سورۃالبقرہ آیت نمبر ۳۸ اور ۳۹

۲۷:۲       قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا    ۚ  فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  (۳۸)وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ   ۚ   ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ(۳۹)

۱:۲۷:۲        اللغۃ

[قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا] یہ ایک مکمل جملہ ہے جس کے تمام اجزاء (قلنا+ اھبطوا + منھا + جمیعاً) پر الگ الگ بحث  پہلے گزر چکی ہے۔ مثلاً ’’قلنا‘‘جس کا مادہ ’’ق ول‘‘اور وزن  اصلی ’’فَعَلْنَا‘‘ہے۔ اس کے باب اور معنی (قال یقول = کہنا) وغیرہ کے علاوہ خود صیغۂ ’’قُلْنَا‘‘ کی ساخت اور تعلیل وغیرہ پر البقرہ:۳۴ یعنی ۱:۲۵:۲(۱)میں بات ہوچکی ہے یعنی ’’ہم نے کہا‘‘۔ ’’اھبطوا‘‘ کے مادہ، باب اور معنی وغیرہ پر ابھی اوپر البقرہ:۳۶ یعنی ۱:۲۶:۲(۱۷)میں بات ہوچکی ہے۔ ترجمہ ہے ’’ تم اتر جاؤ‘‘۔ ’’مِنْھا‘‘ مِنْ (میں سے/سے) اور ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ (اس) کا مرکب ہے۔ ’’جَمِیْعًا‘‘ اس پر لغوی بحث البقرہ:۲۹ یعنی ۱:۲۰:۲(۷)میں گزر چکی ہے۔ جس کا ترجمہ ’’سارے، سب کے سب، ایک ساتھ اور سب ہی‘‘ہوسکتا ہے۔ اس طرح اس فقرے کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’ہم نے کہا اتر جاؤ (تم) اس میں سے سب کے سب‘‘ جس کی سلیس اردو ’’ہم نے کہا کہ تم سب کے سب اس میں سے اتر جاؤ‘‘ بنتی ہے۔ بعض مترجمین نے فاعل اللہ تعالیٰ ہونے کی بنا پر ’’قلنا‘‘ کا ترجمہ ’’ہم نے فرمایا، حکم دیا، حکم فرمایا‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ ’’اھبطوا‘‘ کا ترجمہ سب نے ’’اترجاؤ‘‘ یا ’’اترو‘‘ یا ’’نیچے اتر جاؤ‘‘سے ہی کیا ہے۔ ’’مِنْھا‘‘ کا ترجمہ بعض نے ’’اس سے‘‘ ہی کیا ہے تاہم بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’یہاں سے‘‘ کیا ہے جو ظرفیت کے مفہوم کے لیے اردو محاورہ ہے۔ البتہ جن حضرات نے ’’بہشت سے/ جنّت سے‘‘کے ساتھ ترجمہ کیا ہے اسے تفسیری ترجمہ ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اصل لفظ سے بہر حال ہٹ کر ہے۔ ’’جَمِیْعًا‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ اکثر نے ’’سب، سارے، تم سب، سب کے سب‘‘کی صورت میں کیا ہے جو سب ایک مفہوم رکھتے ہیں۔

۱:۲۷:۲(۱)     [فإِمَّا]: اس کی ابتدائی ’’فاء (فَ)‘‘ تو عاطفہ (بمعنی ’’پس؍پھر اس کے بعد)ہے اور لفظ ’’اِمَّا‘‘ کی دو صورتیں ہیں:

(۱) کبھی ’’اِمَّا‘‘ شرطیہ ہوتا ہے اس صورت میں یہ دراصل ’’اِنْ‘‘ (حرفِ شرط بمعنی ’’اگر‘‘) اور ’’مَا‘‘ (زائدہ۔ صرف برائے تاکید) کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اور اس کا ترجمہ ’’اگر تو ایسا ہو کہ‘‘ یا صرف ’’اگر تو‘‘سے کیا جاسکتا ہے۔

(۲) کبھی ’’اِمَّا‘‘ حرف تفصیل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جسے بعض دفعہ ’’حرفِ استفتاح‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ ’’اِمَّا‘‘ مرکب نہیں بلکہ ایک اکٹھا مفرد حرف ہے۔ ’’اور بلحاظ معنی یہ ’’اَوْ‘‘ (یا/  یا پھر)کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ البتہّ یہ ’’اِمَّا‘‘تکرار کے ساتھ (ایک ہی عبارت میں دو دفعہ) آتا ہے جب کہ ’’اَوْ‘‘کے استعمال میں تکرار ضروری نہیں ہوتیــــــ بلحاظ معنی یہ (اِمَّا) ’’اَوْ‘‘ کی طرح کبھی دوچیزوں میں کسی شک کو ظاہر کرتا ہے ــــــ یا دو چیزوں میں ’’تخییر‘‘ کے معنی دیتا ہے یعنی ’’یہ لویا وہ لو برابر ہے‘‘اور کبھی یہ ’’اباحۃ‘‘یعنی دونوں چیزوں کے جائز ہونے کا مفہوم دیتا ہے۔ اسی طرح یہ ’’ابہام‘‘ اور تفصیل‘‘کے معنی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ان مختلف صورتوں میں اس کا اردو ترجمہ ’’یا‘‘، ’’یا پھر‘‘، ’’شاید کہ یہ یا وہ‘‘، ’’چاہو تو یہ یا وہ‘‘، ’’ایک صورت (یہ) اور دوسری (یوں)‘‘سے کیا جاسکتا ہے۔

·       زیر ِمطالعہ عبارت میں ’’اِمَّا‘‘شرطیہ ہے اس لیے اس کا اردو ترجمہ ’’پس اگر تو‘‘، ’’اس کے بعد اگر تو‘‘، ’’سو اگر‘‘، ’’پھر اگر‘‘ ہوگا۔ ’’اِمَّا‘‘ کے بطور حرف تفصیل استعمال ہونے کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

۱:۲۷:۲(۲)     [یَأْتِیَنَّکُمْ] میں آخری ’’کُمْ‘‘تو ضمیر منصوب (بمعنی ’’تم کو‘‘ یا ’’تمہارے پاس‘‘)ہے۔ اور فعل ’’یَأْتِیَنَّ‘‘ کا مادہ ’’ا ت ی‘‘ اور وزن ’’یَفْعِلَنَّ‘‘ ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’اَتیٰ یأْتِیْ‘‘ (دراصل اَتَیَ یَأْتِیُ) إِتْیَانًا (باب ضرب سے) اور ’’جَائَ‘‘ کی طرح ’’…کے پاس آنا‘‘کے معنی میں استعمال ہوتا ہے پھر مختلف صلات (مثلاً علیٰ، بِ وغیرہ) کے ساتھ اور بغیر کسی صلہ کے بھی بعض دوسرے معنوں کے لیے آتا ہے۔ اس کے استعمال اور معنی پر مزید بحث کے لیے  دیکھئے ۱:۱۷:۲(۴)

·       زیرِ مطالعہ لفظ ’’یَأْتِیَنَّ‘‘ اس فعل مجرد (اتٰی یأتی)سے فعل مضارع معروف کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ جس کے آخر پر نون ثقلیہ برائے تاکید لگا ہے جس کی وجہ سے آخری ساکن یاء (جو بنیادی طور پر مضموم تھی) یائے مفتوحہ ہو جاتی ہے جیسے یَضْرِبُ سے یَضْرِبَنَّ ہے (خیال رہے کہ ابتداء میں لام تاکید (لَ) لگائے بغیر بھی نہ صرف مضارع بلکہ امر اور نہی کے آخر پر بھی نون ثقلیہ  [1]استعمال ہوتا ہے)۔

اگر یہاں حرف شرطیہ ’’اِن‘‘ ہوتا تو یہاں فعل ’’اِن یأتِکم‘‘ یعنی مجزوم ہوتا (بمعنی ’’اگر وہ تمہارے پاس آئے تو…) مگر تاکید کے لیے ’’اِنْ‘‘ کے ساتھ ’’مَا‘‘ زائدہ لگنے سے (جس نے ’’اِنْ‘‘ کا عملِ جزم بھی روک دیا ہے) اور پھر مضارع کے بعد ’’نون ثقلیہ‘‘ لگنے سے اب اس میں مطلق شرط (کہ پوری ہو یا نہ ہو) کا امکان نہیں رہا۔ بلکہ ایک طرح سے اس میں ’’اگر تمہارے پاس آئے یا پہنچے ـــــ  اور ایسا ضرور ہوگا‘‘۔ کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے یعنی ’’ما‘‘نے ’’لامِ قسم‘‘ کا سا کام کیا ہے جو نون ثقلیہ والے مضارع کے شروع میں لگتی ہے۔ اسی لیے بعض مترجمین نے ’’ فاما یاتَینَّکم‘‘ کا ترجمہ ’’جب  بھی تمہارے پاس پہنچے‘‘ کیا ہے۔ اور علامہ عبداللہ یوسف علی نے اس کا ترجمہ ــــــ And if, as is sure, comes to youسے کیا ہے۔ اگرچہ بیشتر مترجمین نے صرف ’’اگر‘‘ سے کام چلایا ہے۔

]مِنِّیْ] جو دراصل ’’مِن‘‘ + ’’نِیْ‘‘ (یائے متکلم ’’ی‘‘مع نونِ وقایہ) کامرکب ہے۔ یہاں ’’مِن‘‘ ابتدائیہ بمعنی ’’ کی طرف سے‘‘ہے۔ یعنی ’’میری (ہی) طرف سے‘‘ــــــ اور یہاں یہ ’’ہی‘‘ ’’مِنِّی‘‘ کی تقدیم کی وجہ سے ہے۔ اس پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

[ھُدًی] کا مادہ ’’ھ د ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فُعَلٌ‘‘ہے۔ اس لفظ کی بناوٹ (لغوی ساخت یا تعلیل) پر البقرہ:۲ یعنی ۱:۱:۲(۶)میں اور اس مادہ سے فعل (ھدَی یھدِی = رہنمائی کرنا)کے باب معنی اور استعمال پر الفاتحہ:۶یعنی ۱:۵:۱(۱) میں بات ہوچکی ہے۔ اس کا ترجمہ ’’ہدایت، راہنمائی اور راہ کی خبر‘‘ کی صورت میں کیا جاتا ہے سب کا ایک ہی مفہوم ہے۔

]فَمَنْ] کی ’’فاء(ف)‘‘ عاطفہ (بمعنی پس/ پھر/  توپھر)ہے اور ’’مَن‘‘ (وہ جو)موصولہ شرطیہ ہے اور اسی شرط والے مفہوم کی بناء پر ’’من‘‘ میں ایک عموم کا مفہوم پیدا ہوتا ہے جس کو اردو میں ’’جو کوئی بھی، جس کسی نے بھی‘‘سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ جسے بعض مترجمین نے ’’جوکوئی، جو شخص، جنہوں نے‘‘ وغیرہ سے ترجمہ کیا ہے مگر ان میں سے بعض ترجموں میں عموم والی بات نہیں ہے۔

۱:۲۷:۲(۳)     ]تَبِعَ] کا مادہ ’’ت ب ع‘‘ اور وزن ’’فَعِلَ‘‘ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’تبِع …یَتْبَعُ تَبَعًا‘‘(باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کے پیچھے پیچھے چلتے آنا‘‘، ’’…کے پیچھے پیچھے آنا‘‘۔ اردو میں اس کے لیے فارسی لفظ ’’پیروی‘‘(جس کے معنی ’’پاؤں کے پیچھے جانا‘‘ہیں) استعمال کرتے ہوئے ترجمہ ’’…کی پیروی کرنا بھی کرلیتے ہیں۔ پھر اس سے بامحاورہ ترجمہ ’’…کے مطابق عمل کرنا‘‘ نکلتا ہے۔ بعض مترجمین نے لفظ سے قریب رہتے ہوئے اس (تبع) کا ترجمہ ’’پیرو ہوا، پر چلا‘‘ سے کیا ہے۔ جب کہ بیشتر نے ’’مَنْ‘‘ (مندرجہ بالا) شرطیہ کی وجہ سے فعل ماضی کا ترجمہ حال یا مستقبل سے کیا ہے یعنی ’’پیروی کریگا‘‘ سے کیا ہے اور بعض حضرات نے اس ’’مَنْ‘‘ میں جمع کے معنی بھی موجود ہونے کی بناء پر بصیغۂِ جمع ترجمہ کیا ہے یعنی ’’(جو لوگ)پیروی کریں گے، …پر چلیں گے‘‘کی صورت میں۔

·       یہ فعل (تبع) متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) فعل کے ساتھ ہی مذکور ہوتا ہے (جیسے یہاں ساتھ ’’ھدٰیَ‘‘ہے)۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے کل (۹) جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے بعض ابواب (افتعال اور افعال) سے اَفعال اور اسماء مشتقہ وغیرہ کے مختلف صیغے بکثرت (۱۶۰ سے زائد جگہ)وارد ہوئے ہیں جن پر حسبِِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

[ھُدَایَ] یہ ’’ھُدًی‘‘ (رہنمائی و ہدایت) + ’’یَ‘‘ (ضمیر متکلم مجرور بمعنی ’’میری‘‘)کا مرکب ہے۔ یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ لفظ ’’ ھُدًی‘‘ جب معرف باللام یا مضاف ہو تو وہ ’’الھدٰی‘‘ یا ’’ھُدٰی‘‘ہوجاتا ہے۔ جس کی آخری ’’یاء‘‘ دراصل الف مقصورہ کا کام دیتی ہے یعنی اسے پڑھا ’’الھُدَا‘‘ اور ’’ھُدَا‘‘ ہی جاتا ہے۔(دیکھئے ۱:۱:۲(۶)میںــــ اسی طرح یائے متکلم مجرور بالاضافہ کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر اس کے مضاف کا آخری حرف الف (ا)ہوـــــ چاہے وہ تثنیہ مرفوع مضاف ہوکر آرہا ہو۔ جس کا نون اعرابی گر جائے گاـــــ یا اصل لفظ کے آخر پر ’’الف‘‘ آرہا ہو (جو ہمیشہ کسی ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘سے بدل کر بنا ہوتا ہے) تو یائے متکلم ساکن (یْ) کی بجائے مفتوح (یَ) ہوجاتی ہے جیسے ’’اُختایَ‘‘ (میری دو بہنیں) یا ’’عَصَایَ‘‘ (میری لاٹھی)میں ہے۔

یہاں زیرِ مطالعہ لفظ ’’ھدایَ‘‘ بھی اسی طرح بنا ہے۔ یعنی ’’ھُدًی‘‘مضاف ہونے کے باعث خفیف ہوکر ’’ھدا‘‘بنا اور ساتھ یائے متکلم مجرور (بوجہ اضافت) لگی تو ’’یَ‘‘ہوگئیـــ ’’ھُدای‘‘کا ترجمہ اکثر نے ’’میری ہدایت‘‘ ہی کیا ہے۔ ایک آدھ نے اس کا ترجمہ ’’میرا بتایا‘‘ یا ’’میرے بتائے پر‘‘ بھی کیا ہے جو اردو محاورے کے  لحاظ سے شاید درست ہی ہو مگر بظاہر لفظ سے ہٹ کر ہے۔

۱:۲۷:۲(۴)     [فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ] اس میں سے ’’فَلَا‘‘ تو ’’فَ (پس؍تو) اور ’’لَا‘‘ (نہیں ہے؍ ہوگا) کا مرکب ہے۔

لفظ ’’خَوْفٌ‘‘ کا مادہ ’’خ و ف‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’خاف… یخَافُ (دراصل خوِفَ یَخْوَفُ) خوْفًا و خِیفَۃً (باب سمع سے) استعمال ہوتی ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’… سے ڈرنا، …کا ڈر رکھنا‘‘ جس میں ’’کسی اچھی چیز کے چھن جانے یا کسی بری چیز سے واسطہ پڑنے کی امید‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے۔ اسی سے اس فعل میں ’’گھبرانا‘‘ یا ’’بچنا‘‘کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔

·       یہ فعل متعدی ہے اور اس کے استعمال کی متعدد صورتیں ہیں مثلاً (۱) جس شخص یا چیز کا ڈر ہو وہ اس کے ساتھ مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے جیسے ’’خافہ‘‘ (وہ اس سے ڈرا) یا جیسے خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَة (ھود:۱۰۳) میں ہے (وہ عذاب آخرت سے ڈرا) (۲) اور جس کی طرف سے کسی چیز کا ڈر ہو تو وہ چیز تو مفعول بنفسہٖٖ مگر جس کی طرف سے ڈر ہو اس پر ’’مِنْ‘‘ لگتا ہے جیسے ’’ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِھَا نُشُوْزًا ‘‘ (النساء:۱۲۸) ’’اس کو ڈر ہو اپنے خاوند کی طرف سے سرکشی کا‘‘ (۳) اور ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ یہ فعل ’’…کے بارے میں ڈرنا‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ جیسے ’’ خَافُوْا عَلَيْھِم ‘‘ (النساء:۹) میں ہے یعنی ’’اُن کو ان کے بارے میں ڈر تھا‘‘ یا ’’ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْه ‘‘ (القصص:۷) جب تو اس کے بارے میں ڈرے تو‘‘ میں ہے۔ (۴) اور کبھی اس کا مفعول ’’أَنْ‘‘سے شروع ہونے والا ایک جملہ ہوتا ہے جیسے" وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ ‘‘ (الشعراء:۱۴) ’’مجھے ڈر ہے کہ مجھے مار ڈالیں گے‘‘ـــــ میں ہے ــــ اور (۵)  کبھی فعل (خافَ) کا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتاہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے جیسے ’’ لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَن ‘‘(العنکبوت:۳۳) یعنی ’’تو نہ ڈر نہ غم کر‘‘ــــــ

·       یہ فعل (خاف یخاف) قرآن کریم میں مندرجہ بالا تمام صورتوں میں استعمال ہوا ہے اس فعل مجرد سے مختلف صیغے ۸۰ سے زائد جگہ آئے ہیں۔ اور مزید فیہ کے صرف باب ’’تفعیل‘‘ سے فعل کے مختلف صیغے کل چار جگہ اور باب تفعل سے صرف مصدر ایک جگہ آیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مصادر اور اسماء مشتقہ بھی ۳۵ کے قریب مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

·       لفظ ’’خوف‘‘ اس فعل ثلاثی مجرد کا مصدر بھی ہے اور اس سے ماخوذ ایک رسم بھی۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’ڈرنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’ڈر‘‘بھی۔ اور خود یہ لفظ (خوف) بھی اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ اردو میں متداول ہے اس لیے اس کا ترجمہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔

·       زیرِ مطالعہ عبارت کا آخری مرکب ’’علیھم‘‘ ’’علی‘‘ (حرف الجر) اور ’’ھم‘‘ کا مجموعہ ہے اس میں اگر ’’علی‘‘ کے اوپر بیان کردہ ’’خاف علیہ: اس کے بارے میں ڈرا‘‘(نمبر۳) والے معنی سامنے رکھیں تو یہاں ’’علیھم‘‘کا ترجمہ ’’ان کے بارے میں‘‘ ہوسکتا ہے یعنی ’’خود ان کو اپنے بارے میں‘‘ یا ’’کسی کو بھی ان کے بارے میں‘‘ کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوگا۔ شاید اسی لیے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’علیھم‘‘ کا ترجمہ ’’ان کو‘‘ ہی سے کیا ہے۔ اگرچہ متعدد حضرات نے لفظی ترجمہ ’’ان پر‘‘ ہی کیا ہے۔ بعض نے ’’اسے‘‘ کیا ہے جو ’’ان کو‘‘ہی کی دوسری (اور واحد) شکل ہے۔ البتہ جن حضرات نے ’’ان کے لیے‘‘سے ترجمہ کیا ہے تو یہ اصل الفاظ سے بہت دور ہے اور ’’علیھم‘‘ کی بجائے ’’لَھُمْ‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ اور ترجمہ میں ’’ہوگا‘‘ کا مفہوم جملہ کے شرطیہ (جوابِ شرط) ہونے کے باعث ہے (اس لیے کہ شرط یا جوابِ شرط فعل مستقبل کا تقاضا کرتا ہے۔ شرط ماضی کے لیے نہیں ہوتی)ـــــ اور یہاں ’’علیہ‘‘ کی بجائے ’’علیھم‘‘ (صیغہ جمع) ’’مَن‘‘ (اوپر ’’مَن تبع ھدایَ‘‘ والا) موصولہ شرطیہ کے معنی کے لحاظ سے ہے جو جمع کو بھی شامل ہوتا ہے]دیکھئے۱:۶:۲(۱)[

۱:۲۷:۲(۵)     [وَلَاھُمْ یَحْزَنُونَ] اس کے پہلے حصہ ’’وَلَاھُم‘‘ [جو  وَ (اور) + لا (نہیں) + ھم (وہ سب) کا مرکب ہے] کا ترجمہ ’’اور نہ وہ‘‘ ہونا چاہئے مگر ’’لا‘‘ کی تکرار (’’لا خوف‘‘ اور پھر ’’لاھم‘‘میں) کی وجہ سے اور پھر ’’ھم‘‘سے بھی مقدم(پہلے) ہونے کی بنا پر یہاں ’’لا‘‘ کا ترجمہ صرف ’’نہ‘‘ کی بجائے ’’نہ ہی‘‘اور یوں ’’وَلَاھُم‘‘کا ترجمہ ’’اور نہ ہی وہ‘‘ہونا چاہئے۔ تاہم ایک دو کے سوا اکثر مترجمین نے یہاں صرف ’’اور نہ وہ‘‘رہنے دیا ہے۔ غالباً اس لیے کہ ایک ’’فَلَا‘‘ (پس نہ) پہلے آچکا ہے۔ (فلا خوفٌ میں)۔ اس طرح دو دفعہ ’’پس نہ، …اور نہ‘‘ کی تکرار سے قریباً وہی مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ اور عبارت کے آخری حصہ بلکہ لفظ ـــــ’’یَحْزَنُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ح ز ن‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْنَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد  دو  ابواب سے مختلف مصادر کے ساتھ دو مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

·       حزِن یحزَن حزنًا (باب سمع سے) آئے تو یہ فعل لازم ہوتا ہے اور اس کے معنی: ’’غم کھانا، غمگین ہونا، غمناک ہونا، غمزدہ ہونا یا اداس ہونا‘‘۔ ہوتے ہیں (یعنی ’’خوش ہونا‘‘کی ضد ہے)اس باب سے ’’غمگین یا غمزدہ‘‘کو عربی میں ’’حزِنٌ‘‘ یا حزین‘‘ کہتے ہیں۔ تاہم یہ صفت قرآن میں نہیں آئی۔ البتہ جس کے بارے میں ’’غم یا افسوس‘‘ہو اگر اس کا ذکر بھی ساتھ کرنا ہو اور وہ کوئی شخص ہو تو اس پر ’’علی‘‘ کا صلہ لگے گا۔ مثلاً کہیں گے ’’حزِن علیہ (اس نے اس کے بارے میں غم کھایا‘‘)ـــــ اور اگر وہ باعثِ غم ’’کوئی چیز یا بات ہو تو اس پر ’’لام (ل)‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’حزِن لِکذا‘‘ (وہ فلاں بات پر غمگین ہوا)۔ قرآن کریم میں اس فعل کا استعمال ’’لام‘‘ کے ساتھ کہیں نہیں ہوا۔ البتہ ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ یہ فعل چار (۴)جگہ آیا ہےــــ اور قرآن کریم میں بیس سے زائد جگہ یہ فعل ’’باعثِ غم‘‘کے ذکر کے بغیرــــــ یعنی ’’لام (ل) یا علی‘‘کے بغیر ہی آیا ہے۔ اور سببِ غم عبارت (کے سیاق وسباق)سے سمجھا جاسکتا ہے۔

·       (۲)حزَن … یحزُنُ حُزْنًا (باب نصر سے) آئے تو یہ فعل متعدی ہوتا ہے۔ اور اس کے معنی ’’…کو غمگین کرنا، …کو اداس کرنا‘‘ہوتے ہیں (یعنی ’’خوش‘‘ کرنا کی ضد)۔ اس صورت میں اس کا مفعول بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) آتا ہے جیسے ’’ لَا يَحْزُنُهُم … (الانبیاء:۱۰۳) میں ہے۔ (ان کو غمگین نہیں کرے گا…)۔ اس باب سے ’’غمگین‘‘ کے لیے عربی لفظ ’’مَحزُونٌ‘‘ یا ’’حزِینٌ‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ تاہم یہ لفظ بھی قرآن کریم میں نہیں آئے۔ قرآن کریم میں اس باب (نصر)سے (اور ان معنی کے ساتھ) بھی اس فعل کے مختلف صیغے کل نو (۹) جگہ آئے ہیں۔

·       کتب لغت میں یہ عام طور پر پہلے (باب سمع سے) کا مصدر ’’حزَنٌ‘‘ اور دوسرے (باب نصر سے) کا مصدر ’’حُزنٌ‘‘بتایا جاتا ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ دونوں مصدر استعمال ہوئے ہیں۔ ’’حزَن‘‘ تین جگہ اور ’’حُزْنٌ‘‘ دو جگہ آیا ہے۔ تاہم چونکہ فعل معروف یا مجہول کا مصدر ایک ہی ہوتا ہے یعنی مصدر میں معروف یا مجہول دونوں کے معنی ہوتے ہیں۔ مثلاً ضرَب یَضْربُ ضَربًا اور ضُرِب، یُضربُ ضَرْبًا‘‘ کہتے ہیں۔ اور ’’ضَرْب‘‘ کے معنی ’’پیٹنا اور پِٹنا‘‘ دونوں ہوسکتے ہیں ـــــ اسی طرح اگر فعل متعدی (حزَن یحزُن) کے مصدر ’’حُزْن‘‘کو مجہول کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب ’’غمگین کیا جانا‘‘ہوگا۔ جو فعل لازم (حزِن یحزَن) کے مصدر ’’حَزَنٌ‘‘(غمگین ہونا) کے ہم معنی ہی ہوگا۔ مصدر کا ترجمہ کرتے وقت عموماً یہ فرق بلحوظ نہیں رکھا جاتا۔

·       بیشتر مترجمین نے اس عبارت (وَلَاھُمْ یَحْزَنُونَ) کا ترجمہ ’’اور نہ وہ غم کھائیں گے‘‘اور بعض نے ’’نہ وہ غمگین ہی ہوں گے‘‘سے کیا ہے۔ جب کہ بعض نے پوری عبارت (فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ)یعنی  ۱:۲۷:۲(۵)ملا کر اکٹھا مختصر مگر بامحاورہ ترجمہ ’’نہ ان کو کچھ ڈر ہوگا نہ کچھ غم‘‘ کر لیا ہے جو مفہوم اورمحاورہ کے لحاظ سے ایک عمدہ ترجمہ ہے۔

[والذین کفروا] یہ ’’وَ‘‘ (اور) + الذین (وہ لوگ جو) + کفروا (کافر ہوئے) کا مرکب ہے۔ اس کے فعل (کفر یکفر = کفر کرنا) کے معنی اور استعمال پر البقرہ:۶ یعنی ۱:۵:۲(۱)میں بات ہوچکی ہے۔

البتہ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اوپر والی آیت (نمبر۳۸) میں جو جملہ شرطیہ ’’مَنْ تَبِعَ…‘‘سے شروع ہوا تھا اس کے معنی شرط میں مستقبل کے معنوں تقاضا موجود ہونے کے باعث ــــــ اور یہ عبارت (والذین کفروا) بھی ’’وَ‘‘کے ذریعے اسی سے ملائی گئی ہےــــــیہاں بھی فعل ماضی کا ترجمہ مستقبل سے ہونا چاہئے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر مترجمین نے یہاں ’’کفرُوا‘‘کا ترجمہ ’’کفر کریں گے، نافرمانی کریں گے‘‘ سے کیا ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے لفظ (ماضی) سے قریب رہتے ہوئے، کافر ہوئے، منکر ہوئے، قبول نہ کیا‘‘ کی صورت میں بھی ترجمہ کیا ہے۔

۱:۲۷:۲(۶)     [وَکَذَّبُوْا] ’’وَ‘‘ (اور) کے بعد فعل ’’کَذَّبُوْا‘‘ہے۔ اس مادہ ’’ک ذ ب‘‘ اور وزن ’’فَعَّلُوْا‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (کذَب یکذِب = جھوٹ بولنا) کے باب، معنی اور استعمال پر البقرہ:۱۰ یعنی ۱:۸:۲(۱۱) میں بات ہوئی تھی۔

زیرِ مطالعہ لفظ (کذّبُوا) اس مادہ سے باب تفعیل کے فعل ماضی معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب (تفعیل سے فعل ’’کذّب… یُکذِّب تکذیبًا‘‘ کے ایک معنی ہیں: …کو جھٹلانا …کو جھوٹ سمجھنا، …کو جھوٹ کہنا‘‘ بلکہ اردو میں اس فعل کا مصدر (تکذیب)مستعمل ہے اس لیے اس فعل کا ترجمہ ’’ …کی تکذیب کرنا‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے (بیشتر مترجمین نے یہاں ’’جھٹلانا‘‘ اور ایک دو نے ’’تکذیب کرنا‘‘سے ہی ترجمہ کیا ہے)۔

·       ان معنوں کے لیے یہ فعل مفعول بنفسہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُل (ق:۱۴) میں ہے یعنی ’’سب نے رسولوں کو جھٹلایا‘‘ـــــ  اور یہ فعل ’’باء(بِ)‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے ’’ وَكَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ (الانعام:۶۶) یعنی ’’تیری قوم نے اسے جھٹلایا‘‘ یعنی عربی میں ’’کذَّبہ اور کذَّب بہ‘‘دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ اس (فعل) کا مفعول محذوف کر دیا جاتا ہے۔ جو سیاق عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے جیسے ’’ فَكَذَّبَ وَعَصٰى ‘‘ (النازعات:۲۱) میں ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل (کذّب یُکذِّب) کے مختلف صیغے ۱۷۵ کے قریب مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان میں سو (۱۰۰) سے زیادہ جگہ ’’باء(ب)‘‘کے صلہ کے ساتھ، پچاس (۵۰) کے قریب جگہ پر مفعول بنفسہ کے ساتھ اور پچیس (۲۵)کے قریب جگہ پر مفعول غیر مذکور (محذوف) کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔

جواب شرط پر معطوف ہونے کی وجہ سے اس کا ترجمہ بھی مستقبل کے ساتھ کرنا ’’یعنی وہ جھٹلائیں گے‘‘سے کرنا مناسب ہے اور بعض مترجمین نے ایسا ہی کیا ہے۔

۱:۲۷:۲(۷)     [بِایٰتِنَا] میں ابتدائی ’’بِ (باء)‘‘ تو فعل ’’کذَّبوا‘‘کے صلہ کے طور پر آیا ہے (یعنی ’’کذَّبوابِ … کا ترجمہ ہے، کو جھوٹ سمجھا، … کی تکذیب کی) اور آخری ’’نَا‘‘(’’آیاتنا‘‘میں) ضمیر مجرور بمعنی ’’ہماری‘‘ہے (یعنی ’’ہماری آیات کو‘‘)اس طرح ’’بِ‘‘ اور ’’نا‘‘ کو نکال کر باقی وضاحت طلب لفظ ’’آیاتٌ‘‘بچتا ہے (جو عبارت میں مجرور اور مضاف ہونے کے باعث بصورت ’’آیاتِ‘‘ آیا ہے) یہ لفظ (آیاتٌ) ’’آیۃً‘‘ کی جمع مؤنث سالم ہے۔

·       لفظ ’’آیۃ‘‘کے مادہ سے وزن کے بارے میں اختلا ف ہے۔ اکثر کے نزدیک اس کا مادہ ’’ا ی ی‘‘ہے۔ [2] اگرچہ بعض نے اسے ’’اوی‘‘سے ماخوذ سمجھا ہے۔ [3] اس کے ساتھ اس کے وزنِ اصلی کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:

(۱) وزنِ اصلی ’’فَعَلَۃٌ‘‘ اور شکل اصلی ’’أیَیَۃ‘‘ہے۔ قیاس یہ تھا کہ دوسری ’’یاء‘‘ماقبل مفتوح کی بنا پر الف میں بدلتی اور یہ ’’حیاۃ‘‘ (ح ی ی سے) اور ’’نَواۃٌ  (ن و ی سے) کی طرح ’’أیَاۃ‘‘ ہو جاتا کیونکہ جب دو حرفِ علت جمع ہوں تو تعلیل دوسرے میں ہوتی ہے مگر خلافِ قیاس پہلی ’’یاء‘‘ کو (ماقبل مفتوح کی بناء پر ہی) الف میں بدل دیاگیا جیسے ’’رایۃٌ‘‘ بمعنی جھنڈا (’’ر ی ی‘‘ سے) اور ’’غَایَۃٌ‘‘ بمعنی انتہاء (غ ی ی سے) بنا ہے گویا أَ یَیَۃ = أایَۃ= آیۃ۔

(۲) وزنِ اصلی ’’فَعْلَۃ‘‘ اور اصلی شکل ’’أیْیَہ‘‘ہے۔ اسے قاعدے کے مطابق ’’أیَّہ‘‘ہونا چائے مگر یہاں بھی خلافِ قیاس ’’یاء‘‘ساکنہ کو (ماقبل مفتوح کی بناء پر) الف میں بدل دیا گیا۔ یا تشدید کو ثقیل سمجھ کر تخفیف کر لی گئی جیسے (مشہور عرب قبیلہ) ’’طَیِّییٌ‘‘سے اسم نسبت ’’ طائِیٌّ‘‘ بنا لیا گیا جو دراصل تو طَیِّیٌٔ بنتا تھا۔ بہر حال یہ بھی خلافِ قیاس ہی ہے۔

(۳) وزن اصلی ’’فَاعِلۃ‘‘ اور شکلِ اصلی ’’آیِیَۃ‘‘تھی۔ قیاس یہ چاہتا تھا کہ یہ ’’آیَّۃ‘‘ (دابۃ کی طرح)ہو جاتا۔ مگر یہاں بھی خلافِ قیاس تخفیف کردی گئی۔ پہلی ’’یا‘‘گرا کر)۔

(۴) وزن اصلی ’’فَعَلَۃ‘‘ اور شکل اصلی ’’أَوَیَۃ‘‘تھی (مادہ ’’اوی‘‘سمجھنے کی صورت میں) اس صورت میں اسے ’’أوَاۃٌ‘‘ ہونا چاہئے تھا کیونکہ دو حرفِ علّت جمع ہونے کی صورت میں تعلیل دوسرے میں ہوتی ہے۔ (جیسا کہ اوپرنمبر۱ میں بیان ہوا ہے) یہاں بھی خلافِ قیاس پہلے حرف علت ’’و‘‘کو الف میں بدل دیا گیا ہے۔

 (۵) وزن اصلی ’’فَعِلَۃٌ اور شکل اصلی ’’أَیِیَۃٌ‘‘ تھی۔ پہلی ’’یاء‘‘ متحرکہ ماقبل (ھمزۃ) کے مفتوح ہونے کے باعث الف میں بدل کر لفظ ’’آیۃ‘‘ہوگیا۔ یعنی (أیِیَۃ= أایَۃ=  آیَۃ‘‘) یہ صورت قیاس صرفی سے زیادہ قریب ہے۔

·       اس لفظ (آیۃ)کے وزن اور تعلیل کے بارے میں ایک دو اور قول بھی بیان ہوئے اور مندرجہ بالا تمام تعلیلات کے حق میں اور ان کے مخالف دلائل بھی دئے گئے ہیں۔ جس کا بیان طوالت کے باعث نظر انداز کیا جاتا ہے۔[4]

·       مادہ (ای ی)سے تو فعل مجرد عربی میں استعمال ہی نہیں ہوتا۔ البتہ بابِ تفعیل سے فعل ’’أیّٰی یُؤْیِّیْ تَأْیِیَۃٌ‘‘کوئی نشانی یا علامت برائے پہچان مقرر کرنا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور تفعل اور تفاعل سے بھی مختلف معنی کے لیے فعل آتے ہیں تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس مادہ (ا ی ی)سے ماخوذ بعض اسماء اور حروف (مثلاً إِیّا، أَیٌّ اور أیَّان‘‘قرآن کریم میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ اگر اس کا مادہ ’’اوی‘‘سمجھا جائے (جس پر کئی اعتراض کئے گئے ہیں) تو اس مادہ سے فعل مجرد و مزید فیہ قرآن میں بھی استعمال ہوئے ہیں جن پر آگے چل کر بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       اس لفظ (آیۃ)کے بنیادی معنی ’’علامت یا نشانی‘‘ہیں۔ پھر اس سے اس میں’’عبرت، معجزہ اور حکم‘‘کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی ایک مقررہ عبارت کو (جو عموماً ایک یا چند جملوں پر مشتمل ہوتی ہے اور جس کی مقدار نبی کریم کی مقرر کردہ ہوتی ہے) بھی آیۃ مندرجہ بالا معنی کے لحاظ سے ہی کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ہر آیت اپنی صداقت کا نشان بھی ہے۔ اس میں انسانوں کے لیے عبرت اور موعظت کا سامان بھی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور حکم بھی ہے۔ لفظ آیۃ کی کوئی جمع مکسر (آیٌ وغیرہ)قرآن میں نہیں آئی البتہ جمع مؤنث سالم (آیات) بکثرت استعمال ہوئی ہے۔

مندرجہ بالا معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’آیاتنا‘‘ کا ترجمہ ’’ہماری نشانیوں اور ہمارے احکام‘‘ہی کیا ہے۔ بعض نے ’’ہماری آیتوں‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔ کیونکہ قرآن کی آیت ’’والے معنی میں یہ لفظ (آیۃ) اردو میں باملاء ’’آیت‘‘متداول ہے۔

۱:۲۷:۲(۸)     [اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ]میں ’’اولئک‘‘ تو اسم اشارہ بعید بمعنی ’’وہ سب‘‘ہے۔ مرکب اضافی ’’اصحاب النار‘‘کے دوسرے جزء (النار=آگ) پر لغوی بحث البقرہ:۱۷ یعنی ۱:۱۳:۲(۳)میں گزر چکی ہے۔

کلمہ ’’اصحاب‘‘ کا مادہ ’’ص ح ب‘‘اور وزن ’’اَفعال‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’صحِب … یَصحَب صُحبَۃً‘‘(باب سمع سے) کے بنیادی معنی تو ہیں: ’’… کے ساتھ ساتھ رہنا‘‘، ’’…کا ساتھی ہونا‘‘ــــــ یعنی اس میں مسلسل اور مستقل سنگت کا مفہوم ہے۔ پھر اس سے یہ فعل ’’(کسی سے)قریبی تعلق رکھنا، …کے ساتھ وقت گزارنا، …کے ہمراہ ہونا یا جانا‘‘کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے مختلف اَفعال کے صیغے تو تین جگہ آئے ہیں۔ البتہ ’’صاحب‘‘، اصحاب‘‘ اور ’’صاحبۃ‘‘ مفرد و مرکب مختلف صورتوں میں بکثرت وارد ہوئے ہیں۔

·       زیرِ مطالعہ لفظ (اصحاب) جمع مکسر ہے اس کا واحد ’’صاحب‘‘ہے جو مندرجہ بالا فعل مجرد سے اسم الفاعل ہے۔ اس لحاظ سے اس کے بنیادی معنی ’’یار‘‘ اور ’’رفیق‘‘ہی ہیں۔ مگر یہ لفظ کبھی ’’مالک‘‘، ’’ناظم‘‘ اور حاکم‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ’’صاحب‘‘(بصیغہ مفرد) تو صرف دو جگہ آیا ہے۔ مگر اس کی جمع’’اصحاب‘‘ ۷۵ جگہ آئی ہے اور سوائے ایک جگہ (الانعام:۷۱) کے باقی سب جگہ یہ لفظ (اصحاب) مضاف ہوکر ہی آیا ہے۔ اس لیے اردو میں اس کا ترکیب اضافی کی صورت میں ترجمہ کرتے وقت ’’اصحاب‘‘ کا ترجمہ ’’ساتھی یا رفیق‘‘ وغیرہ کرنے کی بجائے عموماً ’’والے‘‘کے ساتھ کرنا زیادہ بامحاورہ ہے۔ مثلاً بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ ’’ہاتھی والے‘‘ (الفیل:۱)، اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ’’بستی والے‘‘(یس:۱۳)، اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ       ’’قبروں والے‘‘(الممتحنہ:۱۳) ان پر اور اس قسم کی دیگر تراکیب پر حسب موقع مزید بحث ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       اس طرح ’’اصحاب النار‘‘ کا ترجمہ عموماً ’’آگ والے‘‘کیا جاتا ہے اور اس سے مراد ’’آگ میں رہنے والے‘‘ یا ’’آگ میں ڈالے جانے والے‘‘ہوتے ہیںـــــ  اور چونکہ آگ سے مراد ’’جہنم‘‘ (جس کا اردو فارسی ترجمہ لفظ ’’دوزخ‘‘ کی صورت میں معروف ہے) کی آگ ہےــــ  اس لیے ’’اصحاب النار‘‘ کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’دوزخ والے‘‘ یا ’’دوزخی‘‘ کیاجاسکتا ہے۔ اس لیے اردو مترجمین اس ترکیب کا ترجمہ ’’دوزخ والے‘‘، ’’دوزخی‘‘، ’’دوزخ کے لوگ‘‘، ’’دوزخ میں جانے والے‘‘ اور بعض نے ’’دوزخ میں رہنے والے‘‘سے کیا ہے۔

·       قرآن کریم میں یہ ترکیب (اصحاب النار) ۱۹ جگہ استعمال ہوئی ہے اور ہر جگہ مندرجہ بالا معنی میں ہی آئی ہے۔ سوائے ایک جگہ (المدثر:۳۱)کے جہاں ’’ اَصْحٰبَ النَّار ‘‘(آگ والوں)سے مراد اس آگ پر مقرر کردہ (حاکم اور ناظم) فرشتے ہیں جیسے ’’جیل والے‘‘سے مراد قیدی بھی ہوسکتے ہیں اور بعض دفعہ جیل کے افسر یا عملہ بھی۔ ایسے معنی عبارت کے سیاق و سباق سے متعین ہوتے ہیں۔ لفظ ’’النار‘‘کے بلحاظ موقع حقیقی و مجازی اور لغوی و اصطلاحی معنی کے فرق کے لیے کسی اچھی اور مستند تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ [نیز دیکھئے لغوی بحث البقرہ:۱۷یعنی ۱:۱۳:۲(۳)[

[ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ] اس جملے کے تمام اجزاء یعنی ’’ھم‘‘(وہ سب) ’’فیھا‘‘(اس میں)اور ’’خالدون‘‘ (ہمیشہ رہنے والے)سے آپ واقف ہیں۔ لفظ ’’خالِد‘‘کے مادہ، باب اور معنی وغیرہ پر لغوی بحث البقرہ:۲۵ یعنی ۱:۱۸:۲(۱۲)میں کی جاچکی ہے۔ یہاں ’’فیھا‘‘ کی تقدیم (پہلے آنے) کی بناء پر اس کا ترجمہ ’’اس ہی میں‘‘ یا ’’اسی میں‘‘ کرنا زیادہ موزوں ہے۔ ’’خالدون‘‘ کا لفظی ترجمہ (بطور اسم الفاعل) کرنے کی بجائے بیشتر مترجمین نے، ہمیشہ رہیں گے، پڑے رہیں گے، ہمیشہ کو رہیں گے‘‘ سے کیا ہے جو مفہوم اور محاورے کے لحاظ سے درست ہے تاہم یہ ’’خالدون‘‘سے زیادہ ’’یخلدون‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

 

۲:۲۷:۲      الاعراب

          زیرِ مطالعہ آیات کو اعرابی لحاظ سے چار مستقل جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ نیچے ہم ہر ایک حصے کو الگ الگ لکھ کر اس کے اعراب بیان کرتے ہیں۔

(۱) قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا

          ]قلنا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ مستقر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [اھبِطوا] فعل امر معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلِین ’’انتم‘‘ مستتر ہے اور اس ضمیر کی علامت ’’اھبطوا‘‘ کی آخری واو (الجمع) ہے۔ یہ صیغہ فعل پورا جملہ فعلیہ (فعل مع فاعل) بن کر فعل ’’قلنا‘‘ کا مقول (مفعول) ہوکر محلاً نصب میں ہے۔

[منھا] جار (من) اور مجرور (ھا) مل کر متعلق فعل (اھبطوا) ہیں [جمیعًا] یہاں ’’اھبطوا‘‘ کی ضمیر فاعلین (انتم) کا حال ہے اس لیے منصوب ہے۔ علامت نصب تنوین نصب (ــــًـــــ) ہے۔ یعنی اترو تم سب اکٹھے ہوتے ہوئے ’’جس کا بامحاورہ ترجمہ ’’سب کے سب‘‘ ہے۔ دراصل یہاں ’’قلنا‘‘ کے بعد کا سارا جملہ (اھبطوا منھا جمیعًا) اس (قلنا) کا مقول (مفعول ہو کر محلاً منصوب ہے۔)

(۲) فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى ـــــــــــــ فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ  ـــــــــــــ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ

[فَ] عاطفہ ہے جو مابعد جملے کو ماقبل جملے سے مربوط کرتی ہے۔

[اِمَّا] میں (جو دراصل اِنْ + ما ہے) ’’اِنْ‘‘ شرطیہ اور ’’مَا‘‘ زائدہ برائے تاکید ہے۔ بعض نحوی اس ’’اِمَّا‘‘ کو ’’مُسَلِّطۃ‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ فعل پر نون التاکید مسلّط کرتی ہے۔ قرآن کریم میں جہاں بھی یہ ’’اِمَّا‘‘(فإما یا واِمّا  کی شکل میں) آیا ہے اس کے بعد آنے والا فعل نون ثقیلہ کے ساتھ ہی آیا ہےــــــ  اردو میں اس کا ترجمہ صرف ’’تو‘‘ ہی سے کیا جاتا ہے۔

[یاتینکم]میں ’’یَأتِیَنَّ‘‘ فعل مضارع مؤکد بنون ثقلیہ ہے (صیغہ واحد مذکر غائب)اور یہ ’’اِن‘‘ شرطیہ کی وجہ سے محلاً مجزوم ہے مگر ’’اِن‘‘کے بعد ’’مَا‘‘زائدہ مؤکدہ آنے اور آخر پر نون ثقیلہ لگنے سے اس (صیغۂ مضارع) میں ظاہراً کوئی علامتِ جزم نہیں ہے۔ اور ضمیر منصوب [کم] یہاں اس فعل کا مفعول بہٖ ہے۔ [مِنِّی] یہ حرف الجر (من) اور مجرور ’’نی‘‘ (جو دراصل ’’ی‘‘ مع نون الوقایہ ہے) کا مرکب ہے (جب ’’مِنْ‘‘ کے بعد یائے متکلم (ی) آئے تو اس (ی) پر نونِ وقایہ ضرور لگتا ہے اور اسی لیے ’’شدّ‘‘ پیدا ہوتی ہے) یہ مرکب جاری (مِنّی) یہاں متعلق فعل (یاتَینَّ)ہے۔ یہاں ’’مِن‘‘ ابتدائیہ بھی ہوسکتا ہے جس کا ترجمہ ’’میری طرف سے‘‘ہوگا اور یہ ’’مِن‘‘بیانیہ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں (اور ’’مِنّی‘‘ کی تقدیم یعنی ’’پہلے آنے‘‘ کی وجہ سے بھی) اس کا ترجمہ ’’میری ہی طرف سے‘‘ (کسی اور کی طرف سے نہیں)ہوسکتا ہےــــــ [ھدی] فعل (یاتِیَنّ) کا فاعل (لھذا) مرفوع ہے جس میں علامت رفع ظاہر نہیں ہوئی (اس لیے کہ یہ دراصل اسم مقصور ہی ہے) یہاں تک (فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى) جملہ کا پہلا حصہ (شرط) مکمل ہوتا ہے۔ اس کے بعد

·       [فَمَنْ] کی فاء (ف) رابطہ کے لیے ہے جو جوابِ شرط کے شروع میں آتی ہے۔ اور ’’مَنْ‘‘ شرطیہ (موصولہ) ہے۔ یہاں سے جملہ شرطیہ کے پہلے حصے (بیانِ شرط) یعنی (فامایاتینکم…) کا جوابِ شرط پھر ایک جملہ شرطیہ سے شروع ہوتا ہے اور ’’مَن‘‘ شرطیہ اس نئے (شرطیہ) جملے کے مبتدأ کا کام دے رہا ہے۔ لہٰذا مرفوع ہے (اگرچہ مبنی ہونے کے باعث علامتِ رفع کے بغیر ہے) [تَبِع] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعل مستتر (ھَو) ہے جو مبتدأ (’’من‘‘) کے لیے ہے۔ یہاں یہ فعل (تبع) محلاً مجزوم شمار ہوگا کیونکہ اسم شرط (’’مَنْ‘‘) کے بعد آیا ہے تاہم فعل ماضی ہونے کی وجہ سے اس (فعل) میں کوئی تغیر نہیں ہوا۔ [ھدایَ] مضاف (ھدی، ھدا) اور مضاف الیہ (ضمیر متکلم مجرور ’’ی‘‘) مل کر فعل تبع کا مفعول بہ ہے اور یہ جملہ (فمن تبِعَ ھدایَ) اپنے سے پہلے جملے (فإما یا تینکم منی ھدیً) کا جوابِ شرط بھی ہے اور مابعد والے جملے کے لیے جملہ شرطیہ (کا بیانِ شرط والا حصہ)بھی ہے جس کا جواب

·       [فلا] کی ’’فائے‘‘رابطہ (برائے جواب شرط) سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد ’’لَا‘‘نافیہ (بمعنی ’’لَیْسَ = نہیں) ہے  اور [خوفٌ] مبتدأ ہے جو نفی کے ذریعے عموم پیدا ہونے کی بناء پر نکرہ آیا ہے۔ [5]  [علیھِم] جارّ (علی) اور مجرور (ھم) مل کر مبتدأ (خوف) کی محذوف خبر مرفوع (مثلاً موجودٌ، کائِنٌ) کا قائم مقام ہےـــــ  اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں ’’لَا‘‘مشابہ ’’بلَیْس‘‘ہو اور ’’خوفٌ‘‘کو اس کا اسم مرفوع اور ’’عَلَیْھِم‘‘ کو اس (لیس= لا) کی قائم مقام خبر یعنی محلاً منصوب سمجھا جائے۔ یہاں تک ایک جملہ اسمیہ (فلا خوفٌ علیھم) مکمل ہو کر سابقہ شرط (فمن تبِع ھدایَ) کا جوابِ شرط بنتا ہے۔  [6]

·        [وَلا] اس ’’وَ‘‘کے ذریعے اس ’’لَا‘‘ کا پہلے ’’لَا‘‘ (خوفٌ والے) پر عطف ہے اور [ھُمْ] ضمیر مرفوع منفصل یہاں مبتدأ کا کام دے رہی ہے اور دونوں جگہ (اوپر علیھم میں اور یہاں) جمع کی ضمیر(ھم)گزشتہ مبتدأ(مَنْ)کے بلحاظ معنی جمع ہونے کی بناء پر آئی ہے [یحزنون] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین مستتر (ھم) پوراجملہ فعلیہ (فعل مع فاعل) ہوکر ’’ھم‘‘کی خبر ہے یا چاہیں تو یہاں بھی ’’ھم‘‘ کو ’’لا‘‘(مشابہ بلیس) کا اسم (مرفوع) سمجھ کر ’’یحزنون‘‘کو اس کی خبر (لھذا محلاً منصوب) سمجھ لیں بمعنی ’’محزونین‘‘سمجھ کر۔ اور یہاں بھی چونکہ ایک تو ’’لا‘‘کی تکرار ہے اور وہ مبتداء سے مقدم بھی ہے(یعنی یہ صرف فعل یحزنون کی نفی نہیں ورنہ ’’وھم لا یحزنون‘‘ہوتا) لھذا اس (ولا ھم یحزنون) کا ترجمہ ’’اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے‘‘ سے کیا جاناچاہئے مگر سوائے ایک دو کے کسی مترجم نے اس ’’ہی‘‘ کا خیال نہیں کیا۔ اس طرح یہ آخری دونوں جملے (فلا خوفٌ علیھمــــ ولا ھم یحزنون) ایک جملہ شرطیہ کے پہلے حصے (فمن تبع ھدایَ) یعنی بیان شرط کا جوابِ شرط بھی ہے اور یہ اس ’’مَن‘‘ کی جو جملہ شرطیہ کا مبتدأ تھا، خبر بھی ہے۔

·       قاعدہ یہ ہے کہ جب ’’مَن‘‘ (یا کوئی اسم شرط) مبتدأ ہو اور اس کے بعد کوئی مکمل جملہ فعلیہ آرہا ہو تو (بعض کے نزدیک)

(۱) اس جملہ کو اس مبتدأ (مَنْ وغیرہ) کی خبر بھی قرار دیا جاسکتا ہے یعنی یہاں ’’تبع ھدایَ‘‘  ’’فَمَنْ‘‘ کے ’’مَنْ‘‘ کی خبر بھی ہوسکتا ہے۔

(۲) اور بعض کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ اس شرطیہ جملے کے جواب کو (جو یہاں ’’فلا خوفٌ علیھم ولا ھم یحزنون‘‘ہے) ہی اس ’’مَنْ‘‘ کی خبر سمجھا جائے۔

(۳) اور یہ بھی جائز ہے کہ جملہ شرطیہ یعنی بیانِ شرط (فمن تبع ھدای) اور جوابِ شرط (فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون) دونوں کو ملا کر اس ’’مَنْ‘‘ (مبتدأ) کی خبر قرار دیا جائے۔

بہر حال یہ سب ’’فنی‘‘باتیں ہیں عملاً اردو ترجمہ پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا سوائےاس کے کہ جملہ شرطیہ (شرط اور جواب شرط) میں استعمال ہونے والے صیغہ ہائے فعل ماضی کا ترجمہ فعل مستقبل میں کیا جائے گا۔

(۳) وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ

[وَ] یہ واو عاطفہ ہے جس کے ذریعے اگلے ’’الذین‘‘ کو سابقہ جملہ شرطیہ کے مبتدأ (مَنْ) پر عطف کیا گیا ہے (یعنی مَنْوالذین…) یا یوں کہئے کہ ’’الذین…‘‘ سے شروع ہونے والے (اگلے) جملے کو ’’فَمن تبع…‘‘ سے شروع ہونے والے (پچھلے) جملے کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ گویا یہاں بھی شرط (فمن تبع…) اور اس کے نتائج یا جوابِ شرط (فلا خوف…) بیان کرنے کے بعد اب ایک طرح سے ’’ومن لم یتبِعْ ھدایَ‘‘ کا انجام بتایا جارہا ہے۔ مگر اس ’’عدم اتباع‘‘ کی شناعت اور قباحت کی شدت ظاہر کرنے کے لیے اسے ’’کفر‘‘ کہہ کر بیان کیا گیا ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ [الذین] اس موصول مبتدأ (محلاً مرفوع) ہے اور [کفروا] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین (ھم) جملہ فعلیہ بن کر ’’الذین‘‘ کا صلہ (یا اس کی ابتداء) ہے۔ [وَکذِّبوا] کی واو عاطفہ ہے جس کے ذریعے مابعد فعل ’’کذبوا‘‘ کو (جو خود فعل ماضی مع ضمیر فاعلین(ھم) ہے) پہلے فعل (کفروا) پر عطف کیا گیا ہے۔ یعنی یہ دونوں فعل بیانِ شرط کا حصہ ہیں۔ [بایاتنا] کی ابتدائی ’’باء(ب)‘‘ تو فعل ’’کذبوا‘‘ کا صلہ ہے جو اس کے مفعول ’’آیاتنا‘‘(جو خود مضاف (آیات) اور مضاف الیہ (نا) سے مل کر بنا ہے)سے پہلے آیا ہے۔ اس طرح ’’بآیاتنا‘‘ محلاً منصوب ہے (اگرچہ لفظا مجرور ہے) اس طرح ’’کفروا و کذبوا بآیاتنا‘‘ مل کر ’’الذین‘‘ کا صلہ مکمل ہوتا ہے اور یہ سارا صلہ موصول مل کر مبتدأ بھی ہے۔ (اور ’’مَنْ‘‘پر عطف ہونے سے بیانِ شرط بھی ہے) جس کی خبر (یا جواب شرط) آگے دو جملے آرہے ہیں پہلے (جواب شرط یا خبر والے) جملے کا مبتدأ [اولئک] ہے (لھذا محلاً مرفوع ہے اگرچہ مبنی ہونے کے باعث علامتِ، رفع ظاہر نہیں ہے) اور [اصحاب النار] مضاف (اصحاب) اور مضاف الیہ (النار) مل کر پورا مرکب اضافی ’’اولئکَ‘‘ کی خبر ہے اسی لیے ’’اصحاب‘‘ مرفوع ہے علامتِ رفع آخری ’’ب‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ) ہے۔ یہ پورا جملہ (اولئک اصحاب النار) ’’الذین‘‘ اور اس کے صلہ (کفروا و کذبوا بآیاتنا) کی خبر اوّل بنتی ہے۔

(۴) ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ

[ھم] ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے اور [فیھا] جار (فی) مجرور (ھا) مل کر آگے آنے والی خبر (خالدون) سے متعلق ہیں۔ [خالدون] ’’ھُم ‘‘ کی خبر (لھٰذا)مرفوع ہے علامتِ رفع آخری نون سے پہلے آنے والی واو ماقبل مرفوع (ـــــُـــــ وْ) ہے۔ اس طرح یہ جملہ اسمیہ بھی ’’الذین‘‘ والے صلہ موصول (مبتدأ) کی دوسری خبر ہے یعنی پہلی خبر (اولئک اصحاب النار) کا تتمہ ہے۔ اور یہ جملہ (ھم فیھا خلدون) ’’اصحاب‘‘ یا ’’النار‘‘ کا حال بھی ہوسکتا ہے[7]   یعنی ’’ان (اصحاب) کا یہ حال ہوگاکہ وہ اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے ‘‘یا یہ کہ ’’اس آگ کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘بامحاورہ ترجمہ کے لیے صرف ’’ھم فیھا خالدون‘‘ کا ترجمہ کافی ہے۔ ’’فیھا‘‘ کی ضمیر مؤنث ’’ھا‘‘ کا مرجع ’’النار‘‘ہے جو مؤنث سماعی ہے۔

·       اس جملے میں عام نثر کے قاعدے کے مطابق متعلق خبر (فیھا) کو خبر (خالدون) کے بعد ہونا چاہئے تھا یعنی اصل عبارت ’’ھم خالدون فیھا‘‘ ہوتی۔ مگر ’’فیھا‘‘ کی تقدیم سے ایک تو عبارت میں شعر جیسا حسن پیدا ہوگیا ہے اور ساتھ ہی معنی میں حصر کا مفہوم بھی آگیا ہے۔ اب اس جملے کا ترجمہ ’’وہ اس میں ہی ہمیشہ رہنے والے ہوں گے‘‘ہونا چاہئے۔ اور ’’فیھا‘‘ کی اس تقدیم کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اس آخری جملے (ھم فیھا خالدون)کو ’’اصحاب‘‘ کی بجائے ’’النار‘‘ ہی کا حال سمجھا جائے۔ اس وجہ سے بھی ترجمہ ’’اسی میں‘‘ہونا چاہئے۔ اکثر مترجمین نے یہاں ’’فیھا‘‘ کی تقدیم کے اس معنوی اثر کو نظر انداز کردیا ہے۔ غالباً صرف ایک مترجم (شاہ عبد القادرؒ) نے یہاں ’’اسی میں‘‘ (یعنی اس ہی میں) کے ساتھ ترجمہ کیا ہے باقی سب نے ’’اس میں‘‘ کو ہی اختیار کیا ہے۔

 

۳:۲۷:۲     الرسم

زیرِ مطالعہ دوآیات میں بھی بیشتر کلمات کا رسم عثمانی اور رسم املائی ایک جیسا ہے۔ صرف درج ذیل تین کلمات کا رسم مصحف عام املاء سے مختلف ہے۔ یعنی ’’باتینا‘‘ اصحب النار اور خالدون‘‘ــــــ تفصیل یوں ہے:۔

 (۱) کلمہ ’’باتینا‘‘ کا عام رسم املائی ’’بآ یاتنا‘‘ہے مگر رسم عثمانی کے مطابق قرآن کریم میں اسے یہاں ـــــ اور قریباً ہر جگہ ــــــ ’’ی‘‘ کے بعد والے ’’الف‘‘ کے حذف کے ساتھــــ یعنی بایتنا‘‘ لکھا جاتا ہے۔ لفظ ’’آیات‘‘ بصورت مفرد یا مرکب (مثلاً مضاف ہوکر) قرآن کریم میں کل ۲۹۵ جگہ آیا ہے۔ یہ ہر جگہ بصورت ’’ایت‘‘ (یعنی الف سے ماقبل ھمزہ (ء) اور ’’ی‘‘ کے بعد والے الف کے حذف سے) لکھا جاتا ہے ماسوائے دو مقامات (یونس:۱۵  و  ۲۱) کے کہ وہاں اثبات الالف بعد الیاء کے ساتھ (ایاتنا) لکھا جاتا ہے۔ [8] البتہ بعض علماءِ رسم نے ایک تیسری جگہ (یوسف:۷) میں بھی اثبات الف کا ذکر کیا ہے۔ اس مواضع پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 (۲) اصحب النار: کا پہلا لفظ عام عربی املاء میں ’’اصحاب‘‘ لکھا جاتا ہے مگر قرآن کریم کے اندر یہ لفظ رسم عثمانی کے اتباع میں ہر جگہ (اور یہ لفظ قرآن میں مفرد مرکب صورتوں میں ۷۸ جگہ آیا ہے) ’’بحذف الالف بعد الحاء‘‘ (اصحب) لکھا جاتا ہے۔ اس کو رسم املائی کے مطابق (اصحاب) لکھنا ( جیسا کہ ترکی، ایران اور بعض دیگر ممالک میں رواج ہوگیا ہے) رسم عثمانی یا رسم المصحف کی خلاف ورزی ہے۔

(۳) خلدون: کی عام املاء (برسم معتاد) ’’خالدون‘‘ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ یہاں اور ہر جگہ (اور قرآن میں یہ لفظ بصورت واحد) تثنیہ اور جمع مختلف تراکیب میں قریباً ۷۵ جگہ آیا ہے) ’’بحذف الالف بعد الخاء‘‘ (خلِدًا، خلَدِینَ، خلدون وغیرہ) لکھا جاتا ہے۔ اور یہ بھی رسمِ عثمانی کا متفق علیہ مسئلہ ہے۔ لہٰذا اسے باثبات الف رسم املائی کی طرح لکھنا (جیسا کہ بعض ملکوں مثلاً ایران، ترکی وغیرہ میں رواج ہوگیا ہے) رسمِ قرآنی (عثمانی) کی خلاف ورزی ہے۔

 

۴:۲۷:۲     الضبط

زیرِ مطالعہ قطعہ آیات میں کلمات کے ضبط میں اختلاف کو کسی حد تک درج ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ ’’کسی حد تک‘‘ ہم نے اس لیے کہا ہے کہ ھمزۃ الوصل اور ھمزۃ القطع کو بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے بعض اور طریقے بھی ہیں۔ جن میں سے ہم نے صرف ایک کے اختیار پر ہی اکتفاء کیا ہے اور باقی کو بخوفِ طوالت نظر انداز کر دیا ہے۔ اس موضوع پر راقم الحروف کا ایک مفصل مقالہ ’’کتابتِ مصاحف اور علم الضبط‘‘کے عنوان سے ادارہ تحقیقاتِ اسلامی (اسلام آباد) کے سہ ماہی مجلہ ’’فکر و نظر‘‘ کی اشاعت محرم۔ ربیع الاول ۱۴۰۸ھ (مطابق اکتوبر۔دسمبر۱۹۸۷ء میں (ص۷۱ تا ۱۴۸) شائع ہوا تھا جس میں مختلف ملکوں کے مصاحف سے ضبط کے پندرہ (۱۵)نمونے (عکسی فوٹو) بھی شامل ہیں۔ شائقین تفصیل کے لیے اس مقالہ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

 



[1]   عربی زبان میں حرف ’’ن‘‘ متعدد معانی پر دلالت کرتا ہے مثلاً (۱) نون ثقیلہ یا خفیفہ جو تاکید کے لیے فعل مضارع، امر اور نہی کے بعد لگتا ہے اس سے فعل کے مختلف صیغوں کی شکل میں بھی تبدیلی آتی ہے اور معنی میں بھی (۲) نون الاناث یا نون النسوۃ جو فعل ماضی کے جمع مونث غائب اور مضارع کے جمع مؤنث غائب  اور حاضر کے آخر میں آتا ہے۔ اور اس پر کسی عامل کا اثر نہیں ہوتا۔ یہی نون النسوۃ ضمائر ’’ھن‘‘، ’’کن‘‘ میں بھی آتا ہے۔ (۳) نون الوقایۃ: جو یا یٔ متکلم منصوب کے شروع میں لگتا ہے۔ جیسے ضربنی اور انّنی میں ہے۔ (۴) نون اعرابی: جو فعل مضارع کے بعض خاص صیغوں کے آخر پر یا کسی مثنی یا جمع مذکر سالم اسم کے بعد لگتا ہے اور حسب قواعد کہیں گر بھی جاتا ہے۔ (۵) نون تنوین: جو صرف تلفظ میں آتا ہے لکھنے میں نہیں آتا جیسے کتابٌ میں ـــــ  نون کی یہ تمام اقسام بعض صرفی اور نحوی قواعد سے وابستہ ہیں۔ جو حسب موقع ہمارے سامنے آتے رہیں گے۔

 

[2] مثلا القاموس الوسیط اور Lane

[3]  مثلاً المنجد۔ البستان

 [4]  مزیدبحث کے لیے دیکھئے ’’التبیان‘ للعکبری ج۱ ص۵۲ اور ’’معجم مفردات الابدال والا علال‘‘ للخرّاط ص۴۲ و مابعدھا۔ نیز دیکھیےمفردات راغب تحت مادہ۔

 

[5]   مبتدأ کے نکرہ آنے کی کچھ وجوہ یا شرائط ہوتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نفی اس پر مقدم ہو (یعنی پہلے آئے) جس سے اس میں ایک عموم کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔

 

[6]  عام عربی (غیر قرآن)میں اگر یہاں ’’لا‘‘ لنفی الجنس سمجھ کر ’’لا خوف علیھم‘‘کہیں تو بلحاظ قواعدِ زبان درست ہوگا (بلکہ ایک آدھ خارج از سبعہ قراء ت میں اس طرح پڑھا بھی گیا ہے) لائے نفی جنس سمجھا جائے تو مطلقاً ہر طرح کے خوف (دنیا کا ہو یا آخرت کا) کی نفی ہوتی۔ اب ’’خوفٌ‘‘(نکرہ مرفوع)کے ذریعے بظاہر آخرت کے خوف کی نفی ہی سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ دنیا میں ہر طرح اور ہر قسم کے خوف سے محفوظ ہونا ممکن نہیں ہے۔ اور تنکیر کی وجہ سے خوف سے مراد ’’بڑا خوف‘‘اور معمولی خوف (یعنی قلیل یا کثیر خوف)دونوں ہوسکتے ہیں۔

 

[7]  اس توجیہ کی تفصیل کے لیے دیکھئے البیان (ابن النباری) ج۱ ص۷۶۔

  [8]  المقنع (للدانی) ص ۲۰   ۔ نثر المرجان ج۱ ص ۱۳۴۔ سیر الطالبین ص ۳۶۔