سورۃ  البقرہ آیت نمبر ۳۴

۲۴:۲       وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ   ۭ  اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ       ڭ   وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ  (۳۴)

۱:۲۴:۲       اللغۃ

[وَ] اس ’’واو‘‘ کا ترجمہ یہاں ’’اور‘‘ ہی مناسب ہے چاہے اسے عاطفہ سمجھیں یا مستانفہ (’’وَ‘‘کے مختلف معانی اور استعمالات پر الفاتحہ:۵ یعنی ۱:۴:۱(۳)میں ــــ  اور واوِ مستانفہ کے بارے میں ــــ نیز عاطفہ اور مستانفہ کے فرق کے بارے میں ــــ البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲میں وضاحت کی جاچکی ہے۔

[اِذْ] کا ترجمہ تو ’’جب/ جب کہ‘‘ہی سے کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے شروع میں ’’اذکروا‘‘(یاد کرو)کے حذف کی وجہــــ اور ’’اذ‘‘ کے مختلف استعمالات ــــ کے بارے میں ابھی اوپر البقرہ:۳۰  یعنی ۱:۲۲:۲(۱)میں تفصیل سے بات ہوئی تھی۔

۱:۲۴:۲(۱)     [قُلْنَا] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْنَا‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’قَوَلْنَا‘‘تھی۔ جس میں واوِ متحرکہ ماقبل مفتوح کو الف  میں بدل کر بوجہ اجتماع ساکنین (الف اور لام)  گرادیتے ہیں اور ’’اجوف‘‘ میں جب فعل ماضی میں عین کلمہ (جو یہاں ’’و‘‘ہے)  گر جاتا ہے تو فائے کلمہ کو (جو یہاں ’’ق‘‘ہے) مضارع مضموم العین (باب نصر یا کرم سے) ہونے کی صورت میں ضمہ (ـــــُـــــ) دیا جاتا ہے [باقی صورتوں میں کسرہ (ــــــِــــ) دی جاتی ہے]۔ اس طرح یہ صیغہ اب ’’قلنا‘‘ بروزن ’’فُلْنَا‘‘رہ گیا ہے اس تعلیل (یا اعلال) کو ریاضی کی زبان میں یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے: قَوَلْنَا = قالْنَا = قَلْنَا = قُلْنَا (باب نصر کی وجہ سے ضمہ دیا گیا ہے)۔

[لِلْمَلٰئِکَۃِ] میں ابتدائی ’’لام‘‘ (لِ) تو فعل ’’قال‘‘کا صلہ ہے جو اس فعل کے ذریعے ’’مخاطب‘‘سے پہلے لگتا ہے اور جس کا اردو ترجمہ ’’سے‘‘ یا ’’کو‘‘ہوتا ہے۔ ’’ ملائکۃ ‘‘[1]کے مادہ اور اشتقاق کے بارے میں مختلف اقوال کا خلاصہ اور اختلافِ مادہ کی بناء پر ظاہر ہونے والے اختلافِ وزن (مَعافِلۃ، فَعائلِۃ یا مَفاعِلۃ) البقرہ:۳۰ یعنی ۱:۲۲:۲(۲)میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۴:۲(۲)[اسْجُدُوْا] کا مادہ ’’س ج د‘‘ اور وزن ’’اُفْعُلُوْا‘‘ ہے جس میں ماقبل لفظ (ملائکۃ) کے ساتھ وصل (ملنے) کی وجہ سے ابتدائی ھمزۃ الوصل تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سجَد یسجُد سُجُودًا‘‘ (باب نصر سے)  آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’عاجز اور مطیع ہونا‘‘اور ’’سر یا بدن کو کسی خاص انداز میں جھکا کر اپنی عاجزی یا اطاعت کا اظہار کرنا‘‘ہیں۔ عربی زبان میں ’’اونٹ کا وزن لادے جاتے وقت اپنی گردن یا سر جھکانے یا نیچے زمین پر رکھ دینے‘‘ کو ظاہر کرنے کے لیے  یہی فعل استعمال ہوتا ہے۔ مثلا کہتے ہیں ’’سجَد البعیرُ‘‘ یعنی ’’خفض رأسَہ‘‘(اونٹ نے سر نیچے رکھ دیا)۔

·       شرعی اور فقہی اصطلاح میں نماز کے اندر ایک خاص ہیئت اختیار کرنے یعنی اپنی پیشانی زمین پر رکھنے کو ’’سَجْدَۃ‘‘ کہتے ہیں۔ بلکہ نماز کے اس سجدے کے وقت ہاتھوں اور پاؤں کو بھی ایک خاص طریقے کے مطابق زمین پر رکھنےِ کی وضاحت خود نبی اکرم ﷺ کے عمل (سنت) سے ثابت ہے۔ اس طرح یہ لفظ (سجدۃ) ایک خاص شرعی اصطلاح ہے جو اسلام نے عربی زبان کو دی ہے۔

·       یہ فعل (سجد یسجُد)متعدی ہے اور اس کے مفعول (جس کو سجدہ کیا جائے) پر لام (لِ) کا صلہ لگتا ہے مثلاً کہیں گے ’’سَجد الِلّٰہ‘‘ (اس نے اللہ کو سجدہ کیا)۔ ’’سجدہٗ یا سجد اللہُ‘‘ کہنا غلط ہے۔ اس سے فعل مجہول بھی اسی صلہ کے ساتھ ہی آئے گا۔ کہیں گے ’’سُجِد لہٗ‘‘ (اس کو سجدہ کیا گیا)ــــ البتہ بعض دفعہ یہ مفعول محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ فعل (سجد یسجد) ۳۵ جگہ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے دس مقامات پر اس کا مفعول محذوف ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ جب یہ فعل نماز کے ضمن میں آئے تو اس کا ترجمہ ’’سجدہ ادا کرنا‘‘کیا جاتا ہے۔

·       اس فعل کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’سجدہ‘‘دو طرح کا ہوتا ہے ــــــ(۱)’’اختیاری سجدہ‘‘جس میں ساجد (اسم فاعل)کا ارادہ اور اختیار شامل ہو جیسے ’’نماز میں (نمازی کا) سجدہ کرنا اور (۲) ’’تسخیری سجدہ‘‘ یعنی بے ارادہ  و  بے اختیار اطاعت  ــــ  اور ان دوسرے معنوں میں ہی قرآن کریم میں اشجار و نباتات بلکہ جملہ مخلوق کا اللہ کو سجدہ کرنا ــــ بیان ہوا ہے۔ اس کی کیفیت کو جاننا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی ضروریــــــ

·       زیر مطالعہ لفظ (اسجُدوا) اسی فعل مجرد (سجد یسجد)سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس لیے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’تم سب سجدہ میں گر جاؤ‘‘یا ’’سجدہ کرو‘‘ہی کیا ہے اگرچہ بعض نے لغوی معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’جھکو‘‘یا ’’جھک جاؤ‘‘سے بھی ترجمہ کیا ہے۔

[لِاٰدَمَ] کا ابتدائی لام (لِ) تو اس فعل ’’سجَد یسجُد‘‘ کا وہ صلہ ہے جو اس کے مفعول (جس کو سجدہ کیا جائے)سے پہلے آتا ہے۔ اور جس کا اردو ترجمہ یہاں ’’کو‘‘، ’’کے سامنے‘‘، ’’کے آگے‘‘سے کیا جاسکتا ہے ـــــ اور لفظ ’’آدم‘‘(برسم املائی)نام ہے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں (ویسے اس کے لغوی معنی اور اشتقاق وغیرہ البقرہ:۳۱  یعنی ۱:۲۲:۲(۲)میں بیان ہوچکے ہیں) لِآدم = آدم کو / کے سامنے/ کے آگے۔

[فَسَجَدُوْا] کی ابتدائی ’’فاء (فَ)‘‘ تو عاطفہ (بمعنی ’’پس، چنانچہ‘‘)ہے۔ اور ’’سجَدُوا‘‘ کا مادہ ’’س ج د‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد (جس کا باب معنی وغیرہ ابھی اوپر ۱:۲۴:۲(۲)میں بیان ہوئے ہیں)کا فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس کا ترجمہ (سابقہ صیغۂ امر کی طرح) بعض نے تو ’’انہوں نے سجدہ کیا‘‘، ’’سجدہ کو پڑے‘‘، ’’سجدہ میں گر پڑے‘‘سے کیا اور اور بعض نے لغوی معنی کے لحاظ سے ’’جھک پڑے، جھکے‘‘کیا ہے۔

[اِلَّا] استثناء کا حرف ہے جس کا اردو ترجمہ ’’مگر‘‘ یا ’’سوائے …کے‘‘سے کیا جاتا ہے۔ اس کے معنی و استعمال پر ذرا مفصل بات البقرہ:۹ یعنی ۱:۸:۲(۳)میں ہوئی تھی۔ ضرورت ہو تو دیکھ لیں۔

۱:۲۴:۲(۳)     [اِبْلِیْسَ] اس لفظ کے مادہ اور اشتقاق کے بارے میں بھی ائمہِ لغت کے دو قول ہیں:

(۱) ایک قول یہ ہے کہ اس کا مادہ ’’ب ل س‘‘اور وزن ’’اِفْعیلُ‘‘ (غیرمنصرف۔ یہاں ’’س‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) کی بات ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی)۔ اس مادہ سے فعل مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا۔ البتہ مزید فیہ کے باب اِفعال سے اسماء و اَفعال کے کچھ صیغے قرآن کریم میں پانچ جگہ آئے ہیں۔ اس مادہ سے بابِ اِفعال کے فعل ’’اَبْلَسَ یُبْلِسُ اِبلاسًا‘‘کے معنی ہیں:’’قطعی مایوسی کی بناء پر سخت رنج اور حیرانی میں مبتلا ہونا اور کچھ بول نہ سکنا‘‘اس لیے بعض اہل علم نے ’’اِبلاس‘‘کے ان معنی کی مناسبت سے لفظ ’’ابلیس‘‘ کو اس مادہ (بلس) بلکہ اس باب (افعال)سے ’’ماخوذ‘‘ قرار دیا ہے۔ اور اس کے معنی اسی مادہ (بلس)کے تحت ہی بیان کئے جاتے ہیںــــــ مگر اس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ پھر یہ  لفظ معرب کیوں نہ ہوا؟  [2] جیسا کہ اس کے وزن (اِفْعِیْلٌ) پر آنے والے بعض عربی الفاظ مثلاً اِحْلِیْلٌ (دودھ یا پیشاب کی جسمانی نالی)، اِکْلِیْلٌ (تاج) اِخْرِیْطٌ (ایک پودا)وغیرہ ہیں ــــــ بلکہ اس وزن پر آنے والے بعض عجمی (غیر عربی) الفاظ بھی معرب استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً اِبْرِیقٌ (خاص قسم کا برتن)، اِکسیرٌ (دوا) اِقْلِیْمٌ (علاقہ) گویا یہ وزن (افعیلٌ) تو معرب ہی ہے۔ پھر لفظ ’’ابلیس‘‘ کیوں معرب نہ ہوا؟

(۲) اس لیے بہت سے اہل علم کے نزدیک یہ لفظ عجمی (غیر عربی)’’ابلیسٌ‘‘یعنی معرب ہی تھا مگر عَلَم (نام) ہونے کے باعث (علمیت اور عجمیت دو اسبابِ منع صرف کے جمع ہونے کی بناء پر) غیر منصرف ہوگیا۔ جس کی مثال ’’انجیلُ‘‘ اور ’’اِدْریسُ‘‘میں ملتی ہے جن کو ’’نجل‘‘ یا ’’درس‘‘ مادوں سے ماخوذ قرار دینا درست نہیں ہے حالانکہ وزن ان کا بھی ’’اِفْعِیْلٌ‘‘ہی ہے۔ اگر یہ (ابلیس)خالص عربی لفظ ہوتا تو محض عَلَمِیَت (نام ہونا ــــجو صرف ایک وجہ سے منع صرف ہے) کی بناء پر تو غیر منصرف نہیں ہوسکتا تھا۔ کیونکہ ’’اِفْعِیْلٌ‘‘منتہی الجموع کے اوزان (مفاعیلُ، فواعلُ وغیرہ) کی مانند غیر منصرف اوزان میں سے بھی نہیں ہے [جیسا کہ ’’آدم‘‘ میں وزن ’’اَفعَلُ‘‘ کی گنجائش یا شبہ (کم از کم)موجود تھا۔ اگرچہ اپنی اصل کے لحاظ سے وہ بھی عجمی لفظ ہی ہے۔دیکھئے ۱:۲۳:۲(۲)[

·       مسلمان اہلِ علم نے ’’معّرباتِ قرآن‘‘(قرآن کے غیر عربی الفاظ) پر مستقل تالیفات ــــ یا علوم القرآن کی کتابوں کے مختص ابواب ــــ میں ان کلمات سے بحث کی ہے جو (ان کی دانست میں) اپنی اصل کے لحاظ سے غیر عربی الفاظ تھے۔ مگر نزولِ قرآن کے وقت وہ عربی زبان میں ’’عربی کلمات‘‘ کی طرح متد اول اور مستعمل تھے۔ پھر بعض نے ان کلمات کی اصل زبان (جس سے وہ لفظ آئے)بھی بیان کی ہے۔ اس طرح لفظ ’’ابلیس‘‘ کا مُعَرّب (عجمی سے عربی بنایا ہوا) ہونا تو بہت سے لوگوں نے بیان کیا ہے۔ مگر اس کی اصل زبان کا ذکر کسی نے نہیں کیا۔[3]   ایک غیر مسلم مسیحی اہل زبان (عرب)’’رفائیل نخلہ‘‘نے اپنی کتاب ’’غرائب اللغۃ العربیہ‘‘میں اسے یونانی الاصل لفظ قرار دیا ہے۔ اور اس کی اصل یونانی زبان کا لفظ (جسے اس نے بحروف یونانی بھی لکھا ہے( (dhiavolefs)بتائی ہے۔[4]  یہی لفظ بگڑ کر انگریزی میں Diabolis اور پھر Devil استعمال ہوتا ہے۔

·       بہر حال یہ کلمہ (ابلیس)جو قرآن کریم میں کل گیارہ (۱۱) دفعہ آیا ہے اور ہر جگہ اس کا ذکر ایک خاص سرکش، شریر اور بدروح شخصیت کے نام (عَلَم) کے طور پر آیا ہے، جس کے لیے کہیں کہیں بطور لقب یا صفاتی نام لفظ ’’الشیطان‘‘بھی مذکور ہوا ہے۔ لفظ ’’شیطان‘‘ (اور خصوصا بصورت جمع ’’شیاطین‘‘) ہر متمرد، سرکش، سراپا بدی یا شر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے چاہے وہ انسان ہو یا جن یا حیوان (دیکھئے بحث استعاذہ)۔مگر لفظ ’’ابلیس‘‘ ایک خاص ’’شخص‘‘ کے نام پر ہی استعمال ہوا ہے۔

۱:۲۴:۲(۴)      ]اَبٰی [ کا مادہ ’’أ ب ی‘‘اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ہے۔ اس کی شکل اصلی ’’أَبَیَ‘‘تھی جس میں آخری یائے مفتوحہ ماقبل کے مفتوح ہونے کی بناء پر ’’تلفظاً‘‘ الف (مقصورہ) میں بدل جاتی ہے۔ (الف مقصورہ یہاں بصورت’’ی‘‘ہی لکھا جاتا ہے)۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’أَبٰی  یَأْ بٰی  إِبائً‘‘(باب فتح سے) اور کبھی باب ضرب سے بھی ــــ  آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ ہر جگہ باب فتَح سے ہی آیا ہے (اور قرآن کریم میں مجرد سے مختلف صیغہ ہائے فعل کل تیرہ (۱۳) جگہ آئے ہیں) اور اس فعل (أبٰی یأ بٰی ) کے بنیادی معنی ایک منفی فعل کے ہیں یعنی ’’…کو پسند نہ کرنا، کو قبول نہ کرنا، …کو نہ ماننا‘‘ــــ  اور کبھی بطور فعل مثبت اس کا ترجمہ ’’رک جانا، باز رہنا، انکار کرنا، منکر ہونا‘‘کرتے ہیں۔ اور اس میں اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ رضا کارانہ انکار کا مفہوم ہوتا ہے ـــــ یہی وجہ ہے کہ اکثر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ بطور فعل منفی ’’نہ مانا‘‘ ہی کیا ہے۔ اگرچہ بعض نے مثبت فعل کی طرح ’’منکر ہوا، انکار کیا‘‘سے بھی ترجمہ کیا ہےـــــ جبکہ بعض نے تو سیاق عبارت میں ’’اسجدوا‘‘ کا ترجمہ ’’جھکو‘‘کرنے کے بعد ’’ابٰی‘‘ کا ترجمہ ’’نہ جھکا‘‘ کردیا ہے، جو لفظ سے ہٹ کر ہے مگر مفہوم اور محاورہ کے لحاظ سے درست ہے۔

·       بنیادی طور پر یہ فعل بطور متعدی اپنے مفعول (بنفسہ)کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے ’’اَبَی الامرَاَوِالشِییَٔ (اس نے معاملہ کو منظور نہ کیا یا اس کو کرنا پسند نہ کیا یا اس چیز سے ناخوش ہوا اور اس کا انکار کیا)ـــــ البتہ بعض دفعہ اس کا مفعول محذوف ہوتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاتا ہےــــــ مثلاً یہاں آیت زیرِ مطالعہ میں بھی ہم کہہ سکتے ہیں ’’اَبَی السجودَ‘‘(اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا)ـــــ کبھی اس فعل کا مفعول ایک جملہ ہوتا ہے جو ’’أن‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ مثلا اسی آیت میں محذوف عبارت کچھ یوں بھی ہوسکتی ہے ’’أَبٰی أَنْ یَسْجُدَ‘‘(اس نے نہ مانا کہ وہ سجدہ کرے‘‘ قرآن کریم میں اس فعل کے مفعول کےگویا اسطرح ہے قرآن کرم میں اس فعل کے مفعول کے  محذوف ہونے کی پانچ مثالیں موجود ہیں۔ جن میں سے ایک یہ زیر مطالعہ آیت ہے۔ فعل ’’أَبٰی‘‘کے ساتھ ’’أَن‘‘ کے استعمال کی بھی چار مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں (جن پر اپنی جگہ بات ہوگی)اس فعل (اَبیٰ) کے ساتھ براہِ راست مفعول آنے کی کوئی مثال قرآن میں موجود نہیں ہے۔

·       چونکہ اس فعل (أَبٰی)کے معنی ہی ’’مارَضِیَ‘ یا مَاقَبِلَ‘‘(اس نے قبول نہ کیا، راضی نہ ہوا) یعنی فعل منفی کے ہیں اس لیے اس کے بعد ’’اِلَّا‘‘ (استثناء) کا استعمال اسی طرح ہوتا ہے جیسے کسی منفی جملے کی صورت میں ہوتا ہے یعنی یہ ’’لا‘‘ یا ’’ما‘‘ لگائے بغیر منفی جملے کا کام دیتا ہے۔ مثلاً آپ یوں کہہ سکتے ہیں ’’أبیٰ إِلَّا الذھابَ‘‘(اس نے جانے کے سوا باقی ہر چیز کا انکار کردیا یعنی جانے کے ارادے پر ہی ڈٹ گیا) یعنی یہ ’’ما قَبِل اِلَّا الذِھابَ‘‘ ہی کی دوسری صورت ہے ــــ اسی مضمون کو آپ ’’اَبٰی اِلَّا اَنْ یذھبَ‘‘(اس نے نہ مانا سوائے اس کے وہ تو جائے گا ہی) کی صورت میں بھی کہہ سکتے ہیں۔

·       خیال رہے اگر ’’اِلَّا‘‘کے بغیر ’’ابی الذھابَ‘‘یا ’’اَبٰی اَن یذھبَ‘‘ کہیں گے تو مطلب ہوگا ’’اس نے جانے سے انکار کردیا‘‘ فعل ’’اَبٰی‘‘کے استعمال کے اس فرق (اِلَّا کے ساتھ اور [اِلَّا کے بغیر،کو اچھی طرح سمجھ لیںــــــ قرآن کریم میں ’’اَبیٰ‘‘کے بعد ’’اِلَّا‘‘ کے استعمال کی بھی کم از کم چار (۴) مثالیں موجود ہیں۔

۱:۲۴:۲(۵)     [وَاسْتَکْبَرَ]’’وَ‘‘ تو عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘)ہے۔ اور ’’اِسْتَکْبَرَ‘‘ کا مادہ ’’ک ب ر‘‘اور وزن ’’اِسْتَفعَلَ‘‘ہے (اِسْتَکْبَر کا ابتدائی ھمزۃ الوصل ’’وَ‘‘ کی وجہ سے تلفظ سے گرگیا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

·       کبَر …یکبُر کَبْرًا(باب نصر سے)ہو تو اس کے معنی ہیں:’’…سے عمر میں بڑا ہونا‘‘۔ اس صورت میں یہ فعل متعدی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اور جس سے عمر کا مقابلہ ہو وہ مفعول بنفسہٖ ہو کر آتا ہے۔ مثلا کہیں گے: ’’کبَرنی (یا یکبُرنی) فلَانٌ بسَنَۃٍ‘‘ (فلاں مجھ سے عمر میں ایک سال بڑا ہے) اور جو بڑا ہو اسے ’’کابر‘‘(اسم الفاعل) کہتے ہیں۔ اسی سے پشت در پشت بڑائی یا کسی روایت کے لیے محاورہ ہے۔ ’’کابرًا عن کابرٍ‘‘ یعنی ’’بعد کے ایک بزرگ نے اپنے سے پہلے والے کسی بڑے سے چیز لی‘‘اور یہ محاورہ (کابرًا عن کابرٍ) بعض دفعہ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

·       کبِر یکبَر کِبَرًا (باب سمع سے) ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں:’’زیادہ عمر کا یعنی بوڑھا یا بڑی عمر کا یا عمر رسیدہ ہونا‘‘ مثلاً کسی انسان یا حیوان کا بلحاظ عمر بڑا ہوجانا بیان کرنا ہو تو کہیں گے ’’کَبِر الرجلُ= آدمی بڑھاپے میں پہنچا یا عمر رسیدہ ہوگیا۔ اور یہی فعل مطلقاً عمر میں بڑھ جانا یا ’’بڑا ہوجانا‘‘کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں:کَبِر الطفِلُ‘‘(لڑکا بڑا ہوگیا)۔

اس  باب (سمِع) سے یہ فعل بطور لازم استعمال ہوتا ہے اور اس سے اسم الفاعل کی بجائے صفت مشبہ ’’کبیر‘‘ آتی ہے۔ اور اسی سے ’’شیخ کبیر‘‘ بہت بوڑھے آدمی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

·       ’’کبرُ یکبرُ کِبَرًا‘‘ (باب کرم سے) آئے تو اس کے بنیادی معنی تو وہی ’’بڑا ہونا‘‘ہیں تاہم بلحاظِ استعمال یہ حسب موقع تین مفہوم رکھتا ہے اور ان تینوں مفاہیم کے لیے اس فعل سے صفت مشبہ عموماً ’’کبیر‘‘ ہی استعمال ہوتی ہے۔

’’ (i)کسی انسان یا حیوان کا جسم اور ضخامت (جسمانی) میں بڑا ہونا‘‘ــــ اسی سے کہتے ہیں ’’الفیل حیوان کبیر‘‘ (ہاتھی بڑا جانور ہے)۔

’’ (ii) کسی چیز کا معنوی قدرو قیمت یا درجے کے لحاظ سے بڑا ہونا‘‘ــــــ  اور اپنے موصوف کے اعتبار سے یہ اچھائی اور برائی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’فضلٌ کبیرٌ‘‘ (بڑا فضل) یا ضَلالٌ کبیرٌ (بڑی گمراہی)

(iii)کسی کام کا عمل پیرا ہونے کے لحاظ سے بڑا (بھاری، گراں یا مشکل) ہونا‘‘ـــــ  اس صورت میں بطورِ فعل اس کے ساتھ ’’علی‘‘ کا صلہ لگتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’کبرُ علیہ الامرُ‘‘(معاملہ اس پر بھاری ہوگیا یعنی بات اس پر گراں یا شاق گزری)اس صورت میں ’’گراں اور مشکل‘‘کے لیے صفت عموماً ’’کبیرٌ‘‘ کی بجائے ’’کبیرۃٌ‘‘ استعمال ہوتی ہے۔ جس پر مزید بحث آگے۱:۳۰:۲(۲)میں  آئے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       قرآن کریم میں اس فعل ثلاثی مجرد کے مختلف صیغے کل آٹھ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے (۱)پہلے معنی (باب نصر والے) میں تو یہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ (۲)دوسرے (باب سمع والے) معنوں میں یہ فعل صرف ایک جگہ (النساء:۶) میں آیا ہے۔ باقی تمام مقامات پر یہ فعل باب کرم سے ہی آیا ہے۔ اور اس باب سے بھی فعل یا کوئی اسم مشتق (مثلاً صفت مشبہ) مندرجہ بالا مؤخر الذکر دو معنی (ii) اور (iii) میں ہی استعمال ہوا ہے پہلے مفہوم (i) میں کہیں نہیں آیا۔ اس فعل سے مختلف معانی کے لیے متعدد اسماء مشتقہ (کبائر، کبیرۃ، اکبر، کبری وغیرہ) قرآن کریم میں اسی (۸۰) کے قریب جگہ آئے ہیں۔ ان کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ (ان شاء اللہ)

·       زیرِ مطالعہ لفظ ’’استکبر‘‘اس مادہ (کبر)سے بابِ استفعال کا فعل ماضی (صیغہ واحد مذکر غائب)ہے۔ اس باب سے فعل ’’اِستَکْبَر، یَستَکبِرُ،  اِستکبارًا‘‘ کے بنیادی معنی ہیں: ’’کسی چیز کو بڑا یا عظیم سمجھ لینا یا خیال کرنا‘‘۔ جب اس فعل کا مفعول ’’اپنی ذات، اپنا آپ (نفس الفاعل)ہو یعنی اس کے معنی ’’(اپنے آپ کو)بڑا سمجھ لینا‘‘ہوں تو عموماً مفعول حذف کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ’’استکبر نفسَہ‘‘نہیں کہتے۔ بلکہ خود ’’استکبر‘‘کے معنی ہی ’’اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونا‘‘(فعل لازم کی طرح) ہوتے ہیں جس کو اردو میں ’’تکبر کرنا، غرور کرنا، غرور میں آجانا، شیخی میں آجانا اور تکبر میں آنا‘‘کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور اسی لیے یہاں اکثر مترجمین نے ان ہی مصدری الفاظ کے ساتھ (بصورت ماضی)ترجمہ کیا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس باب سے فعل (استکبار) کے صیغے چالیس (۴۰) جگہ اور مختلف اسماء مشتقہ کل آٹھ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مادہ (کبر) سے مزید فیہ کےبعض دیگر ابواب (مثلاً تفعیل، افعال، تفعل)سے بھی مختلف صیغہ ہائے فعل چھ سات جگہ آئے ہیں۔ جن پر اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

[وَکَانَ] میں ’’وَ‘‘ بمعنی ’’اور‘‘ہے۔ اور ’’کان‘‘ کا مادہ ’’ک و ن‘‘ اور وزنِ اصلی ’’فَعَلَ‘‘ہے۔ اصلی شکل ’’کَوَنَ‘‘ تھی جس میں واو (متحرکہ ماقبل مفتوح) الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے۔ اس مادہ سے فعل ’’کان یکونُ کوناً‘‘ (بمعنی ’’ہونا‘‘)کے استعمال وغیرہ پر البقرہ:۱۰ یعنی ۱:۸:۲(۱۰)میں بات ہوچکی ہے۔ یہاں ’’کَانَ‘‘ (جو ماضی کا صیغہ ہے)کا ترجمہ اکثر مترجمین نے تو ’’تھا‘‘ ہی کیا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ’’ہوگیا، بن بیٹھا، بن گیا‘‘سے بھی کردیا ہے جو اردو محاورے اور آیت کے سیاق و سباق کے لحاظ سے درست ہے تاہم بلحاظ لفظ یہ ’’کان‘‘کی بجائے ’’صار‘‘کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

[مِنَ الْکٰفِرِیْنَ] ’’مِنْ‘‘(جس کے معانی اور استعمالات پر ۱:۲:۲(۵) میں بات ہوچکی ہے) کا یہاں ترجمہ ’’میں سے‘‘ (برائے تبعیض) یا ’’کی قسم سے‘‘ (مِنْ بیانیہ سمجھ کر) ہوسکتا ہے۔ جسے اردو مترجمین نے ’’سے، میں سے، میں‘‘ کے علاوہ پرانی اردو میں ’’میں کا‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔

اور کلمہ ’’الکافرین‘‘(برسم املائی) کا مادہ ’’ک ف ر‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فاعلین‘‘ہے جو اس مادہ سے فعل مجرد ’’کفَر یکفُر کفرًا ( نہ ماننا۔ انکار کرنا)سے اسم الفاعل کا صیغہ جمع مذکر سالم ہے کَفَر کے معنی و استعمال کے لیے چاہیں تو دیکھئے۱:۵:۲(۱)

·       چونکہ ’’کفر‘‘ اور ’’کافر‘‘ کے اپنے لفظی سے زیادہ اصطلاحی معنوں کے ساتھ اردو میں مستعمل ہیں۔ اس لیے اکثر مترجمین نے ’’کافرین‘‘ کا ترجمہ ’’کافروں‘‘(اردو جمع) سے ہی کیا ہے۔ بعض نے لفظی ترجمہ ’’منکروں‘‘ اور ’’نافرمانوں‘‘ سے بھی کیا ہے ـــــ جن مترجمین نے ’’کانَ‘‘ کا ترجمہ ’’بن گیا، بن بیٹھا ،ہوگیا‘‘سے کیا ہے۔ ان میں سے بعض نے ’’مِنَ الکافرین‘‘ کے ’’مِنْ‘‘ اور ’’الکافرین‘‘ کے صیغہ جمع (ہر دو) کو اردو محاورے کی خاطر نظر انداز کرتے ہوئے ’’مِنَ الکافرین‘‘کا ترجمہ صرف ایک لفظ ’’کافر‘‘ یا ’’نافرمان‘‘(بن بیٹھا)سے ہی کردیا ہے۔ جو ظاہر ہے اصل عبارت (کے الفاظ) سے بہر حال تجاوز ہے۔

 

۲:۲۴:۲     الاعراب

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ   ۭ  اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ       ڭ   وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ 

بنیادی طور پر یہ آیت تین جملوں پر مشتمل ہے مگر پہلے دو جملے فاء عاطفہ کے ذریعے ملا کر ایک جملہ بنا دیئے گئے ہیں ـــــ تیسرے جملہ کے اجزاء بھی واو عاطفہ کے ذریعے باہم مل کر ایک جملہ بنتا ہے۔ تفصیلِ اعراب یوں ہے:۔

(۱) وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ

[وَ] حرف عطف ہے جس کے ذریعے مابعد والے جملے کو سابقہ جملے پر عطف کیا گیا ہے یعنی بیان قصہ کو مربوط کیا گیا ہے۔ [اِذ] ظرف ہے جس میں ماضی کا مفہوم موجود ہے [قُلْنَا] فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر تعظیم [5]    ’’نحن‘‘مستتر ہے۔ چونکہ ظرف عموماً مضاف ہوکر ہی آتا ہے اس لیے نحوی حضرات یہاں ’’اِذْ‘‘(ظرفیہ)کے بعد آنے والے جملہ فعلیہ کو (جو یہاں ’’قُلْنَا‘‘ہے) مضاف الیہ قرار دے کر محلاً مجرور کہتے ہیں ــــ مگر یہ محض فنی کھیل ہے اس کے ماننے یا نہ ماننے سے عبارت کے فہم یا ترجمہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 [للملائکۃ] جار (لِ)اور مجرور (الملائکہ)مل کر متعلق فعل ’’قلنا‘‘ ہیں۔ یا لام (لِ)کو فعل ’’قلنا‘‘ کے مفعول ثانی (جس سے بات کی جائے) پر داخل ہونے والا ’’صلہ‘‘ سمجھیں تو ’’للملائکۃ‘‘ کو محلاً منصوب کہہ سکتے ہیں۔ [اسجدوا] فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اور چونکہ فعل ’’قال یقول‘‘ (کہنا) کے بعد جو بات کہی جائے (یعنی مَقول) وہ ایک طرح سے اس فعل کا مفعول ہوتا ہے اس لیے اس ’’مقُول‘‘کو (جو یہاں ’’اسجدوا الآدم ہے) محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔  [لآدَمَ]جار (لِ) اور مجرور (آدم)مل کر فعل ’’اسجدوا‘‘سے متعلق ہیں ـــــ یا یوں کہیے کہ یہ لام (لِ) فعل ’’سجَد یسجُد‘‘ کے مفعول پر داخل ہونے والا ’’صلہ‘‘ہے۔ (اس لیےکہ ) اس فعل کا مفعول بنفسہ نہیں آتا بلکہ لام کے صلہ کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے۔( عربی میں ’’اس نے اللہ کو سجدہ کیا‘‘کے لیے ’’سجدَ اللّٰہَ‘‘ نہیں کہتے بلکہ ’’سجد لِلّٰہِ‘‘کہتے ہیں)اس طرح ’’لِآدم‘‘ محلاً منصوب بھی ہے۔ بہر صورت ’’اسجدوا لِآدم‘‘ کا ترجمہ ’’تم سجدہ کرو آدم کو‘‘ہے جس کی بامحاورہ صورتوں پر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے۔

(۲) فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ

 [فسجدوا] کی فاء (فَ) عاطفہ (بمعنی سو، پس)ہے جس کے ذریعے یہ (اگلا) جملہ پچھلے جملے (نمبر۱)پر عطف ہے اور ’’اسجدوا‘‘ فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ہے ( جس کی علامت ’’واو الجمع‘‘ہے۔ اور جو یہاں ’’ملائکہ (فرشتوں)کے لیے ہے)۔ [اِلَّا] حرف ِاستثناء ہے جس کے بعد بیان ہونے والی چیز (مستثنٰی) اس سے پہلے بیان ہونے والی چیز (مستثنٰی منہ)کے حکم سے خارج ہوتی ہے [اِبْلیسَ] یہ حرف استثناء ’’اِلَّا‘‘ بمعنی ’’مگر‘‘) کی وجہ سےمستثنٰی ہے اور اسی لیے منصوب ہے علامتِ نصب آخری ’’س‘‘کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے کیونکہ لفظ ’’ابلیس‘‘غیر منصرف ہےــــ اور یہ (ابلیس) یہاں مستثنٰی متصل بھی ہوسکتا ہے اور منقطع بھی [آپ کی یاد دہانی کے لیے لکھا جاتا ہے کہ اگر مستثنٰی اپنے مستثنٰی منہ کی جنس سے نہ ہو تو اسے مستثنٰی منقطع کہتے ہیں اور یہ عبارت میں ہمیشہ منصوب ہوتا ہے (مثلاً یہاں ابلیس کو فرشتوں کی بجائے ’’جنوں‘‘سے سمجھا جائے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے] اور اگر مستثنٰی اپنے مستثنٰی منہ کی ہی جنس سے ہو (مثلاً یہاں ’’ابلیس‘‘ کو ’’ملائکہ‘‘میں سے ہی سمجھا جائے کہ سجدہ کا حکم ان کو ہی دیا گیا) تو اس کے منصوب ہونے کی کچھ شرائط ہوتی ہیں (مثلاً ماقبل جملے کا مثبت (منفی نہ)ہونا) جو یہاں موجود ہیں۔یہاں دونوں صورتوں میں لفظ ’’ابلیس‘‘منصوب ہوسکتا ہے ـــــ  اس طرح یہ دونوں جملے (نمبر۱، نمبر۲) مل کر ایک مکمل عبارت بنتے ہیں اس لیے ان کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) لگائی جاتی ہے۔

(۳) اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ       ڭ   وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ

[ابی] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ ہے جو ابلیس کے لیے ہے۔ [وَ] عاطفہ ہے اور اسی طرح [استکبر] بھی فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ہے۔ اور یہ فعل (استکبر) واو العطف کے ذریعے سابقہ فعل (ابی) پر عطف ہے۔ [وَ] بھی عاطفہ ہے جو بعد والے جملے کو سابقہ جملے پر عطف کرتی (ملاتی)ہے۔ [کان] فعل ناقص صیغہ ماضی (واحد غائب)ہے جس میں اسم ’’کان‘‘، ’’ھو‘‘ شامل ہے۔ [من الکافرین] حرف جار (من) اور مجرور (الکافرین) مل کر ’’کان‘‘ کی (قائم مقام) خبر (محلاً منصوب) بھی بن سکتے ہیں اور چاہیں تو کان کی خبر محذوف سے متعلق بھی قرار دے سکتے ہیں۔ یعنی مقدر عبارت ’’کان کافرًا من الکافرین‘‘ہوسکتی ہے (وہ کافروں میں سے ایک کافر تھا)ـــــ  اور شاید یہی وجہ ہے کہ اردو کے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ بصورت واحد ہی کیا ہے یعنی (کافروں میں سے ایک) ’’کافر ہوگیا‘‘۔

 

۳:۲۴:۲     الرسم

بلحاظ رسم اس (زیرِ مطالعہ)آیت میں صرف دو کلمات ایسے ہیں جن کے رسمِ عثمانی اور رسم املائی میں فرق ہے۔

 (۱) ’’الملئکۃ‘‘(جو عام عربی میں ’’ملائکۃ‘‘ لکھا جاتا ہے) قرآن کریم میں یہ ہمیشہ بحذف الالف (بین اللام والھمزۃ) لکھا جاتا ہے۔ اس کے اس (عثمانی) رسم الخط پر پہلے البقرہ:۳۰ یعنی ۳:۲۱:۲میں بات ہوئی تھی۔

(۲) ’’الکفرین‘‘(جس کی عام املاء ’’الکافرین‘‘ہے) قرآن کریم میں ہر جگہ بمطابق رسم عثمانی بحذف الالف (بعد الکاف) لکھا جاتا ہے۔

·       لفظ ’’آدم‘‘کے صرف ایک الف سے لکھے جانے اور ’’اسجدوا‘‘کے آخر پر الف زائدہ لکھنے (رسم عثمانی اور رسم املائی ہر دو میں) پر بھی پہلے بات ہوچکی ہے۔

 

۴:۲۴:۲      الضبط

زیرِمطالعہ آیت کے کلمات میں ضبط کے اختلاف کو مندرجہ زیل نمونوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔

 


 



 [1] یہاں یہ لفظ عمداً (برائے سہولت) عام عربی املاء کے مطابق لکھا گیا ہے۔ اس کے بارے میں ہم نے اپنا اصول ’’مقدمہ‘‘ میں بیان کردیا تھا۔

 

 [2] البیان (ابن الانباری) ج۱ ص۷۴۔ اعراب القرآن (الدرویش) ج۱ ص۸۴

 

[3] من کنوز القرآن (للسید داؤدی۔ طبع دارالمعارف) ص۱۴

[4] غرائب اللغۃ العربیہ (رفائیل) ص ۱۵۳

 

[5]   جمع متکلم کی ضمیر ’’نحن‘‘ جب (بارز  یا  مستتر شکل میں) اللہ تعالیٰ کے لیے آئے تو نحوی اسے ضمیر جمع متکلم یا ضمیر الفاعلین کہنے کی بجائے ’’ضمیر التعظیم‘‘کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ جمع یا کثرت عدد کے لیے نہیں ہوتی بلکہ انگریزی کی رائل یا ایڈیٹوریل "we" کی مانند ہوتی ہے۔ جس سے ذاتِ واحد مراد ہوتی ہے۔