سورۃ البقرہ آیت نمبر ۵

۴:۲      اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِھِمْ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن(۵)

۴:۲        اللغۃ

        [اُولٰۗىِٕكَ] اسم اشارہ بعید برائے جمع مذکر و مؤنث (بمعنی ’’وہ سب‘‘) اس کی اصل ’’اُولَائِ‘‘ ہے۔ پھر اشارہ قریب کے لئے اس سے پہلے ’’ھا‘‘ لگا کر ’’ھٰؤلَائِ‘‘ بنالیتے ہیں جو بمعنی ’’یہ سب‘‘ مذکر مونث کے لئے مشترک ہے۔ اور بعید کے لئے آخر پر ’’کَ‘‘ لگاتے ہیں (جسے نحوی ’’ کافِ خطاب‘‘کہتے ہیں۔) ڈکشنری میں یہ(اولئک) آپ کو ’’ا ل ی‘‘مادہ میں ملے گا اور بعض اسے مادہ ’’اول‘‘کے تحت بیان کرتے ہیں۔ اس کا ان مادوں سے بننے والے افعال سے کوئی تعلق نہیں صرف اس کے حروف کی ابجدی ترتیب کے لئے اسے ان مادوں کے تحت بیان کیا جاتا ہےـــ  اسمائے اشارہ پر ایک اجمالی سی بحث اس سے پہلے البقرہ :۲(۱:۱:۲: (۱) کے تحت بھی گزر چکی ہے۔

       [علی] حرف الجر ہے۔ اس کے معنی اور استعمالات پر ۱:۶:۱(۳)میں بات ہوچکی ہے ۔یہاں اس کا ترجمہ ’’پر‘‘ ہوگا۔

۱:۴:۲(۲)     [ھُدًى]کی لغوی بحث اسی سورت کے شروع میں (ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ) میں (۱:۱:۲ (۴))  اور سورۃ الفاتحہ میں (اھدنا) کے ضمن میں (۱:۵:۱(۱))گزر چکی ہے۔ ھدًی کی دوسری شکل ’’ھدایۃً‘‘ باملاء ’’ہدایت‘‘ بمعنی ’’راہ دکھانا‘‘ اردو میں مستعمل ہے۔ اس لئے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ہدایت ‘‘ ہی کیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’راہ‘‘، ’’ٹھیک راہ‘‘، ’’سیدھا راستہ‘‘، ’’راستہ‘‘ بھی کیا ہے جو مفہوم اور محاورہ کے لحاظ سے درست ہے۔ تاہم جب ’’ھدی‘‘ ہی کے مادہ اور اشتقاق کا  (اور ہم معنی) لفظ ’’ہدایت‘‘ اردو زبان میں اپنے اصل عربی معنوں کے ساتھ مستعمل ہے تو اسے اختیار کرنا زیادہ موزوں ہے۔

۱:۴:۲(۳)     [مِنْ]حرف الجر ہے اور مواقع استعمال کے لحاظ سے یہ متعدد معنی دیتا ہے مثلاً حسب موقع اس کا ترجمہ (۱) سے (۲)میں سے (۳) کے مقابلے پر (۴)کے بارے میں  (۵)کے عوض (۶)کے پاس سے  (۷)کی طرف سے(۸)کچھ بھی(۹)کوئی بھی (۱۰)کی وجہ سے (۱۱)کا، کے، کی سے کیا جاتا ہے اور کبھی یہ بعض دوسرے حروف جارہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً بِ=کے ساتھ، علی=اوپر، عَن=سے، کی طرف سے، فی=میں اور عندَ (ظرف بمعنی کے ہاں کے پاس) ’’مِن‘‘ کے بارے میں اس سے پہلے بحث استعاذہ  اور سورہ البقرہ کی آیت نمبر۳ کے ضمن میں (۱:۲:۲پر)بھی بات ہوچکی ہے۔ چاہیں تو ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجئے۔ یہاں (آیت زیر مطالعہ) ’’من‘‘ کا ترجمہ ’’کی طر ف سے‘‘ یا ’’کی‘‘ کے ساتھ ہوسکتا ہے۔

۱:۴:۲(۴)     [رَّبِّهِمْ] یہ  ربّ +ھم (ضمیر غائبین بمعنی ’’ان کا‘‘) سے مرکب ہے۔ لفظ ’’ربِّ‘‘کے مادہ، اشتقاق اور معنی پر سورۃ الفاتحہ کے شروع میں بات ہوچکی ہے۔ (۳)۱۱:۲:۱س لفظ (رب) کا ترجمہ بیشتر مترجمین نے ’’پروردگار‘‘ کیا ہے (جو ہمارے نزدیک نہایت موزوں ترجمہ ہے) اگرچہ بعض نے ’’رب‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔ کیونکہ یہ لفظ اردو میں اپنے اصل دونوں معنی (پالنہار اور مالک) میں مستعمل ہے۔ ) اسکی مزید وضاحت پہلے گزر چکی ہے ۔’’ عَلٰي ‘‘،’’ ھُدًى ‘‘،’’ مِّنْ ‘‘ اور ’’ربّ‘‘ کے مذکورہ بالا معانی کوملحوظ رکھتے ہوئے بعض مترجمین نے عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ‘‘ کا ترجمہ ’’اپنے پروردگار/ رب کی طرف سے ہدایت پر (ہیں)‘‘ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے ’’اپنے پروردگارکے راستے پر/کی راہ پر/کے سیدھے راستے پر‘‘ کیا ہے جو لفظ ’’ ھُدًى‘‘ کا تفسیری ترجمہ ہے۔ بعض نے ’’پائی ہے راہ اپنے رب کی‘‘ اور بعض نے ’’ٹھیک راہ پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو تفسیر اور مفہو م کے لحاظ سے درست سہی مگر الفاظِ عبارت (نص) سے بہت ہٹ گیا ہے۔ جن حضرات نے ’’ھدی‘‘ کا ترجمہ ’’راہ‘‘، ’’راستہ‘‘، ’’سیدھا راستہ‘‘ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’ ھُدًى‘‘سے مراد یہی ہے بلکہ قرآن مجید میں ’’ هُدًى مُّسْتَقِيْمٍ‘‘ (الحج:۶۷) بمعنی ’’صراط مستقیم ‘‘ استعمال ہوا ہے۔

[وَاُولٰۗىِٕكَ] واو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘  +اُولٰۗىِٕكَ (وہ سب) کا مرکب ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ پر ابھی بات ہوئی ہے۔

۱:۴:۲ (۵)     [ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ]اس میں ’’ھم‘‘ ضمیر فصل ہے۔ جس کا مناسب اردو ترجمہ ’’وہ وہی‘‘، ’’وہی تو‘‘ ہوسکتا ہے۔ اس لئے بیشتر مترجمین نے اُولٰۗىِٕكَ ھُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’یہ لوگ ہی‘‘، ’’وہی لوگ‘‘، ’’یہی لوگ‘‘ یا ’’انہوں نے ہی‘‘ سے کیا ہے۔

        ’’ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ف ل ح‘‘ اور وزن (لام تعریف کے بغیر) ’’مُفعِلون‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد فَلَحَ … یَفلَحُ فَلْحًا (باب فتح سے) بمعنی … کو کاٹنا، پھاڑنا اور فلِح یَفلَح فَلَحاً (باب سمع سے) بمعنی ’’کٹنا، پھٹنا‘‘(خصوصاً ہونٹ کا) آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس سے فعل ثلاثی مجرد یا اس کا کوئی مشتق استعمال نہیں ہوا۔

        قرآن کریم میں اس مادہ سے صرف باب افعال کے فعل (ماضی اور مضارع) کے ستائیس صیغے (۲۷ جگہ) اور مشتق (صرف اسم الفاعل) تیرہ (۱۳) جگہ آئے ہیں۔ باب افعال (اَفلح یُفلِح اِفلاحاً) سے یہ فعل ہمیشہ لازم آتا ہے اور اس کے معنی ’’کامیاب ہونا، مراد پالینا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور ان معنوں کے لئے اس کا مصدر قیاسی ’’افلاح‘‘ استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کی بجائے ’’فلاح‘‘ (کامیابی)بطور اسم و مصدر استعمال ہوتا ہے ـــ یہ بھی خیال رہے کہ اس فعل (اَفلح) کا مطلب صرف ’’نجات پانا‘‘، یا محض ’’چھٹکارا حاصل کرنا‘‘ نہیں ہے۔ بلکہ اس کے معنی ہیں: ’’پوری پوری کامیابی حاصل کرنا اپنی مراد پالینا‘‘ـــ اور ان ہی معنوں کے لحاظ سے اس کا اردو ترجمہ ’’فلاح پانا‘‘ بھی کیا جا ہے۔ یعنی ایک طرح سے یہ لفظ اردو میں اپنے اصل عربی مفہوم کے ساتھ متعارف بلکہ متداول اور رائج ہے۔

        قرآن کریم میں یہ لفظ عموماً ’’آخرت کی فلاح‘‘ کے لئے استعمال ہوتاہے۔ اگرچہ ایک دو جگہ ’’دنیوی‘‘ فلاح کے لئے بھی آیا ہے جس کا بیان اپنی جگہ آئے گا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آخرت میں ’’فلاح‘‘(بامراد ہونے) کا یہ قرآنی تصور دوسرے مذاہب کے سعادتِ اُخروی کے تصورات مثلاً ’’نجات‘‘، ’’رستگاری‘‘، ’’مکتی‘‘، ’’نروان‘‘ یا Salvationوغیرہ کے تصور سے کہیں زیادہ بلند اور وسیع ہے۔

        ’’الْمُفْلِحُوْنَ‘‘مادہ ’’فلح‘‘سے بابِ افعال کا صیغہ اسم الفاعل برائے جمع مذکر ہے اور ’’فلاح‘‘ اور ’’اَفْلَحَ‘‘ کے مذکورہ بالا معنوں کو سامنے رکھتے ہوئے اردومترجمین نے اس کا ترجمہ ’’مراد کوپہنچنے والے‘‘، ’’پورے کامیاب‘‘، ’’مرادیں پانے والے‘‘ اور ’’پورے بامراد‘‘کیا ہے۔ بعض نے ’’چھٹکارا پانے والے‘‘ اور ’’نجات پانے والے‘‘ بھی کیا ہے۔ جو اصل لفظ ’’فلاح‘‘ کا جزوی مفہوم ہے۔ اسی طرح بعض نے اس (المفلحون) کا ترجمہ ’’مراد کو پہنچے‘‘ اور ’’مرادیں پائیں گے‘‘ سے کیا ہے جو محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے تاہم یہ ’’مُفلِحُون‘‘ سے زیادہ ’’یُفْلِحُوْن‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے۔ یعنی بلاوجہ ’’لفظ‘‘ سے دور جانے والی بات ضرور ہے۔

 

۲:۴:۲      الاعراب

      اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِھِمْ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن۔

        زیر مطالعہ آیہ کریمہ دو اسمیہ جملوں پر مشتمل ہے جو واو عاطفہ سے ملائے گئے ہیں۔ پہلا جملہ اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِھِمْ ‘‘ اور دوسرا اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن‘‘ہے۔ پہلے جملہ میں [اُولٰٓئِکَ] مبتدأ ہے اور[علی ھدًی]جار مجرور مل کر قائم مقام خبر ہے یا یوں کہیے کہ اصل خبر (مثلاً ثابتون =قائم ہیں) محذوف ہے گویا دراصل ’’ اُولٰٓئِکَ ثابتون علي ھدى‘‘ہے۔ اس طرح ’’ علی ھدیً‘‘ جار مجرور اس خبر محذوف ’’ثابتون‘‘ سے متعلق ہے۔ یعنی ’’قائم ہیں ہدایت پر‘‘ [مِّنْ رَّبِھِمْ] میں ’’من‘‘ حرف الجر ہے اور ’’ربھم‘‘ مضاف (رب)+مضاف الیہ (ھم) مل کر مجرور ہے۔ جر کی علامت یا اس کا اثر ’’ربِّ‘‘ کی بِّ یعنی باء کی کسرہ (ــــــِــــ) میں ظاہر ہے۔ یہ پورا مرکب جاری (مِّنْ رَّبِھِمْ) ’’ ھُدًى‘‘ کی (جو نکرہ موصوفہ ہے) کی صفت یعنی اس کا بیان ہے۔ ’’یعنی اس ہدایت پر/یا اس سیدھی راہ پر جو ان کے رب کی طرف سے ہے ‘‘ اور اگر ’’ھدًی‘‘ کی تنکیر (نکرہ ہونا) برائے تعظیم مراد لیں تو ترجمہ ’’ایک بڑی ہدایت پر‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں ’’مِن‘‘ بیانیہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے ’’ ھدى‘‘ کی وضاحت کی گئی ہے۔ گویا یہ اس سوال کا جواب ہے کہ وہ کونسی یا کیسی یا کس قسم کی ہدایت پر ہیں؟ اور پھر بیانیہ ہوتے ہوئے بھی یہاں ’’مِنْ‘‘کے دو معنی ہوسکتے ہیں (۱)کسی غایت کی ابتدا (ابتداء الغایۃ)کے معنی لیں تو اردو میں ’’کی طرف سے، کی جانب سے‘‘ کے ساتھ ترجمہ ہوگا اور (۲)اگر ’’اضافت‘‘ (نکرہ) کے معنوں میں لیں تو اردو ترجمہ ’’کی یا کا‘‘سے ہوگا (خاتم من الفضّۃکی طرح) اور یہ اضافت صرف ’’نسبت‘‘ کے معنوں میں ہے ’’جزویت‘‘ کے معنوں میں نہیں یعنی ’’مِن‘‘  تبعیضیہ(برائے جزویت) نہیں ہےـــ (۳)اور اگر اس ’’مِنْ‘‘کو تبعیضیہ سمجھ لیں تو بھی ’’ربھم‘‘سے پہلے ایک محذوف ماننا پڑے گایعنی ’’ مِّنْ (دینِ) رَّبِّهِمْ ‘‘ کیونکہ ھدى ‘‘ رب کا جزء (کچھ حصہ) تو نہیں ہے۔ تاہم یہ (جزویت والی) بحث صرف بعض نحویوں نے کی ہے۔ کسی اردو مترجم نے اس کو ملحوظ نہیں رکھا اور غالباً اس کی ضرورت بھی نہیں ہے ـــ اوپر( ۱:۴:۲ (۴) میں )جو ترجمے دیئے گئے ہیں ان کو دیکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس مترجم نے الفاظ کے ترجمہ اور معنی کے علاوہ ترکیب ِنحوی میں کسی چیز کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا ہے؟ [وَاُولٰۗىِٕكَ]میں واو عاطفہ (جو یہاں دو جملوں کو ایک دوسرے پر عطف کرتی (ملاتی) ہے) اور ’’اُولئِکَ‘‘ مبتدأ ہے۔ لہٰذا اسے مرفوع سمجھا جائے گا (مبنی ہونے کے باعث اس میں کوئی علامت ِ اعراب نہیں ہے) ]ھُم[ضمیر فصل ہے جو عموماً معرف باللام خبر پر آتی ہے جس کا اردو ترجمہ ’’ہی‘‘ سے ہوسکتا ہے یعنی اُولٰۗىِٕكَ ھُم ‘‘ وہ ہی لوگ یا وہی لوگ‘‘ ـــ اور ’’ھم‘‘ مبتدأ اور[الْمُفْلِحُوْنَ]خبر معرفہ (معرف باللام) ہوکر یہ پورا جملہ اسمیہ (ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) ’’اُولٰۗىِٕك‘‘ کی خبر بھی ہوسکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں خبرکے معرفہ ہونے کی بنا پر ترجمہ میں ’’تو‘‘ کا اضا فہ ہوسکتا ہے یعنی ’’وہی لوگ تو‘‘ …اس طرح یہ دونوں جملے (آیت نمبر۵۔ زیر مطالعہ) ’’الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ … يُوْقِنُوْنَ‘‘ تک (آیت نمبر۳،۴) کی خبر ہیں یعنی ایک جملہ خبر اول اور دوسرا جملہ خبر ثانی ہے۔ چونکہ ’’الذین‘‘ کے بعد (صلہ کی) بات لمبی ہوگئی لہٰذا اس کے لئے خبر کے طور پر مستقل جملہ اسمیہ لایا گیا ہے۔ گویا ہر ایک ’’اولئک میں آیت نمبر۳،۴‘‘ میں مذکورہ صفات والے لوگوں کی طرف اشارہ ہے۔

 

۳:۴:۲      الرسم

      اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِھِمْ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن۔

۳:۴:۲(۱) (اُولٰٓئِکَ)کی کتابت رسم عثمانی اور عام رسمِ قیاسی میں یکساں ہے۔ بلکہ یہ ان کلمات میں سے ہے جن کی املاء عربی املاء پر رسم عثمانی کے اثرات کا ایک مظہر ہے اگر نطق اور تلفظ کے مطابق لکھا جائے تو اس کی املاء ’’اُ لَائِکَ‘‘ ہونی چاہئے۔ مگر اس میں ابتدائی ہمزہ (جو بصورت الف لکھا جاتا ہے) کے بعد ایک ’’واؤ‘‘ لکھی جاتی ہے جو پڑھی نہیں جاتی۔ علماء رسم نے اس کی دو توجیھات بیان کی ہیں(۱)ایک تو یہ کہ اسے ’’الیک‘‘سے متمیز کرنے کے لئے زائد ’’و‘‘ لکھی گئی (جیسے’’عُمَر‘‘ اور ’’عَمْر ‘‘ فرق کرنے کے لئے مؤخر الذکر کے آخرپر ’’و‘‘ لکھ دیتے ہیں ’’عمر اور عمرو‘‘ کیونکہ شروع میں جب قرآن مجید کی (بلکہ عام عربی کی بھی) کتابت نقاط و حرکات کے بغیر ہوتی تھی تو ان دولفظوں ’’ اُولٰٓئِکَ اور اِلَيْكَ ‘‘ میں تمیز کی علامت یہی ’’و‘‘ ہوتی تھی۔ (۲)دوسری وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ ابتدائی دور (ظہور اسلام سے کچھ پہلے اور کچھ عرصہ بعد) میں عربی املاء میں ضمہ (ـــــُـــــ) کے لئے حرفِ مضموم کے بعد ’’و‘‘  فتحہ (ــــــَــــ) کے لئے حرفِ مفتوح کے بعد ’’ا‘‘ اور کسرہ (ــــــِــــ) کے لئے حرف مکسور کے بعد ’’ی‘‘ لکھنے کا رواج تھا۔   تاہم اس کے استعمال میں پختگی اور باضابطہ یکسانیت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ بعض کلمات تو اس قاعدہ کے تحت لکھ لئے جاتے تھے۔ ورنہ اکثر اس قاعدہ کا اطلاق مفقود ہوتا تھا۔ اس حرکات بذریعہ حروف علّت (ا،و،ی)ظاہر کرنے کی متعدد یادگاریں قرآنی کلمات کے رسمِ عثمانی میں موجود ہیں۔[1]   ان میں سے ایک یہ ’’اولئک‘‘ ہے۔ اس قسم کے مزید کلمات سے ہم اپنے اپنے موقع پر دو چار ہونگے۔

        اُولٰٓئِکَ‘‘ کے رسم (طریقِ املاء) کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ’’ل‘‘کے بعد ’’الف‘‘ محذوف ہے یعنی لکھا نہیں جاتا مگر پڑھا ’’لا‘‘ ضرور جاتا ہے۔ تیسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’’ل‘‘ اور ’’ک‘‘کے درمیان ہمزہ کے لئے ایک نبرہ (دندانہ) لکھاجاتا ہے۔ یہ ’’دندانہ‘‘ دراصل’’ی‘‘ کا ’’دندانہ‘‘ ہے۔ کیونکہ ہمزہ متوسطہ مکسورہ جب الف ممدودہ کے بعد آئے تو وہ ’’ی‘‘ پر لکھا جاتا ہے۔ تاہم یہاں (عموماً) اس دندانہ کے نیچے ’’ی‘‘ کے دو نقطے نہیں ڈالے جاتے البتہ ’’ضبط‘‘ میں ’’ء‘‘ کو اس دندانہ کے نیچے لکھتے ہیں تاکہ ’’یاء(ی)‘‘سے التباس ہی نہ ہو مثلاً ’’ اولئک‘‘۔

        ]عَلٰي[کا رسم (املاء) نطق کے مطابق ہوتا تو اسے ’’علا‘‘ لکھتے مگر اسے ’’الف‘‘ کی بجائے ’’ی‘‘سے لکھتے ہیں (مگر یہ پڑھا الف ہی جاتا ہے اور اسے ’’الف مقصورہ ‘‘کہتے ہیں)۔ جب یہ مجرور (بالجر) ضمیروں سے پہلے آتا ہے تو اسے ’’ی‘‘ ہی پڑھتے ہیں۔ جیسے ابھی آپ نے’’ عَلَيْهِمْ ‘‘(سورۃ الفاتحہ) میں دیکھا تھا۔ یہی صورت ’’الی‘‘ کی ہے۔ ’’علی‘‘ کا عام عربی املاء میں اس طرح (علی) لکھا جانا بھی عام عربی املاء پر رسمِ عثمانی کے اثرات کا ایک مظہر ہے۔

        ]ھُدًى[کی املاء (رسم الخط) کے بارے میں اسی سورت کے آغاز میں’’ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ‘‘کے ضمن میں بات ہوچکی ہے۔

        [مِّنْ رَّبِّهِمْ]کی املاء بھی رسمِ معتاد کے مطابق ہی ہے اس میں ’’من‘‘ کو الگ مگر ’’ رَّبِّهِمْ‘‘ کو ملا کر لکھا جاتا ہے۔

        [اُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ]میں سے ’’اولئک‘‘کے رسم پر ابھی بات ہو چکی ہے۔ ’’ ھُمُ ‘‘اور’’الْمُفْلِحُوْنَ‘‘دو الگ الگ کلمات کی شکل میں لکھے جاتے ہیں یعنی ان کا بھی رسمِ عثمانی اور رسم معتادیکساں ہی ہے۔

 

۴:۴:۲     الضبط

      اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِھِمْ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن۔

        آیت زیر مطالعہ کے کلمات کے ضبط میں حسب ذیل اختلافات قابلِ ذکر ہیں:

(۱)     ہمزۃ الوصل کی علامت ڈالنا یا نہ ڈالنا اور ڈالنے کی صورت میں اس کی شکل #) (کا اختلاف ، یہ بیان ہوچکا ہے کہ یہ علامت صرف عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں مستعمل ہے۔ اس اختلاف کا مظہر کلمہ ’’ الْمُفْلِحُوْن‘‘ کا  ضبط ہوگا۔

(۲)    ہمزۃ القطع کی علامت قطع مختلف شکلوں) #)میں ڈالنے کا رواج ہرجگہ ہے تاہم ابتدائے کلمہ میں جب ہمزۃ القطع بصورت الف (ا) لکھا جاتا ہے تو اس پر علامتِ قطع ڈالنے کا رواج مشرقی ملکوں (ترکی، ایران، برصغیر، چین وغیرہ) میں صدیوں سے متروک ہوچکا ہے۔ البتہ عرب اور افریقی ملکوں میں اس کا رواج موجود ہے۔ اس اختلاف کا اثر کلمہ ’’اولئک ‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۳)    واو ساکنہ ماقبل مضموم پر علامت ِ سکون صرف برصغیر میں ڈالی جاتی ہے اس کا نمونہ کلمہ ’’المفلحون‘‘ کا ضبط ہوگا۔

(۴)    صرف افریقی ممالک میں نون متطرفہ (آخر پر آنے والا نون) کو اعجام یعنی نقطے سے خالی رکھا جاتا ہے نیز (#) اس اختلاف کا اثر بھی کلمہ ’’ المفلحون‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۵)    تنوین اخفا و اظہار کی شکل میں فرق صرف عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں کیا جاتا ہے۔ یعنی تنوین اظہار کے لئے متراکب حرکات (ــــًـــــ، ـــــٍـــــ ، ـــــٌـــــ)ڈ الی جاتی ہیں۔ جب کہ تنوین اخفاء کے لئے متتابع حرکات (ــــًـــــ، ـــــٍـــــ ، ـــــــُــــُـــــ)لکھی جاتی ہیں۔ پاکستان میں صرف ’’تجویدی قرآن‘‘ کی کتابت اور ضبط میں تنوین کے اس فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ایران ترکی برصغیر اور چین میں صرف تنوین متراکب ہی استعمال ہوتی ہے۔ اخفاء اور اظہار کا استعمال استاد کی شفوی (زبانی) تعلیم پر منحصر ہے۔ البتہ چین میں تنوین اظہار کے نیچے یا ساتھ ایک چھوٹا سا ’’ن‘‘ لکھ دیتے ہیں۔اور تنوین اخفا ء کے لئے تنوین کے اوپر تین باریک نقطے # لکھ دیتے ہیں۔     تنوین کی صورت کے اس فرق کا اثر کلمہ ’’ ھُدًى ‘‘ کے ضبط میں سامنے آئے گا۔

(۶)    نون ساکنہ مخفاۃ (ایسا ساکن نون جس کے بعد کوئی حرف اخفاء آرہا ہو) کو علامت ِ سکون سے خالی رکھنے کا رواج بھی صرف عرب اور افریقی ملکوں میں ہے۔ مشرقی ممالک میں یہ علامت ِ سکون ڈالی جاتی ہے۔ نون ساکنہ مخفاۃکے بعد اگر’’یرملون‘‘میں سے کوئی حرف آرہا ہو تو وہ نون اس میں مدغم  ہوجاتا ہے۔ اور اس کے لئے اس حرف (مدغم  فیہ) پر علامت تشدید ڈالنے کا رواج ہر جگہ ہے ماسوائے ایران اور ترکی کے ضبط کے اس طریق کافرق ’’من ربھم‘‘ سکے ضبط میں نمایا ں ہوگا۔

(۷)    الف محذوفہ کو بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے لئے مشرقی ممالک صرف علامت ِ اشباع ’’کھڑی زبر‘‘(ــــــٰــــ) استعمال ہوتی ہے جب کہ عرب اور افریقی ممالک میں اس مقصد کے لئے ’’فتحہ مع الف صغیرہ‘‘ یعنی فتحہ کے ساتھ کھڑی زبر(ــــــَــــــــٰــــــ)ڈالتے ہیں۔ اس اختلاف کا اثر’’ اولىك‘‘ اور ’’ علٰي ‘‘ کے ضبط پر پڑے گا۔

(۸)    حروف زوائد (جو حرف لکھے جاتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے) پر ’’علامت زیادۃ‘‘(یا علامت تنسیخ) بصورت ’’دائرہ صغیرہ‘‘  0ڈالنے کا طریقہ عرب اور افریقی ممالک میں بڑی وسعت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے حتی کہ وہاں واو الجمع کے بعد آنے والے ’’الف‘‘ (ا) پر بھی یہ علامت ڈالتے ہیں۔ یوں وہاں ’’علامت ِ زیادۃ‘‘ سینکڑوں جگہ استعمال ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مشرقی ممالک میں یہ طریقہ اختیار کیاگیا ہے کہ جو حرف (زائد) پڑھا نہیں جاتا اسے ہر قسم کی علامت ِ ضبط سے خالی رکھاجاتا ہے۔ اس طرح کوئی بیس کے قریب ایسے مقامات رہ جاتے ہیں جن میں حرف مفتوح کے بعد الف (ا) آتا ہے۔ مگر یہ زائد ہوتا ہے۔ یعنی اپنے ماقبل کو مد نہیں دیتا۔ بس ایسے ’’الفات‘‘ پر التباس مد سے بچنے کے لئے علامت زیادۃ ـــبصورت دائرہ صغیرہ ـــ ڈال دی جاتی ہے۔ اس علامت زیادۃ کے ڈالنےیا  نہ ڈالنے کا فرق کلمہ ’’ اولىك ‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۹)     آیت زیر مطالعہ کے ضبط کے سلسلے میں کلمہ ’’ اولىك ‘‘ کے طریق ضبط کا اختلاف خصوصاً دلچسپ ہے۔ اس لئے اس پر ذرا تفصیل سے بات کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ـــ اس کلمہ کے ’’رسم‘‘ کی بھی وضاحت اوپر کی جاچکی ہے۔ ضرورت ہو تو اس پر بھی پھر نظر ڈال لیجئے۔

        ’’اُولٰۗىِٕكَ‘‘ کے ابتدائی ہمزۃ القطع پر ضمہ (ـــــُـــــ) دیا جاتا ہے۔ بعض ممالک (برصغیر، ترکی، ایران، چین) میں علامت ِ قطع کے بغیر (#) اور عرب اور افریقی ملکوں میں علامت ِ قطع کے ساتھ#  کی صورت میں  !

 اس ابتدائی الف کے بعد والی ’’و‘‘ تلفظ میں نہیں آتی اس لئے مشرقی ممالک میں اسے ہر قسم کی علامت ِ ضبط سے خالی رکھاجاتا ہے۔ تاہم چونکہ عرب اور افریقی ملکوں کے علاوہ ایران، ترکی اور چین میں ’’واو مضموم ماقبل مضموم پر علامت سکون نہیں ڈالی جاتی (مثلاً نُور، ھود وغیرہ میں)اس لئے (اور اس قاعدے کو ذہن میں رکھنے والا) وہاں کا قاری اس ’’أُو‘‘ کو پہلی نظر میں لازماً ’’اُوْ‘‘ پڑھ ڈالے گا۔ قاری کو اس غلطی سے بچانے کے لئے عرب اور افریقی ملکوں میں اس ’’و‘‘ پر علامت زیادۃ (یا تنسیخ) ایک باریک دائرہ (0)لکھی جاتی ہےافریقی ملکوں میں علامت ِ سکون(ــــــْـــــ) بھی چھوٹے دائرے کی شکل میں (0)لکھی جاتی ہے اور یہی علامت زیادۃ بھی ہے اس لئے وہ ’’ اُولٰۗىِٕكَ‘‘ کے پہلے حصے کو " أُو  "ہی لکھتے ہیں۔ گویا اُن کے نزدیک ’’اُوْ‘‘ (بروزن ھُوْ) تب پڑھا جائے گا جب وہ ’’أُو‘‘ لکھا ہو یعنی ’’واو‘‘ہر طرح کی علامت ِ ضبط سے خالی ہو اور ’’أُوْ‘‘ کو صرف ’’أُ‘‘ پڑھا جائے گا کیونکہ ’’و‘‘ پر تو علامت زیادۃ ہے یعنی اسے نہیں پڑھنا۔

        اس پیچیدہ اور التباس انگیز طریقے کے مقابلے پر برصغیر کا طریقہ ضبط (کہ نہ پڑھے جانے والے حرف علامت ِ ضبط سے خالی رکھے جائیں) زیادہ آسان، قابلِ فہم اور بلحاظ کتابت بھی وقت بچانے والا ہے۔ واو ماقبل مضموم کو علامت ِ سکون سے خالی رکھنے کی بنا پر’’اولئک‘‘ یَا اُولُو العَزمِ’’یا’’  اُولِی الاَبصَار‘‘ کی قسم کے کلمات کی قراء ت میں جو التباس واقع ہوتا ہے اس سے قاری کو بچانے کے لئے ایرانی مصاحف میں بعض دفعہ نیچے باریک قلم سے ’’بلا اشباع‘‘(کھینچنا نہیں) لکھ دیتے ہیں۔ (# )کی شکل میں ـــ اس کے مقابلے پر ترکی کے بعض مصاحف میں اس قسم کی ’’و‘‘ کے نیچے باریک قلم سے لفظ’’قصر‘‘ـــ یعنی ’’قصر‘‘ لکھ دیتے ہیں۔یعنی # کی شکل میں۔ اس کا بھی مطلب یہی ہے کہ اسے چھوٹا کرکے (مد کے بغیر ہی) پڑھنا ہےـــ ایران اور ترکی کا یہ طریقہ کسی پڑھے لکھے قاری کو درست تلفظ میں مدد دے تو دے۔ عام قاری جو ’’بلا اشباع‘‘ اور ’’قصر‘‘ کے معنی ہی نہ جانتا ہو اس کے لئے تو یہ ضبط درست قراء ت میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتا۔ اس معاملے میں برصغیر کا طریقِ ضبط( کہ حروف زوائد کو علامت ضبط سے خالی رکھا جائے) یقینا زیادہ آسان اور زیادہ مفیدہے۔

        ’’اولىك ‘‘کی ’’لام‘‘ پر عرب ممالک میں فتحہ (ــــــَــــ) لگا کر ساتھ الف مقصورہ (کھڑی زبر) ڈالتے ہیں(#) کی شکل میں۔ جب کہ بر صغیر میں اس ’’لام‘‘ پر صرف کھڑی زبر (ــــــٰــــ) ڈالنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔(#) کی صورت میں ۔ افریقی   ممالک میں اس ’’لام‘‘ پر فتحہ(ــــــَــــ) بھی ڈالتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ’’چھوٹا الف‘‘ (مقصورہ) اس طرح ترچھا ڈالتے ہیں کہ اس کی شکل ’’#‘‘ سے مشابہ ہو جاتی ہے #

        اس ’’لا‘‘ پر علامت مدّ بھی ہر جگہ ڈالی جاتی ہے۔ اگرچہ مدّ کے لکھنے کا اندازمختلف(#) ہوتا ہے چین میں ’’ اولىكَ‘‘ کے ’لام‘‘ پر لمبی ترچھی مدّ ڈال  دیتے ہیں ۔فتحہ (ــــــَــــ) یا کھڑی زبر(ــــــٰــــ)وغیرہ کچھ نہیں ڈالتے یعنی( #)کی صورت میں لکھتے ہیں۔

اولىك‘‘ میں ’’ل‘‘ اور ’’ک‘‘ کے درمیاں ہمزۃ القطع کی ’’کرسی ‘‘ کے لئے ’’یا‘‘ کانبرہ (دندانہ) ڈالا جاتا ہے اور ھمزہ  مکسورہ اس نبرہ کے نیچے لکھاجاتا ہے (اولىك) یہ طریقہ مصر اور ایشیائی ملکوں میں رائج ہے ۔ ایران اور ترکی میں یہ ہمزہ نبرہ کے اوپر لکھنے کا رواج ہے۔ (اولىكَ) افریقی ملکوں میں (سے بعض مثلاً تونس، مراکش، غانا میں) اس نبرہ کے نیچے ’’یا‘‘کے دونقطے بھی لکھتے ہیں اور ساتھ ہی ھمزہ مکسورہ بھی # کی شکل میں۔

        ’’اولىك‘‘  کے آخری ’’کاف‘‘ کے لکھنے کا طریقہ بھی مختلف ہے اکثر تو اسے ’’ک‘‘ کی صورت میں لکھا جاتاہے۔ مگر بعض افریقی ملکوں اور جنوبی ہندوستان (مالابار) کی ریاست کیرالا (جسے عربی میں ’’کیرلہ‘‘ ہی لکھا جاتا ہے) میں اسے ہمیشہ#  کی شکل میں لکھتے ہیں۔

اس طرح آیت زیر مطالعہ کے کلمات کے ضبط کی حسب ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں:

 


 



[1]    جیسے انگریزی میں حروف علتvowels) ) یعنی  a,e,i,o,uسے حرکات کا کام لیا جاتا ہے۔