سورۃالبقرہ آیت نمبر ۳۵

۲۵:۲     وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا       ۠  وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ   (۳۵)

۱:۲۵:۲       اللغۃ

[وَقلنا] ’’وَ‘‘(بمعنی اور)اور ’’قُلْنَا‘‘ کے مادہ، وزن اور معنی پر ابھی اوپر والی آیت یعنی ۱:۲۴:۲(۱)میں بات ہو چکی ہے جس کی روشنی میں یہاں ’’قُلْنا‘‘ کا ترجمہ ’’ہم نے کہا‘‘ہی ہوگا۔ جسے بعض حضرات نے سیاقِ عبارت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ہم نے فرمایا، ہم نے حکم دیا‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ ’’کہنا‘‘ کی بجائے ’’فرمانا‘‘ کا استعمال تو متکلم کے رتبہ کے لحاظ سے پھر بھی درست محاورہ ہے مگر ’’حکم دیا‘‘ والا ترجمہ نہ صرف لفظاً اصل سے بہت دور ہے (کہ بظاہرتو یہ ’’اَمَرْنا‘‘ کا ترجمہ ہے) بلکہ سیاقِ عبارت کے لحاظ سے بھی چنداں موزوں نہیں ہے۔ البتہ اس سے پہلی (گزشتہ)آیت (نمبر ۳۴ )میں ’’قُلنا‘‘ کا ترجمہ ’’ہم نے حکم دیا‘‘ مناسب تھا۔

[یٰاٰدَمُ] میں ابتدائی ’’یا‘‘ (جو رسم عثمانی میں بحذف الف لکھی جاتی ہے)تو حرفِ نداء بمعنی ’’اے‘‘ ہے۔ اور ’’آدم‘‘ کے مادہ، وزن وغیرہ پر البقرہ:۳۱ یعنی ۱:۲۲:۲(۲)میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۵:۲(۱)     [اسْکُنْ] کا مادہ ’’س ک ن‘‘ اور وزن ’’اُفْعُلْ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سکَن یسکُن‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور مصدر یا صلہ کے فرق کے ساتھ اس کے معنی بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ مثلاً: (۱)سکَن یسکُن سُکُونا‘‘ کے معنی ہیں ’’ٹھہر جانا، رک جانا، (حرکت سے) بند ہونا ’’مثلاً‘‘ بارش کا برستے برستے رک جانا‘‘کے لیے کہیں گے ’’سکن المطرُ‘‘ (بارش رک گئی)۔ اس صورت میں یہ  فعل لازم ہی ہوتا ہے۔

(۲) اور یہی فعل (اسی باب اور مصدر کے ساتھ) جب ’’اِلی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آئے تو اس کے معنی ’’…سے سکون حاصل کرنا، …سے راحت اور آرام پانا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہیں گے ’’سکن الیہ‘‘(اس نے اس سے سکون پایا)ــــــ اور کبھی ان معنوں (سکون پانا) کے لیے یہی فعل ’’فی‘‘کے صلہ سے استعمال ہوتا ہے جیسے رات کے بارے میں قرآن کریم میں کئی بار آیا ہے۔ ’’لِتَسکُنُوا فیہ‘‘ (تاکہ تم اس یعنی رات میں آرام پاؤ)

 (۳) اور سکَن یسکُن سَکَنًا و سُکنیً‘‘مفعول بنفسہ کے ساتھ اور ’’فی‘‘ یا  ’’بِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی بطور فعل متعدی آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’(کسی جگہ) رہنے لگ جانا یعنی رہائش اختیار کرنا، وطن بنالینا، …میں بسنا،  …میں رہنا‘‘ مثلا کہیں گے: سکَن الدَار و بالدارِ وفی الدارِ (وہ گھر میں رہنے لگ گیا)۔ زیرِ مطالعہ آیت میں فعل امر ’’اُسکُنْ‘‘ ان ہی معنی کے لیے آیا ہے۔

(۴)سکُن یسکُن سکونۃً (باب کرم سے) آئے تو اس کے معنی ’’مسکین ہوجانا‘‘ہوتے ہیں ــــ  تاہم قرآن کریم میں اس باب (کرُم) سے اس فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا  ــــــــــــ  قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے باب نصر والے مختلف صیغے چودہ (۱۴)جگہ وارد ہوئے ہیں۔ صلہ کے ساتھ بھی اور بغیر صلہ کے بھی۔ اور زیادہ تر مندرجہ بالا دوسرے اور تیسرے معنی (آرام پانا اور سکونت اختیار کرنا)کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’اُسکنْ‘‘ (جس کا ’’س‘‘اپنے ماقبل ھمزۃ الوصل کی بناء پر ’’آدم‘‘ کی ’’مِیم‘‘کے ساتھ ملا کر پڑھا جاتا ہے)اس فعل ثلاثی مجرد (باب نصر) سے فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ اور یہ یہاں بغیر صلہ کے مندرجہ بالا تیسرے معنی (…میں رہنے لگنا) کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی ’’تو   رہ، تو   بس‘‘سکونت اختیار کر‘‘۔

۱:۲۵:۲(۲)     [اَنْتَ وَ زَوْجُکَ] میں ’’اَنْتَ‘‘ تو ضمیر برائے واحد مخاطب مذکر ہے جس کا اردو ترجمہ ’’تو‘‘ ہے اور ’’وَ‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ہے۔ ’’زوجُک‘‘ میں آخری ’’ک‘‘ تو ضمیر مجرور بمعنی ’’تیری‘‘ یا ’’تیرا‘‘ہے۔ اور لفظ ’’زوج‘‘ کا مادہ ’’زوج‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کے علاوہ لفظ ’’زوج‘‘کے بارے میں پوری وضاحت البقرہ:۲۵ یعنی ۱:۱۸:۲(۸)میں گزر چکی ہے۔

·       آیتِ زیرِ مطالعہ میں ’’زوج‘‘کے معنی ’’بیوی‘‘ہیں۔ کیونکہ مرد مخاطب (آدم)کے زوج (جوڑے) کی بات ہورہی ہے۔ اس لیے اردو میں اس کا ترجمہ ’’بیوی، بی بی" اور "جورُو‘‘ کیا گیا ہے۔ بعض نے صرف ’’عورت‘‘ ترجمہ کیا ہے جو مفہوم کے لحاظ سے درست ہے۔ اگرچہ وہ ’’زوج‘‘سے زیادہ ’’امرأۃ‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔ مزید بحث الاعراب میں آئے گی۔

۱:۲۶:۲(۳)     [اَلْجَنَّۃَ] کا مادہ ’’ج ن ن‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعْلَۃٌ‘‘ہے (الجنَّۃ کی آخری تاء کی فتحہ (ــــــَــــ) کی وجہ آگے ’’إلاعراب‘‘میں بیان ہوگی)۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کے استعمال اور خود لفظ ’’جَنَّۃ‘‘اور اس کی جمع ’’جناتٌ‘‘پر البقرہ:۲۵ یعنی ۱:۱۸:۲(۴)پر مفصل بات ہوچکی ہے۔ ’’جنۃ‘‘ کے معنی ’’باغ‘‘ہیں۔ یہاں (قصۂ  آدم میں)’’الجنۃ‘‘سے مراد کون سی جنت یا کون سا ’’باغ‘‘ہے۔ اس کے لیے کِسی اچھی اور مستند تفسیر کو دیکھنا چاہئیے۔ اس لیے کہ بعض ’’روشن خیالوں‘‘نے ’’جنۃ‘‘ کو ایک جگہ (place) کی بجائے ایک حالت (State) مراد لینے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان حضرات کے اس ’’جدید مفہوم‘‘کی توجیہ کسی فلسفیانہ موشگافی کے ذریعے سے ہوتو ہو۔ مگر آنحضرت اور آپ کے صحابہؓ سے پہنچنے والی تفسیر سے تو اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اور صحابہؓ  قرآن کے الفاظ و معانی (یعنی ظاہر و باطن)کے فہم پر یقیناً بعد میں آنے والوں کی نسبت زیادہ قادر تھے۔

۱:۲۵:۲(۴)     [وَکُلَا مِنْھَا]یہ دراصل ’’وَ‘‘ (اور) + ’’کُلَا‘‘ (جس کی وضاحت ابھی ہوگی) + ’’مِن‘‘ (میں سے) + ’’ھا‘‘ (ضمیر مؤنث بمعنیٔ ’’اس‘‘) کا مرکب ہے۔

اس لفظ میں ’’کُلَا‘‘کا مادہ ’’ا ک ل‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلَا‘‘ہے۔ یعنی اس کی اصلی شکل ’’أُأْ کُلَا‘‘بنتی تھی اور اسے عربوں کے نطق میں قائدہ مھموز ]ھمزہ متحرکہ کے بعد ھمزہ ساکنہ ماقبل کی حرکت کے موافق حرف (ا، و یا ی)میں بدل جاتا ہے[ کے مطابق ’’اُوْکُلَا‘‘ہونا چاہئے تھا مگر علمائے صرف نے دیکھا کہ عرب لوگ تین افعال ’’اَخَذ، اَمَر اور اَکَل‘‘ کے فعل ’’امر‘‘ میں خلافِ قیاس (یعنی اس طرح کے دیگر مھموز الفاء افعال کے طریقِ استعمال کے برعکس) ابتدائی ھمزہ گرا کر بولتے ہیں۔

·       اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’أَکَل … یَأْکُل أَکْلاً‘‘(باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ’’…کو کھانا یا کھا جانا‘‘ہیں۔ اور اس لیے عربی میں ’’اَکَلہ‘‘کے معنی ’’مضَغَہ و بلَعَہ‘‘لکھے ہوتے ہیں یعنی ’’چبا کر نگل لینا‘‘ــــپھر بطور استعارہ و تشبیہ یہ فعل ’’اُڑانا، تلف کرنا، ہڑپ کرلینا (پیٹ میں) بھرنا‘‘وغیرہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور عبارت کے سیاق و سباق سے اس کے حقیقی (لفظی)یا کسی دوسرے مجازی اور بامحاورہ استعمال کا فرق معلوم ہوجاتا ہے۔

یہ فعل ہمیشہ متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’اَکَل الطعام‘‘(اس نے کھانا کھایا)۔ البتہ بعض دفعہ اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے جو عبارت سے سمجھا جاسکتا ہےـــــ

·       زیر مطالعہ لفظ ’’کُلَا‘‘اس فعل مجرد سے فعل امر کا صیغہ تثنیہ مخاطب ہے۔ جو مذکر و مؤنث ہر دو کے لیے برابر ہے یعنی ’’تم دونوں (مرد یا عورت) کھاؤ‘‘ اس سے فعل امر کی گردان ’’کُلْ، کُلَا، کُلُوْا، کُلِیْ، کُلَا، اور کُلْنَ‘‘ہوگی۔ یعنی ان تمام صیغوں میں شروع کا ھمزۃ الوصل اور اصل مادہ کا ھمزہ (فاء کلمہ)ساقط کردیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے نوّے (۹۰) سے زائد مقامات پر آئے ہیں۔ اور بعض جامد اور مشتق اسماء بھی سولہ (۱۶) جگہ آئے ہیں جن پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے مزید فیہ کا کوئی فعل وغیرہ استعمال نہیں ہوا اگرچہ عربی زبان میں اس سے مزید فیہ کے متعدد ابواب سے مختلف معانی کے لیے افعال استعمال ہوتے ہیں۔

۱:۲۵:۲(۵)     [رَغَدًا] کا مادہ ’’ر غ د‘‘اور وزن ’’فَعَلًا‘‘ہے اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’رغِد  یرغَد  رغَدًا‘‘عموماً با ب سمِعَ سے (اور کبھی باب کرُم سے بھی) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’کثرت، دلچسپی اور عمدگی والا ہونا‘‘۔ اچھی چیزوں سے بھر پور ہونا‘‘اس کا فاعل عموماً ’’عَیْشٌ‘‘ (زندگی)ہوتا ہے مثلا کہیں گے"رغِد عیشُ الرجلِ(اس آدمی کی زندگی مزے کی ہوگئی)۔خیال رہے عربی میں "عَیْشٌ"یا"عِیْشَۃ" زندگی بسر کرنے یا گزارنے کی حالت یا طریقے کو کہتے ہیں (یعنی ’’گزر بسر‘‘)جس کا اردو ترجمہ ’’زندگی‘‘ہی کیا جاتا ہے۔ مگر اس کا مفہوم ’’حیاۃ‘‘(زندہ رہنے کی عادت) بمقابلہ ’’مَوْت‘‘ سے مختلف ہے اگرچہ اردو ترجمہ اس کا بھی ’’زندگی‘‘ہی کیا جاتا ہے (جو دراصل فارسی لفظ ہے)۔

·       اس طرح ’’رَغَدٌ ‘‘ کامطلب ہے ’’عمدہ، مزیدار اور بہت‘‘ اور اس معنی کے لیے ’’رَغْدٌ‘‘اور ’’رَغِیْدٌ‘‘ بھی آتے ہیں۔ جو ایک طرح کی صفت ہے اور اس کا موصوف ’’زندگی یا وسائل زندگی (پانی نباتات وغیرہ)ہوسکتے ہیں۔ اور ’’رغَدٌ‘‘ لفظ ’’راغِدٌ‘‘ کی جمع کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جو مَردوں عورتوں دونوں کے لیے آتا ہے۔ مثلا کہتے ہیں ’’قومٌ رغَدٌ یا نسائٌ رَغَدٌ‘‘ ( یعنی مزے بھری زندگی والے مرد یا عورتیں)ـــــــتاہم یہ استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا بلکہ اس مادہ (رغد) سے کوئی فعل وغیرہ بھی استعمال نہیں ہوا۔ صرف یہی ایک لفظ ’’رغدًا‘‘(بصورت منصوب) تین جگہ وارد ہوا ہے۔ اور اس کے با محاورہ اردوترجمہ (بافراغت، جو چا ہو، بے روک ٹوک، خوب)کو سمجھنے کے لیے اس عبارت کی ترکیبِ نحوی کو جاننا ضروری ہے۔ جو ابھی آگے بحث ’’الاعراب‘‘میں سامنے آئے گی۔

۱:۲۵:۲(۶)     [حَیْثُ] یہ ایک اسم ہے جو ’’ظرف‘‘ کا کام دیتا ہے جو ہمیشہ مبنی برضمہ (ـــــُـــــ)ہوتا ہے یعنی اس کی آخری ’’ث‘‘ ہمیشہ ضمہ (ـــــُـــــ)کے ساتھ پڑھی اور بولی جاتی ہے چاہے اس سے پہلے کوئی حرف الجر بھی کیوں نہ آجائے۔ ’’مِن حیثُ‘‘ اور ’’حیثُ‘‘کے معنی ایک ہی رہتے ہیں۔ یہ لفظ (حَیْث) ہمیشہ مکان( یعنی جگہ کے مفہوم) کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے اس کا اردو ترجمہ ’’جہاں، جس جگہ، جہاں کہیں، جہاں سے اور جدھر سے‘‘کی صورت میں کیا جاتا ہے۔

عموماً اس (حیث) کے بعد ایک جملہ آتا ہے جو زیادہ تر فعلیہ ہوتا ہے (جیسے یہاں ’’شِئْتُما‘‘آیا ہے)اور نحوی اعتبار سے اس جملے کو ’’حیثُ‘‘ کا مضاف الیہ سمجھا جاتا ہے (کیونکہ ’’ظروف‘‘مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں)کبھی اس (حیثُ)کے بعد ’’مَا‘‘ لگا دیتے ہیں۔ اس وقت ’’حیثُمَا‘‘شرطیہ ہوجاتا ہے۔ یعنی ’’جہاں کہیں بھی، جس جگہ بھی، جدھر سے بھی‘‘کے معنی دیتا ہےــــــ اور یہ (حیثُما شرطیہ)دو مضارع فعلوں کو جَزْمْ دیتا ہے۔ (شرط اور جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے)۔ اس (حیثُ)کے یہ استعمالات بھی آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس مادہ (ح ی ث)سے کوئی فعل یا اور اسم عربی زبان میں استعمال ہی نہیں ہوتا۔ سوائے اسی ایک اسم ’’حیثُ‘‘ کے جو ظروف مبنیہ میں سے ایک ہے۔ قرآن کریم میں ’’حیثُ‘‘ ۳۱ جگہ آیا ہے جس میں دو دفعہ ’’مَا‘‘ کے ساتھ آیا ہے۔

۱:۲۵:۲(۷)     [شِئْتُمَا] کا مادہ ’’ش ی أ ‘‘ اور وزنِ اصلی ’’فَعِلْتُمَا‘‘ہے یعنی یہ دراصل ’’شَیِئْتُمَا‘‘تھا۔ صرفی قاعدہ ہے (یا یوں کہئے کہ عربوں کے نطق کا طریقہ ہے) کہ کسی فعل اجوف میں جب لام کلمہ (آخری حرف) ساکن ہو تو اس سے ماقبل کے متحرک حرفِ علّت (و یا ی)کو کتابت اور تلفظ سے گراددیا جاتا ہے۔ اور گرنے والے حرف کی حرکت اگر ضمہ (ـــــُـــــ)ہو یعنی فعل نصَر یا کرُم سے ہو تو فعل کے ابتدائی حرف (فاء کلمہ) کو حرکتِ ضمہ (ـــــُـــــ) دی جاتی ہے جیسے آپ نے ’’کنتم‘‘ کی تعلیل میں پڑھا تھا (دیکھئے البقرہ:۲۳)یعنی ۱:۱۷:۲(۱) میں ـــــ  اور اگر گرنے والے حرف عّلت کی حرکت فتحہ (ـــــَــــ) یا کسرہ (ـــــِــــ) تھی (یعنی وہ فعل نصرَ اور کرُم کے علاوہ کسی اور باب سے تھا) تو فاء کلمہ یعنی ابتدائی حرف کو کسرہ (ـــــِــــ) ہی دی جاتی ہےـــــ اس قاعدے کے تحت ہی یہ صیغہ ’’شَیِئْتُمَا‘‘ سے ’’شِئْتُما‘‘بنا ہے۔ یعنی عرب لوگ اسے اصلی شکل کی بجائے یوں بولتے ہیں۔

·       اس مادہ (ش ی أ)سے فعل مجرد ’’شاء … یشَائُ مَشِیئۃً‘‘(باب سمِع سے) (دراصل شَیِئَ یَشْیَؤُ‘‘)آتا ہے۔ اس کے معنی (چاہنا) اور استعمال نیز تعلیل وغیرہ پر اس سے پہلے البقرہ:۲۰ یعنی ۱:۱۵:۲(۸)میں بات ہوچکی ہے۔

زیرِ مطالعہ لفظ ’’شِئْتما‘‘ اس فعل سے ماضی معروف کا صیغہ تثنیہ حاضر ہے (جو کہ مذکّر مؤنث کے لیے یکساں ہے) اس طرح اس کا لفظی اردو ترجمہ تو ہے ’’تم دونوں نے ارادہ کیا یا چاہا‘‘ مگر شروع میں ’’حیث‘‘(جہاں سے) لگنے کی وجہ سے بامحاورہ ترجمہ صرف ’’چاہو‘‘سے کیا گیا ہے۔

۱:۲۵:۲(۸)     [وَلَا تَقْرَبَا] کی ابتدائی ’’وَ‘‘تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ہے اور ’’لا تقربا‘‘کا مادہ ’’ق ر ب‘‘اور وزن ’’لَاتَفْعَلَا‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد دو طرح استعمال ہوتا ہے۔

(۱) قرِبَ … یقرَبُ قُرْبًا (باب سمِع سے) آئے تو اس کے معنی ہوتی ہیں:’’…کے نزدیک جانا، …کے پاس جانا‘‘ــــــ یہ فعل متعدی ہوتا ہے۔ اور اس کامفعول براہِ راست (بنفسہ) آتا ہے۔ اور یہ حقیقی اور مجازی دونوں معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’قَرِبَ الشَیْیَٔ‘‘(وہ چیز کے قریب گیا) میں حقیقی اور ’’قرِبَ زوجَتَہ‘‘(وہ اپنی بیوی کے قریب گیا)میں مجازی معنی مراد ہیں اور البقرہ:۲۲۲ میں ’’ولا تقربو ھنَّ‘‘میں یہ فعل ان ہی (مجازی) معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

(۲) البتہ یہ فعل باب کرُم سے (قرُب یقرُب قرَابۃً و قُربٰی)بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت یہ فعل لازم ہوتا ہے یعنی اس کے معنی ’’قریب ہونا، قریب آپہنچنا‘‘ ہوتے ہیں اس صورت میں جس سے قریب ہونے کا ذکر کرنا ہو تو فعل پر ’’مِن‘‘یا ’’اِلٰی‘‘ کا صلہ لگاتے ہیں مثلاً قرُب مِنْہ و اِلَیْہ (وہ اس کے قریب پہنچا) اس سے ہی اسم صفت قَرِیْبٌ (نزدیکی۔ پاس ہونا) بروزن ’’فعیل‘‘بنتا ہے اور (فعل التفضیل ’’اَقرَبُ‘‘(زیادہ قریب) بھی اسی باب (کرُم)والے معنوں سے بنتا ہے۔

·       زیرِ مطالعہ لفظ ’’لا تقرَبا‘‘اس فعل مجرد کے باب سمِعَ سے فعل نہی کاصیغہ تثنیہ مخاطب (مذکر مؤنث ہر دو کے لیے)ہے اور اس کا ترجمہ ہوگا: تم دونوں … کے قریب/پاس نہ جاؤ‘‘۔

۱:۲۵:۲(۹)     [ھٰذِہِ الشَّجَرَۃ] میں ’’ھذہ‘‘ تو اسم اشارہ برائے قریب (مونث) ہے جس کا اردو ترجمہ ’’یہ‘‘ یا ’’اس‘‘سے کیا جاتا ہے۔ اسماء اشارہ کی ساخت اور معنی وغیرہ کے لیے البقرہ:۲ یعنی ۱:۱:۲(۱)دیکھئے۔

’’الشَجَرَۃَ‘‘(جو یہاں مشارٌ الیہ ہے) کا مادہ ’’ش ج ر‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر ’’فَعَلَۃٌ‘‘ہے۔ (اس کی نصب کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی۔)

اس مادہ سے فعل مجرد ’’شجَر یشجُر شَجْرا‘‘(باب نصر سے) آتا ہے۔ اور اس کے  ایک معنی ’’جھگڑے کا سبب بننا‘‘بے چینی اور اضطراب پیدا کرنا، باعثِ نزاع ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل سے ان ہی معنوں کے لیے صرف ایک جگہ (النساء:۶۲) فعل ماضی کا ایک صیغہ آیا ہےــــــ ویسے عربی زبان میں یہ فعل مجرد لازم متعدی اور معروف ومجہول اور ’’عن‘‘کے صلہ کے ساتھ مختلف معانی (مثلاً … کو باندھنا، … کو ہٹانا، جدا کر دیا جانا وغیرہ)کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ڈکشنریوں میں دیکھے جاسکتے ہیںــــ  اس مادہ سے ماخوذ لفظ ’’شجرٌ یاشجرۃ‘‘مختلف صورتوں میں تیس سے زائد جگہ آیا ہے۔

·       لفظ ’’شجَرٌ‘‘اس مادہ سے ماخوذ ایک اسم جامد ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں:’’زمین سے اُگنے والا وہ پودا یا نباتات جس کا مضبوط تنا ہو۔ اور وہ اوپر کی طرف اُگتا اور بڑھتا ہو‘‘ـــــ  اور جو (بیل وغیرہ کی طرح)صرف زمین پر پھیلے اور اس کا (مضبوط) اٹھانے والا ’’تنا‘‘نہ ہو تو اسے عربی میں نَجْمٌ یا عَشَبٌ یا حشِیْش (گھاس، بوٹی، بیل وغیرہ)کہتے ہیں۔ شجر کے لیے اردو فارسی کا لفظ ’’درخت‘‘ استعمال ہوتا ہے۔

تاہم عربی میں ’’شجر‘‘سے مراد ہر وہ پودا ہے جسے آپ درخت کہہ سکتے ہیں یعنی ’’شجر‘‘ اسم جنس ہے جو عام یا تمام درختوں پر بولا جاتا ہے۔ جب کوئی ایک (عدد) درخت یا بعض درخت مراد لینا ہو تو اسے ’’شجرۃ‘‘کہتے ہیں۔ عربی میں اس تاء (ۃ) کو تائے وحدت کہتے ہیں اور یہ کسی جنس یانوع سے کوئی ایک فرد مراد لینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً ’’ثَمَرٌ‘‘ (بحیثیت مجموعی ہر طرح کے پھل) مگر ثَمَرۃٌ (کوئی خاص یا ایک ایسا پھل جس کی بات ہو رہی ہو)اس طر ح کے کئی اور الفاظ (مثلاً بقر سے بقرۃ اور لیل سے لیلۃٌ وغیرہ) آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گے۔

·       قرآن کریم میں لفظ ’’الشجر یا شجر (بغیر تائے وحدت) سات جگہ اورتائے وحدت کے ساتھ (الشجرۃ یا شجرۃ) ۱۹ جگہ آیا ہے۔

۱:۲۵:۲(۱۰)     [فَتَکُوْنَا]: یہ دو کلمات کا مجموعہ ہے یعنی حرف فاء(فَ)اور فعل ’’تکونا‘‘سے مل کر بنا ہے۔ دونوں کا مختصر بیان یوں ہے:

(فَ) یعنی فاء مشہور حرفِ عطف ہے اور زیادہ تر ترتیب (بعض چیزوں کا نمبروار بیان) یا تعقیب (ایک چیز کا دوسری کے بعد واقع ہونا) کا مفہوم دیتی ہے۔ اور معطوف اور معطوف علیہ کا اعراب ایک ہی ہوتا ہے۔ فاء کی ایک قسم سببیہ بھی ہے جس سے پہلے بیان کردہ بات اس کے بعد بیان کردہ بات کا سبب ہوتی ہے۔ یہ عموماً نفی یا طلب (یعنی امر، نہی، استفہام، تمنا وغیرہ) کے بعد آتی ہے اور اس کے بعد اگر فعل مضارع ہو تو اس کی وجہ سے وہ منصبو ب ہوجاتا ہے۔ اگر فاء جواب شرط کے شروع میں آئے تو یہ مضارع کو جزم  بھی دیتی ہے۔ مندرجہ بالا تمام صورتوں میں ’’فَ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’پس‘‘ہی سے کیا جاتا ہے۔ البتہ کبھی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے حسبِ موقع اس کا ترجمہ ’’پھر"، "چنانچہ"، "تو،" اس بنا پر"، "اس کی وجہ سے"، "ورنہ"، "نہیں تو،" اس کے بعد‘‘ کی صورت میں بھی کیا جاسکتا ہےـــیہاں زیر ِمطالعہ عبارت میں اس کا موزوں ترجمہ ’’ورنہ‘‘ یا ’’نہیں تو‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔

فاء کے مختلف معنی و استعمالات پر البقرہ:۲۲ یعنی ۱:۱۶:۲(۱۰)میں بھی بات ہوئی تھی۔

·       ’’تَکُوْنَا‘‘  کا مادہ ’’ک و ن‘‘اور وزن ’’تَفْعُلَا‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’تَکْوُنَا‘‘ تھی۔ جس میں عربوں کے طریق تلفظ کے مطابق ’’و ‘‘ کی حرکتِ ضمہ (ــــُـــــ) ماقبل صحیح ساکن (ک) کو دے دی جاتی ہے اور ماقبل کے مضموم ہوجانے کی بناء پر ’’و ‘‘ برقرار رہتی ہے۔

یہ (تکونا)اس مادہ سے فعل مجرد ’’کان یکون کَوْنًا‘‘ (بمعنی ہونا۔ہوجانا)سے فعل مضارع معروف (منصوب بوجہ فاء سببیہ) کا صیغۃ تثنیہ حاضر ہے اس طرح ’’فتکونا‘‘ کا ترجمہ یہاں ’’ورنہ تم دونوں ہوجاؤ گے‘‘ یا ’’نہیں تو تم دونوں ہوگے‘‘۔ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ فعل ’’کان یکون‘‘کے معنی اور قواعدِ استعمال پر اس سے پہلے البقرہ:۱۰ یعنی ۱:۸:۲(۱۰)میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۵:۲(۱۱)     [مِنَ الظّٰلِمِیْنَ] کے شروع والا ’’مِنْ‘‘ یہاں تبعیضیہ ہے جس کا ترجمہ ’’میں سے (ایک)‘‘ ہوگا۔

اور ’’الظالمین‘‘(یہ رسمِ املائی ہے رسمِ عثمانی پر آگے بات ہوگی) کا مادہ ’’ظ ل م‘‘اور وزن (لامِ تعریف کے بغیر)’’فاعِلیْن‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرّد ’’ظلَم یظَلِم ظُلمًا‘‘(بے انصاف ہونا، حد سے بڑھنا، کسی کا حق مارنا وغیرہ)کے باب، معنی اور استعمال پر البقرہ:۲۰ یعنی ۱:۱۵:۲(۵)میں بات ہوچکی ہے۔

·       ’’الظالمین‘‘اس فعل سے صیغہ اسم الفاعل ’’ظالم‘‘ کی جمع سالم (معرف باللام اور مجرور بالجر)ہے۔ ظالم کا اردو ترجمہ ’’ظالم، بے انصاف، حد سے گزرنے والا، اپنا نقصان کرنے والا اور گناہ گار‘‘سے کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ ظالم اور بے انصاف حد سے گزرنے والا بھی ہوتا ہے۔ اور دراصل (بلحاظ نتائج یا بالآخر) اپنا ہی نقصان کرنے والا بھی ہوتا ہے۔ اور کوئی گناہ ( یا برا کام) کرنا دراصل اپنے اوپر ظلم کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ’’الظالمین‘‘ کے ترجمہ میں مندرجہ بالا کلمات اختیار کئے گئے ہیں۔

 

۲:۲۵:۲        الاعراب

وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ـــــــــــــــــــــ  وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا       ۠ـــــــــــــــــــــ   وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ  

آیتِ زیرِ مطالعہ نحوی اعتبار سے تین مستقل  فعلیہ جملوں پر مشتمل ہے۔ جن کو ہم نے اوپر وقفہ کی لکیر دے کر الگ الگ لکھا ہے۔ تاہم یہ سب جملے واو عاطفہ کے ذریعے مل کر ایک ہی طویل جملہ بناتے ہیں۔ الگ الگ اعراب کی تفصیل یوں ہے:

(۱)     وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ

          [وَ] عاطفہ ہے جس سے مابعد والے جملے کا ماقبل والے جملے پر عطف ہوا ہے ــــــ [قلنا] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعل ’’انت‘‘(مستتر)ہے۔ [یا]  حرفِ ندا ہے اور [آدم] منادی مفرد مرفوع مگر مبنی بر ضمہ(ــــُـــــ) ہے۔ لفظ ’’آدم‘‘ ویسے بھی غیر منصرف ہے۔ [اُسکُن] فعل امر معروف صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ جس میں ضمیر فاعل ’’انت‘‘ مستتر ہے۔ [انتَ] یہ پچھلے فعل (اسکن) کی ضمیر فاعل ہے جو تاکید کے لیے باہر (دوبارہ) لائی گئی ہے تاکہ اگلے اسم (و زوجُک) کا اس پر عطف درست ہوسکے۔ اس لیے کہ ’’وَ‘‘ کے ذریعے کسی ضمیر مستتر پر عطف درست نہیں بنتا ــــ یعنی ’’اسکن و زوجُک‘‘کہنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ’’اسکن‘‘ تو مخاطب کا صیغہ ہے جس کا فاعل کوئی اسم ظاہر نہیں ہوسکتا یا تو پھر فعل امر غائب (مثلاً لِیَسْکُنْ = چاہئیے کہ رہے) دوبارہ لائی جائے (یعنی وَلْیَسْکُن زوجُک کہا جائے) اس کی بجائے ایسے موقع پر جب کوئی فعل اپنی ضمیر فاعلی (یا فاعلین) اور کسی اسمِ ظاہر دونوں کے لیے آرہا ہوتو (چاہے وہ فعل امر ہو یا نہی یا ماضی یا مضارع) اس فعل کی ضمیر فاعل (یا ’’فاعلہ‘‘ یا ’’فاعلین‘‘ یا ’’فاعلات‘‘جیسی بھی صورت ہو) باہر نکل کر اسم ظاہر کو ’’وَ‘‘کے ذریعے اس پر عطف کرتے ہیں۔ اس کی متعدد مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ [وَ] عاطفہ ہے جس کے ذرریعے اسم ظاہر (زوجُک) کو ضمیر تاکید ’’انتَ‘‘ پر عطف کیا گیا ہے۔ [زوجُکَ]  مضاف (زوجُ) اور مضاف الیہ (ضمیر مجرور ’’کَ‘‘ مل کر ضمیر برائے تاکید (انت) پر معطوف ہے۔ [الجنَّۃَ] فعل ’’اسکُن‘‘کا مفعول بہٖ یا مفعول فیہ ہے (یعنی دونوں طرح ممکن ہے) اس طرح ’’یَا آدم اسکن انتَ و زوجک الجنۃ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوگا: اے آدم رَہ تو اور تیرے بیوی (بھی رہے) جنت (باغ) میں‘‘جس کا سلیس اور بامحاورہ ترجمہ ’’اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو‘‘۔ یا ’’اے آدم تو اپنی بی بی سمیت جنت میں رہ‘‘ یا  اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں بسو‘‘کی صورت میں کیا گیا ہے۔

(۲)  وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا

[وَ] عاطفہ ہے جو بعد والے فعل (کُلَا)کو سابقہ فعل (اسکُن) پر عطف کرتی ہے (یعنی رہو اور کھاؤ)۔ [کُلَا] فعل امر معروف کا صیغہ تثنیہ مخاطب ہے جس میں ضمیر فاعلَیْن ’’انتُما‘‘ مستتر ہے۔ (یعنی تم دونوں کھاؤ)۔ [منھا] جار (مِنْ)اور مجرور (ضمیر ’’ھَا‘‘) مل کر فعل (کُلَا)سے متعلق ہیں اس میں ضمیر ’’ھا‘‘ جنت کے لیے ہے۔ [رَغَدًا]کی بلحاظِ اعراب یہاں دو صورتیں ممکن ہیں (۱) یا تو یہ ایک محذوف مصدر (یعنی مفعول مطلق) کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے تقدیرِ عبارت کچھ یوں بنتی ہے: ’’کُلَا اَکُلًا رَغَدًا‘‘ یعنی کھاؤ، ایسا کھانا جو ’’رَغَدْ‘‘ (عمدہ، بہت، مزے دار، بغیر کسی روک ٹوک کے)ہو۔ اسی بناء پر بعض مترجمین نے اس (کُلا رغدًا) کا ترجمہ ’’جو چاہو کھاؤ‘‘، ’’بے روک ٹوک کھاؤ‘‘ کیا ہے۔ (ii) دوسری ترکیب نحوی یوں ہوسکتی ہے کہ ’’رَغَدًا‘‘ کو مصدر بمعنی اسم الفاعل لے کر اسے حال (لھذا منصوب) سمجھا جائے ۔] مصد کا اسم الفاعل یااسم المفعول کے معنی میں کسی جملے کے اندر حال کا کام دینا عربی زبان اور خود قرآن کریم میں بہت عام ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں آگے ہمارے سامنے آئیں گی]۔ اس صورت میں گویا تقدیر عبارت ہوگی ’’کُلَا راغِدَیْنِ‘‘ (یعنی تم دونوں کھاؤ مزے لینے والے ہوتے ہوئے، فراغت والے ہوتے ہوئے، مزے کی زندگی گزارنے والے ہوتے ہوئے۔ دیکھئے اوپر حصہ اللغۃ میں رغدًا کی بحث)۔ اس اعراب کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض مترجمین نے اس (رغدًا) کا ترجمہ ’’محظوظ ہوکر‘‘ اور ’’بافراغت‘‘ اور ’’فراغت کے ساتھ‘‘ کیا ہے۔

[حیثُ] ظرفِ مکان مبنی ضمہ (ــــُـــــ)ہے یعنی ’’وہ جگہ جو‘‘کے مفہوم کے ساتھ اور اس (ظرف) کا تعلق فعل ’’کُلَا‘‘سے ہے [شِئْتما] فعل ماضی معروف صیغہ تثنیہ مخاطب ہے جس میں ضمیر فاعلَین ’’انتما‘‘ مستتر ہے اور یہ (شئتما) ایک پورا فعلیہ (فعل مع فاعل) ہو کر ظرفِ مکان (حیثُ)کی طرف مضاف ہے یعنی ’’اپنی مرضی کی جگہ‘‘۔ جس (حیث شئتُما) کا بامحاورہ ترجمہ ’’جہاں چاہو، جس جگہ چاہو، جہاں تمہارا جی چاہے‘‘سے کیا گیا ہے۔ اور بعض مترجمین نے ظرف کے بعد ’’سے‘‘ لگا کر بھی ترجمہ کیا ہے یعنی ’’جہاں کہیں سے چاہو، جس جگہ سے چاہو‘‘ کی صورت میں ــــــگویا اس میں ’’حیثُ‘‘ کا ترجمہ ’’من حیثُ‘‘ کی طرح کیا گیا ہے۔ تاہم اردو محاورہ کی رو سے یہ درست ہے۔ (اوپر دیکھئے ’’حیث‘‘ کی لغوی بحث)

(۳)  وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ  

          [وَ] بھی عاطفہ ہے یعنی ابتدائی ’’قلنا‘‘کے بعد بیان ہونے والے ’’احکام‘‘ کو باہم ملانے کا کام دیتی ہے (یعنی قُلنَااسکن وَکلا ولا تقربا) [لَاتَقْرَبَا] کی ’’لا‘‘ نہی کے لیے ہے اور ’’لاتقربا‘‘ فعل نہی معروف کا صیغہ تثنیہ حاضر ہے جو مذکر مؤنث کے لیے یکساں ہے۔ ’’نہی‘‘ کی وجہ سے یہاں مضارع مجزوم ہے یعنی ’’لا تقربان‘‘ کا آخری نون گرگیا ہے۔ اور ’’لاتقربا‘‘ میں ضمیر فاعلین ’’انتما‘‘ مستتر ہے۔ [ھذہ الشجرۃَ] میں ’’ھذہ‘‘ اسمِ اشارہ (برائے مؤنث قریب)ہے اور ’’الشجرۃ‘‘اس کا مشارٌ الیہ ہے۔ اور یہ مرکب اشاری فعل ’’لاتقربا‘‘ کا مفعول بہ ہے اس لیے منصوب ہے۔ مگر نصب کی علامت صرف مشارٌ الیہ (الشجرۃَ) کی آخری ’’ۃ‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) کی صورت میں ظاہر ہے۔ اسمِ اشارہ ’’ھذہ‘‘ میں مبنی ہونے کے باعث نصب میں علامت ظاہر نہیں ہے۔ [فَتَکونا] میں فاء سببیہ ہے [جو عموماً فعل امر یا فعل نہی کے جواب پر یا استفہام اور نفی کے بعد آتی ہے اور اس کے بعد فعل مضارع ہو تو وہ منصوب ہو جاتا ہے] جس نے یہاں فعل مضارع ’’تکونا‘‘کو نصب دی ہے۔ علامتِ نصب صیغۂ فعل (تکونانِ) کے آخری ’’نون‘‘ کا گرنا ہے۔ اور بعض مترجمین نے اسی لیے ’’فتکونَا‘‘ کا ترجمہ ’’اس کی وجہ سے/ ورنہ/ نہیں تو ہو جاؤ گے‘‘کی صورت میں کیا ہے ــــــ اور دوسری (اعرابی) توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ’’فاء‘‘ (فَ) کے ذریعے ’’تکونا‘‘ کا عطف اپنے (سابقہ) فعل نہی ’’لاتقربا‘‘ پر مانا جائے اس لیے یہاں ’’تکونا‘‘بھی (تقربا کی طرح) فعل مجزوم ہو۔ جزم کی علامت بھی آخری ’’ن‘‘کا گرنا ہی ہے۔ اس صورت میں ’’فاء‘‘ کا ترجمہ ’’تو، کہ، یا پس‘‘ سے کرنا بہتر ہے۔ چنانچہ بعض مترجمین نے اس (فتکونا) کا ترجمہ ’’پس /تو/ کہ تم ہوجاؤ گے‘‘ سے بھی کیا ہے [من الظالمین] مِنْ (جار) اور ’’الظالمین‘‘ (مجرور) مل کر کان ناقصہ (جو بصیغہ تکونا آیا ہے) کی خبر یا قائم مقام خبر ہے کیونکہ اصل خبر تو ’’محسوبَیْنِ‘‘(شمار کئے گئے ہوگے) کی قسم کا کوئی اسم بنتا ہے۔ جو یہاں محذوف ہے۔ اور ’’مِنْ‘‘ بلحاظ معنی یہاں بیانیہ بھی ہوسکتا ہے یعنی ’’از قسمِ ظالمین‘‘ہوجاؤ گے اور ’’مِنْ‘‘ تبعیض کے لیے بھی ممکن ہے یعنی ’’فتکونا ظالِمَیْن من الظالمینَ‘‘ (ظالموں میں سے دو ظالم یعنی ظالموں کا ایک حصّہ بن جاؤ گے)

 

 ۳:۲۵:۲     الرسم

آیت زیرِ مطالعہ کے قریباً تمام کلمات کا رسمِ املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے صرف دوکلمات ’’یادم‘‘ اور ’’الظلمین‘‘ کی قرآنی (عثمانی) املاء عام املاء سے مختلف ہے جس کی تفصیل یوں ہے:

(۱)’’یاآدمُ‘‘(یہ اس کا رسمِ املائی یا رسم معتاد ہے) قرآن کریم میں ہر جگہ ’’یاء‘‘ ندا کے الف کے حذف کے ساتھ بصورت (ی)اور پھر اس (ی)کو ’’آدم‘‘کے الف کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’یادم‘‘ــــ اور خود کلمہ ’’آدم‘‘ کا ابتدائی ھمزہ بھی حذف کرکے لکھا جاتا ہے۔ یہ لفظ دراصل ’’أَ ادَمُ‘‘تھا (أا کو ہی (# )وغیرہ کی شکل میں لکھتے ہیں) اب اسے ’’ادم‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ پھر ’’یا‘‘کے بعد والے الف محذوفہ اور ’’ادم‘‘کے ابتدائی ھمزہ محذوفہ کو بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے کئی طریقے رائج ہیں۔ جیسا کہ آپ ’’الضبط‘‘کے نمونوں میں دیکھیں گے۔

 (۲) کلمہ ’’الظلمین‘‘(جس کی عام املاء ’’الظالمین‘‘ہے) یہاں اور قرآن کریم میں ہر جگہ ’’ظ‘‘ کے بعد والے الف کے حذف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ یہ اس کا متفق علیہ رسمِ عثمانی ہے۔ پھر محذوف الف کو بذریعہ ضبط کئی طریقوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔

 

۴:۲۵:۲      الضبط

زیر مطالعہ آیت کے کلمات میں ضبط کے اختلاف کو مندرجہ ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے:۔