سورۃ البقرۃ  آیت نمبر  ۵۷

۳۶:۲      وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ(۵۷)

۱:۳۶:۲       اللغۃ

 [وَظَلَّلْنَا] میں ابتدائی ’’وَ‘‘ عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور مستانفہ بھی [’’وَ‘‘کے استعمالات اور معانی کے چاہیں تو دیکھ لیجئے[۱:۴:۱ (۳)]  اور  [۱:۷:۲ (۱)]

اور ’’ظَلَّلْنَا‘‘ کا مادہ ’’ظ ل ل‘‘ اور وزن ’’فَعَّلْنَا‘‘ ہے۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’ظَلَّ یضَلُّ (دراصل ظَلِلَ یَظْلَلُ) ظَلًّا (باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’رہنا، (دن بھر) رہنا، لگے رہنا، لگاتار رہنا، گزرنا، ہوا رہنا‘‘۔ یہ فعل لازم ہے اور زیادہ تر بطور فعل ناقص استعما ل ہوتا ہے جیسے ’’ ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا ‘‘ (النحل:۵۸) یعنی ’’اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور رہتا ہے‘‘ بطور فعل ناقص اس کی خبر کوئی اسم یا فعل مضارع ہوتا ہے اور (ظلّ) ماضی اور متعلقہ مضارع دونوں کی گردان (ماضی استمراری کی طرح) ساتھ ساتھ چلتی ہے مثلاً کہیں گے ’’ظل یکتب، ظلّو یکتبون‘‘ وغیرہ۔

·       اس فعل کے صرف ماضی کے صیغوں میں (مضارع میں نہیں) لام کلمہ (جو یہاں دوسرا ’’ل‘‘ ہے) کے ساکن ہونے والے (آخری نو) صیغوں میں عموماً صرف ایک ہی ’’لام‘‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ یعنی ’’ظَلَلنَ، ظَلَلْتَ، ظَلَلْنَا ‘‘وغیرہ کو ظَلْنَ، ظَلْتَ، ظَلْتِ، ظَلْتُ، ظَلْنَا‘‘وغیرہ پڑھا جاتا ہے۔ اگرچہ اصلی شکل بھی استعمال ہوتی ہے بلکہ عین کلمہ والے (پہلے) لام کے گر جانے کی وجہ سے فعل اجوف کی طرح سے ان (نو) صیغوں میں فائے کلمہ (جو یہاں ’’ظ‘‘ ہے) کی کسرہ (ـــــِــــ) بھی پڑھی جاسکتی ہے یعنی ’’ظِلْن، ظِلْتُ، ظِلْنَا‘‘ وغیرہ (خاف یخاف سے ’’خِفْتُ، خِفْنَا کی طرح) تاہم ان نو صیغوں میں سے قرآنِ کریم میں  ’’ظَلْتَ‘‘ اور ’’ظَلْتُم‘‘ ہی آئے ہیں)یعنی فائے کلمہ ’’ظ‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) اور عین کلمہ ل کے حذف کے ساتھ) ’’ ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا  ‘‘ (طہ:۹۷) اور ’’ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ ‘‘ (الواقعہ:۶۵) میں ۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے فعل ماضی کے سات اور فعل مضارع کے صرف دوصیغے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ باب تفعیل سے ماضی کا ایک ہی صیغہ دو جگہ اور مشتق و ماخوذ اسماء اور مصادر (ظِلٌّ، ظُلَّۃٌ، ظِلال، ظُلَلٌ وغیرہ) ۲۲ مقامات پر وارد ہوئے  ہیں ان کے معانی وغیرہ پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’ظَلَّلْنَا‘‘ اس مادہ (ظلَلٌ) سے بابِ تفعیل کے فعل ماضی کا صیغہ جمع متکلم (المعظِّم نفسَہ۔ یعنی صیغہ احترام و تعظیم) ہے۔ اس باب سے فعل ’’ظلَّلَ . . . . .  یُضلِّلُ تظلِیلا‘‘ کے معنی ہوتے ہیں ’’ . . . . .  پر سایہ کرنا،  . . . . .   کوڈھانپ لینا‘‘ کہتے ہیں ’’ظلَّل فلانًا = اَظَلَّہٗ= غشِیَہٗ (فلاں پر سایہ کیا، اسے ڈھانپ لیا)۔ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے)  آتا ہے۔ البتہ وضاحت کے لیے کوئی جار مجرور متعلق فعل ہوکر آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’ظلَّلَہٗ‘‘ (اس نے اس پر سایہ کیا) ’’کذا‘‘ (فلاں چیز کے ساتھ) یا  ’’مِنَ الشَّمسِ‘‘ (دھوپ سے بچانے کے لیے)۔ یعنی ’’ظَلَّلَہٗ‘‘ ہی کہتے ہیں ’’ظَلَّل علیہ ‘‘نہیں کہتے اور نہ ہی اس فعل کے دو مفعول آتے ہیں۔

·       عام معاجم (ڈکشنریوںمیں فعل ’’ظلَّلَ‘‘ کے معنی اور طریق استعمال کے بارے میں یہی بیان کیا ہوتا ہے (جو اوپر بیان ہوا ہے) مگر یہ معنی اس زیر مطالعہ آیت میں بلحاظِ ترکیب فٹ نہیں بیٹھتے۔ کیوں؟ اس پر مزید بحث اور درست معنی کی بات ابھی آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔ کیوں کہ اس کا تعلق لغت سے زیادہ ترکیب نحوی کے ساتھ ہے۔ تاہم اس (آنے والی) اعرابی بحث کو سمجھنے کے لیے یہ (بیان کردہ) لغوی بحث اور ڈکشنری والے معنی ذہن میں رکھیے گا۔ یہ صیغہ فعل ’’ظلَّلْنَا‘‘ قرآن کریم میں صرف دو جگہ آیا ہے یہاں (البقرہ:۵۷) اور الاعراف:۱۶۰ میں۔

[عَلَیْکُمْ] یعنی ’’تم پر‘‘۔ اس کا تعلق تو فعل ’’ظَلَّلْنَا‘‘ سے ہی ہے مگر یہ فعل اس ’’صلہ‘‘ (علیٰ) کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا۔ یعنی ’’تم پر سایہ کیا ’’ہم نے‘‘ کے لیے ’’ظَلَّلنَا کُمْ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ اس کے لیے ’’ظَلَّلْنا علیکم‘‘ نہیں کہتے کیونکہ (ابھی اوپر بیان ہوا کہ) ’’ظلَّلَ‘‘ کا مفعول بنفسہ آتا ہے۔ پھر یہاں ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب بھی آپ کو آگے بحث ’’الاعراب ‘‘میں ملے گا۔

۱:۳۶:۲ (۲)     [الغَمَامَ] کا مادہ ’’غ م م‘‘ اور وزن لامِ تعریف نکال کر ’’فَعَالٌ‘‘ ہے (یہاں الغمام منصوب آیا ہے جس کی وجہ آگے الاعراب میں بیان ہوگی)۔

اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ ایک ہی باب سے متعدد معانی کے لیے بھی آتا ہے۔ مثلاً:

(۱) غمَّ یغُمُّ غَمًّا (نصر سے) آئے تو اس کے معنی بطور فعل لازم ’’سخت گرم ہونا یا گرمی والا ہونا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’غَمَّ الیوم‘‘ (دن سخت گرم ہوگیا تھا) اور اسی باب سے بطور فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے بمعنی ’’ . . . . .  کو ڈھانپ لینا، . . . . .  کو چھپا لینا،. . . . .  پر چھا جانا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’غَمَّ الشیَٔ‘‘(اس نے (اس) چیز کو ڈھانپ دیا)۔ اور اسی کے معنی ’’غمگین کرنا، غم میں ڈالنا‘‘ بھی ہوتے ہیں یعنی غَمَّہ = حَزَنَہٗ‘‘رنج کو ’’غم‘‘ (جو اُردو میں بھی مستعمل ہے) کہنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ ایک طرح سے ڈھانپ لیتا ہے۔

(۲) غمَّ یغَمّ غمَمًا (باب فتح سے) کا ایک مطلب ’’بادلوں کے درمیان خالی جگہ نہ ہونا‘‘ ہیں کہتے ہیں ’’غمّ السحابُ‘‘ (بادل گھنا تھا)۔ اور بصورت مجہول ’’غُمَّ الھِلالُ‘‘ کے معنی ہیں ’’بادل یا دُھند وغیرہ کے باعث نیا چاند نظر نہ آنا‘‘ وغیرہ، تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل (نہ مجرد نہ مزید فیہ) مطلقاً استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس مادہ (غمم) سے ماخوذ بعض جامد اسماء (غم غُمَّۃ، غمامٌ وغیرہ) دس مقامات پر آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (الغمام) اسی مادہ سے ماخوذ ایک اسم جامد ہے (یعنی کسی معروف طریقے پر (مثلاً اسم الفاعل اسم المفعول وغیرہ کی طرح) مشتق اسم نہیں ہے اس کے معنی’’سفید بادل‘‘ کے ہیں۔ اور مطلقاً بادل یا  ابر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کہ وہ بھی آسمان کو ڈھانپ لیتا ہے اور برسے یا نہ برسے مگر سورج کی تپش اور دھوپ سے بچا لیتا ہے۔ ویسے ’’الغمام‘‘ اسم جنس ہے یعنی ہر وہ چیز جسے ’’بادل‘‘ یا ’’ابر‘‘ کہتے ہیں وہ ’’غمام‘‘ ہے۔ اس میں سے کسی بادل کے ایک حصے یا ٹکڑے کو تائے وحدت لگا کر ’’غمامۃ‘‘ کہتے ہیں۔

[وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ] جو ’’وَ‘‘ (اور) + اَنْزَلْنَا (ہم نے اتارا) + علی (اوپر)+ کم (تمہارے) سے مرکب ہے۔ اس میں فعل ’’اَنْزَلْنَا‘‘ کا مادہ ’’ن ز ل‘‘ اور وزن ’’اَفْعَلْنَا‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ سے باب افعال کے فعل ’’اَنزل یُنزِل‘‘ (اتارنا، نازل کرنا) فعل ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب، معنی اور استعمال کے علاوہ خود اس باب (افعال) کے معنی وغیرہ البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۲)]میں بیان ہوچکے ہیں بیشتر اردو مترجمین نے ’’وانزلنا علیکم‘‘ کا ترجمہ ’’ہم نے تم پر اتارا‘‘ ہی سے کیا ہے بعض نے ’’اتارتے رہے‘‘ سے ترجمہ کیا جو قصّہ (واقعہ) کی مناسبت سے بامحاورہ ترجمہ ہے۔ بعض نے ’’تمہارے پاس پہنچایا‘‘ اختیار کیا ہے جو لفظ سے تو ہٹ کر ہے اسے تفسیری ترجمہ ہی کہہ سکتے ہیں۔

۱:۳۶:۲ (۳)     [الْمَنَّ] کا مادہ ’’م ن ن‘‘ اور وزن ’’لام تعریف نکال کر (بحالت رفع ’’فَعْلٌ‘‘بنتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’مَنَّ یُمنُّ (دراصل منَنَ یَمْنُنُ) مَنًّاومِنَّۃً‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے۔ یہ فعل متعدی ہے اور اس کے متعدد معنی ہیں۔ مثلاً (۱) (کسی پر) احسان کرنا کسی کے ساتھ انتہائی حسن سلوک کرنا‘‘۔  اس کا تعلق فعل اور عمل سے ہے یعنی عملاً احسان کرنا۔ (۲) اور اسی کے معنی ’’احسان جتلانا/دھرنا۔ کسی کے ساتھ کی ہوئی نیکی کا ذکر زبان پر لانا‘‘۔ اس کا تعلق قول اور بات سے ہوتا ہے۔ ان (مندرجہ بالا) دونوں معنوں کے لیے اس فعل سے پہلے ’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ یعنی ’’مَنَّہ ‘‘ نہیں کہتے بلکہ ’’مَنَّ علَیْہ‘‘ کہتے ہیں۔ اور قرآن کریم میں یہ فعل ان دونوں معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے جس کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

(۳) اس فعل کے ایک معنی ’’. . . . کو کاٹ دینا‘‘ بھی ہوتے ہیں مثلاً ’’مَنَّ الْحَبْلَ= (اس نے رسی کاٹ دی)۔ اس معنی کے لیے اس فعل کے ساتھ مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے جیسا کہ مثال سے ظاہر ہے (۴) اسی فعل کے ایک معنی ’’فیاضی دکھانا، فیاض بننا یا عطا کرنا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ یہ فعل لازم کی طرح استعمال ہوتا ہے یا اس کے ساتھ ’’علیٰ‘‘ کے صلہ والا مفعول محذوف ہوتا ہے جیسے ’’ فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِكْ (ص:۳۹) میں ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے ۱۴ جگہ آئے ہیں اور زیادہ تر ’’عَلٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ۔ گیارہ جگہ تو یہ فعل (نمبر۱)(مندرجہ بالا) والے معنی (احسان کرنا، نعمت دینا) کے لیے آیا ہے۔ اور تین جگہ نمبر ۲ والے معنی (احسان جتلانا) میں آیا ہے اور دو جگہ یہ فعل بغیر کسی صلہ کے (بمعنی عطا کرنا) استعمال ہوا ہے اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب سے کچھ افعال مختلف معانی کے لیے عربی زبان میں آتے ہیں تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے مزید فیہ کے کسی باب سے کوئی فعل استعمال نہیں ہوا۔ فعل مجرد کے صیغوں کے علاوہ اس مادہ سے مشتق اور ماخوذ کلمات (منٌّ، ممنون، منون وغیرہ) بھی گیارہ جگہ آئے ہیں جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’المنَّ‘‘ اسی مادہ سے ماخوذ ایک اسم جامد ہے جو بلحاظ وزن تو اس سے فعل مجرد کے مصدر ’’مَنٌّ‘‘ سے مشابہ ہے۔ مگر بلحاظ معنی اس سے مراد ایک خاص قسم کی میٹھی گوند کی قسم کی چیز ہے جو بنی اسرائیل کی صبح کی خوراک کے لیے صحرائے تیہ میں اتاری گئی۔ یہ شبنم یا اوس کی طرح درختوں کے پتوں یا پتھروں پر گرنے والا ایک سفوف (پاؤڈر) سا ہوتا تھا۔ جو خشک ہو کر گوند کی شکل اختیار کرلیتا جسے لوگ جمع کرلیتے تھے اور خوراکی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔

دیسی طب میں استعما ل ہونے والی ایک دوا ’’شیر خشت یا ترنجبین‘‘ بھی قریباً اسی طرح حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اردو کے بعض مترجمین نے ’’المن‘‘ کا ترجمہ یہی (ترنجبین) کیا ہے۔ (بعض مفسرین مثلاً زمخشری نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے) تاہم بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’مَنّ‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔ انگریزی میں بھی اس کے لیے لفظ (Manna) ہی استعمال ہوتا ہے۔ بعض نے  ’’من‘‘ کا ترجمہ ایک قسم کی نباتات جو کھانے کے کام آتی ہے‘‘ سے کیا ہے۔ بعض حضرات نے  ’’مَنّ‘‘ کے نام اور معنی میں یہ مناسبت نکالی ہے نزول (یا حصول) ’’من‘‘ بھی اللہ کا احسان تھا۔

·       برسبیل تذکرہ: چند برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کے شہر موصل سے ہمارے ایک عراقی دوست بطور تحفہ وہاں کی تیار کردہ ایک مٹھائی لائے تھے۔ جس کا مقامی نام بھی بقول ان کے  ’’مَنّ‘‘ ہی تھا۔ انہوں نے بتایا کہ شمالی عراق میں (کسی خاص موسم میں) درختوں پر ایک خاص قسم کی سفید چیز آسمان سے (مثل شبنم) گرتی ہے۔ لوگ اسے جمع کرلیتے ہیں۔ اس کی نہایت صاف ستھری قسم جو درختوں سے (ان کے پتے زمین پر گرنے سے پہلے ہی) حاصل کی جاتی ہے۔ وہ مذکورہ مٹھائی کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ اس مٹھائی کا ذائقہ فی الواقع ہمارے ہاں چینی سے تیار ہونے والی بہتر سے بہتر مٹھائی سے بھی کہیں زیادہ بہتر اور ممتاز قسم کا تھا۔ بنی اسرائیل کا ’’من‘‘ بھی شاید کوئی اس قسم کی چیز ہوگی۔ واللہ اعلم

۱:۳۶:۲: (۴)      [والسَّلوٰی] ’’وَ‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔اور ’’السلوی‘‘ کا مادہ ’’س ل و‘‘ اور وزن ، لام تعریف کے بغیر ’’فعلٰی‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سَلَا یَسْلُوْ سُلُوًّا‘‘ (باب نصر سے) اور ’’سَلِیَ یَسْلٰی سُلِیًّا‘‘ ( باب سمع سے) آتا ہے۔ اور(دونوں صورتوں میں) اس کے معنی ہیں: ’’کسی کی یاد (یا اس کے فراق کا غم) دل سے نکال دینا، دلاسہ پانا‘‘۔ یہ مادہ مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور ہمارے ہاں اُردو میں عام استعمال ہونے والا لفظ’’تسَلِّی‘‘ اسی مادہ سے باب تفعل کا مصدر ہے۔ (جس کی اصل عربی شکل ’’تسَلَّیٍ‘‘ یا ’’التَسَلِّی‘‘ ہے) تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (سلو) سے کسی قسم کے فعل (مجرد یا مزید فیہ) کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       لفظ ’’السلوی‘‘ اسی مادہ سے ماخوذ ایک کلمہ ہے جس کے معنی ’’کوئی غم غلط کرنے والی چیز‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ عربی میں العسل (شہد) کو بھی ’’السلوی‘‘ کہتے ہیں۔ اور ’’سَلوٰی‘‘ ایک خاص قسم کے پرندے کو بھی کہتے ہیں جس کا اردو ترجمہ’’بٹیر‘‘ کیا جاتا ہے۔ اسے عربی میں ’’سُمانیٰ‘‘ بھی کہتے ہیں اور شام (ملک) میں آج کل اسے ’’قَرِّیْ‘‘ بھی کہتے ہیں اور غالباً وہی یہاں مراد ہے۔ ’’منّ‘‘ کی طرح صحرائے تیہ (جزیرہ نمائے سینا) میں بنی اسرائیل کے کیمپوں کے آس پاس جھاڑیوں میں یہ پرندے شام کے وقت بکثرت مل جاتے تھے جو بآسانی پکڑے جاسکتے تھے اور اسرائیلیوں کی خوراکی ضروریات پوری کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ ’’السلوی‘‘ کے نام اور معنی میں بھی ایک مناسبت ’’سامانِ تسلی‘‘ ہونے کی ہے۔

·       اردو میں صرف ایک آدھ مترجم نے ہی اس کا ترجمہ ’’بٹیر‘‘ کیا ہے۔ ورنہ بیشتر حضرات نے اس کا ترجمہ کرنے کی بجائے اصل لفظ ’’سلوی‘‘ ہی رہنے دیا ہے اور ’’المن والسلوی‘‘ کا ترجمہ ’’من و سلوی‘‘ سے ہی کرلیا ہے جو اردو محاورے میں ’’اعلی قسم کی خوراک ‘‘کے ہم معنی بھی ہے۔ لفظ ’’السلوی‘‘ قرآن کریم میں صرف تین جگہ آیا ہے۔ اس کے مادہ  (سلو) سے ماخوذ یا مشتق اور  کوئی لفظ قرآن میں وارد نہیں ہوا۔

[کُلُوْا] کا مادہ ’’ اَ  ک ل ‘‘ اور وزن اصلی’’اُفْعُلُوْا‘‘ ہے ۔ اس کی اصلی شکل ’’ اُأْکُلُوْا ‘‘ تھی جسے قیاساً (ہمزہ متحرکہ مضمومہ کے ساتھ ہمزۂ ساکنہ آنے کے باعث) ’’اُوْکُلُوْا‘‘ ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر خلافِ قیاس اس کے بارے میں عربوں کا طریقِ تلفظ یہ ہے کہ اس کے ابتدائی ہمزۃ الوصل اور فاء کلمہ والے ہمزۃ القطع دونوں کو تلفظ اور کتابت سے ساقط کردیا جاتا ہے اور یوں اس کے فعل امر کی گردان ’’کُلْ، کُلَا، کُلُوْا، کُلِیْ، کُلَا اور کُلْنَ‘‘ رہ جاتہ ہے۔ ’’کُلُوْا‘‘ کا ترجمہ ہے ’’تم کھاؤ‘‘ ۔ اس مادہ (اَکل) سے فعل مجرد (اَکل یاَکُل أکُلا = کھانا) کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۳۵ [۱:۲۶:۲ (۴)]میں بات ہوچکی ہے۔

۱:۳۶:۲ (۵)     [مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ] یہ عبارت کل پانچ کلمات پرمشتمل ہے یعنی مِنْ + طَیِّبَات + ما +رزقنا +کم۔ ہر ایک کلمہ کی الگ الگ لغوی تشریح یوں ہے۔

(۱)’’مِنْ‘‘ کا ترجمہ یہاں ’’میں سے‘‘ ہوگا۔ اگر چاہیں تو ’’مِنْ‘‘ کے معنی اور استعمال کی مزید وضاحت کے لیے بحث استعاذہ اور البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)]پر نظر ڈال لیجئے۔

(۲)’’طَیِّبَاتِ‘‘ (یہ اس لفظ کا رسم املائی ہے رسم عثمانی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی)۔ اس کا مادہ ’’ط ی ب‘‘ اور وزن اصلی‘  لام تعریف نکال کر (بصورتِ رفع) ’’فَیْعِلاتٌ‘‘ بنتا ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’طَیْیِبَاتِ‘‘ تھی جس میں ساکن یاء متحرک یاء میں مدغم ہوکر لفظ ’’طَیِّبَات‘‘ بنتا ہے۔

·       یہ لفظ (طیبات) جمع مونث سالم ہے اس کا واحد ’’طَیِّبَۃٌ‘‘ (بر وزن ’’فَیْعِلَۃٌ‘‘ ہے) جو ’’طَیِّبٌ‘‘ (بروزن ’’فَیْعِلٌ‘‘ کا صیغہ مونث ہے۔ عربی میں اجوف یائی سے (بلکہ واوی سے بھی) بہت سے کلمات اسی وزن اور اسی طرح ادغام سے (اور واوی میں ’’واو‘‘ بھی ’’یاء‘‘ میں بدل کر مدغم ہوجاتی ہے) بنتے ہیں مثلاً ’’بیّن‘‘ (ب ی ن سے) ، ثیِّب(ث ی ب سے) ، صَیِّبٌ (ص و ب سے) اور سَیِّدٌ (س و د سے) دیکھئے البقرہ:۱۹[۱:۱۴:۲ (۲)]۔

·       اس مادہ (طیب) سے فعل مجرد ’’طابَ یطِیْبُ طِیْبًا‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے متعدد معنی ہوتے ہیں: (۱) پاک صاف ہونا، عمدہ ہونا، مزیدار ہونا، خوشگوارہونا، خوش خوش ہونا، شادمان ہونا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’طابَ الشیُٔ/الرجلُ‘‘ (چیز/ آدمی عمدہ/ خوشگوار ہوگئی / ہوگیا) یا ’’طابَتْ نَفْسُہُ ‘‘ (اس کی جان یعنی وہ خود خوش ہوگیا (یہ استعمال ایک دوسرے صیغے کے ساتھ الزمر:۷۳ میں آیا ہے) (۲) ’’کسی کو اچھا لگنا، پسند آنا، خوشگوار لگنا‘‘۔ اس معنی میں ’’کسی کے لیے ‘‘جو لفظ آئے اس پر ’’لام ‘‘ (لِ) کا صلہ لگتا ہے۔ مثلا کہیں گے ’’طابَ لہ‘‘ (وہ اس کو اچھا لگا)۔ یہ استعمال بھی ایک دوسرے صیغے کے ساتھ النساء:۳ میں آیا ہے۔ (۳) ’’کسی چیز کو خوشی سے چھوڑ دینا‘‘ ان معنی کے لیے ’’اس چیز‘‘ (جو خوشی سے چھوڑ دی) سے پہلے ’’عَنْ‘‘ کا صلہ آتا ہے اور ساتھ ’’نفسًا‘‘ بطور تمیز آتا ہے۔ کہتے ہیں ’’طابَ عَنْہ نفسًا‘‘ (اس نے اسے اپنی مرضی سے چھوڑ دیا) یہ استعمال بھی ایک دوسرے صیغے کے ساتھ النساء:۴ میں آیا ہے۔ (۴) ’’کسی کی موافقت یا رضامندی پر تیار ہوجانا‘‘ اس کے لیے ’’کسی ‘‘ سے پہلے  ’’الی‘‘ یا ’’بِ‘‘ کا صلہ آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’طابَتْ نفسُہ الیہ/ بہ‘‘ (اس کی جان یعنی وہ خود اس (فلاں) کے موافق ہوگیا۔ یہ (نمبر۴) استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد (طاب یطیب) سے صرف تین جگہ صیغہ ہائے فعل وارد ہوئے ہیں (ہر ایک کا حوالہ اوپر مذکور ہوا ہے)۔

·       اس مادہ سے عام عربی میں مزید فیہ کے بعض ابواب (اِفعال۔ مفاعلہ ۔ تفعیل۔ تفعل اور استفعال وغیرہ) سے مختلف معانی کے لیے فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے مزید فیہ کا کوئی فعل استعمال نہیں ہوا۔ فعل مجرد کے مذکورہ بالا تین صیغوں کے علاوہ اس مادہ سے ماخوذ یا مشتق متعدد کلمات (طوبی۔ طیّبۃ۔ طیّب وغیرہ) پچاس کے قریب مقامات پر آئے ہیں خود لفظ ’’طیبات‘‘ معرفہ نکرہ مفرد مرکب صورتوں میں ۳۰ جگہ آیا ہے۔

·       جیسا کہ اوپر شروع میں بیان ہوا ہے۔ زیر مطالعہ لفظ ’’طیبات‘‘ طیِّبۃ کی جمع مونث سالم ہے اور ’’طیِّبۃ‘‘، ’’ طیِّبٌ‘‘  کی تانیث ہے۔ اس لیے اگر لفظ ’’طیِّب‘‘ کے معنی معلوم ہوں تو دوسرے لفظو ں کے معنی بھی سمجھے جاسکتے ہیں۔ اگرچہ کلمہء ’’طیبات‘‘ (بصورت جمع) اپنے بعض محاوراتی معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (مثلاً زندگی کی راحتیں، آسائشیں) جیسے انگریزی میں “force”(قوت)بصورت جمع (forces) بمعنی ’’فوج‘‘ استعمال ہوتا ہے۔

·       عربی زبان میں ’’طیِّب‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جسے حواس خمسہ یا انسانی نفس (دل، دماغ، طبیعت) پسند کرے جس میں برائی یا تکلیف کی کوئی چیز نہ ہو۔ یا جو آدمی رذائل سے پاک اور فضائل سے متصف ہو۔ ان معانی کے لحاظ سے اس (طیّب) کا ترجمہ حسب موقع پاکیزہ۔ نیک۔ اچھا ۔ بہت عمدہ۔ زرخیز۔ عفیف۔ صاف پاک۔ خوشگوار۔ لذیذ اور صحت مند‘‘ وغیرہ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔

اور ’’طیِّبات‘‘ سے مراد وہ تمام چیزیں یا اشخاص یا اعمال ہیں جن پر ان صفات کا کسی طرح اطلاق ہوسکتا ہے یعنی جس میں کوئی حسّی یا شرعی قباحت موجود نہ ہو۔ یہ لفظ بعض دفعہ مضاف ہوکر استعمال ہوتا ہے جیسے یہاں ’’ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ‘‘ میں ہے (جس کی ترکیب نحوی آگے حصہ ’’الاعراب‘‘ میں آرہی ہے) یا ’’ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ‘‘ (البقرہ:۲۶۷) اور ’’ طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ ‘‘ (المائدہ:۸۷) میں ہے (ان کا بیان اپنے موقع پر آئے گا) اس (اضافت والی) صورت میں یہ لفظ (طیبات) اپنے مضاف الیہ کے پاکیزہ و عمدہ اور پاک و صاف پہلوؤں یا اجزاء کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بلکہ ایک طرح سے اس کی صفت بیان کرتا ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے ’’ریشمی کپڑے‘‘ کو ’’ریشم کا کپڑا‘‘ کہہ دیں۔ مندرجہ بالا معانی کی بنا پر اردو مترجمین نے یہاں ’’طیبات‘‘ کا ترجمہ زیادہ تر پاکیزہ چیزیں،ستھری چیزیں نفیس چیزیں‘‘ سے کیا ہے۔ بعض نے صرف ’’پاکیزہ‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔ (’’چیزیں‘‘ نہیں لگایا جو کہ ایک وضاحتی لفظ ہے) بعض حضرات نے حصۂ   آیت ’’مارزقنا کم‘‘ (جس کی تشریح آرہی ہے) کو سامنے رکھتے ہوئے ترجمہ ’’پاکیزہ روزیاں‘‘ سے کیا ہے۔

(۳) ’’مَا‘‘ یہاں موصولہ بمعنی ’’جو کچھ کہ/ جو کہ‘‘ ہے۔ اور چونکہ یہ یہاں مضاف الیہ (طیبات کا) ہوکر آیا ہے جس کا ترجمہ لفظی ’’پاکیزہ چیزیں اس کی جو کہ‘‘ بنتا ہے ۔اس لیے اسے بامحاورہ کرتے ہوئے بیشتر مترجمین نے یہاں ’’ما‘‘  کا ترجمہ ’’اس کی جو کہ‘‘کی بجائے صرف ’’جو کہ یا جو‘‘ سے ہی کیا ہے اور یوں ’’من طیبات مَا. . . . ‘‘ کا ترجمہ ’’نفیس/ پاکیزہ چیزوں میں سے جو کہ. . . . ‘‘ کیا ہے بعض نے  ’’مِنْ‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس حصہءِ آیت کا ترجمہ ’’وہ پاکیزہ چیزیں جو کہ/جو پاکیزہ چیزیں ‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔

(۴)’’رزقناکم‘‘ (یہ اس کا رسم املائی ہے رسم قرآنی آگے ’’الرسم‘‘ میں بیان ہوگا) میں آخری ضمیر منصوب ’’کم‘‘ بمعنی ’’تم کو‘‘ ہے۔ اور فعل ’’رزقنا‘‘ کا مادہ ’’رزق‘‘ اور وزن ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (رزق یرزُقْ= روزی دینا) کے باب معنی اور استعمال کی وضاحت البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۶)]میں گزر چکی ہے۔

·       اس طرح ’’ما رزقناکم‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’وہ جو کہ روزی دی/ عطا کیا ہم نے تم کو‘‘۔ جسے بعض نے (چیزیں کی مناسبت سے) ’’جو دیں ہم نے تم کو‘‘ اور بعض نے ’’جو ہم نے تم کو دے رکھی ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے اس کا ترجمہ صرف ’’ہماری دی ہوئی‘‘ سے کیا ہے جو زیادہ بامحاورۃ ہے اگرچہ اصل عبارت سے ذرا ہٹ کر ہے۔

[وَمَا ظَلَمُوْنَا] یہ ایک مکمل جملہ ہے جو ’’وَ‘‘ (بمعنی ’’اور‘‘ ’’یا‘‘ ’’حالانکہ‘‘)+ مَا (نافیہ بمعنی نہیں[1]) + ظلمُوا (انہوں نے ظلم کیا)+ ’’نا‘‘ (ہم کو/ ہم پر) کا مرکب ہے۔

اس عبارت میں فعل ’’ظلموا‘‘ کی املاء کا یہ پہلو نوٹ کیجئے کہ یہ صیغۂ فعل الگ لکھتے ہوئے اس کے آخر پر (واو لجمع کے بعد )  زائد الف لکھا جاتا ہے (جو پڑھنے میں نہیں آتا) لیکن جب اسی کے ساتھ ضمیر منصوب (مفعول) لگتی ہے تویہ زائد الف نہیں لکھا جاتا بلکہ اسے (مثلاً) ’’ظَلَمُوْنَا‘‘ لکھا گیا ہے۔ باقی ضمائر کے ساتھ بھی یہی صورت ہوتی ہے۔ ہاں  اگر کوئی اسم ظاہر مفعول ہو تو یہ زائد الف لکھا جائے گا مثلاً ’’ظلَمُوا انفسَھُم‘‘ (انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا) میں۔

·       ’’ظلموا‘‘ کا مادہ ’’ظ ل م‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی (ظلم یظلم=ظلم کرنا) وغیرہ پر البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲ (۱۰)]میں بات ہوچکی ہے۔ سیاق عبارت (بیان قصّہ) کے لحاظ سے یہاں ’’ظلموا‘‘ کا ترجمہ ’’انہوں نے ظلم کیا‘‘ کی بجائے ’’نقصان کیا، بگاڑا۔ زیادتی کی‘‘ سے بھی کیا گیا ہے۔ اور یوں ’’وما ظلموا‘‘ کا ترجمہ ’’ہمارا کچھ نقصان نہ کیا انہوں نے، ہمارا کچھ نہیں بگاڑا، ہم پر زیادتی نہیں کی‘‘ سے کیا ہے۔

[وَلٰکِنْ] بمعنی ’’اور، لیکن، مگر‘‘ کے معنی اور طریق استعمال کے بارے میں البقرہ:۱۲ [۱:۹:۲(۸)]میں دیکھئے۔

[کَانُوْا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ] یہ ایک پورا جملہ ہے جس کے تمام اجزاء کی لغوی بحث پہلے ہوچکی ہے مثلاً

     ’’کانوا‘‘ (وہ تھے) جو’’ک و ن‘‘ مادہ سے ’’فَعَلُوا‘‘ ہے اس فعل کے باب معنی اور تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲(۱۰)]نیز البقرہ:۲۸[۱:۲۱:۲ (۱)]۔

’’اَنْفُسَھُمْ‘‘ (اپنی جانوں/ اپنے آپ کو/ پر) کے ’’انفس‘‘ جس کا مادہ ’’ن ف س‘‘ اور وزن ’’اَفْعُلٌ‘‘ ہے۔ اس کے معنی وغیرہ کے بارے میں البقرہ:۹ [۱:۸:۲(۴)]میں دیکھئے۔

اور ’’یظلمون‘‘ (وہ ظلم کرتے تھے/ انہوں نے ظلم کیا) جو ’’ظ ل م‘‘ مادہ سے فعل مجرد کا صیغہ مضارع بروزن ’’یفعِلون‘‘ ہے اس کے باب معنی اور استعمال پر البقرہ:۱۷[۱:۱۳:۲ (۱۰)]میں بات ہوچکی ہے۔

·       اوپر ’’وما ظلمونا‘‘ کے تراجم کی طرح یہاں بھی ’’ظلم کرنا‘‘ کے لیے ’’نقصان کرنا ،بگاڑنا ‘‘وغیرہ سے ترجمہ ہوسکتا ہے اور مفعول (انفسھم) کے فعل سے پہلے آنے کی وجہ سے (مزید بحث ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی) ترجمہ ’’اپنا ہی نقصان کرتے رہے، اپنا ہی کھوتے رہے، اپنا ہی بگاڑتے رہے‘‘ وغیرہ سے کیا گیا ہے۔

 

۲:۳۶:۲      الاعراب

آیتِ زیر مطالعہ نحوی اعتبار سے پانچ مستقل جملوں پر مشتمل ہے جس میں سے بعض واو العطف یا واو الحال کے ذریعے باہم ملا کر ایک لمبا جملہ بنادیئے گئے ہیں۔ ہر ایک جملہ کے اعراب کی تفصیل یوں ہے۔

(۱)    وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ

[وَ] عاطفہ بھی ہوسکتی ہے جو جملے کو ماقبل جملے پر (بلحاظ تسلسل مضمون) عطف کرتی ہے۔ اور یہ واو مستانفہ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ یہاں سے اسرائیلی تاریخ کے بعض واقعات کے بیان کے سلسلے میں ایک نئے واقعہ ایک نئی بات کا آغاز ہوتا ہے۔ [ظلَّلْنَا] فعل ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ مستتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے [علَیْکم] جارّ (علی) اور مجرور (کُمْ) مل کر متعلق فعل (ظلَّلنا) ہے جو فعل کے مفعول سے مقدم آیا ہے اس تقدیم کی وجہ سے عبارت میں ’’تم ہی پر تو‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے اگرچہ اکثر مترجمین نے اس فرق کو نظر انداز کیا ہے۔ [الغَمامَ] فعل ’’ظلَّلْنا‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے جو متعلق فعل سے مؤخر آیا ہے۔ علامتِ نصب اس میں آخری ’’میم‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔

·       اس فقرے کی سادہ نظر میں ترتیب یوں بنتی ہے ’’وظلَّلنا الغمامَ علیکم‘‘ اب اگر فعل ’’ظلَّل‘‘ کے عام ڈکشنری والے معنی کو لیا جائے (جو ابھی اوپر حصہ اللغۃ میں [۱:۳۶:۲(۱)] پر بیان ہوئے ہیں) تو اس عبارت کا ترجمہ بنتا ہے ’’اور ہم نے سایہ کردیا بادل پر تمہارے اوپر‘‘ اور اس کا مفہوم یہ ہوجاتا ہے کہ گویا خود بادل سائے میں ہوگیا۔ جو یہاں مراد نہیں ہے۔ اس لیے بعض علمائے تفسیر و نحو (مثلاً زمخشری ،طبرسی، عکبری) نے یہاں ’’ظلَّلْنا‘‘ کے معنی ’’پر سایہ کیا‘‘کی بجائے،’’. . . . کو سایہ بنایا، . . . . کو سائبان بنایا، . . . . کوسایہ کرتا بنایا‘‘ کیے ہیں۔ جعلنالکم الغمامَ یُظِلُّکم(بادل کو بنایا تم پر سایہ کرتے ہوئے۔ زمخشری [2]) جعلنا لکم الغمامَ ظُلَّۃ (بادل کو تمہارے لیے سائبان بنایا۔ طبرسی[3]) اور  جعلنا ہ  ظِلًّا (اس کو سایہ بنایا۔ عکبری[4]) غالباً یہی وجہ ہے کہ ہمارے متعدد اردو مترجمین نے اس حصہ عبارت (و ظللنا علیکم الغمامَ) کا ترجمہ ’’ہم نے سائبان کیا اوپر تمہارے بادل کو، ہم نے سایہ افگن کیا تم پر ابر کو، اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا‘‘سے ہی کیا ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے اردو محاورہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ہم نے سایہ کیا/ کیے رکھا/ کردیا تم پر ابر  کا‘‘ کی صور ت میں بھی ترجمہ کیا ہے جو مفہوم اور محاورے کے اعتبار سے درست ہے۔ اگرچہ اس میں ترکیب کی نحوی باریکی کو ملحوظ نہیں رکھاگیا۔

(۲)   وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى 

[و] عاطفہ ہے جس کے ذریعے مابعد والا جملہ سابقہ جملے پر عطف ہے یا اس کے ذریعے آگے آنے والا فعل (انزلنا) گزشتہ فعل (ظلّلنا) پر عطف ہے [انزلنا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ مستتر ہےجو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [علیکم] جار (علی) اور مجرور (کم) مل کر متعلق فعل ’’انزلنا‘‘ ہے جو مقدم آیا ہے۔ [المنَّ] مفعول بہ(فعل ’’انزلنا‘‘ کا) ہے۔ لہٰذا منصوب ہے علامتِ نصب آخری ’’ن‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے۔ [و] عاطفہ ہے اور [السلوی] ’’المنَّ‘‘ پر معطوف ہونے کے باعث منصوب ہے مگر ’’السلوی‘‘ کے اسم مقصور ہونے کی وجہ سے اس میں نصب کی ظاہراً کوئی علامت نہیں ہے ــــــ  اور یہ (انزلنا علیکم المن والسلوی) فعل، فاعل، مفعول بہ اور متعلق فعل مل کر جملہ فعلیہ بنتا ہے جو سابقہ جملہ (وظَلَّلْنَا. . . .) پرعطف ہے۔

·       بیشتر مترجمین نے یہاں ’’انزلنا‘‘ کے ترجمہ میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ کو نظر انداز کردیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ’’ظَلَّلْنا‘‘ کے ترجمہ میں ’’ہم نے ‘‘ استعمال ہوا تو اُردو محاورے کے مطابق اس (ہم نے) کی تکرار سے بچنے کے لیے ’’انزلنا‘‘ کا ترجمہ صرف ’’اتارا یا پہنچایا‘‘ ہی رہنے دیا مگر کس نے اتارا؟ کا جواب ضروری تھا۔ اس لیے دوبارہ ’’ہم نے‘‘ کا  لانا بہتر تھا۔

(۳)   كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ   

[کُلُوا] فعل امر معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہےجس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ یہاں ’’کلوا‘‘ سے پہلے ایک فعل ’’قلنا‘‘ (ہم نے کہا) محذوف ہے جس کے ذریعے اس فقرے(نمبر۳) کا تعلق سابقہ جملے (نمبر۲) سے قائم ہوتا ہے  [مِن] حرف الجرّ اور [طیباتِ] مجرور بالجر ہے اور آگے مضاف ہے اس لیے خفیف ہے۔ یہاں ’’مِن‘‘ تبعیض کا بھی ہوسکتا ہے یعنی ’’طیبات میں کچھ حصہ‘‘ اور ’’مِنْ‘‘ بیانیہ بھی ہوسکتا ہے یعنی ’’از قسم طیبات یا قسم قسم کے طیبات‘‘۔[مَا] طیبات کا مضاف الیہ ہے مگر مبنی ہونے کے باعث اس میں ظاہر علامت جر نہیں ہے۔ یہ’’مَا‘‘ موصولہ ہے اور یہ دراصل تو اپنے صلہ سمیت ہی طیبات کا مضاف الیہ بنے گا۔ [رزقنا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ مستتر ہے اور [کُمْ] ضمیر منصوب متصل فعل ’’رزقنا‘‘ کا مفعول بہ ہے۔ اور یہ جملہ فعلیہ (رزقناکم) ’’ما‘‘ موصولہ کا صلہ ہے (یعنی جو ہم نے تم کو دیں یا دے رکھی ہیں) اور یہ صلہ موصول مل کر ’’طیبات‘‘ کا مضاف الیہ بنتا ہے۔ یوں اس عبارت  (کُلوامن طیباتِ مارزقناکم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے: ’’کھاؤ‘‘ ’’مارزقناکم‘‘ (جو ہم نے تم کو عطا کیں) کے ’’طیبات‘‘ (پاکیزہ چیزوں) میں سے‘‘۔ جب کہ بعض نے ’’مَا‘‘ کو موصولہ کی بجائے مصدریہ سمجھ کر ’’مارزقناکم‘‘ کا ترجمہ ’’ہماری دی ہوئی روزی‘‘ سے کیا ہے۔ یعنی ’’رِزقِنا ایاکم‘‘ کی طرح۔ بعض اردو مترجمین نے ’’مِن‘‘ کا ترجمہ  نظر انداز کرتے ہوئے یا ’’مِن‘‘ کو بیانیہ سمجھتے ہوئے ’’طیبات‘‘ کا مفعول کی طرح ترجمہ کیا ہے۔ یعنی کھاؤپاکیزہ چیزیں‘‘ کی صورت میں۔ جن حضرات نے  ’’پاکیزہ چیزوں میں سے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے وہ عبارت کے الفاظ سے قریب تر ہے۔

(۴)     وَمَا ظَلَمُوْنَا

[وَ] عاطفہ یا حالیہ ہے اور [مَا] نافیہ ہے [ظلموا] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ’’ھُمْ‘‘ ہے۔ اور اس کے بعد [نا] ضمیر منصوب متصل اس فعل (ظلموا) کا مفعول بہ ہے۔ ’’ظلموا‘‘ کو ضمیر مفعول ’’نا‘‘  کےساتھ ملا کر لکھتے وقت واو الجمع کے بعد والا زائد الف گرا کر ’’ظلمونا‘‘ لکھا گیا ہے۔

·       سیاقِ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس جملے (نمبر۴) سے پہلے اور سابقہ جملے (نمبر۳) کے بعد ایک عبارت مقدر (understood) ہے یعنی ’’فکفروا نعمۃَ اللّٰہ‘‘ (یعنی من و سلوی کے نزول اور بیابان میں بادل کے سایہ جیسی نعمتوں کے باوجود کفرانِ نعمت اور ناشکری کی)۔ اس حصہ عبارت (وما ظلمونا) کے مختلف تراجم حصہ ’’اللغہ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں۔

(۵)   وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ 

[وَ] عاطفہ اور [لکن] حرف استدراک (بمعنی لیکن، مگر) ہے۔ یہ ’’لٰکِنَّ‘‘ مشددہ والے معنی ہی دیتا ہے جب کہ ’’لٰکنَّ‘‘(بلکہ تمام حروف مُشبَّہ بالفعل) کے بعد ہمیشہ کوئی اسم ہی آتا ہے اُردو ترجمہ میں ’’و‘‘ ہے مگر یہ عامل نہیں ہوتا اور اسی لیے اس کے بعد فعل بھی آسکتا ہے جب کہ ’’لٰکنَّ‘‘ (بلکہ تمام حروف مُشبَّہ بالفعل) کے بعد ہمیشہ کوئی اسم ہی آتا ہے اُردو ترجمہ میں ’’وَ‘‘ عاطفہ کو نظر انداز کرکے ’’وَلٰکن‘‘  کا ترجمہ ’’لیکن، مگر یا بلکہ‘‘ سے کیا جاتا ہے۔[کانوا] فعل ناقص صیغہ ماضی جمع مذکر غائب ہے جس میں اس کا اسم ’’ھُمْ‘‘ مستتر ہے۔ [انفسَھم] مضاف (انفس) اور مضاف الیہ (ھُمْ) مل کر آگے آنے والے فعل (یظلمون) کا مفعول بہ مقدم ہے [یظلمون] فعل مضارع مع ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ ہے (جس کی علامت ’’یظلمون‘‘ کی واو الجمع ہے)۔ دراصل سادہ نثر میں یہ پوری عبارت ’’ولکن کانوا یظلمون انفسھم‘‘ تھی جس میں ’’انفسھم‘‘ پر زور دینے کے لیے اسے مقدم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اُردو ترجمہ میں ’’ہی‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جسے قریباً تمام مترجمین نے ملحوظ رکھا ہے یعنی ’’انفسھم‘‘ کا ترجمہ اکثر نے ’’اپنا ہی‘‘ سے کیا ہے۔ عبارت کا آخری حصّہ (انفسھم یظلمون) فعل ناقص ’’کانوا‘‘ کی خبر (لہٰذا محلاً منصوب) بھی ہوسکتی ہے یعنی ’’کانوا ظالمین‘‘ کے معنی میں۔ اور چاہیں تو ’’کانوا یظلمون‘‘ کو فعل ماضی استمراری (اکٹھا ایک فعل) سمجھ کر ’’انفسھم‘‘ کو اس کا مفعول  (لہٰذا) منصوب سمجھ لیں۔ اس حصہ آیت (’’ولکن کانوا نفسھم یظلمون‘‘) کے تراجم کے تنوع پر حصہ اللغہ میں بات ہوچکی ہے۔

 

۳:۳۶:۲      الرسم

آیتِ زیر مطالعہ کے قریباً تمام کلمات (جو ۲۰ کے قریب ہیں) کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہیں صرف چار کلمات بلحاظ رسم توجہ طلب ہیں۔ یعنی ’’الغمام، طیبت، رزقنکم اور ’’ولکن‘‘ تفصیل یوں ہے۔

(۱) الغمام:  یہ لفظ قرآن کریم میں چار جگہ آیا ہے یہاں (البقرہ:۵۷)، البقرہ:۲۱۰، الاعراف:۱۶۰  اور الفرقان:۲۵ میں۔ کتب الرسم میں سے المقنع (للدانی) اور العقیلہ (للشاطبی) ہر جگہ اس کے میں حذف الف (بین المیمین) کے بارے میں خاموش ہیں گویا ان کے نزدیک یہ رسم املائی کی طرح ہر جگہ باثبات الف (پہلی میم کے بعد) ہی لکھا جائے گا (الغمام)

·       علم الرسم کے تیسرے بڑے عالم ابوداؤد (ابن نجاح) کی غیر مطبوعہ کتاب ’’التنزیل‘‘ کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ وہ سورۃ البقرہ والے دونوں کلمات میں تو (حذف کی عدم تصریح کی بناء پر) اثباتِ الف کے قائل ہیں مگر باقی دو مقامات (الاعراف اور الفرقان والے) پر ان سے حذف الف ثابت ہے یعنی ’’الغمم‘‘ لکھا جائے گا۔ علم الرسم کی مندرجہ بالا تینوں کتابوں اور ان کے مولفین کا ذکر اس سے پہلے بحث ’’الرسم‘‘ کے سلسلے میں کئی دفعہ آچکا ہے۔

·       اب اس لفظ (الغمام) کے رسمِ عثمانی کے ضمن میں علم الرسم کے ایک چوتھے بڑے عالم علی بن محمد المرادی الاندلسی المعروف ’’البلنسی‘‘ (جو ابوداؤ کے قریباً معاصرین  میں سے تھے) کی کتاب ’’المنصف‘‘ (جو ابوداؤد کی ’’التنزیل‘‘ کی طرح ابھی تک کہیں طبع نہیں ہوئی) کی طرف منسوب یہ قول بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے چاروں مقامات پر اس لفظ (الغمام) کے بحذف الف (بین المیمین) لکھے جانے کی تصریح کی ہے۔ صاحب نثر المرجان نے الدانی کے مطابق اثبات الف کو اختیار کیاہے۔ اگرچہ ساتھ الجزری کے اختلاف کا بھی ذکر کیا ہے۔ [5]

·       یہ تو تھی کتبِ رسم کی بات۔ راقم الحروف نے اپنے پاس موجودہ مصاحف (مطبوعہ) میں اس لفظ کے رسم کی پڑتا ل کی تو معلوم ہوا کہ:

(۱) لیبی مصحف الجماہیریہ میں الدانی کو ترجیح دینے کے اصول کی بنا پر چاروں مقامات پر یہ لفظ باثبات الالف بین المیمین یعنی ’’الغمام‘‘ لکھا گیا ہے۔ برصغیر کے تمام اہم مصاحف مثلاً انجمن حمایت اسلام اور الفی قرآن مطبوعہ بمبئی کے علاوہ ترکی اور ایران کے مصاحف میں بھی اسے باثبات الف ہی (ہر جگہ) لکھا گیا ہے۔ اگرچہ ان میں اثبات الف کی وجہ وہ نہیں جسے لیبیا والوں نے اصول بنایا ہے۔

 (۲) سعودی، مصری، سوڈانی اور نائجیری مصاحف میں ابوداؤدکے قول کے مطابق یہ لفظ ’’البقرہ‘‘ کے دونوں مقامات پر باثبات الف  (الغمام) اور باقی دو مقامات (الاعراف اور الفرقان) پر یہ بحذف الف (الغمم) لکھا گیا ہے۔

(۳)  غانا (افریقہ) کے مصحف میں صرف البقرہ: ۵۷ (یہاں) باثباتِ الف اور باقی تینوں مقامات پر بحذف الف لکھا گیا ہے ویسے یہ علمائے رسم میں سے کسی کا قول نہیں ہے۔

(۴)  تونس کے مصاحف (جن میں سے راقم کے پاس تین ہیں یعنی عبدالعزیز الخماسی، الحاج زہیر اور النبحانی المحمدی کے متکوبہ) اور مراکشی مصاحف میں ’’المنصف‘‘ کے موقف پر عمل کرتے ہوئے یہ لفظ چاروں جگہ بحذف الف (الغمم) لکھا گیا ہے۔

خلاصہ بحث یہ کہ ’’الغمام‘‘ یا ’’الغمم‘‘ کا رسم عثمانی مختلف فیہ ہے اور مختلف ملکوں میں مختلف اقوال پر عمل ہوتا ہے۔ تاہم یہ عمل تین اقوال میں ہی مقتصر ہے۔

 (۲)’’طیبت‘‘ جس کا رسم املائی ’’طیبات‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ’’بحذف الالف‘‘ بعد الباء (’’طَیِّبٰت‘‘) لکھا جاتا ہے۔ بلکہ رسم عثمانی میں عموماً جمع مونث سالم ہر جگہ بحذف الف ہی لکھی جاتی ہے۔ البتہ بعض مستثنیات ہیں جو اپنی اپنی جگہ مذکور ہوں گی۔

(۳)  ’’رزقنکم‘‘ جس کا رسم المعتاد ’’رزقناکم‘‘ ہے قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ بحذف الف بعد النون لکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ قاعدہ بیان ہوچکا ہے کہ رسم عثمانی کے مطابق جہاں بھی ضمیر مرفوع متصل (نا)کے ساتھ کوئی ضمیر منصوب مفعول متصل آئے تو اس ’’نا‘‘ کا الف کتابت میں گرا دیا جاتا ہے۔ اگرچہ تلفظ میں برقرار رہتا ہے۔

 (۴) ’’لکن‘‘ کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ لفظ مخفف ہو یا مشدد  رسم عثمانی کے علاوہ رسم املائی میں بھی بحذف الف بعد اللام لکھا جاتا ہے۔ حالانکہ صوتی اعتبار سے اس کی املا ’’لاکن‘‘ ہونی چاہیے تھی۔ گویا اس لفظ کی املاء بھی رسم املائی پر عثمانی کے اثرات کا ایک مظہر ہے۔

 

۴:۳۶:۲      الضبط

        آیت زیر مطالعہ میں طریق ضبط کا تنوع حسب ذیل نمونوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

 

 

 

 



 [1] ’’مَا‘‘ جو یہاں (عبارت میں) دو دفعہ آیا ہے موصولہ بھی اور نافیہ بھی۔ اس کے معانی اور استعمالات کی وضاحت کے لیے دیکھئے البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)]اور البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۲)]

 

[2]   الکشاف ج۱ ص ۲۸۲

[3]  مجمع البیان ج۱ ص ۲۵۸

[4] التبیان ج۱ ص ۶۵

[5] مزید وضاحت کے لیے دیکھئے سمیر الطالبین (للضباع) ص ۵۹، دلیل الحیران (للمارغنی) ص ۱۰۲۔۱۰۳، لطائف البیان (لأبی زیتحار) ج۱ ص ۳۹ اور نثر المرجان ج۱ ص ۱۴۸۔