سورۃ ابقرہ   آیت نمبر ۴۹ اور ۵۰

۳۲:۲       وَاِذْ نَجَّيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ    ۭ   وَفِىْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ (۴۹) وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَيْنٰكُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ    (۵۰)

۱:۳۲:۲       اللغۃ

[وَاِذْ]’’وَ ‘‘کے معنی اور استعمال کے لیے الفاتحہ:۵ ]۱:۴:۱(۳)[اور ’’اِذْ‘‘کے معانی و استعمال کے لیے البقرہ:۳۰ میں]۱:۲۲:۲(۱)[میں دیکھئے۔ ’’وَاِذْ‘‘ کا (یہاں) لفظی ترجمہ ہے ’’اور جب‘‘۔ ’’اذ‘‘کے قواعد استعمال کو ملحوظ رکھتے ہوئے (جن کی وضاحت ۱:۲۲:۲(۱)میں ہوچکی ہے)یہاں اس کا ترجمہ (یاد کرو) جب کہ‘‘ (وہ زمانہ یاد کرو) جب کہ‘‘، ’’(اس وقت کو یاد کرو) جب‘‘، ’’اور (یاد کرو) جب) ’’(ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب‘‘، ’’(وہ وقت یاد کرو) جب/   جب کہ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ ان سب تراجم میں یہ (یاد کرو) والی بات ’’اذ‘‘ ظرفیہ کے نحوی تقاضوں کی بناء پر لائی گئی ہے۔ تاہم اُردو محاورے میں اس کے لانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ بعض بزرگوں نے اس کے صرف لفظی ترجمہ ’’اور جب‘‘پر ہی اکتفا کیا ہے۔

۱:۳۲:۲(۱)     [نَجَّیْنَاکُمْ] (یہ رسم املائی ہے رسم عثمانی پر آگے بات ہوگی) اس میں آخری ضمیر منصوب ’’کُمْ‘‘ بمعنی ’’تم کو‘‘ہے اور ’’نَجَّیْنَا‘‘ کا مادہ ’’ن ج و‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْنَا‘‘ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’نجایَنْجُو‘‘ (باب نصر سے) اور مختلف مصارد کے ساتھ مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (۱) نجا ینجو نجاۃً‘‘ کے معنی ہیں: ’’نجات پانا‘‘ (یہ عربی کا لفظ ’’نجاۃ‘‘ یا ’’نجوٰۃ‘‘ (مثل زکوٰۃ و صلوٰۃ) ہی ہے جو اُردو میں لمبی ’’ت‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے) ’’چھوٹ جانا، خلاصی پانا، محفوظ ہوجانا، بچ جانا‘‘، یہ فعل لازم ہے اور جس سے نجات پائی جائے اس کا ذکر کرنا ہو تو اس سے پہلے ’’مِنْ‘‘ لگتا ہے مثلاً ’’نجامِنْہ‘‘ (اس نے اس سے نجات پائی) کہتے ہیں ’’نجاہ‘‘ کہنا غلط ہے۔ (۲) نجاینجوا نجویً کے معنی ہیں: ’’سرگوشی کرنا کسی سے خفیہ بات کرنا‘‘ ان معنی کے لیے یہ فعل بطور متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفعول عموماً بنفسہ آتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نجافلانًا‘‘ (اس نے فلاں سے سرگوشی کی)۔ عربی زبان میں فعل بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’نجاینجو نجائً= جلدی کرنا‘‘ نجاینجو نجوًا = کھال اتارنا یا درخت کاٹنا‘‘ــــــ  وغیرہ تاہم ان معنی میں اس مادہ سے کوئی فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف دو صیغے (یوسف:۴۵ اور القصص:۲۵) آئے ہیں اور وہ بھی صرف پہلے معنی (نجات پانا) کے لیے۔ دوسرے معنی (سرگوشی کرنا) کے لیے قرآن میں صیغۂ فعل تو نہیں آیا مگر اس کا مصدر (نجوی) مختلف شکلوں (مفرد مرکب معرفہ نکرہ) میں گیارہ مقامات پر وارد ہوا ہے۔ فعل مجرد کے علاوہ اس مادہ (نجو) سے مزید فیہ کے باب تفعیل سے مختلف افعال کے صیغے ۳۷ جگہ، بابِ افعال سے ۲۳ جگہ، باب تفاعل سے ۴ جگہ اور باب مفاعلہ سے صرف ایک جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ فعل مجرد مزید فیہ سے مصادر اور اسماء مشتقہ بھی ۱۷ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’نَجَّیْنَا‘‘اس مادہ (نجو) سے باب تفعیل کا فعل ماضی صیغہ جمع متکلم ہے۔ بظاہر اسے ’’نَجَّوْنا‘‘ہونا چاہئے تھا (دیکھئیےاوپر شروع میں اس کا مادہ اور وزن) مگر اہل عرب فعل ناقص کے مزید فیہ ابواب میں ’’وَ‘‘ کو بھی ’’ی‘‘ میں بدل کر بولتے اور لکھتے ہیں۔ اس باب (تفعیل) سے فعل ’’نَجَّی… یُنَجِّیْ، تَنْجِیَۃً، (دراصل نَجَّوَ یُنَجِّوُ تَنْجِوۃً) زیادہ تر بطور فعل متعدی استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ہیں: … کو چھڑانا، … کو خلاصی دلانا، …کو نجات دینا، … کو رہائی دینا‘‘ــــــ  اس کا مفعول تو بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے اور جس سے نجات دلائی جائے اس پر ’’مِنْ‘‘ لگتا ہے۔ عربی ڈکشنریوں میں آپ کو اس فعل کے کچھ اور معنی (مثلاً اونچی زمین پر چھوڑنا، زمین کی سطح بلند کرنا وغیرہ)بھی ملیں گے۔ تاہم قرآن کریم میں ہر جگہ یہ فعل ’’نجات دینا، چھڑانا‘‘والے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔

۱:۳۲:۲(۲)     [مِنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ] یہ تین کلمات ہیں ’’من۔ آل اور فرعون‘‘ــــــ ان میں سے ’’مِنْ‘‘ (جس کا ترجمہ یہاں  ’’سے‘‘ہوگا) کے معانی اور استعمالات کئی دفعہ سامنے آچکے ہیں۔ ضرورت ہوتو ۱:۲:۲(۵)دیکھ لیجئے۔ ’’آل‘‘(یہ اس کا عام املائی ضبط ہے۔ قرآنی ضبط پر آگے بات ہوگی) کا مادہ ایک تو (۱) اول بتایا گیا ہے۔ معاجم (ڈکشنریوں) میں عموماً یہ لفظ اسی مادہ کے تحت بیان ہوتا ہے۔ گویا اس کا وزن ’’فَعَلٌ‘‘ اور شکل اصلی ’’اَوَلٌ‘‘ہے جس میں واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے اور لفظ ’’آل‘‘بن جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’آلَ یَئُوْلُ مَآ لًا(دراصل اَوَل یَأْوُل مَأْوَلًا) باب نصر سے آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’لوٹ آنا، انجامِ کار کی طرف آنا‘‘ اس کے ساتھ عموماً ’’الی‘‘ کا صلہ لگتا ہے کہتے ہیں ’’آل الیہ‘‘ (اس کی طرف لوٹا) اسی کا مصدر ’’مَاَل‘‘ بمعنی ’’انجام اور نتیجہ‘‘  اُردو میں مستعمل ہے۔ اور ’’آل یئول اِیالًا‘‘ (جو دراصل ’’اِوالًا‘‘ ہے) کے معنی ہیں: ’’حاکم ہونا،  حکومت کرنا‘‘ اس صورت میں بعض دفعہ اس کے ساتھ ’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے مثلاً کہتے ہیں: ’’آلَ علی القوم وآل الرعیۃَ (قوم یا رعیت کا انتظام سنبھالا)ــــــ تاہم قرآنِ کریم میں اس فعل مجرد سے فعل کا کوئی صیغہ کسی معنی کے لیے استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس سے باب تفعیل کا مصدر ’’تَأویل‘‘ قرآن کریم میں ۱۷ جگہ آیا ہے۔

 (۲) بعض کے نزدیک اس (آل) کا مادہ ’’ا ھ ل‘‘ہے ۔[1]   اس کی اصلی شکل ’’اَھْلٌ‘‘ (بروزن فَعْلٌ) ہے پھر خلافِ قیاس ’’ھ‘‘ کو ہمزہ (أ) میں بدل دیا جاتا ہے اور ہمرئہ مفتوحہ اور ہمزئہ ساکنہ مل کر ’’آ‘‘ بن جاتے ہیں۔ یعنی اَھْلٌ = اَألٌ= آلٌ۔

اس مادہ (اھل) سے فعل مجرد ’’اَھَل یَأْھِلُ أُھُولاً (باب ضرب اور نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’شادی کرلینا، گھر بار بنا لینا، گر ہستی ہوجانا‘‘ اور اسی سے فعل مجہول ’’اُھِلَ المکانُ کے معنی ’’مکان یا جگہ آباد ہوجانا‘‘ہیں اور مکانات اور آبادی والی جگہ کو ’’مکانٌ مَأ ھُول‘‘ کہتے ہیں اس فعل سے بھی کوئی صیغۂ فعل قرآنِ کریم میں نہیں آیا۔ البتہ لفظ ’’اھل‘‘ مختلف صورتوں (مفرد مرکب واحد جمع) میں ۱۲۷ جگہ وارد ہوا ہے۔

·       لفظ اھل کے معانی میں (۱) بیوی، بال بچے (۲) قریبی رشتہ دار (۳) کسی چیز کے ساتھ والے (۴) (کسی جگہ) کے رہنے والے (۵) مستحق اور صاحبِ اہلیت‘‘شامل ہیں اور یہ لفظ اضافت کے ساتھ متعدد معانی دیتا ہے اس لفظ کے معانی کی مزید وضاحت حسبِ موقع کی جائے گیــــ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’آل‘‘(چاہے ’’اھل‘‘سے ہے یا ’’اول‘‘سے) کے متعدد معنی ہیں: مثلاً پہاڑ کے اطراف و جوانب سراب (خصوصاً صبح کے وقت والا) خیمہ کا ستون وغیرہ۔ تاہم زیادہ تر یہ لفظ ’’اھل‘‘ ہی کے ہم معنی یا قریب المعنی استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم  میں یہ لفظ (۲۶ جگہ آیا ہے اور عموماً ہر جگہ) اسی (اھل والے) معنی میں استعمال ہوا ہے۔

·       البتہ ’’آل‘‘اور ’’اھل‘‘کے معنی اور استعمال میں کچھ فرق ہے مثلاً (۱) ’’آل‘‘ اور ’’اھل‘‘دونوں کے معنی میں ’’گھر والے اور اولاد‘‘ شامل ہیں تاہم آل بمعنی ’’اولاد‘‘ (یا گھر والے) صرف بڑے آدمیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے معمولی حیثیت کے آدمیوں کی اولاد کے لیے ’’آل‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا مثلاً ’’آل السلطان‘‘یا ’’آل الملک‘‘ کہہ سکتے ہیں مگر ’’آلُ الخیاط‘‘ (درزی کی آل) یا ’’آلُ الاِ سکاف‘‘ (موچی کی آل) کہنا درست نہیں۔ جب کہ ’’اھل‘‘ (بمعنی گھروالے) کا لفظ دونوں طرح کے  لوگوں کے لیے استعما ل ہو سکتا ہے یعنی ’’اھلَ السلطان‘‘ اور ’’اھلُ الإسکاف‘‘ دونوں استعمال درست ہیں۔

 (۲) ’’ آل‘‘ کے لفظ    میں کسی بڑے آدمی کی اولاد کے علاوہ اس کے پیروکار اور متبعین بھی شامل ہوتے ہیں جب کہ ’’اھل‘‘ کا استعمال عموماً ’’گھر والوں‘‘ یا ’’ساتھ رہنے والوں ‘‘ پر ہوتا ہے۔ ایک نسب ایک دین یا ایک مسکن اور وطن یا کوئی کاریگری سے تعلق رکھنے والے لوگ اس نسب یا دین یا شہر یا ہنر وغیرہ کے ’’اَھْل‘‘کہلاتے ہیں مگر اس کی ’’آل‘‘ نہیں کہلاتے۔

 (۳) بلحاظ استعمال لفظ  ’’آل‘‘ہمیشہ اَعلام الناطقین (صرف انسانوں کے لیے مستعمل اسماء معرفہ) کی طرف مضاف ہوتا ہے کسی اسم نکرہ یا کسی جگہ یا زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہوتا جب کہ لفظ  ’’اَھْل‘‘سب کی طرف مضاف ہوسکتا ہے مثلاً ’’آل الرجل‘‘ کہنا درست مگر  ’’آل رجلٍ‘‘ کہنا غلط ہے۔ جب کہ  ’’اھل الرجل‘‘ اور  ’’اھل رجلٍ‘‘دونوں طرح درست ہے۔ اسی طرح  ’’اھل  مکۃ‘‘ یا  ’’اھل العصر‘‘ (ایک ہی زمانہ والے)  کہنا درست مگر  ’’آل مکۃ‘‘ یا  ’’آل العصر‘‘ کہنا غلط ہے۔

(۴)’’آل‘‘ سے مراد کسی بڑے انسان سے خصوصی تعلق (محض سرسری اور زبانی نہیں)رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں وہ تعلق قرابت کا بھی ہوسکتا ہے اور دین و شریعت میں اتباع کا بھی ــــــ  راغب اصفہانی نے (المفردات میں) لفظ  ’’آل‘‘کے معنی کی وضاحت کے لیے امام جعفر صادق ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ ان سے کسی نے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ تمام مسلمان آلِ نبی ﷺ ہیں تو انہوں نے جواب دیا یہ بات سچ بھی ہے اور جھوٹ بھی۔سائل نے اس کی وضاحت چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ جھوٹ اس لحاظ سے ہے کہ (آل بمعنی بڑے آدمی کے اقارب واولاد لیں تو) ساری اُمت آلِ محمدؐ نہیں ہے اور سچ اس لیے ہے کہ اُمت کے جو لوگ بھی شرائطِ شریعت پر پورے اترتے ہیں وہ آلِ محمدؐ یا آل النبیؐ ہیں۔

·       زیر مطالعہ مرکب (من آل فرعون) کا تیسرا وضاحت طلب لفظ  ’’فِرْعَوْن‘‘ہے۔ یہ ایک عجمی (غیر عربی) لفظ ہے اس لیے اس کے مادہ اور وزن کی بحث بے کار ہے اور اسی لیے یہ لفظ غیر منصرف ہے یعنی علمیت اور عجمیت کے جمع ہونے کی بناء پر اگرچہ کسی بھی عربی ڈکشنری میں آپ کو اس لفظ کا بیان  مادہ ’’ف ر ع‘‘ کے آخر پر ہی ملے گا۔ (ترتیب حروف کی بناء پر) اور جدید عربی میں تو اس سے رباعی مجرد کا فعل بھی  ’’فَرْعَنَ یُفَرْعِنُ فَرْعنۃً‘‘ بمعنی متکبرو سرکش یا فرعون مزاج ہونا‘‘ استعمال کرلیتے ہیں۔

·       لفظ  ’’فرعون‘‘ مصر کے قدیم بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا۔ جیسے ایران کے بادشاہ کو  ’’کِسرٰی‘‘ اور رومیوں کے بادشاہ کو  ’’قیصر‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ دراصل قدیم مصر (قبطی)زبان کا لفظ ہے۔ جو المعجم الوسیط کے مؤلفین کے مطابق دراصل  ’’یَرْعَوْ‘‘(بغیر نون)تھا اور اس کا مطلب ’’عظیم گھرانہ‘‘ہے۔ ابنِ الانباری (البیان) میں ’’القاموس اور اقرب الموارد کے مطابق اس کے لفظی معنی ’’مگر مچھ‘‘ ہیں۔ انگریزی میں اس کا عبرانی تلفظ (جو دراصل قبطی ہی تھا)  pharaoh رائج ہے۔  ’’مد القاموس‘‘ میں لین (W.Lane) نے اس کا اصل عبرانی ہجاء بھی لکھا ہے۔ بعض نے اسے آرامی الاصل لفظ کہا ہے اور اس کی اصل آرامی شکل بحروف لاطینی  (Feroun) لکھی ہے۔[2] اور یہ اس کی عربی شکل  (فِرعَون) سے زیادہ مشابہ ہے۔ عربی میں ہر متکبر اور سرکش کو بھی مجازاً فرعون کہتے ہیں۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں یہ کلمہ (فرعون) بطور لقب (شاہ مصر) استعمال ہوا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور چونکہ  ’’آل‘‘ کے معنی بھی کسی ’’بڑی شخصیت  کے قریبی متعلقین اور متبعین‘‘ ہوتے ہیں اسی لیے یہاں  ’’من آلِ فرعون‘‘ کاترجمہ ’’قومِ فرعون سے ،فرعون کی قوم سے، فرعون کے لوگوں سے، متعلقین فرعون سے، فرعون والوں سے‘‘ کیا گیا ہے بعض نے ’’آلِ فرعون سے’’ ہی رہنے دیا ہے جب کہ بعض حضرات نے ’’فرعونیوں سے‘‘ کر لیا ہے۔

۱:۳۲:۲(۳)     [یَسُوْ مُوْ نَکُمْ] کی آخری ضمیر منصوب متصل  ’’کُمْ‘‘ بمعنی ’’تم کو‘‘ ہے۔اور  ’’یَسُوْمُوْنَ‘‘ کا مادہ  ’’س و م‘‘  اور وزن اصلی ’’یَفْعُلُوْنَ ہے۔ اصلی شکل  ’’یَسْوُمُوْنَ‘‘ تھی جس میں واو کا ضمہ(ـــــُـــــ) ماقبل ساکن (س) کو دے دیا جاتا ہے اور یوں یہ لفظ بصورت موجُودہ  (یسومون) لکھا اور بولا جاتا ہے اب اس کا (موجودہ) وزن  ’’یَفُوعُون‘‘رہ گیا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد  ’’سام یسوم سَوْمًا‘‘(باب نصر سے) بطور فعل لازم و متعدی (دونوں طرح) متعدد معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے صاحب المفردات ( راغب اصفہانی) کے مطابق اس کی اصل (بنیادی معنی) جانا  (ذھاب) اور تلاش کرنا  (ابتغاء)ہے اور اس کے تمام معانی میں یہ دونوں یا ان میں سے ایک مفہوم ضرور موجود ہوتاہے۔

·       بطور فعل لازم اس کے کئی معنی  ہیں مثلاً ’’جدھر منہ آئے چلے جانا، کسی چیز کی تلاش میں نکلنا، مویشیوں کا کھلے جہاں جی چاہے چرتے پھرنا‘‘(ہوا یا اونٹ کا) چلتے رہنا‘‘وغیرہ۔

·       اسی طرح بطور فعل متعدی بھی اس کے متعدد استعمال ہیں۔ عموماً تو اس کے ساتھ ایک مفعول آتا ہے (اور وہ بھی زیادہ تر بنفسہ ہوکر) مثلاً (۱) سامَ الشَیَٔ‘‘کے معنی ہیں ’’اس (چیز) پر پکاّ رہا اور اسے نہ چھوڑا‘‘ــــــ اور (۲)  ’’سامَ الابلَ‘‘ کا مطلب ہے ’’اس نے اونٹوں (وغیرہ) کو چراگاہ میں چرنے کے لیے چھوڑ دیا‘‘ــــــ اور (۳) سامَ (البائع او المشتری) السلعۃَ اوبالسلعۃِ‘‘کا مطلب ہے (دکاندار یا گاہک نے) سامان تجارت کی قیمت بتائی یا پوچھی  (سلعۃ= مال یا سامان)

·       اور کبھی یہ فعل (بطور متعدی) دو مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور دونوں مفعول بنفسہ (منصوب) آتے ہیں مثلاً (۱)  سامَ فلانًا الامرَ‘‘کے معنی ہیں ’’اس نے اسے ( اس) معاملہ یا حکم کا پابند کردیاــــــ  اور (۲)  ’’سَامَ الرجلَ ذلاًّ او ھَوانًا او خَسْفًا کا مطلب ہے ’’اس نے آدمی کے لیے ذلّت یا عاجزی یا خواری کا ارادہ کیا‘‘ــــــ یا ’’اس نے اس (آدمی) پر ذلت و عاجزی مسلط کی‘‘۔

·       قرآن کریم میں یہ فعل مجرد صرف مندرجہ بالا آخرالذکر معنی میں (اور دو مفعول کے ساتھ) استعمال ہوا ہے۔ باقی استعمالات (جن کا اوپر ذکر ہوا ہے) قرآن کریم میں نہیں آئے۔ اور مستعمل فعل مجرد کے بھی مضارع کے صرف دوہی صیغے  (’’یسُوم اور  ’’یسومون‘‘  کل چار جگہ آئے ہیں اور مزید فیہ سے صرف بابِ افعال سے ایک صیغہ فعل صرف ایک جگہ (النحل:۱۰) وارد ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مجرد و مزید فیہ سے بعض جامد او ر مشتق اسماء (مسوّمۃ۔ مسوِّمین۔ سیما وغیرہ) بھی دس جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ جملہ (یَسُومونکم) کا صیغہ فعل  ’’یسُومُون‘‘ اس فعل مجرد سے مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ شروع والے  ’’واِذْ‘‘ سے (یعنی ایک قصہ ماضی سے) کا متعلق ہونے کی بنا پر یہاں اس فعل مضارع کا ترجمہ فعل ماضی بلکہ ماضی استمراری کی طرح کرنا پڑے گا۔ یہاں فعل (یسومون) کے ساتھ ایک مفعول تو  (کُمْ) ہے دوسرا مفعول آگے آرہا ہے اس پر مزید بات تو حصہ  ’’الاعراب‘‘میں ہوگی۔ تاہم فعل  ’’سَامَ یسُوم‘‘ کے مندرجہ بالا معانی  (یعنی کسی کے لیے ذلت و خواری کا ارادہ کرنا یا اس پر ذلت وغیرہ مسلط کرنا) اور آگے بیان ہونے والے دوسرے مفعول (سوء العذاب) کو ملحوظ رکھتے ہوئے اردو مترجمین نے یہاں  ’’یسُومُونکم…‘‘ کا با محاورہ ترجمہ: ’’پہنچاتے تھے تم کو… دیتے تھے تم کو، کرتے تھے تم پر… ، توڑ رہے تھے تمہارے اوپر…‘‘سے کیا ہے۔ جب کہ بعض نے غالباً اس فعل (سام یسوم) کے اصل بنیادی مفہوم (جانا اور تلاش کرنا) کو سامنے رکھتے ہوئے اس (یسومونکم…) کا ترجمہ ’’وہ فکر میں لگے رہتے تھے تمہاری (اذیت) کے ، کی صورت میں بھی کردیاہے۔

·       ظاہر ہے کہ ’’پہنچانا، دینا، توڑنا اور کرنا‘‘ وغیرہ  سام یسوم کا لفظی ترجمہ نہیں ہے بلکہ اُردو محاورے کے مطابق ہی درست ہے۔ اصل مفہوم تو یہی بنتا ہے کہ وہ تمہارے لیے  ’’سوء العذاب‘‘ (جس پر ابھی آگے بات ہوگی) کی تلاش میں رہتے تھے۔ مندرجہ بالا آخری ترجمہ کی بنیادی یہی مفہوم ہے۔

۱:۳۲:۲(۴)     [سُوْءَ الْعَذَابِ] یہ مرکب( اضافی) دو کلمات یعنی  ’’سوء‘‘ اور  ’’العذاب‘‘ پر مشتمل ہے۔ پہلے ہر ایک کلمہ کی الگ الگ لغوی وضاحت کی جاتی ہے:

[سُوْئٌ](جو عبارت میں منصوب اور خفیف آیا ہے جس کی وجہ  ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) کا مادہ  ’’س و ء‘‘ اور وزن  ’’فُعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد  ’’سَائَ یسُوئُ سَوْئً ا ‘‘(دراصل سَوَئَ یَسْوُئُ) باب نصر سے آتا ہے اور بطور فعل لازم و متعدی (دونوں طرح) مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (۱) (بطور لازم) اس کے معنی  ہیں ’’برا یا قبیح ہونا‘‘ مثلاً کہیں گے  ’’سائَ الشیئُ‘‘ (یعنی وہ چیز بری ہوگئی یا اس میں برائی ظاہر ہوئی) اور (۲)  ’’سائَ ۃ‘‘ (متعدی) کے معنی ہیں ’’اس نے اس کو غمگین کیا۔ وہ اسے برا لگا۔ اس کے ساتھ ناپسنددیدہ سلوک کیا‘‘ اس کو بگاڑ دیا۔ متعدی استعمال میں بعض دفعہ اس فعل پر  ’’بِ‘‘ کا صلہ بھی آتا ہے مثلاً  ’’سائَ بہ ظنَّا‘‘ (وہ اسے برُا لگا بلحاظ گمان کے یعنی اس نے اس کے بارے میں بُرا گمان  رکھا) کبھی  ’’سَائَ‘‘ فعل ذم  بِئسَ‘‘کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے ’’لازم‘‘ والے معنوں میں صیغے ۲۳ جگہ آئے ہیں اور بطور فعل متعدی مختلف  صیغے ۷ جگہ آئے ہیں جن میں سے تین جگہ یہ بصیغۂ مجہول بھی استعمال ہوا ہے اور کم از کم دو جگہ یہ  ’’ب‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی آیا ہے۔ اور مزید فیہ کے بابِ افعال کے صیغے کل پانچ دفعہ آئے ہیں۔ افعال کے علاوہ اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق مختلف اسماء اور مصادر مختلف صورتوں (مفرد مرکب معرفہ نکرہ وغیرہ) میں ۱۳۰ سے زیادہ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ کلمہ  ’’سُوْئٌ‘‘ اس فعل  (ساء یسوء) سے اسم ہے اور اس کے بنیادی مصدری معنی  ’’برائی‘‘ ہیں کبھی بطور صفت بمعنی  ’’برا‘‘بھی استعما ل ہوتا ہے۔ اور یہ دینی، دنیاوی، اخلاقی ، مالی معاشی ہر قسم کی برائی کو شامل ہے اس لیے اس کا ترجمہ ضرر، فساد، عیب، بیماری ، ہلاکت، شرارت، شر، نقصان وغیرہ بھی کیا جاتاہے۔ یہ لفظ  (سُوْء) قرآن کریم میں مختلف صورتوں (مفرد مرکب معرفہ نکرہ وغیرہ) میں پچاس دفعہ آیا ہے۔ اور ہر جگہ یہ ’’برائی‘‘ کے (مصدری) معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔

·       اسی مادہ سے ایک اور لفظ  ’’سَوْئٌ‘‘(بفتح السین)بھی  ’’سُوْئٌ‘‘سے ملتے جلتے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ان دونوں لفظوں  (سُوْئٌ  اور سَوْئٌ) کے باہمی فرق کو آگے چل کر کلمہ  ’’سَوْئٌ‘‘ کے ضمن میں (التوبۃ:۹۸) بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

کلمہ  ’’اَلْعَذَابِ‘‘کے مادہ  وزن فعل مجرد وغیرہ پر البقرہ:۷ ]۱:۶:۲(۶)[میں بات ہو چکی ہے۔ لفظ عذاب خود اُردو میں اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ مستعمل ہے اور بعض دفعہ اس کا ترجمہ ’’دکھ، سزا اور تکلیف‘‘سے بھی کر لیا جاتا ہے۔

·       اس طرح زیر مطالعہ مرکب اضافی  ’’سوء العذاب‘‘ کا ترجمہ تو بنتا ہے، عذاب کی برائی یا عذاب کا برا‘‘ اور یہ اضافت شدت یا سختی کے بیان کے لیے ہے ورنہ ’’عذاب‘‘ تو بذاتِ خود ’’برا‘‘ ہی ہوتا ہے اس طرح  ’’سوء العذاب‘‘ کا مطلب ’’’بہت برا عذاب‘‘ہے جسے اُردو مترجمین نے ’’برے عذاب، برا عذاب، بری تکلیف یا تکلیفیں‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے اور بعض نے شدت والے مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے ’’بڑا عذاب‘‘ بری مار ،  بڑی تکلیف اور بڑا دکھ‘‘سے اور بعض نے ’’سخت آزاری’’ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔ اصل عبارت میں ’’بڑا‘‘کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے یہ مفہوم صرف ’’سوء‘‘اور ’’عذاب‘‘ کی اضافت سے پیدا ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ ترکیب  (سوء العذاب) آٹھ جگہ استعمال ہوئی ہے۔

۱:۳۲:۲(۵)     [یُذَبِّحُوْنَ]  کا مادہ ’’ذب ح‘‘ اور وزن  ’’یُفَعِّلُوْنَ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد  ذبح… یَذْبَح ذَبحًا (باب فتح) کے بنیادی معنی تو ہیں ’’…کاگلا کاٹ دینا‘‘۔ اور چونکہ لفظ   ’’ذبح‘‘ اردو میں مستعمل ہے اس لیے اس کا ترجمہ ’’…کو ذبح کرنا‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے۔  ’’علی‘‘کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ’’…پر قربانی دینا یعنی نیاز چڑھانا‘‘ہے (جو غیر اللہ کے لیے قطعاً حرام ہے) اور ان ہی معنی کے لیے قرآن میں آیا ہے۔  ’’ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ (المائدہ:۳) یعنی اور اس کا کھانا بھی حرام ہے) جو استھانوں پر نیاز چڑھایا گیا۔‘‘ ڈکشنری میں آپ کو اس فعل کے کچھ اور معانی بھی ملیں گے مگر وہ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوئے۔

·       قرآن مجید میں اس فعل مجرد سے پانچ مختلف صیغے پانچ ہی جگہ آئے ہیں ان میں سے صرف ایک جگہ ہی یہ  ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آیا ہے۔ مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے باب تفعیل سے مختلف صیغے کل ۳ جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ  ’’یذبَحُون‘‘اس مادہ سے باب تفعیل کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل  ’’ذبحَّ  …یُذَبِحُّ  تَذْبِیحًا‘‘ کے معنی ہیں ’’کے گلے بکثرت یا بشدت کا ٹنا‘‘ یکے بعد دیگرے، کثرت سے اور پوری  طرح کاٹتے چلے جانا۔ اردو مترجمین میں سے اکثر نے اس کا ترجمہ ’’ذبح کرتے تھے‘‘ ہی کیا ہے (یہاں  بھی فعل مضارع بمعنی ماضی استمرار ی اسی ابتدائی  ’’واِذْ‘‘ کی وجہ سے ہے) بعض نے ’’گلے کاٹتے تھے‘‘ بعض نے ’’قتل کر ڈالتے تھے‘‘ اور بعض نے ’’حلال کرتے تھے‘‘ بھی کیا ہے۔ یہ آخری ترجمہ ’’ذبح شرعی بمعنی حلال کرنا‘‘سے لے لیا گیا ہے جو ظاہر ہے یہاں غیر موزوں ہے۔

۱:۳۲:۲(۶)     [اَبْنآءَ کُمْ] کی آخری ضمیر مجرور (کُمْ) تو بمعنی  ’’تمہارے‘‘ہے اور  ’’اَبْنَاء‘‘ (جو یہاں عبارت میں منصوب آیا ہے) کا مادہ ’’ب ن ی‘‘(اور بقول بعض ’’ب ن و‘‘)ہے اس کا وزن  ’’اَفْعَالٌ‘‘ہے۔ یہ لفظ  ’’اِبْنٌ‘‘ کی جمع مکسر ہے۔  ’’ابن‘‘کے مادہ فعل وغیرہ اور اس کی ساخت اور بناوٹ (لغوی) پر البقرہ:۴۰ ]۱:۲۸:۲(۱)[پر مفصل بحث گزر چکی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ابن کی جمع سالم  (بنُون) بھی مختلف صورتوں میں (مفرد مرکب معرفہ نکرہ وغیرہ) ستر سے زیادہ مقامات پر آئی ہے اور  ’’ابناء‘‘  ّجمع مکسر) کی مختلف صورتیں ۲۸ جگہ آئی ہیں۔ اس طرح   ’’اَبناءَکم‘‘ کا یہاں ترجمہ : ’’تمہارے بیٹوں کو یا تمہارے بیٹے‘‘ (اردو فعل کی مناسبت سے ’’کو‘‘کے بغیر) بنتا ہے۔ جسے بعض مترجمین نے ’’تمہارے لڑکوں کو اور بعض نے ’’تمہاری اولاد ذکورکو" سے ترجمہ کیا ہے جو اصل سے بھی زیاہ بھاری بھر کم ترجمہ ہے۔

۱:۳۲:۲(۷)     [وَیَسْتَحْیُوْنَ] میں ابتدائی ’’وَ‘‘ تو عاطفہ بمعنی اور ہے اور فعل  ’’یَسْتحیُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ ح ی ی‘‘ (اور بقول بعض ’’ح ی و‘‘ اور وزن  ’’یَسْتَفْعِلُوْنَ‘‘ہے ۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب و معنی وغیرہ پر البقرہ:۲۶ ]۱:۱۹:۲(۱)[میں بات ہوئی تھی۔

زیر مطالعہ لفظ  (یَستحیُون) اس مادہ سے باب استفعال کا فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس کی اصلی شکل  یستَحْیوُوْنَ یا یَسْتَحْیِیُوْنَتھی۔ پھر واو الجمع سے پہلے والی ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ (یعنی ناقص کا لام کلمہ) ساقط کرکے اس سے پہلے (عین کلمہ) کی حرکت کسرہ کو ضمہ (ـــــُـــــ) میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اس باب سے فعل ’’استَحْیٰ یَسْتَحیِیْ اسْتحیاء‘‘ قرآن کریم میں دو معنی میں استعمال ہوا ہے (۱) کسی بات یا شخص سے شرم کرنا، جھینپنا یا عار محسوس کرنا اور (۲) زندہ رہنے دینا، باقی چھوڑنا۔ قرآن کریم میں اس باب سے فعل کے مختلف صیغے نو جگہ آئے ہیں ۔ اور معنی کا تعین سیاقِ عبارت سے ہوسکتا ہے۔ اس فعل کی بھی مزید وضاحت ]۱:۱۹:۲(۱)[ میں کی جاچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں  ’’یستحیون‘‘ زندہ رہنے دینا‘‘ والے معنی میں استعمال ہوا ہے اس لیے مختلف مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’جیتا رکھتے تھے، جیتی رکھتے تھے، زندہ چھوڑتے یا چھوڑدیتے تھے، زندہ رہنے دیتے تھے، زندہ رکھتے تھے، جیتا چھوڑدیتے تھے‘‘ تمام تراجم درست اور یکساں مفہوم والے ہیں۔ خیال رہے یہاں بھی فعل مضارع کا ترجمہ بصیغہ ماضی استمراری کرنے کی وجہ ہی (شروع آیت والا) ’’وَاِذْ‘‘ ہے۔

۱:۳۲:۲(۸)     [نِسَآئَکُمْ]جو  نِسَاء + کُمْ (تمہاری) کا مرکب ہے ۔  لفظ ’’نِسائٌ‘‘ (جو آیت میں منصوب ہے وجہ نصب کے لیے ’’الاعراب‘‘ دیکھئے) کا مادہ  ’’ن س و‘‘ او روزن  ’’فِعَالٌ‘‘ہے۔ اس مادہ فعل مجرد  ’’نسَاینسُو نَسْوَۃً‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’…پر عمل چھوڑ دینا‘‘…کو بلحاظ عمل ترک کردینا‘‘۔ عربی میں اس (واو) مادہ سے صرف فعل مجرد اور مزید فیہ کا بابِ افعال استعمال ہوتا ہے (اور وہ بھی شاذ)۔ قرآن کریم میں اس سے کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       لفظ  ’’نِسائٌ‘‘(جو دراصل  ’’نِساوٌ‘‘ تھا اِمْرَاْۃُ  (عورت) کی جمع مکسر ہے جو اصل مادہ (م ر ء) سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اس کی ایک اور جمع مکسر  ’’نِسوۃٌ‘‘ بھی ہے۔ اور یہ دونوں جمعیں قرآن کریم میں متعدد بار (نِساء ۵۷ دفعہ اور  نِسوۃ کل دو دفعہ) استعمال ہوئی ہیں۔ ڈکشنریوں میں آپ کو اس کی کچھ اور جمع مکسر بھی ملے گی۔ مگر وہ قرآن مجید میں کہیں نہیں آئی۔

·       اردو میں  ’’نساءکم‘‘کا ترجمہ (یہاں ’’تمہاری عورتوں کو‘‘ ہی ہوسکتا ہے (اور اکثر نے یہی ترجمہ کیا ہے تاہم بعض حضرات نے اس چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ اس سے پہلے ’’ابناء کم‘‘ (تمہارے بیٹے) آیا ہے ( رجالکم ’’تمہارے مرد‘‘نہیں آیا) تو اس لیے یہاں یہ بیٹوں کے مقابل کا لفظ ہے لہٰذا انہوں نے اس کا ترجمہ ’’تمہاری بیٹیوں کو‘‘سے ترجمہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ عربی میں لفظ  ’’نِسائٌ‘‘ ’’عورتوں ، بیویوں اور بیٹیوں‘‘سب کے لیے استعمال ہوتا ہے خود قرآن کریم میں یہ لفظ ان تینوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔ صحیح معنی مراد کا تعین عموماً سیاق عبارت سے ہوجاتا ہے۔

 [وَفِیْ ذٰلِکُمْ] ’’ذلکم‘‘ دراصل  ’’ذلک’’ ہی ہے۔ بعید کے اسماء اشارہ (دیکھئے]۱:۱:۲(۱)[کے ساتھ کاف خطاب استعمال ہوتا ہے یعنی  ’’ذلک، ذلکما، ذلکم، ذلکِ ، ذٰلِکُنَّ‘‘ یہ سب ’’ذلک‘‘ ہی کے معنی میں ہیں اسی طرح  ’’تِلکَ، تلکما، تلکم… وغیرہ بھی استعمال ہوتے ہیں اس سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ ہم کسی سے مخاطب ہوکر بات کررہے ہیں (اور اسی لیے اسے کافِ خطاب کہتے ہیں یہ ضمیر مخاطب نہیں ہوتی) اس طرح یہاں وَ (اور) + فِیْ میں + ذلکم (وہ، اس) کا مل کر اردو ترجمہ ’’اور اس میں‘‘ہی بنتا ہے۔ جسے بعض نے ’’اور اس واقعہ میں‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے جسے تفسیری ترجمہ کہہ سکتے ہیں۔ بعض نے اس کا ترجمہ صرف ’’اور یہ‘‘ (سخت امتحان تھا) کر دیا ہے جو الفاظِ عبارت اور ترکیب نحوی دونوں کے لحاظ سے محل نظر ہے۔

۱:۳۲:۲(۹)     [بَلَاءٌ مِنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ] جس کی سادہ نثر (paraphrasing)’’[بَلائٌ عظیم من ربکم]‘‘ بنتی ہے اس میں نیا وضاحت طلب لفظ  ’’بَلائٌ‘‘ ہی ہے۔ اس لیے کہ مِنْ (کی طرف ہے) کے استعمال کی وضاحت ۱:۲:۲(۵)میں اور  ’’رَبّکُم‘‘ (تمہارا رب)  کے کلمہ  ’’ربّ‘‘کے معنی وغیرہ ۱:۲:۱(۳) میں گزر چکے ہیں۔ اسی طرح لفظ  عظیم (بہت بڑا) کی مفصل لغوی بحث البقرہ:۷ ]۱:۶:۲(۷)[میں ہوچکی ہے۔

·       لفظ ’’بَلَائٌ‘‘ کا مادہ ’’ب ل و‘‘ اور وزن  ’’فَعَالٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد  ’’بلایَبْلُو بَلَائً‘‘(نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیاد معنی (کسی کا) امتحان لینا، آزمائش کرنا یا آزمائش میں ڈالنا‘‘ہیں۔یہ فعل بطور متعدی اور مفعول بنفسہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے  ’’بَلَوْنَاھُمْ‘‘ ہم نے ان کو آزمایا‘‘ (الاعراف:۱۶۸ والقلم:۱۷) میں آیا ہے۔ اسی سے یہ فعل بعض دفعہ ’’ٹھونک بجا کر دیکھ لینا‘‘ یا کسی شے کی اصل حقیقت پہچان لینا‘‘کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً (یونس:۳۰) اسی مادہ سے ’’باب سمِع‘‘ کا فعل  بَلِیَ یَبْلٰی بِلًی ’’بوسیدہ ہونا یا مٹ جانا‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے تاہم یہ دوسرا فعل  ’’یائی اللام‘‘(ب ل ی) سے ہے ۔ اگرچہ واوی بھی باب سمع میں تو یائی ہی ہو کر استعما ل ہوتا ہے جیسے  رَضِوَ سے رَضِیَ ہوجاتا ہے۔

·       عام ڈکشنریوں (مثلاً المنجد) میں یہ دونوں مادے (بلو اور بلی) فعل مجرد کی حد تک الگ الگ بیان ہوتے ہیں۔ تاہم مزید فیہ (اِفعال، اِفتعال وغیرہ) سے آنے والے افعال یائی اللام مادہ (ب ل ی) کے تحت ہی لکھے جاتے ہیں۔ صاحب القاموس (الفیروز آبادی) جنہوں نے تمام ناقص مادوں کے لیے ایک ہی  ’’باب الواو والیاء‘‘اختیار کیا ہے اور ہر جگہ واو یّ اللام یا یائی اللام کی تمیز کی ہے۔ عجیب بات ہے کہ انہوں نے صرف  یائی (بلی) مادہ کو ہی لیا ہے اور  ’’بلا یبلو‘‘کو بھی اسی مادہ سے بیان کیا ہے اور المفردات (راغب) میں بھی اس کی واو ی یائی سب صورتوں کو اسی (بلی) کے عنوان کے تحت ہی بیان کیا گیا ہے۔ اسے تسامح ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ بابِ سمع اور مزید فیہ ابواب کی حد تک تو چلئے یہ بات قابلِ فہم ہے مگر صرف قرآن کریم میں ہی فعل مجرد  ’’بلا یبلو‘‘ سے مختلف ایسے صیغہ ہائے فعل بیس (۲۰)جگہ آئے ہیں جن میں "و"اپنی اصل شکل میں برقرار ہے۔

·       قرآن کریم میں فعل مجرد (بلا یبلو) کے علاوہ بابِ سمع سے بھی ایک صیغہ فعل آیا ہے اور اس کے علاوہ بابِ افعال سے ایک صیغہ بابِ افتعال سے آٹھ صیغے فعل کے اور دو صیغے اسم مشتق کے آئے ہیں۔ مؤخر الذکر افعال (باب سمع، افعال ااور افتعال) کو یائی اللام   ہی سمجھا جا سکتا ہے مگر  نصر ینصر سے استعمال ہونے والا فعل  (بلا یبلو) یقینا واوی اللام ہی ہے۔

·       لفظ  بلائٌ اس فعل مجرد (بلا یبلو)سے مصدر بھی ہے اور اسم بھی ۔ بلکہ یہ  بلِیَ یبلیَ  کا بھی مصدر ہے اس طرح اس کے معنی ’’آزمانا یا آزمائش‘‘بھی ہے اور ’’بوسیدگی‘‘ بھی ہوسکتا ہے (اگرچہ اس معنی کے لیے خاص الگ مصدر ’’بِلًی‘‘زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ ان بنیادی معنی سے ہی لفظ  بلاء غم، حزن، رنج، محنت، مشقت کے معنی بھی دیتا ہے اور اپنے بنیادی معنی’’  آزمائش‘‘اور ’’امتحان‘‘  کی بنا پر یہ بعض دفعہ انعام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے کہ آزمائش اور امتحان ’’مصیبت‘‘ کی شکل میں بھی ہوتا ہے اور ’’نعمت‘‘ کی شکل میں بھی جس سے بندے کے ’’صبر‘‘ یا ’’شکر‘‘ کا امتحان مقصود ہوتا ہے بلکہ  ’’مِنْحَۃٌ‘‘(نعمت) کو اسی لیے  ’’اعظم البلائین‘‘(دو میں سے بڑی آزمائش) کہاگیا ہے۔ اس طرح اپنے  "بلاء"  اپنے مقصد یا انجام کے لحاظ سے  ’’بلائٌ حسن‘‘ (اچھی آزمائش) بھی ہوتی ہے اور  ’’بلائٌ سَیِّئٌٔ‘‘(بری آزمائش)بھی۔

·       آیتِ زیر مطالعہ میں چونکہ بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا ذکر ہے اس لیے اکثر مترجمین نے یہاں  بلاء من ربکم عظیم کا ترجمہ ’’تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بڑی آزمائش ؍ بھاری امتحان ؍بڑی بلا؍ سخت آزمائش‘‘تھی سے ہی کیا ہے۔ لیکن شروع آیت ’’ وَاِذ نجیَّناکم مِن اٰل فرعون‘‘ (ہم تم کو آل فرعون سے نجات دلائی) میں ابتدءاً  ذکر اُن مصائب سے نجات کا ہے اس لیے بعض مترجمین نے  ’’وفی ذلکم‘‘ میں اشارہ اسی  ’’نجَّیناکم‘‘ کی طرف سمجھتے ہوئے یہاں  ’’بلاء عظیم ‘‘  کا ترجمہ ’’بڑا انعام‘‘ ہی کیا ہے۔ یعنی تم کوآل فرعون کے  مظالم سے نجات ملنا ایک عظیم نعمت تھی اور غالباً اسی لیے شاہ عبد القادرؒ نے یہاں اصل الفاظ سے ہٹ کر ’’وفی ذلکم بلاء من ربکم عظیم‘‘ کا تفسیری ترجمہ ’’اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی طرف سے بڑی‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ جس میں وہی ’’انعام‘‘والا مفہوم موجود ہے۔ خیال رہے کہ لفظ  ’’بلاء‘‘ قرآن کریم میں چھ(۶) جگہ آیا ہے اور ان میں سے کئی جگہ اسے بمعنی ’’انعام‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ [3]  اس لیے کہ اللہ کا انعام بھی ایک آزمائش ہوتا ہے۔

۱:۳۲:۲(۱۰)     [وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمْ] ’’واِذْ‘‘ (اور جب) کی لغوی وضاحت ابھی اوپر اسی قطعہ کے شروع میں ]۱:۳۲:۲[میں ہوچکی ہے اور آخری  ’’بِکم‘‘ کا ترجمہ باء کو سببیہ سمجھتے ہوئے ’’تمہارے سبب سے، تمہاری وجہ سے‘‘ ہوسکتا ہے یا ’’بِ‘‘ کو ’’ل‘‘ کے معنی میں بھی لیا جاسکتا ہے یعنی  ’’لکم‘‘ (تمہارے لیے)۔ اکثر مترجمین نے دو ترجمہ کیے ہیں۔

اور  [فَرَقْنَا]کا مادہ ’’ف ر ق‘‘اور وزن  ’’فَعَلْنَا‘‘ہے ــــــ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلا (۱)  فرَق…یفرُق فَرْقًا و فُرْقانًا  (نصر سے) کے معنی ہیں ’’…کو تقسیم کردینا، …کے کئی حصّے کردینا،  جداجدا کردینا‘‘  مثلاً کہتے ہیں  فرَق الشی‘‘ (اس نے چیز کے کئی حصے کر دیئے اور  ’’فرق بینَ الشیئینِ‘‘ کا مطلب ہے  ’’ اس نے دو چیزوں کو باہم (ایک دوسری سے) ممتاز اور جدا کردیا۔ اور ’’فرق بینَ الخصمین‘‘ کا مطلب ہے اس نے دو فریقِ مقدمہ کے درمیان فیصلہ کردیا‘‘ اور  فرق اللّٰہ الکتاب‘‘ کے معنی ہیں ’’اللہ نے کتاب کو واضح کردیا‘‘ اور اسی سے ہے  ’’ وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ ‘‘ (الاسراء:۱۰۶) (۲) اور  ’’فرِق یفرق فَرَقًا‘‘ (باب سمع سے) کے معنی ہیں ’’خائف ہونا، بہت گھبراجانا، ڈر جانا اور اسی سے ہے  ’’ وَلٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَّفْرَقُوْنَ  ‘‘ (التوبۃ:۵۶) (یعنی وہ  ’’یرک ‘‘ جانے والے لوگ ہیں)۔ یہ فعل لازم ہے اور ’’جس سے ڈر گیا‘‘ کا ذکرکرنا ہوتو ’’مِنْ‘‘استعمال ہوتا ہے کہیں گے  ’’فرِق مِنْہُ‘‘ ’’وہ اس سے گھبرا گیا)

·       اس فعل مجرد کے مندرجہ بالا معانی تو قرآن کریم میں آئے ہیں۔ آپ کو ڈکشنری میں اس کے کئی ایسے معانی بھی مل سکتے ہیں جو غیر قرآنی ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے پانچ جگہ آئے ہیں۔ باب تفعیل سے مختلف صیغے ۹ جگہ، تفعل سے ۸ جگہ اور باب مفاعلہ سے صرف ایک ہی صیغہ آیا ہے اس کے علاوہ مختلف مصادر اور اسماء مشتقہ وغیرہ ۳۹جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ فعل  ’’فرَقْنا‘‘اس فعل مجرد سے ماضی معروف کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ مندرجہ بالا معانی میں سے پہلے معنی (تقسیم کرنا، جدا جدا کرنا) کو ملحوظ رکھتے ہوئے مترجمین نے یہاں اس  (فرقنا) کا ترجمہ ’’ہم نے پھاڑا/ چیرا/ شق کردیا/ پھاڑ دیا‘‘ کی صورت میں ہی کیا ہے۔ یہاں یہ ترجمہ اگلے لفظ البحر (سمندر) کی مناسبت سے کیا گیا ہے جس کے لیے دوسری جگہ قرآن کریم میں لفظ (اسی قصہ کے ضمن میں ’’فانْفَلَقَ‘‘(پس پھٹ گیا) آیا ہے۔ صاحب المفردات نے  ’’فلَق‘‘ اور ’’فرَق‘‘ میں یہ تمیز کی ہے کہ لفظ  فلق‘‘ میں  "انشقاق (پھٹ جانا) کا لحاظ ہے اور  ’’فرق‘‘ میں انفصال (جدا ہونا) کا۔ اگرچہ دونوں ہم معنی ہی ہیں۔

۱:۳۲:۲(۱۱)     [اْلبَحْرَ]  کا مادہ ’’ب ح ر‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر)  ’’فَعْلٌ‘‘ (آیت میں لفظ منصوب آیا ہے اس کی وجہ  ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)۔ اس مادہ سے فعل مجرد، باب فتح اور باب سمِع سے مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً بحَر الارض بَحرًا (فتح سے) کے معنی ہیں: اس نے زمین کو پھاڑا۔ اور  بحَر الناقۃَ (فتح سے) کے معنی ہیں ’’اس نے اونٹنی کا کان چیر دیا‘‘(ایسی اونٹنی کو ہی ’’بَحِیرۃٌ‘‘ کہتے تھے اس کا ذکر آگے (المائدہ:۱۰۳) میں آئے گا اور  بحِر یبحَر بَحَراً (سمع سے) کے معنی ہیں ’’سمندر کو دیکھ کر ڈر جانا یا گھبراہٹ اور پریشانی کے باعث حیران رہ جانا‘‘ـــــ تاہم قرآن کریم میں اس سے کسی قسم کے فعل (مجرد یا مزید فیہ) کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ فعل مجرد تو عام عربی میں بھی شاذ ہی استعمال ہوتا ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ (بَحْر)اس فعل مجرد سے مصدر بھی ہے اور اسم بھی۔ بطور اسم اس کا عام اُردو ترجمہ ’’سمندر‘‘ہے۔ تاہم بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’دریا‘‘ ہی کیا ہے۔ اور عربی زبان میں بحر سے بہت بڑا دریا مراد لینے کی گنجائش ہے عربی زبان میں استعارۃً اور مجازاً ’’بحر تیز رفتار اور ’’وسیع‘‘کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً  ’’البحر من الخیل‘‘ (تیز رفتا گھوڑا اور ’’البحر من الرجال‘‘وسیع العلم آدمی کو کہتے ہیں) تاہم قرآن کریم میں یہ استعمال کہیں نہیں آیا۔ بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ’’دریائے شور‘‘ کیا ہے (یعنی کھاری دریا) اور یہ سمندر کے لیے فارسی لفظ ہے۔ برصغیر میں انگریزوں کے  قانون فوجداری (panel Code) کے اُردو ترجمہ (تعزیرات ہند) میں (جو غالباً ڈپٹی نذیر احمد نے کیا تھا) عمر قید مع سمندر پار جلا وطنی‘‘ (سزا) کا ترجمہ ’’حبس دوام بعبور دریائے شور‘‘ کیا گیا تھا جسے عام طور پر ’’کالاپانی‘‘کہا جاتا تھا۔ انگریز کے زمانے میں ایسے قیدی عموماً خلیج بنگال کے جزائر انڈیمان اور نکو بار میں بھیجے جاتے تھے۔ غالباً اسی قانونی اصطلاح سے مترجم نے ’’دریائے شور‘‘کے ساتھ ترجمہ کرنا مناسب سمجھا۔

·       لفظ ’’البحر‘‘ (مفرد معرفہ) قرآن کریم میں ۳۳ جگہ آیا ہے۔ اس کا صیغہ تثنیہ ۵ جگہ اور جمع مکسر( بِحار اور ابحر) بھی تین جگہ آئی ہے۔

۱:۳۲:۲(۱۲)     [فَاَنْجَیْنَاکُمْ] یہ  ’’فَ‘‘ (پس پھر)+ اَنْجَیْنَا (جس پر ابھی بات ہوگی) + کُمْ (تم کو) کا مرکب ہے۔

’’اَنْجَیْنَا‘‘ کا مادہ ’’ن ج و‘‘ اور وزن  ’’اَفْعَلْنَا‘‘ہے۔ یعنی یہ اس مادہ سے بابِ افعال کا صیغۂ ماضی ہے۔ بظاہر اسے  ’’اَنْجوْنا‘‘ ہونا چاہیے تھا مگر ناقص افعال کے مزید فیہ میں  ’’وَ‘‘ کو ’’ی‘‘ بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے۔ (یہی بات ابھی اوپر  ’’نَجَّیْنَا‘‘ میں بھی ہوئی تھی)

·       اس مادہ سے فعل مجرد  (نجا ینجو)کے باب اور معنی وغیرہ پر ابھی اوپر ]۱:۳۲:۲(۱)[میں بات ہوچکی ہے۔

زیر مطالعہ لفظ  (اَنْجَیْنَا)اسی مادہ سے  بابِ افعال کا فعل ماضی صیغہ جمع متکلم (مع ضمیر تعظیم  ’’نحن‘‘) ہے۔ اس باب سے فعل ’’انجی…یُنْجِیْ اِنجْائً‘‘ (دراصل  اَنجَوَ یُنْجِوُ اِنجاوًا)کے معنی ( ’’نَجَّیْنَا‘‘ کی طرح)’’…کو نجات دلانا، بچالینا‘‘ وغیرہ ہیں(دیکھئے اوپر۱:۳۲:۲(۱)میں) عربی زبان میں یہ فعل بعض دیگر معانی (مثلاً اونچی جگہ پر آنا وغیرہ )بھی دیتا ہے مگر قرآن کریم میں یہ استعمال نہیں آیا ــــــ قرآن کریم میں اس باب (افعال) والے فعل کے مختلف صیغے ۲۲ جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ یہ فعل مندرجہ بالا (نجات دلانا) والے معنی کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ اردو مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ہم نے تم کو نجات دلائی/ چھٹکارا دیا/ بچا  لیا /  بچا دیا ‘‘ سے کیا ہے۔ اکثر نے ’’نجات دلائی‘‘ ہی اختیار کیا ہے۔ لفظ ’’نجات‘‘ کی اصل عربی شکل وغیرہ بھی۱:۳۲:۲(۱)میں بیان ہوچکی ہے۔ بہرحال یہ لفظ اردو میں رائج ہے۔

۱:۳۲:۲(۱۳)     [وَاَغْرَقْنَا] میں ’’وَ‘‘ تو عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘ہے) اور۔  [اَغْرَقْنَا] کا مادہ ’’غ ر ق‘‘اور وزن ’’اَفْعَلْنا‘‘ہے اس مادہ سے فعل مجرد  ’’غرِقَ یَغْرَقُ غَرَقًا‘‘(باب سمع) سے آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ’’ڈوب جانا/ ڈوب کر مرنا یا مرنے کے قریب ہونا‘‘ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’غرِق فی الماء‘‘(وہ پانی میں ڈوب مرا) یا  ’’غرِقتِ السفینۃُ‘‘ (کشتی ڈوب گئی) اس کے علاوہ یہ فعل اس باب (سمع) سے اور ’’نصر‘‘سے بھی بعض  دیگر معانی (مثلاً برباد کرنا، گڑ بڑ کردینا وغیرہ)کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد کا کوئی صیغہ (کسی معنی کے لیے بھی) وارد نہیں ہوا۔ البتہ فعل مجرد کا مصدر ایک جگہ (یونس:۹۰) آیا ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ  (اَغرقنا)بابِ افعال کا فعل ماضی صیغئہ ِتعظیم (جمع متکلم)ہے۔ اس باب سے فعل  ’’اَغرق…یُغرِق اِغراقًا‘‘کے معنی ہیں ’’کو ڈبو دینا، …کو ڈبو کر ہلاک کرنا، …کو غرق کرنا‘‘ (یعنی اس کے فعل مجرد کا یہ مصدر ’’غرق‘‘ تھوڑے سے بدلے ہوئے تلفظ کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے۔ قرآن کریم میں اس (باب افعال) سے فعل کے مختلف صیغے ۱۷ جگہ آئے ہیں اور بعض دیگر مصادر اور اسماء مشتقہ بھی ۶ جگہ آئے ہیں۔ اکثر مترجمین نے ’’اور ہم نے غرق کردیا‘‘ہے اختیار کیا ہے اگرچہ بعض نے ’’ڈبایا، ڈبادیا اور ڈبودیا‘‘کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے۔

[آلَ فرعَوْنَ] اس مرکب کے دونوں اجزاء پر الگ الگ اور پھر مرکب کے ترجم پر ابھی اوپر ]۱:۳۲:۲(۲)میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔

۱:۳۲:۲(۱۴)     [وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ] میں ’’وَ‘‘ بمعنی’’حالانکہ‘‘اور ’’جب کہ‘‘ہے۔  ’’اَنْتُمْ‘‘ضمیر مخاطب بمعنی  ’’تم‘‘ہے۔  ’’تَنْظُرُون‘‘ کا مادہ ’’ن ظ ر‘‘ اور وزن  ’’تَفْعُلُون‘‘ہے یعنی یہ فعل مجرد کا صیغہ  مضارع جمع مذکر حاضرہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’نظَرَ …یَنظُرُ نظْراً  (نصر سے) بطور فعل متعدی کئی معنی دیتا ہے مثلاً ’’…کو دیکھا، …اسے نظر آگیا‘‘ (اُردو میں لفظ ’’نظر‘‘مستعمل ہے)۔ کہیں گے۔  ’’نَظَرہٗ‘‘ (اس نے اس کو دیکھا) اسی طرح ’’…کی حفاظت کرنا، …پر توجہ دینا‘‘ اور … کاانتظار کرنا‘‘  بھی اس ہی کے معنی ہیں۔

·       عموماً تو یہ فعل مفعول بنفسہ کے ساتھ ہی آتا ہے تاہم یہ  ’’الی‘‘اور  ’’فی‘‘کے صلہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں  ’’نظر الی الشیی‘‘ (اس نے چیز کو غور سے دیکھا۔ اس پر نظر ڈالی) اور ’’نظر فی الامر‘‘ (اس نے معاملے پر سوچ بچار کیا۔ غور و فکر کیا)

قرآن کریم میں اس فعل مجرد کے مختلف صیغے ۸۷ جگہ آئے ہیں اور مذکورہ بالا تینوں استعمال (نفسہ یا اِلٰی اور فی کے ساتھ) وارد ہوئے ہیں البتہ بعض دفعہ اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور) آیا ہے۔

·       اس طرح اس جملے  ’’وانتم تنظرون‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے۔ ’’اور / درنحالیکہ/ جب کہ/ تم دیکھتے تھے‘‘(یہاں بھی فعل مضارع  ’’تنظرون‘‘ کا ترجمہ ماضی استمراری کی طرح کرنے کی وجہ وہی ابتدائی  ’’وَاِذْ ‘‘ہے جو زمانہ ماضی کے لیے ظرف ہے۔) اسی کو بعض حضرات نے ’’تم دیکھ رہے تھے/ تم معائنہ کر رہے تھے/ دیکھ ہی تو رہے تھے‘‘  سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے جملے میں ’’حال‘‘ والے مفہوم برقرار رکھنے کے لیے اس جملے  (وانتم تنظرون) کا ’’تمہاری آنکھوں کے سامنے‘‘سے ترجمہ کیا ہے جو اردو محاورے کے لحاظ سے بہت اچھا ترجمہ ہے اگرچہ الفاظ کی حد تک اصل عبارت سے ہٹ کر ہے۔ اصل عربی عبارت ’’امَام اَعْیُنِکم‘‘ یا  ’’تحت اَعْنُیِکم‘‘تو نہیں ہے۔

 

۲:۳۲:۲      الاعراب

زیر مطالعہ دو آیات یوں تو (چھوٹے چھوٹے) سات جملہ فعلیہ اور دو جملہ اسمیہ پر مشتمل ہے مگر ان میں سے بعض جملے بذریعہ حرف عطف (فا یا واو)باہم مربوط ہیں اور بعض جملے  ’’حال‘‘ ہونے کی وجہ سے دوسرے جملے کا جزء بن جاتے ہیں۔ اس طرح ہم اس قطعہ کو ترکیب نحوی کے لیے پانچ حصوں (جملوں) میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ تفصیل یوں ہے۔

  (۱) وَاِذْ نَجَّيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ

 [وَ] عاطفہ بھی ہوسکتی ہے کہ گزشتہ مضمون کے ساتھ بھی تعلق ہے اور  ’’مستانفہ‘‘ بھی ہوسکتی ہے کہ بظاہر یہاں سے ایک الگ بات شروع ہوتی ہے [اِذْ] ظرف منصوب ہے اور اس کا عامل سابقہ آیت کا ’’اذکروا نعمتی‘‘بھی ہوسکتا ہے اور جملہ مستانفہ سمجھیں تو بھی یہاں ایک  ’’اذکروا‘‘ محذوف سمجھا جاتا ہے۔ [نجَّیناکم] میں ’’نجّینا‘‘ فعل ماضی معروف صیغہ متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘مستتر ہے اور ’’کُمْ‘‘ضمیر منصوب متصل مفعول بہ ہے (تم کو)۔ چونکہ ظروف عموماً مضاف ہو کر ہی آتے ہیں اس لیے نحوی حضرات یہاں ’’نجیناکم‘‘کو ’’اِذْ‘‘(ظرف) کا مضاف الیہ سمجھ کر محلاً مجرور قرار دیتے ہیں۔ تاہم آیت کا مفہوم اس ’’فنی باریکی‘‘کے اظہار کے بغیر بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اور ’’نجیناکم‘‘کے ’’محلی اعراب‘‘ کا بیان ایک بے فائدہ تکلف کے سوا کچھ نہیں۔

 [مِنْ اٰل فرعونَ] میں ’مِن‘ حرف الجر ہے ’’آل‘‘ مجرور بالجر اور آگے مضاف بھی ہے اس لیے خفیف ہے (تنوین اور لامِ تعریف سے خالی ہے)اور ’’فرعون‘‘ مضاف الیہ (لہٰذا)مجرور ہے مگر غیر منصرف (بوجہ عجمیت اور علمیت) ہونے کی وجہ سے اس کی علامت جر آخری ’’ن‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے۔ یہ سارا مرکب جارّی (من آل فرعون) متعلق فعل ’’نجینا‘‘ہے۔ اس طرح یہاں تک ایک جملہ فعلیہ مکمل ہوتا ہے۔ یعنی اس کے بعد آگے کوئی عبارت (مزید وضاحت کے لیے) نہ بھی آئے تو بھی یہ جملہ ایک مکمل مفہوم رکھتا ہے۔

 (۲)  يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ

 [یسومونکم] میں ’’یسومون‘‘فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے اور ’’کُم‘‘ ضمیر منصوب متصل اس کا مفعول بہ ہے۔ یہاں (یسومونکم) سے شروع ہونے والا جملہ فعلیہ (جس کے باقی اجزاء آگے آرہے ہیں) ’’آل فرعون‘‘ کا حال ہے یعنی (تم کو نجات دی آل فرعون سے) اس حالت میں/ اور حالت یہ تھی کہ ’’وہ تم کو چکھاتے (دیتے) تھے‘‘۔ گویا یہاں ’’یسومونکم‘‘ دراصل ’’سائمِین لکم‘‘ یا ’’وھم سائمون لکم‘‘کے معنی میں ہے۔ یعنی حال ہو کر محل نصب میں ہے۔

[سُوئَ العذاب] مضاف (سوء) اور مضاف الیہ (العذاب) مل کر فعل (یسومون) کا مفعول بہ ثانی ہے (مفعولِ اوّل  ’’کُمْ‘‘تھا) کیونکہ بعض دفعہ فعل  سام یسوم دو معنوں کے ساتھ بھی آتا ہے۔ اس لیے ’’سوء‘‘ منصوب آیا ہے۔ علامتِ نصب ’’ ء‘‘ کی فتحہ ’’ ــــــَــــ ‘‘ ہے کیونکہ یہ اضافت کی وجہ سے خفیف بھی ہے۔ اس عبارت کا ترجمہ وغیرہ ]۱:۳۲:۲(۳)اور(۴)[ میں گزر چکا ہے۔  [یذبِّحون] فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس میں ضمیرِ فاعلین ’’ھم‘‘مستتر ہے۔  [ابنائَ کم] مضاف (ابناء) اور مضاف الیہ (کُمْ) مل کر فعل ’’یذبِّحون‘‘کا مفعول بہ ہے۔ اسی لیے ’’ابناءَ‘‘منصوب ہے۔ علامتِ نصب ’’ء‘‘ کی فتحہ(ــــــَــــ) ہے کیونکہ بوجہ اضافت یہ خفیف بھی ہے [وَیستحیُونَ] میں ’’وَ‘‘ عاطفہ ہے جس کے ذریعے مابعد آنے والے جملے (یستحیون نساء کم)کو سابقہ جملے (یذبحون ابناءکم) پر عطف کیا گیا ہے۔ [نِسائَ کم] بھی مضاف (نساء) اور مضاف الیہ (کم) مل کر فعل ’’یستحیون‘‘ کا مفعول ہے اس لیے ’’نسائَ‘‘ منصوب ہے۔ علامتِ نصب’’ء‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے۔

·       یہاں یہ آخری دو فعلیہ جملے (یذبحون ابناءکم  ۔اور۔ یستحیون نساءکم) بذریعہ واو عاطفہ ایک طرح سے ایک ہی جملہ بنتے ہیں اور یہ اپنے سے پہلے (حال بننے والے) جملے ’’یسومونکم سوئَ العذاب‘‘ کا بدل ہے( اس لیے ان کے درمیان کوئی عطف نہیں ہے) گویا یہ جملے (یذبحون … نساءکم) اسی ’’یسومونکم…‘‘ کا بیان اور اس کی وضاحت ہے کہ وہ ’’سوء العذاب‘‘کیا تھا؟ اس صورت میں اس کا نحوی مربوط ترجمہ یوں ہوگا: ’’(نجات دی تم کو آل فرعون سے) اور حالت یہ تھی کہ وہ (تم کو سخت عذاب دیتے تھے) یعنی (تمہارے بیٹے ذبح کرتے اور بیٹیاں زندہ چھوڑ دیتے تھے) اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ آخری دو جملے (یذبحون… نساءکم)فعل ’’یسومون‘‘کی ضمیر فاعلین (ھم) کا حال ہیں۔ ‘‘یسومون…‘‘ خود ’’آل فرعون‘‘ کا حال تھا۔ اس طرح اس پوری عبارت (یسومونکم سے نساء کم تک) کا ترجمہ یوں ہوگا: کہ (نجات دی تم کو آل فرعون سے اس حالت میں کہ وہ تم کو سخت عذاب دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرکے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑ کر‘‘ (یعنی ذبح کرتے ہوئے اور زندہ چھوڑتے ہوئے)

·       چونکہ اُردو محاورے میں ’’حال‘‘کے ساتھ ترجمہ مشکل ہے اس لیے بعض مترجمین نے ’’یسومونکم‘‘ کے ترجمہ سے پہلے ’’جو‘‘ جو کہ‘‘ لگایا ہے۔ حالانکہ یہاں کوئی اسم موصول نہیں ہے اور نہ ہی ’’آل فرعون‘‘نکرہ موصوفہ ہے۔ بس یہ اُردو محاورے کی مجبوری ہے۔ بعض حضرات نے  ’’یسومونکم…‘‘ کا سیدھا ترجمہ ہی کردیا ہے۔ حال کا تاثر دیا ہے نہ صفت کا نہ بدل کا۔ ان تمام جملوں کے الگ الگ تراجم (لغوی بحث کے ساتھ) حصہ اللغہ میں بیان ہوچکے ہیں۔]۱:۳۲:۲(۳)[سے]۱:۳۲:۲(۸)[تک میں دیکھئے۔

 (۳) وَفِىْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ

[وَ] مستانفہ ہے۔ کیونکہ یہاں سے ایک الگ مستقل جملہ شروع ہوتا ہے۔

[فی ذلکم] حرف الجر (فی) اور مجرور (ذلکم) مل کر خبر مقدم کا کام دے رہے ہیں۔ (ذلکم ۔’’ذلک‘‘۔ ہی ہے جس پر کاف خطاب لگ گیا ہے۔ اس پر ابھی اوپر حصہ اللغہ  میں بات ہوئی تھی) [بلائٌ] مبتداء مؤخر نکرہ ہے (جار مجرور یا ظرف خبر کا کام دیں تو وہ مقدم اور ان کا مبتدا نکرہ ہو کر مؤخر آتا ہے۔ مبتداء کے نکرہ ہونے کے کچھ اور مواقع بھی ہیں جن پر حسبِ موقع بات ہوگی)۔ [من ربکم] میں ’’مِن‘‘ حرف الجر ہے آگے ’’رب‘‘مجرور بالجر اور آگے مضاف بھی ہے اس لیے خفیف بھی ہے علامتِ جر ’’ب‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ)ہے۔ اس کے بعد ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘مضاف الیہ ہے۔ اس طرح یہ پورا مرکب جارّی (من ربکم) نکرئہ موصوفہ (بَلائٌ) کی پہلی صفت ہے جس میں ’’مِنْ‘‘بیانیہ ہے۔ [عظیمٌ] یہ ’’بلائٌ‘‘ کی دوسری صفت ہے۔ اور یہ مرکب توصیفی (بلائٌ عظیم) مبتدا مؤخر نکرہ ہے۔ سلیس نثر اس عبارت کی یوں ہوگی ’’وفی ذلکم بلائٌ عظیم من ربکم‘‘ یوں نثر میں ’’من ربکم‘‘ بلحاظ ترتیب (بلاءٌ کی) دوسری صفت بن جاتا ہے اصل قرآنی ترتیب میں یہ پہلے تھا اس لیے اسے صفتِ اوّل کہا تھا

·       اس جملہ اسمیہ (وفی ذلکم…عظیم) میں ’’ذلکم‘‘کا مشارٌ الیہ ’’یسومونکم سوء العذاب…نسائکم‘‘(مندرجہ بالانمبر۲) کے مضمون کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اور ’’واذ نجینا کم من آل فرعون‘‘ (آیت کا ابتدائی فقرہ اور ’’الاعراب‘‘ میں جملہ نمبر۱) کو بھی ــــــ پہلی صورت میں ’’بلاء‘‘ کا ترجمہ’’ آزمائش  اور امتحان‘‘  ہی ہوسکتا ہے۔ مگر دوسری صورت  میں اس کا ترجمہ ’’انعام‘‘ ہوسکتا ہے (جو بلائٌ حسنٌ کے معنی میں سے ایک ہے)ــــ ترکیب نحوی کی بنا پر عبارت زیرِ مطالعہ کے تراجم میں فرق پر ابھی اُوپر حصہ ’’اللغہ‘‘ میں مفصل بات ہوچکی ہے دیکھئے]۱:۳۲:۲(۹)[

(۴) وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَيْنٰكُمْ

[وَاِذ] عطف اور ظرف ہے (دیکھئے اوپر جملہ نمبر۱) [فَرَقْنَا] فعل ماضی صیغئہ متکلم مع ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ہے [بکُم] جارّ (ب) مجرور (کم) مل کر متعلق فعل (فرقنا)ہے۔ اور یہاں ’’بِ‘‘ بمعنئ  ’’ل‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔ اور سببیہ بھی (ترجمہ کا فرق حصہ اللغہ یعنی ۱:۳۲:۲(۱۰)میں دیکھئے)[البحرَ] مفعول بہ (فرقنا کا) ہے اس لیے منصوب ہے علامتِ نصب آخری ’’ر‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے۔ اس عبارت کی سلیس نثر یوں ہوگی:’’واذ فرقنا البحرَ بِکُمْ‘‘ قرآن میں الفاظ کی اس قسم کی تقدیم و تاخیر اس میں ایک ادبی حسن اور ایک گونہ شاعری کا انداز پیدا کرتی ہے۔ [فاَنْجَیْنَاکم] کی ’’ف‘‘ عاطفہ اور ’’انجَیْنا‘‘ فعل ماضی صیغہ متکلم مع ضمیر تعظیم ’’نَحْنُ‘‘ہے۔ اور آخری ’’کُمْ‘‘اس (فعل) کا مفعول بہ (ضمیر منصوب متصل)ہے۔ یہاں فعل ’’انجینا‘‘ کو ’’ف‘‘ کے ذریعے پہلے فعل (فرقنا) پر عطف کیا گیا ہے۔ اور یہ ترتیب کو ظاہر کرتا ہے یعنی ’’سمندر پھاڑنے‘‘کے عمل کے بعد نجات دی۔

(۵)  وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ

[وَ] یہاں بھی عاطفہ ہے جس سے مابعد آنے والے فعل  (اغرقنا)کو سابقہ فعل (فرقنا) پر عطف کیا (ملادیا) گیا ہے [آل فرعون] میں مضاف (آل) اور مضاف الیہ (فرعون)مل کر ’’اغرقنا‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے علامت نصب ’’آل‘‘ (مضاف) کی ’’ل‘‘ کی فتحہ(ـــــَــــ) ہے جو بوجہ اضافت خفیف بھی ہے۔ اور کلمہ ’’فرعون‘‘ یہاں مجرور بالاضافہ ہے غیر منصرف ہونے کے باعث اس کی علامت جر آخری ‘‘ن‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے۔[وَ] حالیہ ہے بمعنی ’’درآنحالیکہ‘‘ یا ’’حالت یہ تھی کہ‘‘[انتم] ضمیر مرفوع منفصل یہاں مبتداء ہے (اسی لیے مرفوع ضمیر لائی گئی ہے) [تَنْظُرُوْنَ] فعل مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ اور یہ پورا جملہ فعلیہ ہوکر ’’انتم‘‘ (مبتداء)کی خبر ہے۔ اس لیے اس جملہ کو محلاً مرفوع بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ پورا جملہ اسمیہ (وانتم تنظرون) اپنے سے سابقہ جملے (واغرقنا آل فرعون) کے فاعل (نَحنُ) یا مفعول (اَلَ فرعون) کا حال ہے یعنی ’’ہم نے ڈبو دیا  آل فرعون کو اس حالت میں کہ تم دیکھ رہے تھے) اسی لیے اس جملہ حالیہ (وانتم تنظرون) کا بامحاورہ ترجمہ ’’تمہارے دیکھتے (دیکھتے)‘‘ اور ’’تمہاری آنکھوں کے سامنے ‘‘ بھی کیا گیا ہے ’’تفصیل کے لیے دیکھئے حصہ اللغہ]۱:۳۲:۲(۱۴)[

۳:۳۲:۲      الرسم

زیرِ مطالعہ قطعہ میں (جو دو آیات پر مشتمل ہے) شامل تمام کلمات (جو پچیس کے قریب ہیں) کا رسم املائی اور رسم قرآنی (عثمانی) یکساں ہے۔ صرف دو کلمات (نجیناکم اور فانجینکم) کا رسم عثمانی عام رسم املائی سے مختلف ہے اور اس کے ساتھ ہی دو کلمات(العذاب اور ذلکم) کے رسم کے بارے میں بھی ایک وضاحت ضروری ہے۔ تفصیل یوں ہے:

’’نَجَّیْنٰکُم‘‘اور ’’فَاَنْجَیْنٰکُمْ‘‘جن کا رسم معتاد علی الترتیب ’’نَجَّیْنا کم‘‘ اور فاَنجَیْنا کم‘‘ہے۔ رسم عثمانی میں یہ بالاتفاق ضمیر مفعول ’’کم‘‘ سے پہلے والے ’’نَا‘‘کے الف کے حذف کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ یعنی بصورت ’’نجینکم‘‘ اور ’’فانجینکم‘‘ (بلکہ اسی سے علمائے رسم نے یہ قاعدہ نکالا ہے کہ فعل ماضی کے صیغہ جمع متکلم کی ضمیر مرفوع متصل (ضمیر تعظیم ہو یا کسی اور فاعلین کے لیے)کے بعد جب کوئی ضمیر منصوب متصل مفعول بہ ہو کر آئے تو ضمیر کا ’’الف‘‘  ’’نا‘‘ والا) لکھنے میں حذف کردیا جاتا ہے ہاں اگر اس ضمیر (مرفوع متصل) کے بعد مفعول کوئی اسم ظاہر آرہا ہو تو فعل ماضی کا یہ صیغہ باثبات الف (رسم املائی کی طرح) لکھا جاتا ہے۔[4]  اس کی دو مثالیں اسی زیر مطالعہ قطعہ میں موجود ہیں یعنی ’’فَرَقْنَا‘‘اور ’’اَغْرَقْنَا‘‘  میں۔

·       ذلکم‘‘ (ذلِک کی طرح) رسم عثمانی اور رسم املائی (دونوں) میں بحذف الف بعد الذال لکھا جاتا ہے بلکہ یہ حذف رسم معتاد پر رسم قرآنی کے اثرات کا ایک مظہر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے البقرہ:۲]۳:۱:۲(۱)[

·       ’’العذاب‘‘ بالاتفاق ان کلمات میں سے ہے جو قرآن میں ہر جگہ باثبات الف لکھا جاتے ہیں۔ دیکھئے البقرہ:۷ ]۳:۶:۲[کے آخر پر

 

۴:۳۲:۲      الضبط

اس قطعہ کے کلمات میں ضبط کے اختلافات کو کسی حد تک درج ذیل نمونوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔

 


 



[1] دیکھیے البیان لابن الانباری ج۱ ص۸۱، القاموس تحت مادہ ’’ا ھ ل‘‘ و ’’اول‘‘ مفردات راغب تحت کلمہ ’’آل‘‘ نیز اعراب القرآن للنحاس ج۱ ص۲۲۳۔

 

[2] غرائب اللغہ العربیۃ (رفائیل نخلہ) ص ۱۹۸

 

 [3] مثلاً الدخان :۳۳ اس کی واضح مثال ہے۔

 

[4] دیکھئے المقنع (للدانی) ص۱۷، شرح العقیلہ (للشاطبی) ص ۴۸۔