ’’بُعِضَ ‘‘ (بمعنی وہ کاٹا گیا یعنی اسے مچھروں نے کاٹا) استعمال ہوتا ہے، (جیسے زُکِمَ =اسے زکام ہوگیا اور سُرَّ=وہ خوش ہوا میں فعل مجہول استعمال ہوتا ہے)ثلاثی مجرد کے علاوہ عام عربی میں یہ مادہ مزید فیہ کے بعض ابواب (مثلاً افعال، تفعیل اور تفعل)سے بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے ـــ تاہم قرآن کریم میں تو اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ قرآن کریم میں تو اس مادہ سے ماخوذ صرف دو(۲) ہی لفظ آئے ہیں۔ ایک تو ’’بَعْضٌ‘‘ جو مختلف تراکیب کے ساتھ قرآن کریم میں ۱۲۹ جگہ آیا ہے (اور جس کے معنی و استعمال کے متعلق اپنے موقع پر بات ہوگی)۔دوسرے(۲) یہ زیر مطالعہ لفظ ’’بعوضۃ‘‘ہے جو صرف اسی ایک جگہ آیا ہے۔

·       لفظ ’’بعوض‘‘ کے معنی ’’مچھر‘‘ہوتے ہیں، جب کہ اس کا ذکر بطور ایک جنس کے کیا جارہا ہو جیسے ’’ثمرٌ‘‘ (پھل کی جنس) اور ’’شجَرٌ‘‘(درخت کی جنس) کے لیے آتا ہے۔ اس قسم کے الفاظ کے آخر پر تائے وحدت (ۃ) لگنے سے ان میں (اپنی جنس کے) ایک (فرد)کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ شجرۃٌ=ایک درخت ، ثَمَرَۃٌ=ایک پھل۔ اسی طرح ’’بعوضۃ‘‘کے معنی ہوئے ’’ایک مچھر‘‘ بعض اہلِ لغت مثلا فیروز آبادی)نے ’’بعوض‘‘ کو ’’بعوضۃ‘‘ کی جمع بھی سمجھا ہے۔ (اسم جنس بھی بمعنی جمع استعمال ہوتا ہے)بہر حال ’’بعوضۃ‘‘کے معنی ’’ایک یا کوئی مچھر‘‘ ہی ہیں۔ راغب وغیرہ نے بھی یہ لکھا ہے کہ اسے ’’بعوضۃ‘‘کہنے کی وجہ اس کا چھوٹا سا ہونا ہے گویا اسے ’’بعض ‘‘ (بمعنی ’’کچھ‘‘) سے ایک معنوی مناسبت ہے۔

۱:۱۹:۲(۴)     [فَمَافَوْقَھَا]جو ’’فَ‘‘ +مَا+فوقَ+ھا کا مرکب ہے۔ اسمیں ’’فَ‘‘ (فاء) عاطفہ ہے جس کا عام ترجمہ ’’پس‘‘ ہے۔ بعض نے یہاں اسے ’’اِلی‘‘ (تک) کے معنی میں لیا ہے۔[3]  اردو میں محاورے کی خاطر اس ’’فَ‘‘ کاترجمہ ’’یا‘‘ سے کیا جاتاہے۔ گویایہاں ’’ف‘‘ بمعنی ’’اَوْ‘‘استعمال ہوا ہے۔’ ’ ما‘‘ موصولہ ہے جس کا ترجمہ ’’جو کچھ کہ‘‘ یا صرف’’جو کہ‘‘ہے ـــ آخری ’’ھا‘‘ ضمیر مجرور بمعنی ’’اس کا / کے /کی‘‘ہے جس کی طرف ’’فوق‘‘ مضاف ہے۔ کلمہ ’’فوق‘‘ کا مادہ ’’ف و ق‘‘اوروزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (ثلاثی) فاق یفوق۔۔۔دراصل فوَق یفوُق فَوْقًا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معروف معنی ہیں: ’’بلند ہونا، اوپر ہونا، فائق ہونا‘‘ اور بعض دوسرے مصادر کے ساتھ اور دوسرے ابواب (مثلاً سمع) سے یہ دیگر معانی کے لیے بھی آتا ہے مثلاً،ہچکی آنا۔تیر کا ٹیڑھا ہونا وغیرہ عربی زبان میں تو اس مادہ سے مزیدفیہ کے بعض ابواب (مثلاً اِفعال، تفعل) سے بھی مختلف معنی کے لیے اَفعال استعمال ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس کے فعل ثلاثی مجرد سے تو کسی معنی کے لیے کوئی صیغہ فعل نہیں آیا۔ اور مزید فیہ کے بھی بابِ افعال سے صرف ایک صیغہ فعل استعمال ہوا ہے (الاعراف:۱۴۳) البتہ لفظ ’’فَوْقَ‘‘ مختلف تراکیب کے ساتھ قرآن کریم میں چالیس (۴۰)سے زیادہ جگہ وارد ہوا ہے۔ اور اسی مادہ سے ماخوذ ایک اسم ’’فواق‘‘ بھی صرف ایک جگہ (صٓ:۱۵) آیا ہے ـــ جس پر اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

·       کلمہ ’’فَوْقٌ‘‘جو اگرچہ مصدر ہے مگر زیادہ تر بطور ظرف مکان اور کبھی کبھار بطور ظرف زمان استعمال ہوتا ہے اور اسلئے مضاف اور منصوب ہوکر (بصورت’’فَوقَ‘‘) استعمال ہوتا ہے ۔ اور بلحاظ معنی اس میں اونچائی،بلندی اور برتری کا مفہوم ہوتا ہے۔ جس کا اردو ترجمہ ’’…سے اونچا، …کے اوپر‘‘ (’’تحتَ‘‘ اور ’’دونَ‘‘کی ضد) سے کیا جاتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’فوقَ الارضِ‘‘(زمین سے اونچا یا اوپر) یا ’’فوقَ الشھرِ‘‘(مہینے سے اوپر یعنی کچھ زیادہ) اور اس سے پہلے ’’مِنْ‘‘ لگنے سے مجرور بھی آتا ہے جیسے ’’مِن فوقھِم‘‘میں ہے۔ اور اگر اس کا مضاف الیہ محذوف ہو تو (قَبْلُ یا بَعْدُ)کی طرح یہ بھی مبنی بر ضمہ ہوجاتا ہے (تاہم قرآن کریم میں یہ مبنی بر ضمہ والی ترکیب (مِنْ فَوقُ)کہیں مستعمل نہیں ہوئی۔

·       آیت زیر مطالعہ میں ’’فوقَ‘‘ کا لفظ ’’چھوٹے پن‘‘ کی وضاحت کے لیے آیا ہے یعنی ’’مچھر یا چھوٹے پن میں اس سے بھی اوپر (بڑھ کر)کوئی شے‘‘ ـــ اس لیے یہاں ’’فوق‘‘ سیاق و سباق (CONTEXT) اور محاورے کے لحاظ سے ’’دُونَ‘‘ (کم تر ، نیچے) کے معنوں میں آیا ہے اور یہ مفہوم صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین(تابعین رحمہ اللہ سے ثابت ہے۔ بلکہ یہ ’’فما فوقھا‘‘ والا محاورہ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے جس کا بیان کرنا یہاں اس کے معنی سمجھنے میں مدد دے گا۔ فرمایا کہـــ ’’ما من مسلمٍ یشاک ُشوکۃًفما فوقھا الا کُتِبتَ لہ بھا درجۃٌ و مُحِیَت عنہ خطیئۃٌ‘‘ [4](کسی مسلمان کو اگر کانٹا بھی چبھتا ہے یا اس سے بڑی /یا اس سے چھوٹی (جو بھی تکلیف پہنچتی ہے) تو اس کا یا تو درجہ کچھ بلند ہوجاتا ہے یا کوئی گناہ مٹادیا جاتا ہے)اس حدیث شریف میں ’’فما فوقھا‘‘ کے معنی ’’اس سے چھوٹا یابڑا‘‘ دونوں ہی لئے جاسکتے ہیں۔ مگر زیر مطالعہ آیت میں ’’بعوضۃ‘‘ (مچھر) کے ضمن میں ’’فما فوقھا‘‘ کے آجانے سے ’’اس سے چھوٹے پن میں اوپر‘‘ یا ’’اس سے بھی کم تر‘‘ کا مفہوم آگیا ہے۔ اگرچہ بیشتر اردو مترجمین نے یہاں لفظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’اس سے اوپر ‘‘ جو اس سے بڑھ کر ہے‘‘کیا ہے، تاہم بعض نے اس کا ترجمہ ’’خواہ اس سے بھی بڑھی ہوئی ہو‘‘ ، ’’یا اس سے بڑھ کر(بھی اور حقیر چیز کی‘‘ یا ’’اس سے بھی بڑھ کر (کسی اور چیز) کی صورت میں کیا ہے اور اس طرح ’’خواہ‘‘ اور ’’یا‘‘کے ذریعے وہی ’’حقیرتر‘‘ والا مفہوم ظاہر کیا ہے۔

۱:۱۹:۲(۵)     [فَاَمَّا] میں ’’فَ‘‘تو عاطفہ ہے جو یہاں ’’پس‘‘ پھر ، سو، تو‘‘کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ’’اَمَّا‘‘ ایک ایسا حرف ہے (اسم، فعل، حرف کی تقسیم کے معنی ہیں) جس میں ’’شرط‘‘ اور ’’تفصیل‘‘ کے معنی ہوتے ہیں۔ اسے ’’شرطیہ‘‘ تو صرف اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ اس کے بعد آنے ولے اسم (یا جملہ) پر ’’فَ‘‘ بمعنی ’’تو‘‘ضرور داخل ہوتا ہے جو ایک طرح سے جواب ِ شرط (یا شرط کا حرفِ ربط) ہے۔ ورنہ اس (اَمَّا) کے بعد کوئی فعل مجزوم (اسماء یا حروفِ شرط کی طرح)نہیں آتا ـــ اور یہ (اَمَّا) حرف تفصیل(یاتاکید) اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے کسی چیز کی تفصیل یا وضاحت مطلوب ہوتی ہے۔ یا اسکے بارے میں کسی تاکید کا پتہ چلتا ہے۔

اردو میں اس (اَمَّا) کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا اور اسی لیے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ہی نہیں کیا  ـــ زیادہ سے زیادہ لفظ ’’جو تو‘‘سے کام چلایا جاسکتا ہے۔ انگریزی میں اس کا بدل As for یا As far as یا As to ہے۔ فارسی والے اصل ’’اما‘‘ کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس (اما) کے استعما ل سے عبارت کا مفہوم کچھ اس طرح بنتا ہے۔ ’’جو تو …(ایسے ہیں) تو … (ان کو)‘‘، ’’جہاں تک… کا تعلق ہے تو…‘‘ یہی وجہ ہے  کہ عموماً اس (اَمّا)کے بعد کوئی اسم موصول (شرط کے مفہوم میں) آتا ہے۔جیسے ’’اَمَّا مَنْ…‘‘ یا ’’اما الذین…‘‘میں ہے یا اس کے بعد کوئی معرف باللام اسم آتا ہے جس کے ’’ال‘‘ میں ’’الذی‘‘ (یعنی وہ جو)کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ جیسے" وَاَمَّا السَّاۗىِٕلَ فَلَا تَنْهَر (الضحیٰ:۱۰)….یا فَاَمَّا الزَّبَد (الرعد:۱۷)….میں ہے ـــ"اما" کسی اسم موصول یا معرف باللام اسم کے بغیر بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اس کے بعد کوئی اسم ہی آتا ہے۔ جیسے ’’ وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ   (الضحیٰ:۱۱)‘‘ میں ہے۔ ہر صورت میں یہ (اَمَّا) اس چیز کے ذکر سے پہلے آتا ہے جس کے بارے میں کوئی تفصیل یا تاکید مطلوب ہوتی ہے۔ اور جو عبارت (یاجملہ) تفصیل کے لیے آتا ہے۔ اس پر ’’ف‘‘ ضرور داخل ہوتا ہے۔ جیسے یہاں زیر مطالعہ آیت میں ’’فَاَمَّا الذین آمنوا…‘‘ اور ’’واما الذین کفروا…‘‘کے بارے میں تفصیل یا وضاحت ’’فیعلمون‘‘ اور ’’فیقولون…‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔

 [اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا] میں ’’الذین‘‘ تو اسم موصول بمعنی ’’وہ سب جو‘‘ہے اور ’’آمنوا‘‘ کا مادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعَلُوْا‘‘ ہے اور اس کی اصلی شکل ’’أَأْمَنُوْا‘‘تھی۔ اس مادہ اور خصوصاً اس کے باب اِفعال (آمن یؤمن ایمانًا ایمان لانا) اور اس کے معنی وغیرہ نیز اس میں صرفی تبدیلی (أَأْ سے آ بننا) پر مفصل بات البقرہ:۳ یعنی ۱:۲:۲(۱)میں ہوچکی ہے۔ اس طرح ’’فاما الذین آمنوا‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’پس جو تو ہیں ایسے جو کہ ایمان لائے‘‘۔

[فَیَعْلَمُوْنَ] میں ’’فَ‘‘ تو ’’اَمَّا‘‘ کے جواب میں آنے والی ’’فاء‘‘(رابطہ)ہے۔ جس کا اردو ترجمہ ’’تو‘‘سے کیا جاسکتا ہے اور ’’یعلمون‘‘کا مادہ ’’ع ل م‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْنَ‘‘ہے۔ یعنی یہ فعل مضارع کا صیغہ مضارع معروف ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (علِمَ یعلَم علمًا=جان لینا) کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۱۳ یعنی)۱:۱:۲ (۳)  میں بات ہوچکی ہے۔ اس طرح ’’فیعلمون‘‘ کا ترجمہ ہے۔ ’’تو وہ تو جانتے ہیں‘‘

[اَنَّہٗ] یہ ’’اَنَّ‘‘ (کہ یقینا، بے شک) +ہٗ (وہ) کا مرکّب ہے۔

۱:۱۹:۲(۶)     [اَلحَقُّ] کا مادہ ’’ح ق ق‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر)’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل حَقْقٌ تھی جس میں ساکن ’’ق‘‘ کا متحرک ’’ق‘‘ میں ادغام ہوکر لفظ "حقُّ" رہ جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’حَقَّ یَحِقُّ (دراصل حَقَقَ یَحْقِقُ) حَقًّا(باب ضرب سے) آتا ہے اور بقول راغب اس کے بنیادی معنی ہیں:’’موافق اور مطابق ہونا‘‘ یعنی کسی چیز کا اپنی جگہ کے موافق اور مطابق واقع ہونا‘‘ پھر اس سے اس میں ’’درست ثابت ہونا، واجب ہونا، سچ ہونا، ٹھیک ہونا، حقیقت بن جانا، برقرار رہنا، پکا ہونا، لازم ہونا، کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر تو بطور فعل لازم استعمال ہوتا ہے۔ تاہم کبھی اسی باب (ضرب) سے مگر زیادہ تر باب نصر سے(حقَّ یحُقّ) بطور فعل متعدی بھی آتا ہے اور اس کے معنی ’’ثابت کرنا، واجب کرنا، گرہ کو مضبوط باندھنا، کسی چیز کی حقیقت پالینا یا سمجھ لینا‘‘ ہوتے ہیں۔ اس طرح بعض معنی کے لیے یہ فعل (لازم اور متعدی سے) معروف اور مجہول دونوح طرح استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے ’’حَقَّ‘‘ اور ’’حُقَّ‘‘ کے معنی ایک ہی بنتے ہیں یعنی ’’واجب ہونا یا واجب کردیا جانا‘‘ البتہ اس فعل کے استعمال کا محاورہ مختلف ہے مثلاً اگر کہنا ہو ’’تجھ پر واجب (ثابت) ہے کہ …‘‘ تو عربی میں فعل معروف ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آئے گا یعنی کہیں گے ’’حقَّ علیکَ أَنْ…‘‘ اور اگر کہنا ہو ’’تیرے لیے درست ہے کہ…‘‘ یا ’’تیرا حق ہے کہ …‘‘ تو فعل مجہول لام (لِ) کے صلہ کے ساتھ آئے گا مثلاً کہیں گے ’’حُقَّ لکَ اَنْ …‘‘

·       قرآن کریم میں یہ فعل (مجرد) لام (لِ)کے صلہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوا۔ بطور فعل لازم اس کے مختلف صیغے (ماضی مضارع) اٹھارہ (۱۸)جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے چار جگہ متعلق فعل جار مجرو ر(علی کے صلہ کے ساتھ)نہیں آیا، باقی مقامات پر ’’علی …‘‘کے ساتھ آیا ہے اور صرف دوجگہ اس فعل سے ماضی مجہول کا صیغہ(حُقَّتْ)آیا ہے۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے ابواب افعال اور استفعال سے بھی کچھ صیغے اور بعض دیگر مشتقات۲۷ جگہ …وارد ہوئے ہیں۔

          کلمہ ’’الحق‘‘ جو مذکور ہ بالا فعل مجرد کا مصدر بھی ہے اور بطور اسم بھی متعدد ملتے جلتے معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں ۲۳۰ دفعہ آیا ہے۔ اور حسب موقع اس کا اردو ترجمہ فعل مجرد کے (مذکورہ بالا) معانی کی روشنی میں کئی طرح کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’سچ، سچائی، سچا، ٹھیک، درست، حقیقت کے مطابق، انصاف کے مطابق، واجب، حصّہ ، ضرورت، یقینی ثابت اور حق (بمقابلہ باطل)اردو میں مستعمل ہے۔ اس لیے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’حق‘‘ ہی رہنا دیا ہے۔

[مِنْ رَّبَّھِمْ] یہ ’’مِنْ‘‘ (کی طرف سے)+رَبِّ (پروردگار)+ھِمْ(ان کا) سے مرکب ہے۔ اس میں ’’مِنْ‘‘جزویت یا تبعیضیت کے لیے نہیں بلکہ ’’بیانیہ‘‘ ہے۔ (ضرورت ہو تو مِنْ کے استعمال و معانی کے لیے ۱:۲:۲(۵)دیکھ لیجئے)اس کا ترجمہ’’میں سے‘‘ کی بجائے ’’کی طرف سے‘‘ کی جانب سے‘‘ کیا جائے گا۔ یعنی ’’مِنْ ربِّھمْ ‘‘ کا ترجمہ ’’ان کے رب کی طرف سے یا جانب سے‘‘ہوگا۔ بعض نے بیان اور وضاحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’ان کے ربّ کا کہا‘‘ یا ’’جو نازل ہوئی ان کے ربّ کی طرف سے‘‘اور ’’ان کے رب کی طرف سے کہی ہوئی بات‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ ان تراجم میں ’’کا کہا‘‘، ’’جو نازل ہوئی‘‘ اور ’’کہی ہوئی بات‘‘کے الفاظ کو سیاقِ عبارت اور مفہوم کے لحاظ سے ہی درست کہا جاسکتا ہے ورنہ نص (الفاظ یا اصل عبارت)سے تو ذرا ہٹ کر ہیں۔

[وَاَمَّا] یہ ابھی اوپر بیان کردہ ’’فَاَمَّا‘‘ کی مانند ہے۔ اس کا اردو ترجمہ  ہوگا:’’اور جو تو…‘‘ ، ’’اور جہاں تک ان لوگو ں کا تعلق ہے جو… ‘‘، ’’رہ گئے وہ لوگ جو…‘‘، ’’رہے…‘‘ بعض نے اس کا ترجمہ صرف ’’البتہ‘‘ سے ہی کردیا ہے۔

 [اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا] میں ’’الَّذِین‘‘اسم موصول (بمعنی وہ لوگ جو کہ، جنہوں نے کہ)ہے اور ’’کفروا‘‘ کا مادہ ’’ک ف ر‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے جو اس مادہ سے فعل مجرد (کفر یکفُر=انکار کرنا) سے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس فعل کے معنی اور استعمال کی بحث کے لیے البقرہ:۶ یعنی ۱:۵:۲(۱)دیکھئے۔ اس کا اردو ترجمہ بنتا ہے۔ ’’وہ جو کافر ہوئے‘‘ اسی کو بعض نے ’’وہ جو کافر ہیں‘‘ اور بعض نے صرف ’’کافر‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔

[فَیَقُوْلُوْن] میں ’’فَ‘‘ (فاء) عاطفہ بمعنی ’’پس‘‘ یا ’’سو‘‘ہے اور ’’یقولون‘‘ کا مادہ ’’ق ول‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفْعَلُوْن‘‘ہے۔ جس کی اصلی شکل ’’یَقْوُلُوْن‘‘ تھی جس میں واو متحرکہ (جو عین کلمہ) ہے کی حرکت اس سے ماقبل والے حرف صحیح (جو یہاں ’’ق‘‘ ہے) کو دے دی جاتی ہے اور کلمہ ’’یقولون‘‘ بنتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (قال یقول=کہنا)کے باب اور معنی و استعمال کی بات البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۵)میں گزر چکی ہے۔

·       اس طرح ’’یقولون‘‘ (جو فعل مجرد سے صیغہ مضارع جمع مذکر غائب ہے) کا ترجمہ تو بنتا ہے۔ ’’وہ کہتے ہیں یا کہیں گے‘‘ اکثر مترجمین نے فعل حال سے ترجمہ کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں ۔۔۔‘‘ تاہم بعض حضرات نے آیت کے مجموعی مضمون(کفار کے اعتراض) کو سامنے رکھتے ہوئے ’’یقولون‘‘ کا ترجمہ ’’یوں ہی کہتے رہیں گے‘‘اور ’’وہ تو یہی کہتے رہیں گے‘‘ کے ساتھ کیا ہے جو مفہوم کو ذرا بہتر ظاہر کرتا ہے۔

۱:۱۹:۲(۷)     [مَاذَا]  یہ ’’ما‘‘ استفہامیہ (دیکھئے ۱:۲:۲(۵))کے ساتھ کلمہ ’’ذا‘‘ مل کر بنا ہے۔ عموماً یہ مرکب خود ایک ہی لفظ یعنی کلمہ استفہام سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہ غیر عاقل اشیاء کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی بھی وہی ’’ مَا‘‘ والے یعنی ’’کیا؟ ‘‘ہی ہوتے ہیں۔ بعض نحویوں کے نزدیک یہ ’’مَا‘‘ استفہامیہ اور ’’ذا‘‘اسم موصول (’’الذی‘‘کے معنی میں)سے مرکب ہے۔ [5] اس صورت میں اس کاترجمہ ’’کون سی چیز‘‘، کیا کچھ ’’یا‘‘ کیا ہے وہ جو…‘‘سے کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ (ماذا) جملہ میں مبتداء بن کر بھی آسکتا ہے جیسے ’’ماذا عندکَ؟‘‘ میں ہے اور مفعول بہ ہوکر بھی آسکتا ہے جیسے ’’ماذا فَعَلْتَ؟‘‘ میں ہے۔

·       بیشتر اردو مترجمین نے یہاں اس (ماذا) کا ترجمہ ’’کیا؟‘‘ ہی کیا ہے اگرچہ بعض نے ’’وہ کون(مطلب) ‘‘ اور ’’کون سی(غرض)‘‘ کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے۔

۱:۱۹:۲(۸)     [اَرَادَ اللہُ] کے دوسرے جزء (اسم جلالت۔ اللہ)کے لغوی پہلوؤں پر سورۃ الفاتحہ کے شروع میں ’’بسم اللہ‘‘ کے ضمن میں بحث گزر چکی ہے۔

·       ’’اراد‘‘ کا مادہ’’ر د د‘‘ اور وزن اصلی ’’افْعَلَ‘‘ ہے۔ اس کی شکل اصلی ’’اَرْوَدَ‘‘ تھی جس میں واو متحرکہ (عین کلمہ)کی حرکت اس کے ماقبل حرف صحیح (ر)کو دے کر خود ’’و‘‘ کو ماقبل کی حرکت(فتحہ)کے موافق حرف (الف) میں بدل کر بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یوں اس کی شکل ’’اراد‘‘ اور وزن ’’اَفَالَ‘‘ رہ جاتا ہے۔

          اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’رادَیرود(دراصل روَد یرْوُد) رَوْدًا (باب نصر سے)آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’…کو طلب کرنا، …کو چاہنا‘‘ یہ فعل بعض دیگر معنی بھی رکھتا ہے۔ تاہم قرآن کریم یں اس مادہ سے فعل مجرد کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ قرآن کریم میں یہ مادہ زیادہ تربابِ افعال سے آیا ہے (۱۳۸جگہ) اور کچھ صیغے (۸ جگہ) باب مفاعلہ سے آئے ہیں۔

·       ’’اَرَاد‘‘ اس مادہ سے باب اِفعال کے فعل ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’ارادیرید (دراصل اَرْوَدَ یُرْوِدُ)اِرَادۃً [اجوف کے باب افعال اور استفعال کے مصدر اپنے اصلی وزن(افعل اور استفعال) کی بجائے تعلیل ہوکر ’’اِفالَۃ‘‘ اور ’’استفالَۃ‘‘ کے وزن پر آتے ہیں] کے معنی ہیں: ’’…کا قصدکرنا‘‘ …کا مطلب لینا (نکالنا)‘‘ بلکہ اس فعل کا مصدر ’’ارادہ ‘‘ خود بھی اردو میں اپنے اصل عربی معنی (چاہنا) میں مستعمل ہے اس لیے اس کا ترجمہ ’’ارادہ کرنا‘‘ہی کر لیا جاتا ہے اور اس فعل سے اسم الفاعل ’’مُرِیْدٌ‘‘(دراصل مُرْوِدُ) بمعنی ’’ارادہ کرنے والا‘‘ اور اسم المفعول ’’ مُرَاد  (دراصل مُرْوَدٌ بمعنیء  ’’جس کاا رادہ کیا گیا‘‘ بھی اردو میں متعارف اور متد اول ہیں۔ اس لیے اردو میں ’’اَرَادَ‘‘ کا ترجمہ ’’مراد لینا‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے۔

·       اس طرح اس پورے فقرے ’’ماذا اراد اللہ ‘‘ کا ترجمہ ’’اللہ نے کیا چاہا؟ اور ’’اللہ کی کیا مراد ہے‘‘ سے کیا گیا ہے اور اسی کو زیادہ بامحاورہ بنانے کے لیے ’’وہ کون سا مطلب ہوگا؟ کیا مقصود ہے؟ کون سی غرض ہے؟ (یعنی اللہ کا یا اللہ کی‘‘) کی صورت میں بھی ترجمہ کیا ہے۔

[بِھٰذا مَثَلاً] میں ’’بِ‘‘ (باء الجر)کے معنی ہیں ’’سے‘‘کے ساتھ ‘‘ ’’ھذا‘‘اسم اشارہ بمعنی ’’یہ ، اس‘‘ہے۔ اور ’’مَثَلاً‘‘ کا مادہ ’’م ث ل‘‘ اور وزن ’’فَعَلاً‘‘ (بصورت منصوب)ہے۔ اس لفظ ’’یعنی مَثَلٌ‘‘کے مختلف معنی (مثال، کہاوت، بیان) اور اس مادہ ( م ث ل)سے فعل مجرد کے بنیا دی مصدری معنی وغیرہ پر البقرہ :۱۷ یعنی ۱:۱۳:۲(۱)میں بات ہوچکی ہے۔

·       اس حصہ آیت (مَاذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا) کے الگ الگ کلمات کے معنی جان لینے پر بھی مجموعی طور پر پوری عبارت کا مفہوم صاف نہیں ہوتا۔ اس کے لیے عبارت کی ترکیب نحوی یعنی اِعراب کو جاننا ضروری ہے۔ اس لیے اس پر مفصل بات ان شاء اللہ تعالیٰ ابھی آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی جس سے نہ صرف آیت کا ترجمہ سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ مختلف تراجم کے باہمی فرق کی وجہ بھی  سامنے آئے گی۔

۱:۱۹:۲(۹)     [یُضِلُّ بِہ] میں ’’بہ‘‘ تو ’’بِ‘‘ (باء) مسببیہ بمعنی ’’کے ساتھ ‘‘ کے ذریعے، ہے اور ’’ہ‘‘ ضمیر مجرور بمعنی ’’اس‘‘ہے۔ ۔۔یوں ’’بہ‘‘ کا ترجمہ ’’اس کے ذریعے سے‘‘، ’’اس کے سبب سے‘‘ ، ’’اس کی وجہ سے‘‘ بنتا ہے۔ ’’یُضِلُّ‘‘ کامادہ ’’ض ل ل‘‘ اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’یُضْلِلْ ‘‘تھی جس میں پہلے لام کو ساکن کرکے دوسرے لام میں مدغم کر دیا جاتاہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۱۶ میں (کلمہ ’’الضلالۃ‘‘کے ضمن میں)بات ہوچکی ہے۔ دیکھئے ۱:۱۲:۲(۲)نیز دیکھئے الفاتحہ ۷ یعنی  ۱:۶:۱(۶)میں تحتِ کلمہ ’’الضالین، یُضِلُّ‘‘ اس مادہ (ضلل) سے بابِ اِفعال کا صیغہ مضارع معروف ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَضَلَّ… یُضِلُّ (دراصل اَضْلَلَ یُضْلِلُ) اِضْلالاً کے معنی ہیں : ’’…کو گمراہ کرنا، … کوبھٹکادینا‘‘ اس لیے بیشتر مترجمین نے ’’یضل بہ‘‘کا ترجمہ گمراہ کرتا ہے اس سے یا ’’اسی سے ‘‘ کیا ہے جب کہ بعض نے ’’بہ‘‘ کا ترجمہ ’’اس مثال سے ، کیا ہے جسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔

۱:۱۹:۲(۱۰)     [کَثِیْرًا] کا مادہ ’’ک ث ر‘‘ اورو زن ’’فَعِیْلٌ‘‘ہے (جو عبارت میں منصوب ہے اس کی وجہ بحث ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’کثُر یکثُر کثرۃً (باب کرم سے)آئے تو اس کے معنی ’’زیادہ ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ اس مادہ سے بعض الفاظ مثلاً ’’کثیر‘‘، ’’کثرت‘‘ جو عربی میں ’’کثرۃ‘‘ لکھا جاتا ہے)اردو میں بھی مستعمل ہیں۔ اس لیے اس فعل (کَثُرَ) کا ترجمہ ’’کثیر ہونا‘‘اور ’’بکثرت ہونا‘‘سے بھی کیا جاسکتا ہے۔لفظ ’’کَثیر‘‘ (زیادہ) اور قلیل‘‘ (تھوڑا) ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دونوں اردو میں مستعمل ہیں ـــ اس مادہ (کثر) سے فعل مجرد باب نصر ینصر سے بطور فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کثَر …یکثُرا کثْرًا کے معنی ’’…پر کثرت کے لحاظ سے غالب ہونا‘‘ہیں۔ تاہم یہ فعل قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ (کثر)سے فعل مجرد صرف باب کرُم سے ہی استعمال ہوا ہے اور اس کے بھی صرف دو ہی صیغے آئے ہیں۔ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (افعال، تفعیل اور استفعال)سے افعال کے کچھ صیغے ۶ جگہ اور مختلف مشتقات (اسماء و مصادر وغیرہ) تو بکثرت (۱۵۰ سے زائد مقامات پر) وارد ہوئے ہیں۔

          لفظ ’ ’ کثیر‘‘اس مادہ سے ’’فعیل‘‘ کے وزن پر صفت مشبہ یا مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں:’’زیادہ، بکثرت، بہت زیادہ، بہت سے، بہتیرے‘‘ یہ کلمہ بھی قرآن میں کثیر الاستعمال ہے (ساٹھ سے زیادہ جگہ آیا ہے)

[وَ یَھْدِی بِہ ٖکَثِیْرًا] میں ’’ وَ‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔ ’’بہ‘‘ اور ’’کثیرا‘‘پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔

فعل ’’یَھْدِیْ  کا مادہ ’’ھ د ی‘‘اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’یَھْدِیُ‘‘ تھی جس میں آخری ’’یاء‘‘ کو ماقبل مکسور ہونے کے باعث ساکن کردیتے ہیں۔ یعنی یہ باب ضرب سے فعل مضارع کا پہلا صیغہ (واحد مذکر غائب)ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کی بحث الفاتحہ:۶ یعنی ۱:۵:۱(۱۱)میں ہوچکی ہے۔نیز دیکھئے ۱:۱:۲(۶)

[وَمَا یُضِلُّ بِہ]اس عبارت میں ’’و‘‘ عاطفہ (بمعنی اور)اور ’’مَا‘‘نافیہ (بمعنی نہیں)ہے: ’’یضل بہ‘‘پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔ اس طرح اس ’’وما یضل بہ‘‘ کا ترجمہ ہے: وہ نہیں گمراہ کرتا، وہ غلط راستے پر نہیں ڈالتا اس کے ساتھ، اس کے ذریعے، اس کی وجہ سے‘‘

۱:۱۹:۲(۱۱)    [اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ] میں ’’ اِلَّا‘‘ حرف استثناء ہے جس کے معنی’’مگر، سوائے یا صرف …ہی‘‘ہوتے ہیں ۔ ’’ اِلَّا‘‘ کے معنی و استعمال پر البقرہ :۹ یعنی ۱:۸:۲(۳)میں بات گزر چکی ہے۔

’’الفاسقین‘‘ (باملاء معتاد)کا مادہ ’’ف س ق‘‘اور وزن ’’(لام تعریف نکال کر) ’’فاعلین‘‘ ہے یعنی یہ لفظ ’’فاسقٌ‘‘ کی جمع مذکر سالم (کی منصوب صورت) ہے۔

اس مادہ (فسق)سے فعل ثلاثی مجرد ’’فسُق فسَق  یفسُق یفسِق  فِسْقًا و فُسُو قًا‘‘(ابواب نصر، ضر ب اور کرم)سے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں یہ صرف باب نصر سے ہی استعمال ہوا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’کسی چیز کا دوسری چیز سے برائی اور خرابی کے ساتھ باہر نکل آنا‘‘(مد القاموس) زیادہ تر یہ ’’کسی پھل) خصوصا تازہ پکیّ ہوئی کھجور) کا اپنے چھلکے سے‘‘یا کسی جانور (خصوصاً چوہے کا)اپنے سوراخ سےـــباہر نکلنے کے معنی دیتا ہے۔ بلکہ ’’چوہیا‘‘ کو عربی میں ’’فُوَیْسِقۃ‘‘ (تصغیرِ فاسقہ) اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے سوراخ سے باہر نکل کر نقصان پہنچاتی ہے ـــ

·       ان بنیادی معنوں سے اس فعل میں ’’راہ راست سے ، قانون سے، اطاعت سے باہر نکل جانے کا مفہوم پیدا ہوتا ہے اور پھر اسی سے یہ فعل ’’اللہ کا حکم نظر انداز کرنا، نافرمانی کرنا، دائرہء اطاعت سے نکل جانا‘‘کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لفظِ’’فاسق‘‘ (جو زیر ِمطالعہ لفظ ’’فاسقین‘‘کا واحد ہے) اس فعل ثلاثی مجرد سے اسم الفاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی اوپر بیان کردہ مصدری معنوں سے سمجھے جاسکتے ہیں۔ یعنی ’’نافرمان، دائرہ ءِاطاعت سے خارج‘‘ وغیرہ۔ فقہی اصطلاح میں یہ لفظ ’’اخلاقی لحاظ سے غیر محتاط طرز ِعمل والا‘‘اور شرعی حدود پھلانگ جانے والا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ زیرِ مطالعہ قطعہ کے اگلے حصہ (آیت ۲۷) میں ’’فاسقین‘‘ کی عادات و اطوار اور ان کے اخلاق و اعمال کی واضح صفات یا علامات بیان کردی گئی ہیں۔

·       فیروز آبادی نے ’’قاموس‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہ لفظ’’فاسق‘‘ اگرچہ خالص عربی لفظ ہے۔ تاہم یہ عجیب بات ہے کہ جاہلی کلام یا شعرمیں یہ لفظ کہیں وارد نہیں ہوا۔ (بعض دوسرے اہل لغت نے یہ قول مشہور کوفی امام لغت ’’ابن الاعرابی‘‘ کی طرف منسوب کیا ہے) ـــ بہر حال قرآن کریم میں یہ لفظ (مختلف صورتوں میں)چالیس کے قریب مقامات پر آیا ہے اور معنی کے لحاظ سے بھی یہ لفظ ’’گناہ گار‘‘اور ’’بدکردار‘‘ سے لے کر مؤمن کی ضد یعنی ’’کافر‘‘ تک کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یہ سب چیزیں اپنے اپنے مقام پر زیر بحث آئیں گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ یہاں ’’الفاسقین‘‘ کا ترجمہ ’’فاسقوں، نافرمانوں، بدکاروں، بے حکمی کرنے والوں‘‘سے کیا گیا ہے۔ جب کہ بعض نے ’’جو حکم نہیں مانتے‘‘ سے ترجمہ کردیا گیا ہے۔ جو لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔

۱:۱۹:۲(۱۲)     [الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ] کلمہ ’’الذین‘‘ جو اسم موصول ہے، کئی دفعہ گزر چکا ہے اور اس کا ترجمہ ’’وہ سب جو کہ ، وہ لوگ جو کہ، وہ جو ایسے ہیں کہ ۔۔۔‘‘ کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ (ویسے اسماء موصولہ پر ۱:۶:۱(۱)میں بحث ہوچکی ہے)

[یَنْقُضُوْنَ] کا مادہ ’’ن ق ض‘‘ اور وزن ’’یَفْعُلُوْن‘‘ ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’نقضَ…ینقُض نقضًا (باب نصر سے)‘‘ آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: … (کسی چیز)کو مضبوطی اور پختگی کے بعد خراب کردینا یا بگاڑدینا‘‘۔ اس سے اس کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’…کو توڑ دینا‘‘ کیا جاتا ہے۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) آتا ہے۔اور اس کا یہ ترجمہ (توڑ دینا) اس فعل کے بہت سے عربی استعمالات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ مثلاً نَقَضَ العَھْدَ(اس نے عہد توڑدیا)، نقَض الیمینَ (اس نے قسم توڑ دی)، نقَض الْغَزْلَ (اس نے کاتا  ہوا دھاگہ۔ یا سوت۔ توڑ دیا)۔کبھی اس کااردو ترجمہ ’’گرا دینا‘‘بھی کیا جاسکتا ہے مثلاً نقَض البناءَ(اس نے عمارت کو گرا دیا) ـــ وغیرہ۔

قرآن کریم میں اس فعل کا مجرد مصدر (نَقْضٌ) اور فعل کے مختلف صیغے کوئی سات جگہ آئے ہیں۔ اور اس کا مفعول بہٖ زیادہ تر ’’عھد‘‘ اور ’’میثاق‘‘ آئے ہیں اور اَیْمان (قسمیں) اور غَزْل (سوت) بھی ایک ایک جگہ بطور مفعول مذکور ہوئے ہیں ـــنیز اسی مادہ (نقض) سے باب اِفعال کا ایک صیغۂ فعل بھی صرف ایک جگہ (الانشراح:۳) آیا ہے۔ اس کے معنی وغیرہ پر اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

’’الذین ینقضون‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’جو (لوگ کہ)توڑتے ہیں‘‘۔ بعض مترجمین نے ’’توڑ دیتے ہیں‘‘اور بعض نے ’’توڑتے رہتے ہیں‘‘سے ترجمہ کیا ہے جس میں ’’یہ ان کی عادت ہے‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔

۱:۱۹:۲(۱۳)     [عَھْدَ اللہِ]لفظ ’’عھد‘‘ (جو یہاں اسم جلالت (اللہ)کی طرف مضاف ہوکر آیا ہے) کا مادہ ’’ع ھ د‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’عھِد… یَعْھَد عَھْدًا‘‘(باب سمع سے) صلہ کے بغیر اور ’’اِلیٰ‘‘ کے صلہ کے ساتھ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صلہ کے بغیر اس کے بنیادی معنی ہیں ’’…کی حفاظت کرنا، یا …کی خبر گیری کرتے رہنا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’عھِدَ وعدَہٗ (اس نے اپنے وعدہ کی حفاظت کی یعنی نباہا) یا عھِدَ الشییءَ(وہ اس چیز کی بار بار دیکھ بھال کرتا رہا) ـــ اس کے علاوہ یہ فعل ’’کسی کو (کسی جگہ)ملنا‘‘ اور ’’کسی بات کی واقفیت رکھنا‘‘کے معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’عھِدہ بمکان کذا‘‘ (وہ اس سے فلاں جگہ ملا) یا ’’عَھِد الامرَ‘‘(اس نے معاملہ کو جان لیا /کا واقف ہوا ـــ

اور ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’…کو حکم دینا، …کے ذمے لگانا، سپرد کرنا، …سے عہد لینا‘‘ مثلاً ’’عھِدَ الیہ اَنْ…‘‘ (اس نے اس کو حکم دیا یا اس کے ذمہ لگایا کہ …)۔ قرآن کریم میں زیادہ تر یہ فعل اسی (الی) صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ اور قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے کل ۶ جگہ اور مزید فیہ کے باب مفاعلہ سے فعل کے بعض صیغے کل ۱۱ جگہ آئے ہیں ـــ

·       کلمہ ’’عھد‘‘ (جو اس وقت زیر ِمطالعہ ہے) فعل ثلاثی مجرد کا مصدر بھی ہے اور بطور اسم بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتاہے۔ مثلاً حسب موقع کسی عبارت میں اس لفظ کی ترجمہ ’’وصیت، نگرانی، عزت کا پاس، قسم، پکا وعدہ، امان، ذمہ داری، ضمانت، ملاقات، پہچان، علم، اقرار، فرمان، پیمان، دوستی اور زمانہ‘‘کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ ان مختلف معانی کی بناء پر عربی زبان، میں لفظ ’’عھد‘‘ کی مختلف تراکیب کے ساتھ کئی محاورے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’وَلِیُّ العھدِ، قریبُ العھدِ، حدیثُ العھدِ، عھدُ الشباب وغیرہ‘‘ ـــ اردو فارسی میں بھی لفظ ’’عھد‘‘ پکا وعدہ، ذمہ داری، ضمانت اور زمانہ کے معنوںمیں مستعمل ہے اور اس لیے اردو میں اس کا ترجمہ کرنے کی بجائے اصل لفظ (عھد) ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

·       قرآن کریم میں یہ لفظ (عَھْدٌ) مفرد مرکب مختلف صورتوں میں تیس کے قریب مقامات پر آیا ہے۔ جن میں سے دس کے قریب مقامات پر یہ صرف ’’اللہ‘‘ کی نسبت (اضافت) کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ یعنی ’’عھد اللّٰہِ‘‘ کی ترکیب میں۔ جیسے یہاں زیر مطالعہ آیت میں ہے۔ ا س لیے اس کا ترجمہ ’’اللہ کا اقرار، خدا کا عہد، اللہ کا قول، خدا کا معاہدہ، کیا گیا ہے۔ مگر اردو محاورے کے لحاظ سے یہاں ’’کا‘‘کے استعمال سے معنی واضح نہیں ہوتے (بلکہ ایک پیچیدگی پیدا ہوتی ہے)اس لیے بعض حضرات نے یہاں ’’کا‘‘کے ساتھ لفظی ترجمہ کرنے کی بجائے ’’اللہ سے عہد‘‘کیا ہے اور بعض نے مزید وضاحت کے لیے ’’اللہ سے اپنے معاہدہ کو ‘‘(توڑ دیتے ہیں) کی صورت میں ترجمہ کیا ہے جس میں اصل الفاظ پر ’’اپنے‘‘ کا اضافہ تو ہے مگر مطلب واضح ہوجاتا ہے۔
"عھدُاللہ ‘‘ (یعنی اللہ سے کئے ہوئے عہد) کی مزید تفصیل اور وضاحت کے لیے کسی اچھی تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

۱:۱۹:۲(۱۴)     ] مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ] یہاں ’’من بعد…‘‘ کے معنی تو ہیں ’’…کے بعد‘‘ ’’…کے پیچھے‘‘ـــ (خالی نقطوں والی جگہ ’’میثاقہ‘‘کے لیے ہے جس کی وضاحت ابھی ہوگی) ـــ ’’بعد‘‘ اور ’’من بعد…‘‘ کے استعمال و معنی کے متعلق البقرہ:ایعنی ۱:۳۳:۲(۷)  میں بات ہوچکی ہے۔

[مِيْثَاقِهٖ]میں آخری ضمیر مجرور (ہ) کا ترجمہ یہاں ’’اس کا…‘‘ ہے۔ اور لفظ ’’میثاق‘‘ کامادہ ’’وث ق‘‘ اور وزن اصلی ’’مِفْعَالٌ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’مِوْثاقٌ‘‘ تھی جس میں واو ساکنہ اپنے ماقبل کے مکسور ہونے کی بناء پر (کسرہ کے موافق حرف) ’’یاء‘‘ میں بدل کر لکھی اوربولی جاتی ہے۔

اس مادہ (و ث ق) سے فعل ثلاثی مجرد زیادہ تر ’’وثِق یثِق‘‘ (’’دراصل یَوْثِقُ ثِقَۃً و مَوْثِقًا‘‘ (باب حسب سے) آتا ہے اور کبھی ’’وثُق یَوْثُق وِثَاقَۃً‘‘ (باب کرم سے) بھی آتا ہے ـــ پہلی (۱)صورت (یعنی باب حسِبَ سے) یہ ہمیشہ متعدی اور ’’باء‘‘ (بِ) کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ’’وثِقَ بِ…‘‘ اور اس کے معنی ہوتے : ’’…کا اعتبار کرنا، …پر بھروسہ کرنا، …پر اعتماد کرنا، … کا یقین کرنا، …کو قابلِ امانت جاننا‘‘۔ اس کے فاعل کو (جو اعتماد کرے) ’’واثِقٌ‘‘ اور اس کے مفعول کو (جس پر اعتماد کیا جائے)’’مَوثُوق بہ‘‘کہتے ہیں ـــ اور ’’موثوق بِہٖ‘‘ کو ’’ثقِۃً‘‘بھی کہتے ہیں ـــ اور یہ لفظ (ثِقَۃٌ) عدد اور جنس کے اعتبار سے یکساں رہتا ہے۔ مثلاً کہیں گے۔ ’’رجلٌ ثِقَۃٌ، امرأۃ ثِقۃٌ، رجالٌ ثِقَۃٌ اور نساء ثِقَۃٌ‘‘ کبھی جمع کے لیے ’’ثِقات‘‘(مردوں کے لیے بھی) استعمال ہوتا ہے  ـــ اور ’’موثوق بہ‘‘ کی صورت میں تثنیہ اور جمع کے صیغے ضمیر مجرور کے بدلنے سے آتے ہیں یعنی ’’موثوق بھما‘‘ موثوق بھم، موثوق بھا، موثوق بِھِنَّ وغیرہ [دیکھئے بحث مغضوب علیھم ۱:۶:۱(۵)میں] اور دوسری (۲)صورت (یعنی باب کرُم سے) اس فعل (وثُق) کے معنی بطور فعل لازم، مضبوط ہونا، پکا ہونا‘‘ہوتے ہیں ـــ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل ثلاثی مجرد کسی باب سے کبھی معنی کے لیے استعمال نہیں ہوا۔

·       لفظ ’’میثاق‘‘ جو دراصل تو ’’وثق‘‘ سے اسم آلہ کا وزن ہے اور اس کا ترجمہ ’’اعتماد کا آلہ‘‘ہونا چاہئے۔ تاہم یہ ’’محکم عہد‘‘، ’’مضبوط پیمان‘‘ اور ’’قسم اور عہد کے ساتھ پکا کیا ہوا اقرار‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔  [6] اور یہ (میثاق) مصدر (میمی) بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں اس کا ترجمہ ’’مضبوط کرنا، پکا کرنا (توثیق، تاکید اور استحکام کے معنی میں)ہوسکتا ہے اور چونکہ مصدر کے معنی معروف و مجہول دونوں ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ’’میثاق‘‘ کا ترجمہ ’’پکا کر دیا جانا‘‘ یعنی ’’پکا ہوجانا، مستحکم ہونا، مضبوط ہونا‘‘ بھی کرسکتے ہیں ـــ اس لیے ’’من بعد میثاقہ‘‘(جس کے اعراب اور ترکیب کی بحث آگے ’’الاعراب‘‘میں آرہی ہے)کا اردو ترجمہ ’’اس کی مضبوطی کے پیچھے، اس کے مضبوط کئے پیچھے، ا س کو مضبوط کرنے کے بعد، اس کو پکا کئے پیچھے، اس کو پکا کرکے، اس کے پکا ہونے کے بعد، اس کے استحکام کے بعد‘‘سے کیا گیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ یعنی ان سب مترجمین نے ’’میثاق‘‘کے مصدری معنی کا اعتبار کیا ہے (معروف یا مجہول) ’’جلا لین‘‘ میں بھی مصدری معنی بیان ہوئے ہیں۔

·       عربی زبان کا ایک لفظ ’’مَوثِق‘‘ (جو اسی مادہ (وثق)سے اسم ظرف بمعنی ’’اعتماد کی جگہ یا وقت‘‘ہے ـــ اور مصدر میمی بمعنی ’’اعتماد کرنا‘‘بھی ہے) بھی ’’میثاق‘‘کے ہم معنی ہے۔ (یہ لفظ ’’موثق‘‘بھی قران کریم میں تین جگہ آیا ہے)۔ان دونوں لفظوں(میثاق اور مَوثِق )کی ایک مشہور جمع مکسر ’’مواثیق‘‘آتی ہے (قرآن کریم میں صیغۂ جمع استعمال نہیں ہوا)۔

لفظ ’’میثاق‘‘مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف شکلوں میں قرآن کریم کے اندر ۲۵ جگہ وارد ہوا ہے اور اس مادہ (وثق) سے مزید فیہ کے بعض ابواب (اِفعال اور مفاعلہ)سے اَفعال کے کچھ صیغے اور بعض مصادر اور مشتقات بھی ۹جگہ آئے ہیں۔ ان کا بیان اپنے موقع پر آئے گا۔

۱:۱۹:۲(۱۵)     [ وَ يَقْطَعُوْن] ’’وَ‘‘ تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ہے۔ اور ’’یَقطَعُون‘‘ کا مادہ ’’ق ط ع‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْن‘‘ ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’قطَع … یَقْطَعُ قَطْعًا(باب فتح سے)آتا ہے۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی اور مفعول بنفسہٖ (کسی صلہ کے بغیر)کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو کاٹنا‘‘، ’’کاٹ دینا، الگ کردینا‘‘ بلکہ خود اس کا مصدر ’’قطع ‘‘بھی اردو میں مستعمل ہے اور فعل کا ترجمہ ’’قطع کرنا‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پھر ان بنیادی معنی سے ہی عربی زبان میں اس فعل سے کئی محاورے پیدا ہوتے ہیں مثلاً: ’’قطَع السبیلَ‘‘ (راہزنی کرنا، شاہراہوں پر دہشت گردی کرنی) ـــ اور ’’قطَع لسانَہ‘‘ (زبان بند رکھنا) اور ’’قطع وادیًا‘‘ (وادی پار کرنا۔ سفر کرنا) ’’قطع الامرَ‘‘ (فیصلہ کرنا) ـــ  ان میں سے بعض محاورے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں جو آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گے۔

·       اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’قطعُ یقطُع‘‘(باب کرم سے) بمعنی ’’بول نہ سکنا‘‘ اور ’’قطِعَ یقطَع‘‘ (باب سمع سے) بمعنی ’’الگ ہوجانا، کٹ جانا‘‘ بطور فعل لازم بھی استعمال ہوتا ہے۔ ـــ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل ان دو مؤخر الذکر ابواب سے کہیں استعمال نہیں ہوا۔

یہ فعل (قطَع، یقطَع =  کاٹنا، جدا کرنا)ـحسی(آنکھوں دیکھی)اشیاء کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’قطَع الید‘‘ (ہاتھ کاٹنا) ’’قطع الثوب‘‘ (کپڑا کاٹنا) وغیرہ اور معنوی (ذہن میں آنے والی)اشیاء کے لیے بھی آتا ہے۔ مثلاً ’’قطَع الرَحِمَ‘‘ (رشتہ داری کی پروانہ کرنا) ’’قطَع الْوصْلَ‘‘(جدائی ڈالنا) بلکہ اسی سے اردو میں ’’قطع ِتعلق‘‘ کا محاورہ مستعمل ہے۔

اردو مترجمین نے یہاں ’’ویقطعون‘‘ کا ترجمہ ’’کاٹتے ہیں‘‘ بھی کیا ہے۔ بعض نے ’’قطع کرتے ہیں، قطع کرتے رہتے ہیں‘‘ اور ’’قطع کئے ڈالتے ہیں‘‘سے بھی ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے ’’توڑتے ہیں‘‘کو اختیار کیا ہے۔

۱:۱۹:۲(۱۶)    [مَا اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖ] یہ جملہ جس میں کل پانچ کلمات (ما، امر، اللّٰہ، بِ، ہ) استعمال ہوئے ہیں‘  ان کے اعراب اور ترکیب نحوی کے ساتھ ترجمہ پر مفصّل بات تو ابھی آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔ یہاں ہم لفظ ’’اَمَرَ‘‘ پر بات کرتے ہیں اور اس میں ضمناً ’’بہ‘‘ کی ’’باء‘‘ (بِ) کا ذکر بھی آجائے گا۔

’’اَمَرَ‘‘ کا مادہ ’’أم ر‘‘ اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد زیادہ تر ’’أَمَریَأْمُر أمْرًا‘‘ (باب نصر سے)آتا ہے۔ یہ فعل متعدی، اور اس کا مفعول بہ بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) استعمال ہوتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو حکم دینا‘‘ ـــ اس باب (نصر) سے بھی اور باب سمِعَ سے (امِر یأمَر اِمارۃً) کے ’’علی‘‘ کا صلہ استعمال ہو کر (مثلاً امِر علیھم)اس کے معنی ’’کسی پر امیر یا حاکم ہوجانا‘‘ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں یہ استعمال نہیں آیا۔ بلکہ صرف پہلا (باب نصر والا) استعمال ہی ہوا ہے۔

·       اس فعل سے فعل امر حاضر ’’مُرْ‘‘ (توحکم دے)بنتا ہے (جس کی اصل شکل ’’اُأْمُرْ‘‘تھی) اور اس کی گردان یوں ہے ’’مُرْ، مُرَا ، مُرُوْا، مُرِی، مُرا اور مُرْن‘‘ ـــ مگر کسی حرف عطف (وَیافَ وغیرہ)کے داخل ہونے (شروع میں لگنے)سے اس کا ھمزئہ اصلی (فاء کلمہ)لوٹ آتا ہے۔ اور (مثلاً) مُرْ سے ’’وَأْمُرْ‘‘ہو جاتا ہے۔ (باقی صیغوں میں بھی اسی طرح تبدیلی ہوگی)۔

·       حکم دینے والے کو ’’آمر‘‘(اسم الفاعل)اور جسے حکم دیا جائے اسے ’’مَأمُورٌ‘‘ (اسم المفعول)کہتے ہیں۔ اور جس بات کا حکم دیا جائے اس کے شروع میں عموماً باء (بِ) کا صلہ آتا ہے۔ مثلا کہیں گے ’’اَمَرَہٗ بالصلوٰۃ‘‘(اس نے اسے نماز کا حکم دیا) ـــ اس لیے جس چیز کا حکم دیا جائے اسے ’’ماموربہ‘‘ کہتے ہیں  ـــ اور کبھی ’’بِ‘‘ کی بجائے ’أَنْ‘‘ لگا کر ساتھ فعل مضارع لگاتے ہیں مثلاً ’’اَمَرَہٗ اَنْ یُصَلِّیْ‘‘ (اس نے اسے حکم دیاکہ وہ نماز پڑھے) ـــ اور اس قسم کا ’’اَنْ‘‘ بھی دراصل ’’بِاَنْ‘‘ ہی ہوتا ہے۔ ’’اَنْ‘‘ کے اس استعمال کی مثال اسی (زیر مطالعہ) آیت میں آگے آرہی ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل کا استعمال اس طرح بھی ہوا ہے کہ ’’مامور‘‘ اور ’’ماموربہٖ‘‘ دونوں مذکور ہوتے ہیں اور اس طرح بھی کہ صرف ’’مامور‘‘ مذکور ہوتا ہے۔ اور ’’مامور بہٖ‘‘ محذوف ہوتا ہے اور کبھی اس کے برعکس ’’ماموربہٖ‘‘ مذکور ہوتا ہے اور ’’مامور‘‘ محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے۔ ان سب استعمالات کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

یہ فعل (امر یأمر) قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہواہے۔ فعل ثلاثی مجرد سے ہی مختلف صیغے (ماضی ، مضارع، معروف مجہول وغیرہ) ۷۸ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب افتعال سے بھی دو صیغے آئے ہیں اور اس مادہ سے بعض دیگر مشتقات اور مصادر وغیرہ تو دو سو (۲۰۰)کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ان سب پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۱:۱۹:۲(۱۷)     ]اَنْ یُوْصَلَ] اس میں ’’اَنْ‘‘ تو (بمعنی ’’کہ‘‘) وہی ہے جو فعل ’’امَر یامُر‘‘ کے دوسرے مفعول یعنی مامور بہٖ سے پہلے آتا ہے اور جس کا ذکر اس فعل کے استعمال کے سلسلے میں ابھی اوپر ہوا ہے۔

’’یُوْصل‘‘ کا مادہ ’’وص ل‘‘اور وزن ’’یُفْعَلَ‘‘ ہے (جو فعل مضارع کی منصوب شکل ہے جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘میں بیان ہوگی)خیال رہے یہاں ’’یُوْصَلَ‘‘ اپنی اصلی شکل میں ہی ہے یعنی اس میں کوئی تعلیل وغیرہ نہیں ہوئی البتّہ واو مدّہ ہوجانے کی وجہ سے فاء کلمہ حرف صحیح کی طرح بروزن ’’یُفْعَلَ‘‘ پڑھا نہیں جاتا بلکہ لفظ یُوْعَلَ" معلوم ہوتا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’وصَل …یَصِل‘‘ (دراصل یَوْصِل) وَصْلاً (باب ضرب سے)آتا ہے۔ یہ فعل عموماً متعدی اور مفعول بنفسہٖ کے ساتھ (بغیر صلہ کے)استعمال ہوتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو ملانا، …کو جوڑنا، …سے پیوستہ رکھنا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’وصلَ الشَییءَ بالشَییءِ‘‘ (اس نے چیز کو چیز سے ملا دیا) ـــ اور یہی فعل متعدی بنفسہ ہو کر یا ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ ’’…سے ملنا، …کو پہنچنا، …سے نسبت رکھنا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً کہتے ہیں: ’’وصلہ الخبرُ یا وصل الیہ الخبرُ‘‘ (خبر اس تک پہنچی یا اسے ملی) محاورے میں یہ فعل حسن سلوک کرنا کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً ’’وصل رَحِمَہ‘‘(اس نے اپنے رشتہ داروں سے بھلائی کی)

·       قرآن کریم میں اس فعل (وَصل یصِل)سے ماضی ، مضارع، معروف و مجہول کے مختلف صیغے دس (۱۰)جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے سات جگہ اس کا استعمال ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس مادہ (وصل)سے فعل ’’وَصَّلْنَا‘‘(باب تفعیل سے) ایک جگہ (القصص:۵۱) اور کلمہ ’’وصِیْلۃ‘‘ بھی صرف ایک جگہ (المائدہ: ۱۰۶) وارد ہوا ہے ـــ اب سب پر حسب موقع بات کی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’یُوْصَلُ‘‘ (جو آیت میں بشکل منصوب آیا ہے)اسی فعل ثلاثی مجرد (وصَل یصِل) سے مضارع مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اور اس (فعل مجہول)کا مصدری ترجمہ ’’جوڑا جانا، ملایا جانا‘‘سے ہی ہوسکتا ہے۔ خیال رہے کہ اس مادہ سے بابِ افعال کے فعل (اَوْصَلَ یُوْصِل ایصالاً) کا مضارع مجہول بھی ’’یُوصَلُ‘‘ ہی بنتا ہے تاہم ’’ایصال‘‘ کے معنی ’’(۱)… کو … (۲)… تک پہنچانا‘‘ ہیں۔ مثلاً اوصلہ الیہ(اس نے اسے(۱)اسی(۲)تک پہنچا دیا)۔اور اس سے فعل مجہول کے معنی آیتِ زیر مطالعہ میں فِٹ نہیں آتے ـــ اس لیے یہاں یہ فعل (یوصل)ثلاثی مجرد کا مضارع مجہول ہی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ تمام مترجمین نے "ان یوصل"کے ترجمہ میں "ملایا جانا،جوڑاجانا"کا مفہوم سامنے رکھا ہے یعنی"کہ ملایا جائے،کہ جوڑا جائے" ـــ اور چونکہ"أن"سے مضارع میں مصدری معنی بھی پیدا ہوتے(دیکھئے۱:۱۹:۲(۲))یعنی "اَن یُوصَل=الوَصل"۔اس لیے بعض مترجمین نے مصدری معنی کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی "ملانے کا"جوڑنے کا"،"وابستہ رکھنے کا"،"جوڑے رکھنے کا"(حکم)کی صورت میں۔

]وَیُفْسِدُوْنَ[ "وَ"عاطفہ بمعنی "اور"ہے۔اور "یُفْسِدُون"کا مادہ "ف س د"اور وزن "یُفْعِلُوْن"ہے یعنی یہ اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔اس مادہ سے فعل مجرد اور باب افعال کے فعل(افسد…..یفسد،اِفسادًا:بگاڑ دینا یا خرابی پیدا کرنا)کے معنی واستعمال پر مفصل بات البقرہ:۱۱یعنی ۱:۹:۲(۳)میں گزر چکی ہے۔یہاں"یفسدون"کا ترجمہ بگاڑ کرتے ہیں،فساد کرتے ہیں،فساد پھیلاتے ہیں،فساد مچاتے ہیں،خرابی کرتے ہیں"سے کیا گیا ہے ۔سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔

]فِی الْاَرْضِ[یعنی زمین میں ـــ اس ترکیب (فی الارض)اور لفظ "ارض"کی مکمل لغوی بحث بھی البقرہ:۱۱یعنی ۱:۹:۲(۴)میں ہو چکی ہے۔یہاں فی الارض کا ترجمہ ہوگا"زمین میں"اور بعض نے "ملک میں"سے ترجمہ کردیا ہے۔

۱:۱۹:۲(۱۸)     ]اُولٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ["اُوْلئِکَ"(وہ سب)اور"ھُمْ"(ضمیرجمع مذکر غائب بمعنی "وہ سب")کی وضاحت البقرہ:۵یعنی ۱:۴:۲(۱)اور۱:۴:۲(۵)میں کی جاچکی ہے۔

"الخاسرون"(یہ اسم کا  رسم املائی ہے ،اس کے رسمِ عثمانی پر آگے بحث"الرسم"میں بات ہوگی) کا مادہ"خ س ر"اور وزن (لام تعریف نکال کر)"فاعلون"ہے۔اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد"خَسِرَ خَسَرَ یَخْسِرُ خُسْرًا وَخُسْرانًا"(باب سمع اور باب ضرب سے)آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں:"تجارت میں نقصان اٹھانا،خسارہ پانا"۔قرآن کریم میں یہ فعل باب سمِع سے ہی استعمال ہوا ہے۔

·       اس فعل کی نسبت کبھی"انسان"کی طرف ہوتی ہے مثلا کہتے ہیں"خسِر التاجرُ"(تاجر نے خسارہ پایا)اور کبھی اس کی نسبت کسی "کام"کی طرف ہوتی ہے مثلا کہتے ہیں"خسِرت تجارتُہ"(اس کی تجارت ناکام ہوئی)۔اس طرح زیادہ تر یہ فعل بطور "لازم"آتا ہے۔اور "خسارہ"سے مراد عموما دنیوی مال وجاہ وغیرہ کا نقصان ہوتا ہے اور کبھی صحت ،عقل،ایمان یاثواب میں نقصان مراد ہوتا ہے ۔قرآن کریم میں اس کا استعمال (عموماًہر جگہ)آخرت کاخسارہ   /نقصان کے معنی میں ہوا ہے۔

·       کبھی یہ فعل بطور متعدی بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی"…..کو برباد کرنا،……کوکھوبیٹھنا،…..کو ضائع کردینا"ہوتے ہیں مثلاًکہتے "خسِر مالَہ"(وہ اپنا مال کھو بیٹھا)۔قرآن کریم میں یہ فعل لازم اور متعدی دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس(فعل مجرد) سے مختلف صیغے قریباًپندرہ جگہ آئے ہیں ۔اس کے علاوہ مزیدفیہ کے صرف بابِِ افعال سے کچھ صیغے اورمختلف مصادر ومشتقات ۴۵کے قریب مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ "خاسِرٌ"اس فعل(خَسِر یخسَر)سے صیغہ اسم الفاعل ہے یہ لفظ قرآن کریم میں قریباًتیس بار آیا ہے اور ہرجگہ جمع مذکر سالم کے صیغہ (خاسرون۔خاسرین)میں استعمال ہوا ہے۔اس طرح "خاسِر"اگرچہ فعل مجرد کے لازم اور متعدی دونوں معنی کے لحاظ سے اسم الفاعل ہوسکتا ہے۔تاہم قرآن کریم میں یہ زیادہ تر لازم (خسارہ پانے والا)کے معنی میں ہی آیا ہے یا کم ازکم اس کے ساتھ(بصورت اسم الفاعل)اس کے مفعول کاذکر نہیں ہوا(بعض دفعہ اسم الفاعل بھی اپنے مفعول کو فعل کی طرح نصب دیتا ہے،اور اس کی مثالیں قرآن کریم میں بکثرت موجود ہیں)۔البتہ بصورتِ فعل استعمال میں اس فعل(خَسِر)کے ساتھ اس کامفعول بھی بعض جگہ مذکور ہوا ہے یعنی واضح طور پر بطور متعدی استعمال ہوا ہے۔

          مندرجہ بالا لغوی تشریح کے پیشِ نظر ’’الخاسرون‘‘کا ترجمہ ’’خسارہ پانے والے‘‘بنتا ہے۔ اسی کو بعض مترجمین نے ’’ٹوٹا پانے والے‘‘ (ٹوٹا بمعنی گھاٹا یا نقصان پرانی اردو میں مستعمل تھا) بعض نے ’’ٹوٹے والے‘‘ کیا ہے ، جب کہ بعض نے ’’خسارے میں پڑنے والے‘‘ اور بعض نے ’’نقصان اٹھانے والے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو زیادہ قابلِ فہم ہے۔ بعض نے ’’نقصان میں ہیں‘‘ کو اختیار کیا ہے۔ جو لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔ اور بعض نے ’’نقصان اٹھائیں گے‘‘، ’’ٹوٹا اٹھاویں گے‘‘ یا ’’…کو آیا نقصان‘‘ کی صورت میں یعنی جملہ فعلیہ کی طرح ترجمہ کرد یا ہے۔ اسے صرف مفہوم و محاورہ کے اعتبار سے ہی درست ہی کہہ سکتے ہیں ورنہ اصل جملہ تو اسمیہ ہے۔

 

 ۲:۱۹:۲       الاعراب

          زیرِ مطالعہ دو آیات میں سے پہلی آیت(۲۶) اعرابی لحاظ سے پانچ مستقل جملوں پر مشتمل ہے اور دوسری آیت (نمبر۲۷) بنیادی طور پر تو چار جملوں پر مشتمل ہے۔ مگر یہ تمام جملے واو عاطفہ کے ذریعے اس طرح ملادئے گئے ہیں کہ سب مل کر ایک ہی لمبا جملہ بنتا ہے۔ ہم یہاں ہر ایک جملے کی الگ الگ اعرابی بحث کریں گے اور پھر جو جملے باہم مربوط ہیں ان کی نشاہدہی کردیں گے۔ ہر ایک جملے  کو الگ نمبر دیا گیا ہے۔

(۱)         اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا

          [اِنَّ] حرف مشبہ بالفعل ہے اور [اللہَ] اسم ’’اِنَّ‘‘ ہو کر منصوب ہے [لا ] نافیہ ہے۔ [يستحْىٖ] فعل مضارع معروف ہے جسمیں ضمیر فاعل ’’ھُوَ‘‘ مستتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس طرح ’’لا یستحی‘‘ ایک جملہ فعلیہ ہے جو ’’اِنَّ‘‘ کی خبر کا کام دے رہا ہے لھذا اسے محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں (انّ) کی خبر مرفوع ہوتی ہے) [اَن یَضْربَ] میں ’’أن‘‘ نا صبہ مصدریہ ہے، اس کی وجہ سے فعل مضارع ’’یضربَ‘‘ منصوب ہو گیا ہے اور اس (اَن) کے بعد آنے والاصیغہ مضارع منصوب مصدر کے معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔ جسے مصدر ِمؤوَّل کہتے ہیں بہر حال دونوں صورتوں میں (مصدر مؤوَّل ہو کر یا صرف مضارع منصوب ہوکر) ’’اَن‘‘ اور اس کے بعد والی عبارت فعل ’’لایستحی‘‘ کا مفعول بہٖ ہو کر محلاً منصوب ہی سمجھی جائے گی۔ چاہے فعل (یستحی)کو متعدی بنفسہٖ سمجھیں (استحیاہ)۔ اور چاہے متعدی بصلۂ محذوف سمجھیں یعنی ’’استحیٰ مِنْہ‘‘ (دیکھئے ’’استحیی‘‘کی مندرجہ بالا لغوی بحث یعنی۱:۱۹:۲(۱))۔ البتہ دوسری صورت میں (جس طرح کہ یہ فعل آیت زیرِ مطالعہ میں استعمال ہوا ہے) اسے منسوب بنزع الخافض کہیں گے۔ کیونکہ حرف خفض (جرّ) یعنی صلہ ’’مِنْ‘‘ہٹا دیا گیا ہے۔ [مثلاً] فعل ’’یضربَ‘‘ کا مفعول بہٖ منصوب ہے۔  ضرَبَ مَثَلاً کا لفظی ترجمہ بنتا ہے’’اس نے مثال کو مارا‘‘ یہ ایک محاورہ ہے جس کے معنی ’’مثال بیان کرنا ‘‘ ہیں (دیکھئے اس لفظ پر بحث "اللغۃ "یعنی ۱:۱۹:۲(۲) میں)۔ [ما] یہ ابہامیہ ’’مَا‘‘جس کی وضاحت اوپر حصہ  " اللغۃ"میں ہوچکی ہے، بلحاظِ اعراب یہاں اپنے سے ماقبل اسم (مثلاً) کی صفت ہے۔ اس طرح اَن یضرب مثلاً ما "کا لفظی ترجمہ ہوگا کہ وہ بیان کرے مثال کوئی سی بھی‘‘ جسے بامحاورہ کرنے کے لیے ’کہ مثال سمجھانے کو کسی بھی چیز کاذکر کرے‘‘ یا ’’کہ کسی بھی چیز کی مثال بیان کرے‘‘ یا ’’کوئی مثال بیان کرے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ہے [بَعُوْضَۃً] بفظ ’’مَثَلاً‘‘ کا بدل (بدل البعض یا بدل الاشتمال)ہو کر منصوب ہے [فَمَا] میں ’’فَ‘‘ تو عاطفہ یا بمعنی ’’الی‘‘ ہے اور ’’مَا‘‘اسم موصول (بمعنی جو کہ)ہے جو ’’بعوضۃ ‘‘ پر یا سابقہ’’مَا‘‘ ابہامیہ پر عطف ہونے کے باعث یہاں محلاً منصوب ہے [فَوقَھا] میں ’’فوق‘‘ ظرفِ مکان مضاف ہے اور ’’ھا‘‘ ضمیر مجرور بالاضافہ (مضاف الیہ ہوکر)ہے اور یہ سارا مرکب (فوقھا) ’’ما‘‘ موصولہ کا صلہ ہے۔ اس طرح ’’فما فوقَھا‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’پس / یا پھر جو کہ اس سے اوپر ہوا ہے‘‘ یا ’’اس تک جو اس سے اوپر ہے‘‘پھر اردو محاورے میں یہاں ’’فَ‘‘ کا ترجمہ "خواہ" اور"یا" سے کیا جاتا ہے،اسی طرح "فَمَافوقھا" کا ترجمہ "یا جو اس سے بڑھ کر ہے  یا ’’خواہ اس سے بھی بڑھی ہوئی ہو ‘‘ یا ’’یا اس سے بھی بڑھ کر (کسی اور حقیر شے کی)‘‘ کیا گیا ہے۔ یہ بات اوپر بحث اللغۃ میں ۱:۱۹:۲(۴)میں بیان ہوچکی ہے کہ یہاں ’’فَوقَ‘‘ (اوپر) کے معنی کس طرح متعین ہوں گے اور کیا ہوں گے ۔

(۲)     فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ

           [فَاَمَّا] کی ’’فَ‘‘ تو مستانفہ ہے جس سے ایک نئی بات شروع ہورہی ہے۔’’اَمَّا‘‘ حرفِ شرط و تفصیل ہے (جس کی وضاحت اوپر " اللغۃ" میں ہوچکی ہے۔( [الذین] اسم موصول برائے جمع مذکر یہاں بطور مبتدأ مرفوع ہے۔ اور [آمنو] فعل ماضی معروف جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے۔ یوں ’’آمنوا‘‘ جملہ فعلیہ (فعل مع فاعل) بن کر ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے یعنی یہ بھی مبتداء کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس طرح ’’فاما الذین آمنو‘‘سارا مل کر ’’اَمَّا‘‘کے حصّہ شرط کا کام دے رہا ہے۔ یعنی یہ وہ ’’شے‘‘ہے جس کی تفصیل آگے جواب ’’اَمّا‘‘ میں آرہی ہے۔ [فیعلمون] میں ’’فَ‘‘تو رابطہ کے لیے ہے جو ’’اما‘‘ کے بعد بطور جوابِ شرط آنے والے جملے کے شروع میں لازماً آتی ہے۔ ’’یعلمون‘‘ فعل مضارع معروف ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے جس کا مرجع ’’الذین آمنوا‘‘ہے اور یہاں سے مبتدأ ’’الذین آمنوا‘‘کی خبر شروع ہو رہی ہے۔ [انہ] میں ’’اَنَّ‘‘ حرف مشبہّ بالفعل ہے اور ’’ہ‘‘ (ضمیر منصوب متصل) اس کا اسم (منصوب) ہے۔ [الحقُّ] خبر ’’أنّ‘‘ ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ اور یہ خبر معرفہ (باللام) بھی ہے جس کا اردو ترجمہ ’’ہی‘‘ سے ہوگا یعنی ’’وہ ہی برحق ہے‘‘ یا ’’وہ حق ہی تو ہے‘‘ [مِنْ رَبھم] میں ’’مِن‘‘ جارہ ہے اور ’’ربِّ‘‘ مجرور بالجر اور آگے مضاف بھی ہے۔ اس لیے خفیف ہے۔ (لام تعریف اور تنوین سے خالی ہے)آخری ضمیر مجرور ’’ھم‘‘ مضاف الیہ ہے۔ یہاں من بیانیہ ہے تبعیضیہ نہیں ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’میں سے‘‘کی بجائے ’’کی طرف سے ہوگا‘‘۔ ’’من ربھم‘‘ کے مختلف تراجم مع وجہ اوپر حصہ  " اللغۃ" میں بیان ہوچکے ہیں]دیکھئے۱:۱۹:۲(۶)کے بعد[۔

یہ عبارت (انہ الحق من ربھم) فعل ’’فیعلمون‘‘ کا مفعول بہٖ لہٰذا محلاً منصوب ہے۔ ’’فاما الذین آمنو‘‘ اور ’’فیعلمون‘‘ کے معانی اور ترجمہ بھی حصہ  اللغۃ میں بیان ہوچکے ہیں(دیکھئے۱:۱۹:۲(۵))۔

(۳)     وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا

 [و] عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ہے مگر اردو محاورے کی خاطر یہاں اس کا ترجمہ ’’مگر‘‘سے بھی کیا جاسکتاہے ۔ [اَمَّا] حرف شرط و تفصیل ہے۔ [الذین]اسم موصول برائے جمع مذکر ہے اور یہاں مبتدأ ہو کر مرفوع ہے۔ [کفروا] فعل ماضی معروف (جمع مذکر غائب) ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے اس طرح یہ (کفروا) جملہ فعلیہ (فعل مع فاعل)ہو کر ’’الذین‘‘کا صلہ ہے اور یہ عبارت (واما الذین کفروا) مبتدأ بن کر ’’اما‘‘ کے حصہ ِشرط کا کام دے رہا ہے۔ جس کی وضاحت یا تفصیل آگے ’’اما‘‘کے جواب (شرط)والے فقرے میں آرہی ہے۔ [فیقولون] میں ’’ف‘‘ رابطہ(جوابِ ِشرط) کے لیے ہے۔ (جو ’’اما‘‘ کے جواب پر لازماً آتی ہے اس ’’فَ‘‘ کا ترجمہ یہاں ’’سو وہ تو‘‘، ’’تو وہ تو‘‘ہوگا۔’’یقولون‘‘ فعل مضارع معروف (جمع مذکر غائب) ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘مستتر ہے جس کا مرجع ’’الذین کفروا‘‘ہے۔ اور یہ (فیقولون)اس مبتدأ (الذین کفروا)کی خبر کا کام دے رہا ہے۔ [ماذا]اگر اسے ایک ہی کلمہ سمجھیں تو یہ ’’مَا‘‘ ہی کے ہم معنی ہے یعنی اس کا ترجمہ ’’کیا ؟‘‘ہوگا۔ اور یہاں یہ اگلے فعل (ارَاد) کا مفعول بہ مقدم ہونے کی بناء پر محلاً نصب میں ہے۔ اور اگر اسے (ماذا) کو ’’مَا‘‘(استفہامیہ)اور ’’ذا‘‘ (موصولہ بمعنی الذی) کا مرکب سمجھیں تو اس کا ترجمہ ’’کیا ہے وہ جو‘‘، ’’کیا کچھ ہے وہ جو‘‘، ’’وہ کیا جس (کا)‘‘ سے ہوگا۔ اس صورت میں ’’ذا‘‘کے بعد آنے والا فقرہ (اراد اللہ بھذا)صلہ شمار ہوگا۔ اور ’’اراد‘‘ کے بعد ایک ضمیر (عائد) محذوف ہے یعنی دراصل عبارت ’’ما ذا ارادہ اللہ بھذا‘‘ بنتی ہے۔ اور یہ صلہ موصول (ذا اراد اللہ) اسم استفہام (مَا)کی خبر ہوں گے [اراد] فعل ماضی معروف (واحد مذکر غائب)ہے اور [اللہُ] اس کا فاعل ہوکر مرفوع ہے۔ اس طرح ’’ماذا(الذی) اراد (ہ) اللہ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’کیا ہے وہ کہ ارادہ کیا جس کا اللہ نے‘‘ ـــ اسی کو بامحاورہ اردو میں بدلنے کے لیے بعض مترجمین نے ’’کیا غرض ہے؟ کیا مقصود ہے؟ کیا مطلب ہے (اللہ کا) کے ساتھ ترجمہ کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہی (ماذا کو مرکب سمجھنے والی) ترکیب ہے۔ [بھذا] جارّ(بِ)اور مجرور (ھذا) مل کر متعلق فعل ’’اراد‘‘ ہیں۔ [مَثَلاً] فعل ’’اراد‘‘کی تمیز ہو کر منصوب ہے اور یہ (مَثَلاً)’’ھذا‘‘ کا حال بھی بن سکتا ہے (اور نصب کی وجہ ’’حال  ہونا‘‘بھی ہے)اس طرح اس (بِھَذا مَثَلاً) کا ترجمہ ہونا چاہئے (۱) ’’اس چیز سے بلحاظ مثال (لانے)کے ‘‘(بلحاظ تمیز) ـــ (۲) یا ’’اس چیز کے مثال ہوتے ہوئے؍مثال ہونے کی بناء پر‘‘(بلحاظ حال)۔ مگر اردو محاورے کی مجبوری کی بناء پر اس (بھذا مَثَلاً) کا ترجمہ ’’اس مثال سے، ایسی کہاوت سے، ایسی مثال سے، کیا گیا ہے گویا ’’بھذا المثل‘‘ کے معنوں میں  ـــ کیونکہ ’’حال‘‘یا ’’تمیز‘‘ کا لفظی ترجمہ اردو محاورے میں کسی طرح فِٹ نہیں بیٹھتا۔

(۴)      يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا    ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًا

          [یضل] فعل مضارع معروف (واحد مذکر غائب)ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ مستتر ہے جس کا مرجع ’’اللہ‘‘(اراد اللہ والا)ہے۔ اس فعل (یُضِل)سے شروع ہونے والاجملہ (یضل بہ کثیرا) ’’مثلا اوپر والے فقرے ۳  کا آخری لفظ جو نکرہ موصوفہ ہے) کی صفت بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی ’’ایسی مثال دینے سے جس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے وہ بہتوں کو ‘‘۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جملہ (یضل بہ کثیرا) ’’اللہ‘‘ (ارا د اللہ والا) کا حال قرار دیا جائے اس صورت میں ترجمہ ہوگا: ’’(کیا مقصود ہے اللہ کا اس مثال سے) اس حالت میں کہ وہ گمراہ کرتا ہے یاحالانکہ وہ گمراہ کرتاہے…‘‘ ـــ تاہم ہمارے اردو مترجمین نے ان دونوں ترکیبوں کو نظر انداز کردیا ہے۔ (اگرچہ بعض نحویوں نے  ان دونوں صورتوں کا بھی ذکر کیا ہے)۔

          تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس ’’یضل‘‘سے شروع ہونے والے (مندرجہ بالا جملہ نمبر۴) کو مستانف(الگ عبارت)سمجھا جائے (یہی وجہ ہے کہ یہاں ’’مَثَلاً‘‘ کے بعد وقف لازم(م)لگا یا گیا ہے۔

          [بہ] میں باء الجر (بِ) سببیہ ہے (بمعنی … کے ذریعے) اور ’’ہ‘‘ ضمیر مجرور کا مرجع ’’مَثَلاً‘‘ ہے یعنی ’’اس (مثال)کے ذریعے گمراہ کرتا ہے ‘‘[کثیراً] فعل ’’یضل‘‘ کامفعول بہٖ ہو کر منصوب ہے یعنی، بہتوں کو ‘‘ ـــ [و] عاطفہ جس کے ذریعے اس سے پہلے جملے (یضل بہ کثیرا) کو اس کے بعد والے جملے (یھدی بہ کثیرا) سے ملایا گیا ہے۔ [یھدی] فعل مضارع معروف ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھو‘‘مستتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے [بہ] پہلے [بہ] کی طرح سببیہ ہے اور یہی صورت اس دوسرے [کثیرا] کا ہے یعنی یہ فعل ’’یھدی‘‘ کا مفعول بہٖ ہو کر منصوب ہے (’’اس کے ذریعے بہتوں کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘) دونوں جگہ کثیراً (صفت) سے پہلے ایک موصوفہ (مثلاً رجالاً) مخذوف ہے۔

(۵)        وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ

          [و] حالیہ (بمعنی ’’درا نحالیکہ، اس حالت میں کہ یا حالانکہ‘‘) بھی ہوسکتی ہے اور استیناف کی (بمعنی ’’اور‘‘)بھی۔

          ]ما] نافیہ (بمعنی ’’نہیں‘‘) ہے۔ [یُضِلُّ] فعل مضارع معروف منفی (بذریعہ’’مَا‘‘)ہے (یعنی حالانکہ وہ گمراہ نہیں کرتا) [الاّ]حرفِ استثناء بمعنی ’’سوائے‘‘ ہے جو منفی جملے کے بعد آئے تو ’’حصر‘‘کے معنی پیدا کرتا ہے جس کا اردو ترجمہ ’’مگرصرف‘‘سے کیا جاتا ہے۔

[الفاسقین]یہ منصوب ہے مگر ’’الاّ‘‘ کی وجہ سے نہیں۔ اس لیے کہ یہاں ’’اِلَّا‘‘سے پہلے جملہ تام (مکمل) اور مثبت نہیں ہے۔ ’’ما نافیہ‘‘ اور ’’اِلاَّ استثنائیہ‘‘ سے صرف ’’حصْر‘‘(عملِ فعل کو محدود کردینے)کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں ’’الفاسقین‘‘اپنے اعراب کے لحاظ سے فعل ’’یُضِل‘‘ہی سے متعلق ہے یعنی اس کا مفعول بہٖ ہو کر منصوب ہے۔ تقدیر عبارت (یعنی اصل مفہوم عبارت)کچھ یوں بنتی ہے۔ ’’وما یضل بہ(احدا) الا الفا سقین‘‘ یعنی ’’وہ اس کے ذریعے کسی ایک کو بھی گمراہ نہیں کرتا مگر فاسقوں کو‘‘ ـــ اسی کو با محاورہ  صورت یوں دی گئی ہے"اور گمراہ کرتا بھی ہے اس کے ذریعے تو صرف بدکاروں کو ہی "یا"اور گمراہ  انہی کو کرتا ہے (اس کے ذریعے) جو بے حکم ہیں‘‘ اور بعض نے ’’گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں کو ہی‘‘کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ تمام تراجم کا مفہوم ایک ہی ہے۔

(۶)     الَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِه 

 [الذین] اسم موصول ہے۔ اس (اسم موصول)سے شروع ہونے والے جملے کو ایک الگ جملہ (مستانفہ) بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ا س صورت میں ’’الذین‘‘ کو مبتدأ مرفوع کہہ سکتے ہیں۔ یا اس کے شروع میں ایک مبتدأ (ھم)محذوف سمجھ کر بھی مرفوع (بطور خبر)سمجھا جاسکتا ہے ـــ تاہم زیادہ مناسب یہ ہے کہ اسے گزشتہ آیت کے آخری لفظ’’الفاسقین‘‘ کی صفت سمجھا جائے۔اس طرح یہاں ’’الذین‘‘کو منصوب سمجھا جاسکتا ہے۔ (اس کے موصوف ’’الفاسقین‘‘ کی نصب کی وجہ اوپر نمبر۵ کے آخر پر بیان ہوئی ہے)’’الذین‘‘کے مبنی ہونے کی بناء پر اس میں رفع نصب جر کی علامت ظاہر نہیں ہوتی ـــ ’’الذین‘‘کے اعراب کی اس آخری (نصب والی)وجہ کو سامنے رکھتے  ہوئے ہی یہاں خاتمہ آیت پر ’’لا‘‘کی علامت ڈالی گئی ہے۔ یعنی دونوں آیات کا مضمون باہم مربوط ہے ـــ اور ہم نے بھی اسی لیے ان دوآیات کو مطالعہ کے لیے ایک قطعہ قرار دیا ہے۔

 [ینقضون] فعل مضارع معروف (جمع مذکر غائب)ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘مستتر ہے جس کا مرجع ’’الذین‘‘ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ اس (ینقضون) سے ’’الذین‘‘(موصول)کے صلہ کی ابتداء ہورہی ہے [عھد اللہ] مضاف (عھد)اور مضاف الیہ (اللہ) مل کر فعل ’’ینقضون‘‘ کا مفعول بہٖ(لھذا) منصوب ہے اور علامت نصب اس میں ’’عھد‘‘ کی ’’دال‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ )ہے۔ [من بعد] جار مجرور مل کر ظرفِ مضاف ہے۔ اور [میثاقہ] میں مضاف (میثاق)اور مضاف الیہ (ضمیر مجرور ’’ہ‘‘) مل کر ظرف (من بعد)کے مضاف الیہ (لھذا)مجرور ہیں۔ اور علامت جر میثاق کے ’’ق‘‘کی کسرہ کی (ــــِــــ)ہے۔ چونکہ ’’عھد‘‘ اور ’’میثاق‘‘ ہم معنی بھی ہیں یعنی میثاق کے ایک معنی ’’پختہ عہد‘‘’’محکم عہد ‘‘ بھی ہوتے ہیں ] دیکھئے اوپر بحث اللغۃ ۱:۱۹:۲(۳)[اس لئے اس جملے (ینقضون عھد اللہ)’’وہ اللہ کا عہد توڑتے ہیں‘‘کے بعد (من بعد میثاقہ کا ترجمہ)’’اس کے پکے عہد کے بعد‘‘سے کرنا بے معنی سا لگتا ہے، البتہ اگر لفظ ’’میثاق‘‘ کو مصدری معنی (پختہ کرنا)میں لیا جائے تو ترجمہ ہوگا: ’’اس کے پکا کرنے کے بعد‘‘ اور یہ اس عبارت میں موزوں لگتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر مترجمین نے یہی یا اس سے ملتا جلتا ترجمہ کیا ہے(دیکھئے اوپر بحث"اللغۃ"۱:۱۹:۲(۳)۔ البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ’’میثاقہ‘‘ کی ضمیر مجرور (ہ) کا مرجع کیا ہے۔ اس کے دوامکان ہوسکتے ہیں:

(۱)اوّل تو یہ کہ یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اس صورت میں فعل (بصورت ِمصدر)اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے اور ’’میثاق‘‘ فعل معروف کا مصدر سمجھا جائے گا (بمعنی مضبوط کردینا تو اس (من بعد میثاقہ) کا ترجمہ ہوگا:’’اس (اللہ)کے اسے (عہد کو) پختہ بنا دینے کے بعد‘‘ یعنی اپنے رسولوں کے ذریعے (پختہ کرنے کے بعد)۔

 (۲) دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ یہ (میثاقہ کی) ضمیر مجرور یہاں خود ’’عھد ‘‘ کے لیے ہے اس صورت میں ’’میثاق‘‘ فعل مجہول کا مصدر سمجھا جائے گا۔ [آپ کو معلوم ہوگا ـــ اور یہ پہلے کہیں بیان ہوچکا ہے  ـــ کہ مصدر تو معروف یا مجہول فعل کے لیے وہی (ایک ہی)رہتا ہے۔ یعنی مصدر کا ترجمہ حسب موقع فعل معروف یا مجہول دونوں کے ساتھ کیا جاسکتا ہے]اس طرح (اس دوسری صورت میں) ’’من بعد میثاقہ‘‘ کا ترجمہ ہوگا ’’اس کے پکا کردئے جانے کے بعد‘‘ یعنی فاعل محذوف ہے جو سیاقِ عبارت سے ’’اللہ‘‘ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

          اکثر اردو مترجمین نے (مندرجہ بالا) پہلی ترکیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’مصدر معروف‘‘کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ یعنی ’’مضبوط کرنے کے بعد‘‘، ’’پکا کرکے‘‘ ـــ اور بعض نے مصدر کو مجہول سمجھ کر ’’پکا ہونے کے بعد‘‘، ’’مضبوط کئے پیچھے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض مترجمین نے ’’میثاق‘‘ کا ترجمہ دوسرےعربی مصدر ’’استحکام‘‘سے کیا ہے (جو اردو میں مستعمل ہے) اور مصدر ہونے کے لحاظ سے خود بھی معروف و مجہول دونوں معنی کی گنجائش رکھتا ہے ’’اس کے استحکام کے بعد‘‘ یعنی محکم کرنے یا محکم ہونے کے بعد ـــ

          ترجموں کے اس فرق سے اصل مفہوم پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تاہم قرآن کریم کے ساتھ علمی ربط (بذریعہ لغات و اعراب)کے لیے ضروری ہے کہ ہم ترجمہ کی بنیاد (اعراب)کو سمجھتے ہوں۔ اسی لیے ہم نے یہاں ذرا تفصیل سے کام لیا ہے۔ یہاں تک کی عبارت (الذین …میثاقہ)مل کر صلہ موصول ہے یعنی ’’الذین‘‘اور اس کا صلہ  ـــ اور یہ سب مل کر (صلہ موصول) ایک جملہ کا مبتدأ بن رہے ہیں یعنی یہ بذات خود مکمل جملہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس مبتدأ  کی خبر آگے آئے گی۔

(۷) وَ يَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ  ۭ

          [وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے اس کے بعد والا جملہ (یقطعون …یوصل) اس سے سابقہ جملہ (نمبر۶ مندرجہ بالا) پر عطف ہوتا ہے یعنی یہ (نمبر۷ جملہ) بھی ’’الذین‘‘کے صلہ میں داخل ہوتا ہے۔

 [یقطعون] فعل مضارع معروف (جمع مذکر غائب) ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے جس کا مرجع ’’الذین‘‘ (جملہ ۶مندرجہ بالا والا)ہے۔ [ما] اسم موصول ہے اور فعل ’’یقطعون‘‘ کا مفعول بہ ہونے کی بناء پر منصوب ہے (مبنی ہونے کے باعث اس میں ظاہراً کوئی علامتِ نصب نہیں ہے) [امَر] فعل ماضی معروف (واحد مذکر غائب)ہے اور [اللہ] اس کا فاعل (لھذا مرفوع) ہے۔ جس میں علامتِ رفع اسمِ جلالت کی آخری ’’ہ‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ) ہے۔ [بہ] جار مجرور متعلق فعل (امَر)ہیں۔ اس (بہ) کی آخری مجرور ضمیر (ہ) دراصل ’’مَا‘‘ کی ضمیر عائد ہے۔ فعل (امَر) کا مفعول بہ (مامور۔جس کو حکم دیا گیا) محذوف ہے اور ’’بہ‘‘ کی ابتدائی ’’بِ‘‘ دراصل ’’مامور بہٖ‘‘کی ابتدائی ’’باء‘‘(یا صلہ فعل)ہے۔ [دیکھئے اس کی لغوی بحث مندرجہ بالا۱:۱۹:۲(۶)]۔ [اَنْ یوصلَ] میں ’’اَن‘‘ تو مصدر یہ ہے اور ناصبہ بھی ہے جس کی وجہ سے فعل مضارع ’’یوصلَ‘‘منصوب ہے۔ اور یہ فعل [یوصل] فعل مجہول ہے جس میں ضمیر نائب فاعل ’’ھو‘‘ مستتر ہے۔ اس طرح ’’اَنْ یُوصلَ‘‘ مصدر مؤوَّل ہو کر مامور بہٖ کا کام دے رہا ہے۔ اور یہ ’’بہٖ‘‘ کی ضمیر مجرور کا بدل ہے۔ گویا یوں کہا گیا ہے۔ ’’ما امر اللہ بِوصلہ‘‘اور یہی وجہ ہے کہ اکثر اردو مترجمین نے ’’ان یوصل‘‘ کا مصدری ترجمہ ہی کیا ہے یعنی (اللہ نے حکم دیا)ملانے کا‘‘، ’’جوڑنے کا‘‘، ’’جوڑے رکھنے کا‘‘، ’’وابستہ رکھنے کا‘‘ ـــ اگرچہ بعض نے ’’ان یوصل‘‘ کا لفظی ترجمہ ’’کہ ملایا جائے ‘‘ بھی کیا ہے ـــ ہر صورت میں یہ (ان یوصل)’’اَمَر اللہ‘‘ کا مامور بہٖ ہے۔ اگرچہ یہاں ’’مامور‘‘غیر مذکور (محذوف)ہے مگر وہ سیاقِ عبارت سے ’’الناسَ‘‘یا’’العباد‘‘ یا ’’ھُم‘‘سمجھا جاتا ہے۔ یہ اعرابی جملہ (و یقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل) ابتدائی ’’وَ‘‘ کے ذریعے اپنے سے سابقہ جملے (ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ) کا ہی ایک جزء (بلحاظ مضمون) بنتا ہے اور یہ بھی ’’الذین‘‘ (جو نمبر۶ کے شروع میں ہے) کے صلے میں داخل ہے اور ایک طرح سے یہ سب ایک ہی مبتدأ کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں جس کی خبر آگے (بعد میں) آرہی ہے۔

(۸) وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ 

یہ جملہ بھی [وَ] عاطفہ کے ذریعے اپنے سے ماقبل جملہ پر عطف ہوتا ہے۔ [یفسدون] فعل مضارع معروف (جمع مذکر غائب)ہے۔ جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے اور اس کا مرجع بھی ’’الذین‘‘ہی ہے [یعنی الذین ینقضون … وَ یقطعون…و یُفسدون[….۔

]فی الارض] جارّ (فِی) اور مجرور (الارض) مل کر فعل ’’یفسدون‘‘ سے متعلق ہیں یعنی ’’فساد پھیلاتے ہیں‘‘ کہاں؟ ’’زمین میں‘‘ ـــ اس طرح یہ جملہ بھی آیت کے ابتدائی ’’الذین‘‘ کے صلہ میں داخل ہے۔

(۹)  اُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ

          [اولئکَ] اسم اشارہ برائے بعید (مذکر غائب)یہاں مبتدأبن کر محل رفع میں ہے اور یہ رفع نصب جر۔ تینوں حالتوں میں آخری ’’کَ‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)پر مبنی ہے۔ [ھم] ضمیر فصل ہے اور [الخسرون] ’’اولئک‘‘ کی خبر مرفوع ہے۔ یا یوں کہئے کہ ’’ھم‘‘مبتدأ ہے اور ’’الخسرون‘‘اس کی خبر معرفہ ہے۔ اور یہ پورا جملہ اسمیہ (ھم الخاسرون)’’اولئک‘‘کی خبر ہے۔ اس طرح اس جملہ (ھم الخاسرون) کو محلاً مرفوع سمجھا جائے گا ـــ اور یہ پورا جملہ (اولئک ھم الخاسرون) دراصل آیت ۲۷ کی ابتداء والے اسم موصول ’’الذین‘‘ اور اس کے صلہ کے طور پر آنے والے تینوں جملوں (الذین ینقضون (۱)… و یقطعون (۲)… و یفسدون(۳)… فی الارض)کی خبر بنتا ہے یعنی جو لوگ ایسے ہیں… اور ایسے ہیں… اور ایسے ہیں وہی ’’خاسرون‘‘ ہیں۔

 

۳:۱۹:۲      الرسم

          زیر مطالعہ دو آیات کے بیشتر کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے۔

          صرف تین کلمات: ’’یستحی، الفسقین  اور ، الخسرون‘‘ کا رسم عثمانی عام املاء (معتاد) سے مختلف ہے۔ ایک لفظ ’’میثاقہ‘‘ کا رسم مختلف فیہ ہے اور دو الفاظ ’’بھذا‘‘ اور ’’اولئک‘‘ کا رسم املائی بھی  رسم عثمانی کے مطابق ہے اور رسم املائی پر رسم عثمانی کے اثرات کا ایک مظہر ہے۔ ہم یہاں ان تمام کلمات پر الگ الگ بات کرتے ہیں:

(۱)’’یَسْتَحْی‘‘: اس لفظ کے آخر پر دراصل دو ’’یاء‘‘ہیں۔ اس لیے اس کا رسم املائی ’’یَسْتَحْیِیْ‘‘ مگر اس کا رسم عثمانی صرف ایک ’’یاء‘‘ کے ساتھ (’’یستحی‘‘) ہے اگرچہ پڑھا  تو دو ’’یاء‘‘کے ساتھ ہی جاتا ہے اور پڑھنے کے لئے بذریعہ ضبط محذوف ’’یاء‘‘کو مختلف طریقوں سے ظاہر کیا جاتا ہے جیسا کہ آپ ابھی آگے بحث ’’الضبط‘‘ میں دیکھیں گے۔

·       قرآن کریم میں یہ اور اس کے (بلحاظ املاء) مماثل لفظ پانچ جگہ آئے ہیں، دو جگہ بصورت ’’لایستحی‘‘، دو جگہ ’’یستحی‘‘ (بغیر لا) اور ایک جگہ صیغہ ’’نستحی‘‘ آیا ہے۔ اور ان تمام مقامات پر آخر میں ’’دو یاء‘‘ کی بجائے صرف ’’ایک یاء ‘‘ہی لکھی جاتی ہے ـــ بلکہ علم الرسم کی کتابوں میں یہ دلچسپ بحث بھی مذکور ہوئی ہے کہ ’’یستحی‘‘ لکھنے میں آخر کی دو ’’یا‘‘ (یی)میں سے کون سی حذف ہوئی ہے، پہلی یادوسری؟ اگرچہ اس بحث کا عملاً کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ نتیجہ ایک ہی ہے یعنی لفظ کو دو کی بجائے ایک یاء سے لکھنا ہے۔

 (۲)  الفسقین": اس لفظ کی عام املاء (معتاد) ’’الفاسقین‘‘ہے۔ مگر کتابتِ مصحف میں اسے ہمیشہ رسم عثمانی کے مطابق بحذف الف (بعد الفاء) لکھاجاتا ہے یعنی بصورت ’’الفسقین‘‘ ـــ

قرآن کریم میں یہ لفظ بصورت جمع مذکر سالم (مرفوع، منصوب، مجرور اور معرفہ یا نکرہ) مختلف صورتوں میں ۳۵ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ اس کا رسم عثمانی بحذف الف (بعد الفاء)ہے۔

’’(۳) الخسرون‘‘: جس کی عام املاء ’’الخاسرون‘‘ ـــ ہے ۔ مگر قرآن کریم کے اندر رسم مصحف (عثمانی) کی پیروی میں اسے بحذف الف (بعد الخاء)لکھا جاتا ہے۔ یہ لفظ بصورت جمع مذکر سالم (مرفوع ، منصوب، مجرور اور معرفہ یا نکرہ)مختلف طریقوں سے ۳۲ جگہ قرآن کریم میں آیا ہے اور ہر جگہ اس کی املاء بحذف الف( بعد الخاء) ہی ہے۔

          مندرجہ بالا تین کلمات کا  رسم عثمانی متفق علیہ ہے اور ایران ، ترکی یا بعض دیگر مشرقی ممالک کے مصاحف میں جو ان کلمات کو  رسم املائی کی طرح لکھنے کا رواج ہوگیا ہے یہ رسم عثمانی کی مخالفت ہے اور سخت غلطی ہے۔

(۴)"میثاقہ‘‘ اس میں لفظ ’’میثاق‘‘ کی عام املاء (معتاد)با ثباتِ الف (بعد الثاء)ہے۔ الدانی اور شاطبی نے اس کے محذوف الالف ہونے کی کہیں تصریح نہیں کی بلکہ ’’الدانی‘‘ نے اس لفظ کے وزن (مِفْعال)کو ان سات اوزان میں گِنوایا ہے جو قرآن کریم میں ہر جگہ باثبات الف ہی لکھے جاتے ہیں۔ [7] یہی وجہ ہے کہ لیبیا کے ’’مصحف الجماھیریہ‘‘ میں اسے باثباتِ الف (میثاقہ) لکھاگیا ہے۔ برصغیر کے بعض مہتم بالشان ایڈیشنوں میں بھی اسے باثبات الف ہی لکھاگیا ہے۔ تاہم بیشتر عرب اور افریقی ملکوں میں ابوداؤد(سلیمان بن نجاح) کی تصریح کی بناء پر اسے بحذف الف لکھاجاتا ہے۔ یعنی بصورت ’’میثقہ‘‘ مصری، سعودی مصاحف اور برصغیر کے تجویدی قرآن میں یہ آپ کو اسی طرح (بحذف الف) لکھا ملے گا ـــ

          بہر حال اس کا رسمِ عثمانی متفق علیہ نہیں ہے۔

 (۵) دو کلمات ’’ھذا‘‘ اور ’’اولئک‘‘کا رسم عثمانی اور رسمِ املائی یکساں ہے۔ رسم املائی عام طور پر قیاسی ہے اور اس لحاظ سے ان دو الفاظ کا اِملاء ’ ’ ھاذا‘‘اور ’’اُلائِک‘‘ہونا چاہئے تھا مگر ان کا عثمانی رسم الخط ہی رسم ِاملائی میں بھی اختیار کرلیا گیا ہے۔ گویا ان کی املاء رسمِ عثمانی ہی کی یادگار ہے۔

 

۴:۱۹:۲     الضبط

          زیر مطالعہ آیات کے کلمات کے ضبط میں دو چیزیں خصوصاً قابلِ ذکر ہیں:

 (۱)’’یستحْی‘‘ کی آخری ’’ی‘‘ دراصل دو "یاء" تھیں لکھنے میں ایک ’’یاء‘‘ حذف کر دی جاتی ہے مگر پڑھی دونوں جاتی ہیں یعنی ’’یِییْ‘‘ کی طرح۔ برصغیر (اور ایران و ترکی میں بھی) اسے درست پڑھنے کے لیے آخری ’’ی‘‘کے نیچے ایک کھڑی زیر یعنی علامتِ اشباع (ـــــٖــــ) ڈالی جاتی ہے بصورت ’’یستحْیٖ‘‘۔عرب اور افریقی ملکوں میں اس آخری ’’ی‘‘کے نیچے ایک کسرہ (ـــــِــــ) ڈالتے ہیں اور پھر ’’ی‘‘ کے اوپر ایک باریک سی ’’یاء (ے)‘‘ لکھتے ہیں یعنی ’’یستَحْییِ ے‘‘ کی شکل میں مقصد یہ ہے کہ اسے ’’یِ یْ‘‘ یعنی ’’یِییْ‘‘پڑھنا ہے ـــ

(۲)کلمہ ’’بِہٖ ‘‘ کی آخری ’’ ھ‘‘(#)  کا تلفظ ’’ھِیْی‘‘طرح ہوتا ہے۔ برصغیر کے مصاحف میں یہاں بھی ’’ہ‘‘ کے نیچے کھڑی زیر (ـــــٖــــ) ہی لکھی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے ہمارا عام ناظرہ خواں ’’ہٖ‘‘ کو ’’ھِیْ‘‘کی طرح پڑھتا ہے۔ عرب اور افریقی ملکوں میں ’’بہ‘‘ کی آخری ’’ہ‘‘کے نیچے ایک کسرہ (ــــــِــــ) ڈال کر اوپر یا سامنے ایک باریک سی ’’یاء‘‘(ے) لکھ دیتے ہیں۔ ’’بِہِ ے‘‘ کی شکل میں مقصد یہ ہے کہ اسے ’’ہِ یْ، یعنی ‘‘’’ھِیْ‘‘کی طرح پڑھنا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ایرانی مصاحف میں اسے صرف ’’بِہِ‘‘ لکھاجاتا ہے، نہ تو برصغیر کی طرح کھڑی زیر (ــــــٖــــ)ڈالتے ہیں (حالانکہ وہاں کھڑی زیر بعض دوسرے الفاظ میں استعمال ہوتی ہے) اور نہ ہی عرب ملکوں کی طرح ’’ہ‘‘ کے اوپر ’’یاء‘‘ لکھتے ہیں معلوم نہیں وہ لوگ اس ’’ہِ‘‘ کو ’’ہٖ‘‘ یا ’’ھِیْ‘‘ کا تلفظ کس طرح کرتے ہیں ـــ

ان آیات کے تمام کلمات میں ضبط کے اختلاف کو درج ذیل نمونوں سے سمجھا جا سکتا ہے:

25a

 

 

25b



[1]   بعض علماء نحو نے اسے اسم (ضمیر) بھی شمار کیا ہے جو ’’انا (متکلم) اور انتَ، انتِ انتما، انتم، انتن (مخاطب کی ضمیروں) کے شروع میں آتا ہے اور ’’اَنا‘‘ کو ’’اَنَ‘‘ پڑھنے کی وجہ یہی ہے۔ اور ’’اَنْ‘‘ بمعنی ’’میں‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور مخاطب کی  ضمیروں میں ’’ت‘‘ کی مختلف شکلیں حرفِ خطاب کی طرح ہیں ۔ جیسے ذلک میں کاف بدلتا رہتا ہے۔ بہرحال یہ خالص فنی بحث ہے جس کا عملی استعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

[2]  ’’ مَا‘‘ کے بعض استعمالات پر البقرہ:۳ یعنی ۱:۲:۲(۵)میں بات ہوئی تھی۔ یہ مَا (ابھامیہ) وہاں مذکور نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اس کی وضاحت یہاں کی گئی ہے۔

 

[3]   اعراب القرآن (للنحاس) ج۱ ص۲۰

 

  [4]الجامع الصغیر ج۳ ص۱۱۹ بحوالہ مسلم عن عائشہؓ

 

  [5] اعراب القرآن (للنحاس) ج۱ ص۲۰۴ نیز التبیان (للعکبری) ج۱ ص۴۳۔ ۴۴۔

 

          [6]   المفردات (للراغب) مادہ ’’وثق‘‘

 

[7]     دیکھئے نثر المرجان (ارکائی) ج۱ ص۱۲۳، نیز سمیر الطالبین ص۳۹