سورۃ البقرہ  ۴۲ ، ۴۳ اور ۴۴

۲۹:۲  وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ  (۴۲) وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ(۴۳) اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ  اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ(۴۴)

۱:۲۹:۲     اللغۃ

[وَ] عاطفہ ہے جو اگلے اور پچھلے جملے کو ملاتی ہے۔ [لَاتلْبِسُوْا] کا مادہ ’’ل ب س‘‘ اور وزن ’’لا تَفْعِلُوْا‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے جن سب میں بنیادی اور مشترک مفہوم ’’چھپا دینا اور پردہ ڈالنا‘‘ کا ہوتا ہے۔ مثلاً

 (۱) لَبسیلبُس لَبْسًا (نصر سے) کے معنی ہیں ’’…کو اپنے بارے میں شک اور اُلجھن میں ڈال دینا‘‘ مثلاً ’’لبَسنِیْ‘‘= اس نے مجھ کو اپنے (اس کے) بارے میں اشتباہ پیدا کردیا۔ قرآن میں اس استعمال کی کوئی مثال نہیں ہے۔

 (۲) ’’ لبَس… (۱)… یلبِس لَبْسًا علی… (۲) … (ضرب سے) آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’۔۔(۱) ۔۔کو۔۔ (۲)….پرمشتبہ کر دینا….(۲)کے لیے(۱)….میں اشتباہ پیدا کردینا۔مثلا کہتے ہیں "لبس الامر علیہ"(اس نے اس پر معاملہ مشتبہ کردیا) قرآن کریم میں اس کی مثال الانعام:۹میں ہے۔

(۳)لبَس….(۱)یلبِس لَبْساًبِ….(۲)(ضرب سے ہی)آتا ہے اور اس کے معنی  ہوتے ہیں:’’(۱)کو(۲)کے ساتھ خلط ملط کردینا‘‘ یا ’’(۱) کو (۲) کے ساتھ گڈ مڈ کردینا‘‘ مثلا کہتے ہیں ’’لَبس الحقَّ بالباطل‘‘ (اس نے حق کو باطل سے خلط ملط کردیا)۔ یہ ’’ملادینا‘‘ جیسی چیزوں (مثلا سونا اور پیتل یا گندم اور جَو) کی بجائے معنوی چیزوں (مثلاً سچ اور جھوٹ یا صحیح اور غلط) کو ملا جلا دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آیت زیرِ مطالعہ میں یہ فعل ان ہی معنی کے لیے آیا ہے۔ اسی لیے ’’لاتلبسوا‘‘ کا ترجمہ ’’مت ملاؤ ،گڈمڈ نہ کرو، نہ ملاؤ، خلط  ملط  مت کرو‘‘سے گیا گیا ہے۔

 (۴) لبِس… یلبَس لُبْسًا (سمع سے) آئے تو اس کے معنی: ’’…کو پہننا، پہن لینا‘‘ہوتے ہیں۔ اس کا مفعول پہننے کا کوئی کپڑا (چادر قمیص وغیرہ) آتا ہے مثلاً کہیں گے لبسَ الثوبَ (اس نے کپڑا پہنا)۔

·       اس فعل کی آخری (مندرجہ بالا) تینوں صورتیں قرآن کریم میں استعمال  ہوئی ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے فعل کے مختلف صیغے گیارہ(۱۱) جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان میں سے مندرجہ بالا نمبر۲ والے معنی کے لیے چار جگہ  نمبر ۳والے معنی کے لیے تین جگہ اورنمبر۴ کے لیے بھی چار جگہ استعمال ہوا ہے۔ عام عربی زبان میں یہ فعل مجرور و مزید فیہ بعض دیگر معانی اور محاورات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اس طرح کا استعمال قرآن کریم میں نہیں آیاــــــ البتہ اس مادہ سے ماخوذ بعض اسماء (مثلاً لِباس، لَبُوس اور مصدر لَبْسٌ وغیرہ) دس بارہ جگہ آئے ہیں۔ ان پر حسبِ موقع بحث ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 [اَلْحَقَّ] کا مادہ ’’ح ق ق‘‘اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعْلٌ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد (حقّ یحِقّ حقّاً) کے باب معنی اور استعمال پرــــــ بلکہ خود اس لفظ (الحق)کے معانی وغیرہ پر البقرہ:۲۶ ]۱:۱۹:۲(۶)[میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ پچھلے فعل (لاتلبسوا)کی وجہ سے یہاں ’’الحقَّ‘‘ کا ترجمہ ’’حق کو حق میں، سچ کو، سچ میں اور صحیح میں‘‘کے ساتھ کیا گیا ہے۔

۱:۲۹:۲(۲)     [بِالْبَاطِل] ابتدائی باء (بِ) ’’جس کا اردو ترجمہ کے ساتھ‘‘ہے، کے استعمال و معانی پر استعاذہ کی بحث میں بات ہوئی تھی۔ یہاں یہ ’’ب‘‘ اوپر بیان کردہ فعل (ولاتلبسوا) کے صلہ کے طور پر آئی  ہے ]دیکھئے ۱:۲۹:۲ میں نمبر۳[۔اور لفظ ’’الباطل‘‘ کا مادہ ’’ب ط ل‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر)  ’’فَاعِلٌ‘‘ہے (جو یہاں باء الجر کی وجہ سے مجرور آیا ہے)

·       اس ثلاثی مادہ (بطل)سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً

(۱) بطَل یبطُل بُطلاً وبُطلانًا (نصر سے) آئے تو اس کے معنی: ’’ضائع ہوجانا، ناجائز ہوجانا، بے اثر ہونا اور غلط ثابت ہونا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’بطَلَ البیعُ‘‘ (سودا ناجائز ہوگیا) یا ’’بطَل الدلیلُ‘‘ (ثبوت غلط ثابت ہوگیا۔ بے اثر ہوگیا) اور اس چیز کو ’’باطل‘‘ کہتے ہیں۔ اور چونکہ یہ لفظ (باطل) بھی اردو میں مستعمل ہے اس لیے اس فعل کا ترجمہ ’’باطل ہوجانا یا باطل ثابت ہونا‘‘ بھی کر سکتے ہیں۔

(۲) اور اسی باب (نصر)سے ’’بطَل یبطُل بِطَالۃً بَطَالۃً بُطَالۃً ‘‘(مصدر کا فرق اور اس کی ابتدائی ’’ب‘‘ کا مثلث الحرکات ہونا نوٹ کیجئے) کے معنی ’’بے کار ہونا، کام(مزدوری، ملازمت وغیرہ)کے بغیر ہونا‘‘ مثلا کہتے ہیں ’’بطَل العاملُ اوالآجرُ‘‘(مزدور بے کا رہوگیا) اس فعل سے اسم صفت ’’بَطَّالُ‘‘(بے کار، بے روزگار)بنتا ہے۔*

(۳) باب سمِعَ سے ’’بَطِل یبطَل بَطالۃً‘‘کے معنی ہیں۔ ’’بات میں غیر سنجیدہ ہونا، فضول بات کرنا‘‘ ایسے آدمی کو ’’ بَطِلٌ ‘‘کہتے ہیں۔

(۴) اور ’’بطُل یبطُل بُطُولۃً‘‘(باب کرم سے) آئے تو اس کے معنی ’’بہادر ہونا، جرأت اور ہمت والا ہونا‘‘ہوتے ہیں۔ اور ایسے آدمی کو ’’ بَطَلٌ‘‘کہتے ہیں جس کی جمع ’’اَبْطَال‘‘ہوتی ہے۔

·       آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ مذکورہ بالا چاروں معنی کے لحاظ سے یہ فعل ہمیشہ لازم ہی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف ایک صیغہ (فعل ماضی کا) ایک جگہ (الاعراف:۱۱۷) آیا ہے اور وہ بھی صرف پہلے معنی (غلط ثابت ہونا، باطل ہوجانا) میں استعمال ہوا ہے۔ مذکورہ بالا باقی (تین معنی) کے لیے یہ فعل قرآن میں کہیں نہیں آیاــــ البتہ مزید فیہ کے بابِ افعال سے مختلف افعال اور اسماء مشتقہ کے صیغے نو (۹) جگہ آئے ہیں۔ ان کا بیان آگے آئے گا اِن شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’الباطل‘‘ اسی فعل مجرد کے مذکورہ بالا پہلے معانی (غلط ثابت ہونا) سے اسم الفاعل ہے۔ بلحاظ معنی یہ کلمہ ’’حقّ‘‘کی ضد ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بالعموم ’’جھوٹ‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔یعنی بے حقیقت، غلط یا نا درست چیز۔ لفظ ’’حق‘‘ کے مختلف معانی البقرہ:۲۶ ]۱:۱۹:۲(۶)[میں بیان ہوئے تھے ان کی ضد( مخالف معنی)کے ذریعے ’’باطل‘‘کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں ویسے لفظ ’’حقّ‘‘کی طرح یہ لفظ (باطل) بھی اردو میں اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ مستعمل ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ (باطل) مختلف صورتوں میں ۲۶ جگہ وارد ہوا ہے اور زیادہ تر معرف باللام (الباطل) ہی استعمال ہوا ہے۔ پچھلی عبارت (لا تلبسوا الحق) کی وجہ سے یہاں ’’بالباطل‘‘ کا ترجمہ، ناحق کے ساتھ، باطل کے ساتھ، جھوٹ کے ساتھ‘‘ کیاگیا ہے۔

[وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ] میں واو عاطفہ (بمعنی اور) کے بعد لفظ ’’تَکْتُمُوا‘‘ہے جو دراصل ’’تکتُمون‘‘تھا۔ (اس کے آخری ’’نون‘‘کے گِر جانے کی وجہ بحث" الاعراب "میں بیان ہوگی) اس لفظ کا مادہ ’’ک ت م‘‘ اور (موجودہ) وزن ’’تَفْعَلُوا‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (کتَم… یکتُم کِتْمانًا چھپانا پوشیدہ کرنا) کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۳۳ ]۱:۲۳:۲(۳)[میں بات ہوچکی ہے۔

آخری کلمہ"الحق"پر ابھی اوپر]اور۱:۱۹:۲(۶)میں[بات ہوئی ہے۔

[وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ] ’’وَ‘‘ جو یہاں حالیہ بمعنی ’’حالانکہ‘‘ہے) کے استعمال پر الفاتحہ:۵]۱:۴:۱(۳)[ اور البقرہ:۸]۱:۷:۲(۱)[ میں بات ہوچکی ہے۔ ’’انتم‘‘ ضمیر مرفوع برائے جمع مذکر حاضر (بمعنی تم سب)ہے اور ’’تَعْلَمُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ع ل م‘‘اور وزن ’’تَفْعَلُوْن‘‘ہے اس مادہ سے فعل مجرد (علِم…یعلَم: جاننا) کے باب اور معنی وغیرہ پر الفاتحہ:۲ ]۱:۲:۱(۴)[نیز البقرہ: ۱۳ ]۱:۱۰:۲(۳)[میں مفصل بات ہوچکی ہےــــــ یہاں ابتدائی ’’واو‘‘کے حالیہ ہونے کی وجہ سے اس عبارت (وانتم تعلمون) کا لفظی ترجمہ تو بنتاہے۔ ’’درانحالیکہ یا حالانکہ تم جانتے ہو؍ جان رہے ہو‘‘ــــــ بعض نے تاکید کے لیے (اردو محاورے کے مطابق)جان بھی رہے جو‘‘سے ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ اکثر نے اس جملہ (حالیہ) کا بامحاورہ اردو ترجمہ ، جان کر، جان بوجھ کر، دیدہ و دانستہ‘‘کی صورت میں کیا ہے ان سب میں ’’حال‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔

[وَاَقِیْمُوْا] کی ابتدائی ’’واو‘‘عاطفہ ہے اور ’’اَقِیْمُوْا‘‘ کا مادہ ’’ق و م‘‘اور وزنِ اصلی ’’اَفْعِلُوْا‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’اَقْوِمُوْا‘‘ تھی جس میں حرف علت (و) کی حرکت (ـــــِــــ) ماقبل حروف صحیح (ق) کو دے کر خود اس واو کو ماقبل کی حرکتِ کسرہ (ـــــِــــ)کے موافق صرف (ی) میں بدل کر لکھتے اور بولتے ہیں اب اس (اقیموا) کا وزن (تعلیل کے بعد) ’’اَفِیْلوا‘‘رہ گیا ہے۔

یہ فعل (اقیموا) اس مادہ (ق و م) سے بابِ افعال کے فعل ’’اَقام یقیم اقامۃً‘‘(در اصل اَقْوَمَ یُقْوِم اِقوامًا) بمعنی ’’قائم کرنا‘‘سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس باب سے فعل امر کی گردان (تعلیل کے بعد) اَقِمْ، اَقِیْمَ  اَقِیْمُو،  اَقِیمِیْ اَقِیْمَ اَقِمْنَ‘‘ہو گیــــــ  اس مادہ (قوم)سے فعل مجرد اور خود اس باب (اِفعال) کے فعل (اَقام یُقیم) کے معانی و استعمالات پر البقرہ:۳]۱:۲:۲(۳)[ میں مفصل بات ہوچکی ہے ــــــ ’’اَقیموا‘‘کالفظی ترجمہ ’’قائم کرو، رکھو‘‘ بنتا ہے۔ جن کی بامحاورہ صورتوں سے بھی مذکورہ بالا مقام (۱:۲:۲(۳)میں کلمہ ’’یقیمون‘‘ کے ضمن میں بحث کی گئی تھی۔

[الصَّلوٰۃَ]کے مادہ، وزن اصلی، فعل مجرد وغیرہ کے معانی اور لفظ صلوٰۃ کے ’’نماز‘‘ کے مترادف  و  ہم معنی ہونے پر البقرہ:۳ ]۱:۲:۲(۴)میں بالتفصیل بحث گزرچکی ہے اور ’’اقامۃ الصلوٰۃ‘‘کے  معنی اور اس کے مختلف تراجم کا ذکر بھی وہیں کیا جاچکا ہے۔

۱:۲۹:۲(۳)     [وَاٰتُوْا] میں ابتدائی واوِ عاطفہ کے بعد والے کلمہ ’’اٰتُوْا‘‘ کا مادہ ’’ا ت وی‘‘اور وزن اصلی ’’اَفْعِلُوْا‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’أَأْتِیُوْا‘‘تھی۔ اس کے ابتدائی حصے میں تو ایک متحرک اور ایک ساکن ہمزہ کے جمع ہونے کی بنا پر ’’أَأْ= آ ‘‘بن گیا( اس کے قرآنی ضبط پر آگے بات ہوگی)ــــــ اور اس (اَتِیُوْا) کا آخری حصہ (تِیُوا)ناقص کے واو الجمع والے قاعدے کے مطابق ’’تُوا‘‘میں بدل جاتا ہے اور یوں یہ لفظ ’’آتُوا‘‘بنتا ہے۔ اس مادہ (ا ت ی) سے فعل مجرد (اتی یأتی اتیانًا = آنا)کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ۲۳ ]۱:۱۷:۲(۴)میں بات ہوئی تھی۔

·       زیر مطالعہ کلمہ (آتُوْا)اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ بابِ افعال سے اس فعل آتی…یُؤتِیْ ایتائً  [1] (دراصل أَأْتَیَ یُؤْتِیُ اِئْتایًا‘‘)کے بنیادی معنی ہیں:’’…کو…دینا‘‘ــــــ یعنی عموماً اس کے دو مفعول اور دونوں براہ راست (بنفسہ) آتے ہیں۔ (۱) جس کو دیا جائے اور (۲) جو چیز دی جائے جیسے ’’ وَاٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْك ‘‘(البقرہ:۲۵۱) یعنی ’’اللہ نے اس کو حکومت دی۔‘‘  بعض دفعہ اس کا ایک مفعول محذوف ہوتا ہے پھر اس کی بھی دو صورتیں ہیں (۱) زیادہ تر تو پہلا مفعول (جس کو دیا جائے)محذوف ہوتا ہے۔ اس کی قرآن کریم میں تیس (۳۰)سے زیادہ مثالیں موجود ہیں۔ (۲) اور بعض دفعہ دوسرا مفعول (جو چیز دی جائے)محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے۔ اس کی صرف ایک مثال قرآن کریم میں (النور:۲۲)میں آئی ہے۔

·       کبھی اس فعل (اَتَی یُوْتِی) کے معنی موقع کے لحاظ سے ’’لانا۔ لے آنا‘‘بھی ہوتے ہیں جو دراصل ’’دنیا‘‘ ہی کی ایک صورت ہے مثلاً کہتے ہیں ’’آتی زیدًا طعاماً‘‘(وہ زید کے سامنے کھانا لایا) اور قرآن کریم میں ہے ’’ اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا ‘‘ (الکہف: ۶۲) جب اس فعل کا مفعول (ثانی) ’’زکوۃ‘‘ یا کوئی واجب شرعی ہو تو اس کا ترجمہ ’’ادا کرنا‘‘سے بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم میں بابِ افعال کے اس فعل (اَتی یوْتی)سے اَفعال اور اسماء مشتقہ کے مختلف صیغے ۲۷۵ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔

·       یہاں اس (آتوا)کا ترجمہ ’’دو‘‘ کے علاوہ ’’دیا کرو‘‘ اور ’’دیتے رہو‘‘ سے بھی کیا گیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے یعنی اس میں کئی بار یا بار بار (ہر سال) زکوٰۃ ادا کرنے کا مفہوم ہے۔ جس کا ثبوت سنت سے ملتا ہے۔

۱:۲۹:۲(۴)     [الزَّکوٰۃَ] کا مادہ ’’زک و‘‘ اور بقول بعض [2] ’’زک ی‘‘ہے اور وزن اصلی (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَلَۃٌ‘‘ہے (جو یہاں منصوب ہے) گویا اس لفظ کی اصلی شکل ’’زَکَوَۃٌ  یا  زَکَیَۃٌ‘‘تھی جس میں ’’واو  یا   یاء‘‘ ماقبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے اور یوں یہ لفظ ’’ زکاۃ‘‘بنتا ہے جس کی قرآنی املاء (رسم عثمانی) ’’زکوٰۃ‘‘ ہے۔ جو ایک طرح سے اس بات پر دلیل بھی ہے کہ اس کا مادہ واویٔ اللام ہے جس میں الف میں بدلنے والی ’’واو‘‘ کو لکھنے میں برقرار رکھا گیا ہے۔ اگرچہ اسے پڑھا ’’الف‘‘ہی جاتا ہے۔ لفظ ’’صلوۃ‘‘کے بارے میں بھی یہی بات آپ پڑھ آئے ہیں۔]دیکھئے ۱:۲:۲(۴)[

·       اس مادہ سے فعل مجرد زیادہ تر ’’زکا/   یزکو / زکائً (دراصل زکَوَ/  یَزکُوُ) باب نصر سے آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہوتے ہیں ’’بڑھنا، نشو ونما پانا، زیادہ ہونا‘‘ــــــ اور یائی اللام مادہ کی صورت میں یہی فعل باب سمِع سے ’’زکِیَ  یزکیٰ  زکیً‘‘ بھی اسی معنی کے لیے مستعمل ہے۔ ویسے یہ باب (سمع) واوی اللام سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ’’زکِوَ یزکَوُ‘‘ بھی (رضِیَ کی طرح) پڑھا تو ’’زکِیَ یزکی‘‘ہی جائے گا اور اگر یائ اللام ہی ہو تو بھی (خَشِیَ یخشٰی کی طرح)پڑھا  زکِیَ   یزکی  جائے گا۔

·       عربی زبان میں مذکورہ بالا معانی کے علاوہ یہ فعل (زکا  / یزکو) بعض دوسرے معانی (مثلاً نیک ہونا پاکیزہ ہونا، عمدہ حالت میں ہونا وغیرہ)کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ فعل ہمیشہ لازم ہی آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (یا ان دونوں مادوں سے) ثلاثی مجرد کا کوئی فعل (کسی معنی میں بھی) کہیں نہیں آیا۔ البتہ اس سے مشتق اسماء صفت (زکیِّ، زکیّۃ اور ازکیٰ ) پانچ چھ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے ابواب تفعیل اور تفعل سے اَفعال کے مختلف صیغے بھی بیس (۲۰)کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ان پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’الزکوۃ‘‘اپنے مادہ سے فعل مجرد کا مصدر بھی ہے اور اسم بھی۔ یعنی اس کے معنی بڑھنا، نشوونما پانا، زیادہ ہونا، پاکیزگی والا ہونا‘‘ بھی ہوسکتے ہیں اور ’’برکت، نشوونما، بڑھو تری، پاکیزگی، عمدگی‘‘وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں دو جگہ (الکہف:۸۱ اور مریم ۱۳) یہ لفظ بصورت نکرہ ’’زکوۃً‘‘ اپنے ان ہی لفظی معنی کے ساتھ (بطور مصدر یا اسم) آیا ہے۔ باقی قریباً تیس مقامات پر یہ لفظ معرف باللام ہوکر (الزکوۃ) استعمال ہوا ہے۔ اور یہ لامِ تعریف ہی اس لفظ کو معہود ذہنی کے طور پر ایک خاص معنی دیتا ہے۔

·       اس طرح یہ لفظ ’’الزکوۃ‘‘بھی ’’الصلوۃ‘‘]۱:۲:۲(۴)[اور ’’الآخرۃ‘‘]۱:۳:۲(۵)[ کی طرح ایک اسلامی اصطلاح ہے جو اسلام نے عربی زبان کو دی ہے۔ اس کا اطلاق اس مالی عبادت پر ہوتا ہے جو مسلمانوں پر فرض ہے، جو اسلام کے پانچ بنیادی فرائض میں سے ایک ہے اور جسے نبی کریم نے عملاً نافذ فرماکر اس کے پورے اصول و ضوابط اور اس کے متعلق جملہ احکام (نصاب، شرح وغیرہ) کی تفصیلات بذریعہ تحریر و تقریر واضح فرمادیں۔ اور جو اپنے اسی اصل عربی نام (الزکوۃ)کے ساتھ آنحضرت کے زمانے سے لے کر آج تک تمام مسلم معاشروں میں رائج، متعارف اور جانی پہچانی اصطلاح ہے۔[3]   اس لیے کسی مترجم نے بھی اس کا لفظی ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی بلکہ سب یہی لفظ استعمال کرتے ہیں اور ’’آتوا الزکوۃ‘‘ کا ترجمہ ’’زکوۃ دو، زکوۃ دیا کرو، زکوۃ دیتے رہو‘‘سے ہی کیا ہے۔ مگر بعض منکرین سنت کو پوری اُمت اور اس کے ہر مکتبِ فکر کا ایک اصطلاح پر اتفاق صرف اس لیے ’’چُبھا‘‘ہے کہ ’’زکوۃ‘‘کے ان اصطلاحی معنی اور احکام کا منبع اور مصدر سنتِ رسولؐ ہے۔ اس لیے انہوں نے ’’آتوا الزکوۃ‘‘ کا مفہوم یوں بیان کیا ہے: ’’نوع انسان کی نشوونما کا سامان فراہم کرو‘‘ جو سوشلزم کے رائج الوقت روٹی، کپڑا اور مکان کے دلفریب نعرہ اور نظریات کی روشنی میں خاصا "چمکیلا" مفہوم ہے۔ مگر دانستہ یا نادانستہ دین کا حلیہ بگاڑنے اور اُمت کے اتفاق کو افتراق میں بدلنے کی کوشش ہے۔ البتہ کولمبس بننے کی خواہش کی تسکین کا سامان ضرور ہے۔

۱:۲۹:۲(۵)     [وَارْکَعُوْا] میں واوعاطفہ (وَ)کے بعد لفظ ’’اِرکعُوا‘‘ہے (جس کا ابتدائی ہمزۃ الوصل ’’واو‘‘کے ساتھ ملنے کی بناء پر تلفظ سے ساقط ہوگیا ہے) اس (ارکعوا) کا مادہ ’’ر ک ع‘‘اور وزن ’’اِفْعَلُوْا‘‘ہے۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’رکَع یرکَع رُکوعًا (فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’جھکنا یا جھک جانا‘‘ہیں۔ چاہے اپنے ارادے سے سر یا بدن کو نیچے جھکایا جائے یا آدمی بڑھاپے وغیرہ کی وجہ سے (کمر دوہری ہوکر)جھک جائے۔ محاورے میں یہی فعل ’’مالی لحاظ سے پستی میں جانا ’’یعنی امیری کے بعد غریب ہوجانا‘‘اور ’’تواضع اور عاجزی اختیار کرنا‘‘کے لیے بھی استعمال ہوتا ہےــــ اور یہ فعل کبھی ’’الی‘‘کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے۔ مثلاً ’’رکَع اِلی اللّٰہِ‘‘کے معنی ہیں ’’اللہ کی طرف جھکنے میں سکون پانا‘‘۔

·       یہ تو اس فعل کے لفظی معنی تھے۔ مگر اس فعل کو بھی نبی کریم نے ایک خاص اصطلاحی معنی دیئے۔ بلکہ اس سے نماز کے لیے دو اصطلاحیں اخذ کی گئیں۔ یعنی ’’رکوع اور رکعت‘‘(جس کی عربی املا ’’رکعۃ‘‘ ہے)ــــــ لفظ رکوع تو اس فعل مجرد کا مصدر ہے جس کے معنی ’’جھکنا‘‘ ہی ہیں۔ اور کلمہ ’’رکعۃ‘‘اس فعل سے مصدر المرّۃ (جس میں فعل والے کام کے ’’ایک بار‘‘ہونے کا مفہوم ہوتا ہے)ہے۔ یعنی اس کا مطلب ’’ایک بار جھکنا‘‘ہے۔ مگر اب بطورِ اصطلاح ’’رکوع، نماز کے اندر اختیار کی جانے والی ایک خاص ہیئت ہے جب قیام کے بعد نمازی اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اپنی پیٹھ اور سر کو افقی حالت میں زمین کے متوازی لاتا ہے اور اسے حالتِ رکوع کہتے ہیں اپنے ان ہی اصلاحی معنی کی بناء پر فعل ’’رکع یرکع‘‘کا ترجمہ رکوع کرنا‘‘ بھی کیاجاسکتا ہےــــــ اور ’’رکعت‘‘ (یا رکعۃ) نماز کے ایک خاص حصّے کا نام ہے کیونکہ اس میں ایک بار جھکنے یا رکوع کرنے کا عمل شامل ہوتا ہے۔ لفظ ’’رکعۃ‘‘ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ مگر فعل ’’رکَع یرکَع‘‘ کے مختلف صیغے پانچ جگہ اور اس سے مشتق مختلف اسماء چھ جگہ آئے ہیں۔

[مَعَ الرَّاکِعِیْنَ] اس میں ’’مَعَ‘‘دو حرفی مادہ کا ایک اسم ہے (جسے بعض عرب قبائل ’’مَعْ‘‘بھی بولتے ہیں) یہ ظرف (زمان و مکان) کا کام دیتا ہے یعنی جگہ اور وقت دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں دو چیزوں کے ایک ہی جگہ یا ایک ہی وقت میں باہم ساتھ ہونے اور اکٹھا ہونے‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے۔ عموماً یہ لفظ (ہر ظرف کی طرح)مضاف ہوکر آتا ہے جیسے ’’مَعَکم‘‘(تمہارے ساتھ ایک ہی جگہ) اور ’’مع العصرِ‘‘ (عصر کے وقت کے ساتھ ہی)ــــــ اور کبھی یہ لفظ مضاف ہوئے بغیر بطور حال نکرہ منصوب ہوکر استعمال ہوتا ہے مثلا کہتے ہیں ’’خرَجْنا معًا‘‘ (ہم ساتھ ہی بیک وقت نکلے)۔ یہ دوسرا استعمال (معاً والا) قرآن کریم میں نہیں آیا۔ البتہ مضاف ہوکر کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور اس کا ترجمہ ’’…کے ساتھ، …کے ہمراہ‘‘(ایک ہی جگہ یا ایک وقت میں) کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے۔

·       کلمہ ’’الراکعین‘‘ کا مادہ ’’ر ک ع‘‘اور وزن (لامِ تعریف کے بغیر) ’’فاعلین‘‘ہے۔ یعنی یہ لفظ ابھی اوپر بیان کردہ فعل مجرد ’’رکَع یرکَع‘‘سے اسم الفاعل کا صیغہ جمع مذکر سالم ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’رکوع کرنے والے، عاجزی کرنے والے یا جھکنے والے‘‘ہوگا۔ اسی لیے اس آخری حصّہ آیت (وارکعوا مع الراکعین) کا لفظی ترجمہ ’’اور تم جھکو ساتھ جھکنے والوں کے‘‘ جس کے لیے سلیس عبارت ’’جھکنے والوں کے ساتھ جھکو‘‘ اور عاجزی کرنے والوں کے ہمراہ عاجزی کرو‘‘ اختیار کی گئی ہے۔ اور اسی کا اصطلاحی ترجمہ ’’رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو، کیا گیاہے جس میں نماز باجماعت کا مفہوم موجود ہے۔ بعض مترجمین نے فعل امر میں استمرار کا مفہوم پیدا کرنے کے لیے (کہ نماز بار بار پڑھی جاتی ہے)’’جھکا کرو اور جھکتے رہو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ جو نماز ’’ادا کرنا‘‘ کی مناسبت سے تفسیری ترجمہ ہے۔ اور بعض نے تفسیر کے لیے ترجمہ ہی ’’نماز میں جھکنے والوں کے  ساتھ جھکو‘‘ کر دیا ہے جو رکوع کے اصطلاحی معنی کی بنا  پر ہی  درست کہا جاسکتا ہے۔ ورنہ لفظ سے تو ہٹ کر ہے۔

·       اگرچہ یہاں لغوی معنی ’’جھکنا، عاجزی کرنا‘‘بھی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ تاہم ’’مَعَ‘‘ میں ’’ایک ہی جگہ اور ایک ہی وقت میں اکٹھے (یہ) کام کرنے کا جو مفہوم ہے نیز اس سے پہلے ’’اقیموا الصلوۃ‘‘ اور ’’آتو الزکوۃ‘‘کے  خالص اصطلاحی الفاظ آئے ہیں۔ اس لیے یہاں ’’وارکعو مع الراکعین‘‘ کے اصطلاحی معنی مراد لینا زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ جس سے دوسرے لفظوں میں ’’باجماعت نماز پڑھنے‘‘ کی تاکید مراد لی جاسکتی ہے۔

·       چونکہ ان تمام اصطلاحات (رکوع۔ راکع۔ رکعت وغیرہ) کی بنیاد سنّتِ رسولؐ ہے۔ اور پوری   امت(جزوی اختلاف کے باوجود) اصل نماز اور اس کے ارکان (قیام ۔ رکوع۔ سجود وغیرہ)کو جانتی اور سمجھتی ہے۔ شاید اسی ’’اتفاق‘‘ کو ناپسند کرتے ہوئے یہاں بھی منکرین سنّت نے بڑی خوبصورتی سے (ڈنڈی مارنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی اس حصہ آیت (وارکعوا مع الراکعین) کا ’’مفہوم‘‘ یوں بیان کیا ہے ’’تم بھی ان کے ساتھی بن جاؤ جو قوانینِ خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں‘‘ــــــ جس سے بظاہر یہ تاثر ابھر تا ہے کہ گویا اس حکم کا ارکانِ نماز سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ حالانکہ عبارت میں دونوں (لفظی اور اصطلاحی) معنی مراد لینے کی گنجائش موجود ہے۔

]أَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ] : یہ تین کلمات ہیں أَ + تاْمرون + الناس ــــــ ہر ایک کی الگ الگ وضاحت یوں ہے:

’’أ ‘‘ ہمزہ استفہام ہے جس کا عام اردو ترجمہ ’’کیا‘‘ یا ’’آیا‘‘ سے کیا جاسکتا ہے اس کے ذریعے عام طور پر تو دو چیزوں کے بارے میں ایسا سوال کیا جاتا ہے  جس کے جواب میں ان دو چیزوں میں سے ایک کا نام لیا جاسکتا ہے ــــــ اور کبھی ایسا سوال ہوتا ہے جس کے جواب میں ’’ہاں‘‘یا ’’نہیں‘‘کہا جاسکتا ہےــــــ اور کبھی اس میں ’’آخر تم ایسا کیوں کرتے ہو کہ؟‘‘ کا مفہوم ہوتا ہےــــــ اس میں دراصل سوال کرکے ہاں یا نہیں میں جواب لینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کام کی مذمت مقصود ہوتی ہےــــــ اور یہی بات زیر مطالعہ عبارت میں موجود ہے۔ نیزدیکھئے ’’أ ‘‘کے معنی و استعمال کے لیے ]۱:۵:۲(۳)[’’تَاْمُرُوْنَ‘‘کا مادہ ’’أم ر‘‘اور وزن ’’تفعلون‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’امَر یأمُر(حکم دینا) کے باب معنی اور استعمال کی وضاحت البقرہ:۲۷ ]۱:۱۹:۲(۱۶)[میں کی جاچکی ہے۔ یہ اس فعل مجرد سے مضارع جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ’’تم حکم دیتے ہو‘‘ہے۔

’’النَّاسَ‘‘ جس کا عام ترجمہ ’’ لوگ‘‘ یا ’’لوگوں‘‘ہے۔ اس کے مادہ اور اشتقاق وغیرہ کی بحث البقرہ:۸]۱:۷:۲(۳)[ میں گزر چکی ہے۔

·       اس طرح اتنے حصہ عبارت (أتامرون الناس) کا ترجمہ بنتا ہے ’’کیا تم حکم دیتے ہو لوگوں کو؟‘‘ــــــ تاہم اس کا پورا بامحاورہ ترجمہ اگلے کلمات (بِالبِرِّ)کے ساتھ ہی مکمل ہوسکتا ہے۔

۱:۲۹:۲(۶)     [بِالْبِرّ] کی ابتدائی ’’با (بِ)‘‘ تو فعل ’’أَمَریَأمُر‘‘کے مفعول ثانی (ماموربہ ۔جس چیز کا حکم دیا جائے) سے پہلے آنے والا ’’صلہ‘‘ہے اس ’’بِ‘‘ کا استعمال البقرہ:۲۷ ]۱:۲۰:۲(۵)[میں بتایا جاچکا ہے۔ اُردو میں اس ’’بِ‘‘  کا ترجمہ (یہاں) ’’…کا (حکم) ‘‘سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

·       اور کلمہ ’’البِرّ‘‘  کا مادہ ’’ب ر ر‘‘ اور وزن (لامِ تعریف کے بغیر  "فِعْلٌ‘‘ہے (جو یہاں مجرور بالجرہے) اصلی شکل ’’بِرْرٌ‘‘تھی جس میں ساکن ’’ر‘‘ متحرک ’’ر‘‘ میں مدغم ہوگئی ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے بطور فعل لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ مگر ان سب میں بنیادی مفہوم نیکی یا بھلائی (کرنے یا پانے)‘‘ کا پایا جاتا ہے اور مصدر بھی عموماً ایک (بِرُّ) ہی رہتا ہے مثلاً

(۱) برَّ… یبَرُّ بِرًّا (فتح سے)کے معنی ہیں ’’…کے ساتھ نیکی کرنا‘‘ اور یہ خصوصاً والدین کی خدمت اور فرماں برداری کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’برَّوالدَیہِ‘‘ (اس نے اپنے والدین سے حسنِ سلوک کیا۔ ایسے آدمی کو ’’بَرٌّ‘‘بھی کہتے ہیں اور ’’بارٌّ‘‘ بھی۔ پھر ’’بَرٌّ‘‘ کی جمع مکسر ’’اَبْرار‘‘ اور ’’بارّ‘‘ کی جمع ’’بَرَرَۃ‘‘ آتی ہے اور یہ دونوں جمعیں قرآن کریم میں آئی ہیں۔

 (۲) برّیبِرُّ بِرًّا(ضرب سے) آئے تو اس کے معنی ’’… کی خوب اطا عت کرنا، …کے ساتھ نیکی کرنا، … کی نیکی قبول کرنا‘‘ (متعدی) بھی ہوتے ہیں اور ’’قبول ہونا‘‘، ’’شک و شبہ سے پاک ہونا‘‘ (لازم)بھی مثلاً کہتے ہیں ’’برَّربَّہ‘‘ (اس نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی) یا ’’برَّہٗ‘‘ (اس نے اس سے نیکی کی) یا ’’برَّاللّٰہُ حَجَّہ‘‘ (اللہ نے اس کی حج قبول کی)۔ اور ایسی حج کو اسی لیے حدیث میں بصیغہ اسم المفعول ’’حج مبرُور‘‘ کہا گیا ہے۔ اور بطور فعل لازم کہتے ہیں ’’برَّ حجُّہ‘‘ (اس کی حج قبول ہوئی) اور ’’برَّالبیعُ‘‘ (سودا جھوٹ اور خیانت سے پاک ہوا)

(۳) اور برَّ  یَبِرُّ  یَبَرُّ  بِرًّا (فتح اور ضرب دونوں سے) ’’بہت نیکو کار ہونا‘‘کے معنی دیتا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے تو صرف فعل مضارع کا ایک ہی صیغہ دو جگہ (البقرہ:۲۲۴ اور الممتحنہ:۸) اور وہ بھی باب فتح سے ہی آیا ہے۔ البتہ اس مادہ (برر) سے ماخوذ اور مشتق مختلف کلمات (بِرٌّ۔ بَرٌّ۔ ابرار۔ بررۃ وغیرہ) ۲۹ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (البِرّ)بھی ان ہی کلمات سے ایک ہے۔ اور اس کے معنی نیکی اور بھلائی‘‘ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ سات بار آیا ہے۔ اور ہر جگہ معرف باللام (البرّ) ہی استعمال ہوا ہے۔ اور اس لامِ تعریف کی وجہ سے اس کا ترجمہ ’’پوری نیکی، ساری نیکیاں، یا حقیقی نیکی (یا نیکیاں)‘‘ ہوسکتا ہے یعنی نیکی  کی پوری جنس یا نیکی کے سارے کام مراد ہوتے ہیں (جیسے ’’الحمدُ‘‘کے معنی ’’ساری حمد‘‘ ہر طرح کی حمد یا ساری تعریفیں ہیں)

·       ’’البرّ‘‘ کے اسی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’بھلائی۔ نیک کام، نیک کام کرنا اور نیکی کرنا‘‘سے کیا گیا ہے۔ اس طرح مندرجہ بالا عبارت ’’ اتامرون الناس بالبر‘‘(جس کے ابتدائی حصے ’’اتامرون الناس‘‘ پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’کیا تم حکم دیتے ہو لوگوں کو نیکی کا‘‘ بعض حضرات نے آگے آنے والی عبارت ’’و تنسون انفسکم‘‘(جس پر ابھی بات ہوگی) کوملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ’’الناس‘‘ کا ترجمہ صرف ’’لوگوں کو‘‘کی بجائے ’’دوسرے لوگوں کو‘‘سے کیا ہے۔ اور یہ اس لحاظ سے درست کہا جاسکتا ہے (بلحاظ محاورہ) کہ اس کے  بعد ’’اپنے آپ کو بھول جانے‘‘ کا ذکر ہے بعض مترجمین  نے ’’حکم دینا‘‘کی بجائے ’’کوکہنا‘‘سے ترجمہ کیا ہے یعنی ’’کیا تم کہتے لوگوں کو نیک کام کرنے کو؟‘‘لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو‘‘اردو محاورے کے مطابق اس موقع پر ’’کہنا، حکم دینا ہی کا مفہوم رکھتا ہے۔ بعض حضرات نے ’’لوگوں کو کہتے ہو نیکی کرو‘‘سے بھی ترجمہ کیا ہے۔ یہ بھی صرف محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست کہا جاسکتا ہے ورنہ اصلی الفاظ سے بہت دور ہے۔ (خصوصاً ’’البرّ‘‘ کا ترجمہ ’’نیکی کرو‘‘کرنا)

۱:۲۹:۲(۷)     [وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ] کی ابتدائی ’’وَ‘‘ عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور حالیہ بھی ۔ یعنی اس کا ترجمہ یہاں ’’اور‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور ’’حالانکہ یا جب کہ‘‘ بھی۔

’’تَنْسَوْنَ‘‘کا مادہ ’’ن س ی‘‘اور وزن اصلی ’’تَفْعَلُوْنَ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’تَنْسَیُوْنَ‘‘تھی۔ جس میں ناقص کے ’’واو الجمع والے قاعدے‘‘کے تحت لام کلمہ (ی) ساقط ہوجاتی ہے اور ماقبل کی فتحہ (ـــــَــــ) برقرار رہتی ہے اس طرح یہ لفظ ’’تَنْسَوْنَ‘‘رہ جاتا ہے۔ [ناقص میں واو الجمع کے اس قاعدے کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں مثلاً ’ ’ لَقُوا‘‘ ۱:۱۱:۲(۱)‘  ’’[  خَلَوْا‘‘۱:۱۱:۲(۲) میں[

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’نسِیَ …یَنْسَی نَسْیًا و نِسْیانًا (سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’…کو بھول جانا… کو یاد نہ کرنا یا اسے یاد نہ رکھنا‘‘(یعنی یہ ’’حَفِظ‘‘کی ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے)۔ اور اس سے اس میں ’’عمدًا ‘‘ بھلا دینا یا ترک کردینا‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اس فعل کے حقیقی معنی تو ’’بھول جانا‘‘ ہی ہیں مگر (کبھی) اس کے مجازی معنی کسی چیز کو ’’عمداً    ترک کردینا‘‘، اس کی پروا نہ کرنا‘‘ یا ’’قابل اعتناء نہ سمجھنا‘‘ وغیرہ ہوتے ہیں۔ اور یہ مجازی معنی سیاقِ عبارت میں کسی قرینہ (اشارہ)سے متعین ہوتے ہیں۔ مثلاً اگرکسی جگہ ’’بھول جانے‘‘ پر کسی سزا یا مذمت کا ذکر ہو تو یہ اس بات کا قرینہ ہوگا کہ یہاں ’’بھول جانا‘‘سے مراد عمداً بھلا دینا یا نظر انداز کردینا‘‘ہے۔ کیونکہ خطا یا نسیان پرتو گرفت نہیں ہوتی۔

·               یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعض اصحاب لغت نے فعل کا مادہ ’’ن س و‘‘ہی قرار دیا ہے۔[4]   ویسے یہ مادہ (ن س و) بھی اگر باب سمِع سے آئے تو ’’نسِی یَنسی‘‘(رضی یرضی کی طرح)ہی ہوجائے گا۔ تاہم ’’نسِی ینسی‘‘کے مصادر میں ’’نسیاً اور نسیاناً‘‘کے علاوہ ’’نَسوۃً اور نَساوۃً‘‘ بھی مذکور ہوئے ہیں اور مصدر کی یہ ’’و‘‘ مادہ کے واوی الاصل ہونے پر دلالت کرتی ہے نیز اس واوی اللام مادہ (ن و س)سے فعل ’’نسا ینسُو نَسوۃً ‘‘(نصر سے) ’’کام چھوڑ دینا‘‘کے معنی دیتا ہے مثلا کہتے ہیں نسَاء الرجلُ=ترکَ عملَہ(یعنی آدمی نے کام چھوڑ دیا)۔ گویا ’’نسِی ینسَی‘‘کے مجازی معنی ’’اور نسا ینسُو‘‘کے حقیقی معنی ایک ہی ہیں (ترک کرنا)

·       تاہم اکثر کتب لغت[5] میں ’’ن س و‘‘ اور ’’ن س ی‘‘ دو الگ الگ مادے بیان ہوئے ہیں۔ اور یہ تین مختلف ابواب (ضرب، نصر اور سمِع)سے مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جن میں سے دو تو اوپر مذکور ہوئے ہیں۔ تیسرے معنٰی قرآن میں نہیں آئے۔ ظاہر ہے کہ ’’نصر‘‘ تو صرف واوی اللام کے لیے ہوگا اور ’’ضرب‘‘ یایْ اللام مادہ کے لیے  ہی ہوسکتا ہے۔ البتہ ’’سمِع‘‘ سے دونوں مادے ایک ہی شکل ’’نسِی ینسی‘‘میں استعمال ہوسکتے ہیں۔

·       زیرِ مطالعہ لفظ ’’تَنْسَوْنَ‘‘اس فعل مجرد (باب سمع سے) کافعل مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اور یہاں (اس آیت میں) چونکہ اس عمل (نسیان) کا ذکر بطور مذمت آیا ہے۔ لہٰذا محض ’’بھول جانا‘‘ کی  بجائے ’’بھلادینا‘‘ یا ’’ترک کردینا‘‘مراد لیا جاسکتا ہے۔ تاہم اتفاق سے اُردو زبان میں بھی ’’بھول جانا‘‘ بلحاظ محاورہ ’’نظر انداز کرنا‘‘کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اردو میں صرف ’’بھولنا یا بھول جانا‘‘ (مصدری معنی) کے ساتھ ترجمہ کرنا درست ہوگاــــــ  اس فعل کے (یہاں) مختلف تراجم کا ذکر ہم ابھی اگلے لفظ (انفسکم)کے بیان کے بعد کریں گے۔

·       ’’اَنْفُسَکُمْ‘‘میں ضمیر مجرور ’’کم‘‘(تمہارا)سے پہلے والے لفظ ’’اَنْفُسَ‘‘ کا مادہ ’’ن ف س‘‘اور وزن ’’اَفْعُلٌ‘‘آیا ہے (یہاں ترکیب میں لفظ ’’اَنْفُسَ، منصوب اور خفیف بروزن اَفْعُلَ، آیا ہے اس کی وجہ’ ’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) ’’انُفُسٌ‘‘ جمع مکسر ہے جس کا واحد ’’نَفْسٌ‘‘ ہے اس مادہ (ن ف س)سے فعل کے معنی اور استعمال پر نیز لفظ ’’انفُس‘‘ کے معنی پر البقرہ:۹]۱:۸:۲(۴)[ میں بات ہوچکی ہے یہاں ’’انفسکم‘‘ کا ترجمہ اپنی جانوں کو ’’اپنے آپ کو‘‘ ہوگا۔

·       اس طرح فعل ’’نسِی ینسَی‘‘کے حقیقی اور مجازی استعمال نیز لفظ ’’اَنفُس‘‘ کے معنی سامنے رکھتے ہوئے بعض اردو مترجمین نے اس فقرے (تَنْسَون اَنفسَکم) کا قریب اللفظ ترجمہ ’’بھولے جاتے ہو اپنی جانوں کو‘‘ یا ’’اپنی جانوں کو بھولتے ہو‘‘کیا ہے۔اکثر نے "انْفُسَکم"کا ترجمہ"جانوں"سے کرنے کی بجائے"اپنے آپ کو"یا صرف"اپنے کو"سے کیا ہے یعنی ’’اپنے آپ کو/ اپنے کو بھول جاتے ہو‘‘ کی صورت میں ــــــ  اور بعض نے ’’بھول جانا‘‘ کی بجائے خبر نہ لینا‘‘ یا ’’فراموش کرنا‘‘ اختیار کیا ہے یعنی ’’اپنی خبر نہیں لیتے/ اپنی خبر ہی نہیں لیتے‘‘ یا ’’اپنے تئیں فراموش کیے دیتے ہو‘‘کی صورت میں۔ جس میں اردو محاورے کا زور بھی ہے اور محض ’’بھول جانا‘‘ کی  بجائے ’’دیدہ دانستہ بھلادینا یا ترک کردینا‘‘ کا مفہوم بھی موجود ہے۔

·       یہ فعل (نسِی ینسی)متعدی ہے تاہم کئی دفعہ اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور)ہوتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے (مثلاً خدا یا  آخرت)ــــــ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے ماضی مضارع وغیرہ کے مختلف صیغے ۳۴ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے قریباً ۸ جگہ یہ فعل مفعول کے ذکر کے بغیر آیا ہے۔ مجرد کے علاوہ اس سے بابِ افعال کے کچھ صیغے بھی (۷ جگہ)وارد ہوئے ہیں۔ اور ’’امراَۃ ‘‘ کی جمع مکسر ’’نِسوۃٌ‘‘ اور ’’نِسائٌ‘‘ کا تعلق بھی اسی مادے (واوی اللام) سے ہے۔ اس طرح قرآن کریم میں اس مادہ سے مشتقات کی کلی تعداد ساٹھ سے زائد ہے۔

[وَاَنْتُمْ] کی ’’وَ‘‘ یہاں حالیہ ہے اس لیے اکثر نے یہاں اس کا ترجمہ ’’حالانکہ‘‘سے ہی کیا ہے اگرچہ بعض نے صرف ’’اور‘‘سے کام چلا لیا ہے اور ’’انتم‘‘ تو ضمیر مرفوع منفصل بمعنی ’’تم‘‘ہے۔ بعض مترجمین نے اس کے بعد آنے والے فعل مضارع (تتلون)کے صیغہ مخاطب ہونے کی بنا ءپر اس کا ترجمہ ہی اس طرح کیا ہے کہ ’’تم‘‘ کا الگ ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی جیسے ’’پڑھتے ہو‘‘ میں خودبخود ’’تم‘‘ کامفہوم آجاتا ہے۔

۱:۲۹:۲(۸)     [تَتْلُوْنَ] کا مادہ ’’ت ل و‘‘اور وزن اصلی ’’تَفْعُلُوْنَ‘‘ہے جس کی اصلی شکل ’’تَتْلُوُوْنَ‘‘تھی۔ جس میں ’’ناقص کے واو الجمع والے قاعدے (طریق تکلم)کے مطابق ’’(جس کا ابھی اوپر ’’تَنْسون‘‘کے ضمن میں ]۱:۲۹:۲(۷)[بھی ذکر ہوا ہے۔ لام کلمہ والی ’’و‘‘گر جاتی ہے۔ اور ماقبل کا ضمہ (ــــُـــــ) برقرار رہتا ہے اور اس طرح لفظ بصورت ’’تَتْلُون‘‘ استعمال ہوتا ہے۔

·       اس ثلاثی مادہ (ت ل و) سے فعل مجرد مختلف ابواب سے اور مختلف مصادر کے ساتھ متعدد (بلکہ بعض دفعہ متضاد) معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جن سب میں بنیادی معنی ’’پیچھے پیچھے آنا‘‘ کا ہوتا ہے مثلاً (۱) ’’ تلا یتلُو (تَلَوَ یتلُوُ) تُلُوّاً‘‘ (نصر سے) کے معنی ’’اَتَّبَع‘‘ کے ہیں یعنی پیچھے چلنا یا پیروی کرنا اور (۲) تلَی یَتْلِیْ (تلوَ یتلِوُ) تَلْیًا (ضرب سے) کے معنی بھی یہی (پیچھے پیچھے آنا یا چلنا)ہیںــــــ اور (۳) ’’تَلِی یتلی(تِلوَیَتْلَوْا)تَلًی ‘‘(سمع سے)کے معنی ہیں "پیچھے رہ جانا۔باقی رہ جانا۔"اور(۴):تلاَ یتلُوا تِلاوۃً"(نصر سے)کے معنی ’’پڑھنا‘‘ ہیں۔ اور یہ زیادہ تر قرآن مجید کے پڑھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ [6] اس لیے ’’تلاوۃ‘‘ ’’قراء ۃ‘‘سے زیادہ خالص ہے۔ ہر تلاوۃ قراء ۃ ہے مگر ہر قراء ۃ تلاوۃ نہیں ہوتی (اُردو فارسی میں یہ دونوں لفظ لمبی ’’ت‘‘سے لکھے کا رواج ہوگیا ہے یعنی تلاوت اور قراء ت)۔ بعض نے تلاوت کے معنی بآواز بلند پڑھنا کہ پاس والے کو سنائی دے اور قراءت کے معنی مطلقاً پڑھنا (بآواز بلند یا خاموشی سے) بیان کیے ہیں اس طرح بھی ہر تلاوت قراء ت مگر ہر قراء ت تلاوت نہیں ہوگی۔

·       تلاوت میں بنیادی مفہوم وہی ’’پیچھے چلنا‘‘ کا ہے جو کبھی جسمانی طور پر ’’پیچھے چلنا‘‘کبھی ذہنی طور پر پیچھے چلنا اور کبھی عملی طور پر ’’پیچھے چلنا‘‘کے لیے استعمال ہوتا ہے۔[7]   اور تلاوتِ قرآن میں [خصوصاً وہ جسے قرآن کریم نے ’’ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ‘‘ (البقرہ:۱۲۱) کہا ہے] یہ تینوں مدارجِِ تلاوت مراد ہوتے ہیں۔ نظر اور زبان الفاظ کے پیچھے لگے ہوتے ہیں۔ عقل یا دماغ معانی  کے فہم کے پیچھے لگے ہوتے ہیں۔ اور قلب یعنی دل اس عبارت سے حاصل ہونے والی نصیحت یا حکم کے پیچھے لگا ہوتا ہے۔ جس کے پیچھے ارادہ اور عمل آتا ہے۔

·       اس فعل (تلا یتلو تلاوۃً)کے مفعول (جس کی تلاوت کی جائے)کے ساتھ اگر ایک دوسرا مفعول ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ آئے [جیسے ’’ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِك (البقرہ:۱۲۹میں ہے] تو اس کے معنی ’’…کو پڑھ کر سنانا‘‘ہوتے ہیں۔ اور اس استعمال میں تلاوت کے ’’بآوازِ  بلند پڑھنا‘‘والے معنی بالکل واضح ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے ساٹھ سے زیادہ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ جن میں چالیس(۴۰) سے زیادہ جگہ یہ فعل اسی ’’علی‘‘والے صلہ کے ساتھ آیا ہے۔ اور اگرچہ عام عربی زبان میں اس مادہ سے مزید فیہ کے افعال بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس سے افعال (ماضی مضارع امر)کے مختلف صیغے (بلکہ اسماء مشتقہ کے دو صیغے بھی) تمام کے تمام فعل مجرد سے ہی آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’تَتلُون‘‘اس فعل (تلایتلو تلاوۃً)سے مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس کا ترجمہ تو ’’تم پڑھتے ہو‘‘بنتا ہے۔ تاہم خود لفظ ’’ تلاوت‘‘ ا ُردو میں بھی مستعمل ہے اس لیے اس کا ترجمہ’’تم تلاوت کرتے ہو‘‘سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’تم تلاوت کرتے رہتے ہو‘‘اور ’’پڑھتے رہتے ہو‘‘سے کیا ہے۔ جو آیت کے مجموعی مفہوم کے لحاظ سے زیادہ با محاورہ معلوم ہوتا ہے۔

[الْکِتٰبَ] کامادہ ’’ک ت ب‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فِعالٌ‘‘ہے اس مادہ سے فعل کے استعمال اور خود لفظ ’’الکتاب‘‘ پر البقرہ:۲ ]۱:۱:۲(۲)[میں بحث ہوچکی ہے۔ لفظ ’’کتاب‘‘ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ یہاں ’’الکتاب‘‘کے لامِ تعریف کو لامِ جنس یا لامِ عہد سمجھا جاسکتا ہے یعنی ’’وہ آسمانی کتاب یا وہ کتاب جن کے تم ماننے والے ہو‘‘اسی لیے بعض مترجمین نے یہاں صرف ’’کتاب‘‘ کی بجائے ’’کتاب الٰہی‘‘ یا ’’کتابِ خدا‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ جسے تفسیری ترجمہ کہا جاسکتا ہے۔

۱:۲۹:۲(۹)     [أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ] یہ ’’أ‘‘( استفہامیہ بمعنی ’’کیا؟‘‘) + ’’فَ‘‘ (عاطفہ بمعنی پس/ پھر) + لا تعقلون (جس پر ابھی بات ہوگی) کا مرکب ہے۔ جب حرف استفہام ’’أ ‘‘ یا ’’ھل‘‘ اور حرفِ عطف ’’فَ‘‘یا ’’ وَ‘‘اور ’’ثُمَّ‘‘ اکھٹے آئیں تو استعمال کا قاعدہ یہ ہے کہ ’’أ ‘‘تو حرف عطف سے پہلے لایا جاتا ہے مثلا کہیں گے ’’أَ فَأَوَ … یا    أثُمَّ…‘‘ــــــ  اور ’’ھَلْ‘‘ حرف عطف کے بعد استعمال ہوتا ہے یعنی ’’فَھَلْ‘‘ یا ’’وَھَلْ…‘‘ کہیں گے۔ قرآنِ کریم میں اس دونوں طرح کے استعمال کی کئی مثالیں آئیں گی۔

·       ’’لَا تَعْقِلُوْنَ‘‘کا ابتدائی "لا"تو نفی کے لیے جو عموماً فعل مضارع میں منفی(یعنی "نہ"کے)معنی پیدا کرتا ہے۔  اور "تَعْقِلُون" کامادہ ’’ع ق ل‘‘ اور وزن ’’تَفْعِلُوْنَ‘‘ہے اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد زیادہ تر ’’عقَل یعقِل عَقْلًا‘‘(ضرب سے)اور بعض دفعہ باب ’’نصر‘‘ اور ’’سمِع‘‘سے بھی مختلف معانی کے لیے آتا ہے اور عموماً ان سب میں مشترک مفہوم’’ باندھنا‘‘  اور ’’روکنا‘‘ کا ہوتا ہے بلکہ ’’عَقْل‘‘(جو مصدر بھی ہے اور اسم بھی) کو عَقْل کہنے کی وجہ یا مناسبت یہی ہے کہ عقل انسان کو ہلاکت سے روکتی ہے۔ (اردو میں لفظ عقل مستعمل ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں) اور یہ فعل (عقَل یعقِل) لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں (۱) ’’عقلَ الغلام‘‘(لڑکا عقل مند ہوگیا) اسی طرح (۲) ’’عقَل الشَیئَ‘‘(وہ چیز کو سمجھ گیا۔ اس کی حقیقت کو پالیا) اور (۳) عقَل البعیرَ (اس نے اونٹ کا گھٹنا موڑ کر (پاؤں) باندھ دیا) اور (۴) عقَل الظِلُّ (دوپہر کے وقت سایہ بڑھنے سے رُک گیا اور (۵) عقلَ القَتِیلَ (اس نے مقتول کا خون بہا ادا کردیا۔ یعنی خون  خرابہ روکنے کے لیے)۔ تاہم ان میں سے اکثر معنی کے لیے  یہ فعل قرآن میں استعمال نہیں ہوا۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے (زیادہ تر بصورت مضارع) پچاس کے قریب مقامات پر آئے ہیں اور ہر جگہ ’’بات کو سمجھ لینا، سمجھ جانا، عقل رکھنا، عقل مند ہونا، عقل سے کام لینا‘‘  (یعنی متعدی و لازم دونوں طرح) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور اکثر جگہ متعدی ہوتے ہوئے بھی اس کا مفعول غیر مذکور (محذوف)ہے۔ بلکہ مفعول کے ذکر کے ساتھ تو یہ فعل صرف تین جگہ (البقرہ:۷۵، و ۱۷۰ اور العنکبوت:۴۳)ہی آیا ہے۔ باقی مقامات پر حسب موقع متعدی یا لازم فعل سمجھا جاسکتا ہےــــــ  قرآن کریم میں اس مادہ سے مزید فیہ کا کوئی فعل استعمال نہیں ہوا۔

·       اس طرح ’’لا تعقلون‘‘اس فعل مجرد (عقَل یعقِل) سے فعل مضارع منفی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اور اس سے پہلے ’’أ ‘‘ اور ’’ف‘‘ بھی لگے ہیں اس ترکیب کے نحوی پہلو پر تو آگے ’’الاعراب‘‘میں بحث آئے گی۔ تاہم ان کلمات (أ، فَ، لا، تعقلون) کے الگ الگ معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض اردو مترجمین نے اس عبارت (افلا تعقلون) کا قریب اللفظ ترجمہ ’’کیاپس نہیں سمجھتے ہو؟‘‘ اور ’’پھر کیا تم نہیں سمجھتے بوجھتے ہو؟‘‘ سے کیا بعض نے اردو محاورے کے لیے فاء عاطفہ کو ترجمہ میں نظر انداز کردیا ہے اور ’’نہیں‘‘کو فعل کے بعد لائے ہیں یعنی ’’کیا تم سمجھتے نہیں؟‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے فعل تعقلون کے محذوف مفعول کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے؟‘‘ ’’تو پھر کیا اتنا بھی نہیں سمجھتے؟‘‘)تاہم بہتر ہوتا اگر یہاں محذوف مفعول کے لیے لائے گئے کلمات ’’اتنا بھی‘‘ یا ’’اتنی بات بھی‘‘ قوسین’’(…)‘‘ میں لکھے جاتے جس سے معلوم ہو جاتا کہ یہ اضافہ محاورے کی خاطر کیا گیا ہے ــــــ بعض حضرات نے فعل لازم کی طرح ترجمہ کیا ہے یعنی: ’’تو کیا تمہیں عقل نہیں ہے یا تم کو عقل نہیں ‘‘ (یعنی کیا تم عقل والے نہیں ہو) اور بعض نے ’’کیا تم عقل سے کام (ہی) نہیں لیتے؟‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے جو فعل ’’عقل یعقل‘‘کے ایک اچھے با محاورہ ترجمہ ’’عقل سے کام لینا‘‘پر مبنی ہے اور ساتھ محاورے کے لیے ہی قوسین میں (ہی) کو لائے ہیں۔ مذکورہ بالا تراجم کے تقابلی مطالعہ سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ترجمہ میں اصل زبان کے الفاظ اور ترجمہ والی زبان کے محاورہ کے درمیان توازن برقرار رکھنا کتنا مشکل کام ہے۔


۲:۲۹:۲     الاعراب

زیر مطالعہ قطعہ کی تین آیات میں سے ہر ایک آیت ایک ایک لمبے جملے پر مشتمل ہے اور ہر ایک لمبا جملہ کئی چھوٹے اسمیہ اور فعلیہ جملوں سے مل کر بنا ہے اور چھوٹے جملوں کو باہم مربوط کرنے کے لیے واو المعیت، واو حالیہ، واو عاطفہ یا ہمزئہ استفہام سے کام لیا گیا ہے ہر ایک آیت کے الگ الگ اعراب کی تفصیل یوں ہے:

(۱) وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ

 [وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے ماقبل والے جملے کو مابعد والے جملے سے ملایاگیا ہے۔ [لَاتَلْبِسُوا] فعل نھی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ نھی کی وجہ سے فعل مجزوم ہے۔ علامتِ جزم آخری ’’ن‘‘کا گر جانا ہے (دراصل ’’تلبسون‘‘تھا) اور اس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘مستتر ہے [الحقَّ] مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامت نصب ’’ق‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے [بالباطل] جار (بِ) اور مجرور (الباطل) مل کر متعلق فعل (لاتلبسوا)ہے۔ یہاں باء(بِ)کے معنی ’’کے ساتھ‘‘ بھی ہوسکتے ہیں اور ’’کی مدد سے‘‘بھی۔ (’’بِ‘‘کے استعمالات استعاذہ کی بحث میں بیان ہوئے تھے)۔ [وتکتموا] میں ’’واو‘‘ کو عاطفہ سمجھیں تو ’’تکتموا‘‘ ’’لاتلبسوا‘‘ پر عطف ہوکر مجزوم ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس ’’وَ‘‘ کو واو المعیت قرار دیں۔ تو پھر یہ فعل (’’تکتموا‘‘) منصوب سمجھا جاسکتا ہے (جیسے ’’لا تاکلِ السمک وَ تشربَ اللبن‘‘میں ’’تشرب‘‘منصوب ہے یعنی مچھلی کھانے کے ساتھ دودھ پینا اکٹھا نہ کرو)۔ دونوں صورتوں (جزم یا نصب) میں علامتِ جزم یا علامتِ نصب (تکتمون کے) آخری نون کا گر جانا ہے۔ اس طرح واو المعیت کی صور ت میں عبارت کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ کام (لَبْسٌ= خلط ملط کرنا اور کتمان چھپانا) جمع نہ کرو [الحقَّ] فعل ’’تکتموا‘‘ کامفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے یہاں تک (ولا تلبسوا الحق بالباطل و تکتموا الحق) ایک جملہ مکمل ہوجاتا ہے۔ مگر اس کے بعد ایک چھوٹا سا جملہ حالیہ بھی اسی جملے کا آخری حصہ یا تتمہ بنتا ہے۔ یعنی اگلی [وَ] حالیہ ہے اور [اَنْتم] ضمیر مرفوع منفصل مبتداء ہے اور [تعلمون]فعل مضارع مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘(مستتر) ہے اور یہ فعل فاعل مل کر ایک جملہ فعلیہ ہے جو ’’انتم‘‘(مبتداء) کی خبر ہے اور یہ جملہ اسمیہ (انتم تعلمون) اپنے سے پہلی ’’وَ‘‘(حالیہ)کے ساتھ مل کر ایک حالیہ جملہ ہے جو اپنے سے پہلے جملے کے (’’ولا تلبسوا‘‘ اور ’’تکتموا‘‘) کی ضمیر فاعلین (انتم) کا حال ہے (یعنی جانتے بوجھتے ہوئے ’’لبس‘‘اور ’’کتمان‘‘کے مجرم مت بنو)۔ یہاں تک پہلی آیت مکمل ہوتی ہے۔

(۲) وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ

[وَ] عاطفہ(یعنی جملے کا جملے پر عطف کرنے کے لیے)ہے [اقیموا] فعل امر حاضر مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘(مستتر)ہے اور [الصلوۃ] مفعول بہ ہو کر منصوب ہے علامتِ نصب آخری ’’ۃ‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے۔ اور یہ (اقیموا الصلوۃ) فعل فاعل مفعول مل کر ایک جملہ انشائیہ ہے (فعل امر والا جملہ انشائیہ کہلاتا ہے کیونکہ اس میں ’’خبر‘‘نہیں ہوتی) اس کے بعد اگلی [وَ] بھی عاطفہ ے اور [آتُوا] فعل امر حاضر مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘(مستتر) ہے اور [الزکوۃ] مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے یہاں بھی علامتِ نصب ’’ۃ‘‘کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے اوریہ (اَتوا الزکوۃ) بھی مثل سابق جملہ انشائیہ ہے۔ اگلی [وَ] پھر جملے کو جملے سے ملانے والی ’’عاطفہ‘‘ہے۔ اور [ارکعوا] فعل امر حاضرمع ضمیر فاعلین (انتم)ہے [مَعَ] ظرف مکان ہے جو مبنی بر فتحہ ہوتا ہے (یعنی اس کے آخر پر ہمیشہ فتحہ (ــــــَــــ)رہتی ہے) اور یہ آگے (تمام ظروف کی طرح) مضاف ہے [الراکعین] مضاف الیہ (لہٰذا) مجرور ہے علامتِ جر آخری نون سے پہلے والی یائے ماقبل مکسور (ـــــِــــ ی) ہے اوریہ (ارکعو مع الراکعین) بھی ایک جملہ انشائیہ ہے اور یہ تین جملے ’’اقیموا الصلوۃ، اٰتوا الزکوۃ ‘‘اور’’ ارکعو مع الراکعین‘‘ واو عاطفہ کے ذریعے باہم مل کر پوری آیت بنتی ہے۔

(۳) اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ  اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ

[أَ] ہمزئہ استفہام یہاں تعجب اور مذمت کا مفہوم رکھتا ہے۔ [تأمرُون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘(مستتر)ہے [الناسَ] فعل ’’تأمرون‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا)منصوب سے علامت نصب آخری ’’س‘‘ کی فتحہ (۔َ ) ہے۔ [بالبر] جارّ (بِ) اور مجرور (البرِّ) مل کر متعلق فعل ’’تامرون‘‘ ہے اور یہ باء(بِ)اس فعل (امر یامر) کے دوسرے مفعول پر (جس بات کا حکم دیا جائے) بطور ’’صلہ‘‘ آتی ہے۔ ترکیب کے لحاظ سے یہاں تک (اتا مرون الناس بالبر) ایک جملہ مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد [وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے آگے آنے والا فعل ’’تنسون‘‘ سابقہ فعل ’’تأمرون‘‘ پر عطف ہے اور [تنسون] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ہے اور [انفسَکم] مضاف (انفس) اور مضاف الیہ ضمیر مجرور (کم) مل کر فعل ’’تنسون‘‘ کا مفعول بہ ہے۔ اسی لیے ’’انفس‘‘منصوب ہے علامت نصب آخری ’’س‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے اور لفظ ’’انفس‘‘ بوجہ اضافت خفیف (تنوین سے خالی)ہے۔ اس طرح ’’تنسون انفسکم‘‘ بھی ایک مکمل جملہ فعلیہ ہے جو واو عاطفہ کے ذریعے سابقہ جملے سے ملایا گیا ہے (یعنی تم ’’یہ کام‘‘ اور ’’یہ کام‘‘ کرتے ہو) اس کے بعد والی [وَ] حالیہ ہے جو مابعد والے جملے کو ماقبل جملے کی ضمیر فاعلین (انتم)کا حال بناتی ہے اور [انتم] ضمیر مرفوع منفصل یہاں مبتدأ ہے [تتلون] فعل مضارع معروف جمع حاضر مذکر ہے۔ [الکتابَ] فعل ’’تتلون‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب آخری ’’ب‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)ہے اور یہ جملہ فعلیہ (تتلون الکتاب)’’انتم‘‘(مبتدأ) کی خبر کا کام دے رہا ہے اور مبتدأ خبر(انتم تتلون الکتاب) جملہ اسمیہ بن کر فعل ’’تنسون‘‘ کی ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ کاحال ہے۔ اور یہ جملہ ’’حال‘‘ہونے کی وجہ سے ایک طرح سے سابقہ دو جملوں (اتامرون …انفسکم) کا ہی حصہ ہے کیونکہ حال اور ذوالحال ایک ہی عبارت شمار ہوتے ہیں۔

(۴) اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ

اس میں [أ] استفہامیہ اور فاء [فَ] عاطفہ ہے اور [لاتَعقِلُون] فعل مضارع معروف منفی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘مستتر ہے۔ ابھی بیان ہوا تھا ]۱:۲۹:۲(۹)میں[کہ جب کسی عبارت میں حرفِ استفہام (أ یا ھَلْ) اور کوئی حرف عطف (وَ، فَ یا ثم) اکٹھے ہوجائیں تو عام قاعدہ تو یہ ہے حرفِ عطف پہلے اور حرفِ استفہام بعد میں آنا چاہئے تاہم یہ قاعدہ ’’ھَلْ‘‘ میں تو چلتا ہے جیسے ’’فَھَلْ‘‘(پس کیا) میں حرفِ عطف +حرفِ استفہام ہے مگر دوسرے حرف استفہام (أ) کی صورت میں  ایسا نہیں ہوتا یعنی ’’فَأَٔ‘‘ استعمال نہیں ہوتا کہ ’’أفَ‘‘ (اور اسی طرح ’’أَثُم‘‘) استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ترتیب الٹ جاتی ہے۔

تاہم بعض نحوی ایسے موقع پر اس ’’فا(ف)‘‘ سے پہلے ایک محذوف فعل بلکہ جملہ فعلیہ کو اس کا معطوف علیہ مانتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ عبارت کو نحوی اعتبار سے زیادہ قابلِ فہم بنانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ یعنی وہ اصل عبارت کو یوں (مقدر) سمجھتے ہیں ’’اَ (تفعلون ھذا) فلا تعلقون۔ (کیا تم ایسا کرتے ہو پس سمجھتے نہیں) اور یہی وجہ ہے کہ بعض مترجمین نے ترجمہ میں حرفِ عطف (فا) کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس آخری جملے(افلا تعقلون) کے مختلف تراجم ابھی اوپر ’’اللغۃ‘‘ والے حصّے]۱:۲۹:۲(۹)[ کے آخر پر بیان ہوچکے ہیں۔

 

۳:۲۹:۲      الرسم

زیرمطالعہ قطعۂ آیات میں بھی بیشتر کلمات کا رسم عثمانی اور رسم املائی ایک جیسا ہے۔ البتہ پانچ کلمات کے رسم قرآنی پر ذرا تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے بعض کا رسم قرآنی رسم املائی سے مختلف ہے۔ اور بعض کا رسم عثمانی (قرآنی)بھی مختلف فیہ ہے۔ یہ کلمات ہیں: ’’الباطل، الصلاۃ، الزکاۃ، الراکعین اور الکتاب‘‘ (یہاں ہم نے ان سب کو عام رسمِ املائی کے مطابق ہی لکھا ہے تاکہ فرق واضح ہوسکے) تفصیل یوں ہے۔

 (۱) ’’الباطل‘‘: یہ لفظ (بصورت معرفہ یا نکرہ) قرآن کریم میں ۲۵ کے قریب مقامات پر آیا ہے۔ علمائے رسم میں سے ابو داؤد سلیمان بن نجاح (المتوفی ۴۹۶ھ) کی طرف منسوب قول کے مطابق (جو ’’مورد الظمآن‘‘وغیرہ کتب رسم میں منقول ہوئے ہیں[8])

تمام مقامات پر یہ لفظ بحذف الالف (بعد الباء) لکھا جانا چاہئے یعنی بصورتِ ’’بطل‘‘ یا ’’البطل‘‘۔ مگر ابو داؤد کے استاد ابو عمروعثمان سعید الدانی (المتوفی۴۴۴ھ) نے صرف دو مقامات (الاعراف:۱۳۹ اور ہود:۱۶) پر اس کو بحذف لکھنے کی تصریح کی ہے جو اس بات کو مستلزم ہے کہ باقی جگہوں پر یہ باثبات الالف (بعد الباء)ہی لکھا جائے گا۔ بلکہ الدانی نے بعض دوسرے اوزان کے ساتھ ’’فاعِلٌ‘‘کو بھی ان اوزان میں شمار کیا ہے جن کے وزن پر آنے والے الفاظ مصاحف میں باثباتِ الف لکھے جاتے ہیں۔ [9] ماسوائے ان مقامات کے جن کے استثناء کی تصریح کردی جائے (جیسے اس لفظ کے بارے میں دو مقامات کی تصریح اُوپر مذکور  ہوئی ہے)

لفظ ’’باطل‘‘ کے رسم کے بارے میں اس اختلاف کی بناء پربیشتر افریقی اور عرب ممالک کے مصاحف میں اسے بحذفِ الف یعنی بصورت ’’بالبطل‘‘ لکھا جاتا ہے۔ لیبیا کے مصاحف میں بصورت اخلاف الدانی کو ابو داؤد پر ترجیح دینے کے اصول پر اسے باثباتِ الف ’’ بالباطل‘‘ لکھا جاتا ہے۔ برصغیر اور تمام مشرقی ایشائی ممالک میں بھی اسے باثبات الف (بالباطل) ہی لکھا جاتا ہے (صرف تجویدی قرآن مطبوعہ پاکستان میں مصری مصاحف کی تقلید میں اسے بحذفِ الف (بالبطل) لکھا گیا ہے)صاحبِ نثر المرجان نے بھی اس کے بارے میں ’’اثبات الالف بعد الباء علی الاکثر‘‘  لکھ کر ساتھ اس پر الدانی، الشاطبی اور السیوطی کے دلائل کا ذکر کیا ہے۔ [10]

 (۲) ’’الصلوۃ اور الزکوۃ‘‘بالاتفاق ان آٹھ کلمات میں سے ہیں (باقی چھ ’’الحیوۃ، الغدوۃ، کمشکوۃ، النجوۃ، منوۃ اور الربو‘‘ہیں) جو قرآنِ کریم میں ’’و‘‘کے ساتھ لکھے جاتے ہیں یعنی ان میں الف بصورت ’’و‘‘ لکھا جاتا ہے (پڑھا اسے الف ہی جاتا ہے جو بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے)۔ البتہ کسی ضمیر کی طرف مضاف ہوں تو ’’وَ‘‘کی بجائے ’’ا‘‘سے ہی لکھے جاتے ہیں مثلاً ’’صلاتی‘‘، ’’صلاتھم‘‘وغیرہ ہیں (بلکہ ان میں سے بھی بعض مقامات پر ’’و‘‘ہی لکھی جاتی ہے)  ۔[11]  عام عربی املاء میں ان کو ’’الصلوۃ اور الزکاۃ‘‘ لکھا جاتا ہے تاہم عام املاء میں بھی عموماً ان کے قرآنی املاء (الصلوۃ اور الزکوۃ) کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کیونکہ تلاوت کی وجہ سے لوگ اس سے مانوس ہیں۔

 (۳) ’’الراکعین‘‘رسم معتاد (عام عربی املاء) میں تو اسی طرح لکھا جاتاہے مگر رسم عثمانی کے مطابق یہ لفظ بالاتفاق بحذف الالف (بعد الراء) لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’الرکعین‘‘پھر اس محذوف الف کو پڑھنے کے لیے بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ بصورت جمع مذکر سالم قرآن کریم میں تین جگہ وارد ہوا ہے۔ اور یہ جگہ ’’ر‘‘ کے بعد والے الف کے بغیر ہی لکھا جاتا ہے۔ البتہ بصورت مفرد منصوب یعنی ’’راکِعًا‘‘ ایک جگہ (ص:۲۴) آیا ہے اور وہاں یہ باثبات الالف ہی لکھا جاتاہے (راکعًا)۔ اور یہ بھی رسم عثمانی کا متفقہ طریقہ ہے۔ البتہ بصورت جمع ’’الراکعین‘‘ کو ’’ر‘‘ کے بعد الف سے لکھنا رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے جس کا رواج ترکی اور ایران میں زیادہ ہوگیا ہے۔

 (۴)  ’’الکتاب‘‘  کا عام عربی املا۔ اسی طرح باثباتِ الالف ہے تاہم قرآنِ کریم میں ہر جگہ (معرفہ ہو یا نکرہ اور مفرد ہو یا مرکب) حذف الالف (بعد التاء) کے ساتھ یعنی ’’الکتب‘‘ یا ’’کتب‘‘ لکھا جاتا ہے (اور یہ لفظ قرآنِ کریم میں۲۵۰ سے زیادہ جگہ آیا ہے۔ البتہ صرف چار مخصوص مقامات پر اسے باثبات الالف بصورت ’’کتاب‘‘ لکھا جاتا ہے ان کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔ نیز دیکھئے البقرہ:۲]۳:۱:۲(۱) ]میں۔

 

۴:۲۹:۲     الضبط

زیرِ مطالعہ آیات کے  کلمات کے یکساں یا مختلف ضبط کو درج ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے اس میں خصوصاً قابل توجہ ’’الصلوۃ اور الزکوۃ‘‘کے ضبط کا اختلاف ہے۔ برصغیر، ترکی اور ایران میں آخری ’’و‘‘ کو ہر طرح کی علامتِ ضبط سے خالی رکھا جاتاہے اور صرف ’’ل‘‘ یا ’’ک‘‘ پر علامتِ اشباع (کھڑی زبر ـــــٰــــ)ڈالی جاتی ہے اور علامتِ ضبط سے خالی حرف (جیسے یہاں ’’و‘‘ہے) کو نہیں پڑھا جاتا ہے مگر افریقی اور عرب ملکوں کے مصاحف میں ’’ل‘‘ اور ’’ک‘‘ پر فتحہ (ـــــَــــ) ڈالی جاتی ہے پھر ’’و‘‘ پر ایک چھوٹا سا الف (کھڑی زبر  ـــــٰــــ کی طرح) لکھا جاتا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ یہاں ’’و‘‘ کو الف پڑھنا ہے۔ وہ لو گ یا تو اپنی عربی دانی کی بناء پر یہاں ’’و‘‘کے تعلیل صرفی کے لحاظ سے ’’الف‘‘ میں بدل جانے کے اصول کوسمجھتے ہوئے  ــــــ یا پھر بچپن ہی سے اس طرز ِضبط سے واقف ہونے کی بناء پر ــــــ ٹھیک پڑھ لیتے ہوں گے۔ مگر مشرقی ممالک کا کوئی بھی قاری ’’ل‘‘ یا ’’ک‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) اور پھر آگے ’’و‘‘ علامتِ اشباع (کھڑی زبرـــــٰــــ) دیکھ کر اسے ’’صلاۃ‘‘ اور ’’زکاۃ‘‘ پڑھنے کی بجائے ضرور ’’صلَوٰۃ‘‘ کو ’’صلوات‘‘ اور ’’زکَوٰۃ‘‘ کو ’’زکَوات‘‘ ہی پڑھ جائے گا۔ اگر ضبط کے اس فرق کو ذہن میں رکھیں تو شاید (ان دو کلمات کی)صحیح قراء ت کرسکیں گے  ـــــ اختلاف ضبط کے نمونے حسبِ ذیل ہیں۔

نوٹ: تلبسُو، تکتُموا، اقیمُوا اور اتُوا‘‘کو آگے ملانے کے لیے سب جگہ ’’و‘‘ کا ضبط یکساں ہے یعنی ــــــ خالی از علامت۔

 

 

 

 



[1]   اس مادہ سے باب مفاعلہ کا فعل ’’آتی یؤاتی مُؤاتاۃً‘‘ بھی عربی میں ’’موافقت کرنا‘‘کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’آتی فلاناً علی الامر‘‘(اس نے فلاں کے ساتھ معاملے میں موافقت کی) تاہم یہ استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ صرف ’’آتی‘‘ کی مشابہت کے باعث ہم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ باب افعال والا ’’آتی‘‘اَفْعَلَ سےہے اور باب مفاعلہ والا ’’آتی‘‘ دراصل ’’فَاعَلَ‘‘ہوتا ہے۔

[2]   مثلاً الفیروز آبادی (القاموس المحیط)

 

 [3] قرآن کریم کی بہت سی اصطلاحات کے فارسی مترادفات مشرقی اسلامی ممالک میں رائج ہوگئے ہیں اور اب یہ الفاظ اپنے اصل فارسی مفہوم کی بجائے قرآنی اور اسلامی اصطلاح کے بالکل ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ کے لیے خدا، صلوۃ کے لیے نماز، صوم کے لیے روزہ، جنت کے لیے بہشت،جہنم کے لیے دوزخ، ملک کے لیے فرشتہ وغیرہ۔ تاہم بعض اصل قرآنی اصطلاحات ہی متعارف ہیں۔ ان میں سے ہی آخرت، حج اور زکوۃ ہیں۔ کسی اسلامی ملک اور اسلامی معاشرے میں ان لفظوں (اصطلاحات) کا ترجمہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ تشریح اور وضاحت الگ چیز ہے۔

 

[4]   مثلا المعجم الوسیط۔

   [5] مثلاً القاموس، المنجد، البستان اور اقرب الموارد میں۔

 

 [6] القاموس (للفیروز آبادی) نیز المفردات (راغب)

[7] (المفردات راغب)

 

[8]  ابو داؤد کی اصل کتاب ’’التنزیل فی ہجاء المصاحف‘‘ ابھی تک کہیں طبع نہیں ہوئی۔

 

    [9] تفصیل کے لیے دیکھئے لطائف البیان (زیتحار) ج۱ ص ۳۳۔ سمیر الطالبین (للضباع) ص۳۹، ۴۰۔ تلخیص الفوائد (العقیلہ) ص ۲۶ اور المقنع (للدانی) ص۱۱۔

 [10] نثر المرجان (للار کاتی) ج۱ ص۱۳۷۔

[11] تفصیل کے لیے دیکھئے المقنع ص۵۴ نیز [۳:۲:۲(۱)] میں بھی اس پر بات ہوچکی ہے۔