سورۃ البقرہ  آیت نمبر  ۵۸  اور  ۵۹

۳۷:۲       وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ    ۭ  وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ (۵۸) فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِىْ قِيْلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ  (۵۹)

۱:۳۷:۲      اللغۃ

[وَ اِذْ] ’’اور (یاد کرو) جب‘‘ ـــــ یہ (وَ اِذْ) گزشتہ متعدد آیات (۴۸ تا ۵۴) میں کئی دفعہ گزر چکا ہے (بلکہ اس سے پہلے آیت نمبر ۳۰ و ۳۴ میں بھی آیا تھا) چاہیں تو ’’وَ‘‘ کے لیے [۱:۴:۱ (۳)] اور [۱:۷:۴ (۱)] میں اور ’’اِذْ ‘‘ کے لیے البقرہ:۳۰ [۱:۲۲:۲ (۱)] میں دیکھ لیجئے۔

[قُلْنَا] (ہم نے  کہا) کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے یہ در اصل ’’قَوَلْنَا‘‘ تھا جو تعلیل کے بعد ’’قُلْنَا‘‘ رہ گیا ہے۔ اس مادہ سے فعلِ مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ: ۸ [۱:۷:۲ (۴)] میں اور ’’قُلْنَا‘‘ کی تعلیل پر البقرہ: ۳۵ [۱:۲۵:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔

۱:۳۷:۲ (۱)     [ادْخُلُوْا] کا مادہ ’’د خ ل‘‘ اور وزن ’’اُفْعُلُوْا‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’دَخَلَ . . . . . یدخُل دخُوْلاً‘‘ زیادہ تر باب نصر سے آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’. . . .  میں آنا، . . . .  کے اندر آنا یا . . . . .  میں داخل ہونا‘‘۔  (لفظ ’’داخل‘‘ جو اس فعلِ مجرد سے اسم الفاعل ہے۔ اردو میں مستعمل ہے) اور جس (جگہ وغیرہ) میں داخل ہوں وہ مفعول بنفسہ بھی آتا ہے اور ’’فی‘‘  کے صلہ کے ساتھ بھی۔ مثلاً کہیں گے ’’دخلَ المکانَ و فی المکان‘‘ (وہ اس جگہ میں داخل ہوا)۔ یہ فعل بعض دوسرے صلات (خصوصاً ’’بِ‘‘، اور ’’علی‘‘) کے ساتھ بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور یہ استعمال (یعنی ’’دخل بِ . . . . ‘‘ اور ’’دخل علی . . . .  ‘‘ والا) قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔ ان کا بیان اپنی جگہ ہوگا۔

·       اس کے علاوہ یہ فعل باب سمِع سے (دخِل یدخَل) اور بصورتِ مجہول (دُخِلَ)سے بھی ’’. . . . .کے اندر خرابی واقع ہونا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’دُخِل فی عَقْلِہ‘‘ (اس کے دماغ میں گڑ بڑ ہے)۔ تاہم قرآن کریم میں یہ استعمال کہیں نہیں آیا۔

·       اس فعل مجرد (دخَل یدخُل) سے افعال کے مختلف صیغے قرآن کریم میں بکثرت (۷۰ سے زائد جگہ) آئے ہیں۔ مجرد کے علاوہ مزید فیہ کے بابِ افعال سے مختلف صیغے ۴۰ جگہ اور مصادر و مشتقات پانچ جگہ آئے ہیں ان میں سے ایک اسم مشتق کا تعلق باب افتعال سے بھی ہے۔ ان سب پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’ادخلوا‘‘ اس فعل مجرد سے فعلِ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ہے ’’تم داخل ہوجاؤ/داخل ہو/ . . . . .میں آجاؤ/ . . . . . میں جاؤ‘‘۔

۱:۳۷:۲ (۲)     [ھٰذِہِ الْقَرْیَۃَ] (یہ بستی۔ اس بستی) ’’ھذہ‘‘ تو اسم اشارہ قریب للمؤنث ہے۔ (اسمائے اشارہ پر بات البقرہ: ۲ [۱:۱:۲ (۱)] میں ہوئی تھی۔  ’’القریۃ‘‘ کا مادہ ’’ق ر ی‘‘ اور وزن لام تعریف نکال کر ’’فَعْلَۃٌ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’قَری . . . .  یَقرِیْ قِریً‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور یہ بطور لازم و متعدی مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلا (۱) مہمان کو کھانا کھلانا (۲) پانی جمع کرنا۔ مثلاً کہتے ہیں ’’قَرَی الضیفَ‘‘(اس نے مہمان کو کھانا کھلایا)۔ اور ’’قری الماءَ فی الحوض‘‘ (اس نے حوض میں پانی اکٹھا کیا) اور بطور فعل لازم ’’قری الجرحُ‘‘ کے معنی ہیں ’’زخم پھٹ گیا یا پھوٹ پڑا‘‘ فعل مجرد سے بعض دیگر معانی کے علاوہ اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب (اِفعال، افتعال وغیرہ) سے بھی مختلف فعل عام عربی میں استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآنِ کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا  بلکہ صرف یہی لفظ (قریۃ)اور اس کی جمع مکسر (قُریً) مفرد مرکب معرفہ نکرہ مختلف شکلوں میں پچاس سے زائد مقامات پر آئے ہیں۔

·       ’’قریۃ‘‘ کے معنی ایسی انسانی آبادی کے ہیں جہاں لوگ ساتھ ساتھ ملتے اور اکٹھے مکانات تعمیر کرکے رہتے ہوں۔ اس کا اردو ترجمہ ’’گاؤں‘‘ شہر یا ’’بستی‘‘ سے کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ’’ھذہ القریۃ‘‘ (یہ شہر بستی  آبادی) سے مراد کوئی خاص بستی یا شہر ہے (جس کا تعین بنی اسرائیل کی تاریخ سے ہوتا ہے) جیسے’’ھذہ الشجرۃ‘‘ (یہ خاص درخت)آیا تھا۔

[فَکُلُوْا مِنْھَا] ’’فَ=پس، تو پھر‘‘۔ ’’کُلُوْا‘‘ (تم کھاؤ) پر ابھی اوپر گزشتہ آیات میں [۱:۳۶:۲ (۴)] کے بعد) مفصل بات ہوئی ہے اور اس کے مادہ (ا ک ل) سے فعل مجرد (اکل یاکل =کھانا) کے باب اور معنی وغیرہ کی وضاحت البقرہ:۳۵ [۱:۲۵:۲(۴)] میں کی جا چکی ہے۔

اور ’’مِنْھَا‘‘=’’مِنْ‘‘(سے، میں سے) + ھَا (ضمیر مجروربمعنی ’’اس‘‘ (مؤنث) کا مرکب ہے یعنی ’’اس (بستی) میں سے‘‘۔

[حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا] یہ تین کلمات ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:۔

(۱) ’’حَیْثُ‘‘ (جہاں سے، جس جگہ سے) کے مادہ معنی اور استعمال کی وضاحت کے لیے دیکھئے البقرہ: ۳۵ [۱:۲۵:۲ (۶)] میں۔

(۲) ’’شِئْتُمْ‘‘ کا مادہ ’’ش ی ء‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعِلْتُمْ‘‘ ہے یہ در اصل ’’شَیِئْتُمْ‘‘تھا۔ اس میں تبدیلی (تعلیل) کا طریقہ وغیرہ البقرہ: ۳۵ [۱:۲۵:۲ (۷)] ’’شِئتُمَا‘‘ کے ضمن میں بیان ہوا تھا اور اس مادہ (ش ی ء) سے فعل مجرد (شاء یشاء = چاہنا، ارادہ کرنا) کے باب معنی اور استعمال وغیرہ کی وضاحت البقرہ: ۲۰ [۱:۱۵:۲ (۸)] میں کردی گئی تھی۔

(۳) ’’رغدا‘‘(مزے سے ) کے مادہ، فعل اور معنی وغیرہ پر البقرہ: ۳۵ [۱:۲۵:۲ (۸)]میں بات ہوئی تھی۔ اس بحث کی روشنی میں ’’رغداً ‘‘  کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’بافراغت، فراغت سے، محظوظ ہوکر، بے تکلف، بے روک ٹوک اور خوب‘‘ سے کیا گیا ہے۔

۱:۳۷:۲ (۳)   [وَادْخُلُوا الْبَابَ]’’وَ‘‘(اور) اور ’’اُدْخُلُوا‘‘ (تم داخل ہوجاؤ)  ’’اُدْخُلُوْا‘‘ پر مادہ باب معنی وغیرہ کی بحث ابھی اوپر [۱:۳۷:۲ (۱)] میں ہوئی ہے۔

’’البَابَ‘‘کا مادہ ’’ب و ب‘‘اور وزن لام تعریف نکال کر ’’فَعَلٌ‘‘ ہے گویا اس کی اصلی شکل ’’بَوَبٌ‘‘ تھی جس میں واؤ متحرکہ ماقبل مفتوح (بَ)الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے اور لفظ ’’باب‘‘ بنتا ہے۔

·       اس مادہ (ب و ب) سے فعل مجرد ’’بابَ یَبُوب (اور صل بوَب یَبْوُبُ) بَوْباً‘‘(نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’کسی کا دربان بن جانا‘‘۔ اور جس کا دربان بنے اس سے پہلے لام (لِ)کا صلہ آتا ہے مثلاً کہیں گے: ’’بابَ لہٗ‘‘(وہ اس کا دربان بن گیا)۔ دربان (گیٹ کیپر یا دروازے کے چوکیدار) کو عربی میں ’’بَوَّابٌ‘‘ یا ’’حاجِبٌ‘‘ کہتے ہیں عربی زبان میں اس مادہ سے فعل مجرد تو صرف اسی باب سے اور اسی معنی کے لیے آتا ہے۔ مزید فیہ کے باب تفعیل اور تفعل سے بھی بعض معنی (باب بندی کرنا، ابواب میں تقسیم ہونا وغیرہ) کے لیے فعل استعمال ہوتے ہیں تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل کا کوئی صیغہ کہیں بھی استعمال نہیں ہوا۔ البتہ کلمہ ’’بابٌ‘‘ اور اس کی جمع ’’ابواب‘‘ واحد جمع معرفہ نکرہ مفرد مرکب شکلوں میں ۲۶ جگہ آئے ہیں۔

·       لفظ ’’بابٌ‘‘ کے بنیادی معنی ’’دروازہ‘‘ یعنی ’’داخل ہونے کا راستہ‘‘ ہیں پھر کسی کتاب کے ایک مقررہ حصے کو بھی ’’باب‘‘ کہتے ہیں۔ عربی زبان میں اس لفظ کے کچھ محاوراتی استعمال بھی ہیں جن میں کسی چیز کی نوعیت، قسم، امکان، میدان یا حصّے وغیرہ کا مفہوم ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’بابٌ جدید‘‘ (نیا امکان) ’’فی ھذا البابِ‘‘ (اس معاملے میں) ’’من باب الضرورۃ‘‘ (ضرورت کے تحت) ’’فی بابہ‘‘ (اپنی نوعیت کے لحاظ سے)۔

تاہم قرآن مجید میں یہ لفظ صرف ’’دروازہ، پھاٹک، اندر جانے یا باہر آنے کا راستہ‘‘ کے بنیادی معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے۔ یا ایک آدھ جگہ استعارہ اور مجاز کے طور پر آیا ہے۔ جیسے ’’ابواب السماء‘‘ (آسمان کے دروازے) یا ’’جنت اور جہنم کے دروازے‘‘ (جن کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے)۔

’’وادخلوا الباب‘‘ کے اردو ترجمہ میں مفعول (باب) سے پہلے ’’میں‘‘ کا اضافہ کرنا پڑےگا حالانکہ عربی میں ’’فی الباب‘‘ نہیں ہے۔  یہ اس فعل ’’داخل ہونا‘‘ کے اردو استعمال کی بناء پر ہے یعنی ترجمہ ہوگا ’’تم داخل ہوجاؤ دروازے میں‘‘ اور اس سے مراد ہے ’’دروازے میں سے‘‘۔

[سُجَّدًا] یہ جمع مکسر ہے (جو یہاں منصوب ہے اس کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی) اس کا واحد ’’ساجِدٌ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’س ج د‘‘ اور وزن ’’فاعِلٌ‘‘ ہے۔ ’’ساجد‘‘ کی جمع سالم بھی استعمال ہوتی ہے اور اس کی جمع مکسر ’’سُجَّدٌ‘‘ بروزن ’’فُعَّلٌ‘‘بھی آتی ہے اور ’’سُجُوْدٌ‘‘ بروزن ’’فُعُوْلٌ‘‘ بھی۔ اور اس کی جمع کی یہ تینوں صورتیں قرآنِ کریم میں مستعمل ہوئی ہیں۔

اس مادہ (سجد)سے فعل مجرد (سجَد یسجُد =سجدہ کرنا) کے باب، معنی اور استعمال پر البقرۃ: ۳۴[:۱:۲۵:۲ (۲)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

[وَ قُوْلُوْا] ’’وَ‘‘ عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) ہے اور ’’قُوْلُوا‘‘ کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلُوا‘‘ ہے۔ اس کی اصل صورت ’’اُقْوُلُوا‘‘ تھی جس میں متحرک  حرف علت (جو یہاں ’’وُ‘‘ ہے) کی حرکت (ضمہ  ـــــُـــــ) اس کے ماقبل حرفِ صحیح (جو یہاں ’’ق‘‘ ہے) کو دے کر ابتدائی ہمزۃ الوصل (بوجہ ’’ق‘‘ کے متحرک ہوجانے کے ) گرا دیا جاتا ہے۔ یعنی اُقْوُلُوْا = اُقُوْلُوْا = قُولُوا۔

اس مادہ (قول) سے فعل مجرد (قال یقول =کہنا) کے باب، معنی اور استعمال کی وضاحت کے لیے دیکھئے البقرۃ:۸[۱:۷:۲ (۴)]

’’قُولوا‘‘ اس فعل مجرد سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر مخاطب ہے یعنی ’’تم کہو، بولو‘‘۔

۱:۳۷:۲ (۴)     [حِطَّۃٌ] کا مادہ ’’ح ط ط‘‘ اور وزن ’’فِعْلَۃٌ‘‘ ہے اس مضاعف مادہ سے فعل مجرد  ’’حَطَّ یَحُطُّ حَطًّا‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے متعدد معنی ہوتے ہیں۔ اور لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱) ’’نیچے اترنا‘‘ کہتے ہیں، حَطَّ فلانٌ (وہ نیچے اترا) (۲) ’’قیمت کا کم ہونا سستا ہونا‘‘  کہتے ہیں: حَطَّ السِعْرُ (نرخ کم ہوگیا) (۳) ’’اتار دینا یا ڈال دینا‘‘ کہتے ہیں  حَطَّ وِزْرَہ (اس نے اپنا بوجھ اتار دیا)۔ (۴) ’’قیمت کم کرنا‘‘ کہتے ہیں حَطَّ السِعْرَ (اس نے نرخ کم کردیا)۔ اس کا اوپر نمبر ۲ سے مقابلہ کیجئے (۵) ’’پتے جھاڑنا‘‘ مثلاً کہیں گے ’’حطَّ ورق الشجر (اس نے درخت کے پتے اتار دئیے)  فعل مجرد کے علاوہ اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب (افعال، افتعال وغیرہ) سے بھی افعال مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بلکہ اسی مادہ سے لفظ ’’انحطاط‘‘ (جو باب انفعال کا مصدر ہے) اردو میں بمعنی ’’گراوٹ‘‘ استعمال ہوتا ہے۔

تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ سے ماخوذ صرف یہی ایک لفظ (حِطّۃ)قرآنِ کریم میں آیا ہے اور وہ بھی صرف دو جگہ۔ یہاں اور الاعراف: ۱۶۱ میں۔

·       لفظ ’’حطۃ‘‘ اپنےو زن کے لحاظ سے اسم الھیئۃ یا اسم النوع ہے اور یہ مصدر کی وہ صورت ہوتی ہے جس میں کسی کام کے ایک خاص انداز میں کرنے یا ہونے کا مفہوم ہوتا ہے جیسے ’’جلَس جِلسۃ‘‘ کے معنی ہیں ’’وہ ایک خاص شکل (ہیئت) میں بیٹھا‘‘۔  اس طرح ’’حِطَّۃ‘‘ میں ’’ایک خاص انداز یا قسم کی کمی‘‘ کا مفہوم ہے۔ اس لیے اس کے معنی ’’استغفار، طلب مغفرت یا باعث مغفرت اور توبہ‘‘ کیے جاتے ہیں یعنی گناہوں میں کمی کی ایک صورت۔ ماہ رمضان کو اسی لیے ’’حطّۃ‘‘ بھی کہا گیا ہے (کہ وہ گناہوں کا بوجھ اتارتا ہے) اور حدیث شریف میں ہے کہ ’’ وَمَنِ ابْتَلاَہُ اللَّہُ بِبَلاَئٍ فِی جَسَدِہِ فَہُوَ لَہُ حِطَّۃٌ ‘‘ (جسے اللہ تعالیٰ کسی جسمانی بیماری میں مبتلا کرتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کا بوجھ اتارنے یعنی مغفرت کا باعث ہوتی ہے) )ابن ابی شیبہ:جلد سوم:حدیث نمبر 2715(

·       مندرجہ بالا مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو مترجمین نے ’’وقولوا حِطَّۃ‘‘ کا کئی طرح سے ترجمہ کیا ہے۔ مثلاً ’’کہو بخشش مانگتے ہیں/بخش دے‘‘ یا ’’کہو گناہ اتریں‘‘، ’’کہو ہمارے گناہ معاف ہوں‘‘، ’’کہتے جاؤ/جانا کہ توبہ ہے توبہ ہے‘‘۔ بعض نے اصل لفظ ہی رہنے دیا ہے یعنی ’’منہ سے حطۃ کہتے جانا‘‘ یا ’’حطۃ کہتے جاؤ‘‘ ، ’’حطۃ کہنا‘‘ وغیرہ سے ترجمہ کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کو دروازے میں سے داخل ہوتے وقت طلب مغفرت کا حکم دیا گیا تھا۔

۱:۳۷:۲ (۵)     [نَغْفِرْ لَکُمْ] (ہم معاف کردیں گے تم کو)۔

اس میں فعل ’’نَغْفِرُ‘‘ کا مادہ ’’غ ف ر‘‘ اور وزن ’’نَفْعِلْ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’غفَر. . . یَغفِر غُفْراناً و مغفِرَۃً‘‘ زیادہ تر باب ضرب سے آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’. . .  (کسی چیز) کو ڈھانپ دینا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’غفر المتاعَ فی الوعاء‘‘ (اس نے سامان کو برتن (وغیرہ) میں (رکھا) اور ڈھانپ دیا) اور بالوں کی سفیدی کو خضاب سے چھپانا کے لیے بھی کہتے ہیں ’’غفر الشیبَ بالخضاب‘‘۔ اسی طرح ’’منڈی میں مال کی کثرت کا قیمتیں کم  کردینا‘‘کے لیے بھی یہ فعل استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ فعل مندرجہ بالا میں سے کسی معنی کے لیے نہیں آیا۔ بلکہ ہر جگہ ’’معاف کردینا اور بخش دینا‘‘ ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اس کے بنیادی معنی (ڈھانپ دینا) ہی کی ایک صورت ہے۔

·       یہ فعل (غفر یغفر)بطور متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس کے دو مفعول ہوتے ہیں (۱) وہ چیز جو معاف کی جائے (گناہ، خطا وغیرہ) یہ فعل کے ساتھ براہ راست (مفعول بنفسہ) بحالت نصب مذکور ہوتی ہے اور (۲) جس (آدمی وغیرہ) کو معافی دی جائے یا جس کا گناہ معاف ہو اس کے ذکر کے ساتھ ’’لام (لِ) کا صلہ آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’غفرَ اللہُ لہ ذنْبَہ‘‘ (اللہ نے اس کو اس کا گناہ معاف کردیا یا بخش دیا) اس فعل کا اصل مفعول بہ (ذنب وغیرہ) اکثر محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ صرف ’’ذنب‘‘ مذکورہوتا ہے اور بعض دفعہ شخص (جسے معافی ملی) اور ’’ذنب‘‘ دونوں ہی غیر مذکور ہوتے ہیں۔

·       قرآن کریم میں اس فعل کے استعمال میں قریباً ۱۵ جگہ تو ’’شخص‘‘ اور ’’ذنب‘‘ (گناہ) دونوں مذکور ہوئے ہیں۔ چالیس سے زائد مقامات پر صرف ’’شخص‘‘ ہی مذکور ہے (ذنب غیر مذکور) چھ جگہ صرف ’’ذنب‘‘ (یا ذنوب) کا ذکر آیا ہے۔ (مغفور لہ کے ذکر کے بغیر) اور کم از تین جگہ اس فعل کے ساتھ کوئی مفعول مذکور نہیں ہوا۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے ساٹھ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ اس کے علاوہ باب استفعال کے صیغے ۴۱ جگہ اور مختلف مشتقا ت (اسماء مصادر) سو کے لگ بھگ جگہوں پر آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’نَغْفِرْ‘‘ اس فعل مجرد سے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ (اس کی جزم کی وجہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)۔ اور ’’لَکم‘‘ کا لام الجر وہی صلہ ہے جو فعل ’’غفر‘‘ کے ایک مفعول (جس کو معافی ملے) پر آتا ہے۔ اس طرح ’’نغفِرْ لکم‘‘  کا ترجمہ ’’ہم بخش دیں گے/معاف کردیں گے تم کو‘‘ ہوگا۔

۱:۳۷:۲ (۶)    [خَطَایَاکُمْ] (یہ رسم املائی ہے رسمِ عثمانی پر آگے بات ہوگی) اس میں ’’کُمْ‘‘ تو ضمیر مجرور متصل بمعنی ’’تمہاری، تمہارے‘‘ ہے۔ اور ’’خطایا‘‘  کا مادہ ’’خ ط ء‘‘ اور وزن اصلی بعض نحویوں کے نزدیک ’’فَعَائِلُ‘‘ ہے جو اب (تعلیل کے بعد) ’’فَعَالٰی‘‘ رہ گیا ہے۔  یہ لفظ ’’خطِیئَۃ‘‘ (بروزن فَعِیلۃٌ) کی جمع مکسر ہے جس طرح رذیلہ کی جمع رذائل اور فضیلۃ کی جمع فضائل (غیر منصرف) ہوتی ہے ۔ نحوی حضرات نے اس جمع کو تعلیل کے پیچیدہ مراحل سے ’’گزارا‘‘ ہے جسے ہم صرف دلچسپی یا اظہارِ حیرت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل جمع   ۱ ؎ ’’ خطایِئُ ‘‘ (مثل خطایعُ)بروزن ’’فَعَایِٔلُ‘‘ تھی۔ جس میں الف ممدودہ کے بعد والی ’’یاء‘‘ کو  ہمزہ میں بدلا گیا تو لفظ ۲؎’’خَطَا ِئِئُ‘‘ (مثل خطا عِعُ) بروزن ’’فَعَائِلُ‘‘ بن گیا۔ اب ہمزۂ مکسورہ کے بعد والے مضمومہ ہمزہ کو ’’ی‘‘ میں بدلنا پڑا اور لفظ ۳؎’’خطائِیُ‘‘ (مثل خطاعِیُ) بروزن ’’فعالِیُ‘‘ بن گیا۔ اب الف ممدودہ (طا والی) کے بعد کسرہ (ــــــِــــ)کی بجائے فتحہ (ــــــَــــ) لگانا زیادہ موزوں معلوم ہوا تو۴؎ ’’خطائَیُ‘‘ (مثل خطاعَیُ) ہوگیا۔ مگر اس میں پھر آخری متحرک ’’یاء‘‘ (یُ) ماقبل کے مفتوح ہونے کے باعث الف میں بدل گئی اور لفظ۵؎ ’’خطاءَ یٰ‘‘ ہوگیا۔ اس میں ہمزہ (ء) دو الف کے درمیان آگیا اس لیے اسے ’’یاء‘‘(ی) میں بدل دیا گیا اور یوں لفظ۶؎ ’’خطایٰی‘‘ بروزن ’’فَعَالٰی‘‘ (مقصور) ہوگیا جو بصورت ۷؎’’خطایا‘‘ لکھا جاتا ہے (الف مقصور ہی ہے ممدود نہیں)[1] ۔ گویا خطایِئُ = خَطَا  ِئِئُ = خطائِیُ = خطاءَ یُ = خطاءَ یٰ= خطایٰی=خطایا۔

 (۲) بعض نحویوں کے نزدیک ’’خطایا‘‘ در اصل ’’خَطِیَّۃٌ‘‘ (بتشدید الیاء جو ’’خَطِیْئَۃُ‘‘ کی ہی ایک صورت ہوسکتی ہے )[2] کی جمع ہے۔ جیسے ’’وَصِیّۃ‘‘ کی جمع ’’وصایا‘‘ اور ’’ضحِیّۃٌ ‘‘(قربانی) کی جمع ’’ضحایا‘‘ اور ’’مَطیَّۃَ‘‘ (سواری) کی جمع ’’مطایا‘‘  آتی ہے۔

·       ’’خطیئۃ‘‘ سے   ’’خطایا‘‘ تک پہنچنے کی یہ ’’داستانِ تعلیلات‘‘ اس علمی ہیضہ کا ایک مظہر ہے جس کے نمونے بعض دفعہ نحوی مباحث میں ملتے ہیں۔ اگر سیدھی طرح یہ کہہ دیا جاتا کہ ’’فلاں‘‘ لفظ کی جمع مکسر اہل زبان ’’یوں‘‘ بولتے ہیں تو کیا قباحت تھی۔ مگر اہل زبان کے کسی استعمال پر یہ سوال کہ ’’اس استعمال کی وجہ کیا ہے؟‘‘ بعض دفعہ مضحکہ خیز تکلف اور بیہودہ جواب کا باعث بنتا ہے۔ ’’خطایا‘‘ کے تعلیل ارتقا کے پانچ مراحل والی توجیہ کی بجائے دوسرا قول (خطیئۃ = خطیَّۃ=خطایا) نسبتاً زیادہ معقول معلوم ہوتا ہے۔

·       اس مادہ (خ طء) سے فعل مجرد ’’خَطِئَ یَخْطَأُخَطأً و خِطْأً‘‘(سمع سے) کے معنی ہیں: ’’شدید غلطی کرنا، غلط راستہ اختیار کرنا، دانستہ نافرمانی کرنا‘۔ مثلاً کہتے ہیں۔ ’’خَطِئَ فی دینہ‘‘ (اس نے اپنے دین میں دانستہ غلط راستہ اختیار کیا)۔ اور باب فتح سے اس کے فعل (خطَأ یخطَأُ) کے معنی ’’ہانڈی کا جوش مار کر جھاگ وغیرہ باہر نکالنا‘‘ ہوتے ہیں تاہم یہ معنی قرآنِ کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوئے۔

·       باب سمع والے استعمال (فعل مجرد) میں عمداً اور دانستہ برا کام کرنے کا مفہوم ہوتا ہے (غلطی سے یا نادانستہ برا کام کرنے کے لیے اس مادہ سے بابِ اِفعال استعمال ہوتا ہے) اور اگرچہ اس فعل مجرد (باب سمع) سے بھی قرآن کریم میں کوئی صیغۂ فعل تو استعمال نہیں ہوا۔ تاہم بعض مشتقات اور مصادر میں یہ مفہوم موجود ہے مثلاً اسی فعل سے اسم الفاعل ’’خاطِئٌ‘‘(سے جمع سالم) بمعنی مجرم اور گنہ گار استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح اس فعل سے مشتق و ماخوذ کلمات (خاطئون، خاطیئن، خاطئۃ، خطیئۃ وغیرہ) جو قرآن کریم میں بیس کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ان سب میں اس فعل کے یہ بنیادی معنی جھلکتے نظر آتے ہیں۔ اس مادہ سے مزید فیہ کے صرف بابِ افعال سے دو صیغے قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔ ان پر مفصل بحث اپنی آئے گی۔

·       جیسا کہ بیان ہوا لفظ ’’خطایا‘‘ کا واحد ’’خطیئۃ‘‘ ہے۔ جو اس فعل مجرد (باب سمع) سے ایک اسم مشتق (بروزن فَعِیْلۃ) ہے۔ چونکہ اس فعل مجرد میں دانستہ اور عمداً غلط کام کرنے کا مفہوم ہوتا ہے۔ اس لیے ’’خطیئۃ‘‘کے معنی ’’قابل مؤاخذہ غلطی یا جرم یا قصور اور گناہ‘‘ کے ہیں (دانستہ ہو یا نادانستہ) البتہ کبھی ’’خطیئۃ‘‘  کا مطلب قابلِ معزرت غلطی بھی ہوتا ہے معنی کا یہ فرق سیاقِ کلام سے متعین ہو سکتا ہے لفظ  ’’خطیئۃ‘‘  (واحد) بصورت مفرد یا مرکب قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے۔ اس کی جمع مونث سالم ’’خطیئات‘‘مرکب اضافی کی شکل میں دو جگہ۔ اور جمع مکسر ’’خطایا‘‘ بھی بصورت مرکب اضافی پانچ جگہ آئی ہے ۔ مختلف مترجمین نے ’’خطایاکم‘‘ کا ترجمہ ’’تمہاری خطائیں/تقصیریں، تمہارے قصور اور تمہارے گناہ‘‘ کے ساتھ کیا ہے جن میں مندرجہ بالا دونوں مفہوم جھلکتے نظر آتے ہیں۔

۱:۳۷:۲ (۷)     [وَسَنَزِیْدُ] میں ’’ وَ  ‘‘ تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔ اور ’’سنزید‘‘ کا ابتدائی ’’س‘‘ (سین مفتوحہ) مضارع میں مستقبل کے معنی پیدا کرنے کے لیے لگایا (جاتا) ہے۔ نحوی اسے ’’سین التنفیس‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے فعل محدود اور تنگ زمانے (حال) سے کھلے اور وسیع زمانے (مستقبل) میں داخل ہوتا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’عنقریب، بہت جلد، جلد ہی‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ فعل مضارع پر ’’سَوْف‘‘ بھی اسی مقصد کے لیے داخل کیا جاتا ہے اور اس کا اردو ترجمہ بھی اسی طرح کیا جاتا ہے۔ البتہ دونوں کے معنی میں باریک فرق یہ ہے کہ ’’سَ‘‘ والا فعل ’’سَوْف‘‘ والے فعل کی نسبت زیادہ قریب مستقبل کا مفہوم رکھتا ہے یعنی یہ نسبتاً ’’زیادہ جلدی‘‘ کے معنی دیتا ہے۔

·       ’’نزید‘‘ کا مادہ ’’ ز ی د‘‘ اور وزن اصلی ’’نَفْعِلُ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’نَزْیِدُ‘‘ بنتی تھی جس میں متحرک حرف علت (جو یہاں ’’ی‘‘ ہے) کی حرکت اس کے ماقبل ساکن حرف صحیح ( جو یہاں ’’ز‘‘ ہے)  کو دے کر لفظ بصورت ’’نزِید‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے۔ یعنی اس لفظ کے نطق میں اہلِ زبان کا یہ طریقہ ہے۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’زاد یزید زیادۃ‘‘ (زیادہ ہونا۔ زیادہ کرنا) کے باب معنی اور استعمال پر البقرۃ: ۱۰ [۱:۸:۲ (۸)] میں بات ہوچکی ہے۔

·       ’’نزِیدُ‘‘ اس فعل مجرد سے مضارع کا صیغہ جمع متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے مستتر ہے اور اس (نزید) پر ’’سَ‘‘ لگنے سے زیر مطالعہ لفظ ’’سنزید‘‘ بنا ہے جس کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’ہم بہت جلد زیادہ کریں گے یا دیں گے‘‘ جسے بعض نے ’’مزید برآں اور دیں گے‘‘ اور ’’اوپر سے اور دیں گے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’زیادہ ثواب دیں گے‘‘ کیا ہے۔ اس میں لفظ ’’ثواب‘‘ اصل عبارت پر اضافہ ہے۔ بعض نے صرف فعل حال (دیتے ہیں) سے ترجمہ کیا ہے جو ’’سَ‘‘ کے لگنے کے بعد درست نہیں ہے۔

۱:۳۷:۲ (۸)     [الْمُحْسِنِیْنَ] کا مادہ ’’ح س ن‘‘ اور وزن لام تعریف کے بغیر ’’مُفْعِلِیْنَ‘‘ ہے۔ جو ’’مُحْسِنٌ‘‘( بروزن مُفْعِلٌ) کی جمع مذکر سالم ہے (جو یہاں منصوب ہے وجۂ نصب آگے الاعراب میں بیان ہوگی) اس مادہ (حسن) سے فعل مجرد ’’حسُن یحسُن حُسْناً ‘‘(باب کرم سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’خوبصورت ہونا یا بہت اچھا ہونا‘‘۔ اس سے زیادہ مستعمل اسم صفت ’’حَسَنٌ‘‘ ہے جس کی مؤنث ’’حَسَنَۃ‘‘ ہے اور مذکر مؤنث دونوں کی جمع ’’حِسَانٌ‘‘ہوتی ہے۔ اور صرف مؤنث کی جمع سالم ’’حَسَنَات‘‘ بھی عام استعمال ہوتی ہے مگر معنی کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ (یعنی بمعنی خوبیاں۔ نیکیاں)۔ اس مادہ سے بعض دوسرے اسمِ صفت اور ان کی دوسرے طریقے پر جمع بھی آتی ہے مگر ہم نے صرف ان الفاظ کا ذکر کیا ہے جو قرآن کریم میں مستعمل ہوئے ہیں۔ اس فعل مجرد (حسُن یحسُن) سے فعل ماضی کے صرف دو صیغے ’’حسُن‘‘ اور ’’حَسُنتْ‘‘ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

زیر مطالعہ کلمہ ’’مُحْسِنِین‘‘ اس مادہ سے بابِ افعال کے اسم الفاعل ’’مُحْسنٌ‘‘ کی جمع سالم (منصوب) ہے۔ اس باب (اِفعال) سے فعل ’’اَحسَن یُحْسِنُ اِحسَانًا‘‘ کے بنیادی معنی ہیں۔ ’’فعل حسن‘‘ یعنی ’’بہت اچھا کام کرنا‘‘ پھر اس کے بھی دو مفہوم ہیں (۱) ’’اِتْقَان‘‘: یعنی کسی کام کو بہترین اور عمدہ طریقے سے کرنا (کاریگری دکھانا)  ان معنوں کے لحاظ سے اس فعل کا مفعول (جس کام کو عمدہ طریقے سے کیا جائے) بنفسہ (منصوب) آتا ہے جیسے ’’ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ‘‘ (التغابن:۳) میں ہے یعنی ’’اس نے تمہاری صورتیں بہت عمدہ طریقے سے بنائیں‘‘۔ (۲) ’’اِنعام‘‘: یعنی کسی پر انعام کرنا، اس کے ساتھ بھلائی اور نیکی کرنا‘‘۔ اس معنی کے لیے عموماً اس فعل کے مفعول سے پہلے ’’إلی‘‘ یا ’’بِ‘‘ کا صلہ آتا ہے جیسے ’’ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ‘‘ (القصص: ۷۷) اور ’’ وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْٓ ‘‘ (یوسف:۱۰۰) میں آیا ہے۔ جب یہ فعل بغیر صلہ کے یا ذکر مفعول کے بغیر آئے تو سیاقِ عبارت معنی متعیّن کرنے میں مدد دیتا ہے۔ قرآن کریم میں باب افعال کے اس فعل سے مختلف صیغے قریباً بیس جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے صرف دو جگہ مفعول ’’صلہ‘‘ کے ساتھ مذکور ہوا ہے ایک جگہ ’’الی‘‘ اور دوسری جگہ ’’بِ‘‘کے ساتھ۔ چار جگہ بغیر صلہ مفعول کے ذکر کے ساتھ آیا ہے اور مفعول کے ذکر کے بغیر (صرف فعل) گیارہ جگہ آیا ہے۔ ]تین جگہ صیغۂ فعل ’’تمیز‘‘ کے ساتھ آیا ہے۔ فعل مجرد و مزید فیہ کے مذکورہ بالا استعمال کے علاوہ قرآنِ کریم میں اس مادہ سے مختلف مصادر، اسماء صفت اور دیگر اسمائے مشتقہ مشتقہ ۱۶۹ جگہ وارد ہوئے ہیں۔[ تین جگہ صیغۂ فعل ’’تمیز‘‘ کے ساتھ آیا ہے۔ فعل مجرد و مزید فیہ کے مذکورہ بالا استعمال کے علاوہ قرآنِ کریم میں اس مادہ سے مختلف مصادر، اسماء صفت اور دیگر اسمائے مشتقہ ۱۶۹ جگہ وارد ہوئے ہیں (حُسْن،حسَن، الحسنی، احسان، حسنۃ، محسنات وغیرہ)

زیر مطالعہ لفظ ’’محسنین‘‘ کے مذکورہ بالا دونوں معنی مراد لیے جا سکتے ہیں یعنی

(۱) عبادات اور معاملات میں حسنِ کارکردگی والے اور (۲) دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے۔ جسے مختلف مترجمین نے ’’نیکی کرنے والوں، دل سے نیک کام کرنے والوں، نیک بندوں کو، نیکو کاروں کو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض حضرات نے اِتقان والے معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’المحسنین‘‘ کا ترجمہ ’’جو ہمارا حکم اچھی طرح بجا لائیں گے، ان کو‘‘۔ مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر یہ ترجمہ اصل عبارت سے خاصہ ہٹ کر ہے۔ ’’اسم الفاعل‘‘ کا ترجمہ فعلیہ جملے کی صورت میں کیا گیا ہے۔  اور اس پر ’’ہمارا حکم‘‘ کا اضافہ بھی ہے جو اصل عبارت میں نہیں ہے۔

۱:۳۷:۲ (۹)     [فَبَدَّلَ] ابتدائی فاء (فَ) تو عاطفہ بمعنی ’’پس/پھر اس کے بعد‘‘ ہے۔ اور ’’ بَدَّلَ‘‘ کا مادہ ’’ب د ل‘‘ اور وزن ’’فَعَّلَ‘‘ ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’بدَل. . . . یَبْدُل بَدْلًا‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’. . . . کو بدل دینا، بدل ڈالنا، یا بدل لینا‘‘ یہ فعل متعدی بنفسہ استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’بَدَل الشَیْءَ‘‘ (اس نے چیز کو بدل ڈالا) اور کسی چیز کے عوض یا بدلے میں لینا مراد ہو تو اس چیز پر ’’مِن‘‘ یا ’’بِ‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ کہیں گے: ’’بدَل مِنْہ و بِہ‘‘ (اس کے عوض لے لیا) باب سمع سے ’’بدِل یَبْدَل بَدَلًا‘‘ کے معنی ’’جوڑوں یا گردن میں درد ہونا‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کسی باب اور کسی معنی کے لیے فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’بدَّل‘‘ اس مادہ سے باب تفعیل کا فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اور بابِ تفعیل سے فعل ’’بدَّل یُبَدِّل تبدیلاً‘‘ ہمیشہ متعدی اور مفعول بنفسہ کے ساتھ آتا ہے اور اسی کے دو معنی ہیں (۱) ’’. . . . کی شکل بدل دینا، تبدیل کر ڈالنا‘‘ (خیال رہے ’’بَدَل‘‘ اور ’’تبدِیل‘‘ عربی مصادر ہیں مگر یہ اُردو میں اپنے اصلی عربی معنی کے ساتھ مستعمل ہیں) مثلاً کہیں گے: ’’بَدَّل الشَیْئَ شَیْئًا اخر‘‘ (اس نے چیز کو بدل کر ایک دوسری ہی چیز بنا ڈالا)۔ (۲) ’’. . . . کے بدلے/کی بجائے دوسری چیز لے لینا، تبدیل کرلینا‘‘ مثلاً کہتے ہیں: ’’بَدَّلَ الشَّیْئَ(۱) مکانَ الشیءِ(۲)‘‘ (اس نے چیز نمبر ۲ کی جگہ چیز نمبر ۱ لے لی)

·       اس استعمال کے لیے زیادہ تر دونوں بدلی جانے والی چیزوں کا ذکر مفعول اوّل اور مفعول ثانی کے طور پر ہوتا ہے یعنی دونوں مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتے ہیں جسے ’’ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا = ہم نے ان کی کھالیں تبدیل کر کے دیں‘‘ (النساء: ۵۶) اور ’’ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا = انہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری میں بدل لیا‘‘ (ابراہیم:۲۸)۔ اور کبھی جس کے بدلے کوئی چیز لی یا دی جائے اس سے پہلے لفظ ’’مکانَ‘‘ بطور ظرف مضاف آتا ہے۔ یا اس سے پہلے  باء (ب) کا صلہ لگتا ہے مثلاً ’’بدّلنا آیۃ مکانَ آیۃٍ = ہم نے آیت کی جگہ آیت بدل دی‘‘ (النحل:۱۰۱) یا  ’’بدّلناھم بِجَنَّتَیْھِمْ جَنَّتَیْنِ= ہم نے ان کو بدل کر دے دئیے ان کے دو باغوں کی بجائے دو باغ‘‘ (سبأ:۱۶) ــــــــــ  اور جب اس ’’بِ‘‘کے بغیر مفعول ثانی بھی منصوب ہوکر آئے (جیسے اوپر دو مثالیں النساء: ۵۶یا ابراہیم:۲۸ والی آئی ہیں)۔ اور اکثر آیا ہے۔ تو اسے منصوب بنزع الخافض بھی کہہ سکتے ہیں (یعنی جہاں کوئی فعل صلہ کے ساتھ اور صلہ کے بغیر ایک ہی معنی دے تو بغیر صلہ والے استعمال میں مفعول کی نصب کو ہی نصب بنزع الخافض کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے ’’حرف الجر۔ خافِض۔کو نکال دینے کی بناء پر نصب دینا‘‘) اور اس فعل (بدل یبدّل) میں اکثر مفعول ثانی (’’کی بجائے/کی جگہ‘‘ والی چیز) کا ذکر محذوف بھی ہوتا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل (بدّل یبدّلُ) کے مختلف صیغے ۲۳ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے صرف آٹھ جگہ دونوں مفعول (صلہ کے ساتھ یا صلہ کے بغیر) مذکور ہوئے ہیں باقی مقامات پر صرف ایک ہی مفعول مذکور ہوا ہے۔ آیتِ زیر مطالعہ میں فعل ’’بدّل‘‘ کا دوسرا (’’بِ‘‘ والا) مفعول محذوف (غیر مذکور) ہے اس پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

اس باب (تفعیل) کے علاوہ اس مادہ (بدل) سے قرآن کریم میں مزید فیہ کے ابواب اِفعال، تفعل اور استفعال سے بھی فعل کے مختلف صیغے ۹ جگہ آئے ہیں۔ اور مختلف اور اس میں اسمائے مشتقہ ۱۲ جگہ آئے ہیں۔  ان پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

[الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا] یہ ’’الذین‘‘ ( ان لوگوں نے جنہوں نے) ’’ظلموا‘‘ (انہوں نے ظلم کیا۔ گناہ کیا) ہے۔ الذین (اور دیگر اسمائے موصولہ)پر الفاتحہ: ۷ [۱:۶:۱ (۱) ] میں بات ہوئی تھی۔  اور ’’ظلموا‘‘ (جس کا مادہ ’’ظ ل م‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے) کے باب اور معنی وغیرہ کے لیے دیکھئے البقرہ:یعنی [۱:۱۳:۲ (۱۰)]۔ اس فعل کا استعمال ابھی اوپر البقرہ:۵۷ میں بھی گزرا ہے۔

اردو کے مترجمین نے اردو محاورے کا لحاظ کرتے ہوئے ’’الذین ظلموا‘‘ کا فعل کے صیغے کے ساتھ ترجمہ (جنہوں نے ظلم کیا) کرنے کی بجائے اس (صلہ موصول عبارت) کا ترجمہ ’’اسم صفت‘‘ کی طرح کیا ہے یعنی ’’ظالموں نے، بے انصافوں نے، شریرلوگوں نے، زیادتی کرنے والوں نے‘‘ کی صورت میں جو بلحاظ مفہوم درست ہے گو لفظ سے ہٹ کر ہے۔ اگرچہ  بعض نے اسم موصول کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے یعنی ’’تو جو ظالم تھے/شریر تھے‘‘ کی صورت میں۔

[قَوْلاً غَیْرَ الَّذِیْ ] یہ تین لفظ ہیں ’’قولاً‘‘، ’’غیرَ‘‘ اور ’’الذی‘‘۔ ان میں سے ’’قَوْلاً‘‘  (بات، کلمہ، لفظ) کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن ’’فَعْلاً ‘‘ ہے یہ فعل ’’قال یقول‘‘ کا مصدر ہے (لفظ ’’قول‘‘ بمعنی ’’بات‘‘ اردو میں مستعمل ہے) اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ کی وضاحت البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۴)] میں ہوچکی ہے۔ ’’غَیْرَ‘‘ (دوسرا، کے سوا، کے خلاف) اور ’’الذی‘‘ (وہ جو کہ)۔ اس طرح ’’غیرَ الذی‘‘ . . .  کا مطلب ہے  ’’ اس کی بجائے جو کہ‘‘۔ ’’غَیْرَ‘‘ کے استعمال اور معنی (بلکہ اس سے فعل وغیرہ) پر مفصل بات الفاتحہ:۷ [۱:۶:۱ (۴)] میں اور ’’الذی‘‘ پر [۱:۶:۱ (۱)] میں گزر چکی ہے۔

اس حصۂ عبارت (قولاً غیر الذی . . . ) پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

[قِیْلَ لَھُمْ] ’’قِیْلَ‘‘ جس کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فُعِلَ‘‘ ہے کے مادہ فعل کے باب معنی اور اس میں ہونے والی تعلیل وغیرہ پر البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۲)] میں بات ہوچکی ہے۔ بلکہ وہیں ’’لَھُمْ‘‘ پر بھی بات ہوئی تھی (وہاں بھی عبارت ’’قِیْل لھم‘‘ تھی) یہاں ’’قِیْل لَھُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’کہا گیا ان سے‘‘ ہے جس کا ترجمہ قول بمعنی ’’بات‘‘ کی تانیث کی مناسبت سے  ’’فرمائی گئی، کہہ دی گئی تھی، بتائی گئی تھی‘‘ سے کیا گیا ہے۔ بعض نے ’’حکم دیا تھا‘‘ ترجمہ کیا ہے کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ کے قول کی بات ہورہی ہے۔ تاہم یہ ترجمہ اصل عبارت سے بہت ہٹ کر ہے۔

[فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا] یہ نامکمل جملہ پانچ کلمات کا مرکب ہے۔ ’’ فَ  ‘‘ (عاطفہ بمعنی پس، اس لیے، پھر) ہے۔

’’اَنْزَلْنَا‘‘ کا مادہ ’’ن ز ل‘‘ اور وزن ’’ اَفْعَلْنَا  ‘‘ ہے جو اس مادہ سے بابِ افعال کا صیغہ ماضی (جمع متکلم) ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد اور خود اس فعل (انزل یُنزِلُ) کے معنی وغیرہ کے لیے البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۲)] دیکھئے ’’اَنْزَلْنَا‘‘ کا ترجمہ ’’ہم نے اتارا۔ نازل کیا/کی‘‘ ہوگا۔

’’علی الذین‘‘ جو ’’علی‘‘ حرف الجر بمعنی ’’پر‘‘ ، ’’کے پر‘‘ اور ’’الذین‘‘ (وہ لوگ جو کہ) کا مرکب ہے پس ’’علی الذین‘‘ کا ترجمہ ’’ان پر جو کہ، ان پر جنہوں نے کہ . . . . ‘‘ ہے۔

’’ ظلموا  ‘‘ جس کا مادہ ’’ ظ ل م‘‘ اور وزن ’’ فَعَلوا  ‘‘ ہے۔ اس سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲ (۱۰)] میں بیان ہوئے تھے۔ اور ابھی اسی آیت میں اوپر ’’الذین ظلموا‘‘ کی ترکیب گزری ہے یہاں بھی مثل سابق اس کا ترجمہ ’’جن لوگوں نے ظلم کیا‘‘ کی بجائے ’’شریروں، زیادتی کرنے والوں‘‘ وغیرہ  کی صورت میں یعنی فعل کی بجائے اسم صفت کے ساتھ گیا ہے جسے مفہوم اور محاورہ کی بناء پر ہی درست قرار دیا جا سکتا ہے اگرچہ اصل عبارت سے ہٹ کر ہے۔

۱:۳۷:۲ (۱۰)     [رِجْزًا] کا مادہ ’’ ر ج ز‘‘ اور وزن ’’فِعْلاً ‘‘ہے  ہے (یہ لفظ یہاں منصوب ہے) اس مادہ سے فعل مجرد ’’رجَز /یرجُز/ رَجْزًا‘‘ (نصر سے) سے آتا ہے اور اس کے ایک معنی ’’رَجْز پڑھنا‘‘ ہیں جو نظم اور شعر کی ایک خاص قسم ہوتی ہے۔ اور ’’رجِز/ یرجَز/ رَجَزًا‘‘ (سمع سے) کے معنی ’’اونٹ کی ٹانگوں کا (بوجہ بیماری) لرزنا اور کانپنا‘‘ ہوتے ہیں۔ عربی زبان میں تو اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعل، مفاعلہ، افتعال وغیرہ) سے بھی مختلف معانی کے لیے فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کوئی فعل کسی باب سے اور کسی معنی کے لیے کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       بلکہ قرآن کریم میں اس مادہ سے صرف یہی لفظ ’’رِجْز‘‘ بصورت مفرد مرکب معرفہ نکرہ ۹ جگہ آیا ہے اور ایک جگہ ’’ رُجز  ‘‘ (بضم الراء) آیا ہے۔ اور یہ لفظ (رِجْز) اس مادہ سے ماخوذ ایک اسم جامد ہے اور اس کے معنی ’’گناہ، عذاب، گندگی، غیر اللہ کی عبادت، شرک اور شیطانی وسوسہ‘‘ ہیں۔ بعض صرف ’’گناہ‘‘ کے لیے ’’رِجز‘‘ (بکسر الراء)استعمال کرتے ہیں اور باقی معانی (عذاب وغیرہ) کے لیے ’’رِجْز‘‘  (بکسر الراء) اور ’’رُجْز‘‘ (بضم الراء) دونوں طرح استعمال کرتے ہیں۔ زیر مطالعہ عبارت میں اس کا موزوں ترجمہ ’’عذاب‘‘ ، ’’بلاء‘‘ یا ’’آفت‘‘ سے کیا جا سکتا ہے۔

[مِنَ السَّمَاءِ] جو ’’مِنْ‘‘ (حرف الجر بمعنی ’’سے‘‘، ’’کی طرف سے‘‘) اور ’’السماء‘‘ (آسمان) کا مرکب ہے یعنی ’’آسمان سے‘‘۔ ’’مِنْ‘‘ کے معنی اور استعمالات البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)] میں اور ’’السماء‘‘ کے مادہ، وزن اور اس سے فعل وغیرہ کی بحث البقرہ:۱۹ [۱:۱۴:۲ (۳)] میں گزر چکی ہے۔

  [بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ] ’’بِمَا‘‘ با (ب) سببیہ بمعنی ’’بوجہ، . . . .  کی وجہ سے،  اس سبب سے کہ ‘‘ اور ’’مَا‘‘ (جو کہ) کا مرکب ہے یعنی ’’بسبب اس کے جو کہ. . .‘‘۔  ’’ب‘‘ کے معانی و استعمال پر بحث استعاذہ کے علاوہ البقرہ: ۴۵ [۱:۳:۲ (۱)] میں اور ’’مَا‘‘ کے معانی پر البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)] کے علاوہ البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’کانوا‘‘ (بمعنی ’’وہ تھے‘‘) کے مادہ ، وزن، اس سے فعل اور خود اس صیغہ (کانوا) کی تعلیل وغیرہ پر البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲ (۱۰)] میں نیز البقرہ:۲۸ [۱:۲۱:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔

’’یَفسُقونَ‘‘ کا مادہ ’’ ف س ق‘‘ اور وزن ’’یَفْعُلون‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد (فسق یفسُق (نصر) = (نافرمانی کرنا)  پر اس سے پہلے البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۱)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

اس حصۂ عبارت (بما کانوا یفسقون) کے مجموعی ترجمہ پر بحث ’’الاعراب‘‘ میں مزید بات ہوگی۔

 

۲:۳۷:۲      الاعراب

زیر مطالعہ دو آیات کو بلحاظ اعراب سات چھوٹے بڑے جملوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو سب آپس میں فائے عاطفہ یا واو عاطفہ کے ذریعے باہم ملا کر ایک مربوط لمبی عبارت بناتے ہیں۔ جملوں کی الگ الگ تفصیل یوں ہے۔

(۱)  وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِهِ الْقَرْيَةَ

[وَ] یہاں عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور مستانفہ بھی (عطف اور استیناف کے فرق پر اس سے پہلے کئی جگہ بات ہوئی ہے) [اِذْ] ایک فعل محذوف (اذکر) کا ظرف ہے۔ یہ دونوں لفظ ’’وَاِذْ‘‘ گزشتہ آیات میں متعدد بار آچکے ہیں۔ اس کا ترجمہ ’’اور جس وقت/ جب‘‘ ہے  [قُلنا] فعل ماضی جمع متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم  (نحن) مستتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [ادْخُلُوا] فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ بصورت ’’و‘‘ (واو الجمع) موجود ہے۔ [ھذہ] اسم اشارہ اور [القریۃ] مشارٌ الیہ ہے اور یہ پورا مرکب اشاری (ھذہ القریۃ) فعل ’’ادخلوا‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب ’’ھذہ‘‘ (اشارہ) میں تو مبنی ہونے کے باعث ظاہر نہیں مگر ’’القریۃ‘‘ (مشارٌ الیہ) کی ’’ۃ‘‘ میں بصورت فتحہ (ــــــَــــ) موجود ہے۔ اور یہ پورا جملہ (ادخلوا ھذہ القریۃ) فعل ’’قُلنا‘‘ کا مقول (حکایۃ القول) ہونے کی بنا پر محلاً منصوب قرار دیا جاسکتا ہے۔

(۲)  فَكُلُوْا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا

[فَ] عاطفہ ہے جس سے فعل ’’کلوا‘‘ سابقہ فعل ’’ادخلوا‘‘ پر عطف ہے یعنی ’’ادخلوا فکلوا‘‘  [کُلُوا]فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ بصورت واو الجمع موجود ہے۔ [منھا] جارّ (مِنْ) اور مجرور (ھا) مل کر متعلق فعل (کلُوا) ہے یعنی ’’کھاؤ اس میں سے‘‘۔ [حَیْثُ] ظرف زمان مبنی علی الضم ہے یعنی اس کی (آخری) ’’ث‘‘ پر ہمیشہ ضمہ (ـــــُـــــ) ہی رہتا ہے چاہے اس سے پہلے کوئی حرف جارّ (مثلاً ’’مِنْ‘‘) بھی آجائے۔ تو ’’مِنْ حیثُ‘‘۔. . .   ہی رہے گا [شِئتم] فعل ماضی مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ جملہ فعلیہ ہے اور یہ ’’حیثُ‘‘  کا مضاف الیہ شمار ہوگا (ظرف عموماً مضاف ہوکر آتے ہیں) اس طرح (حیث شئتم) کا لفظی ترجمہ ’’تم نے چاہا کی جگہ ‘‘ہوگا اور مراد ہے ’’جس جگہ/ جہاں سے تم چاہو‘‘ یا ’’جہاں سے تمہارا جی چاہے‘‘۔ [رغدًا] یا تو ایک فعل محذوف (مثلاً: رغد عیشُکم= (تمہارا سامان زندگی فراواں اور بکثرت ہوا) دیکھئے[۱:۲۵:۲ (۸)]کا مفعول مطلق (لہٰذا) منصوب ہے (بمعنی بے روک ٹوک ہونا) اور یا مصدر بمعنی اسم الفاعل (راغدِیْنَ) ہو کر حال منصوب ہے۔ (بمعنی بے روک ٹوک ہوتے ہوئے) اور اسی کا بامحاورہ ترجمہ ’’بے تکلفی سے، بے روک ٹوک اور خوب فراغت سے‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ یہ جملہ (نمبر۲) بھی سابقہ جملے (نمبر۱) کی طرح ’’قلنا‘‘ کا مقول (مفعول) ہے۔

(۳)  وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا

[وَ] برائے عطف ہے اور [ادخلوا] فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اور جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے [البابَ] فعل ’’ادخلوا‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے علامت نصب آخری ’’ب‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ دخل کا مفعول ’’فی‘‘ کے ساتھ مجرور ہوکر (محلاً منصوب) بھی آتا ہے اور ظرفیت کی بنا پر مفعول فیہ ہوکر منصوب بھی آتا ہے جیسے یہاں ہے اور اس صورت میں اسے منصوب  بنزع الخافض بھی کہتے ہیں۔ اس (ادخلوا البابَ) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’تم داخل ہوجاؤ دروازے میں‘‘ اور مراد ہے ’’دروازے میں سے ہوکر (بستی میں) داخل ہوجاؤ‘‘ [سُجَّدًا] حال (لہٰذا) منصوب ہے۔ یعنی سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے‘‘ یا ’’سجدہ کرتے ہوئے‘‘ اور چونکہ سجدہ سے مطلوب عاجزی کا اظہار ہے اس لیے بعض نے اس کا ترجمہ ’’جھکے جھکے‘‘ اور ’’جھکے ہوئے‘‘ کیا ہے۔ اور بعض نے اردو محاورے کا لحاظ رکھتے ہوئے اس پوری عبارت (وادخلوا الباب سجدًا) کا ترجمہ ’’اور داخل ہونا تو سجدہ (شکر کا) کرنا‘‘ سے کیا ہے اردو میں ایسے موقع پر مصدر بمعنی ’’امر‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ یہ جملہ (نمبر۳) بھی ’’وَ‘‘ کے ذریعے سابقہ جملے پر عطف ہوکر ابتدائی ’’قلنا‘‘ کا مقول لہٰذا محلاً منصوب بنتا ہے۔

(۴)  وَّقُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ   

 [وَ] عاطفہ ہے اور [قولوا] فعل امر مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے۔ اور [حِطّۃٌ] اگر یہاں ’’حِطَّۃ‘‘ (منصوب) ہوتا تو ’’قولوا‘‘ کے مفعول (مقول) ہونے کے لحاظ سے (بلحاظ نحو) درست ہوتا ۔ مگر اس کے یہاں مرفوع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گویا اس سے پہلے ایک مبتدا محذوف ہے یعنی  ’’قولوا‘‘ ’’سؤالُنا حطۃٌ‘‘  (یعنی یوں کہو ہمارا سوال ’’مغفرت ‘‘ہے) فعل’’قال‘‘ کے ساتھ اس کے مفعول (مقول) کے کبھی مرفوع اور کبھی منصوب آنے کی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ ایک ہی آیت میں دونوں مثالیں جمع ہوگئی ہیں۔ مثلاً  ’’ قَالُوْا سَلٰمًا  ۭ قَالَ سَلٰمٌ ‘‘ (ہود:۶۹) اور ’’ فَقَالُوْا سَلٰمًا  ۭ قَالَ سَلٰمٌ ۚ ‘‘ (الذاریات:۲۵) یعنی ’’انہوں نے ’’سلام‘‘ کیا اور اس نے (جواب میں) ’’سلام‘‘ کہا‘‘۔ اس میں رفع والے  ’’سلامٌ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس نے یہی لفظ اسی طرح جواب میں کہا۔ گویا ’’قالوا سلامًا‘‘ انگریزی کے indirect کی طرح ہے اور ’’قال سلامٌ‘‘ direct کی شکل میں ہے۔ [نغْفِرْ] فعل مضارع مجزوم ہے کیونکہ یہ فعل امر ’’قولوا‘‘ کا جوابِ امر ہے اور علامتِ جزم آخری ’’ ر‘‘ کا سکون ) ــــــْـــــ)ہے۔ اس فعل میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ مستتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے = (تو ہم بخش دیں گے)۔ [لکم] جارّ ’’لِ‘‘ جو ضمیر کے ساتھ مفتوح ہے) اور مجرور (کم) مل کر متعلق فعل ’’نغفر‘‘ ہے یا یہ  (لکم) فعل ’’نغفر‘‘ کا مفعول ثانی (جس پر لام کا صلہ آتا ہے) ہونے کے باعث محلاً منصوب ہے یعنی ’’تم کو‘‘۔  (یہاں) ’’لکم‘‘ کا ترجمہ لفظی ’’تمہارے لیے‘‘ نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ اردو محاورے میں غیر مانوس ہے) ـــــ  [خطایاکم] مضاف  (خطایا) اور مضاف الیہ (کُمْ) مل کر فعل ’’نغفِرْ‘‘ کا مفعول اول (جو چیز معاف کردی جائے) ہے اور اسی لیے منصوب ہے۔ علامتِ نصب ظاہر نہیں ہے کیونکہ ’’خطایا‘‘ اسم مقصور ہے۔ منصوب (مفعول) ہونے کی وجہ سے یہاں ’’خطایاکم‘‘ کا ترجمہ ’’تمہاری خطاؤں کو، تمہارے گناہوں کو‘‘ ہونا چاہیے مگر اردو میں دو مفعول آئیں تو ’’کو‘‘ صرف کے ایک کے ساتھ لگتا ہے اس لیے ’’لکم‘‘ (تم کو) کے بعد یہاں اس کا بامحاورہ ترجمہ ’’تمہاری خطائیں، تمہارے گناہ، تمہارے قصور‘‘ (بخش دیں گے) کی صورت میں کیا گیا ہے۔

(۵)  وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ

[وَ] استیناف کی ہے یعنی اس سے بعد کہی جانے والی بات بنی اسرائیل سے کہی جانے والے سابقہ بات (جو ’’ قلنا ‘‘ سے شروع ہوئی تھی) کا حصہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنا ایک عام قانون بیان فرمایا ہے جو سب کے لیے ہے   ۔ [سنزید] فعل مضارع صیغہ جمع متکلم ہے جس پر ’’س‘‘ داخل ہوا ہے۔ اس میں بھی ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘  مستتر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [المحسنین] فعل ’’نزید‘‘ کا مفعول بہ  (لہٰذا) منصوب ہے علامتِ نصب آخری نون سے پہلے والی یائے ماقبل مکسور (ــــــِــــ  ی) ہے جو جمع سالم مذکر اسم میں نصب اور جر کی علامت ہوتی ہے۔ یہاں اس فعل (نزید) کا مفعول ثانی یا تمیز محذوف ہے یعنی ’’محسنین‘‘کو کون سی چیز زیادہ دیں گے؟ یا کس چیز کے لحاظ سے بڑھائیں گے؟ [دیکھئے فعل’’زاد یزید‘‘ کے استعمال کی بحث البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲ (۸)]میں۔ اس عبارت کے اجزاء کا الگ الگ ترجمہ ابھی اوپر حصہ اللغۃ [۱:۳۷:۲ (۸،۷)]میں بیان ہوچکا ہے۔

(۶)   فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِىْ قِيْلَ لَھُمْ

[فَ] یہاں استیناف کی ہے کیونکہ اس کا عطف سابقہ ’’قلنا‘‘ کے مقول جملوں پر (بلحاظ معنی) نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہاں سے ایک الگ مضمون شروع ہوتا ہے۔ [بدّل] فعل ماضی معروف صیغہ واحد غائب ہے۔ [الذین] اسم موصول فعل ’’بدّل‘‘ کا فاعل (لہٰذا مرفوع) ہے مگر مبنی ہونے کے باعث اس میں علامتِ رفع ظاہر نہیں ہے۔ اور [ظلموا] فعل ماضی مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر اسم موصول ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے اور دراصل تو یہاں صلہ موصول مل کر (الذین ظلموا) فعل’’ بدّل ‘‘  کا فاعل ہے یعنی بدل دیا ’’ظالموں‘‘ نے [قولًا] فعل ’’بدل‘‘ کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے [غیرَ] یہاں ’’قولاً‘‘ (نکرہ موصوفہ) کی صفت ہے اس لیے منصوب ہے علامتِ نصب ’’ر‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے۔ ’’غیر‘‘ کے بطور صفت استعمال کے لیے دیکھئے الفاتحہ:۷ [۲:۶:۱ (۴)]

’’غیر‘‘ ہمیشہ مضاف ہوکر ہی استعمال ہوتا ہے اسی لیے یہاں یہ خفیف بھی ہے۔ اور [الذی] اسم موصول اس (غیر) کا مضاف الیہ (لہٰذا مجرور) ہے مگر مبنی ہونے کی وجہ سے علامت جر ظاہر نہیں ہے۔ [قِیل] فعل ماضی مجہول صیغہ واحد مذکر غائب بمعنی ’’کہا گیا‘‘ (جس کا ترجمہ فعل کے اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی بناء پر ’’حکم دیا گیا‘‘ کیا جاسکتا ہے) [لَھُمْ] جار (لِ) مجرور (ھم) مل کر فعل ’’قیل‘‘ سے متعلق ہیں (یعنی’’ان کو‘‘) کہا گیا اور یہ جملہ (قیل لھم) ’’الذی‘‘ (جو ’’غیر ‘‘کے بعد ہے) یعنی موصول کا صلہ ہے اور صلہ موصول مل کر (الذی قیل لھم) ’’غیر‘‘ کا مضاف الیہ ہے لہٰذا اسے محلاً مجرور بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ سب (غیر الذی قیل لھم) مل کر ’’قولًا‘‘ کی صفت ہے جو ’’بدّل‘‘ کا مفعول تھا۔

یہاں فعل ’’بدل‘‘ کا دوسرا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہے یعنی جس کی بجائے ’’یہ بات‘‘ بدل لی تھی۔ یہ مفعول (ثانی) عموماً ’’بِ‘‘ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے لہٰذا یہاں تقدیر عبارت یوں (understood) بنتی ہے۔ ’’فبدل الذین ظلموا (بالذی قیل لھم) قولاً غیر الذی قیل لھم‘‘ یعنی ’’ظالموں نے (جو بات ان کو کہی گئی تھی اس کی بجائے /(اس کے خلاف) ایک اور بات (عبارت) بدل دی۔ جو اس سے جو ان کو کہی گئی تھی کے خلاف/ سے الگ/ کے  سوا تھی‘‘ اور چونکہ یہاں ’’بدّل‘‘ بلحاظ موقع و معنی ’’قال‘‘ ہی ہے (کیونکہ بات ہی تو بدل دی تھی) اس لیے تقدیر عبارت (دوسرے لفظوں میں) یوں بھی بن سکتی ہے کہ ’’قال الذین ظلموا قولاً غیر الذی قیل لھم‘‘ بلحاظ ترکیب نحوی ان دو مقدّر عبارتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض مترجمین نے وضاحتی ترجمہ یوں کیا ہے (۱) ’’اس لفظ (بات کو جس کا حکم ان کودیا گیا تھا بدل کر اس کی جگہ ایک اور لفظ کہنا شروع کردیا‘‘ (۲) ’’جس کا حکم دیا گیا (وہ نہ کہی بلکہ) اس کے سوا/ کی بجائے کچھ اور کہنے لگے‘‘۔ ان دو ترجموں میں ’’کہنا شروع کردیا‘‘ اور ’’کہنے لگے‘‘ اسی مقدر عبارت (قال کے ساتھ) کا ترجمہ ہے۔

(۷)  فَاَنْزَلْنَا عَلَي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ  

[فَ] عاطفہ تعلیلیہ (بمعنی ’’اس لیے، تو پھر‘‘) ہے [انزلنا] فعل ماضی معروف مع ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ ہے  [علی الذین ظلموا] میں ’’علی‘‘ حرف الجرّ اور ’’الذین‘‘ اسم موصول مجرور بالجر ہے’’ظلموا‘‘ فعل  ماضی مع ضمیر الفاعلین جملہ فعلیہ بن کر اس ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے اور یہ سارا مرکب جارّی (علی الذین ظلموا= ان پر جنہوں نے ظلم کیا یعنی ظالموں پر) فعل ’’انزلنا‘‘ سے متعلق ہے اور یہاں یہ متعلق فعل (مرکب) مفعول سے (جو آگے آرہا ہے) مقدم (پہلے) آیا ہے جس سے اس میں ’’ظالموں ہی پر‘‘ کا مفہوم پیدا ہوا ہے [رجزًا] اس فعل (انزلنا) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے علامتِ نصب اس کے آخر پر تنوینِ نصب   (ــــًـــــ) ہے۔ [من السماء] جارّ (مِنْ) اور مجرور  (السماء) مل کر یا تو فعل ’’انزلنا‘‘ سے (ہی) متعلق ہے۔ اور چاہیں تو اسے ’’رجزًا‘‘ کی صفت یا حال بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ’’ایسا ’’رجز‘‘ (عذاب) جو کہ آسمان سے تھا‘‘ (یا جس کی حالت یہ تھی کہ آسمان سے آیا) تینوں صورتوں میں(متعلق فعل ہو یا صفت یا حال) ’’مِنْ‘‘ بیانیہ یعنی وضاحت اور بیان کے لیے ہے۔ اس حصۂ عبارت کی عام سادہ نثر یوں ہوتی ’’فانزلنا رجزا من السماء علی الذین ظلموا‘‘ اس میں ’’علی الذین ظلموا‘‘ کی تقدیم (مفعول پر) سے ادبی حسن بھی پیدا ہوا ہے اور مفہوم میں نکتہ تاکید بھی آگیا ہے۔ ’’یعنی ظالموں پر ہی‘‘ عذاب آیا۔

[بما] میں ’’باء‘‘ (ب) سببیہ (بمعنی’’. . . . کے سبب سے ،کی وجہ سے‘‘) اور ’’ما‘‘ موصولہ (بمعنی ’’جو کہ‘‘) ہے یعنی ’’بسبب اس کے جو کہ‘‘۔ [کانوا] فعل ناقص صیغہ ماضی اپنے اسم (ھُم) سمیت ہے اور [یفسقون] فعل مضارع مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر ’’کانوا‘‘ کی خبر (لہٰذا محلاً منصوب) ہے یعنی ’’کانوا فاسقین‘‘ کے معنی میں ہے۔ اور چاہیں تو ’’کانوا یفسقون‘‘ کو اکٹھا فعل ماضی استمراری کا صیغہ سمجھ لیں اور ’’مَا‘‘ کو مصدریہ سمجھ لیں تو تقدیر عبارت ’’بکَوْنِھم فاسقین‘‘ (ان کے فاسق ہونے کی وجہ سے) یا ’’بفسقِھم‘‘ (ان کے فسق/ نافرمانی کی وجہ سے) بھی ہوسکتی ہے۔ اور ان مصدری معنی کو سامنے رکھتے ہوئے ہی بیشتر اردو مترجمین نے ’’بما کانوا یفسقون‘‘(بسبب اس کے جو کہ وہ نافرمانی کرتے تھے) کا ترجمہ ’’ان کی بے حکمی پر، ان کی عدول حکمی پر، ان کی نافرمانی (کی سزا میں)، نافرمانی پر‘‘ اور بدلہ ان کی نافرمانی کا‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ اگرچہ بعض نے اصل جملہ (کانوا یفسقون) کے مطابق ’’خلاف حکم کرتے تھے، نافرمانیاں کیے جاتے تھے، نافرمانی کرتے رہتے تھے‘‘ کی صورت میں بھی ترجمہ کیا ہے۔

 

۳:۳۷:۲     الرسم

زیر مطالعہ دو آیات کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے۔ صرف ایک کلمہ ’’خطایاکم‘‘ کا رسم عام املاء سے مختلف اور وضاحت طلب ہے۔

لفظ ’’خطایا‘‘ مختلف ضمیروں کے ساتھ مضاف  ہوکر قرآن کریم میں پانچ جگہ آیا ہے دو جگہ ’’خطایاکم‘‘ دو جگہ ’’خطایانا‘‘ اور ایک جگہ ’’خطایاھم‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں رسم عثمانی کے مطابق ان کلمات کو ہر جگہ دو الف محذوف کرکے لکھا جاتا ہے (’’طاء‘‘ کے بعد والا الف اور ’’یاء‘‘ کے بعد والا الف) یعنی ان کو بصورت ’’خطیکم‘‘ ’’خطینا‘‘ اور ’’خطیھم‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ اور یہ متفق علیہ رسم ہے اور اگرچہ علم الرسم کی بعض کتابوں میں صرف ’’طاء‘‘ کے بعد والے الف کے اثبات کا ذکر کیا گیا ہے۔ (یعنی بصورت ’’خطایکم، خطاینا اور خطایھم‘‘ لکھنا) تاہم یہ قول شاذ ہے  [3]اور عملاً کہیں بھی اس طرح لکھا نہیں جاتا۔ (اگرچہ ترکی اور ایران کے مصاحف میں ان کلمات کو رسم املائی کی صورت میں (خطایاکم، خطایانا، خطایاھم) لکھنے کی غلطی عام ہے مگر صرف ایک الف (بعد الیاء) کے حذف کے ساتھ یہ کہیں بھی نہیں لکھے جاتے) برصغیر اور عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں ہرجگہ یہ دونوں الف (بعد الطاء و بعد الیاء) کے حذف کے ساتھ ہی لکھے جاتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ’’خطایا‘‘ چونکہ دراصل ’’خطایٰ‘‘ تھا اس لیے قیاس تو یہ چاہتا تھا کہ اسے ضمیرمتصل کے ساتھ لکھتے وقت اس کی آخری ’’یاء‘‘ کے لیے بھی ایک ’’دندانہ‘‘ لکھا جاتا یعنی ’’خطیکم‘‘ مثل ’’مولکم‘‘) مگر رسم عثمانی میں عموماً ایک ہی حرف و ساتھ ساتھ دو دفعہ لکھنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔ [4] (ماسوائے چند خاص کلمات کے استثناء کے۔ جن کا ذکر اپنی جگہ آئے گا)۔ اس لیے ان کلمات ثلاثہ کو ’’خطیکم، خطینا اور خطایھم‘‘ ہی کی شکل میں لکھا جاتا ہے پھر بذریعہ ضبط ’’ط‘‘ اور ’’ی‘‘ کے بعد والے محذوف الفوں کو ظاہر کیا جاتا ہے۔

 

۴:۳۷:۲      الضبط

زیر مطالعہ آیات کے کلمات میں ضبط کے تنوع کو درج ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ نون مکتوبی اور تنوین کے نون ملفوظی کے اخفاء اور اظہار کے لیے ضبط کا فرق قابل توجہ ہے۔ مثلاً ’’منھا‘‘ اور ’’فانزلنا‘‘ میں ’’ن‘‘  کے ضبط کا اور ’’رغدًا‘‘ اور ’’قولًا‘‘ کی تنوین کا فرق غور طلب ہے۔



[1] مفصل بحث کے لیے دیکھئے البیان (لابن الانباری) ج ۱ ص ۸۴۔ مشکل اعراب القرآن  للقیسی ج ۱ ص ۴۸۔ ۴۹ اور البیان (للعکبری/ج ۱ ص ۶۶، نثر المرجان، ج ۱ ص ۱۴۹۔

[2]  یعنی ہمزہ کو حرفِ علت (و ی) کی طرح مدغم کردینے سے۔ جیسے ’’نَبِیْئٌ‘‘ سے ’’نَبِیٌّ‘‘ بنتا ہے۔

 

[3]  دیکھئے نثر المرجان ج۱ ص ۱۵۰

 

[4]  سمیر الطالبین (للضباع) ص ۶۴