سورۃ البقرۃ  آیت نمبر ۴۵  اور  ۴۶

۳۰:۲     وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ      ۭ   وَاِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ  (۴۵)  الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ  (۴۶)

۱:۳۰:۲       اللغۃ

 [وَاسْتَعِیْنُوْا]میں ابتدائی واو عاطفہ کو نکال کر باقی ’’استعینوا‘‘ کا مادہ ’’ع و ن‘‘ اور وزن اصلی ’’اِسْتَفْعِلُوْا‘‘ہے اس کی اصلی شکل ’’اِسْتَعْوِنُوْا‘‘تھی جس میں عربوں کے طریقِ تلفظ کے مطابق: ’’متحرک‘‘’’واو‘‘ کی حرکت (ــــــِــــ)اس کے ماقبل ساکن حرفِ صحیح (ع) کو دے کر خود اس (واو) کو اپنے ماقبل کی نئی حرکت (ــــــِــــ) کے موافق حرف (ی) میں بدل کر بولا اور لکھا جاتا ہے یعنی ’’اِسْتَعْوِنُوْا=   اِسْتَعِوْنُوْا ہوجاتا ہے۔

·       یہ کلمہ ’’استَعِیْنُوا‘‘اس مادہ (ع ون)سے باب استفعال کا فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ’’تم مدد طلب کرو‘‘ہے اس مادہ (ع و ن) سے فعل مجرد نیز اس باب (استفعال) کے معانی اور استعمال پر اس سے پہلے الفاتحہ:۵ ]۱:۴:۱(۴)[میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

۱:۳۰:۲(۱)     [بِالصَّبْرِ] کی ابتدائی ’’باء(بِ)‘‘ کے معنی یہاں استعانت کے ہیں یعنی ’’کے ذریعے، کی مدد سے"

 [استعاذہ کی بحث میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ باء الجر(بِ) بلحاظ معنی عموماً مصاحبت(۱)، استعانت(۲)، سببیت(۳)، تعویض(۴)، بدل(۵)، ظرفیت (۶)اور قسم (۷)کے لیے استعمال ہوئی ہے جس کا اردو ترجمہ حسب موقع (علی الترتیب) (۱)…کے ساتھ (۲) کے ذریعے یا کی مدد سے (۳) … کی بناء پر یا کے سبب سے(۴) … کے بدلے (۵) کی بجائے (۶) کے پاس سے یا کے وقت اور (۷) … کی قسَمَ ہے‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ کبھی یہ باء الجر بعض دوسرے حروف جارہ مثلاً  ل، فی، من، عن، علٰی، اِلٰی اور مَعَ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ کبھی مَا(الحجازیۃ۔ نافیہ) کی خبر پر داخل ہو کر اس میں زور اور تاکید کے معنی پیدا کرتا ہے۔ اور اکثر فعل لازم کو متعدی بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ استعاذہ کی بحث میں چونکہ حوالہ کے لیے پیرا گرافنگ (قطعہ بندی) اختیار نہیں کی گئی تھی۔ اس لیے یہاں ہم نے اس کا اعادہ کر دیا ہے۔ آئندہ یہی حوالہ دیا جائے گا]۔

اور کلمہ [الصَّبْرِ] کا مادہ ’’ص ب ر‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعْلٌ‘‘ہے (جو یہاں مجرور ہے بوجہ ’’با‘‘)۔ اس مادہ سے فعل مجرد صبَریصبِر صَبْرًا (ضرب سے)کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو روک رکھنا، …کو قابو میں رکھنا‘‘عموماً اس سے ’’اپنے آپ کو کسی قابلِ مذمت کام سے روکنا‘‘مراد ہوتا ہے۔ خصوصًا تکلیف یا مصیبت کے وقت اپنے اعضاء اور حواس کو قابو رکھنا اور کسی قسم کی گھبراہٹ یا بدحواسی اظہار نہ کرنا‘‘کے لیے استعمال ہوتا ہےــــــ

·       اس کا مفعول کبھی براہِ راست (بغیر صلہ کے) آتا ہے جیسے ’’ وَاصْبِرْ نَفْسَكَ ‘‘(الکھف:۲۸) میں ہے۔ اور اکثر اس کا مفعول (بنفسہ) محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے۔ اس وقت اس کا ترجمہ فعل لازم کی طرح (مثبت یا منفی)کرلیا جاتا ہے مثلاً: ’’نہ گھبرانا، ڈٹے رہنا، گھبراہٹ کا اظہار نہ کرنا، ثابت قدم رہنا، باہمّت ہونا، ہمّت سے کام لینا‘‘وغیرہ۔ اور اسی کا ترجمہ ’’صبر کرنا، صبر سے کام لینا‘‘ سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ لفظ ’’صبر‘‘اردو میں مستعمل ہے (اگرچہ اپنے پورے عربی مفہوم کے ساتھ نہیں) قرآن کریم میں اس فعل کا اس طرح (بحذف مفعول) استعمال ۴۰ سے زیادہ جگہ آیا ہے۔ کبھی اس فعل کے بعد ’’علی‘‘کا صلہ آتا ہے۔ جیسے ’’ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ ‘‘(لقمان:۱۷) اس وقت اس کا ترجمہ حسب موقع ’’…کے مقابلے پر‘‘ (یا صرف) …پرصبر کرنا‘‘ یا ’’…کو برداشت کرنا‘‘کیا جاسکتا ہے۔ اور کبھی اس فعل کے بعد ’’لام(لِ)‘‘ کا صلہ آتا ہے جیسے ’’ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ ‘‘(الطور:۴۸) میں ہے۔ تب اس کا ترجمہ ’’…کے لیے، کی خاطر صبر کرنا‘‘ ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم میں ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ ۱۲ جگہ اور ’’لِ‘‘کے ساتھ ’’چار‘‘ جگہ یہ فعل آیا ہےــــــ [اور غور کیا جائے تو ہر جگہ اصل مفعول (مثلاً نَفْسَکَ) محذوف ہوتا ہے اور یہ جار مجرور   دراصل متعلقِ فعل ہوتے ہیں[ــــــ

·       اَفعال کے علاوہ ثلاثی مجرد کے بہت سے اسماء مشتقہ اور مصادر وغیرہ بھی (اس مادے سے) قرآن کریم میں بکثرت (۴۱ جگہ) وارد ہوئے ہیں۔ اور مزید فیہ کے ابواب مفاعلہ اور افتعال سے بھی فعل امر کا ایک ایک صیغہ آیا ہے ان سب پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’الصبر‘‘(جو مفرد یا مرکب اور معرفہ اور نکرہ مختلف صورتوں میں قرآن کریم میں پندرہ بار آیا ہے) دراصل تو فعل ثلاثی مجرد کا ایک مصدر ہی ہے جس کے مصدری معنی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اردو میں بھی ’’صبر‘‘ کا لفظ متعارف ہے۔ تاہم بعض جگہ اس چیز کے لحاظ سے جس سے آدمی اپنے آپ کو روکتا ہے۔ محض ’’صبر‘‘ کی بجائے کسی اور لفظ سے بھی اس کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً میدان جنگ میں صبر سے مراد ’’شجاعت اور ثابت قدمی‘‘ ہوگا۔ شہوات اور خواہشات کے مقابلے پر صبر کا نام ’’عفت‘‘ہوگا۔ لالچ اور حرص کے مقابلے پر صبر کا نام ’’قناعت‘‘ہوگا ــــــ  ماہ رمضان کو حدیث شریف میں ’’شھر الصبر‘‘(صبر کا مہینہ)اسی لیے کہا گیا ہے کہ آدمی اس میں نفس کو اس کی خواہشات سے روک کر رکھتا ہے۔ اسی طرح کسی ناگوار چیز کے مقابلے پر جزع (گھبراہٹ اور بے چینی) کے اظہار کو روک لینا بھی ’’صبر‘‘ہی ہےــــــ  یعنی صبر پسندیدہ چیز کے مقابلے پر بھی ہوتا ہے اور کسی ناگوار چیز کے مقابلے پر بھیــــــ  قرآنِ کریم میں اس لفظ (صبر) کا استعمال ہر دو مفہوم کے لیے ہوا ہےــــــ  تاہم دوسرے معنی (صبر بمقابلۂ مکروہ) کے لیے زیادہ آیا ہے۔ یعنی یہ ایک کیفیت، رویہّ اور ردِّ عمل کا نام ہے۔

 [وَالصَّلوٰۃِ] یہ وَ (اور) + الصلوۃ ہےــــــ  لفظ ’’الصلوٰۃ‘‘ (نماز) کے مادہ، وزن اور اس کے لغوی اصطلاحی معنی وغیرہ پر البقرہ:۳ یعنی ]۱:۲:۲(۴)[میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں۔

۱:۳۰:۲(۲)    [وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ] یہ وَ + اِنَّ + ھَا + لَ +کبیرۃ کا مرکب ہے جس میں ’’وَ‘‘عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ہے ’’اِنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل بمعنی ’’بے شک‘‘، ’’ھا‘‘ ضمیر منصوب بمعنی ’’وہ‘‘، ’’لَ‘‘ حرفِ تاکید بمعنی ’’ضرور‘‘ اور ’’کبیرۃ‘‘ بمعنی ’’گراں یا مشکل‘‘ہے۔ اس طرح اس عبارت (بلکہ جملے) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے اور بے شک وہ ضرور گراں ہے‘‘۔ اس میں  سےوضاحت طلب لفظ ’’کبیرۃ‘‘ ہے۔

·       ’’کبیرۃ‘‘ کا مادہ ’’ک ب ر‘‘اور وزن ’’فَعِیْلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے مختلف ابواب اور معانی و استعمالات پر اس سے پہلے البقرہ:۳۴ ]۱:۲۴:۲(۵)[میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ وہاں بیان ہوا تھا کہ اس مادہ سے فعل مجرد جب باب ’’کُرم‘‘سے آئے تو اس کے بنیادی معنی تو ’’بڑا ہونا‘‘ ہوتے ہیں مگر اس ’’بڑائی‘‘ کے تین مختلف مفہوم بنتے ہیں۔ (یہ تینوں مفہوم وہاں بیان ہوئے تھے) ان میں سے ایک مفہوم اس فعل کا (’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ)‘‘ بھاری، گراں، مشکل یا نا گوارہونے کےلحاظ سے ’’بڑی‘‘ ہو تو اس کے لیے صفت ’’کبیر‘‘کی بجائے ’’کبیرۃ‘‘ استعمال ہوتی ہے اور زیر مطالعہ لفظ (کبیرۃ) یہاں اسی مفہوم میں آیا ہے۔

·       دوسرے لفظوں میں یوںسمجھیے کہ یہاں لفظ ’’کبیرۃ‘‘ کے آخر والی ’’ۃ‘‘ محض تانیث کے لیے نہیں بلکہ مبالغہ کے لیے ہے [اور یہ تائے مبالغہ عربی میں بہت سے الفاظ کے آخر پر آتی ہے مثلاً ’’عَلَّامۃٌ‘‘ بہت بڑے عالم کو اور ’’خَائنۃٌ‘‘ بہت بڑے خائن کو (بھی) کہتے ہیں۔] اس طرح ’’کبیرۃ‘‘ کے معنی ’’بہت گراں، نہایت مشکل، سخت ناگوار‘‘کے ہوتے ہیں اور اسی لیے بڑے گناہ کو ’’کبیرۃ‘‘ (جمع کبائر)کہتے ہیں اسی لیے یہاں ’’وانھا لکبیرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’بے شک وہ تو بہت گراں/ شاق/ بھاری ہے‘‘سے کیا گیا ہےــــــ  ان معنی کے لیے فعل کے ساتھ جو ’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے وہ یہاں بھی اگلی عبارت میں آرہا ہے۔

 ۱:۳۰:۲(۳)     [اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ] یہ اِلَّا (مگر) + علی (پر، کے اوپر) + الخاشعین (جس پر ابھی بات ہوگی) کا مرکب ہے۔ اس ترکیب پر مزید بحث تو آگے ’’الاعراب‘‘میں آئے گی۔ یہاں لفظ ’’الخاشعین‘‘کے لغوی پہلو پر بات کرتے ہیںــــــ  اس لفظ کا مادہ ’’خ ش ع‘‘اور وزن (لامِ تعریف کے بغیر) ’’فاعلین‘‘ہے یعنی یہ لفظ ’’خاشِعٌ‘‘ (اسم الفاعل) کی جمع مذکر سالم (بحالت جرّ)ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’خشع یخشَع خُشوعًا‘‘(فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’عاجزی (کا اظہار) کرنا، جھک یا دب جانا‘‘۔ اور اس میں بدن کے جھکنے سے زیادہ ’’دل میں عاجزی اور خوف کی سی کیفیت پیدا ہونے‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے۔ جس کا اثر’’  آنکھ کے جھک جانے‘‘اور ’’آواز کے دَب جانے‘‘ کی صورت میں  ظاہر ہوتا ہے اور اگر اس میں بدن کا جھکنا بھی شامل ہوتو اسے ’’خُضوع (خضَع یخضَع کا مصدر)کہتے ہیں۔[1] ــــــ اسی لیے ’’خشَع یخشَع‘‘کا ترجمہ ’’دل کا پگھلنا / ڈرنا/  جھکنا‘‘بھی ہوسکتا ہے۔ اور چونکہ اردو میں لفظ ’’خشوع‘‘(اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ)بھی متعارف ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’خشوع رکھنا، دل میں خشوع رکھنا‘‘ بھی کیا جاتا ہے۔

·       بنیادی طور پر یہ فعل لازم ہے (اس لیے اس سے صرف اسم الفاعل ’’خاشع‘‘ استعمال ہوتا ہے اس سے اسم المفعول نہیں بنتا اور نہ استعمال ہوتا ہے)۔ لیکن اگر اس فعل کے ساتھ اس کا بھی ذکر کرنا ہو جس کے آگے ’’عاجزی کرنا، دب جانا، ڈرنا، دل کا پگھلنا یا خشوع کرنا‘‘مراد ہے تو لازم سے متعدی بنانے کے لیے اس کے ساتھ لام (لِ) کا صلہ لگتا ہے یعنی ’’خشع لہ‘‘کہتے ہیں (’’خشعہ‘‘ کہنا بالکل غلط ہے۔ جیسے سجدہ نہیں بلکہ ’’سجدلہٗ‘‘ کہتے ہیں) اور عموماً اس ’’لام‘‘کے بعد ’’اللہ تعالیٰ یا اس کی یاد‘‘ کا ہی ذکر آتا ہے۔ جیسے ’’ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ‘‘(آل عمران:۱۹۹) میں ہے۔ بلکہ اس فعل (خشع یخشع) کے معنی میں شامل ’’عاجزی اور خوف اور جھکنا‘‘سے مراد ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے ’’عاجزی اور اس کا خوف‘‘ہوتا ہے اس لیے اگر اس فعل کے بعد یہ ’’بالجر مفعول‘‘ مذکور نہ  بھی ہوتو وہاں محذوف ’’لِلّٰہِ‘‘سمجھا جاتا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف دو صیغے آئے ہیں۔ ایک جگہ (طٰہٰ:۱۰۸) ماضی اور ایک جگہ (الحدید:۱۶)مضارع ــــــ  اور دونوں جگہ ’’مفعول کے طور پر علی الترتیب ’’للرحمن‘‘ اور ’’لِذکرِ اللّٰہ‘‘مذکور ہوا ہے۔ اس فعل (خشع) کی ضمیر فاعل عموماً ’’بندہ‘‘کے لیے ہوتی ہے۔ تاہم کبھی بطور فاعل (اسم ظاہر) کسی اور چیز (انسانی فعل یا عضو) مثلاً ’’قلب‘‘(دل)، ’’صوت‘‘ (آواز) یا ’’بصر‘‘ (نگاہ) کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ یعنی دل یا نگاہ کا خوف سے جھک جانا یا آواز کا دب جانا ــــــ

·       قرآن کریم میں اس فعل (خشع)کے فاعل یا صفت ’’خشوع‘‘سے متصف کے طور پر ’’ قُلُوْبُ ‘‘ (الحدید:۱۶)، ’’ الْاَصْوَات ‘‘ (طٰہٰ:۱۰۸) اور ’’ اَبْصَار ‘‘(ن:۴۳)کے علاوہ ’’ الْاَرْض ‘‘ (حم السجدۃ:۳۹) اور ’’ وُجُوْهٌ ‘‘ (الغاشیہ:۲) بھی مذکور ہوئے ہیں۔ اب سب کی مزید وضاحت اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

عربی زبان میں یہ فعل (خشع) اپنے فاعل کی مناسبت سے بعض دیگر معانی (مثلاً پتوں کا جھڑنا، گرہن لگنا، رک جانا) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوئے۔تاہم اس فعل کے تمام معانی میں ’’عاجزی‘‘والا بنیادی مفہوم موجود ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’الخاشعین‘‘(خشع یخشع)سے صیغہ اسم الفاعلین ہے (یعنی جمع مذکر سالم)۔ اس کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’خشوع کرنے والے، عاجزی کرنے والے‘‘ اور بعض نے یہی ترجمہ کیا ہے۔ تاہم چونکہ ’’خشوع‘‘ قلب کی ایک کیفیت ہے اس لیے بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ’’جن کے قلوب پر خشوع ہے‘‘ کیا ہے جو اصل ’’الخاشعین‘‘سے بھی بھاری بھر کم ’’ترجمہ‘‘ہے۔ اس کے مقابلے پر بعض نے ’’جن کے دل پگھلے ہوئے ہیں‘‘ کے ساتھ ترجمہ کرکے اسی مفہوم کو آسان اور عمدہ لفظوں میں ادا کردیا ہے۔ بعض مترجمین نے اسم الفاعل کی بجائے فعل مضارع کی طرح اور محذوف ’’مفعول‘‘کے اضافے کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’جو میری طرف جھکتے ہیں‘‘ یا ’’جو `اللہ سے ڈرتے ہیں‘‘ ظاہر ہے اسے تفسیری ترجمہ ہی کہہ سکتے ہیں ورنہ بلحاظ ترجمہ تو یہ اصل الفاظ سے بہت دور ہے۔

·       بطور اسم الفاعل لفظ ’’خاشع‘‘اس کی مؤنث ’’خاشعۃ‘‘ جمع مذکر سالم ’’خاشعون‘‘جمع مؤنث سالم ’’خاشعات‘‘اور جمع مکسر ’’خُشَّعٌ‘‘ــــــ معرفہ نکرہ اور مختلف اعرابی حالتوں میں ــــــقرآن کریم کے اندر ۱۴ جگہ آئے ہیں اور مصدر ’’خشوع‘‘صرف ایک جگہ (بنی اسرائیل:۱۰۹) آیا ہے۔

۱:۳۰:۲(۴)     [ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ] اس میں ’’الذین‘‘تو اسم موصول بمعنی ’’وہ لوگ جو کہ‘‘ہے۔ اسمائے موصولہ پر ]۱:۶:۱(۱)میں بات ہوئی تھی ’’یظنون‘‘ کا مادہ ’’ظ ن ن‘‘اور وزن ’’یَفْعُلُوْنَ‘‘ہے۔ گویا یہ دراصل ’’یَظْنُنُوْن‘‘تھا جس میں پہلے ’’ن‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ)اس کے ماقبل ساکن (ظ) کو دے کر پہلے ’’ن‘‘ کو دوسرے ’’ن‘‘ میں مدغم کرکے لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اس ثلاثی مادہ (ظنن)سے فعل مجرد ’’ظنَّ… یظُنُّ ظَنَّا(نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’خیال کرنا‘‘ہیں۔ یہ فعل ’’افعال القلوب‘‘میں سے ہے کیونکہ ’’خیال‘‘ایک ایسا فعل ہے جس کا تعلق دل اور دماغ سے ہے۔ ظاہری اعضاء (ہاتھ پاؤں وغیرہ) کا اس میں دخل نہیں ہوتاــــــ دراصل اس فعل میں ’’کسی چیز کی حقیقت کے بارے میں دل میں آنے والے خیالوں میں سے کسی ایک خیال کے بارے میں ترجیح کا کوئی پہلو پالینے‘‘ کا مفہوم ہوتا ہےــــــ  اس لیے یہ فعل ’’خیالِ راجح‘‘ یا ’’گمانِ غالب‘‘کے لیے آتا ہے یعنی ’’شک‘‘اور ’’یقین‘‘دونوں معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور سیاق و سباقِ عبارت اس کے معنی متعین کرتا ہے۔ اس دو طرفہ مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے ہی اُردو میں اس کا ترجمہ’’خیال‘‘سے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ’’خیال‘‘ شک میں بھی بدل سکتا ہے اور یقین میں بھی۔

·       اس فعل (ظَنّ) کے عموماً دو مفعول آتے ہیں اور دونوں (بنفسہ)منصوب ہوتے ہیں۔ کبھی اس کا صرف ایک مفعول بھی آتا ہے جو بنفسہ بھی ہوسکتا ہے اور اس پر ’’بِ‘‘کا صلہ بھی آسکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے  معنی  ’’…پر تہمت لگانا‘‘ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’ظنَّ فلاناً (یا)بفلانٍ(فلاں پر تہمت لگائی)۔اور کبھی اس فعل کا مفعول ایک جملہ ہوتا ہے جو’’اَنَّ‘‘(ثقلیہ)یا"أن"(خفیفہ) سے شروع ہوتا ہے (جیسے یہاں زیر مطالعہ آیت میں آیا ہے) اس مادہ (ظنن)سے قرآن کریم میں صرف فعل مجرد ہی استعمال ہوا ہے جس کے ماضی مضارع کے مختلف صیغے ۴۷  جگہ آئے ہیں۔اس کے علاوہ اس فعل کے مصدر اور دیگراسماء مشتقہ وغیرہ بھی ۲۲جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’یَظُنُّونَ‘‘اس فعل مجرد (ظنَّ یظُن) سے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس فعل کے مذکورہ بالا معانی اور استعمال کو ملحوظ رکھتے ہوئے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’وہ خیال رکھتے ہیں‘‘اور ’’جن کو خیال ہے‘‘سے کیا ہے۔ بعض نے ’’جو جانتے ہیں‘‘ یا ’’جو سمجھتے ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جس میں ’’شک‘‘سے زیادہ ’’یقین‘‘ کا مفہوم ہے۔ اور بعض نے اس کا ترجمہ ’’جو یقین کیے ہوئے ہیں‘‘ یا ’’جن کو یقین ہے‘‘سے کیا ہے۔ جس کی تائید بعد میں آنے والی عبارت ’’انھم ملاقوربھم و انھم الیہ راجعون‘‘سے ہوتی ہے۔

·       صاحب ’’المنار‘‘کے بیان کردہ ایک تفسیری نکتہ کا ذکر مناسب لگتا ہے کیونکہ اس کا تعلق کچھ لغوی بحث سے بھی بنتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر یہاں ’’ظن‘‘ بمعنی شک یا گمان بھی لیا جائے تب بھی یہ بات تو واضح ہے کہ ’’بعض دفعہ آدمی قطعی یقین کے بغیر محض کسی نقصان یا نفع کے شک اور گمان پر‘‘ بھی کسی چیز سے بچتا یا کسی چیز کا طلبگار ہوتا ہے۔ گویا ’’ظن، شک اور گمان‘‘ بھی احتیاط یا طمع کا باعث ضرور بن سکتا ہے۔[2] اور یہی ہمارا روز و شب کا مشاہدہ ہے تو گویا یہ دوسروں کو وعظ کرنے اور اپنے آپ کو بھول جانے والے لوگ ’’روز حساب‘‘ کے بارے میں ’’شک‘‘ سے بھی خالی ہیں۔ اور عملاً ہم بھی یومِ حساب اور آخرت کے ’’اِمکان‘‘یا ’’شک‘‘ تک سے بھی خالی الذہن ہیں۔

۱:۳۰:۲(۵)     [اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ] اس جملے کا ابتدائی حصہ ’’اَنَّھُمْ أَنَّ (کہ بے شک)، ھم (وہ سب) کا مرکب ہے اور باقی عبارت ’’مُلاقو‘‘(جس کی ابھی وضاحت ہوگی/ + ربّ (پروردگار) + ھم (ان کا) کا مرکب ہے۔ یہ کلمہ ’’مُلاقو‘‘دراصل ’’مُلاقُون‘‘تھا ــــــ  اور آگے ’’ربِّھِمْ‘‘ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے اس کا آخری (اعرابی) ’’ن‘‘گر گیا ہے۔ یعنی یہ خفیف (لام تعریف اور تنوین دونوں سے فارغ)ہوگیا ہے۔

·       اور اصل کلمہ ’’مُلاقونَ‘‘ کا مادہ ’’ل ق ی‘‘اور وزن اصلی ’’مُفَاعِلُوْنَ‘‘ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’مُلَاقِیُوْن‘‘تھی۔ جس میں واو الجمع سے ماقبل والی ’’یاء‘‘(جو اس ناقص مادے کا لامِ کلمہ ہے)گر جاتی ہے اور اس سے ماقبل ’’ق‘‘(عین کلمہ) کی کسرہ (ـــــِــــ) کو ضمہ (ــــُـــــ) میں بدل کر لکھا اور بولا جاتاہے۔ اس قاعدے کی تفصیل کے لیے دیکھئے۱:۱۶:۲(۵) بحث ’’تَتَّقُون‘‘۔ اس مادہ (ل ق ی) سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۱۴]۱:۱۱:۲(۱)[ میں بات ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ (ملاقون)اس مادہ سے باب مفاعلہ کا صیغہ اسم الفاعل (جمع مذکر سالم)ہے۔ اس باب سے فعل ’’لَاقیٰ…یَلاقِی مُلاقاۃً ولِقائً (دراصل لَا قَیَ  یُلَا قِیُ مُلا قَیَۃً یا لِقایًا)کے معنی ہوتے ہیں:’’…سے ملنا، …سے ملاقات (جو عربی مصدر ہی کی اردو املاء ہے) کرنا یا ہونا (عموماً کسی پیشگی تیاری یا اطلاع کے بغیر) کبھی اس کے معنی ’’دو چیزوں کو باہم ملادینا‘‘بھی ہوتے ہیں۔ اس وقت اس فعل کے بعد ’’بَیْن‘‘(کے درمیان) استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’لاقیٰ بینَ الرجلَینِ‘‘(دو باہم کٹے ہوئے آدمیوں کو ملادیا یعنی ملاقات کرادی) تاہم یہ ’’بَیْنَ‘‘والا استعمال قرآن کریم میں کہیں  نہیں آیا۔ قرآن کریم میں صرف پہلے معنی (ملاقات کرنا) میں ہی اس فعل سے مضارع کا ایک ہی صیغہ ’’یُلاقُوا‘‘ تین جگہ آیا ہے۔

·       باب مفاعلہ سے اس فعل کا صیغہ اسم الفاعل ’’مُلاقٍی‘‘بنتا ہے جو دراصل تو  ’’مُلَاقیٌ ‘‘ہے  پھر اس اسم منقوص کی (قاضیٍ کی طرح) گردان (اعرابی) یوں ہوگی: ملاقیٍ، مُلاقِیًا، ملاقٍی ۔ مُلاقِیَانـــ ملاقیَیْن ۔  ملاقُون اور ملاقِین ــــــ (نصب و جر کی یکساں شکل ایک ہی دفعہ لکھی گئی ہے) قرآن کریم میں اس اسم الفاعل کے صرف واحد (مذکر)اور جمع سالم (مذکر)کے صیغے سات (۷) جگہ آئے ہیں اور چھ جگہ یہ مضاف ہو کر استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے یہاں زیر مطالعہ آیت میں ’’ملاقواربھم‘‘کی صورت میں آیا ہے۔

·       اس کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے۔ ’’ملنے والے ہیں اپنے پروردگار سے‘‘اور بعض نے اسی کا ’’روبرو ہونے والے ہیں اپنے مالک سے‘‘ کی صورت میں بہت عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض حضرات نے اسم الفاعل کی بجائے مصدر کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’ان کو ملنا ہے اپنے رب سے‘‘یا ’’اپنے رب سے ملنا ہے‘‘یا ’’ان کو اپنے پروردگار سے ملنا بھی ہے‘‘ ظاہر ہے اس میں لفظی ترجمہ سے زیادہ اُردو محاور ے کا خیال رکھا گیا ہے۔

۱:۳۰:۲(۶)     ] وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ] اس جملے کا ابتدائی حصہ ’’وَ‘‘ (اور) + ’’اَنّ‘‘ (کہ بے شک) + ’’ھم‘‘ (وہ سب) کا مرکب ہے۔ اس کے بعد ’’الیہ‘‘حرف الجر’’الی‘‘(کی طرف) + ’’ہ‘‘ (ضمیر مذکر مجرور بمعنی ’’اس‘‘)سے مل کر بنا ہے۔ یہاں اس جار مجرور کے خبر سے پہلے جو آگے بصورت ’’راجعون‘‘ آرہی ہے،آ جانےکی وجہ سے اس ترکیب میں حصر اور تاکید کے معنی پیدا ہوگئے ہیں لہٰذا اس (الیہ) کا ترجمہ یہاں ’’اس ہی کی طرف‘‘ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’اسی کی طرف‘‘اور ’’اسی کی جانب‘‘سے کیا ہے۔

·       اور زیر مطالعہ جملے کا آخری لفظ ’’راجعون‘‘ہے جس کا مادہ ’’ر ج ع‘‘ اور وزن ’’فاعلون‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد رجَع یرجِع (لوٹنا یا لوٹانا)کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۱۸ ]۱:۱۳:۲(۱۵)[میں بات ہوچکی ہے۔ یہ لفظ (راجعون) اس فعل مجرد سے صیغہ اسم الفاعل ’’راجعٌ‘‘ کی جمع مذکر سالم (مرفوع)ہے اور یہاں یہ فعل لازم والے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’پھر جانے والے، واپس جانے والے، لوٹنے والے اور لوٹ کر جانے والے‘‘سے کیا گیا ہے۔ بعض مترجمین نے اردو محاورے کا لحاظ رکھتے ہوئے اسم الفاعل کی بجائے مصدر کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’لوٹ کر جانا ہے‘‘، ’’واپس ہونا ہے‘‘ کی صورت میں (یہی فرق آپ نے ابھی اوپر ’’ملاقواربھم‘‘کے ترجمہ میں ملاحظہ کیا ہے۔ یہ کلمہ (راجعون) اسی طرح (بصیغہ جمع مذکر سالم اور بحالت رفع) قرآن کریم میں کل چار دفعہ آیا ہے جن میں سے ایک یہ زیر مطالعہ مقام ہے۔

 

۲:۳۰:۲     الاعراب

  وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ      ۭ   وَاِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ  (۴۵) الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ  (۴۶)

اس قطعہ کی پہلی آیت بلحاظ ترکیب دراصل دو جملوں پر مشتمل ہے جن کو ’’واو‘‘ الحال کے ذریعے ملا دیاگیاہے۔ دوسری آیت میں بھی واو العطف سے ملائے گئے دو جملے ہیں مگر دراصل وہ دونوں صرف ’’صلے‘‘ہیں جو اپنے موصول کے ساتھ مل کر ’’صفت‘‘بنتے ہیں۔ جس کا موصوف پہلی آیت کا آخری لفظ ’’الخاشعین‘‘ہے۔ اس طرح دونوں آیات مل کر ایک مربوط لمبے جملے کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ تفصیل یوں ہے۔

(۱) وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ 

[وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے جملے کو (سابقہ) جملے سے ملایا گیا ہے اور چاہیں تو اسے واو مستانفہ بھی  کہہ سکتے ہیں کہ یہاں سے ایک الگ بات شروع ہوتی ہے۔ [استعینوا] فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘شامل ہے۔ [بالصبر] حرف الجر (بِ) اور مجرور (الصبر) مل کر متعلق فعل (استعینوا) ہیں اس لیے یہاں ’’بِ‘‘ کا ترجمہ ’’کے ذریعے سے‘‘ہوگا۔ [والصلوۃ] کی ’’و‘‘عاطفہ ہے جس کے ذریعے ’’الصلوۃ‘‘ معطوف ہے ’’بالصبر‘‘پر۔ گویا دراصل عبارت ’’بالصبر و بالصلوۃِ‘‘ہے۔ یہاں تک ایک جملہ فعلیہ مکمل ہوتا ہے جسے جملہ انشائیہ کہیں گے کیونکہ اس کے شروع میں فعل امر ہے مکمل جملے کے اختتام کی وجہ سے یہاں وقف مطلق ’’ط‘‘ لکھا جاتا ہے۔

(۲) وَاِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ

 [وَ] یہاں حالیہ ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ بلحاظ معنی یہاں عطف کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اگرچہ بیشتر مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’اور‘‘ ہی سے کیا ہے تاہم یہاں اس میں ’’اور حالت یہ ہے کہ‘‘کا مفہوم موجود ہے۔ [انھا] یہ حرف مشبہ بالفعل ’’اِنَّ‘‘ اور ضمیر منصوب متصل ’’ھا‘‘ کا مجموعہ ہے جس میں ’’ھا‘‘ اس (اِنّ) کا اسم (لہٰذا منصوب) ہے۔ اور یہاں اس ضمیر (ھا) کا مرجع (۱) بظاہر تو ’’الصلوۃ‘‘ ہی ہے جو اس سے قریب ترین بھی ہے۔ (۲) تاہم بعض نحویوں نے اس کا مرجع فعل ’’استعینوا‘‘ کا مصدر ’’استعانۃ‘‘ قرار دیا ہے یعنی ’’استعانۃ بالصبر والصلوۃ‘‘کبیرۃ (گراں)ہے۔ اور (۳) یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ضمیر (ھا) ’’الصبر‘‘اور ’’الصلوۃ‘‘دونوں کے لیے ہو مگر اس میں تانیث کی مطابقت صرف ’’الصلوۃ‘‘کے ساتھ ہے۔ کلامِ عرب میں بعض دفعہ دو مذکور ضمیروں کے لیے بغرض اختصار صرف ایک کے مطابق خبر  کا استعمال عام ہے گویا ایسے موقع پر مخاطب دوسری چیز کو خود بخود اس میں شامل سمجھتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’نَحنُ وَھُوَ راضٍ بھذا‘‘ (ہم اور وہ اس پر راضی ہیں) یہ دراصل ’’نحن راضون و ھوراضٍ بھذا‘‘تھا ــــ  یہی صورت دو چیزوں کے ذکر کے ساتھ صرف ایک کے مطابق ضمیر لانے کی ہے۔ اس لیے یہاں ضمیر ’’اِنّھما‘‘کی بجائے ’’انّھا‘‘ کی شکل میں لائی گئی ہے۔ [لکبیرۃ] میں ابتدائی لام کو لامِ مُزَحْلِقَہ کہتے ہیں جو کبھی ’’اِنَّ‘‘ کے اسم پر اور کبھی اس کی خبر پر داخل ہوتی ہے اور اس سے معنی میں تاکید پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اس کا اردو ترجمہ ’’البتہ‘‘ یا ’’ضرور‘‘ کیا جاتا ہے (لام مفتوحہ (لَ)اکثر تاکید کے لیے استعمال ہوتی ہے اور اسی لیے اسے لامِ تاکید بھی کہتے ہیں مگر جب یہ ’’اِنَّ‘‘ کے اسم یا خبر پر آئے تو نحوی اسے ’’لامِ مُزَحْلِقہ‘‘ کہتے ہیں۔ (مفہوم اس میں تاکید ہی کا ہوتا ہے) اور ’’کبیرۃٌ‘‘، ’’اِنَّ‘‘کی خبر (لہٰذا)مرفوع ہے۔ [إِلَّا] حرف استثناء ہے جو یہاں معنی تو ’’مگر‘‘ کے ہی دیتا ہے مگر یہاں اس نے نصب دینے کا کوئی عمل نہیں کیا۔ اس لیے کہ اس سے پہلے ’’کبیرۃ‘‘کے ساتھ کوئی ایسی چیز مذکور نہیں ہے جس سے آگے آنے والے لفظ ’’الخاشعین‘‘ کو مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ مثلاً اگر عبارت یوں ہوتی ’’وانھا لکبیرۃ علی الناس الا الخاشعین منھم‘‘ (اور وہ لوگوں پر بہت گراں ہے مگر ان میں سے ’’خاشعین‘‘پر نہیں)۔ اس صورت میں’’الخاشعین‘‘مستثنیٰ منصوب بہ ’’إِلَّا‘‘ہوتا۔ تاہم مفہوم اب بھی وہی ہے اس لیے نحو کی زبان میں [علی الخاشعین] کو (جو جار مجرور ہے)۔ محلاً منصوب کہہ سکتے ہیں۔ اس میں حرف الجرّ ’’علی‘‘کا تعلق لفظ ’’کبیرۃ‘‘کے اصل فعل ’’کبُر علی…‘‘ کے ’’صلہ‘‘سے ہے کیونکہ ’’کبیرۃ علی…‘‘ اور ’’کبرُت علی …‘‘ کا مطلب ایک ہی ہے (یعنی  …پر گراں ہے)۔ یہاں تک (’’وانھا‘‘ … سے ’’الخاشعین‘‘ تک) ایک جملہ مکمل ہو جاتا ہے جو واو الحال (وَ) کے ذریعے سابقہ جملے (واستعینوا بالصبر والصلوۃ) سے مل کر ایک مربوط جملہ بنتا ہے۔

(۳) الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ

[الذین] اسمِ موصول ہے جو اپنے صلہ (مابعد والے جملے)کے ساتھ مل کر (سابقہ آیت کے آخری لفظ)’’الخاشعین‘‘ کی صفت بھی بن سکتا ہے۔ اس صورت میں اس ’’الذین‘‘ کو (مجرور بالجر ’’الخاشعین‘‘ کی صفت ہونے کے باعث) مجرور سمجھا جاسکتا ہے۔ اور چاہیں تو اسے (الذین کو) ایک محذوف مبتداء (ھُم) کی خبر قرار دے کر مرفوع بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس دوسری ترکیب کی صورت میں ’’الذین‘‘ کا ترجمہ ’’وہ لوگ جو کہ‘‘ہونا چاہیے۔ پہلی ترکیب (صفت موصوف والی) کے مطابق اُردو ترجمہ صرف ’’جو‘‘، ’’جن‘‘(کو) سے ہونا چاہئے۔ (اور بیشتر مترجمین نے یہی دوسری صورت اختیار کی ہے)۔ [یظنون] فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر الفاعلین (ھم) مستتر ہے جن کا مرجع ’’الذین‘‘ہے۔ [أَنھم] أَنَّ حرف مشبہ بالفعل ہے (جو یہاں اور درمیانِ کلام آنے کے باعث ’’إِنَّ‘‘ کی بجائے ’’أَنَّ‘‘ آیا ہے)اور’’ھم‘‘اس (أَنَّ) کا اسم منصوب ہے۔ یہاں (اَنَّھم)سے ایک  جملہ کی صورت میں فعل ’’یظنون‘‘کے مفعول کا بیان شروع ہوتا ہے۔ [ملاقوربھم] یہ پورا مرکب اضافی (ور اضافی)ہے یعنی ’’ملاقو‘‘ مضاف ہے (اس لیے خفیف یعنی لام تعریف اور نونِ اعرابی کے بغیر ہے) اس کے بعد ’’ربِّ‘‘ مضاف الیہ لہٰذا مجرور ہے۔ علامتِ جر ’’بِّ‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ) ہے اور یہ (ربّ) آگے مضاف بھی ہے اس لیے یہ بھی خفیف ہے۔ اس کے بعد ’’ھم‘‘ ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے۔ اس طرح یہ پورا مرکب اضافی ’’ملاقوربھم‘‘ ’’أنَّ‘‘ کی خبر ہے اسی لیے ’’ملاقو‘‘ حالتِ رفع میں ہے جس کی علامتِ رفع واو ماقبل مضمو م (ــــُـــــ وْ) ہے جو جمع مذکر سالم کی علامت رفع ہوتی ہے۔ اس طرح ’’أنَّ‘‘اور اس کے اسم و خبر پر مشتمل یہ پورا جملہ اسمیہ (انھم ملاقو ربھم) فعل ’’یظنون‘‘کا مفعول ہے جو دراصل دو مفعول کا کام دے رہاہے۔ یعنی یہ عبارت (یظنون انھم ملا قوربھم) بلحاظ معنی (تقدیراً) کچھ یوں بنتی ہے ’’یظنون انفسَھم ملاقِی اللّٰہِ (وہ خیال کرتے ہیں ’’اپنے آپ کو‘‘ ’’اللہ سے ملاقات کرنے والے‘‘) اس طرح بلحاظ ترکیب یہاں تک (یظنون انھم ملاقو ربھم) ایک مکمل جملہ بنتا ہے جسے چاہیں تو ’’الخاشعین‘‘ کی صفت سمجھ لیں یا ایک محذوف مبتدأ (ھم) کی خبر سمجھ لیں۔

·       [وَ] عاطفہ ہے جو یہاں دو جملوں کو ملانے کے لیے ہے۔ [أَنَّھُمْ] یہ بھی مثل سابق ’’أَنََّ‘‘ اور اس کے اسم منصوب ’’ھم‘‘ پر مشتمل ہے۔ [الیہ] جارّ (الی) اور مجرور (ہ) ملکر ’’أنَّ‘‘ کی خبر (جو آگے آرہی ہے) سے متعلق ہیں اور چونکہ یہ جار مجرور خبر سے مقدم (پہلے)ہے اس لیے اس میں حصر اور تاکید کے معنی ہیں یعنی اس کا ترجمہ ’’اسی کی طرف‘‘ اور ’’اس ہی کی طرف‘‘ہوگا۔ [راجعون] یہ ’’أنَّ‘‘ کی خبر (لہٰذا)مرفوع ہے۔ علامتِ رفع آخری نون (اعرابی) سے پہلے والی ’’واو ماقبل مضموم (ــــُـــــ وْ) ہے۔ اور یہ جملہ (’’وانھم الیہ راجعون‘‘ جس کی سادہ نثر ’’وانھم راجعون الیہ‘‘ بنتی ہے) ’’وَ‘‘کے ذریعے فعل ’’یظنون‘‘کے پہلے مفعول جملہ (انھم ملاقوربھم) پر عطف ہے یعنی یہ بھی بلحاظ معنی دو مفعول کے برابرہے گویا تقدیراً عبارت یوں بنتی ہے ’’ویظنون انفسھم راجعین الیہ‘‘(اور وہ خیال کرتے ہیں اپنے آپ کو واپس جانے والے اس کی طرف)ــــــ اس طرح فعل ’’یظنون‘‘اپنے دو ’’مفعول‘‘ جملوں (’’انھم ملاقوربھم‘‘ اور ’’انھم الیہ راجعون‘‘) سمیت ’’الذین‘‘ کا صلہ بنتا ہےــــــ اور یہ سارا صلہ موصول (’’الذین…‘‘سے ’’راجعون‘‘ تک کی عبارت) ’’ الخاشعین‘‘ کی صفت بنتے ہیں۔ اور اگر اس سارے صلہ موصول کو ایک محذوف مبتدأ (ھم) کی خبر قرار دیں تو بھی یہ جملہ اسمیہ اسی ’’الخاشعین‘‘کی صفت ہی ہوگا نحوی فرق صرف یہ ہوگا کہ براہِ راست صفت ماننے سے ’’الذین‘‘ کو مجرور کہیں گے اور دوسری (جملہ والی) صورت میں اسے خبر مرفوع کہیں گے۔ ان دونوں ترکیبوں سے ترجمہ کے فرق کو اوپر بیان کردیا گیا ہے۔ یعنی پہلی صورت میں ترجمہ ’’جوکہ، جن کو‘‘اور دوسری صورت میں ’’وہ لوگ جو کہ‘‘ہوگا۔ اور اس طرح دوسری آیت (الذینراجعون) چونکہ دونوں صورتوں میں ’’الخاشعین‘‘ ہی کا بیان ہے۔ اس لیے دونوں آیات بلحاظ مضمون ایک ہی طویل جملہ بناتی ہیں۔

 

۳:۳۰:۲     الرسم

  وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ      ۭ   وَاِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ  (۴۵) الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ  (۴۶)

اس قطعہ آیات کے بیشر کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے صرف چار کلمات کا رسم قرآنی(عام رسم سے)مختلف ہے یعنی"الصلوۃ"الخشعین"ملقوا ربھم"اور "رجعون"تفصیل یوں ہے۔

(۱)"الصلوۃ"(جس کا رسم املائی عموماً"الصلاۃ"ہے)قرآن کریم میں عموماًہر جگہ(خصوصاًجب معرف باللام ہو) "ل"کے بعد"و"سے لکھا جاتا ہے اگرچہ اس"و"کو پڑھا"الف"ہی جاتا ہے اس لفظ کے رسم پر البقرۃ:۳]۳:۲:۲(۱)[میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

(۲)"الخشعین"(جس کی عام املا"الخاشعین"باثبات الف بعد الخاء ہے)قرآن کریم میں یہاں ــــــ بلکہ ہر جگہ (اور قرآن میں یہ لفظ بصورت جمع مذکر سالم (معرفہ،نکرہ،اور مرفوع منصوب یا مجرور)چھ جگہ آیا ہے)اسے بحذف الف بعد الخاء(الخشعین)لکھا جاتا ہے ۔اسے عام املاء کی طرح لکھنا (جیسا کہ ترکی،ایران وغیرہ میں رواج ہے)رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے۔

(۳)"ملقوا ربھم"ــــــکی قرآنی املاء (رسم عثمانی )میں دو چیزیں قابلِ غور ہیں:۔

·       اوّل تو اس میں کلمہ"ملاقوا"(جواس کی معتاد املاء ہے)کو"ملقو"یعنی بحذف الالف بعد اللام"لکھا جاتا ہے۔یہ لفظ بصورت   واحد(ملق)اور بصورت جمع(ملقون)قرآن کریم میں کل سات جگہ آیا ہے جس میں سے صرف ایک  جگہ(الحاقۃ:۲۰)مفرد(غیرمرکب)اور باقی چھ مقامات پر بصورت مرکب اضافی(مضاف ہوکر)آیا ہے۔تمام مقامات پر یہ لفظ بحذف الالف بعد اللام لکھا جاتا ہے اور یہ رسم عثمانی کا متفقہ مسئلہ ہے۔

·       دوسری اہم بات اس مرکب(ملقوا ربھم)میں یہ ہے (اور اسی کو سمجھانے کے لیے یہاں یہ پورا مرکب لکھا گیا ہے)۔کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ عربی میں کسی جمع مذکر سالم مرفوع کو مضاف کرتے وقت جب اس کا نونِ اعرابی گرادیا جاتا ہے تواس کی"واوالجمع"کے بعد (مضاف الیہ سے پہلے)زائد الف(جسے اصطلاح میں الف الوقایہ بھی کہتے ہیں)نہیں لکھا جاتا یعنی اس مرکب کو عام عربی املاء میں "ملاقوربھم"لکھیں گے ۔مگر رسم عثمانی میں اسے"ملقوا"بحذف الالف بعد اللام کے علاوہ واو الجمع کے بعد ایک زائد الف (الف الوقایۃ)کے ساتھ لکھتے ہیں۔گویا یہاں عام عربی املاء کی رو سے "واو"کے بعد زائد الف(وا)لکھنا غلط ہے (کیونکہ یہ الف الوقایۃ صرف اَفعال (ماضی مضارع یا امر)کے واو الجمع والے صیغوں کے بعد لکھا جاتا ہے)مگر رسم عثمانی کے مطابق یہاں "زائد الف نہ لکھنا"غلطی ہے۔

·       رسم قرآنی کے اتباع میں جمع مذکر سالم مرفوع مضاف اسماء کی واو الجمع کے بعد یہ زائد الف لکھنے کا رواج ،عام عربی املاء میں بھی مدتوں (بلکہ صدیوں تک)رہا ہے۔بعد میں یہ رواج صرف افعال کی واو الجمع کے بعد لکھنے تک محدود ہوگیا ہے۔ [3]بلکہ اسی زائد الف کی بناء پر ہی اب اسم یا فعل میں تمیز کی جاسکتی ہے مثلا"قاتلوالمشرکین"اور"قاتلواالمشرکین"میں مقد م الذکر’’قاتلو‘‘ اسم ہے(قاتل کی جمع مضاف)۔اور مؤخرالذکر ’’ قاتلوا‘‘ فعل (ماضی یا امر)کاصیغہ ہے ۔گویااس’’الف‘‘کا ہونا یانہ ہوناعربی گرامر جاننے والے آدمی کو صحیح عبارت پڑھنے اور اس کے معنی سمجھنے میں مدددیتا ہے۔

(۴)’’رجعون‘‘(جس کی عام عربی املاء’’راجعون‘‘باثبات الالف بعد الراء ہے)قرآن کریم میں یہ لفظ رسم عثمانی کے اتباع میں ’’بحذف الالف بعد الراءیعنی بصورت "رجعون"ہی لکھا جاتا ہے۔پھر ضبط کے ذریعے اس محذوف الف کو(جوپڑھا ضرور جاتا ہے صرف کتابت میں محذوف ہوتا ہے)ظاہر کیا جاتا ہے ۔یہ لفظ (راجعون)بصورت جمع مذکر سالم مرفوع قرآن کریم میں چار جگہ آیاہے اور ہر جگہ بحذف الف (رجعون)ہی لکھا جاتا ہے ۔اس لفظ کو باثبات الف(راجعون)لکھنے کی غلطی کا ارتکاب بلکہ رواج بعض ملکوں(خصوصا ایران،ترکی،چین وغیرہ)میں عام ہے اور یہ متفقہ رسمِ عثمانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔

 

۴:۳۰:۲     الضبط

زیر مطالعہ قطعہ آیات کے کلمات میں ضبط کے اختلافات کو درج ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔

 

 

45-46

 

 



[1] دیکھئے القاموس للفیروز آبادی تحت مادہ ’’خشع‘‘

 

[2]  دیکھئے تفسیر المنارج۱ ص۳۰۰

 

[3]   دیکھیے ابن درستویہ (المتوفی۳۴۶ھ)کی’’کتاب الکُتّاب۔‘‘ ص۴۶۔نیز اسی کتاب کے آخر پر’’ملحوظات‘‘ ص۱۰۵ میں۔