سورۃ البقرہ آیت نمبر ۳۶  اور ۳۷

۲۶:۲        فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ     ۠ وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ   ۚ   وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ   (۳۶)فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ    ۭ   اِنَّهٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْم  (۳۷)

۱:۲۶:۲       اللغۃ

۱:۲۶:۲(۱)     [فَاَزَلَّھُمَا]یہ دراصل ’’فَ‘‘ (بمعنی پس/ اس کے بعد)+ ’’اَزَلَّ‘‘(جس کے معنی ابھی بیان ہوں گے)+’’ھما‘‘(ضمیر منصوب بمعنی ان دونوں کو) کا مرکب ہے۔

اس میں لفظ ’’اَزَلَّ‘‘ کا مادہ ’’زل ل‘‘اور وزن اصلی ’’اَفْعَلَ‘‘ہے۔ یہ دراصل ’’اَزْلَلَ‘‘تھا۔ پھر لام کی حرکت فتحہ (ـــــَــــ) ماقبل ساکن حرف (ز) کو دے کر دونوں ’’لام‘‘مدغم کر دیئے جاتے ہیں اور یوں لفظ ’’اَزَلَّ‘‘بنا۔

اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’زَلَّ یَزِلُّ زَلَلًا‘‘باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’پھسلنا، پھسل جانا‘‘۔ یعنی یہ فعل لازم ہے اس کا مفعول نہیں آتا۔ البتہ جس چیز یا جگہ سے ’’پھسلے‘‘ اس کے ساتھ ’’عن‘‘ لگاتے ہیں مثلاً کہیں گے ’’زلَّ عنِ الصوابٍ‘‘(وہ درست بات سے پھسل گیا)۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف ایک صیغہ ماضی (البقرہ:۲۰۹) اور ایک صیغہ فعل مضارع کا (النحل:۹۴) وارد ہوا ہےــــــ

·       زیرِ مطالعہ لفظ ’’اَزَلَّ‘‘اس مادہ سے بابِ افعال کے فعل ماضی معروف کا پہلا صیغہ ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَزَلَّ …یُزِلُّ اِزلالاً‘‘کے معنی ہیں: ’’…کو پھسلا دینا‘‘اس لیے اس (اَزَلَّ)کا ترجمہ ’’ڈگایا، ہلادیا، ہٹادیا، لغزش دے دی، اکھاڑ دیا اور پھسلادیا‘‘کی صورت میں کیا گیا ہے جن سب کا مفہوم ایک ہے ــــــ یہ فعل (اَزَلَّ یُزِلُّ) متعدی ہوتا ہے اور اس کا مفعول ہمیشہ بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے۔ جیسے یہاں ’’ازلھما‘‘ میں ضمیر منصوب ’’ھما‘‘ آئی ہے۔ البتہ جس چیز یا جگہ سے پھسلا دینے یا ڈگانے کا ذکر کرنا ہو تو اس پر ’’عَنْ‘‘ کا صلہ لگتا ہے مثلاًکہیں گے ’’ازَلَّہٗ عَنْ …‘‘ (اس نے اس کو … سے پھسلا دیا)۔ (زیرِ مطالعہ آیت میں اسی لیے آگے ’’عَنْھا‘‘آرہا ہے)۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے بابِ افعال کا صرف یہی ایک صیغۂ فعل اسی ایک جگہ آیا ہے۔

[الشَّیْطٰنُ] کے مادہ، وزن اور معنی وغیرہ کی مناسبت پر استعاذہ کی بحث میں بات ہوئی تھی۔ہم یہاں دوبارہ اس کا مختصراً  ذکر کئے دیتے ہیں۔

یہ لفظ (شیطان) یا تو ’’شطَن یشطُن شطونًا‘‘(نصر سے) بمعنی ’’بہت دور ہونا‘‘ سے ’’فَیْعَالٌ‘‘ کے وزن پر ہےــــــ یا پھر ’’شاط یشیط شیطًا (ضرب سے) بمعنی ’’برباد ہونا، (غصہ سے) جل بھن جانا، سے ’’فَعلان‘‘کے وزن پر ہے۔

·       لفظ ’’شیطان‘‘ (یہ اس کا رسم املائی ہے رسم عثمانی پر بعد میں بات ہوگی) اپنے عربی معنی کے ساتھ اردو (بلکہ بہت سی اسلامی زبانوں) میں مستعمل ہے اس لیے تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ یہی (شیطان) کیا ہے۔ اگرچہ یہ لفظ (خصوصاً بصورتِ نکرہ) اور اس کی جمع ’’شیاطین‘‘ متمرد اور سرکش بلکہ ’’سرکشوں کے وڈیرے‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ تاہم زیرِ مطالعہ عبارت میں یہ لفظ (شیطان) بظاہر قصہ آدم میں مذکور، ’’ابلیس‘‘ (البقرہ:۳۴ یعنی ۱:۲۵:۲(۲)میں)کے لقب یا صفاتی نام کے طور پر آیا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ متعدد جگہ اپنے لغوی اور اصطلاحی معنوں میں (دونوں طرح) استعمال ہوا ہے۔ موقع (سیاق و سباق عبارت) معنی کے تعین میں مدد دیتا ہے۔

۱:۲۶:۲(۲)     [عَنْھَا] یہ حرف الجر (عَنْ) اور ضمیر مجرور ’’ھا‘‘(بمعنی ’’اس‘‘) کا مرکب ہے۔

’’عَنْ‘‘ ایک کثیر الاستعمال اور متعدد معانی دینے والا حرف الجر ہے۔ اس کا بنیادی مفہوم ’’کسی چیز سے دور جانے، الگ ہونے، ہٹنے، جُدا ہونے اور چھوڑ دینے‘‘ کاہوتا ہے اور اس کے قریباً تمام استعمالات میں اس بنیادی مفہوم کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اردو میں اس کا عام ترجمہ (مِنْ کی طرح)’’سے‘‘ ہی کر لیا جاتا ہے۔ تاہم موقع استعمال کے لحاظ سے ان دونوں کے مفہوم میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اور خود ’’عَنْ‘‘ بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں سے اہم اور زیادہ مشہور صورتیں حسب ذیل ہیں:

(۱)مجاوزہ یعنی کسی چیز یا جگہ کو چھوڑ کر آگے نکل جانے کا مفہوم۔اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ …….کو چھوڑ کر"سے کرنا مناسب ہوتا ہے۔مثلا"سافَر عَنِ البلَدِ"(وہ شہر سے۔یعنی اسے چھوڑ کر۔چلا گیا)۔(۲)بدل اور عوض کا مفہوم۔اس کااردو موزوں ترجمہ"کی بجائے،کے بدلے"ہوسکتا ہے جیسے البقرہ:۴۸میں ہے" لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ "(کوئی کسی کے کام نہ آئے گا یعنی کسی کی سزا اس کی بجائے کسی دوسرے کی طرف منتقل نہ ہوگی۔(۳)تعلیل یعنی سبب بتانے کا مفہوم ــــ اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ "کی وجہ سے یا بسبب"کیا جاسکتا ہے مثلا"اِلَّا عَنْ موعِدَۃٍ……(التوبۃ:۱۱۴)یعنی ایک وعدہ کی وجہ سے ….."یا"……عَنْ قَوْلِك……(ھود:۵۳)یعنی تیرے کہنے پر "میں آیا ہے۔(۴)استعلاء یعنی ایک چیز کو دوسری چیز سے اوپر قرار دینے کا مفہوم ــــ اس کا مناسب اردو ترجمہ….کے مقابلے پر"ہوسکتا ہے جیسے (ص:۳۲ میں)….. عَنْ ذِكْرِ رَبِّيْ  "(اپنے رب کی یاد کے مقابلے پر)میں آیا ہے۔(۵)بَعْد کے معنی میں جیسے عَنْ قَلِیلٍ(تھوڑی دیرکے بعد)ہی سے"عَنْ قَرِیب"اردو میں بھی مستعمل ہے۔(۶)"بِ"یعنی کے ساتھ"کے مفہوم میں جیسے"وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى"(النجم:۳)یعنی وہ خواہشِ نفس سے(کے ساتھ)ـــــ بات نہیں کرتا"(۷)"علٰی"یعنی کے خلاف "والامفہوم مثلا"وَمَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ (محمد:۳۸)"یعنی جو بخل کرے گا تو اپنے ہی خلاف کرے گا ــــ (۸)"مِنْ"یعنی "کی طرف سے "کے معنی میں۔جیسے(التوبۃ:۱۰۴ میں)" يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ "(وہ اپنے بندوں کی طرف سے توبہ قبول کرتا ہے)۔"عَنْ"کے یہ وہ مفہوم ہیں جن کی مثالیں قرآن کریم میں بھی مل جاتی ہیں۔اور یہ آئندہ ہمارے سامنے آئیں گی ۔اس کے علاوہ یہ (عن)بہت سے افعال کے ساتھ بطور "صلہ"استعمال ہوتا ہے اور اس کے محاوراتی استعمال تو بہت ہیں مثلا"اِلَیکَ عَنّی"کا مطلب ہے "مجھ سے دور رہو"اور"عَنْ آخِرِھم"کا مطلب ہے "وہ سارے کے سارے ہی ـــ "عَنْ"کے مزید استعمالات ـــــ (عربی سیکھنے کے لیے)کسی اچھی ڈکشنری میں دیکھے جاسکتے ہیں اگرچہ اس قسم کے استعمالات قرآن کریم میں نہیں آئے۔

·       زیرِ مطالعہ آیت میں (عَنْھا کا)’’عَنْ‘‘ فعل ’’اَزَلَّ‘‘کے ساتھ بطور صلہ آیا ہے جس کااوپر ۱:۲۶:۲(۱)ذکر کیا گیا ہے۔ (جس چیز سے ہٹانے کا ذکر ہو اس پر ’’عَنْ‘‘ آتا ہے)اس طرح ’’ازلَّھما… عَنْھا‘‘ کاترجمہ ہوگا ’’ان دونوں کو پھسلادیا … (نے) اس (جنت)سے‘‘ اس صورت میں ’’عنھا‘‘ کی ضمیر ’’جنۃ‘‘کے لیے ہے جس کا ذکر اوپر آیت نمبر ۳۵ (۲۵:۲)میں آیا ہے۔

·       اور چونکہ ’’عَنْ‘‘ کے ایک معنی تعلیل (کی وجہ سے)کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے بعض مترجمین نے یہاں ’’عنھا‘‘ کا ترجمہ ’’اس (درخت) کی وجہ سے/ کے باعث‘‘ بھی کیا ہے۔ اس صورت میں ضمیر ’’ھا‘‘کا مرجع ’’الشجرۃ‘‘ہوگا (دیکھئے ۲۵:۲)تاہم اکثر نے ’’عنھا‘‘ کا ترجمہ ’’اس سے، اس جگہ سے، وہاں سے، کے ساتھ ہی کیا ہے۔ البتہ بعض نے ضمیر کی بجائے اسمِ ظاہر کے ساتھ ترجمہ ’’جنت سے‘‘ کر دیا ہے جو ایک معنئ مراد ہی ہوسکتا ہے۔ جب کہ بصورتِ ضمیر کوئی اَوْر مرجع مراد لینے کی گنجائش موجود رہتی ہے۔

۱:۲۶:۲(۳)     [فَاَخْرَجَھُمَا] اس میں تین کلمات ہیں۔ ’’فاء (ف) بمعنی پس یا سو + اَخْرَج (اس نے نکال دیا) + ھُما (اُن دونوں کو)۔

اس میں سے فعل ’’اَخْرَج‘‘ کا مادہ ’’خ ر ج‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلَ‘‘ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے باب إفعال (اَخْرَج یُخرج اخراجًا، نکالنا) سے فعل ماضی کا پہلا صیغہ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد اور مزید فیہ کے بابِ اِفعال کے معنی اور استعمال وغیرہ پر البقرہ:۲۲ یعنی ۱:۱۶:۲(۱۰)میں بات ہوچکی ہے۔ قرآن کریم میں فعل مجرد (خرج یخرج =نکلنا)سے افعال کے مختلف صیغے ۵۴ جگہ اور مصدر و اسماء مشتقہ کے بھی مختلف صیغے دس کے قریب مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ اور بابِ افعال سے افعال کے صیغے سو سے زائد جگہ اور مصدر و مشتق اسماء بھی ۱۲ سے زائد جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مادہ (خرج) سے مزید فیہ کے باب اِستفعال سے بھی فعل کے چار صیغے آئے ہیں۔ ان کے معنی وغیرہ پر اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       ’’فَاَخرجھما‘‘ میں ’’اخرج‘‘کے عام بنیادی معنی تو ’’نکالا یا نکال دیا‘‘ ہی ہیں۔ تاہم بعض مترجمین نے مفہوم میں زور پیدا کرنے کے لیے ’’الگ کردیا، نکلوا دیا، نکلوا چھوڑا اور نکلوا کر چھوڑا‘‘سے ترجمہ کیا ہے۔ (’’نکلوانا‘‘ اس لیے کہ شیطان نے خود تو نہیں نکالا بلکہ نکالے جانے کا سبب بنا تھا) ان ترجموں میں اردو محاورے کا زور تو ضرور موجود ہے۔ اور سیاق وسباق آیت (قصہ) کے لحاظ سے بھی مفہوم درست ہے۔ تاہم یہ لفظی سے زیادہ تفسیری ترجمہ ہے۔

۱:۲۶:۲(۴)     [مِمَّا کانَا فِیہِ] اس عبارت کے تینوں حصوں (’’مِمَّا، کانا اور فیہ‘‘) کی الگ الگ تشریح یوں ہے۔

’’(۱) مِمَّا‘‘ دراصل ’’مِنْ‘‘(میں سے) اور ’’مَا‘‘ (جو کہ)کا مرکب ہے (دیکھئے البقرہ:۳ یعنی ۱:۲:۲(۵)میں) اس کا عام ترجمہ تو ’’اس میں سے جو کہ؍ جس‘‘ بنتا ہے۔ البتہ بعض مترجمین نے ’’اس‘‘ اور ’’میں سے‘‘کے درمیان بعض تفسیری الفاظ کا اضافہ کر دیا ہے مثلاً ’’اس (عزت و راحت) میں سے جس ’’یا‘‘ اس (مزے) میں سے جو کہ ‘‘ یا ’’ اس (عیش و نشاط) میں سے جس ‘‘یا ’’ اس (آرام) میں سے جس… ‘‘ کی صورت میں ــــ  اسی لیے بعض مترجمین نے زائد تفسیری الفاظ سے بچتے ہوئے اور ’’مَا‘‘ میں بلحاظ سیاقِ عبارت کسی ’’جگہ‘‘  کا مفہوم دیکھ کر ’’مِنْ ما‘‘ کا ترجمہ ’’وہاں سے جہاں کہ‘‘ کی صورت میں بھی کیا ہے۔ جب کہ بعض نے لفظی ترجمہ سے قریب رہتے ہوئے ’’اس میں سے جس‘‘ کی صورت میں ہی رہنے دیا ہے۔

’’(۲) کَانَا‘‘ کا مادہ ’’ک و ن‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلا‘‘ ہے۔ اس کی شکل اصلی ’’کَوَنا‘‘ تھی جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح ’’الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے۔ یہ اس مادہ سے فعل مجرد (کان یکون = ہونا)سے فعل ماضی کا صیغہ تثنیہ مذکر ہے۔ ’’کان‘‘ کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۱۰ یعنی ۱:۸:۲(۱۰)میں بات ہوچکی ہے۔

·       اس طرح ’’کانا‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’وہ دونوں تھے‘‘ یہاں ’’کانا‘‘فعل مذکر اس لیے آیا ہے کہ یہ صیغۂِ تثنیہ آدمؑ اور اس کی بیوی یعنی ایک مرد اور ایک عورت کے لیے ہے۔ اور عربی زبان میں جب مذکر مؤنث مِلِے جلے مراد ہوں تو اسم یا فعل کا صیغہ ہمیشہ مذکر والا آتا ہے۔ مثلا کہیں گے ’’الرجلُ و المرأۃ صالحانِ‘‘ (مرد اور عورت نیک ہیں) یا ’’الرجلُ والمرأۃ ذَھَبا‘‘ (مرد اور عورت گئے)۔ [مندرجہ بالا آیات میں جہاں جہاں تثنیہ مذکر کے صیغے مثلاً ’’کُلا‘‘، ’’شئتما‘‘، لا تقربا‘‘، فتکونا‘‘ آئے ہیں۔ وہ اسی قاعدے کے تحت آئے ہیں] اور اسی قاعدے کے مطابق قرآن کریم میں مَردوں کو بصیغہ جمع مذکر دئے گئے تمام احکام میں عورتیں بھی شامل سمجھی جاتی ہیں۔ جبکہ بصیغۂ جمع (یا واحد و تثنیہ) مؤنث بیان کردہ احکام صرف عورتوں کے لیے ہوتے ہیں۔ عربی زبان کا یہ اصول بہت سے قرآنی احکام کے فہم میں مدد دیتا ہے۔

قریباً تمام مترجمین نے یہاں ’’کانا‘‘ کا ترجمہ ’’وہ تھے‘‘سے ہی کیا ہے۔ صرف ایک دو نے ’’رہتے تھے‘‘ کیا ہے جو مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر اصل ’’لفظ‘‘ سے ذرا ہٹ کرہے۔

’’(۳) فِیْہِ‘‘ جو   فِیْ (میں) اور ’’ہ‘‘ (اس) کا مرکب ہے، کا ترجمہ تو ہے، اس میں ’’مگر اس میں ضمیر ’’ہ‘‘ گزشتہ ’’مِمَّا‘‘ کے ’’ما‘‘ کے لیے ضمیر عائد ہے۔ اس لیے اس کا اردو ترجمہ ’’اس‘‘ کی بجائے ’’جس میں‘‘ہوگا۔

·       اس طرح اس پوری زیرِ مطالعہ عبارت (مِمَّا کانا فیہ) کا ترتیب وار لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’اس میں سے جو کہ وہ دونوں تھے اس میں‘‘ـــ ذرا سلیس ترجمہ ’’اس میں سے جو کہ وہ دونوں تھے جس میں‘‘اور بیشتر مترجمین نے یہی ترجمہ یا ’’ جس میں تھے اس میں سے‘‘ اختیار کیا ہے۔ البتّہ بعض نے ’’اس یا جس‘‘ اور ’’میں‘‘ کے درمیان بعض تفسیری کلمات (عزت و راحت، مزے، عیش و نشاط یا آرام وغیرہ) کا اضافہ کر ڈالا ہے جس پر تبصرہ اوپر گزرا ہے۔

[وَقُلْنَا] میں ’’وَ‘‘ بمعنی ’’اور‘‘ہے اور ’’قُلْنا‘‘(ہم نے کہا) کے مادہ، وزن، باب، معنی اور اس میں ہونے والی تعلیل (قوَلنا سے قُلنا) پر ابھی اوپر ۱:۲۵:۲(۱)میں اور اس سے پہلے البقرہ:۸ یعنی ۱:۷:۲(۵)میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

۱:۲۶:۲(۵)     [اِھْبِطُوْا] کا مادہ ’’ھ ب ط‘‘اور وزن ’’اِفْعِلُوْا‘‘ہے جس کا ابتدائی ہمزۃ الوصل پیچھے (قلنا کے ساتھ) ملنے کی بناء پر تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے۔ اس مادہ (ھبط)سے فعل مجرد ’’ھبَط یھبِط ھُبوطًا (باب ضرب سے) کے بنیادی معنی ’’کسی اونچائی سے نشیب کی طرف جانا‘‘ ہیں۔ جسے مختصراً  ’’نیچے جانا، نیچے اترنا، لڑھک جانا‘‘سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اور یہ فعل جسمانی یا معنوی دونوح طرح کی ’’پستی‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’ھبط من الطائرۃ‘‘(وہ ہوائی جہاز سے بذریعہ پیرا شوٹ نیچے آیا)ـــــ جدید عربی میں پیرا شوٹ کو ’’مِھْبَطۃٌ‘‘(نیچے آنے کا آلہ) کہتے ہیں ــــ یا مثلاً ’’ھَبط من منزلتۃ‘‘ (وہ اپنے درجے سے نیچے گرگیا)۔ پھر یہ فعل بطور محاورہ ’’کم ہونا‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’ھبطَ الثمنُ‘‘(قیمت کم ہوگئی) یا ’’ھبَطتْ درَجۃُ الحرارۃِ‘‘ (درجہ حرارت یعنی گرمی کم ہوگئی)۔ تاہم اس قسم کے استعمالات قرآن میں نہیں آئے۔

·       بنیادی طور پر یہ (ھبَط)فعل لازم ہے تاہم فعل ’’جائَ‘‘کی طرح کبھی ’’اترنے یا جانے کی جگہ کا ذکر اس کے ساتھ بطور مفعول بنفسہ (منصوب ہوکر) آتا ہے مثلاً ’’ھبطَ المکانَ‘‘ کے معنی ’’جگہ میں داخل ہونا، یا جا رہنا‘‘ ہوتے ہیں اور ’’ھَبط السوق‘‘ بازار میں آنا‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کبھی یہ بطور فعل متعدی بھی آتا ہے اور اس کے معنی ’’اتارنا، نیچے لے جانا، کم کرنا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہہ سکتے ہیں ’’ھبط الثمنَ‘‘ (اس نے قیمت کم کردی) تاہم قرآن کریم میں اس فعل کا بطور متعدی اس طرح کا استعمال بھی کہیں نہیں آیا۔

·       قرآن کریم میں اس فعل سے ماضی، مضارع، امر وغیرہ کے مختلف صیغے کل آٹھ جگہ آئے ہیں۔ اور ہر جگہ اس کا استعمال بطور فعل لازم یعنی ’’اتر جانا، نیچے جانا‘‘  یا صرف ’’چلے جانا‘‘ کے معنی میں ہی آیا ہے۔ اس کے مزید فیہ سے بھی قرآن کریم میں کوئی فعل یا اسم وغیرہ استعمال نہیں ہوا۔ اگرچہ عربی زبان میں مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی افعال مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

زیرِ مطالعہ کلمہ ’’اھبطوا‘‘اس فعل مجرد سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے یعنی ’’تم سب نیچے چلو یا چلے جاؤ‘‘۔ صیغہ مذکر کے خطاب میں مؤنث بھی شامل ہے۔

۱:۲۶:۲(۶)     [بَعْضُکُمْ] اس میں آخری ’’کُمْ‘‘ تو ضمیر مجرور بمعنی ’’تمہارا‘‘ ہے۔ اور کلمہ ’’بَعْضٌ‘‘ کا مادہ ’’ب ع ض‘‘اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ  سے فعل مجرد بعَض یبعَضُ (مچھروں کا کاٹنا) اور بعِض یبعَض (مچھروں والا ہونا) پر البقرہ:۲۶ یعنی ۱:۱۹:۲(۳)میں لفظ ’’بعوضۃ‘‘کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔

·       اسی مادہ سے ایک فعل ’’بعَضَ۔ الشَیْیَٔ‘‘ (باب فتح سے) بمعنی ’’کسی چیز کی قِسمیں بنانا‘‘ آتا ہے۔[1]   اور باب تفعیل سے ’’بعَّضہ‘‘ کے معنی بھی ’’اس کے حصے بنائے‘‘ ہوتے ہیں۔ تاہم اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل قرآن کریم میں نہیں آیا۔ البتہ لفظ ’’بَعْضٌ‘‘ (جو ایک لحاظ سے اس فعل مجرد کا مصدر بھی ہے ـــــ  ’’کچھ حصہ‘‘ کوئی ایک یا چند ایک (some)‘‘ کے معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ عموماً مضاف ہوکر آتا ہے اور اس کا مضاف الیہ ہمیشہ جمع اور معرفہ (عموماً معرف باللام یا کوئی اسم ضمیر)ہی ہوتا ہے۔ مثلاً ’’بعضُ الملوکِ‘‘ جس کا لفظی ترجمہ ’’بادشاہوں کے بعض (یا کوئی ایک یا چند ایک)‘‘ہونا چاہئے مگر بامحاورہ اردو میں اس کا ترجمہ ’’بعض بادشاہوں‘‘ہی کیا جاتا ہے۔ بعض نحویوں کا قول ہے[2]   کہ ’’بعض‘‘ پر لام تعریف نہیں آسکتا کیونکہ یہ ہمیشہ کسی اسم معرفہ کی طرف مضاف ہوتا ہے حتیٰ کہ جب مضاف نہ بھی ہو تو بھی ایک طرح سے اس کا مضاف الیہ محذوف ہوتا ہے یا سمجھا جاتا ہے۔

·       اس طرح زیرِ مطالعہ ترکیب (بعضُکم) کا بلحاظ اضافت ترجمہ ’’تم کا، کوئی یا تم کے چند‘‘ہونا چاہئے۔ جسے اردو محاورہ کے مطابق ’’تم میں سے بعض (یا کوئی یا چند)’’کہیں گے۔ اس لفظ (بعض) کا عربی استعمال بڑی حد تک انگریزی لفظ some کی طرح ہے جو ضمائر کے ساتھ تو مضاف ہو کر ہی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’some of you‘‘ میں ہے۔

’’بعض‘‘سے مراد دراصل کسی چیز کا کچھ حصہ (یعنی اس کے اَبْعَاض میں سے ایک) ہوتا ہے زیادہ ہو یا کم۔ اس لیے ’’بعض‘‘ واحد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور جمع کے لیے بھی۔ اس طرح ’’بعضُکم‘‘ کا ترجمہ ’’تم میں سے کوئی ایک‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’تم میں سے چند یا کچھ‘‘بھی ـــــ سیاق و سباقِ عبارت سے ’’بعض‘‘ کے لیے واحد یا جمع کے معنی کا تعین ہوسکتا ہے۔ زیرِ مطالعہ آیت میں بظاہر یہ (بعض) بمعنی جمع ہی آیا ہے یعنی ’’تمہارے بعض یا بعضے‘‘ کی صورت میں اور قریباً تمام ہی مترجمین نے جمع کے مفہوم میں ہی ترجمہ کیا ہے۔ غالباً صرف ایک مترجم نے بصورت واحد (ایک تمہارا) ترجمہ کیا ہے۔ تاہم اس کا بامحاورہ ترجمہ اگلے مرکب (لبعض) کے ساتھ مل کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ ہم  ابھی بیان کریں گے۔

]لِبَعْضٍ] میں ’’لام‘‘ (لِ)اضافت یعنی ’’کا، کے، کی‘‘کے معنی میں آیا ہے۔ جیسے نکرہ مضاف میں کہتے ہیں۔ ’’ابنٌ لَہٗ‘‘(اس کا ایک بیٹا) یا جیسے جملہ ’’لَہٗ ابنٌ‘‘ (اس کا ایک بیٹا ہے)میں ہے۔ اس طرح ’’لِبَعْضٍ‘‘کا مطلب ہوا۔ بعض یا کسی کا‘‘ [اوپر ہم نے بیان کیا ہے کہ ’’للبعض‘‘کہنا درست نہیں ہے۔ دراصل ’’لبعضٍ‘‘، لِبَعْضِکُم‘‘کی جگہ آیا ہے یعنی اس کی تنوین اضافت کے عوض میں آئی ہے جسے تنوینِ عوض بھی کہتے ہیں[

·       اس طرح اس ترکیب ’’بعضُکم لبعضٍ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے۔ ’’تمہارا کوئی ایک؍ یا تمہارے بعض (چند) کسی بعض (ایک یا چند)کے‘‘ــــــ پھر اس کا سلیس اور بامحاورہ اردو ترجمہ ہوگا۔ ’’تم (باہم) ایک دوسرے کے‘‘یا ’’تم (آپس میں) ایک دوسرے کے‘‘ــــــ اور بیشترمترجمین نے یہی بامحاورہ ترجمہ اختیار کیا ہے۔

۱:۲۶:۲(۷)     [عَدُوٌّ]  کا مادہ ’’ع د و‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعُوْلٌ‘‘ہے اس کی اصل صورت ’’عَدُوْوٌ‘‘ تھی جس میں ساکن اور متحرک واو کے مدغم ہونے سے ’’تشدید‘‘پیدا ہوئی ہے۔

اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’عدا یَعدُوْ (دراصل عدَوَ یَعْدُوْ) عَدْوًا‘‘(باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں: ’’دوڑنا، دوڑ لگانا یا دوڑتے جانا‘‘ـــــ پھر اس سے اس فعل میں "(کسی حد سے) بڑھ جانا،تجاوز کرجانا"کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی اس کے ساتھ ’’علی‘‘ کا صلہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’عداعلیہِ‘‘کے معنی ہیں:’’اس نے اس پر زیادتی کی‘‘ (یعنی ظلمَہ)۔ اسی طرح ’’عن‘‘کے صلہ کے ساتھ ’’عدا عَنْہ‘‘کے معنی ہیں: ’’اس سے آگے بڑھ گیا یا اسے چھوڑ دیا‘‘ــــ  اور کبھی کسی صلہ کے بغیر اپنے اصل معنی (حد سے بڑھنا)کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

·       قرآن کریم میں یہ فعل مجرد صلہ کے بغیر دو جگہ (النساء:۱۵۴ اور الاعراف: ۱۶۳) اور ’’عَنْ‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی ایک جگہ (الکھف:۲۸) استعمال ہوا ہےـ ـــ مگر ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ کہیں نہیں آیا۔ اور مزید فیہ کے بعض ابواب (مثلاً مفاعلہ، تفعل اور افتعال) سے بھی افعال کے مختلف صیغے بیس (۲۰)کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ اور مشتق و جامد اسماء اور مصادر ساٹھ (۶۰)سے زیادہ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (عدوّ) اس مادہ (ع د و) سے بظاہر اسم مبالغہ کا ایک صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ حد سے گزر جانے والا۔ تاہم یہ بطور اسم صفت استعمال نہیں ہوتا (جیسا کہ اسمائے مبالغہ عموماً استعمال ہوسکتے ہیں)۔ اس کا اردوترجمہ ’’دشمن‘‘ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ واحد جمع اور مذکر مؤنث کے لیے یکساں رہتا ہے یعنی ’’ھُوَ عَدُوٌّ / وھم عدُوٌّ/  و ھی عدُوٌّ‘‘ کہہ سکتے ہیں البتہ تثنیہ کے لیے ’’عدوّانِ‘‘ اور کبھی مونث کے لیے ’’عدوۃٌ‘‘بھی استعمال ہوتا ہے (قرآن کریم میں نہ تثنیہ کا صیغہ آیا ہے نہ مؤنث کا)۔ اور اس کی جمع مکسر ’’اَعْدائٌ‘‘ہے جو قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ’’عدوّ‘‘ ۴۳ جگہ ( واحد اور جمع دونوں معنی میں) اور لفظ ’’اعداء‘‘سات جگہ استعمال ہوا ہے۔ دشمنی کے لیے عربی میں لفظ ’’عداوۃ‘‘ہے (اور یہ بھی قرآن میں معرفہ نکرہ کل چھ دفعہ آیا ہے)۔ اور ’’دشمنی رکھنا یا کرنا‘‘کے لیے فعل باب مفاعلہ سے ’’عادَیٰ یُعادِی‘‘ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ یہ سب چیزیں اپنے اپنے موقع پر زیرِ بحث آئیں گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

]وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ] یہ دراصل پانچ کلمات (حروف اور اسماء) کا مرکب ہے یعنی ’’وَ‘‘(اور) + ’’لِ‘‘ (کا یا کے لیے) + ’’کم‘‘ (تمہارے، تمہارا) + ’’فی‘‘ (میں) + ’’الارض‘‘(زمین)۔ ان سب کلمات کے معانی اور استعمال پر پہلے بات ہوچکی ہے۔ [اگر اب بھی ضرورت سمجھیں تو ’’وَ‘‘ کے لیے۱:۴:۱(۳)اور ۱:۷:۲(۱)‘‘لام (لِ) کے لیے۱:۲:۱(۴) ’’کُمْ‘‘(ضمیر منصوب و مجرور)کے لیے عربی گرامر کی کسی ابتدائی کتاب ’’فی‘‘کے لیے۱:۱۴:۲(۴) اور ’’الارض‘‘کے لیے ۱:۹:۲(۴) کی طرف رجوع کیجئے] اس طرح اس عبارت (ولکم فی الارض) کا ترجمہ ہوگا۔ ’’اور تمہارا / تمہارے لیے زمین میں‘‘۔ اس کی مزید وضاحت باقی عبارت کے ساتھ حصہ ’’الإعراب‘‘میں آئے گی۔

۱:۲۶:۲(۸)    [مُسْتَقَرٌّ] کا مادہ ’’ق ر ر‘‘اور وزن ’’مُسْتَفْعَلٌ‘‘ ہے یعنی دراصل ’’مُسْتَقْرَرٌ‘‘(صیغۂ اسم مفعول جس کی وضاحت آگے آرہی ہے)تھا جس میں’’راء مفتوحہ‘‘ کی حرکت فتحہ (ــــــَــــ) ماقبل حرف ساکن (ق) کو دے کر دونوں ’’راء‘‘مدغم ہوجاتی ہیں۔

اس مضاعف مادہ (قرر) سے فعل مجرد ’’قَرَّیَقِرُّ قَرارً(باب ضرب سے) آتا ہے تو ا س کے معنی ’’(کسی جگہ) ٹِک جانا، ٹھکانا پکڑنا، ٹھہر جانا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور ’’قرَّیَقُرُّقَرًّا‘‘ (باب نصر سے اور فتح سے) آئے تو اس کے معنی ’’ٹھنڈا ہونا‘‘ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کچھ صیغے کل چار جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ مؤخر الذکر معنی (ٹھنڈا ہونا) والے معنی کے لیے  استعمال ہوئے ہیں ۔عربی میں تو اس فعل (قَرَّ یَقَرُّ)بعض  اور معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور مذکورہ بالا (ٹھنڈا ہونا)والے معنی بھی حسی ٹھنڈک (مثلاً دن یا رات کا ٹھنڈا ہونا) اور معنوی ٹھنڈک(مثلاًخوشی۔ آنکھوں کی ٹھنڈک) دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں چاروں جگہ یہ صرف معنوی ٹھنڈک کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔

اس کے علاوہ اس مادہ سے مزید فیہ کے ابواب اِفعال اور استفعال سے بھی اَفعال کے کچھ صیغے پانچ جگہ اور اس مادہ سے متعدد اسماء مشتقہ وغیرہ کے مختلف صیغے ۲۷ جگہ قرآن کریم میں آئے ہیں۔ جن پر اپنے اپنے موقع پر بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیرِ مطالعہ لفظ ’’مُسْتَقَرٌّ‘‘اس مادہ (قرر)سے باب استفعال کا صیغہ اسم المفعول ہے۔ بابِ استفعال سے اس کے فعل ’’استقرَّ یستقر استقرارًا‘‘کے معنی ہیں: کسی جگہ اچھی طرح ٹک جانا یا ٹھکانہ پالینا‘‘یہ فعل ویسے تو لازم ہے اور اس سے اسم المفعول کا صیغہ نہیں بننا چاہئے۔ تاہم چونکہ مزید فیہ میں اسم ظرف کے لیے بھی اسم مفعول ہی کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس لیے یہاں ’’مستقَر‘‘اسم ظرف کے طور پر آیا ہے۔ جس کے معنی ’’ٹھکانا‘‘ یا ’’جائے قرار‘‘بنتے ہیں ــــ  اس یہی صیغہ (اسم مفعول) مزید فیہ میں مصدر میمی کاکام بھی دیتا ہے۔ اس لیے ’’مستقَر‘‘ کا ترجمہ ’’استقرار‘‘ کی طرح ’’ٹھکانہ پانا‘‘بھی ہوسکتا ہے۔

۱:۲۶:۲(۹)     [وَمَتَاعٌ] میں ’’وَ‘‘ تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ہے ـــــ  اور لفظ ’’مَتَاعٌ‘‘ کا مادہ ’’م ت ع‘‘ اور وزن ’’فَعَالٌ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’متَع یمتَع متُوعًا‘‘ (باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے معنی: ’’دراز ہونا اور کمال کو پہنچنا‘‘ عمدہ ہونا اور شدت اختیار کرنا‘‘ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل سے کوئی صیغہ کسی معنی میں بھی استعمال نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے ابواب تفعیل، تفعل اور استفعال سے مختلف افعال ۳۵ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ جن پر حسب موقع  بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیرِ مطالعہ ’’مَتَاعٌ‘‘اسی مادہ (متع)سے ماخوذ ایک اسم جامد ہے جو باب تفعل کے مصدر ’’تمتُّع‘‘ (فائدہ اٹھانا)کے معنی بھی دیتا ہے اور مختلف ضروریاتِ زندگی (روٹی کپڑا مکان سامان وغیرہ) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، یعنی وہ تمام اشیاء جن سے انسان کچھ فائدہ اٹھاتا ہے ان کو استعمال کرتا ہے اور اس کے حاصل کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اور اس سے مراد فانی اور ناپائدار قسم کا نفع اٹھانا ہوتا ہے۔ یعنی چند روزہ استعمال کی اشیاء۔ اس لیے ’’متاع‘‘ کے معنی ’’سامان‘‘ کے بھی ہوتے ہیں جس میں گھریلو سامان، سامانِ تجارت اور سامانِ سفر سب شامل ہیں ـــــ  لفظ ’’متاع‘‘ مفرد مرکب مختلف صورتوں میں قرآن کریم کے اندر ۳۵ جگہ آیا ہے۔ جن کا مطالعہ اس لفظ کے مختلف معانی سمجھنے میں بھی مدد دے گا۔

۱:۲۶:۲(۱۰)     [اِلٰی حِیْنٍ] : یہ ’’اِلٰی‘‘ (حرف الجرّ) اور ’’حِیْن‘‘(بمعنی وقت) کا مرکب ہے۔ ان دونوں کلمات کی بناوٹ اور معنی و استعمال کی الگ الگ تفصیل یوں ہے:

·       [اِلٰی] مشہو رحرف الجر ہے جو بلحاظ ساخت تین حروف ’’ا ل ی‘‘پر مشتمل ہے۔ اس مادہ (ا ل یکی طرح استعمال ہوتا ہے)۔ کچھ فعل (مجرد اور مزید فیہ) بھی استعمال ہوتے ہیں جن میں سے بعض قرآن کریم میں بھی (آگے چل کر ہمارے سامنے) آئیں گے۔

·       یہ حرف (الی) ہمیشہ (یعنی قرآن میں اور قرآن سے باہر بھی) اسی املاء (یعنی آخر پر ’’ی‘‘) کے ساتھ لکھا جاتا ہے اگرچہ پڑھا الف کے ساتھ (’’اِلَا‘‘ کی طرح)جاتا ہے۔ البتہ ضمیروں کے ساتھ یہ یائے لینہ کے ساتھ (بصورت ’’اِلَیْ‘‘ پڑھاجاتا ہے۔

·       ’’اِلٰی‘‘: کا اردو ترجمہ عموماً    تک کر لیا جاتا ہے۔ تاہم بلحاظ استعمال یہ حسب موقع مختلف مفہوم دیتا ہے۔ ان میں سے اہم استعمال حسب ذیل ہیں:

 (۱) زیادہ تر یہ ’’انتہاء الغایہ‘‘ کے معنی دیتا ہے یعنی اس میں کسی وقت (زمان) یا جگہ (مکان) کی ’’حد تک‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے۔ گویا کسی سفر یا انتظار یاکسی حکم کی آخری زمانی یا مکانی حد کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے ’’البقرہ:۱۸۷‘‘ میں ’’ اِلَى الَّيْل ‘‘ (رات تک) اور ’’الاسراء:۱‘‘ میں ’’ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا ‘‘ (مسجد اقصیٰ تک)۔ پھر اس میں اہلِ علم کے درمیان ایک مشہور بحث (اور اختلاف) یہ ہے کہ ’’الی‘‘کے بعد بیان کردہ "وقت یا جگہ" کا کچھ حصہ بھی اس "الی" کےذریعے بیان کردہ حد میں داخل سمجھاجائے گا یا وہ اس سے باہر سمجھا جائے گا۔ ایک عام اصول یہ ہے کہ اگر ’’الی‘‘کے بعد بیان کردہ چیز بھی اس سے پہلے والی چیز (وقت یا جگہ) کی ہی جنس سے ہو۔ تو وہ (بعد والی چیز)بھی اسی پہلی چیز میں داخل سمجھی جائے گی ورنہ (غیر جنس ہونے کی صورت میں) اس سے خارج سمجھی جائے گی۔ بعض فقہاء اسی اصول پر روزے والے حکم ’’ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْل ‘‘(البقرہ:۱۸۷) ’’رات کچھ بھی حصہ‘‘ کو روزہ کے حکم سے باہر سمجھتے ہیں اور وضو کے حکم میں ’’ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِق ‘‘(المائدہ:۶)کے معنی میں ’’کہنیوں‘‘کو بھی ہاتھوں کو دھونے کے حکم میں داخل سمجھتے ہیں۔

بہر حال اس (’’انتہاء الغایہ‘‘ یا ’’انجام مقصود ‘‘ والے معنی کے لیے ’’اِلٰی‘‘ کا ترجمہ عموماً ’’…تک‘‘ یا ’’…کی طرف‘‘ کیا جاتا ہے۔

(۲) کبھی یہ (اِلٰی) مصاحبت یا معیت (ساتھ ہی واقع ہونا) یعنی ’’مَعَ‘‘ کے معنی دیتا ہے جیسے ’’… اِلٰٓى اَمْوَالِكُمْ‘‘ (النساء:۲) میں آیا ہے۔ اس صورت میں ’’اِلٰی‘‘ کا اردو ترجمہ ’’کے ساتھ (ملا کر)‘‘کیا جائے گا اور کبھی اس کا ترجمہ ’’…کے ساتھ (مل کر)‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جیسے ’’… مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى االلّٰہ‘‘ (الصف:۱۴)  میں آیا ہے۔ بہر حال دونوں جگہ ’’الی‘‘ کا مفہوم ’’مَعَ‘‘ والا ہے۔

 (۳)کبھی ’’اِلٰی‘‘ بمعنی ’’عندَ‘‘استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ ’’…کے نزدیک‘‘ ’’…کے پاس‘‘ یا ’’…کے ہاں‘‘ کرنا ہی مناسب ہوتا ہے عموماً یہ معنی محبت یا بغض کے مضمون میں ’’الی‘‘کے مجرور کی فاعلیت (بلحاظ بغض یا محبت) کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ … (یوسف:۳۲) میں آیا ہے۔

(۴) کبھی یہ لام الجر ’’(لِ)‘‘کے معنی دیتا ہے جس کا اردو ترجمہ حسب موقع ’’… کے لیے‘‘ یا ’’… کے حوالے (…کے ہاتھ میں)‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’ اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ … (المائدہ:۶) میں یہ ’’… کے لیے‘‘کے معنی میں ہے اور ’’ وَّالْاَمْرُ اِلَيْكِ ‘‘ (النمل:۳۳) میں ’’تیرے حوالے یا تیرے ہاتھ میں‘‘ کےمعنی دیتاہے
(۵)کبھی یہ ’’
فی‘‘ (جارہ)کے معنی دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال ’’ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ‘‘ (النساء:۸۷) میں ہے۔ یہاں ’’اِلی‘‘ کا  ترجمہ’’میں‘‘ ہی کیا جائے گا۔

·       مندرجہ بالا استعمالات تو وہ ہیں جن کی مثالیں قرآن کریم میں بھی مل جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ ’’اِلٰی‘‘کے بعض خاص محاوراتی (idiomatic) استعمالات بھی ہیں جو اگرچہ قرآن مجید میں تو نہیں آئے مگر عربی دانی کے لیے ان کا جاننا لازمی نہیں تو مفید ضرور ہے لہٰذا ان کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔

·       از انجملہ یہ کہ ’’اِلی‘‘ بعض دفعہ اسم الفعل (بمعنی ’’امر‘‘)کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اس میں بھی یہ کبھی ’’اُبْعُد‘‘ (دور ہوجا) اور کبھی ’’خُذْ‘‘ (یہ لو) کے معنی دیتا ہے مثلاً ’’اِلَیْکَ عَنِّی‘‘ کے معنی ہیں ’’مجھ سے دور رہو‘‘ اور ’’الیکَ الکتابَ‘‘ (یہ لو کتاب) اسی طرح ’’اِذھب الیکَ‘‘ (اپنے کام سے سرو  کار رکھو یعنی دوسرے کے کام میں ٹانگ نہ اڑاؤ) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

[حِیْنٍ] اس کامادہ ’’ح ی ن‘‘ اور وزن ’’فِعْلٌ‘‘ ہے (عبارت میں یہ ’’الی‘‘کی وجہ سے مجرور آیا ہے)۔

اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’حَان یحِیْن حَیْنًا (باب ضرب سے) استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی: ’’(کسی چیز کا وقت) قریب آلگنا ہو جانا‘‘ہوتے ہیں مثلا کہیں گے ’’حان وقت الصلوۃِ‘‘(نماز کا وقت ہوگیا) تاہم قرآن میں اس مادہ سے کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       لفظ ’’حِیْنٌ‘‘کے معنی ہیں: ’’کچھ وقت، کچھ مدت‘‘ تھوڑی ہو یا زیادہ اور مختصر ہو یا طویل۔ اس طرح زیر مطالعہ مرکب ’’الی حین‘‘کا ترجمہ ہوگا: ’’کچھ وقت کے لیے، کچھ مدت کے لیے یعنی کچھ عرصے تک‘‘وغیرہ۔ یہ لفظ (حین) قرآن کریم میں ۳۴ بار استعمال ہوا ہے۔ (یعنی مختلف تراکیب میں) اور قرآن کریم میں اس لفظ کے علاوہ اس مادہ سے اور کوئی لفظ (اسم یا فعل) استعمال نہیں ہوا۔ ویسے عام عربی میں اس سے مجرد اور مزید فیہ کے متعدد افعال مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو کسی ڈکشنری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

۱:۲۶:۲(۱۱)     [فَتَلَقّٰی] کی ابتدائی ’’فاء(فَ)‘‘ تو عاطفہ بمعنی ’’پس‘‘ہے جس میں ’’پھر یہ ہوا کہ‘‘ (یعنی ترتیب اور تعقیب)کا مفہوم موجود ہے۔ اور اسے ’’فاء الاستیناف‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہاں سے ایک نئے جملے اور نئے مضمون کا آغاز بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

اور ’’تَلقّی ‘‘کا مادہ ’’ل ق ی‘‘ اور وزن ’’تَفَعَّلَ‘‘ہے۔ یہ دراصل ’’تَلَقَّیَ‘‘ تھا جس میں آخری ’’یائے متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر‘‘ بولی جاتی ہے اگرچہ لکھی ’’ی‘‘ہی جاتی ہے اور اس کو الف کی طرح پڑھنے کی وجہ سے اسے ’’الف مقصورہ‘‘بھی کہتے ہیں اور اس لئے بھی کہ الف کی آواز یہاں مد والے الف (ممدودہ) کے مقابلے پر کم لمبی ہوتی ہے۔

·       اس مادہ (لقی) سے فعل مجرد (لقِی یلقی= ملنا) کے باب معنی اور استعمال کی وضاحت البقرہ:۱۴ یعنی ۱:۱۱:۲(۱)میں کی جاچکی ہے۔ زیرِ مطالعہ کلمہ ’’تلقَّی‘‘ اس مادہ (لقی) سے باب تفعل کا فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اور اس باب (تفعل) سے فعل ’’تَلَقَّی… یتلَقَّی تلَقِّیًا‘‘کے بنیادی معنی: ’’…حاصل کرنا، وصول کرنا‘‘ ہیں۔ پھر اس سے اس میں ’’سیکھنا، سیکھ لینا‘‘کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ جو چیز سیکھی یا حاصل کی جائے وہ براہ راست مفعول بہٖ (بنفسہٖ)ہوکر آتی ہے۔ (جیسے یہاں ’’کلماتٍ‘‘ آرہا ہے)اور جس سے کوئی چیز سیکھی یا لی جائے اس سے پہلے ’’مِنْ‘‘ لگتا ہے مثلاً کہیں گے ’’تلقَّی الشیْیَٔ منہ = اخذہ منہ (اس نے وہ چیز اس سے لی) جیسے یہاں آیت میں بھی ’’منہ‘‘ آیا ہے۔ اور اگر یہ کہنا ہو کہ ’’علم فلاں سے سیکھا تو ’’عَنْ‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ مثلا! کہیں گے تلقَّی العلمَ عَنْ فلانٍ (اس نے علم فلاں سے سیکھا)ــــ

·       خیال رہے کہ اس فعل (تلقی) کے ماضی کے پہلے اور مضارع کے پانچ (ضمہ اخیرہ والے) صیغوں میں ’’یاء‘‘ ماقبل مفتوح الف میں بدلتی ہے (بلحاظ تلفظ) اور اس باب سے مصدر اور اسم فاعل رفع اور جر میں ’’تلقٍ اور متلقٍّ‘‘ مگر نصب میں ’’تَلقِّیاً اور متلقِّیًا‘‘ہوتے ہیں۔

] آدَمُ] ( جو ابو البشر یا انسان اول کا نام ہے اور یہاں ہم نے اسے پاکستانی قاری کی آسانی کے لیے برسم املائی لکھا ہے) کے امکانی مادہ اور اشتقاق کے بارے میں لغوی بحث البقرہ:۳۱  یعنی ۱:۲۳:۲(۲)میں گزر چکی ہے۔

[مِنْ رَّبِّہٖ] یہ تین کلمات ’’مِنْ‘‘(سے) + ’’رب‘‘ (پروردگار) + ’’ہ‘‘ (ضمیر مجرور بمعنی ’’اس کا، اپنا) کا مرکب ہے۔ ’’مِنْ‘‘ کے استعمال اور معانی پر البقرہ:۳ یعنی ۱:۲:۲(۵)میں’’ربّ‘‘ کی لغوی بحث الفاتحہ:۲ یعنی ۱:۲:۱(۳)میں مفصل ہوچکی ہے۔

یہاں ’’مِنْ‘‘ ابتدائیہ (بمعنی ’’… کی طرف سے‘‘)ہے۔ تاہم اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ صرف ’’سے‘‘ کرتے ہوئے اس پوری ترکیب (من ربہ) کا ترجمہ ’’اپنے پروردگار سے‘‘کیا ہے۔ بعض نے ’’اپنے مالک سے‘‘ بعض نے ’’اپنے رب سے‘‘ لفظ ’’مالک‘‘ میں ’’رب‘‘ کالغوی روپ موجود ہے (دیکھئے ۱:۲:۱(۳)میں )اور لفظ ’’رب‘‘اپنے اصطلاحی مفہوم کے ساتھ اردو بلکہ پنجابی میں بھی متداول ہے۔ بلکہ ۔ کم از کم۔ برصغیر میں تو غیر مسلم (ہندو سکھ وغیرہ)بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ البتہ جن حضرات نے اس کا ترجمہ ’’اپنے اللہ سے‘‘ کیاہے۔ وہ صرف مفہوم کا ظاہر کرتا ہے لفظ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

۱:۲۶:۱(۱۲)     [کَلِمٰتٍ] یہ لفظ ’’کَلِمَۃ‘‘ کی جمع مؤنث سالم ہے۔ اور لفظ ’’کلمۃ‘‘ کامادہ ’’ک ل م‘‘اور وزن ’’فَعِلَۃٌ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’کلَم… یکْلِم کَلْمًا‘‘(عموماً باب ضرب سے اور شاذ باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو زخمی کرنا‘‘ زخم کو عربی میں ’’کَلْمٌ‘‘بھی کہتے ہیں (جس کی جمع ’’کُلُوم‘‘ہے)۔ اور زخمی کو عربی میں ’’مَکْلُوْم‘‘بھی کہتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے ابواب تفعیل اور تفعّل سے مختلف صیغے قریباً ۲۵ جگہ آئے ہیں۔

·       لفظ ’’کلِمَۃ‘‘جو اس مادہ (کلم)سے ماخوذ ایک اسمِ جامد ہے (یعنی حسبِ قواعد مشتق نہیں) اس کے بنیادی معنی ’’بات‘‘ ہیں۔ پھر اس سے یہ لفظ متعدد (اصطلاحی اور مجازی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً نحویوں کی اصطلاح میں کسی با معنی ’’لفظ‘‘ کو کلمۃ کہتے ہیں۔ جس کی تین قسمیں اسم، فعل اور حرف ہیں۔ پھر یہ لفظ (کلمۃ) ’’تقریر، کہاوت، بول، خطاب، قصیدۃ، حکم، فیض، اہمیت، وزن، رسوخ، اختیار اور مرتبہ‘‘کے معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ بصیغۂ واحد (کلمۃ) قرآن کریم میں ۲۸ جگہ اور اس کی جمع سالم (کلمات) اور مکسر (کَلِمٌ)مفرد اور مرکب مختلف صورتوں میں قریباً ۲۴ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ یہاں اس لفظ (کلماتٍ) کا ترجمہ ’’کچھ باتیں، کئی باتیں، چند باتیں، چند الفاظ، کچھ کلمے، کچھ کلمات اور کچھ الفاظ‘‘سے کیا گیا ہے۔ اس میں ’’کچھ، کئی اور چند‘‘ تو علامتِ نکرہ ہیں۔ اور ’’باتیں یا الفاظ‘‘ کی بجائے ’’کلمات‘‘ ہی رہنے دینا اس لیے بہتر ہے کہ یہ لفظ (کلمات) اپنے اصل معنی کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے۔ بہرحال یہاں ’’کلمات (یا الفاظ یا باتوں)سے مراد ’’دعاء و استغفار کے کچھ کلمات یا الفاظ ہیں جو آدمؑ کو سکھائے گئے۔ واللہ اعلم

۱:۲۶:۲(۱۳)     [فَتَابَ عَلَیْہِ] یہ چار الفاظ یعنی ’’فَ‘‘ (پس) + ’’تابَ‘‘ (جس پر ابھی بات ہوگی) + ’’علی‘‘ (پر، اوپر)+ ’’ہ‘‘ (ضمیر مجرور بمعنی ’’اس‘‘سے مرکب ایک جملہ ہے۔ ان میں سے نیا قابلِ مطالعہ لفظ ’’تَابَ‘‘ ہے۔

·       ’’تابَ‘‘ کامادہ ’’ت و ب‘‘اور وزنِ اصلی ’’فَعَل‘‘ہے۔ اس کی شکل اصلی ’’تَوَب‘‘تھی۔ جس میں ’’واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے ـــــ‘‘ یعنی ’’توَب‘‘، ’’تابَ‘‘ ہوجاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’تاب یتُوبُ (دراصل توَب یتوُب) توبۃً و مَتابًا‘‘(باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’رجَع‘‘ یعنی ’’واپس مڑنا یا لوٹ آنا‘‘ہیں۔ اس کا استعمال زیادہ تر گناہ اور بری باتوں سے ’’باز آنے‘‘کے لیے ہوتا ہے۔ اور چونکہ اس کا مصدر ’’توبۃ‘‘اردو میں اپنے اصل معنی کے ساتھ متداول ہے اس لیے ’’تاب یتوب‘‘ کا ترجمہ ’’توبہ کرنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم عربی میں اس کا استعمال دو طرفہ ہے۔

·       جب یہ فعل بندے کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے سامنے گناہوں کے اعتراف اور آئندہ کے لیے ان سے اجتناب کے ارادے کوظاہر کرے  تو اس فعل کے ساتھ ’’اِلٰی‘‘ کا صلہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ’’تاب الی اللّٰہِ‘‘کے معنی ہوں گے ’’وہ اللہ کی طرف مڑا، اس نے اللہ کے آگے توبہ کی۔‘‘ اور جب اللہ تعالیٰ کے بندہ پر توجہ فرمانے کا ذکر کرنا ہو تو اس فعل کے ساتھ ’’علی‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ یعنی ’’تابَ اللّٰہ علیہ‘‘کے معنی ہیں ’’اللہ نے اس پر توجہ فرمائی اس کی توبہ قبول کی یا اس کو توبہ کی توفیق دی‘‘۔

·       یہ فعل تین طرح استعمال ہوتا ہے (۱) جب یہ اللہ تعالیٰ کے فعل کے طور پر آئے تو اس کے ساتھ ’’علی‘‘ کا صلہ ضرور استعمال ہوتا ہے۔ مگر جب یہ بندے کے فعل کے طور پر ہو تو (۲) کبھی ’’الی‘‘ کا صلہ استعمال ہوتا ہے اور (۳) کبھی صلہ اور مابعد صلہ مجرور حذف کر دیا جاتا ہے اگرچہ مقدر (Understood) ہوتا ہے یعنی ’’الی اللّٰہ‘‘ یا ’’الی ربہ‘‘وغیرہ مراد ہوتا ہے۔ جیسے ’’ فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ ‘‘(المائدہ:۳۹) میں ہے۔

قرآن کریم میں یہ فعل ثلاثی مجرد مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں استعمال ہوا ہے۔ (۱) قریباً ۲۳ جگہ یہ فعل اللہ تعالیٰ کے فاعل ہونے (توبہ قبول کرنا۔ توجہ فرمانا) کے لیے اور ہر جگہ ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آیا ہے۔

(۲) بارہ (۱۲) جگہ یہ فعل بندے کے فعل (توبہ کرنا)کے طور پر اور ’’الی‘‘ کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور (۳) چھبیس(۲۶) مقامات پر یہ فعل (تاب یتوب) کسی صلہ کے بغیر آیا ہے اور ان تمام مقامات پر یہ بندے کے عمل (توبہ کرنا، اللہ کی طرف رجوع کرنا)کے معنی میں آیا ہے۔

·       یعنی بندے کا فعل ہونے کی صورت میں یہ صلہ (الی) کے ساتھ بھی اور صلہ کے بغیر بھی استعمال ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا فعل ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ ’’علی‘‘ کا صلہ لازماً آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ’’تاب علیہ‘‘ آیا ہے یعنی ’’اس (رب) نے اس (آدم) پر متوجہ ہوا، توجہ فرمائی، اس کی توبہ قبول کرلی‘‘ــــــ بیشتر مترجمین نے اسی ترجمہ کو اختیار کیا ہے۔ البتہ بعض نے اس (فتاب علیہ) کا ترجمہ ’’اس کا قصور معاف کردیا‘‘ کیا ہے جو لفظ سے یقیناً دور ہے۔

 [اِنَّہٗ ھُوَ] میں ’’اِنَّ‘‘ کے بعد جو دوبار ضمیر( منصوب اور مرفوع) جمع ہوئی ہیں، اس کی وجہ سے اس کا ترجمہ ’’یقیناً وہی تو‘‘ہوگا جسے اکثر نے صرف"وہی"اور بعض نے "وہ تو ہے ہی" کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔

۱:۲۶:۲(۱۴)      [التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ] یہ اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں، جن کی لغوی تشریح یوں ہے:۔

’’التواب‘‘ کا مادہ ’’ت و ب‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَّال‘‘ہے جو مبالغہ کا ایک وزن ہے۔ اس مادہ سے فعل کے معنی وغیرہ ابھی اوپر ۱:۲۶:۲(۱۳)میں بیان ہوئے ہیں۔ اس فعل کا  فاعل کوئی بندہ ہوتو اسے ’’تائب‘‘ (اسم الفاعل) یعنی ’’توبہ کرنے والا‘‘ بھی کہتے ہیں اور ’’توّاب‘‘ (اسم المبالغہ) یعنی ’’بار بار توبہ کرنے والا‘‘بھی ـــ قرآن کریم میں مومنوں کی تعریف ’’التابئون‘‘ (التوبہ:۱۱۲) بھی آئی ہے اور ’’التوابین‘‘ (البقرہ:۲۲۲) بھی ــــ اور جب اس فعل (تاب یتوب)کا فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہو تو اسے صرف ’’توّاب‘‘(بار بار توجہ فرمانے والا؍ توبہ قبول کرنے والا) ہی کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں زیادہ تر (۱۱جگہ) یہ اسم صفت اللہ تعالیٰ کے لیے ہی آیا ہے۔ زیرِمطالعہ آیت میں ’’التواب‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ اس لیے یہاں اس کا ترجمہ ’’بہت زیادہ یا بار بار توبہ قبول کر لینے والا‘‘ہوگا۔ ’’الرَّحِیْم‘‘ کا مادہ ’’رح م‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعِیْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے معنی و استعمال نیز لفظ ’’الرحیم‘‘کی لغوی تشریح الفاتحہ:۲ یعنی ۱:۱:۱(۳)میں کی جاچکی ہے۔

 

۲:۲۶:۲       الاعراب

فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ     ۠ ــــــــــــــــ وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ   ۚـــــــــــــــــــــ   وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ    ـــــــــــــ فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ    ۭــــــــــــــــ   اِنَّهٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْم

نحوی اعتبار سے زیرِ مطالعہ دو آیات پانچ چھوٹے جملوں پر مشتمل ہیں۔ جن کے درمیان ہم نے اوپر ایک خط (ــــ) ڈال کر لکھا ہے۔ اس طرح پہلی آیت (۳۶) میں تین جملے اور دوسری (۳۷) میں کل دوجملے بنتے ہیں۔ اسی لیے ان تین مقامات پر مختلف علاماتِ وقف بھی ڈالی جاتی ہیں۔

          ہر ایک حصے کے اعراب کی تفصیل یوں ہے:

(۱) فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ ــــ

 [فازلّھما] جو ’’فَ‘‘ + ’’ازل‘‘ + ’’ھما‘‘ کا مجموعہ ہے اس میں ’’فَ‘‘ عطف کے لیے ہے جس میں شامل ترتیب اور تعقیب کے مفہوم کی بناء پراس کا ترجمہ یہاں ’’پھر اس کے بعد یوں ہوا کہ‘‘ ہوسکتا ہے جسے اردو فارسی میں صرف ’’پس یا چنانچہ‘‘ سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔

اور ’’اَزَلَّ‘‘ فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ جس کے ساتھ ضمیر منصوب ’’ھما‘‘ بطور مفعول بہٖ آئی ہے۔ (جب مفعول بہٖ کوئی ضمیر ہو تو وہ فاعل سے پہلے لائی جاتی ہے) اور [الشیطانُ] اس فعل (ازل) کا فاعل (لھذا) مرفوع ہے۔ علامتِ رفع آخری ’’ن‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ) ہے۔ [عنھا] جارّ (عن) اور مجرور (ھا) مل کر متعلق فعل (ازَلَّ) ہیں۔ اور یہاں ضمیر (ھا) کا مرجع ’’الجنۃ‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’عَن‘‘ کو تعلیلیہ سمجھیں تو یہ مرجع ’’الشجرۃ‘‘ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ دونوں طرح سے ترجمہ پر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے۔ [فَاَخرَجَھما] میں بھی ’’(فاء (فَ)‘‘ عاطفہ سببیہ ہے یعنی ’’اس کے سبب سے‘‘ اور اس (فا) کے ذریعے یہ جملہ (فاخرجھما) سابقہ جملے (فاَزلّھما) پر عطف ہو کر سب ایک ہی جملہ بنتا ہے۔ ’’اَخْرَج‘‘ فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور ’’ھما‘‘ ضمیر منصوب (تثنیہ) اس فعل (اَخرَج) کا مفعول بہٖ ہے۔ [مِمَّا] ’’مِنْ‘‘ (جار) اور ’’ما‘‘ (موصول مجرور) ہے اور یہ مرکب جارّی (مِمَّا)متعلق فعل (اَخرَج)ہے۔ حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکا ہے کہ اس مبہم اسم موصول (مَا = جوکہ) کا تعین کرنے کے لیے مترجمین نے کس طرح تفسیری کلمات کا اضافہ کیا ہے۔(دیکھئے ۱:۲۶:۲(۴)ـــــ[کانا] فعل ناقص صیغہ ماضی تثنیہ مذکر ہے جس میں ’’کانا‘‘ کااسم ’’ھما‘‘(ضمیر مرفوع) مستتر ہے۔ اور [فیہ]جار (فی)اور مجرور (ہ)مل کر ’’کانا‘‘ کی خبر کا کام دیتا ہے۔ یعنی قائم مقام خبر ہے۔ اصل خبر کوئی مناسب محذوف اسم ہے مثلاً ’’ساکنَینِ‘‘ اور اس (فیہ) میں آخری ضمیر اسم موصول (مَا) کی ضمیر عائد ہے۔ اس لیے اردو میں اس کا ترجمہ ’’اس‘‘ کی بجائے ’’جس‘‘سے کیا جاتا ہے۔ یعنی ’’کانا فیہ‘‘ اسم موصول ’’مَا‘‘ کا صلہ ہے اور صلہ موصول (مَا کانا فیہ) مل کر ’’مِن‘‘ کے مجرور ہیں۔ اور یہ پورا جار مجرور (مِنْ ما کانا فیہ) فعل ’’اخرج‘‘ سے متعلق ہے۔ یعنی کہاں سے نکالا؟ کا جواب یا وضاحت ہے۔

(۲) وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۔

 [وَ] عاطفہ ہے جو اپنے مابعد والے مضمون (جملہ)کو ماقبل والے مضمون (جملہ) سے ملاتی ہے [قُلْنا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع متکلم ہے جس میں فاعل ضمیر تعظیم ’’نحن، مستتر‘‘ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [اھبطوا] فعل امر معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمری فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ یعنی اب صیغۂ تثنیہ کی بجائے (جو اوپر پانچ جگہ"کُلا"،"شئتما"،"لا تقربا"،"فتکونا"اور"کانا"کی صورت میں آیا ہے)صیغۂ جمع استعمال ہوا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب مخاطب ’’دو سے زیادہ‘‘ ہیں واللہ اعلم۔ ویسے کلامِ عرب میں واحد تثنیہ اور جمع کے صیغے (اسماء و افعال) ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں [بعضکم] میں ’’بعضُ (مضاف) اور ’’کُمْ‘‘ (مضاف الیہ) مل کر (مرکب اضافی) مبتدأ ہے اس لیے ’’بعض" مرفوع ہے جس میں علامتِ رفع ’’ض‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ)ہے۔ [لِبَعْضٍ] جار (لِ) اور مجرور (بعضٍ ۔ جس میں تنوین الجر’’ ـــــٍـــــ ‘‘ہی علامت جر ہے)مل کر متعلق خبر مقدم ہیں جو (خبر) آگے آرہی ہے۔ [عَدوٌّ] یہی مبتدأ (بعضُکم) کی خبر (لھٰذا)مرفوع ہے اور اس میں علامتِ رفع تنوین رفع ’’ ـــــٌـــــ ‘‘ ہے۔ گویا سادہ نثر میں یہ عبارت یوں تھی۔ ’’بعضُکم عدوٌّ لبعضٍ‘‘ اور یہ ایک جملہ اسمیہ ہے جو یہاں فعل ’’اھبطوا‘‘کی ضمیر فاعلین (انتم) کے حال کا کام دے رہا ہے۔ اس لیے اس (جملہ) کو محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ’’باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہوئے‘‘/ ہوکر (اتر جاؤ)‘‘ کے مفہوم میں۔ اسی لئے ’’اھطبوا‘‘کے بعد وقف نہیں کیا گیا۔

 (۳) وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ

[وَ] مثل سابق عاطفہ (دو جملوں کے مفہوم کو ملانے کے لیے)ہے۔ [لکم] جار (لِ) مجرور (کم) مل کر قائم مقام خبر مقدم اور….. [فی الارض] بھی جار (فی) اور مجرور (الارض) مل کر قائم مقام خبر (مقدّم) ثانی ہے اور [مستقرٌ] مبتدأ مؤخر نکرہ مرفوع ہے۔ گویا دراصل سادہ نثر میں یہ عبارت ’’ولکم مستقرٌ فی الارض‘‘تھی۔ ’’فی الارض‘‘ کی تقدیم کی وجہ سے اس کا ترجمہ ’’زمین ہی میں‘‘کے ساتھ ہونا چاہئے۔ جسے اردو مترجمین میں سے صرف ایک نے ہی اختیار کا ہے [وَمتاعٌ] کی ’’واو‘‘ عاطفہ ہے جس سے لفظ ’’مَتاعٌ‘‘   کا عطف ’’مستقرٌ‘‘ پر ہے اسی لیے مَتاعٌ بھی (دوسرا مؤخر مبتدا ہو کر مرفوع ہے اور [اِلٰی حینٍ] جار (الی) اور مجرور (حینٍ)مل کر ’’متاع‘‘ کی صفت کا کام دے رہا ہے یعنی ’’متاعٌ‘‘ نکرہ موصوفہ ہے۔ اس طرح ’’متاعٌ الی حین‘‘ کا مطلب ہوا ’’ایسا متاع (سامان) جو صرف کچھ عرصے تک کے لیے ہوگا۔‘‘ یعنی آخر کار یہ (متاع والا) سلسلہ ختم ہونے والا ہوگا۔

(۴) فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ــــ

[فتلقی] کی ’’فَ‘‘ مستانفہ ہے یعنی ’’پھر اس کے بعد یوں ہوا کہ’’ کا مفہوم دیتی ہے اور ’’تلقی‘‘فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے اور [آدمُ] اس فعل کا فاعل (لھذا)مرفوع ہے۔ علامتِ رفع آخری ’’م‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ہے (’’آدم‘‘غیر منصرف ہے) [مِن ربِّہ] میں ’’مِن‘‘ حرف الجر ہے اور ’’ربہ‘‘ میں ’’ربّ‘‘ (مضاف) اور ضمیر ’’ہ‘‘(مضاف الیہ) مل کر ’’مِنْ‘‘ کا مجرور ہے۔ اور لفظ ’’ربّ‘‘ مجرور بالجر بھی ہے اور آگے مضاف بھی ہے اس لیے خفیف ہے۔ اور یہ پورا مرکب جارّی (من ربہ)فعل ’’تلقّی‘‘سے متعلق ہے۔ [کلماتٍ] فعل ’’تلقّی‘‘کا مفعول بہ (لھذا) منصوب ہے علامتِ نصب آخری ’’تٍ‘‘ہے۔ اصولی طور پر جملے کی ترتیب فعل، فاعل، مفعول اور پھر متعلقات فعل کی ہوتی ہے۔ اس لیے اس عبارت کی سادہ نثر ’’فتلقی آدمُ کلماتٍ من ربہ ‘‘ہوگی۔ مگر ’’من ربہ‘‘ (متعلقِ فعل) کی مفعول پر تقدیر (پہلے آنا)سے ایک تو عبارت میں وہ شاعری والی خوبی پیدا ہوگئی ہے (جس کی بابت پہلے بات ہوچکی ہے)۔

دوسرے اس تقدیم سے معنی میں حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے اب اس کا ترجمہ ’’اپنےرب ہی کی طرف سے‘‘ہونا چاہئے۔ یعنی یہ کلمات بھی پروردگار نے ہی ان کے دل میں ڈالے۔ توبہ کی توفیق بھی رب ہی کی طرف سے ملتی ہے اور پھر وہ قبول بھی خود ہی فرماتا ہے۔ تاہم اردو  کے بیشتر مترجمین نے اس ’’ہی‘‘والی بات کو نظر انداز کیا ہے۔ [فتاب علیہ] یہ ایک جملہ ہے جس کی ابتدائی ’’فاء (فَ)‘‘عاطفہ ہے جو ایک محذوف (مگر مفہوم) عبارت پر عطف کے لیے آئی ہے یعنی ’’فقالھا‘‘ (پس آدم نے وہ سیکھے ہوئے کلمات کہے پس اس پر) ’’تاب علیہ‘‘ میں ’’تاب‘‘ فعل ماضی معروف ہے مع ضمیر فاعل مستتر (ھو)ہے جو اللہ تعالیٰ (ربہ)کے لیے ہے۔ ’’علیہ‘‘ جار مجرور متعلق فعل ’’تاب‘‘ ہیں۔ یا ’’علی‘‘کو فعل کا صلہ سمجھیں تو ’’علیہ‘‘ کو (بطور مفعول) محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔

(۵) اِنَّهٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْم

 [انہ] ’’اِنّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل اور ضمیر منصوب (ہ) اس کا اسم ہے۔ [ھُوَ] ضمیر فاصل ہے۔ [التوابُ الرحیمُ] ’’اِنّ‘‘ کی خبر اول اور خبر ثانی بھی ہوسکتے ہیں۔ (اسی لیے مرفوع ہیں)۔ اور اگر ایک صفت کو دوسری صفت کا موصوف مان لیا جائے (اور نحو میں یہ بھی جائز ہے) یعنی ’’ایسا‘‘ توّاب" جو ’’رحیم" بھی ہے‘‘۔

تو یہ ’’اِنّ‘‘ کی اکٹھی ایک خبر بھی بن سکتی ہےـــــ  اور اگر ’’ھُوَ‘‘کو مبتدأ سمجھ لیا جائے اور ’’التواب الرحیم‘‘کو اس کی خبر معرفہ قرار دیں تو پھر یہ پورا جملہ اسمیہ (ھوالتواب الرحیم) ’’اِنہ‘‘ کے ’’اِنَّ‘‘ کی خبر ہوگا۔ دونوں صورتوں میں (ضمیر فاصل یا خبر ہونے کی بناء پر) اردو ترجمہ ’’وہ ہی‘‘، ’’وہ ہی تو‘‘ یا ’’وہ تو ہے ہی‘‘کے ساتھ کیا جائے گا۔

 

 ۳:۲۶:۲     الرسم

زیرِ مطالعہ قطعہ (۲۶:۲)میں صرف درج ذیل پانچ کلمات کا رسم عثمانی یا رسم مصحف توجہ طلب ہے۔ باقی تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم قرآنی یکساں ہے: الشیطن۔ ممّا۔ متاعٌ۔ ادم۔ کلمت۔ تفصیل یوں ہے:۔

(۱)’’الشیطن‘‘ـــــ یہ لفظ عام عربی املاء میں ’’الشیطان‘‘ہی لکھا جاتا ہے مگر اس کا متفق علیہ عثمانی (قرآنی)رسم الخط بحذف الالف (بعد الطاء)ہے یعنی یہ لفظ قرآن کریم میں ہر جگہ ’’الشیطن‘‘ کی املاء (بحذف الف) سے ہی لکھا جاتا ہے۔ ترکی، ایرانی اور چینی مصاحف میں اسے رسمِ املائی کے ساتھ لکھے جانے کا رواج ہو گیا ہے جو رسم مصحف کی خلاف ورزی ہے۔

’’(۲) مِمّا‘‘یہ لفظ جو دراصل ’’مِنْ مَا‘‘ہے یہاں بھی اور قرآن کریم میں عموماً ہر جگہ موصول یعنی ’’مِمّا‘‘(من اور ما کو ایک لفظ بنالینے کی طرح)لکھا جاتا ہے۔ اس اصول کی مستثنیات وغیرہ کا ذکر اس سے پہلے ۳:۲:۲ میں ہوچکا ہے۔

 (۳)’’مَتَاع ‘‘ اس لفظ کی عام (معتاد)املاء یہی (باثبات الالف بعد التاء)ہے۔ مگر اس کا رسم عثمانی مختلف فیہ ہے۔ الدانی کی اس تصریح کی بناء پر کہ ’’فَعَال‘‘ کے وزن پر آنے والے کلمات قرآن کریم میں باثبات الف ہی لکھے جاتے ہیں۔  [3] اہل لیبیا اپنے مصاحف میں اسے ’’متاع‘‘ (باثبات الف) لکھتے ہیں۔ افریقی اور عرب ممالک ابوداؤد کی طرف منسوب تصریح کی بناء پر اسے بحذف الف یعنی ’’متع‘‘ لکھتے ہیں۔

’’(۴) ’’ادم‘‘(یعنی آدم) کا رسمِ عثمانی ایک الف کے ساتھ ہے جس میں ابتدائی ھمزہ لکھنے میں گرا دیا جاتا ہے (دراصل أَادَمُ تھا) پھر اس محذوف ھمزہ کو ضبط کے مختلف طریقوں سے ظاہر کیا جاتا ہے (ئَ ا، اٰ، آ وغیرہ) # اس قاعدے کے بارے میں (لفظ ’’الاخرۃ‘‘ کے رسم کے ضمن میں پہلے مفصل بحث گزر چکی ہے۔دیکھئے ۳:۳:۲۔

(۵) ’’کَلمٰتٍ‘‘ جو ’’کلمۃ‘‘ کی جمع مؤنث سالم ہے اور جس کی عام عربی املاء ’’کلمات‘‘ہے۔ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ بحذف الالف (بعد المیم) لکھا جاتا ہے (یعنی ’’کلمت‘‘)اور یہ اس کا متفق علیہ رسم عثمانی ہے۔ اسے برسم املائی (کلمات) لکھنا (جیسا کہ ترکی اور ایران میں رواج ہے) رسم مصحف کی خلاف ورزی ہے۔

 

۴:۲۶:۲     الضبط

اس قطعہ کے مختلف کلمات کے مربوط ضبط(سابقہ کلمات کے ساتھ وصل یعنی ملا کر تلفظ والے ضبط)میں تنوع کی صورتیں درج ذیل نمونوں سے معلوم ہوں گی۔

 

36-37a

 

 


36-37b

 



 [1] المعجم الوسیط تحت مادہ  ’’بعض‘‘

[2] اس پر مزید بحث اور فریقین کے دلائل کے لیے کسی اچھی معجم (ڈکشنری) کی طرف رجوع کریں۔ ویسے ’’البستان‘‘ میں بھی اس پر مختصر مگر جامع بحث کی گئی ہے۔

 

[3]  سمیر الطالبین ص۳۹۔ اس اختلاف کی تفصیل کے لیے دیکھئے الفاتحہ:۶یعنی ۳:۵:۲