سورۃ البقرہ آیت نمبر ۴۰  اور ۴۱

 ۲۸:۲     يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ   ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ  (۴۰)  وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ    ۠   وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا  وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ   (۴۱)

۱:۲۸:۲       اللغۃ

۱:۲۸:۲ (۱)     [یٰبَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ[جسے عام رسم املائی میں’’یا بنی اسرائیل‘‘ لکھا جاتا ہے۔ یہ تین کلمات ’’یا‘‘، ’’بنی‘‘ اور’’اسرائیل‘‘  کا مرکب ہے۔ اس میں ’’یا‘‘  تو نِداء کا ہے جس کا عام اردو ترجمہ ’’اے‘‘  ہے۔ عربی حروفِ نداء اور ان کے استعمال پر البقرہ: ۲۱ یعنی ۱:۱۶:۲ (۱) میں مفصل بات ہوئی تھی۔

·       ’’ بَنِیْ‘‘   دراصل ’’بنینَ‘‘  تھا مگر آگے مضاف ہونے کے باعث آخری نون (اعرابی) گر کر ’’ بنِیْ‘‘ رہ گیا ہے اور یہ’’بنین‘‘بھی در اصل ’’بَنُوْنَ‘‘ کی حالت نصب ہے (جس کی وجہ ‘‘الاعراب’’ میں بیان ہوگی) اور ’’ بَنُوْنَ‘‘ لفظ ’’اِبنٌ‘‘کی جمع مذکر سالم ہے [جو صحیح معنوں میں تو جمع سالم نہیں ورنہ ’’ اِبْنُونَ‘‘ ہوتی۔ تاہم آخر کی اعرابی علامت ’’ ـــــُـــــ  وْن‘‘ یا ’’ ـــــِــــ یْنِ‘‘ کی وجہ سے یہ بھی جمع سالم ہی شمار ہوتی ہے]۔

·       لفظ ‘‘اِبْنٌ’’کا مادہ’’ب ن ی‘‘ ہے۔ اگرچہ بعض نے اس کا مادہ’’ ب ن و ‘‘ قرار دیا ہے ۔ [1] اس کی اصلی شکل ’’ بَنَوٌ‘‘ یا’’ بَنَیٌ‘‘  بروزن ’’ فَعَلٌ ‘‘تھی پھر آخری’’یَاء‘‘ یا  ’’واو ‘‘ کو ثقیل سمجھ کر گرا دیا گیا۔ اور اس کے عوض شروع میں ھمزۃ الوصل لگا دیا گیا (جو بصورت وصل تلفظ سے ساقط ہو جاتا ہے)۔ اسی قسم کا عمل لفظ ’’اسمٌ‘‘ میں بھی ہوا ہے۔ دیکھئے سورۃ الفاتحہ میں بحث بسم اللہ [۱:۱:۱ (۱)] اور اس (ابنٌ) کی جمع سالم ’’ بَنُوْنَ ‘‘آنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ دراصل لفظ’’بَنَوٌ‘‘ (یا  بَنیٌ) سے جمع سالم ’’ بَنَوُوْنَ‘‘(یا  بَنَیُوْنَ) ہے جس میں خلاف قیاس ’’و‘‘ یا  ’’ ی ‘‘ کا ضمہ (ہے) ماقبل (متحرک) کو دے کر اس (’’واو‘‘ یا    ’’یاء ‘‘  کو حذف کردیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اصل ’’ بَنْوٌ‘‘ یا ’’  بَنْیٌ‘‘ بروزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہو تو پھر اس سے جمع سالم’’ بنیُون‘‘ یا ’’  بَنْوُون‘‘ قاعدہ قیاس کے مطابق’’  بَنُون‘‘ ہی بن جاتی ہے۔

·       اس لفظ (ابن) کی جمع مکسر ’’ابناءٌ‘‘  بروزن ’’اَفْعَالٌ‘‘ ہے۔ (جس کی اصلی شکل ’’ابناوٌ  یا   ابنایٌ ‘‘ تھی پھر الف ممدودہ کے بعد آنے والی’’و‘‘ یا ’’ ی‘‘  کو ’’ ء‘‘ میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے)۔ بعض اہلِ علم اس جمع مکسر (ابناء) کو جمع مکسر کے اوزان اور ان کے بعض قواعد کی بناء پر اس لفظ کا مادہ ’’ب ن و ‘‘ ہونے کی (اور اصل لفظ کے’’بَنَوٌ‘‘ بروزن ‘‘فَعَلٌ’’ ہونے کی دلیل بتاتے ہیں۔ [2]

·       اس مادہ (ب ن ی)  سے فعل مجرد زیادہ تر ’’بنَی …… یَبْنِیْ بناءً و بُنْیَانًا‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے جس کے بنیادی معنی ہیں: ’’......کو تعمیر کرنا، (عمارت وغیرہ بنانا ‘‘یا ’’ (اس کی) بنیاد رکھنا’’۔ اور ان ہی معنی کے لیے فعل مجرد ’’بَنا یبنُو بِنَاءً‘‘ (واوِیّ اللام اور باب نصر سے ) بہت کم بلکہ شاذ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی ایک (مزید) وجہ یا دلیل ہے اصل  مادہ کے یائ اللام (ب ن ی ) ہونے کی۔ اس سلسلے میں بعض کتب لغت میں اس مادہ سے فعل مجرد کے (مندرجہ بالا) معنی کی بنا پر لفظ ’’ابن‘‘کے اس سے ماخوذ ہونے کی مناسبت یہ بیان کی گئی ہے کہ گویا  ’’بیٹا‘‘  اپنے باپ کی (تعمیر کردہ) ایک عمارت ہے جس کا  ’’بانی‘‘ (بصیغہ اسم الفاعل) یا’’ بَنّاءٌ ‘‘ بروزن ’’  فَعَّالٌ‘‘ بمعنی’’راج‘‘) وہ (باپ) ہے۔ [3] قرآن کریم میں اس فعل مجرور (بنَی یَبنی) کے مختلف صیغے گیارہ(۱۱) جگہ وارد ہوئے ہیں۔ اور اس فعل کے مصادر اور بعض مشتق اسماء بھی گیارہ(۱۱) ہی جگہ آئے ہیں۔ البتہ اس مادہ سے  ماخوذ کلمات بکثرت آئے ہیں ـــــــ اور  خود یہ لفظ (ابن) بصیغۂ واحد (مفرد یا مرکب صورت میں) ۴۱ جگہ، اس کی جمع سالم مختلف اعرابی حالتوں میں (مفرد یا مرکب) ۷۴ جگہ اور اس کی جمع مکسر ’’ ابناء ‘‘ مختلف صورتوں میں ۲۲ جگہ وارد ہوئی ہے۔

·       زیر مطالعہ مرکب ندائی (یا بنی اسرائیل)  کا تیسرا کلمہ ’’اسرائیل‘‘  (جس کے رسمِ عثمانی پر بعد میں بات ہوگی) در اصل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کی اصل صورت غالباً  ’’  یسرائیل’’ ہے اور جس کے معنی غالباً  ’’اللہ کا بندہ ‘‘ ہیں۔ یہ لفظ حضرت یعقوب (بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام) کے لقب کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ عجمی اور علَم ہونے کے باعث یہ لفظ غیر منصرف ہے۔ عرب قبائل اس لفظ کو مختلف صورتوں میں بولتے تھے مثلاً ’’  اسرائیل ، إسراییل ، إسرال، اسراءِل  اور  اسرائین‘‘  وغیرہ۔ ان میں سے فصیح ترین قرآنی صورتِ لغات ہے۔ یہ لفظ (اسرائیل) قرآن کریم میں ۴۳جگہ آیا ہے ۔ جن میں سے پانچ مقامات پر تو اسی ترکیب ندائی (یا بنی اسرائیل) کی صورت میں آیا ہے۔

·       اس طرح اس مرکب (یا بنی اسرائیل)  کا لفظی ترجمہ بنتا ہے  ’’ اے اسرائیل کے بیٹو‘‘۔ اور اسرائیل سے مراد حضرت یعقوبؐ ہونے کے باعث بعض نے اس ترکیب کا ترجمہ ’’اے یعقوب کے بیٹو‘‘، ’’اے یعقوب کی اولاد‘‘  اور’’اے آلِ یعقوب‘‘کیا ہے۔ جب کہ بعض مترجمین ’’ اے اولادِ اسرائیل‘‘ اور بعض نے ’’اے بنی اسرائیل‘‘  ہی رہنے دیا ہے ــــــ خیال رہے کہ ’’بنی اسرائیل‘‘ یا  ’’اسرائیلی‘‘ سے مراد عموماً  ’’یہودی‘‘ مذہب کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہندؤوں کی طرح بنیادی طور پر یہ بھی ایک نسلی مذہب ہے جو ایک خاص نسل کے اندر محدود ہے۔

۱:۲۸:۲ (۲)     [اذْکُرُوْا] کا  مادہ ‘‘ذ  ک   ر’’ اور وزن‘‘ اُفْعُلُوْا’’ ہے۔ یہ لفظ در اصل ’’اُذکروا‘‘ہے مگر سابقہ  لفظ (اسرائیل) کے ساتھ ملا کر پڑھتے وقت ابتدائی ھمزۃ الوصل تلفظ سے گر جاتا ہے۔ اس مادہ (ذکر) سے فعل مجرد’’ذکَرــ….. یذکُر ذِکْرًا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی دو ہیں (۱)’’ …….کو ذہن میں رکھنا، …. کو یاد رکھنا……کو یاد کرنا، ….. کا خیال رکھنا‘‘ اور (۲) ’’….. کی بات کرنا‘‘ ،’’ …… کا ذکر کرنا‘‘۔ اور ان دو معنوں کی وجہ سے ہی ’’ذِکر‘‘   کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں ’’ ذکرِ قلبی‘‘  (دل میں یاد کرنا، یاد رکھنا) اور ’’ذکرِ لسانی‘‘ (زبان سے کسی کا ذکر کرنا یا اس کا ذکر زبان پر لانا)  ــــــــــ اوریہ دونوں قسم کا ذکر یا تو (۱) ’’نسیان‘‘ (بھول جانا) کے مقابلے پر ہوتا ہے یعنی ’’کسی بھولی ہوئی بات کا یاد آجانا۔ اور یا (۲) کسی کی یاد کو مسلسل ذہن میں یا زبان پر محفوظ کرنا یعنی یاد رکھنا کے لیے۔ اردو میں عموماً لفظ  ’’ذکر‘‘  زیادہ تر صرف ’’لسانی ذکر‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے اردو میں ’’ذکر کرنا‘‘  فعل بنایا گیا ہے ’’ذکر رکھنا‘‘ نہیں کہتے۔

·       قرآن کریم میں یہ فعل (ذکَر یذکُر) مختلف مقامات پر مندرجہ بالا تمام معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سیاق و سباق عبارت عموماً خود ہی معنی کے تعین میں مدد دیتا ہے۔ زیر ِمطالعہ کلمہ ’’اذکروا‘‘  اس مادہ کے فعل مجرد سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ قریباً سب ہی مترجمین نے ’’یاد کرو‘‘ سے کیا ہے  جس میں غور کرنے اور خیال رکھنے کا مفہوم موجود ہے۔

۱:۲۸:۲ (۳)     [نِعْمَتِیْ] یہ نِعْمۃ + ی (ضمیر مجرور بمعنی ’’میری‘‘)  کا مرکب ہے یعنی یہ ’’نِعْمَتِیْ‘‘ ہے جس میں آخری یائے ساکنہ (یْ) کو کو آگے ملانے کے لیے فتحہ (ـــــَــــ)دی گئی ہے۔ لفظ ’’نعمۃ‘‘   کا مادہ ’’ن ع م‘‘  اور وزن ’’فِعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ (یائ متکلم کی طرف مضاف ہونے  کی وجہ سے ’’نعمۃ‘‘ کی آخری ’’تاء‘‘ کو کسرہ (ــــــِــــ) دیا گیا ہے ) اس مادہ (نعم) سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر الفاتحہ: ۷ [۱:۶:۱ (۲)] میں بات ہوچکی ہے۔

·       ’’فِعْلَۃٌ‘‘ کا وزن عموماً  ’’کسی (فعل کے معنی والی) حالت‘‘ میں ہونا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ’’نعمۃ‘‘ کے معنی ’’خوشحالی ‘‘ (یامالا مال ہونے یا تازہ و سر سبز ہونے کی حالت) کے ہیں جس سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے ــــــ اردو  میں اگرچہ اس کا ترجمہ ’’فضل، کرم، عطاء، فیض، احسان، نوازش یا انعام‘‘ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم خود لفظ ’’نعمۃ‘‘ (نعمت کی املاء کے ساتھ)  اردو میں اپنے جملہ عربی معانی کے لیے مستعمل ہے۔

·       یہ لفظ جب ’’اللہ‘‘ کی طرف مضاف ہو تو اس کے معنی’’ احسان، انعام یا فضل و کرم‘‘  ہی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’احسان‘‘ سے ہی کیا ہے۔ اگرچہ بعض نے ’’نعمت‘‘ اور ’’انعام‘‘ بھی استعمال کیا ہے بعض نے محاورہ اور مفہوم کی بناء پر (کہ نعمت صرف ایک نہیں تھی) صیغۂ جمع کی صورت میں یعنی ’’احسانات‘‘یا  ’’احسانوں‘‘سے ترجمہ کیا ہے۔ لفظ ’’نِعمۃ‘‘مفرد یا مرکب صورت میں قرآن کریم کے اندر کل ۴۷ دفعہ آیا ہے۔ اور سوائے دو مقامات کے (باقی ہر جگہ اسم جلالت (اللہ) کی طرف یا اس کے لیے کسی ضمیر کی طرف مضاف ہوکر استعمال ہوا ہے۔

[الّتیْ]  اسم موصول برائے واحد مؤنث ہے جس کا اردو ترجمہ ’’وہ جو کہ ‘‘ یا  ’’ اس کو جو کہ‘‘  ہوگا۔ اسماء موصولہ کے مختلف صیغوں اور معنی پر الفاتحہ :۷ [۱:۶:۱ (۱)] میں بات ہوچکی ہے۔ ضرورت ہو تو دوبارہ دیکھ لیجئے۔

۲:۲۸:۲ (۴)    [اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ] جو ‘‘اَنعمتُ + علی (پر)  + کم (تم) کا مرکب ہے۔ ’’اَنْعَمْتُ‘‘ مذکورہ بالا مادہ (ن ع م)  سے بابِ افعال کا فعل ماضی صیغہ واحد متکلم ہے۔ اس باب سے فعل (اَنْعَم یُنعِم انعاماً۔ انعام دینا)  کے معنی اور اس کے ساتھ ’’بِ‘‘ اور ’’علی‘‘ کے صلہ کے استعمال پر بھی الفاتحہ:۷ [۱:۶:۱ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔ اس جملہ (انعمت علیکم)  میں صرف مُنْعَمْ علیہ کا  ذکر ہے مُنعَمْ بہ (نعمۃ) کا ذکر پہلے ہوا ہے۔ یعنی یہاں ’’انعمت علیکم‘‘  میں ’’نعمۃ‘‘ کے لیے ایک ضمیر محذوف ہے گویا تقدیر عبارت ہے ’’انعمت بھا علیکم‘‘ (میری وہ نعمت جو میں نے تم پر کی /تم کو دی) ’’نعمۃ‘‘کا ترجمہ ’’احسان‘‘  یا  ’’انعام‘‘  کرنے کی وجہ سے اکثر مترجمین نے ’’انعمت علیکم‘‘   کا ترجمہ ’’تم پر کیا ‘‘ ہی کیا ہے۔ بعض نے ’’ (نعمت جو) میں نے تم کو عطا کی‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح ’’انعامات‘‘ اور ’’احسانوں‘‘ کے ساتھ فعل کا ترجمہ بصورت جمع یعنی ’’کیے‘‘سے کرنا پڑا۔ یہ فرق صرف اردو میں فعل کے استعمال کے فرق کی وجہ سے ہے۔ مفہوم اور معنی تو یکساں ہے۔

۱:۲۸:۲ (۵) [وَاَوْفُوْا] کی ابتدائی  ‘‘ وَ ’’ تو عاطفہ بمعنی ‘‘اور’’ ہے اور کلمہ ‘‘اوفُوْا ’’ کا مادہ ‘‘ و ف ی ’’ اور وزنِ اصلی ‘‘اَفْعِلُوْا’’ہے۔ اس کی اصلی شکل ‘‘اَوْفِیُوْا’’ تھی۔ جس کی ’’یاء‘‘پر ضمہ (ـــــُـــــ) ماقبل  کے مکسور ہونے کی بناء پر عربوں لوگوں کی زبان پر ثقیل تھا۔اس لیے اس مادہ"یاء"کو ساقط کردیتے ہیں۔اور اس گرنے والی"یاء"سے پہلے والے حرف(جومادہ کاعین کلمہ ہوتا ہے)پر ضمہ(ـــــُـــــ)یا فتحہ(ـــــَــــ)ہو تو وہ برقرار رہتا ہے۔لیکن اگر وہ کسرہ(ـــــِــــ)ہو تو اسے ضمہ(ــــُـــــ)میں بدل دیتے ہیں اسی قاعدہ کے تحت یہاں"اَوفِیُو"سے"اَوْفُوْا"بنا ہے۔یہ قاعدہ ناقص واوی اور یائی کے فعل ماضی جمع مذکر غائب ،فعل مضارع کا جمع مذکر غائب یا حاضر اور فعل امر جمع مذکر حاضر کے صیغوں میں اطلاق پذیر ہوتا ہے۔

·       اس مادہ (وف ی)سے فعل مجرد"وَفَی یَفِیْ(دراصل وَفَیَ یَوْفِیُ)وَفَاءً(باب ضرب سے)آتا ہے۔یہ فعل بطور لازم بھی استعمال ہوتا ہے۔اور اس کے بنیادی معنی ’’پورا ہونا‘‘  ہیں۔ پھر اس سے یہ ’’زیادہ ہونا، دراز ہونا‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ اور اسی سے اسم الفاعل ’’وافیٍ‘‘  اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں’’ یہ کافی وافی ہے‘‘ ـــــــ اور  یہی فعل بطور متعدی بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’پورا کرنا، پورا دینا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے ـــــــ اور اس صورت میں اس کا مفعول بنفسہ بھی آتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’وَفیٰ نذرَہَ‘‘ (اس نے اپنی نذر پوری کی) ـــــــ اور اگر اس کا مفعول ’’وَعْدٌ‘‘ (وعدہ) یا  ’’عَھْدٌ‘‘ ہو تو پھر اس کے ساتھ باء (بِ) کا صلہ ضرور آتا ہے یعنی کہیں گے ’’وَفَی بِوَعْدِہ/بِعَھْدِہ‘‘  (اس نے اپنا وعدہ/عہد پورا کیا) قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کا کوئی صیغہ تو کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ فعل مجرد سے بننے والا افعل التفضیل کا ایک صیغہ ’’اَوْفی‘‘  (بمعنی پورا/تمام) صرف ایک جگہ (النجم:۴۱) وارد ہوا ہے۔ مزید فیہ کے ابواب افعال، تفعیل، تفعل اور استفعال سے (اس مادہ سے ) مختلف افعال اور اسماء مشتقہ ۶۵ جگہ آئے ہیں جن کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالی۔

·       زیرِ مطالعہ لفظ (اَوفُوا) اس مادہ (وفی)  سے باب اِفعال کا فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَوْفیٰ یُوفِی اِیْفَاءً‘‘۔ (دراصل اَوْفَیَ یُوْفِیُ  اِوْفَایًا) ہمیشہ بطور فعل متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کے بنیادی معنی (بھی) ’’پورا دینا یا ادا کرنا‘‘  ہیں۔ بعض دفعہ اس کے ساتھ مفعول بنفسہٖ آتا ہے مثلا ً ’’اَوْفی الکیْلَ‘‘ (اس نے پورا ناپ تول یا پیمانہ دیا)۔ فعل مجرد کی طرح’’نذر پوری کرنا‘‘کے لیے یہ فعل بھی صلہ کے بغیر اور (باء کے ) صلہ کے ساتھ، دونوں طرح استعمال ہوتا ہے مثلاً کہیں گے ’’اَوْفٰی نَذْرَہ  یا  بِنَذْرِہ‘‘ (اس نے اپنی نذر پوری طرح ادا کی)  ــــــــ اور اگر اس فعل کا مفعول ’’عَھْدٌ یا وَعْدٌ‘‘  ہو تو (مجرد کی طرح) یہ فعل بھی ’’باء (بِ) ‘‘ کے صلہ کے ساتھ ہی آتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’اوفَی بِوَعْدِہ‘‘ یا  ’’بِعَھدِہ‘‘ (اس نے اپنا وعدہ یا عہد پوراکردیا) بعض دفعہ اس فعل کے ساتھ دوسرا مفعول بھی آتا ہے مثلاً  ’’اَوفیٰ فلاناً حقَّہ (اس نے فلاں کا حق پورا  ادا کیا‘‘۔ ’’تاہم یہ دو مفعول والا استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔‘‘

·       قرآن کریم میں اس فعل (اُوفی یُوفی)  کے مختلف صیغے ۱۹ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے  (۱۰) جگہ اس کا مفول ’’عَھْدٌ‘‘ یا اس کا کوئی ہم معنی لفظ (مثلاً  ’’عُقُود‘‘ وغیرہ) آیا ہے اور ان تمام مواقع پر یہ فعل ’’باء‘‘ کے صلہ کے ساتھ آیا ہے۔ سات (۷) جگہ اس کا مفعول لفظ ’’کَیْلٌ‘‘ یا اس کا کوئی ہم معنی لفظ (مثلاً ’’میزان‘‘) آیا ہے اور ان تمام مقامات پر یہ فعل مفعول بنفسہ کے ساتھ آیا ہےـــــ دو جگہ اس کا مفعول لفظ ’’نذر‘‘  (یا بصورتِ جمع ’’نذور‘‘)  آیا ہے اور یہ ایک جگہ (الدھر:۷) ’’ باء‘‘ کے صلہ کے ساتھ اور ایک جگہ (الحج: ۲۹) بغیر صلہ کے استعمال ہوا ہے۔ لفظ ’’اَوْفُوا‘‘  کا ترجمہ قریباً تمام مترجمین نے ’’پورا کرو‘‘ سے ہی کیا ہے۔

[بِعَھْدی] جو   ب + عھد+ ی کا مرکب ہے۔  اس میں’’بِ‘‘  تو اس فعل (اَوفوا) کا صلہ ہے جو مفعول (عَھْدِی =میرا عہد) سے پہلے آیا ہے اور جس کے استعمال پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔ بامحاورہ اردو میں اس ’’بِ‘‘  کا کوئی ترجمہ نہیں ہوگا یا زیادہ سے زیادہ ’’کو‘‘  لگا سکتے ہیں یعنی ’’ میرا عہد پورا کرو یا میرے عہد کو پورا کرو‘‘ ــــــــــ لفظ  عَھْد کے مادہ وزن، فعل مجرد وغیرہ پر البقرہ: ۲۷ [۱:۲۰:۲ (۲)] میں بات ہوچکی ہے۔ یہ لفظ (عَھْد) اردو میں قریباً اپنے تمام عربی معانی کے ساتھ مستعمل ہے۔ لہٰذا اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں اگرچہ بعض حضرات نے اس کی بجائے’’اقرار‘‘  یا  ’’وعدہ‘‘ بھی استعمال کیا ہے۔

یہاں ’’عَھْدِیْ‘‘ (میرا عہد) سے مراد وہ عہد ہے جو (تم نے) میرے ساتھ کر رکھا ہے۔ اسی لیے بعض مترجمین نے اس (عھْدِی)کا ترجمہ ہی ‘‘وہ اقرار/اس اقرار کو جو تم نے مجھ سے کیا تھا’’ کیا ہے۔ اکثر مترجمین نے ’’میرا عہد‘‘  ہی سے ترجمہ کیا ہے۔ البتہ بعض نے ’’میرا  اقرار‘‘  اور بعض نے صرف ’’مجھ سے وعدہ‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔

۱:۲۸:۲ (۶)     [اُوْفِ]  کا مادہ (بھی) ’’و ف ی‘‘  اور وزن اصلی ’’اُفْعِلْ‘‘ ہے  جس کی اصلی شکل ’’اُوْفِیْ‘‘تھی۔ یہ جوابِ امر (اَوفُوْا) ہونے کے باعث مجزوم ہوگیا اور فعل ناقص میں بحالتِ جزم لام کلمہ (آخری ’’و‘‘یا  ’’ی‘‘) ساقط کردیا جاتا ہے۔ اس طرح اب یہ لفظ ’’اُوْفِ‘‘رہ گیا ہے۔ اور یہ اس مادہ (وفی)  کے باب افعال والے فعل (اَوفَی یُوفی) کے فعل مضارع (مجزوم) کا صیغہ واحد متکلم ہے۔ اس فعل کے مصدری معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں جوابِ امر ہونے کی بناء پر ’’اُوفِ‘‘ کا ترجمہ ’’تو میں پورا کروں گا‘‘  ہونا چاہیے تاہم بعض مترجمین ’’تو‘‘ کے بغیر صرف ’’پورا کروں گا‘‘ پر اکتفاء کیا ہے۔

[بِعَھْدِکُمْ] ابھی اوپر بیان ہونے والے مرکب ‘‘بِعَھْدِی’’ کی طرح یہ بھی بِ+عھد+ کم کا مرکب ہے جس میں ’’بِ‘‘ تو فعل ’’اُوْف‘‘ کا صلہ ہے اور ’’عھدکم‘‘  کا ترجمہ ’’تمھارا عہد‘‘ ہے اور اس سے مراد در اصل وہ عہد ہے جو (میں نے ) تم سے کر رکھا ہے’’۔ اسی لیے بعض مترجمین نے ’’بعھدکم‘‘ کا ترجمہ ’’اس اقرار کو جو ہم نے تم سے کیا ‘‘ کے ساتھ ہی کیا ہے۔ اگرچہ بیشتر حضرات نے صرف لفظی ترجمہ ’’تمہارا اقرار‘‘  ’’تمہارے عہد کو‘‘ اور ’’تم سے وعدہ‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔

۱:۲۸:۲ (۷)     [وَ اِیَّایَ] یہ تین کلمات    وَ (اور) + اِیَّا + ی (ضمیر متکلم) کا مجموعہ ہے ’’إِیَّا‘‘  کے مادہ، معنی اور استعمال کے بارے میں الفاتحۃ: ۵ [۱:۴:۱ (۱)] میں بات ہوچکی ہے۔ یہاں ’’اِیَّا‘‘ کے ساتھ ضمیر منصوب (واحد متکلم)  ’’ی‘‘  آئی ہے اور اب یہ مکمل لفظ ’’اِیَّایَ‘‘  ضمیر منصوب منفصل ہے جو (قاعدے کے مطابق) ماقبل فعل  ـــــمفعول ہوکر آئی ہے۔ اس کا ترجمہ ’’صرف مجھ ہی کو‘‘  ہونا چاہیے۔ مگر اگلے فعل (فَارْھَبُونِ)کے مصدری اردو ترجمہ (ڈر رکھنا۔ ڈرنا) کی وجہ سے اردو محاورے کے مطابق ’’کو‘‘ کی بجائے ’’سے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ یعنی ’’صرف مجھ سے، مجھی سے، صرف مجھی سے، مجھ سے ہی، مجھ ہی سے اور میرا ہی‘‘ کے الفاظ اختیار کیے گئے ہیں۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔

۱:۲۸:۲ (۸)     [فَارْھَبُوْنِ] یہ در اصل ایک پورا جملہ ہے جو تین کلمات یعنی ‘‘فَ+اِرھَبُوْا+نِ’’ کا مرکب ہے جس میں ’’فاء‘‘  تو عاطفہ بمعنئ ’’پس‘‘ ہے۔ آخری ’’نِ‘‘ وہ نونِ وقایہ ہے جو واحد متکلم منصوب ضمیر ’’ی‘‘ پر لگتا ہے۔ یعنی یہ در اصل ’’نِی‘‘  تھا مگر آخری ساکن ’’ی‘‘  تلفظ سے گرا دی گئی ہے (اور اس کی مثالیں قرآن کریم میں بکثرت ملیں گی)۔ اس ساقط ’’ی‘‘ کی علامت  اب ’’نِ‘‘ کا کسرہ (ـــــِــــ) ہے ۔ اس طرح اس لفظ (نِ) کے معنی ’’مجھ کو‘‘ ہوں گے جسے اردو فعل سے ہم آہنگ کرنے کے لیے’’مجھ سے ‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔

·       لفظ ’’اِرْھَبُوْا‘‘  (جس کا ابتدائی ھمزۃ الوصل ’’فَ‘‘ کے ساتھ ملانے کی وجہ سے تلفظ سے گر جاتا ہے اگرچہ کتابت میں موجود رہتا ہے۔ اور اس (ارھبوا) کا واو الجمع کے بعد لکھا جانے والا  ’’ا ‘‘ ضمیر مفعول کے آجانے کے وجہ سے کتابت سے حذف کردیا جاتا ہے) کا مادہ  ’’ ر ھ ب ‘‘ اور وزن ’’ اِفْعَلُوْ‘‘ ہے اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد   ’’ر ھَ ب....... یرھب رَھباً‘‘(باب فتح سے ) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’........سے ڈرنا،.... کا ڈر رکھنا‘‘ ۔ یعنی یہ فعل متعدی ہے۔ اس کا مفعول زیادہ تر توبنفسہ آتا ہے اور کبھی اس کے ساتھ لام (ل) کا صلہ استعمال ہوتا ہے یعنی ’’رھَبہ یا رھَبَ لَہْ (اس نے اس کا ڈر رکھا) دونوں طرح کہہ سکتے ہیں۔ اور قرآن کریم میں بھی یہ دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔

·       لفظ ’’اِرھَبُوا‘‘ اس فعل مجرد (رھَب یرھب) سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ’’تم ڈرو یا ڈرتے رہو یا ڈر رکھو‘‘ سے کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (رھب)  سے فعل مجرد کے تین صیغوں کے علاوہ مزید فیہ کے بابِ افعال اور استفعال سے بھی فعل کا ایک ایک صیغہ آیا ہے۔ اور اس مادہ سے مشتق اور ماخوذ مختلف کلمات (رھبٌ، رَھْبَۃ، رُھبان اور رُھبانیۃ) بھی متعدد جگہ وارد ہوئے ہیں۔ جن پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ

·       زیر ِمطالعہ آیت کے اس حصہ (وایّایَ فارْھَبونِ) میں ضمیر مفعول (منصوب) کے دو دفعہ (پہلے منفصل اور پھر متصل) آنے کی وجہ سے اس میں حصر اور تاکید کے معنی پیدا ہوگئے ہیں جس کو اردو ترجمہ میں ’’اور مجھ سے ہی ڈرو/صرف میرا ہی ڈر رکھو/مجھی سے ڈرتے رہو‘‘ کی صورت میں ظاہر کیا گیا ہے۔

[وَاآمِنُوا] کی’’ وَ‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہےـــــ اور ’’آمِنوا‘‘کا مادہ ’’ا م ن‘‘اور وزنِ اصلی ’’اَفْعِلُوْا‘‘ہے۔ اصلی شکل ’’أَأْمِنُوْا‘‘ تھی جس میں ’’أَ  أْ‘‘مہموز کے قاعدۂ تخفیف کے تحت ’’ آ  ‘‘ہوگیا ہے (اس کے قرآنی ضبط پر آگے بات ہوگی)۔ یہ فعل اس مادہ (امن)سے باب افعال کا فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ باب افعال کے اس فعل (آمَنَ یُومن= ایمان لانا)کے معنی اور استعمال وغیرہ پر مفصل بات البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۱)] میں گزر چکی ہے۔ اس صیغۂ فعل (آمِنوا)کا ترجمہ ’’تم ایمان لاؤ‘‘ہے۔ بعض نے ’’مان لو‘‘ اور ’’مانو‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔

[بِمَا اَنْزَلْتُ] یہ ’’بِ +ما+انزلتُ‘‘ کا مرکب ہے جس میں باء ِ) تو فعل ’’آمنوا‘‘کا صلہ ہے جس کا اردو ترجمہ اس فعل کے ساتھ ’’پر‘‘سے کیا جاتا ہےـــــ’’مَا‘‘ موصولہ (بمعنی ’’جو کچھ کہ‘‘ ہے۔ اس قسم کے ’’بِمَا‘‘پر [۱:۳:۲ (۱)]میں بھی بات ہوچکی ہے۔ ’’بِمَا‘‘ کا اردو ترجمہ یہاں ’’اس پر/کو جو کچھ کہ‘‘ ہوگا۔ ’’اَنْزَلْتُ‘‘کا مادہ ’’ن ز ل‘‘اور وزن ’’اَفْعَلْتُ‘‘ہے اور یہ اس مادہ سے بابِ افعال سے فعل ماضی کا صیغہ واحد متکلم ہے۔ اس فعل (اَنْزَلَ یُنْزِلُ =اتارنا) کی وضاحت البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۲)] میں گزر چکی ہے۔ یہاں عبارت میں ’’بمَا انزلتُ‘‘ کے بعد ’’مَا‘‘ کی ضمیر عائد محذوف ہے۔ یعنی یہ در اصل’ ’ بما انزلتُہ‘‘ ہے جس کا لفظی ترجمہ ’’ا س پر کہ میں نے اتارا اس کو/جس کو‘‘ ہوگا جس کی سلیس صورت ’’اس پر (ایمان لاؤ) جو میں نے اتارا‘‘ہے۔

۱:۲۸:۲ (۹)     [مُصَدِّقًا] کا مادہ ’’ص د ق‘‘ اور وزن ’’مُفَعِّلٌ‘‘ہے (مصدقاً کی نصب پر آگے ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی)۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب، معنی اور استعمال پر البقرہ:۲۳ [۱:۱۷:۲(۱۰)] میں بات ہوچکی ہے۔

·       لفط ’’مُصَدِّق‘‘ اس مادہ (صدق) سے باب تفعیل کا اسم الفاعل ہے اور اس باب فعل ’’صَدَّقَ.. .. ..یصَدِّق تصدیقاً‘‘کے معنی ہوتے ہیں: ’’……. کی بات کو سچا کہنا ، جاننا یا سمجھنا‘‘۔ چونکہ اس کا مصدر ’’تصدیق‘‘اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’تصدیق کرنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔

·       یہ فعل (صدَّق)مفعول بنفسہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور (بِ)کے صلہ کے ساتھ بھی۔ یعنی صدَّقہ اور صدَّق بہ (اس نے اس کو سچا مانا) دونوں طرح کہہ سکتے ہیں [تصدیق تکذیب کی ضد ہے دونوں کے استعمال میں مقابلہ کے لیے فعل ’’کذَّبَ‘‘ کی وضاحت دیکھیے [۱:۲۷:۲ (۱۴)] میں =البتہ کبھی اس فعل (صَدّق) کا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو عبارت سے سمجھا جاتا ہے۔ اور یہی فعل ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہےاور اس صورت میں اس (صدّق علی...  .. .. )کے معنی ہوتے ہیں : ’’ ...  .. ..پرسچ پالینا،...  .. ..پر ثابت کردکھانا‘‘ یعنی ’’ ...  .. .. کے حق میں یا...  .. .. کے بارے میں (کسی بات کو) سچ پانا‘‘۔

·       قرآن کریم میں یہ فعل (صَدَّق)مذکورہ بالا تینوں طریقوں سے استعمال ہوا ہے (۱) چار جگہ بغیر صلہ کے یعنی مفعول بنفسہ کے ساتھ (۲) چار ہی جگہ باء (بِ) کے ساتھ۔ (۳) صرف ایک (القیا مہ: ۳۱)مفعول کے ذکر کے بغیر اور (۴) ایک جگہ (سبأ: ۲۰)’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ آیا ہے۔ ان سب کی وضاحت اپنے اپنے موقع پر آئے گی۔ ان شاء اللہ تعالی۔

آج کل جدید عربی ‘‘صدَّق علی’’ کسی کام کی منظوری دینا کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ‘‘صدَّق علی الامر’’ (اس نے معاملے کی منظوری دی یا اس کی توثیق کی) ویسے اس میں بھی بنیادی معنی وہی ‘‘تصدیق کرنا’’ یا ‘‘سچا ماننا’’ والے ہی ہیں۔

اس طرح کلمہ ‘‘مصدِّق’’ کے معنی بنتے ہیں ‘‘سچ ماننے والا، تصدیق کرنے والا، سچائی بیان کرنے والا’’ــــــــ اور بعض مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے۔ تاہم اردو محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیشتر حضرات نے اس کا ترجمہ ‘‘تصدیق کرتا ہے، سچا کہتا ہے، سچ بتاتا ہے، سچا بتاتا ہے’’ سے کیا ہے۔ یعنی اسم الفاعل کی بجائے فعل ’’یصدِّق‘‘ کی طرح ترجمہ کیا ہے۔ اس ترجمہ کی ایک دوسری وجہ سے آگے حصہ ‘‘الاعراب’’ میں ‘‘مصدقًا’’ کی نصب کے سلسلے میں بات ہوگی۔

یہ لفظ (مصدِّق) قرآن کریم میں مختلف طریقوں سے ۱۶ جگہ آیا ہے۔

[لِّمَا مَعَکُمْ] یہ لام (لِ= کے لیے یا   کا) + ما (وہ جو کہ) + مَعَ (ساتھ)+ کُم (تمہارا یا تمہارے) کا مرکب ہے۔ ان تمام کلمات کے معنی اور استعمال پر پہلے کئی جگہ بات ہوچکی ہے۔ مثلاً دیکھئے البقرہ:۱۴ [۱:۱۱:۲ (۵)] اس طرح ‘‘لِمَا مَعَکم’’ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ‘………اس کا /کی جو تمہارے ساتھ/پاس ہے’’۔ اور مراد ہے ‘‘خدا کی دی ہوئی کتاب اور شریعت میں سے جو کچھ (بچا کھچا) تمہارے پاس موجود ہے ‘‘ (اس کی تصدیق کرتا ہے)۔ اسی لیے بعض مترجمین نے یہاں اس (لما معکم)کا تفسیری ترجمہ ہی کیا ہے یعنی ‘‘اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے یا جو تمہاری کتاب کو سچا کہتی ہے ’’ کی صورت میں۔ اگرچہ بیشتر نے ‘‘جو تمہارے ساتھ /پاس ہے’’ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے اور ایک بزرگ نے اس کا ترجمہ ‘‘ تمہارے پاس والے کو’’ (سچ بتاتا ہے) سے بھی کیا ہے۔ تمام تراجم کا مفہوم ایک ہی ہے۔

[وَلَاتَکُوْنُوْا] یہ  ‘‘ وَ ’’ (اور) + لَا (نہیں، مت) + ‘‘تکونوا’’ کا مرکب ہے اس (تکُونُوا) کا مادہ ‘‘ک و ن’’ اور وزن اصلی ‘‘تَفْعُلُوْا’’ہے۔ اس کی شکل اصلی ‘‘تَکْوُنُوْا’’ تھی جس میں اجوف کے قواعد کے مطابق ‘‘ وُ ’’ کا ضمہ (ـــــُـــــ) ماقبل ساکن حرف صحیح (یا عین کلمہــــجو یہاں ‘‘ک’’ ہے) کو دے دیا جاتا ہے۔ اور اب ماقابل مضموم ہوجانے کے باعث واو ساکنہ برقرار رہتی ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد (کان یکون =ہونا) کے معنی، باب اور استعمالات پر البقرہ: ۱۰ [۱:۸:۲ (۱۰)] میں بات ہوچکی ہے۔

زیرِ مطالعہ کلمہ ‘‘لاتکونوا’’ اس فعل مجرد سے فعل نہی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ‘‘تم نہ ہو’’ جس کے لیے مختلف مترجمین نے ‘‘مت ہو، مت بنو، نہ بنو اور مت ہوجاؤ’’ کے الفاظ اختیار کیے ہیں۔ مفہوم یکساں ہے۔

۱:۲۸:۲ (۱۰)     [اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ] اس ترکیب کے دو حصے ہیں۔ ‘‘اوّل’’ اور ‘‘کافر بہ’’ ہم پہلے ان دونوں حصوں پر الگ الگ بات کرتے ہیں۔ پھر اس ترکیب کے مجموعی ترجمہ پر بات ہوگی۔

·       ‘‘اَوَّل’’ (جو یہاں منصوب ہے اور اس نصب کی وجہ آگے ‘‘الاعراب’’ میں بیان ہوگی) کے مادہ اور وزن کے بارے میں اصحابِ لغت کے مختلف اقوال ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

(۱) ایک قول یہ ہے کہ اس کا مادہ ’’أول‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلُ’’ ہے۔ اس طرح یہ در اصل ’’أأْوَلُ‘‘ (افعل التفضیل) تھا جس میں خلافِ قیاس دوسرے ھمزہ (ساکنہ) کو واو میں بدل کر مدغم کردیا گیا ہے۔ اب اس کا وزن ’’اَعَّلُ‘‘ رہ گیا ہے۔ (ازروئے قیاس اسے ’’آوَلُ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ) یا پھر اس کا وزن ہی ’’فَعَّلُ‘‘ ہے جو بظاہر ’’افعلُ‘‘ کی طرح آتا ہے۔ البتہ اس سے مؤنث ’’أُوْلیٰ‘‘ ٹھیک اپنے اصلی وزن ’’فُعْلیٰ‘‘ پر ہی آتا ہے۔ اس مادہ (أول) سے فعل مجرد ‘‘آلَ یَئُوْلُ (در اصل اَوَلَ یَأْوُلُ) اَوْلاً (باب نصَر سے )  ‘‘لوٹ کر آنا یا ہوجانا’’ کے معنی دیتا ہے۔ اور ’’أَوِلَ یَأْوَل أَوْلاً (باب سمِع سے)‘‘ آگے نکل جانا یا پہلے گزر جانا’’ کے معنی میں آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی طرح کا فعل مجرد کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ باب تفعیل کا صرف مصدر (تَأوِیل) قرآن کریم میں ۱۷ جگہ وارد ہوا ہے۔ اس کے معنی پر آلِ عمران:۷میں بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالی ۔المنجد اور مفرداتِ راغب میں یہ لفظ (اوّل) اسی مادہ کے تحت بیان ہوا ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس کا مادہ ’’وأل‘‘ اور وزن ’’اَفْعُلُ‘‘۔ ویا اس کی اصل شکل ’’أَوْأَلُ‘‘ تھی۔ پھر خلافِ قیاس دوسرے ھمزہ (عین کلمہ) کو ’’واو‘‘ میں بدل کرواو (فاء کلمہ) میں مدغم کردیا گیا۔ یعنی ’’أوْأَلُ=أوْوَلُ = أوَّلُ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــاور اب یہ وزن ’’اَفَّلُ‘‘ رہ گیا ہے۔ (ازروئے قیاس اسے ’’اَوَال‘‘ ہونا چاہیے تھا) اور اس سے مؤنث ’’اُوْلیٰ‘‘بھی در اصل ’’وُوْلیٰ‘‘ تھی۔ پھر ھمزہ اور واو کی جگہ (باہم) بدل کر تقلیب کے بعد ’’أُوْلیٰ‘‘ بنا (پنجابی کے ’’چاقو‘‘ اور ’’قاچو‘‘ کی طرح) ـــــــــــــــــــــ اس مادہ (وأل) سے فعل مجرد ’’وَأَلَ یَئِلُ (دراصل یَوْءِلُ) وَأْلاً‘‘ (باب ضرب سے) ’’نجات چاہنا، پناہ ڈھونڈنا‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ اس مادہ سے بھی کوئی فعل (مجرد یا مزید فیہ) قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ البتہ اس فعل سے اسم ظرف کا ایک صیغہ (مَوْئِلٌ) صرف ایک جگہ (الکھف: ۵۹) آیا ہے۔ اکثر کتب لغت (مثلاً القاموس، المحیط، البستان اور المعجم الوسیط) میں لفظ ’’اَوَّل‘‘ اسی مادہ ’’وأل‘‘ کے تحت بیان ہوا ہے۔

(۳)  تیسرا قول یہ ہے کہ اس (اوّل) کا مادہ ’’وول‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلُ‘‘ ہی تھا جو اب ’’َاَفَّلُ‘‘ یا ’’اَعَّلُ‘‘ رہ گیا ہے۔ یا یہ لفظ در اصل ’’وَوَّلُ‘‘ بروزن ’’فَعَّلُ‘‘ تھا مگر ابتدائی ’’واو‘‘ الف (ھمزہ) میں بدل دی گئی جیسے ’’وُقِّتَتْ‘‘ سے ’’اُقِّتَتْ‘‘ یا ’’وَحَدٌ‘‘ سے ’’أَحَدٌ‘‘ بنالیا جاتا ہے اس مادہ سے کوئی فعل استعمال نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے صرف یہی ایک لفظ (اول) مشتق ہے۔ اس صورت میں مؤنث بھی دراصل ’’وُوْلیٰ‘‘ تھی۔ پھر مندرجہ بالا عمل کی طرف ابتدائی واو ھمزہ میں بدل دی گئی ہے۔ اس لفظ (اَوَّل) کی جمع ’’اَوَائِل‘‘کی اصل بھی اسی مادہ سے  در اصل ’’اَوَاوِلَ‘‘ تھی جس میں دوسری واو ھمزہ میں بدل جاتی ہے۔  [4]

·       بہرحال لفظ ’’اوّل‘‘ کی جو بھی اصل مانیں یہ لفظ اپنے وزن اور معنی کے لحاظ سے زیادہ تر افعل التفضیل ہی بنتا ہے۔ یعنی اس کے معنی ہیں ’’سب سے پہلا‘‘ جس کے لیے صرف ’’پہلا‘‘ کہہ دینا ہی کافی ہے۔  افعل التفصیل صفت کا صیغہ ہے اور یہ لفظ (اول) جب صفت کے معنی میں استعمال ہو تو غیر منصرف ہی رہتا ہے تاہم یہ لفظ  (اوّل) کبھی صفت کی بجائے کسی دوسرے اسم کے معنی (مثلاً حال) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ مُعْرب استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’اَوَّلاً‘‘ میں۔ تاہم قرآن میں اس کا یہ (معرب والا) استعمال کہیں نہیں ہوا۔ [5]

·       ’’کافِرٍ بہ‘‘ جو زیر مطالعہ ترکیب ’’اول کافر بہ‘‘ کا دوسرا حصہ ہے۔ اس میں لفظ ’’کافر‘‘ فعل کَفَر یکفُر (انکار کرنا) سے اسم الفاعل ہے۔ اس فعل کے باب معنی اور استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ: ۶ [۱:۵:۲ (۱)]

’’بہ‘‘ کی (بِ) وہ ہے جو اس فعل (کفر) کے صلہ کے طور پر آتی ہے اور آخری (ہ) ضمیر مجرور بمعنی ’’اس‘‘ہے۔ اس طرح ’’کافربہ‘‘ کاترجمہ ہوا: ’’اس کا کافر‘‘، ’’اس کا انکار کرنے والا‘‘۔

·       اور اس ترکیب [اَوَّلَ کافرٍ بہ] میں (۱) لفظ ’’کافر‘‘ یا تو بمعنی جمع استعمال ہوا ہے جو ’’اوّل‘‘ کا مضاف الیہ واقع ہوا ہے کیونکہ ’’اَفْعَلُ‘‘ عموماً جمع معرفہ کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ گویا یہاں ’’اول الکافرین‘‘ (کافروں کا نمبر ایک یا پہلا کافر) مراد ہے۔ (۲) افعل التفضیل کا مضاف الیہ (یعنی کافرٍ) یہاں ایک محذوف موصوف کی صفت ہے یعنی تقدیر (در اصل) عبارت ’’اوّلَ فریقٍ کافرٍ‘‘ہے۔  اور (۳) یہ بھی قاعدہ ہے کہ اگر افعل التفضیل کا مضاف الیہ نکرہ ہو تو وہ ہمیشہ واحد ہی رہتا ہے مثلاًکہتے ہیں ’’انت افضلُ رجلٍ‘‘ (تو بہترین آدمی ہے۔ اسی طرح ’’ انتما افضلُ رجلٍ‘‘ اور ’’انتم افضلُ رجلٍ‘‘ ـــــ اور ’’احسنُ رجلٍ‘‘  کا مطلب ’’کسی آدمی کا بہترین پہلو یا حصہ یا نمونہ یا شخصیت‘‘ بھی ہوتا ہے اس طرح ’’اوّل کافرٍ‘‘ کا مطلب ’’کفر کا پہلا نمونہ یا حصہ‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔

·       مندرجہ بالا امور کو سامنے رکھتے ہوئے مترجمین نے اس ترکیب (اول کافرٍ بہ) کا ترجمہ’’ اس کے پہلے کافر، پہلے منکر، سب میں پہلے انکار کرنے والے، سب سے پہلے منکر‘‘ او ر (اس کے ساتھ) ’’اولین کفر کرنے والے‘‘ کی صورت میں گویا سب نے یہاں ’’کافر‘‘ کو ترکیب کے تقاضے کی بنا پر جمع کے معنی میں لیا ہے۔

[وَلَاتَشْتَرُوْا] کا مادہ ’’ش ر ی‘‘ ہے اور (پورے صیغے کا ) وزن اصلی ’’ولاتفتعِلوا‘‘ہے۔ یہ فعل در اصل ’’لاتشترِیوا‘‘ تھا۔ یعنی یہ اس مادہ سے بابِ افتعال کا فعل نہی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ پھر واو الجمع سے ماقبل یاءکو (جو لام کلمہ ہے) گرا کر اس سے ماقبل (عین کلمہ) کا کسرہ (ـــــِــــ)ضمہ (ــــُـــــ) میں بدل دیا جاتا ہے (یہ قاعدہ آپ اس سے پہلے کئی کلمات (مثلاً ’’خَلَوْا ‘‘ ۱:۱۱:۲ (۲)، ’’لَقُوْا ‘‘ ۱:۱۱:۲ (۱)، ’’اِشْتَرَوْا‘‘ ۱:۱۲:۲ (۱) اور ابھی اوپر ’’اَوْفُوا ‘‘ ۱:۲۸:۲ (۵)) میں دیکھ چکے ہیں۔ فعل ناقص کے واو الجمع والے صیغوں میں اس قسم کی تبدیلی کی بے شمار مثالیں آئندہ بھی ہمارے سامنے آئیں گی۔ اس کو ہم آئندہ صرف ’’ناقص میں واو الجمع والا قاعدہ‘‘  کہہ کر ہی بیان کیا کریں گے۔

·       اس مادہ (شری) سے فعل مجرد کے باب اور معنی کے علاوہ اس سے باب افتعال کے معنی پر بھی البقرہ:۱۶ [۱:۱۲:۲ (۱) ] میں بات ہوچکی ہے۔ بعض کتبِ لغت (مثلاً ’’البستان’’) میں فعل مجرد  ’’شرَی یشری‘‘ اور باب افتعال سے فعل ’’اشتَرَی یشترِی‘‘ کو لغتِ اضداد میں شمار کیا گیا ہے یعنی دونوں ’’خریدنا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور ’’بیچنا‘‘ کے لیے بھی۔ اس طرح یہاں ’’وَلَاتَشتروا‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور مت خریدو‘‘۔ اور اسی کے لیے بعض مترجمین نے ‘‘مت مول لو’’ اختیار کیا ہے۔ لیکن آگے ’’خریدی جانے والی‘‘ شے’’ثمن قلیل‘‘ (تھوڑی قیمت) بیان ہوئی ہے اس لیے بعض نے اس کا ترجمہ’’مت فروخت کرو‘‘ کیا ہے۔ اور قیمت کے ذکر کی مناسبت سے ہی بیشتر مترجمین نے اس (لاتشتروا) کا ترجمہ ’’نہ لو‘‘ اور ’’مت حاصل کرو‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔

[بِاٰیَاتِیْ] یہ ’’بِ‘‘ (کے عوض) + آیات (احکام۔ فرامین) + ’’ی‘‘(ضمیر متکلم مجرور بمعنی ’’میری‘‘) کا مرکب ہے۔ ان تمام کلمات پر پہلے بات ہوچکی ہے مثلاً باء (بِ)کے استعمالات پر استعاذہ کی بحث میں اور کلمہ ’’آیات‘‘ کے مادہ اور معنی وغیرہ کے بارے میں البقرہ:۳۹ [۱:۲۷:۲ (۷)] میں وضاحت کی جا چکی ہے۔

·       فعل ’’اشتری‘‘ کے بعد ’’بِ‘‘ کا صلہ اس چیز پر آتا ہے جو عوض میں (بطور قیمت) دی جا رہی ہو اور جو چیز خریدی جائے (لے لی جائے) اس کا ذکر اس فعل کے ساتھ مفعول بنفسہ کے طور پر ہوتا ہے اس لیے یہاں (فعل لاتشتروا کے بعد)  ’’بِآیاتی‘‘ کا مطلب ’’میری آیات کے بدلے میں ‘‘ یعنی ’’میری آیات کو قیمت بنا کر‘‘ ہے اور یوں اس کا ترجمہ’’میری آیات (احکام) کے عوض‘‘ کیا گیا ہے۔

۱:۲۸:۲ (۱۱)     [ثَمَنًا] کا مادہ ’’ث م ن‘‘ اور وزن ’’فَعَلٌ‘‘ ہے۔ (ثمنًا کی نصب پر آگے ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد باب نصر سے بھی آتا ہے اور باب ضرب سے بھی ’’ثمَن……یثمُن ثمنًا (نصر) کے معنی ہیں: ’’….. سے مال کا آٹھواں حصہ وصول کرنا‘‘۔ اور ثمَن یثمِن ثَمَنًا (ضرب)  کے معنی ہیں ’’….. کے ساتھ آٹھوں ہونا (یعنی جو پہلے سات تھے) اس طرح (مثلاً ’’ثَمَنْتُھُمْ‘‘ کے دو معنی ہو سکتے ہیں (۱) میں نے ان سے ۸/۱ حصہ وصول کیا۔ اور (۲) میں ان (سات) کے ساتھ آٹھواں شامل ہوگیا۔ (اس لیے کہ فعل ماضی میں ‘‘باب’’ واضح نہیں ہے)۔ عربی زبان میں اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق بعض کلمات (مثلا ً ثامن، ثمانیۃ، ثُمُنٌ، اور ثَمَنٌ وغیرہ) مختلف صورتوں میں (مفرد مرکب معرفہ نکرہ) کل ۱۹ جگہ وارد ہوئے ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالی۔

·       لفظ  ’’ثَمَنٌ‘‘ کے معنی کسی چیز کی قیمت (مول، دام) ہیں جو کوئی خریدار فروخت کنندہ کو ادا کرتا ہے۔ عموماً اس سے مراد نقدی یا سکے وغیرہ ہوتے ہیں۔ تاہم کبھی یہ لفظ مطلقاً (کسی چیز کے) بدلہ یا عوض میں لی (یا دی) جانے والی چیز کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ خریدوفروخت میں در اصل تو ہر ایک فریق ایک چیز ’’بیچ‘‘ اور دوسری ’’خرید‘‘ رہا ہوتا ہے۔ ابھی اوپر بیان ہوا ہے کہ فعل ’’اشتری‘‘ کے ساتھ ’’لی‘‘ جانے والی شے براہِ راست بطور مفعول بنفسہ مذکور ہوتی ہے۔ اور جو شے (بطور قیمت) عوض میں ’’دی‘‘ جارہی ہو اس باء (ب)  کا صلہ آتا ہے۔

·       زیر مطالعہ آیت میں ’’آیات‘‘ کی ’’قیمت‘‘ خریدنے (لینے۔ حاصل کرنے) کی بات ہورہی ہے جس کے عوض (بدلے میں) ’’آیات’’(احکام الٰہی)‘‘ دی جا رہی ہوں یعنی کسی مالی منفعت کے عوض ان کو نظر انداز کرنا مراد ہے۔ اور چونکہ کسی چیز کی قیمت ’’خریدنا‘‘ کم از کم اردو محاورے کے لیے غیر مانوس ہے اس لیے اکثر مترجمین نے ’’ثمنًا‘‘(قیمت) کے ساتھ فعل ’’اشتری‘‘ کا (مصدری) ترجمہ ’’خریدنا‘‘ کی بجائے ’’لینا‘‘ سے کیا ہے جب کہ بعض نے اردو محاورے کے مطابق اس کا ترجمہ ’’بیچنا‘‘ اور ’’فروخت کرنا‘‘ سے کرلیا ہے۔ اسی لیے لاتشتروا کا ترجمہ ’’مت مول لو، نہ لو، مت لو، حاصل نہ کرو اور فروخت مت کرو‘‘کی صورت میں کیا گیا ہے جیسا کہ ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔

·       ۱:۲۸:۲ (۲) [قَلِیْلًا] یہ ’’قلیل‘‘ کی نصبی صورت ہے (جس کی وجہ نصب پر آگے ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی) اس کلمہ کا مادہ ’’ق ل ل‘‘ اور وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے۔  اس مادہ سے فعل مجرد ’’ قَلَّ یَقِلُّ قِلَّۃً‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’کم ہونا، تھوڑا ہونا‘‘ ہیں (یعنی کثُر=زیادہ ہونا کی ضد) اور اس سے یہ ’’ کمیاب ہونا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی یہ فعل لازم ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے ماضی کا صرف ایک صیغہ ایک جگہ (النساء:۶)آ یا ہے۔ مزید فیہ کے باب تفعیل اور افعال سے بھی صرف ایک ایک صیغہ (علی الترتیب الانفال: ۵ اور الاعراف:۵۶ میں) آیا ہے۔

·       یہ لفظ (قلیل) اس فعل مجرد (قَلَّ یَقِلُّ) سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ’’بہت تھوڑا، تھوڑا سا یا بہت کم‘‘ـــــــــ اور خود لفظ ’’قلیل‘‘ بھی اردو میں مستعمل ہے۔ کبھی انگریزی کے لفظ FEW کی طرح یہ لفظ ’’بہت کم‘‘ کی بجائے ’’نہ ہونے‘‘یعنی مطلق نفی کے معنی دیتا ہے۔ مثلاً ’’رجل قلیل الخیر‘‘ کے معنی ہیں ’’جس میں بھلائی نہ ہونے کے برابر ہو‘‘ اور ’’قلیل من الناس یقولون ذلک‘‘ کا مطلب ہے کہ ’’لوگوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا‘‘  قرآن کریم میں بعض جگہ ’’قلیل‘‘ کے یہی معنی (یعنی مطلقاً نفی والے) لینے کی گنجائش ہےــــــــ  ویسے قرآن کریم میں یہ لفظ (قلیل) بکثرت (ستر (۷۰)سے زیادہ جگہ آیا ہے) ان میں سے صرف بارہ جگہ یہ بصورت ‘‘قلیل’’ (مرفوع یا مجرور) اور باقی تمام مقامات پر منصوب (قلیلاً) استعمال ہوا ہے۔

·       یہ (قلیل)  اسم صفت ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اکثر جگہ اس کا موصوف محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں ’’قلیل‘‘ کی جمع سالم ’’قلیلون‘‘ایک جگہ (الشعراء:۵۴) اس کا صیغہ تانیث ’’قلیلۃ‘‘ بھی ایک جگہ (البقرہ:۲۴۹) اور افعل التفضیل کا صیغہ ‘‘اقلّ’’ دو جگہ (الکھف:۳۹  اور الجن:۲۴) آیا ہے۔ خود یہ زیر مطالعہ ترکیب ’’ثمنا قلیلاً‘‘ چھ (۶) جگہ وارد ہوئی ہے اور اس (ترکیب) کا اردو ترجمہ ’’تھوڑا مول، حقیر  معاوضہ، تھوڑی سی قیمت، اور تھوڑے دام‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔

[وَ اِیَّایَ] یہ ابھی اوپر (آیت نمبر ۴۰ کے آخر پر) [۱:۲۸:۲ (۷)] میں گزر چکا ہے یعنی ’’مجھ ہی سے، صرف مجھی سے‘‘۔

[فَاتَّقُوْنِ] یہ بھی فَ+اِتَّقُوا + ن کا مرکب ہے۔ جس میں ابتدائی ’’فاء‘‘ عاطفہ بمعنی ’’پس‘‘ہے اور آخر ’’ن‘‘ در اصل ’’نِیْ‘‘ یعنی نون وقایہ مع یاء متکلم (بمعنی مجھ سے) تھا جس میں ’’ی‘‘ گرا دی گئی ہے مگر اس کی علامت نون کا کسرہ (ـــــِــــ) ہےـــــــ  درمیانی فعل ’’اِتَّقُوْا‘‘ (جس کا ابتدائی ھمزۃ الوصل فاء سے ملنے کی بناء پر تلفظ سے اور واو الجمع کے بعد والا الف زائدہ آگے ضمیر مفعول (منصوب) آنے کی بناء پر کتابت سے ساقط ہوگیا ہے) کا مادہ ’’و ق ی‘‘ اور وزن اصلی ’’افتعِلُوا‘‘ہے۔ اصلی شکل ’’اِوْتَقِیُوْا‘‘ تھی۔ جس کی ابتدائی ’’واو‘‘ (مثال واوی کے بابِ افتعال کے قاعدہ کے تحت) ‘‘ت‘‘  میں بدل کر مدغم ہوگئی ہے اور ’’یاء‘‘ فعل ’’ناقص کے واو الجمع والے قاعدے‘‘ کے مطابق گرا کر عین کلمہ (ق) کو کسرہ کی بجائے ضمہ (ــــُـــــ) دیا گیا ہے۔

·       یہ لفظ ’’اِتَّقوا‘‘ فعل ’’اتقی یتقی‘‘ سے صیغہ امر مخاطب ہے۔ اس فعل (اتقی یتقی اتقاءً)کے معنی اور استعمال پر البقرہ:۲ [۱:۱:۲ (۷)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔اور یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ ’’اتقاءً‘‘ کے بنیادی معنی ’’بچنا‘‘ تاہم اس ’’بچنے‘‘ کی وجہ کوئی ’’ڈر‘‘ ہی ہوسکتا ہے اس لیے اس کا ترجمہ ’’ڈرنا‘‘ سے بھی کرلیا جاتا ہے۔ اسی لیے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’فَاتَّقُوْنِ‘‘  کا ترجمہ ’’پس مجھ سے پورے طور پر ڈرو، ڈرتے رہو، ڈرو، ڈر رکھو، خوف رکھو‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ اگرچہ بعض نے لفظی ترجمہ ’’مجھ سے بچتے رہو‘‘  ہی رہنے دیا ہے۔

·       اور زیرِ مطالعہ آیت کے آخری حصہ (وایایَ فاتقون)  میں بھی [سابقہ آیت کے آخری حصہ ’’وایایَ فارھبون‘‘ کی طرح] ضمیر منصوب کے دو دفعہ (پہلے منفصل پھر متصل) آجانے کی وجہ سے حصر اور تاکید کے معنی پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لیے ترجمہ ’’مجھ ہی سے، میرا ہی، صرف مجھ سے‘‘کے ساتھ کیا گیا ہے۔

 

۲:۲۸:۲     الاعراب
زیر ِمطالعہ قطعہ آیات بنیادی طور پر سات جملوں پر مشتمل ہے جن میں آخری چھ جملے واو عاطفہ کے ذریعے باہم ملا دیے گئے ہیں۔ذیل میں ان تمام جملوں کے اعراب الگ الگ بیان کیے جاتے ہیں۔

(۱) يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ

]یا[حرفِ ندا ہے اور]بنی اسرائیل[میں"بنی"منادی مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی اور منصوب بھی۔علامتِ نصب آخری یاء ماقبل مکسور (ـــــِــــی) ہے اور ’’اسرائیل‘‘ مضاف الیہ (لھذا) مجرور ہے علامتِ جر آخری ’’لَ‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے کیونکہ یہ لفظ غیر منصرف ہے [اذکروا] فعل امر معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے (اور اس کی علامت واو الجمع ہے) [نعمتی] مضاف (نعمۃ) اور مضاف الیہ (یائے متکلم) مل کر فعل ’’اذکروا‘‘ کا مفعول منصوب ہے۔ ’’نعمۃ‘‘ کے یایٔ متکلم کی طرف مضاف ہونے کے باعث کوئی ظاہری علامت نصب نہیں (دراصل یہ ’’نعمۃَ‘‘ ہی تھا)۔ [التی] اسم موصول ہے جو کلمہ ’’نعمۃ‘‘ کی صفت ہونے کے  باعث محل نصب میں ہے اور مؤنث بھی ہے۔

 [انعمتُ]فعل ماضی معروف صیغہ واحد متکلم ہے جس میں ضمیر فاعل ’’اَنَا‘‘مستتر ہے۔ [علیکم] میں ’’علی‘‘ تو فعل ’’انعمتُ‘‘ کا صلہ ہے اور ’’کم‘‘ مجرور بالجر (علی) ہے۔ اس طرح ’’علیکم‘‘ (مفعول ہو کر) محلاً منصوب ہے اور چاہیں تو ’’علیکم‘‘ کو جار مجرور متعلق فعل سمجھ لیں۔ یہاں ’’مُنْعِم‘‘ کا ذکر ’’انعمتُ‘‘ میں ہے اور ’’مُنعَم عَلیہ‘‘کا ذکر ضمیر ’’کم‘‘ میں ہے اور درمیان میں ’’منعَم بہ‘‘ (یعنی ’’نعمۃ‘‘) کے لیے ایک ضمیر (یعنی ’’بھا‘‘) محذوف ہے۔ یہ جملہ فعلیہ (انعمت علیکم) اسم موصول (التی) کا صلہ ہے اور صلہ موصول (التی انعمت علیکم) ’’نعمتی‘‘ کی صفت ہے۔

(۲) وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ

 [و] عاطفہ ہے جس کے ذریعے اگلے فعل (اوفوا) کا عطف سابقہ فعل (اذکروا) پر ہے یا مابعد جملے کا سابقہ جملے پر عطف ہے۔ [اوفوا] فعل امر معروف صیغہ جمع مذکر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘مستتر ہے [بعھدی] کی ’’بِ‘‘ تو فعل ’’اَوفُوا‘‘ کا صلہ ہے اور ’’عھدی‘‘ میں ’’عھد‘‘ مجرور بالجر(ب) بھی ہے اور آگے مضاف بھی آخری ’’ی‘‘ ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے یہاں بھی یائے متکلم کی وجہ سے لفظ ’’عھد‘‘ ظاہری علامتِ جر سے خالی ہے۔ اس طرح ’’بعھدی‘‘ فعل ’’اوفوا‘‘ کا مفعول (لھذا محلاً منصوب) ہے اور اسے جار مجرور متعلق فعل بھی کہہ سکتے ہیں۔ [اُوفِ] فعل مضارع معروف صیغہ واحد متکلم اور مجزوم ہے علامتِ جزم آخری ’’یاء‘‘ کا گر جانا ہے (یہ دراصل اُوْفِیْ تھا) اور جزم کی وجہ اس فعل کا جواب امر (اوفوا) ہونا ہے۔

[بعھدکم] کا اعراب بھی ’’بعھدی‘‘ کی طرح ہے۔ یعنی محلاً منصوب یا متعلق فعل ہے۔

(۳) وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ
[وَ] عاطفہ اور [ایّایَ] ضمیر منصوب منفصل ہے جس کے بعد ایک فعل (ارھبوا) محذوف ہے جس کا یہ ’’ایایَ‘‘ مفعول ہے۔ کیونکہ ’’ایای‘‘ کو فعل سے پہلے آنا چاہیے ]دیکھئے ۱:۴:۱(۱)میں قاعدہ [بعد والے فعل [فارھبونِ] میں ’’فَ‘‘ زائدہ برائے تاکید ہے اور ’’ارھبوا‘‘ فعل امر مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے جس کا مفعول (منصوب) ’’نی‘‘ تھا (جو نون وقایہ + ضمیر متکلم منصوب ’’ی‘‘ تھا)اس میں یائے متکلم گر کر باقی ’’نِ‘‘ رہ گیا ہے۔ ضمیر منصوب منفصل (ایای) کو اس (دوسرے موجود) فعل ’’ارھبوا‘‘ کا مفعول منصوب نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس فعل کا مفعول منصوب ’’نی‘‘ (بصورت ’’نِ‘‘) موجود ہے۔ اس لئے نحوی حضرات پہلے مفعول (ایای) کے لیے ایک ’’اَوْر‘‘ فعل ’’ارھبوا‘‘ کو محذوف سمجھتے ہیں۔ گویا تقدیر عبارت (دراصل) تھی ’’وایایَ اربھوا فاربھونیــــــــ‘‘ ’’ایَایَ‘‘ کی تقدیم اور پھر فعل (محذوف اور مذکور) کی تکرار سے اس جملے میں حصر اور تاکید کے معنی پیدا ہوگئے ہیں۔ یعنی ’’صرف مجھ ہی سے ڈرو (اور کسی اور سے مت ڈرو) اور مجھ سے ڈرو بھی ضرور (یہ نہیں کہ کسی غیر اللہ سے نہ ڈرنے کے ساتھ اللہ کے ڈر سے بھی غافل ہوجاؤ‘‘ کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔)

(۴) وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ

وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے اگلے جملے کو پچھلے جملے سے (بلحاظ مضمون) ملایا گیا ہے۔ [آمنوا] فعل امر معروف مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ہے [بما] میں ’’بِ‘‘ تو فعل ’’آمنوا‘‘ کا صلہ ہے اور ’’مَا‘‘ اسم موصول ہے جس میں مبنی بر الف ہونے کے باعث ظاہراً کوئی علامتِ اعراب (جر) نہیں ہے۔ [انزلتُ] فعل ماضی معروف مع ضمیر متکلم ’’انا‘‘ہے اور یہ ایک مکمل جملہ فعلیہ (فعل مع فاعل) ہوکر موصول (ما) کا صلہ ہے۔ یہاں ایک ضمیر عائد (برائے اسم موصول) محذوف ہے یعنی یہ دراصل ’’انزلتُہ‘‘تھا۔ یہ صلہ موصول (بما انزلت) مل کر فعل ’’آمِنوا‘‘کے مفعول ہونے کی حیثیت سے محلاً منصوب ہے [مصدقًا] اسم موصول ’’ما‘‘یا اس کی طرف عائد ہونے والی محذوف ضمیر کا حال ہو کر منصوب ہے۔ یعنی ’’میں نے اتارا (اس کو) مصدق ہوتے ہوئے‘‘ (یا اس حالت میں کہ وہ مصدق ہے) [لِما] میں لام الجر (ابتدائی) کا تعلق مصدِّق کے فعل (تصدیق) سے ہے بلکہ یہ ’’لام‘‘ (لِ) ایک طرح سے اضافتِ نکرہ کا کام دے رہا ہے اس لئے اس کا اردو ترجمہ’’ کا/کی‘‘سے کیا جاسکتا ہے ’’مَا‘‘ اسم موصول ہے جو یہاں مبتدأ کا کام دے رہا ہے اور [معکم] میں ’’مَعَ‘‘ ظرف مضاف اور ’’کم‘‘ ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے اور یہ (معکم) ’’ما‘‘ کے لیے قائم مقام خبر ہے (یا’’ما‘‘ کا صلہ سمجھ لیجئے) اور یہ صلہ موصول (ما معکم) جملہ اسمیہ لام (لِ) کے ذریعے ’’مصدقا‘‘سے متعلق ہے اس طرح اس سارے حصہ عبارت ’’مصدقا لما معکم‘‘ کا لفظی ترجمہ ہونا چاہئے ’’تصدیق کرنے والا ہوتے ہوئے اس کی جو تمہارے ساتھ ہے۔ مگر اردو محاورہ میں حال کے ساتھ ترجمہ غیر مانوس لگتا ہے اس لئے بیشتر مترجمین نے اسے جملہ اسمیہ ’’ھو مصدق لما معکم‘‘ کی طرح ترجمہ کر لیا ہے یعنی ’’سچ بتانے والی/ سچا کرنے والی ’’مامعکم‘‘کی۔ اور بعض نے ’’مصدقا‘‘ کا ترجمہ فعل (یصدِّق) کی طرح ’’تصدیق کرتا/ سچا بتاتا/ سچا کہتی ہے‘‘ کی صورت میں کیا ہے یہ سب محاورہ کی خاطر ہے۔ مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔ تاہم اصل عربی ترکیب ذہن میں ہونی چاہئے۔

(۵) وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ

[وَ] یہاں بھی دو جملوں کو ملانے کے لیے عطف کا کام دے رہی ہے اور [لاتکونوا] فعل نہی معروف صیغہ جمع مذکر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ جو یہاں فعل کان (ناقصہ) کی وجہ سے نحوی اصطلاح میں ’’اسم‘‘ کان ہے۔ اور اس کی علامت ’’لاتکونوا‘‘ کی (آخری) واو الجمع ہے [اوَّلَ] کان (لا تکونوا) کی خبر (لھذا) منصوب ہے جس کی علامت نصب ’’لَ‘‘کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے کیونکہ ’’اول‘‘ غیر منصرف ہے اور یہاں تو آگے مضاف بھی ہے (اس لیے بھی تنوین سے بری ہے) اور [کافرٍ] ’’اوّل‘‘ کا مضاف الیہ (لھذا) مجرور ہے۔ علامتِ جر تنوین الجر (ــــٍـــــ) ہے۔ [بہ]جار مجرور (ب+ہ) مل کر ’’کافر‘‘ کے فعل (کفریکفر) سے متعلق ہے (اور ’’باء‘‘ کَفَر کا صلہ بھی ہوتا ہے) اور یہاں یہ (بہ) بلحاظ ترکیب متعلق خبر ِکان (اولَ کافرٍ)ہے۔

(۶) وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا

یہاں بھی [وَ] دو جملوں کو ملانے (یا فعل ’’لاتشتروا‘‘کو ’’لاتکونوا‘‘پر عطف کرنے کا کام دے رہی ہے۔ [لاتشتروا] فعل نہی معروف صیغہ جمع مذکر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘مستتر ہے اور اس ضمیر کی علامت واو الجمع ہے۔ [بایَاتی] میں باء الجر (بِ)کے  بعد آیات‘‘مجرور بالجر نیز مضاف ہے اور آخری ’’یاء‘‘ ضمیر مجرور برائے واحد متکلم ہے۔ یہ سارا مرکب جارّی (بآیاتی) متعلق فعل ’’لا تشتروا‘‘ہے جو اس (فعل) کے مفعول سے مقدم (پہلے) آیا ہے۔ [ثمنًا قلیلاً] صفت (قلیلاً) اور موصوف (ثمنًا) مل کر فعل ’’لاتشتروا‘‘ کا مفعول (لھذا) منصوب ہے۔ گویا اصل ترتیبِ عبارت یوں تھی۔ ’’ولا تشتروا ثمناً قلیلاً بآیاتی‘‘ جیسے کہتے ہیں ’’اشتریتُ کتاباً بکذا‘‘(میں نے ایک کتاب اتنے میں خریدی)۔

(۷)وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ

[وَ] یہاں بھی پہلے اور پچھلے جملے کو ملانے کے لیے ’’عاطفہ‘‘ہے۔ اور [اِیَّای] ضمیر منصوب منفصل ہے جو بعد میں آنے والے ایک محذوف فعل (اتقوا) کا مفعول ہے (ضمیر منصوب منفصل عموماً فعل سے پہلے آتی ہے)دیکھئے ۱:۴:۱(۱) اور [فاتقون] کی ابتدائی ’’فا‘‘ سببیہ ہے۔ (یعنی ’’اس لئے‘‘ کا معنی دیتی ہے) اور ’’اتقوا‘‘ فعل امر مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ہے اور ’’نِ‘‘ دراصل ’’نِی‘‘ (نون وقایہ + یائے متکلم) تھا جس کی ’’یاء‘‘ گرا کر نون کا کسرہ (ـــــِــــ) برقرارہے اور یہ (نِ) فعل ’’اتقوا‘‘ کا مفعول ہے۔ یہاں بھی ضمیر منصوب (منفصل اور متصل) کے دو بار آنے سے عبارت میں حصر اور تاکید کے معنی پیدا ہوگئے ہیں۔ یعنی اوپر (جملہ نمبر۳) میں ’’وایایَ فارھبون‘‘ کا سا مفہوم آگیا ہے (دونوں تراکیب کی مماثلت پر غور کرلیجئے)۔

 

۳:۲۸:۲     الرسم

زیرِ مطالعہ قطعہ آیات کے بھی بیشتر کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے۔ صرف چار کلمات ایسے ہیں جو رسمِ مصحف (عثمانی) کے لحاظ سے قابلِ توجہ ہیں یعنی ’’یابنی‘‘ ’’اسرائیل‘‘، ’’ایای‘‘اور ’’بآیاتی‘‘(یہاں ہم نے ان کلمات کو رسم املائی کے مطابق ہی لکھا ہے تاکہ رسم عثمانی کا فرق یہاں نمایاں ہوسکے) ان میں سے دوکلمات کا رسم عثمانی متفق علیہ ہے۔ اور دو کا مختلف فیہ ہے۔ تفصیل یوں ہے۔

’’(۱) یابنی‘‘ کی ترکیب کو یہاں اور قرآن کریم میں ہرجگہ ’’یبنی‘‘ کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔ یعنی نداء کے ’’یا‘‘ کا الف کتابت میں حذف کردیا جاتا ہے (اگرچہ پڑھا جاتا ہے اور اس کے لیے بذریعہ ضبط اس الف کو ظاہر کیا جاتا ہے) یہ علمائے رسم کا متفق علیہ فیصلہ ہے۔ بلکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہر جگہ ندا کا ’’یا‘‘محذوف الالف ہی لکھا جاتا ہے مثلاً ’’یموسی‘‘، ’’یآدم‘‘، ’’یایھا‘‘وغیرہ میں۔

(۲) اسی طرح ’’بایاتی‘‘ بھی یہاں اور قرآن میں ہر جگہ ’’بایتی‘‘ کی صورت میں یعنی ’’ی‘‘کے بعد والے (اور ’’ت‘‘ سے پہلے والے) الف کے حذف کے ساتھــــــــ لکھا جاتا ہے۔ اور یہ الف بھی پڑھا جاتا ہے اور ضبط کے ذریعے اس کو ظاہر کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔

(۳) کلمہ ’’ایایَ‘‘ کا رسم مختلف فیہ ہے۔ الدانی کے قول کو ترجیح دینے والے (مثلاً اہلِ لیبیا) اسے اسی طرح یعنی پہلی یاء کے بعد والے الف کے اثبات سے لکھتے ہیں (اس کا رسمِ املائی بھی باثبات الالف ہی ہے)۔ برصغیر کے مصاحف میں بھی یہ اسی طرح باثبات الف (ایّایَ) لکھا جاتا ہے جیسا کہ صاحب ’’نثر المرجان‘‘ نے تصریح کی ہے۔ البتّہ عرب اور (بیشتر) افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الف (بعد الیاء) یعنی بصورت ’’ایّٰیَ‘‘ لکھا جاتا ہے اور پھر مخصوص ضبط کے ذریعے اس کا تلفظ متعین کیا جاتا ہے یہ حذف الف غالباً ابوداؤد کے کسی قول پر مبنی ہے۔ پاکستان کے صرف تجویدی قرآن میں مصری مصحف کی پیروی میں اسے بحذف الف لکھا گیا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سورۃ الفاتحہ میں ’’ایَّاکَ‘‘ بالاتفاق اثبات الالف کے ساتھ ہی لکھا جاتا ہے۔ اس مماثلت کو بھی ’’ایای‘‘ باثبات الف لکھنے کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ ’’رسم‘‘ میں قیاس کو ہر جگہ بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔

 (۴) کلمہ ’’اسرائیل‘‘ میں ایک بات تو متفق علیہ ہے کہ آخری ’’ئیل‘‘ رسم عثمانی کے مطابق ’’ء یل‘‘ ہے۔ بلکہ دراصل تو مصاحف عثمانی میں اسے صرف ’’ئل‘‘ ہی لکھا گیاتھا۔ ھمزہ کے لیے علامت (#) بلکہ ’’یاء‘‘ کے (نیچے والے دو) نقطے بھی بہت بعد میں ایجاد کئے گئےـــــــ البتہ اس لفظ ’’اسرائیل‘‘ کے پہلے حصے میں ’’ر‘‘ کے بعد والے الف کے حذف اور اثبات میں اختلاف ہے۔ یہاں بھی ابوداؤد سے حذف اور الدانی سے اثبات ثابت ہے۔ بلکہ اہلِ علم نے اس میں حذفِ الف کو ’’اقلیت‘‘ (کم لوگوں) کا عمل قرار دیا ہے۔ [6] اس طرح یہاں بھی نہ صرف لیبیا بلکہ بیشتر افریقی ممالک مثلاً تونس، مراکش، نائیجیریا اور غانا کے مصاحف میں یہ لفظ اس الف (بعد الراء) کے اثبات کے ساتھ ’’اسراء یل‘‘ کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔ البتہ مصری، سعودی اور شامی مصاحف میں اسے بحذفِ الف (بعد الراء) لکھا گیا ہے یعنی بصورت ’’اسرء یل‘‘۔ پھرضبط کے ذریعے اس الف کو ظاہر کیا گیا ہے۔

·       ایرانی، ترکی اور چینی مصاحف میں ’’یابنی اسرائیل‘‘ اور ’’بآیاتی‘‘ لکھنے کا عام رواج ہے جو رسم عثمانی کی صریح  خلاف ورزی ہے۔

 

۴:۲۸:۲     الضبط

اس قطعہ کے کلمات میں ضبط کے اختلافات یا"تنوعات"مندرجہ ذیل نمونوں سے معلوم ہوں گے۔

 

 



 [1] اور ہر ایک فریق کے کچھ دلائل ہیں۔ تفصیل چاہیں تو دیکھئے التبیان (للعکبری) ج ۱ ص ۵۷ اعراب القرآن (للنحاس) ج ۱ ص ۲۱۷ معجم الاعلال والابدال (للخراط) ص ۵۳۔ نیز البستان، اقرب الموارد اور مد القاموس (LANE) تحت مادہ ’’ ب ن ی‘‘۔

 

[2]  دیکھئے سابقہ حوالہ جات یعنی التبیان وغیرہ۔

[3]  مثلاً المفردات (للراغب) اور البستان میں دیکھئے۔

 

[4] ۔’’اوّل‘‘ کی اصل کی تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے القاموس المحیط مادہ ’’وول‘‘، البستان مادہ وأل، التبیان (للعکبری ج ۱ ص ۵۷۔۵۸، البیان (لابن الانباری) ج۱ ص ۷۸ یا کوئی بھی مبسوط ڈکشنری۔

 

[5] ’’اوّل‘‘کے مختلف استعمالات کے لیے دیکھئے۔ ’’الاعراب الکامل‘‘ (عبدالقادر) ص ۷۸۔۷۹۔

 

[6] دیکھئے تلخیص الفوائد (شاطبیہ) ص ۵۲ نیز سمیر الطالبین (للضباع) ص ۳۸ اور نثر المرجان ج۱ ص ۱۳۵