سورۃ البقرہ آیت نمبر ۳۳

۲۳:۲      قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ   ۚ  فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ    ۙ  قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ (۳۳)

۱:۲۳:۲      اللغۃ
 [قال] کا مادہ ’’ق و ل‘‘اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (قال یقول=کہنا) کے باب، معنی اور استعمال پر تفصیلی بحث البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۴)میں اور خود اسی لفظ (قال) کی اصلی شکل اور تعلیل وغیرہ کی وضاحت ابھی اوپر البقرہ:۳۰ یعنی ۱:۲۱:۲(۱)میں ہوچکی ہے۔

 [یٰاٰدَمُ]جس کی عام  املاء ’’یا آدَم‘‘ہے (رسم عثمانی پر الگ بات ہوگی) اس میں ’’یا‘‘ تو حرفِ نداء ہے جس کا اردو ترجمہ ’’اے‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ لفظ ’’آدم‘‘کے مادہ، وزن اور اشتقاق لغوی وغیرہ پر البقرہ:۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۲)میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۳:۲(۱)     [اَنْۢبِئْـھُمْ] میں آخری ضمیر منصوب ’’ھم‘‘ کا ترجمہ یہاں ’’ان کو‘‘ہوگا۔ اور اس سے پہلے فعل ’’ اَنْۢبِیْٔ‘‘کا مادہ ’’ن ب أ ‘‘ اور وزن ’’اَفْعِلْ‘‘ہے یعنی یہ اس مادہ (ن ب أ) سے بابِ افعال کا فعل امر (صیغہ واحد مذکر حاضر)ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کے علاوہ اس سے بابِ اِفعال کے فعل (اَنْبَأَیُنْبِیُٔ اِنْبائً =خبر دینا) کے معنی اور اسکے ساتھ صلہ وغیرہ کے استعمال کی بھی ضروری وضاحت البقرہ: ۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۵)میں گزرچکی ہے۔ اس باب سے فعل امر کی گردان اَنْبِیْٔ، اَنْبِئَا، اَنْبِئُوْا، اَنْبِئِیْ، اَنْبِئَا اور اَنْبِئْنَ‘‘ہوگی۔ ان میں سے دوصیغے آیت نمبر ۳۱ میں (اَنْبِئُوا) اور زیرِ مطالعہ آیت نمبر ۳۳ میں (اَنْبِیْٔ) آگئے ہیں۔ ’’اَنبِئْھم‘‘ کا لفظی ترجمہ ’’تو بتا دے ان کو‘‘ہے۔ جسے بعض نے ’’تم بتلا دو انہیں‘‘سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے ضمیر ’’ھُم‘‘ کے لیے اس کا مرجع بطور اسم ظاہر لگا کر ’’فرشتوں کو‘‘سے ترجمہ کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے۔

 [بِاَسْمَآئِھِمْ] یہ تین کلمات ’’بِ+ ’’اسماء‘‘ + ’’ھم‘‘ کا مرکب ہے۔ اس میں ’’باء (بِ)‘‘ تو فعل ’’اَنْبَأَیُنبِئُ‘‘ کا صلہ ہے جو اس کے مفعول ثانی سے پہلے عموماً لگتا ہے یعنی ’’انبَأ… (۱) …بِ (۲)‘‘ کے معنی ہیں ’’(۱) کو (۲) کی خبر دی۔ [اس فعل کے استعمال پر ابھی اوپر البقرہ:۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۵)میں بات ہوچکی ہے۔] لفظ ’’اَسْمَاء‘‘کا مادہ ’’س م و‘‘ اور وزن ’’اَفْعَالٌ‘‘ہے۔ یہ ’’اسم‘‘کی جمع ہے اور"اسم"(نام)کی لغوی بحث سورۃ الفاتحہ کے شروع میں"بسم اللہ"کے ضمن میں گزر چکی ہے یعنی ۱:۱:۱(۱)میں۔آخری"ھم" ضمیر مجرور بمعنی ’’ان کے‘‘ہے۔ اس طرح اس مرکب ’’بِاسمائِھم‘‘ کا ترجمہ (پچھلے حصۂ  آیت ’’انبِئْھم‘‘تو بتادے/ خبر دے ان کو ’’ــــــکے ساتھ ملا کر)ہوگا ’’ان کے نام ؍ ان کے ناموں کی‘‘ جسے بعض نے ’’ان چیزوں کے نام‘‘سے ترجمہ کیا ہے جو لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے۔

[فَلَمَّا]یہ ’’ف‘‘(بمعنی پس۔ اس کے بعد) اور ’’لَمَّا‘‘ (الحینیۃبمعنی جب، جس وقت) کا مرکب ہے۔ ’’فاء‘‘ کا استعمال کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ اور اگر اب بھی ضرورت ہوتو البقرہ:۲۲ یعنی ۱:۱۶:۲(۱۰)دیکھ لیجئے۔ ’’لَمَّا‘‘کے معنی و استعمال پر البقرہ:۱۷ یعنی ۱:۱۳:۲(۴)میں بات ہوچکی ہے۔

[اَنْبَأھُمْ بِاَسْمَائِھِمْ] اس میں ’’اَنْبَأَ‘‘ کا مادہ ’’ن ب أ ‘‘اور وزن ’’اَفْعَلَ‘‘ہے۔ یعنی یہ بھی اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل ماضی (صیغۃ واحد مذکر غائب)ہے اور اس مادہ (ن ب أ) سے بابِ افعال کے معنی وغیرہ البقرہ:۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۵)میں گزر چکے ہیں۔

’’باسمائھم‘‘بعینہ (یہی لفظ)اوپر گزرا ہے۔ اب فعل ماضی کے ساتھ اس عبارت ’’انبَأَ ھم بِا سمائھم‘‘کا ترجمہ ہوگا: ’’اس نے بتا دئیے ان کو نام ان کے ‘ [اوپر آپ نے بصیغۂ امر ’’انبِئْھُمْ بِاَسْمَائھم‘‘= تو بتا دے ان کو نام ان کے‘‘پڑھا ہے] جس کی بامحاورہ سلیس صورت ’’اس نے انہیں ان کے نام بتائے‘‘ بنتی ہے۔ بعض نے فاعل ضمیر کا ترجمہ ’’اس ‘‘ کی بجائے احتراماً ’’انہوں نے‘‘ کیا ہے اور بعض نے ’’ھم‘‘ کی تکرار سے بچنے کے لیے پہلے ’’ھُم‘‘ کو ترجمہ میں نظر انداز کردیا ہے۔ یعنی ’’جب اس نے بتادیئے ان کے نام‘‘ اور بعض نے ضمیر کی بجائے ’’آدم‘‘اور ’’فرشتوں‘‘استعمال کیا ہے۔ یعنی ’’آدم نے فرشتوں کو بتائے‘‘ جو لفظ سے ہٹ کر ہے۔

] ۱:۲۳:۲(۲)     [قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ] اس جملے کا بڑا حصہ ایک ہی فعل مجرد ’’قال یقول‘‘(کہنا) کے مختلف (بلکہ صرف دو)صیغوں پر مشتمل ہے۔

[قال] کے مادہ، معنی اور صیغہ کی ساخت کا بیان کئی دفعہ ہوچکا ہے۔ (ابھی اسی آیت کے شروع میں ہی دیکھئے)۔

[اَلَمْ اَقُلْ] کا ابتدائی ’’أَ ‘‘ تو استفہامیہ (بمعنی کیا؟)ہے اور ’’ لَمْ اَقُلْ‘‘اسی فعل مجرد ’’قال یقول‘‘ سے فعل مضارع (صیغۃ واحد متکلم) منفی بِلَمْ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’لَمْ اَقْوُلْ‘‘تھی۔ مگر اس ’’اَقْوَلْ‘‘ میں اجوف کے قاعدے کے تحت ’’واو کا ضمہ (ــــُـــــ) ماقبل حرفِ صحیح (ق)کو دے کر خود ’’واؤ‘‘ کو تلفظ سے ساقط کردیتے ہیں۔ اور یوں یہ لفظ لکھنے او ربولنے میں ’’لَمْ اَقُلْ‘‘استعمال ہوتا ہے۔

·       آپ پڑھ چکے ہیں کہ ’’فعل مضارع منفی بِلَمْ‘‘میں ماضی منفی کے (مگر ذرا زیادہ زور کے)معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس  طرح ’’لَمْ اَقُلْ‘‘ کا ترجمہ تو بنتا ہے ’’میں نےکہا ہی نہیں‘‘ جسے بعض دفعہ صرف ’’میں نے نہیں کہا تھا‘‘ ہی کرلیتے ہیں، اگرچہ اس طرح ’’لَمْ‘‘ (جو نفی جحد کے لیے آتا ہے)کا زور ظاہر نہیں ہوتا۔

[لَکُمْ] میں حرفِ جارّ ’’لام‘‘(لِ) فعل ’’قال‘‘کے صلہ کے طور پر آیا ہے (اس استعمال کی وضاحت کے لیے دیکھئے۱:۷:۲(۴)) جس کا اردو ترجمہ عموماً ’’سے‘‘ (کہا) یا ’’کو‘‘(کہا)سے کیا جاتا ہے۔ اور یہاں ضمیر مجرور ’’کم‘‘کے ساتھ مل کر اس کا ترجمہ ’’تم سے، تم کو‘‘(کہا) ہوگا۔ اس طرح اس جملے (أَلَمْ اَقُلْ لَکُم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: کیا نہیں کہا تھا میں نے تم کو/ سے‘‘ــــــ

·       بعض مترجمین نے ’’أ ‘‘ کا ترجمہ (کیا؟) چھوڑ کر ترجمہ کیا ہے یعنی ’’میں نے تم سے نہ کہاتھا؟‘‘ یا ’’میں نے نہ کہا تھا تم کو؟‘‘ اس عبارت (ترجمہ کے بعد اگر سوالیہ نشان (؟) نہ لگا ہوتو یہ ترجمہ ایک طرح سے غلط پڑھا یا سمجھا جاسکتا ہے۔

          بعض نے ’’میں تم سے کہتا نہ تھا‘‘سے ترجمہ کیا ہے اس میں ’’کہا‘‘ کی بجائے ’’کہتا‘‘ لگانے سے أ (کیا) کے معنی شامل ہوگئے ہیں۔

          بعض نے ’’کیا‘‘ کی بجائے ’’کیوں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو ایسے موقع کے لحاظ سے بہت اچھا اردو محاورہ ہے یعنی ’’کیوں میں نے تم سےنہ/نہیں کہا تھا‘‘۔

بعض نے صرف ’’میں نہ کہتا تھا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو ’’ألم اَقُلْ‘‘کی حد تک تو اچھا ترجمہ ہے مگر اسم میں ’’لَکُمْ‘‘ کا ترجمہ چھوٹ گیا ہے۔ غالباً سب سے اچھا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا‘‘کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اس میں ’’کہا‘‘ کے بعد ’’نہ‘‘ لگانے سے ’’أ ‘‘ اور ’’لَمْ‘‘ کا ترجمہ بھی آگیا اور اس کے آخر پر سوالیہ نشان نہ ہونے سے بھی کوئی التباس واقع نہیں ہوسکتا۔

 [اِنِّی اَعْلَمُ] ’’اِنَّ‘‘اور اس کے اسم کے طور پر کسی ضمیر منصوب کے آنے کی کئی مثالیں گزر چکی ہیں۔ یہاں بطور اسم ’’اِنَّ‘‘ ضمیر واحد متکلم ’’ی‘‘ آئی ہے اس طرح ’’اِنِّیْ‘‘ کا ترجمہ ’’بے شک میں‘‘ہے۔ اسی ’’بے شک‘‘ کے لیے بعض مترجمین نے ’’تحقیق(میں)‘‘ اختیار کیا ہے جو بہت پرانی اردو ہے۔ بعض نے ’’بے شک‘‘ یا ’’یقینا‘‘ وغیرہ کی بجائے کسی اور طریقے سے ’’اِنَّ‘‘ کا زور اور تاکید ظاہر کیا ہے۔ (جیسا کہ ابھی سامنے آئے گا)

’’اَعْلَمُ‘‘کا مادہ ’’ع ل م‘‘اور وزن ’’اَفْعَلُ‘‘ہے۔ یہ اس مادہ سے فعل مجرد ’’علِم… یعلَم‘‘(بمعنی ’’جاننا‘‘)ــــ[اس کی مزید لغوی وضاحت کے لیے دیکھئے۱:۱۰:۲(۳)] سے فعل مضارع (صیغہ واحد متکلم)ہے یعنی ’’میں جانتا ہوں‘‘اس طرح ’’اِنِّیْ اَعْلَمُ‘‘ کالفظی ترجمہ ہوگا بے شک میں جانتا ہوں۔‘‘ بیشتر حضرات نے ’’اِنَّ‘‘ کا ترجمہ (بے شک)کو نظر انداز کرکے صرف ’’میں جانتا ہوں‘‘کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو اصل سے ذرا ہٹ کر ہے۔ بعض حضرات نے ’’میں خوب جانتا ہوں‘‘ کی صورت میں ’’اِنَّ‘‘ والی تاکید بھی بذریعہ محاورہ ظاہر کردی ہے۔ بعض مترجمین نے اردو محاورے کا خیال کرتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’مجھ کو معلوم ہیں‘‘یا مزید احتراماً ’’ہم کو معلوم ہیں‘‘ کیا ہے۔ اس میں ’’ہے‘‘ کی بجائے ’’ہیں‘‘ ’’اعلم‘‘کے مفعول میں (جو آگے آرہا ہے) جمع کا مفہوم (باتیںـــ چیزیں وغیرہ) ہونے کی وجہ سے لایا گیا ہے؟

اس پر مزید بات حصہ ’’الاعراب‘‘ میں بھی ہوگی۔

[غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ] اس مرکب (اضافی) کے تمام اجزاء کی الگ الگ لغوی بحث (مادہ، وزن، معنی اور استعمال وغیرہ) پہلے گزر چکی ہے اگر آپ اب بھی محسوس کرتے ہیں تو دیکھئے:۔

 (۱) ’’غَیْب‘‘ کے لیے البقرہ:۳یعنی ۱:۲:۲(۲) یہاں اس لفظ کا ترجمہ مختلف مترجمین نے ’’چھپی چیزیں‘‘، ’’چھپی ہوئی چیزیں‘‘، ’’پوشیدہ چیزیں‘‘یا باتیں‘‘، ’’مخفی چیزیں‘‘، ’’غیب کی باتیں‘‘ اور ’’پردے‘‘ کی صور ت میں کیا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس ترجمہ میں ’’چیزیں‘‘ اور ’’باتیں‘‘ تفسیری ترجمہ اور اردو محاورہ کی ضرورت ہیں۔ اور بعض تراجم (مثلاً پوشیدہ، مخفی) اصل لفظ (غیب) کی طرح مشکل بلکہ شاید زیادہ بھاری بھر کم ہیں۔

(۲)’’السَّمٰوٰتِ‘‘کے لیے البقرہ: ۲۹ یعنی ۱:۲۰:۲(۱۰) اردو میں یہاں اس کا ایک ہی ترجمہ ’’آسمانوں‘‘کیا جاسکتا ہے۔

(۳) ’’والْاَرْضِ‘‘کے ’’الارض‘‘ کے لیے البقرہ:۱۱ یعنی ۱:۹:۲(۴)اس کا بھی یہاں اردو ترجمہ ایک ہی ہوسکتا ہے یعنی ’’اور زمین‘‘۔

اب آپ اس عبارت ’’غیب السموت والارض‘‘ کا کوئی بھی ’’اچھا سا‘‘ مکمل ترجمہ (منتخب)کرسکتے ہیں۔

[وَاَعْلَمُ] ابھی اوپر گزرا ہے۔ (اِنِّیْ اَعْلَمُ میں) یعنی ’’اور / نیز میں جانتا ہوں‘‘، ’’اور مجھ کو معلوم ہے‘‘، ’’اور ہم کو معلوم ہے‘‘۔

۱:۲۳:۲(۳)     [مَاتُبْدُوْنَ] ’’مَا‘‘یہاں موصولہ (بمعنی ’’جو کچھ کہ‘‘، ’’جوکہ‘‘)ہے۔ اس کا اصل مفہوم تو عموم کا ہے یعنی ’’جو کچھ بھی کہ‘‘ــــ لیکن اگر عبارت سے معلوم ہوتا ہو کہ اس ’’مَا‘‘سے مراد کوئی خاص ایسی چیز ہی ہے جو کہنے والے یا اس کے مخاطب کے ذہن میں ہے تو اس (مَا) کا ترجمہ ’’الذی‘‘ کی طرح صرف ’’جو کہ ‘‘ یا ’’جو‘‘سے کرلیا جاتا ہے اور یہاں بیشتر مترجمین نے اس کا یہی ترجمہ (’’جو‘‘) کیا ہے۔نیز دیکھئے۱:۲:۲(۵)

 [تُبْدُوْنَ] کا مادہ ’’ب د و‘‘ اور وزن اصلی ’’تُفْعِلُوْن‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’تُبْدِوُون‘‘ہونی چاہئے تھی مگر واوِ مضمومہ ماقبل مکسور کو ’’یاء‘‘ میں بدل دیتے ہیں۔ اس طرح یہ لفظ ’’تُبْدِیُوْنَ‘‘بن سکتا ہے۔ اہل عرب اپنے نطق کے مطابق فعل ناقص (واوی/یا ئی) میں واو الجمع (جو فعل کے چار صیغوں۔ ماضی (۱)جمع مذکر۔ مضارع مجزوم یا منصوب جمع مذکر غائب (۲)یا حاضر (۳)اور فعل امر جمع مذکر حاضر (۴)اور اسم کی جمع مذکر سالم ــــ  میں آتی ہے)سے پہلے آنے والی ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘کو گرا دیتے ہیں اور پھر اگر اس محذوف ہونے والی ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘سے پہلے والا حرف (یعنی عین کلمہ))مکسور ہوتو اس کی حرکت کسرہ (ـــــِــــ) کو ضمہ (ـــــُـــــ) میں بدل کر بولتے ہیں (فتحہ ـــــَــــیا ضمہ  ـــــُـــــ  ہو تو وہ برقرار رہتے ہیں)۔اس قاعدے ــــــ یا اہل عرب کی عادت ِنطق ــــــ کی بناء پر یہ صیغۃ ’’تُبْدُوْنَ‘‘ہوجاتا ہے اور اب اس کا وزن ’’تُفْعُوْن‘‘رہ جاتا ہے۔

·       اس ثلاثی مادہ (ب د و)سے فعل مجرد ’’بَدا یَبْدُوْ بُدُوًّا‘‘(باب نصر سے) آتا ہے، یہ فعل ہمیشہ لازم استعمال ہوتا ہے (یعنی مفعول کے بغیر) اور اس کے بنیاد معنی ’’ظاہر ہونا/ہوجانا‘‘ اور ’’بالکل آشکار (کھلم کھلا)ہونا‘‘ہیں۔ اس سے اس کے ایک اور معنی ’’صحرا نشین (بدوی) ہونا بھی ’’پیدا ہوتے ہیں۔ (یعنی کھلی فضا میں رہنا) (اس صورت میں مصدر ’’ بَدَاوَۃً ‘‘ہوجاتاہے) قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کے صرف ماضی کے مختلف صیغے ۹ جگہ اور اس مادہ سے مأخوذ یا مشتق اسماء چار جگہ آئے ہیں۔ اور زیادہ ترپہلے معنی (ظاہر ہونا)کے لیے ہی استعمال ہوئے ہیں۔ (صرف تین جگہ دوسرے معنی آئے ہیں)۔

·       ’’ تُبْدُوْنَ‘‘ اس مادہ (ب د و) سے بابِ افعال کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس باب (اِفعال) سے فعل اَبْدیٰیُبْدِیْ اِبْدَائً‘‘(دراصل اَبَدَ وَ یُبدِوُ اِبداوًا)کے معنی ہیں: ’’…کو خوب اچھی طرح ظاہر کردینا، …کو خوب آشکارکردینا‘‘یہ فعل ہمیشہ متعدی آتا ہے بنفسہٖ بھی اور ’’باء‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی مثلا کہیں گے اَ بْدی الشیَٔ و بالشیِٔ (اس نے چیز کو ظاہر کر دیا) قرآن کریم میں باء کے صلہ والا استعمال صرف ایک دفعہ آیا ہے (القصص:۱۰) مجموعی طور پر اس باب سے مختلف اسماء اور اَفعال کے صیغے قرآن کریم میں کل ۱۷ جگہ آئے ہیں۔

·       مندرجہ بالا لغوی وضاحت کی روشنی میں ’’ماتُبدون‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’جو کچھ کہ تم ظاہر کرتے ہو‘‘اور بیشتر مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے، البتہ بعض نے صرف ’’جو‘‘ استعمال کیا ہے  اور بعض نے ’’جس بات کو‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے، بعض نے ’’تم ظاہر کرتے ہو‘‘ کی بجائے صرف ’’ظاہر کرتے ہو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے کیونکہ ’’تُبْدُوْنَ‘‘کی طرح ’’کرتے ہو‘‘ میں بھی ’’تم‘‘موجود ہے۔ البتہ بعض نے اس کا ترجمہ ’’جو تم کھولتے ہو‘‘سے کیا ہے، جو لفظ اور محاورہ دونوں لحاظ سے محل نظر ہے۔

۱:۲۳:۲(۴)     [وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُونَ] اس میں ’’وَمَا کُنْتُمْ‘‘کے اجزاء الگ الگ آپ پڑھ چکے ہیں۔ اگر اب بھی ضرورت محسوس کریں تو ’’وَ‘‘(عاطفہ بمعنی اور)اور دیگر استعمال کےلیے دیکھئے ۱:۴:۱(۳)الفاتحہ:۵ میں ’’ما‘‘(موصولہ بمعنی جو کچھ کہ) اور اس کے دیگر معنی و استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ:۳یعنی ۱:۲:۲(۵)’’کنتم‘‘ (تم ہو؍تھے)کے مادہ، وزن، تعلیل اور معنی وغیرہ کے لیے دیکھئے البقرہ:۲۳یعنی ۱:۱۷:۲(۱)

[تَکْتُمُوْن] کا مادہ ’’ک ت م‘‘ اور وزن ’’تَفْعُلُوْن‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’کَتَمَیَکْتُمُ کِتْمَانًا‘‘(باب نصر سے)استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے معنی ہیں۔ ’’… کو چھپانا، …کو پوشیدہ کرنا، …کو دل میں رکھنا‘‘ زیادہ تر یہ کسی ’’سِرّ‘‘ (بھید، راز) وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تاہم اس کا مفعول کبھی ’’حق‘‘ (سچ) شھادۃ (گواہی) وغیرہ بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً کہیں گے ’’کتَم السِّرَّ ؍ الحقَّ ؍ الشھادۃَ وغیرہ (یعنی اس نے بھید/ حق / گواہی وغیرہ کو چھپا لیا ــــ جس طرح ’’اِبداءً‘‘(دیکھئے اوپر ۱:۲۳:۲(۳)کے معنوں میں ’’خوب اور اچھی طرح ظاہر کرتے‘‘ کا مفہوم ہے۔ اسی طرح ’’کِتْمان‘‘ میں ’’خوب اچھی طرح چھپا لینے‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے۔

یہ فعل متعدی استعمال ہوتا ہے (اوپر آپ نے ایک مثال دیکھی ہے)۔ عموماً اس کے دو مفعول ہوتے ہیں (۱) جس سے چھپایا جائے اور (۲) جو (بات یا چیز) چھپائی جائے اوریہ دونوں مفعول عموماً بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتے ہیں مثلا کہیں گے "کتمتُ الرَّجُلَ الحدیث "(میں نے آدمی سے بات چھپا لی) ــــــبعض دفعہ مفعول اول پر ’’مِن‘‘ کا صلہ بھی لگا دیتے ہیں (اور جدید عربی میں ’’عن‘‘ کا استعمال بھی جائز سمجھا جاتا ہے) مثلاً کہیں گے :کتمتُ مِنَ / عنِ الرجلِ الحدیثَ (میں نے ایک آدمی سے بات پوشیدہ رکھی)۔

قرآن کریم میں یہ فعل اس طرح (مِنْ یا عَنْ کے ساتھ) کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ دونوں مفعول براہِ راست (بنفسہٖ)کم ازکم ایک جگہ (النساء: ۲۲۸) آئے ہیں ــــ ورنہ زیادہ تر اس کا پہلا مفعول (جس سے بات چھپائی جائے) محذوف یعنی غیر مذکور ہوتا ہے اور وہ سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے (مثلا اللہ تعالٰی سے، لوگوں سے وغیرہ)۔ قرآن میں کم از کم بیس مقامات پر یہ فعل اسی طر ح مفعول اوّل کے حذف کے ساتھ آیا ہے ــــ عربی زبان میں یہ فعل (کتم) مختلف مصادر کے ساتھ بعض دوسرے معانی (مثلاً برتن کا دودھ وغیرہ کو اپنے اندر سمو لینا یعنی باہر نہ گرنے دینا، گھوڑے یا اونٹ کا سانس لینا وغیرہ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم یہ استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا ــــ  اسی طرح قرآن کریم میں تو یہ فعل ہر جگہ صرف مجرد (سے) ہی استعمال ہوا ہے۔ اگرچہ عربی زبان میں اس مادہ (کتم) سے مزید فیہ کے افعال بھی مختلف معانی کے لیے آتے ہیں۔

 

۲:۲۳:۲      الاعراب

قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ   ۚ  فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ    ۙ  قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ)۳۳)

اعرابی لحاظ سے اس آیت کو چار جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے پہلے جملے کے آخر  پر وقفِ جائز کی علامت ’’ج‘‘ ڈالی گئی ہے۔ تاہم باقی تین جملے شرط اور جوابِ شرط ہونے کی بناء پر، اور جوابِ شرط میں آنے والے تین جملے بھی فعل ’’قال‘‘کے مقول ہونے اور باہم حرف عطف (وَ) سے مربوط ہونے کی وجہ سے، سب (تینوں جملے)ایک ہی مربوط جملہ شمار ہوں گے۔ بلکہ اسی لیے اس طویل جملے میں نحوی اعتبار سے جملہ مکمل ہونے کی جگہ بھی عدم وقف (لا) کی علامت ڈالی گئی ہے تاکہ کوئی نحوی اعتبار سے مکمل جملہ سمجھ کر وہاں وقف نہ کر ڈالے۔ذیل میں نحوی اعتبار سے مکمل ہونے والے چار جملوں کے اعراب پر الگ الگ نمبر وار بات کی جائے گی۔ اور ساتھ بتادیا جائے گا کہ اس جملے کا سابقہ جملے سے کیا تعلق ہے:

(۱) قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ

 [قال] فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ مستتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [یا آدم] (یہ رسم املائی ہے، رسم عثمانی پر الگ بات ہوگی) میں ’’یَا‘‘ حرفِ ندا‘‘ اور ’’آدم‘‘منادٰی مفرد اور عَلَم (نام) ہے، لہٰذا ضمہ پر مبنی ہے (اور ایک لحاظ سے اسے مرفوع بھی کہہ سکتے ہیں)

]انبئھم] میں ’’اَنْبِیْٔ‘‘فعل امر کا صیغہ ہے جس میں ضمیر فاعل مخاطب (انتَ) مستتر ہے۔ اور آخر والی ’’ھُمْ‘‘ ضمیر منصوب مفعول بہ ہے جو یہاں ’’ملائکہ‘‘ کے لیے ہے۔ [بِاَسمائھم] میں ’’بِ‘‘ تو فعل ’’انبِیْٔ‘‘ کا صلہ ہے اور ’’اسمائِ‘‘مجرور بالجر(بِ)بھی ہے اور آگے مضاف بھی ہے لھٰذا خفیف ہے اور آخری ’’ھم‘‘یہاں ضمیر مجرور مٖضاف الیہ (مجرور بالا ضافۃ)ہے جو ان ’’مسَّمیات‘‘(نام دھری چیزوں) کے لیے ہے جن کے ناموں کی بات ہورہی ہے اور چونکہ ان  چیزوں میں عاقل اور غیر عاقل دونوں طرح کی مخلوق شامل تھی اس لیے ان کے لیے ضمیر (ھم) عاقل کی طرح آئی ہے۔ اس طرح اس (باسمائھم)کو مفعول ثانی سمجھ کر محلاً منصوب قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور اگر چاہیں تو اس مرکّب جارّی (باسمائھم)کو متعلق فعل (انبِیْٔ) قرار دے لیں یعنی ’’ان کوبتا‘‘ کی وضاحت ہے کہ ’’کیا بتا؟‘‘اور یہ پورا جملہ (انبئھم باسمائھم) ابتدائی فعل ’’قال‘‘ کا مفعول بہ (مقول۔ جو بات کہی جائے)ہے۔ لھذا نحوی اعتبار سے یہ جملہ محلاً منصوب ہے ــــ  یہاں پہلا جملہ مکمل ہوتا ہے۔

(۲) فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ    ۙ  قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ

[فلما] کی ’’فاء‘‘(ف)عاطفہ بمعنی ’’پس، پھر‘‘ہے اور یہ (فَ)ایک محذوف العبارۃ مگر مفہوم المعنی جملہ (جو عبارت میں نہیں مگر سمجھا جاسکتا ہے)مثلاً ’’فَأنبأھم باسمائھم= پس اس نے ان کو ان کے نام بتادیئے‘‘ــــــ پر عطف ہے یعنی ’’فاء‘‘اس محذوف مگر مفہوم جملے کو اگلے جملے  کے ساتھ ملاتی ہے ــــــ اور [لمَّا] حینیہ ظرفیہ ہے یعنی یہ ’’حین‘‘(وقت)کے معنی دیتا ہے (جب۔ جس وقت) لھذا اس میں ایک طرح سے شرط کا مفہوم موجود ہے (اگرچہ اس کا فعل پر ـــــ ماضی ہونے کی وجہ سے ـــکوئی عمل نہیں ہوتا)۔[انبأھم] میں ’’انبأ‘‘ فعل (ماضی معروف) مع ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ہے اور ’’ھُمْ‘‘ اس فعل (انبأ ( کا مفعول بہ اول ہے (اور اس لیے یہاں یہ ضمیر منصوب آئی ہے) [باسمائھم] (مندرجہ بالا نمبر(۱)  والے ’’باسمائھم‘‘کی طرح جار مجرور (مرکب اضافی) مل کر یہاں محلاً منصوب (بطور مفعول ثانی) یا متعلقِ فعل ہے ــــ  اور چونکہ ظرف ہمیشہ مضاف ہوکر آتا ہے (قبل،بعد وغیرہ کی طرح)اس لیے نحوی حضرات اپنی فنی اصطلاح میں یہاں اس جملے ’’انبأھم بِاَسمائھم‘‘ کو ’’لَمَّا‘‘(ظرف) کا مضاف الیہ قرار دے کر اسے محلاً مجرور کہتے ہیں۔ تاہم اس دقیق فنی بازیگری سے عام ترجمہ میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اس فنی نکتہ کی بناء پر تو پھر  "لمَّا"بمعنی ’’بعد‘‘لینا پڑے گا اور جملہ کے مضاف الیہ ہونے کی بناء پر ترجمہ کچھ یوں ہوجائے گا ’’پس اس کے اُن کو اُن کے نام بتا دینے کے بعد‘‘۔ جو خوا ہ مخواہ کا تکلف ہے۔ عبارت کا سیدھا ترجمہ حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں دیا جاچکا ہے۔

[قال] فعل ماضی مع ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ہے جو یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اور سابقہ جملہ ’’فلما اَنبأھم باسمائھم‘‘ میں ’’لمَّا‘‘ کی وجہ سے جو شرط کا مفہوم پیدا ہوا تھا، اب اس ’’قال‘‘ سے اس کا جوابِ شرط شروع ہورہا ہے  (تاہم اس شرط اور جوابِ شرط میں کوئی جازم مجزوم نہیں آیا) اور شرط اور جوابِ شرط مل کر ایک ہی مربوط جملہ بنتا ہے، اس لیے یہاں جواب شرط کے ’’قال‘‘سے پہلے عدم وقف کی علامت (لا) ڈالی جاتی ہے۔

[ألَمْ أَقُلْ] میں ’’أ ‘‘(ھمزہ)استفہامیہ ہے۔ ’’لَمْ‘‘ حرفِ نفی اور جازم ہے جس کی وجہ سے فعل مضارع ’’اَقُلْ‘‘(جو صیغہ واحد متکلم مع ضمیر فاعل ’’انا‘‘ ہے)مجزوم ہوگیا ہے۔ علامتِ جزم اس میں آخری ’’لام‘‘ کا سکون (لْ) ہے۔منفی پر استفہام داخل ہوتو اسے استفہام تقریری (اردو میں اقراری) کہتے ہیں یعنی یہاں ’’کیا نہیں کہا میں نے‘‘ کا مطلب ہے ’’ضرور کہا تھا‘‘ [لکم] جار (ل) اور مجرور (ضمیر ’’کم‘‘) مل کر متعلق فعل (لَمْ اَقُلْ)ہے یعنی تم کو/ سے (کہا)۔

(۳) اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

 [اِنِّیْ] یہ ’’اِنَّ‘‘ اور اس کے اسم (ضمیر منصوب ’’ی‘‘) پر مشتمل ہے۔ یہاں درمیان جملہ میں [کیونکہ دراصل یہ (جملہ نمبر۳) سابقہ جملہ (نمبر۲) کے آخری حصہ (الم اقل لکم) کا ہی حصہ (بطور مقول) بنتا ہے] ’’أَنَّ‘‘ کی بجائے ’’إِنّ‘‘ اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ فعل ’’قَالَ‘‘ (یا اس کے مشتقات) کی صورت میں یہ جائز ہے (دوسرے اَفعال ہوں تو درمیان جملہ ’’أنَّ‘‘ ہی آتا ہے) تاہم اردو محاورے کے مطابق (فعل ’’کہا‘‘ کے بعد) یہاں ’’اِنّ‘‘ کا ترجمہ ’’أنَّ‘‘ کی طرح ’’کہ بے شک‘‘ سے کیا گیا ہے۔ دیکھئے اوپر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں اس عبارت (اِنّی اعلم) کے تراجم ــــــ[اَعْلم] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعل ’’اَنا‘‘ ہے اور یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس فعل سے جو جملہ شروع ہورہا ہے۔ یہ ’’اِنَّ‘‘ (اِنِّی  والا) کی خبر بنے گا۔ [غَیبَ] فعل (اعلم) کا مفعول (لھذا منصوب) ہے اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف (تنوین اور لامِ تعریف سے خالی)بھی ہے اور [السموت] ’’غیب‘‘ کا مضاف الیہ (یعنی مجرور بالاضافہ) ہے۔ علامت جر آخری ’’اتِ‘‘ ہے (جس پر ’’السموات‘‘ کے معرف باللام ہونے کے باعث تنوین نہیں آئی۔ اور یہ پورا مرکب اضافی (غیب السموات) فعل ’’اَعْلم‘‘کا مفعول بہ ہے، بلکہ اگلا لفظ [والارض] بھی ’’وَ‘‘ (عاطفہ) کے ذریعے پچھلے مضاف الیہ (السموات) پر عطف ہے اور ’’الارضِ‘‘ اس مجرور پر معطوف (لھذا مجرور) ہے۔ علامت جر ’’ضِ‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ) ہے اور دراصل یہاں تک ’’اِنّ‘‘ (اِنِّی) کی خبر مکمل ہوتی ہے۔ یوں اس جملے (انّی اعلم غیبَ السمواتِ والارضِ) کا ترکیب نحوی کے لحاظ سے ترتیب وار (اِنّ + اسم اِنّ + خبر اِنَّ) ترجمہ یوں ہوگا ’’بے شک + میں + جانتا ہوں غیب آسمانوں کے اور زمین کے ’’اس کے مختلف بامحاورہ تراجم حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ یہ جملہ (نمبر۳) دراصل سابقہ جملے (نمبر۲) کا ہی ایک حصہ بنتا ہے، کیونکہ یہ ’’الم اقل‘‘ کا ہی مقول (مفعول) ہے، اس لیے اس جملے کے آخر میں عدم وقف کی علامت (لا) ڈالی گئی ہے تاکہ نحوی لحاظ سے مکمل جملہ سمجھ کر کوئی یہاں وقف نہ کرے۔

(۴) وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ

[و] عاطفہ ہے جس کے ذریعے اگلے ’’اَعْلم‘‘ کا پچھلے جملے والے ’’اَعْلم‘‘پر عطف ہے [اَعلم] فعل مضارع صیغہ واحد متکلم ہے۔ ’’اعلم‘‘ کی اس تکرار کی وجہ سے اس دوسرے ’’اعلم‘‘ کے ترجمہ سے پہلے ’’نیز‘‘ لگنا چاہئے یعنی ’’اور میں … کو بھی جانتا ہوں‘‘ــــ [مَا] اسم موصول ہے جو یہاں فعل ’’اعلم‘‘ کے مفعول بہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اگرچہ مبنی ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی علامتِ اعراب ظاہرنہیں ہوتی۔

 [تُبْدُوْن] فعل مضارع معروف ہے جس میں بلحاظِ صیغہ ضمیر فاعلین ’’انتم مستترہے جو یہاں ’’ملائکہ‘‘ کے لیے ہے۔ اس کے بعد ایک ضمیر عائد محذوف ہے (یعنی دراصل ’’تبدونہ‘‘تھا) یہ (تبدون) فعل فاعل مل کر جملہ فعلیہ ہے اور ’’مَا‘‘ کا صلہ ہے۔ اور دراصل یہ پورا مرکب (یعنی صلہ موصول) فعل ’’اعلم‘‘ کا مفعول بہ ہے۔

·       خیال رہے کہ یوں تو صفت موصوف، مضاف، مضاف الیہ، عطف معطوف، صلہ موصول وغیرہ مل کر ہی جملے کا کوئی حصہ ’’مبتدأ، خبر، فاعل یا مفعول وغیرہ) بنتے ہیں اور اس لحاظ سے اس پورے مرکب کا ایک اعراب (رفع، نصب یا جر) ہوتا ہے مگر عموماً مرکب کے پہلے حصّے (موصوف یا مضاف یا معطوف علیہ یا موصول وغیرہ) کی ہی اعرابی حالت بیان کردی جاتی ہے۔ (جیسے یہاں ’’ما‘‘ کی نصب  بیان ہوئی ہے۔)

[و] عاطفہ ہے جو اگلے آنے والے ’’مَا‘‘ کو گزشتہ ’’مَا‘‘ پر عطف کرتی (ملاتی)ہے [مَا] موصولہ ہے اور پہلے ’’مَا‘‘ کا معطوف ہے (سابقہ ’’ما‘‘ کو اس کا معطوف علیہ کہا جائے گا) یعنی یہ بھی فعل ’’اَعلم‘‘کا مفعول بہ ہے (لہٰذا منصوب بھی ہے) [کُنتم] فعل ناقص (کان) مع اپنے فاعل ’’انتم‘‘کے ہے جو فعل کے صیغہ میں مستتر ہے۔ (مگر نحوی اسے ’’کان‘‘ کا ’’فاعل‘‘ کہنے کی بجائے اس کا اسم‘‘ کہتے ہیں)۔ [تکتمون] فعل مضارع معروف ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘موجود ہے۔ اور یہ جملہ فعلیہ (فعل مع فاعل)ہے جو ’’کنتم‘‘ کی خبر کے طور پر آیا ہے لہٰذا اسے محلاً منصوب کہہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں (کان‘‘ کا اسم اور خبر ملکر) جملہ اسمیہ (کنتم تکتمون) کا ترجمہ ہوگا ’’جو تم ہو چھپاتے‘‘ــــــ اور اگر ’’کنتم تکتمون‘‘ کو ماضی استمرار ی کا صیغہ سمجھا جائے تو اس کا ترجمہ ہوگا: ’’جو تم چھپاتے رہتے تھے یا چھپایا کرتے تھے‘‘اور یہ پورا زیر مطالعہ  جملہ (نمبر۴ )بذریعہ واو العطف اس سے پہلے جملے (نمبر۳) کا ہی حصہ ہے اوریہ دونوں جملے (نمبر،۳، نمبر۴، مندرجہ بالا) ’’اَلَمْ اَقُلْ‘‘کے مقول ہیں۔ اس لیے ’’وَاَعْلم…‘‘سے پہلے عدمِ وقف کی علامت (لا) ڈالی جاتی ہے۔

 

۳:۲۳:۲      الرسم

آیت زیرِمطالعہ کے (قریباً) تمام کلمات کا رسم معتاد (املائی) اور رسمِ قرآنی (عثمانی)یکساں ہے۔ بلکہ ’’انبئونی‘‘(۳:۲۲:۲(۳)) کے برعکس یہاں ’’انبئھم‘‘ اور ’’باسمائھم‘‘میں ھمزہ کا مرکز (کرسی) بصورت ’’یاء کا نبرہ (دندانہ)‘‘ بھی رسمِ عثمانی اور رسم املائی میں یکساں ہے، البتہ بلحاظ رسم اس (آیت)کے صرف دوکلمات ’’یادم‘‘ اور ’’السموت‘‘ وضاحت طلب ہیں کیونکہ ان کا رسم املائی اور رسم عثمانی مختلف ہے۔

’’(۱) ’’یادم‘‘(جسے عام عربی املاء میں ’’یَا آدمُ‘‘ لکھا جائے گا) قرآن کریم میں ’’یا‘‘ (حرفِ ندا)کے الف کے حذف کے ساتھ لکھا جاتا ہے (یعنی صرف ’’یا(ی) کی صورت میں) اور لفظ ’’آدم‘‘ کا پہلا ھمزہ مفتوحہ (یہ دراصل ’’ئَ ادَمُ‘‘تھا) بھی کتابت سے محذوف ہو جاتا ہے۔ پھر ضبط کے ذریعے ’’یا‘‘ کا الف اور ’’ادم‘‘ کا ابتدائی ھمزہ محذوفہ پڑھنے کے لیے ظاہر کیا جاتا ہے۔ لفظ ’’آدم‘‘منادٰی ہوکر یعنی ’’بصورت ’’ یٰاٰدم‘‘ قرآن کریم میں کل پانچ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ اس کا رسم عثمانی یہی (یادم)ہے۔

(۲)لسموت‘‘ جس کی عام املاء ’’السماوات‘‘ہے۔ قرآن مجید، میں اسے ہر جگہ (بالعموم) بحذف الالفین (بعد المیم والواو) لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’السموت‘‘ــــ (مقاماتِ اختلاف کا ذکر اپنی جگہ آئے گا)۔ پھر ضبط کے ذریعے ان دونوں محذوف ’’الفوں‘‘کو پڑھنے کے لیے ظاہر کیا جاتا ہے۔ نیز دیکھئیے ۳:۲۲:۲ میں نمبر ۱۔

 

۴:۲۳:۲      الضبط

آیت زیرِ مطالعہ میں صرف تین کلمات (’’لکم‘‘، ’’غیب‘‘ اور ’’و‘‘) ایسے ہیں جن کے ضبط میں کسی ملک میں اختلاف نہیں ہے سوائے اس کے کہ مختلف حرکات کے لیے علامت کی شکل مختلف استعمال کی جاتی ہے۔ باقی کلمات کے ضبط میں وہی ھمزہ قطع و وصل یا کتابتِ ھمزہ یا اقلاب ِنون بمیم یا حروفِ علت پر علامتِ سکون کے استعمال وغیرہ کا اختلاف موجود ہے۔ اور جس پر ابھی اوپر ۴:۲۲:۲میں مفصل اصولی بحث ہوچکی ہے۔ بہر حال اس (زیر مطالعہ) آیت کے کلمات کے ضبط میں اختلاف کی حسب ذیل صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

نوٹ: ھمزہ محذوفہ مفتوحہ، جس کے بعد الف ہو، کو بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے کئی طریقے رائج ہیں یعنی (#)۔ تاہم آخری شکل (آ) کو صرف عام عربی املاء میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر قرآن کریم کی کتابت میں اسے استعمال نہیں کرتے بلکہ بعض اہل علم نے اسے (’’آ ‘‘ لکھنے کو) غلط قرار دیا ہے (دیکھئے مصری مصحف (امیریہ)کے کسی ایڈیشن کے آخر پر ’’التعریف بھذا المصحف‘‘) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی کتابت میں تجوید کے لیے چھوٹی بڑی مد( #) خاص مقصد کے ہی استعمال ہوتی ہے۔ دیکھئے اوپر ’’یادم‘‘کا ضبط۔ ہم نے جہاں ’’آدم‘‘لکھا ہے وہ رسم املائی ہے۔ اور ’’رسم‘‘ یا ’’اعراب‘‘ یا ’’لغۃ‘‘ کی بحث میں محض سمجھانے کی آسانی کے لیے لکھا ہے تاہم اصل متن (مکمل آیت یا آیات) لکھتے ہوئے رسم عثمانی کے مطابق ہی لکھا گیا ہے۔