سورۃ البقرہ آیت نمبر ۳۱  اور ۳۲

۲۲:۲     وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَةِ    ۙ  فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ  (۳۱) قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا    ۭ  اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ  (۳۲)

۱:۲۲:۲      اللغۃ

۱:۲۲:۲(۱)     [وَعَلَّمَ] ’’وَ‘‘ (اور)ـــــ عَلَّمَ کا مادہ ع ل م اور وزن ’’فَعَّلَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ( علِم یعلَم= جان لینا) کے معنی و استعمال وغیرہ پربات ہوچکی ہے]البقرہ:۱۳یعنی ۱:۱:۲(۳)[

لفظ ’عَلّمَ‘‘اس مادہ (علم)سے باب تفعیل کے فعل ماضی معروف کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’علَّم........یُعَلِّمُ تَعْلِیمًا‘‘کے معنی ہیں: ’’.....کو سکھانا ، سکھلانا، بتا دینا، تعلیم دینا، ….کو ….کا علم دینا‘‘۔ باب تفعیل کی خاصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے راغب نے (مفردات) میں تعلیم کے معنی ’’کثرت اور تکرار کے ساتھ پڑھانا سکھانا تاکہ بات (سبق) سیکھنے والے کے ذہن نشین ہو جائے‘‘بتائے ہیں۔ اس فعل کے عموماً دو مفعول ہوتے ہیں جسے سکھایا جائے اور جو چیز سکھائی جائے۔ دونوں مفعول بنفسہٖ(صلہ کے بغیر) آتے ہیں جیسے ’’عَلَّمَہُ الکتابۃَ‘‘(اس نے اسے  لکھناسکھایا) البتہ(۱) بعض دفعہ مفعول اول محذوف کردیا جاتا ہے جیسے ’’ عَلَّمَ الْقُرآنَ( الرحمن:۲) ـــ  اور (۲) کبھی مفعول ثانی حذف کردیا جاتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھاجاتا ہے جیسے ’’وُیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ (البقرہ:۲۵۲) (۳)کبھی دونوں مفعول محذوف ہوتے ہیں جیسے ’’ عَلَّمَ بِالْقَلَم‘‘( العلق:۴) (۴) اور بعض دفعہ مفعول ثانی سے پہلے باء (بِ) کا صلہ بھی استعمال ہوتا ہے ، اس صورت میں اس کا ترجمہ ’’جِتلانا‘‘سے کرنا زیادہ موزوں ہوتا ہے جیسے ’’ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِيْنِكُمْ ‘‘(الحجرات:۱۶) میں ہے۔ ان تمام مواقعِ استعمال پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ انشاء اللہ۔

اس باب تفعیل (تعلیم) سے اَفعال کے مختلف صیغے چالیس سے زائد جگہ اور اسم مشتق (مفعول) کا صرف ایک صیغہ ’’ مُعَلَّمٌ ‘‘ ایک جگہ (الدخان:۱۴) قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں۔

۱:۲۲:۲(۲)     [اٰدَمَ] بعض اہلِ لغت (مثلاً  راغب)کے نزدیک ’’آدم ‘‘مادہ ’’ادم‘‘ اور وزن ’’ اَفْعَلُ‘‘(غیر منصرف)ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’ أَأْدَمُ‘‘تھی۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد مختلف ابواب سے مختلف معنی کے لیے آتا ہے۔ مثلا ادَم یأْدِم اَدمًا(باب ضرب سے)کے معنی ہی (۱) صلح صفائی کرانا(۲) (جانور کی) کھال کو صاف کرنا (۳) روٹی کو شوربے میں ڈالنا۔ اور اسی سے عربی میں سالن کو’’اِدامٌ‘‘کہتے ہیں ـــ   اور ادِم یأدم اُدمَۃً (باب سمع سے) کے معنی ہوتے ہیں ’’رنگ میں ’’سمرہ‘‘ ہونا یعنی سرخ یا گندمی رنگ کا ہونا‘‘ عام عربی زبان میں یہ مادہ مزید فیہ کے بعض ا بواب سے بھی مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہےـــــ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل کا کوئی صیغہ کہیں وارد نہیں ہوا۔

·       ’’اَدِم‘‘ (بابِ سمع سے)کے معنی سے آدمُ بروزن ’’اَفْعَلُ‘‘  گہرے گندمی یا بھورے رنگ والے کو کہتے ہیں۔ اس کی مؤنث ’’اَدماءُ‘‘ اور جمع (ہر دو کے لیے) ’’اُدْمٌ‘‘بروزن ’’فُعْلٌ‘‘ہے (کیونکہ یہ افعل الوان و عیوب والا وزن ہے)۔ گویا’’ آدم‘‘دراصل اسم صفت ہے اور آدم کے نام کو اس کی جلد کے (عمومی) رنگ سے مناسبت ہے۔

          بعض اہل علم کے نزدیک ’’آدم‘‘غیر عربی لفظ ہے۔ اور اس کے غیر منصرف ہونے کی وجہ عجمیت (عجمی ہونا)اور عَلمیت (نام ہونا) کا اکٹھا ہونا ہے۔

          گویا ایک عربی مادے سے اس کی مناسبت محض اتفاق ہے۔ اس قسم کے کئی اور عجمی الفاظ بھی چل کر ہمارے سامنے آئیں گے۔

·       بہر حال دونوں صورتوں میں ’’آدم‘‘سے مراد عموماً  ’’انسان ِاوّل‘‘ یا  ’’ابو البشر‘‘لیا جاتا ہے۔ اور اسی سے آدمیوں کے لیے قرآن کریم میں لفظ  ’’ بنی آدم‘‘ (آدم کی اولاد) استعمال ہواہے۔ قرآن کریم  میں لفظ ’’ آدم‘‘سترہ(۱۷) جگہ اور بنی آدم  آٹھ دفعہ آیا ہے۔ اور اس کے جملہ مواقع استعمال کو سامنے رکھتے ہوئے اسی  ’’انسانِ اوّل‘‘ یعنی  ’’ابوالبشر‘‘(سب بشر کا باپ)والے معنی کی تائید ہوتی ہے۔

۱:۲۲:۱(۳)     [اَلْاَسْمَآءَ] کامادہ  ’’ س م و‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر)’’اَفْعَالٌ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’اسماءٌ‘‘تھی مگر الف ممدودہ کے بعد آنے والی ’’و‘‘(یا ’’ی‘‘)کو عرب ھمزہ میں بدل کر بولتے اور لکھتے ہیں۔ ’’ اسماءٌ‘‘ جمع مکسر ہے اور اس کا مفرد (واحد)’’اِسمٌ‘‘ ہے جس کا اردو فارسی ترجمہ ’’نام‘‘ہے اس مادہ ( س م و) سے فعل مجرد کے باب اور معنی کے علاوہ لفظ ’’اسم‘‘ کی مکمل لغوی وضاحت ’’بسم اللہ‘‘ کی بحث میں کی جاچکی ہے۔۱:۱:۱(۱)میں۔

 [کُلَّھَا]جو ’’کُلٌّ‘‘(بمعنی سب ، تمام)+ھا(ضمیر مجرور مؤنث بمعنی اس کا؍ ان کا) کا مرکب ہے۔ اس ترکیب ِ اضافی کا لفظی ترجمہ ہے۔  ’’اس کے سب ‘‘جس کا بامحاورہ ترجمہ ’’وہ سب کے سب، کل کے کل ، سارے کے سارے‘‘ہے۔ لفظ ’’کلٌ‘‘کے مادہ اور اس کے استعمال کے ضروری قواعد البقرہ :۲۰ یعنی ۱:۱۵:۲(۹)میں بیان ہوچکے ہیں۔

[ثُمَّ]کا اردو ترجمہ ’’پھر، اس کے بعد‘‘ ہے۔ اس کلمہ کے مادہ، معنی اور استعمال کے بارے میں البقرہ :۲۸ یعنی ۱:۲۰:۲(۴)میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۲:۲(۴)     [عَرَضَھُمْ] یہ فعل ’’عَرَضَ‘‘اور ضمیر منصوب  ’’ھم‘‘ (بمعنی  ’’ان کو‘‘) کا مجموعہ ہے۔ ’’عَرَض‘‘کا مادہ ’’ع ر ض‘‘اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ہے۔ یعنی یہ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد کا فعل ماضی کا پہلا صیغہ (واحد مذکر غائب)ہے۔ یہ فعل مجرد عرَضیعرِض عَرْضًا(زیادہ تر باب ضرب سے)مختلف اور متعدد معنی کے لیے ـــ  لازم متعدی دونوں طرح  ـــ  استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بنیادی معنی (بصورت لازم)’’سامنے ظاہر ہونا، پیش آنا‘‘ہیں۔ مثلا کہتے ہیں عرَض الشییءُ (چیز ظاہرہوئی ۔ سامنے آئی)اور بصورتِ متعدی اس کے معنی  ’’حاضر یا ظاہر کرنا، …کے سامنے پیش کرنا‘‘ہوتے ہیں۔ جو چیز پیش کی جائے وہ بطور مفعول بنفسہ مذکور ہوتی ہے اور جس کے سامنے پیش کی جائے اس کا ذکر ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ مثلاً کہیں گے: ’’عرَض الشَییءَ علی فلان‘‘(اس نے چیز کو فلاں کے سامنے پیش کیا)

·       اسی باب (ضرب) سے یہ فعل بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور باب نصر، سمِع اور کرُم میں بھی یہ متعدد مختلف معانی دیتا ہے۔ جس کی تفصیل کسی اچھی معجم (ڈکشنری)میں دیکھی جاسکتی ہے۔

          تاہم قرآن کریم میں یہ فعل مجرد نہ تو ’’ضرب‘‘کے علاوہ کسی دوسرے باب سے آیا ہے اور نہ ہی مذکورہ بالا معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے ماضی اور مضارع (معروف و مجہول)کے مختلف صیغے کل بارہ (۱۲) جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ صرف بنیادی معنی  یعنی  ’’پیش کرنا، سامنے رکھنا یا کرنا یا لانا، حاضر کرنا‘‘(متعدی)کے لیے ہی آیا ہے۔ یہاں زیرِ مطالعہ لفظ میں اسی لیے اردو مترجمین نے ’’سامنے کیا، روبرو کردیا، پیش کیا، سامنے رکھا۔‘‘کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ ایک آدھ مترجم نے ’’دکھائے‘‘ بھی ترجمہ کیا ہے۔ جسے بلحاظ مفہوم ہی درست کہا جاسکتا ہے۔

ثلاثی مجرد کے علاوہ اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل اور اِفعال)سے فعل کے مختلف صیغے اور متعدد جامد اور مشتق اسماءــــ قرآن کریم میں ـــستر کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ان سب کا بیان اپنے موقع پر آئے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔

[عَلَی الْمَلٰئِکَۃِ]یہاں ’’علی‘‘ فعل ’’عرض‘‘ کے صلہ کے طور پر آیا ہے (اوپر دیکھئے ’’عرضھم‘‘میں عرض کے استعمال کا طریقہ) اور یہاں  یہ (علٰی)پر ’’یا‘‘ کے سامنے ’’کے معنی میں ہے۔ (یعنی فرشتوں کے سامنے کیا) لفظ ’’الملائکہ‘‘ (بمعنی فرشتے یا فرشتوں) کے مادہ وغیرہ کی لغوی بحث ابھی اوپر البقرہ:۳۰یعنی ۱:۲۱:۲(۲) میں گزر چکی ہے۔

 [فقال] ’’پس اس نے کہا‘‘ غالباً اب آپ کو ان کے معنی وغیرہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فائے عاطفہ اور فعل ’’قال‘‘ کئی دفعہ آچکے ہیں۔بہر حال اگر چاہیں تو ’’فَ‘‘ کے لیے البقرہ :۲۲ یعنی ۱:۱۶:۲(۱۰)اور ’’قال‘‘کے مادہ ، باب، معنی اور تعلیل وغیرہ کے بارے میں البقرہ:۳۰ یعنی ۱:۲۱:۲(۳)کے بعد دیکھ لیجئے۔ فعل  ’’قال یقول‘‘کی لغوی بحث سب سے پہلے البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۵)میں ہوئی تھی۔

۱:۲۲:۲(۵) [اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ] کا مادہ ’’ن ب أ ‘‘ اور موجودہ وزن ’’اَفْعِلُوْنِی‘‘ہے۔ اس میں آخری ’’نی‘‘ تو یائے متکلم یعنی ضمیر منصوب ’’ی‘‘ ہے۔ جس سے پہلے والا ’’ن‘‘ نونِ وقایہ ہے۔ اس طرح اس ’’نِی‘‘ کا ترجمہ تو ہوگا ’’ مجھ کو یا مجھے‘‘ باقی فعل ’’ انبئُوا ‘‘ بر وزن ’’اَفْعِلُوْا‘‘ ہے۔

اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’ نَبَأَ ینبَأُٔ‘‘ (باب فتح سے) مختلف مصدروں (نَبْأَ ، نُبُوءًا ا اور نَبْأَۃً)کے ساتھــــ  اور صلہ کے بغیر اور ’’عن‘‘ اور ’’علی‘‘ کے صلوں کے ساتھ بھی ـــ لازم متعدی مختلف معنوں کے لیے آتا ہے۔ مثلاً  ’’بلند ہونا، ہلکی آواز نکالنا، …پر غالب آنا، …سے دور ہوجانا‘‘وغیرہ۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کا کسی معنی بھی کوئی صیغۂ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے ابواب تفعیل، اِفعال اور استفعال سے مختلف صیغے پچاس کے قریب ــــ  اور مختلف جامد و مشتق کلمات سو سے زائدــــ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’انبئونی‘‘ اس مادہ (نبأ)سے باب اِفعال کے فعل امر معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس باب (اِفعال)سے فعل ’’اَنبأ… یُنْبِیءُ اِنباءً‘‘ کے معنی ہیں:’’…کو خبر دینا، …کو بتلانا،ـــــ اور اس کے لیے دو مفعول درکار ہوتے ہیں۔ جس کو خبر دی جائے اور جس چیز کی خبر دی جائے۔ عموماً دونوں مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے)آتے ہیں اور بعض دفعہ دوسرے مفعول سے پہلے ’’باء‘‘ (بِ) کا صلہ بھی آتا ہے۔ مثلا کہیں گے ’’اَنبَأہ الخبرَ‘‘ یا ’’اَنْبَأَہ بِالْخبر‘‘(اس کو خبر بتلائی)ــــ قرآن مجید میں اس مادہ سے بابِ اِفعال کے کل چار جگہ آئے ہیں۔ دو جگہ فعل ماضی اور دو جگہ فعل امر کی صورت میں۔ جن میں سے ایک یہ (زیر مطالعہ)ہے۔ اس طرح اس کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’تم بتاؤ، یا خبر دو‘‘ـــــ یہ صرف صیغۂ امر (انبئوا) کا ترجمہ ’’نی‘‘ کا ترجمہ پہلے ہوچکا ہے۔

[بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ] یہ بِ+اسماء+ھؤلاء کا مرکب ہے۔ اس میں باء (بِ) تو اس فعل (انبأ) کا وہ صلہ ہے جو مفعول ثانی (جو یہاں ’’اسماء‘‘ہے)پر لگتا ہے اور جس کا قاعدہ ابھی اوپر ’’انبئونی‘‘ میں بیان ہوا ہے۔ اگر فعل ’’اَنبأَ‘‘ کا ترجمہ ’’خبر دینا یا آگاہ کرنا‘‘سے کیاجائے تو یہاں اس ’’بِ‘‘ کا ترجمہ …کی (خبر دو) یا…سے (آگاہ کرو)ہوگا۔ اور اگر اس فعل کا ترجمہ ’’بتلانا یا بتانا‘‘ سے کیاجائے تو اردو محاورہ میں اس (بِ) کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ صرف ’’بتلاؤتو ‘‘ یا ’’بتاؤ تو‘‘سے کام چل جائے گا۔ لفظ’’اسماء‘‘(ناموں)کی لغوی وضاحت ابھی اوپر اسی زیرِ مطالعہ آیت میں ہوچکی ہے۔ اور ’’ھولاء‘‘ اسم اشارہ قریب جمع (برائے مذکر و مؤنث)ہے جس کاترجمہ یہاں ’’یہ سب‘‘یا ’’ان سب‘‘یا صرف ’’ان کے‘‘ کے ساتھ ہوگا۔ اسماء ِاشارہ کے بارے میں کچھ اصولی باتیں البقرہ:۲ یعنی ۱:۱:۲(۱)میں بیان ہوئی تھیں۔

 [اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ]یہ پورا جملہ اسے پہلے البقرہ:۲۳یعنی ۱:۱۷:۲(۱۰) میں گزر چکا ہے۔ اور اس کے تینوں اجزاء (یعنی ’’انْ، کنتم اور صادقین) کا مکمل لغوی وضاحت بھی وہاں ہوچکی ہے۔ ضرورت ہو تو ’’اِنْ‘‘کے معانی و استعمال کے لیے ۱:۱۷:۲(۱) اور ’’کنتم‘‘ کی ساخت وغیرہ کے لیے یہی یعنی  ۱:۱۷:۲(۱)کے ساتھ ہی بعد میں اور ’’صادقین‘‘ کی لغوی وضاحت کے لیے ۱:۱۷:۲(۱۰)میں  دیکھئے۔

۱:۲۲:۲(۶)     [قَالُوْا سُبْحٰنَکَ] قالوا(جس کا مادہ ’’ق و ل‘‘اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ہے) کے مادہ، باب وغیرہ پر البقرہ :۸ یعنی ۱:۷:۲(۵)میں اور خود اسی لفظ (قالوا) کی بناوٹ کے بارے میں البقرہ:۱۱ میں یعنی ۱:۹:۲(۴)کے ساتھ ہی بات ہوچکی ہے۔

’’سُبْحٰنَک‘‘ دراصل دولفظوں ’’سبحان‘‘ اور ’’کَ‘‘ (ضمیر مجرور بمعنی تیری / تیرا)سے مرکب ہے اس میں کلمہءِ ’’سُبْحَان‘‘ (یہ اس کی رسم املائی ہے، رسمِ عثمانی پر آگے بات ہوگی) کا مادہ ’’س ب ح‘‘ اور وزن ’’فُعْلَانٌ‘‘ہے۔ (یہاں ’’سبحانَ‘‘کے آخری ’’ن‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) کی وجہ ابھی آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد وغیرہ کی بحث ابھی گزشتہ آیت (البقرہ:۳۰)یعنی ۱:۲۱:۲(۷) میں لفظ ’’نُسبِّح‘‘ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔

یہ کلمہ (سبحان) اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’سبَح (الرجُلُ) یَسْبَح سبحانًا‘‘(باب فتح سے) کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں   (آدمی) کا ’’سبحان اللہ‘‘ کہنا، یعنی ’’اللہ کی پاکیزگی بیان کرنا‘‘ـــــ یعنی یہ اسی مادہ سے باب تفعیل کے مصدر ’’تسبیح‘‘ کا ہم معنی ہے جس پر ۱:۲۱:۲(۷)میں بات ہوئی تھی۔ اس طرح کلمہ ’’سبحانَکَ‘‘ لفظی ترجمہ تو بنتا ہے: ’’تیری پاکیزگی بیان کرنا‘‘ مگر اردو محاورے میں اس کا ترجمہ ’’پاکی ہے تجھے‘‘ یا ’’توپاک (ذات) ہے‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اس ترجمہ کی اعرابی توجیہ اور بامحاورہ ترجمہ کی نحوی بنیاد پر مزید بات بھی آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

[لَا عِلْمَ لَنَا] یہ لَا+علم +لَی (جو دراصل لام الجر ’’لِ‘‘ ہے مگر ضمیروں کے ساتھ فتحہ (ــــــَــــ) کے ساتھ پڑھا جاتا ہے)+نَا (ضمیر مجرو بمعنی ’’ہمارا‘‘) کا مرکب ہے۔

’’لَا‘‘ یہاں نفی جنس کا ہے ]دیکھئے ۱:۱:۲(۳)میں [جس کا ترجمہ ’’کسی قسم کا، کوئی بھی‘‘سے ہوگا۔ لفظ ’’عِلْم‘‘ کے مادہ (ع ل م) اور باب فعل وغیرہ (علِم یعلَم :جاننا) پر البقرہ :۱۳ یعنی ۱:۱۰:۲(۳)میں بات ہوچکی ہے۔بنیادی طور پر یہ لفظ (علم)اس فعل کامصدر ہے اور اسکے معنی ’’جاننا‘‘ہیں مگر یہ اسم مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی ’’معلوم یا جانی ہوئی چیز‘‘یا ’’معلومات‘‘ اور خود یہ لفظ (علم)بھی اردو میں  عام مستعمل ہے اس لیے ’’لا علِمَ‘‘ کا ترجمہ ’’کچھ بھی علم نہیں‘‘ یا کچھ بھی معلوم نہیں‘‘ہوگا۔ اور ’’لَنَا‘‘ کے لفظی ترجمہ ’’ہمارے لیے‘‘ کی بجائے اردو محاورے کے لحاظ سے ’’ہم کو‘‘ زیادہ موزوں ہے۔ اس طرح ’’لا علم لنا‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’ہم کو کچھ بھی معلوم نہیں‘‘ اسی کو مزید با محاورہ کرتے ہوئے بعض نے ’’ہم تو کچھ بھی نہیں جانتے‘‘ ترجمہ کیا ہے۔

[اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا] یہ تین کلمات ہیں ’’اِلَّا، مَا اور عَلَّمْتَنَا‘‘ ان میں سے پہلا یعنی ’’اِلّا‘‘حرفِ استثناء ہے جس کا اردو ترجمہ ’’مگر ، سوائے کے سوا‘‘ہے، اس (اِلّا) کے استعمال پر البقرہ:۹ یعنی ۱:۸:۲(۳)میں بات ہوچکی ہے۔ دوسرا کلمہ ’’مَا‘‘یہاں موصولہ ہے جس کا ترجمہ ’’جو کچھ کہ یا صرف جو کہ‘‘ہوگا۔ اس (مَا)کے معنی و استعمال کی البقرہ:۳ یعنی ۱:۲:۲(۵)میں وضاحت ہوچکی ہے۔ تیسرا لفظ ’’عَلَّمْتَنَا‘‘ہے جو ’’عَلَّمْتَ+نا(بمعنی ہم کو) کا مرکب ہے۔ اس میں فعل ’’ عَلَّمْتَ‘‘ کا مادہ ’’ع ل م‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْتَ‘‘ہے (اس مادہ سے فعل مجرد پر البقرہ:۱۳ یعنی ۱:۱۰:۲(۳)میں بات ہوچکی ہے)’’ عَلَّمْتَ‘‘ اس مادہ سے باب تفعیل کا فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر حاضر ہے اور اس باب سے فعل ’’علّم یعلِّم تعلیمًا‘‘کے معنی (سکھانا، پڑھانا، تعلیم دینا، علم دینا) پر بھی ابھی اوپر البقرہ:۳۱ ــــ ۱:۲۲:۲(۱)میں بحث ہوچکی ہے۔

اس طرح ’’الا مَا عَلَّمتنا‘‘کا لفظی ترجمہ ہے:’’مگر وہ جو کچھ کہ تو نے سکھایا ہم کو‘‘

[اِنَّکَ اَنْتَ]یہ ’’اِنَّ‘‘ (بے شک، یقینا)+’’کَ‘‘(ضمیر منصوب بمعنی ’’تُو ‘‘)+’’اَنتَ‘‘ (ضمیر مرفوع بمعنی ’’تُو‘‘) کا مرکب ہے۔ ’’تُو‘‘ کے دودفعہ آنے کی وجہ سے (یا یوں کہئیے کہ ضمیر فاصل ’’انت‘‘کی وجہ سے) اِنَّکَ اَنْتَ‘‘ کا ترجمہ ’’بے شک تو ہی ہے‘‘سے کیا جائے گا۔

۱:۲۲:۲(۷)     [الْعَلِیْمُ] کامادہ ’’ع ل م‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے۔ جو فعل ثلاثی مجرد ’’ علِم یعلَم عِلمًا‘‘(دیکھئے۱:۱۰:۲(۳)سے صفت مشبہ کا وزن ہے۔ اس کا ترجمہ ’’بہت جاننے والا، ہر وقت اور سب کچھ جاننے والا‘‘ہونا چاہئے مگر مختصراً ’’بڑا جاننے والا‘‘ ہی کرلیا جاتاہے اور اسی لیے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’اصل دانا‘‘، ’’اصل جاننے والا‘‘، ’’بڑے علم والا‘‘ اور ’’بڑا علم والا‘‘کے ساتھ کیا ہے۔

۱:۲۲:۲(۸)    [الْحَکِیْمُ] کا مادہ ’’ح ک م‘‘ اور وزن لام تعریف کے بغیر ’’فعیل‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’حکم یحکُم حُکمًا‘‘(عموماً باب نصر سے) سے آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’فیصلہ کرنا، حکم دینا یا چلانا‘‘ہوتے ہیں۔ اور اسی باب نصر سے یہ بطور فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی: ’’… کو منع کرنا‘‘ …کو روک دینا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’حکَمَہُ، یحکمہ‘‘(اس نے اسے منع کیا)اور ’’حکُم یحکُم حکمًا‘‘(باب کرم سے)بھی آتا ہے۔ اور اس کے معنی ہیں: ’’دانائی اور حکمت والا ہونا‘‘ـــــقرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد (باب نصر سے)کے مختلف صیغے ۴۵ سے زیادہ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے بعض ابواب(اِفعال، تفعیل اور تفاعل)سے چند صیغے اور اسی مادہ سے ماخوذ ومشتق کلمات (مثل حُکم، حکمۃ، حکام وغیرہ) ڈیڑھ سو سے زیادہ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

·       لفظ ’’الحکیم‘‘اس مادہ (ح ک م) کے فعل مجرد (باب کرُم) سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے اس لیے اس کا ترجمہ’’بہت بڑا دانا، بڑی دانائی والا، ہر وقت اور ہمیشہ دانا‘‘ہوسکتا ہے۔ عربی کا لفظ ’’حِکْمۃ‘‘ اردو میں (حکمت کی املاء کے ساتھ)مستعمل ہے اور اس کے معنی میں فارسی کے لفظ ’’دانائی‘‘ کی نسبت وسعت بھی زیادہ ہے۔ اس لیے اکثر اردو مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’حکمت والا‘‘، ’’بڑا حکمت والا‘‘سے کیا ہے ـــــ اور اگر اسے ’’حکَم یحکُم (باب نصر) سے ’’فعیل‘‘سمجھیں تو اس کے معنی ’’بڑا حکم دینے والا، بڑا حاکم‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔

اور بعض نے یہاں اسے فَعِیل بمعنی ’’مُفْعِلٌ‘‘لیا ہے  یعنی اس مادہ سے باب افعال ’’اَحکَم یُحْکِم اِحکامًا‘‘(بھی کسی چیز کو مضبوط کرنا، پختگی سے کرنا، عمدہ طریقے پر بنانا‘‘)ـــــسے اسم الفاعل کے معنی میں لیا ہے۔ اور شاید اسی لیے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’پختہ کار‘‘ کیا ہے۔

 

۲:۲۲:۲      الاعراب

          زیرِ مطالعہ دو آیات میں سے ہر ایک آیت ایک لمبا جملہ ہے۔ ویسے پہلی آیت (نمبر۳۱)دراصل تین مکمل اعرابی جملوں پر مشتمل ہے۔ جو حروف عاطفہ (ثم اور فاء) کے ذریعے باہم مربوط ہیں۔ دوسری آیت نمبر ۳۲ بھی دراصل تو تین چھوٹے جملوں پر مشتمل ہے مگر تمام جملے ’’قالوا‘‘کے مقول ہونے کی بناء پر ایک ہی مربوط جملہ شمار ہوسکتا ہے۔ اعراب کی تفصیل یوں ہے:

                                                (۱) وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَةِ    ۙ  فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ  اس آیت کو تین جملوںمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

نمبر۱     پہلا(۱) جملہ ’’ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا ‘‘ہے۔

اس جملے کی ابتدائی واو [وَ] یہاں مستانفہ ہے کیونکہ واو العطف سمجھ کر اس جملے کو اس سے پہلے (سابقہ) جملے کے آخری حصے کے ساتھ ملانے سے عبارت بنتی ہے ’’ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ  وَعَلَّمَ اٰدَمَ ‘‘(میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اس نے سکھایا آدمؑ کو) کا بلحاظ مضمون کوئی ُتک نہیں بنتا۔ لہٰذا یہ واو استیناف (ایک نئے جملہ کے شروع ہونے)کے لیے ہی ہوسکتی ہے۔

·       البتہ چونکہ واقعہ وہی (آدم) کا بیان ہورہا ہے اور یہ عبارت (علَّم آدمَ)بھی اسی قصے کا ایک حصہ ہے۔ اس لیے بعض نحوی حضرات یہاں اس ’’وَ‘‘ کے بعد والے جملے (علَّم آدم…) کو اس ’’واو‘‘ کے ذریعے ایک مقدر (UNDERSTOOD) عبارت پر عطف سمجھتے ہیں جسے پڑھنے والے کا ذہن سمجھ سکتا ہے گویا سابقہ آیت (نمبر۳ جس میں خلیفہ بنانے کا ذکر آیا ہے) کے بعد کچھ اس طرح کی عبارت مقدر ہے ’’فجعل فی الارض خلیفۃ سماہ آدم‘‘ پس اس نے زمین میں ایک نائب بنایا جس کا نام آدم رکھا) پھر اس آدم کے بارے میں اگلی بات ’’وعلّم آدم…‘‘ شروع ہوتی ہےـــــ قصہ گوئی کے ادبی انداز بیان میں ـــــبلکہ بعض دفعہ عام گفتگو میں بھی ـــــایسی محذوف یا مقدر عبارتوں کا رواج عام ہے جس سے پیدا ہونے والے خلاء (   ) کو قاری یا سامع کا ذہن خود پر کرلیتا ہے۔ اس قسم کے محذوف کلمات اور مقدر عبارات قرآن کریم میں بکثرت سامنے آئیں گی۔ یہ کلام کا عیب نہیں بلکہ خوبی ہے جس سے تھوڑے لفظوں میں زیادہ بات سمجھا دی جاتی ہے۔

بہر حال اردو ترجمہ واو مستانفہ کا بھی ’’اور‘‘سے کیا جاتا ہے]دیکھئے۱:۷:۲(۱)[۔ [عَلَّمَ] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [آدم] اس فعل (علَّم) کا مفعول بہ اول (لھذا منصوب ہے علامتِ نصب ’’م‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے اس لیے کہ ’’آدم‘‘غیر منصرف ہے اور [الاسماء] فعل ’’علَّم‘‘کا مفعول بہٖ ثانی ہے جس میں علامتِ نصب آخری ہمزہ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے۔ (یہ فتحہ لام ِتعریف کی وجہ سے تنوین کی بجائے رہ گئی ہے) [کُلَّھَا]میں لفظ ’’کُلّ‘‘ تاکید کے لیے ہے۔  [1] اس لیے منصوب ہے۔

          علامتِ نصب ’’لام‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ جو آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف (تنوین سے خالی)بھی ہے۔ اس کے بعد ’’ھا‘‘ ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے اور یہ وہ ضمیر ہے جو تاکید معنوی کے کلمات (عین، کل وغیرہ) کے بعد آتی ہے اور جو ہمیشہ (بلحاظ جنس و عدد)اپنے موٗکَّد کے مطابق ہوتی ہے۔ یہاں لفظ ’’الاسماء‘‘ موکَّد (متبوع)ہے اور چونکہ وہ جمع مکسر ہے اس لیے ضمیر مجرور واحد مؤنث (ھا)لائی گئی ہے۔ اور ’’الاسماء‘‘ کے منصوب ہونے کی وجہ سے کلمہ تاکید (کل) بھی منصوب ہے۔

(نمبر۲) دوسرا(۲) ضمنی جملہ ’’ ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَةِ ‘‘ہے۔ جس میں [ثُمّ] حرفِ عطف ہے جس سے بعد والا جملہ سابقہ جملے پر عطف ہے۔

 [عرضھم] میں ’’عرضَ‘‘فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ہے۔ جس کا مرجع ’’اللہ تعالی‘‘ہے۔ اور ضمیر منصوب ’’ھم‘‘ یہاں اس فعل کا مفعول بہٖ ہے( یعنی سامنے کیا ’ان‘کو)یہاں ضمیر ’’ھم‘‘ کا مرجع کیا ہے؟ اور ’’عرض‘‘ یعنی پیش کرنے کا طریقہ کیا تھا؟ اس پر تفصیلی بحث تو کِسی مستند تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ البتہ نحوی اعتبار سے یہاں یہ ضمیران ’’مسمَّیات‘‘ کے بارے میں جن کے نام سکھائے گئے اور چونکہ اس میں عاقل اور غیر عاقل ہر طرح کی چیزوں کے نام شامل تھے لھذا اہلِ عرب کے اندازِ کلام کے مطابق ضمیر ’’عاقلوں‘‘کے لیے لائی گئی ہے۔ جیسے مذکر مؤنث کے مجموعی ذکر (بطور مبتدأ یا فاعل یا مفعول وغیرہ) میں صیغہ مذکر ہی اختیار کیا جاتا ہےـــــ یہ کلام عرب کی خصوصیت اور اس لیے نحو کا مشہور قاعدہ ہے۔ [علی الملائکۃ]جار مجرور مل کر متعلق فعل (عرضَ) ہیں۔ جس میں فعل ’’عرض‘‘کے بارے میں وضاحت ہے یعنی ’’کس کے سامنے پیش کیا؟‘‘ کا جواب ہے۔

(نمبر۳) تیسرا ضمنی جملہ ’’ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ‘‘ہے۔ اس میں [فقال] کی فاء (فَ) عاطفہ ہے جس میں پہلے اور دوسرے جملے میں بیان کردہ (چیز یا کام) میں ترتیب کا مفہوم ہوتا ہے۔ (یعنی پھر، اس کے بعد)۔ اور ’’قال‘‘ فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اسی ترتیب والے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے بعض مترجمین نے یہاں ’’فقال‘‘ کا ترجمہ ’’پیش کرکے فرمایا‘‘کے ساتھ کیا ہے۔

 [انبئونی] (یہ اس کا رسمِ املائی ہے رسمِ عثمانی پر آگے بات ہوگی) میں ’’انبئوا‘‘ فعل امر کا صیغہ (جمع مذکر حاضر) ہے جس میں آخری واو الجمع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘کے لیے ہے اور ’’نی‘‘ میں نونِ وقایہ اور ’’ی‘‘ضمیر منصوب متصل ہے۔ اس طرح کلمہ ’’نی‘‘یہاں فعل ’’انبئوا‘‘ کا مفعول بہ ہے۔ اور ضمیر ساتھ لگنے سے فعل ’’انبئوا‘‘ کی واو الجمع کے بعد والا (آخر ی زائد الف گر جاتا ہے۔ [باسماء] میں ’’بِ‘‘ جار  ہے اور یہ وہ صلہ ہے جو فعل’ ’ انبأَ‘‘ کے مفعول ثانی پر داخل ہوتا ہے اور ’’اسماء‘‘مجرور ہے اور ’’اسماء‘‘ آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف ہے یعنی اسمائٍ کی بجائے ’’اسماءِ‘‘ رہ گیا ہے۔ اور [ھؤلاءِ]اسم اشارہ قریب برائے جمع (مذکر و مؤنث)ہے اور یہ ہمیشہ مبنی برکسرہ ہوتا ہے۔ یعنی اس لفظ کے آخر پر تینوں حالتوں میں کسرہ (ــــــِــــ) ہی رہتی ہے۔ یہاں یہ ’’ھولاءِ‘‘ لفظ ’’اسماءِ‘‘ کا مضاف الیہ ہو کر مجرور ہے اور یہ پورا مرکب جاری (باسماء ھولاءِ) ایک لحاظ سے فعل ’’انبئونی‘‘ کے مفعول ثانی کا کام دینے کی وجہ سے محلاً منصوب قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ لغوی اعتبار سے ’’ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ ‘‘ کو غیر قرآن میں ’’انبئونی اسماءَ ھولاء‘‘ کہنا درست ہے۔ اس لیے اس ترکیب کے اردو ترجمہ میں اس صلہ (بِ)کو نظر انداز کرنا پڑا اور اسی لیے اس کا بالکل لفظی ترجمہ ’’مجھے خبر دو ساتھ ان کے ناموں کے‘‘ ، کی بجائے تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’مجھے ان کے نام بتاؤ‘‘ سے کیا ہے۔ (’’انبأہ الخبر اور انبأہ بالخبر‘‘کے استعمال پر اوپر حصہ ’’اللغۃ ‘‘ میں بات ہوچکی ہے۔

 [اِنْ] حرفِ شرط ہے [کنتم] فعل ناقص صیغہ ماضی ہے جس میں اس کا اسم ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ یہاں ’’کنتم‘‘ کو ’’اِنْ‘‘ کی وجہ سے محلاً مجزوم کہہ سکتے ہیں اگرچہ صیغہ ماضی ہونے کے باعث اس پر ’’اِن‘‘ جازمہ سے کوئی تبدیلی نہیں ہوگی [صادقین] خبر کان (کنتم)ہے۔ اس لیے منصوب ہے، علامتِ نصب اس کے آخری ’’نون‘‘سے پہلے والی یائے ماقبل مکسور (ــــــِــــ ی)ہے ۔ اس شرطیہ جملے (اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ) کا جوابِ شرط یا تو اس جملے کے بعد ایک مقدر ’’فَاَنبئونی‘‘ہے (یعنی اگر تم سچے ہو تو پھر مجھے بتاؤ)ـــــ یاجوابِ شرط پہلے (بصورت ’’انبئونی باسماء ھولاءِ‘‘)آگیا ہے۔ یعنی اس عبارت کی سادہ نثر یوں ہے ’’ان کنتم صادقین (فَ) انبئونی باسماء ھولاء‘‘ـــــ اور یہ ساری عبارت ابتدائی ’’فقال‘‘ کا مقول ہوکر محل نصب میں ہے۔

(۲)  قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ ــــــــــــــ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاــــــــــــــۭ  اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ  بلحاظِ اعراب یہ آیت  بھی بنیادی طور پر تین جملوں پر مشتمل ہے۔  جو مل کر ابتدائی فعل ’’قالوا‘‘کے مقول ہیں۔ [قالوا] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ہے جو یہاں فرشتوں (الملائکۃ) کے لیے ہے۔ اس کے بعد

پہلا جملہ [سبحانک]ہے یہ بظاہر مرکب اضافی ہے لیکن دراصل اس سے پہلے ایک فعل ’’نسبِّح‘‘محذوف ہے (ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں)ا س فعلِ محذوف کی وجہ سے ہی ’’سبحانَ‘‘منصوب  ہے کیونکہ یہ اس فعل کا مفعول مطلق ہوکر استعمال ہوا ہے۔ (اصل مصددر ’’تسبیح‘‘ تھا مگر عربی میں اصل باب کی بجائے کسی دوسرے ہم معنی باب کا مصدر بھی بطور مفعول مطلق استعمال کر لیا جاتا ہے)۔ اور یہ منصوب مفعول مطلق (جو دراصل سبحانًا تھا)یہاں آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف (سبحانَ)رہ گیا ہے اور اس کا مضاف الیہ آخر پر ضمیر مجرور ’’کَ‘‘ہے اور یہ لفظ (سُبْحَان)ہمیشہ مضاف ہو کر ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مضاف الیہ اسم ظاہر بھی ہوسکتا ہے، اسم موصول بھی یا کوئی ضمیر بھی مثلاً ’’سبحان اللہِ، سبحانَ ربِّی، سبحانَ مَنْ لا ینسی(جو بھولتا نہیں)سبحانہ‘‘وغیرہ کی صورت میں ـــــان تمام صورتوں میں ’’سبحان‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’پاک ہے‘‘ کیا جاتا ہے (دیکھئے حصہ" اللغۃ" ۱:۲۲:۲(۶))

·       بعض نحویوں نے یہاں ’’سبحانَکَ‘‘ میں لفظ ’’سبحان‘‘ کی نصب کی ایک اور توجیہ بھی بیان کی ہے۔ ان کے نزدیک یہاں (بلکہ ہر جگہ)’’سبحان‘‘ کومنادی مضاف قرار دے کر منصوب سمجھا جاسکتا ہے۔[2]   ہمارے خیال میں یہ بھی ایک عمدہ توجیہ ہے۔ قرآن کریم میں ’’یا حسرتٰی، یاویلتٰی‘‘کی صورت میں اس سے ملتی جلتی تراکیب موجود ہیں۔ اس طرح ’’سُبْحَانَک‘‘کا لفظی ترجمہ ’’اے تیری پاکیزگی‘‘(جیسے ’’رَبَّنا‘‘ کا مطلب ’’اے ہمارے رب‘‘ہے) بہر حال نصب کی وجہ مفعول مطلق ہونا سمجھیں یا منادی مضاف ہونا اس (سبحانک) کا بامحاورہ اردو ترجمہ جملہ اسمیہ کی صورت میں ’’تو پاک ہے، کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ایک آدھ مترجم نے ’’پاکی ہے تجھے‘‘ کے ساتھ بھی ترجمہ کیاہے۔ جو لفظی ترجمہ ’’تیری پاکی‘‘سے قریب تر ہے۔

  دوسراجملہ ’’ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ‘‘ہے۔

اس میں [لا] نفی الجنس کے لیے ہے جو اپنے اسم کو نصب دینے میں حروف مشبہ بالفعل سے مشابہ ہے (اس فرق کے ساتھ کہ اس کے اسم پر تنوین نصب نہیں آتی۔ یعنی دو کی بجائے ایک فتحہ (ــــــَــــ)رہ جاتی ہے۔ [علِمَ] یہ اس لائے نفی جنس کا اسم ہے جو منصوب ہے مگرمبنی برفتحہ (کی طرح)ہے۔ [لنا] جار (لِ) اور مجرو ر (نا) مل کر ’’لا‘‘ کی محذوف خبر (مثلاً موجودٌ یا کائنٌ یا ثابتٌ  وغیرہ)سے متعلق ہیں۔ یعنی اس میں اس سوال کا جواب ہے کہ یہ ’’کسی قسم ‘‘ کا علم ’’کس‘‘ کے پاس نہیں ہے؟ [اِلَّا]حرفِ استثناء ہے اور یہ نفی کے بعد آئے تو ’’حصر‘‘ (محدود کردینا)کے معنی پیدا کرتا ہے اس لیے اس (اِلّا) کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’مگر اتنا ہی ، مگر وہی‘‘سے کیا جاتا ہے۔ [مَا]اسم موصول ہے بمعنی ’’جو کچھ کہ‘‘۔ اس طرح ’’اِلَّا مَا ‘‘ کا ترجمہ ’’مگر اتنا ہی جو کچھ کہ‘‘ بنتا ہے جس کی مزید با محاورہ صورت ’’مگر جتنا‘‘ اختیار کی گئی ہے۔ [عَلَّمْتَنَا] یہ جملہ فعلیہ ہے۔ (جو فعل ماضی مع ضمیر فاعل ’’انتَ‘‘ اور ضمیر مفعول ’’نا‘‘ پر مشتمل ہے اور اس میں ایک ضمیر عائد محذوف بھی ہے یعنی دراصل ’’علتناہ‘‘تھا) اور یہ موصولی (مَا)کا صلہ ہے۔ اور یوں یہ صلہ موصول مل کر (ما علَّمتَنا)محلاً مرفوع ہے۔ کیونکہ لائے نفی جنس کے بعد جب ’’اِلَّا‘‘ آئے اور ’’اِلَّا‘‘سے پہلے لائے نفی جنس کی خبر محذوف ہو تو پھر ’’اِلَّا‘‘ کے بعد والا اسم مرفوع ہوتا ہے۔ جیسے ’’ لا اِلٰہَ الا اللہٗ‘‘ میں ’’اللہٗ‘‘ مرفوع ہےـــــ اگر ’’لا‘‘ کی خبر ’’اِلّا‘‘ سے پہلے موجود ہو یعنی اِلَّا سے پہلے کلامِ تامّ (مکمل جملہ) ہوتو ’’اِلَّا‘‘کے بعد والے اسم کو مستثنیٰ ’’باِءِلَّا‘‘ سمجھ کر منصوب پڑھتے ہیں (اگر وہ کوئی جملہ ہو تو محلاً منصوب ہوگا) مثلاًاگر جملہ ’’لَا اِلٖہَ موجودٌ‘‘ ہوتو اس کے بعد ’’اِلَّا اللہَ ‘‘(منصوب) پڑھ سکتے ہیں۔

نحوی نقطہ نظر سے یہاں ’’مَا‘‘کو موصولہ کی بجائے مصدریہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی ’’اِلا ما علمتنا‘‘کی تقدیر (اندازہ کے مطابق عبارت) مصدر مؤوّل (فعل سے مصدر بنا کر)کے ساتھ کچھ یوں ہوگی ’’اِلّا تعلیمُکَ ایّانا‘‘اس میں ’’تعلیم‘‘(جو ’’عَلَّم‘‘ کا مصدر مؤوّل ہے) کی رفع کی وجہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ دوسری تقدیر عبارت ’’اِلَّا علمٌ علمتناہ ہوسکتی ہے۔ اس میں ’’علمٌ‘‘ نکرہ موصوفہ ہو کر وہی اسم موصول والے معنی (جو کہ) دے گا۔

·       بہر حال ’’مَا‘‘ کو موصولہ سمجھ کر ترکیبِ نحوی کو سمجھنا نسبتاً آسان ہے۔ اور بامحاورہ اردو ترجمہ کے لیے موزوں بھی ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اردو کے کسی مترجم نے بھی یہاں ’’مَا‘‘کو مصدریہ سمجھ کر ترجمہ نہیں کیا۔

تیسراضمنی جملہ ’’  اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ ‘‘ہے۔

اس میں [اِنَّک] ’’اِنَّ‘‘اور اس کے اسم (ضمیر منصوب متصل ’’کَ‘‘)پر مشتمل ہے۔ [اَنْت]ضمیر فاصل ہے جس کا اردو ترجمہ ’’توہی‘‘ یا ’’تو ہی تو‘‘ہے۔ اور]العلیمُ[ ’’اِنَّ‘‘ کی خبر اول (لھذا)مرفوع ہے۔ اور [الحکیمُ] اسی ’’اِنّ‘‘ کی خبر ثانی (لھذا یہ بھی)مرفوع ہے۔ ان دونوں خبروں میں علامتِ رفع آخری ’’میم‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں ’’اَنت‘‘کو (جو ضمیر مرفوع منفصل ہے) مبتدأ سمجھا جائے اور ’’العلیم الحکیم‘‘ کو اس کی دو معرفہ خبریں (اول ثانی) سمجھا جائے اور یہ پورا جملہ اسمیہ( انت العلیم الحکیم) ’’اِنّ‘‘کی خبر قرار دیا جائے۔

اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’الحکیم‘‘ کو ’’العلیم‘‘کی صفت سمجھا جائے (بعض نحویوں کے نزدیک صفت کی صفت لائی جاسکتی ہے)[3]  یعنی ایسا ’’العلیم‘‘ جو  ’’الحکیم‘‘بھی ہے۔ ( اور حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں یہ بیان ہوچکا ہے۔ کہ یہاں’’الحکیم‘‘، ’’حکمت والا‘‘ کے علاوہ ’’حاکم‘‘(فیصلہ کرنے والا) اور ’’مُحَکِم‘‘(پختہ کار) دونوں معنی میں لیا جاسکتا ہے ـــــاس طرح بھی ’’العلیم الحکیم‘‘مرکب توصیفی ہوکر ’’انتَ‘‘ کی خبر معرفہ ہوگا اور خبر کی تعریف (معرفہ ہونا) کی بنا پر بھی اردو ترجمہ میں ’’ہی‘‘ کا اضافہ ہوگا یعنی ’’تو علیم و حکیم ہی تو ہے‘‘ـــ اور اس صورت میں بھی یہ جملہ ’’انت العلیم الحکیم ‘‘ ’’اِنّ‘‘ ہی کی خبر بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اردو مترجمین نے ان دو کلمات(العلیم اور الحکیم) کے ترجمہ میں ان کے درمیان ’’اور‘‘ لگانے سے گریز کیا ہے۔ یعنی دو خبروں کی بجائے صفت موصوف سمجھ کر ترجمہ کیا ہے۔

 

۳:۲۲:۲         الرسم

اس (زیر مطالعہ) قطعہ ٔ  آیات کے بیشتر کلمات کا رسم عثمانی اور رسم املائی (عام املاء) یکساں ہے۔ صرف چھ کلمات کا رسم توجہ طلب ہے۔ یعنی ’’ادم ۔الملئکۃ ۔ انبونی۔ ھؤلاء۔ صدقین اور سبحنک‘‘۔ تفصیل یوں ہے:

’’(۱) اٰدَمُ‘‘: یہ لفظ عام املاء میں اور قرآن کریم میں بھی اسی طرح ایک الف  کے ساتھ(ادم) لکھا جاتا ہے بلکہ قاعدہ یہ ہے کہ تمام اسماء و افعال جو مھموز الفاء مادہ سے ہوں ۔ جب ’’اَفْ‘‘ یا ’’فَا‘‘کے وزن سے شروع ہوں (یعنی اَ أْ یا أَا کی صورت میں)تو یہ"اَفْ" یا"فَا" صرف ایک ’’ا‘‘ کی شکل میں لکھے جاتے ہیں۔ یعنی صرف ایک الف کی شکل میں جس سے پہلے یا بعد کا ایک ھمزہ متحرکہ یا ساکنہ لکھنے میں محذوف کردیا جاتا ہے۔[4]   مگرپڑھا جاتا ہے۔ اس لیے اس کو بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے مختلف طریقے ہیں (جس کا بیان ضبط میں آئے گا) یہ قاعدہ اس سے پہلے لفظ ’’الاخرۃ ‘‘ (البقرہ:۴) کے ضمن میں بھی مفصل بیان ہواتھا]دیکھئے۳:۳:۲ اور ۴:۳:۲ میں[۔

(۲) الملٰئِکَۃ: جس کا رسم املائی ’’الملائکہ‘‘ہے۔ اس کے رسم عثمانی پر اس سے پہلے البقرہ:۳۰ یعنی ۴،۳:۲۱:۲میں بھی بات ہوئی تھی کہ یہ لفظ قرآن کریم میں ہر جگہ بحذف الالف بعد اللام لکھا جاتا ہے۔ اور ترکی، ایران اور بعض دفعہ برصغیر کے مصاحف میں جو اسے رسم املائی کی طرح لکھنے کا رواج نظر آتا ہے، یہ رسم عثمانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔

(۳)اَنبِئُونِیْ : جس کی رسم املائی ’’انبئونی‘‘ ہے۔ یہ لفظ مصاحفِ عثمانی میں ’’ ا بنونی‘‘ (حرکات و نقاط یعنی شَکْل کے بغیر) لکھا گیا تھا۔ [بلکہ ایک آدھ قراءت(خارج از سبعہ)میں یہ لفظ اسی رسم کی بناء پر ’’انبُونی‘‘ بروزن ’’اَعطونی‘‘ـــــ لام کلمہ کے سقوط کے ساتھــ بھی پڑھا گیا ہے][5] اور اس رسم (انبونی( کی ایک وجہ یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ دراصل تو یہ ’’انبؤونی‘‘تھا۔ کیونکہ اس زمانے کی املاء کے لحاظ سے ھمزہ مضمومہ ہمیشہ ’’و‘‘ پر لکھا جاتا تھا بلکہ یوں کہیے کہ ھمزہ مضمومہ کی بجائے بھی صرف ’’و‘‘ لکھی جاتی تھی۔(ھمزہ، حرکات اور نقاط تو بعد کی ایجا د ہیں)ـــ اور ماقبل مضموم یا مفتوح ہونے کی صورت میں اب بھی یہی (ھمزہ کو ’’واو‘‘ پر لکھنے قاعدہ ہے۔ کسرہ کا قاعدہ بدلا ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوگا] تاہم رسم عثمانی (یعنی مصاحفِ عثمانی) میں دو  الف یا  دو  واو  یا  دو یاء جمع ہونے کی صورت میں صرف ایک الف، ایک واو اور ایک یاء ہی لکھے گئے تھے جس میں مثال علی الترتیب اادم=ادم، داوود=داود اور امیین=ا مین ہے۔ رسم عثمانی کے اس قاعدہ (جوبعد میں علمائے رسم نے مصاحفِ عثمانی کی املاء پر غور کرنے کے بعد مستنبط کیا) کی بناء پر ہی ’’انبوونی‘‘کو ’’انبونی‘‘لکھا گیا (نقطوں کے بغیر)۔ پھر جب ضبط کے لیے ’’ب‘‘ اور ’’و‘‘ کے درمیان ھمزہ((#    یا  وغیرہ کی شکل میں) ڈالا گیا تو دوسری تیسری ہجری کے بعد ہونے والے قواعد ِاملاء کے مطابق یہاں یائے مھملہ (نقطوں کے بغیر) کا نبرہ (دندانہ) جسے مرکز ھمزہ بھی کہتے ہیں لکھنا چاہئے تھا کیونکہ اب ھمزہ متوسطہ مضمومہ صرف ماقبل کے ضمہ (ـــــُـــــ)  یا فتحہ (ــــــَــــ) کی صورت میں ہی ’’و‘‘پر لکھا جاتا ہے کہ جب کہ کسرہ (ـــــِــــ)کے بعد اسے نبرہ یاء (یاء کے دندانہ)پر لکھا جاتا ہے۔[6] تاہم قرآن کریم کے اصل رسم عثمانی پر ایک نبرہ (دندانہ)کا اضافہ بھی جائز نہ سمجھا گیا۔  اور اسی لیے (جیسا کہ آپ آگے ’’الضبط‘‘میں دیکھیں گے)اس ھمزہ کو یہاں ہمیشہ بغیر نبرہ (دندانہ) کے ’’ب‘‘ اور ’’و‘‘ کے درمیان ہی لکھا جاتا ہے۔ صرف ایرانی مصاحف میں اس لفظ کو عام عربی املاء کی طرح بصورت ’’انبئونی‘‘ لکھنے کا رواج ہوگیا ہے۔ جو رسم قرآنی کی خلاف ورزی ہے۔

(۴) ھٰؤُلَائِ: جس کی مصاحف عثمانی کی املاء ’’ھولا‘‘ تھی (حرکات کی طرح ہمزہ کی علامت بھی بعد کی ایجاد ہے) جو اگرچہ روایتِ حفص کے مطابق ’’ھَا أُلَائِ ‘‘ کی طرح پڑھا جاتا ہے۔ تاہم اس کے آخری ھمزہ   اور  اگلے لفظ (اِنْ) کے اجتماع  ھمزتین  کی بنا پر ’’ھولاء اءن‘‘ کے مختلف قراء ات میں پڑھنے اور ان کے مطابق ضبط کے بھی مختلف طریقے ہیں۔[7]   جو ہمارے موضوع سے خارج ہیں کیونکہ ہمارا دائرہ کار روایت حفص تک محدود ہے۔[8]

·       بہر حال یہ لفظ پہلے الف (بعد الھاء)کے حذف کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور پہلے ھمزہ کے مضموم ہونے کے باعث اس کے لیے ’’واو‘‘ (کی کرسی) ڈالی جاتی ہے (یعنی ھمزہ ’’و‘‘پر لکھاجاتا ہے)اور اس لفظ کی یہی املاء (ھؤلاء) عام عربی املاء کے لیے اختیار کر لی گئی۔ خیال رہے کہ اس میں ھمزہ کی مکتوبی علامت یا شکل (# (     وغیرہ) بعد کی ایجاد ہے۔ اگر چہ ہمزہ پڑھا پہلے بھی جاتا تھاـــــ گویا اس لفظ کی املاء صوتی اصول کے تحت نہیں بلکہ تاریخی اصول کے تحت اختیار کی گئی اور یوں اس کی عام املاء بھی (بہت سے دوسرے کلمات کی طرح)رسم ِعثمانی کی یادگار ہے۔ [9]

(۵) صدقین:جس کی عام عربی املاء ’’صادقین‘‘ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں ہر جگہ رسم عثمانی کے مطابق بحذف الالف بعد الصاد لکھا جاتاہے۔ بلکہ وزن ’’فاعل ‘‘ والے تمام کلمات کی جمع مذکر سالم میں حذفِ الف(بعض مستثنیات کو چھوڑ کر)قریب قریب ایک قاعدہ کلیہ ہے۔[10]   بہر حال ہم انشاء اللہ محض اصول رسم بیان کرنے کی بجائے ایک ایک کلمہ کے رسم پر (حسب موقع)الگ الگ بات کریں گے۔ اس لفظ کو بھی ایرانی اور ترکی مصاحف میں باثبات الف (صادقین) لکھنے کی غلطی عام ہے۔

(۶) سُبْحٰنک: اس کی عام املاء (رسم املائی) ’’سبحانک‘‘ ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ یہاں بحذف الالف بعد الحاء (سُبْحٰنک) لکھا جاتا ہے۔ یہ لفظ (سبحان) قرآن کریم میں اکتالیس بار آیا ہے۔ اور ہر جگہ اسی طرح بحذف الف(سُبْحٰنَ) لکھا جاتاہے ما سوائے ایک جگہ (الاسراء:۹۳) کے جہاں بعض روایات کے مطابق اسے ماثبات الف (سبحان) لکھا جاتا ہے۔[11]

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی بھی قطعہ زیرِ مطالعہ کی ابتداء میں ہم آیت یا آیت کو رسم عثمانی کے مطابق ہی لکھتے ہیں۔ آگے ’’اللغۃ‘‘، ’’الاعراب‘‘ یا ’’الرسم‘‘ میں زیر بحث لکھتے وقت ہم بعض دفعہ قاری کی آسانی کے لیے بعض کلمات کو رسم املائی کے ساتھ لکھ کر بھی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ اس چیز کی طرف ’’مقدمہ کتاب‘‘ میں بھی اشارہ کیا گیا تھا۔

 

 ۴:۲۲:۲               الضبط

زیر مطالعہ دو آیات کے کلمات میں ضبط کے اختلاف کو مندرجہ ذیل نمونوں کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ البتہ ان الفاظ میں سے ایک لفظ ’’انبئُوْنِیْ‘‘ایسا ہے کہ اس کے ضبط کے بارے میں چند باتیں قابلِِ ذکر ہیں۔ لہٰذا یہ بحث ہم پہلے کرلیتے ہیں:

·       تجوید کا قاعدہ یہ ہے کہ نون ساکنہ کے بعد ’’باء‘‘ (بِ) آئے تو اس ’’نون‘‘ کا تلفظ ’’میم‘‘میں بدل جاتا ہے۔ بعض ملکوں کے مصاحف میں اس ’’اقلابِ نون بمیم‘‘ کو ظاہر کرنے اور قاری کو بروقت متنبہ کرنے کے لیے اس ’’نون‘‘ پر ایک باریک سی ’’میم‘‘ ڈال دیتے ہیں (نۢ) پھر اس ’’میم‘‘ کے ساتھ علامتِ سکون ڈالنے یا نہ ڈالنے میں اختلاف ہےـــــ عرب اور بیشتر افریقی ملکوں کے مصاحف میں عموماً اس نون ساکنہ کے اوپر یہ ’’میم صغیرہ‘‘ بنا دیتے ہیں اور ساتھ علامتِ سکون نہیں ڈالتے (اَ نۢبِ …)برصغیر میں نون پر علامتِ سکون ڈال کر ساتھ ہی چھوٹی سی ’’میم‘‘ لکھی جاتی ہے۔ (اَ نۢب …) ترکی میں یہ میم صغیرہ ڈالنے کا رواج نہیں ہے۔ معلوم نہیں وہاں کا قاری کس طرح اس نون کو میم پڑھتا ہے؟ بعض افریقی ملکوں میں نون کے اوپر علامتِ سکون کی بجائے نیم گول دائرے کی شکل( (# میں ’’میم‘‘ لکھتے ہیں   جب کہ تجوید ی قرآن (مطبوعہ پاکستان) میں ’’ن‘‘ کے اوپر باریک سی ’’م‘‘ لکھ کر پھر اس کے اوپر بڑی سی علامتِ سکون نیم دائرہ کی شکل میں لکھی گئی ہے ۔ یعنی ( ( #کی شکل میں

·       اس کلمہ ’’انبئونی‘‘کے ضبط میں دوسرا اہم فرق ’’ب‘‘ کے بعد آنے والے ھمزہ کا طریقِ ضبط ہے۔ چونکہ بلحاظ رسم یہ لفظ ’’انبونی‘‘ہے (درمیانی نبرہ یا دندانہ کے بغیر) اور عام قواعد املاء (عربی) کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں ’’ب‘‘ اور ’’و‘‘ کے درمیان ھمزہ ایک نبرہ (دندانہ) پر لکھا جائے۔[12] اس لیے ایران اور وسط ایشیا کے بعض ممالک میں یہاں ایک دندانے (نبرہ) کا اضافہ کرکے اس لفظ کو ’’اَنْبِئُونی‘‘لکھا جاتا ہے۔ جو رسم عثمانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اور (جیسا کہ اوپر بحث ’’الرسم‘‘میں بیان ہوا ہے۔) یہ لفظ دراصل ’’انبوونی‘‘تھا۔ جس میں پہلی ’’و‘‘ تو مرکز ھمزہ مضمومہ (مضموم ھمزہ کی کرسی)کے لیے تھی اوردوسری ’’ و‘‘ صیغہ جمع (مخاطب)کی واو الجمع تھی۔ مگر اجتماع مثلین (ایک ہی حرف علّت کا دوبار یکجا واقع ہونا) کی وجہ سے ایک واو محذوف کر دی گئی۔ تاہم اس میں یہ اختلاف ہوا کہ دراصل پہلی واو (ھمزہ والی)حذف ہوئی ہے یا دوسری (واو  الجمع)جن لوگوں نے پہلی واو ( مرکز ھمزہ والی) کو محذوف سمجھا انہوں نے واو ثابتہ (جو حذف نہیں ہوئی) سے پہلے کسی نبرہ یا مرکز کے بغیر ہی ھمزہ لکھا۔ چنانچہ بر صغیر، عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں یہ ھمزہ ’’ب‘‘ اور ’’و‘‘کے درمیان بغیر نبرہ (دندانہ)کے لکھا جاتا ہے (البتہ ہمزہ کی شکل مختلف ہوتی ہے یعنی      (#) و غیرہ) اس (ھمزہ) کے بعد بر صغیر میں تو اس ہمزہ پر ضمہ (ـــــٗــــ) اور مابعد کی ساکن واو پر علامتِ سکون بھی ڈالتے ہیں۔ جب کہ عرب اور افریقی ممالک میں اس (آخری)واو کو علامتِ ضبط سے خالی رکھا جاتا ہے۔ مصحف الحلبی (مطبوعہ قاہرہ) میں یہ ھمزہ ٹھیک واو کے اوپر لکھ کر اس سے اوپر ہی ضمہ معکوس یعنی الٹا پیش (ــــــــٗـــــ) لکھا گیا ہے یعنی ’’انبؤٗنی‘‘ (داوٗد کی طرح)ـــــ جب کہ ترکی میں اس ھمزہ کو ’’و‘‘کے اوپر لکھ کر اس (و)کے نیچے باریک سا لفظ ’’ مدّ‘‘ لکھ دیا جاتا ہے۔)  #)‘‘ جس طرح وہ ’’اولئکَ‘‘ کی واو سے پہلے الف کے نیچے باریک سا لفظ ’’قصر‘‘ لکھ دیتے ہیں۔ تاہم ترکی والوں کا یہ طریقِ ضبط نہایت ناقص ہے۔ اس سے عام قاری (ناظرہ خوان) کسی طرح بھی کلمہ کے درست تلفظ سے بروقت آگاہ نہیں ہوسکتا۔

اس لفظ ’’انبونی‘‘کے ضبط کا ایک عام فرق آخری یائے ساکنہ(ماقبل مکسور)کو علامتِ ضبط سے عاری رکھنے یا نہ رکھنے اور اس کے ماقبل (نون)کے نیچے کسرہ (ــــــِــــ) یا علامت اشباع (ــــــٖــــ) ڈالنے کا ہے۔

اس طرح اس لفظ (انبؤنی) کے ضبط کی چھ مختلف صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں جن کو ددرج ذیل نمونوں کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔

31-32a

31-32b

 



 [1] توکید یا تاکید چار مشہور توابع (صفت، بدل، تاکید اور معطوف)میں سے ایک ہے جو عموماً  کلٌّ، نفسٌ، جمیعٌ، عَیْنٌ، کِلَا… اور کِلتا…. کے ذریعے ظاہر کی جاتی ہے اور کلمہ تاکید کا اعراب ہمیشہ اپنے موٗکَّد کے اعراب کے مطابق ہوتا ہے (جیسا کہ تمام توابع اعراب میں اپنے متبوع کے مطابق ہوتے ہیں)۔ کلمہ تاکید کے بعد ہمیشہ ایک مجرور (مضاف الیہ) ضمیر آتی ہے جو اپنے متبوع کے موافق (جنس، عدد وغیرہ میں)ہوتی ہے۔ ضرورت ہو تو نحو کی کسی کتاب میں سے توابع کے بیان میں ’’تاکید‘‘کے قواعد پر نظر ڈال لیں۔

 

[2]  دیکھئے اعراب القرآن للنحاس، ج۱، ص۲۱۰

 

  [3] التبیان (للعکبری) ج۱، ص۴۹ و اعراب القرآن (للنحاس) ج۱، ص۲۱۱

[4]  اس حذف کی بحث کے لیے دیکھئے نثر المرجان، ج۱، ص۱۲۶

 

 [5]  اتحاف فضلاء البشر (للبناء) ج۱ ص۳۸۴ اور کتاب الاشارات (بابڑ زئی) ص۳

[6]  کتاب الکتاب (لابن دستوریہ) ص۱۳۔ نیز نخبۃ الاملاء (للخلیفہ) ص۱۴

 

  [7]  جس کی تفصیل قرأت کی کسی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مثلاً اتحاف فضلاء البشر (للبنا)ج۱ص۳۸۴ ببعد۔ یا الغایۃ (للنیسا بوری) ص۹۹ ـــــ اور دراصل تو یہ کسی ماہر ِقراءت قاری سے سننے کی چیز ہے۔

[8]   دیکھئے مقدمہ

[9]   اس لفظ کی عام املاء کے قواعد کے لیے دیکھئے کتاب الکتاب (لابن درستویہ) طبع بیروت ص ۴۳۔ نیز نخبۃ الاملاء (للخلیفہ) ص۵۹۔ اور اسی لفظ کے قرآنی رسم کے قاعدہ کے لیے دیکھئے تلخیص الفوائد (شرح العقیلہ) ص ۷۲

[10]  اس کے تفصیلی بیان کے لیے دیکھئے المقنع (للدانی) طبع دمشق ص۲۲۔ سیر الطالبین (للضباع) ص۳۳ اور لطائف البیان (لزیتحاد) ج۱، ص۱۵۔

[11] دیکھئے المقنع ص۹۴ اور سیر الطالبین ص۴۳۔

[12]۔’’انبئونی‘‘ کے رسم و ضبط پر تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے نثر المرجان ج  ص۱۲۷۔ نیز اسی قطعہ کی بحث الرسم میں اس کلمہ (انبونی) پر بحث یعنی۳:۲۲:۲(۳)