سورۃ ابقرہ آیت نمبر ۴۷  اور ۴۸

۳۱:۲     یٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ  (۴۷)  وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْن(۴۸)

۱:۳۱:۲       اللغۃ

]  یبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ـــــــــــــــــ اذْكُرُوْا ــــــــــــــــ  نِعْمَتِىَ  ــــــــــــــــــ الَّتِىْٓ  ـــــــــــــــــــ اَنْعَمْتُ ــــــــــــــــــ  عَلَيْكُمْ [

اس حصہ ٔ ِ آیت کے تمام کلمات (جن کو یہاں ایک خطِ وقفہ(DASH) کے  ذریعے الگ الگ کر دیا گیا ہے)کی لغوی بحث اس سے پہلے البقرہ:۴۰ ]۱:۲۸:۲(۱۔۴)میں گزر چکی ہے۔ ترجمہ بھی وہیں دیکھ لیجئے۔

۱:۳۱:۲(۱)     [وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ] یہ جملہ وَ (عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘) + اَنِّی (اَنَّ= ’’بے شک‘‘ ’’او ر ی‘‘ ’’میں‘‘) + فَضَّلْتُ (اس پر ابھی بات ہوگی) + کُمْ (ضمیر منصوب بمعنی ’’تم کو‘‘) ــــــ کا مرکب ہے۔ [فَضَّلْتُ] کا مادہ ’’ف ض ل‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْتُ‘‘ ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’فضَل یَفضُل فَضْلًا (باب نصر سے) اور فَضِل یَفضَل فضلًا(باب سمع سے) آتا ہے۔ اور دونوں ابواب سے اس کے معنی یکساں ہیں۔ یعنی (۱) ’’طلب یا حاجت سے کچھ زیادہ ہونا‘‘ یا (۲) (کسی بڑی مقدار میں سے تھوڑی سی مقدار کا) ’’باقی بچ رہنا‘‘۔ مثلاً کہتے ہیں ’’خُذْما فَضَّل‘‘ (جو زائد ہے وہ لے لو)۔ یا ’’فَضَل / فَضِل مِنَ المالِ کذا‘‘ (مال میں سے اتنا بچ رہا)۔ اور باب نصر سے ’’فضَلہٗ‘‘ یا ’’فَضَل علَیہ‘‘ کے معنی ’’وہ اس پر فضیلت (بڑا درجہ) پاگیا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل ثلاثی مجرد کے کسی باب سے اور کسی معنی میں کوئی صیغۂِ فعل کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔

’’فَضَّلْتُ‘‘(زیر مطالعہ کلمہ) اس مادہ سے بابِ تفعیل کا فعل ماضی صیغہ واحد متکلم ہے۔ اس باب سے فعل ’’فَضَل …یُفَضل تفْضِیلاً کے معنی ہوتے ہیں …کو فضیلت (بڑا درجہ) دینا یا بخشنا ’’…کو بزرگی دینا/ بڑائی دینا/ فوقیت دینا‘‘ــــــ جس کو فضیلت (بزرگی) دی جائے (خیال رہے یہ لفظ (فضیلت) خود اسی مادہ (فضل) سے ماخوذ ہے اور اُردو میں عام مستعمل ہے) وہ مفعول بنفسہ (منصوب) آتا ہے ــــــ اور جس پر کسی کو (فضیلت دی جائے (جسے فعل ’’فَضَّل‘‘ کا مفعول ثانی بھی کہہ سکتے ہیں) اس سے پہلے ’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے اور یہ فعل ’’فَضَّل‘‘ہمیشہ اس (مفعولِ ثانی)کے ذکر کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’فضَّل فلاناً علی فلانٍ (اس نے فلاں کو فلاں پر فضیلت دی)ــــــ  اور قرآن کریم میں ہے ’’ وَفَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ ‘‘(النساء:۹۵) اس طرح ’’فضَّلتکم‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’میں نے فضیلت دی تم کو، جس کا دوسرے مترادف الفاظ سے بھی ترجمہ کیا گیا ہے ــــــ قرآن کریم میں اس مادہ (فضل)سے باب تفعیل کے اَفعال کے مختلف صیغے سترہ (۱۷) جگہ آئے ہیں باب تفعل سے صرف ایک صیغۂ فعل اور مختلف اسماء و مصادر (فضل، تفضیل) مختلف صورتوں اور حالتوں میں ۸۳ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

[عَلَی الْعَالَمِیْنَ] میں ’’علی‘‘ تو حرف الجر ہے جس کے معانی و استعمالات پر ]۱:۶:۱(۳)[میں بات ہوئی تھی ــــــ اور ’’العالمین‘‘ (یہ اس لفظ کی املاء معتاد ہے اس کے رسم عثمانی پر آگے بات ہوگی) کے مادہ (ع ل م) وزن (فاعلین) اور اس سے فعل کے استعمال و معانی وغیرہ پر خود اس لفظ (العالمین) کے معنی پر الفاتحہ:۱ ]۱:۲:۱(۴)[میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ آیت میں ’’للعالمین‘‘ کا ترجمہ صرف ’’جہان‘‘ یا ’’سارے جہانوں‘‘ کی بجائے ’’جہان والوں‘‘ جہاں کے لوگوں‘‘ اور ’’دنیا جہان والوں‘‘ سے کیا گیا ہے اس لیے کہ بعض ’’لوگوں‘‘  کو دوسرے ’’لوگوں‘‘ پر ہی فضیلت کا ذکر ہے۔ بعض حضرات نے ’’علی العالمین‘‘ کا ترجمہ ’’سارے زمانہ پر‘‘ کیا ہے۔ جسے صرف اُردو محاورے کے لحاظ سے ہی درست کہا جاسکتا ہے ورنہ اصل لفظ سے تو (یہ ترجمہ) ہٹ کر ہی ہے۔ آیت میں فضیلت کی نوعیت اور لفظ ’’العالمین‘‘کی معنوی وسعت (کہ ال ’’جنس‘‘ کا ہے یا ’’عہد‘‘ کا؟) وغیرہ کی وضاحت کے لیے کسی اچھی تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

[وَاتَّقُوْا] کی ابتدائی ’’وَ‘‘ تو عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) ہے اور ’’اِتَّقُوْا‘‘  کامادہ ’’و ق ی‘‘ اور وزن اصلی ’’اِفْتَعِلُوْا‘‘ہے اس کی اصلی شکل ’’اِوْتَقِیُوْا‘‘ تھی جس میں دو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں (۱) مثال واوی (وقی) کی ’’و‘‘باب افتعال میں (جیسا کہ یہ فعل ’’اوتقیوا‘‘ہے) ’’ت‘‘ میں بدل جاتی ہے اور پھر دونوں ’’ت‘‘ باہم مدغم ہوکر ابتدائی حصہ (اِوْتَ) ’’اِتَّ‘‘ہوجاتا ہے۔ (۲) اور آخری حصہ (قِیْوُا)میں واو الجمع سے ماقبل والی ’’یاء‘‘ (جو لام کلمہ ہے)گر جاتی ہے اور اس سے ماقبل والا ’’ق‘‘ (جو عین کلمہ ہے) مکسور ہونے کے باعث اس کی کسرہ (ــــــِــــ) ضمہ (ـــــُـــــ) میں بدل کر بولی جاتی ہے۔ اس طرح یہ آخری حصہ (قِیُوْا، قُوْا رہ جاتا ہے اور یوں پورا لفظ ’’اتَّقُوْا‘‘ کی شکل میں لکھا اور بولا جاتا ہے۔

·       جیسا کہ اوپر وزن سے معلوم ہوگیا، یہ لفظ (اتقوا)باب افتعال سے فعل امر کا صیغہ ِءجمع حاضر مذکر ہے ــــــ  اس مادہ (وق ی)سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کے علاوہ اس مادہ سے باب افتعال کے فعل (اتقی یتقی اتقاء)کے وزن و شکل اور اس میں واقع ہونے والی صرفی تعلیل نیز اس کے معانی (بچنا، بچ کے رہنا، پرہیز کرنا وغیرہ) پر البقرہ:۲ ]۱:۱:۲(۷)[میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔

یہاں زیر مطالعہ آیت میں ’’اِتقُوا‘‘ کا ترجمہ بیشتر حضرات نے ’’ڈرو، ڈرتے رہو‘‘سے ہی کیا ہے۔ اگرچہ بعض نے اصل بنیادی معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’بچو‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔

[یَوْمًا] کا مادہ ’’ی و م‘‘اور وزن ’’فَعْلًا‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد وغیرہ اور خود لفظ ’’یوم‘‘کے معانی (دن وغیرہ) الفاتحہ:۴]۱:۳:۱(۲)] میں بیان ہوچکے ہیں۔ اس پر مزید بحث ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

۱:۳۱:۲(۲)    [لَاتجْزِیْ] کی ابتدائی ’’لَا‘‘ تو نفی فعل کے لیے ہے (بمعنی ’’نہیں یا نہ‘‘) اور تَجْزِیْ، کا مادہ ’’ج زی‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفْعِلُ‘‘ہے اس کی اصلی شکل ’’تَجْزِیُ‘‘ تھی مگر ناقص مادہ سے (جیسا کہ جزی ہے)فعل مضارع میں اگر عین کلمہ مکسور ہوتو آخری ’’یاء‘‘(ی)ساکن کرکے لکھی اور بولی جاتی ہے۔ اس طرح یہ صیغۂ فعل ’’تجزیْ‘‘(بروزن ’’تَفْعِیْ‘‘) رہ جاتا ہے۔ اور یہ اس فعل مضارع سے صیغہ واحد مونث غائب ہے۔

·       اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’جزَی… یجزِیْ جزائً‘‘(دراصل جَزَیَ یجزِیُ جزایًا)باب ’’ضرب‘‘سے آتا ہے اور ہمیشہ بطور متعدی اور مختلف معانی کے لیے مختلف طریقوں سے استعمال ہوتا ہے۔

(۱)  اس فعل کے بنیادی معنی تو ہیں ’’…کو (اچھا یا بُرا) بدلہ دینا، جزاء دینا‘‘ (آپ نے دیکھ لیا کہ لفظ ’’جزاء‘‘ خود اسی فعل کا عربی مصدر ہے جو اردو میں اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ مستعمل ہے) اس فعل میں بدلے کا اچھا یا بُرا ہونا سیاقِ عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مفعول (جس کو جزاء دی جائے بغیر صلہ کے (یعنی بنفسہ اور منصوب) آتا ہے جیسے ’’ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ  (الانعام:۸۴ وغیرہ)اور ’’ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ (یوسف:۷۵ وغیرہ) ــــــ  اور کبھی اس فعل کا دوسرا مفعول بھی مذکور ہوتا ہے (یعنی جو چیز جزاء یا بدلہ میں دی جائے) اور یہ (مفعول ثانی)بھی بغیر صلہ کے (یعنی مفعول بنفسہ منصوب) آتا ہے، جیسے ’’ وَجَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِيْرًا (الدھر:۱۲) ’’اس نے دی بدلے میں ان کو … جنت‘‘ اور جیسے نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ (الانبیاء:۲۹) ’’ہم دیں دے بدلے میں اس کو دوزخ‘‘ــــــ میں ہے۔

 (۲) کبھی اس فعل (جزَی…یجزِی)کےمعنی ہوتے ہیں ’’… کے کام آنا …کو کفایت کرنا، …کو کافی ہورہنا، … کا بدلہ بننا یا بن سکنا‘‘ــــــ اس صورت میں بھی اس کا مفعول (جس کے کام آیا، جس کو کافی ہورہا، جس کا بدلہ بنا) عموماً براہِ راست منصوب (بغیر صلہ کے) ہی آتا ہے۔ مثلا کہتے ہیں: ’’جزَی الشَییُٔ فلانًا‘‘ (وہ چیز فلاں کو کافی ہو رہی/ کے کام آئی/ کا بدلہ بن گئی) ــــــ اور کبھی اس معنی کے لیے مفعول سے پہلے ’’عَنْ‘‘ کا صلہ لگاتے ہیں مثلاً یوں بھی کہہ سکتے ہیں:’’جزَی الشَیُٔ عن فلانٍ‘‘ (وہ چیز فلاں کے کام آئی/ کافی ہو رہی، کا بدلہ بن گئی) اور آیتِ زیر مطالعہ میں بھی ’’لاتجزی نفسٌ عن نفسٍ‘‘ اسی استعمال کی ایک مثال ہے جس کی مزید وضاحت ابھی آئے گی۔

(۳)کبھی ’’جزَی … یجزِیْ‘‘ کے معنی ’’… کا حق یا قرض یا مطالبہ ادا کرنا‘‘بھی ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ’’قَضَی یقضی‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہیں گے: ’’ جزَیْتُ فلانًا حَقَّہٗ ؍ قَرْضَہٗ‘‘ ( میں نے فلاں کو اس کا حق یا قرض ادا کردیا۔ اور کبھی اس معنی کے  لحاظ سے مفعولِ اوّل (جس کی ادائیگی کی جائے) پر ’’عَنْ‘‘کا صلہ بھی لگتا ہے مثلاً یوں بھی کہ سکتے ہیں: ’’جزَیتُ عَن فلانٍ حقہ ؍قرضَہ‘‘ (میں نے فلاں کو اس کا حق یا قرض ادا کردیا) اور اس استعمال کی مثال بھی، زیر مطالعہ آیت کی اسی عبارت ’’ لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا  ‘‘ میں موجود ہے۔ (مزید وضاحت ابھی آگے آئے گی)۔

·       اس طرح فعل ’’جَزَی … یَجْزِی ‘‘کے مذکورہ بالا معانی اور مواقع استعمال (خصوصاً نمبر۲ اور نمبر۳) کو سامنے رکھتے ہوئے اُردو مترجمین نے یہاں ’’لا تجزی‘‘(جو فعل مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب ہے مگر اُردو میں اس کا ترجمہ محاورہ کی خاطر مذکر کی صورت میں کرنا پڑتا ہے) کا ترجمہ ’’کفایت نہ کرے گا کچھ کام نہ آئے گا، مطالبہ ادا نہ کرے گا، بدلہ نہ ہوسکے گا‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔

[نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا] لفظ [نَفْسٌ] جس کا ترجمہ یہاں ’’کوئی، کوئی شخص / آدمی‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ اس کلمہ کے مادہ، وزن بمعنی اور اس سے فعل مجرد وغیرہ کے بارے میں البقرہ:۹]۱:۸:۲(۳)[ میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

 [عَنْ نَفْسٍ] میں ابتدائی ’’عَنْ‘‘ وہ صلہ ہے جو خاص معنی دینے کے لیے فعل ’’جزَی… یجزِیْ‘‘کے مفعول اوّل پر لگتا ہے (دیکھئے اوپر ’’لا تجزِی‘‘کی لغوی بحث]۱:۳۱:۲(۲)[ میں (۳) اور یہاں کلمہ ’’نفس‘‘ (جس کی لغوی بحث البقرہ:۹] ۱:۸:۲(۳)[ میں گزر چکی ہے) اس فعل (لا تَجْزِی) کے دوسرے مفعول کے طور پر آیا ہے۔ یہاں اس ترکیب (عن نفسٍ)کا لفظی اُردو ترجمہ تو بنتا ہے ’’کسی کی طرف سے‘‘جسے مزید بامحاورہ بنانے کے لیے مترجمین نے اسے: ’’کسی کو، کسی کے، کسی کا،کسی کے حق میں اور کوئی یا کسی‘‘ کی شکل میں ترجمہ کیا ہے۔

[شَیْئًا] یہ ’’شیئ‘‘ کی منصوب صورت ہے( نصب کی وجہ ’’الاعراب‘‘میں بیان ہوگی) کلمہ ’’شَیئٌ‘‘ کے مادہ، وزن (فَعْلٌ) اور اس سے استعمال ہونے والے فعل مجرد کے معانی وغیرہ پر البقرہ:۲۰ ]۱:۱۵:۲(۸اور۱۰)[میں بات ہوچکی ہے۔ یہاں عبارت میں (جس کی ترکیب نحوی کی وضاحت آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی) اس کلمہ ’’شَیْئًا‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’کچھ، ذرہ بھر اور کچھ بھی‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ لفظی ترجمہ تو ’’کوئی چیز‘‘ بنتا ہے۔

۱:۳۱:۲(۳)     [وَلَایُقْبَلُ] ’’وَ‘‘ عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) اور ’’لَا‘‘ نافیہ (بمعنی ’’نہ‘‘)ہے۔ اور ’’یُقْبَلُ‘‘ کا مادہ ’’ق ب ل‘‘ اور وزن ’’یُفْعَلُ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے اور مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں صرف چند ایک درج کیے جاتے ہیں مثلاً (۱) قبَل یَقْبُل قَبْلًا (نصر سے) کے معنی ’’آجانا‘‘ یا ’’(ہوا کا) چل پڑنا‘‘ ہیں مثلا کہتے ہیں ’’قبَل اللیلُ او لشَھْرُ‘‘(رات آگئی یا مہینہ آگیا) اور اسی کےمعنی ’’منہ کے سامنے رکھنا‘‘بھی ہیں مثلا کہتے ہیں ’’قبَل المکانَ‘‘ (اس نے اس جگہ کو سامنے رکھا) اور اسی معنی سے لفظ ’’قِبْلۃ‘‘ ماخوذ ہے اور اسی باب سے ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ’’…میں لگ جانا‘‘ بھی ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’قبَل علی العملِ‘‘ (وہ جلدی سے کام میں لگ گیا)۔ (۲) ’’قبِل یقبَل قَبالَۃً‘‘ (سمع سے)کے معنی ہیں ’’کفیل یا ضامن بننا‘‘اس کے ساتھ عموماً ’’بِ‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ مثلا کہتے ہیں ’’قبل بِفلانٍ‘‘ (وہ فلاں کا ضامن بن گیا) اور اسی باب سے (بغیر صلہ کے) یہ ’’بچہ کو ہاتھ میں لینا‘‘کے معنی دیتا ہے اور اسی معنی کے لحاظ سے دائی (Midwife) کو ’’قابِلہ‘‘ کہتے ہیں۔ عربی میں کہتے ہیں: ’’قَبِلتِ القابلۃُالولدَ‘‘(دائی نے بوقت پیدا ئش بچہ ہاتھ میں پکڑا) اور اگر کہیں ’’قَبِلتِ المرأۃُ‘‘ تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’وہ عورت دائی بن گئی‘‘ اور (۳) اسی باب (سمِع) سے ’’قبِل … یقبل قَبُوْلًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’…کو قبول کرنا، …کو (خوشی) سے لینا، (دعاء، قبول کرنا، (ہدیہ) قبول کرنا‘‘  قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف تیسرے معنی (قبول کرنا) میں سات جگہ مختلف صیغے (فعل کے) وارد ہوئے ہیں۔ ثلاثی مجرد کے علاوہ اس مادہ (قبل) سے بابِ افعال کے صیغہ ہائے فعل ۹ جگہ اور باب تفعل کے صیغے دس(۱۰) جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف جامد اور مشتق اسماء اور مصادر بھی بیس سے زیادہ مقامات پر آئے ہیں۔

·       ’’لا یُقبَل‘‘اس فعل مجرد سے فعل مضارع مجہول صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس کا لفظی ترجمہ تو ’’قبول نہ کیا جائے گا‘‘ہے۔ جسے بامحاورہ کرنے کے لیے مترجمین نے ’’قبول نہ ہو، نہ قبول ہوسکتی ہے، نہ مانی جائے اور نہ منظور ہو‘‘کی صورت بھی دی ہے۔

 [مِنْھَا] ’’مِنْ‘‘کے معانی و استعمالات پر ]۱:۲:۲(۵)[میں بات ہوچکی ہے۔ اس طرح یہاں ’’مِنْھَا‘‘ کا ترجمہ ’’اس سے، اس کی طرف سے، اس کی جانب سے، اس کے حق میں اور اس کے لیے‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ تنوع فعل (لایُقْبَلُ) کے متنوع ترجمہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اوپر دیکھئے ’’لایُقبل‘‘ کے مختلف ترجمے جن سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے کس ترجمہ کے ساتھ ’’مِنھا‘‘ کا کون سا ترجمہ مناسب لگتا ہے۔ یعنی فٹ بیٹھتا ہے۔

۱:۳۱:۲(۴)     [شَفَاعَۃٌ] کا مادہ ’’ش ف ع‘‘ اور وزن ’’فَعَالَۃٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’شفَع یشْفَع‘‘ (باب فتح سے) آتا ہے اور مختلف مصادر اور صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلاً (۱) شفَع …یشفَع شَفْعًا کے ایک معنی ہیں۔ ’’…کے ساتھ ویسی ہی ایک اور شے ملانا۔ یعنی طاق (عدد) کو جُفت (عدد) بنادینا، مثلاً کہتے ہیں: شفَع الشَئَی شَفْعًا (اس نے چیز کا جوڑ ابنا دیا) اور اسی فعل کے ایک معنی کسی کو حقِ شفعۃ (جائیداد کی خرید میں قانوناً حقِ فوقیت ) دینا بھی ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’شفَع جارَہ یا بجارِہ‘‘ (اس نے پڑوسی کو حقِ شفعہ دیا) (۲) اور شفَع یشفَع شفاعۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’سفارش کرنا‘‘ پھر ان معنوں کے لیے یہ فعل کئی صلات کے ساتھ (مختلف مفہوم کے لیے) استعمال ہوتا ہے مثلا (الف ’’شفَع لہ او لِزیدٍ‘‘  کا مطلب ہے ’’اس نے اس کے یا زید کے حق میں سفارش کی۔ یعنی ’’لِ‘‘کا صلہ ’’…کے حق میں …کے لیے‘‘ کا مفہوم دیتا ہے۔ (ب) اور ’’شفَع فی الامر‘‘ کا مطلب ہے‘‘ اس نے اس معاملے میں سفارش کی ’’یعنی "فی" کا صلہ اس کام پر آتا ہے جس کے بارے میں سفارش کی جائے (ج) اور ’’شفع اِلی فلانٍ‘‘کا مطلب ہے ’’اس نے فلاں کی سفارش طلب کی یعنی اس سے سفارش چاہی‘‘اور (د) ’’شفَع عندَہ ‘‘ کا مطلب ہے  ’’اس نے اس کو (سے) سفارش کی۔ مثلاً آپ ان سب استعمالات کو یوں جمع کرسکتے ہیں۔ شفَع زیدٌ الی بکرٍ فشفَع بکرٌ لزیدٍ فی امر توظیفہ عند صدیقہ‘‘ (زید نے بکر سے سفارش طلب کی پس بکر نے زید کے لیے اس کی ملازمت کے بارے میں اپنے دوست کو سفارش کی)۔

·       یہ فعل بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے تاہم قرآن کریم میں یہ فعل صرف مندرجہ بالا دوسرے معنی (سفارش کرنا) کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ اور اس کے لیے اس فعل مجرد کے صیغے پانچ جگہ آئے ہیں اور قرآن میں اس فعل کا استعمال صرف ’’عندَ‘‘ اور ’’لِ‘‘کے ساتھ ہی ہوا ہے جیسے ’’… يَشْفَعُ عِنْدَه ‘‘ (البقرہ:۲۵۵) اور ’’ … فَيَشْفَعُوْا لَنَآ ‘‘ (الاعراف:۵۳)ــــــ’’فی، بِ یا الی کے ساتھ اس کا استعمال قرآن میں نہیں آیا۔ البتہ بعض دفعہ یہ فعل کسی بھی صلہ کے بغیر استعمال ہوا ہے یعنی یہ مذکور نہیں ہوتا کہ کس کی سفارش؟ کس کے پاس؟ کس چیزکے بارے میں؟ ہے جیسے ’’ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَة  ‘‘ (النساء:۸۵) میں ہے ایسے موقع پر سیاقِ عبارت سے مفہوم کا پتہ چلتا ہے۔ بعض دفعہ صرف ایک صلہ ہوتا ہے مثلا کس کے ہاں؟ بیان ہوتا ہے مگر کس کے لیے اور کیوں؟ وغیرہ کا جواب سیاقِ عبارت سے ملتا ہے۔

·       زیرِ مطالعہ لفظ (شفاعۃ) اس فعل کے ان (سفارش والے) معنوں کا مصدر ہے اس کا اُردو ترجمہ سب نے سفارش ہی کیا ہے البتہ بعض نے اس کی تنکیر (نکرہ ہونا) کی بناء پر ’’کوئی سفارش‘‘ کچھ سفارش، کسی قسم کی سفارش‘‘سے ترجمہ کیا ہے جس سے مفہوم میں ایک زور پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ زیادہ بہتر ترجمہ ہے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (شفع)سے فعل مجرد کے سات صیغوں کے علاوہ بعض اسماء مشتقہ اور مصادر (شافع، شفیع،شفع، شفعاء اور شفاعۃ) پچیس کے قریب مقامات پر آئے ہیں اور خود لفظ ’’شفاعۃ‘‘ مختلف صورتوں اور حالتوں میں بارہ (۱۲) جگہ آیا ہے۔

۱:۳۱:۲(۵)     [وَلَا یُؤخَذُ مِنْھَا] ابتدائی ’’وَ‘‘ عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) اور ’’لا‘‘برائے نفی فعل (بمعنی ء’’نہ‘‘)ہے۔ ’’لا‘‘کی تکرار (’’لاتَجزِی‘‘، ’’لا یُقبل‘‘ اور ’’لایُؤْخذ‘‘میں) کی بناء پر یہاں ’’وَلَا‘‘ کا بامحاورہ ترجمہ ’’اور نہ ہی‘‘ہوگا۔ اگرچہ بعض مترجمین نے اس کا خیال نہیں کیا۔ آخری ’’مِنْھَا‘‘ کا ترجمہ ابھی اوپر گزر چکا ہے۔

 [یُؤْخَذُ] کا مادہ ’’اَ خ ذ‘‘ اور وزن ’’یُفْعَلُ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد زیادہ تر ’’أَخذ… یَأخُذ اَخْذًا‘‘(باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کو لینا … کو پکڑ لینا‘‘ یہ فعل ہمیشہ متعدی اور مفعول بنفسہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے البتہ بعض دفعہ اس کا مفعول محذوف ہوتا ہے پھر اس سے حسبِ موقع کئی مجازی اور محاوراتی معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: ’’گرفتار کرنا، سزا دینا، مار ڈالنا، قید کرلینا، …پر غلبہ پانا، …کو قابو کرنا، … کو ہلاک کرنا، …پر کار بند ہونا، مصیبت ڈھانا، چھین لینا، ہاتھ میں لینا اور (پہلے سے)انتظام کرلینا‘‘ وغیرہ۔ ان میں سے بہت سے استعمالات قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں۔ جو اپنے اپنے موقع پر ہمارے سامنے آئیں گے ــــــ عام عربی زبان میں یہ فعل باب سمِعَ اور کُرم سے بھی بعض دیگر معانی (مثلاً دودھ کا بگڑ جانا وغیرہ)کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم یہ استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’لایؤخذ‘‘اس فعل مجرد سے فعل مضارع مجہول صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اور اس کا لفظی ترجمہ ہے ’’نہ لیا جائے گا‘‘ جس کے لیے بامحاورہ صورتیں ’’نہ لیا جائے، نہ لیں، نہ لیں گے‘‘اختیار کی گئی ہیں اوربعض نے تو اس کا ترجمہ بھی ’’قبول نہ کیا جائے گا‘‘ ہی کردیا ہے جو اصل لفظ سے ہٹ کر ہے۔ ’’مِنھَا‘‘کا ترجمہ بیان ہوچکا ہے یہ (اخذ یاخذ) ایک کثیر الاستعمال فعل ہے جس سے صرف فعل مجرد کے مختلف صیغے قرآن کریم میں ۱۲۷ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے بابِ مفاعلہ سے مختلف صیغہ ہائے فعل ۹ جگہ اور باب افتعال کے صیغے ۱۲۶ جگہ آئے ہیں اور ثلاثی مزید فیہ سے مختلف اسماء مشتقہ اور مصادر بھی قریباً ۱۲ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

۱:۳۱:۲(۶)     [عَدْلٌ] کا مادہ واضح ہے یعنی ’’ع د ل‘‘اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس سے فعل مجرد ’’عدَل … یعدِل‘‘ زیادہ تر ’’باب ضرب سے‘‘ اور مختلف مصادر (بلکہ بعض دفعہ ایک ہی مصدر)کے ساتھ مختلف معنی کے لیے اور لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً(۱) عدَل… یعدِل عَدْلًا کے ایک معنی ہیں ’’… کو سنوارنا یا ٹھیک ٹھاک کرنا‘‘ جیسے ’’ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَك  ‘‘ (الانفطار:۷)میں ہے ــــــ یہ متعدی استعمال ہے (۲) عدَل یعدِل عَدْلًا و عَدالۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’عدل و انصاف سے کام لینا اسی سے اسم فاعل ’’عادِلٌ‘‘ہے جن کے درمیان انصاف کیا جائے اس کے لیے فعل کے بعد بَیْنَ…(کے درمیان)‘‘ آتا ہے جیسے ’’… اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ (النساء:۱۲۹) اور کبھی یہ فعل اس موقع عدل کے ذکر کے بغیر بھی آتا ہے جس میں ’’کِن کے ساتھ یا کِن کے درمیان انصاف؟‘‘ کا ذکر تو نہیں ہوتا مگر سیاقِِ عبارت  سےسمجھا جاتا ہے۔ جیسے ’’ اِعْدِلُوْا     ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۡ ، (المائدہ:۸) میں ہے۔ (۳) اور اسی ’’عدَل یعدِلُ‘‘ کے ایک معنی ’’معاوضہ دینا، بدلہ میں دینا‘‘ہیں جیسے  وَاِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ (الانعام:۷۰) میں ہے ــــــ (۴) اور ’’عدل یعدِل عدُولاً‘‘کے معنی، مڑ جانا، ہٹ جانا‘‘ بھی ہوتے ہیں اور یہ عموماً ’’عَنْ‘‘کے ساتھ استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’عدَل عن الطریقِ‘‘(وہ راستے سے مڑ گیا یا ہٹ گیا) اور کبھی یہ ’’عَنْ‘‘ محذوف ہوتا ہے جیسے ’’ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ   ‘‘ (النحل:۶۰) میں ہے (۵) اور کبھی یہ ’’ب‘‘ کے صلہ کے ساتھ‘‘کے برابر قرار دینا‘‘ کے معنی دیتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’عدَل الشییَٔ بالشییِٔ یا عدَل فلانًا بفلانٍ (چیز کو چیز کے برابر یا فلاں کو فلاں کے برابر جانا) اور اسی سے یہ فعل ’’شرک کرنا‘‘کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے ’’ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ    ‘‘(الانعام:۱۵۰) میں ہے۔

·       اس فعل (عدل یعدِلُ) کے یہ (مذکورہ بالا) وہ استعمالات ہیں جو قرآنِ کریم میں آئے ہیں اس کے علاوہ یہی فعل اس باب (ضرب) سے بھی اور باب ’’سمِع‘‘ اور ’’کرُم‘‘سے بھی بعض دیگر معانی کے لیے آتا ہے مگر یہ استعمالات قرآن کریم میں نہیں آئے۔ قرآن کریم میں صرف فعل مجرد کے مختلف صیغے ۱۴ جگہ آئے ہیں۔ اس مادہ سے کوئی مزید فیہ فعل قرآن میں نہیں آیا۔

·       زیر مطالعہ لفظ (عَدْلٌ) اس فعل مجرد سے مصدر (بمعنی انصاف کرنا، برابر کرنا وغیرہ) بھی ہے اور اسم (بمعنی انصاف، برابری وغیرہ) بھی۔ یہ لفظ قرآن کریم میں قریباً ۱۵ دفعہ آیا ہے۔ اور یہ ’’انصاف، برابر‘‘ بدلہ، عوض یا فدیہ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سیاقِ عبارت ہی سے مفہوم متعین ہوتا ہے۔ یہاں (زیر مطالعہ آیت میں) اس لفظ (عدلٌ) کا ترجمہ ’’معاوضہ، کچھ بدل، بدلے میں کچھ‘‘ کیا گیا ہے اور بعض نے ’’لا یؤخَذُ منھا عَدْلٌ‘‘ کا مجموعی بامحاورہ ترجمہ ’’نہ کچھ لے کر جان چھڑائی جائے‘‘ کر دیا ہے۔ یہ ایک طرح تفسیری ترجمہ ہے جو ’’اَخْذ عدل‘‘ (معاوضہ لینا) کی وجہ یا مقصد (جان چھڑانا)کے بیان پر مبنی ہے۔ بلحاظ محاورہ مفہوم درست سہی مگر یہ ترجمہ اصل الفاظ سے بہرحال ہٹ کر ہے۔ کیونکہ یہاں ’’جان چھڑانا‘‘ کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے اگرچہ مفہوم موجود ہے۔

۱:۳۱:۲(۷)     [وَلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ] یہ جملہ ’’وَ‘‘ (اور) + ’’لَا‘‘ (نہ سہی) + ’’ھم‘‘ (وہ لوگ) + ’’یُنْصَرُوْنَ (جس پر ابھی بات ہوگی) کا مرکب یا مجموعہ ہے۔

[یُنْصَرُوْنَ] کا مادہ ’’ن ص ر‘‘اور وزن ’’یُفْعَلُوْنَ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’نصَر… ینصُر نصراً ‘‘ آتا ہے( جس سے باب کا نام لیا گیا) اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’…کی مدد کرکے کامیاب کردینا‘‘ اور اس میں ’’دشمن کو دُور کرنے‘‘ کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ جس کی مدد کی جائے وہ تو مفعول بنفسہ آتا ہے اور ’’جس کے مقابلے پر مدد دی جائے یا جس دشمن سے نجات دلائی جائے‘‘ اس پر ’’علی‘‘یا ’’مِن‘‘ کا صلہ لگتا ہے جیسے ’’فَانْــصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ  ‘‘ (البقرہ:۲۸۶) اور وَنَــصَرْنٰهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا…‘‘ (الانبیاء:۷۷) میں آیا ہے۔ البتہ یہ ’’مِن‘‘ یا ’’علی‘‘(مع مجرور) عموماً محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے۔ زیادہ تر صرف مفعول (جس کو مدد دی جائے) ہی مذکور ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو وہ (مفعول) بھی محذوف ہوتاہے جیسے وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا (الانفال:۷۲، ۷۴) میں ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے قریباً ساٹھ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ اور زیادہ تر یہ صرف مفعول بنفسہ کے ساتھ آئے ہیں صرف دو جگہ مفعول محذوف آیا ہے اور ’’مِنْ‘‘ … یا ’’علی… کے ساتھ صرف آٹھ جگہ استعمال ہوا ہے۔ اور ۱۴ جگہ اس سے صرف فعل مجہول کے صیغے آئے ہیں ۔مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے ابواب تفاعل، افتعال اور استفعال سے صیغہ ءفعل دس جگہ اور مختلف مصادر اور اسماء مشتقہ ۷۵ مقامات پر وارد ہوئے ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ (یُنْصَرون)اس فعل مجرد سے فعل مضارع مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے اور اس مکمل جملے (وَلَاھم یُنْصَرُوْنَ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’اور نہ ہی وہ مدد دیئے جائیں گے‘‘ اور اسی کو با محاورہ کرنے کے لیے مترجمین نے ’’نہ ان کی مدد ہو‘‘ نہ کچھ امداد پہنچے گی؍ ملے گی۔ نہ ہی انہیں مدد پہنچ سکے گی، اور نہ ہی مدد حاصل کرسکیں گے، اور نہ ہی طرف داری چل سکے گی‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کون سا ترجمہ اصل عبارت سے کتنا ہٹا ہوا ہے اور ایک مطلب ہوتے ہوئے کس مفہوم میں محاورہ نے زیادہ زور پیدا کیا ہے؟

 

۲:۳۱:۲     الاعراب

زیر مطالعہ دو آیات کی ابتداء حرفِ ندا سے ہوئی ہے اس لحاظ سے یہ سب ایک ہی طویل جملہ انشائیہ بنتا ہے۔ تاہم نحوی ترکیب کی آسانی کے لیے اس قطعہ کو سات جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جن کو واو عاطفہ کے ذریعے باہم ملا کر ایک ہی (مضمون پر مشتمل) طویل جملہ بنادیا گیا ہے۔ تفصیل اعراب یوں ہے:

 (۱) یا بنی اسرائیل: (یہ رسم املائی ہے رسم قرآنی آگے زیر بحث آئے گی) [یا] حرفِ ندا اور [بَنِیْ] منادی مضاف ہے اس لیے منصوب ہے علامتِ نصب آخری یاء ماقبل مکسور (ــــــِــــ ی) ہے۔ یہ دراصل بَنِیْن (جمع ابن) تھا جس کا آخری (اعرابی) ’’ن‘‘ بوجہ اضافت گرگیا ہے [اسرائیلَ] مضاف الیہ ’’بَنِیْ کا)  لہذا مجرور ہے علامت جر ’’ل‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے کیونکہ یہ لفظ غیر منصرف ہے اور غیر منصرف اس لیے کہ یہ لفظ عجمی بھی ہے اور علَمَ (نام) بھی ہے۔ اس لفظ (اسرائیل) کے مختلف لغات (قبائلی استعمال) پر] ۱:۲۸:۲[ میں بات ہوچکی ہے۔

  (۲) اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ

[اذکروا] فعل امر مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ہے جس کی علامت واو الجمع ہے [نعمتی] مضاف (نعمۃ) اور مضاف الیہ (ی ۔ضمیر متکلم) مل کر ’’اذکروا‘‘ کا مفعول (لھذا) منصوب ہے ’’نِعمۃَ ‘‘ کی علامتِ نصب (ۃ کی فتحہ) یائے متکلم کی طرف مضاف ہونے سے غائب ہوگئی ہے۔ بلکہ کسرہ (ــــــِــــ) میں بدل گئی ہے۔ یائے متکلم کو آگے ملانے کے لیے ہمیشہ فتحہ (ــــــَــــ) دی جاتی ہے۔ اس لیے یہاں ’’نِعْمَتِیْ‘‘ کو ’’نِعْمَتِیَ‘‘ پڑھا جاتا ہے [التی] اسم موصول برائے واحد مؤنث ہے جو اپنے صلہ کے ساتھ (جو آگے آرہا ہے) مل کر ’’نعمتی‘‘ کی صفت ہوگا اس لیے یہاں ’’التی‘‘ محلاً نصب میں ہے جس میں مبنی ہونے کی وجہ سے کوئی ظاہری اعرابی علامت نہیں ہے [انعمتُ] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعل (انا) ہے اور یہاں اس فعل کا مفعول اول محذوف ہے گویا تقدیرا ً(دراصل) عبارت ’’انعمتُھا‘‘ یا ’’انعمتُ بھا‘‘ تھی جس میں ’’ھا‘‘ التی کی ضمیر عائد ہے [علیکم] جار (علی) مجرور (کم) مل کر ’’انعمتُ‘‘ کے مفعول ثانی کا کام دے رہا ہے اور یہ فعل فاعل مفعول (انعمتُ علیکم) ’’التی‘‘ کا صلہ ہے اور صلہ موصول مل کر ’’نعمتی‘‘کی صفت ہے اس طرح یہاں سارا صلہ موصول محل نصب میں ہے۔

(۳) وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ

[وَ] عاطفہ ہے جس سے مابعد والی عبارت بھی ’’اذکروا‘‘کے مفعول (نعمتی) پر عطف ہوکر محلاً منصوب ہوگی [اَنِّیْ] ’’اَنَّ‘‘ اور اس کے اسم منصوب ’’ی‘‘ (یائے متکلم) پر مشتمل ہے اس (اَنَّ) کی خبر اگلا جملہ ہے [فضَّلتُکم] میں ’’فضَّلْتُ‘‘ فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعل (انا) ہے اور کُمْ‘‘ (ضمیر منصوب متصل) اس کا مفعول بہ اوّل ہے [علی العلمین] جار (علی) اور مجرور (العلمین) مل کر فعل ’’فَضَّلْتُ‘‘کے دوسرے مفعول کا کام دے رہا ہے۔ یا اسے متعلق فعل (فضّلتُ) سمجھ لیجئے۔ اور یوں یہ فعل فاعل مفعول اور متعلق فعل (یا مفعول ثانی) مل کر (فضلتکم علی العلمین) ’’اَنِّی‘‘ کی خبر ہے اور یہ پورا جملہ ’’وَ‘‘کے ذریعے سابقہ جملے کا ہی ایک حصہ (بلحاظ مضمون) بن جاتا ہے۔

)  وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا

[وَ] واو عاطفہ ہے اور [اتقوا] فعل امر معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘مستتر ہے اور یہ (اتقو) ابتدائی واو عاطفہ کے ذریعے گزشتہ آیت کے فعل ’’اذکروا‘‘(دیکھئے اوپرنمبر۲) پر عطف ہے۔ [یومًا] یہ فعل ’’واتقو‘‘ کا مفعول بہ ہو کر منصوب ہے بعض نحویوں نے یہاں  اس کو مفعول فیہ یعنی ظرف (قرار دے کر منصوب) سمجھا ہے۔ نصب کی وجہ تو دونوں ہوسکتی ہیں مگر مفعول فیہ سمجھنے کی صورت میں مفہوم یہ ہو جاتا ہے کہ ’’تم اس دن میں (یعنی قیامت میں) ڈرنا (یا بچنا)‘‘  اور یہ مفہوم غلط ہے کیونکہ اس وقت ڈرنے کا حکم دینے کا تو کوئی تُک نہیں بنتا۔ لہٰذا یہاں ’’یومًا‘‘ مفعول بہ ہے یعنی اس دن سے بچو یا ڈرو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مترجمین نے اس (واتقو یومًا) کا ترجمہ ’’یومًا‘‘ کو مفعول بہ سمجھ کر ہی کیا ہے ــــــ اور یومًا کے مفعول بہ ہونے کا مطلب اس دن کے عذاب یا خطرات کا مفعول بہ ہونا ہے گویا تقدیر (اصل مراد) عبارت ہے ’’واتقوا ھَوْلَ یومٍ یا عذابَ یومٍ‘‘ یعنی آج سے ہی اس دن کے خطرات یا عذاب سے ڈرو یا بچو۔‘‘ [لا تجزی] فعل مضارع معروف صیغہ واحد مونث ہے۔ [نفسٌ] اس فعل کا فاعل (لھذا)مرفوع ہے اور یہ جملہ فعلیہ (لا تجزِی نفسٌ)۔ اپنے بعد کی عبارت سمیت (جو آگے آرہی ہے) نکرہ موصوفہ ’’یومًا‘‘ کی صفت بن رہا ہے لہٰذا اسے محلاً منصوب کہہ سکتے ہیں بلکہ ’’یومًا‘‘ کی تنکیر (نکرہ ہونے) سے اس میں جو اسم موصول یعنی ’’جوکہ‘‘ والے معنی پیدا ہوتے ہیں اس کے لحاظ سے یہاں ایک ضمیر عائد بھی محذوف ہے گویا تقدیر عبارت یوں ہے ’’واتقوا یومًا لا تجزی (فیہ) نفسٌ…‘‘ (ڈرو اس دن سے جس میں کام نہ آئے گا کوئی…) یہی وجہ ہے کہ بہت سے اُردو مترجمین نے یہاں ترجمہ میں ’’جب‘‘ کا اضافہ کیا ہے یعنی ڈرو اس دن سے جب…‘‘ بعض مترجمین نے اس چیز کو نظر انداز کرکے ترجمہ کیا ہے یعنی ’’جب‘‘، ’’جس دن‘‘ وغیرہ کے بغیر ہی صرف ’’کہ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ [عن نفسٍ] جار (عن) مجرور (نفسٍ) مل کر متعلق فعل (لا تجْزِی)ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ یہ ’’عن‘‘وہ صلہ ہے جو فعل ’’جزَی یجزِی‘‘ کے مفعول اوّل پر لگتا ہے (دیکھئے فعل جزَی یجزِی کے ساتھ دو مفعول لگانے کا طریقہ اور ایک مفعول پر ’’عن‘‘کے استعمال کے لیے اوپر ہی]۱:۳۱:۲(۲)[ یعنی یہاں بلحاظ استعمالِ فعل عبارت ’’لا تجزی نفسٌ نفساً ‘‘بھی ہوسکتی تھی۔ اس لیے یہاں ’’عن نفسٍ‘‘ ’’نفسًا‘‘ کی جگہ آنے کے باعث محلاً منصوب ہے [شیئًا] یہ فعل ’’لا تجزی‘‘ کا دوسرا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے۔ اوریہ (شیئًا) یہاں مفعول مطلق (جزائً) کی جگہ لینے کے باعث بوجہ مصدریت (مفعول مطق یا اس کا بدل ہونے کے باعث) بھی منصوب ہوسکتا ہے۔ اکثر حضرات نے ’’شیئًا‘‘ کو مفعول بہ سمجھ کر ترجمہ ’’کچھ‘‘ ’’ کوئی چیز‘‘  کا اضافہ کیا ہے تاہم بعض نے اس کو ’’جزاء‘‘ کا بدل سمجھتے ہوئے ترجمہ میں ’’کچھ‘‘ کی بجائے ’’بدلہ (بننا)‘‘ کا مفہوم سامنے رکھا ہے۔ (دیکھئے تراجم ’’اللغۃ‘‘ میں۔)

(۵) وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ

[وَ] عاطفہ اور [لَایُقْبَلُ] فعل مضارع منفی مجہول صیغہ واحد مذکر غائب ہے جو واو عاطفہ کے ذریعے گزشتہ حصہ آیت والے فعل ’’لاتجزی…‘‘ پر عطف ہے۔ یعنی ’’لاتجزی نفسٌ…‘‘ ’’ولا یُقبَل منھا…‘‘ (نہ وہ کام ہوگا اور نہ یہ کام ہوگا) [منھا] جار (من) مجرور (ھا) مل کریا تو متعلق فعل (لا یُقبَل) ہے اور یا اگلے لفظ (شفاعۃٌ) کی صفت ہوسکتا ہے اس صورت میں ’’مِنْ‘‘ کو بیانیہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی کوئی ایسی ’’شفاعت‘‘ جو اس کی طرف سے (پیش)ہوگی (قبول نہ کی جائے گی) [شفاعۃٌ] یہ فعل مجہول (لا یُقبَل) کا نائب فاعل ہوکر مرفوع ہے اور فعل (لا یُقبل) بصیغۂ تذکیر (مذکر) اس لیے آیا ہے کہ ’’شفاعۃً‘‘ (نائب فاعل مؤنث حقیقی نہیں ہے۔ اور بعض نحوی کہتے ہیں کہ اگر فعل اور اس کے (غیر حقیقی مؤنث) فاعل یا نائب فاعل کے درمیان فاصلہ ہو یعنی درمیان میں کوئی اور لفظ واقع ہو (جیسے یہاں ’’مِنْھَا‘‘ آیا ہے) تو فعل کی تذاکیر زیادہ بہتر ہے۔ یہ جملہ فعلیہ (لایُقبل منھا شفاعۃٌ) سابقہ جملہ (لا تجزی … شیئًا) پر عطف ہے اور یہ بھی ’’یومًا‘‘ (واتقوا یومًا…) جو نکرہ موصوفہ ہے، کی صفت ہے۔ اس لیے اس میں بھی ’’فیہ‘‘(جس دن کہ، جب) محذوف ہے اس طرح منصوب کی صفت ہونے کے باعث یہ جملہ بھی محل نصب میں ہے۔

(۶) وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ

اس جملے کی ترکیب ہر لحاظ سے سابقہ جملہ (ولا یقبل منھا شفاعۃٌ) سے ملتی جلتی ہے۔ یعنی [وَ] عاطفہ ہے [لا یُؤخذ] فعل مضارع مجہول منفی بہ لاصیغہ واحد مذکر غائب ہے اور یہ بھی واو عاطفہ کے ذریعے سابقہ فعل (لاتجزی …یا لایُقبَل) پر عطف ہے (یعنی … ’’اور نہ ہی لیا جائے گا) [منھا] جار مجرور متعلق فعل (لا یؤخذ) بھی ہوسکتا ہے اور ’’مِنْ‘‘ بیانیہ ہو تو یہ (منھا) اگلے لفظ (عدلٌ) کی صفت بھی ــــــ [عدلٌ] فعل (لایُوْخذ) کا نائب فاعل(لہٰذا) مرفوع ہے۔ یہ جملہ فعلیہ (لایؤخذ منھا عدلٌ) بھی ’’یومًا‘‘ (واتقوا یومًا…) کی صفت واقع ہوا ہے اس لیے یہاں بھی ایک ’’فیہ‘‘ (جب۔ جس میں) محذوف سمجھا جائے گا (ورنہ یہ جملہ صفت نہیں ہوسکتا) اگرچہ بامحاورہ اُردو ترجمہ میں بار بار ’’جب‘‘ یا ’’جس میں‘‘ لانا ضروری نہیں بلکہ ایک دفعہ لانا ہی کافی ہے۔ اسی طرح صفت ہوکر یہ جملہ محل نصب میں ہے۔

(۷) وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْن

[وَ]عاطفہ اور [لَا] نافیہ ہے اور یہ صرف اگلے فعل (یُنصَرون) کی نفی کے لیے نہیں ہے ورنہ عبارت ’’وھم لا یُنصَرُون‘‘ ہوتی۔ بلکہ یہ ’’لا‘‘ یہاں ’’لَیْس‘‘ اور ’’مَا‘‘ (مشابھۃ بلیس) کے معنی میں ہے اور [ھم] اس (’’لا‘‘) کا اسم مرفوع ہے اور [یُنصَرونَ] فعل مضارع مجہول، صیغہ جمع مذکر غائب مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘۔ پورا جملہ فعلیہ اس ’’لا‘‘ کی خبر ہے گویا یہ عبارت ’’وما ھم بمنصورین‘‘ کے معنی میں ہے اور چاہیں تو یوں سمجھ لیں کہ اصل عبارت تو ’’ھم‘‘ (مبتدأ) اور ’’لاینصرون (جملہ فعلیہ) خبر تھا مگر نفی پر زور دینے کے لیے ’’لا‘‘کو مقدم لایا گیا ہے جس سے معنی میں مطلقاً نفی نہیں بلکہ بتاکید نفی کا مفہوم پیدا ہوتا ہے یعنی ’’اور نہ ہی وہ…‘‘

·       آیت کے شروع میں ’’نفسٌ‘‘ (مؤنث سماعی) بطور فاعل مذکور تھا اس کے لیے فعل (لا تجزِی) بھی بصیغۂ تانیث ہی آیا۔ اور بعد میں اس (نفس) کے لیے ہی دودفعہ ضمیر واحد مؤنث (ھا) آئی (مِنْھا کی شکل میں) مگر یہاں آخر پر ’’وھیَ لا تُنصرُ‘‘کی بجائے ’’وھم لا یُنْصَرون‘‘ آیا ہے۔ واحد مؤنث سے جمع مذکر کی طرف جانے کی وجہ یہ ہے کہ دراصل عبارت میں نفسٌ نکرہ لاکر کسی ایک ’’نفس‘‘ کی بات نہیں کی گئی بلکہ کئی نفوس ہوں گے جن میں سے ہر ایک کی وہ حالت ہوگی جو شروع آیت میں بیان ہوئی ہے۔ گویا آیت میں ’’عباد‘‘ یا ’’نفوس‘‘ یا ’’انسانوں‘‘ کی بات ہوئی ہے[1]  اس لیے آخر پر اس کی مناسبت سے ایک جملہ اسمیہ (جمع مذکر مبتدأ) کے ساتھ لایا گیا ہے کہ ’’سب‘‘ کی یہ حالت ہوگی۔ جملہ اسمیہ لانے میں بعض دیگر معنوی محاسن بھی ہیں جن کا تعلق ’’علم البلاغت‘‘سے ہے[2]   مگر یہ ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے

 

۳:۳۱:۲       الرسم

          زیر مطالعہ دو آیات میں صرف چار کلمات بلحاظ رسم عثمانی وضاحت طلب ہیں باقی تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم قرآنی یکساں ہیں۔ وہ چار کلمات یہ ہیں: (۱) یبنی (۲) اسراء یل (۳) العلمین (۴) شفاعۃٌ تفصیل یوں ہے:

(۱)’’ یبنی‘‘ (جس کا رسم املائی ’’یابنی‘‘ہے) قرآن کریم میں ــــــ یہاں اور ہرجگہ بحذف الالف بین الیاء والباء یعنی ’’یبنی‘‘ لکھا جاتا ہے۔

(۲) ’’اسراء یل‘‘ (جس کا رسم املائی ’’اسرائیل‘‘ہے) قرآن کریم میں اس کے رسم (عثمانی) میں اختلاف ہے اس کی تفصیل اس سے پہلے البقرہ:۲۸ ]۳:۲۸:۲[میں بیان ہوچکی ہے۔

(۳)’’العلَمین‘‘ (جس کا رسم معتاد ’’العالَمین‘‘ ہے) کا قرآنی رسم ــــــ یہاں اور ہر جگہ ۔بحذف الالف بعد العین یعنی بصورت ’’العلمین‘‘ ہے نیز دیکھئے الفاتحہ:۲]۳:۲:۱[

(۴) ’’شفاعۃ‘‘کے رسم عثمانی میں اختلاف ہے عرب اور بیشتر افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے ابوداؤد کی طرف منسوب تصریح کی بناء پر بحذف الف بعد الفاء یعنی بصورت ’’شفعۃ‘‘ لکھا جاتا ہے جب کہ لیبیا کے مصاحف میں الدانی کی عدم تصریح کی بنا پر اسے باثبات الف (شفاعۃ) لکھا جاتا ہے۔ برصغیر کے رسم عثمانی کے بارے میں اہتمام کرنے والے متعدد مصاحف (مثلاً انجمن حمایت اسلام لاہور اور بمبئی سے شائع ہونے والے (’’   الفی قرآن مجید‘‘) میں بھی اسے باثبات الف ہی لکھا گیا ہے۔ صاحب نثر المرجان نے بھی یہاں اثباتِ الف کو ’’عند الاکثر‘‘ کہا ہے۔

 

۴:۳۱:۲       الضبط

زیر مطالعہ آیات کے کلمات میں ضبط کے اختلافات مندرجہ ذیل نمونوں کے ذریعے سمجھے جا سکتے ہیں:

نوٹ:]۴:۱۶:۲[میں نمونہ ہائے ضبط کے آخر پر ملحوظ (نوٹ)میں نمبر۱اورنمبر۳پر بھی نظر ڈال لیجئے جس کی مثالیں مندرجہ بالا نمونوںمیں بھی موجود ہیں۔

 





[1]   دیکھئے  تفسیر بیضاوی تحت تفسیر آیت۔

[2] چاہیں تو دیکھئے ’’اعراب القرآن و بیانہ، للدرویش ج۱  ص۹۸۔