سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲۸ اور ۲۹

۲۰:۲    كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ   ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۸)  ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا    ۤ  ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ    ۭ  وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ(۲۹)

۱:۲۰:۲       اللغۃ

۱:۲۰:۲(۱)     [کَیْفَ]یہ اسماءِ استفہام میں سے ایک اسم ہے جس کا اردو ترجمہ ’’کیسے؟، کیسا؟، کیوں کر؟، کس طرح؟‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اس کا مادہ ’’ک ی ف‘‘ اور وزن ’’فَعْلَ‘‘ہے (یعنی اس کے آخر پر تنوین نہیں آتی بلکہ یہ ہمیشہ فتحہ(ــــَــــ) پر مبنی ہوتا ہے) ۔عربی زبان میں اس مادہ سے ایک فعل ثلاثی مجرد ’’کاف…یکِیْفُ کیفًا‘‘(باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’…کو کاٹ دینا‘‘ ہوتے ہیں اور مزید فیہ کے ایک دو ابواب سے بھی فعل آتے ہیں۔ اور اس مادہ سے بعض جدید فنی اصطلاحات کے لیے بھی فعل بنالیے گئے ہیں۔ مثلاً ’’کَیَّفَ اور تکیَّفَ‘‘ بمعنی ء ’’ائرکنڈیشن کرنا اورہونا‘‘ اسی مادہ سے ماخوذ لفظ ’’کیفیت‘‘ اردو میں مستعمل ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل استعمال نہیں ہوا۔

·       بعض دوسرے اسماءِ استفہام کی طرح ’’کیفَ‘‘ کے استعمال کے بارے میں چند باتیں قابل ذکر ہیں۔

(۱) یہ لفظ عموماً تو استفہام (کچھ دریافت کرنا) کے لیے آتا ہے اور بطور استفہام بھی کبھی تو صرف ’’حال دریافت کرنے‘‘ کے لیے آتا ہے۔ جیسے ’’کیفَ انت؟‘‘ (تیرا کیا حال ہے) اس صورت میں اسے استفہامِ حقیقی کہتے ہیں۔ اور کبھی یہ لفظ اظہار ِتعجب کے لیے آتا ہے۔ جیسے اسی زیر مطالعہ آیت میں ہے (گویا یہ ’’کتنی عجیب بات ہے کہ‘‘کے معنی میں ہے) اور کبھی یہ (کیفَ) دراصل نفی یا انکار کے لیے آتا ہے جیسے ’’ كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ ‘‘ (التوبۃ:۷) میں (بمعنی کیوں کر : یعنی ’’نہیں‘‘) ہے اور کبھی یہ (اسم استفہام) دراصل تو بیخ یعنی جھڑک دینے کے لیے آتا ہے جیسے ’’ اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَال ‘‘ (الفرقان:۹) میں ہے۔

           (۲)کبھی یہ (کیف) اسم شرط کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہےمگر شرط اور جوابِ شرط کا فعل لفظ اور معنی کے لحاظ سے ایک ہی ہوتا ہے اور اس میں کوئی فعل مجزوم نہیں ہوتا۔ اس صورت میں اس کا ترجمہ ’’جیسا … ویسا‘‘ کی طرح کیا جاتا ہے مثلاً ’’کیفَ  تصنَعُ اصنَعُ‘‘ (تو جیسا کرے گا میں ویسا ہی کروں گا)۔ اس میں دو مختلف فعل استعمال نہیں ہوسکتے مثلا ’’کیفَ تکتبُ اقرءُ‘‘کہنا بالکل غلط ہے۔ اگر ’’کیف‘‘ کے ساتھ ’’مَا‘‘ بھی لگا ہو یعنی ’’کیفما‘‘ استعمال کریں تو پھر یہ ایسے اسم شرط کا کام دیتا ہے جس میں شرط اور جوابِ شرط کے فعل مجزوم ہوں گے۔ مثلاً ’’کیفما تصنعْ اصنعْ‘‘ قرآن کریم میں ’’کیفما‘‘ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ ’’کیفَ‘‘ بھی اسم شرط کے طور پر کہیں نہیں آیا۔

·       یہ وضاحت تو ’’کَیفَ‘‘کے لغوی معنی (حسبِ موقع) کے لحاظ سے ہے۔ بلحاظِ اعراب ’’کیفَ‘‘ کبھی خبر کے طور پرآتا ہے، کبھی حال کے طور پر اور کبھی مفعول (ثانی یا مطلق) کے طور پر آتا ہے۔ اس کا بیان ابھی آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ لفظ ’’کیفَ‘‘ قرآن کریم میں ۸۳ جگہ وارد ہوا ہے اور مذکورہ بالا تمام معانی (استفہام، تعجب، انکار اور توبیخ) کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ہر جگہ اس کے معنی کا تعیّن سیاق و سباقِ عبارت سے ہوسکتا ہے۔

          [تَکْفُرُوْنَ] کا مادہ ’’ک ف ر‘‘اور وزن’’تَفْعُلُوْنَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے معنی و استعمال پر البقرہ:۶ میں بات ہوچکی ہےدیکھئے ۱:۵:۲(۱) یہاں بھی یہ اسی فعل مجرد (کفَریکفُر) سے فعل مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ جس کا ترجمہ ’’تم کفر کرتے ہو، کفر کر سکتے ہو، کافر ہوتے ہو، انکار کرسکتے ہو، منکر ہوسکتے ہو، منکر ہوگے، ناسپاسی (ناشکری)کرتے ہو، نہیں مانتے ہو‘‘سے کیا گیا ہے گویا ’’کفر‘‘کے معنی ’’انکار‘‘، ناشکری اور نہ ماننا بھی ہیں۔ یہ صیغہ فعل (تکفرون) مختلف صورتوں (مرفوع، منصوب، مجزوم) میں قرآن کریم کے اندر ۱۹ جگہ استعمال ہوا ہے۔

           [بِاللہ] فعل ’’کفر‘‘ کے باء(بِ) کے صلہ کے ساتھ استعمال اور اس کے معنی پر ۱:۵:۲(۱)میں بات ہوچکی ہے۔ اس لیے یہاں ’’بِ‘‘ کی وجہ سے (کفر)’’باللہ‘‘ کا (مصدری) ترجمہ ’’اللہ سے کفر کرنا، …کا منکر ہونا، …کی نا سپاسی کرنا، …کو نہ ماننا، …کا انکارکرنا‘‘ کے ساتھ ہوگا۔ یعنی اوپر ’’تکفرون‘‘ صیغہ مضارع کے جو معنی مذکور ہوئے ہیں ان سے پہلے اسمِ جلالت ’’(اللہ)سے، کا، کی ، کو‘‘ لگا دینے سے ’’تکفرون باللہ‘‘ کا مکمل ترجمہ سامنے آجاتا ہے۔

           [وَ] ’’وَ‘‘ کے مختلف معنی پر ۱:۴:۱(۳)پہلے بات ہوچکی ہے۔ یہاں (زیر مطالعہ آیت میں)’’واو‘‘ کو حالیہ سمجھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’درانحالیکہ، حالانکہ ، تمہارا حال یہ ہے کہ اور جس حال میں کہ‘‘سے کیا گیا ہے۔ بعض نے ’’اَوْر‘‘ سے بھی ترجمہ کر دیا ہے (جو اردو میں حالیہ اور مستانفہ واو کے لیے مستعمل ہے) ان سب میں سے سلیس اور بامحاورہ ترجمہ غالباً ’’حالانکہ‘‘ ہے۔ ’’درانحالیکہ‘‘ میں فارسیّت زیادہ ہے اور باقی تراجم میں قدیم زبان یا محض لفظی ترجمہ کا عنصر زیادہ ہے۔

           [کُنْتُمْ] کا مادہ ’’ک و ن‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْتُمْ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے معنی و استعمال اور خود اسی صیغہ ’’کُنْتُمْ‘‘ کی بناوٹ، اس کی تعلیل اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۲۳ یعنی ۱:۱۷:۲(۱)کے ساتھ بات ہوچکی ہے۔ اسی لیے ’’کنتم‘‘ کا ترجمہ ’’تم تھے‘‘سے کیا جاتا ہے اور یہاں یہ بطور فعل ناقص استعمال ہوا ہے۔

۱:۲۰:۲(۲)     [اَمْوَاتًا] کا مادہ ’’م و ت‘‘ اور وزن (یہاں) ’’اَفْعَالًا‘‘ہے۔ (جو ’’امواتٌ‘‘ بروزن ’’افعالٌ‘‘ کی منصوب شکل ہے۔ لفظ ’’اَمْوَات‘‘ جمع مکسر کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد ’’مَیْتٌ‘‘ اور ’’مَیِّتٌ‘‘ ہے جن کی جمع مکسر ’’اموات‘‘ کے علاوہ ’’مَوْتٰی‘‘ بھی آتی ہے۔ اور اس کی جمع مذکر سالم (صرف عاقل مخلوق کے لیے) ’’مَیِّتُوْنَ‘‘ اور ’’مَیْتُوْنَ‘‘ بھی آتی ہے۔ البتہ موخر ءالذکرجمع (مَیْتُون) قرآن کریم میں مستعمل نہیں ہوئیــــباقی تینوں صورتیں (اموات، مَوتٰی اور مَیِّتون)استعمال ہوئی ہیں۔

·       اس مادہ (م و ت) سے فعل ثلاثی مجرد ’’مَات یَمُوت (دراصل مَوَتَ یَمُوْتُ)مَوْتًا‘‘زیاد تر باب"نصر"سے آتا ہے۔اور کبھی "مات یماتُ(دراصل مَوِتَ یَمْوَتُ)مَوتًا"(باب سَمِع سے)بھی آتا ہے۔ اور یہ اجوف یائی کے طور پر (م ی ت) مادہ سے بھی ’’ماتَ یَمیْتُ مَیْتًا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ سب (ابواب) سے اس فعل کے بنیادی معنی ’’مرنا، مرجانا، روح کا جسم سے جدا ہونا یا ہوجانا‘‘ ہیں۔ پھر اس کے فاعل کے طور پر ذکر ہونے والی چیز (مثلاً: الطریق یا النار یاالارضُ وغیرہ) کے مطابق اس فعل میں متعدد مجازی اور محاوراتی معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اس فعل (مَاتَ) کا استعمال انسان، حیوان، نباتات سب پر ہوتا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے افعال کے مختلف صیغے  ۳۹ جگہ آئے ہیں، جن میں سے ۹ جگہ تو صیغہ فعل ماضی کا ہے جسے مندرجہ بالا تین ابواب میں سے کِسی سے متعلق قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۲۱ جگہ ایسے صیغے آئے ہیں جو باب نصر سے ہی ہوسکتے ہیں اور باقی ۹ جگہوں پر ایسے صیغے بھی آئے ہیں جن کو باب’’سَمِعَ یا ضرب‘‘ (دونوں) سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مادہ (موت)سے مزید فیہ کے بابِ افعال کے مختلف صیغے بھی ۲۱ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

·       کلمہ ’’اموات‘‘ جو قرآن کریم میں کل ۶ جگہ استعمال ہوا ہے، کا واحد (میّت یا مَیْتٌ) اسم الفاعل (مائت: مرجانے والا) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کا ترجمہ ’’مردہ، بے جان، بے روح‘‘کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ لفظ حقیقی اور مجازی دونوں معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی عبارت میں ان کے معنی ِٔ مراد کا تعیّن اصولِ تفسیر کی مدد سے یا مستند تفسیر کے حوالے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ویسے اس بارے میں ’’اصول‘‘یہ ہے کہ کسی بھی عبارت میں بنیادی طور پر کسی لفظ کے "حقیقی" معنی ہی ہوں گے اِلاَّ یہ کہ کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جو مجاز یا استعارہ والے معنی مراد لینا ضروری قرار دے۔ اور اس ’’ قرینہ‘‘کے تعیّن کے لیے کسی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

۱:۲۰:۲(۳)     [فَاَحْیَاکُمْ]اس کی ابتدائی ’’فاء‘‘ (فَ) تو عاطفہ بمعنی ’’پس ‘‘ یا ’’پھر‘‘ہے۔ آخری ضمیر منصوب (کُم)کے معنی یہاں ’’تم کو یا تمہیں‘‘ہیں۔ اور اس ’’فَ‘‘ اور ’’کُمْ‘‘کے درمیان فعل ’’اَحْیَا‘‘ہے۔ جس کا مادہ ’’ح ی ی‘‘اور وزن اصلی ’’اَفْعَلَ‘‘ ہے۔ اس کی اصل شکل ’’اَحْیَیَ‘‘ تھی جس میں آخری متحرک ’’یاء‘‘ ماقبل مفتوح ہونے کے باعث ’’الف‘‘ میں بدل دی جاتی ہے۔ اصولی طور پر اس لفظ کی املاء ’’اَحْیٰی‘‘(الف مقصورہ کے ساتھ)ہونی چاہئے۔ مگر یہ لفظ خلافِ قیاس ’’احیا‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ اس مادہ (ح ی ی)سے فعل مجرد کے استعمال اور معنی پر البقرہ:۲۶ یعنی ۱:۱۹:۲(۱)میں بات ہوچکی ہے۔

·       ’’اَحْیَا‘‘اس مادہ (حیی)سے بابِ افعال کا فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَحْیَا …یُحْیِیْ (دراصل اَحْیَیَ یُحْیِیُ)اِحْیاءً ‘‘ کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو جلانا، …کو جاندار کرنا، …میں جان ڈالنا، …کو جان بخشنا، …کو زندگی دینا یا زندہ کرنا‘‘ یعنی یہ فعل ہمیشہ متعدی اور مفعول بنفسہٖ کے ساتھ آتا ہے (بغیر صلہ کے)ــــ اور اس کے فاعل اور مفعول کے طور پر مختلف اشیاء کے ذکر سے اس میں بھی مختلف محاوراتی معنی پیدا ہوتے ہیں (مثلاً احیا اللّیلَ=اس نے رات بھر عبادت کی) اس طرح ’’فَاَحْیَاکم‘‘کا ترجمہ ’’پھر اس نے تم کو جِلایا، زندگی دی، جان بخشی‘‘ وغیرہ (مندرجہ بالا مصدری معنی کے ساتھ)کیا جاسکتا ہے۔

          یہ کلمہ (اَحْیَا) اور اس کے باب (افعال) سے مختلف صیغے قرآن کریم میں پچاس جگہ وارد ہوئے ہیں۔

۱:۲۰:۲(۴)     [ثُمّ] کا مادہ ’’ث م م‘‘ اور وزن ’’فُعْلَ‘‘ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے کوئی فعل نہیں آیا۔ بلکہ صرف ایک دو حرف ہی آئے ہیں جن میں سے ایک یہ ’’ثم‘‘ہے جو عرف عطف ہے اور بلحاظ (۱)معنی کسی کام یا حکم میں ’’ترتیب مع تراخی‘‘ (یعنی نمبر وار  ایک دوسرے کا اور کچھ وقفہ سے واقع ہونے) کا مفہوم دیتا ہے۔ اردو میں اس کاترجمہ حسب موقع ’’پس، پھر، سو، اس کے بعد، دوبارہ، مزید برآں‘‘ کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ بعض (۲)دفعہ اس سے ترتیب زمانی مراد نہیں بھی ہوتی، بلکہ صرف تاکید اور زور دینے یا استیناف کے لیے آتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر ’’پھر یہ بات بھی تو قابلِ ذکر ہے کہ ــــــ‘‘ کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ اگرچہ اردو میں عموماً اس قسم کے ’’ثُمَّ‘‘ کا ترجمہ بھی ’’پس یا پھر‘‘ سے کردیتے ہیں۔ (اس کی ایک مثال الانعام۱۵۴ میں ہے) کبھی (۳)یہ ’’باربار‘‘ بلکہ بطور محاورہ ’’سوبار، ہزار بار‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ جیسے ’’کَلَّاثم کلاَّ…‘‘ (ہرگز نہیں…سو بار ہرگز نہیں…) قرآن کریم میں ’’ثُمَّ‘‘کے یہ تمام استعمالات آئے ہیں۔ آیتِ زیر مطالعہ میں ’’ثُمَّ‘‘ ترتیب مع تراخی یعنی ’’پھر اس کے(کچھ عرصہ)بعد‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔

۱:۲۰:۲(۵)     [یُمِیْتُکُمْ]کی آخری ضمیر منصوب (کُمْ)تو یہاں’’تم کو یا تمہیں‘‘کے معنی میں ہے اور فعل ’’یُمِیْتُ‘‘ کا مادہ ’’م و ت‘‘ اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُ‘‘ ہے جس کی اصلی شکل ’’یُمْوِتُ‘‘تھی ۔ پھر حسب قاعدہ تعلیل (یا عربوں کے استعمال کے مطابق) متحرک حرفِ علت (وِ) کی حرکتِ کسرہ(ــــــِــــ) اس کے ماقبل حرفِ صحیح (م)کو دے کر خود اس واو (و) کو اپنی ماقبل (نئی) حرکت (کسرہ) کے موافق حرف (ی) میں بدل دیا جاتا ہے۔ یعنی یُمْوِتُ=یُمِوْتُ=یُمِیْتُ ہوجاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کے بارے میں ابھی اوپر ’’امواتا‘‘کے تحت ۱:۲۰:۲(۲)بات ہوچکی ہے۔

·       لفظ ’’یُمِیْتُ‘‘اس مادہ ( م و ت)سے بابِ افعال کا فعل مضارع واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَمَاتیُمِیْتُ اِمَاتَۃً‘‘(دراصل اَمْوَتَ یُمْوِتُ اِمْواتًا) کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو مردہ کرنا، …کو مار دینا‘ … کو موت دینا‘‘ پھر فاعل یا مفعول کے طور پر مختلف چیزوں کے ذکر سے اس میں بھی کئی محاوراتی معنی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلا اَمَات فلانٌ غَضَبَہٗ (فلاں نے اپنا غصہ ٹھنڈا کرلیا۔ اس پر قابو پالیا)

اس طرح ’’یُمِیْتُکُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’وہ تم کو مردہ کرے گا، وہ تم کو ماردیتا ہے، موت دے گا، مارتا ہے، کی صورت میں کیا جاسکتا ہے (فعل مضارع، حال اورمستقبل دونوں کا کام دیتا ہے) قرآن کریم میں باب افعال کے اس فعل (اَمات) سے مختلف صیغے ۲۱ جگہ آئے ہیں۔ جس طرح لفظ حیات (زندگی) حقیقی اور مجازی متعدد معنی ہیں اسی طرح لفظ ’’موت‘‘ بھی متعدد حقیقی اور مجازی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔[1]

[ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ] ’’ثُمَّ‘‘ (پھر ، پس) اور ’’کُمْ‘‘ (ضمیر) کے معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ ان کے درمیانی فعل ’’یُحْیِیْ‘‘ ہے (جس کی آخری یاء (ی) ’’کُمْ‘‘ کے ساتھ ملا کر لکھی جاتی ہے) اس (یُحْیِیْ) کا مادہ ’’ح ی ی ‘‘ اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’ یُحْیِیُ‘‘ تھی جس میں ماقبل مکسور (ـــــِــــ) ہونے کے باعث آخری ’’یاء‘‘ لکھنے اور بولنے میں ساکن کردی جاتی ہے۔ اس کی عام عربی املاء ’’ یُحْیِیْ‘‘ ہے۔ قرآنی املاء کا ذکرآگے بحث ’’الرسم‘‘ میں آئے گا۔ اس مادہ (ح ی ی) سے فعل مجرد پر ابھی اوپر ’’احیاکم‘‘(۱:۲۰:۲(۳) میں بات ہوچکی ہے۔

          زیر ِمطالعہ کلمہ ’’ یُحْیِیْ‘‘ اپنے مادہ سے بابِ اِفعال کا فعل مضارع صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ باب افعال کے اس فعل (احیٰی یُحیی) پر بھی ابھی اوپر ۱:۲۰:۲(۳)میں بات ہوئی ہے۔ اس طرح ’’ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ‘‘ کا ترجمہ، پھر وہ تم کو زندہ کردے گا،جِلائے گا‘‘ ہے۔

          [ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ]اس کی سیدھی سادی نثر تو ’’ ثُمَّ تُرْجَعُوْنَ اِلَیْہِ‘‘ہے۔ پھر ’’فاصلہ‘‘(شعر کے آخری لفظ کو قافیہ اور قرآنی عبارت میں خاتمہ آیت کو ’’فاصلہ‘‘کہتے ہیں) کی رعایت سے ’’ تُرْجَعُوْن‘‘ کو آخر پر لایا گیا ہے۔ ’’ثُمَّ‘‘کا ترجمہ ’’پھر،پس، اس کے بعد، دوبارہ ہوسکتا ہے اور ’’الیہ‘‘ میں ’’اِلی‘‘جارہّ بمعنی ’’کی طرف اور ’’ہ‘‘ ضمیر مجرور بمعنی ’’اس‘‘ہے۔ یوں اِلَیْہِ=اس کی طرف اس کی جانب یا اس کے پاســــــ‘‘ہے۔

’’ تُرْجَعُوْنَ ‘‘ کا مادہ ’’ر ج ع‘‘ اور وزن ’’تُفْعَلُوْنَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (رجَع یرجِع) کے معنی (لَوٹنا، لَوٹانا)اور اس کے لازم اور متعدی استعمال پر اس سے پہلے البقرہ:۱۸ یعنی ۱:۱۳:۲(۱۵)میں گزر چکی ہے۔

·       آیت زیرِ مطالعہ میں کلمہ ’’ تُرْجَعُوْن‘‘ فعل رجَع یرجِع مَرْجِعًا کے بطور فعل متعدی بمعنی ’’لَوٹانا، واپس بھیجنا، پھیر دینا‘‘ سے فعل مضارع مجہول کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ اکثر نے ’’تم پھیرے جاؤ گے، لوٹائے جاؤ گے، واپس کئے یا لے جائے جاؤگے‘‘سے یعنی فعل مجہول کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’پلٹ کر جاؤ گے‘‘اور بعض نے ’’تم کو(اس کے پاس)جانا ہے‘‘سے ترجمہ کیا ہے جو مفہوم کے لحاظ سے درست ہے مگر اصل الفاظ (متن) سے ذرا ہٹ کر ہے۔ کیونکہ ایک (پہلے) میں ترجمہ فعل لازم کی طرح کیا گیا ہے اور دوسرے میں ترجمہ ’’مصدر ‘‘ کے ساتھ کیاگیا ہے۔ اور مضارع کو مصدر بنانے کے لیے کوئی ’’عامل (مَا یا اَن وغیرہ) درکار ہوتا ہے جو یہاں نہیں ہے۔

          [ھُوَ الَّذِیْ]’’ھُوَ‘‘ ضمیر مرفوع منفصل (برائے واحد مذکر غائب ہے جس کا ترجمہ ’’وُہ‘‘ہے اور ’’الذی‘‘ اسم موصول برائے واحد مذکر بمعنی ’’جس نے‘‘ہے۔ اس طرح ’’ھو الذی‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’وہ جس نے کہ‘‘ــــــ مگر ھُوَ اور "الذی "کے اکٹھا ہوجانے کی وجہ سے (کیونکہ ویسے تو یہاں صرف ’’الذی‘‘بھی کام دے سکتا تھا) اب اس ترکیب میں ایک زور پیدا ہوجاتا ہے جس کو اردو میں ’’ہی‘‘ کے استعمال سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس طرح ’’ھو الذی‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’وہی ہے جس نے کہ …‘‘ یا ’’وہی تو ہے جس نے …‘‘ کیا جاتا ہے۔

۱:۲۰:۲(۶)     ]خَلَقَ]  کا مادہ ’’خ ل ق‘‘ اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (خلَق یخلُق) کے بنیادی معنی ’’چمڑے کو کاٹنے سے پہلے صورت شکل ناپ وغیرہ کا اندازہ کرنا‘‘ہیں۔ پھر اس سے اس میں ’’پیداکرنا‘‘ اور ’’بنانا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ عربی زبان میں یہ فعل نصر کے علاوہ بعض دوسرے ابواب (سمع اور کرُم) سے بھی مختلف معنی (مثلاً بوسیدہ ہونا، نرم ہونا)کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے تاہم قرآن کریم میں یہ صرف باب نصر سے اور ’’پیدا کرنا یا بنایا‘‘ والے معنی کے لیے ہی استعمال ہواہے۔ اس مادہ سے فعل (خلق)کے باب، معنی اور استعمال کے لیےمزید دیکھئے ۱:۱۶:۲(۳)۔

[لَکُمْ] جو لام الجر (لِ) بمعنی ’’کے لیے‘‘ اور ’’کُمْ‘‘ بمعنی تمہارا ؍ تمہارے کا مرکب ہے۔ لام الجر کے مختلف معنی و مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے (دیکھئے الفاتحہ:۲ یعنی ۱:۲:۱(۴)بعض اردو مترجمین نے ’’لَکُمْ‘‘ کا وضاحتی ترجمہ صرف ’’تمہارے لیے‘‘ کی بجائے ’’تمہارے فائدے کے لیے ‘‘ کیا ہے۔

[مَا فِی الْاَرْضِ]یہ ’’مَا‘‘ (موصولہ بمعنی ’’جو کچھ کہ،جو کچھ بھی کہ اور سب کچھ جو‘‘ہے) +’’فِیْ‘‘ (حرف الجر بمعنی ’’میں‘‘) +الارض (بمعنی ’’زمین‘‘) کا مرکب ہے۔ [ضرورت ہو تو ’’ما‘‘ کے معانی کے لیے۱:۲:۲(۵)اور۱:۱۹:۲(۲) ۔ ’’فِیْ‘‘ کے لیے ۱:۱:۲(۵) اور ’’الارض‘‘پر بحث کے لیے۱:۹:۲(۴) پر نظر ڈال لیجئے[۔

۱:۲۰:۲(۷)     [جَمِیْعًا] کا مادہ ’’ج م ع‘‘ اور وزن ’’فَعِیْلًا‘‘ (بصورت منصوب ہے ( جس کے یہاں منصوب ہونے کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘میں بیان ہوگی۔)

          اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’جمَع …یجمَع جمعًا‘‘(باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں : …کواکٹھا کرنا (یعنی الگ الگ افراد یا اشیاء یا صفات کو یکجا کرنا) بلکہ لفظ ’’جمع‘‘ اردو میں مستعمل ہے اس لیے اس کا ترجمہ (معنی) ’’…کو جمع کرنا‘‘ بھی کرسکتے ہیں۔ پھر یہ فعل حِسی اور معنوی دونوں قسم کی چیزیں اکٹھی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلا  جَمَعَ مَالًا  (اَلْھُمَزہ:۲) ’’اس نے مال اکٹھا کیا‘‘ اور فَـجَمَعَ كَيْدَه (طہ:۶۰) ’’اس نے اپنا مکر (ساری تدابیر کو) جمع کیا‘‘ یہ متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ بغیر کسی صلہ کے، فعل کے ساتھ ہی) آتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ مفعول محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً وَجَمَعَ فَاَوْع (المعارج:۱۸) یعنی ’’مال اکٹھا کیا‘‘ اور  اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ (آل عمران:۱۷۳‘‘ یعنی ’’فوج‘‘ اکٹھی کرلی ہے‘‘اس فعل کے فاعل کو ’’جامع‘‘ اور مفعول کو مجموع اور جمیع بھی کہتے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (جمیع) کا وزن فعیل ہے جو اسم فاعل اور اسم مفعولــــ دونوں کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ (جیسے رحیم، بمعنی راحم اور قتیل بمعنی مقتول ہے) اس طرح ’’جمیع‘‘ کے معنی حسب موقع ’’جامع‘‘ یا’’مجموع‘‘ ہوسکتے ہیں یعنی اشیاء یا صفات وغیرہ کو ’’اکٹھا کرنے والا‘‘ یا جس میں کچھ اشیاء یا صفات وغیرہ جمع کردی گئی ہوں مثلاً ’’قوم جمیع‘‘ (سب کے سب لوگ) اور ’’رجلٌ جمیع‘‘ (بھر پور جوان آدمی)

          ’’جمیع‘‘ بلحاظ معنی ’’متفرق‘‘ (الگ الگ)کی ضد ہے یعنی اس لفظ میں ’’سب کے سب، سارے، سب کچھ، پورے کا پورا، ایک ساتھ‘‘کا مفہوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ان ہی لفظوں میں سے کِسی ایک کے ساتھ کیا ہے۔ اور اسی مفہوم کے لحاظ سے یہ (جمیع) توکید (تاکید)کے لیے مقررہ چھ لفظوں میں ے ایک ہے اور ’’کُلٌّ‘‘کے ہم معنی ہے۔ بطورتاکید استعمال ہوتے وقت اس کے ساتھ موُکَّد کے مطابق ایک ضمیر بھی آتی ہے۔ جیسے ’’قرأتُ الکتابَ جمیعَہ یا کُلَّہ‘‘(میں نے ساری ساری کتاب پڑھی)۔

          قرآن کریم میں یہ لفظ (جمیع) کل چار(۴) جگہ آیا ہے  اور ’’جمیعًا‘‘ کی شکل میں ۴۹ جگہ وارد ہوا ہے۔

۱:۲۰:۲(۸)     [ثُمَّ اسْتَوٰی] ’’ثُمَّ‘‘کے معنی و استعمال پر ابھی اوپر ۱:۲۰:۲(۴)میں بات ہوئی ہے۔ اس کا ترجمہ تو یہاں ’’پس یا پھر‘‘ ہی کیا گیا ہے۔ تاہم بلحاظ مفہوم ممکن ہے کہ یہ ترتیب زمانی کے لیے نہ ہو بلکہ صرف تاکید یا استیناف کا ہو۔ فعل ’’استوٰی‘‘ کا مادہ ’’س وو‘‘ اور بقول بعض ’’س و ی‘‘[2]   اور وزنِ اصلی ’’استفعل‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’استَوَیَ‘‘تھی جس میں آخری متحرک ’’یاء‘‘ (ی) ماقبل کے مفتوح ہونے کی بناء پر ’’الف‘‘(مقصورہ) میں بدل جاتی ہے یعنی لکھی ’’ی‘‘ ہی جاتی ہے۔

          اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’سوِیَ یسویَ‘‘ کے باب اور معنی (ٹھیک ٹھاک ہوجانا) وغیرہ پر البقرہ:۶ یعنی ۱:۵:۲(۲)میں بات گزر چکی ہے۔

·       کلمہ ’’استوی‘‘ اس مادہ (سوو؍ سوی)سے باب استفعال کے فعل ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’استوی یستوی استواءً‘‘ کے معنی ہیں ’’ٹھیک ٹھاک ہوجانا، بھر پور جوانی میں ہونا یا پہنچنا، ٹھیک درمیان میں ہونا، تیار ہوجانا، سیدھا کھڑا ہونا‘‘ یہ فعل بنیادی طور پر لازم ہے مگر صلات کے ساتھ بطور متعدی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ہوتے ہیں  ’’…پرقابوپانا، (کرسی یا سواری) پر جم کر بیٹھ جانا‘‘ اور ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ (جیسے یہاں آیتِ زیر مطالعہ میں ہے) یا ’’لِ‘‘ کے ساتھ (قرآن کریم میں ’’لِ‘‘کے ساتھ نہیں آیا) اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’…کا قصد کرنا، … کی طرف چڑھنا، … کی طرف توجہ کرنا‘‘ عموماً یہ فعل (استوی الی…) ایک کام ختم کرکے دوسرے کام کی طرف رخ کرنے یا اسے شروع کرنے کے لیے آتا ہے۔ [3] یہ فعل ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ قرآن کریم میں صرف دو جگہ آیا ہے۔

           [اِلَی السَّمَآءِ] کا ابتدائی ’’اِلٰی‘‘ تو فعل ’’استوی‘‘ کا صلہ ہے جس کے معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اور لفظ ’’السماء‘‘ (بمعنی آسمان) کا مادہ ’’س م و‘‘ اور وزن لام تعریف نکال کر ’’فَعَالٌ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’سما یسمو سُمُوًّا وسَماءً‘‘ (باب نصر) کے بنیاد ی معنی : ’’اونچا ہونا، بلند ہونا، چڑھنا، نکل آنا‘‘ ہیں۔ پھر یہ فعل زیادہ ترمعنوی اور بعض دفعہ حسی اشیاء کی بلندی (ہمت، حسب و نسب، نظر ، ہلال، شوق وغیرہ)کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ’’السماء‘‘ جو ایک طرح سے مذکورہ بالا فعل کا مصدر بھی ہے اور جس کے بطور اسم لفظی معنی ’’بلندی‘‘ ہیں، یہ عام طور پر ’’آسمان‘‘کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بلندی یا اونچائی کو بھی ’’سماء‘‘ کہتے ہیں۔ اور عربی زبان میں بادل اور بارش کو بھی ’’سماء‘‘ کہتے ہیں۔ [دیکھئے البقرہ:۱۹ یعنی ۱:۱۴:۲(۳)میں نیز بحث ’’بسم اللہ‘‘میں] اس طرح ’’ثم استوی الی السما‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’پھر اس نے قصد کیا طرف آسمان کے‘‘ــــاور اسی کو بامحاورہ بناتے ہوئے بیشتر مترجمین نے ’’پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا؍ توجہ فرمائی‘‘سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے ’’آسمان کی طرف چڑھ گیا یا آسمان کو چڑھ گیا‘‘ بھی کیا ہے جو لفظ سے ہٹ کر ہے یا پرانی (متروک) اردو ہے۔

۱:۲۰:۲(۹)     [فَسَوّٰ ھُنَّ] یہ فَ+سَوَّی+ھُنَّ کا مرکّب ہے۔ اس میں ابتدائی ’’فاء‘‘ (ف) تو عاطفہ بمعنی ’’پس‘‘، ’’پھر‘‘ہے اور آخری ضمیر منصوب برائے جمع مونث غائب (ھُنَّ) کا ترجمہ ’’ان کو‘‘ ہے۔

          ان دونوں (فَ اور ھُنَّ)کے درمیان فعل ’’سَوَّی‘‘ہے جس کا مادہ ’’س و و؍س و ی‘‘ اور وزن ’’فَعَّلَ‘‘ہے۔ اصلی شکل ’’سَوَّیَ‘‘ تھی جس میں آخری متحرک ’’یاء‘‘ ماقبل کے مفتوح ہونے کے باعث الف (مقصورہ) میں بدل جاتی ہے یعنی لکھی ’’ی‘‘ جاتی ہے مگر اسے پڑھا ’’الف‘‘ کی طرح جاتا ہے۔

          اس مادہ سے فعل مجرد (سوِی یسوَی) کاذکر ابھی اوپر’’استوی‘‘کے ضمن میں ہوچکا ہے۔

·       ’’سَوَّی‘‘ اس مادہ سے باب تفعیل کا فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’سَوَّی… یُسَوِّیْ تَسْوِیَۃً‘‘ کے معنی ہیں: …کو برابر کردینا، …کو ٹھیک ٹھاک کردینا‘‘ …کی ہر طرح سے تکمیل کردینا، درست کرنا، ہموار کرنا، اور درست کرکے بنانا‘‘اس فعل( سَوَّی یُسَوِّی) کے مختلف صیغے قرآن کریم میں دس سے زیادہ جگہ آئے ہیں۔

۱:۲۰:۲(۱۰)     [سَبْعَ سَمٰوٰتٍ] میں ’’سماوات‘‘ (یہ اس کا رسم معتاد ہے۔ رسم قرآنی پر ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی) تو لفظ ’’سماءً‘‘ (آسمان)کی جمع مونث سالم ہے جس کی اصلی شکل تو ’’سماء ات‘‘تھی مگر جمع میں ’’سماء‘‘ کی اصل ’’واو‘‘ لوٹ آتی ہے (سَمَاءٌ دراصل ’’سَمَاوٌ‘‘ بروزن ’’فَعَالٌ‘‘تھا جو الف ممدودہ کے بعدآنے کی وجہ سے ’’ء‘‘ میں بدل گئی تھی)

          لفظ ’’سماء‘‘ (جو سماوات کا واحد ہے) کے مادہ وغیرہ پر ابھی اوپر بات ہوچکی ہے۔

·       پہلے لفظ ’’سَبْعَ‘‘ مادہ ’’س ب ع‘‘اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ (’’سبعَ‘‘ میں ’’ع‘‘ کی فتحہ کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)عربی زبان میں اس مادہ (سبع) سے فعل مجرد اور مزید فیہ کے متعدد باب مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جن میں ’’سات‘‘ کا لفظ شامل رہتا ہے۔ مثلا کہتے ہیں: ’’سبعَ القومَ=… کی گنتی سات کردی ‘‘۔ ’’اسبَعَ القومُ=پورے سات(عدد)ہو جانا‘‘، ’’سبَّعَ الاناءَ=برتن کو سات مرتبہ دھونا‘‘وغیرہ۔ تاہم قرآن حکیم میں اس مادہ سے کسی قسم کاکوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       کلمہ ’’سَبْعٌ‘‘کے معنی ہیں: سات ۔ جو کسی مونث معدود (یاتمیز)کے لیے اسم عدد ہے۔ مذکر معدود کے لیے ’’سبعۃ‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ قرآن کریم میں کلمہ سبْع‘‘ مختلف صورتوں میں ۲۱ جگہ اور ’’سبعَۃ ۴ جگہ آیاہے ۔ او راسی سے ماخوذ لفظ ’’سبعون‘‘ (بمعنی ستر) بھی تین جگہ وارد ہوا ہے اور اسی مادہ سے ماخوذ لفظ ’’السبُعُ‘‘ (بمعنی درندہ جانور) بھی ایک جگہ (المائدہ:۴) آیا ہے۔ ا ن پر اپنے موقع پر بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

          ’’سبع سماوات‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’سات آسمان‘‘ــــــ پورے جملے میں اس کے ترجمہ کی بعض صورتوں پر ’’الاعراب‘‘ میں بحث ہوگی۔

۱:۲۰:۲(۱۱)     [وَھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ]یہ ایک پوراجملہ ہے جس کی سیدھی سادی نثر تو بنتی ہے۔ ’’ وَھُوَ عَلِیْمٌ بِکُلِّ شَیْئٍ ‘‘ پھر ’’فاصلہ‘‘ (آیت) کی رعایت سے الفاظ میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔ جو عبارت میں شعر کا سا رنگ پیدا کرتا ہے۔ پہلے کہیں بیان ہوچکا ہے کہ اس قسم کے ادبی اسلوب کی بناء پر ہی کفارِ مکہ قرآن کو شعر اور آنحضرت کو شاعر کہتے تھے۔ حالانکہ یہ اسلوب ’’شعر‘‘ نہیں ہے۔ اور کفّار کے سمجھدار لوگ بھی اس ’’الزام‘‘ کو غلط قرار دیتے تھے۔ آخرعرب کے لوگ ’’شعر و شاعری‘‘کے اسالیب سے اتنے ناواقف تو نہیں تھے۔

·       مندرجہ بالا جملہ کے قریباً سب الفاظ کے معنی سے اب تک آپ واقف ہوچکے ہیں مثلاً ’’کلّ شیئٍ‘‘کے معنی (ہرچیز)اور اجزاء پر الگ الگ البقرہ:۲۰ یعنی ۱:۱۵:۲کے آخر پر بات ہوئی تھی۔ ’’وھو‘‘(اور وہ) تو بہت ابتدائی لفظ ہیں۔ البتہ لفظ ’’علیم‘‘ کی مختصر وضاحت شاید ضروری ہے۔ اس لفظ (علیم) کامادہ ’’ع ل م‘‘ اور وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد (علِم یعلَم =جان لینا) کے باب اور معنی وغیرہ پر الفاتحہ :۲ کے علاوہ البقرہ:۱۳ یعنی ۱:۱۰:۲(۳)میں بھی بات ہوچکی ہے۔

          یہ فعل (علِم) زیادہ تر مفعول بنفسہ کے ساتھ (علِمہ) اور کبھی باء کے صلہ کے ساتھ (علِم بہ=… کوجان لینا، …کا علم رکھنا) بھی استعمال ہوتا ہے۔

·       اس طرح یہاں ’’علیم بِ…‘‘کے معنی ہیں: …سے خوب آگاہ، … کا خوب جاننے والا، خبر دار، واقف‘‘ ’’علیم‘‘ چونکہ صفت مشبہ ہے اس لیے اس میں صفتِ علم کے دوام واستمرار کا مفہوم شامل ہوتا ہے۔ یعنی ہمیشہ اور ہر جگہ (ہرشے کو) جاننے والا۔

یوں ’’وھو بکل شیءٍ علیم‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے : ’’اور وہ ہر چیز کے بارے میں خوب علم رکھنے والا ہے‘‘  بعض حضرات نے اس جملہ اسمیہ کا ترجمہ جملہ فعلیہ کی طرح کر دیا ہے اس پر ہم آگے ’’الاعراب‘‘ میں بات کریں گے۔

 

۲:۲۰:۲     الاعراب

          زیر مطالعہ قطعہ دو آیات پر مشتمل ہے جن کو ’’اعرابی تقسیم‘‘ کے لحاظ سے پانچ(۵) جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلی آیت (نمبر۲۸ )میں دوجملے ہیں بلکہ دوسرا جملہ تین چھوٹے جملوں پر مشتمل ہے جن کو حرف عطف (ثُمَّ) کے ذریعے ملا کر ایک جملہ بنالیا گیا ہے۔ دوسری آیت (نمبر۲۹ )میں واضح طور پرتین مستقل جملوں پر  مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پانچ (اعرابی) جملوں میں سے ہر ایک کے آخر پر کوئی نہ کوئی علامت وقف تجویز کی گئی ہے۔ کہیں ’’ج‘‘ (وقف جائز)کہیں ’’ط‘‘(وقف مطلق) اور کہیں’’ق ‘‘ وقف تاویلی) لکھا گیا ہے ہم اسی طرح علیحدہ علیحدہ پانچ جملوں کے اعراب بیان کریں گے۔

(۱) كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ

           [کَیْفَ]اسم استفہام مبنی علی الفتح ہے اور یہاں بعد والے فعل ’’تکفرون‘‘ کاحال مقدّم ہوکر محلاً منصوب ہےــــــخیال رہے کہ بلحاظِ اعراب ’’کَیْفَ‘‘ کبھی اپنے مابعد کی خبر مقدم کے طور پر (مرفوع یا منصوب)ہوتا ہے،کبھی حال (مقدم)کے طور پر (منصوب)اور کبھی مفعول بہ یا مطلق کی جگہ آنے کے باعث منصوب ہوتا ہے۔ (یعنی بلحاظ اعراب اس میں زیادہ امکان منصوب ہونے کا ہوتا ہے)۔

·       اس کااعراب جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ جملہ استفہامیہ کا مختصر سے مختصر جواب دیں اس طرح کہ جواب کے الفاظ بھی سوال کے الفاظ جتنے ہی ہوں پھر دیکھیں کہ ’’کیف‘‘ کی جگہ جو لفظ جواب میں آیا ہے، جملے میں اس کی اعرابی پوزیشن کیا ہے؟ وہی پوزیشن سوالیہ جملے میں ’’کیف‘‘کی تھی۔ (ویسے یہی قاعدہ تمام اسمائے استفہام کا اعراب جاننے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے) [4]  مثلاً (۱)کیف حالُک؟ (تیرا حال کیا ہے؟)کے جواب میں آپ کہتے ہیں ’’انا مریضٌ‘‘ (میں بیمار ہوں) تو گویا یہاں ’’کیفَ‘‘ خبر مقدم ہوکر مرفوع ہے اور (۲) اگر آپ کیفَ کنتَ البَارحۃَ؟ (کل رات آپ کا کیا حال تھا)کے جواب میں کہتے ہیں ’’کنتُ البارحۃ مریضًا‘‘(گزشتہ رات میں بیمار تھا) تو یہاں ’’کیف‘‘ کنتَ‘‘ کی خبر مقدم (خبرکا، ہ) ہو کر نصب میں ہے ــــــ اور اگر (۳) آپ کیفَ وجد تَہ؟ (تو نے اسے کیسا پایا) کے جواب میں ’’وجد تُہ عالمًا‘‘کہتے ہیں کہ تو گویا ’’کیف، وجدت‘‘کا مفعول ثانی مقدم ہونے کے باعث نصب میں تھا اور اگر (۴) آپ ’’کیفَ جِئْتَ (تو کس طرح آیا)کے جواب میں ’’جئتُ ماشیًا‘‘(میں پیدل آیا) کہتے ہیں تو یہاں ’’کیف‘‘ فعل ’’جئتَ‘‘ کی ضمیر فاعل کا حال (مقدم) ہونے کے باعث محلاً منصوب سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اگر (۵) آپ ’’کیفَ تَعْمَلُوْنَ؟‘‘ (تم کیسا عمل کرو گے؟) کے جواب میں کہیں ’’نعمل عملاً صالحًا(ہم اچھا عمل کریں گے) تو یہ فعل ’’تعلمون‘‘ کا مفعول مطلق (مقدم) ہوکر نصب میں سمجھا جائے گا ــــــاوپر ہر ایک مثال میں ’’مقدَّم‘‘ کا لفظ بار بار آیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسم استفہام ہمیشہ جملے میں سب سے پہلے (مقدم) آتا ہے لہٰذا اس کی اعرابی حالت خبر ہو یا حال یا مفعول بہٖ یا مفعول مطلق سب ’’مقدم‘‘سمجھے جاتے ہیں۔

 [تَکْفُرُوْنَ]فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ یہاں ’’کیف تکفرون؟‘‘ کا سوال ( یا اس کا جواب) (أ)تکفرون جاھلینَ اَوْ مُعَانِدِیْنَ ’’(آیا)تم جاہل یا مخالف ہوتے ہوئے انکار کرتے ہو؟‘‘ ہوسکتا ہے اس لئے اعرابی لحاظ سے یہاں ’’کیف‘‘ کو حال مقدم سمجھ کر منصوب (محلاً) قرار دیا جاسکتا ہے (اور اس کا یہی اعراب اوپر بیان ہوچکا ہے)

          [باللہ] جار (بِ) مجرور (اللّٰہ)مل کر متعلق فعل ’’تکفرون‘‘ ہیں ۔ اور ’’بِ‘‘ یہاں صلہ فعل کا کام بھی دے رہی ہے۔ یعنی ’’(کیوں کر؟ کیسے، کس طرح) اللہ کا انکار کرتے ہو / اللہ سے منکر ہوگے / کفر کرتے ہو‘‘ اور بعض مترجمین نے اردو محاورے اور سیاقِ عبارت سے معلوم ہونے والے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے (کیسے) انکار کرسکتے ہو، کفر کرسکتے ہو‘‘کے ساتھ ترجمہ کیا ہے کیونکہ انکار  ان کے ارادہ کانہیں بلکہ ان کی استطاعت (عقلی) کا مراد ہے ــــــ

 [وَ]حالیہ ہے بمعنی ’’حالانکہ‘‘ اور [کُنْتُمْ]فعل ناقص بصیغہ ماضی (جمع مذکر حاضر) ہے جس سے پہلے لفظ ’’قَدْ‘‘مقدر مانا جاتا ہے [نحوی کہتے ہیں کہ جب فعل ماضی جملہءِ حالیہ کے طور پر آرہا ہو تو اس (فعل)سے پہلے ایک ’’قَدْ‘‘ضرورہوتا ہے چاہے ظاہراً مذکور ہو یا مقدر (غیر مذکور)[ ۔

          [امواتًا] خبر کان (کنتم)ہوکر منصوب ہے اور یہ پورا جملہ ’’وکنتم امواتًا‘‘حال ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے۔

اس طرح ’’و کنتم امواتًا‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’حالانکہ /حال یہ تھا کہ تم مردہ/ محض بے جان/تھے‘‘ بعض نے اس کا ترجمہ ’’تم میں جان نہ تھی‘‘کیا ہے جو عربی الفاظ سے ذرا ہٹ کر ہے مگر محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے۔ بیشتر مترجمین ’’واو حالیہ‘‘کے ترجمہ یا مفہوم کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ’’کنتم امواتًا‘‘ کا ہی ترجمہ کر دیاہے۔

          [فَاَحْیَاکُمْ] کی ابتدائی ’’فَ‘‘ (فاء) عاطفہ بمعنی ’’پس یا پھر‘‘ہے۔ اور اَحْیَا (اَحْیٰی)فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین (ھُوَ)ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اور ’’کم‘‘ ضمیر منصوب اس فعل (اَحْیا) کی مفعول بہٖ ہے۔ بعض مترجمین نے فاء عاطفہ کا ترجمہ ’’تو پھر، تو اور سو‘‘سے کیا ہے۔ اوریوں ’’فاحیاکم‘‘ کا ترجمہ ’’پھر/پس/ سو/ تو/ تو پھر اس نے تم کو جِلایا/ جاں بخشی /جان ڈالی/ جاندار کیا‘‘سے کیا ہے۔ یہاں تک پہلا جملہ ختم ہوتا ہے۔

(۲)     ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 

[ثُمّ] حرفِ عطف ہے جو اس حصہ آیت میں تینوں جگہ ترتیب اور تراخی (پھر، بعد میں کے معنی) کے لیے آیا ہے۔ [يُمِيْتُكُمْ] میں ’’یُمِیْتُ‘‘ فعل مضارع معروف (صیغہ واحد مذکر غائب)ہے جس میں فاعل ’’ھُوَ‘‘موجود ہے اور ’’کُمْ‘‘ضمیر منصوب اس فعل (یُمِیت) کی مفعول بہٖ ہے۔ اور یہ ’’یُمِیْتُکم‘‘ مکمل جملہ فعلیہ ہے جس کو اگلے [ثُمَّ]کے ذریعے مابعدوالے جملے سے مربوط کیا گیا ہے۔ [يُحْيِيْكُمْ] بھی فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعل (ھُوَ)ہے اور یہاں بھی ضمیر منصوب ’’کم‘‘ فعل (یُحْیِیْ) کا مفعول بہٖ ہے۔ اوریہ (يُحْيِيْكم) کا بھی ایک مکمل جملہ فعلیہ ہے جسے [ثُمَّ] ہی کے ذریعے اگلے اور پچھلے جملے کے ساتھ(بصورت عطف) مربوط کیا گیا ہے۔

[اِلَیْہِ] جار (الی) مجرور (ہ) مل کر بعد میں آنے والے فعل (تُرْجَعون)سے متعلق ہیں اور [تُرجعون] فعل مضارع مجہول صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر نائب فاعل ’’انتم‘‘شامل ہے۔ یہاں ’’الیہ‘‘ کا فعل سے پہلے لانا (دراصل تو ’’تُرجعُون الیہ‘‘تھا) کچھ تو فاصلہء آیت کی رعایت سے ہے۔ دوسرے اس تقدیم سے ’’الیہ‘‘ میں حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے جس کو ترجمہ میں ’’اس ہی کی طر ف یا اسی کی طرف‘‘سے ظاہر کیا گیا۔ یعنی ’’پھر تم اسی کی طرف / اسی کے پاس/ اسی کی جانب لوٹائے /واپس کئے/ لے جائے جاؤگے‘‘ کی صورت میں بعض حضرات نے ’’تم پلٹ کر جاؤگے‘‘ ترجمہ کیا ہے جو اس لحاظ سے غلط ہے کہ اس میں فعل مجہول کا ترجمہ فعل معروف سے کردیا گیا ہے ــــــیوں یہ تین جملے (یُمییتکم، یُحییْکم اور الیہ تُرجَعُون)’’ثُمَّ‘‘ کے ذریعے ایک دوسرے پر عطف کرکے ایک مربوط جملہ بنا دیے گئے ہیں اور شاید یہاں ’’ثُمَّ‘‘ کی تکرار اور اس میں تراخی کے مفہوم کے پیش نظر یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ ان کاموں (مارنا پھر جِلانا پھر لَوٹانا) کے درمیان ایک (بڑا) وقفہ ہوگاـــ اس کے بعد اگلی آیت میں اس مارنے، جِلانے اور لوٹانے والے کے بارے میں بات ہوئی ہے۔

(۳)     ھُوَ الَّذِى خَلَقَ لَكُم مَا فِى الاَرضِ جَمِيْعًا۔

           [ھُوَ]ضمیر منفصل مرفوع مبتدأ کا کام دے رہی ہے [الذی] اسم موصول ہے جو ’’ھُوَ‘‘ کی خبر ہونے کے باعث محل رفع میں ہے (دراصل تو اسم موصول سے خبر کی ابتداء ہورہی ہے) [خلَق] فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھُوَ‘‘ موجو دہے۔ [لَکُمْ]جار مجرور متعلق فعل ’’خلق‘‘ہیں۔ یہاں ’’خلق لکم‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ہے ’’اس نے پیدا کیا تمہارے لیے ‘‘ تاہم بعض مترجمین ’’لِ‘‘ کے معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے وضاحتی ترجمہ ’’تمہارے فائدہ کے لیے ‘‘کی صورت میں کیا ہے۔ جب کہ بعض اشتراکی اور مزد کی ذہن رکھنے والوں نے اسی ’’لِ‘‘ (لام الجر) ملکیت کا مفہوم سونگھ کر (جو لام الجرکے معانی میں سے ایک معنی ہے)اس سے ’’تم سب کی مشترکہ ملکیت‘‘ ہونے پر استدلال کیا جو قرآن کریم کے باقی احکام کی نفی کو مستلزم ہوتا ہے۔ [ما] اسم موصول ہے اور یہ فعل ’’خلَق‘‘ کا مفعول بہٖ ہو کر محل نصب میں ہے۔ [فی الارض] جارّ (فی) اور مجرور (الارض) مل کر اسم موصول ’’مَا‘‘ کا صلہ ہےــــ یا یوں کہیے کہ صلہ کا بھی ایک جزء ہے۔ کیونکہ آگے [جمیعاً] بھی اسی مفعول بہ اسم موصول (مَا) کا حال (لھذا منصوب) ہو کر اسی صلہ کا ایک جزءہے ۔یوں ’’ مَا فِى الاَرضِ جَمِيْعًا ‘‘(جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کا سب)صلہ موصول مل کر فعل ’’خلق‘‘ کا مفعول بہٖ ہے یعنی محلِ نصب میں ہے۔ بعض نے ’’ مَا فِى الاَرضِ جَمِيْعًا ‘‘کا بامحاورہ ترجمہ’’زمین کی کُل کا ئنات‘‘ سے کیا ہے جو اصل الفاظ سے ذرا ہٹ کر ہے اگرچہ بلحاظ مفہوم درست ہے۔ بعض نے ’’ما ‘‘کا ترجمہ ’’سب چیزوں کو جو‘‘ کیا ہے جووضاحتی ترجمہ ہے۔ اس طرح ’’ خَلَقَ لَكُم مَا فِى الاَرضِ جَمِيْعًا ‘‘پورا جملہ [جس میں فعل مع فاعل (خلق) مفعول بہٖ (ما فی الارض جمیعًا) اور متعلق فعل (لکم)موجود ہے] اسم موصول ’’الذی‘‘ کا صلہ مکمل کرتا ہے اور یہ صلہ موصول (الَّذِى خَلَقَ لَكُم مَا فِى الاَرضِ جَمِيْعًا)مل کر ابتدائی ضمیر مرفوع (ھُوَ)جو مبتداء ہے ‘کی خبر بن کر جملہ اسمیہ مکمل ہوتا ہے۔

(۴)     ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ

[ثُمَّ] حرف عطف ہے جس کے معنی پر حصہ ’’ اللغۃ‘‘ میں بات ہو چکی ہے [استوی] فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھُوَ‘‘ شامل ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [اِلی السماء] جارّ (الی) اور مجرور (السماء) مل کر متعلقِ فعل (استوی) ہیں [فسوّٰھُنَّ] میں ابتدائی ’’فَ(فاء) ‘‘عاطفہ ہے جس میں ترتیب (پِھر) کا مفہوم موجود ہے۔ ’’سوَّی‘‘ فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعل (ھُوَ)ہےــــ اور آخری ’’ھُنَّ‘‘ ضمیر منصوب متصل فعل (سوّی) کا مفعول بہٖ ہے جو ’’)سماوات) سَمٰوٰتٍ ‘‘کے لیے ہے۔ اس طرح یہ (فَسوّٰھُنَّ)ایک مستقل جملہ ہے جس کا ترجمہ لفظی ہے ’’ پس اس نے ٹھیک ٹھاک بنا دیا ان کو ’’ ــــ اس کے بعد [سَبْعَ سَمٰوٰتٍ (سماوات)] میں ’’ سبْعَ‘‘ تو اسم عدد ہے اور ’’ سَمٰوٰتٍ (سماواتٍ)‘‘اس کا معدود (تمیز)ہے‘ جو تین سے دس تک کے لئے ’’جمع مجرور نکرہ‘‘ہوتی ہے اور اس (سَمٰوٰتٍ)کے واحد (سماء)کے مونث ہونے کی وجہ سے عدد مذکر (سبعۃ کی بجائے سبع)آیا ہے۔ یہاں (فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ (سماواتٌ) میں اس (سبعَ) کے اعراب کی تین صورتیں ممکن ہیں:

(۱) اگر فعل ’’سَوّی‘‘ کو بمعنی ’’خلَق ‘‘(پیدا کیا ‘ بنایا) لیں تو یہ (سبعَ)اس فعل کی مفعول بہ ضمیر(ھُنَّ)کا حال ہو کر منصوب ہے یعنی (سات ہوتے ہوئے) اس طرح اس جملہ (فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ) کا ترجمہ ہوگا’’ ٹھیک ٹھاک پیدا کر دیایا بنا دیا ان کو سات آ سمانوں کی صورت یا حالت میں ‘‘ــــــ مگر اردو محاورے میں حال کا ترجمہ فِٹ نہیں آتا اس لیے اکثر مترجمین نے اس ترکیب کو نہیں لیا۔

(۲) دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ یہ (سَبْعَ سَمٰوٰتٍ) مفعول بہٖ ضمیر ’’ھُنَّ‘‘ کا (حال نہیں بلکہ)بدل ہو کر منصوب ہے ( ضمیر ’’ھُنَّ‘‘ مفعول بہٖ منصوب ہے)۔ اس ترکیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض نے اس (فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ(سماوات)) کا ترجمہ ’’سات آسمان ہموار بنا دئیے‘ ٹھیک سات آسمان بنائے ’’کے ساتھ کیا ہے۔  اردو محاورے کے لیے اس ترجمہ میں مُبْدَل منہ یعنی ’’ ھُنَّ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرنا پڑتاہے۔

(۳) تیسری صورت یہ ممکن ہے کہ ’’سَوَّی‘‘ کو صیَّرَ‘‘ (…. کو …. بناڈالا) کے معنی میں لیں تو پھر ’’ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ  ‘‘ مفعول ثانی (مفعول اول ’’ھُنَّ‘‘ہے) ہو کر منصوب ہے۔ اس ترکیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیشتر مترجمین نے اس (فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ) کا ترجمہ یوں کیا ہے’’ ٹھیک کر دیا/درست کر کے بنا دیا/ان کو سات آسمان ‘‘ــــــ  اس ترکیب کے ساتھ ترجمہ میں کوئی نقطہ نظر انداز نہیں ہوتا اور محاورہ بھی برقرار رہتا ہےــــ

(۵) وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔

یہاں [وَ] مستأ نفہ ہے۔ یہاں سے ایک نیا مضمون اور نیا جملہ شروع ہوتاہے جو سابقہ جملے پر عطف نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے اس سے پہلے (جملے کے آخر پر)وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی گئی ہے [ھُوَ] ضمیر مرفوع منفصل مبتداء ہے [بکل شَیْئٍ] میں ’’بِ‘‘ حرف الجر ہے اور ’’کُلِّ‘‘مجرور بالجر بھی ہے اور آگے مضاف ہے (اس لئے خفیف ہے یعنی لامِ تعریف اور تنوین دونوں سے خالی ہے) اور ’’شَیْئٍی‘ مضاف الیہ مجرور با لا ضافہ)ہے اور یہ سارا مرکّب جارّی (بکل شَیْئٍ ِ) متعلق خبر (علیم) مقدَّم ہے اور [علیم[’’ھُوَ ‘‘کی خبر (لھذا)مرفوع ہے۔ اس طرح یہ (وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ)جملہ اسمیہ ہے اور اس کا ترجمہ ’’ اور وہ ہر چیز کے بارے میں خوب علم رکھنے والا ہے ‘‘بنتا ہے ۔ اسی کو ’’ہر چیز سے واقف ہے ‘ خبردار ہے‘ جاننے والا ہے۔ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ البتہ جنہوں نے اس کا ترجمہ ’’وہ….. خوب جانتا ہے‘‘ کی صورت میں کیا ہے یہ اس لحاظ سے محل نظر ہے کہ جملہ اسمیہ کا ترجمہ فعلیہ کی طرح کر دیا گیا ہے۔

 

۳:۲۰:۲     الرسم

          زیرِ مطالعہ قطعہ آیات کے قریباً تمام کلمات کی املاء(اور رسمِ عثمانی) اور رسم معتاد (عام عربی املاء)یکساں ہے۔، صرف پانچ کلمات تفصیل طلب ہیں (۱) امواتًا(۲)فَاَحْیَاکُمْ (۳) یحیِیْکُم (۴) فسوّٰھُنّ(۵) سمٰوٰت۔ ان میں سے پہلے دو کا رسمِ عثمانی مختلف فیہ ہے۔ جبکہ آخری تین کا رسم رعثمانی متفق علیہ ہے۔

تفصیل یوں ہے:

’’(۱) امواتًا ‘‘ کے حذف الف (بعد الواو) کا ذکر المقنع (للدانی) اور العقیلہ (للشاطبی) میں نہیں ہے۔ صاحب نثر المرجان (ج ا ص ۱۲۲) نے بھی ’’اثبات الالف فی اکثر المصاحف ‘‘لکھاہے۔ مورد الظمآن میں اسے جمع مؤنث سالم کے (ہرجگہ)محذدف الالف ہونے کے قاعدے سے مستثنیات ـــمیں ذکر کیا گیا ہے اس لئے کہ یہ (اموات) جمع مکسر ہے جمع مؤ نث سالم نہیں ہے۔[5]   صرف ’’الضباع‘‘ نے اس کے محذوف الالف ہونے کا ذکر (بحوالہ ابی داؤد)کیا ہے[6] نتیجہ اس اختلاف کا یہ ہے کہ یہ لیبیا ، بر صغیر‘  ترکی‘  ایران کے مصاحف میں باثبات الف (امواتًا) لکھا جاتا ہے اور عرب اور بیشتر افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الف (اموٰتًا) لکھا جاتا ہےــــ اس لفظ کی عام عربی املاء بھی باثبات الف ہے۔

’’فَاَحْیَاکُمْ‘‘: المقنع اور العقیلہ میں اس کا حذف الف (بعد الیاء) مذکور نہیں ہے(جو اثبات کو مستلزم ہے)مورد الظمآن ( کی شرح دلیل الحیران اور لطائف البیان)میں بھی حذف مذکور نہیں ہے۔ نثرالمرجان میں اس کے اختلاف الرسم کا ذکر کرتے ہوئے اثبات الالف کی تصریح کی ہے۔ اور لکھا ہے کہ الدانی نے اس کے اثباتِ الف کی تصریح کی ہے اور بحوالہ ٔ کسائی نقل کیا ہے کہ ’’لم تختلف المصاحف فی رسمہ بالالف‘‘ــــ البتہ صاحب نثر المرجان کے ایک قدیم معتمد علیہ قلمی مصحف (جسے وہ مصحف الجزری کہتے ہیں) میں اس لفظ کے بحذف الالف لکھے ہونے کا ذکر بھی کیا ہے۔ [7] الضباع نے چار کلمات ’’اَحْیَاکم ( البقرہ:۲۸ و الحج :۶۲) ؛ اَحْیَاھُم’’(البقرہ:۲۴۳)، مَحْیَاھم(الجاثیہ :۲۰)اور اَحْیَاھَا( المائدہ:۳۵ وَفُصِّلَتْ: ۳۹)کا بحذف الالف لکھا جانا ابوداود سے بخلف (یعنی مع اختلاف)نقل کیا ہے اور پھر یہ بھی لکھا ہے کہ مصر میں ان کو باثباتِ الف لکھنا معمول بہٖ ہے ما سوائے البقرہ والے (دو لفظوں کے اور یہ کہ تمام مغاربہ (اہل مغرب یعنی افریقہ اور اندلس والے) ان چاروں کلمات کو باثبات الالف لکھتے ہیں (ہر جگہ)  [8] اس اختلاف کا نتیجہ یہ ہے کہ افریقی اور مشرقی ممالک میں اسے باثبات الا لف ’’فاحیاکم‘‘لکھتے ہیں۔ اور عرب ممالک کے مصا حف میں اسے بحذفِ الف یعنی ’’فاحیٰکم‘‘ لکھتے ہیں۔

 (۳) یُحْیِیْکُمْ‘‘: کا رسمِ عثمانی و املائی ایک ہی ہے اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ کلمہ ’’یُحْیِیْ‘‘قرآن کریم میں ہر جگہ ’’یُحْییٖ‘‘ (آخری یا اس سے پہلی یاء(ی) کے حذف کے ساتھ لکھا جاتا ہے ۔ البتّہ جب اس فعل کے ساتھ کوئی منصوب ضمیر مفعول بہ ہوکر لگی ہوئی ہو تو پھر اسے ہر جگہ (عام املاء کی طرح) دو یاء کے ساتھ ہی لکھا جاتا ہے۔

 (۴)’’فَسوّٰھُنَّ‘‘: میں ’’و‘‘ اور ’’ھ‘‘کے درمیان ’’ی‘‘ بصورت نبرہ (دندانہ) لکھنا بھی رسم عثمانی سے مختص ہے ورنہ عام عربی املاء میں اسے اب "فَسَوَّاھن" لکھنے کا رواج ہو گیا ہے۔ بہر حال رسمِ عثمانی میں اسے ’’فسوّٰھن‘‘ہی لکھنا متفق علیہ ہے۔

 (۵)’’سمٰوٰت‘‘:یہ لفظ جس کی عام عربی املاء ’’سماوات ‘‘ہے ۔ رسمِ قرآنی کے اس قاعدے کے تحت کہ : ذوالالفین (دو الفوں والی) جمع مؤنث سالم کے دونوں الف کتابت میں محذوف کر دیے جاتے ہیں ۔[9] اس لفظ کو محذوف الالفین لکھا جاتا ہے ۔ یعنی (۱) ’’م‘‘ اور ’’و‘‘ کے درمیان بھی اور (۲) ’’و‘‘ اور ’’ت‘‘کے درمیان بھی الف نہیں لکھا جاتا یعنی اسے ’’سموت‘‘ لکھا جاتا ہے( پڑھے دونوں الف جاتے ہیں جن کو ضبط کے مختلف طریقوں سے ظاہر کیا جاتا ہے)۔ کتاب مصحف میں اس لفظ کے اس حذف (الفَین)پر تمام علماء رسم کا اتفاق ہے۔ مزید یہ کہا گیا ہے کہ اس لفظ کے پہلے الف (بعدالمیم)کو تو ہر جگہ محذوف کیا جاتا ہے ( لفظ ’’سموت‘‘معرفہ یا نکرہ مختلف صورتوں میں قرآن کریم کے اندر ۱۹۰ جگہ وارد ہوا ہے) البتہ الدانی اور ابو داؤد  ہر دو کے مطابق صرف سورہ فُصِّلت (حم السجدہ)کی آیت نمبر ۳۹ میں آنے والے لفظ کو دوسرے الف ( بعدالواو) کے اثبات کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔  [10]یعنی ’’سمٰوات‘‘۔

پس اس لفظ کا بحذف الالفَین (سموت) لکھا جانا علم الرسم کا متفق علیہ مسئلہ ہے اور ترکی یا ایران میں جو اسے رسم املا ئی  کے مطابق ( سماوات) لکھنے کا رواج ہوگیا ہے تو یہ رسمِ عثمانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔

 

۴:۲۰:۲      الضبط

زیرِ مطالعہ دو آیات میں مختلف کلمات کے ضبط میں اختلاف کو مندرجہ ذیل نمونوں کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ہر لفظ کے عموماًچار نمونہ ء ضبط (عام پاکستانی ، ایرانی و ترکی ، عرب ممالک اور افریقی) لکھے جاتے ہیں ۔ اگر کوئی ضبط ایک سے زیادہ جگہ یکساں ہے تو صرف مختلف فیہ ضبط کے نمونے لکھے جاتے ہیں ۔


 



 [1] چاہیں تو تفصیل کے لیے دیکھئے المفردات (للراغب) تحت مادہ ح ی ی اور م و ت۔ جہاں حیات اور موت (ہر ایک) کی پانچ چھ ’’اقسام‘‘ یا معنی ٔ مراد (ممکن) کا ذکر کیا گیا ہے۔

 

  [2] القاموس المحیط اور اقرب الموارد میں اسے واوی اللام قرار دیا ہے جب کہ المنجد اور المعجم الوسیط میں اس کو یایٔ اللام سمجھا گیا ہے۔ مد القاموس (LANE)  میں عنوان کے طور پر دونوں مادے مذکور ہیں۔ ویسے بھی عملاً واوی بھی یائی ہی استعمال ہوتی ہے۔

[3]  دیکھئے العمدہ فی غریب القرآن (للقیسی) ص ۷۲

 

  [4] چاہیں تو دیکھیں کتاب ’’المنھاج فی القواعد والاعراب ((للانطاکی) ص ۱۵۳۔

 

 [5] دلیل الحیران للمارغنی ص۵۱

 [6]  سمیر الطالبین ص۶۱

[7]   نثر المرجان (للارکاٹی) ج۱ ص۲۳، ۱۲۲

   [8] سمیر الطالبین ص۶۴

[9] دیکھئے المقنع ص۲۳،دلیل الحیران(مارغنی)ص اور لطائف البیان(زیتحار)ج۱ص۱۷۔

[10] سمیرالطالبین ص۳۶،دلیل الحیران(للمارغنی)ص۵۷