۲:۲      الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ (۳)

 ۱:۲:۲ اللغۃ

      ]اَلَّذِیْنَ[ اسم موصول برائے جمع مذکّر ہے جس کا اردو ترجمہ ’’جو کہ ‘‘ جنہوں نے کہ ’’وہ لوگ جو کہ ‘‘ وغیرہ سے کیا جاسکتا ہے۔ اسماء موصولہ پر سورۃ الفاتحہ آیت نمبر۷ (۱:۶:۱) میں بات ہوچکی ہے۔ یا ضرورت ہو تو نحو کی کسی کتاب میں برائے استحضار ’’اسم موصول ‘‘ کی بحث دیکھ لیجئے۔

۱:۲:۲: (۱)     [یُؤْمِنُوْنَ] کا مادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن ’’ یُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب افعال کے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکّر غائب ہے۔

اس مادہ ’’امن‘‘ سے فعل ثلاثی مجرد (۱)أمِنَ یأْمَن أَمْنًا (باب سمِع سے) بمعنی ’’امن میں ہونا، امن پانا، چین پانا، خاطر جمع ہونا، بے خوف ہونا‘‘ وغیرہ ہمیشہ لازم اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ اور (۲)أمِنَ۔۔۔ یأْمَن أَمْنًا(سَمِعَ سے ہی)بمعنی ’’ـــسے بے فکر ہونا، ـــکی طرف سے مطمئن ہونا، ـــسے بے خطرہونا، ـــسے امن میں رہنا‘‘ وغیرہ بطور فعل متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے یعنی اس کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے (أَمِنَہٗ) اور (۳)أمِن ـــ یأمَن اَمَانَۃً (سمع سے ہی) بمعنی ’’ـــپر اعتبار کرنا، ـــکو امین بنانا، ـــکے پاس امانت رکھنا‘‘ آتاہے۔ اس صورت میں بھی یہ متعدی اور بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی’’اَمِنَہٗ ‘‘ہی کہیں گے۔ (صرف مصدر میں فرق پڑتا ہے۔) البتہ جو چیز امانت رکھی جائے یا جس چیز کے بارے میں اعتبار کیاجائے اس سے پہلے’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’اَمِنَ زیدًا علیـــ (کذا)‘‘ قرآن کریم میں یہ فعل ثلاثی مجرد مذکورہ بالا تینوں معنی میں استعمال ہوا ہے اور فعل مجرد سے ہی افعال اور اسماء مشتقہ کے چونسٹھ (۶۴) مختلف المعنی صیغے وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بابِ افعال سے بکثرت اور باب افتعال سے ایک آدھ صیغہ آیاہے۔ ان کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔

        جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے لفظ ’’ یُؤْمِنُوْنَ‘‘ بھی اس مادہ سے باب افعال کا صیغۂ مضارع ہے۔ اس باب سے فعل آمَن ۔۔ یُؤْمِنُ اِیمانًا۔جب ’’با‘‘(بِ)کے صلہ کے ساتھ آئے [یعنی آمَنَ  بِـــ] تو اس کے معنی : ’’ـــپر ایمان لانا، ـــپر ایمان رکھنا، ـــپر یقین کرنا یا لانا‘‘ ہوتے ہیں یعنی اس صورت میں عربی ’’با‘‘ (بِ) کا لفظی ترجمہ (۔۔۔کے ساتھ) کی بجائے اردو محاورہ کے مطابق (۔۔۔پر) سے کیا جاتا ہے۔[مگر عربی میں ’’آمَنَ علیـــ‘‘ کہنا بالکل غلط ہے]لفظ ’’ایمان‘‘ (جو اس فعل کا مصدر ہے) اپنے اصل عربی بلکہ اصطلاحی اسلامی معنی کے ساتھ اردو میں بھی بطور اصطلاح مستعمل ہے۔[1] عربی زبان کے متعدد کلمات اسی طرح کسی اردو مصدر کے ساتھ ملا کر اپنے اصل عربی (لغوی) معنی میں استعمال ہوتے ہیں مثلاً ’’ایمان‘‘ لانا، ’’مطمئن ‘‘ہونا، ’’اعتراف ‘‘ کرنا وغیرہ۔ کیونکہ ان کلمات کے اصل عربی معنی اردو میں متعارف اور متد اول ہیں۔

        اس باب ’’افعال‘‘ سے ہی یہ فعل ’’آمن‘‘ ایک دوسرے صلہ ’’لام (لِ)‘‘ کے ساتھ (مثلاً آمنَ لہٗ) ’’سچ ماننا، مطیع ہونا یا وزن دینا‘‘ کے معنی میں آتا ہے اور بغیر صلہ کے (یعنی آمَنَــــہٗ) ’’امن دینا، امان دینا‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے اور قرآن کریم میں بھی یہ مذکورہ بالا تینوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ان کا ذکر بھی اپنے اپنے مقام پرآئے گا۔

۱:۲:۲ (۲)     [بِالْغَيْبِ]یہ دراصل بِ +الغَیْب ہے اور اس میں ’’با‘‘ (بِ) تو فعل ’’یُومنون‘‘ کا صلہ ہے جس کے معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ ’’الغیب‘‘ معرّف باللام ہے اور (اصل لفظ) ’’غیب‘‘کا مادہ ’’غ ی ب‘‘اور وزن ’’فَعْل‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد غَابَ یغِیْب غَیْبًا (دراصل غَیَبَ یَغْیِبُ) باب ضرب سے بغیر صلہ کے تو ہمیشہ لازم آتا ہے اور اس کے معنی ’’پوشیدہ ہونا، چھُپا ہوا ہونا‘‘ہوتے ہیں اور غَابَ عن ـــ =ـــ سے پوشیدہ ہونا اور غَابَ فی ـــ=ـــ میں چھپ جانا‘‘ کے معنی میں آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (غیب) سے فعل ثلاثی مجرد کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ افعال میں سے تو صرف باب افتعال کا ایک صیغہ ایک جگہ [الحجرات: ۱۲]آیا ہے۔ البتہ اس مادہ (غیب) سے بعض مصادر اور مشتقات قرآن کریم میں آئے ہیں۔ خود لفظ ’’غیب‘‘ مختلف تراکیب میں پچاس سے زیادہ دفعہ آیا ہے۔ ’’غیب‘‘ در اصل تو مصدر ہے بمعنی ’’چھپنا‘‘۔ مگر اکثر یہ اسم الفاعل (یعنی غائب) کے معنی میں استعمال ہواہے۔ یعنی ’’وہ جو انسانی حواس سے پوشیدہ ہے‘‘ یا جس کا علم حواس سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ چونکہ اردو میں یہ لفظ اپنے عربی معنی کے ساتھ مستعمل ہے۔ اس لئے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’غیب‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔ جب کہ بعض حضرات نے اسے ’’بے دیکھی چیزوں‘‘، ’’چھپی ہوئی چیزوں‘‘ ’’بن دیکھی باتوں‘‘ یا صرف ’’بے دیکھے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں حواس سے مراد صرف آنکھ لینا (دیکھنا) بڑامحدود سا مفہوم بنتا ہے۔ ’’چھپی ہوئی چیزوں‘‘ والا ترجمہ زیادہ بہتر ہے اور خود لفظ ’’غیب‘‘ ہی رہنے دینا بھی نہایت موزوں ہے۔ ]مصدر کے اسم الفاعل یا اسم المفعول کے معنی میں استعمال ہونے پر کلمہ ’’ربّ‘‘ اور کلمہ ’’کتاب‘‘ کے ضمن میں بات ہوچکی ہے۔]

۱:۲:۲ (۳)     [وَ يُـقِيْمُوْنَ]  میں واو (وَ) تو عاطفہ (بمعنی اور) ہے اور ’’يُـقِيْمُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ق و م‘‘ اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے جس کی شکل اصلی ’’ یُقْوِمُوْنَ‘‘ تھی۔ جسے اہل زبان بدل کر ’’يُـقِيْمُوْنَ‘‘ بولتے ہیں۔ صَرْفیوں نے جب اس نوعیت کے بہت سے کلمات کی تبدیلیوں پر غور کیا تو انہیں اس میں ایک قاعدہ کار فرما نظر آیا اور وہ یہ کہ ’’اس (قسم کے الفاظ) میں واو کی کسرہ (ــــــِــــ) اس کے ساکن ماقبل یعنی ’’ق‘‘ کو دے دی جاتی ہے اور پھر خود ’’واو‘‘کو اب اپنے سے ماقبل کی حرکت کے موافق حرف (ی) میں بدل دیتے ہیں۔ اسی کو صرفی تعلیل بھی کہتے ہیں۔ اس قاعدہ کا استعمال آپ سورۃ الفاتحہ میں ’’نَسْتَعِيْنُ‘‘ اور ’’ مُسْتَـقِيْمَ ‘‘ میں دیکھ چکے ہیں۔

        اس مادہ (قوم)سے فعل ثلاثی مجرد قَامَ یَقُومُ قِیامًا (دراصل قَوَمَ یَقوُمُ قِوامًا) باب نصر سے آتا ہے اور اس کے کئی معنی ہوتے ہیں مثلاً (۱)کھڑا ہونا، کھڑے رہنا (۲)اٹھ کھڑے ہونا (۳)رک جانا، ٹھہر جانا (۴)برپا ہونا (۵)واقع ہونا اور (۶)درست ہونا ۔ یہ فعل (قام یقوم) عموماً لازم اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ مختلف صلات ]مثلاً قام   ب ِـ، قام لِ …، قام الی…، قام علی…]کے ساتھ یہ مختلف معنوں کے لئے آتا ہے۔ اور یہ تمام استعمالات قرآن کریم میں آئے ہیں جن کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔

        یومنون کی طرح ’’یقیمون‘‘بھی باب افعال سے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس کی اصل صورت اور تعلیل صرفی پر بات ابھی اوپر گزر چکی ہے۔ باب افعال سے یہ فعل أقام …یُقِیْم إقامَۃً(دراصل أقْوَم یُقْوِمُ إقوامًا) عموماً ـــبلکہ اکثرـــ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ اس کے بنیادی معنی تو ہیں: ’’…کو کھڑا کرنا، …کوسیدھا کھڑا کرنا‘‘  اور موقع استعمال کے لحاظ سے یہ متعدد معانی کے لئے آتا ہے۔ مثلاً (۱) …کو قائم رکھنا (۲)…کو برپا کرنا، …کو کھڑا کرنا  (۳)…کودرست کرنا، …کوٹھیک حالت میں لانا، (۴)…کو سیدھا کرنا، … کا انتظام کرنا (۵) …کو اٹھانا یا اٹھا دینا۔ (۶)ـــکو سیدھا رکھنا۔ (۷)ـــکو درست رکھنا۔ (۸)ـــکو قائم کرنا، …کو نافذ کرنا (۹) …کو برقرار رکھنا (۱۰) ـــکو سرانجام دینا (۱۱)…کو اس کا حق پورا پورا ادا کرنا (۱۲)…کو تمام شرائط کے ساتھ پورا کرنا۔ وغیرہ۔[2]

·       بعض صلات (مثلاً بِ ، فی ،علی، لِ) کے ساتھ یہ فعل بطور لازم کے بھی آتا ہے (جیسے اَقامَ بِالمکان=… میں قیام کرنا یا ٹھہرنا۔ اَقَام عَلی الاَمرِ=…پر قائم رہنا، …میں لگے رہنا وغیرہ) تاہم قرآن کریم میں یہ فعل (اَقام) ان صلات کے ساتھ اور بطور فعل لازم کسی جگہ استعمال نہیں ہوا۔[3]

        قرآن کریم میں اس باب (اِفعال) سے اس فعل (اِقامۃ) کے مختلف صیغے چون (۵۴) مقامات پر آئے ہیں۔ اور ہر جگہ متعدی اور اپنے مفعول کے ذکر کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔ اس فعل کے اس متعدی استعمال کا تقاضا ہے کہ اردو میں ترجمہ کرتے وقت یا تو اس کے فاعل کے بعد ’’نے‘‘ آئے یا اس کے مفعول سے پہلے ’’کو‘‘ لگے۔ اور بعض جگہ ’’کو‘‘ کی جگہ ’’کا‘‘ زیادہ بامحاورہ معلوم ہوتا ہے۔

        فعل (اقام) کے بارے میں یہ نکتہ (فعل کا متعدی ہونا) ذہن میں رکھئے۔ آگے چل کر اس فعل کے مختلف معنی سمجھنے میں یہ ممدّ ثابت ہوگا۔ اور بعض حضرات نے جو اس کا ترجمہ بطور ’’فعل لازم‘‘ کر ڈالا ہے اس کی غلطی بھی واضح ہوسکے گی۔

۱:۲:۲ (۴)     [الصَّلٰوةَ]  کا مادہ ’’ص ل و‘‘ اور وزن اصلی لام تعریف کے بغیر’ ’ فَعْلَۃٌ‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور’’فَعَلَۃٌ ‘‘بھی اور اس کی شکل اصلی ’’ صَلْوَۃٌ ‘‘یا ’’صَلَوَۃٌ‘‘ تھی۔ دونوں صورتوں میں تعلیل صرفی [واو متحرکہ ماقبل مفتوح کا الف میں بدلنا ]  میں بعد وزن ’’فَعَاۃٌ‘‘ رہ جاتا ہے۔ اور لفظ کی شکل’’صلاۃ‘‘ ہوجاتی ہے۔ جس کی املاء (قرآن میں تو) عموماً  ’’ صلٰوۃ‘‘ ہوتی ہے۔

·       اس مادہ (صلو) سے فعل ثلاثی مجرد  ’’ صَلا یَصلُو صَلوًا‘‘ (باب نصر سے) بمعنی ’’صَلاپر مارنا‘‘ـــ اور صلِیَ  یَصْلٰی صَلًا (باب سمع سے اور دراصل صَلِو یَصْلَوُ) بمعنی ’’صلا‘‘ میں جھکاؤ پیدا ہونا یا اس کا ڈھیلا ہونا‘‘ آتا ہے۔[4]   تاہم نہ تو یہ فعل قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور نہ ہی اس کے معنی کا لفظ ’’صلوۃ‘‘ کے ساتھ کوئی خاص تعلق ہے۔ (کھینچا تانی اور تکلّف الگ بات ہے) البتہ اس مادہ (صلو) کے باب تفعیل صلّی یُصَلِّی(دراصل صَلَّوَ یُصَلِّوُ)سے افعال اور بعض مشتقات کے پندرہ (۱۵) کے قریب صیغے آئے ہیں۔

·       لفظ ’’صلوۃ‘‘ اسی فعلـــ صلّی یصلِّیبمعنی ’’نماز پڑھنا‘‘ کے مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے یعنی صَلّی یصلِّی صلٰوۃً کہتےہیں۔ ’’تصلیۃً‘‘ نہیں کہتے۔ اس لئے کہ صَلّی یُصلِّی تصلیۃً (واوی یعنی ’’صلو‘‘سے) کے معنی تو ہیں ’’گھوڑے کا دوڑ میں دوسرے نمبر پر آنا‘‘ جن کا لفظ ’’صلوۃ‘‘ سے کچھ تعلق نہیں۔ (’’کولمبس‘‘ بننے کی خواہش الگ بات ہے) اور یہ فعل اپنے ان معنوں کے ساتھ قرآن مجید میں کہیں استعمال بھی نہیں ہوا۔[5] اور صَلّی یصلِّی تصلیۃً (یایٔ ۔ صلی سے) کے معنی ’’ آگ میں جلانا‘‘ ہیں۔ اس کا یہ استعمال قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔ اور اس پر اپنے موقع پر بات ہوگی۔

بعض حضرات نے اس لفظ (صلوٰۃ)کے بنیادی معنی توجہ اور انعطاف یا ’’جھکاؤ‘‘ اور ’’میلان‘‘ لئے ہیں۔ اور بعض نے ’’صلوۃ‘‘ کی وجہ تسمیہ یا معنوی مناسبت یہ نکلالی ہے کہ اس میں آدمی (بحالت رکوع وسجدہ) اپنی ’’ صلا‘‘ (پیٹھ کے آخری حصہ یعنی کمر) کو حرکت دیتا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں معنی (خصوصاً پہلے معنی) کی فعل ثلاثی مجرّد کے معنی کے ساتھ ایک مناسبت تو بنتی ہے۔ تاہم اس لفظ (صلوۃ) کے معروف اصلی معنی ’’دعا‘‘ کے ہیں۔ بلکہ بعض اہل علم نے اسی لئے لکھا ہے کہ ’’صلوۃ‘‘ بمعنی ’’دعا‘‘ اتنا مشہور ہے کہ اس کا اشتقاق کسی غیر معروف (اور قرآن میں غیر مستعمل) عجیب و غریب فعل سے تلاش کرنا یا ثابت کرنا ’’کارِ بے کاراں‘‘ہے۔[6]  اور اس کا فعل (صَلّی یُصَلِّی صلوۃً) ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ تو بنیادی طور پر اپنے اندر ’’دعا‘‘ (خصوصاً دعائے رحمت و برکت) کے ہی معنی رکھتا ہے۔ البتہ موقع استعمال کے لحاظ سے اس کا مناسب ترجمہ کر لیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہ فعل کبھی اللہ عزوجل کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ کبھی رسول اللہ ﷺ کی طرف، کبھی فرشتوں کی طرف اور کبھی اہلِ ایمان کی طرف ـــ ان استعمالات پر اپنے موقع پر بات ہوگی۔

        مندرجہ بالا بحث کا تعلق تو لفظ ’’صلوۃ‘‘ کے لغوی معانی سے تھا۔ تاہم یہ لفظ دین اسلام میں ایک اصطلاحی معنی رکھتا ہے اور اس سے مراد ’’مسلمانوں کی معروف عبادت‘‘ ہے۔ جس کے لئے ہمارے ہاں فارسی سے آنے والالفظ ’’نماز‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ جس کے اصل معنی چاہے کچھ ہوں لیکن بعض دوسری اسلامی اصطلاحات (خدا، فرشتہ، روزہ،دوزخ، بہشت وغیرہ) کی طرح اب یہ لفظ بھی اسلامی اصطلاح بن گیا ہے اور ’’صلوۃ‘‘ کے مترادف (Identical) ہوچکا ہے اور دنیائے اسلام کے مشرقی حصوں میں یہ ایک جانا پہچانا لفظ ہے۔ اس لئے اس کا استعمال اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ البتہ اس کی بجائے لفظ ’’صلوۃ‘‘  کا استعمال بہتر ضرور ہے۔[7]

·       اپنے اصطلاحی معنی کے لحاظ سے لفظ ’’صلوۃ‘‘ ان الفاظ میں سے ہے جو دینِ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ نے عربی زبان کو دیئے ہیں۔ اسلام سے پہلے یہ لفظ ان موجودہ (مسلمانوں کی معروف عبادت کے) معنوں میں استعمال نہیں ہوتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے ۲۳ برس کے مسلسل عمل سے نہ صرف لفظ’’الصلوۃ‘‘ کے معنی متعین کردیئے بلکہ ’’اقامۃ الصَلوۃ‘‘ [یقیمون الصلوۃ] کا پورا طریقہ اور اس کے ظاہری تقاضے (مسجد، اوقات، اذان، جماعت وغیرہ) سمجھانے کے علاوہ اس کے باطنی تقاضوں اور اس کی ’’روح‘‘ سے بھی کماحقہ آگاہ فرمادیا۔ خیال رہے کہ’’صلّی یصلِّی‘‘ (نماز پڑھنا یا ادا کرنا) اور’’اَقَامَ الصَّلٰوۃ‘‘(نماز قائم کرنا)[8]ـــ  میں بڑا فرق ہے۔

·       ان ہی لغوی اور اصطلاحی معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اردو مترجمین قرآن نے اس حصہ آیت (يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ) کا (مصدری) ترجمہ (۱)’’نماز کو قائم رکھنا‘‘،’’ نماز قائم رکھنا‘‘ (۲)’’نماز کود رست کرنا‘‘(۳) ’’نماز کو درست رکھنا‘‘، (۴)’’نماز کو درستی سے ادا کرنا‘‘، (۵)’’ادب کے ساتھ نماز پڑھنا‘‘، (۶)’’نماز کی پابندی کرنا‘‘کی صورت میں کیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر ’’تفسیری تراجم‘‘ ہیں۔ بعض حضرات نے صرف (۷)’’نماز پڑھنا‘‘  بھی لے لیا ہے جو اتنا اچھا ترجمہ نہیں بنتا۔ باقی تمام ترجموں میں لفظ ’’أقامَ‘‘ کے لغوی اور دینی تقاضے جھلکتے نظر آتے ہیں۔

        [وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ] یہ دراصل  وَ +من  +ما +رزقنا+ھم (یعنی پانچ کلمات کا مجموعہ ہے) اس میں ’’و‘‘ تو عاطفہ بمعنی اور ہے۔ آخری ’’ھم‘‘ ضمیر منصوب بمعنی ’’ان کو‘‘ ہے۔ کلمات’’مما‘‘ اور ’’رزقنا‘‘ کی الگ الگ وضاحت کی جاتی ہے۔

 ۲:۲:۱(۵)     (مِمَّا) دراصل دو کلمات ’’مِنْ‘‘ (حرف جار بمعنی ’’میں سے ‘‘) اور ’’مَا‘‘ (موصولہ بمعنی ’’جو کچھ کہ‘‘) پر مشتمل ہے۔ اس طرح اس کا لفظی ترجمہ ہوگا ’’اس میں سے جو کچھ کہـــ‘‘ یہ دونوں کلمات یعنی ’’من‘‘ اور ’’ما‘‘ عربی زبان (اور قرآن کریم) میں بکثرت استعمال ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک متعدد معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان کلمات کے لغوی استعمالات پر بات کر لی جائے تاکہ آئندہ ان کے معنی سمجھنا آسان ہو۔

        ’’مِن‘‘ مشہور حرف الجرّ ہے اور اس کا عام ترجمہ تو ’’…میں سے‘‘ یا صرف ’’…سے‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔ تاہم مواقعِ استعمال کے لحاظ سے اس میں مختلف مفہوم پیدا ہوتے ہیں۔ معاجم (ڈکشنریوں) اور کُتبِ نحو میں اس کے متعدد معانی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ان میں سے اہم اور کثیر الاستعمال یہ ہیں:۔

(۱)     ابتداء الغایہ کے لئے یعنی کسی جگہ یا وقت سے شروع کرکے آگے کسی وقت یا جگہ (تک) کے لئے۔ اسے ’’من ابتدائیہ‘‘ کہتے ہیں اور اس کا اردو ترجمہ ’’…سے‘‘، ’’…سے لے کر‘‘، ’’…کی طرف سے‘‘ کی صورت میں کرسکتے ہیں۔

(۲)    مجاوزۃ یعنی ’’ آگے نکلنے‘‘  کا مفہوم ظاہر کرنے کے لئے جیسے کسی افعل التفضیل کے ساتھ۔ اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ تو ’’…سے‘‘ ہی ہوگا مگر مفہوم ’’…کی نسبت یا …کے مقابلے پر‘‘ کا ہوگا۔ اسے ’’من تفضیلیہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔

(۳)    تبعیض کے لئے یعنی کسی چیز میں سے کچھ حصہ (بعض) کو ظاہر کرنے کے لئے اسے ’’من تبعیضیہ‘‘ کہتے ہیں اور اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ ’’…میں سے کچھ‘‘ یا صرف ’’…میں سے‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے۔

(۴)    تبیین یا بیان کیلئے یعنی کسی ابہام (عدم وضاحت) کو دور کرنے کے لئے یا کسی چیز یاجنس وغیرہ کی وضاحت کے لئے۔ اسے ’’من بیانیہ‘‘کہتے ہیں۔ اور اس کا اردو ترجمہ ’’…کی قسم سے‘‘، ’’از قسمِ…‘‘ یا ’’…از انجملہ‘‘ کی صورت میں کرسکتے ہیں۔

(۵)    کسی عموم کی تنصیص (قطعیت) یا تاکید کے لئے۔ یہ عموماً کسی نفی یا استفہام یا نھی کے ساتھ آتا ہے اور اس کا مجرور ہمیشہ نکرہ ہوتا ہے جیسے ’’وَمَا مِن اِلٰہِ اِلَااللہ‘‘ اس ’’من‘‘ کا اردو ترجمہ ’’کوئی بھی…‘‘، ’’کچھ بھی…‘‘ سے کیا جاتا ہے۔

 (۶)    تعلیل کے لئے یعنی کسی کام کا سبب بتا نے کے لئے اس صورت میں اس ’’من تعلیلیہ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’…کی وجہ سے ‘‘، ’’…کے سبب سے‘‘ کیا جاتا ہے۔

(۷)    بدل کیلئے یعنی کسی چیز کا عوض ظاہر کرنے کے لئے۔ تب اس کا اردو ترجمہ ’’…کے بدلے‘‘، ’’…کی بجائے‘‘ کیا جاسکتا ہے۔

(۸)    اس کے علاوہ ’’مِنْ‘‘ کبھی کسی دوسرے حرفِ جار کی جگہ یعنی اس کے معنوں میں بھی استعمال ہوجاتا ہے۔ خصوصاً ’’با‘‘(بِ) بمعنی ’’کے ساتھ‘‘ ، عَنْ بمعنی ’’…کے بارے میں‘‘، ’’فِیْ‘‘ بمعنی ’’میں‘‘ یا سے ’’علی‘‘ بمعنی کے مقابلے پر یا اوپر‘‘ اور عند (ظرف) ’’کے پاس۔ کے ہاں‘‘ کے معنوں میں آتا ہے۔

        مِنْ کی یہ ممکن صورتیں یہاں اس لیے بیان کردی گئی ہیں کہ آگے چل کر جہاں جہاں ’’مِنْ‘‘ آئے گا تو ہم یہ بتا دیا کریں گے کہ یہاں ’’مِنْ‘‘ بیانیہ ہے یا تبعیضیہ ہے۔ یاتنصیص و تاکید عموم کے لیے ہے یا فلاں حرف الجر کے معنی میں آیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ تاکہ آپ کو اس کے مطابق اصل لفظی اردو ترجمہ معلوم ہوجائے۔

       ’’ ما‘‘ عربی زبان میں ’’ما‘‘ کے معانی اور مواقع استعمال بھی متعدد ہیں۔ ان میں سے زیادہ عام اور بکثرت استعمال کی صورتیں حسب ذیل ہیں:۔

(۱)     ’’ما‘‘ موصولہ: یعنی الذی کے معنوں میں مگر اس فرق کے ساتھ کہ یہ (ما) زیادہ تر ’’غیر عاقل‘‘ چیزوں کے لئے آتا ہے اور مبنی بھی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’جو کہ‘‘ہے تاہم سیاقِ عبارت کے لحاظ سے ’’جسے‘‘، ’’جس کو‘‘، ’’جس کا‘‘ سے بھی ترجمہ ہوسکتا ہے۔ چونکہ اس میں عموم (اور وسعت) کے معنی بھی ہوتے ہیں اس لئے بعض مترجمین اس کا ترجمہ ’’جو کچھ کہ‘‘ (بمعنی ’’جو کچھ بھی کہ‘‘) سے کیا ہے۔ اگر چہ بعض نے صرف ’’جو‘‘ سے بھی کام چلا لیا ہے۔

(۲)    ’’ما‘‘استفہامیہ: یعنی یہ اسم استفہام کے طور پر بھی آتا ہے اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ ’’کیا؟‘‘، ’’کون سی چیز‘‘ سے کیاجاتا ہے۔ کبھی اس کے ساتھ ’’ذا‘‘ لگا دیتے ہیں۔ ’’ماذا‘‘ کا ترجمہ عموماً ’’کیا کچھ‘‘ کرتے ہیں۔

(۳)    ’’ما‘‘نافیہ: کسی فعل (ماضی) میں منفی معنی پیدا کرنے کیلئے شروع میں لگتا ہے۔ اس وقت اسکا ترجمہ ’’نہ‘‘یا ’’نہیں‘‘ کیا جاتا ہے۔

(۴)    ’’ما‘‘الحجازیہ یا ’’ما‘‘ مُشابھۃ بِلَیْسَ: یہ عموما جملہ اسمیہ کے شروع میں لگاتے ہیں جس سے خبر منصوب ہوجاتی ہے یا خبر پر ’’بِ‘‘ لگا کر اسے مجرور بولتے ہیں۔ چونکہ ’’لَیْسَ‘‘ بھی جملہ اسمیہ کے شروع میں آکر یہی عمل کرتا ہے۔ اس لئے اسے ’’مشابہ بلیس‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس سے نفی میں ایک زور پیدا ہوتا ہےـــ عربی گرامر کی عام کتابوں میں اسے بھی ’’مانا فیہ‘‘ لکھ دیتے ہیں مگر صحیح یہ ہے کہ’’مانا فیہ‘‘ وہ ہوتا ہے جو کسی فعل (ماضی یا مضارع)کے شروع میں لگ کر اس میں منفی کے معنی پیدا کرتا ہے۔

(۵)    ’’ما‘‘ ظرفیہ جس میں عموماً وقت کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’جب تک‘‘، ’’جتنی دیر تک‘‘ کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ ’’ما‘‘ کو تعجب اور مصدر کے معنی پیدا کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

        ’’ما‘‘ کے متعلق بھی یہ تفصیل یہاں اس لئے بیان کی گئی ہے کہ آئندہ جہاں جہاں لفظ ’’ما‘‘ آئے گا ہم یہ بتا دیا کریں گے کہ (مثلاً) یہ ماموصولہ ہے یا استفہامیہ ہے یا حجازیہ ہے وغیرہ۔ اس طرح آپ کو اس کا لفظی اردو ترجمہ معلوم کرلینے میں آسانی ہوگی۔

        یہاں آیت ِ زیر مطالعہ میں ’’من‘‘  تبعیضیہ اور’’ما‘‘ موصولہ ہے۔ اس لئے اس کا اصل ترجمہ (لفظی)تو ہوگا ’’اس میں سے جو کچھ بھی کہ …‘‘

۱:۲:۲(۶)     ’’رَزَقنَا‘‘  کا مادہ ’’رزق ‘‘ اور وزن ’’فَعَلْنَا‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجردرزَقَ … یَرزُق رِزْقًا(باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں (۱)…کو…عطا کرنا  (۲)…کو…دینا (۳)…کو روزی دینا(۴)کا شکر ادا کرنا۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ ۔۔مقدم الذکر (پہلے) دو معنوں (دینا۔ عطا کرنا) کی صورت میں اس کے لئے دو مفعول درکار ہوتے ہیں [جس کو دیا جائے اور جو چیز دی جائے]۔ اور تیسرے اور چوتھے معنی کے لئے صرف ایک مفعول درکار ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل کا استعمال زیادہ تر ایک مفعول کے ساتھ ہواہے۔ یا مفعول کے ساتھ ’’من‘‘ یا ’’ما‘‘ کا استعمال زیادہ ہوا ہے جیسے یہاں آیت زیر مطالعہ میں ’’ما‘‘ آیا ہے۔ ایسے مواقع پر ’’ما موصولہ‘‘ کو ’’ما مصدریہ‘‘ کے معنوں میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ یعنی ’’ مِمَّا رَزَقْنا‘‘ بمعنی ’’مِن رِزْقِنَا‘‘(ہماری عطاء سے) لیاجاسکتا ہے اور اسی کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’ہمارا دیا‘‘ہے اور’’ مِمَّا رَزَقْناھُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’ہماری دی ہوئی روزی میں سے‘‘کرنے کی وجہ بھی یہی مصدری معنی کی بنا پر درست ہوسکتے ہیں ورنہ یہ ترجمہ لفظوں سے تو بہت دور ہے۔

۱:۲:۲(۷)     [يُنْفِقُوْنَ] کا مادہ ’’ن ف ق‘‘ اور وزن ’’یُفْعِلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد نَفَقَ ینفُق نَفقًا (باب نصر سے) بمعنی (تجارت کا) رونق پانا آتا ہے اور نِفق ینفَق نَفَقًا (باب سمع سے) بمعنی (رقم کا) ختم ہو جانا یا کم رہ جانا۔ اور بعض دیگر معانی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس سے فعل ثلاثی مجرد کا کوئی صیغہ نہیں آیا۔ البتہ اس (مادہ) سے مزید فیہ کے ابواب افعال اور مفاعلہ سے کچھ افعال اور بعض مشتقات بکثرت آئے ہیں۔

        ’’يُنْفِقُوْنَ‘‘ بابِ افعال سے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اِنفاق۔ اَنفَق … یُنفِق اِنفاقاً کے معنی ہیں: …کو خرچ کرنا یا …کو خرچ کر ڈالنا۔ ان معنوں کے لئے یہ فعل ہمیشہ متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ فعل زیادہ تر ان ہی معنی کے لئے آیا ہے۔ ۔۔عربی زبان میں یہ فعل بعض دفعہ ’’لازم‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اَنفَقَ الرّجلُ=خرچ کے لئے کچھ پاس نہ رہنا ـــبے زادِ راہ رہ جانا۔ انفَقَ التاجرُ=گاہک زیادہ ہونا۔ کاروبار بڑھنا۔ تیزی میں آنا یا زیادہ بکری والا ہونا وغیرہ ـــتاہم قرآن کریم میں یہ فعل نہ تو بطور فعل لازم آیا ہے اور نہ ہی ’’خرچ کرنا‘‘ کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال ہوا ہے۔

        یہ تو اس لفظ (انفاق) کی لغوی بحث تھی۔ تاہم  ــــ  صلوۃ کی طرح  ــــ یہ لفظ اپنے ایک اسلامی اصطلاحی معنی بھی رکھتا ہے۔ اس سے محض ’’خرچ کرنا‘‘ کی بجائے عموماً ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘(اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرنا) مراد لیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں کبھی تو اس مقصد کے لئے اس فعل کے ساتھ’’فی سبیل اللہ‘‘یا ’’اِبتِغَاءَ مَرضَاتِ اللہ‘‘یا ’’ اِبتِغَاءَ وَجہِ اللہ‘‘کے الفاظ مذکور ہوتے ہیں۔ اور کبھی ان قیود کے بغیر مطلقاً استعمال سے بھی معنی ٔ مراد یہی ہوتے ہیں۔ جیسے آیت زیر مطالعہ میں ہے۔

        قرآن کریم میں یہ فعل (اِنفاق)اور اس کے مشتقات کم از کم ستر (۷۰) مقامات پر آئے ہیں اور اس کا استعمال لغوی اور اصطلاحی دونوں طرح ہوا ہے۔ اور عموماً آیت کا سیاق و سباق یا بعض دفعہ کوئی قولِ ماثور معنیٔ مراد کی تعیین میں مدد دیتا ہے۔ جیسا کہ اپنے اپنے موقع پر واضح ہوگا۔

 

۲:۲:۲      الاعراب

      الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ

        [الَّذِيْنَ] کی بلحاظ اعراب یہاں تین صورتیں ممکن ہیں۔ دو(۲) رفع کی اور ایک(۱) صورت جر کی بنتی ہے۔ بعض نحویوں نے ایک چوتھی صورت (نصب) کے امکان کا بھی ذکر کیا ہے۔ تفصیل یوں ہے۔

(۱)     اسے (الَّذِيْنَکو) اسم موصول مبتداً ـــ لہٰذامرفوع سمجھا جائے۔یعنی ’’الّذین‘‘اپنے صلہ (يُؤْمِنُوْنَ …سے… يُؤْقِنُوْنَ  تک (آیت نمبر۳،۴)کے ساتھ مل کر مبتدا ہو اور (اس صورت میں) آیت نمبر۵ اُولئکَ علیـــ سے المفلحون) اسکی خبر سمجھی جائے۔اس صورت میں اردو ترجمہ : ’’وہ (لوگ)جو کہ (آیت نمبر۳،۴ کا ترجمہ)…ہیں‘‘وہ سب…(آیت نمبر۵ کا ترجمہ)… ہیں؍ہوں گے‘‘۔

(۲)    ’’ الَّذِيْنَ‘‘ کا صلہ صرف زیر مطالعہ آیت نمبر۳، (يُؤْمِنُوْنَ …سے…يُنْفِقُوْنَتک) کو سمجھا جائے اور اس صلہ موصول (یعنی پوری آیت نمبر۳) کوایک محذوف مبتدأ کی خبر ---لہٰذا مرفوع ـــ  مانا جائے یعنی برتقدیر (ھم)الّذِیْن…ینفقون تک۔۔ اس صورت میں اردو ترجمہ ہوگا ’’(وہ)ایسے لوگ ہیں جو …ہیں‘‘ـــاس صورت میں آیت نمبر۴ کا ترجمہ الگ ہوگا۔ اگرچہ اس کا عطف آیت نمبر۳ پر ہوگا یعنی ایک طرح وہ (آیت نمبر۴) دوسری خبر ہوگی

(۳)    ’’ الَّذِيْنَ‘‘ کو اس کے صلہ (يُؤْمِنُوْنَ …سے…يُنْفِقُوْنَتک) سمیت سابقہ آیت (نمبر۲) کے ’لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘ کی صفت یا اس کا بدل قرار دیا جائے اور چونکہ موصوف یا مُبْدَل منہ (’’ا لْمُتَّقِيْنَ‘‘) مجرور بالجر (لِ)ہے۔ لہٰذا صفت یا بدل ہونے کی بنا پر ’’الذین‘‘ کو بھی مجرور سمجھا جائے گا۔ اس صورت میں بھی اردو ترجمہ ’’جو (کہ)…ہیں‘‘ (تا اختتام آیت۳) سے کیا جائے گا ـــ اور یہ اعراب (یعنی ’’الذین …ینفقون‘‘کو ’’ الْمُتَّقِيْنَ‘‘کی صفت یا بدل مجرور سمجھنا) زیادہ معقول اور موزوں اعراب ہے اور شاید اسی لئے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’جو‘‘ یا ’’جو کہ ‘‘ سے کیا ہے۔ اگرچہ بعض نے اسے مرفوع (اوپر رفع کی دو صورتیں بیان ہوئی ہیں)سمجھتے ہوئے ’’وہ جو‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔

(۴)    بعض نحوی حضرات نے ایک چوتھی صورت (اعراب نصب کی) اضمارِ ’’اَعْنِی‘‘ یا تقدیر ’’اَعْنیِ‘‘ (یعنی میں مراد لیتا ہوں یا میرا مطلب ہے (I mean to say) بیان کی ہے۔ اس طرح ’’الذین‘‘فعل ’’اَعْنَی‘‘ کا مفعول بہٖ سمجھ کر منصوب قرار دیا جاسکتا ہے ــــ بات یہ ہے کہ اسمائے مبنیہ کی صورت میں (جن کا اعراب ظاہر نہیں ہوتا) نحویوں کی عادت ہے کہ وہ اس میں رفع نصب جر تینوں اعراب ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اوپر ہم نے ’’الَّذین‘‘ کی رفع یا جر کے نسبتاً معقول اور قابلِ فہم اعراب بیان کردیئے ہیں۔ نحوی حضرات کو نصب کے لئے اور کوئی وجہ نہ ملے تو اضمار ’’اَعْنیْ‘‘ کاسہارا لیتے ہیںـــ اضمار ’’اعنی‘‘ کے ساتھ نصب کی توجیہ بعض خاص مواقع کے لئے تو موزوں ہے۔ تاہم اسے ہر جگہ استعمال کرنا محض فنی یاذہنی ’’بازیگری‘‘ ہے اور عموماً دور کی کوڑی لانے والی بات ہوتی ہے۔ جیسے یہاں اس آیت (زیر مطالعہ) میں۔

[یُؤْمِنُوْنَ]فعل مضارع معروف مع فاعل (ضمیر متصل’’ھم‘‘) جس کی علامت یہاں ن سے ماقبل والی ’’واو‘‘ ہے۔ یہ جملہ فعلیہ ہو کر ’’الَّذِیْنَ‘‘ کا صلہ ہے۔ یا اگلی عبارت کی بنا پر جو مل کو پورا ’’صلہ‘‘ بنتی ہے۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کے صلہ میں شامل ہے۔

[بِاالْغَیْبِ] کے اعراب یعنی ترکیب نحوی کے لحاظ سے کئی صورتیں ممکن ہیں مثلا: (۱)جار (بِ) اور مجرور (الغَیْبِ) مل کر فعل ’’ یُؤْمِنُوْنَ‘‘ سے متعلق ہے۔ یعنی اس میں فعل ’’ یُؤْمِنُوْنَ‘‘ کی مزید وضاحت ہےـــ گویا ’’کس چیز پر ایمان رکھتے ہیں؟‘‘ کا جواب ہے (۲)بعض نحوی حضرات نے ’’بالغیبِ‘‘ کو ’’حال کا قائم مقام سمجھ کر اسے محلاً منصوب قرار دیا ہے۔ اس صورت میں ’’يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ‘‘ کا اردو ترجمہ ہوگا ’’وہ (مومنوں سے)غائب ہوتے ہوئے بھی ایمان رکھتے ہیں‘‘ یعنی وہ منافق نہیں جو صرف مومنوں کے سامنے (پبلک میں) تو ایمان کا اقرار کرتے ہیں مگر ان کی غیر موجودگی میں یا ان سے پوشیدہ (پرائیویٹ حلقوں میں) ان کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے ـــاس توجیہہ کو تفسیری نکتہ آفرینی تو کہا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ خواہ مخواہ کی اعرابی کھینچا تانی ضرور ہے۔

(۳)    اس کی ایک تیسری اعرابی صورت یہ ہے (اور یہ زیادہ واضح اور بہتر معلوم ہوتی ہے) کہ یہاں ’’با‘‘(بِ) کو فعل ’’یؤمنون‘‘ کا صلہ سمجھا جائے۔ اس طرح ’’بالغیب‘‘ مفعول بہٖ ہوکر محلاً منصوب ہوگا ـــ یہ اس لئے بھی بہتر ہے کہ ’’تصدیق کرنا‘‘ یا ’’ایمان لانا‘‘ کے معنوں کے لئے فعل ’’آمَن یُؤمن‘‘ کے ساتھ یہ ’’صلہ‘‘ (بِ) ضرور آتا ہے۔ [دیکھئے اوپر ’’یومنون‘‘ کی لغوی بحث۱:۲:۲: (۱)]

[وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلوۃَ]یہ بھی فعل مع فاعل (يُؤْمِنُوْنَکی طرح) ہے اور   [الصَّلوۃَ]اس کا مفعول بہ منصوب ہے جس میں علامت ِ نصب ’’ۃ‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے اور یہ پورا جملہ ’’واو‘‘ (وَ) کے ذریعے اپنے سے پہلے جملے يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ‘‘ پر عطف ہے۔ (یعنی یہ جملہ معطوف ہے اور سابقہ جملہ معطوف علیہ ہے) ترجمہ میں دونوں فقرے ’’اور‘‘ سے ملا دیئے جاتے ہیں۔ترجمہ بحث ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکا ہے۔(دیکھئے:۱:۲:۲( ۳)اور(۴)۔

[وَ مِمَّا] اس میں ’’واو‘‘ تو عاطفہ (بمعنی اور) ہے اور ’’مما‘‘ جار مجرور (من+ما)ہے۔ ’’ما‘‘ چونکہ اسم موصول مبنی ہے اس میں جر کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ اس ’’ما‘‘ موصولہ کا صلہ (رَزَقْنٰھُمْ)ہے جس میں ’’رزقنا‘‘  تو فعل ماضی معروف صیغہ تعظیم (جمع مذکر) ہے اور اس میں ضمیر فاعل ’’نحن‘‘ متصل موجود ہے اور (ھم) اس فعل (رزقنا) کا مفعو ل بہ(ضمیر منصوب متصل) ہے۔ اس میں ’’ما‘‘ (موصولہ) کی ضمیر عائد اور فعل (رزقنا) کا دوسرا مفعول بھی محذوف ہے برتقدیر۔ ’’رزقنَا ھُمُوہ‘‘[9] یا ’’رَزَقْناھُم اِیَّاہ‘‘۔[10]  [يُنْفِقُوْنَ]فعل مضارع معروف (مع ضمیر فاعل مستتر ’’ھم‘‘) اپنے سے پہلے فعل ’’ یُقِیْمُوْنَ‘‘ پر بذریعہ ’’واو‘‘ (جو مِمَّا سے پہلے ہے) عطف ہے۔ اس عبارت (وَمِمَّا رَزَقْنَا ھُمْ یُنْفِقُوْنَ) کی Parapharazingیا سیدھی سادہ نثر ہوگی۔ ’’وَیُنْفِقُوْنَ مِمَّا رَزَقْنَاھُمْ‘‘ـــگویا آیت ِ زیر مطالعہ میں افعال کی ترتیب یوں ہے: ’’یُؤْمِنُونَ…وَیُقِیْمُوْنَ … وَیُنْفِقُوْنَ …‘‘ مگر رؤ وس الآ ی  یا ’’فاصلہ‘‘ کی رعایت سے ’’ینفقون‘‘ کو آخر پر لایا گیا ہے۔[11]

۳:۲:۲       الرسم

       [الَّذِيْنَ]ہمزۃ الوصل کے اثبات اور لام واحدہ مشددہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اور یہی اس کا رسم معتاد بھی ہے (دیکھئے سورۃ الفاتحہ میں بحث’’الذین‘‘)

[يُؤْمِنُوْنَ]میں ’’یاء مضمومہ‘‘ کے بعد ’’و‘‘ لکھی جاتی ہے (یو) اور قراء ت حفصؒ میں چونکہ اس ’’ی‘‘ کے بعد ہمزہ (القطع) پڑھا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ ’’ہمزہ‘‘ ’’و‘‘ کے اوپر لکھا جاتا ہے (یؤ) اصل رسم عثمانی میں ہمزہ کے لئے کوئی علامت نہیں ڈالی گئی تھی۔ ہمزۃ القطع کے لئے اس وقت اسلامی ملکوں (کے مصاحف) میں جو مختلف علامات]# ء ،E ، ( زرد گول نقطہ) وغیرہ) مستعمل ہیں یہ سب دوسری ہجری کے بعد کی ایجادہیں۔ ’’صَرْفی ‘‘ اعتبار سے ’’یُؤْ‘‘ کو ’’یُوْ‘‘ پڑھنا جائز ہے اور حفصؒ کے علاوہ بعض دوسری قراء ت (مثلاً ورش یا ابوعمرو) میں اسے ’’یُوْ‘‘ ہی پڑھاجاتا ہے جسے ہمزہ کی تخفیف کہتے ہیں (تاہم اختلافِ قراء ت کی بنیاد روایت ہے۔ صرفی یا نحوی قیاس نہیں ہے) بہر حال   قراء توں کا یہ فرق اب علامت ِ ضبط کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے۔ اصل رسمِ عثمانی ’’یومنون‘‘ ہر صورت میں برقرار رہتا ہے۔

[بِالْغَيْبِ] میں ’’با‘‘(بِ) کو ہمزۃ الوصل سے ملا کر لکھا جاتا ہے اور اس کی عام قیاسی امل بھی یہی ہے۔ اس طرح [وَ يُـقِيْمُوْنَ] کی عثمانی اور قیاسی املا (رسم) بھی ایک ہی ہے۔

۳:۲:۲:(۱)     [الصَّلٰوۃَ]یہ لفظ قرآن کریم میں (رسم عثمانی کے اتباع میں)ہمیشہ اسی طرح ’’ل‘‘کے بعد ’’و‘‘ اور آخر پر تائے مربوطہ (ۃ) کے ساتھ لکھا جاتاہے۔ یہ ’’واو‘‘ دراصل ’’الف‘‘ کا کام دیتی ہے یعنی اسے پڑھا ’’صلاۃ‘‘ ہی جاتا ہے۔ (اور عام عربی املاء میں تو اسے لکھا بھی اسی طرح ’’صلاۃ‘‘ ہی جاتا ہے۔) قرآن کریم میں یہ لفظ معرف باللام شکل میں (الصلٰوۃ) پینسٹھ (۶۵) دفعہ اور اسم ظاہر کی طرف مضاف ہو کر دو دفعہ آیا ہے۔ (صلوۃ الفجر اور صلوۃ العشاء ـــ النور۵۸) ان تمام مقامات پر یہ اسی طرح ’’صلوۃ‘‘ (الف بصورت واو کے ساتھ) لکھا جاتا ہے۔ البتہ اگر یہ لفظ کسی ضمیر کی طرف مضاف ہو (اور اس طرح بھی یہ لفظ قرآن کریم میں گیارہ (۱۱) دفعہ آیا ہے) تو اس وقت یہ اکثر ’’واو‘‘ کی بجائے ’’الف‘‘ سے ہی لکھا جاتا ہے مثلاً ’’صلاتی‘‘، ’’صلا تھم‘‘، ’’صلا تہ‘‘ وغیرہ لیکن ان مضاف (الی ضمیر) ہو کر آنے والے (گیارہ) مواقع میں سے بھی بعض جگہ مقرر جگہوں پر اسے ’’واو‘‘ کے ساتھ (صلوۃ) ہی لکھتے ہیں۔ ان مقامات کا بیان اپنی اپنی جگہ پر آئے گا۔

        غالباً لفظ ’’صلوۃ‘‘ میں یہ ’’واو‘‘ اس بات کی علامت کے طور پر لکھی گئی تاکہ معلوم رہے کہ اس لفظ کا اصل مادہ ’’ص ل و‘‘ ہی ہے۔ صرفی تعلیل ـــیا اہل عرب کے نطق ـــکے مطابق یہ ’’واو‘‘ (اور ناقص یائی کی ’’یا‘‘ بھی) الف میں بدل جاتی ہے تاہم اس کا قرآنی رسم الخط ’’صلوۃ‘‘ ہی رہتا ہے۔ اس طرح کے سات اور الفاظ ’’الزَکوٰۃ، الحَیوۃ، الرِبوا، الغَدوۃ، مِشکوۃ، النَجوۃ اور مَنوۃ ‘‘ بھی ہیں۔ (ان سب میں ’’واو‘‘کو ’’الف‘‘پڑھا جاتا ہے) اور ان سب کی املاء (بمطابق رسمِ عثمانی) میں مندرجہ بالا اصول ]یعنی صرف کسی ضمیر کی طرف مضاف ہوتے وقت الف کے ساتھ ورنہ باقی صورتوں میں ’’واو‘‘کے ساتھ لکھنا] مد نظر رکھا جاتا ہے۔[12] ان کا بیان اپنے اپنے موقع پر آئے گا۔

۳:۲:۲:(۲)     [وَمِمَّا]یہ بیان ہوچکا ہے کہ یہ لفظ (مِمَّا) دراصل مِنْ مَا (یعنی مِنْ جارّہ اور مَا موصولہ کا مرکب) ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں قریباً ایک سو پندرہ (۱۱۵) دفعہ آیا ہے او رہر جگہ اسی طرح ملا کر( موصول) لکھا جاتا ہے۔ ماسوائے تین مواقع کے (النساء:۲۵، الروم:۲۸، المنافقون:۱۰) پھر ان تین مواقع میں سے بھی دو جگہ تو یہ بالاتفاق الگ الگ (مقطوع یا مفصول) یعنی بصورت ’’مِنْ مَا‘‘ لکھا جاتا ہے اور ایک جگہ (المنافقون:۱۰) کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہاں اسے مقطوع لکھنا ہے یا موصول۔ ہر ایک کا بیان اپنی اپنی جگہ پر آئے گا۔[13]

۳:۲:۲:(۳)     [رَزَقْنٰھُمْ]جو دراصل’’رزقنا+ھم‘‘ہے۔ (اور عام عربی املاء (رسم قیاسی) میں اسی طرح (رَزَقْناھُمْ) لکھا جاتا ہے)۔ مگر قرآن کریم میں ’’ن‘‘کے بعد والا ’’الف‘‘ لکھنے میں حذف کر دیا جاتا ہے۔ (پڑھا ضرور جاتا ہے) اور اسے ’’ھم‘‘ کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے۔ بلکہ قرآن کریم میں تو ضمیر متصل فاعل جمع متکلم (…نَا) عموما ہر جگہ[جیسے خَلَقْنَا، عَذَّبْنَا، اَھْلَکْنَا وغیرہ میں] عموماً ہر جگہ اسی طرح بحذفِ الف (بعد النون) اور ما بعد کے ساتھ موصول یعنی ملا کر (نٰـــ) لکھی جاتی ہے جب کہ بعد میں ساتھ کوئی ضمیر منصوب آرہی ہو۔ اسم ظاہر(منصوب مفعول) کے ساتھ اسے باثبات الف ہی لکھاجاتا ہےـــ اس قسم کے کلمات [ضمیر متصل فاعل جمع متکلم کے ساتھ ضمیرمنصوب ملا کر لکھنا]کی کتابت رسم عثمانی کی خصوصیت ہے۔ عام عربی قواعد املاء کی رو سے ایسا (مثلاً خلقنٰہ) لکھنا درست نہیں۔ مگر قرآن کریم کی کتابت میں اس کی خلاف ورزی ممنوع ہے۔ یعنی ’’خلقناہ‘‘ لکھنا غلط ہوگا۔

۳:۲:۲:(۱)      [یُنْفِقُوْنَ] کی املاء عام قیاسی املاء کے مطابق ہے۔

۲:۲:۴      الضبط

                        الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ

        آیت زیر مطالعہ میں اختلاف ِ ضبط کے حسب ذیل مواقع موجود ہیں:

(۱)     ھمزۃ الوصل کی علامت (صلہ) ڈالنا یا نہ ڈالنا اور ڈالنے کی صورت میں اس کی صورت کا اختلاف ۔# اس اختلاف کا اثر کلمات ’’الذین‘‘،’’بالغیب‘‘ اور ’’الصلوٰۃ‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۲)    ھمزۃ القطع کی علامت ڈالنا یا نہ ڈالنا اور ڈالنے کی صورت میں اس کی شکل کا اختلاف ۔#  اس کا اثر کلمہ ’’یومنون‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۳)    واو ساکنہ ماقبل مضموم پر علامت سکون ڈالنا یا نہ ڈالنا۔ اس اختلاف کا اثر کلمات ’’يُؤْمِنُوْنَ‘‘، ’’يُوْقِنُوْنَ‘‘ اور ’’ يُنْفِقُوْنَ‘‘ کے ضبط میں نمایاں ہوگا۔

(۴)    یا  ی   ساکنہ ماقبل مکسور پر علامت سکون ڈالنا یا نہ ڈالنا اور اس کے ماقبل پر کسرہ (ــــــِــــ) یا علامت اشباع (ــــــٖــــ) یعنی کھڑی زیر ڈالنا۔ اس اختلاف کا اثر ’’ الَّذِيْنَ‘‘ اور ’’ يُـقِيْمُوْن‘‘ کے ضبط پر پڑے گا۔

(۵)    محذوف الف کو ظاہر کرنے کی علامت ِ ضبط کا فرق (ــــــٰــــ  یا  ـــــــَــــــــٰــــ) اس کا اثر کلمات ’’ الصلوٰۃ‘‘اور’’رَزَقْنٰھُمْ‘‘کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۶)    الف ساکنہ کے ماقبل(مفتوح) پر فتحہ(ــــــَــــ)یا علامت اشباع(ــــــٰــــ)یعنی کھڑی زبر ڈالنا۔اس کا اثر کلمہ ’’ممّا‘‘کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۷)    نون مخفاۃ (نون ساکنہ جس کے بعد کوئی حرف اخفاء آرہا ہے) پر علامت سکون ڈالنا یا نہ ڈالنا۔ عرب اورافریقی ملکوں میں نون مُخْفاۃ کو علامت ِ سکون سے خالی رکھا جاتا ہے۔ مصحف حلبی اور تجویدی قرآن میں اس کے لئے ایک خاص علامت ِ سکون وضع کی گئی ہے۔ اس کا اثر ’’يُنْفِقُوْنَ‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۸)    راء مفخمہ کو بصورت’’ر‘‘#  لکھنا اور قلقلہ کے لیے خاص قسم کی علامت سکون (۔۸۔)کا اہتمام صرف تجویدی قرآن میں کیا گیا ہے اس کی مثال’’رزقنھم‘‘ ہے۔

(۹)       افریقی ممالک میں نون متطرفہ پر علامت ِاعجام نہ ڈالنا،یااس کی جگہ کا اختلاف نیز افریقی ممالک میں،ف  اور ق،کو لکھنے کا فرق۔#اس کا نمونہ آپ کلمات،الذین،رزقنھم،یقیمون،اور ینفقونکے ضبط میں دیکھیں گے۔

اسی طرح مجموعی طور پر آیت زیر مطالعہ کے کلمات میں اختلاف ضبط کی مندرجہ ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں:

 

 



 [1] البتہ اس لفظ کے معانی کی وسعت، اہمیت اور اس کے تقاضوں کے (تسلسل) بیان کے علاوہ دوسرے قریب المعنی الفاظ مثل اسلام ، تصدیق وغیرہ سے اس کے فرق کی وضاحت وغیرہ کے لیے مستند کتب ِ تفسیر و عقائد کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

 

  [2] تفصیل کے لیے دیکھئے LANE   کی ’’مد القاموس‘‘ یا راغب کی ’’المفردات‘‘ تحت مادہ ’’قوم‘‘۔

 [3] سوائے ایک جگہ (النحل:۸۰) کے جہاں اس فعل کا مصدر ’’اقامۃ‘‘ بمعنی’’قیام کرنا‘‘ یا ’’ٹھہرنا‘‘ آیا ہے اور دراصل وہاں بھی ایک مفعول فیہ مقدر ہے۔ یعنی فعل متعدی ہی ہے۔

 

[4] اور ’’صلا‘‘  (جو در اصل ’’صَلَوٌ‘‘ ہے) اونٹنی یا گھوڑی۔ (یا گائے بھینس) کے جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جہاں سے پیٹھ یا کمر کا حصہ نیچے کی طرف مڑتا ہے۔ یعنی دُم سے اوپر اور پیٹھ کے نیچے دونوں طرف کا حصہ۔ جو بچہ کی پیدائش سے پہلے نیچے جھک جاتا ہے۔ بلکہ دُم سے اوپر دونوں جانب گڑھے سے نمودار ہوجاتے ہیں۔ ’’صلا‘‘ (پنجابی ڈُھگ) بلکہ دونوں’’صلا‘‘ (صلوان یعنی تثنیہ) کا یہ جھکاوٗ جانوروں میں ان کے بچے کی ولادت کے قرب (نزدیک ہونے)  کی یقینی علامت ہوتی ہے۔

[5] یہاں سے یہ نکتہ ذہن میں رکھ لیجئے کہ کسی ’’مادہ‘‘ سے مستعمل تمام افعال اور دیگر مشتقات میں ہمیشہ کسی بنیادی معنوی یکسانیت یا مشابہت کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ اس کی متعدد مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

 

[6]  روح المعانی ج۱ ص ۱۱۶

[7]   یہ عجیب بات ہے کہ بعض حضرات ’’اللہ‘‘ کی بجائے تو ’’خدا‘‘ بلکہ ’’قانونِ خداوندی‘‘ جیسے عجمی الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ مگر انہوں نے ’’نماز‘‘ کو عجمی لفظ سمجھ کر اپنے ’’مفہوم قرآن‘‘ سے یکسر خارج کر دیا ہے۔ اس کا بدل انہوں نے ’’اجتماعاتِ صلوٰۃ میں شرکت‘‘ اختیار کیا ہے۔ مگر وہ بھی کچھ اس قسم کے ذو معنی یا مبہم انداز میں کہ چاہیں تو اس سے ’’باجماعت نماز‘‘ مراد لے لیں اور چاہیں تو کسی انجمن یا بزم یا جماعت وغیرہ کے ’’اجلاس‘‘ سمجھ لیں۔

[8]   عربی میں مصدری معنی سمجھانے کے لیے مصدر کے علاوہ ’’ماضی مضارع‘‘ کے پہلے صیغے یا صرف ماضی کے پہلے صیغے سے کام لیتے ہیں۔

  ’’ اقامۃ الصَلٰوۃسے مراد ’’نماز کواس کی تمام شرائط اور تقاضوں کے ساتھ ادا  کرنااور اس میں بغیر کسی کمی بیشی کے رسول اللہﷺ کے طریقے کی اتباع کرنا‘‘ ہے۔[  لفظ ’’اقام‘‘(تحت يُـقِيْمُوْنَ) کے لغوی معانی پر بھی ایک دفعہ پھر نظر ڈال لیجئے]

 

 [9]  اگر منصوب ضمیروں ’’ھُمْ‘‘ یا ’’کُمْ‘‘ یا ضمیر مرفوع متصل (مثلاً  قَتَلْتُمْ میں) کے بعد کوئی ضمیر منصوب آجائے تو اس ’’ھُمْ‘‘، ’’کُمْ‘‘ یا ’’ثُمْ‘‘ کی ’’میم‘‘ کو (جسے اصطلاحاً میم الجمع کہتے ہیں) ضمہ (ـــــُـــــ) دے کر اس کے بعد ایک واو لگاتے ہیں اس ’’مُ‘‘ کو ’’مُوْ‘‘ پڑھنے کے کچھ اور قواعد بھی ہیں مگر ان کا تعلق روایت حفص کے علاوہ بعض دوسری قراء ت سے ہے جن کو ہم نے اپنے موضوع بحث میں شامل نہیں کیا ۔دیکھئے مقدمہ

 [10] ضمیر منفصل منصوب ’’اِیَّاہ‘‘ کا یہ استعمال بھی ہم صرف محذوف ضمیر کی نحوی مثال سمجھانے کے لیے لائے ہیں اصولی طور پر یہ ضمیر فعل سے پہلے لاتے ہیں۔ (دیکھئے بحث ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ ۱:۴:۱)

 

[11] ا  لفاظ کی تقدیم و تاخیر سے سادہ نثرمیں یہ ’’شاعری‘‘ کا سا انداز اور اسلوبی جمال پیدا کر دینے کی بکثرت مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کفار کے آنحضرت (ﷺ) کو ’’شاعر‘‘ کہنے کی۔ ورنہ ان کے لیڈر بھی یہ بات جانتے( اور مانتے )تھے کہ اصطلاحی اورفنی معنوں کے لحاظ سے قرآن اور ’’شعر‘‘ میں کوئی تعلق نہیں۔ یہ نکتہ ذہن میں رکھیے۔ آگے چل کر کفار کے اعتراضات کو سمجھنے میں مدد دے گا۔

 

[12]   اگرچہ ان میں سے بعض کلمات قرآن کریم میں کہیں بھی کسی ضمیر کی طرف مضاف (تسلسل) ہوکر نہیں آئے۔ اس قسم کے کلمات ِقرآنی کے رسم عثمانی کے مطابق املاء کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے دیکھیے المقنع ص۵۴ ببعد، العقلیہ ص۸۰ ببعد، دلیل الحیران ص ۲۸۱ببعد، نثر المرجان ج۱ ص۶۸ ببعد اور سمیر الطالبین ص۸۷ ببعد۔

[13]    مزید بحث کے لیے دیکھئے نثر المرجان ج۱ص۸، لطائف البیان ج۲، ص۵۹، العقیلہ: ص۸۷، المقنع ص ۶۹، سمیر الطالبین:ص۹۲۔