سورۃ البقرہ آیت نمبر ۳۰

۲۱:۲       وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً    ۭ  قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ    ۚ  وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ   ۭ  قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (۳۰)

۱:۲۱:۲      اللغۃ

       [وَ] ’’و‘‘ کے معانی و استعما ل پر ۱:۴:۱(۳)اور ۱:۷:۲(۱)میں بات ہو چکی ہے ۔ یہاں بھی واو عاطفہ نہیں بلکہ مستانفہ ہے ۔ یہاں سے ایک نیا مضمون شروع ہو تا ہے جس کا پچھلے جملے (کے مضمون)پر عطف نہیں ہو سکتا ۔ اردو ترجمہ ’’اَوْر‘‘سے ہی کیا جاتا ہے۔

۱:۲۱:۲(۱)     [اِذْ] عربی زبان میں یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعما ل ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل یوں ہے:۔

(۱) بنیادی طور پریہ ’’ظرفیہ‘‘ہوتا ہے اور عموماًیہ ظرف زمان( وقت) کا مفہوم رکھتا ہے یعنی یہ ’’حِیْنَ‘‘کے معنی دیتا ہے۔ یہ زیادہ تر زمانہء ماضی کے لیے آتا ہے اور عموماًکسی جملہ فعلیہ کی طرف مضاف ہوتا ہے[چونکہ ظرف ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتے ہیں (قبل ۔ بعد وغیرہ)اس لیے ظرف ہونے کی بنا پر نحوی حضرات ’’اِذْ‘‘ کو مضاف اور مابعد والے جملے کو مضاف الیہ سمجھ کر محلاًمجرور قرار دیتے ہیں]جیسے ’’ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘( التوبہ:۴۰) میں ہےـــاس (کے ظرفیہ ہوتے) وقت اس ( اذ) کا اردو ترجمہ ’’جب ، جس وقت ، جب کہ ‘‘سے کیا جاسکتا ہے۔

(۲) کبھی ظرفیت کے معنوں کے ساتھ یہ مفعول بہٖ بھی واقع ہوتا ہے یعنی اس سے پہلے کوئی ایسا فعل ہوتا ہے جس کا اسے مفعول بہ ٖکہاجاسکتا ہے ۔ اس وقت بھی اس (اِذْ) کے بعد کا جملہ عموماً فعل ماضی پر مشتمل ہوتا ہے ، یعنی اس (ما بعد جملے) کا فعل یا تو لفظاً معناً دونوں طرح ’’ماضی ‘‘ ہوتا ہے اور کبھی لفظاً مضارع مگر معناً ماضی ہوتا ہے ، جیسے’’ وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ (البقرہ:۱۲۷)میں ہے۔ اور کبھی اس (اذ)کے بعد والا جملہ اسمیہ ہوتا ہے، جیسے ’’ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ   (۷۰) اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ ‘‘المومن(غافر): ۷۱۔۷۰)[بطور مثال بیان ہونے والی آیات کے معنی وغیرہ پر اپنی جگہ بات ہو گی۔ اس سے پہلے آپ ضرورت محسوس کریں تو کسی مترجم قرآن مجید  میں سے ترجمہ دیکھ کر قاعدہ سمجھ سکتے ہیں، آیت کا حوالہ اسی ضرورت کے لیے دیا گیا ہے]اس (مفعول بہ ہونے والی) صورت میں ’’اِذ‘‘کا ترجمہ ’’اس وقت کو ‘‘ یا ’’ اس وقت کو جب‘‘ ہونا چاہیے۔ تاہم با محاورہ اردو ترجمہ اس کا بھی ’’جب کہ ، جس وقت کہ ‘‘ سے ہی کیا جاتا ہےـــ بعض دفعہ اس (اِذْ) سے پہلا فعل ( جس کا یہ مفعول بہٖ ہوتا ہے)محذوف کر دیا جاتا ہےــــ جو عموماً اذکروا (یا دکرو …. کو)یا اس کے ہم معنی کوئی فعل سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ’’اِذْ‘‘ کا زیادہ تراستعمال بطور مفعول بہٖ  ہی ہوا ہے اور قرآنی قصوں میں خاص طور پر اس کا استعمال ایک محذوف فعل کے مفعول بہٖ کے طور پر ہوا ہے جس کی ایک مثال یہی زیر ِمطالعہ آیت ہے، یعنی ’’ (اذکروا) اذ قال رَبُّکَ( اس وقت کو یاد کرو جب ـــکہا تیرے رب نے۔)

(۳) کبھی ’’اِذ‘‘ بعض ظروف (مثلاً حینَ، یومَ ، بعدَ، قیلَ وغیرہ)کے ساتھ مضاف الیہ ہو کر آتا ہے ۔ اس صورت میں بھی ’’اِذ‘‘کے بعد ایک جملہ فعلیہ آتا ہے، جیسے ’’بعدَاِذْ ھَدَ یْتَنَا(آل عمران:۸)۔ مگر مضاف الیہ ہونے کی (مذکورہ) صورت میں بعض دفعہ’’اِذْ‘‘کے بعد والا جملہ حذف کردیا جاتا ہے۔ اور اس (جملے)کے عوض ’’اِذْ‘‘ کی ’’ذ‘‘ پر تنوین  جر کی طرح دو کسرہ (ـــــــٍــــــــ)لگا دیتے ہیں (مگر در اصل یہ تنوینِ جر نہیں ہوتی۔اسے ’’تنوینِ عوض‘‘ کہتے ہیں)جیسے یَوْمَئِذٍ، حِیْنَئِذٍ وغیرہ۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہونا چاہئیے یَوْمَئِذٍ(اس دن جب کہ ….حِیْنَئِذٍ( اس وقت جب کہ….) وغیرہ۔ تاہم بامحاورہ اردو میں اس قسم کی ترکیب کا ترجمہ عموماً’’جس دن کہ‘‘، جس وقت کہ‘‘یا ’’جب کہ‘‘سے کر لیا جاتا ہے ۔ اس قسم کی متعدد   تراکیب آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

(۴) کبھی ’’اِذْ‘‘ تعلیل کے لیے بھی آتا ہے یعنی ’’لِأَنَّ‘‘کے معنی دیتا ہے اور اس کا اردوترجمہ ’’کیونکہ، چونکہ، اس لیے کہ‘‘ سے کیا جاتا ہے جیسے ’’ وَلَنْ يَّنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُمْ ( الز خرف:۳۹) میں ’’ اِذْ ظَّلَمْتُمْ ‘‘ معنی ’’اس لیے کہ تم نے ظلم کیا ‘‘ہیں۔ ویسے غور سے دیکھا جائے تو اس ’’ اذْ تعلیلہ‘‘ میں بھی ظرفیت والے معنی موجود ہیں۔ اور اس کا ترجمہ بھی حسب موقع ’’جب کہ ‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔

(۵)کبھی ’’اِذَا‘‘ کی طرح ’’اِذْ ‘‘بھی فجائیہ آتا ہے یعنی ’’اچانک ، ’’ناگہاں‘‘کے معنی دیتا ہے ۔ تاہم قرآن کریم میں ’’ اِذْ‘‘ فجائیہ کا استعمال کہیں نہیں ہوا ۔ عربی اشعار میں البتہ اس کی کچھ مثالیں ملتی ہیں۔

·       ’’ اِذْ‘‘اور ’’اِذَا‘‘(جس کے معنی و استعمال پر البقرہ:۱۱یعنی۱:۹:۲(۱) میں بات ہوئی تھی)دونوں ہی زیادہ تر ظرف زمان کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ دونوں کا با محاورہ اردو ترجمہ ’’جب‘‘سے کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم ان دو میں نمایاں فرق یہ ہے کہ ’’اذ‘‘ زیادہ تر زمانہ ماضی کے کسی "معیّن وقت"کا مفہوم رکھتا ہے۔اور"اِذَا"عموماًزمانہ مستقبل کے کسی ’’غیر معیّن وقت ‘‘کا مفہوم رکھتا ہے۔

          اسی بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ’’اِذ‘‘کے ساتھ آنے والے فعل کا ترجمہ عموماً ماضی سے کیا جاتا ہے چاہے وہ فعل مضارع ہی کیوں نہ ہو ،جیسے’’ اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ ‘‘(آل عمران : ۱۲۴) اور ’’اِذَا‘‘کے بعد والے فعل کا ترجمہ عموماً مستقبل سے کیا جاتا ہے چاہے وہ صیغۂ ماضی ہی کیوں نہ ہوجیسے ’’ وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ ‘‘(البقرہ :۱۱) یہ تو آپ ۱:۹:۲(۱)میں پڑھ چکے ہیں۔

 [قَالَ] کا مادہ ’’ق ول ‘‘اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ہے ۔ اصلی شکل’’قَوَلَ‘‘تھی جس میں متحرک ’’و‘‘ما قبل کے مفتوح ہونے کے باعث ’’الف‘‘بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے یعنی قَوَلَ سے قَالَ ہو جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجردکے باب اور معنی و استعمال پر البقرہ :۸ یعنی ۱:۷:۲(۵)میں بات ہوچکی ہے۔ قالَ کا ترجمہ ’’کہا ‘‘ہے جو یہاں سیاقِ عبارت کی بنا پر ’’فرمایا ‘‘ہو سکتا ہے۔

 [رَبُّکَ] یہ ربّ+ک (ضمیر مجرور بمعنی ’’تیرا ‘‘کا مرکب ہے۔ لفظ ’’رب‘‘کے مادہ ، معنی وغیرہ پر مفصّل بحث الفاتحہ :۲ یعنی ۱:۲:۱(۳)میں ہو چکی ہے۔

۱:۲۱:۲(۲)     [لِلْمَلٰئِکَۃِ]یہ در اصل لام الجر (ل بمعنی ’’کو ‘سے‘‘)+لام تعریف (ال)+’’ملائکۃ‘‘ کا مرکب ہے۔ کلمہ’’ملائکۃ‘‘(یہ اس کی عام عربی املاء ہے اس کے رسم عثمانی پر بحث ’’الرسم‘‘ میں ہوگی) جمع (مکسر)کا صیغہ ہے اور اس کا وزن بظاہر ’’ مَفَاعِلَۃٌ‘‘ہے اس کا واحد ’’مَلَکٌ‘ہے جس کا ترجمہ فارسی لفظ ’’فرشتہ‘‘سے کیا جاتا ہے۔اس کی جمع ’’ملائکۃ‘‘کے علاوہ ’’ملائِکُ‘‘(غیر منصرف)بر وزن ’’ مفاعِلُ‘‘بھی آتی ہے، (قرآن کریم میں یہ دوسری جمع کہیں استعمال نہیں ہوئی)۔لفظ ’’مَلَکٌ‘‘کے مادہ اور وزن کے بارے میں متعدد قول ہیں[1]

 (۱) زیادہ مشہور یہ ہے کہ اس کا مادہ ’’ أ ل ک‘‘ اور وزن اصلی مَفْعَلٌ ہے، یعنی یہ لفظ دراصل ’’مَألَکٌ‘‘تھا پھر (چاقو قاچو کی طرح)اس فائے کلمہ اور عین کلمہ کو باہم ایک دوسرے کی جگہ بدل کر لفظ مَلْأَک (بروزن مَعْفَلٌ) بنا لیا گیا اور پھر کثرتِ استعمال سے"مَلَکٌ" ہوگیا ۔گویا اب اس کا وزن "مَعَلٌ"رہ گیا ہے۔ اوراس کی جمع (ملائکہ) کا وزن اب ’’ مَعَافِلۃ‘‘ہو گیا ہے۔ اس مادہ ( ألک)سے فعل مجرد ’’ ألَک یالِکُ اُلوکًا(باب ضرب سے)آئے تو اس کے معنی ’’(ایلچی بننا ، پیغام لے جانا‘‘ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں: ألَک بین القوم= قوم کے درمیان ایلچی بنا اور ’’ اَلُوکۃ ‘‘کے معنی ’’ رسالۃ‘‘ یعنی پیغام ہیں۔ اور ألَک یالُک(باب نصر سے)’’ گھوڑے کا منہ میں لگام چبانا ، کے معنی دیتا ہے۔ ’’پیغام ‘‘ اور’’ منہ میں چبانا‘‘کے درمیان بھی ایک نسبتِ معنوی ہے۔

(۲) اس (مَلَکٌ) کا مادہ ’’ ل أ ک ‘‘ہے اور وزن اصلی ’’ مَفْعَلٌ‘‘ ہی ہے، اس کی اصلی شکل ’’ مَلْأَکٌ ‘‘( بغیر کسی ’’قلب ‘‘یا الٹ پھیر کے‘‘)ہے اور اس میں (بوجہ کثرت استعمال)ھمزہ گرگیا اور لفظ  ’’مَلَکٌ‘‘رہ گیا۔ اس صورت میں ’’مَلک ‘‘کا وزن ’’مَفَلٌ‘‘رہ گیا ہے۔اور اس کی جمع (ملائکہ) کا وزن ’’ مَفَاعِلَۃٌ‘‘ہی ہے۔اس مادہ (ل أ ک) سے اگرچہ فعل مجرد(لأک)استعمال نہیں ہوتا مگر  اس سے با بِ اِفعال میں اَلْأَکَ کے معنی ’’اَبْلَغَ‘‘ (پہنچانا ، پیغام وغیرہ) ہی ہوتے ہیں ۔ اس طرح ان دونوں مادوں ( ألک یا لأک) سے لفظ ’’ مَلَکٌ  کا معنوی تعلق ’’ پیغام رسانی ‘‘ والا ہے جو ملائکہ کے فرائض میں سے ہے یعنی ’’ اللہ کا پیغام اس کے رسولوں تک پہنچانا‘‘۔

(۳) ایک قول یہ ہے کہ اس کی اصل ’’ ل و ک‘‘ہے ۔ اس سے فعل مجرو لَاکَ یلوک‘‘کے معنی بھی"منہ میں کچھ چبانا" ہیں۔اس صورت میں لفظ دراصل ’’مَلْوَک‘‘تھا اس سے ’’مَلَاک‘‘( واو کی حرکت لام کو دے کر اسے الف میں بدلنے سے)بنا ۔ پھر اس سے ’’ مَلک ‘‘بنا لیا۔ اب جمع دراصل ’’ملاوکہ‘‘ تھی جس میں واو کو ہمزہ میں بدل دیا گیا ۔ وزن ’’ مَفَاعلۃ‘‘ ہی رہا۔

 (۴)ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ لفظ (مَلَک یا مَلَاک)سریانی الاصل ہے یعنی سریانی سے عربی زبان میں آیا ہے۔

 (۵) ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ اس کا عربی مادہ ’’ م ل ک ‘‘ہی ہے فعل ’’ ملَک یملِک(ض) کے معنی ’’ حاکم ہونا اور طاقتور ہونا ہیں گویا یہ لفظ (مَلَکٌ) اسی مادہ سے ماخوذ ایک دوسرے لفظ ( مَلِکٌ = بادشاہ) کی طرح فرشتے کے منصب یا قوت کو ظاہر کرتا ہے مگر اس صورت میں اس کا وزن ’’ فَعَلٌ‘‘ہے اور اس کی جمع ’’ ملا ئکہ‘‘ کا وزن فعائلۃ‘‘بنتا ہے اور عربی زبان میں ’’فَعَلٌ‘‘ کی جمع مکسر ’’ فَعَائِلۃ‘‘ نہیں آتی۔ لہذا یہ قول غلط ثابت ہوتاہے یا پھر یہ جمع ایک ایک شاذّوزن پر آئی ہے۔[2]

۱:۲۱:۲(۳)     [اِنِّی جَاعِلٌ] اس میں ’’اِنِّیْ‘‘  تو اِنَّ+ ی کا مرکب ہے جس کاترجمہ ہے بے شک/یقینًا میں….یہ مرکب قرآن کریم میں نونِ وقایہ کے ساتھ ’’اِنّنِیْ‘‘بھی کئی جگہ استعمال ہوا۔معنی ایک ہی ہیں۔ ’’[جاعل]‘‘ کا مادہ ’’ج،ع،ل"اور وزن’’ فاعِلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد جَعَل یجْعَل کے معنی اور استعمال کے بارے میں البقرہ:۱۹ یعنی ۱:۱۴:۲(۶) میں بات ہو چکی ہے۔ ’’جَاعِلٌ‘‘اس فعل سے اسم الفاعل ہے اور اس کا ترجمہ ہے :’’پیدا کرنے والا‘‘بنانے والا،مقرر کرنے والا"۔اور اکثر مترجمین نے یہی ترجمہ (بنانے والا)کیا ہے۔بعض حضرات نے اس (جاعل)کا ترجمہ ’’مجھ کو بنانا ہے‘ میں ضرور بناوں گا‘ میں بنانا چاہتا ہوں‘‘کی صورت میں کیا ہے‘یہ مفہوم اور محاورے کے لحاظ سے درست سہی تاہم اس میں اسم کا ترجمہ صیغۂ فعل (مضارع)سے کر دیا گیا ہے اور لفظ سے ہٹ کر ہے۔ لفظ ’’جاعِلٌ‘‘ مختلف صورتوں (واحد، جمع،مفرد،مرکب)میں قرآن کریم کے اندر ۶جگہ دارد ہوا ہے۔

۱:۲۱:۲(۴)     [فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً] ’’فی الارض‘‘تو ’’فی‘‘(میں، کے اندر)اور ’’الارض‘‘(زمین) کا مرکب ہے یعنی ’’زمین میں ’’اور محاورۃً  زمین پر‘‘بھی کہہ سکتے ہیں۔ ’’خَلِیْفَۃ‘‘ کا مادہ ’’خ ل ف ‘‘اور وزن ’’فَعِیْلَۃٌ‘‘ہے (یہاں لفظ ’’خلیفۃ‘‘ منصوب آیا ہے  نصب کی وجہ پر ’’الاعراب‘‘ میں بات ہو گئی) 

          اس ثلاثی مادہ سے  فعل مجرد مختلف ابواب (مثلا نصر،ضَرب،سمِع اور کرُم)سے مختلف معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایک ہی باب سے ــــ مصدر کے فرق کے ساتھــــ مختلف معنی کے لئے آتا ہے ۔یہ فعل عموماًً لازم ،متعدی دونوں طرف استعمال ہوتا ہے اوربعض صِلات (مثلاًً’’لِ‘‘،’’علی‘‘اور ’’عَنْ‘‘)کے ساتھ خاص معنی بھی دیتا ہے۔مثلاًً:۔

خلَف…. یخلُف خَلْفاً(باب نصر سے)کے معنی ہیں:''۔ کا نائب / جانشین بننا،کے پیچھے آنا ۔‘‘کہتے ہیں ’’خَلْفَہٗ :وہ اس کے پیچھے آیا ‘‘ــــ اور خلَف یخلُف خُلُوْفاً(نصرسے)کے معنی ہیں:’’بگڑ جانا،بدبودار (خراب بُو والا) ہونا ،(یعنی اس صورت میں یہ فعل لازم ہے)خلَف(نصراورضرب سے)لَہٗ"کے معنی ہیںکے پیچھے سے وار کرنا"اور خلَف(نصراورضرب سے) "عَنْ ‘‘کے معنی ہیں:’’سے کٹ جانا ،پیچھے رہ جانا’’ ــــ خلَفہ(ضرب سے)کے معنی :’’کو پیچھے سے آدبوچنا‘‘ــــ اور خلَف (ن) کے ایک معنی :’’کسی کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ سے شادی کرنابھی ہوتے ہوتے ہیں مثلاًً کہتے ہیں: خلَف فلانٌ علی زوجۃِ  فلانٍ (اس نے  اس کی (بیو ہ) بیوی سے شادی کر لی)۔(آپ چاہیں تو کسی اچھی ڈکشنری میں اس فعل کے متنوع استعمال کو دیکھ سکتے ہیں)۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے صرف باب نصر سے ہی فعل کے کل پانچ صیغے مختلف جگہ دارد ہوئےہیں۔ اور وہ بھی صرف ’’….کے پیچھے آنا….. کا جانشین بننا ‘‘کے معنی میں ہی آئے ہیں ۔ثلاثی مجرد کے کسی اَوْر باب سے یا کسی اور معنی کے لیے یہ فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا ــــالبتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل،تفعّل،اِفعال،افتعال اور استفعال)سے اَفعال کے متعدد صیغے (۵۸جگہ)آئے ہیں۔ اور مختلف مصادر اور مشتقاّت ساٹھ سے زائدمقامات پر وارد ہوے ہیں جن سے ایک یہ زیرمطالعہ لفظ’’خلیفۃ‘‘ بھی ہے۔

·       ’’خَلِیفَۃ‘‘ بروزن ’’فعیلۃ‘‘بمعنی ’’فاعل‘‘ہے یعنی ’’نیا بت کرنے والا‘‘اور اس کی ’’ۃ‘‘ مبالغہ کے لیے ہے اور اس کے معنی ’’نائب قائم مقام ، یا جانشین ‘‘ہیں۔ اور یہ نیا بت /قائم مقامی /خلافت وغیرہ ’’مَنُوب عنہ‘‘(جس کی نیابت کی جائے)کی کسی مجبوری ( مثلاً موت یا معذوری یا غیر موجودگی)کے باعث بھی ہو سکتی ہے اور نائب ( یا خلیفہ) کی عزت افزائی اور اس کی قابلیت کے اظہار کے لیے بھی ـــ۔قرآن کریم میں آدمؑ اور اولادِ آدم (یا ان میں سے بعض خاص افراد)کو اللہ تعالیٰ کی (طرف سے) نیا بت اور خلافت ملنے کا ذکر، اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے ہےــــ۔ خلیفہ اور خلافت اسلامی سیاسیات اور تاریخ کی ایک معروف اصطلاح کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کی بنیاد بھی یہی (مذکورہ بالا)لغوی معنی ہیں۔

·       لفظ ’’خلیفۃ‘‘ عموماًَ مذکر(اور شاذمؤ نث)استعمال ہوتا ہے اس میں ’’ۃ‘‘ تانیث کے لیے نہیں بلکہ مبالغہ کے لیے ہے۔ اس کی جمع ’’خُلَفَاءُ‘‘بھی ہے اور ’’خلائِفُ‘‘بھی (دونوں غیر منصرف ‘‘ جمعیں‘‘ ہیں اور دونوں قرآن کریم میں وارد ہوئی ہیں۔) بعض اہل لغت کا کہنا ہے کہ ’’ خلفاء‘‘ کے ساتھ عدد مؤنث استعمال ہوتا ہے یعنی ’’ ثلاثۃُ  خلفاءَ‘‘ کہیں گے۔اور’’ خلائف‘‘ کے ساتھ مذکر یا مؤنث عدد لگ سکتا ہے مثلاً’’ ثلاثۃُ خلائفَ‘‘یا ثلاثُ خلائِفَ" دونوں طرح درست ہے۔ تاہم یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر لفظ ’’خلیفہ‘‘ مذکر کے لئے استعمال ہو رہا ہو تو اس کی جمع کے ساتھ عدد مؤنث ’’ ثلاثۃ‘‘ہی استعمال کر نا بہتر ہے۔

[قَالُوْا] کا مادہ ’’ ق ول‘‘اور وزن اصلی ’’ فعلوا‘‘ہے ۔ اس مادہ سے فعل کے باب و معنی وغیرہ بلکہ خود اسی لفظ (قالوا) کی مکمل لغوی و صرفی وضاحت البقرہ:۱۱ یعنی ۱:۹:۲(۴)کے ضمن میں بیا ن ہو چکی ہے۔

’’قالُوا‘‘ کا ترجمہ تو ’’ انہوں نے کہا ‘‘ بنتا ہے مگر یہاں سیاقِ عبارت کی بناء پر ’’کہنے لگے ‘‘یا ’’ انہوں نے عرض کیا‘‘ہو سکتا ہے۔

[أَتَجْعَلُ]میں ابتدائی’’ أ‘‘ تو استفہامیہ بمعنی ’’کیا ‘‘ہے ۔ اور ’’تَجْعَلُ‘‘ کا مادہ ’’ ج ع ل ‘‘اور وزن ’’تَفْعَلُ‘‘ہے اس مادہ سے فعل مجرد کے باب ‘ معنی( بنانا ، پیدا کرنا وغیرہ)اور استعمال پر البقرہ: ۱۹ یعنی ۱:۱۴:۲(۷)میں بات ہو چکی ہے۔

’’تَجْعَلُ‘‘اس فعل مجرد ( جعَل یجعَل)سے فعل مضارع معروف کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے اور حرفِ استفہام (أ) سمیت اس کا ترجمہ ہے’’ کیا تو بناتا ہے یا بنائے گا؟ بعض نے اس کا ترجمہ ’’کیا تو پیدا کرے کا؟ کیا تو رکھے گا ؟ کیا تو قائم کرتاہے؟ سے کیا ہے۔اس صورت میں فعل ’’جعل‘‘ کے لیے ایک ہی مفعول کافی ہے، اور بعض( بلکہ زیادہ)نے اس کا ترجمہ ’’کیا تو ( نائب)بناتا ہے؟ کرے گا؟ بنائے گا؟ بنانا چاہتا ہے؟ کے ساتھ کیا ہے یعنی ’’بنانا‘‘(مقرر کرنا)کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اس صورت میں فعل ’’ جعل‘‘ کو دو مفعول درکار ہوتے ہیں ــــ۔ ان ( دو مفعولوں) پر ’’ الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔

 [فِیْھَا] فی (کے اندر، میں)+ ھا ( ضمیر مجرور بمعنی ’’اس مؤنث)۔ اس کا ترجمہ تو ’’ اس میں‘‘ہے ، مگر بعض حضرات نے یہاں سابقہ ’’ فی الارض‘‘ کا لحاظ کرتے ہوئے ( کیونکر ضمیر تو اسی’’ الارض‘‘کے لیے ہی ہے)اس کا ترجمہ ’’ زمین میں ‘‘ کردیا ہے جو سیاق عبارت کے لحاظ سے درست کہا جاسکتا ہے۔ اکثر مترجمین نے ’’اس میں ‘‘ کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے۔

[مَنْ] اسم موصول ہے جس کے معنی ہیں : ’’ وہ جو ، جو کہ ، جس نے کہ‘‘ اکثر مترجمین نے لفظ کا اعتبار کرتے ہوئے ’’من‘‘ کا ترجمہ بصیغۂ واحد ہی کیا ہے یعنی ’’ اس کو جو ‘‘ ایسے شخص کو جو ‘‘کی صورت میں ــ۔تاہم بعض مترجمین نے یہاں ’’من‘‘ کا ترجمہ بصیغہ جمع کیا ہے یعنی ’’ ایسے لوگوں کو جو۔۔۔۔‘‘کے ساتھ۔ کیونکہ یہاں دراصل صرف آدم کانہیں بلکہ اولادِ آدم کا ذکر ہے ــــ۔ اور لفظ ’’مَنْ‘‘ بلحاظ معنی واحد جمع ( ہر دو)کو شامل ہے ’’مَنْ‘‘کے معنی و استعمال پر البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۴)میں مفصل بات ہو چکی ہے۔

 [یُفْسِدُ فِیْھَا]’’ فیھا‘‘کے معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اور کلمہ’’ یُفْسِدُ‘‘ کا مادہ ’’ ف س د ‘‘ اور وزن ’’ یُفْعِلُ‘‘ہے، یعنی یہ لفظ اس مادہ سے بابِ افعال کے فعل مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی کے علاوہ اس سے بابِ افعال (اَفْسد یُفْسد)کے معنی وغیرہ کی بھی البقرۃ:۱۱ یعنی ۱:۹:۲(۳)میں وضاحت کی جا چکی ہے۔ بعض نے کلمہ ’’یُفْسِدُ‘‘کا ترجمہ (یہاں) فعل مستقبل کے ساتھ کیا ہے یعنی ’’ وہ فساد برپا کرے گا، پھیلائے گا ‘‘کی صورت میں کیونکہ اس میں اولادِ آدم کے مستقبل کے اعمال کا ذکر ہے۔ اکثر مترجمین نے اصل فعل مضارع کے ساتھ ہی ترجمہ کر دیا ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کا مفہوم موجود ہے یعنی ’’ جو فساد کرے ، پھیلائے، خرابیاں کرے ‘‘ کی صورت میں ــ۔جن حضرات نے اسم موصول ’’من‘‘ کا ترجمہ بصورت جمع کیا ان کو یہاں فعل بصیغہ واحد (یفسد) کا ترجمہ بھی بصورت جمع ’’کریں گے، پھیلائیں گے‘‘کر نا پڑا ـــ۔جو بہرحال اصل لفظ سے انحراف ہے۔

۱:۲۱:۲(۵)     [وَیَسْفِکُ] ’’وَ‘‘(اَوْر)کے بعد فعل ’’یَسْفِکُ‘‘ہے جس کا مادہ ’’س ف ک‘‘ اور وزن ’’یَفْعِلُ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’سفَکَ…. یسْفِک سَفْکًا(باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’….. (کو) بہانا‘‘ــــ۔ یعنی ’’ کسی سیال اور مائع چیز کو گرانا یا انڈیلنا‘‘۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی اورمفعول بنفسہ کے ساتھ آتا ہے اس کا مفعول عموماً’’ الماء‘‘(پانی) ’’الد معَ‘‘(آنسو) اور ’’ا لدم‘‘ (خون)ہوتا ہے یعنی ’’پانی بہانا،آنسو بہانا ا ور خون بہانا ‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور زیادہ تر یہ فعل ’’ خون بہانا یا خون ریزی کر نا ‘‘کے لیے مختص ہے۔

·       ’’ یَسْفِکُ‘‘اس فعل ثلاثی مجرد سے فعل مضارع معروف کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے ، اس کا ترجمہ حال اور مستقبل دونوں کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ تاہم مذکورہ بالا فعل ’’ یُفسِد‘‘کی طرح یہاں بھی بعض مترجمین نے تو مستقبل کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’(خون) بہائے گا، (خونریزیا ں)کرے گا ،‘‘ کی صورت میں ـــ۔بعض نے ’’ مَنْ ‘‘(جو اوپر گزرا ہے)کے معنی میں جمع کا مفہوم مد نظر رکھتے ہوئے ( کہ قصہ ایک شخص کا نہیں اولادِ آدم کا ہے)جمع اور مستقبل کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’( خونریزیاں)کریں گے‘‘ تاہم مترجمین کی اکثریت نے فعل مضارع اور صیغۂ واحد کے ساتھ ہی ترجمہ کیا یعنی ’’خوں بہائے ، خونریزیاں کرے، کشت و خون کرتا پھرے‘‘ــــ۔خیال رہے کہ اس فعل ( یسفک) کے ترجمہ ( بہانا) میں خون، خوں ریزی اور کشت و خون‘‘کا اضافہ اگلے لفظ ’’الدِمَائَ‘‘کے ساتھ ملانے سے ہوسکتاہے۔ جس کی وضاحت ابھی آگے آرہی ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد (سفک یسفک)کے صرف دو صیغے دو ہی جگہ آئے ہیں۔ ایک یہاں ( البقرہ:۳۰) اور دوسرے ( البقرہ: ۸۴)میں۔

۱:۲۱:۲(۶)    [الدِّمَآءَ]  کا مادہ ’’ د م ی‘‘(اور بقول بعض ’’د م و‘‘)اور وزن ( لام تعریف نکال کر)’’فِعالٌ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’دِمایٌ‘‘تھی مگر الف ممدودہ کے بعدآنے والی ’’یا ء‘‘ یا ’’ واو‘‘ کو ہمزہ میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’ دمِیَ یَدْمٰی دَمًی‘‘(در اصل دمِیَ یَدْمَیُ دَمْیًا) با ب سمِع سے آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں:’’خون نکل آنا‘‘(اگرچہ بہا نہ ہو)۔ پھر اس میں’’ بہنے اور جاری ہونے ‘‘کا مفہوم بھی آجاتا ہے۔ اس فعل کا فاعل عموماً ’’ الجَرْحُ‘‘(زخم)ہوتا ہے یا کوئی عضو۔ مثلاً کہتے ہیں ’’ دمِیَ الَجرْحُ‘‘( زخم سے خون نکل آیا) یا دَمِیَتِ الاِصْبَع‘‘(انگلی سے خون نکل آیا) ایسے زخم کو ’’ جرحُ دمٍ ‘‘(دراصل دَمیٍ)کہتے ہیں۔ عربی زبان میں یہ مادہ مختلف معنی کے لیے مزید فیہ کے مختلف ابواب سے بھی استعمال ہوتا ہے ــــتاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل ( نہ مجرد نہ مزید فیہ) کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       لفظ ’’ الدماء‘‘ جمع مکسر کا صیغہ ہے اس کا واحد ’’دمٌ‘‘( خون)ہے جس کی اصلی ’’ دَمَیٌ‘‘ بروزن’’ فَعَلٌ‘‘تھی۔ پھر اس کی ’’یاء‘‘ تنوین کے ثقل کے باعث ساقط ہو جاتی ہے۔ اور باقی لفظ ’’دَمٌ‘‘( بروزن’’ فَعٌ‘‘)رہ جاتا ہے۔ مادہ کے یائی اور واوی ہونے کے امکان کی بنا پر اس کا تثنیہ ’’ دمَیان‘‘ اور دَمَوانِ‘‘ دونوں طرح بنتا ہے۔ اور لفظ کی استعمالی شکل (دَمٌ)کے مطابق ’’ دَماِن‘‘بھی آتا ہے۔ ’’دَمٌ ‘‘ کی جمع ’’ دِمَاءٌ‘‘ اور ’’ دُمِیٌ‘‘ آتی ہے۔ موخرالذکر جمع قرآن کریم میں مستعمل نہیں ہوئی۔ صرف پہلی شکل ( دماءٌ) بصورت مفرد یا مرکب استعمال ہوئی ہے اور وہ بھی صرف تین جگہــ۔ اور واحدکا لفظ بصورت واحد نکرہ ( دم یا دماً) تین جگہ اور بصورت معرفہ (الدم) چار جگہ آیا ہے۔

ہم یہ بات اوپر لکھ چکے ہیں کہ ترجمہ کرتے وقت پورے جملے ’’ یسفک الدما‘‘کا اکٹھا مربوط ترجمہ کرنا پڑتا ہے، اگرچہ لغوی لحاظ سے ان دو کلمات ( یسفک اور الدماء) کی الگ الگ وضاحت کرنا پڑتی ہے۔

۱:۲۱:۲(۷)     [وَنَحْنُ نُسَبِّحُ]’’وَ‘‘یہاں حالیہ ( بمعنی حالانکہ)ہے اور ’’نَحْنُ‘‘ ضمیر مرفوع منفصل بمعنی ’’ ہم سب‘‘ہے۔ اور فعل ’’نُسَبِّحُ‘‘ کا مادہ ’’س ب ح ‘‘ اور وزن ’’ نُفَعِّلٌ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد سَبَح یَسْبَح سَبْحاً( باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں:’’ تیرنا (انسان کے لیے)یا پَیرنا(حیوان کے لیے) ‘‘ یعنی ’’ پانی(یا ہوا) میں سے تیز رفتاری سے جانا‘‘۔ یہ فعل ہمیشہ ’’بِ‘‘ یا ’’فی‘‘ کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں: ’’سبَحَ بالنھر وفی النھر( وہ نہر میں تیرا)‘‘ سَبَحَ النھرَ ‘‘کہنا بالکل غلط ہے۔

          پھر یہ فعل بطور استعارہ سیاروں کی گردش، گھوڑوں کی تیزرفتاری، اور آدمی کی کاروباری اور معاشی بھاگ دوڑ (اور مصروفیات)کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآن کریم میں ان ( استعارہ والے)معنوں میں استعمال کی گئی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی(مثلا’’ السابحات‘‘اور سبحاً طویلاً‘‘) اور یہی فعل مجرد (مصدر کے فرق کے ساتھ)‘‘سبَح یسبح سُبْحانا (کی صورت) سبحان اللہ" کہنا کے معنی بھی دیتا ہے ،اور ان معنی کا تعلق ہمارے اس وقت زیرِ مطالعہ کلمہ "نُسَبِّحُ"کے ساتھ بھی ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوگا۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ ( سبح)سے فعل مجرد سے تو مضارع کا ایک ہی صیغہ ’’یسبحون‘‘ دو جگہ( الانبیاء:۲۳ اور یٰس:۴۰)آیا ہے، اور مصدر سَبْحٌ ’’ ( بصورت نصب ’’سبحًا‘‘) بھی دو ہی جگہ ( المزمل:۷ اور النازعات:۲) آیاہے۔ البتہ دوسرا مصدر ’’سبحان‘‘ (مختلف تراکیب میں) چالیس جگہ وارد وہو ا ہے۔ اور اسی فعل سے اسم الفاعل (جمع مؤنث)’’السابحات‘‘ بھی صرف ایک جگہ ( النازعات:۳) آیا ہے اور اسی مادہ (سبح) سے مزید فیہ کے صرف بابِ تفعیل سے اَفعال کے مختلف صیغے آٹھ جگہ اور اسماء مشتقہ ۴۴ جگہ آئے ہیں۔ اور اسی باب ( تفعیل) کا مصدر ’’ تسبیح‘‘ بھی صرف دو جگہ استعمال ہوا ہے۔ ان سب پر اپنی جگہ بات ہو گی۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’ نُسَبِّحُ ‘‘ اس مادہ (سبح) سے باب تفعیل کے فعل مضارع کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ اور اس باب سے فعل ’’ سبَّح…..یسبِّحُ تسبیحًا‘‘کے معنی ہیں:….. کی پاکیزگی بیان کرنا،…. کو سراہنا،…. کی خوبیاں بیا ن کرنا یا پڑھنا، ….کی پاکی بیان کرنا،…. کی تسبیح کرنا‘‘ــــ( اس فعل کا مصدر ’’تسبیح ‘‘ اردو میں مستعمل تو ہے مگر ’’ تسبیح ‘‘ کی گنتی کرنے والے ایک دھاگے میں پروئے ہوئے ’’ دانوں ‘‘ پر مشتمل’’ مالا‘‘ کو بھی ’’ تسبیح ‘‘کہا جاتا ہے، جدید عربی میں اسے ’’ سُبْحَۃٌ‘‘کہتے ہیں۔ اس لفظ کے بھی اصل معنی ’’دعاء‘‘ہیں)۔

          یہ فعل ( سبّح)متعدی ہے اور یہ مفعول بنفسہٖ کے ساتھ بھی آتا ہے اور اس کے ساتھ لام (لِ) کا صلہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’سَبَّحَہٗ‘‘بھی کہتے ہیں اور ’’ سَبَّحَ لَہٗ‘‘بھی ۔ اور قرآن کریم میں دونوں طرح وارد ہوا ہے۔

[بِحَمْدِکَ] یہ ’’بِ‘‘(کے ساتھ) + حَمْد (تعریف) +کَ (تیری) کا مرکب ہے۔ باء الجر ( بِ)اور کلمہ ’’الحمد‘‘ کے معانی وغیرہ پر استعاذہ اور سورۃ الفاتحہ کی ابتداء میں بحث ہوچکی ہے۔ یہاں اس مرکب جارّی (بحمدک) کا لفظی ترجمہ تو ہے’’ تیری تعریف/حمد کے ساتھ ‘‘۔ مگر اس (مرکب) کا (بلحاظ معنی) تعلق سابقہ فعل ’’نُسبِّح‘‘کے ساتھ ہے۔ لہذا اس کے اعرابی ترکیب کے لحاظ سے ترجمہ پر ابھی آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی۔

۱:۲۱:۲(۸)     [وَنُقَدِّسُ لَکَ] یہ ’’ وَ‘‘ (اور) + نقدس (جس کے معنی پر ابھی بات ہوگی)+ لَکَ=’’ لِ کَ ‘‘( تیرے لیے) کا مرکب ہے۔ اس میں فعل ’’نُقَدِّسُ‘‘کا مادہ ’’ق د س‘‘ اور وزن ’’نُفَعِّلُ‘‘ ہے ۔ اس مادہ سے فعل مجر د ( ثلاثی) ’’قدُس یقدُس قُدْساً( باب کرم سے)آتا ہے اور اس کے معنی ’’پاک ہونا’’ پاکیزگی میں  بر تر ہونا‘‘ ہیں، اور اسکے ایک معنی ’’بابرکت ہونا ‘‘ بھی ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ا س فعل ثلاثی مجرد کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       زیرِ مطالعہ لفظ ’’ نُقَدِّس‘‘اس مادہ (قدس)سے بابِ تفعیل کے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ باب تفعیل کے اس فعل قدَّس ….یقَدِّس تقدیساًکے بنیادی معنی ہیں:…. کو پاک کرنا ‘‘اس فعل کے فاعل اور مفعول کے طور پر اللہ عزوجل کا نام آتا ہے ۔ اگر اس کا فاعل ’’ اللہ‘‘ ہو مثلاً ’’ قدَّس اللہ ُفلاناً‘‘ تو اس کے معنی ہوتے ہیں ‘‘….. کو پاکیزگی عطا کرنا ، کو مقدس بنانا ،…. کو پاک کرنا،…. کو پاکیزگی میں بڑھانا اور برکت عطا کرنا‘‘ــــ اور اگر ’’اللہ ‘‘اس فعل کے مفعول کے طور پر مذکور ہو جیسے ’’ قدَّس (فلانٌ) اللہَ ‘‘ تو اس کے معنی ہوتے ہیں:…. (اللہ) کی پاکیزگی بیان کرنا،…. کو ہر عیب اورنقص سے پاک اور منزہ قرار دینا،…. کے قُدّوس ہونے کی صفت بیان کرنا یا ….کی تقدیس کرنا‘‘( اس لیے کہ اردو میں تکریم اور تعظیم کی طرح لفظ ’’ تقدیس ‘‘ بھی متعارف ہے۔)

·       اس فعل ( قدَّس) کا مفعول بہ ہمیشہ بنفسہٖ آتا ہے ( جیسا کہ ابھی اوپر ’’ قدَّسہ اللہُ اور قدَّس اللہَ‘‘ میں آیا ہے ،) تاہم کبھی اس کے مفعول پر لام (لِ) کا صلہ بھی آتا ہے مثلاً کہتے ہیں’’ قدَّس لِلہ‘‘ یا جس طرح یہاں زیر ِمطالعہ عبارت میں ہے( نُقدِّس لکَ)۔ اس ( صلہ کے ساتھ والی) صورت میں’’لَکَ‘‘ کے معنی ’’ لِأَ جْلِکَ (تیری ، تیرے لیے)ہوتے ہیں۔ اور ’’ نقدِّس لِ‘‘….. کے مصدری معنی ’’…. کی خاطر اپنے آپ کو پاکیزہ رکھنا‘‘،…. اس (کی حمد بیان کرنے)کے لیے طہارت حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ اور شاید اسی بنا ء پر بعض تابعین سے اس (نقدس لک) کے معنی نُصَلِّیْ ( نماز پڑھتے ہیں)مروی ہوئے [3] جو بعض کتبِ لغت میں بھی بیان ہوئے ہیں[4]

  اور بعض نے ’’لَکَ‘‘ کے معنی ’’لِأجلِکَ‘‘( تیری خاطر ، تیرے لیے) بیان کرنے کے علاوہ ( جو اوپر مذکور ہوئے ہیں) اس ’’لام ‘‘ کو زائد بھی قرار دیا ہے گویا ’’نقد س لَک‘‘ اور ’’نقدِّسکَ‘‘بلحاظ معنی برابر ہیں۔[5]   اور شاید یہی وجہ ہے کہ اردو مترجمین نے ’’نقدس لک ‘‘ کا ترجمہ ’’نقدِّسُکَ ۔ نقدَّسُکَ  ‘‘کی طرح کیا ہے۔ یعنی تیری پاکی بیان کرتے ہیں‘‘ ، ’’ تیری پاک ذات کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ ’’ تیری تقدیس کرتے ہیں‘‘، ’’تیری پاکیزگی (کا ذکر اور بیان)کرتے ہیں‘‘۔ مندرجہ بالا عبارت ’’ نسبح بحمدک و نقدس لک‘‘کے مجموعی ترکیبی معنی ( ترجمہ) پر آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں مفصل بات دوبارہ کی جائے گی۔

 [قَالَ اِنِّی اَعْلَمُ ]امید ہے کہ آپ اب ان تینوں کلمات کے معنی سمجھ سکتے ہیںـــ’’ قَالَ ‘‘( اس نے کہا ،فرمایا) پر ابتدائی بحث ۱:۷:۲(۵)میں ہوئی تھی اور اسی آیت میں اوپر ’’قال‘‘گزر چکا ہے ( اذ قالاِنِّی (بیشک میں) بھی اسی آیت کے شروع میں گزرچکا ہے( اِنِّی جاعِلٌ)۱:۲۱:۲(۳) میں۔ اور ’’ اَعْلَمُ‘‘ جو مادہ ’’ع ل م ‘‘سے فعل مجرد علِم یعلَمُ(جاننا)سے فعل مضارع واحد متکلم کا صیغہ ہے اس کے معنی و استعمال پر ۱:۲:۱(۴)اور۱:۱:۲  (۳)میں بات ہوچکی ہے۔ اس طرح ’’اَعْلَمُ‘‘کا ترجمہ ’’میں جانتا ہوں ‘‘ہے جس کی بامحاورہ صورت ’’ مجھ کو یا مجھے معلوم ہے‘‘ اختیار کی گئی ہے۔ بعض مترجمین نے اسی حصہ آیت کے ترجمہ میں ’’ اِنِّی‘‘کے ’’اِنَّ‘‘(بیشک ، یقینًا) کا ترجمہ نظر انداز کردیا ہے۔ بعض نے کیا ہے۔

[مَالَاتَعْلَمُوْنَ]’’مَا‘‘مو صولہ ( بمعنی جو کچھ کہ صرف ’’جو ‘‘)ہے اور ’’لا تَعلمون‘‘ مادہ ’’ع ل م‘‘کے فعل مجرد علِم یعلَم(جاننا)سے مضارع منفی (بِلَا) کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس فعل کی ابتدائی بحث کے حوالے اوپر ( اَعْلَمُ کے ضمن میں)مذکور ہوئے ہیں۔ ’’ مالاتعلمون‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے’’جو کچھ کہ تم نہیں جانتے ہو‘‘اسی کو بامحاورہ بناتے ہوئے ’’ جو تم نہیں جانتے‘‘ اور’’ جس کو تم نہیں جانتے ‘‘ کر لیا گیا ہے۔

۲:۲۱:۲     الاعراب

آیت زیرِ مطالعہ اعرابی لحاظ سے چار مستقل جملوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک جملہ حالیہ ہونے کی بنا پر اپنے سے سابقہ جملے کا جزءبھی شمار ہوسکتا ہے ان چار جملوں کے اعراب کی  تفصیل یوں ہے:۔

(۱)      وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً

[وَ] یہاں استیناف کے لیے ہے کیو نکہ اس کے بعد والے جملے کا اس سے پہلے جملے بلحاظ مضموں عطف (ربط) نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ یہاں سے ایک نئی بات شروع ہو رہی ہے۔ پہلے بیان ہوچکا ہے ]۱:۷:۲(۱)میں [کہ واوِ مستانقہ میں اصلی مفہوم تو ’’اور یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ ‘‘ کا ہوتا ہے۔ تاہم اس کا اردو ترجمہ صرف ’’ اور‘‘سے چل سکتا ہے[اِذْ] یہاں ظرفیہ ہے جس میں زمانہء ماضی کے’’ وقت ‘‘ کا مفہوم موجود ہے ۔ اکثر نحوی اور مفسرین اسے ایک فعل محذوف ( مثلاً اُذْکُرْ) کا مفعول بہٖ مانتے ہیں۔ ( دیکھئے اوپر اسی آیت کے شروع میں بحثاللغۃ‘‘)۔ بعض نحویوں نے اس (’’اذکر‘‘والی) توجیہ کے علاوہ بعض دوسری توجیھات بھی بیان کی ہیں ۔[6] ہمارے نزدیک کم از کم قرآنی قصص کے علاوہ میں آنے والے ’’اِ ذ ‘‘( جیسا یہاں ہے) کی حد تک فعل محزوف  کا مفعول بہٖ یا مفعول فیہ ہونے والی بات زیادہ عام فہم،  سہل اور مقبول ہے۔ گویا ’’اِذْ‘‘ کا ترجمہ ’’اس وقت کو جب ‘‘یا ’’ وہ وقت جب‘‘ہونا چاہئیے تاہم اردو میں صرف ’’جب کہ ‘‘ یا’’جب‘‘سے کام چل جاتا ہے۔

[قال] فعل ماضی معروف واحد مذکر غائب ہے اور یہاں ظرفیہ ’’ اِذ‘‘ کا مضاف الیہ ہونے کے باعث محلاً مجرور ہے۔ [ربُّکَ] مضاف (رب) اور مضاف الیہ (ک) مل کر فعل ’’ قال‘‘ کا فاعل ہے۔ اس لیے ’’ ربُّ‘‘مرفوع ہے علامتِ رفع’’بُ‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے۔ [للملائکۃ] جارّ( لِ)اور مجرور ( ملائکۃ) مل کر فعل ’’قال‘‘سے متعلق ہے یعنی ’’ کہا فرشتوں سے‘‘  اور ’’ للمائکہ‘‘ میں ’’ ل‘‘ کو فعل ’’ قال‘‘کا صلہ سمجھیں تو اسے ( للملائکۃ کو) مفعول سمجھ کر محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں یعنی "فرشتوں کو کہا"]اِنِّی [میں "اِنَّ"حرف مشبہ بالفعل اور ضمیر منصوب متصل (ی) اس کا اسم ہے۔ [جاعِلٌ] ’’اِنَّ‘‘ کی خبر مرفوع ہے [فی الارض] جار (فی)اور مجرور(الارضِ)مل کر متعلق خبر (جاعلٌ)ہیں۔ یہ اس صورت میں ہے جب (جاعل) کو بمعنی ’’ خالق‘‘ (پیداکرنے والا) لیا جائے گا۔ اور اگر اس کو بمعنی ’’ مُصَیّر‘‘( بنانے والا، مقرر کرنے والا) سمجھا جائے تو پھر یہ مرکب ( فی الارض) جاعلٌ(اسم الفاعل) کا مفعول بہٖ ثانی ہوسکتا ہے جب کہ [ خلیفۃ]اسی اسم الفاعل (جاعلٌ) کا مفعول بہ اول ہے۔ اگرچہ ترکیب کے اس فرق سے اردو ترجمہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا ۔ اور یہاں ’’ جاعلٌ‘‘ فعل’’ اَجْعَلُ‘‘کا کام دے رہا ہے جس سے ایک تو اس میں زمانہ مستقبل کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے وہ اپنے مفعول کو نصب دے رہا ہے ( آپ کو معلوم ہوگا کہ مصادر اور مشتق اسماء بھی فعل کا عمل کرتے ہیں)اس لیے یہاں ’’ خلیفۃً‘‘ منصوب ہے اور ’’ فی الارض‘‘ (جار مجرور) بھی گویا محلاًمنصوب ہے۔

(۲)قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ   

]قالُوا] فعل ماضی معروف  مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ہے ( بصورت واو الجمع)۔ یہاں سے ایک جملہ مستأنفہ شروع ہو رہا ہے( اس لیے کہ ’’اِذ‘‘ بطور شرط نہیں آتا)۔ تاہم بلحاظ معنی و مفہوم اس نئے جملے کو پچھلی عبارت سے متعلق سمجھا بھی جا سکتا ہے  اس صورت میں "قالوا"کا ترجمہ "تو انہوں نے کہا،تو بولے"سے کیا جا سکتا ہےاور کیا گیا ہے۔ [أتَجْعَلُ] میں ’’أ‘‘ تو استفہام کا ہے اور یہاں استفہام سوال سے زیادہ تعجب کے معنی میں ہے۔ ’’تجعل‘‘ فعل مضارع معروف ہے جس میں ضمیر فاعل ’’اَنتَ‘‘ مستتر ہے۔ [فیھا] جار مجرور (جس میں ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ الارض‘‘کے لیے ہے) متعلق فعل’’ تجعل‘‘ہے اگراسے ’’تخلق‘‘ (پیدا کرنا) کے معنی میں لیں توــــ اور اگر اسے ’’تصیِّر‘‘(بنا دینا)کے معنی میں سمجھیں تو پھر یہ ( فیھا)اس فعل (تجعل)کا مفعول بہٖ ثانی ہے۔ ( پہلا مفعول ’’من‘‘ آگے آرہا ہے) [مَنْ] اسم موصول ہے جو اپنے صلہ سمیت ( جو آگے آرہا ہے) یہاں فعل تجعل (بمعنی تخلق) کا مفعول بہٖ ہےـــ یا ’’ تجعل(بمعنی تُصیِّر)کا مفعول بہٖ اول ہے۔ اس طرح ’’مَنْ‘‘یہاں منصوب ہے یعنی ’’اس کو جو‘‘ـــ مبنی ہونے کے باعث اس (مَنْ) میں کوئی علامتِ اعراب ظاہر نہیں ہے [یُفسد] فعل مضارع  معروف مع ضمیر فاعل ’’ ھُوَ‘‘ہے۔ یعنی یہ مستقل جملہ فعلیہ ہے جو ’’مَنْ‘‘ کا صلہ ہے بلکہ یوں سمجھئے کہ یہاں سے صلہ کاآغاز ہوتا ہے [فیھا] جار مجرور اسی فعل (یفسد)سے متعلق ہیں ۔ اور یوں یہ مکمل جملہ’’ یفسد فیھا‘‘ اسم موصول ’’ مَنْ‘‘ کا صلہ بنتا ہے۔ اور یہ صلہ موصول مل کر یعنی ’’ من یفسد فیھا‘‘ فعل ’’تجعل‘‘ کا مفعول بہ ہونے کے لحاظ سے محلاً منصوب اگرچہ ترکیب میں عموماً  صرف اسم موصول کا ہی اعراب ( رفع نصب یا جر) بیان کیا جاتا ہے جیسا ہم نے بھی اوپر ’’من‘‘ کو ہی منصوب کہا ہے اور صلہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جملہ میں اس کا کوئی اعرابی محل (مقام) نہیں ہوتا مگر یہ بات اس لیے غلط معلوم ہوتی ہے کہ ’’ صلہ موصول ‘‘ ہمیشہ مل کر جملے کا کوئی حصہ بنتے ہیں ــــ اگرچہ اعرا ب کا اثر (اگر ظاہر ہو تو) اسم موصول میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔ [وَیسفِک] کی واو عاطفہ ہے جس سے صلہ کا دوسرا حصہ ، جوآگے آرہا ہے۔ سابقہ حصے (یفسد فیھا)پر عطف ہے اور ’’یسفکُ‘‘فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعل ’’ھُوَ‘‘ہے [ الدماءَ] فعل ’’ یَسْفکُ‘‘ کا مفعول بہ ( لھذا) منصوب ہے علامت نصب آخری ہمزہ کی فتحہ (ئَ)ہے۔ اس طرح ’’ الدماء‘‘کے جمع ہونے کی بنا ء پر ’’ یسفک الدماء‘‘ کا لفظی ترجمہ ہو گا’’ وہ بہائے گا خونوں کو‘‘۔ اور اسی جمع والے مفہوم کو مدنظر رکھتے با محاورہ اردو ترجمہ ’’ وہ خونریزیاں کرے گا یا کشت وخون کرے گا ‘‘ سے کیا گیا ہے۔ بلحاظ ترکیب یہ دوسرا جملہ ’’ وَ یَسْفِک الدماءَ‘‘ بھی بذریعہ عطف ( وَ) ’’مَنْ‘‘کے صلہ میں شامل ہے۔ یعنی ’’ مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ ‘‘سب صلہ موصول ہے اور اسم موصول ’’مَنْ‘‘ کے اعراب کے حکم میں ( محلاً منصوب)ہے۔

(۳)  وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ  ۔

 [وَ] حالیہ بمعنی ’’حالانکہ‘‘ہے ۔ اگرچہ بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’اَوْر‘‘ (عاطفہ کی طرح) ہی کر دیا ہے۔ اور اس واو الحال کے بعد آنے والا پورا جملہ حال ہونے کے لحاظ سے سابقہ عبارت ( جملہ نمبر ۲ مندرجہ بالا) کا ہی ایک حصہ بنتا ہے تاہم چونکہ یہ حالیہ جملہ بھی ایک ’’ جملہ‘‘ ہے اور اس کی اپنی اندرونی یعنی اعرابی ’’ کیفیتیں ‘‘ہیں اس لیے ہم اس کے اعراب سے الگ بات کرنے لگے ہیں۔ پھر پورا جملہ بلحاظ ترکیب  چاہے’’ حال‘‘ بنے یا کچھ اور۔ [نَحْنُ] ضمیر منفصل مرفوع ہے جو یہاں مبتداء کا کام دے رہی ہے[نُسبِّحُ] فعل مضارع معروف جس میں ضمیر فاعلین"نحن"مستتر ہے۔ضمیر منفصل مرفوع اور ضمیر متصل مرفوع کے جمع ہو جانے کی بناء پر یہاں ’’ نحن ‘‘ کا ترجمہ ’’ ہم تو ‘‘سے کرنا زیادہ مو زوں ہے (اور بعض مترجمین نے اسی طرح ترجمہ کیا ہے) اور یہ جملہ فعلیہ ( نُسبِّح) یہاں مبتدأ ’’نحن ‘‘ کی خبر ہے یعنی محلاً مرفوع ہے۔ [بِحَمْدِکَ] جارّ ( بِ) +مجرور (حمدِ"  جو آگے مضاف بھی ہے) + مضاف الیہ + مضاف الیہ ( کَ) کا مرکب ہے۔ اس ( بحمدک کی) ’’باء‘‘ کو نحوی حضرات باء الحال کہتے ہیں [7] کیونکہ اس کے بعد آنے والے فعل (یا اس کے مصدرــــجیسے یہاں ’’ حمد ‘‘ہے) میں اسم الفاعل منصوب (حال) کے معنی  پیدا ہوتے ہیں یعنی یہاں ’’بحمد ک‘‘ کا مطلب ہے’’ حامدین لک ‘‘(تیرے حمد کرنے والے ہوتے ہوئے)۔ اس باء الحال کی بعض  اور مثالیں بھی آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی (مثلا المائدہ:۶۳میں )ــــنحویوں نے اسے ایک محذوف حال ( مثلاً مشتملینَ) سے متعلق قرار دیا ہے [8] (یعنی شامل کرنے والے ہوتے ہوئے اپنی تسبیح کے ساتھ تیری حمد کو)۔ اور ان دو اعرابی وجوہ ( یعنی’’ بحمدک‘‘  میں حال کا مفہوم ہونے کی بنا پر بعض اردو مترجمین نے ’’نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ ‘‘کا ترجمہ ’’ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے ہیں‘‘کے ساتھ کیا ہے۔ اگرچہ اکثر نے ’’بحمدک ‘‘کے لفظی ترجمہ ’’ تیری حمد و ثناکے ساتھ ‘‘ ،’’تیری تعریف کے ساتھ ‘‘ کو ہی اختیار کیا ہے۔ اور غور سے دیکھا جائے تو اس ’’کے ساتھ‘‘ (جو ’’بِ‘‘ کا ترجمہ ہے) میں بھی ایک طرح سے ’’ حال‘‘ کا مفہوم موجود ہے یعنی ’’ تیری حمد کو ساتھ لیتے ہوئے ‘‘۔[وَنُقَدِّسُ] کی واو عاطفہ ہے جس کے ذریعے فعل ’’نقدّس‘‘ کا تعلق گزشتہ فعل ’’ نسبّح ‘‘سے بنتا ہے۔ اور"نُقدِّس" فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع متکلم ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ نحن ‘‘مستتر ہے۔ اور اس (نقدّس) کے لغوی معنی دو ہیں۔ (۱) ’’ہم پاک کرتے ہیں ‘‘اس میں ایک مفعول ( انفسَنا) محذوف ہے یعنی ہم (اپنے آپ کو)پاک کرتے ہیں‘‘ (۲) ’’ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں یا پاک کہتے ہیں ‘‘۔ [لک] جار (ل) اور مجرور (ک) مل کر فعل ’’ نقدس‘‘ سے متعلق ہیں۔ پہلے معنی (۱) کے لحاظ سے تو یہ ’’لام ‘‘اختصاص کے لیے ہے یعنی ’’ تیرے لیے، تیری خاطر (اپنے آپ کو پاک کرتے یا رکھتے ہیں)۔ دوسرے(۲) معنی کے لحاظ سے یہ لام زائدہ ہے یعنی ’’نقدِّسُک‘‘ اور نقدس لک‘‘ کا معنی ایک ہی ہے ( جیسے دخل المسجدَ و دخل فی المسجد کا مطلب ایک ہے) اس دوسری صورت میں ’’لَکَ‘‘ مفعول اور محلاً منصوب ہے یعنی ’’ تجھ کو پاک کہتے ہیں یا پاکیزہ ٹھیراتے ہیں ‘‘۔ چونکہ فعل ’’نُسبِّح‘‘اور فعل ’’نقدس‘‘ قریب المعنی (پاکیزگی بیان کرنا اور پاکیزہ ٹھیرانا)ہیں۔اور اردو میں ان کے مصدر ’’ تسبیح ‘‘ اور تقدیس‘‘بھی متعارف اور رائج ہیں اس لیے اس پوری عبارت ’’ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ‘‘ کا مجموعی اردو ترجمہ ’’ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے رہتے ہیں‘‘کیا گیا ہے (نوٹ کیجئے اس میں ’’ بحمدک‘‘ کا ترجمہ چھوٹ گیا ہے)۔ اور بعض نے اس کا (مجموعی) ترجمہ ’’ ہم تو تیری حمد و ثنا ء کے ساتھ تیری تسبیح اور تقدیس کرتے رہتے ہیں ‘‘اور ’’تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح اور تقدیس کرتے رہتے ہیں‘‘ کی صورت میں کیا ہے(ان مؤخر الذکر دونوں ترجموں میں ’’ بحمدک ‘‘ کا ترجمہ بھی شامل ہے)۔ اس عبارت کے تمام اجزاء ’’ نسبح ‘‘، ’’ بحمد ک‘‘ اور نقدس ‘‘ وغیرہ پر بحث ’’اللغۃ‘‘ میں مفصّل بات ہو چکی ہے۔ شروع میں لکھا جا چکا ہے کہ یہ جملہ (نمبر۳) ابتدائی واو حالیہ ( وَنحن…..)کی وجہ سے بلحاظ مضمون جملہ نمبر ۲ (قالوا أ تجعل…..) کا ہی حصہ ہے۔

 (۴)قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 

 [قال] فعل ماضی معروف مع فاعل ’’ھُوَ‘‘ ہے جو یہاں اللہ تعالٰی کے لیے ہے [اِنِّیْ] حرف مشبہّ بالفعل ( اِنَّ) اور اس کے اسم’’یائے متکلم‘‘ (ضمیر منصوب ’’ی‘‘) پر مشتمل ہے۔ یہ دراصل ’’ اِنَّنِی‘‘تھا یعنی ’’اِنَّ+نِی‘‘(یائے متکلم مع نون و قایہ) پھر ایک نون گرادیا گیا۔ [اَعْلَمُ] فعل مضارع صیغہ واحد متکلم ہے جس میں ضمیر فاعل ’’اَنا‘‘ شامل ہے۔ اور یہ جملہ فعلیہ ہو کر (اِنِّی کے)’’ اِنَّ‘‘ کی خبر (محلاً مرفوع) ہے۔ [مَا] اسم موصول ہے جو ’’اَعلم ‘‘کا مفعول ہوکر منصوب ہے مگر مبنی ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی ظاہر علامتِ اعراب نہیں ہے ( یعنی اس کو جو کہ) [لَا تَعْلمون] میں’’ لا ‘‘نافیہ بمعنی ’’نہیں ‘‘ہے اور ’’ تعلمون ‘‘فعل مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جو ’’ لا‘‘ کے ساتھ مل کر مضارع منفی ہو گیا ہے اور اس کے بعد ’’ما‘‘کے لیے ایک ضمیر عائد محذوف ہے یعنی اصل عبارت ’’مالا تعلمونہ‘‘تھی اور یہاں ’’لا تعلمون‘‘(جملہ فعلیہ)’’مَا‘‘ (موصولہ)کا صلہ ہے اور یوں ’’مالاتعلمون‘‘ پورا صلہ موصول مل کر فعل’’اعلم‘‘ کا مفعول بنتا ہے۔ اور یہ پورا جملہ ( اعلم مالاتعلمون) (اِنّی کے) ’’اِنّ‘‘ کی خبر ہے اس کا لفظی ترجمہ ’’بے شک میں جانتا ہوں  اس کو جو کہ تم نہیں جانتے ہو،بنتا ہے ۔اسی کا با محاورہ ترجمہ "میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘ اور’’مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے‘‘ جسے بعض نے ’’میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے ‘‘ اور ’’میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے اس میں ایک طرح ’’مَا‘‘ کو معرفہ (بمعنی الذی)سمجھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔

·       بعض نحوی حضرات نے یہاں ’’اَعْلَمُ‘‘ کو افعل التفضیل کا صیغہ سمجھ کر ’’مالاتعلمون‘‘ کو اس کا مضاف الیہ قرار دیا ہے۔ اس صورت میں عبارت کے اندرکچھ محذوف ماننے پڑیں گے مشلاً عبارت کچھ یوں سمجھیں گے’’ انی اعلم (منکم) (بِ) مَالاتعلمون‘‘ اور ترجمہ بنے گا ’’ میں جو کچھ تم نہیں جانتے اس کا تمہاری نسبت زیادہ جاننے والا ہوں ‘‘ــــ تاہم اردو مترجمین نے اس پیچیدہ ترکیب کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اور یہاں اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

 

۳:۲۱:۲     الرسم

آیتِ زیر مطالعہ کے قریباًتمام کلمات کا رسمِ املائی اور رسمِ عثمانی یکساں ہے۔ صرف دو کلمات تفصیل طلب ہیں (۱) جاعل اور للمئکۃ۔

(۱)لفظ ’’جاعِلٌ‘‘ یہاں بھی اور پانچ دیگر مقامات پر بھی باثبات الالف بعد الجیم لکھا جاتا ہے اور یہی اس کا رسم املائی بھی ہے۔ تاہم اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ آگے چل کر کم از کم ایک جگہ ( الانعام :۹۴)اس لفظ کے محذوف الالف ہونے کا ذکر آئے گا۔ اگرچہ وہ بھی مختلف فیہ ہے۔ صاحبِ نثرالمرجان نے یہاں بھی مصحف الجزری میں ( جو اُن کا ایک مصدرو مرجع ہے) بحذف الالف لکھا ہونا بیان کیا ہے اور اس کی وجہ سے لا علمی ظاہر کی ہے (نثرالمر جان ج ا ص۱۲۵)۔

علم الرسم کی کسی کتاب میں یہاں حذف الالف مذکور نہیں ہے لھذا بظاہر یہ مصحف الجرزی کے کاتب کے سہو کا نتیجہ ہے۔

(۲) لفظ ’’ الملئکۃ‘‘ (للملئکۃ میں) جس کی رسمِ املائی’’الملائکۃ‘‘ہے۔یہ لفظ قرآن میں مفرد مرکب مختلف صورتوںمیں ستر (۷۰)سے زائد مقامات پر آیا ہے۔ اور ہر جگہ اسی طرح بحذف الالف ( بین اللام و الھمزۃ) لکھا جاتا ہے یعنی اس پر تمام علمائے رسم کا اتفاق ہے اور ایرانی اور ترکی مصاحف میں جو اسے باثبات الف (رسم املائی کی طرح) لکھنے کا رواج ہوگیا ہے وہ رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے۔

 

۴:۲۱:۲      الضبط

اس آیت کے کلمات کے ضبط میں اختلاف کو حسب ذیل نمونوں کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ جن کلمات کے ضبط میں زیادہ اختلاف نہیں ، ان کی صرف ایک ہی صورت لکھی ہے:

 

 



[1] تفصیل کے لیے دیکھئے ابن الانباری کی البیان فی غریب اعراب القرآن ، ج۱ ص۷۱۔۷۰، نیز مختلف ڈکشنریوں میں تحت مادہ ’’ألک  و لأک‘‘۔

 

    [2] التبیان للعکبری، ج۱، ص۴۷۔

 

 [3] العمدہ فی غریب القرآن (للقیسی)، ص۷۳۔

[4] مثلاًالمعجم الوسیط تحت مادہ ’’قدس‘‘۔

[5]التبیان (للعکبری) ج۱، ص۴۷۔

 

 [6] چاہیں تو مزید بحث کے لیے دیکھ لیجئے اعراب القرآن (للدرویش) ج۱ ص۷۶۔ البیان (ابن الانباری) ج۱ ص۷۰ اور معجم النحوص۵۔

 

[7] ابن الانباری (البیان) ج۱ ص۷۱۔

[8] العکبری (التبیان) ج۱ ص۲۸ نیز الدرویش(اعراب) ج۱ ص۷۷