سورۃ البقرہ آیت  نمبر ۴

۳:۲        وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ    ۚ   وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ  (۴)

  ۲:۳:۱ اللغۃ

        ’’وَ‘‘  ، ’’اَلَّذِیْنَ‘‘ اور ’’ یُؤْمِنُوْنَ‘‘ پر بات ہوچکی ہے۔ دیکھئے گزشتہ دو آیات (۱:۲:۲) میں

۱:۳:۲ (۱)     [بِمَا] میں باء الجر (بِ) تو فعل ’’ یُؤْمِنُوْنَ‘‘ کا صلہ ہے۔ اور ’’مَا‘‘ موصولہ ہے۔[1] بمعنی ’’جو کچھ کہ‘‘ اس طرح ’’بِمَا‘‘ کا یہاں لفظی ترجمہ ’’اس کے ساتھ جو کہ ‘‘کی بجائے اردو محاورے کے مطابق ’’اس پر جو کہ‘‘ کرنا زیادہ موزوں ہے اور اکثر مترجمین نے یہی کیا ہے۔ تاہم خیال رہے کہ عربی میں ’’ایمان لانا‘‘ کے لئے ’’آمَن عَلی…‘‘ کہنا بالکل غلط ہے۔[2]    انگریزی میں اسی ’’بِ‘‘ کا ترجمہ ’’In‘‘ کی صورت میں ہوگا یعنی ’’To believe in‘‘ یہاں withیا  at یا on   کا استعمال بالکل غلط ہوگا۔ ہر زبان کے یہ حروف جارہ یا صلات یا Prepositions یکساں استعمال نہیں ہوتے۔ عربی افعال کے ’’صلات‘‘ کا اردو ترجمہ کرتے وقت اس نکتہ کو مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔

۱:۳:۲ (۲)     [اُنْزِلَ] کا مادہ ’’ن ز ل‘‘او ر وزن ’’اُفْعِلَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد نزَل یَنزِل نُزُولًا (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہوتے ہیں: ’’اترنا‘‘، ’’نیچے آنا‘‘، ’’اترآنا‘‘، ’’نازل ہونا‘‘ یعنی یہ فعل ہمیشہ لازم ہوتا ہے۔ اگرچہ کبھیـــفعل ’’دخل‘‘کی طرح ـــ اس کا مفعول فیہ ساتھ ہی (بنفسہ) مذکور ہوتا ہے۔ اور کبھی ’’باء (بِ)‘‘ یا ’’فی‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے۔ مثلاً ’’نَزلَ المَکانَ و بِالمکانِ و فِی المکانِ‘‘ ’’…میں اترنا یا آنا‘‘ تاہم مؤخر الذکر استعمال (’’فی‘‘کے ساتھ) قرآن کریم میں نہیں آیا ہے۔ اس فعل (ثلاثی مجرد۔ نزل) سے مختلف صیغے قرآن کریم میں چھ (۶) جگہ آئے ہیں جن کی وضاحت اپنی اپنی جگہ ہوگی۔

’’اُنْزِلَ‘‘اس مادہ (نزل)سے باب افعال کا فعل ماضی مجہول (یعنی للمفعول) کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے یہ فعل ’’اَنزل…یُنزِل اِنزالًا‘‘ عموماً متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں ’’…کو نازل کرنا۔[3]   ’’…کو اتارنا‘‘ اردو محاورے میں فعل ’’اتارنا یا نازل ‘‘ کرنا کا فاعل تو ’’نے‘‘ کے ساتھ مذکور ہوتا ہے، مگر مفعول سے پہلے ’’کو‘‘ لگانا ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا۔ مثلاً کہہ سکتے ہیں ’’اس نے قرآن کو اُتارا ‘‘ یا ’’اس نے قرآن اُتارا؍نازل کیا‘‘ یہاں فعل مجہول کا ترجمہ ’’اتارا گیا‘‘ یا ’’اُتاری گئی (کتاب)‘‘ ہونا چاہئے اور اردو کے کم از کم تین مترجمین نے اسی طرح (مجہول) کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔

·       تاہم بہت سے مترجمین نے مَآ اُنْزِلَ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’جو اترا/نازل ہوا‘‘ یا ’’جو کتاب اتری/نازل ہوئی‘‘ سے کیا ہے۔ یعنی  فعل ’’متعدی مجہول‘‘ کا ترجمہ ’’لازم معروف‘‘ (نزل)کی طرح کردیا ہے۔ اسے اردو محاورے کی بنا پر مفہوم ادا کرنے کے لئے ہی درست سمجھا جاسکتا ہے۔ورنہ یہ اصل الفاظ نص(عبارت) سے ضرور ہٹا ہوا ہے کیونکہ اس میں نائب الفاعل کو(جودراصل مفعول ہوتا ہے)فاعل بنا دیاگیا ہے۔

۱:۳:۲(۳)     [الیک]یہ حرف الجر ’’إلٰی‘‘ اور ضمیر مجرور ’’ کَ‘‘ کا مرکب ہے۔ اس ترکیب میں اسے ’’اِلَاکَ‘‘ پڑھنے کی بجائے یا ئے لینہ کے ساتھ ’’اِلَیکَ‘‘ پڑھتے ہیں [دیکھئے سورۃ الفاتحہ میں ’’ عَلَیھِم‘‘ کا بیان۱:۶:۱(۳)]یہاں بھی صرف چند مترجمین نے ’’ اِلَیْکَ‘‘ کا درست لفظی ترجمہ ’’تیری /آپ کی /تمہاری /طرف‘‘ سے کیا ہے۔ بیشتر نے اس کا ترجمہ ’’آپ/تجھ/تم/پر‘‘ کر دیا ہے جو ظاہر ہے’’إِلٰی‘‘ کا نہیں بلکہ ’’ عَلٰی ‘‘ کا ترجمہ ہے۔ مفہوم درست سہی مگر اس کے لئے اصل لفظی ترجمہ سے ہٹنے کا کوئی تقاضا بھی تو موجود ہونا چاہئے۔

        [وَمَآ اُنْزِلَ]یہ پہلے (مذکور بالا) ’’ بِمَا اُنْزِلَ ‘‘ کی طرح ہے۔ یہاں بھی بیشتر مترجمین نے ’’اُنزِلَ‘‘ کا ترجمہ ’’نزَلَ‘‘ کی طرح کردیا ہے جو محاورے کی کسی سخت مجبوری کے بغیر قرآن کے الفاظ (نص) سے بظاہر تجاوز ہی بنتا ہے۔ اگرچہ اس سے مفہوم اور معنی میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔

۱:۳:۲ (۴)     [مِنْ قَبْلِكَ]یہ ’’مِن‘‘ (حرف جار بمعنی ’’سے‘‘)+ قبل (ظرف بمعنی ’’پہلے‘‘ + ’’ک‘‘ (ضمیر مجرور بمعنی ’’تجھ‘‘) کا مرکّب ہے۔ ان (تین کلمات) میں سے لفظ ’’قَبْل‘‘ کا مادہ ’’ق ب ل‘‘ اور وزن ’’ فَعْلٌ‘‘ ہے۔(اگرچہ تنوین کے ساتھ اس کا استعمال شاذ ہے)۔ یہ (ق ب ل) ایک ایسا مادہ ہے جس سے ثلاثی مجرد اور مزید فیہ کے کئی ابواب سے متعدد افعال (کے صیغے) قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم یہ فعل والی بحث توہم اس مادہ سے کسی فعل کے استعمال کے موقع پر کریں گےـــ (اور یہ موقع البقرہ:۴۸ میں پہلی دفعہ آئے گا)۔ البتہ لفظ ’’قبل‘‘ کے استعمال کے متعلق چند امور کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتاہے:۔

(۱)     لفظ ’’قَبل‘‘ کے معنی ’’پہلے‘‘(بعد کی ضد) ہیں۔ یہ لفظ ظرف ہے کیونکہ اس میں وقت یا جگہ (زمان یا مکان سابق) کے معنی موجود ہیں اور یہ عموماً مضاف ہو کر آتا ہے۔ اپنے مضاف الیہ سے پہلے یہ ہمیشہ منصوب (قبلَ) آتا ہے مثلاً ’’قبلَ الفَجر‘‘(فجر سے پہلے) یا قبلَ المسجد(مسجد سے پہلے) (۲) اور اگر اس سے پہلے کوئی حرف جار آجائے (جو عموماً ’’من‘‘لگتا ہے) تو یہ مضاف (قَبْل) مجرور ہوجاتا ہے مثلاً ’’ مِنْ قَبْلِ الْفَجْرِ‘‘(معنی وہی ’’فجر سے پہلے‘‘ہی رہے گا)۔(۳) اور اگر اس (قبل) کا مضاف الیہ مذکور نہ ہو (یعنی یہ نہ بتا یا گیا ہو کہ کس سے پہلے) تو یہ لفظ (قبلُ) مبنی برضمہ (ہر حالت میں ضمہ) (ـــــُـــــ) پر ختم ہونے والا) ہوتا ہے چاہے شروع میں حرف الجر بھی کیوں نہ ہوـــبلکہ اس صورت میں (مضاف الیہ مذکور نہ ہونے کی صورت میں) اس سے پہلے ’’مِن‘‘ ضرور آتا ہےـــمثلاً مِنْ قبلُ ـــ اس صورت میں اس کا ترجمہ ’’پہلے ہی‘‘ یا ’’پہلے بھی‘‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔

·       لفظ ’’قبْل‘‘ کے استعمال کی یہ تینوں (مذکورہ بالا) صورتیں قرآنِ کریم میں بکثرت (کل ۸۲۴۴ دفعہ) استعمال ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ عربی زبان میں کبھیـــ خاص شرائط کے ساتھـــ یہ لفظ تنوین نصب کے ساتھ یعنی ’’ قَبلًا ‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اس کا یہ استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا ـــ اردو میں چونکہ لفظ ’’قبل‘‘ اپنے عربی معنی (بعد کی ضد) میں مستعمل ہے مثلا ’’قبلِ ظہر‘‘ یا ’’قبل از وقت‘‘ میں ـــ اس لیے ’’مِنْ قَبْلِکَ‘‘ کا ترجمہ ’’آپ سے قبل‘‘ اس اصول کی بنا پرزیادہ مناسب ہے کہ ’’اگر قرآن کریم کا کوئی لفظ اردو میں اپنے اصل معنوں کے ساتھ مستعمل اور متعارف ہو یا بلحاظ اشتقاق اس (قرآنی لفظ)سے قریب تر لفظ موجود ہو تو اس کا اردو ترجمہ اسی لفظ کے ساتھ کرنا زیادہ موزوں اور بہتر ہے‘‘۔ تاہم عوام کے لئے شاید ’’قبل‘‘ کی بجائے ’’پہلے‘‘ کا لفظ زیادہ سہل اور زیادہ مانوس ہے۔

۱:۳:۲ (۵)     [وَبِالْاٰخِرَةِ]دراصل ’’وَ‘‘ (واو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘) +بِ (باء الجربمعنی ’’کے ساتھ؍پر‘‘) +الاخرۃ (جس کے معنی ابھی بیان ہونگے) کا مرکب ہے۔ ’’الاٰخرۃ‘‘ کا لامِ تعریف ہٹادیں تو اصل لفظ ’’آخرۃ‘‘ نکل آتا ہے۔ (یہ لفظ عام عربی املاء(رسم معتاد)ـــ بلکہ اردو میں بھی اسی طرح ’’ آ ‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اس کے قرآنی ضبط پربات ابھی آگے ’’الضبط‘‘ کی بحث میں ہوگی) ۔ اس لفظ (آخرۃ) کا مادہ ’’أخ ر‘‘اور وزن ’’فاعِلَۃٌ‘‘ہے۔ یہ ’’ آ ‘‘ دراصل ئَ+ا=’’فَا‘‘ ہے یعنی یہ ’’الف‘‘بِنائی (اشتقاق کا) ہے کسی ’’و‘‘ یا ’’ ی‘‘ سے بدل کر نہیں بنا۔

·       اس مادہ (أخر) سے فعل ثلاثی مجرد عربی میں استعمال ہی نہیں ہوتا۔ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل، تفعّل اور استفعال) سے بعض افعال اور کچھ دیگرمشتقات قرآن کریم میں آئے ہیں جن کابیان اپنی اپنی جگہ پر آئے گا۔ ’’آخرۃ‘‘ اپنے وزن کے لحاظ سے مادہ ’’أ خ ر‘‘سے اسم الفاعل (آخِرٌ) کا صیغۂ تانیث ہے۔ یہ لفظ اس لحا ظ سے قابلِ توجہ ہے کہ اسم الفاعل (بروزن ’’فاعل‘‘) تو ہمیشہ فعل ثلاثی مجرد ہی سے آتا ہے اور اس مادہ (أخ ر)سے فعل ثلاثی مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا جس کے معنی ’’پیچھے یا اخیر پر آنا‘‘ ہوں۔ تاہم اس کے اسم الفاعل میں یہی معنی موجود ہیں۔ یعنی اس کے اس صیغہ تانیث کے معنی ہیں ’’اخیر پر؍پیچھے آنے والی‘‘ چونکہ اردو میں لفظ ’’آخر‘‘ (بمقابلہ اول) اپنے عربی معنوں میں مستعمل ہے۔ اس لئے ’’آخرۃ‘‘  کا ترجمہ ’’(سب سے) آخر پر آنے والی‘‘ بمقابلہ اُولٰی) بھی کیا جاسکتا ہے۔

·       اپنے معنی کے لحاظ سے لفظ ’’الآخرۃ‘‘ صفت (نعت) ہے۔ اس لئے یہاں ایک موصوف محذوف یا مقدر (Understood) ہے۔ یعنی ’’اَلدارُ الاٰخِرۃ‘‘ یا ’’اَلحیاۃُ الآخرۃ‘‘ یا ’’النَشأۃ الآخِرۃ‘‘ (آخری پیدائش) یعنی مرنے کے بعد آنے والی زندگی۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ہر جگہ معرّف باللام ہی آیا ہے۔ جس میں ’’لام‘‘ عہد کا ہے یعنی وہ آخری زندگی جس پرایمان لانا دین اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور جس کا ذکر (قرآن کریم میں) بار بار آیا ہے۔

·       اور اپنے ان (مذکورہ بالا) معنوں کے لحاظ سے یہ لفظ’’الآخرۃ‘‘ ایک اسلامی اصطلاح ہے جو اسلام نے عربی زبان کو دی ہے اور جس کے مفہوم اور معنی کی قرآن کریم نے تفصیل اور تکرار کے ساتھ وضاحت کردی ہے۔ [اور ’’آخرۃ‘‘ کے ان معنوں کو کفارِ مکہ بھی سمجھتے تھے اور اسی لئے وہ (ان معنوں کے لحاظ سے ہی) آخرت کا انکار کرتے تھے یعنی آخرت کی زندگی۔ مرنے کے بعد آنے والی زندگی کے ہی تو وہ منکر تھے] اور اپنے ان ہی اسلامی اصطلاحی معنوں میں یہ لفظ اردو، فارسی اور ترکی میں ’’آخرت‘‘ کی املاء کے ساتھ مستعمل ہے۔ اور بہت سی اسلامی زبانوں میں اس کا لفظی ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اور یہی وجہ ہے کہ اردو فارسی کے تمام مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’آخرت‘‘ ہی کیا ہے۔

·       قرآن کریم میں لفظ الْاٰخِرَةِ ایک سو پندرہ (۱۱۵) جگہ آیا ہے۔ مفرد بھی اور ترکیب تو صیفی یا اضافی کے ساتھ بھی اور قریباً ہر جگہ اس کے یہی اصطلاحی اسلامی معنی مراد ہیں۔ ماسوائے ایک دومقام کے جہاں سیاقِ کلام اصطلاحی کی بجائے لفظی معنوں کا تقاضا کرتا ہے۔

        مثلاً ایک جگہ (ص:۷)پر ’’ الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ ‘‘ (آخری ملت) کی ترکیب آئی ہے اور دوسری جگہ (الاسراء :۱۰۴) پر ’’وَعْدُ الْاٰخِرَةِ ‘‘ کی ترکیب آئی ہے جس میں لفظی اور اصطلاحی دونوں معنی کی گنجائش موجود ہے۔ ان کی وضاحت تو اپنی اپنی جگہ پر ہی کی جائے گی یہاں ’’الآخرۃ‘‘ کے اصطلاحی معنی کے ’’اسلامی مسلمات‘‘ میں ہونے کی یہ تفصیلی بات ہمیں اس لئے کرنا پڑی کہ بعض گمراہوں نے اپنی اغراض کے لئے اس لفظ ’’آخرۃ‘‘ کو من مانے معنی پہنانے کی کوشش کی ہے اور وہ بھی قرآن کے حوالے سے (گویا بظاہر انہوں نے قرآن ہی کا ’’مفہوم‘‘سمجھنے یا سمجھانے کا ’’فریضہ‘‘سر انجام دیا ہے)ـــقادیانیوں اور منکرین سنت نے اپنی اپنی اغراض کے لئے یہاں (آیت زیر مطالعہ میں اور بعض دیگر مقامات پر بھی) ’’آخرت کی اسلامی اصطلاح کے استعمال سے گریز کیا ہے۔ قادیانیوں نے تو یہاں ’’آئندہ ہونے والی (موعود)باتیں ‘‘مراد لی ہیں۔ جس میں تعلیماتِ قرآن و اسلام سے بغاوت کے علاوہ لُغت و اشتقاق کے لحاظ سے بھی ’’پھسڈّی پن‘‘ بلکہ ’’باطنیت‘‘ نمایاں ہے۔ منکرینِ سنت نے اس (آخرت) کے لئے ’’نئی زندگی‘‘ اور ’’مستقبل‘‘ کے ذومعنی لفظ اختیار کئے ہیںـــ  اسلامی اصطلاحات سے اس فرار کا محرکات اور مضمرات کو جاننے کے لئے ’’دس من عقل‘‘درکار نہیں ہے۔

·       اور لفظ’’بِالْاٰخِرَةِ ‘‘ میں باء الجر (بِ) اسے آگے آنے والے فعل ’’يُوْقِنُوْنَ‘‘ سے متعلق کرتی ہے یا اس فعل کے صلہ کے طور پر آئی ہے۔

۱:۳:۲ (۶ )     [ھُمْ يُوْقِنُوْنَ]میں ’’ھُمْ‘‘ تو جمع مذکر غائب کی ضمیر ہے بمعنی ’’وہ (سب)‘‘ اور ’’يُوْقِنُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ی ق ن‘‘اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُوْن‘‘ہے اس کی اصلی شکل بلحاظ وزن ’’یُیْقِنُوْن‘‘ ہے۔ جس میں تعلیل صرفی کے قاعدہ [یائے ساکنہ ماقبل مضموم واو میں بدل جاتی ہے] کی بنا پرـــیا اہلِ عرب کے نطق کے مطابقـــ ساکن یاء کو ’’واو‘‘ میں بدل دیا گیا ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’یقِن یَیْقَن یَقْنًا (باب سمع سے)‘‘ آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’واضح اور ثابت ہونا‘‘ یعنی یہ فعل لازم ہے۔ اور اسی سے لفظ ’’یقین‘‘بر وزن فَعِیْل بمعنی فاعل آتا ہے یعنی ’’واضح اور ثابت ہونے والی چیز‘‘ـــ اور اسی ثلاثی مجرد سے کبھی صلہ کے بغیر اور کبھی ’’بِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ یہی فعل بطور متعدی بھی آتاہے۔ مثلاً ’’یَقِن الامرَ وبالامرِ‘‘کے معنی ہیں: ’’…کا یقین رکھنا‘‘، ’’…کو یقینی (قطعی)جاننا‘‘،  ’’کے بارے میں کوئی شک نہ ہونا‘‘ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (یقن) سے کوئی فعل ثلاثی مجرد کسی معنی میں کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (مثلاً افعال اور استفعال) سے کچھ افعال اور بعض مشتقات آئے ہیں جن کا بیان اپنی اپنی جگہ پر آئے گا۔

·        ’’یُوقِنُوْنَ‘‘اپنے وزن کے اعتبار سے اس مادہ (یقن) سے باب ’’افعال‘‘ کے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اَیْقَنیُوقِن (دراصل یُیْقِنُ) ایقانا ًکے معنی بھی ’’…کا یقین رکھنا‘‘ اور ’’…کو یقینی (قطعی)جاننا‘‘ ہیں۔ یعنی یہ فعل متعدی ہی ہوتا ہے۔ البتہ کبھی صلہ کے بغیر اور کبھی ’’با‘‘ (بِ)کے صلہ کے ساتھ آتا ہے یعنی ’’اَیقن الامر و بالامرِ‘‘ قرآن کریم میں یہ فعل (اَیقن) عموماً ’’بِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ ہی آیا ہے (پانچ جگہ)ـــ مفعول بنفسہ کے ساتھ کہیں نہیں آیا۔ البتہ بعض مقامات پر ( کل چھ جگہ) مفعول کو محذوف کر دیا گیا ہے جو عبارت میں خود بخود سمجھا جاتاہے۔ اس کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

۲:۳:۲     الاعراب

      [وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاَخِرۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ]

        یہ آیت (نمبر۴) جو کل دو جملوں پر مشتمل ہے سابقہ آیت (نمبر ۳) پر معطوف ہے۔ چاہے اسے ’’اَلمُتّقِین‘‘ (آیت نمبر۲) کا بدل یا صفت قرار دیں یا الگ جملہ مانیں جس کی خبر اگلی آیت (نمبر۵) بنتی ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں (والذین) میں واو عاطفہ (بمعنی’’اور‘‘) ہے اور ’’الذین‘‘ اسم موصول (جمع مذکر) ہے۔ اس (والذین سے شروع ہونے والے جملے) کا عطف بہر حال پچھلی آیت (نمبر۳) میں الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ ‘‘ سے شروع ہونے والے جملے پر ہےـــخود وہ جملہ چاہے الگ جملہ سمجھا جائے یا ’ ’’اَلمُتقِین‘‘ ‘‘ (آیت نمبر۲) کی صفت یا اس کا بدل سمجھا جائے (اس ’’الذین‘‘ (آیت نمبر۳) کے تین ممکن اعراب کی بات بھی پہلے ہوچکی ہے) [دیکھئے ۲:۲:۲]

·       یُؤْمِنُوْنَ…سے لے کر …یُوقِنُوْنَ تک دراصل دو جملے بنتے ہیں اور یہ دونوں جملے اس (ابتدا آیت میں آنے والے) ’’والذین‘‘کا صلہ بنتے ہیں اور اس ’’صلہ‘‘ کا نحوی یا اعرابی تجزیہ اس طرح ہے:

[یُؤْمِنُوْنَ]فعل مضارع مع ضمیر فاعل مستتر ’’ھم‘‘ہے اور [بما] جار مجرور (بِ+ما) ہے جس میں ’’ما‘‘ موصولہ ہے اور یہ جار مجرور فعل ’’یومنون‘‘ سے متعلق ہیں۔ یا ’’ب‘‘ اس فعل کا صلہ ہے۔ ترجمہ ہوگا ’’ایمان رکھتے ہیں /لائے ہیں اس پر جوکہ ‘‘ (اُنْزِلَ) فعل ماضی مجہول ہے جس میں نائب الفاعل ضمیر ’’ھو‘‘ مستتر (پوشیدہ) ہے۔ جس کا مرجع یہی اسم موصول ’’ما‘‘ہے جس کا ترجمہ ’’جو کہ اتارا گیا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ اور اگر ’’ما‘‘کے عموم کو مد نظر رکھیں تو ’’جو کچھ بھی کہ اتارا گیا‘‘ کرسکتے ہیں [اِلَیْکَ]جار مجرور (الی+ک) فعل ’’اُنزل‘‘سے متعلق ہے۔ اس طرح یہ پورا حصہ آیت بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ‘‘ فعل ’’ يُؤْمِنُوْنَ‘‘سے متعلق بھی ہوسکتا ہے یعنی اس میں اُن کے ایمان لانے کی وضاحت ہے کہ کس پر ایمان لائے؟۔ اور اگر ’’بما‘‘ کی ’’بِ‘‘ کو یومنون کا صلہ سمجھیں (کیونکہ ’’ایمان لانا‘‘کے معنوں میں یہ اس صلہ کے ساتھ ہی آتا ہے) تو بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ‘‘ کو مفعول سمجھ کر محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔ بہر حال اس (ترکیب کے فرق) سے اردو ترجمہ میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ’’یعنی يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ=وہ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو کچھ بھی کہ اتارا گیا تیری طرف‘‘

·       [وَ] عاطفہ [مَا] موصولہ جو پہلے والے مَا پر معطوف ہے گویا دراصل یہ بھی ’’بِما‘‘ ہے۔ (اُنْزِلَ) مثل سابق فعل ماضی مجہول مع ضمیر نائب الفاعل’’ھو‘‘ برائے ’’ما‘‘ہے اور (من) حرف جار اور (قبلک) مرکب اضافی ہے جس میں ’’قبل‘‘ مجرور بالجّر (من) مضاف ہے اور ’’ک‘‘ ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے۔ اس طرح یہ حصہ آیت ’’وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ‘‘ فعل ’’ يُؤْمِنُوْنَ‘‘ کے مفعول (یا متعلق فعل)  پر معطوف ہے یعنی ’’وہ ایمان رکھتے ہیں ‘‘  مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ ‘‘ (جو کچھ بھی اتارا گیا تیری طرف) پر اور ’’مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ‘‘ (جو کچھ اتارا گیا تجھ سے پہلے)پر‘‘ـــ [وَبِالْاٰخِرَۃ] میں واو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور ’’ بالاخرۃ‘‘جار مجرور (بِ+ الاخرۃ) ہے اور فعل ’’ يُوْقِنُوْنَ‘‘ (جو آگے آرہا ہے) سے متعلق ہے یا اگر ’’باء‘‘ (بِ) کو یہاں بھی اس فعل کا صلہ قرار دیں تو مفعول بن کر محلاً منصوب بھی ہوسکتا ہے۔ (ھُمْ) ضمیر مرفوع منفصل یہاں مبتدأ ہے اور (يُوْقِنُوْنَ) فعل مضارع معروف جمع مذکر مطابق مبتدأ ـــ  مع ضمیر فاعل مستتر (ھم) جملہ فعلیہ ہو کر ’’ھم‘‘ کی خبر ہے گویا آیت کے اس آخری حصہ کی سادہ نثر (Paraphrasing) یوں بنتی ہے ’’و ھُمْ يُوْقِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ(وہ یقین رکھتے ہیں آخرت پر) مگر فواصل (آیت کا آخری لفظ) کی رعایت سے الفاظ کی تقدیم و تاخیر ہوئی ہےـــکلمات کی یہ تقدیم و تاخیر ایک ادبی حسن بھی پیدا کرتی ہے اور کسی خاص لفظ کے معنی پرزور اور تاکیدکو بھی ظاہر کرتی ہے۔ مثلاً یا  ’’ْبِالْاٰخِرَةِ‘‘ کے پہلے لانے سے ایک طرح سے ’’خصوصا ً  آخرت پر ‘‘ یا ’’آخرت پر بھی‘‘ کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔چنانچہ اکثر مترجمین نے یہاں بِالْاٰخِرَةِکا ترجمہ ’’آخرت پر بھی‘‘ یا ’’آخرت کا بھی‘‘ اور ’’یوقنون‘‘ کا مصدری ترجمہ ’’پورا یقین رکھنا، یقین جاننا، یقینی جاننا یا یقین کرنا‘‘ سے کیا ہے جو سب ہم معنی ہیں۔

 

۲:۳:۲       الرسم

      وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاَخِرۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ

        اس پوری آیت (نمبر ۴) میں رسم عثمانی کا کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی املاء عام قیاسی املاء ہی ہے البتہ لفظبِالْاٰخِرَةِکے بارے میں چند صورتیں قابل ذکر ہیں:۔

·       اسے لکھتے وقت ’’بِ‘‘کو ہمزۃ الوصل کے ساتھ ملاکر لکھتے ہیں (بالغیب کی طرح) اور لفظ ’’آخرۃ‘‘ (اور اس قسم کے دوسرے الفاظ میں بھی) قاعدہ املاء یہ ہے کہـــجب ہمزۃ القطع (مفتوحہ) کے بعد ’’الف‘‘ آئے تو لکھنے میں ایک کو حذف کر دیا جاتا ہے اگرچہ پڑھا جاتاہے یعنی’’ءَا‘‘کو صرف ،،ا،، لکھا جاتا ہے۔[4] اس طرح مکتوبی صورت میں یہ لفظ ’’اخرۃ‘‘ ہی رہ جاتا ہے جسے لام تعریف کے ساتھ ملا کر لکھنے سے یہ لفظ ’’الاخرۃ‘‘ کی شکل اختیار کرتا ہے۔

·       مگر ’’لام‘‘ کے بعد آنے والایہ الف یہاں اس ’’لام‘‘ کو مد نہیں دیتا یعنی اسے ’’لا‘‘ نہیں پڑھا جاتا کیونکہ یہ لام مفتوح نہیں بلکہ ساکن ہے۔ البتہ یہ ’’الف‘‘ اپنے سے پہلے والے (محذوف) ہمزہ القطع کو مد دیتا ہے یعنی اسے ’’ءَا‘‘ پڑھا جاتا ہے جسے عام عربی املاء میں ’’آ‘‘ لکھتے ہیں۔ (اس کے ’’ضبط‘‘ پر بات آگے آرہی ہے)۔

·       اس سے پہلے ’’يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ ‘‘ کے رسم کی بحث میں بھی ہم مختصراً  لکھ آئے ہیں کہ اصل رسم عثمانی میں (یعنی مصاحف عثمانیہ میں) بلکہ اس زمانے (عہد ِراشدین تک) کی عام عربی تحریر میں بھی ہمزہ کے لئے کوئی علامت یا صورت مقرر نہیں تھی۔ البتہ کسی کلمہ کی ابتداء میں آنے کی صورت میں اسے بصورت ’’الف‘‘ (ا) ہی لکھا جاتاہےـــ (اور ا ب بھی اسی طرح لکھا جاتا ہے) چاہے وہ ہمزۃ الوصل ہوتا یا  ھمزۃالقطع یا ھمزہ ممدودہ ہوتا جیسے ’’ الَّذِيْنَ‘‘، ’’ اَنْعَمْتَ‘‘ یا  ادم (آدم) میںـــکسی کلمہ کے درمیان یا آخر پر آنے والے ہمزہ کے لئے (جو قطع کا ہی ہوتا ہے)قطعاً کوئی تحریری علامت نہیں ہوتی تھی۔ مثلاً  ’’ أَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَائِ ھٰؤُالَائِ‘‘ (البقرۃ:۳۱) کو ’’(# )‘‘کی شکل میں لکھا گیا تھا۔ یعنی اس میں حروف کے نقطے بھی نہیں تھے۔ علامت ضبط (حرکات، سکون، شد وغیرہ) بھی نہیں تھیں اور ہمزہ کے لئے بھی سرے سے کوئی علامت نہیں تھی۔ اس زمانے میں لوگ اپنی زبان دانی کی بناء پرـــ  اور اس وجہ سے بھی کہ قرآن کریم کا پڑھنا محض کتابت یا تحریر پر منحصر نہ تھا ـــ  بلکہ ہر کلمہ استاد سے زبانی سُن کر (بذریعہ تلقی و سماع) سیکھا جاتا تھا  ـــ اس کی بناء پر کلمات کو اس طرح ٹھیک پڑھ لیتے تھے جیسے ہم انگریزی میں read, cut, put کی قسم کے لفظوں کا درست تلفظ املاء(spelling) کی بناء پر نہیں بلکہ استاد کی زبانی تعلیم کی بناء پر جان لیتے ہیں۔

·       بعد میں جب غیر عربوں کیلئے اعجام (مشابہ حروف کو نقطوں سے متمیّز کرنا جیسے ب، ت ، ث وغیرہ) اور ضبط (حروف پر حرکات ڈال کر ان کی آواز یا تلفظ متعین کرنا جیسے ’’مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ‘‘ میں حرکاتِ ثلاثہ، سکون اور شد جمع ہیں) ایجاد کئے گئے تو ہمزہ کے لئے بھی علامت مقرر کرنے کی ضرورت پڑی۔ چنانچہ مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں اس کے لئے مختلف علامات کا رواج ہوگیا۔ مثلا آج کل مختلف ملکوں میں اس کی رائج صورتیں عموما ً مختلف#   ہیں۔  بڑے گول نقطے کی صورت میں ہمزۃ الوصل کےلئے سبز گول نقطہ اور ہمزۃ القطع کے لئے زرد گول نقطہ اختیار کیا جاتا تھا ـــ  اس کے بعد پڑھنے  کے لئے ہمزہ کی صورت پر علاماتِ ضبط ڈالی جانے لگیں۔ جن کا طریقہ (بعض دفعہ) قرآنی املاء کے لئے جُدا اور عام عربی املاء کے لئے جُدا ہے۔ مثلاً اسی ھمزہ مفتوحہ +الف کو عام عربی املاء میں ’’آ‘‘ لکھتے ہیں مگرقرآن کریم میں اُسے عرب اور افریقی ممالک میں #  مخلتف شکل میں لکھتے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں اسے عموماً مختلف شکل میں#  لکھتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت (خصوصا اسی لفظ ’’بالاخرۃ‘‘ کے ضمن میں) آگے ’’الضبط‘‘ والی بحث کے تحت آئے گی۔

 

۴:۳:۲:     الضبط

      وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاَخِرۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ

        آیت زیر مطالعہ میں اختلافِ ضبط میں حسبِ ذیل امور توجہ طلب ہیں:۔

(۱)     ہمزۃ الوصل کی علامت ڈالنے نہ ڈالنے اور ڈالنے کی صورت میں اس کی شکل کا اختلاف اس اختلاف کا اثرکلمات ’’الذین‘‘ اور ’’بالاخرۃ‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۲)    ہمزۃ القطع کی علامت (قطع) ڈالنے نہ ڈالنے اور ڈالنے کی صورت میں اس کی شکل کا فرق۔ ابتدائی ہمزۃ القطع (بصورت الف) پر علامتِ قطع ڈالنے کا رواج صرف عرب اور افریقی ملکوں میں ہے۔ وسطی یا آخری ہمزہ پر علامتِ قطع ہر ملک کے مصاحف میں ڈالی جاتی ہے البتہ اس کی شکل مختلف ہوتی ہے اس اختلاف کا اثر کلمات ’’ یؤْمِنُون‘‘، ’’اُنزِل‘‘ اور ’’اِلَیکَ‘‘ میں ظاہر ہوگا۔

(۳)    واو ساکنہ ماقبل مضموم پر علامت ِ سکون صرف بر صغیر میں ڈالی جاتی ہے۔ اس اختلاف کا مظہر’’ یُؤْمِنُوْنَ ‘‘ اور’ یُوْقِنُوْنَ‘‘ کا طریق ضبط ہوگا۔

(۴)    یائے ساکنہ ماقبل مکسور پر علامت ِ سکون صرف بر صغیر میں ڈالی جاتی ہے اور اس کے ماقبل مکسور کی علامت ِ کسرہ کی بجائے علامت ِ اشباع (کھڑی زیر) صرف ایران اور ترکی میں ڈالتے ہیں۔ اس کا اثر یہاں صرف کلمہ ’’ الَّذِيْنَ‘‘ کے ضبط پر ہوگا۔

(۵)    الف ساکنہ ماقبل مفتوح کے اس ماقبل حرف پر علامت ِ فتحہ کی بجائے علامت ِ اشباع بصورت کھڑی زبر (ــــــٰــــ) ڈالنے کا رواج صرف ایران میں ہے۔ اس کا نمونہ کلماتِ ’’بِما‘‘ اور ’’ما‘‘ میں نظر آئے گا۔

(۶)    نون ساکنہ مخفاۃ (ساکن نون جس کے بعد کوئی حرف اخفاء ہو) پر علامت سکون ڈالنے نہ ڈالنے کا فرق۔ عرب اور افریقی ملکوں میں ایسے نون کی علامتِ سکون سے خالی رکھا جاتا ہے۔ تمام مشرقی ممالک میں یہ علامتِ سکون ڈالی جاتی ہے۔ البتہ بعض جگہ اخفاء کے لئے کوئی اور علامت ساتھ بنا دی جاتی ہے۔ مثلاً چین میں ایسے نون ساکنہ کی علامت سکون کے اوپر تین باریک نقطے ڈال دیتے ہیں۔ پاکستانی تجویدی قرآن میں اس کے لئے ایک خاص علامت ِ سکون # تجویز کی گئی ہے۔ اس اختلاف کا اثر آیتِ زیر مطالعہ کے کلمات ’’ اُنْزِلَ‘‘ اور مِنْ قَبْلِكَ‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۷)    نون متطرفہ (کسی کلمہ کے آخر میں آنے والے ’’ن‘‘) کو اعجام (نقطے) سے خالی رکھنایا اس کے موضع (جگہ) کا فرق۔ یہ بات صرف افریقی ممالک کے مصاحف میں ملحوظ رکھی جاتی ہے۔ اس اختلاف کا اثر کلمات ’’ الَّذِيْنَ‘‘،یُؤْمِنُوْنَ ‘‘ اور’ یُوْقِنُوْنَ‘‘ میں ظاہر ہوگا۔

(۸)    افریقی ممالک میں ’’ ف ‘‘ اور ’’ ق‘‘  کو لکھنے کا فرق#۔اس کا نمونہ آپ ’’قبلک ‘‘ اور ’’یوقنون‘‘ میں دیکھیں گے۔

(۹)     علامت قلقلہ ڈالنے کارواج کسی ملک میں نہیں ہے ۔صرف پاکستانی ’’ تجویدی قرآن ‘‘ میں اس کے لیے ایک خاص علامت سکون‘‘۸‘‘ وضع کی گئی ہے جہاں اس کو لفظ’’قبلک‘‘کی ،با،پر استعمال کیاگیا ہے۔      

(۱۰)    آیت زیر مطالعہ میں لفظ،بالاخرۃ،کے ضبط کے سلسلے میں دو تین امور قابل ذکر ہیں۔(۱)،ب،،کے ساتھ والا الف دراصل ھمزۃ الوصل ہے لہذا جن ملکوں میں علامت وصل (#)ڈالنے کا رواج ہے ان میں آپ کو اس الف پر علامت وصل(#) لکھی نظر آئے گی۔(۲)۔سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ  (#)کے بارے میں علمائے ضبط میں یہ اختلاف  ہوا کہ اس کا کون سا سرا ’’ل‘‘ہے اور کون سا’’ا‘‘ (الف) ہے۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ اہل مغرب(اندلس اور افریقی ممالک )تو  (#)اس کےپہلے سرے کو،الف،اور دوسرے سرے کو’’ل‘‘سمجھتے ہیں ۔[5] اور اہل مشرق اس کے برعکس پہلے سرے کو’’ل‘‘ اور دوسرے سرےکو ’’الف ‘‘سمجھتے ہیں ۔# (۳)ابھی بیان ہوچکا ہے کہ ’’ء+ا‘‘جمع ہونے کی صورت میں صرف’’ا‘‘لکھا جاتا ہے مگراسے پڑھنے کے لیے محذوف ھمزہ مفتوحہ کو ضبط کے مختلف طریقوں سے ظاہر کیاجاتا ہے۔(#)’’بالاخرۃ،،کے لام کے بعد آنے والے’’ا‘‘(الف) کی تعیین کے فرق کی وجہ سے ـــ (کیوں کہ رسم تو ہرصورت میں وہی’’بالاخرۃ‘‘ ہی ہے)ـــ اسے پڑھنے کے لیے علامت ضبط مختلف طریقے پر لگتی ہیں۔۔مزید یہ کہـــ جیساکہ ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔

"اخرۃ"کے الف سے پہلے ھمزہ مفتوحہ ظاہر کرنے کے طریقے بھی مختلف ہیں ۔مشرقی ممالک میں اسے(#)سے ظاہر کرتے ہیں۔عرب ملکوں میں "ءَا"سے اور افریقی ملکوں میں اسے #کی صور ت میں لکھتے ہیں(oسے مراد زردرنگ کاگول نقطہ ہے) عام عربی املاء میں اسے "آ"لکھتے ہیں۔اس اختلاف کی وجہ سے مشرقی ممالک مصاحف میں "بِالْاٰخِرَۃِ"لکھتے ہیں ۔عرب ممالک کے مصاحف میں(#) اور افریقی مصاحف میں (# )لکھتے ہیں جب کہ عام عربی املاء میں اسے "بِالْآخِرَۃِ"لکھا جاتا ہے۔

 

·       اس طرح مجموعی طور پر آیت زیر مطالعہ کے کلمات کے ضبط کی مندرجہ ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں:۔


 



[1]     ’’مَا‘‘ کے مختلف استعمالات کی بحث پہلے گزر چکی ہے۔ دیکھئے ۱:۲:۲ (۵)

[2]   فعل ’’آمن‘‘ اور اس کے صلہ کی بحث بھی پہلے ہو چکی ہے۔ دیکھئے ۲:۲ ۱:(۱)

[3]   ا س لفظ ’’نازل‘‘ کے اصل معنی تو ہیں ’’نازل ہونے والا۔ اترنے والا‘‘ تاہم اردو میں ’’نازل ہونا یا کرنا‘‘  ’’اترنا یا اتارنا‘‘ کے معنوں میں مستعمل ہے۔

[4]    اور علماء رسم نے یہاں یہ دلچسپ بحث بھی کی ہے کہ یہاں محذوف پہلا ہمزہ (مفتوحہ) ہے۔ یا دوسرا (الف) ہے بہر حال یہ صرف علمی بحث ہے اصل املاء پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چاہیں تو مزید بحث کے لیے دیکھئے نثر المرجان ج۱ ص۱۰۲۔

 

 [5] اس پر بحث کے لیے چاہیں تو دیکھئے المحکم للدرنی ص۱۹۷ببعد