سورۃ البقرۃ  آیات ۵۵ اور ۵۶

۳۵:۲      وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ  (۵۵) ثثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (۵۶)

۱:۳۵:۲      اللغۃ

[وَاِذْ] یہ اس سے پہلے البقرہ:۵۱ ،۵۳ [۱:۳۳:۲]اور البقرہ:۴۹ ، ۵۰ [۱:۳۲:۲]میں گزر چکا ہے۔ (یعنی پانچ دفعہ قریباً) ترجمہ اس کا ‘‘ اورجب کہ‘‘ ہی ہوگا۔

[قُلتُمْ] کامادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْتُمْ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’قَوَلْتُمْ‘‘ تھی۔ اجوف (جیسا کہ ’’ق ول‘‘ ہے) سے فعل مجرد کے فعل ماضی کی گردان کے آخری (۹) نو صیغوں (جمع مونث غائب  تا جمع متکلم) میں حرف علت (و یا ی) تلفظ اور کتاب سے ساقط کردیا جاتا ہے اور ان (نوصیغوں)میں باب نصر اور کرم کی صورت میں فاء  کلمہ کو (جو یہاں ’’ق‘‘ ہے) ضمہ (ــــُـــــ) دے دیا جاتا ہے اور باقی تمام ابواب (مجرد) میں فاء کلمہ کو کسرہ (ـــــِــــ) دی جاتی ہے۔ اس طرح قَوَلْتُمْ = قَالْتُمْ  (واو متحرک ماقبل مفتوح الف میں بدل گئی) = قَلْتُمْ (التقائے ساکنین ’’الف ول‘‘ کے باعث الف کے گر جانے سے) = قُلْتُمْ (کیونکہ یہ فعل باب نصر سے ہے لہٰذا فاء کلمہ مضموم ہوگیا)

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’قال یقول قولاً‘‘ (بمعنی کہنا) کے اب تک متعدد صیغے گزر چکے ہیں ویسے اس فعل کے باب، بمعنی اور استعمال پر البقرہ:۸ [۱:۱۷:۲ (۴)] میں مفصل بات ہوچکی ہے ’’قُلْتُمْ‘‘ اس فعل مجرد سے ماضی معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ہے ’’تم نے کہا‘‘:

[یٰمُوْسیٰ] میں ’’یا‘‘ تو حرف ندا بمعنی ’’اے‘‘ ہے یعنی ’’اے موسیٰ‘‘ اردو محاورے  میں یہاں حرف ندا کا ترجمہ حذف بھی ہوسکتا ہے۔

۱:۳۵:۲ (۱)     [لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ]میں ’’نوْمن‘‘ کا مادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن ’’نُفْعِلَ‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس مادہ (أمن) سے باب افعال (آمن یومن) کے فعل مضارع کا صیغہ جمع متکلم ہے جو ’’لَنْ‘‘ کی وجہ سے منصوب ہوکر آیا ہے۔یہ حرف (لَنْ) مضارع میں بزمانۂ مستقبل زور اور تاکید کے ساتھ انکار اور نفی کے معنی پیدا کرتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ‘‘ یا صرف ’’ہرگز نہیں‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ اس مادہ (أمن) سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۳ [۱:۲:۲(۱)]میں بات ہوئی تھی۔ وہاں اس کے بابِ افعال اور استعمال کے ضمن  میں یہ بھی  بیان ہوا تھا کہ یہ فعل (آمن یؤمن) صلہ کے بغیر اور مختلف صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے مثلاً ’’اَمَنَ ب. . . . . ‘‘کے معنی ہیں: ’’ . . . . پر ایمان لانا‘‘ اور ’’آمن ل. . . . ‘‘ کا مطلب ہے ’’ . . . . کو باور کرنا. . . .  کی بات سچی ماننا . . . .  کا یقین کرلینا‘‘ یہاں زیر مطالعہ عبارت میں جو فعل کے ساتھ ’’لَکَ‘‘ لگا ہے (جس کا لفظی ترجمہ تو ’’تیرے لیے‘‘ ہونا چاہیئے) اس میں لام الجر (جو ضمیر کے ساتھ مفتوح آیا ہے) فعل (آمن) کا صلہ ہے جس کے معنی اوپر بیان ہوئے ہیں۔

·       اس لیے یہاں اس عبارت( لن نومن لک) کا ترجمہ بیشتر اُردو مترجمین نے ’’ہم ہرگز یقین نہ کریں گے تیرا/ ہرگز تمہارا یقین نہ  لائیں گے، /ہر گز تیرا یقین نہ کریں گے ‘‘سے کیا ہے۔ بعض نے ’’ہم یقین نہ کریں گے تیرا‘‘ سے ترجمہ کردیا ہے اس میں ’’لَنْ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز ہوگیا ہے۔ بعض نے ’’ہم تو کسی طرح تمہارا یقین کرنے والے نہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو محاورے کے لحاظ سے اچھا ترجمہ ہے ’’ہرگز نہیں‘‘ کا مفہوم بھی ’’تو کسی طرح نہیں میں ‘‘ آگیا ہے مگر جملہ فعلیہ کی بجائے جملہ اسمیہ سے ترجمہ کردیا گیا ہے یہ عبارت سے ہٹنے والی بات ہے اصل عبارت ’’لن نؤمن لک‘‘ ہے مگر ترجمہ ’’ما نحن بمومنین لک‘‘ کی صورت میں ہوگیا ہے۔ بعض نے  ’’ہرگز نہ مانیں گے‘‘ سےترجمہ کیا ہے۔ یہاں بھی بعض نے’’ ہم کبھی ماننے والے نہیں تیری بات‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ یہ بھی محاورہ درست مگر بلاوجہ اصل الفاظ (فعل) سے (اسم کی طرف) انحراف ہے۔ بعض نے ’’ہم ہرگز باور نہ کریں گے‘‘ کو اختیار کیا ہے ’’باور کرنا، ماننا، یقین کرنا‘‘ سب موزوں تراجم ہیں۔ تاہم بعض حضرات نے ’’ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے‘‘ سے ترجمہ کردیاہے جو اس صلہ (لِ) کے ساتھ درست نہیں ہے۔

۱:۳۵:۲ (۲)     [حَتّٰی] بظاہر اس کی شکل ایسی ہے کہ گویا یہ ’’ح ت ی‘‘ مادہ سے باب تفعیل کا صیغہ ماضی (مثل وَصّٰی اور غَشّٰی) ہے مگر یہ فعل نہیں ہے۔ بعض نحوی اسے اسم سمجھتے ہیں اور اس کا مادہ ’’ح ت ت‘‘ اور وزن ’’فعلٰی‘‘ بتاتے ہیں۔  [1]  تاہم اہل لغت کی اکثریت کے نزدیک یہ ایک حرف ہی ہے۔ معاجم (ڈکشنریوں) میں اسے اسی مادہ (ح ت ت) کے تحت ہی بیان کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا اس مادہ (حتت) کے مشتقات (اسماء اور افعال) سے بلحاظ معنی کوئی ربط نہیں ہے۔ اور اس مادہ سے قرآن کریم میں بھی کوئی اور لفظ (اسم یا فعل) استعمال نہیں ہوا۔

·       ’’حتی‘‘  حروف عاملہ میں سے ہے اور بلحاظِ معنی اس میں ہمیشہ کسی غایت (کسی ابتداء کی انتہا) کا (یعنی کسی جگہ یا وقت یا شخص یا کام یا چیز ’’تک‘‘ کا) مفہوم ہوتا ہے۔ اس لیے بعض نحوی (بلحاظ معنی) اسے ’’حرف الغایۃ‘‘  بھی کہتے ہیں۔ اس کا مابعد اس کے ماقبل کی غایت اور نہایت یا حد کو ظاہر کرتا ہے۔ اُردو میں اس کا ترجمہ ’’قریباً . . . .  تک،. . . . کی حد تک‘‘ سے کیا جاسکتا ہے۔

اپنے عمل کے لحاظ سے یہ بنیادی طور پر حروف جارّہ میں شمار ہوتا ہے۔ مگر یہ ’’جارّہ‘‘ ہونے کے علاوہ کبھی ’’ناصبہ‘‘ ہوتا ہے (نصب دیتا ہے) اور کبھی ’’عاطفہ‘‘ بھی ہوتا ہے (یعنی حسب عطف اعراب دیتا ہے) ہر ایک کی تفصیل یوں ہے:

·       ’’حتّی الجارّہ: یہ قریباً ’’الی‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اپنے مجرور کے بارے ’’انتھاء الغایۃ‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ اس میں عموماً مجرور سے پہلے غایت (حد) کے ختم ہونے کا مفہوم ہوتا ہے یعنی اس کا مجرور اس غایت (حد) سے باہر سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً ’’اکلتُ السمکۃَ حتی راسھا‘‘ (میں نے مچھلی اس کے سر تک کھالی یعنی صرف سر نہیں کھایا باقی کھالی)۔ اس کی قرآنی مثال’’ هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ Ĉ ‘‘ (القدر:۵) میں ہے یعنی اس رات (لیلۃ القدر) کی یہ (سلامتی والی) کیفیت مطلع الفجر (طلوع صبح صادق) کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔

·       ’’حَتّی‘‘ الناصبہ: جب ’’حتی‘‘ فعل مضارع سے پہلے آئے تو اس کے ساتھ  ’’اَنْ‘‘ مقدر سمجھا جاتا ہے یعنی  ’’حتی‘‘ دراصل ’’حتی اَن‘‘ (یہاں تک کہ) ہوتا ہے اور اس لیے یہ فعل مضارع کو لازماً نصب دیتا ہے بشرطیکہ‘ زمانۂِ تکلم (جب بات کی جا رہی ہو) کے لحاظ سے وہ فعل زمانۂ مستقبل میں (آئندہ) ہو جیسے ’’ لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى  ‘‘ (طٰہٰ:۹۱) میں ہے (یعنی ہم تو اس پر سے نہیں ٹلیں گے یہاں تک کہ موسٰیؑ واپس آجائیں گے)۔ اور اگر اس فعل (جو ’’حتی‘‘ کے بعد مذکور ہے) کا تعلق زمانۂ تکلم کی نسبت زمانۂ ماضی سے ہوتو پھر اس فعل کی رفع اور نصب دونوں جائز ہوتی ہیں۔ جیسے ’’ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ ‘‘ (البقرہ:۲۱۴) میں ’’یقولُ‘‘ یا ’’یقولَ‘‘ دونوں طرح (ازروئے قواعد) درست ہے۔ (وہ ہلا ڈالے گئے حتی کہ رسولؐ کہہ اٹھے) یعنی یہاں ’’حتی‘‘ کے بعد والا فعل (یقول) بمعنی ’’قال‘‘ (ماضی ہی آیا ہے)

        بلحاظ مفہوم یہ (حتی ناصبہ) حسب موقع تین معنی دیتا ہے۔

(۱) کبھی تو اس میں ’’انتھاء الغایۃ‘‘ (وقت یا جگہ کی حد) یعنی ’’اِلیٰ اَن‘‘ (اس وقت تک کہ، یہاں تک کہ) کے معنی ہوتے ہیں جیسے ’’ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى ‘‘ (طٰہٰ:۹۱) میں ہے (اس کے  معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں)

 (۲) کبھی یہ ’’تعلیل‘‘ (وجہ بتانے) کے لیے آتا ہے یعنی  ’’کَی اَن‘‘  (تاکہ، اس غرض سے کہ) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے ’’ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ ‘‘ (البقرہ:۲۱۷) میں ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ ’’وہ تم سے لڑتے ہی چلے جائیں گے تاکہ تم کو تمہارے دین سے لوٹا دیں‘‘

(۳) اور کبھی یہ (حتی) ’’استثناء‘‘ کے لیے بھی آتا ہے یعنی ’’اِلّا أن‘‘ (سوائے اس کے کہ. . . .) کے معنی دیتا ہے جیسے ’’ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْن‘‘ (آل عمران: ۹۲)(۳)

اگر ’’حتی‘‘ فعل ماضی پر داخل ہوتو اس کا کوئی عمل نہیں ہوتا جیسے ’’ حَتّٰي عَفَوْا ‘‘ (الاعراف:۹۵) میں ہے۔

·       ’’حتی العاطفہ‘‘: کبھی ’’حتی‘‘ کسی اسم سے پہلے بطور حرف عطف بھی آتا ہے اور اس وقت یہ واو العطف (وَ)  یعنی ’’اور‘‘ یا ’’بھی ‘‘(أَیضًا) کے معنی دیتا ہے اور ’’حتی‘‘ کے بعد آنے والے اسم کا اعراب اس کے ماقبل کا سا ہوتا ہے رفع ہو یا نصب یا جر مثلاً (۱) ’’رجع الحجاجُ حتی المشاۃُ‘‘ (سب حاجی واپس آگئے اور (یہاں تک کہ) پیدل بھی)۔ یہاں ’’حتی‘‘ نے ’’الْمشاۃُ‘‘ (جمع ماشیٍ) کو رفع دی ہے کیونکہ یہ سابق فاعل (الحجاجُ) پر عطف ہے۔ (۲) ’’اکلتُ السمکۃ حتی راسَھا‘‘ (میں نے مچھلی کھا لی اور (یہاں تک کہ) اس کا سر بھی کھالیا۔ یہاں ’’حتی‘‘ نے  ’’راسھا‘‘ کو نصب دی ہے کیونکہ یہ سابق مفعول ’’السمکۃ‘‘ پر عطف ہے۔

 (اس جملے کا اوپر ’’حتی الجارۃ‘‘ میں بیان کردہ اسی قسم کے جملے سے مقابلہ کیجئے اور دونوں جملوں میں ’’راسَھَا‘‘ کے اعراب نصب و جر کی وجہ اور معنی کے فرق پر غور کیجئے) اور (۳) ’’عجبتُ من القوم حتی بنِیھِم‘‘ ((مجھے وہ لوگ پسند آئے اور (یہاں تک کہ) ان کے بیٹے بھی )یہاں’’حتی‘‘ کے بعد ’’بنیھم‘‘ سابق مجرور بالجر ’’القوم‘‘  پر عطف ہوگیا ہے۔

·       ’’حتی‘‘ کے بارے میں مندرجہ بالا تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حرف  (حتّی)  کا اُردو ترجمہ حسب موقع مندرجہ ذیل صورتوں میں کیا جاسکتا ہے۔

 (۱) یہاں تک کہ (۲) جب تک کہ (اردو محاورے کے مطابق اس کے بعد ایک منفی جملہ لگانا پڑتا ہے یعنی ’’حتی‘‘ کے بعد والے فعل کا ترجمہ نفی کے ساتھ کرنا پڑتا ہے اس کی وضاحت ابھی آگے ’’نری‘‘ کے ترجمہ کے ذریعے ہوگی) (۳) سوائے اس کے کہ (۴) نتیجہ یہ کہ (۵). . . . تک (۶). . . . بھی (۷). . . . سمیت (۸) تاکہ (۹). . . . تک بھی (۱۰) اور خود ’’حتی کہ‘‘ جو اردو میں بھی مستعمل ہے۔

’’حتی‘‘ کے متعلق یہ امور ذہن میں رکھیے یہ آگے چل کر ’’حتی‘‘ کے معنی سمجھنے اور متعین کرنے میں مدد دیں گے۔

۱:۲۵:۲ (۳)     [نرَی اللّٰہُ] اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث الفاتحہ:۱ [۱:۱:۱ (۲)]میں گزر چکی ہے اور اعرابی بحث آگے آئے گی۔ ’’نَرَی‘‘ کا مادہ ’’ر أ ی‘‘ اور وزن اصلی ’’نَفْعَلُ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’نَرْأَیُ‘‘  بنتی تھی جس میں ’’یاءمتحرکہ ما قبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے (لفظ ’’نَرْأَیٰ‘‘ ہوجاتا ہے)۔ پھر خلافِ قیاس ہمزہ کی فتحہ (ـــــَــــ)اس کے ماقبل صحیح ساکن (ر) کو دے دی جاتی ہے (عام طور پر صرف حرف علت ’’و یا ی‘‘ کی حرکت ہی ماقبل ساکن حرف صحیح کو منتقل ہوتی ہے ہمزہ حرف علت نہیں ہے) اور ہمزہ (عین کلمہ) کو بھی حرف علت کی طرح تلفظ اور کتابت سے ساقط کردیا جاتا ہے یعنی نَرْأیَ= نَرْأَیٰ(جس کا تلفظ ’’نَرْآ ‘‘ بنتا ہے)  ’’نَرَأْیٰ‘‘ (جس میں ساکن ہمزہ کا الف مقصورہ (یٰ ــــــــــــــ) سے پہلے تلفظ ممکن نہیں لہٰذا اسے بھی گرادیا جاتا ہے)=  نَرَیٰ(جس تلفظ ’’نَرَا‘‘ رہ جاتا ہے اور ہمارے ضبط کے مطابق ’’نَرٰی‘‘ لکھا جاتا ہے) مگر یہاں اسے آگے ملانے کے لیے ’’نَرَی‘‘ ہی لکھا گیا ہے یعنی  ’’ر‘‘ آگے اسم جلالت ’’اللہ‘‘ سے ملا کر پڑھی جاتی ہے۔ مزید وضاحت بحث ’’الضبط‘‘ میں ہوگی۔

·       اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’رَأَیٰ …یَرَی‘‘  (دراصل  رَأَیَ یَرْأَیُ) رُؤیۃً (باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’ . . . . کو آنکھ سے دیکھنا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور اسی باب سے مگر ’’رُؤیًا‘‘ مصدر کے ساتھ اس فعل کے معنی ’’خواب میں دیکھنا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور یہی فعل اس باب سے’’رَأْیًا‘‘ مصدر کے ساتھ ’’عقل سے دیکھنا‘‘ کے معنی دیتا ہے جسے اُردو میں ’’رائے رکھنا‘‘ بھی کہتے ہیں۔

·       اس فعل کے صیغہ ماضی میں بھی ’’رَأَیَ‘‘ کی یاء متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر صیغہ ’’رَأَیٰ‘‘ ہو جاتا ہے جسے ’’رَآ‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ اور صیغہ مضارع ’’یَرْأَیُ‘‘ اوپر ’’نری‘‘ کے لیے بیان کردہ قاعدہ کے مطابق ’’نَرَیٰ‘‘ ہو جاتا ہے جسے ’’نرا‘‘ پڑھا جاتا ہے= چونکہ یہ ایک فعل ناقص ہے(جس میں لام کلمہ ’’ی‘‘ ہے) اور پھر اس میں ہمزہ سے بھی حرف علت کا معاملہ (اجوف کی طرح) ہوجاتا ہے اس لیے اس دیگر صیغوں میں بھی اصلی شکل بدل جاتی ہے یعنی عربوں کا طریق تلفظ اسے مختلف شکلیں دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے بیس کے قریب صیغے (رأی۔ رأت۔ رأوا۔ رأیتُ۔ رأیتَ۔ رأیتمُو۔ رأَیْنَ۔ أری۔ لم أرَ۔ لم تَرَ۔ تَرَی۔ ترَوْنَ۔ لم ترَوْا۔ تَرَوُنَّ۔ تَرَیِنَّ۔ نَری۔ یَرَی۔ یرَوْن۔ یرَوْا۔ یُرَی) ۱۴۷ مقامات پر آئے ہیں۔

·       اس فعل سے فعل امر مخاطب ’’رَ۔ رَیَا۔ رَوْا۔ رَیْ۔ رَیَا۔ رَیْنَ‘‘ کی صورت میں استعمال ہے (جن کی اصلی شکل ’’اِرْأَیَ۔ اِرْئَ یَا ۔ اِرْأَوْا۔ اِرْأَیِیْ ۔ اِرْأَیَا  اور  اِرْأَیْنَ بنتی تھی) امید ہے آپ ہر صیغے میں ہونے والی تعلیل کو سمجھ لیں گے۔ تاہم قرآن مجید میں اس فعل مجرد سے فعل امر کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔

فعل مجرد کے علاوہ اس مادہ (رأی)  سے مزید فیہ کے ابواب افعال، تفاعل اور مفاعلہ سے مختلف صیغہ ہائے فعل قریباً پچاس جگہ اور مختلف اسماء مشتقہ اور مصادر قرآن کریم میں ۱۳ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

زیر مطالعہ لفظ ’’نری‘‘ اس فعل مجرد (رأَی یَرَی) سے فعل مضارع منصوب کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ اس کا ترجمہ  ’’ہم دیکھتے ہیں‘‘ یا ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کے ساتھ ہوسکتا ہے مگر یہاں اس سے پہلے ’’حتی‘‘ آگیا ہے  [2] جس کا ترجمہ یہاں ’’یہاں تک کہ‘‘ یا ’’جب تک کہ‘‘ کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔ بظاہر یہ دونوں ترجمے ’’یکساں‘‘ ہیں مگر اردو محاورے میں ان کا استعمال مختلف ہے۔ ’’یہاں تک کہ‘‘ کے ساتھ تو  ’’حتی‘‘ کے بعد آنے والے فعل کا ترجمہ اسی طرح مثبت جملے کی شکل میں ہوسکتا ہے جس طرح اصل عربی میں ہے یعنی ’’یہاں تک کہ دیکھیں ہم اللہ کو‘‘  اور ’’یہاں تک کہ ہم (خود) دیکھ لیں اللہ کو‘‘ کی صورت میں۔ تاہم بہت کم مترجمین نے اس طرح (مثبت) ترجمہ کیا ہے۔ بیشتر مترجمین نے ’’جب تک کہ‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اور اردو محاورے میں اس (جب تک کہ) کے بعد منفی جملہ لانا پڑتا ہے۔ اس لیے ان حضرات کو یہاں ’’نرَی‘‘ کا ترجمہ ’’لانرَی‘‘ کی طرح کرنا پڑا (حالانکہ عربی میں ’’حتی‘‘ کے بعد جملہ مثبت ہی ہے) یعنی ’’حتی نری اللّٰہ‘‘ کا ترجمہ ’’جب تک ہم خدا کو دیکھ نہ لیں‘‘ یا ’’جب تک ہم خدا کو نہ دیکھ لیں گے‘‘ کی صورت میں کیا ہےـــــــــ بیشتر مترجمین نے یہاں ’’نری‘‘ ضمیر فاعلین (نحن) کا ترجمہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور صرف ’’جب تک کہ نہ دیکھیں اللہ کو‘‘، جب تک کہ دیکھ نہ لیں اللہ کو‘‘، جب تک خدا کو دیکھ نہ لیں‘‘ اور ’’جب تک اللہ کو دیکھ نہ لیں‘‘ کی صورت میں ترجمہ کردیا ہے۔ جو بلحاظ محاورہ درست سہی تاہم ’’نحن‘‘ (ہم) کے ساتھ ترجمہ کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس کے بغیر ترجمہ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے ’’ہم‘‘ ہیں یا ’’وہ‘‘ ہیں یا ’’آپ‘‘ ہیں۔ ضمیر ’’ہم‘‘ لگانے سے ترجمہ واضح ہوجاتا ہے۔

۱:۳۵:۲ (۴)     [جَھْرَۃً] کا مادہ ’’ج ہ ر‘‘ اور وزن (بصورت رفع) ’’فَعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱) جھَر یجھَر جَھْرًا (باب فتح سے) کے ایک معنی ’’ظاہر ہونا، کھلم کھلا ہونا‘‘ (فعل لازم) ہوتے ہیں۔ زیادہ تر اس کا تعلق آنکھ یا کان سے ہوتا ہے یعنی ’’ظاہر دکھائی دینا یا کھلم کھلا سنائی دینا‘‘۔ اور اسی باب سے فعل کو باء (بِ) کے ساتھ متعدی بھی استعمال کیا جاتا ہے یعنی ’’جھرَ بالکلامِ/بالقول‘‘=’’(بات کو) باآواز بلند کہنا یا بولنا‘‘ اور باء کے بغیر بھی متعدی استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’جھَر الکلامَ‘‘  کے معنی بھی وہی ہیں جو ’’جھر بالکلامَ‘‘ کے ہیں۔ بلند آواز (قدرتی) والے آدمی کو ’’جھیرُ الصوتِ‘‘ کہتے ہیں۔ اور اسی باب (فتح) سے اسی مصدر کے ساتھ اس فعل کے معنی ’’کسی چیز کو کھلم کھلا سامنے دیکھنا ‘‘بھی ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’جھرَ الشـَیْءَ= اس نے چیز کو کھلم کھلا دیکھا (اس کا فعل لازم ’’جھرَ الشَیْیُٔ چیز کھلم کھلا نظر آئی‘‘ سے مقابلہ کیجئے)ـــ  اور اسی باب سے ’’جھَرتِ الشمسُ فلانًا‘‘ کے معنی ’’سورج نے فلاں کی آنکھیں چندھیادیں‘‘ بھی ہوتے ہیں (۲) جھِر یجھَر جھرًا (باب سمع سے) کے معنی ’’سورج کی روشنی کے باعث آنکھوں کا چندھیا جانا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’جھِرت العینُ‘‘ آنکھ چندھیا گئی ــــــــ  اور (۳) جھُر یجھُر جِھَارۃً (باب کرم سے) آئے تو اس کے ایک معنی تو ’’آواز کا بلند ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ نیز اس کے معنی ’’جسم (اور جسمانی حسن) کا بھر پور (مکمل) ہونا‘‘ بھی ہوتے ہیں ایسے مرد کو ’’اَجْھَرُ‘‘ اور مونث کو ’’جَھَرائُ‘‘ کہتے ہیں۔

·       عربی ڈکشنریوں میں آپ کو اس فعل مجرد کے مندرجہ بالا بیان کردہ کے علاوہ اور بھی متعدد معانی اور استعمالات مل جائیں گے۔

تاہم قرآن کریم میں (بلحاظ باب و معنی) صرف (مندرجہ بالا) پہلا استعمال ’’جھَر یجھَر‘‘ ہی آیا ہے۔ اور وہ بھی ہر جگہ ’’متعدی بالباء‘‘ ہوکر (فعل) آیا ہے بمعنی ’’بلند آواز سے بولنا یا آواز کو بلند کرنا‘‘۔ اس فعل مجرد سے چار مختلف صیغے چار ہی جگہ آئے ہیں۔ فعل مجرد کے علاوہ اس مادہ سے فعل مجرد کا مصدر ’’جَھْرٌ‘‘معرفہ نکرہ مفرد مرکب مختلف صورتوں میں ۹ جگہ آیا ہے۔ اور باب مفاعلہ سے صرف مصدر ’’جِھار‘‘ ایک ہی جگہ آیا ہے۔ ان پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

زیر مطالعہ لفظ ’’جَھْرَۃ‘‘ کو بعض نے اس فعل (جھَرَ یجھَر) کا ایک مصدر قرار دیا ہے۔[3]  بمعنی ’’ظاہر ہونا یا کرنا‘‘۔ اکثر اصحاب لغت نے اسے اسم صفت کہا ہے  [4] یعنی ’’ماظھر‘‘ (آشکار، ظاہر باہر، کھلم کھلا) کے معنی میں لیا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ’’رآہ جھرۃً‘‘= اس نے اس کو بلا حجاب بغیر کسی اوٹ یا پردہ کے دیکھا‘‘ اور ’’کَلَّمَہ جھرۃً= اس نے اس سے کھلم کھلا بات کی‘‘۔

·       مندرجہ بالا معانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اُردو مترجمین نے زیر مطالعہ آیت میں ’’جھرۃً‘‘ کا ترجمہ’’ ظاہر ،سامنے، علانیہ طور پر، ظاہر میں، علانیہ اور کھلم کھلا‘‘ سے کیا ہے۔ اس پر مزید بحث آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی جس میں اس ترجمہ کی نحوی بنیاد کے متعلق بات کی جائے گی۔

[فَاَخَذَتْکُمُ] یہ فاء + (فَ) عاطفہ بمعنی ’’پس، تو پھر ‘‘ + اَخَذَتْ (جس پر ابھی بات ہوگی + ضمیر منصوب ’’کُمْ‘‘ (جس کی میم کو آگے ملانے کے لیے ضمہ (ــــُـــــ) دیا گیا ہے) بمعنی ’’تم کو‘‘  کا مرکب ہے۔ ’’اَخَذَتْ‘‘ کا مادہ ’’ا خ ذ‘‘ اور وزن ’’فَعَلَتْ‘‘ ہے۔ یعنی یہ اس فعل مجرد سے فعل ماضی کا صیغہ واحد مونث غائب ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’أخَذ یَأخُذ أَخْذًا‘‘ (پکڑنا، گرفت کرنا، لینا وغیرہ) کے باب اور معانی وغیرہ پر البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۵)]میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔ اردو مترجمین نے یہاں ’’پکڑنا‘‘ کے علاوہ ’’آلینا، آپڑنا، آدبوچنا، گھیر لینا‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے یعنی ’’فأخَذَتْکم‘‘ کا ترجمہ ’’پس/ تو پھر پکڑا تم کو، تمہیں پکڑ لیا، لیا تم کو، آلیا تم کو، آلیا تمہیں، تم کو آلیا، تم کو آگھیرا، آدبوچا تم کو، تم کو دبوچ لیا اور آپڑی تم پر‘‘ =  ظاہر ہے ان میں سے بعض تراجم (مثلاً دبوچنا، گھیرنا، آپڑنا) اردو محاورے کے لحاظ سے زور دار تراجم تو ہیں مگر اصل فعل کے مفہوم سے ضرور ہٹ کر ہیں۔

۱:۳۵:۲ (۵)     [الصّٰعِقَۃُ] جس کی رسم املائی ’’الصاعقۃ‘‘ ہے اس کا مادہ ’’ص ع ق‘‘ اور وزن لام تعریف نکال کر’’فَاعِلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’صعِق ، صعَق   یصعَق صَعْقًا وصعَقًا (سمع و فتح سے) کے معانی اور استعمال پر نیز لفظ ’’صاعقۃ‘‘ کی مکمل وضاحت اس سے پہلے البقرہ:۱۹ [۱:۱۴:۲ (۹)] میں کی جاچکی ہے۔ اسی لیے بیشتر اردو مترجمین نے ’’الصاعقہ‘‘ کا ترجمہ  ’’بجلی نے‘‘، ’’کڑک نے‘‘ اور ’’بجلی کی کڑک نے‘‘ سے ہی کیاہے۔ یہ ’’نے‘‘ اردو میں سابقہ متعدی فعل ’’فاخَذَتْکم‘‘ (تو پھر آپکڑا تم کو/ آلیا تم کو) کے فاعل کی مناسبت سے لگانا پڑتا ہے۔ ورنہ ’’الصاعقۃ‘‘ کے اصل معنی تو ’’بجلی‘‘ یا ’’کڑک‘‘ ہی ہیں۔

[وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ] یہ ایک پورا جملہ ہے جس میں ’’وَ‘‘ عاطفہ یاحالیہ (بمعنی ’’اور‘‘ یا اس حالت میں کہ) ہے اور ’’انتم‘‘ ضمیر مرفوع منفصل بمعنی ’’تم‘‘ ہے۔ ’’تَنْظُرُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ن ظ ر‘‘ اور وزن ’’یَفْعَلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد نظر ینظر نظرًا (دیکھنا، نظر ڈالنا وغیرہ) کے باب، معنی اور استعمال پر البقرہ:۵ [:۳۲:۲ ۱:(۱۴) ]میں بات گزر چکی ہے۔ بلکہ خود یہی جملہ (وانتم تنظرون) اور اس کے تراجم ۔(اور تم دیکھتے تھے، اور تم دیکھ رہے تھے، تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، تم دیکھا کیے‘‘ وغیرہ) بھی وہاں بیان ہوچکے ہیں۔

۱:۳۵:۲ (۶)     [ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ] یہ  ثُمَّ + بعثنا + کم  کا مرکب ہے ’’ثُمَّ‘‘ (بمعنی پھر ،اس کے بعد) کے معنی اور استعمال پر قدرے تفصیلی بات البقرہ:۲۸ [۱:۲۱:۲ (۴)]میں ہوئی تھی۔ آخری ضمیر منصوب ’’کم‘‘ بمعنی ’’تم کو‘‘ ہے۔ فعل ’’بعثنا‘‘ (جس کے رسم قرآنی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی) کا مادہ ’’ب ع ث‘‘ اور وزن ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجرد ’’بعَث . . . . یَبعَث بَعَثا وبِعثۃً‘‘ (باب فتح سے) کے بنیادی معنی تو ہیں’’. . . .کو اٹھا دینا یا اٹھانا‘‘ مثلاً کہتے ہیں: ’’بعثَ الناقۃَ‘‘ ’’اس نے بیٹھی ہوئی (بارکۃ) اونٹنی کو اس کی ٹانگ کی رسی (عِقال) کھول کر آزاد چھوڑا۔  اٹھا کر کھڑا کردیا‘‘ پھر ان ہی بنیادی معنی سے اس فعل میں کئی اور معنی پیدا ہوتے ہیں مثلاً (۱) نیند سے اٹھا دینا ، جگا دینا۔ کہتے ہیں بعث فلانًا من نومہ =(اس نے فلاں کو اس کی نیند سے اٹھا دیا) (۲) پھر اسی سے یہ فعل ’’مردوں کو جِلا دینا ۔دوبارہ زندہ کرنا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’ وَالْمَوْتٰى يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ‘‘ (الانعام:۳۶) (اور جو مرچکے ہیں اللہ ان کو دوبارہ زندہ کرکے اُٹھائے گا)۔ یہ استعمال قرآن کریم میں بکثرت آیا ہے اور (۳) یہ فعل . . . . (صرف کسی خاص شخص کو) یا (اسی کو ہی) بھیجنا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے یعنی کسی خاص مقصد کے لیے بھیجنا۔ اسی سے یہ فعل قرآن کریم میں انبیاء کے اپنی قوموں میں کھڑے ہونے (یا بھیجے جانے) کے معنی میں استعمال ہوا۔ جیسے ’’ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا ‘‘ (النحل:۳۶) = (اور ضرور ہم نے ہر امت میں ایک رسول اٹھایا (بھیجا))۔

·       قرآن کریم میں اس فعل کا مشہور استعمال ’’بعثت انبیاء‘‘ اور ’’بعثت بعدا لموت‘‘ کے لیے ہی ہوا ہے اگرچہ اس کے علاوہ یہ فعل دیگر متعدد معانی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً (سابقہ چار معانی کے علاوہ) (۱). . . .کو آمادہ کرنا، (۲). . . .کو پہنچانا، (مقام پر) فائز کرنا (۳)بیدار کرنا ۔(۴) مقرر کرنا (۵) برپا کرنا (۶) آزاد کردینا۔

عام طور پر یہ فعل متعدی مفعول بنفسہ کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اس کا متعلق فعل ’’بِ، الی، علی یا مِنْ‘‘ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ اس کے مندرجہ بالا معانی اور استعمالات کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ ان شاء اللہ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’بعثنا‘‘ اس فعل مجرد سے فعل ماضی مع ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ ہے۔ مندرجہ بالا معانی کو مدنظررکھتے ہوئے بیشتر اردو مترجمین نے اس عبارت (ثم بعثنا کم) کا ترجمہ ’’پھر اٹھا کھڑا کیا ہم نے تم کو‘‘ سے ہی کیا ہے۔ بعض نے ’’پھر جلایا ہم نے تم کو/ ہم نے تمہیں زندہ کیا/ از سر نو زندہ کیا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے ’’زندہ کرنا‘‘ اور ’’اٹھانا‘‘ کو ملا کر ترجمہ’’ہم نے تم کو زندہ کر اٹھایا/جلا اٹھایا‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ یہاں ’’زندہ کر اٹھانا‘‘ سے مراد کیا ہے اس کے لیے مستند تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

[مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ] جو مِنْ + بعد (کے بعد) + مَوْت (موت) +کم (تمہاری) کا مرکب ہے۔ ’’بعد‘‘ اور ’’من بعد‘‘ کے استعمال اور معنی پر البقرہ:۵۱ [۱:۳۱:۳(۷)]میں بات ہوچکی ہے۔ لفظ ’’مَوْت‘‘ (جو قرآن کریم میں مفرد مرکب واحد جمع مختلف صورتوں میں پچاس سے زائد جگہ آیا ہے) اردو میں عام مستعمل ہے اور اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ تاہم اس کی لغوی اصل (مادہ)، وزن، باب اور معنی استعمال کی وضاحت البقرہ:۱۹ [۱:۱۴:۲(۱۳)]اور البقرہ:[۱:۲۱:۲(۲)] میں کی جاچکی ہے۔ یہاں ’’من بعد موتکم‘‘ کا سادہ لفظی ترجمہ تو ’’تمہاری موت کے بعد‘‘ بنتا ہے تاہم بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’مرگئے پیچھے، تمہارے مرجانے کے بعد، تمہاری موت کے بعد،مرے پیچھے اور موت آجانے کے بعد‘‘  سے کیا ہے ۔ خیال رہے کہ اس موت کے بعد کے ذکر کی وجہ سے سابقہ فعل ’’بعثنا‘‘ کا ترجمہ ’’زندہ کردینا‘‘ کے ساتھ موزوں تھا۔ اگرچہ لفظی ترجمہ ’’اٹھا دینا‘‘ میں بھی مفہوم زندہ کرنے کا ہی تھا۔

[لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ] ٹھیک یہی جملہ اس سے پہلے البقرہ:۵۲ [۱:۳۳:۲(۱۰)]میں گزر چکا ہے۔ اور اس کی لغوی تشریح اور تراجم بھی وہاں بیان ہوچکے ہیں۔

 

۲:۳۵:۲      الاعراب

زیر مطالعہ دو آیات دراصل تو پانچ جملوں پر مشتمل ہیں۔ جو بلحاظ معنی ہی نہیں بلکہ فائے عاطفہ، واو حالیہ اور ’’ثم‘‘ عاطفہ کے ذریعے بھی باہم مربوط ہیں۔ ہر ایک حصے کی الگ الگ اعرابی بحث یوں ہے:

(۱)  وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى ۔ لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً

[وَ] استیناف کی بھی ہوسکتی ہے اور سابقہ جملے (آیت) پر عطف کے لیے بھی [اِذْ] ظرفیہ (بمعنی جس وقت۔ جب) ہے جو ایک فعل محذوف’’اذکروا‘‘ سے متعلق ہے (’’واِذْ‘‘ کی ترکیب گزشتہ آیات میں کئی بار آئی ہے)  [قُلتم] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین مستتر  ’’انتم‘‘ ہے [یا] حرف ندا اور [موسی] منادی مفرد (لہٰذا) مرفوع ہے۔ اس مقصور ہونے کے باعث علامت رفع ظاہر نہیں ہے  [لَنْ] حرف نفی ہے جو فعل مضارع کو نصب دیتا ہے اور اس میں مستقبل کے معنی پیدا کرتا ہے(یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوگا) کہ  [نؤمن] فعل مضارع منصوب بِلَنْ ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’نحن‘‘ مستتر ہے [لَکَ] جارّ (لِ) اور مجرور(ک) مل کر متعلق فعل ’’نومن‘‘ ہیں یا ’’لام‘‘ کو فعل (نؤمن) کا صلہ سمجھ لیں تو ’’لک‘‘ یہاں محلاً ( بطور مفعول) منصوب ہے [حتی] حرفِ غایت و جرّ ہے جو یہاں ’’إِلَّا أَنْ‘‘ کے معنی میں بھی ہو سکتا ہے ۔  یعنی  ’’سوائے اس کے کہ‘‘۔ اور ’’ اِلٰی اَنْ‘‘ یعنی  ’’یہاں تک کہ‘‘ اور جب تک کہ نہ‘‘ کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے یعنی دونوں بلکہ تینوں طرح ترجمہ ممکن ہے [نری] فعل مضارع منصوب بہ ’’حتی‘‘ صیغہ جمع متکلم ہے۔ یعنی  ’’حتی‘‘ کے بعد ’’أن‘‘ مقدر ہے اس کی اصل شکل مرفوع ’’نَرْأَیُ‘‘ اور منصوب ’’نَرْأیَ‘‘ تھی۔ دونوں صورتوں میں آخری یائے متحرکہ اپنے ماقبل کے مفتوح ہونے کے باعث الف میں بدل جاتی ہے۔اور یوں یہ فعل (نری) ہو کر رفع اور نصب دونوں صورتوں میں یکساں رہتا ہے علامت نصب ظاہر نہیں ہوتی۔ بلکہ تمام ناقص افعال کے مضافع میں جہاں عین کلمہ مفتوح ہو (باب سمع یا فتح سے) سب میں یہی قاعدہ لاگو ہوتا ہے۔ (مثلاً یسعٰی۔ لن یسعٰی۔ یرضی۔ لن یرضی وغیرہ) البتہ ضرب یضرب سے مضارع منصوب میں آخری ’’یاء‘‘ مفتوح آتی ہے مثلاً ’’یرمِیْ‘‘ سے ’’لن یرمِیَ‘‘ ہو گا۔ [اللّٰہ] فعل ’’نری‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب آخری ’’ہ‘‘ کا فتحہ (ـــــَــــ) ہے۔ [جھرۃً] کی نصب کی دو تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔

(۱) اگر اسے فعل جھر یجھر کا ایک مصدر (جھرًا کی طرح) سمجھیں (دیکھئے اوپر بحث اللغہ) تو پھر یہ مصدر بمعنی اسم الفاعل اسم جلالت (اللہ) کا حال ہوکر نصب میں بنتا ہے یعنی ’’نراہ ظاھراً غَیر مستور‘‘ اور ترجمہ ہوگا ’’ہم اللہ کو دیکھیں کھلم کھلا (ہوتے ہوئے) یعنی اس حالت میں کہ وہ کھلم کھلا ظاہر ہو‘‘۔

(۲)اگر جھرۃ کو ایک اسم صفت (بمعنی ظاہر ۔ آشکار) سمجھ جائے تو یہ یہاں ایک مفعول مطلق مصدر محذوف کی صفت سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی تقدیر عبارت ہوگی ’’نری اللہ رویۃً جھرۃً‘‘ (ہم اللہ کو دیکھیں ایسا دیکھنا جو کھلم کھلا اور ظاہر باہر ہو بغیر کسی رکاوٹ کے) ان دونوں صورتوں میں ’’جھرۃ‘‘ کا تعلق فعل ’’نری‘‘ سے ہی بنتا ہے۔

(۳) ایک امکان یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’جھرۃ‘‘ کا تعلق فعل ’’قلتم‘‘ کی ضمیر فاعلین کے ساتھ ہو اور اس میں بھی دونوں صورتیں ممکن ہیں کہ ’’قلتم جھرۃً‘‘ (بصورت مصدر حال بمعنی اسم الفاعل یعنی مجاھرِیْن) سمجھاجائے یعنی ’’تم نے کھلم کھلا ہوکر یہ کہا‘‘۔ یا اس میں بھی  ’’جھرۃ‘‘ کو صفت مانا جائے تو مقدر عبارت ’’قلتم قولاً جھرۃً‘‘ اس میں ’’ۃ‘‘ تانیث کی نہیں بلکہ مبالغہ کی سمجھی جائے گی) اس کا ترجمہ بھی ’’تم نے ببانگ دہل (کھلم کھلا) کہہ دیا تھا‘‘ ہوگا۔

·       مندرجہ بالا نمبر  ۱  و نمبر ۲ تراکیب کا ماحصل ایک ہی بنتا ہے یعنی اللہ کو کھلم کھلا، علانیہ، سامنے ظاہر دیکھنا ـــــــ  اور قریبا تمام مترجمین نے ان ہی دو ترکیبوں کیے مطابق ترجمہ کیا ہے (تراجم کے لیے دیکھئے مندرجہ بالا حصۃ ’’اللغہ‘‘) تیسری ترکیب کی نحوی گنجائش موجود ہے تاہم کسی مترجم نے اس کے ساتھ ترجمہ نہیں کیا۔ سب نے ترجمہ میں اسی ترکیب کو نظر انداز کردیا ہے۔ حالانکہ لغت اور اعراب دونوں لحاظ سے ’’جھرۃ‘‘ کا تعلق ’’قلتم‘‘ اور ’’نری‘‘ دونوں کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے حصہ اللغہ میں ’’جھر‘‘ کے معنی)

·       اس مرکب فقرے میں ’’یاموسی‘‘ سے لے کر ’’جھرۃ ‘‘ تک کی عبارت فعل ’’قلتم‘‘ کا مقول (حکایۃ القول) ہونے کی وجہ سے مفعول بہ اور لہٰذا محلاً منصوب شمار ہوگی۔

(۲)  فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ

فاء [فَ] عاطفہ سببیہ ہے یعنی پھر اس کے سبب سے یہ ہوا کہ [اخذتکم] میں ’’اخذت‘‘ فعل ماضی صیغہ واحد مونث غائب ہے جس کی تانیث اس کے فاعل ’’الصاعقۃ‘‘ کی وجہ سے ہے جو آگے مذکور ہے۔ اور ’’کُمْ‘‘ ضمیر منصوب یہاں فعل ’’اخذت‘‘ کا مفعول بہ مقدم ہے (مفعول ضمیر ہو تو عموماً فاعل سے مقدم (پہلے) آتی ہے۔ [الصاعقۃ] فعل ’’اخذت‘‘ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے علامت رفع آخری ’’ۃ‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ) ہے۔

یہ جملہ (نمبر۲) اپنی جگہ مستقل جملہ فعلیہ ہے تاہم بلحاظ معنی اس کا تعلق مندرجہ بالا جملہ نمبر۱ سے ہی ہے۔ کیونکہ وہ (پہلا جملہ) اس (بجلی کے گرنے) کا سبب بیان کرتا ہے اوریہ دوسرا جملہ فائے عاطفہ کے ذریعے اس (پہلے) کے ساتھ مربوط بھی ہے۔

(۳)   وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ

[وَ] حالیہ ہے بمعنی ’’اس حالت میں کہ‘‘ اگرچہ بعض نے اس کا ترجمہ ’’عاطفہ‘‘ کی طرح ’’اور‘‘ سے ہی کردیا ہے۔ [انتم] ضمیر مرفوع منفصل یہاں مبتداء ہے اور [تنظرون] فعل مضارع مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ (مستتر) جملہ فعلیہ بن کر ’’انتم‘‘ (مبتداء) کی خبر ہے۔ یہ پورا جملہ اسمیہ (وانتم تنظرون) ’’فاخذتکم‘‘ کی ضمیر فاعل یا مفعول کا حال بنتا ہے یعنی تم دیکھ رہے تھے کہ وہ پکڑ رہی تھی اور تم کو ہی پکڑ رہی تھی۔

(۴)    ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ

[ثم] حرف عطف ہے جو ترتیب اور تراخی کو ظاہر کرتا ہے یعنی ’’اس کے پیچھے کچھ دیر (وقت) کے بعد (ایسا ہوا کہ)‘‘ [بعثناکم] میں ’’بعثنا‘‘ فعل ماضی ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ ہے اور ’’کُمْ‘‘ ضمیر منصوب برائے مفعول بہ ہے [من بعد] جار مجرور مضاف ہے اور اس کا مضاف الیہ [موتکم] ہے جو خود بھی مضاف (موت) اور مضاف الیہ (کُمْ) ہے اس میں لفظ مضاف الیہ اور مضاف (دونوں) ہونے کے باعث مجرور بھی ہے اور خفیف بھی۔ یہ سارا مرکب جاری (من بعد موتکم) فعل ’’بعثنا‘‘ سے متعلق ہے۔ بلکہ ظرف ہونے کے باعث اس فعل (بعثنا) کے وقت کو بیان کرتا ہے۔

(۵)  لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ   

[لعل] حرف مشبہ بالفعل اور [کم] ضمیر منصوب اس کا اسم (منصوب) ہے۔ [تشکرون] فعل مجارع اپنی مستتر ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ سمیت جملہ فعلیہ ہوکر ’’لعل‘‘ کی خبر (محلاً مرفوع) ہے۔اور یہ جملہ اسمیہ بلحاظ معنی جملہ نمبر۴ کے ساتھ مربوط ہے۔ کیونکہ اس (جملہ نمبر۵) میں ایک طرح سے اس (جملہ نمبر۴) کا متوقع نتیجہ بیان ہوا ہے۔

 

۳:۳۵:۲      الرسم

زیر مطالعہ دو آیات (۵۵۔۵۶) کے تمام کلمات کا رسم املائی اور قرآنی یکساں ہے البتہ تین کلمات کا رسم عثمانی (قرآنی) عام املاء سے مختلف ہے یعنی ’’یموسی‘‘، ’’الصعقۃ‘‘ اور ’’بعثنکم‘‘ کا تفصیل یوں ہے۔

(۱) ’’یٰمُوْسٰی‘‘ جس کا رسم املائی ’’یا موسٰی‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ (قرآن کریم میں یہ ترکیب ندائی ۲۴ دفعہ آئی ہے) ’’بحذف الف بعد الیاء‘‘ لکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ قاعدہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حرف نداء ’’یا‘‘ قرآن کریم میں ہر جگہ بحذف الف اور اپنے منادی کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے پھر بذریعہ ضبط اس ’’الف‘‘ کو ظاہر کیا جاتا ہے کیونکہ وہ پڑھا ضرور جاتا ہے۔

(۲) ’’الصّٰعِقَۃ‘‘ جس کا رسم معتاد باثبات الف ’’الصاعقۃ‘‘ ہے۔ یہ لفظ مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں قرآن کریم میں کے اندر کل چھ دفعہ آیا ہے سورۃ البقرہ اور النساء میں ایک ایک دفعہ سورۃ فصلت (حم السجدہ)  میں تین دفعہ اور سورۃ الذاریات میں ایک جگہ۔ اس کے رسم میں اختلاف ہے۔ یہاں (البقرہ:۵۵) میں تو بالاتفاق یہ بحذف الالف بعد الصاد (الصعقۃ) لکھا جاتا ہے الدانی اور الشاطبی نے اس کے صرف اسی جگہ (ھنا) حذف الف کی تصریح کی ہے۔[5]   باقی مقامات کے بارے میں صرف ابوداؤدسے حذف الف منسوب ہے۔ صاحب نثر المرجان نے تمام (چھ) مقامات پر حذف الف کو علمائے رسم کا ’’اتفاق‘‘ قرار دیا ہے اور پھر کشاف اور سیوطی وغیرہ کے حوالے سے اس کی ایک توجیہ اس میں ’’الصَعْقَۃ‘‘ کی قراء ت سے بھی کی ہے۔[6]   نتیجہ یہ ہے کہ صرف لیبی مصحف الجماہیر یہ میں البقرہ کے (زیر مطالعہ) لفظ کو بحذف الف اور باقی پانچ مقامات پر باثبات الف (الصاعقۃ) لکھا گیا ہے (الدانی کے مطابق) باقی افریقی اور عرب ممالک کے مصاحف میں تمام (چھ) مقامات پر بحذف الف ہی لکھا گیا ہے۔ برصغیر کے علم الرسم کے اہتمام والے مصاحف (مثلاً انجمن حمایت اسلام اور الفی قرآن مجید مطبوعہ بمبئی) میں بھی اسے ہر جگہ بحذف الف ہی لکھا گیا ہے۔

(۳) ’’بَعَثْنٰکُمْ‘‘ جس کا رسم املائی ’’بعثناکم‘‘ ہے۔ قران کریم میں بحذف بعد النون لکھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ الف پڑھا جاتا ہے۔ بلکہ اس بارے میں رسم عثمانی کا قاعدہ یہ ہے کہ جہاں بھی فعل ماضی کے صیغہ جمع متکلم (یا ضمیر تعظیم مرفوع متصل) کے (’’نا‘‘ کے) بعد کوئی ضمیر منصوب متصل (مفعول ہوکر) آئے گی تو اس (نا) کو حذف الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ عام رسم املائی میں ایسے موقع پر (ضمیر مفعول کے ساتھ) ’’نا‘‘ کو بحذف الف لکھنا غلط سمجھ جاتا ہے کیونکہ اس سے فعل کے صیغہ جمع مونث غائب ہونے کا التباس پیدا ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں (رسم عثمانی کے مطابق) ایسے تمام مواقع (ضمیر منصوب متصل والے) پر ’’نا‘‘ کو بحذف الف لکھنا ہی درست اور ضروری ہے۔[7]

 

۴:۳۵:۲      الضبط

اس قطعہ آیات میں ضبط کے مختلف طریقے درج ذیل نمونوں سے سمجھے جاسکتے ہیں۔ اس میں نون مخفاۃ، نون متطرفہ اور اقلاب نون بمیم کے ضبط میں خصوصاً دلچسپ تنوع ہے۔

 

 

 

 

 



[1]  اور اس کے معنی (کسی کام یا چیز سے) فراغت (پا لینا) ہیں دیکھیے Laneکی ’’مد القاموس۔ نیز اللسان تحت ’’ح ت ت‘‘۔  تاہم یہاں قرآنی قراءت نصب (یقول) ہی کی ہے۔ قراءت کی اصل روایت کی سند ہوتی ہے نہ کہ گرامر کے امکانات۔ یہاں صرف گرامر (نحو) کا ایک قاعدہ بیان ہوا ہے۔ یعنی اگر یہ عبارت قرآن میں نہ ہوتی تو ’’یقول‘‘کو دونوں طرح پڑھنا درست ہوتا۔

 

 [2]  اس کے استعمال اور معانی پر ابھی اوپر [۱:۳۵:۲(۲)]بحث ہو چکی ہے۔ یہاں اسی کی وجہ سے مضارع منصوب ہوا ہے۔ مزیدبحث ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

 

[3]  مثلاً المنجد، اعراب القرآن للنحاس ج۱ ص۲۲۷، البتیان للعکبری ج۱ ص۶۴۔

[4] دیکھئے القاموس للفیروز آبازی۔ المعجم الوسیط، Lane کی مدالقاموس اور اقرب الموارد ’’تحت مادہ ’’جھرہ‘‘۔

 

 [5] المقنع (للدانی) ص ۱۰، الشاطبی ص ۲۱، الضباع نے ’’الذاریات‘‘ والے لفظ میں بھی حذف الف کو ’’الدانی‘‘ اور ’’ابو داؤد‘‘ دونوں کی طرف منسوب کیا ہے۔ مگر المقنع میں اس کا ذکر کہیں نہیں کیا گیا (سمیر الطالبین الضباع ص ۵۱)

[6] دیکھئے دلیل الحیران (للمارغنی) ص ۶۹۔ نثر المرجان ج۱ ص ۱۴۷۔

[7] قاعدہ کے لیے دیکھئے سمیر الطالبین (للضباع) ص ۳۶۔