سورۃ۱لبقرہ آیت نمبر ۶

۵:۱      اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ  (۶)

۲:۵:۱      اللغۃ

       [اِنَّ] یہ حرف مشبہ بالفعل ہے جو اپنے اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے۔ بلحاظ معنی یہ حرف ِتاکید ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’بے شک‘‘ یا ’’یقیناً ‘‘ فارسی میں ’’ہر آئینہ‘‘ اور انگریزی میں verily, certainly سے کیا جاتا ہے۔

        [الَّذین] پر الفاتحہ :۷ (۱:۶:۱)میں بات ہوچکی ہے یہاں اس کا ترجمہ ’’وہ لوگ جو کہ‘‘، ’’جنہوں نے کہ ‘‘ یا صرف ’’جو کہ‘‘ سے بھی ہوسکتا ہے۔

۱:۵:۲(۱)     [كَفَرُوْا] کا مادہ ’’ک ف ر‘‘ اور وزن ’’ فَعَلُوا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کَفَر… یَکفُر کُفْرًا (باب نصر سے) ہمیشہ متعدی آتا ہے صلہ کے بغیر بھی اور باء (بِ) کے صلہ کے ساتھ بھی۔

·       جب یہ فعل بغیر صلہ کے آئے تو اس کے بنیادی معنی ’’چھپا دینا‘‘ ہوتے ہیں۔ مثلاً کَفَر الشَیْئَ  = سَتَرہ و غَطَّاہُ=’’…کو چھپا دینا۔ ڈھانپ دینا‘‘ اور ان ہی معنی کی بنا پر لفظ ’’کافر‘‘ عربی زبان میں اندھیری رات، سمندر اور کسان وغیرہ کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

·       پھر اسی سے اس فعل میں "ناشکری کرنا" اور بے قدری کرنا"کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان معنی کے لیے یہ (فعل )صلہ کے ساتھ بھی اور صلہ کے بغیر بھی استعمال ہوتا ہے۔مثلا کفَر نِعْمَۃَ اللہِ یا کفَر بِنِعْمَۃَ اللہِ :اللہ کی نعمت کی ناشکری کرنا۔

·       پھر اس ’’ناشکری‘‘ سے ہی اس فعل میں ’’کسی چیز کو قبول کرنے یا ماننے سے انکار کرنا‘‘ کامفہوم پیدا ہوتا ہے۔ تاہم ان معنوں (انکار کرنا) کے لیے یہ فعل بالعموم صلہ (بِ)کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اور صلہ کے بعد مفعول مذکور ہوتا ہے یعنی کفَر بِ… =… کا انکار کرنا، …کو نہ ماننا۔ مثلاً کفَر بِاللّٰہ=اس نے اللہ کا انکار کیا۔ اردو میں اس کے لیے ’’… سے کفر کرنا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ان معنوں  (انکار کرنا، … نہ ماننا)کے لیے عموماً مفعول بنفسہٖ استعمال نہیں ہوتا۔ یعنی ’’ کَفَرَ اللّٰہ‘‘ نہیں کہتے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم میں تین جگہ (البقرۃ :۱۵۲، ھود:۶۸،۶۸) جہاں یہ فعل صلہ کے بغیر مفعول بنفسہٖ کے ساتھ آیا ہے۔ مثلاً ’’کَفَرُوا رَبَّھُمْ‘‘ تویہاں ’’نعمۃَ‘‘ کا لفظ محذوف مان لیاجاتا ہے۔ ’’یعنی کَفرُوا نعمَۃ رَبّھِم‘‘ مراد ہے۔ دعائے قنوت میں ’’وَلَا نَکفُرُکَ‘‘ بھی گویا دراصل ’’لا نَکفرُ۱ نِعْمَتَک‘‘ ہے اور معنی ہیں ’’ناشکری یا بے قدری کرنا‘‘

·       بنیادی طور پر یہ فعل (کَفَرَ یَکفُر) متعدی ہے۔ تاہم اکثر اس کا مفعول محذوف کردیا جاتاہے۔ (اور قرآن کریم میں یہ استعمال یعنی بغیر ذکر مفعول، بکثرت ہے۔ جس کی ایک مثال یہی زیر مطالعہ آیت ہے) اس صورت میں اس کا اردو ترجمہ’’کا فرہونا، منکر ہونا‘‘ سے بھی کرلیاجاتا ہے۔ حالانکہ یہ فعل لازم نہیں ہے۔ دراصل ایسے تمام مواقع (استعمال) پر توحید، رسالت یا آخرت یا تینوں ہی مفعول محذوف ہوتے ہیں۔ یعنی ’’ایمانیات‘‘ کا انکار کرنا۔ یا اسلام کے بنیا دی عقائد کا انکار مراد ہوتا ہے جس کی اصل ’’حقیقت پر پردہ ڈالنا‘‘ ہی ہے۔ اس طرح اصطلاحا ً’’کفر‘‘ (کافر ہونا) آمَن (ایمان لانا) کی ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مترجمین نے یہاں ’’كَفَرُوْا‘‘ کا ترجمہ ’’کافر ہوئے ، منکر ہوئے، کافر ہوچکے، کفر اختیار کیا‘‘ سے کیا ہے۔ بعض  نے ’’(قبول اسلام سے) انکار کیا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ البتہ جن حضرات نے ’’کافر ہیں‘‘ ترجمہ کیاہے۔ یہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ اس میں اصل جملہ فعلیہ کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ مفہوم اور مطلب کے لحاظ سے اگرچہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔

        اس فعل ثلاثی مجرد (کفر) کے تین مصدر استعمال ہوتے ہیں ’’کُفْرٌ‘‘=انکار کرنا ، کُفْرانٌ =ناشکری، بے قدری کرنا اور ’’کُفُورٌ‘‘ (مندرجہ بالا) دونوں معنی کے لئے۔ یہ تینوں مصادر قرآن کریم میں مستعمل ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مادہ (کفر) سے بکثرت افعال اور مشتقات قرآن کریم میں آئے ہیں۔ ان سب کا بیان اپنی اپنی جگہ پر آئے گا۔ ان شاء اللہ۔

۱:۵:۲(۲)     [سَوَاۗءٌ]  کا مادہ ’’ س و و‘‘ او ر وزن اصلی ’’فَعَالٌ‘‘ ہے اور شکل اصلی ’’سَوَاوٌ‘‘ مگر استعمالی وزن ’’فَعَائٌ ‘‘ رہ جاتا ہے۔ کیونکہ الف ممدودہ کے بعد (خصوصاً آخر (پر) آنے والی ’’ی‘‘ یا ’’و‘‘ کو عرب ہمزہ کی آواز میں بدل کر بولتے ہیں۔ اس مادہ ’’س وو‘‘ سے فعل ثلاثی مجرد یا مزید فیہ کے استعمال کی بات ہم آگے چل کر وہاں کریں گے جہاں اس ’’مادہ‘‘ سے پہلی دفعہ کوئی فعل ہمارے سامنے آئے گا۔ (اور یہ موقع البقرہ:۲۹ میں آجائے گا) ’’سَوَاۗءٌ ‘‘ دراصل فعل ثلاثی مجرد کا مصدر ہے (جن پر مفصل بات ابھی آگے آیت ۲۹ میں ہوگی) اس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’برابری‘‘ یا ’’برابر ہونا‘‘ پھر یہ مصدر اسم الفاعل کے معنوں میں (برابر ہونے والا) بطور صفت یا ظرف استعمال ہوتا ہے۔ اور اس طرح اس میں ’’برابر‘‘، ’’درمیان‘‘، ’’ٹھیک درمیان‘‘’’یکساں‘‘، ’’وسط‘‘ یا ’’مثل‘‘ یعنی ’’ٹھیک ایک جیسے‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’ثَوبٌ سَواءٌ‘‘ جس کا طول اور عرض برابر ہوں۔ یا ’’سَواءُ النَھارِ= دن کا ٹھیک درمیان یعنی دوپہر‘‘ سوائُ الجَبل =پہاڑ کی چوٹی جہاں سے دونوں طرف ڈھلان شروع ہوتی ہے۔ اس قسم کی قرآنی تراکیب میں اس لفظ (سواء) کے استعمال کی ہی مثالیں ’’سَواءُ السبیل‘‘، ’’سواءُ الجحیم ‘ ‘ اور’’سواءُ الصراط‘‘ ہیں۔ جن کی وضاحت اپنی اپنی جگہ ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       لفظ ’’سواء‘‘ مصدر ہونے کی بناء پر واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر مؤنث سب کے لیے یکساں رہتا ہے۔ مثلاً ھُمَا سواءٌ‘‘  اور ’’ھُمْ، یا ھُنَّ، سواءٌ‘‘کہتے ہیں۔ اگرچہ تثنیہ میں ’’سواء ان‘‘ (مذکر مونث سب کے لیے) اور جمع میں ’’اَسْواءٌ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں اور ’’سواءٌ‘‘ کی غیر قیاسی جمع ’’سواسٍ‘‘ اور ’’سواسیۃ‘‘ بھی استعمال ہوتی ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ’’سواء‘‘ کی جمع کہیں اور کسی طرح نہیں آئی۔ بلکہ جمع کے لیے بھی ’’سواءٌ‘‘ ہی استعمال ہوا ہے (مثلاً  آل عمران: ۱۱۳ یا النساء ۸۹ میں)

      [عَلَيْهِمْ]کے معنی و ترکیب (علی+ ھم) پر سورۃ الفاتحہ میں بات ہوچکی ہے(۱:۶:۱(۳))۔سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ‘‘ کا بالکل لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’برا بر ہے اوپر ان کے‘‘ پھر اسی کو بامحاورہ بنانے کے لیے اس کا ترجمہ ’’برابر ہے ان کے حق میں‘‘، ’’ان کو برابر ہے‘‘، ’’انہیں برابر ہے۔‘‘ ’’ان کے لیے برابر ہے‘‘، ’’یکساں ہے ان پر‘‘ ان کے حق میں یکساں ہے۔ ’’ان پریکساں ہے‘‘ سے کیا گیا ہے اور بعض نے ’’ علیھم‘‘  کا ترجمہ ہی نہیں کیا بلکہ سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ‘‘ کا ترجمہ صرف ’’برابر ہے‘‘ سے ہی کر دیا ہے۔ جسے محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے ہی درست قرار دیا جاسکتا ہے۔

۱:۵:۲(۳)     [ءَاَنْذَرْتَھُمْ]یہ دراصل تین کلمات ہیں ’’ئََنْذَرْتَ+ھُم‘‘ اس میں ’’ئَ ‘‘ یا ’’أَ‘‘ (جس کے رسم پر ابھی آگے بحث ہوگی) تو ہمزہ استفہامیہ ہے اور اس کے معنی ’’کیا؟‘‘ ہوتے ہیں۔ لیکن جب یہ دوچیزوں میں برابری بیان کرنے کے لیے لفظ ’’سواءٌ‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اسے اصلاح میں ’’ہمزۃ التسویہ‘‘ (برابر کرنے والاہمزہ) کہتے ہیں۔ یہ (ہمزۃ التسویہ) عموماً سوائٌ (برابر ہے)، لا اُبَالِی ْ(مجھے پروانہیں) لا اَدْرِی (میں نہیں جانتا) اور ’’لَیْتَ شَعْرِی‘‘ (کاش مجھے پتہ چلتا) کے بعد آتا ہے (قرآن کریم میں صرف ’’سواءٌ ‘‘ اور ’’أدْرِی‘‘ کے ساتھ استعمال ہوا ہے) اور عموماً اس کے بعد ایک جملہ آتا ہے جو (بلحاظ معنی) مصدر کا کام دیتا ہے۔ اس وقت اس (أ) کا اردو ترجمہ کیا؟ ’’کی بجائے ’’چاہے‘‘ یا ’’خواہ‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ اور اردو میں تو اسی ’’چاہے ‘‘ یا ’’خواہ‘‘ کی تکرار ہوتی ہے یا اس تکرار کی بجائے درمیان میں ایک ’’یا‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ مگر عربی میں دوسرے ’’چاہے‘‘ یا ’’خواہ‘‘ کے لیے ’’أَم‘‘ لے آتے ہیں۔ جیسا کہ اسی زیر مطالعہ آیت میں آرہا ہے۔

      [أنْذَرْتَ] کا مادہ ’’ن ذ ر‘‘ اور وزن ’’أفْعَلْتَ‘‘ ہے۔ اس مادہ (نذر) سے فعل ثلاثی مجرد نَذَرَ یَنذِرُ نَذْراً(باب ضرب اور نصر سے) استعمال ہوتاہے اور اس کے معنی ’’نذر ماننا‘‘ ہیں (عربی زبان کا لفظ ’’نذر‘‘ اپنے اصل عربی معنوں کے ساتھ ہی اردو میں متعارف بلکہ متد اول اور رائج ہے) اور اس فعل (ثلاثی مجرد) سے قرآن کریم میں فعل ماضی کے صرف تین صیغے (البقرۃ:۲۷۰، آل عمران :۳۵، اور مریم:۲۶)اور مصدر ’’نذر‘‘ دو جگہ (البقرہ:۲۷۰ اور الدھر۷) اور اس کی جمع ’’نُذُور‘‘ ایک جگہ (الحج:۲۹) آئے ہیں۔ ان کی وضاحت اپنی اپنی جگہ کی جائے گی۔ ان شاء اللہ

·       ’’ أنذَرتَ‘‘ اس مادہ (نذر) سے با بِ افعال کے فعل ماضی معروف کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ اور بابِ اِفعال (أَنذَرَ… یُنذِرُ اِنْذاراً) کے بنیادی معنی تو ہیں ’’…کو خبر دینا، …کو بتا دینا، …کو نصیحت کرنا‘‘ مگر یہ صرف خوفناک چیز یا برے نتائج کے بارے میں وقت سے پہلے ’’خبر دینا‘‘ یا ’’سمجھا دینا‘‘ کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا موزوں ترجمہ (وقت سے پہلے) ’’خبردار کرنا‘‘، ’’ہوشیار کرنا‘‘، ’’وارننگ دینا‘‘، ’’محتاط کرنا‘‘ اور ’’خوف دلانا‘‘ ہی ہوسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر مترجمین قرآن اس (فعل) کا ترجمہ ’’ڈرانا‘‘ کرتے ہیں۔ اگرچہ بعض نے اس (فعل) کے بنیادی معنی کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’نصیحت کرنا‘‘ سے بھی کیا ہے۔ مگر اس میں اس فعل کی اصلSense(خصوصیت) یعنی ’’خوف والے معنی‘‘ سامنے نہیں آتے۔ اس طرح’’ ءَاَنْذَرْتَ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوگا۔ ’’چاہے/خواہ تو نے ڈرایا،(خوف دلانے کے لیے)سمجھایا‘‘

·       اِنْذَار (جو باب افعال کا مصدر ہے) بنیادی طور پر متعدی ’’بمفعولین‘‘ یعنی دومفعول کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک مفعول تو وہ ہوتا ہے جس کو ڈرایا سمجھایا جائے۔ دوسرا مفعول وہ چیز جس سے ڈرایا جائے۔ یہ دونوں مفعول عموماً بنفسہٖ (بغیر صلہ کے) آتے ہیں۔ مثلاً ’’أنْذرتُہ الشییءَ‘‘ میں نے اس کو (اس) چیز سے ڈرایا۔ یا مثلاً قرآن کریم میں ہے ’’أنْذَرْتُکُم نارًا‘‘ =’’میں نے تم کو آگ سے ڈرایا ‘‘ کبھی کبھار دوسرے مفعول سے پہلے ’’با‘‘(بِ) کا صلہ بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’أَنْذرتہ باالْامر ‘‘ میں نے اسے معاملہ سے ڈرایا۔ تاہم قرآن کریم میں کہیں بھی دوسرے مفعول کے ساتھ یہ صلہ (بِ) استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ

(۱)عموماً دونوں مفعول (بنفسہ) مذکور ہوئے ہیں اور اس کی قرآن کریم میں نو(۹) مثالیں موجود ہیں (الانعام:۱۳۰،  ابراہیم:۴۴،  مریم:۳۹،  الزمر:۷۱،  المؤمن:۱۸،  فصلت:۱۳،  القمر:۱۳۶،  النباء:۴۰  اور  اللیل ۱۴)

 (۲)البتہ زیادہ تر دوسرا مفعول محذوف ہوتا ہے۔ (جو عموماً عذابِ آخرت یا سزائے اعمال وغیرہ ہوتا ہے اور خود بخود سمجھا جاتا ہے) اس (دوسرا مفعول محذوف ہونے) کی بھی کم از کم پچیس (۲۵) مثالیں قرآن میں موجود ہیں

(۳)اور بعض دفعہ پہلا مفعول محذوف کر دیا جاتا ہے۔ (یعنی کفار یا مخاطب وغیرہ) مگر دوسرا مفعول (جس سے ڈرانا مقصود ہوتا ہے)مذکور ہوتا ہے قرآن کریم میں اس کی کم از کم تین مثالیں موجو دہیں (الکھف:۲، غافر (المؤمن) :۱۵، اور الشورٰی:۷)

(۴)اور بعض جگہ دونوں ہی مفعول محذوف کر دیئے گئے ہیں مگر وہ سیاقِ کلام سے سمجھے جاسکتے ہیں مثلاً قُمْ فَاَنْذِرْ‘‘(المدثر:۲) ’’یعنی کھڑا ہوا ور ڈرا‘‘ یہاں کس کو ڈرا؟ کس سے ڈرا؟ مذکور نہیں ہے۔ اس کی ایک اور مثال (الاعراف:۲) میں ہے۔ یہ تمام امثلہ اور اس فعل (انذاز) سے کچھ مزید افعال اور مشتقات قرآنِ کریم میں بکثرت وارد ہوئے ہیں۔ ان سب کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ یہاں (آیت زیر مطالعہ میں)’’ ءَاَنْذَرْتَھُمْ‘‘ میں ضمیر مفعول ’’ھم‘‘ کے بعد دوسرا مفعول (یعنی کس سے ڈرا؟) محذوف (غیر مذکور) ہے۔

۱:۵:۲(۴)     [اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ]جو دراصل اَمْ+لَمْ تُنْذِرْ+ھُمْ ہے۔ اَمْ‘‘ تو یہاں ہمزۃ التسویہ کے ’’جواب‘‘ میں ہے ۔(ہمزۃ التسویہ پر ابھی اوپر ’’ئَ‘‘کے ضمن میں بات ہوئی ہے) اس کا اردو ترجمہ ’’چاہے‘‘، ’’خواہ‘‘ یا ’’یا‘‘ سے ہی ہوگا۔ یہ (اَمْ) عموماً ہمزۃ التسویہ کے بعد آتا ہے۔ اس لیے اسے ’’أم متصلہ‘‘ (ساتھ والا) اور ’’أم معادلہ‘‘ (برابری کے معنی دینے والا) بھی کہتے ہیں بعض دفعہ یہ (أم) ہمزۃ التسویہ کے بغیر مستقل جملہ کے شروع میں بھی آتا ہے۔ اس وقت اسے ’’أم منقطعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ بطور استفہام ’’کیا‘‘ یا ’’آیا‘‘  کی بجائے بلکہ سے کرسکتے ہیں۔ اس کی مثالیں بھی آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

        لَمْ تُنْذِرْ‘‘کا مادہ ’’ن ذ ر‘‘ہے اور وزن ’’لَمْ تُفْعِلْ‘‘ہے۔ یعنی یہ باب افعال سے فعل مضارع معروف منفی بِلَمْ کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ ’’اِنْذَار‘‘ (یعنی أنذَر یُنذِر) کے معنی پر ابھی اوپر ’’ءَاَنْذَرْتَ‘‘ کے ضمن میں بات ہوچکی ہے۔ اس صیغے (لم تنذر) کا لفظی ترجمہ تو ہوگا۔ ’’تو نے ڈرایا ہی نہیں‘‘ اور ’’ھم‘‘ ضمیر مفعول اول کے لیے ہے۔ اس طرح ’’ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہوا ’’چاہے؍خواہ؍یا تو نے ڈرایا ہی نہیں ان کو‘‘ یہاں دوسرا مفعول (یعنی کسی چیز سے نہ ڈرایا) محذوف یعنی غیر مذکور ہے، جو سیاقِ کلام سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی جو آیت کے شروع میں آنے والے ’’کفروا‘‘ کا مفعول ہے۔ وہی یہاں مراد لیا جاسکتاہےـــ

·       عربی زبان میں اس قسم کے ’’تسویہ‘‘ (چاہے… چاہے…) کے بیان کے لیے عموماً دونوں جگہ فعل ماضی استعمال ہوتا ہے۔ لفظاً ہو یا معنا ً۔ جیسا کہ آپ یہاں دیکھ رہے ہیں کہ  ءَاَنْذَرْتَ‘‘ بلحاظ لفظ بھی ماضی ہے جب کہ ’’لم تُنْذِرْ‘‘ بلحاظ معنی ماضی ہے۔ یوں اس حصہء آیت’’ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ہوگا: ’’خوا ہ ڈرایا تو نے ان کو / خوا ہ/ ڈرایا ہی نہیں تو نے ان کو  ‘‘ ـــ اردو محاورے میں ایسے موقع پر عموماً فعل مضارع استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے اردو مترجمین نے اس (حصہ آیت) کا ترجمہ ’’تو ان کو ڈراوے یا نہ  ڈراوے‘‘ پھر ’’ڈراوے‘‘ ذرا پرانی اردو ہے اس لیے بعد کے مترجمین نے ’’ڈرائے یا نہ ڈرائے‘‘ استعمال کیا ہے۔ بعض نے ضمیر فاعل واحد مخاطب کا ترجمہ ’’تو‘‘ کی بجائے ’’تم‘‘ اور بعض نے مزید احتراماً ’’آپ ‘‘ کیا ہے اور یوں ’’تم ڈراؤ یا نہ ڈراؤ‘‘ اور ’’آپ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، نصیحت کریں یا نہ کریں‘‘ سے ترجمہ کیا گیا ہے ’’اِنذار‘‘ کے ان معنوں پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے۔

۱:۵:۲(۵)     [لَا يُؤْمِنُوْنَ]کا مادہ ’’ام ن‘‘ اور وزن ’’لَایُفعِلون‘‘ہے۔ یعنی یہ اس مادہ (امن) سے باب افعال کا فعل مضارع معروف منفی صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ سیاقِ کلام (جس طرح بات چل رہی ہے) کی بنا پر یہاں فعل  مضارع کا ترجمہ فعل مستقبل کی صورت میں کرنا زیادہ موزوں ہے۔ یعنی ’’وہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘ بعض مترجمین نے ’’ایمان‘‘ کا ’’کفر‘‘ (بمعنی انکار کرنا۔ نہ ماننا) کی ضد ہونے کی بنا پر اس کا ترجمہ ’’نہیں مانیں گے‘‘ کیا ہے اور بعض نے اردو محاورے کے مطابق نفی کا زور ظاہر کرنے کے لیے اس کا ترجمہ ’’وہ ایمان لانے کے نہیں‘‘ کیا ہے۔ البتہ جن حضرات نے اس کا ترجمہ ’’وہ تو ایمان لانے والے نہیں‘‘ سے کیا ہے وہ محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہونے کے باوجود اصل عبارت (متن) سے دور جانے والی بات ہے۔ کیونکہ یہ ’لَا يُؤْمِنُوْنَ(جملہ فعلیہ) سے زیادہ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ‘‘ (جملہ اسمیہ) کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

 

۲:۵:۲     الاعراب

      اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ

        (اِنَّ) حرف مشبہ بالفعل ہے۔ یہاں (آیت زیر مطالعہ میں) اس کا اسم بھی اور خبر بھی جملے ہیں۔ اور ان کو محلاً ہی منصوب اور مرفوع قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس کی تفصیل یوں ہے کہ (الَّذِیْنَ) اسم موصول ہے۔ اور ’’ اِنَّ‘‘ کی وجہ سے منصوب ہے اگرچہ مبنی ہونے کی وجہ سے کوئی علامت ِ نصب ظاہر نہیں ہے۔ [کَفَرُوْا] یہ جملہ فعلیہ یعنی فعل مع فاعل ہے جس میں ضمیر فاعل ’’ھم‘‘ مستتر ہے۔ یہ جملہ فعلیہ ’’الذین‘‘ (موصول) کا صلہ ہے اور صلہ موصول مل کر (الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) ’’اِنَّ‘‘ کا اسم ہے یعنی محلاً منصوب ہے۔ ]سَوَاءٌ عَلَیْھِم[ کے اعراب (یا ترکیب) کی تین صورتیں ممکن ہیں۔

        (۱)اسے( ’’سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ‘‘کو) ’’ اِنَّ ‘‘ کی خبر بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور مابعد کی عبارت ’’ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ‘‘ کو مصدری معنی کے ساتھ اسی خبر (سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ) کا ایک حصہ سمجھ لیا جائے یعنی ’’برابر ہے ان پر تیرا  ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا‘‘ اور خود یہ عبارت [ءَاَنْذَرْتَھُمْ[ایک جملہ ہے جس میں ہمزۃ تسویہ کا ہے اور ’’انذرتَ‘‘ فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعل ’’أنتَ‘‘ مستتر ہے اور ’’ھم‘‘ ضمیر منصوب متصل مفعول بہ ہے۔ اسی طرح [اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ]بھی ایک جملہ ہے جس میں ’’ام‘‘ متصلہ جوابِ ہمزۃ التسویہ ہے۔ ’’ لَمْ تُنْذِرْ‘‘ فعل مضارع معروف منفی ’’بلَمْ‘‘ہے اور اس لیے مجزوم ہے۔ علامت جزم ’’رْ‘‘ کا سکون ہے اور آخری ’’ھم‘‘ ضمیر منصوب متصل اس فعل (لَمْ تُنْذِرْ) کا مفعول بہٖ ہے۔

        (۲)اور یہ بھی جائز ہے کہ اس پوری عبارت (ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ) کو مبتداء مؤخر اور سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ‘‘ کو اس کی خبر مقدم قرار دیا جائے۔ پھر اس سارے جملے (سوائٌ… تُنْذِرْھُمْ) مبتدأ و خبر کو اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا‘‘ کی خبر سمجھا جائے اس صورت میں ترجمہ کی صورت یوں ہوگی’’بے شک الذین کفروا (کافروں) کو ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ‘‘ (تیرا ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا۔ مصدری معنی) سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ‘‘ (برابر ہے ان پر) ان دونوں تراکیب (۱)(۲)کے لحاظ سے آخری حصہ آیت (لَا يُؤْمِنُوْنَ) کو جو مضارع معروف منفی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے اور جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے۔ اس (لَا يُؤْمِنُوْنَ) کو ’’اِنَّ‘‘ کی دوسری خبر سمجھا جائے گا۔ اور

        (۳) تیسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ’’لَا يُؤْمِنُوْنَ‘‘ کو تو اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا‘‘کی خبر قرار دیا جائے اور درمیانی عبارت ’’سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ‘کو جملہ معترضہ سمجھ لیا جائے۔ تینوں تراکیب کے لحاظ سے اردو ترجمہ میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا سوائے اس کے کہ لفظوں کی تاخیر یا تقدیم کردی جائے۔ مذکورہ بالا تین تراکیب کے لحاظ سے ترجمہ یوں ہوگا (اس میں اختصار کے لیے’’الَّذِيْنَ كَفَرُوْا‘‘ کا ترجمہ ’’کافروں‘‘ کر لیا گیا ہے۔ اور ’’ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ‘‘ کے مصدری معنی لیے گئے ہیں)

        (۱)بے شک’’کافروں‘‘ پر برابر ہے۔ ’’تیر اان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا ‘‘ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

        (۲)بے شک ’’کافروں‘‘ کو ’’تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا‘‘ برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

        (۳)بے شک کافر لوگ ـــچاہے تم ان کو ڈراؤ یا نہ ڈراؤ برابر ہے ایمان نہیں لائیں گے۔

        اکثر مترجمین نے تیسری صورت کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔

 

۳:۵:۲      الرسم

        ’’الَّذِيْنَ‘‘ کے رسم پر بات ہوچکی ہے۔ الفاتحہ(۳:۶:۱) [كَفَرُوْا] کی واو الجمع کے بعد ایک زائد الف ’’ا‘‘ لکھنا رسم عثمانی اور رسم املائی دونوں کی روسے لازمی ہے۔ [تاہم رسمِ عثمانی کے مطابق قرآن کریم میں چار افعال کے ساتھ واو الجمع کے باوجود یہ زائد الف نہیں لکھا جاتا۔ ان مقامات کا ذکر اپنی جگہ آئے گا]۔ اور یہ (زائد الف لکھنے کا) قاعدہ ہر واو الجمع کے بارے میں ہے جس کی تین چار صورتیں ہو سکتی ہیں۔ (۱)ماضی معروف یا مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب مثلاً قَتَلوا۔ قُتِلوا(۲)مضارع (معرف یا مجہول) مجزوم یا منصوب کا صیغہ جمع مذکر غائب یا حاضر مثلاً’’لم یَقْتُلو۔ یُقْتَلو ۔ لَن یَقْتُلو ۔ لَن یُقْتَلو ۔ وغیرہ‘‘ (۳)فعل امر یا نھی (معروف یا مجہول) کے یہی دو صیغے( جمع مذکر غائب و حاضر) مثلاً ’’لا تَکفُروا‘‘ وغیرہ میں۔

·       واو الجمع کے بعد اس ’’الف زائدہ‘‘ (جو پڑھا نہیں جاتا) کے لکھنے کی دو تین وجوہ بیان کی گئی ہیں مثلاً:

        (۱)یہ واو الجمع (جو فعل کے جمع کے بعض صیغوں کے آخر پر آتی ہے) اور واو العطف (بمعنی ’’اور‘‘والی) میں فرق کرنے اور التباس سے بچنے کے لیے لکھاجاتا ہے۔ مثلاً اگر صرف ’’کفرو‘‘ لکھا ہو تو بعض جگہ اسے ’’کَفَرَوَ…‘‘ پڑھنے کی غلطی ہو سکتی ہے۔

        (۲)ناقص واوی کے صیغہ مضارع معروف صیغہ واحد مذکر غائب (پہلا صیغہ) مثلاً یَدعو، یعفو، یمحو وغیرہ سے فرق کرنے کے لیے [اس قسم کے صیغوں کی ’’واو‘‘ کو ’’الواوالمتطرفۃ‘‘ یعنی ایک کنارے  پر آنے والی ’’واو‘‘ کہتے ہیں] تاہم یہ قاعدہ بھی رسمِ املائی کی حد تک ہی لازمی ہے۔ رسم قرآنی اس قاعدہ کاپابند نہیں ہے قرآن کریم میں بعض خاص مقامات پر اس قسم کے صیغوں کے ساتھ بھی ’’زائد الف‘‘ لکھا جاتا ہے یعنی ’’یدعوا، یمحوا‘‘ وغیرہ اور بعض ایسے کلمات کے آخر پر بھی ’’الف زائدہ ‘‘ لکھا جاتا ہے جہاں عام رسمِ املائی میں زائد الف لکھنا درست نہیں ہے۔ مثلاً ’’اولو‘‘ کو بھی ’’اولوا‘‘ لکھنا۔

        (۳)بعض صورتوں میں ’’جمع مذکر سالم مرفوع مضاف‘‘ اور صیغہ فعل میں فرق کرنے کے لیے ـــ مثلاً  ’’ قَاتِلُو المُشرِکین‘‘ (مشرکوں کے قاتل) میں لفظ مضاف (قاتلو) ’’قاتل کی جمع مذکر سالم ہے‘‘ جو دراصل ’’قَاتِلُون‘‘ تھا مگر مضاف ہونے کے باعث اس کا نونِ اعرابی گر گیا اور ’’قاتلو‘‘ ہو کر مضاف ہوا۔ مگر ’’ قَاتِلُوا المُشرِکین‘‘ (اس کے دو الف ’’اا‘‘ نوٹ کیجئے) میں ’’ قَاتِلُو ا‘‘ باب مفاعلہ (مُقَاتَلہ یا قتال) کا فعل ماضی صیغہ جمع مذکر غائب ’’ ’قَاتِلُو ا‘‘ یا فعل امر کا صیغہ جمع حاضر ’’ ’قَاتِلُو ا‘‘ ہو سکتا ہے۔ پہلی صورت میں ترجمہ ’’وہ مشرکوں سے لڑے‘‘ اور دوسری صورت میں ’’تم مشرکوں سے لڑو‘‘ہوگا۔ اس قسم کے لفظوں میں اس زائد الف کے ذریعے ہی یہ تمیز ممکن ہے۔

        ان توجیہات سے آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں اور عام عربی املاء میں بھی حروف زوائد (جو لکھے جاتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے) اور اس قسم کے اور بھی کئی قسم کے ’’زوائد‘‘ آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گے۔ یہ ’’زوائد‘‘ دراصل عربی دان اور صرف و نحو سے واقف آدمی کو غیر مشکول عبارت میں لفظ کی درست ’’شکل ‘‘ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔[1]

       (سَوَائٌ) اصل مصاحف عثمانیہ میں یہ لفظ ’’سوا‘‘ (بغیر آخری ہمزہ کے) لکھا گیا تھا۔ بلکہ ان مصاحف میں جہاں بھی ہمزہ متطرفہ (کسی کلمہ کے آخر پر آنے والا ہمزہ) اگر کسی حرف ساکن کے بعد آتا تھا، اسے لکھنے میں حذف کر دیا گیا تھا۔ ہمزۃ ابتدائیہ۔ وصل کا ہو یا قطع کا۔ ۔ہمیشہ بصورتِ الف اور ہمزہ متوسطہ (کلمہ کے درمیان میں آنے والا ہمزہ) حسب موقع ’’الف‘‘ یا ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ کی صورت میں لکھا گیا تھا۔ مثلاً ’’بأس‘‘کو ’’باس‘‘  ’’ بؤس‘‘ کو ’’بوس‘‘ (قرآن کریم میں لفظ ’’بؤس‘‘ کہیں نہیں آیا اس کی بجائے مثال ’’مؤ من‘‘ کو ’’مومن‘‘ لکھنے کی سمجھ لیجئے) اور ’’بِئس‘‘ کو ’’بس‘‘ لکھا گیاتھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض اہل زبان (مثلاً اہل حجاز) تو اس قسم کے ہمزہ کا تلفظ ہی نہیں کرتے تھے۔ اور جو قبائل اس قسم کے ہمزہ کا تلفظ کرتے تھے وہ اپنی زبان دانی کی بنا پرسمجھ جاتے تھے کہ یہاں ہمزہ ’’موجود‘‘ ہے۔ اس قسم کے ہمزہ کے تلفظ میں اختلاف کی بھی یہی وجہ ہے۔

·       بعد میں (قریباً پہلی صدی ہجری کے آخر پر) جب علاماتِ ضبط ایجاد ہوئیں تو ہمزہ کے لیے بھی علامت مقرر کی گئی ہے۔ شروع میں یہ علامت زرد، سرخ یا سبز رنگ کا گول نقطہ ہوتا تھا ـــ  اوربعض افریقی ملکوں میں اب تک اس کا رواج چلا آتا ہے ـــ  دوسری صدی ہجری کے اواخر میں الخلیل الفراھیدی نے حرف ’’عین‘‘ کے سرے (ء) کو ہمزہ (القطع) کی علامت مقرر کیا ہے۔[2]  اس وقت سے آج تک ہمزہ کی یہ صورت اکثر اسلامی ممالک میں رائج ہے۔ قرآن کریم کی کتابت میں بھی اور عام عربی املاء میں بھی۔بعض ممالک میں "ء"کی بجائے(# ( وغیرہ بھی مستعمل  ہیں۔

       [ءَاَنْذَرْتَھُم] یہ لفظ بھی مصاحف عثمانیہ میں ’’اَنْذَرْتَھُم‘‘ یعنی ابتدائی ھمزہء کے حذف کے ساتھ لکھا گیا تھا۔ کیونکہ یہ ہمزہ استفہام ہے اور عثمانی مصاحف میں یہ قاعدہ ملحوظ رکھا گیا تھا کہ جہاں بھی ہمزہ استفہام کے فورا بعد ہمزہ قطع یا ہمزۃ الوصل سے شروع ہونے والا (اسم یا فعل) آتا تو اس سے پہلے ہمزہ استفہام کتابت میں محذوف کردیا جاتا۔

·       بعد میں جب علامت ِ ہمزہ ایجاد ہوئی تو وہ اس محذوف ہمزہ کی جگہ لکھی جانے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ اس لفظ سے پہلے دونوں ہمزہ (ہمزہ استفہام اور ہمزہ قطع) بصورت الف نہیں لکھے جاتے یعنی اسے ‘‘أأنذرتھم‘‘ کی بجائے ’’ءَأَنْذَرْتَھُم ‘‘کی صورت میں لکھا جاتا ہے ۔ تاکہ معلوم رہے کہ رسمِ عثمانی میں ابتدائی ہمزہ (استفہام) نہیں لکھا گیا تھا ورنہ عام عربی املا میں اسے’’ أأنذرتھم‘‘  لکھنا بالکل درست ہے دوسرے لفظوں میں رسم عثمانی پر ایک الف ’’ا‘‘ کا اضافہ بھی جائز نہیں سمجھا گیا۔ بلکہ ایک نبرہ (دندانہ) کی کمی بیشی بھی جائز نہیں۔  جیسا کہ آگے اس کی مثالیں بھی ہمارے سامنے آئیں گی

[اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ] اور [لَا يُؤْمِنُوْنَ] کی املاء عام رسمِ معتاد کے مطابق ہی ہے۔

 

۴:۵:۲     الضبط

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ

آیت زیر مطالعہ میں اختلاف ضبط کی حسب ذیل صورتیں موجود ہیں:

        (۱)ہمزۃ الوصل کے علامت ڈالنا یانہ ڈالنا اور ڈالنے کی صورت میں اس علامت کی شکل(#) کا فرق۔  یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ یہ ’’علامت الوصل ‘‘ صرف عرب اور افریقی ملکوں کے مصاحف میں ڈالی جاتی ہے۔ مشرقی ممالک میں اس کا رواج نہیں ہے۔ بہر حال اس اختلاف کا اثر کلمہ ’’ الَّذِيْنَ ‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوتا ہے۔

        (۲)ہمزہ القطع میں علامت قطع کا ڈالنا یا نہ ڈالنا اور ڈالنے کی صورت میں اس کی صورت کا اختلاف کسی کلمہ کے ابتداء میں آنے ولے ہمزۃ القطع (جو ہمیشہ بصورت ’’الف‘‘ ہی لکھا جاتا ہے) پر مشرقی ممالک میں علامت ِ قطع نہیں ڈالی جاتی۔ درمیان میں یا آخر پر آنے والے ہمزۃ القطع کے لیے علامت ِ قطع تمام ملکوں میں ڈالی جاتی ہے البتہ اس کی شکل و صورت میں فرق(#) ہے ۔ اس اختلاف کا اثر کلمات ’’ اِنَّ، سَوَاۗءٌ ، ءَاَنْذَرْتَھُم اور اَمْ اور لَا يُؤْمِنُوْنَ‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

        (۳)واو ساکنہ ماقبل مضموم پر علامت سکون ڈالنے کا رواج صرف برصغیر میں ہے۔ اس کا نمونہ ’’کفروا‘‘ اور ’’لَا يُؤْمِنُوْنَ‘‘ کے ضبط میں سامنے آئے گا۔

        (۴)یائے ساکنہ ماقبل مکسور پر علامت سکون ڈالنے کا رواج بھی صرف بر صغیر میں ہے اور اس ماقبل پر علامت کسرہ (ــــــِــــ) کی بجائے علامت ِ اشباع۔ کھڑی زیر (ــــــٖــــ)  ڈالنے کا رواج صرف ترکی اور ایران میں ہے۔ اس کا نمونہ آپ ’’الَّذِيْنَ‘‘ کے ضبط میں دیکھیں گے۔

        (۵)الف (ساکنہ) کے ماقبل پر فتحہ (ــــــَــــ)کی بجائے علامت ِ اشباع کھڑی زبر (ــــــٰــــ) ڈالنے کا رواج صرف ایران میں ہے اس کا نمونہ یہاں ’’سوائٌ‘‘ اور ’’لا‘‘ کے ضبط میں دیکھیں گے۔

        (۶)واو الجمع کے بعد آنے والے الف زائدہ پر علامت ِ زیادۃ (تنسیخ) ڈالنے کا رواج صرف افریقی اور عرب ملکوں کے مصاحف میں ہے۔ یہ علامت عموماً چھوٹا سا لمبوترہ ’’دائرہ‘‘ہوتا ہے۔(0) اس فرق کو آپ ’’ كَفَرُوْا‘‘ کے ضبط میں دیکھیں گے۔

        (۷)نونِ مخفاۃ (ساکنہ) کو علامت ِ سکون سے معریٰ رکھنے کا رواج بھی صرف عرب اور افریقی ملکوں میں ہے۔ برصغیر، چین، ایران اور ترکی میں اس کا رواج نہیں البتہ بعض علاقوں ( مثلاًچین) میں اور بعض مصاحف (ایڈیشنوں) کے اندر نون ساکن کے اس اخفا کو بعض دیگر طریقوں سے ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً چین میں ایسے نون پر علامت ِ سکون کے ساتھ تین ہلکے نقطے ڈال دیتے ہیں۔ مصحف حلبی (مطبوعہ قاہرہ مصر) اور تجویدی قرآن (مطبوعہ پاکستان) میں نون ساکنہ مخفاۃ کے لیے ایک خاص علامت سکون(#)وضع کی گئی ہے۔ ضبط کے اس فرق کو آپ کلمات ’’ءَاَنْذَرْتَھُمْ‘‘ اور ’’ تُنْذِرْھُمْ‘‘ میں دیکھیں گے۔

        (۸)تنوین اظہار کے لیے الگ متراکب حرکات کا استعمال بھی صرف عرب اور افریقی ممالک میں ہوتا ہے یا پاکستانی تجویدی قرآن میں اسے اپنا یاگیا ہے ــــتمام مشرقی ممالک میں تنوینـــ اخفاء ہو یا اظہار ـــ کے لیے یکساں علامت ِ تنوین استعمال ہوتی ہے۔ اس اختلاف کا اثر کلمہ’’سواء‘‘ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

        (۹) نون متطرفہ (آخر پر آنے والے نون) پر علامت ِ اعجام (نقطہ) نہ ڈالنے کا رواج صرف افریقی مصاحف میں نظر آتا ہے۔ اس اختلاف کا اثر ’’الذین‘‘ اور’’ لَا يُؤْمِنُوْنَ‘‘ کے ضبط میں دیکھیں گے۔

        (۱۰) ’’راء‘‘ (ر)کی ترقیق یا تفخیم کا لحاظ رکھتے ہوئے ازروئے قواعد تجوید راء مفخمہ کے لیے (#) اور رائے مرققہ کے لیے (ر)کااستعمال صرف تجویدی قرآن (پاکستانی) میں کیا گیا ہے اس کا نمونہ آپ کو ’’كَفَرُوْا‘‘، ’ءَاَنْذَرْتَھُمْ‘‘ اور ’’ لَمْ تُنْذِرْھُمْ ‘‘ میں ملے گا۔

        اس طرح مجموعی طور پر آیت زیر مطالعہ کے کلمات میں اختلافِ ضبط کی حسب ِ ذیل صورتیں سامنے آتی ہےـــ ملاحظہ کیجئے کہ اصل رسمِ عثمانی تمام   کلمات کا یکساں ہی رہتا ہے۔

 

 



[1]  ’’شکل‘‘ کے معنی ہیں کسی لفظ کے ہر ہرحرف پر حرکت دینا۔ اور ایسے لفظ کو ’’مشکول‘‘ کہتے ہیں مثلاً ’’مُبَشِّرٌ‘‘ یا ’’مَدِیْنَۃ‘‘ وغیرہ۔

[2] جسے بعض اہل علم ’’عین تبراء‘‘ (دُم کٹی عین) بھی کہتے ہیں اور بعض متأخرین علماء نے اس کے لیے ’’مَحبُودہ‘‘ (گھنڈی) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ (مثلاً صاحب المرجان)