سورۃ البقرۃ  آیت نمبر  ۵۱   تا   ۵۳

۳۳:۲     وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓى اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ (۵۱)  ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (۵۲) وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ    (۵۳)

۱:۳۳:۲        اللغۃ

[وَاِذْ] کے معنی و استعمال پر کئی دفعہ بات ہوچکی ہے مثلاً البقرہ:۳۰ [۱:۲۲:۲ (۱)]اور اوپر۱:۳۲:۲ کے شروع میں ’’اور جس وقت‘‘۔

[وَاعَدْنَا] کا مادہ ’’و ع د‘‘ اور وزن ’’فَاعَلْنَا‘‘ ہے (یہاں آسانی کے لیے ’’واعَدْنا‘‘ برسم املائی لکھا گیا ہے۔ رسم عثمانی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد وعَد. . . . .یَعِدْ وَعْدًا و مَوْ عِدۃً (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی تو ہیں: ’’. . . . . سے. . .کا وعدہ کرنا‘‘ (وعدہ خود اسی فعل سے ماخوذ ہے اور اُردو میں مستعمل ہے)۔  اس فعل کے عموماً دو مفعول آتے ہیں (۱) جس سے وعدہ کیا جائے اور (۲) جس چیز کا وعدہ کیا جائے۔ اور عموماً تو دونوں مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتے ہیں جیسے ’’ وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيْرَةً ‘‘(الفتح:۲۰) ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا‘‘۔  بعض دفعہ دوسرے مفعول پر ’’ب‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’وعَدفلانًا الامرَ وبالامرِ‘‘ (اس نے اس کو ’’اس بات‘‘ کا وعدہ دیا)۔ قرآن کریم میں یہ (صلے والا) استعمال کہیں نہیں آیا۔ بعض دفعہ دوسرا مفعول محذوف ہوتا ہے جو عبارت (سیاق و سباق) سے سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم اس (مفعول ثانی محذوف) کی صرف ایک مثال (النساء:۱۲۰) میں ہے۔ ’’وعَد یعد‘‘ اچھے بُرے دونوں طرح کے وعدہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اہل ایمان کے لیے ’’جناتٍ‘‘ اور کفار کے لیے ’’نارَ جھنم‘‘ کے لیے ’’وعَدَ‘‘ کا لفظ ہی آیا ہے۔ عام عربی میں کہتے ہیں: ’’وعدہ خیرًا /شرًا۔ یا۔  بخیر/ بشر‘‘۔ (اس نے اس سے اچھا یا بُرا وعدہ کیا)

·       یہ فعل قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ صرف فعل مجرد کے مختلف صیغے ۷۰ جگہ آئے ہیں۔ مزید فیہ کے باب مفاعلہ کے صیغے چار جگہ اور باب تفاعل سے صرف ایک صیغہ آیا ہے۔ اس کے علاوہ مجرد اور مزید فیہ سے مصادر اور اسماء مشتقہ ۷۵ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’واعدنا‘‘ اس مادہ (وعد) سے باب مفاعلۃ کا فعل ماضی صیغہ جمع متکلم ہے۔ اس باب سے فعل ’’واعَد. . . .یواعِدُ مُوَاعدۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’. . . .سے وعدہ کیا اور’’ . . . .نے بھی وعدہ کیا‘‘ یعنی ’’دو آدمیوں نے باہم ایک دوسرے سے وعدہ کیا‘‘۔  یہ معنی بابِ مفاعلہ میں عموماً خصوصیت مشارکت پائے جانے کی بناء پر ہیں۔ تاہم اس باب میں ہر جگہ ’’دو‘‘ یا ’’باہم‘‘ کا مفہوم ضروری نہیں مثلاً ’’سَافَر‘‘ (اس نے سفر کیا) یا عاقبَ (اس نے سزاد ی) وغیرہ میں باہم کا مفہوم نہیں ہے۔ اور عموماً اس فعل کے بھی دو مفعول آتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’واعدَہ الوقتَ اوالمکانَ (اس نے اس کو’’اس وقت‘‘ یا ’’اس جگہ‘‘ کا وعدہ دیا) یعنی اس کے ساتھ جگہ یا وقت مقرر کیا) قرآن کریم میں اس باب سے فعل کے صیغے چار جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ دو مفعول کے ساتھ۔ اور زیر مطالعہ آیت بھی ان میں سے ایک ہے۔

·       بعض حضرات [1]نے یہاں (زیر مطالعہ آیت میں) بھی ’’باہم وعدہ‘‘ والا مفہوم یوں لیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے (۴۰ رات کا) وعدہ تھا اور موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے یہ ’’وفا‘‘ کرنے کاو عدہ تھا۔ تاہم اس نکتہ آفرینی کی بجائے وہی پہلی بات (کہ واعدَ یہاں بمعنی وعَد ہی ہے) زیادہ بہتر ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ’’الدوری‘‘ کی قراء ت میں اسے ’’وعَدُنا‘‘ ہی پڑھا گیا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اُردو کے تمام مترجمین نے یہاں ’’مشارکت‘‘ اور ’’باہم‘‘ والی خصوصیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس (واعَدْنا) کا ترجمہ ’’ہم نے وعدہ دیا، وعدہ کیا، کر لیا تھا اور ٹھہراؤ کیا‘‘ کے ساتھ ہی کیا ہے۔

۱:۳۳:۲ (۲)     [مُوْسٰی]  بعض نے اس کا اشتقاق بعض عربی مادوں سے بیان کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ ’’م و س‘‘ کے فعل مجرد ’’ماس یموسُ‘‘ (مونڈنا) سے یا ’’م ی س‘‘ کے فعل ’’ماسَ یمیس‘‘ (اکڑ کر چلنا) سے ’’فُعلیٰ‘‘ ہے۔ یا پھر ’’وسی‘‘ مادہ سے فعل ’’اَوْسی یُوْسِی (بابِ افعال) رأسَہٗ‘‘ (اس نے اس کا سر مونڈا) سے اسم المفعول (مُفْعَلٌ)  سمجھا۔ اشتقاق کے یہ تمام نظریات بالکل غلط ہیں۔ دراصل ’’ان مادوں سے (خصوصاً آخری مادہ سے) اسم الفاعل ’’مُوْسٍی‘‘ (مُفْعِلٌ) عربی میں استرے RAZOR) )کے لیے استعمال ہوتا ہے اور بعض اسے ’’موس‘‘ (ماس یموس۔ مونڈنا)سے ’’فُعْلی‘‘ کے وزن پر مشتق گنتے اور اسی طرح (موسی ًیا موسیٰ) ہی بولتے ہیں۔ بہر حال اس لفظ کا ’’موسی علیہ السلام‘‘ کے نام سے کوئی لغوی یا اشتقاقی تعلق نہیں ہے۔[2]   سوائے اس کے کہ اگر ضبط کے بغیر (بصورت ’’موسیٰ‘‘) لکھے ہوں تو دونوں میں ایک مشابہت لفظی ہے۔

کلمہ ’’موسیٰ ‘‘ جو ایک جلیل القدر پیغمبر کا نام ہے۔ دراصل ایک عبرانی (یا قبطی) لفظ ہے جو ’’مو‘‘ (پانی) اور ’’سا‘‘ (درخت) سے مرکب ہے۔ یعنی وہ جو دریا کے پانی اور اس کے کنارے کی جھاڑیوں میں ملا۔ [3] موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا یہ واقعہ قرآن کریم (القصص اور طٰہٰ) میں بھی بیان ہوا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام (مختلف واقعات کے ضمن میں) قرآن کریم کے اندر ۱۳۶ دفعہ وارد ہوا ہے۔

 ۱:۳۳:۲ (۳)    [اَرْبَعِیْنَ] کا مادہ ’’ر ب ع‘‘ اور وزن ’’اَفْعلِیْنَ‘‘ ہے  جو لفظ ’’اَرْبعٌ‘‘ (بمعنی ’’چار‘‘) سے ماخوذ ہے۔ اس کی شکل بظاہر ’’اَرْبَعٌ‘‘ کی جمع مذکر سالم کی بنتی ہے۔ یعنی بحالت رفع ’’اَربَعُوْنَ‘‘ اور بحالت نصب و جر ’’اربَعِیْنَ‘‘ ہوتی ہے۔ اسی لیے اسے نحو کی اصطلاح میں ’’مُلحَق بجمع المذکر السالم‘‘ (جمع مذکر سالم سے ملایا ہوا) کہتے ہیں۔

·       اس کلمہ (اربعون یا اربعین) کے معنی ہیں ’’چالیس‘‘۔ ’’اربع‘‘ (چار) اور ’’اربعین‘‘ (چالیس) اس مادہ (ربع) سے ماخوذ جامد اسماء ہیں یعنی ان کو اہل زبان نے ان معنوں کے لیے بنالیا ہے۔ مگر یہ کسی قاعدہ اور اصول کے تحت بننے والے (مشتق) اسماء نہیں ہیں۔ لفظ ’’اربعین‘‘ (اسی طرح نصبی حالت میں) قرآن کریم میں کل چار جگہ آیا ہے۔

·       اس مادہ (ر ب ع) سے فعل مجرد  ’’ربعَ یرْبَع‘‘ (باب فتح سے) مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلاً ’’قیام پذیر ہونا، رسی کو چار بل دینا، انتظار کرنا‘‘ وغیرہ اور مزید فیہ کے ابواب تفعیل، تفعل، افعال اورافتعال وغیرہ سے بھی اس سے اَفعال مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (ربع) سے کسی قسم کے فعل (مجرد یا مزید فیہ) کا کوئی صیغہ کہیں نہیں آیا۔ بلکہ صرف ’’عدد‘‘ والے معنی کے مختلف کلمات ۲۲ جگہ وارد ہوئے ہیں یعنی ’’ربعٌ (۴/۱)، ’’رُباعَ‘‘ (چار چار)، ’’ اَرْبَع‘‘ (چار) ’’اربعۃٌ‘‘ (چار برائے مذکر) ’’اَرْبَعین‘‘ (چالیس) اور ’’رابع‘‘ (چوتھا)۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۱:۳۳:۲ (۴)  [لَیْلَۃً] کا مادہ ’’ل ی ل‘‘ اور وزن  ’’فَعْلَۃٌ‘‘ ہے (لفظ یہاں منصوب آیا ہے جس کی وجہ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا۔ مزید فیہ کے ابواب مفاعلہ اور افعال سے یہ بعض معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جو کسی ڈکشنری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل کا کوئی صیغہ کہیں بھی نہیں آیا۔

·       اس مادہ سے اسم جامد ’’لَیْلٌ‘‘ کے معنی ہیں: ’’سورج چھپنے کے بعد سے(پھر) سورج نکلنے تک کا وقت ‘‘جسے اردو میں ’’رات‘‘ کہتے ہیں۔ یہ اسم جنس ہے اور یہ لفظ ’’دن (نھارٌ) کے مقابلے پر استعمال ہوتا ہے۔ اگر کسی رات یا چند راتوں کا ذکر کرنا ہو یعنی ’’لَیْلٌ‘‘ کی جنس سے بعض‘‘ تو اس کے ساتھ تائے وحدت لگا کر لفظ ’’لَیْلَۃً‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اُردو میں اس کا ترجمہ بھی ’’رات‘‘ ہی ہوگا۔ اس لیے کہ اردو میں کسی جنس کے لیے اور اس کے فرد واحد کے لیے الگ الگ لفظ (اسم) نہیں ہیں۔

·       زیر مطالعہ عبارت [۱:۳۳:۲ (۳، ۴)]میں ’’اربعین لیلۃً‘‘ عدد معدود (مرکب عددی) ہے اور اس کا ترجمہ ’’چالیس راتیں‘‘ ہوگا۔ اس پر مزید بحث آگے ’’الاعراب‘‘  میں آرہی ہے۔

۱:۳۳:۲ (۵) [ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ] ’’ثُمَّ‘‘کا ترجمہ ’’پھر‘‘، ’’اس کے بعد‘‘ ہے۔ اس کے معنی اور استعمال کی مزید وضاحت کے لیے دیکھئے [۱:۲۱:۲ (۴)]’’اِتَّخَذْتُمْ‘‘ کا مادہ ’’اخ ذ‘‘ اور وزن ’’اِفْتَعَلْتُمْ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’اِئْتَخَذْتُمْ‘‘ تھی۔ مگر اس مادہ سے بابِ افتعال کے فعل کو عرب لوگ ہمیشہ اس کے ہمزۂ ساکنہ (فاء کلمہ) کو ’’ت‘‘ میں بدل کر دوسری ’’ت‘‘ (تائے افتعال)  میں مدغم کرکے بولتے ہیں۔ اور اسی چیز کو کتب صرف میں ’’اخذ‘‘ کے باب افتعال کا قاعدۂ  ادغام ‘‘کہہ کر بیان کیا جاتا ہے۔ یعنی ریاضی کی زبان میں ’’اِئْتَخَذَ= اِیْتَخَذَ= اِتْتَخَذَ= اِتَّخذ ‘‘۔

·       چونکہ یہ مہموز سے باب افتعال میں اس قسم کی تبدیلی کی ایک شاذ (بلکہ شاید اکلوتی) مثال ہے (خیال رہے مثال واوی میں بابِ افتعال میں ’’و‘‘ (فاء کلمہ) کا ’’ت‘‘ بن کر تائے افتعال میں ادغام ایک عام قاعدہ (کلیہ) ہے مگر مھموز میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ عموماً اس صورت میں ’’ہمزہ‘‘ ، ’’ی‘‘ میں ہی بدلتا ہے)۔ اسی لیے بعض اہل لغت نے فعل ’’اتخذ‘‘ کا مادہ ہی (ت خ ذ) بتایا ہے۔ اس پر مزید بحث الکہف:۷۸ میں ’’لتَّخَذْتَ‘‘ کے ضمن میں ا ٓئے  گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ تاہم اہل لغت کی اکثریت نے اس کا مادہ’’اخذ‘‘ ہی قرار دیا ہے اور مہموز الفا کے باب افتعال میں سے اس طرح ادغام والے افعال کی کچھ اور مثالیں بھی دی ہیں  [4] مثلاً ’’اُزر‘‘ سے اتَّزرَ  (ازار باندھنا یا پہننا) اور ’’امن سے اتَّمَنَ‘‘ (امین بنانا)۔ اگرچہ ان دونوں افعال کا زیادہ استعمال ’’اِئتَزَر‘‘ اور ’’اِئْتَمَنَ‘‘  کی صورت میں ہوتا ہے)جو ماقبل سے موصول نہ ہونے کی صورت میں ’’اِیْتزر‘‘ اور ’’اِیْتَمَن‘‘ ہو جاتے ہیں) اس مادہ (اخذ) سے فعل مجرد کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۴۸[۱:۳۱:۲ (۵) ] میں بات ہوچکی ہے۔

·       ’’اتخَذْتم‘‘ (زیر مطالعہ لفظ) علی قول الاکثر اس مادہ (اخذ) سے باب افتعال کا فعل ماضی صیغہ جمع مذکرحاضر ہے۔ اور اس باب (افتعال) سے اس کے فعل اتَّخَذَ. . . .یَتَّخِذْ اِتْخِاذًا (اصلی شکل اوپر بیان ہوئی ہے) کے معنی ہیں:’’ . . . . .کو. . . . . بنا لینا‘‘  اردو میں کبھی اس کا ترجمہ ’’پکڑنا‘‘ بھی کر لیاجاتا ہے مگر اس میں مفہوم ’’بنالینا ‘‘کا ہی ہوتا ہے۔ عموماً اس فعل کے دو مفعول آتے ہیں۔ جن کے مطابق حسب موقع اس فعل کا ترجمہ ’’حاصل کرنا، تیار کرنا ، اختیار کرنا‘‘ کر لیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ اس کا مفعول ثانی محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے (جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے) جیسے اس زیر مطالعہ آیت میں ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل (اتخذ یتخذ) کے مختلف صیغے ۱۲۰ سے زائد مقامات پر آئے ہیں۔ اور اس کے مشتقات اور مصادر بھی پچاس کے قریب جگہوں پر آئے ہیں۔

          زیر مطالعہ صیغہ (اتخذتم) کے مندرجہ بالا معنی کو سامنے رکھتے ہوئے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’تم نے پکڑا، بنا لیا، تجویز کرلیا، اختیار کیا، مقرر کرلیا‘‘ سے کیا ہے۔ جسے بعض نے محاورۃً ’’تم لے بیٹھے‘‘ سے تعبیر کیاہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’ تم نے پوجا شروع کردی‘‘  کیاہے جو تفسیری ترجمہ ہے اور بظاہر الفاظ سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اگرچہ معنیٔ مراد  یہاں یہی ہے۔

۱:۳۳:۲ (۶)  [اَلْعِجْلَ] کا مادہ ’’ع ج ل‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فِعْلٌ‘‘ ہے (عبارت میں یہ لفظ منصوب آیا ہے جس پر ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی)۔ اس مادہ سے فعل مجرد  عجِل یعجَل عَجَلًا عَجَلَۃً باب سمع سے) لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بنیادی معنی ’’جلدی کرنا،  جلدی میں ہونا‘‘  ہیں۔ بطور متعدی استعمال ہوتو اس کے معنی ہوتے ہیں’’. . . . . .سے آگے نکل جانا ، پہل کر جانا‘‘۔  اس صورت میں اس کا مفعول بنفسہ آتا ہے مثلاً کہتے ہیں’’ عجِل فلانًا (اَوِ) الامر‘‘ (اس نے فلاں سے (یا) اس معاملے میں پہل کردی) اور اسی سے ہے  اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْ (الاعراف:۱۵۰ )  (یعنی کیا تم نے اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی جلد بازی کرڈالی)  ــــــــ بطور فعل لازم یہ مختلف صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلاً (۱) عجِل ب. . . . . . کو لے دوڑنا یعنی حاصل کرنے میں جلدی کرنا۔ اس استعمال کی مثال (طٰہٰ: ۱۱۴۔ اور القیامۃ:۱۶) میں ہے (۲)   عجِل اِلٰی. . . . . .کے معنی ہیں: . . . . . کی طرف جلدی سے جانا، . . . . . کی طرف جانے میں جلدی کرنا‘‘ اس کی مثال (طٰہٰ:۸۴) میں ہے اور (۳)عجِل علی. . . . . کا مطلب ہے= . . . ..کے بارے میں جلدی کرنا یعنی ان کے بارے میں جلدی فیصلہ چاہنا‘‘۔قرآن کریم میں یہ استعمال مریم:۸۴) میں موجود ہے۔ قرآن کریم اس فعل مجرد کے مختلف صیغے پانچ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ مزید فیہ کے باب تفعیل سے صیغہ ہائے فعل پانچ جگہ بابِ اِفعال اور تفعل سے صرف ایک ایک صیغہ اور باب استفعال سے کچھ صیغے ۱۹ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مصادر و مشتقات اور بعض جامد اسماء کل ۱۵ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’العِجْل‘‘ (یا  عِجْلٌ)  اس مادہ سے ایک اسم جامد ہے اور اُردو میں اس کے معنی ہیں ’’بچھڑا، گئو سالہ یا گوسالہ‘‘ بعض کتب لغت میں ’’عِجْل‘‘ کا مطلب ’’گائے کا ایک سال یا ایک مہینے کی عمر تک کا نر بچہ‘‘ لکھا ہے۔[5]

·       بچھڑی کو ’’عِجْلۃٌ‘‘ کہتے ہیں۔ عربی زبان میں (اونٹ گھوڑے وغیرہ کی طرح) گائے کے لیے عمر کے مختلف حصوں کے لیے دس کے قریب اسماء استعمال ہوتے ہیں جن میں سے دو ’’عَوانٌ‘‘ اور ’’فارِضٌ‘‘ بہت جلد ہمارے سامنے آئیں گے۔ لفظ ’’عِجْل‘‘ مختلف صورتوں (معرفہ نکرہ) میں اور مختلف اعرابی حالتوں میں قرآن کریم کے اندر کل۹ مقامات پر وارد ہوا ہے۔

۱:۳۳:۲: (۷) [مِنْ بَعْدِہٖ] یہ تین کلمات ہیں (۱) ’’مِنْ‘‘ جس کا یہاں کوئی الگ ترجمہ نہیں ہوگا بلکہ یہ بلحاظ ترکیب ہی نہیں بلحاظ معنی بھی ’’بَعْد‘‘ ہی کا حصہ ہے (۲) ’’بَعْد‘‘ جس پر ہم ابھی بات کریں گے کیونکہ یہ اپنے مادے سے پہلا لفظ ہے جو ہمارے سامنے آیا ہے (۳) ’’ہ‘‘ ضمیر مجرور متصل بمعنی ’’اس کا/کے‘‘ ہے۔

·       ’’بَعْدٌ‘‘ (جو عبارت میں مجرور اور خفیف آیا ہے اور جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘  میں بیان ہوگی) کا مادہ ’’ب ع د‘‘ اور وزن (بحالتِ رفع) ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔

اس مادہ سے فعل مجرد (جس سے صرف ماضی کے دو صیغے قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں) بعِد یبعَد بعدًا  (سمع سے)  اور بعُد یَبْعُدُ بُعْدًا(کرم سے) آتا ہے اور دونوں کے بنیادی معنی: ’’دور ہونا، دور ہوجانا،فاصلے پر ہونا‘‘ ہیں۔ یہ دونوں صورتوں میں فعل لازم ہے مگر ’’بِ‘‘  کا صلہ لگا کر اسے متعدی (خصوصاً باب سمع سے) بنایا جاسکتا ہے مثلاً کہہ سکتے ہیں ’’بعِد بہ عن... .. .‘‘ (وہ اس کو. . . . .سے دور لے گیا) تاہم یہ استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔ عربی زبان میں بطور محاورہ یہ فعل (دونوں ابواب سے) ’’ہلاک ہونا، تباہ ہونا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ فعل باب سمع سے ’’ہلاک ہوجانا‘‘ کے معنی میں اور باب کرم سے ’’دور فاصلے پر ہونا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس مادہ سے فعل کا استعمال پہلی دفعہ ’’سورۃ التوبۃ‘‘  میں ہمارے سامنے آئے گا۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے فعل کے صرف دو صیغے (دو جگہ) اور باب مفاعلہ سے صرف ایک ہی صیغہٗ فعل آیا ہے۔ البتہ اس مادہ سے اسمائے جامد ہ و مشتقہ اور مصادر وغیرہ (بعد کے علاوہ) ۳۳ جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’ بَعْدٌ‘‘ اس مادہ سے ماخوذ ایک اسم مبہم (غیر واضح) ہے جو ظرف کا کام دیتا ہے۔ اور مضاف ہوئے بغیر یعنی مضاف الیہ کے بغیر اس کے معنی واضح نہیں ہوتے (اور اسی لیے اسے اسم مبہم کہتے ہیں) مضاف ہوکر آئے تو بوجہ ظرفیت منصوب ہوتا ہے۔ جیسے ’’بَعْدَہٗ ‘‘ میں ہے۔ یہ لفظ اردو میں مستعمل ہے بلکہ اردو میں بھی ہمیشہ مضاف ہوکر استعمال ہوتا جیسے ’’اس کے بعد‘‘۔  عربی زبان میں اس سے پہلے  ’’مِنْ‘‘   آجائے تو لفظ ’’بعد‘‘ مجرور بھی ہوجاتا ہے۔ جیسے  ’’مِنْ بعدہٖ‘‘ میں ہے۔ اس صورت میں مِنْ کا ترجمہ نہیں کیا جاتا (مثلاً’’اس کے بعد سے‘‘ )  بلکہ اُردو ترجمہ بَعدہ اور من بعدہ (دونوں کا) ’’اس کے بعد‘‘ ہی ہوگا۔ بعض جگہ اردو میں اس کا ترجمہ ’’اس کے پیچھے‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے۔

بعض دفعہ اس (بَعْد) کا مضاف الیہ محذوف کردیا جاتا ہے اس وقت یہ (بعدُ) مبنی بر ضمہ ہو جاتا ہے۔ یعنی ہر صورت میں اس کے آخر پر ضمہ (ــــُـــــ) ہی رہتا ہے۔ چاہے پہلے ’’مِنْ‘‘ بھی کیوں نہ لگا ہو۔ (بلکہ اس صورت۔ حذفِ مضاف الیہ۔ میں اس سے پہلے عموماً’’مِنْ‘‘ضرور استعمال ہوتا ہے مثلاً کہیں گے  ’’مِنْ بعدُ‘‘ اس کا اردو ترجمہ ’’بعد میں بھی‘‘ سے کرنا موزوں ہوتا ہے۔ دیکھئے مقابلے کے لیے ’’قَبْلٌ‘‘ کا استعمال ]۱:۳۱:۲  (۴)[میں۔

خیال رہے کہ ’’بعد‘‘ بطور اسم معرب (بعدٌ، بعدًا) بہت ہی کم استعمال ہوتا ہے بلکہ معرب ہوکر بھی یہ  ظرف منصوب ہی رہتاہے۔ مثلاً  ’’ بَعْدًا‘‘ کا مطلب بھی ’’بعد میں یا بعد میں کبھی‘‘ کا ہی ہوگا۔ تاہم قرآن کریم میں یہ (منصوب معرب والا) استعمال کہیں نہیں آیا۔ البتہ بغیر حرف الجر اضافت (بعدہٗ) مع الجر اضافت (من بعدہٖ) اور مقطوع الاضافت صورت (مِن بعدُ) یعنی ان تینوں شکلوں میں یہ لفظ (بعد) قرآن کریم میں ۲۰ کے قریب مقامات پر استعمال ہوا ہے۔

·       آیت زیر مطالعہ میں ’’من بعدہ‘‘ کی ضمیر مجرور موسٰی علیہ السلام کے لیے ہے۔ اور یہاں’’من بعدہ‘‘ (اس کے بعد) کا مطلب ’’ان کی موت کے بعد‘‘ نہیں)کیونکہ بعض جگہ یہ ترکیب یہ معنی بھی دیتی ہے) بلکہ ’’اس کے (طُور پر چلے جانے) کے بعد ‘‘مراد ہے اور یہ مفہوم سیاقِ قصّہ سے معلوم ہوتا ہے اسی لیے اُردو مترجمین نے یہاں ’’من بعدہ‘‘ کا ترجمہ اگرچہ ’’اس کے پیچھے‘‘ سے بھی کیا ہے تاہم بیشتر حضرات نے اس کا ترجمہ ’’ان کے گئے پیچھے‘‘ سے کیا ہے اور بعض نے ضمیر کی بجائے اسم ظاہر (موسٰیؑ) کے ساتھ ہی ترجمہ کیا ہے یعنی ’’موسٰی ؑکے بعد‘‘ یا ’’ موسٰی ؑ کے جانے کے بعد‘‘ کی صورت میں۔ ظاہر ہے اسے تفسیری ترجمہ سمجھ کر ہی درست کہا جاسکتا ہے۔

۱:۳۳:۲ (۸) [وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ] یہاں بھی ’’وَ‘‘ حالیہ بمعنی ’’درانحالیکہ یا صورتِ حال یہ تھی کہ‘‘۔ ہے اور ’’انتم‘‘ ضمیر مرفوع منفصل بمعنی ’’تم‘‘ ہے۔

’’ظَالِمُوْن‘‘ کامادہ ’’ظ ل م‘‘ اور وزن ’’فاعِلُون‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجرد ’’ظلَم یَظْلِمُ ظُلْمًا‘‘ (عموماً ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں . . . .پر ظلم کرنا (لفظ ’’ظلم‘‘ اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے). . . . .  کی حق تلفی کرنا، حد سے بڑھنا، کسی چیز کو غلط جگہ پر رکھنا، وغیرہ  کبھی یہ فعل باب سمع سے بمعنی ’’رات کا تاریک ہونا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں: ظَلِمَ اللیلُ ظَلْمًا= ’’رات خوب تاریک ہوگئی‘‘۔ تاہم یہ استعمال (بطور فعل) قرآن کریم میں نہیں آیا۔

·       یہ فعل (ظلَم یظلِمُ) متعدی فعل ہے۔ اس کا مفعول بنفسہ آتا ہے۔ جیسے . . . فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ    (البقرہ:۲۳۱)( . . . پس اس نے اپنے آپ پر ہی ظلم کیا) ’’حق تلفی‘‘ والے معنی کے لیے اس کے دو مفعول (بنفسہ) بھی استعمال ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں: ظَلَمَہٗ حَقَّہٗ (اس نے اس کا حق مارا) ۔ یہ (دو مفعول والا استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا بلکہ قرآن کریم میں تو   اکثر اس کا ایک مفعول (جس پر ظلم کیا) بھی محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو سیاق عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔

قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغہ ہائے فعل سو سے بھی زیادہ جگہ آئے ہیں۔ اور مصادر و مشتقات دو سو سے بھی زائد مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (ظالمون) اس فعل (مجرد(ظلَم یظلِم) سے اسم الفاعل ’’ظالِمٌ‘‘ کی جمع مذکر سالم ہے اور اردو میں اس کا لفظی ترجمہ’’  ظلم کرنے والے‘‘ ہی بنتا ہے۔ اکثر مترجمین نے اس عبارت (وانتم ظالمون)  کا ترجمہ ’’اور تم ظالم تھے یا (سخت) ظالم تھے‘‘ ہی کیا ہے۔ بعض نے ’’تم بے انصاف ہو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے ’’یہ تمہاری بے انصافی تھی‘‘ (یعنی بچھڑا پوجنا) کو اختیار کیا ہے جو عبارت کے لفظ سے ہٹ کر ہے۔ اگرچہ مفہوم درست ہے۔ بعض حضرات نے اردو محاورے کا زور پیدا کرنے کے لیے ترجمہ :’’اور تم نے ظلم پر کمر باندھ رکھی تھی‘‘کیا ہے جو خواہ مخواہ کا تکلف معلوم ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے  ’’تم ظلم کر رہے تھے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو ’’ظالمون‘‘ کی بجائے ’’تظلمون‘‘  کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ ان تمام تراجم میں ’’تھے‘‘ یا ’’تھی‘‘ کے ساتھ ترجمہ آیت کے ابتدائی’’وَاِذْ‘‘ کی وجہ سے ہے جو ظرف برائے زمانہ ماضی ہے۔ ورنہ جملہ اسمیہ ہونے کے اعتبار سے تو اس کا ترجمہ ’’تم ظالم ہو‘‘ ہی ہونا چاہیے۔

۱:۳۳:۲ (۹)     [ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ] ’’ثُمَّ‘‘(بمعنی پھر ،اس کے بعد، پس) پر کئی دفعہ بات ہوئی ہے۔ ’’عفَوْنَا‘‘ پر ابھی بات ہوگی۔ اور ’’عنکم‘‘ میں ’’عن‘‘ اسی زیر مطالعہ فعل (عفونا) کا صلہ ہے اس پر بھی اس کے ساتھ بات ہوئی اور آخری ضمیر مجرور  ’’کُمْ‘‘ یہاں بمعنی ’’تم سے‘‘ آئی ہے (بوجہ  ’’عَنْ‘‘)’’عَفَوْنَا‘‘ کا مادہ ’’ع ف و‘‘ اور وزن  ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے۔(یہ اپنی اصلی شکل میں ۔ بغیر کسی قسم کی تعلیل کے ہے صرف واو لینہ کی وجہ سے تلفظ مختلف ہوجاتا ہے) یہ فعل ماضی معروف کا صیغہ جمع متکلم ہے۔

·       اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’عفَا یعفُو (دراصل عَفَوَ یَعْفُوُ) عَفْوًا‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے اور بطور لازم متعدی مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱) ’’مٹ جانا‘‘ کہتے ہیں ’’عفا الاثر‘‘ (نشان مٹ گیا)۔ (۲) ’’زیادہ ہونا‘‘ کہتے ہیں  ’’عفا الشیُٔ‘‘ (چیز زیادہ ہوگئی) اور اسی کا مطلب ’’چیز پوشیدہ ہوگئی‘‘ بھی ہے (۳) ’’مٹا دینا‘‘ مثلاً ’’عفتِ الریحُ الاَثَر‘‘ (ہوا نے نشان مٹادیا)  (۴) بڑھا دینا یا زیادہ کرنا مثلاً ’’عفا الشَعْرَ‘‘ (اس نے بال بڑھالیے)۔ اور یہ تو اس فعل کے بغیر صلہ کے چند استعمالات ہیں۔ صلہ (خصوصاً ’’عَنْ‘‘ یا ’’لِ‘‘)کے ساتھ یہ زیادہ تر ’’درگزر کرنا، سزا نہ دینا، معاف کردینا‘‘ کے معنی دیتا ہے (خیال رہے کہ خود لفظ ’’مُعَاف‘‘ اسی مادہ سے مشتق ہے اور اپنی اصل عربی شکل ’’مُعَافًی‘‘ بمعنی ’’آزاد کیا ہوا‘‘ ’’چھوڑ دیا ہوا‘‘ سے ذرا سا بدل کر اردو میں مستعمل ہے) اور صلہ کے ساتھ (ان معنی کے لیے) استعمال کی کئی صورتیں ہیں مثلاً (۱)’’عفا اللّٰہُ عَنْہُ‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر کیا، معاف کردیا‘‘ (۲)’’عفا اللّٰہُ عَنْ ذنْبِہٖ ‘‘ اللہ نے اس کا گناہ معاف کردیا  یعنی اس کے گناہ کے بارے میں در گزر سے کام لیا اور (۳)’’ عفا اللہ عَنْہٗ ذَنْبَہٗ‘‘  اللہ نے اس کا گناہ اس کو معاف کردیا اور (۴)عفا اللّٰہ لہٗ ذنبہٗ‘‘  کا مطلب بھی یہی ہے (۵) ’’عفا لَہٗ بمالِہٖ‘‘  کا مطلب ہے ’’اس نے اس کو اپنے مال میں سے زیادہ دیا۔ گویا یہاں ’’عفا‘‘ وہی زیادہ کرنا، بڑھا دینا والے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔

·       آپ کو عربی ڈکشنریوں میں اس فعل (عفا یعفو) کے کچھ اور معانی اور استعمالات بھی مل سکتے ہیں۔ جو قرآن میں نہیں آئے۔ قرآن کریم میں یہ فعل زیادہ تر ’’درگزر کرنا‘‘ والے معنی کے لیے ہی آیا ہے،  ۱۸ جگہ ’’عَن‘‘ کے صلہ کے ساتھ اور کم از کم آٹھ جگہ ’’عَنْ‘‘ کے حذف کے ساتھ مگر اسی مفہوم میں آیا ہے  (یعنی وہاں یہ مذکور نہیں کہ کس شخص یا کس جرم سے درگزر مراد ہے) صرف ایک جگہ یہ فعل ’’درگزر‘‘ والے معنی میں مگر ’’عن‘‘  کی بجائے ’’لِ‘‘ کے ساتھ آیا ہے۔ (البقرہ:۲۷۸) اور صرف ایک ہی جگہ یہ (بطور صیغہٗ فعل)  ’’زیادہ ہونا‘‘ اور ’’کثیر ہونا‘‘ کے معنی میں آیا ہے(الاعراف:۹۵) مندرجہ بالا بعض دیگر معانی (مٹنا مٹانا، پوشیدہ ہونا، بڑھا دینا وغیرہ) بھی قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوئے۔ تاہم غور سے دیکھا جائے تو ’’معافی اور درگزر‘‘ میں بھی اصل مفہوم ’’مٹادینے‘‘ کا موجود ہے۔

·       مجرد کے علاوہ عام عربی میں یہ مادہ  (عفو) مزید فیہ کے متعدد ابواب (افعال تفعیل، مفاعلہ، افتعال، استفعال وغیرہ) سے بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس سے صرف فعل مجرد کے ہی صیغہ ہائے فعل ۲۵ سے زیادہ مقامات پر آئے ہیں۔ اور اس کے بعض مشتقات (عفو، عَفْوٌ، عافین وغیرہ) بھی سات جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·       زیر مطالعہ عبارت ’’ثم عَفَوْنا عنکم‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’پھر ہم نے تم سے درگزر کیا‘‘ اسی کو’’معاف کیا تم کو، تمہیں معافی دی، معاف کردیا، معاف فرمایا‘‘ کی صورت بھی دی گئی ہے بعض نے ’’تمہارا قصور معاف کردیا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں اصل محذوف مفعول کو سامنے رکھا گیا ہے یعنی ’’عفونا عنکم ذنبَکم‘‘ (دیکھئے اوپر صلات کے ساتھ اس فعل کے استعمال کی نمبر(۳ )صورت) ۔ قرآن کریم میں یہ فعل جہاں جہاں بھی ’’معاف کرنا‘‘ کے معنی میں آیا ہے وہاں ’’جس کو معافی ملی‘‘ وہ تو مذکور یا مقدر موجود ہے مگر ’’جس کام کی‘‘ معانی ملی (یعنی خطا، جرم، قصور وغیرہ) وہ سب جگہ محذوف ہے جو عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔

 [مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ] اس مرکب کے تینوں اجزاء (من + بعد + ذلک) پر الگ الگ پہلے کئی جگہ بات ہوچکی ہے اور  ’’بعد‘‘ کا استعمال وغیرہ) تو ابھی اوپر ]  ۱:۳۳:۲ (۷)[بیان ہوا ہے۔ اس طرح اس حصہ عبارت کا ترجمہ ہوا ’’اس کے بعد/پیچھے‘‘ جسے بعض مترجمین نے ’’اس پر بھی‘‘، ’’ اس کے بعد بھی‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ’’بھی‘‘ محاورے کے زور کے لیے ہے۔ بعض نے ’’اتنی بڑی بات ہوئے پیچھے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اسے تفسیری ترجمہ بلکہ مفہوم ہی کہہ سکتے ہیں۔ یہ اصل الفاظ  سے تو بالکل ہٹ کر ہے۔

۱:۳۳:۲ (۱۰)     [لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ] ’’لَعَلَّکُمْ‘‘ کا ترجمہ ہے ’’شاید کہ تم‘‘ یا’’ امید ہے کہ تم‘‘ بعض نے ’’امید‘‘ میں ’’مقصد‘‘ کا مفہوم پاکر اس کا ترجمہ ’’اس لیے  کہ تم‘‘ ، ’’  کہ کہیں تم‘‘ اور ’’تاکہ تم‘‘ سے کیا ہے۔ ’’لَعَلَّ‘‘ کے مادہ، معنی اور اس مادہ سے کسی اور لفظ کے عدم استعمال پر البقرہ:۲۱ [۱:۱۶:۲ (۴)]میں بات ہوچکی ہے۔

’’تَشْکُرُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ش ک ر‘‘ اور وزن  ’’تَفْعَلُوْنَ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’شکَر. . . . یشکُر شکرًا‘‘   (زیادہ تر باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’. . . .کی نعمت یاد کرنا اور اس کا اظہار اور اعتراف کرنا‘‘ اور اسی کو’’. . . .کا شکر کرنا،. . . .کا احسان ماننا ‘‘، یا’’. . . .کا شکر گزار بننا‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے (لفظ شکر اپنے اصل عربی مفہوم کے ساتھ اُردو میں متعارف ہے)۔ یہ فعل براہِ راست مفعول (بنفسہ) کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور لام (لِ) کے صلہ کے ساتھ بھی۔ اور شاذ ’’ب‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی مثلاً کہتے ہیں ’’شکر اللّٰہَ و شکر لِلّٰہ وشکر باللّٰہ‘‘ (اس نے اللہ کا شکر ادا کیا)۔ اگر مفعول اسم جلالت (اللہ) یا اس کے لیے کوئی ضمیر ہو تو لام کے صلہ والا استعمال زیادہ فصیح سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ’’باء (ب)‘‘ کے صلہ والا استعمال کہیں نہیں آیا پہلے دونوں استعمال (بنفسہ یا بصلہ لام) آئے ہیں۔ اگر مفعول ’’نعمۃ اللّٰہ‘‘ ہو تو یہ زیادہ تر براہِ راست (بغیر صلہ کے) آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’شکر نعمۃ اللّٰہِ‘‘ (اس نے اللہ کی نعمت کا شکر ادا کیا) یہ استعمال بھی قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔

·       عام عربی میں یہ فعل اس باب (نصر) سے بھی اور بابِ سمع سے (شکِر یشکَر) بعض ایسے معانی (مثلاً جانور کا تھوڑی خوراک پر بھی موٹا ہونا، درخت کی شاخیں نکلنا، بادل کا بارش سے بھر جانا وغیرہ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوئے۔

·       قرآن کریم میں یہ فعل صرف باب نصر سے اور بمعنی ’’شکر کرنا‘‘ ہی استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں صرف اس فعل مجرد سے مختلف صیغے ۴۶ جگہ آئے ہیں جن میں سے ۶ جگہ یہ فعل لام (ل) کے صلہ کے ساتھ اور صرف تین جگہ مفعول بنفسہ کے ساتھ آیا ہے۔ باقی تمام مقامات پر مفعول محذوف (غیر مذکور) ہے مگر وہ سیاقِ عبارت سے سمجھا جاتا ہے یعنی ’’لِلّٰہِ‘‘ یا ’’نعمۃ اللّٰہِ‘‘

·       جب اس فعل کا فاعل ’’اللہ تعالیٰ‘‘ ہو تو اس کے معنی ’’اچھا اجر دینا‘‘ یا  ’’قدر دانی کرنا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں: ’’شکر اللّٰہُ سَعْیَہ‘‘ (اللہ نے اس کی کوشش کا پھل دیا/کی قدر دانی کی) اس معنی میں قرآن کریم کے اندر کوئی صیغۂ فعل تو نہیں آیا البتہ اس سے اسم الفاعل ’’شاکرٌ‘‘ (اللہ تعالی کے لیے) اور نیک اعمال کے لیے اسم صفت بصیغہ اسم المفعول ’’مشکور‘‘  آئے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں اس مادہ اور فعل مجرد سے مختلف مصادر اور اسماء مشتقہ ۲۹ جگہ آئے ہیں۔ جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’تشکرُون‘‘ اس فعل مجرد (شکَر یشکُر) سے فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس کا لفظی ترجمہ تو فعل حال یا مستقبل کے ساتھ یعنی  یعنی ’’تم شکر کرتے ہو یا شکر کرو گے‘‘ ہونا چاہیے مگر شروع میں ’’لعلَّکم‘‘ (شاید کہ تم، امید ہے کہ تم) لگنے سے اب اس کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’تم شکر گزار بنو، احسان مانو‘‘ سے کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ فعل امر کا نہیں (جیسا کہ بظاہر لگتا ہے) بلکہ مضارع کا ہی ہے۔

۱:۳۳:۲ (۱۱)     [وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ] اس عبارت کے پانچوں اجزا ء(وَ + اذ + آتینا + موسی + الکتب) کا الگ بیان یوں ہے. . . .’’وَاِذ‘‘  ،’’وَ‘‘ کے معانی پر[۱:۷:۲ (۱)] میں اور ’’اذ‘‘ کے استعمال پر [۱:۲۲:۲ (۱)] پر (پہلی دفعہ) بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھی یہ کئی دفعہ گزر چکا ہے (دو دفعہ تو ۱:۳۲:۲ میں آیا ہے) اس کا ترجمہ ’’اور جب‘‘ ہے۔ ’’اٰتَیْنا‘‘ کا مادہ ’’ا ت ی‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلْنَا‘‘ ہے جو دراصل ’’أَأْتَیْنَا ‘‘تھا پھر ہمزۂ مفتوحہ کے بعد ہمزۂ ساکنہ الف کی آواز دیتا ہے اور اب اسے ’’ءَاْ‘‘ یا ’’ اٰ ‘‘   یا  ’’ آ ‘‘لکھاجاتا ہے۔ ( ’’ آ  ‘‘ والی شکل عام عربی میں (بلکہ اردو فارسی میں بھی) مستعمل ہے مگر اسے کتابت مصحف کے ضبط میں استعمال نہیں کیا جاتا)

اس مادہ سے فعل مجرد (اتی یاتِی) کی بحث البقرہ۲۳: [۱:۱۷:۲ (۴)] میں گزر چکی ہے۔ زیر مطالعہ لفظ (آتینا) اس مادہ (اتی)  سے بابِ افعال کا فعل ماضی صیغہ جمع متکلم ہے۔ بابِ افعال سے اس فعل ’’آتٰی یُؤْتِیْ اِیْتَاءً‘‘ (بمعنی دینا یا ادا کرنا) کے معانی اور اس کے متعدی  بدو مفعول ہونے کی البقرہ:۴۳ [۱:۲۹:۲: (۳)]میں وضاحت کی جاچکی ہے اس کا ترجمہ ’’ہم نے دیا،  عطا کیا، عنایت فرمایا‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔

’’مُوْسَی‘‘ کی اصل اور اشتقاق پر ابھی اوپر [۱:۳۳:۲ (۲) ]بحث ہوچکی ہے۔ یہ لفظ جو ایک جلیل القدر پیغمبر کا نام ہے عربی فارسی اردو میں اسی املاء (موسی) کے ساتھ لکھا جاتا ہے جس کی ’’ی‘‘ الف مقصورہ کی صورت میں پڑھی جاتی ہے۔ یعنی ’’سا‘‘ کی طرح  ’’الکتابَ‘‘ (جس کا قرآنی رسم یہاں ’’الکتب‘‘ ہے) کا مادہ ’’ک ت ب‘‘ اور وزن، لامِ تعریف کے بغیر ’’فِعالٌ‘‘ ہے (یہاں یہ لفظ منصوب آیا ہے۔ وجہِ نصب آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب و معنی اور خود لفظ ’’الکتاب‘‘ کے معنی وغیرہ [۱:۱:۲ (۲) ]میں بیان ہوچکے ہیں۔ لفظ ’’کتاب‘‘  اردو میں مستعمل ہے۔ اسی طرح زیر مطالعہ عبارت  (واذ آتینا موسی الکتاب) کا ترجمہ بنا ’’اور جب دی ہم نے موسٰیؑ  کو کتاب ‘‘۔

۱:۳۳:۲ (۱۲)  [وَالْفُرْقَانَ] ’’وَ‘‘ اور ’’لام تعریف‘‘ نکال کر باقی لفظ ’’فُرْقَانٌ‘‘ ہے (جو عبارت میں منصوب  ہے اس پر ’’الاعراب ‘‘میں بات ہوگی) اس لفظ کا مادہ ’’ف ر ق‘‘ اور وزن ’’فُعْلَانٌ‘‘  ہے اس مادہ سے فعل مجرد (فَرِق یفرَق) کے باب اور معنی (جدا کرنا، الگ کرنا، ڈر جانا وغیرہ) پر ابھی اوپر [۱:۳۲:۲ (۱۰) ]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ (فرقان) اس مادہ سے اسم صفت ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’جو حق و باطل میں فرق کردے ‘‘ یعنی ’’واضح دلیل‘‘۔ اور اسی لیے بعض دفعہ اس کا ترجمہ (یا معنیٔ مراد) ’’معجزہ‘‘ بھی کرلیا جاتا ہے۔ اور یہ لفظ قرآن کریم کا ایک (صفاتی) نام یا لقب بھی ہے۔ یہاں عبارت میں موسیٰ علیہ السلام کو ’’کتاب‘‘ کے ساتھ ’’فرقان‘‘ عطا ہونے کا ذکر ہے اس لیے مترجمین نے یہاں اس کا ترجمہ ’’معجزہ‘‘ کو ’’باطل سے جدا کرنے والے احکام، فیصلہ کی چیز، قولِ فیصل، فیصلہ کرنے والی شریعت اور معجزے‘‘ سے کیا ہے۔ اور چونکہ یہ سب لفظ ’’الفرقان‘‘ کی توضیحات ہیں اس لیے بعض حضرات نے اس کا ترجمہ کرنے کی بجائے ’’فرقان‘‘  ہی رہنے دیا ہے۔ یہ لفظ (فرقان) مختلف صورتوں اور حالتوں میں قرآن کریم کے اندر سات دفعہ وارد ہوا ہے۔

[لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ] ’’لَعَلَّکُمْ‘‘(شاید کہ تم، امید ہے کہ تم) پر ابھی اوپر [۱:۳۳:۲(۱) ]میں بات ہوئی نیز دیکھئے البقرہ:۲۱ [۱:۱۶:۲ (۴)] ’’تَھْتَدُوْنَ‘‘کا مادہ ’’ہ د ی‘‘ اور وزن ’’تَفْتَعِلُوْن‘‘ ہے یہ دراصل  ’’تَھْتَدِیُونَ‘‘ تھا۔ پھر واو الجمع سے ماقبل والا ناقص کالام کلمہ (ی) ساقط کرکے عین کلمہ (و) کے کسرہ (ــــــِــــ) کو ضمہ (ـــــُـــــ) میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے۔

اس مادہ  (ھدی) سے فعل مجرد کےباب اور معنی وغیرہ پر الفاتحہ:۶ [۱:۵:۱ (۱)]اور البقرہ:۲ [۱:۱:۲ (۶) ]میں بات ہوچکی ہے۔ زیر مطالعہ لفظ ’’تھتدون‘‘ اس مادہ سے باب افتعال کے فعل مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ باب افتعال سے اس فعل (اھتدی یھتدی اھتداء) کے معنی (راستہ پالینا) اور مزید لغوی وضاحت کے لیے البقرہ:۱۶ یعنی [۱:۱۲:۲ (۷)]دیکھئے۔

اس صیغہٗ فعل (تھتدون) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’تم راستہ پالو گے‘‘ ،یا ’’ہدایت پالو گے‘‘۔ تاہم شروع کے  ’’لعلکم‘‘ کی وجہ سے اس کا ترجمہ ’’تم راہ پاؤ، سیدھی راہ پاؤ، راہ یاب ہوجاؤ، راہ پر آؤ، راہ پر چلتے رہو‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ جب کہ بعض نے ’’ہدایت حاصل کرو‘‘ اور ’’ہدایت پاؤ‘‘ سے ہی ترجمہ کیا ۔لفظ ہدایت (جو عربی کے ہدایۃ کی ہی بگڑی ہوئی املاء ہے) اُردو فارسی میں اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ مستعمل ہے

 

۲:۳۳:۲     الاعراب

زیر مطالعہ تین آیات یوں تو سات جملوں پر مشتمل ہیں لیکن ان میں سے بعض جملے حال ہو کر دوسرے جملے کا (بلحاظ مضمون) حصّے بنتے ہیں اس طرح بلحاظ مضمون ہم اس قطعہ کو چار جملوں میں تقسیم کرکے اعرابی بحث کرسکتے ہیں:

(۱)  وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓى اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً 

[وَ] عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ بھی ہوسکتی ہے۔ اور مستانفہ (بمعنی ’’اور یہ بات بھی تو قابل ذکر ہے‘‘) بھی۔ [اِذْ] ظرف متعلق فعل محذوف (اُذْکروا) ہے یا البقرہ:۴۷ کی ابتداء میں آنے والے ’’اذکروا‘‘ پر معطوف سمجھ لیں تو پھر محذوف ’’اذکروا‘‘ کی ضرورت نہیں رہتی۔ البقرہ:۴۹  تا  ۵۳ میں ’’واذ‘‘ چار دفعہ آچکا ہے اور آگے البقرہ:۸۴ تک کئی آیات کی ابتداء اسی (واِذْ) سے ہوگی۔ ہر جگہ اس کا اعراب یہی ہوگا۔ [واعَدْنا] جسے یہاں آسانی کے لیے برسم املائی لکھا گیا ہے، فعل ماضی معروف کا صیغہ متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ بطور فاعل مستتر ہے۔ [موسی] فعل ’’واعَدْنا‘‘ کا پہلا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے مگر اسم مقصور ہونے کے باعث اس میں کوئی اعرابی علامت نصب ظاہر نہیں ہوتی۔ [اَرْبَعِیْنَ]  یہ اسم عدد ہے جو ’’واعدنا‘‘ کا مفعول ثانی ہونے کے باعث منصوب ہے۔ علامت نصب آخری ’’ن‘‘ سے پہلی ’’یاء ماقبل مکسور‘‘ (ـــــِــــیْ) ہے جو جمع سالم مذکر کی علامتِ نصب و جر ہوتی ہے۔ اسماء عدد میں سے عقود یعنی دہائیوں والے عدد بلحاظِ اعراب (رفع نصب جر) جمع مذکر سالم کے ساتھ ملحق سمجھے جاتے ہیں یعنی اسی گروپ میں شمار کیے جاتے ہیں اور [لَیْلَۃً] اسم عدد ’’اربعین‘‘ کا معدود (یعنی تمیز) ہے۔ اس لیے منصوب ہے علامت نصب اس میں آخری ’’ۃ‘‘ کی دو زبریں (فتحین) ہیں جسے نحو کی زبان میں تنوینِ نصب کہا جاتا ہے۔ ۱۱ سے ۹۹ تک کے اعداد کا معدود (تمیز) ’’واحد منصوب نکرہ‘‘ ہوتا ہے۔ خیال رہے یہاں ’’اربعین لیلۃ‘‘ مفعول بہ ہے ’’یعنی وعدہ دیا چالیس راتوں کا‘‘۔ اگر اسے  (اربعین لیلۃ کو) ظرف (مفعول فیہ) سمجھ کر منصوب قرار دیں تو مفہوم ہوجائے گا کہ ’’چالیس رات تک کی مدت میں یہ وعدہ لینے دینے کا کام ہوتا رہا‘‘ جو صاف ظاہر ہے غلط مفہوم ہے اور ’’چالیس راتوں کے وعدہ ‘‘ کا مطلب ’’چالیس راتیں دینا‘‘ نہیں کیونکہ رات کوئی لینے دینے  کی شے تو نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ’’چالیس راتیں (عبادت میں) مکمل کرنا ‘‘ ہے۔ اس لیے نحوی یہاں لفظ ’’اتمام‘‘ مقدر مانتے ہیں یعنی اِتمامَ اربعین لیلۃً‘‘۔ تاہم اُردو میں اس کا ترجمہ ’’چالیس راتوں کا‘‘ ہی کیا گیا ہے جس کا مفہوم ’’چالیس راتیں (عبادت کرنے) ‘‘ یا ’’چلہ مکمل کرنے‘‘  کا ہی ہے۔

(۲)   ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ

[ثم] عاطفہ (بمعنی اس کے بعد) ہے۔ یہ حرف (ثمّ) تراخی اور ترتیب کا مفہوم دیتا ہے یعنی ’’ثُمَّ‘‘ کے بعد بیان کردہ کام ’’ثم‘‘ سے پہلے بیان کردہ کام کے بعد واقع ہوا۔ [اتّخذتم] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ یہ فعل ’’ثم‘‘ کے ذریعے سابقہ جملے کے فعل ’’واعدنا‘‘ پر عطف ہے۔ یعنی اس کے بعد یہ کام ہوا کہ . . .[العِجْلَ] فعل ’’اتخذتم‘‘ کا مفعول اول ہے۔ فعل ثانی محذوف کردیا گیا ہے جو سیاقِ عبارت اور اس قصّہ کی تفسیری تفصیلات سے سمجھا جاتا ہے یعنی ’’اِلٰھًا‘‘۔ گویا عبارت ہے ’’اتخذتم العجل إلٰھًا‘‘ اور اسی لیے بعض مترجمین نے اس عبارت (اتخذتم العجلَ) کا ترجمہ ہی’’تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی‘‘ کرلیا ہے۔ باقی تراجم [۱:۳۳:۲ (۵)] کے آخر پر بیان ہوچکے ہیں۔ [من بعدہٖ] ’’مِنْ‘‘ حرف الجر ہے ’’بعد‘‘ ظرف مضاف اور مجرور بالجر ہے اور ’’ہ‘‘ ضمیر مجرور اس کا مضاف الیہ ہے۔ اس مرکب جارّی (من بعدہٖ) میں ضمیر مجرور (ہ) کا مرجع موسیٰ علیہ السلام ہیں جو اوپر ’’واعدنا موسی‘‘ میں مذکور ہیں۔ اور ’’بعدہ‘‘ سے مراد ’’ان کے (طور پر چلے) جانے کے بعد‘‘ ہے کیونکہ صرف نحوی ترکیب ہی کو ملحوظ رکھا جائے تو اس کا مطلب ’’اس (کی وفات) کے بعد‘‘ بھی ہوسکتا ہے مگر یہ تفسیر (اور تفصیل واقعہ) کے خلاف ہے۔ قرآن فہمی کے لیے ترکیب نحوی یا  اعرابی بحث کو سمجھنا ضروری تو ہے مگر بعض دفعہ خود ترکیب یا  اعراب ہی کسی غلط فہمی کا باعث بن سکتے ہیں اور معنیٔ مراد متعین کرنے کے لیے کسی عقلی یا نقلی دلیل سے بھی کام لینا پڑتا ہے [’’دلیل عقلی‘‘ ’’اربعین لیلۃ‘‘ کو مفعول فیہ سمجھنے کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اور ’’نقلی دلیل‘‘ (روایت) یہاں ’’بعدہ‘‘ کے معنی متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے] اس کے بعد [وَ]حالیہ ہے (یعنی صورتِ حال یہ تھی کہ) [انتم] ضمیر مرفوع منفصل بطور مبتدا آئی ہے اور [ظالمون] اس (مبتداء) کی خبر (لہٰذا) مرفوع ہے علامتِ رفع آخری ’’ن‘‘ سے پہلے والی واو ماقبل مضموم (ــــُـــــ وْ) ہے’’(ن‘‘ تو اعرابی ہے جو بعض دفعہ، مثلاً مضاف ہوکر، گر بھی جاتا ہے)۔ یہ جملہ اسمیہ (وانتم ظالمون) اپنے سے سابقہ جملے (اتخذتم العجل۔ ۲ مندرجہ بالا) کا حال ہوکر بلحاظ معنی اسی کا حصہ بنتا ہے۔

(۳) ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ

[ثم] حرف عطف مثل سابق (۲) ہے [عَفَوْنا] فعل ماضی معروف صیغہ متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ بطور فاعل مستتر ہے۔ [عنکم] میں ’’عن‘‘ حرف الجر اور ضمیر مجرور ’’کم‘‘ مل کر فعل ’’عَفَوْنَا‘‘ سے متعلق ہیں۔ یا  اس (فعل) کا مفعول بہ ہوکر (کیونکہ ’’عَنْ‘‘ یہاں صلۂِ فعل ہے) محلاً منصوب ہے۔ اور یہاں اصل مفعول (ذنبَکم) محذوف ہے یعنی ’’تم کو معاف کیا تمہارا گناہ‘‘۔ اسی لیے بعض مترجمین نے اس (عفونا عنکم) کا ترجمہ ’’تم کو معاف کیا جائے‘‘ کی بجائے ’’ہم نے تمہارا قصور معاف کردیا‘‘ہی کیا ہے (باقی لغوی تراجم دیکھئے ۱:۳۳:۲ (۹) میں [مِن بعدِ ذلک]’’من‘‘ جارّ ’’بعد‘‘ ظرف مضاف اور ’’ذٰلک‘‘مضاف الیہ ہے اور یہ مرکب اضافی (بعد ذلک)’’مِنْ‘‘ کی وجہ سے مجرور (بالجر) ہے اور اسی کا اثر ’’بعد‘‘ کی ’’د‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ) کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ اور یہ مرکب جارّی (من بعد ذلک) متعلق فعل ’’عَفَوْنَا‘‘ ہے اور ’’ذلک‘‘ میں اشارہ ’’اتخاذ العجل‘‘ (بچھڑے کو لے بیٹھنا) کی طرف ہے۔ [لعلکم] میں ’’لَعلّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل اور ’’کم‘‘ ضمیر منصوب اس کا اسم ہے۔ [تشکرون]فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ اس طرح یہ (تشکرون)فعل مع فاعل پورا جملہ فعلیہ ہے جو ’’لعلّ‘‘کی خبر کا کام دے رہا ہے لہٰذا اسے محلاً مرفوع بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ جملہ اسمیہ (لعلکم تشکرون) جسے بوجہ ’’لعلّ‘‘ جملۃ الرجاء بھی کہہ سکتے ہیں  (کیونکہ ’’لعل‘‘ میں رجاء یعنی امید کا امکان یا مفہوم ہوتا ہے۔) یہ بلحاظ مضمون یہاں سابقہ جملے (ثم عفونا عنکم من بعد ذلک) کا حال قرار دے سکتے ہیں (اگرچہ یہاں کوئی واو حالیہ نہیں ہے) گویا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ’’تم کو معافی دی اور اس حالت میں یہ امید کی جا سکتی تھی کہ تم شکر گزار بنوگے‘‘۔ اس کے مختلف تراجم حصّہ ’’اللغۃ‘‘ میں دیکھئے۔ جہاں ترجموں کے تنوع کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے۔

(۴)     وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ 

 [وَاذ] مثل سابق (یعنی عطف اور ظرف ہے۔ [آتینا] فعل ماضی معروف صیغہ متکلم مع ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ ہے۔ [موسی] فعل ’’آتینا‘‘ پہلا مفعول بہ ہے جس میں اسم مقصور ہونے کے باعث علامت نصب ظاہر نہیں ہے [الکتاب] اس فعل کا دوسرا مفعول بہ ہے (فعل آتیٰ یؤتِی متعدی بدو مفعول آتا ہے) اور اس میں علامتِ نصب آخری ’’ب‘‘ کی فتحہ ہے [وَ] عاطفہ اور [الفرقان] اس (وَ) کے ذریعے ’’الکتاب‘‘ پر معطوف ہے لہٰذا اس کا اعراب بھی وہی (نصب کا) ہے جو ’’الکتاب‘‘ کا ہے۔ اس (الفرقانَ) میں علامت نصب ’’ن‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے الفرقان کے لغوی معنی تو اوپر حصہ’’اللغہ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔  تاہم یہاں اس سے کیا مراد ہے؟ کیا ’’الکتاب‘‘ اور ’’الفرقان‘‘ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا یہ دو الگ الگ چیزیں تھیں۔ اس قسم کی تفصیل آپ کو کتب تفسیر میں ملے گی۔ [لعلکم] یہ بھی حرف مشبہ بالفعل ’’لعلّ‘‘ اور اس کے اسم منصوب (ضمیر ’’کم ‘‘) پر مشتمل ہے۔ اور  [تھتدون] فعل مضارع معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے اور یہ فعل مع فاعل (جملہ فعلیہ ہوکر) ’’لعلّ‘‘  کی خبر ہے جسے آپ محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں۔ اور یہاں بھی یہ جملہ اسمیہ  ’’لعلکم تھتدون‘‘ (اوپر والے ’’لعلکم تشکرون‘‘ کی طرح  ’’جملۃ الرجاء‘‘ ہو کر سابقہ جملے (واذ آتینا موسی الکتاب و الفرقان) کا حال ہوسکتا ہے یعنی ’’دریں حالت امید ہدایت تھی‘‘ کے مفہوم میں۔

 

۳:۳۳:۲     الرسم

زیر مطالعہ آیات (۵۱۔۵۳) میں بلحاظ رسم عثمانی صرف چار کلمات قابل ذکر ہیں یعنی  ’’وعدنا،ظلمون، الکتب اور ذلک ‘‘۔ باقی کلمات کا رسم املائی اور عثمانی یکساں ہے۔

 (۱) ’’وعدنا‘‘ جس کا رسم املائی  ’’واعدنا‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ (یہ لفظ قرآن  میں تین جگہ آیا ہے) ’’بحذف الالف بعد الواو‘‘ لکھا جاتا ہے جس سے اس کی شکل ’’وَعَدْنَا‘‘ کی طرح ہوجاتی ہے پھر بذریعہ ضبط اس الف کو ظاہر کیا جاتا ہے کیونکہ یہ صرف کتابت میں گرا دیا  جاتا ہے پڑھنے میں تو آتا ہے۔

(۲) ’’ظلمون‘‘ میں جس کا املائی رسم ’’ظالمون‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ (اور یہ لفظ قرآن میں بصورت جمع مذکر سالم ۱۲۵ کے قریب مقامات پر آیا ہے)  ’’حذف الف بعد الظاء‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ جمع مذکر سالم میں یہ حذف الف رسم عثمانی کا قاعدہ ہے۔

 (۳) ’’الکتب‘‘ جس کا رسم معتاد ’’الکتاب‘‘ ہے، قرآن کریم میں یہاں اور ہرجگہ (معرفہ ہو یا نکرہ) ’’بحذف الف بعد التاء‘‘ لکھا جاتا ہے۔ سوائے چار مقامات کے جہاں یہ باثبات الف (کتاب) لکھا جاتا ہے تفصیل دیکھئے البقرہ:۲ [۳:۱:۲] میں

(۴) ’’ذلک‘‘ رسم املائی اور عثمانی دونوں میں بحذف الف بعد الذال لکھا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے [۳:۱:۲] میں۔

 

۴:۳۳:۲     الضبط

          زیر مطالعہ آیات کے کلمات میں ضبط کے اختلاف یا تنوع کو حسب ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر قابل ذکر فرق ’’نون کے اقلاب بمیم‘‘ کا ہے جو آپ من بعدہ اور ’’من بعد ذلک‘‘ کے ضبط میں دیکھیں گے:۔


 



[1] ۔ مثلا اعراب القرآن (للنحاس) ج۱ ص۲۲۴، البیان (لابن الانباری) ج۱ ص ۸۲ اور البیان (للعکبری) ج۱ ص۶۲۔ نیز متعدد تفاسیر۔

[2] ۔۔دیکھئے البیان (للعکبری) ج۱ ص ۶۲۔۶۳۔ نیز القاموس (للفیروز آبادی) مادہ ’’موس‘‘

[3] دیکھئے البیان (للعکبری) ج۱ ص ۲۶۔ ۶۳۔ نیز القاموس (للفیروز آبادی) مادہ ’’موس‘‘

 

[4] ۔ مثلاً راغب نے ’’اخذ‘‘ کے علاوہ ’’تخذ‘‘ ایک الگ مادہ کے طور پر لیا ہے اور القاموس المحیط (فیروز آبادی) میں ’’اخذ‘‘ کے علاوہ ’’تخذ‘‘ مادہ بھی لیا گیا ہے اور وہاں (مادہ تخذ کے تحت) کتاب کے متن اور حاشیے میں ’’اتحاذ‘‘ کے ’’اخذ‘‘ یا ’’تخذ‘‘ سے مشتق ہونے یا نہ ہونے کے دلائل مذکور ہیں۔

 

[5] ۔  البستان مادہ عجل۔ اور الافصاح فی فقہ اللغۃ ج۲۔ ص ۷۹۹۔ فقہ اللغۃ (للثعالبی) باب ۱۴ فصل۴۔