سور ۃ البقرہ     آیت نمبر ۵۴

۳۴:۲     وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ   ۭ  ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىِٕكُمْ   ۭ   فَتَابَ عَلَيْكُمْ   ۭ   اِنَّہٗ  ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ  (۵۴)

۱:۴۳:۲       اللغۃ

[وَاِذْ] کے معانی و استعمال پر ابھی اوپر [۱:۳۳:۲]میں بات ہوئی تھی۔ اور یہ  (وَاِذ) اگلی آیات میں بھی (البقرہ:۸۴ تک) بتکرار آئے گا ’’وَ‘‘ کے معانی اور استعمالات کی وضاحت کے لیے دیکھئے الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱ (۳) ]اور البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۱) ]اور ’’اِذْ‘‘ کے استعمال اور معنی کے لیے دیکھئے البقرہ:۳۰[۱:۳۲:۲ (۱)]۔

[قَالَ مُوْسٰی] ’’قَالَ‘‘ کا مادہ ’’ق و ل‘‘اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’قَوَل‘‘ تھی جس میں اہل عرب واو متحرک ماقبل مفتوح کو الف میں بدل کرلکھتے اور بولتے ہیں اور یوں  ’’قَوَلَ‘‘ سے ’’قَالَ‘‘ ہو جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’قال یقول قولاً‘‘ (کہنا) کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۴)]میں بات ہوچکی ہے۔ اس فعل مجرد کے متعدد صیغے اس سے پہلے گزر چکے ہیں۔

’’موسٰی علیہ السلام ‘‘  ایک معروف پیغمبر کا نام ہے۔ ویسے اس لفظ  (عَلَم) کی اصل کے بارے میں البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۲) ]میں وضاحت کی گئی تھی۔ اس طرح ’’واذ قال موسٰی‘‘ کا ترجمہ ہوا ’’اور جب کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے:

۱:۳۴:۲ (۱)     [لِقَوْمِہٖ] یہ  لام الجر + قوم + ہ (ضمیر مجرور متصل) کا مرکب ہے۔ اس میں لام (لِ) تو فعل ’’قال‘‘ کے ساتھ استعمال ہونے والا صلہ ہے قال لِ. . . . .= اس نے . . . . .کو / سے کہا۔  ضمیر (ہٗ) کا ترجمہ یہاں ’’اس کی‘  اپنی‘‘ ہے۔ اس طرح  ’’لِقومِہٖ‘‘ کا ترجمہ ’’اپنی قوم سے‘‘ یا ’’اپنی قوم کو ‘‘بنتا ہے جسے بعض نے ’’اپنی قوم کے لوگوں سے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔

·       لفظ ’’قَوْمٌ‘‘ (جو عبارت میں خفیف اور مجرور آیا ہے) کا مادہ ’’ق و م‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ یہ مادہ کثیر الاستعمال اور اس کے مشتقات کثیر المعانی ہیں۔ اس مادہ سے فعل مجرد( قام یقوم= کھڑا ہونا) کے باب اور معنی وغیرہ پر الفاتحہ:۶ [۱:۵:۱ (۴)]میں اور پھر البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۲) ]میں اس سے مزید فیہ کے ابواب (استفعال اور اِفعال) کے ساتھ بحث گزر چکی ہے۔

·       لفظ ’’قَوْم‘‘ اس مادہ سے ایک اسم جامد ہے جس کے معنی ہیں ’’لوگوں کی ایسی جماعت جن کو کوئی ایسی چیز (یکجا) جمع کرتی ہو جس کی خاطر وہ سب سرگرم عمل ہوں‘‘۔عربی میں بنیادی طور پر یہ لفظ صرف ’’مردوں کی جماعت‘‘ پر بولا جاتا ہے (اس کی ایک مثال الحجرات:۱۱ میں ہے) اگر چہ بعض دفعہ اس میں عورت بھی شامل سمجھی جاتی ہے (دیکھئے القاموس للفیروز آبادی)۔ قریبی رشتہ داروں اور حامیوں وغیرہ کو بھی کسی آدمی کی ’’قوم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ مذکر مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے (قرآن کریم میں دونوں استعمال آئے ہیں) ـــــــــــکبھی کبھی یہ لفظ (کسی خاص سیاق میں)  ’’اعداء‘‘  (دشمنوں) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (مگر یہ استعمال قرآن میں نہیں آیا)

·       اگرچہ اس لفظ کی جمع مکسر’’اقوام‘‘ وغیرہ بھی آتی ہے (قرآن میں نہیں) تاہم خود لفظ ’’قوم‘‘ اسم جمع ہے اور اس کی صفت اسی لحاظ سے آتی ہے۔ مثلاً ’’قومٌ جاھلون‘‘ (جاہل لوگ)۔ اردو میں ’’قوم‘‘ کا ترجمہ ’’لوگ‘‘ کیا جاسکتا ہے (جو خود اردو میں اسم جمع ہے) اگرچہ خود لفظ ’’قوم‘‘ بھی اردو میں مستعمل ہے۔ آج کل جو اردو لفظ ’’قومیت‘‘  بمعنی nationality ) )استعمال ہوتا ہے۔ اس کے لیے عربی میں لفظ  ’’الجنس‘‘ اور ’’الجنسیۃ‘‘ استعمال ہوتے ہیں۔

·       اور کسی ایک ملک میں رہنے والے لوگوں کو ’’وہاں کی قوم‘‘ کہا جاتا ہے مثلاً پاکستانی ایک قوم ہیں اسی طرح مصری، ایرانی (وغیرہ) ایک قوم ہیں تو ان معنی کے لیے عربی لفظ ’’اُمَّۃ‘‘ (یا ’’شَعْب‘‘)  استعمال ہوتا ہے جس کی جمع ’’اُمَمٌ‘‘ اور ’’شعوب‘‘)ہوتی ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ (UNO) کو عربی میں ’’الامم المتحدہ‘‘ کہتے ہیں حالانکہ لفظ ’’اقوام‘‘ بھی عربی لفظ ہے مگر وہاں یہ لفظ ان معنی کے لیے مستعمل نہیں جس کے لیے ہم اسے اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ لفظ ’’قوم‘‘ مختلف صورتوں (مفرد مرکب معرفہ نکرہ) میں چار سو کے قریب (۳۸۳) مقامات پر وارد ہوا ہے۔

[یٰقَوْمِ] میں  ’’یا‘‘ تو حرف ندا بمعنی ’’اے‘‘ ہے۔ اور ’’قَوم‘‘ دراصل ’’قَوْمِی‘‘ (میری قوم۔ میرے لوگو) ہے۔ عرب لوگ کئی دفعہ ’’یَ‘‘ یعنی یائی متکلم مضاف الیہ (مجرور) کو لکھنے اور بولنے میں گرا دیتے ہیں اور اس کے مضاف کے آخر پر صرف کسرہ (ـــــِــــ)لکھتے اور بولتے ہیں۔ یہ کسرہ (ــــــِــــ) ہی ساقط ہونے والی ’’ی‘‘ کی نشانی ہوتی ہے۔ لفظ ’’قوم‘‘ پر لغوی بحث ابھی اوپر کی جاچکی ہے۔ یہاں  ’’یاقوم‘‘ کا ترجمہ تو ہے ’’اے میری قوم‘‘ جسے بعض نے صرف ’’اے قوم‘‘ ہی رہنے دیا ہے (کیونکہ اس سے پہلے  ’’لقومہٖ =اپنی قوم سے (کہا) ‘‘ ا ٓیا ہے) او بعض نے خالص اردو محاورے کے مطابق اس کا ترجمہ ’’بھائیو!‘‘ کیا ہے۔

[اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ] ’’اِنّکم‘‘ تو ’’اِنَّ‘‘(بے شک) اور ’’کم‘‘ (تم) کا مرکب ہے جس کا ترجمہ ’’تحقیق/بے شک/یقیناً  تم نے‘‘ ہے۔

 [ظَلَمْتُمْ] کا مادہ ’’ظ ل م‘‘ اور وزن  ’’فَعَلْتُمْ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد  (ظلَم یظلِم) کے باب معنی وغیرہ کی وضاحت البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲ (۱۰)]میں کی جاچکی ہے۔ یہاں اس کا ترجمہ ’’تم نے ظلم کیا/ نقصان کیا/ بڑا نقصان کیا/ بڑا ہی ظلم کیا/ تباہ کیا‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اس میں ’’بڑا‘‘ اور ’’بڑا ہی‘‘ کا استعمال محاورے کا زور پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

[اَنْفُسَکُمْ]جو انفس + کم (تمہارا/ تمہاری) ہے۔ اس میں لفظ ’’اَنْفُسٌ‘‘)جو عبارت میں خفیف اور منصوب ہے جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) کا مادہ ’’ن ف س‘‘ اور وزن  ’’اَفْعَلٌ‘‘ ہے۔ یہ ایک جمع مکسر ہے۔ اس کاواحد ’’نَفْسٌ‘‘  بروزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ کے نہ صرف فعل مجرد کے باب و معنی وغیرہ بلکہ لفظ  ’’انفس‘‘ کی لغوی بحث اس سے پہلے البقرہ:۹ [۱:۸:۲ (۴)]میں کی جاچکی ہے۔ یہاں اوپر والے فعل ’’ظلمتم‘‘ کے مختلف تراجم کی مناسبت سے ’’انفسکم‘‘ کا ترجمہ ’’اپنی جانوں پر/ اپنا/ اپنے اوپر ہی/ اپنے اوپر/ اپنے تئیں‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔

[بِا تِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ]یہ  ’’بِ + اتخاذ + کم + العجل‘‘ کا مرکب ہے یہاں ’’باء‘‘(ب) سببیت کے لیے ہے جس کے معنی ہیں:’’ . . . کی وجہ سے/ کے ذریعے/ کے سبب سے‘‘۔  ’’باء‘‘ کے مختلف معانی اور استعمال کی بحث ’’استعاذۃ‘‘ میں اور پھر البقرہ:۴۵ [۱:۳:۲ (۱) ]میں ہوچکی ہے [اتخاذٌ]کا مادہ ’’ا خ ذ‘‘ یا (بقول بعض ’’ت خ ذ‘‘) ہے اور وزن ’’اِفتعال‘‘  ہے یعنی یہ باب افتعال کا مصدر ہے (جو عبارت میں خفیف اور مجرور ہے جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)۔ اس مادہ (اخذ) سے فعل مجرد کے باب و معنی پر البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۵)]میں بات ہوئی تھی۔ اور باب افتعال کے فعل  (اتخذ یتخذ) کے معنی وغیرہ پر مفصل بحث البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۵)] میں کی جاچکی ہے۔ (بنانا، پکڑنا، بنا لینا وغیرہ)  [العجل] کے مادہ اور معنی وغیرہ پر اوپر البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۶)]میںـــــاس کا ترجمہ ’’بچھڑا‘‘ ہے۔

اس ترکیب (باتخاذکم العجل) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’بسبب تمہارے پکڑنے/بنانے بچھڑے کو کے‘‘ جس کا سلیس اور بامحاورہ ترجمہ ’’تمہارا بچھڑے کو بنا لینے کی وجہ سے‘‘، ’’تمہارا بچھڑے کو اختیار کرنے/مقرر کرلینے کے سبب سے‘‘ کیا گیا ہے۔ جسے بعض نے مصدر کی بجائے حال سے ترجمہ کیا ہے: ’’بچھڑے کو بنا کر، ٹھہرا کر‘‘ اور بعض نے تفسیری ترجمہ ’’پوج کر‘‘ کر لیا ہے اوربعض نے محاورہ، اختصار (اور تفسیر ) کو سامنے رکھتے ہوئے ’’اپنی گوسالہ پرستی/ گوسالہ گیری/ سے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ اس عبارت پر مزید بحث حصہ  ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی جس سے ان مختلف تراجم میں فرق کی نحوی بنیاد کا پتہ چلے گا۔

۱:۳۴:۲ (۲)     [فَتُوْبُوْا] میں ابتدائی فا (فَ) تو عاطفہ (بمعنی پس، اس لیے) ہے۔

اور  [تُوْبُوْا] کا مادہ ’’ت و ب‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعَلُوْا‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’اُتْوُبُوْا‘‘ تھا جس میں متحرک حرف علت (جو یہاں ’’وُ‘‘ ہے) کی حرکت (ــــُـــــ)اس سے ماقبل حرف صحیح(جو یہاں ’’ت‘‘ ہے) کو  دے دی جاتی ہے۔ پھر ابتدائی ہمزۃ الوصل کو (کتابت اور تلفظ دونوں میں) ساقط کردیا جاتا ہے ۔ کیونکہ اب ’’ت‘‘ کے متحرک ہوجانے کی بنا پر اس کی ضرورت نہیں رہتی گویا ’’اُتْوُبُوْ= اُتُوْبُوْا = تُوْبُوْا‘‘  (جس کاوزن اب ’’فُوْلُوْا‘‘ رہ گیا ہے)

·       اس ثلاثی مادہ  (توب) سے فعل مجرد ’’تاب یتوب تَوْبۃً‘‘ (توبہ کرنا، باز آنا وغیرہ) کے باب، معنی اور مختلف صلات کے ساتھ استعمال کے بارے میں البقرہ: ۳۷ [۱:۲۷:۲ (۴)]میں وضاحت کی جاچکی ہے [تُوْبُوْا] اس فعل مجرد سے فعل امر معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ہے ’’تم باز آجاؤ/ توبہ کرو‘‘ جسے بعض مترجمین نے ’’تم متوجہ ہو/ رجوع لاؤ‘‘ کی صورت  میں ترجمہ کیا ہے جو اس فعل (تاب یتوب) کے بنیادی معنی (  لوٹنا، توجہ کرنا، رجوع کرنا) پر مبنی ہے۔ اس سے فعل امر کی گردان ہوگی تُبْ۔ تُوْبا۔ تُوْبُوا۔ تُوْبِی۔ تُوْبا۔ تُبْن۔

۱:۳۴:۲ (۳)          [اِلٰی بَارِئِکُمْ ]یہ ’’الی + بَارِیْ + کُمْ‘‘ کا مرکب ہے۔ اس میں  ’’اِلٰی‘‘ تو یہاں سابقہ فعل (توْبُوْا) کا صلہ ہے ’’تو بوا الی. . . . = تم توبہ کرو/ باز آجاؤ/ متوجہ ہو. . . .کی طرف/ کی جانب/ کے آگے‘‘۔ آخری ’’کُمْ ‘‘ ضمیر مجرور (یہاں) بمعنی ’’تمہارا/ اپنا‘‘ ہے بعض نے یہاں احتراماً ’’الی. . . . . ‘‘ کا ترجمہ  ’’. . . . کی جناب میں‘‘ سے کیا ہے۔

·       لفظ ’’بَارِیٌٔ‘‘ (جو عبارت میں مجرور بالجر اور آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بصورت ’’بَارِی‘‘ آیا ہے) کا مادہ ’’ ب ر ء‘‘ اور وزن ’’فاعِلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً

(۱) بَرِیَٔ یَبْرَأُ بَرَاءَۃً‘‘ (سمع سے) کے معنی ہیں: ’’الگ ہونا، خلاصی پانا، بیزار ہونا،بے تعلق ہونا، برکنار ہونا، بری ہونا‘‘ـــــــــــ  یہ فعل زیادہ تر کسی ناگوار شے مثلاً بیماری، قرض یا عیب سے خلاصی پانے یا کسی آدمی سے الگ ہونے کے لیے استعما ل ہوتا ہے اور اس پر’’مِنْ‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’بَرِیَٔ مِنَ العیبِ/ التھمۃِ/ الدَّیْنِ/ المرض/ فلانٍ‘‘ (وہ عیب/ تہمت/ قرض/ بیماری/ فلاں آدمی سے خلاصی پاگیا/ الگ ہوگیا)۔ اس الگ یا برکنار یا بے تعلق ہونے والے کوعربی میں  ’’بَرِیٌٔ‘‘ (بروزن  فَعِیْلٌ) کہتے ہیں۔ مندرجہ بالا معنوں کے لیے قرآن کریم میں اس سے کوئی صیغۂ فعل تو نہیں آیا مگر اس سے مشتق اسم صفت ’’بَرِیٌٔ‘‘ ۱۱ جگہ اور اس کا مصدر ’’براء ۃ‘‘ دو جگہ آیا ہے ۔بلکہ ’’بَرِیءٌ‘‘ہی کے معنی میں اردو میں لفظ ’’بری‘‘ استعمال ہوتا ہے اسی لیے  ’’برِیَٔ یبرأُ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’بری ہونا‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور ’’ بَرِیءٌ ‘‘ ہی کے ہم معنی لفظ ’’بَرائٌ‘‘(بروزن فَعَالٌ) ہے یہ لفظ بھی قرآن کریم میں آیا ہے (الزخرف ۲۶)  اور ان دونوں کلمات (بَرِیٌٔ اور بَرائٌ) کی جمع مکسر ’’ بُرَءٰۗؤُ ‘‘ (غیر منصرف بروزن  فُعَلائُ) بھی قرآن کریم  میں آئی ہے (الممتحنہ:۴)۔ اہل حجاز خاص طور پر بیماری سے بری (شفایاب) ہونے کے لیے یہی فعل باب ’’فتح ‘‘سے بھی بولتے ہیں مثلاً کہتے ہیں  ’’بَرَأَمن المرضِ ‘‘ــــــــــ اور شاذ یہ فعل باب کرُم سے بھی آتا ہے مثلاً ’’بَرُؤ یَبْرُئُ الرجلُ‘‘ کا مطلب ہے ’’آدمی کا نیک نیت یا کھرا ہونا‘‘ ـــــــ اس سے توصفت  ’’بَرِیءٌ‘‘ ہی آئے گی۔

(۲) بَرَأَ. . . . . یَبْرَأَ بَرَءًا (باب فتح سے) بطور فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’. . . . .کو پیدا کرنا،. . . . .کو عدم سے وجود میں لانا‘‘ بعض اہلِ لغت ’’خلَق‘‘ اور ’’بَرَأَ‘‘ میں یہ فرق کرتے ہیں کہ ’’خلَق‘‘  ’’جاندار بے جان سب چیزوں کے پیدا کرنے‘‘ کے لیے آتا ہے۔ جب کہ ’’بَرَأَ‘‘ خاص جاندار چیزوں ہی کے بارے میں آتا ہے۔ــــــ [1]  اس فعل مجرد( باب فتح) سے اور ان معنی میں فعل مضارع معروف کا صرف ایک صیغہ ایک ہی جگہ قرآن کریم میں آیا ہے (الحدید:۲۲) البتہ اس سے اسم الفاعل ’’بَارِیٌٔ‘‘ قرآن میں تین جگہ آیا ہے۔ دو جگہ تو اسی زیر مطالعہ آیت میں اور ایک دفعہ (الحشر:۲۴) میں بصورت ’’ الْبَارِئُ ‘‘ (معرف باللام) آیا ہے۔

·       بعض حضرات نے دوسرے معنی (پیدا کرنا) کی پہلے معنی (الگ کرنا) کے ساتھ یہ مناسبت بیان کی ہے کہ گویا ایک چیز کو نیستی یا عدم سے الگ کرکے ہستی یا وجود کی طرف لایا جاتا ہے۔  [2] فعل مجرد کے ایک صیغے کے علاوہ قرآن کرم میں اس مادہ سے بابِِ افعال، تفعیل اور تفعل سے مختلف صیغہ ہائے فعل ۹ جگہ آئے ہیں۔ اور مختلف مشتق اسماء اور مصادر وغیرہ ۲۱ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ  ’’باریٌٔ‘‘ اس فعل مجرد (بمعنی پیدا کرنا) سے اسم الفاعل ہے اس کا ترجمہ ’’پیدا کرنے والا‘‘ ہے جسے بعض نے ’’خالق‘‘ اور بعض نے ’’خدا‘‘ کی صورت میں ترجمہ کر لیا ہے۔ ’’الی‘‘ کا ترجمہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح اس عبارت ’’الی بارِئکم‘‘ کا ترجمہ سابقہ فعل (فتوبُوا) کے ساتھ ملا کر کیا جائے گا یعنی ’’فتوبوا الی بارِئکم‘‘ (پس تم توبہ کرو/ متوجہ ہو/ رجوع کرو اپنے پیدا کرنے والے/ خالق/ خدا کی طرف/ کی جانب/ کی جناب میں)۔ اس ترجمے کے تمام اجزاء کی لغوی بحث (الگ الگ) اوپر گزری ہے۔

۱:۳۴:۲ (۴)     [فَاقْتُلُوْا] ابتدائی فاء (ف) عاطفہ (بمعنی’’اس لیے‘‘) ہے ’’فاء‘‘(ف) کے معنی اور استعمال کی وضاحت البقرہ:۲۲ [۱:۱۶:۲(۱۰)]میں کی جاچکی ہے۔اور ’’اُقْتُلُوْا‘‘ کا مادہ ’’ق ت ل‘‘ اور وزن ’’اُفْعُلُوْا‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد کا صیغۂ امر (جمع مذکر حاضر) ہے جس کا ابتدائی مضموم ہمزۃ الوصل ’’فائے عاطفہ‘‘ سے ملاتے وقت تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے (اگرچہ کتابت میں موجود رہتا ہے)

اس مادہ سے فعل مجرد ’’قَتَل. . . . .یقتُل قَتلًا (نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں:. . . .کو مارڈالنا،. . . . کو قتل کرنا‘‘۔ (لفظ ’’قتل‘‘ اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے)۔ یہ مادہ اور اس سے اَفعال اور دیگر مشتقات قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً صرف فعل مجرد سے اَفعال کے مختلف صیغے ۸۰ سے زائد جگہ آئے ہیں۔ اور مزید فیہ کے ابواب تفعیل، مفاعلہ اور افتعال سے مختلف صیغہ ہائے فعل ۶۱ جگہ اور مختلف مصادر اور اسمائے مشتقہ و جامدہ ۲۵ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان سب کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

’’فاقتلوا‘‘   کا ترجمہ ’’قتل کرو، مارو، مار ڈالو، ہلاک کرو‘‘ کیا گیا ہے بعض نے اس کا ترجمہ ’’کھوؤ‘‘ سے کیا ہے جو مبہم بھی ہے اور لفظ سے ہٹ کر بھی ہے۔

[انفُسَکُمْ] کے معنی وغیرہ ابھی اوپر [۱:۳۴:۲ (۱)] کے بعد اور [۱:۳۴:۲ (۲)] سےپہلے بیان ہوچکے ہیں  (’’ظُلمتم انفسکم‘‘ کے ضمن میں دیکھئے)۔ جب کوئی مادہ پہلی دفعہ آتا ہے (اسم کی صورت میں ہو یا فعل یا حرف کی شکل میں) تو اس کے ساتھ قطعہ بندی کا حوالہ نمبر دے کر اس پر لغوی بحث وہیں کرلی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس مادہ سے جو بھی کلمہ آتا ہے اس پر حوالہ نمبر نہیں دیا جاتا بلکہ اس سے ماقبل صرف ایک لکیر ڈال دی جاتی ہے ایسے کلمات کے لیے گزشتہ حوالے کی ضرورت پر اس سے ماقبل اور مابعد والے حوالے کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ جیسے یہاں ’’انفسکم‘‘ کے لیے کیا گیا ہے۔ ویسے ’’ن ف س‘‘ مادہ پہلی دفعہ البقرہ:۹ یعنی [۱:۸:۲ (۴)]میں سامنے آیا تھا۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں  ’’انفسکم‘‘ کا ترجمہ گزشتہ فعل ’’فاقتلوا‘‘ (قتل کرو) کے ساتھ ملا کر کیا جائے گا یعنی ’’اپنی جانوں کو‘‘۔ یا اپنی جانیں‘‘۔ بعض مترجمین نے غالباً مضمون کی وضاحت (یا تفسیر) کے پیش نظر اس کا ترجمہ ’’بعض آدمی‘ بعض کو‘‘ اور ’’اپنے لوگوں کے ہاتھوں اپنے تئیں‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے اس کا ترجمہ ’’اپنے اشخاص کو‘‘ کیا ہے جو اصل سے بھی بھاری بھر کم ہے۔

۱:۳۴:۱ (۵)     [ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ] یہ ایک جملہ اسمیہ ہے جس کا مبتدأ  ’’ذٰلکم‘‘ دراصل  ’’ذٰلِک‘‘ ہی ہے (بمعنی ’’وہ‘‘) جس پر کافِ خطاب کا اضافہ ہوگیا ہے اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور [خَیْرٌ] کا مادہ ’’خ ی ر‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’خارَ یخِیْر خَیْرًا‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور یہ لازم متعدی دونوں طرح مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’خار الرجلُ‘‘ (لازم) کے معنی ہیں۔ خیر والا ہونا، اچھے حالات میں ہونا، سازگار ہونا ‘‘۔ اور خار الرجلَ علی. . . .‘‘ (متعدی) کے معنی ’’. . . . . آدمی کو. . . .پر فضیلت دی ہے‘‘۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ مزید فیہ کے ابواب افتعال اور تفعّل سے مختلف صیغہ ہائے فعل کل ۶ جگہ آئے ہیں۔ اور اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق مصادر اور اسماء وغیرہ بکثرت (۱۹۰ جگہ) آئے ہیں جن میں خود یہی لفظ (خَیْر) مختلف صورتوں (مفرد مرکب معرفہ نکرہ) ۱۷۶ جگہ وارد ہوا ہے۔

·       یہ لفظ (خَیْر) دراصل اس مادہ (خ ی ر) سے افعل التفضیل ہے یعنی یہ دراصل ’’اَخْیَرُ‘‘ تھا۔ مگر یہ لفظ عربی زبان میں اسی شکل (خیْر) میں (لفظ ’’شرٌّ‘‘ کی طرح اور اس کے مقابلے پر)  افعل التفضیل کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’ذٰلک خیرٌ من ھذا ‘‘(وہ اِس سے زیادہ اچھا ہے) اور ’’خیر الراحمین‘‘ (رحم کرنے والوں میں سے سب سے اچھا)۔ جب لفظ ’’خیر‘‘ افعل التفضیل کے معنی میں استعمال ہو تو اس کا اُردو ترجمہ ’’بہتر، زیادہ بہتر، زیادہ اچھا، خوب تر‘‘ سے کیا جاتا ہے۔

·       افعل التفضیل (Superlative Degree) کے علاوہ لفظ ’’خَیْرٌ‘‘ عام اسم یا مطلق صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی: ’’بھلائی نیکی، مال دولت، کامل خیر، اچھا، عمدہ، خوشگوار‘‘ ہوتے ہیں بلکہ بقول راغب اصفہانی ہر وہ شے جس کی طرف رغبت اور میلان سب میں پایا جاتا ہو، جو مرغوب اور دل پسند ہو وہ ’’خیر‘‘ ہے۔ جیسے حکمت کو (قرآن میں) ’’خیر کثیر‘‘ کہا گیا ہےــــــــ   ’’خَیْر‘‘ کی جمع  ’’اخیار‘‘ بمعنی ’’اچھے لوگ‘‘ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ اور اسی معنی میں اس کی جمع ’’خِیار‘‘ بھی آتی ہے جو اگرچہ قرآن میں تو نہیں آئی مگر احادیث نبویہ میں استعمال ہوتی ہے۔

·       لفظ ’’خَیْر‘‘ جب افعل التفضیل کے طور پر نہیں بلکہ مطلقاً صفت (اچھا، عمدہ، بھلا کے معنی میں)   ہو تو مونث کے لیے اس کے آخر پر تائے تانیث (ۃٌ) بھی لگا لیتے ہیں اور ’’خَیرۃٌ‘‘ ہی کی جمع  ’’خیراتٌ‘‘ آتی ہے (یعنی اچھے کام۔ اچھی باتیں) اور اسی سے’’ خَيْرٰتٌ حِسَانٌ ‘‘ (الرحمٰن:۷۰)بمعنی ’’اچھی خوبصورت عورتیں‘‘ آیا ہے۔ اگر تفضیل کے معنی میں ہو تو ’’خیرۃ الناس‘‘ کہنا غلط ہے بلکہ ’’فلانہ خیرُ الناس یا خیر النساء‘‘ (فلاں عورت سب مردو ں یا عورتوں سے بہتر/ زیادہ اچھی ہے) کہیں گے۔ اسی طرح یہ لفظ بصورت ’’اَخْیَرُ‘‘ (جو اس کی اصل شکل تھی) بھی استعمال نہیں ہوتا اور ’’خیر‘‘ کا تثنیہ یا جمع بھی عموماً استعمال نہیں ہوتا کیونکہ یہ زیادہ بمعنی ’’افعلُ مِن. . . . ‘‘ ہی استعمال ہوتا ہے۔

·       زیر مطالعہ عبارت میں لفظ ’’خَیْرٌ‘‘ بطور افعل التفضیل ہی استعمال ہوا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’بہتر‘‘ سے ہی کیا گیا ہے اگرچہ یہاں اسے عام اسم صفت بھی سمجھا جاسکتا ہے [لَکُمْ] (جو لام الجر + ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ ہے) کا ترجمہ تو بنتا ہے ’’تمہارے لیے‘‘ جسے بعض مترجمین نے ’’تمہارے حق میں‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یوں اس پورے جملے ’’ذلکم خیر لکم‘‘ کا ترجمہ ’’وہ/ یہ بہتر ہے تمہارے لیے/ تمہارے حق میں‘‘ کی صورت میں ہوسکتا ہے۔

۱:۳۴:۲ (۶) [عِنْدَ بَارِئِکم] ’’بارئکم‘‘ابھی اوپر گزر چکا ہے۔

یعنی [۱:۳۴:۲ (۳)]جس کاترجمہ ’’تمہارا پیدا کرنے والا‘‘ ہے [عِنْدَ] کا مادہ ’’ع ن د‘‘ اور وزن ’’فِعْلَ‘‘ ہے۔ یہ لفظ بطور اسم معرب (عِنْدٌ) شاذ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’عَنَدَ یَعْنُدُ عَنودًا ، عَنِدَ یَعْنَدُ عَنودًا ، عَنَدَ یَعْنِدُ عَنودًا ، عَنُدَ یَعْنُدُ عَنودًا‘‘ (نصر، سمع، ضرب اور کرم سے) آتا ہے ا  ور اس کے معنی ’’دور جانا، مڑ جانا، پھر جانا (جانتے بوجھتے حق کی مخالفت کرنا) کہتے ہیں ’’عنَد/عَنِدَ/عَنُدَ فلانٌ‘‘ (فلاں نے دانستہ حق کی مخالفت کی) عربی زبان میں اس مادہ سے مزید فیہ کے ابواب مفاعلہ، افتعال وغیرہ سے بھی مختلف معانی کے لیے اَفعال استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغہ ءفعل استعمال نہیں ہوا۔ البتہ صرف اسم صفت ’’عَنِیْدً‘‘ چار جگہ آیا ہے جو بلحاظ معنی مذکورہ بالا فعل مجرد سے ہی مشتق ہے ـــــــــــــ اسی مادہ سے ایک لفظ ’’عِناد‘‘ (جو باب مفاعلہ کا ایک مصدر ہے) اردو میں بھی اپنے اصل عربی معنی (شدید مخالفت اور دشمنی) کے ساتھ مستعمل ہے۔

·       ’’عِندَ‘‘ بنیادی طور پر ظرفِ مکان کے لیے بطور اسم ہے اور یہ ہمیشہ مضاف ہوکر استعمال ہوتا ہے۔ (اسی لیے اس پر تنوین نہیں آئی) اور بوجہ ظرفیت ہمیشہ منصوب آتا ہے۔ (اسی لیے اس کی ’’د‘‘ مفتوح آتی ہے) اس کے بنیادی معنی ’’. . . . کے پاس ہیں‘‘ اور یہ حاضر اور غائب چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’عندی مصحف‘‘ (میرے پاس ایک نسخہ ءقرآن ہے) کا مطلب (۱) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصحف اس وقت میرے پاس موجود ہے اور (۲) یہ بھی کہ میرے گھر میں ہے یعنی میری ملکیت میں ہے ـــــ    بعض دفعہ یہ ظرف زمان کے طور پر بھی آتا ہے مثلاً ’’عندَ الفجر‘‘ (فجر کے قریب)۔ اس سے پہلے ’’مِنْ‘‘  (حرف الجر) بھی لگتا ہے اور یہ مجرور ہوکر استعمال ہوتا ہے (معنی وہی ظرف والے رہتے ہیں) مثلاً ’’مِنْ عندِہ‘‘ (اس کے پاس سے، اس کی طرف سے)۔ ’’مِنْ‘‘ کے علاوہ دوسرا کوئی حرف جر اس سے پہلے نہیں آتا  مثلاً ’’ذھبتُ الی عندہ‘‘ کہنا بالکل غلط ہے۔ (جو بعض جاہل عرب عوام بولتے ہیں) اس کی بجائے ’’ذھبتُ الیہ‘‘ (میں اس کے پاس گیا) کہنا چاہیے۔

·       بلحاظ موقع استعمال ’’عندَ‘‘ مختلف  مفہوم دیتا ہے۔ اگرچہ سب کی بنیاد ’’قرب‘‘ (پاس ہونا) ہی ہے مثلاً (۱) خیال اور اعتقاد کے لیے۔ جیسے کہیں ’’عِنْدی کَذا‘‘ (میرے نزدیک/ میرے خیال اور اعتقاد کے مطابق ’’یوں ‘‘ہے )۔(۲) ملکیت کے مفہوم کے لیے۔ جیسے  ’’عِنْدی مالٌ‘‘ (میرے پاس مال ہے یعنی میں مال رکھتا ہوں) (۳) ’’فیصلہ کے مفہوم میںــــــ مثلاً عندی ھذا افضل من ھذا (میرا فیصلہ ہے کہ یہ اس سے اچھا ہے) (۴) رضا کاری کے مفہوم کے لیے مثلاً’’ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ  ‘‘ (القصص:۲۷) یعنی ’’اگر تو دس برس پورے کردے تو یہ تیری مہربانی یا رضاکارانہ (بلا جبر) ہوں گے‘‘۔

اردو میں ان تمام مواقع استعمال کے لحاظ سے ’’عِندَ‘‘ کا ترجمہ (۱). . . . .کے پاس (۲). . . . .کے ہاں (۳). . . . .کے نزدیک (۴). . . . . کے خیال میں  (۵). . . . .کے لگ بھگ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے اور ’’مِن عندِ‘‘. . . . . کا ترجمہ حسب موقع (۱) ’’ . . . . .کی طرف سے‘‘. . . . .کی جانب سے‘‘ (۳) ’’ . . . . .کے پاس سے‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔

·       عربی زبان میں  ’’عِنْدَ‘‘ کے ہم معنی اور اسی کی طرح اضافت کے ساتھ بطور ظرف استعمال ہونے والے دو اور اسم (ظرف)’’لَدٰی‘‘ اور ’’لُدَنْ‘‘ ہیں۔ بظاہر ان کا ترجمہ بھی’’. . . . .کے پاس‘‘ ہی کیا جاسکتا ہے مگر مفہوم اور استعمال میں قدرے فرق ہوتا ہے۔ ’’لدی‘‘ کا تلفظ اسم ظاہر یا ضمیر کی طرف مضاف ہوتے وقت مختلف ہوتا ہے۔ اور ’’لدُن‘‘ کسی غیر حاضر یا غیر موجود (غائب)  چیز کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ مزید تفصیل ان الفاظ کے اپنے موقع پر آئے گی۔

·       اس طرح یہاں’’عندَ بارئکم‘‘ کا ترجمہ بیشتر مترجمین نے ’’تمہارے خالق/ پیدا کرنے والے کے نزدیک‘‘ سے ہی کیا ہے اگر چہ بعض نے صرف ’’ . . . . کے پاس یا. . . . .کے ہاں‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے۔

۱:۳۴:۲ (۷)     [فَتَابَ عَلَیْکُمْ] یہ جملہ فعلیہ ’’فَ‘‘ پس، اس کے بعد) + تَابَ (جن پر ابھی بات ہوگی + علی (پر) + کُمْ (تم) کا مرکب ہے۔

اس میں ’’تابَ‘‘ کا مادہ ’’ت و ب‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’تَوَبَ‘‘ تھا جس میں واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے اور ’’تَابَ‘‘ ہوجاتا ہے۔ اب اس کا وزن’’فَالَ‘‘ رہ گیا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’تابَ یتوبُ توبۃ‘‘ کے باب ،معنی اور استعمال پر البقرہ:۳۷ [۱:۲۷:۲ (۴)]میں مفصل بات ہوئی تھی۔ وہاں  یہ بھی بیان ہوا تھا کہ فعل ’’تابَ اِلٰی. . . . . ‘‘ کے معنی ’’بندے کا (رب کے سامنے) توبہ کرنا‘‘ اور تابَ عَلٰی. . . .  کے معنی  ’’اللہ کا (بندے) کی توبہ قبول فرمانا‘‘ ہوتے ہیں۔ آیتِ زیر مطالعہ میں ’’تاب‘‘ کے یہ دونوں استعمال آگئے ہیں۔ ابھی اوپر [۱:۳۴:۲(۲)]میں آپ اس فعل کا ’’اِلی‘‘ کے ساتھ استعمال دیکھ آئے ہیں (فتوبوا الی. . . . . میں)۔ اور اب یہاں (’’فتاب علیکم‘‘ میں) ’’علی‘‘  کے ساتھ اس کے استعمال کی مثال سامنے آئی ہے۔ اس طرح ’’فتاب علیکم‘‘ کا ترجمہ ہوا: ’’پس اس نے تمہاری توبہ قبول کرلی/ تم پر توجہ فرمائی ــــــ’’تاب یتوب‘‘ کے ان دونوں استعمالات کا فرق اور ہر ایک کا ترجمہ ذہن میں رکھیے۔ یہ فعل آگے چل کر بکثرت (ساٹھ سے زیادہ جگہ) سامنے آئے گا ـــــــ  خیال رہے کہ جب اس فعل کا فاعل اللہ تعالیٰ (یا اس کے لیے کوئی ضمیر)  ہوتو  ’’علی‘‘ کا صلہ ضرور مذکور ہوتا ہے۔ مگر جب یہ فعل کسی بندے (یا اس کے لیے کسی ضمیر فاعل) کے ساتھ آئے تو بعض دفعہ ’’الی‘‘ کا صلہ محذوف بھی ہوتا ہے۔ دراصل وہاں ’’الی اللّٰہ‘‘ ہی مراد ہوتا ہے۔

۱:۳۴:۲ (۸)     [اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ] اس میں ابتدائی حصّہ [انہٗ ھو] تو ’’اِنَّ‘‘ (بے شک یا یقیناً) + ’’ ہٗ‘‘ (وہ) + ’’ھُوَ‘‘ (وہ) کا مرکب ہے اس میں دو ضمیروں کے آجانے کی وجہ سے ’’ . . . نہٗ ھُوَ‘‘ کا ترجمہ ’’وہ ہی تو ، وہی تو‘‘ سے کیا جائے گا۔ اس پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

[الرَّحِیمُ] بمعنی ’’مہربان‘‘ نہایت مہر بان یا رحم والا‘‘ کے مادہ، معنی وغیرہ پر الفاتحہ:۱ یعنی [۱:۱:۱ (۳)]میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔

[التَّوَّابُ] جو عبارت میں  ’’الرحیم‘‘ سے پہلے تاہم ’’الرحیم‘‘ کی لغوی بحث کے لیے سابقہ حوالہ کا اشارہ کافی تھا اس لیے اسے پہلے کردیا گیا ہے اور لفظ’’التواب‘‘ چونکہ ذرا وضاحت طلب ہے اور یہاں پہلی دفعہ آیا ہے اس لیے اس کی لغوی بحث بعد میں کی جارہی ہے۔

اس لفظ (التّوّابُ) کا مادہ ’’ت و ب‘‘ اورو زن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعَّالٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے معانی وغیرہ البقرہ:۳۷ [۱:۲۷:۲(۴)]میں بیان ہوچکے ہیں۔ (اور آیت زیر مطالعہ میں بھی اس سے دو صیغہ ہائے فعل آچکے ہیں) لفظ ’’توّابٌ‘‘ اس مادہ (یا فعل مجرد) سے اسم مبالغہ کا صیغہ ہے اور فعل تاب الی. . . . . اور تاب علی. . . . . کے دونوں معنی (توبہ کرنا، توبہ قبول کرنا) کے لحاظ سے اس لفظ (توّاب) کے بھی دومعنی ہوسکتے ہیں یعنی (۱) بار بار یا بکثرت توبہ کرنے والا اور (۲) بار بار یا بکثرت توبہ قبول کرنے والا۔

·       یعنی یہ اسم صفت اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں کے لیے استعمال ہوسکتا ہے اور قرآن کریم میں دونوں استعمال موجود ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ بندوں کے طور پر صرف ایک جگہ (البقرہ:۲۲۲) بصورت جمع مذکر سالم (التَّـوَّابِيْنَ) آیا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کے طور پر یہ لفظ (بصورت معرفہ یا نکرہ) کل گیارہ جگہ آیاہے۔ ان میں سے صرف ایک جگہ (النصر:۳) اکیلا ’’تَوَّابًا‘‘ آتا ہے باقی ۹ جگہ یہ کسی دوسری صفت کے ساتھ مل کر آیا ہے۔ اور زیادہ تر یہ ’’رحیم‘‘ کے ساتھ مل کر استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ۶ جگہ تو ’’التواب الرحیم‘‘ ہی آیا ہے (جن میں سے ایک یہ زیر مطالعہ آیت ہے) ایک جگہ ’’تواب رحیم‘‘ دو جگہ ’’تواباً رحیماً‘‘  آیا ہے اور صرف ایک جگہ ’’تواب حکیم‘‘ آیا ہے۔

·       اس (تواب) کے اردو ترجمہ میں اسم مبالغہ کی وجہ سے ’’بڑا‘‘یا ’’بہت‘‘ لگانا ضروری ہے۔ اگرچہ بعض نے اس کا ترجمہ عام اسم صفت کی طرح بھی کردیا ہے اس طرح  ’’التواب‘‘ کا ترجمہ عموماً تو ’’بڑا توبہ قبول کرنے والا، بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا معاف  کرنے والا‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے بعض نے صرف  ’’پھر آنے والا ‘ معاف کرنے والا‘ توبہ قبول فرمانے والا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جس میں اسمِ مبالغہ کا مفہوم مفقود ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ احتراما ً ’’توبہ قبول کرتے ہیں‘‘ سے کیا ہے مگر یہ لفظ سے ہٹ کر ہے اس لیے کہ ’’تواب‘‘ صیغۂ فعل تو نہیں ہے۔ اسے صرف محاورے اور مفہوم کی بنا پر ہی درست کہا جاسکتا ہے۔

 

۲:۳۴:۲      الاعراب

زیر مطالعہ آیت دراصل تو سات چھوٹے چھوٹے جملوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے بعض جملوں کو فائے عاطفہ کے ذریعے باہم ملادیا گیا ہے۔ ان میں سے پہلے (نمبر۱) جملہ فعلیہ (وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ) میں بنیادی فعل  ’’قالَ‘‘ ہے۔ اس کے بعد جملہ نمبر۲ تا نمبر۵ (جیسا کہ آگے بیان ہوگا) اس فعل ’’قال‘‘ کے مفعول (یعنی مَقُول یا حکایۃ بالقول) کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ان سب کو محلاً منصوب کہا جاسکتا ہے اس کے بعد جملہ نمبر۶ اور نمبر۷ کا تعلق ’’قال‘‘ سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ دو الگ خبر یہ جملے ہیں۔ ہر ایک جملے کی الگ الگ ترکیب نحوی اور اعراب کا بیان یوں ہے۔

(۱)      وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ

[وَ] کے ذریعے بعد کے جملے سابقہ جملے پر عطف کیا گیا ہے۔ یہاں ایسے متعدد جملے ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ [اِذْ] ظرفیہ ہے اور یہ ایک فعل محذوف (اذکروا) کا ظرف ہے [قال] فعل ماضی معروف ہے اور[موسی] اس (فعل قال) کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے جس میں بوجہ اسم مقصور ہونے کی علامت رفع ظاہر نہیں ہے۔

[لقومہ] لام الجر فعل ’’قال‘‘ کا صلہ ہے جو مخاطب سے پہلے لگتا ہے اور ’’قومہ‘‘ مرکب اضافی ہے جس میں  ’’قوم‘‘ مضاف (اور خفیف ہے) اور ضمیر ’’ہ‘‘ مضاف الیہ ہے اور یہ مرکب اضافی (قومہ) مجرور بالجر (لِ) ہے علامت جر ’’م‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ) ہے اور یہ سارا مرکب جارّی (لقومہ) متعلق فعل ’’قالَ‘‘ ہے۔ یہاں تک ابتدائی (ایک لحاظ سے نامکمل) جملہ پورا ہوتا ہے  جس کے بعد اگلے جملے مقُول یعنی فعل ’’قال‘‘ کے مفعول کے طور پر آئے ہیں۔

(۲)    يٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ

[یا] حرف ندا اور [قومِ] منادی مضاف (لہٰذا) منصوب ہے مگر یائی متکلم کی طرف مضاف ہونے کے باعث اس (قومی) میں علامتِ نصب میم کی (جو فتحہ (ـــــَــــ) تھی ’’گم‘‘ ہوگئی ہے۔ اور خود یائی متکلم کو بغرض اختصار کتابت اور تلفظ میں حذف کر دیا گیا ہے۔ اب اس یائے متکلم (مضاف الیہ مجرور) کی علامت ’’قومِ‘‘ کی میم کی کسرہ (ـــــِــــ) رہ گئی ہے۔[انکم] ’’اِنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل اور ’’کُمْ‘‘ ضمیر منصوب متصل اس کا اسم ہے۔  [ظلمتم]یہ پورا جملہ فعلیہ ہے [فعل ماضی اور ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر مل کر]  اور یہ (جملہ فعلیہ) ’’اِنَّ‘‘ کی خبر ہے۔ لہٰذا اسے محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں [انفسکم] مضاف (انفس)  اور مضاف الیہ (کم) مل کر فعل  ’’ظلمتم‘‘ کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب اس میں ’’انفس‘‘ کے ’’س‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے ’’انفس‘‘ آگے مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف بھی ہےـــــ [بِاتّخاذِکم] میں  ’’باء‘‘ (بِ) حرف الجر‘‘ ہے اور  ’’اِتخاذِ‘‘ مجرور اور آگے مضاف (لہٰذا خفیف) بھی ہے اور ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ مضاف الیہ ہے۔ اور یہ مرکب اضافی (اتخاذکم) مجرور بالجر (بِ) ہے۔ اور یہ سارا مرکب جارّی (باتخاذکم) متعلق فعل (ظلمتم) ہے [العجلَ] یہ مصدر ’’اتخاذ‘‘ کا مفعول بہ واقع ہوا ہے۔ اس لیے منصوب ہے۔ علامتِ نصب آخری ’’لام‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے۔ (کیونکہ العجل معرف باللام بھی ہے)۔ یہاں مصدر نے فعل کا سا عمل کیا ہے۔ (مصدر اور بعض اسمائے مشتقہ اسم الفاعل اسم المفعول وغیرہ فعل کا سا عمل کرتے ہیں) گویا تقدیر عبارت یوں ہے ’’بِ (مَا) اتخذتم العجلَ‘‘ (بسبب اس کے جو پکڑا تم نے بچھڑے کو)۔ عبارت میں ’’اتخاذ‘‘ کا دوسرا مفعول (اِلٰھًا) محذوف (غیر مذکور) ہے۔ جو سیاقِ قصہ (تفسیر) سے معلوم ہوتا ہے۔ اس عبارت (باتخاذکم العجلَ) میں ’’اتخاذ‘‘ کا مصدری ترجمہ اور ’’مفعول ثانی‘‘ کے ذکر کے ساتھ ترجمہ ’’حصہ اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکا ہے۔ دیکھئے ۱:۳۴:۲ (۱) اور ۱:۳۴:۲ (۲) کے درمیان یہ پورا جملہ (یا قوم. . . . . العجلَ) اپنے سے سابقہ جملے (نمبر۱)’’قال‘‘ ’’موسی‘‘ کا مفعول بہ (مقول) ہو کر محلاً منصوب ہے۔

(۳)  فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ

[فَ] عاطفہ سببیہ ہے (بمعنی لہٰذا، اس لیے) [توبوا] فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس  میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے [الی بارئکم] میں ’’الی‘‘ حرف الجر ہے جو دراصل یہاں فعل ’’توبوا‘‘  کا صلہ ہے اور ’’بارئِکم‘‘ مضاف(بَارِیءِــــ جو مجرور بالجر بھی ہے اور بوجہ آگے مضاف ہونے کے خفیف بھی ہے) اور مضاف الیہ (کم) مل کر مجرور بالجر (الی) ہیں۔ اور یہ مرکب جارّی (الی بارئِکم) متعلق فعل ’’توبوا‘‘ ہے (یعنی تم توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی جناب میں)۔

(۴)  فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ

 یہاں بھی فاء (ف) عاطفہ بلحاظ مفہوم تعقیب کے لیے ہے یعنی ’’توبہ‘‘ کے فوراً بعد یہ کام کرو۔ اس طرح (فَ) کے بعد والا جملہ سابقہ جملہ (توبوا. . . . ) پر عطف ہوتا ہے اور [اُقتلوا] فعل امر مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے۔’’فاقتلوا‘‘ میں ’’اُقتلوا‘‘کا ابتدائی ہمزۃ الوصل فائے عاطفہ کی وجہ سے تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے اگرچہ کتابت میں موجود رہتا ہے۔ [انفسکم] مضاف (انفس) اور مضاف الیہ (ضمیر مجرور ’’کم‘‘) مل کر فعل ’’اقتلوا‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے علامتِ نصب ’’انفس‘‘ کی ’’س‘‘  کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے ــــــــ  اور یہ دونوں جملے (نمبر۳، نمبر۴ مندرجہ بالا) بذریعہ ’’فا‘‘ (فَ) سابقہ (مفعول یعنی مقول) جملے پر عطف ہیں لہٰذا یہ بھی محلاً منصوب ہیں۔

(۵)   ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىِٕكُمْ  

[ذلکم] اسم اشارہ مبتداء (مرفوع) ہے جس میں بوجہ مبنی ہونے کے کوئی ظاہر اعرابی علامت نہیں ہے۔  [خیرٌ] اس (اشارہ) کی خبر مرفوع ہے علامتِ رفع ’’ر‘‘ پر تنوین رفع (ــــٌـــــ) ہے [لکم] لام الجر (’’لَ‘‘ جو ضمیر کے ساتھ مفتوح آئی ہے) اور ’’کم‘‘ ضمیر مجرور ہے یہ مرکب جارّی (لکم) متعلق خبر (خیرٌ) ہے یعنی خبر کی وضاحت ہے کہ ’’کیسے اور کس کے لیے؟‘‘ خیر (اچھا) ہے۔ [عند]ظرف مکان مضاف ہے لہٰذا منصوب ہے اور علامتِ نصب ’’د‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے [بارئکم] مضاف (’’باریِٔ‘‘) اور مضاف الیہ (ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘) مل کر ظرف مکان ’’عند‘‘ کا مضاف الیہ ہے۔ اس لیے ’’باریِٔ‘‘ مجرور بالا اضافہ ہے علامت جر ’’باریٔ‘‘ کے آخری ’’ء‘‘ کی کسرہ (ـــــِــــ) ہے۔ اور یہاں یہ (باریِٔ) آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف (لام تعریف اور تنوین سے معری) بھی ہے۔ اور یہ مرکب (عند بارئکم) بھی دوسرا متعلق خبر ہے یعنی یہ ’’خیر‘‘ کی ایک دوسرے پہلو سے وضاحت ہےـــــــــ یہاں تک (نمبر۲، نمبر۳، نمبر۴، نمبر۵ مل کر) مقول یعنی فعل ’’قال موسی‘‘ (نمبر۱) کا مفعول مکمل ہوتا ہے۔ یعنی یہاں تک ’’قول موسیٰ‘‘ (علیہ السلام) تمام ہوتا ہے۔   اس لحاظ سے نمبر۱ تا نمبر۵ ایک ہی مربوط جملہ ہے۔

(۶)    فَتَابَ عَلَيْكُمْ

[فتَاب] میں فاء [فَ] ایک محذوف فعل پر عطف ہے یعنی تقدیر (دراصل) عبارت یوں بنتی ہے۔ ’’ففعلتم ما اَمَرَ کم‘‘ (پس تم نے اس کے حکم کی تعمیل کی) پس. . . . . اور [تاب]فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب جس میں ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ مستتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور [علیکم] جارّ (علی) اور مجرور (کم) مل کر متعلق فعل ’’تاب‘‘ ہے۔ یا یوں کہیے کہ  ’’علی‘‘ فعل (تاب) کا صلہ ہے اور ’’کُمْ‘‘ اس کا مفعول بہ ہے یعنی ’’علیکم‘‘ محلاً منصوب ہے۔ یہ (فتاب علیکم) سابقہ جملوں (نمبر۱ تا نمبر۵) سے الگ جملہ خبر یہ ہے یعنی اس کا فعل ’’قال موسیٰ ‘‘ کے مقول یا مفعول بہ سے کوئی تعلق نہیں البتہ ابتدائی  ’’واذِ‘‘ کے ساتھ اس کا تعلق بنتا ہے۔

(۷) اِنَّہٗ  ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ 

 [انہ] میں ’’انّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل بمعنی ’’بے شک‘‘ اور ’’ہ‘‘ ضمیر منصوب بمعنی ’’وہ‘‘ اس کا اسم ہے[ھو] ضمیر فاصل ہے جس کا زور اردو ترجمہ میں ’’ہی‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے اور [التواب] ’’انّ‘‘ کی خبر اول اور[الرحیم] اس کی خبر ثانی ہے ـــــــــــ اور یوں بھی  کہہ سکتے ہیں کہ ’’ھو‘‘ مبتداء ہے اور ’’التواب الرحیم‘‘ اس کی دو خبریں ہیں اور خبر کے معرفہ ہونے کی وجہ سے بھی اردو ترجمہ میں ’’ہی‘‘ لانا ہوگا۔ اور یہ سب (ھوا التواب الرحیم) جملہ اسمیہ ہوکر (انہ کے) ’’ان‘‘ کی خبر ہے یہ ساری عبارت (انہ. . . . .الرحیم) ایک الگ مستقل جملہ خبر یہ ہے یعنی اس کا آیت کے سابقہ حصے سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے اس سے پہلے جملے (فتاب علیکم) کے بعد وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی گئی ہے اس جملے ( نمبر۷)  کے الگ الگ اجزاء پر لغوی بحث مع لفظی ترجمہ اوپر ۱:۳۴:۲ (۸)گزر چکی ہے جس کی مدد سے آپ بلحاظ ترکیب نحوی اس جملے کا اردو ترجمہ کرسکتے ہیں۔

 

۳:۳۴:۲     الرسم

زیرِ مطالعہ آیت کے قریباً تمام کلمات (جو ۲۵ سے زائد ہیں) کاقرآنی اور املائی رسم الخط یکساں ہے صرف دوکلمات غور طلب ہیں: ’’یقوم‘‘ اور ’’ذلکم ‘‘

(۱) یقوم: جس کا رسم املائی ’’یاقوم‘‘ ہے قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ (یہ لفظ قرآن میں ۴۷ جگہ آیا ہے) بحذف الف بعد الیا (یقوم) لکھا جاتا ہے۔ بلکہ علم الرسم کا یہ قاعدہ ہے کہ ندا کا حرف ’’یا‘‘ جہاں بھی قرآن کریم میں آیا ہے اس کے ساتھ الف نہیں لکھا جاتا۔ البتہ پڑھا ضرور جاتا ہے جسے بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔[3]   جیسے  ’’یموسی، ینوح، یربِّ‘‘ وغیرہ میں۔

(۲) ’’ذلکم‘‘ (اور اس قسم کے دیگر اشارات  ذلک،  ذلکن  وغیرہ بھی) قرآن کریم میں ہر جگہ بحذف الف بعد الذال لکھے جاتے ہیں۔  [4] بلکہ ان کا عام رسمِ املائی بھی یہی (بحذف الف) ہے عام عربی میں ’’ذالک‘‘ یا ’’ذالکم‘‘ باثبات الف لکھنا غلط ہے یوں سمجھئے کہ اس لفظ (ذلکم) کی املاء عام رسم املائی پر رسم قرآنی یا عثمانی کے اثرات کا ایک مظہر یا نمونہ ہے۔ خیال رہے کہ اصل چیز رسم مصحف ہی تھا جس میں مرورِ زمانہ اور تطور املاء کے ساتھ بعض تبدیلیاں ہو کر رسم املائی وجود میں آیا۔ یہ نہیں کہ رسم املائی میں بعض تبدیلیاں کرکے رسم مصحف ’’بنایا‘‘ گیا۔ (جیسے کہ بعض حضرات کا موقف ہے)

 

۴:۳۴:۲      الضبط

آیت زیر مطالعہ میں ضبط کا تنوع درج ذیل نمونوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔

 

 



[1] ۔  مد القاموس یعنی "E.W. Lane's Lexicon"

[2]    قاموس قرآن ج۱ ص۱۷۴۔

 

[3]   بیان قاعدہ کے لیے دیکھئے المقنع (للدانی) ص۱۶، دلیل الحیران ص۱۱۱۔

[4]  بیان قاعدہ کے لیے دیکھئے المقنع (للدانی) ص۱۶، دلیل الحیران ص۱۱۱۔