سورۃ البقرہ  آیت ۶۰

۳۸:۲       وَاِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ    ۭ  فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا    ۭ  قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ   ۭ   كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ(۶۰)

۱:۳۸:۲        اللغۃ

[وَاِذْ] اوپر والی آیات میں کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ یہاں  ’’اِذ ‘‘ کو آگے ملانے کے لیے ’’ذ‘‘ کو کسرہ (ــــــِــــ) دی گئی ہے۔

۱:۳۸:۲ (۱) [اِسْتَسْقٰى] جس کی ابتدائی ہمزۃ الوصل ’’اذ‘‘ کے ساتھ ملا کر پڑھنے کی وجہ سے تلفظ سے گر جاتا ہے  اگرچہ لکھا رہتا ہے۔

·       اس کا مادہ ’’س ق ی‘‘ اور وزن ’’استَفْعَلَ‘‘ ہے اصلی شکل ’’استسقیَ‘‘ بنتی تھی مگر اہل زبان ’’یائے متحرکہ ماقبل مفتوح کو الف میں بدل کر بولتے ہیں‘‘ اگرچہ یہ الف مقصورہ (بصورت یاء) لکھا جاتا ہے۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’سقَی . . .  یَسْقِی (دراصل سقَیَ یَسقِیُ) سَقْیًا ‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں:’’. . . .کو پانی پلانا، سیراب کرنا‘‘  مثلاً کہتے ہیں ’’سقی الحرثَ‘‘ (اس نے کھیتی کو پانی دیا)۔ ’’. . . .  کے لیے پینے کا پانی مہیا کرنا‘‘ مثلاً’’سقَی الرجلَ‘‘ (اس نے آدمی کو پانی دیا)۔  یہ فعل ’’کپڑے کو رنگ میں ڈبونا‘‘ (سقی الثوبَ) ’’کسی کو عیب لگانا ‘‘ (سقی الرجلَ) ’’مرض استسقاء کی وجہ سے کسی کے پیٹ میں پانی بھر جانا‘‘ (سقی بطنُہ) وغیرہ دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں (جہاں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے دس کے قریب مقامات پر آئے ہیں) یہ فعل صرف پہلے معنی (پلانا) کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ کسی دوسرے معنی میں یہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       یہ فعل متعدی ہے اور اس کے دو مفعول آتے ہیں ’’جس کو پلایا جائے‘‘ اور ’’جو چیز پلائی جائے‘‘ دونوں مفعول بنفسہ (براہِ راست منصوب ہوکر) آتے ہیں جیسے’’ وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا  ‘‘ (الدہر:۲۱) یعنی اور ان کے ربّ نے ان کو ایک پاکیزہ مشروب پلایا۔ البتہ بعض دفعہ دونوں مفعول بھی محذوف کردیے جاتے ہیں جو سیاق عبارت سے سمجھے جا سکتے ہیں۔  قرآن کریم میں تین جگہ (یوسف:۴۱، محمد:۱۵ اور الدہر:۲۱) یہ فعل دونوں مفعول کے ساتھ آیا ہے۔ دو جگہ (البقرہ:۷۱ اور الشعراء:۷۹) یہ صرف ایک مفعول (جس کو پلایا جائے) کے ساتھ آیا ہے۔ اور چار جگہ (القصص:۲۳۔۲۵) کسی بھی مفعول کے ذکر کے بغیر استعمال ہوا ہے فعل مجرد کے علاوہ قرآن کریم میں اس مادہ (سقی) سے مزید فیہ کے ابواب افعال اور استفعال سے بھی اَفعال کے مختلف صیغے ۱۳ جگہ اور مصادر اور بعض ماخوذ جامد اسماء بھی تین جگہ آئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’اِستَسْقٰی‘‘ اس مادہ (سقی) سے باب استفعال کا فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’استَسقَی ،یستَسقِی، استِسقائً‘‘ کے بنیادی معنی ہیں۔ ’’پینے کے لیے پانی مانگنا‘‘ کہتے ہیں ’’استسقَی فلانٌ من فلانٍ‘‘ (فلاں نے فلاں سے پینے کے لیے پانی )وغیرہ) مانگا۔ نماز استسقاء یا دعائے استسقاء کا لفظ یہیں سے لیا گیا ہے (یعنی بارش کے لیے دعا مانگنا)۔ اس باب سے قرآن کریم میں فعل کا یہی ایک صیغہ (استسقیٰ) صرف دو جگہ (یہاں اور الاعراف:۱۶۰ میں) وارد ہوا ہے۔ اکثر مترجمین نے تو اس کا لفظی ترجمہ ’’پانی مانگا‘‘ ہی کیا ہے۔ بعض نے اس لیے کہ ’’مانگا‘‘ تو اللہ سے ہی تھا۔ اس کا بامحاورہ بلکہ بلحاظ سیاق ترجمہ ’’پانی کی دعا مانگی، درخواست کی‘‘ سے کیا ہے۔

[مُوْسیٰ] یعنی موسیٰ علیہ السلام نے  (پانی کی درخواست کی) لفظ ’’موسیٰ‘‘ جو ایک جلیل القدر پیغمبر کا نام ہے، کی لغوی بحث البقرہ:ـــ  ۵۱ [۱:۳۳:۲(۲)] میں گزر چکی ہے۔

[لِقَوْمِہٖ] جو ’’لِ‘‘ (کے لیے) + ’’قوم‘‘ (لوگ) + ’’ہ‘‘ (اس کے) کا مرکب ہے یعنی ’’اپنی قوم کے لیے، کے واسطے‘‘ لام الجر (لِ) کے معانی اور استعمال پر الفاتحہ:۲[۱:۲:۱(۴)] میں اور لفظ ’’قوم‘‘ کے بارے میں لغوی بحث البقرہ:۵۴ [۱:۳۴:۲(۱)]میں کی جاچکی ہے۔

 [فَقُلْنَا] ’’فَ‘‘ (پس، چنانچہ) اور’’قُلنا‘‘ (ہم نے کہا)۔ لفظ ’’قُلنَا‘‘ کے مادہ، وزن، باب اور اس کی تعلیل وغیرہ پر البقرہ: ــــ ۳۵ [۱:۲۵:۲ (۲)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

[۱:۳۸:۲(۲)]     [اِضْرِب] کا مادہ ’’ض ر ب‘‘ اور وزن ’’اِفْعِلْ‘‘ ہے۔ پڑھتے وقت سابقہ فعل ’’قلنا‘‘ کا آخری الف اور ’’اِضرب‘‘ کا ابتدائی ہمزۃ الوصل لکھے تو رہتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے۔ بلکہ ’’قلنا‘‘ کا نون ’’اضرب، ض‘‘ سے ملا کر پڑھا جاتا ہے۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’ضرَب. . . . یضرِب ضَرْبًا‘‘ (جو باب کا نام بھی ہے) اپنے باب کے علاوہ کبھی باب سمع اورکرُم سے بھی مختلف معنی کے لیے آتا ہے)  مگر قرآن کریم میں نہیں) اس فعل کے بنیادی معنی (’’. . . .کو مارنا‘‘( پر البقرہ:ـــــ ۲۶ [۱:۱۹:۲ (۲)]میں مختصراً بات ہوئی تھی۔ تاہم یہ ایک کثیر المعانی اور مختلف صلات کے ساتھ مختلف معانی کے لیے استعمال ہونے والا فعل ہے۔ معاجم (ڈکشنریوں) میں آپ کو اس کے تیس سے زائد معانی اور طرقِ استعمال مل سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی ان میں سے آٹھ نو (۸،۹) استعمال ہو ئے ہیں۔ مثلاً ۱؎’’ضربَ مَثَلًا‘‘ (مثال بیان کرنا)۲؎ ضربَ فی الارضِ (تجارت یا جنگ وغیرہ کے لیے سفر کرنا) ۳؎’’ضربَ علی أُذنُہ‘‘ (سننے سے روک دینا) ۳؎’’ضرب وجھَہ‘‘ (چہرے پر مارنا)۵؎ ’’ضربَتْ بِخمارھا علی جیبھا‘‘ (دوپٹہ سے سینہ ڈھانپ لینا)۶؎  ’’ضرب عنہ‘‘ (اعراض کرنا) ۷؎’’ضربَ (۱) بِ (۲)’’ ــ (۱) پر (۲) مارنا ‘‘ یعنی نمبر ۲ کو نمبر ۱ پر/ سے مارنا)۸؎ ’’ضرب لہ‘‘ (اس کے لیے بنانا یا نکالنا)۹؎ ضرب علی . . . . (. . . .پر تھوپ دینا۔ مسلط کرنا) ان قرآنی استعمالات کے علاوہ یہ فعل ’’خیمہ لگانا، سکہ بنانا، مہر لگانا اور ضرب دینا‘‘ وغیرہ کے معانی کے لیے بھی آتا ہے تاہم ان معانی کے لیے یہ قرآن میں استعمال نہیں ہوا۔

قرآنی استعمالات میں سے ایک یہ (زیر مطالعہ) استعمال ہے یعنی ’’ضرب الشیٔ بالشیِٔ‘‘ (چیز کو چیز سے مارنا) مثلاً کہتے ہیں ’’ضرب الکلب بالحجر‘‘ (اس نے کتے کو پتھر سے مارا یا کتے کو پتھر مارا) اگلے لفظ میں یہی  ’’بِ‘‘ آرہی ہے۔

۱:۳۸:۲ (۳)     [بِعَصَاکَ] یہ ’’بِ‘‘ (کے ساتھ، کے ذریعے) + ’’عصا‘‘ (لاٹھی) + ’’ک‘‘ (تیری) کا مرکب ہے یعنی ’’اپنی لاٹھی کے ساتھ ’’باء (’’ب‘‘) کے معانی و استعمالات کے لیے دیکھئے بحث استعاذہ نیز البقرہ:۴۵ [۱:۳۰:۲(۱)]

لفظ ’’عصا‘‘ کا مادہ ’’ع ص و‘‘ اور وزن ’’فَعَلٌ‘‘ ہے۔ گویا اس کی اصلی شکل ’’عَصَوٌ‘‘ تھی جس میں ’’ وَ ‘‘ متحرکہ ماقبل مفتوح کی وجہ سے الف میں بدل جاتی ہے اور التقاء ساکنین (الف اور نون) کی بناء پر تنوین ’’ص‘‘ پر آجاتی ہے یعنی عَصَوٌ= عَصَوُنْ = عَصَانْ = عَصَنْ = عَصًا۔یہ لفظ معرف باللام یا مضاف ہوتے وقت ’’العصَا‘‘ یا ’’ عصا  ‘‘ رہ جاتا ہے اور ’’ ھُدًی ‘‘ وغیرہ کی طرح اس میں رفع نصب جر کی کوئی علامت ظاہرنہیں ہوتی البتہ اسے ’’ عصًا ‘‘ کی بجائے ’’ عَصًی ‘‘ نہیں لکھتے تاکہ معلوم رہے کہ یہ واوی اللام ہے یعنی لام کلمہ ’’ و ‘‘ ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’عصا. . . . یعصُو عَصْوًا (باب نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’. . . . کو کسی بات پر اکٹھا اور جمع کردینا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً ’’عصا القومَ‘‘ (اس نے لوگوں کو اکٹھا کردیا) اور اسی فعل کے معنی ’’. . . .کو عصا سے مارنا‘‘ بھی ہوتے ہیں کہتے ہیں ’’عصَا الرجلَ‘‘ (اس نے آدمی کو عصا مارا)۔ اور ’’عَصِیَ یعصَی عصًا‘‘ (باب سمع سے) بمعنی ’’عصا سے کھیلنا‘‘ بھی آتا ہے۔ مزید فیہ کے بعض ابواب (فعال و مفاعلۃ وغیرہ) سے بھی اس کے فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن مجید میں اس مادہ سے کسی قسم کے کسی فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ صرف یہی لفظ (عصا) بصورت واحد و جمع اور زیادہ تر مضاف ہوکر قرآن کریم میں کل بارہ جگہ استعمال ہوا ہے۔

·       لفظ ’’عصا‘‘ جس کی لغوی اصل اوپر بیان ہوئی ہے عربی میں مونث بولا جاتا ہے۔ جیسے ’’ قَالَ هِىَ عَصَايَ ‘‘ (طہ:۱۸) ’’یعنی عرض کیا  یہ میری لاٹھی ہے‘‘ اردو میں لفظ ’’عصا‘‘ بھی مستعمل ہے مثلاً ’’عصائے موسٰیؑ‘‘ کی ترکیب میں۔ اس کا ترجمہ ’’ڈنڈا‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے مگر عربی میں اس کی تانیث کی بناء پر اس کا موزوں اردو ترجمہ ’’لاٹھی‘‘ ہی ہے۔ کہتے ہیں عربی میں ’’عصا‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ بھی ہے کہ اس پر ہاتھ اور انگلیاں اکٹھی ہوجاتی ہیں۔ (دیکھئے اوپر اس کے مادہ سے فعل مجردکے پہلے معنی) بیشتر اردو مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’عصا‘‘ ہی سے کیا ہے یعنی ’’بعصاک‘‘ کا ترجمہ ’’اپنے عصا سے، اپنے عصا کو، اپنا عصا‘‘ ہی کیا ہے بعض نے ’’اپنی لاٹھی‘‘ بھی کیا ہے۔

·       عربی میں اس لفظ کا تثنیہ (بحالت رفع) ’’عصوانِ‘‘ ہوتا ہے یعنی ’’اَبٌ‘‘ اور ’’اخٌ‘‘ کی طرح اس کی ’’واؤ ‘‘لوٹ آتی ہے۔ اور اس کی ایک جمع مکسر (جو قرآن کریم میں بھی آئی ہے) ’’عِصِیٌّ‘‘ ہے۔

عربی زبان میں اس لفظ (عصا) کے کچھ محاوراتی استعمالات بھی ہیں مثلاً  ’’عبید العصا‘‘ (ڈنڈے کے مرید) ’’صُلْب العصا‘‘ (سخت گیر) اور ’’لِیّن العصا‘‘ (نرم مزاج حاکم) اور ’’شَقَّ العصا‘‘ کے معنی ہیں ’’وہ جماعت کے مخالف چلا‘‘ وغیرہ۔ تاہم قرآن کریم میں اس کا کوئی محاوراتی استعمال بھی نہیں آیا۔

۱:۳۸:۲ (۴)     [الْحَجَرَ] کا مادہ ’’ح ج ر‘‘ اور وزن لام تعریف نکال کر ’’فَعَلٌ‘‘ ہے (یہاں یہ لفظ معرف باللام اور منصوب آیا ہے) اس مادہ سے فعل مجرد ’’حجَر. . . . یحجُر حَجْرًا حِجْرًا حُجْرًا) (مثلث الحاء) باب نصر سے آتا ہے اور اس کے معنی اور طریقِ استعمال پر البقرہ: ـــــ ۲۴ [۱:۱۷:۲(۱۳)]میں بات ہوچکی ہے۔ اور یہ بھی کہ قرآن میں اس سے کوئی فعل کہیں نہیں آیا۔

·       ’’ حَجَرُ ‘‘ عربی میں پتھر کو کہتے ہیں۔ بعض دفعہ اس سے مراد ’’چٹان‘‘ بھی لی جاتی ہے یعنی بڑا پتھر یا سخت پتھر۔ اور اس لفظ میں بھی روکنے والا مفہوم موجود ہے (حَجر = یحجرُ =روک دینا) کیونکہ پتھر اپنی سختی کے باعث توڑنے یا چڑھنے یا اکھیڑنے یا اکھڑنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ حَجَرٌ کی جمع مکسر برائے قلت (دس سے کم کے لیے) ’’احجار‘‘ اور برائے کثرت ’’حِجارۃٌ‘‘ آتی ہے۔ اور قرآن میں حرف موخر الذکر جمع ہی استعمال ہوئی ہے قرآن کریم میں لفظ ’’حجر‘‘(واحد) صرف دو جگہ اور ’’حجارۃ‘‘ (جمع) بصورت معرفہ نکرہ دس دفعہ آیا ہے۔

۱:۳۸:۲ (۵)      [فانْفَجَرَتْ مِنْہُ] اس میں ابتدائی ’’فاء‘‘ (فَ) تو عاطفہ (بمعنی پس، چنانچہ، تو پھر) ہے اور آخری ’’مِنْہُ‘‘ مرکب جارّی (بمعنی اس (پتھر یا چٹان) میں سے)ہے۔ اور کلمہ ’’انفجرت‘‘ کا مادہ ’’ف ج ر‘‘ اور وزن ’’اِنْفَعَلَتْ‘‘ ہے (جس کاابتدائی ہمزۃ الوصل ’’فا‘‘ کی وجہ سے پڑھنے میں نہیں آتا)

اس مادہ سے فعل مجرد ’’فَجَرَ. . . .   یَفْجُر فَجْرًا‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے متعدد معنی ہوتے ہیں مثلاً (۱). . . . .کو پھاڑنا،. . . . کو پھاڑکر نکالنا۔ مثلاً  کہتے ہیں ’’فَجر المائَ‘‘ (پانی کے لیے راستہ پھاڑ کر اس (پانی) کو نکالا) یا کہتے ہیں ’’فجَر القناۃَ‘‘ (اس نے نہر کھود نکالی)  (۲) اور اسی باب سے مگر مصدر ’’فُجُورًا‘‘ کے ساتھ اس فعل کے معنی ’’گناہ کی زندگی میں جا  گھسنا‘‘ ہوتے ہیں جس سے لفظ ’’فاجِرٌ‘‘ (اسم الفاعل) نکلا ہے کہتے ہیں ’’فجرَ الرجلُ فجورًا‘‘ (آدمی فاجر ہوگیا۔ گناہ کی زندگی اختیار کرلی) (۳) یہ فعل ’’جھوٹ بولنا جھٹلانا، نافرمانی کرنا اور حق سے منہ موڑنا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

تاہم قرآنِ حکیم میں صرف پہلے دو معنی (پھاڑنا۔ پھاڑ کر نکالنا اور بُرے کام کرنا) کے لیے اس فعل مجرد سے ایک ایک صیغہ (ہر معنی کے لیے) استعمال ہوا (الاسراء:۹۱) (بمعنی پھاڑنا) اور القیامۃ:۵ (بمعنی برے کام کرنا)۔  ثلاثی مجرد کے علاوہ اس مادہ (فجر) سے مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل، تفعل اور انفعال) سے بھی مختلف صیغے (فعل کے) قرآنِ کریم میں آٹھ جگہ آئے ہیں۔ اور اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق بعض اسماء اور مصادر وغیرہ بھی ۱۴ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ (انفجرت) اس مادہ سے باب انفعال کا فعل ماضی واحد مونث غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’انفجر ینفجر انفجارًا‘‘ کے معنی ہیں۔ ’’پھٹ جانا، پھوٹ نکلنا، بہ نکلنا‘‘ اس باب سے قرآن کریم میں صرف یہی ایک صیغۂ فعل اسی جگہ آیا ہے۔ جس کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’ پھوٹ نکلی‘‘۔ مگر اس فاعل (جو آگے آرہا ہے) کی مناسبت سے اس کا بامحاورہ اُردو ترجمہ ’’پھٹ نکلے، بہ نکلے اور پھوٹ نکلے‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔

۱:۳۸:۲ (۶)     [اثْنَتَا عَشْرَةَ] یہ اسم یعنی گنتی کے لیے استعمال ہونے والالفظ ہے جو ’’اِثْنَتَا‘‘ اور ’’عشرۃَ‘‘ سے مرکب ہے۔ عربی زبان میں ۱۱ سے ۱۹  تک کے عدد مرکب ہوتی ہیں یعنی دو لفظوں سے مل کر بنے ہوتے ہیں جس کا پہلا حصہ ۱ سے ۹ تک کے اعداد کو ظاہر کرتا ہے اور دوسرا حصہ ’’دس‘‘ کے لیے ہوتا ہے مگر ان دونوں کے درمیان حرف عطف (و) نہیں آتا۔ بلکہ دونوں حصے مل کر بلحاظِ اعراب بھی ایک لفظ شمار ہوتا ہے (جس طرح انگریزی میں گیارہ سے انیس تک کے ہر عدد کا اپنا نام ہوتا ہے) اور گیارہ بارہ کے سوا باقی (۱۳ ۔ ۱۹) تمام اعداد کے دونوں حصے فتحہ (ــــــَــــ) پر مبنی ہوتے ہیں یعنی تمام اعرابی حالتوں میں وہ فتحہ (ــــــَــــ) پر ختم ہوتے ہیں۔ اور صرف ’’بارہ‘‘ کے لیے عدد کا صرف پہلا حصہ مُعرب ہوتا ہے۔ پھر عربی میں مذکر مونث کے لیے بھی الگ الگ عدد استعمال ہوتے ہیں اور معدود (جسے عربی گرامر میں ’’تمیز‘‘ کہتے ہیں) کے بھی مقرر قاعدے ہیں۔ ان تمام قواعد کا بیان تو یہاں بخوفِ طوالت ممکن نہیں ہے اگر یہ قواعد آپ کے ذہن میں مستحضر (یاد) نہ ہوں تو نحو کی کسی کتاب میں دیکھ لیجئے (مفروضہ یہ ہے کہ آپ انہیں کم از کم ایک دفعہ پڑھ چکے ہیں) ویسے آپ کے حوالے کی آسانی کے لیے ہم یہاں ان مرکب اعداد کی مذکر مونث معدود (تمیز) کے لیے ایک فہرست لکھ دیتے ہیں۔ جو یوں ہے۔

مذکر معدود کے لیے اعداد

احدَ عشَرَ (۱۱) اِثْنا عَشَرَ (۱۲) ثلَا ثَۃَ عَشَرَ (۱۳) اَرْبَعَۃَ عَشَرَ (۱۴) خَمْسَۃَ عَشَرَ (۱۵) سِتَّۃَ عَشَرَ (۱۶) سَبْعَۃَ عَشَرَ (۱۷) ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ (۱۸) تِسعَۃَ عَشَرَ (۱۹

 مونث معدود کے لیے اعداد

اِحدٰی عَشْرَۃَ (۱۱) اِثْنَا عَشْرَۃَ (۱۲) ثلَاثَ عَشْرَۃَ (۱۳) اَرْبَعَ عَشْرَۃَ (۱۴) خَمْسَ عَشْرَۃَ (۱۵) سِتَّ عَشْرَۃَ (۱۶) سَبْعَ عَشْرَۃَ (۱۷) ثَمَانِیَ عَشْرَۃَ (۱۸) تِسْعَ عَشرَۃَ (۱۹)

·       امید ہے آپ نے مرکب اعداد کی مندرجہ بالا فہر ست میں نوٹ کیا ہوگا کہ:۔

(۱)   ۱۳ سے  ۱۹ تک کے (اعداد کے) دونوں حصے مبنی بر فتحہ (ــــــَــــ) ہیں ۔

(۲)   مذکر کے لیے عدد کا دوسرا (دس والا) حصہ ’’عَشَرَ‘‘ (تینوں حرفوں کی فتحہ) اور مونث کے لیے ’’عَشْرَۃَ‘‘ ( ’’ش‘‘ کے سکون کے ساتھ) رہتا ہے۔

(۳) صرف ۱۱ اور ۱۲ کے لیے عدد کا پہلا حصہ مذکر کے لیے مذکر (احَدَ اور اِثْنَا) اور مونث کے لیے مونث (اِحْدٰی اور اِثْنَتا) آتا ہے۔

(۴)  مگر ۱۳ سے ۱۹ تک عدد کا پہلا حصہ مذکر (معدود) کے لیے مؤنث اور مؤنث (معدود) کے لیے مذکر آتا ہے۔ (ثلاثۃ اور ثلاث وغیرہ)

·       اب ہم زیر مطالعہ لفظ ’’اِثْنَتَا عَشَرَۃَ‘‘ کے دونوں حصوں یعنی ’’اثنتا‘‘ اور ’’عَشْرَۃَ‘‘ پر الگ الگ بات کرتے ہیں:۔

·       ’’اِثْنَتَا‘‘ دراصل ’’اِثنتانِ‘‘ ہے۔ (جس کا نون گرگیا ہے)۔ یہ مونث کے لیے ’’دو‘‘ کا عدد ہے۔ اس کا مذکر (یعنی دو مذکر کے لیے) ’’اثنان‘‘ ہے۔ مرکب عدد میں اس کا نون گر جاتا ہے۔ آپ نے اوپر دی گئی فہرست میں دیکھا ہے کہ بارہ مونث (چیزوں) کے لیے عدد ’’اثنتا عَشْرَۃَ‘‘ اور مذکر بارہ کے لیے ’’اثنا عَشَرَ‘‘ آیا ہے۔ اس عدد ( ’’اثنان یا اثنتانِ‘‘ ) جو مرکب عدد برائے بارہ میں بغیر نون کے آتا ہے۔  کا مادہ ’’ث ن ی‘‘ ہے اور اس کا موجودہ وزن ’’اِفعانِ‘‘ اور ’’اِفْعَتَانِ‘‘ ہے ( جس میں لام کلمہ (ی) گرگیا ہے) اس مادہ سے فعل مجرد ’’ثنَی. . . . . یَثَنِیْ ثَنْیًا‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’. . . . . کو دوہرا کرنا‘‘ پھر یہ’’موڑنا‘‘ (مثلاً باگ، گردن، چہرہ وغیرہ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف ایک صیغہ ایک جگہ (ھود:۵) آیا ہے۔ اور ان ہی معنوں سے اسم الفاعل کا ایک صیغہ بھی ایک جگہ (الحج:۹) آیا ہے۔ اس مادہ (ثنی) کے باب استفعال سے فعل کا ایک صیغہ بھی ایک ہی جگہ (ن:۱۸) آیا ہے۔ ان کے علاوہ اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق بعض الفاظ بھی ۲۶ جگہ آئے ہیں۔ ان الفاظ میں سے مذکر کے لیے دو کا عدد ’’اثنان اور اثنین‘‘ (بصورت نصب یا جر) مختلف تراکیب کے ساتھ ۱۴ جگہ اور مونث کے لیے دو کا عدد ’’اثنتان‘‘ یا ’’اثنتین‘‘ مختلف تراکیب کے ساتھ ۶ جگہ آیا ہے۔

·       ’’اثنانِ‘‘ اور ’’اثنتانِ‘‘ کی اصل ’’ثِنْیٌ‘‘ ہے جو دراصل تو مصدر (بمعنی دوہرا کرنا) ہے پھر یہ ’’دو کرنے والا یا دو کیا ہوا‘‘ کے معنی میں (مصدر اسم الفاعل  اور اسم المفعول دونوں کے معنی دے سکتا ہے) بصورت تثنیہ استعمال ہوا تومذکر کے لیے ’’ثِنْیَانِ‘‘ اور مونث کے لیے ’’ثِنْیَتَان‘‘ بنا۔ اب ان دونوں میں متحرک حرف علت (ی) کی حرکت (ــــــَــــ) ماقبل ساکن حرف صحیح (ن) کو دی گئی اور خود اس ’’ی‘‘ کو ماقبل کی موافق حرکت (ــــــَــــ)میں بدلاتو وہ بھی الف بن گئی یعنی ’’ثِنَاانِ‘‘ اور ’’ثِناتانِ‘‘ بن گئے۔ اب مذکر (ثنا ان) میں تو دو ساکن الف جمع ہونے کی وجہ سے ایک الف گرا کر ’’ثِنانِ‘‘ اور مؤنث کو اس کے مطابق کرنے کے لیے ’’ثِنْتان‘‘ بنا لیا گیا اور اس بات کی علامت کے لیے کہ ان میں لام کلمہ (ی) گرایا ہے۔ ان کے شروع میں ایک ہمزۃ الوصل بڑھا دیا جاتا ہے (دیکھئے اس سے ملتی جلتی بحث لفظ ’’اسم‘‘ کے بارے میں تسمیہ [۱:۱:۱ (۱)]اور یوں یہ لفظ ’’اِثنانِ‘‘ (مذکر) اور ’’اثنتان‘‘ (مونث) کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اور تعلیل کے اس گورکھ دھندے کی بجائے یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرب ان لفظوں کو یوں بولتے ہیں۔ بلکہ مونث والے لفظ کے بعض عرب ’’ثِنْتَانِ‘‘ (ہمزۃ الوصل کے بغیر) بھی بولتے ہیں۔

·       اب یہ ’’اِثنانِ‘‘  اور ’’اِثنتانِ‘‘ جب مرکب عدد میں آتے ہیں تو ان کا ’’نون‘‘ گرادیا جاتا ہے (جیسے کسی تثنیہ کو مضاف کرتے وقت اس کا ’’ن‘‘ گرتا ہے) یعنی بصورت مذکر عدد ’’اثنا عَشَرَ‘‘ اور بصورت مونث عدد ’’اثنتا عَشَرَۃَ‘‘ بنتا ہے۔ اور یہ ’’نون‘‘ صرف (۱۲) بارہ کی صورت میں گرتا ہے ۲۲، ۳۲، ۴۲ وغیرہ کی صورت میں ’’اثنان‘‘ یا ’’اثنتان‘‘(مذکر یا مؤنث حسب موقع) لگا کر اس کے بعد حرف عطف (وَ) لگتا ہے اور اس کے بعد متعلقہ دہائی مذکور ہوتی ہے جیسے ’’اثنان و عشرونَ‘‘ (۲۲ مذکر کے لیے) اور ’’اثنتانِ و عشرون‘‘ (۲۲ مونث کے لیے)۔ [انگریزی میں اس کے برعکس دہائی پہلے اور دو وغیرہ کے لیے عدد بعدمیں آتا ہے اور درمیان میں and نہیں لگتا جیسے  twenty two میں] اور چونکہ یہ دونوں عدد (اِثنانِ اور اثنتان) معرب ہیں۔ لہٰذا نصب اور جر میں یہ  ’’اثنَیْنِ‘ اور ’’اثنَتَیْنِ‘‘  ہوجاتے ہیں (اور یہ دونوں صورتیں قرآن کریم میں کئی جگہ استعمال ہوئی ہیں) اور مرکب عدد ’’اِثنا عَشرَ‘‘ یا ’’اثنتا عَشَرَۃَ‘‘ میں بصورت نصب یا جرّ عدد کا دوسرا حصہ ’’عشَرَ‘‘ یا ’’عَشَرَۃ‘‘ تو مبنی (بر فتحہ) ہی رہتا ہے مگر پہلا حصّہ بدل کر ’’اِثْنَی‘‘ یا ’’ اثَنْتَیْ‘‘  ہو جاتا ہے جیسے  ’’ اِثْنَی عَشَرَہ ‘‘اور ’’اثَنْتَیْ عَشْرَۃَ‘‘میں ہے اور یہ دونوں تراکیب بھی قرآن کریم میں آئی ہیں۔[مثلا المائدہ: ۱۲ اور الاعراف: ۱۶۰ میں]

·       ان دو اعداد کے دوسرے حصے (’’عَشَرَ‘‘ یا ’’عَشْرَۃَ‘‘) کا مادہ ’’ع ش ر‘‘ اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ ’’فَعْلَۃَ‘‘ (مبنی برفتحہ) ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد عشَر یعشِر عشرًا (باب ضرب سے) متعدد معنی کے لیے آتا ہے مثلاً ’’دس میں سے ایک (چیز) لے لینا، نو میں ایک کا اضافہ کرکے پورے دس کر دینا، کسی جماعت کا دسواں ساتھی ہونا‘‘ وغیرہ۔ تاہم اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں کسی طرح کا کوئی صیغہ فعل کہیں نہیں آیا۔ مزید فیہ کے باب مفاعلہ سے صرف ایک صیغۂ فعل ایک ہی جگہ (النساء:۱۹) آیا ہے۔ البتہ گنتی کے اعداد یعنی دس اور اس سے ماخوذ اعداد کے علاوہ بعض دیگر ماخوذ و مشتق اسماء (مثلاً عِشیرْۃ مِعْشار، العِشار وغیرہ) نو دس جگہ آئے ہیں۔ ان سب کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       خیال رہے کہ مذکر کے لیے دس کا عدد ’’عَشَرَۃٌ‘‘ (’’ش‘‘ کی فتحہ کے ساتھ) اور مونث کے لیے ’’عَشْرٌ‘‘ (’’ش‘‘ کے سکون کے ساتھ) ہے مثلاً کہیں گے ’’عَشَرَۃُ رجالٍ‘‘ (دس مرد) ’’عَشْرُ نِسائٍ‘‘ (دس عورتیں)۔ (تین سے دس تک گنتی میں عدد اور معدود کی تذکیر و تانیث ایک دوسرے کے برعکس ہوتی ہے اور عدد مضاف اور معدود مضاف الیہ ہو کر آتا ہے) مگر جب یہ عدد (عَشَرۃٌ اور عَشْرٌ)مرکب اعداد میں (۱۱ سے ۱۹ تک میں) آتے ہیں تو مذکر معدود کے لیے عدد میں ’’عَشَرَ‘‘ (’’ش‘‘ کی فتحہ کے ساتھ) اور مؤنث معدود کے لیے ’’عَشْرَۃٌ‘‘ (ش کے سکون کے ساتھ) ہوجاتا ہے۔ (جیسا کہ آپ ان اعداد مرکبہ کی اوپر دی گئی فہرست میں دیکھ سکتے ہیں) اور ان الفاظ (اعداد) میں ’’ش‘‘ کی حرکت (فتحہ) یا سکون کا خیال رکھنا فصیح زبان اور قرآن کا استعمال جاننے کے لیے ضروری ہے۔  ورنہ موجودہ عرب عام بول چال میں اس کی پروا نہیں کرتے۔

بارہ (مؤنث چیزوں) کے لیے عدد کی یہ زیر مطالعہ ترکیب (اثنتا عَشْرَۃَ) قرآن کریم میں تین جگہ آئی ہے۔ دو جگہ (البقرہ: ۶۰ اور الاعراف:۱۶۰) بحالت رفع (اثنَتا عشرَۃَ)  اور صرف ایک جگہ (وہ بھی الاعراف:۱۶۰میں) بحالت نصب (اثنتَی عَشْرَۃ) آیا ہے۔

۱:۳۸:۲ (۷)     [عَیْنًا] کا مادہ ’’ع ی ن‘‘ اور وزن ’’فَعْلًا‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد  ’’عان یَعِیْن عَیْنًا‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور بطور فعل لازم و متعدی متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱) کنوان کھودتے ہوئے پانی تک پہنچ جانا (۲) پانی یا آنسو/ بہنا (۳) کنوئیں کا پانی زیادہ ہونا۔ اور بطور متعدی بھی اس کے کئی معنی ہیں مثلاً ’’کسی کی جاسوسی کرنا‘‘ ہیں کہتے ہیں ’’عان علیھم‘‘ (اس نے ان کی جاسوسی کی)۔ (۲) کسی کو نظر بد سے متاثر کرنا۔ مثلاً کہتے ہیں ’’عان فلانًا‘‘ (اس نے فلاں کو نظر بد لگائی) اور ’’عَیِنَ یَعْیَنُ عَیَنًا‘‘ (باب سمع سے) کے معنی ’’موٹی اور خوبصورت آنکھ والا ہونا‘‘ ہوتے ہیں۔ ایسے مرد کو ’’اَعْیَنُ‘‘ اور عورت کو ’’عَیْنائُ‘‘ کہتے ہیں اور دونوں کے لیے جمع مکسر ’’عِیْن‘‘ ہوتی ہے (یہ جمع قرآن کریم میں چار پانچ جگہ آئی ہے) تاہم اس مادہ (ع ی ن) سے کسی قسم کے فعل۔ مجرد یا مزید فیہ۔ سے کوئی صیغہ قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ البتہ لفظ ’’عَیْن‘‘ واحد تثنیہ جمع معرفہ نکرہ اور مفرد مرکب صورتوں میں (اور مختلف معانی کے لیے) ۵۷ جگہ آیا ہے۔ اور اس مادہ سے مشتق و ماخوذ بعض اسماء بھی ۸ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ اب سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       لفظ ’’عَیْن‘‘ بھی ایک کثیر المعانی لفظ ہے (۱) اس کے مشہور معنی ’’آنکھ‘‘ ہیں۔ اس کی جمع ’’اَعْیُن‘‘ آتی ہے۔ اور یہ دونوں لفظ (واحد اور جمع) قرآن کریم میں ایک سے زیادہ جگہ آئے ہیں (۲) اور پانی کے (بہنے والے) چشمہ کو بھی ’’عَیْن‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی جمع ’’عُیُون‘‘ ہوتی ہے (اور یہ دونوں واحد جمع بھی قرآن کریم  میں آئے ہیں) (۳) بڑے سردار یا سر کردہ آدمی کو بھی ’’عَیْن‘‘ کہتے ہیں اور اس کی جمع ’’اَعْیان‘‘ ہوتی ہے (یہ دونوں لفظ ان معنی میں قرآن کریم میں نہیں آئے) مندرجہ بالا معانی کے علاوہ یہ لفظ (عَیْن) ’’امیر لشکر ،خاموش، سامنے موجود چیز اور عمدہ چیز‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے ۔ تاہم ان میں سے کسی معنی کے لیے بھی یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔

·       ’’عَیْن‘‘ تاکید کے الفاظ میں سے (ایک) بھی ہے مثلاً کہتے ہیں ’’جاء زیدٌ عینُہ‘‘ یعنی نَفسہُ‘‘ ’’زید خود ہی آیا‘‘ یہ استعمال بھی قرآن میں نہیں آیا۔ اس کے علاوہ اس لفظ کے کچھ محاوراتی استعمالات بھی ہیں مثلاً ’’علی الراسِ والعینِ‘‘ (بسرو چشم یاسر آنکھوں پر) ’’رأی العینِ‘‘ (اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا) وغیرہ۔ یہ موخر الذکر ترکیب(رأی العین) قرآن کریم میں بھی آئی ہے۔ باقی تراکیب نہیں آئیں۔

·       زیر مطالعہ آیت میں لفظ ’’عین‘‘ بمعنی ’’چشمہ‘‘ آیا ہے اور پوری ترکیب ’’ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ‘‘ کا ترجمہ ہے ’’بارہ چشمے‘‘ اس ترکیب پر مزید بات آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں ہوگی۔

۱:۳۸:۲ (۸)     [قَدْ عَلِمَ] اس کے دوسرے جزء (عَلِم) کے مادہ (ع ل م) اور اس کے فعل مجرد (علم یعلم= جان لینا وغیرہ) کے باب اور معنی و استعمال وغیرہ پر الفاتحہ: ـــــ ۲ [۱:۲:۱ (۴)] کے علاوہ البقرہ:۱۳  [۱:۱۰:۲ (۳)] میں بات ہوچکی ہے۔

·       لفظ ’’قَدْ‘‘ کے الگ کوئی معنی نہیں بلکہ استعمال کے لحاظ سے اس کے معنی متعین ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کسی فعل سے پہلے آتا ہے اور اس صیغۂ فعل کے معنی متعین کرتا ہے۔ ویسے اس سے فعل کی شکل پر کوئی اثر نہیں پڑتا یعنی یہ کوئی عامل نہیں ہے اور یہ فعل ماضی اور مضارع دونوں پر آتا ہے۔

·       ’’قد‘‘ بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے اور بطور حرف بھی۔ تاہم قرآن کریم میں یہ بطور اسم کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ عام عربی میں یہ بطور اسم بہت قلیل الاستعمال ہے۔ ڈکشنریوں یا نحو کی کتابوں میں ہر جگہ عموماً اس  کی ایک ہی مثال (بطور اسم الفعل بمعنی ’’یَکْفِی‘‘ استعمال ہونے کی) بیان کی جاتی ہے۔ مثلاً ’’قَدْزیدًا ادِرھمٌ ای یَکْفِیْ زیدًا درھمٌ) زید کے لیے ایک ہی درہم کافی ہے) یا ’’قَدنی دِرْھمٌ‘‘ یعنی ’’یکفینی درھم‘‘ ۔

·       بطور حرف (غیر عامل) ’’قَد‘‘  ہمیشہ فعل ماضی یا مضارع سے پہلے آتا ہے تاہم یہ (۱) کسی منفی فعل سے پہلے نہیں آتا مثلاً ’’قدما ضرب‘‘یا ’’قَدلا یضرِبُ‘‘ کہنا غلط ہے(۲) اسی طرح یہ کسی منصوب یا مجزوم مضارع سے پہلے بھی نہیں لگتا یعنی ’’قد  لَمْ یضرِب‘‘ یا ’’قد لن یضرب‘‘ کہنا بھی غلط ہے اور (۳) یہ کسی ایسے مضارع پر بھی نہیں آتا جس کے پہلے حرف تنفیس (’’س‘‘ یا ’’سَوْف‘‘  لگا ہو اس لیے ’’قد سیعلمون‘‘ کہنا بھی بالکل غلط ہے۔ یعنی یہ (قَدْ) صرف ایسے فعل ماضی یا مضارع پر (شروع میں) ٓاتا ہے جو (۱) مثبت ہو (۲) منصوب یا مجزوم نہ ہو اور (۳) اس پر ’’سَ‘‘ یا ’’سَوْف‘‘ نہ لگا ہو اسی طرح یہ فعل امر یا نہی سے پہلے بھی نہیں لگتا  (حرف ماضی یا مضارع پر لگتا ہے)

·       یہ تو اس ( قَدْ ) کے طریقِ استعمال کی بات تھی۔ بلحاظ معنی یہ متعدد مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

(۱) سب سے مشہور اور عام استعمال اس کا ’’حرف تحقیق‘‘ کے طور پر ہے یعنی یہ فعل میں ’’تاکید اور فی الواقع ہونے‘‘ کا مفہوم پیدا کرتا ہے۔ جیسے ’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ‘‘ (المومنون:۱) یعنی ’’ضرور ہی (فی الحقیقت) کامیاب ہوگئے اہل ایمان ‘‘اس مقصد کے لیے عموماً تو یہ فعل ماضی پر ہی آتا ہے اور کبھی کبھار مضارع پر بھی لگتا ہے جیسے  ’’ قَدْ يَعْلَمُ مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ  ‘‘ (النور:۶۴) ’’وہ ضرور جانتا ہے جس (حال) پر تم ہو‘‘ اس صورت میں ’’قد‘‘ کا ترجمہ ضرور ہی، بے شک، فی الحقیقت‘‘ وغیرہ سے کیا جاسکتا ہے۔

(۲) کبھی یہ (قد) ’’توقع‘‘ کے لیے آتا ہے یعنی جس کام کی توقع تھی یا جس کے ہونے کا انتظار تھا۔ اس کے ہونے کی اطلاع کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے  ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ (نماز کے لیے جماعت کھڑی ہوگئی ہے) یعنی ’’یہ غیر متوقع نہ تھا کہ‘‘ کامفہوم رکھتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی ’’تحقیق ‘‘ہی کے معنی میں ہے۔

(۳) کبھی یہ فعل مضارع پر لگنے سے اس میں ’’تقلیل‘‘ کے معنی پیدا کرتا ہے یعنی ’’بہت کم ایسا بھی ہوتا ہے کہ‘‘ یا ’’ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ‘‘ کا مفہوم رکھتا ہے جیسے کہیں ’’قد یصدُق الکذُوبُ‘‘ (بڑا جھوٹا آدمی کبھی کبھا رسچ بول لیتا ہے)۔ قرآن کریم میں اس استعمال کی کوئی مثال نہیں ہے۔

(۴) اور کبھی اس کے برعکس مضارع پر لگنے سے ’’تکثیر‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے یعنی ’’ایسا باربار (اکثر) ہوتا ہے کہ ‘‘ کا مفہوم رکھتا ہے۔ جیسے ’’ قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ‘‘ (البقرہ:۱۴۴) ’’یعنی ہم بار بار یا اکثر دیکھتے ہیں تیرا اپنا چہرہ آسمان میں (کی طرف) گھمانا (کو)‘‘ ’’تقلیل‘‘ اور ’’تکثیر‘‘ کے (بظاہر متضاد) معنی کو سمجھنا اور ان میں فرق کرنا سیاق و سباقِ عبارت اور ذوق زبان کے ذریعے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

(۵) کبھی یہ (قد) فعل ماضی پر داخل ہوکر (شروع میں آکر) اسے زمانۂ حال سے قریب کردیتا ہے یعنی اسے ماضئ قریب میں بدل دیتا ہے جیسے ’’ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا ‘‘ (المائدہ:۱۵) یعنی’’تمہارے پاس آیا ہے یا آچکا ہے ہمارا رسول‘‘

(۶) کوئی فعل ماضی والا جملہ اگر عبارت میں ’’حال‘‘ واقع ہورہا ہو تو اس سے پہلے بھی ’’قَدْ‘‘ داخل ہوتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ ظاہراً  ’’قد‘‘ نہ بھی لگا ہو تو بھی اسے مقدر سمجھا جاتا ہے جیسے ’’ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا ‘‘ (البقرہ:۲۴۶) یعنی ’’حالانکہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے‘‘ یہاں ’’قد‘‘ موجود ہے مگر ’’ هٰذِهٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَيْنَا  ‘‘ (یوسف:۶۵) میں ’’قد‘‘ مقدر ہے یعنی ’’قدرُدَّتْ‘‘ کا مفہوم ہے یعنی ’’یہ ہماری پونجی ہے جو اسی حالت میں لوٹادی گئی ہے ہماری طرف‘‘۔ اس ’’قَدْ‘‘ کا ترجمہ ’’حالانکہ ‘‘سے ہوسکتا ہے۔

(۷) جب کسی قَسَم کا جواب فعل ماضی میں آئے تو اس فعل ماضی پر بھی ’’قد‘‘ بلکہ ’’لَقَدْ‘‘ (لام تاکید اور قد تحقیق اکٹھا) داخل ہوتا ہے جیسے ’’ تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا ‘‘ (یوسف:۹۱) یعنی ’’بخدا اللہ نے تجھ کو ترجیح دی ہم پر‘‘ بلکہ جہاں بھی ماضی پر ’’لقد‘‘ آئے تو اگرچہ بظاہر کوئی قسم پہلے بیان نہ بھی ہوئی ہوتو بھی اس ’’لقد‘‘ کی لام کو جواب قسم والی ’’لام‘‘ ہی سمجھا جاتا ہے یعنی اس (لقد) میں ’’بخدا حقیقت یہ ہے کہ‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے۔

·       یہ حرف صرف ’’قَد‘‘ کے علاوہ  ’’وَقَدْ، فَقَدْ اور لَقَدْ‘‘ کی صورت میں بھی استعمال ہوتا ہے۔  ’’وَقَدْ‘‘ عموماً حالیہ جملے سے پہلے آتا ہے (جس کی مثال اوپر گزری ہے) ’’فَقَدْ‘‘ عموماً کسی امر متوقع کے لیے آتا ہے۔ جیسے ’’ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ  ‘‘ (المائدہ:۱۹) یعنی ’’توقع کے مطابق آیا ہے تمہارے پاس ایک خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا ‘‘۔ ’’لَقَدْ‘‘ عموماً جواب قَسَم میں (یا اسی مفہوم میں) آتا ہے اس کی مثال بھی اوپر گزری ہے۔

اس طرح ’’قَدْ  عِلْمَ‘‘ کا ترجمہ حرف تحقیق کے اعتبار سے ’’تحقیق‘‘ ’’جانا، پہچان لیا‘‘ اور ’’معلوم کرلیا‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ یعنی ضرور ’’جان لیا‘‘۔

۱:۳۸:۲ (۹)     [کُلُّ اُنَاسٍ] لفظ ’’کُلّ‘‘ (بمعنی ’’سب‘‘) کے معنی اور استعمال کے بارے میں البقرہ: ـــــ ۲۰ [۱:۱۵:۲ (۱۰)]میں بات ہوئی تھی اور ’’اناس‘‘ کے مادہ وغیرہ پر البقرہ: ــــ ۸ [۱:۷:۲ (۳)]میں لفظ ’’الناس‘‘ کے ضمن میں مفصل بحث گزر چکی ہے۔

·       ’’اناس‘‘ لفظ ’’اِنسٌ‘‘ کی جمع ہے اور ’’کُلّ‘‘ کا مضاف الیہ واحدہ نکرہ ہو تو اس کے معنی ’’ہر ایک. . . .‘‘ ہوتے ہیں۔ اور اگر ’’کل‘‘ کا مضاف الیہ معرفہ ہو تو اس کے معنی ’’. . . . کا سب کچھ ‘‘ ہوتے ہیں مثلاً ’’کل کتابٍ‘‘ کامطلب ہے ’’ہر ایک کتاب یا سب کتابیں‘‘ اورکل الکتاب کے معنی ہیں ’’ساری کی ساری کتاب‘‘ یعنی ’’پوری کتاب‘‘ یہاں زیر مطالعہ عبارت میں بظاہر اضافت کی پہلی (نکرہ والی) صورت ہے اس لیے اکثر مترجمین نے  ’’اناس‘‘ کا ترجمہ اسم جمع کی طرح کر لیا ہے۔ یعنی ’’ہر قوم نے، ہرگروہ نے ،سب لوگوں نے، تمام لوگوں نے‘‘ کی صورت میں۔ اگرچہ بعض حضرات نے بتقاضائے ترکیب نحوی اسے واحد کے معنی میں لے کر اس کا ترجمہ ’’ہر شخص، ہر آدمی، ہر ایک خاندان‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو ’’اناس‘‘ کے جمع والے مفہوم سے ہٹ کر ہے ویسے ’’خاندان‘‘ بھی ایک طرح سے اسم جمع ہی ہے۔ مگر یہ ’’اناس‘‘ کی بجائے ’’اُسرۃ‘‘ یا ’’عائلۃ‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔

۱:۳۸:۲ (۱۰)     [مَشْرَبَھُمْ] میں لفظ ’’مَشرَب‘‘ ضمیر مجرور ’’ھُمْ‘‘ (ان کا) کی طرف مضاف ہو کر آیا ہے۔ اور لفظ ’’مشرب‘‘ (جو عبارت میں منصوب ہے) کا مادہ ’’ش ر ب‘‘ اور وزن ’’مَفْعَلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’شرب. . . .  یَشرَبُ شُرْبًا و مَشْرَبًا (باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے مشہور (بلکہ بنیادی) معنی (’’پانی یا کسی مائع). . . . کو پینا، پی جانا، پی لینا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً ’’شرِبَ المائَ‘‘ (اس نے پانی پیا) یعنی اس کا مفعول عموماً بنفسہ آتا ہے۔ البتہ کبھی یہ فعل ’’مِنْ‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے یعنی ’’. . . . میں سے پینا‘‘ جیسے ’’ فَشَرِبُوْا مِنْهُ ‘‘ (البقرہ:۲۴۹) یعنی ’’انہوں نے اس میں سے پیا‘‘۔ غور سے دیکھا جائے تو یہاں اصل مفعول بنفسہ محذوف ہے (مثلاً ’’الماء‘‘ وغیرہ) اور کبھی ’’من‘‘ کی بجائے ’’بِ‘‘ کے ساتھ اسی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’ يَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰه ‘‘(الدہر:۶) یعنی ’’اللہ کے بندے اس میں پئیں گے‘‘ ویسے اس کا مفعول زیادہ تر محذوف (غیر مذکور) ہی آیا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغہ ہائے فعل ۱۵ جگہ آئے ہیں اور مزید فیہ کے صرف بابِ افعال سے ایک ہی صیغۂ فعل ایک ہی جگہ (البقرہ: ۹۳) اس کے علاوہ اس مادہ (شرب) سے ماخوذ اور مشتق اسماء اور مصادر وغیرہ قرآن کریم میں ۲۳ جگہ آئے ہیں۔ جن کا بیان حسب موقع آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ (مَشرَب) اس مادہ سے اسم ظرف بھی ہے (بمعنی پینے کی جگہ یا وقت) اور مصدر میمی (بمعنی ’’پینا‘‘) بھی۔ تاہم یہاں یہ لفظ بطور ظرف ہی استعمال ہوا ہے۔ اس لیے اکثر اردو مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’اپنا گھاٹ‘‘ اور ’’اپنے پانی پینے کا موقع‘‘ سے کیا ہے۔ اور چونکہ ہر ایک قبیلے کے پانی پینے کی جگہ الگ الگ تھی اس لیے بعض مترجمین نے یہ مفہوم ظاہر کرنے کے لیے ’’اپنا اپناگھاٹ‘‘ (’’اپنا‘‘ کی تکرار کے ساتھ) ترجمہ کیا ہے۔ ویسے لفظ ’’کل‘‘ بھی اس ترجمہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

[کُلُوْا وَاشْرَبُوْا] یہ فعل امر کے دو صیغے ہیں۔

’’کُلُوا‘‘ کا مادہ ’’أ ک ل‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلُوا‘‘ ہے یہ اس مادہ سے فعل مجرد (اکَل یاکُل= کھانا) سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس فعل کے باب، معنی اور استعمال اور اس صیغہ (کُلُوا)کی اصلی شکل اور اس کی تعلیل وغیرہ کے لیے البقرہ:۳۵ [۱:۲۶:۲ (۴)]اور البقرہ: ــــــ ۵۷ [۱:۳۶:۲(۴)]دیکھئے۔

’’اِشْرَبُوْا‘‘ (جس میں واو عاطفہ کی وجہ سے ہمزۃ الوصل تلفظ سے گر جاتا ہے (اگرچہ لکھا رہتا ہے) کا مادہ ’’ش ر ب‘‘ اور وزن ’’اِفعَلُوا‘‘ ہے۔ یعنی یہ بھی فعل امر ہی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’یشرِب یشرَب‘‘ کے معنی وغیرہ ابھی اوپر [۱:۳۸:۲ (۱۰)]بیان ہوئے ہیں۔

اس طرح ’’کُلُواوَاشْرَبُوا‘‘ کا ترجمہ ہے ’’تم کھاؤ اور پیو‘‘۔

[مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ] یہ ’’مِنْ‘‘ (میں سے) + ’’رِزْق‘‘ (روزی) + اللہ سے مرکب ہے۔ ’’من‘‘ کے معانی و استعمال پر البقرہ: ــــ ۳ [۱:۲:۲ (۵)] میں اور اسم جلالت (اللہ) سے متعلق لغوی بحث الفاتحہ:۱ [۱:۱:۱ (۲)]میں ہوچکی ہے۔

لفظ ’’رزق‘‘ فعل ’’رزَق. . . .یرزُق رزقًا‘‘سے (جس کے معنی وغیرہ البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۶)]میں بیان ہوچکے ہیں) کا مصدر ہے بمعنی ’’روزی دینا‘‘ مگر یہاں یہ مصدر اسم مفعول کے معنی میں ہے (مصدر کا اسم الفاعل یا اسم المفعول کے طور پر استعمال ہونا قرآن کریم میں بھی عام ہے) اس طرح اس کے معنی بنتے ہیں ’’جو چیز بطور روزی دی گئی۔‘‘

·       خیال رہے کہ لفظ ’’رزق‘‘ کبھی فاعل (رزق دینے والے) کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ جیسے ’’ وَرِزْقُ رَبِّكَ ‘‘ (طہ:۱۳۱) یعنی ’’تیرے رب کی دی ہوئی روزی‘‘ (اور زیر مطالعہ ترکیب ’’رزق اللّٰہ‘‘ بھی اسی کی مثال ہے) اور کبھی یہ لفظ (رزق) فعل کے دوسرے مفعول (جس کو رزق دیا گیا) کی طرف مضاف ہوتا ہے جیسے ’’ رِزْقُكُمْ ‘‘(الذاریات:۲۲) یا ’’ رِزْقُهُنَّ ‘‘ (البقرہ:۲۳۳) یا ’’ رِزْقُهَا ‘‘ (النحل:۱۲۲) میں یہ لفظ اپنے مفعول (ثانی) کی طرف مضاف ہوکر آیا ہے یعنی ان مثالوں میں علی الترتیب ’’تم کو‘‘ یا ’’ان عورتوں کو‘‘ یا  ’’اس (مؤنث) کو دی گئی روزی کا ذکر ہے۔

·       اور یہاں بھی ’’رزق اللّٰہ‘‘ سے مراد ’’اللہ کا دیا ہوا رزق ‘‘ہے۔ اور اسی لیے بعض مترجمین نے ’’من رزق اللّٰہ‘‘ کا ترجمہ ’’اللہ کی دی ہوئی روزی سے، اللہ کی عطا کی ہوئی روزی سے‘‘ اور ’’اللہ کے دیئے ہوئے . . . رزق میں سے‘‘ کیا ہے۔ اگرچہ بیشر نے صرف ’’اللہ کی روزی سے‘‘ یا ’’اللہ کے رزق سے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ بہت سے مترجمین نے یہاں شاید اردو محاورے کی رعایت سے ’’مِنْ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کیا ہے یعنی (کھاؤ پیو) ’’خدا کادیا‘‘ اور ’’اللہ کی روزی‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ چونکہ یہاں ’’من‘‘ ’’تبعیض‘‘ کے لیے ہے اس لیے ترجمہ میں اسے نظر انداز کرنا ترجمے کی غلطی ہی کہا جاسکتا ہے۔

۱:۳۸:۲(۱۱)     [وَلَا تَعْثَوْا] کی ابتدائی ’’و‘‘ تو عاطفہ (بمعنی اور) ہے۔ اور ’’لَاتَعْثَوْا‘‘ کا مادہ ’’ع ث و‘‘ (اور بقول بعض ’’ع ث ی‘‘) ہے۔ اور وزن اصلی ’’لَاتَفْعَلُوْا‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’لَاتَعْثَوُوا‘‘ یا ’’لاتعثَیُوا ‘‘تھی جس میں واو الجمع سے پہلے آنے والاحرف علت لام کلمہ (جو یہاں ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ ہے) گرادیا جاتا ہے اور عین کلمہ کی فتحہ (ــــــَــــ) برقرار رہتی ہے۔ اور فعل ’’لَاتَعْثَوْا‘‘ رہ جاتا ہے۔ (اس صیغہ کی ساخت کے بارے میں اگلی عبارات بھی غور سے پڑھیے گا)

·       اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد بصورت واوی ’’عثا  یَعثُوْا‘‘ (نصر سے) اور واوی یا یائی دونوں سے ’’عَثِی یعثَی‘‘ مثل رضِی یرضَی یا لقِی یلقَی (سمع سے) اور بصورت یائی ’’عثی یَعْثِی مثل رمَی یرمِیْ (ضرب سے) اور ’’عثَی یعثَی مثل سَعی یسعَی  (فتح سے) اور چاروں صورتوں میں یہ ایک ہی مشترک مصدر ’’عُثِیّاً‘‘ کے ساتھ آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں: ’’بڑی شرارت کرنا، گڑبڑ کرنا، (شرارت، کفر، فساد اور تکبر میں) حد سے بڑھنا اور شدید فساد ڈالنا‘‘۔

·       یہاں ایک ضروری قابل غور بات یہ ہے کہ اس فعل سے صرف یہی ایک صیغہ ’’لاتَعْثَوا‘‘ قرآن کریم میں پانچ دفعہ آیا ہے۔ (اس مادہ (عثو یا عثی) سے ماخوذ یا مشتق اور کوئی لفظ قرآن میں نہیں آیا) اور ہر جگہ یہ لفظ عین کلمہ (ث) کی فتحہ (ــــــَــــ) کے ساتھ ہی آیا ہے اور اس کی کوئی اور قراء ت بھی بیان نہیں ہوئی یعنی یہ متفقہ قراء ت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صیغہ مفتوح العین مضارع سے بنا ہے یعنی باب سمع یا فتح والے فعل سے ہے۔ اگر یہ  مضموم العین (باب نصر سے) یا مکسور العین (باب ضرب سے) ہوتا ہے تو یہ ’’لَا تَعْثُوْا‘‘ (’’ث ‘‘کے ضمہ (ـــــُـــــ) کے ساتھ) ہوتا [عربوں کے طریقِ نطق سے قاعدہ یہ نکالا گیا ہے کہ فعل ناقص کے واو الجمع والے صیغوں میں لام کلمہ گرانے کے بعد اس کے عین کلمہ کی حرکت فتحہ (ــــــَــــ) یا ضمہ (ـــــُـــــ) ہو تو برقرار رہتی ہے اور اگر وہ (عین کلمہ کی حرکت) کسرہ (ـــــَــــ) ہو تو اسے ضمہ (ـــــُـــــ) میں بدل دیتے ہیں] عام عربی میں چاہے اس فعل کے لیے چاروں (مذکورہ بالا ابواب مستعمل ہوں مگر قرآن کریم کا استعمال صرف باب سمع والا (عثِی یَعْثی مثل رضی یرضَی یا باب فتح سے (عثی یعثَی مثل سعَی یسعَی) ثابت ہوتا ہے۔ اور قرآن کی زبان ہی فصیح ترین زبان ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’لا تعثَوا‘‘ اس فعل مجرد سے فعل نہی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ’’شرارت نہ کرو، گڑبڑ نہ کرو، شدید فساد نہ ڈالو، شرارت، کفر یا تکبر و فساد میں حد سے نہ بڑھو‘‘ ہوگا۔ اس پر (اگلے لفظ ’’مفسدین‘‘ سمیت) مزید بات ابھی آگے بحث ’’الاعراب‘‘ میں کریں گے۔ اور اس عبارت کے مختلف تراجم کا تقابلی مطالعہ بھی وہیں سامنے آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالی۔

[فِیْ الْاَرْضِ] ’’زمین میں‘‘۔ ویسے ’’ فِیْ  ‘‘ کے معانی و استعمال پر البقرہ:۲ [۱:۱:۲ (۵)]نیز البقرہ:ـــــ ۲۰ [۱:۱۴:۲ (۴)]میں اور لفظ ’’الارض‘‘ کے مادہ اور معنی وغیرہ کی بحث البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۴)]میں گزر چکی ہے۔

[مُفْسِدِیْنَ] (فساد پھیلانے والے) اس لفظ کا مادہ ’’ف س د‘‘ اور وزن ’’مُفْعِلِیْنَ‘‘ ہے۔ جو اس مادہ سے باب افعال کے فعل (اَفْسَد یُفسِد) سے اسم الفاعل ’’مُفسِدٌ‘‘ کی جمع مذکر سالم (منصوب) ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی کے علاوہ اس مادہ سے باب افعال کے معنی اور استعمال پر بھی البقرہ:ـــــ ۱۱[۱:۹:۲ (۳)] میں  بات ہوچکی ہے۔ اس حصہ آیت ’’لاتعثوا فی الارض مفسدین‘‘ پر مزید بات آگے حصہ ’’الاعراب ‘‘میں ہوگی۔

 

۲:۳۸:۲      لاعراب

آیت زیرمطالعہ دراصل چھ جملوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے بعض تو ’’فائے عاطفہ‘‘ یا ’’واو عاطفہ ‘‘کے ذریعے اور بعض بلحاظ مضمون باہم مربوط ہیں۔ تفصیل یوں ہے۔

(۱) وَاِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ

[وَ] استیناف کی ہے کہ یہاں سے ایک الگ مضمون شروع ہوتا ہے اور [اِذْ] ظرفیہ ہے (اس ’’واِذْ‘‘پر گزشتہ کئی آیات۔ مثلاً۳۰ تا ۳۴ ۔پھر ۴۸ تا ۵۴ وغیرہ میں بات ہوچکی ہے)۔ [استسقیٰ] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ [موسیٰ] اس کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے مگر اسم مقصور ہونے کے باعث اس میں علامتِ رفع ظاہر نہیں۔ [لقومہ] میں ’’لِ‘‘ تو حرف الجر ہے اور ’’قوم‘‘ مجرور بالجر بھی ہے اور آگے مضاف بھی ہے اس لیے خفیف ہے اور آخری ’’ہ‘‘ ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے۔ اس طرح یہ سارا مرکب جارّی (لقومہ) متعلق فعل (استسقیٰ) ہے۔

(۲)   فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ   

[فَ] عاطفہ ہے اور بلحاظ معنی یہاں تعقیب اور سببیت کے لیے یعنی ’’اس کے بعد اور اس لیے‘‘ کے معنی میں ہے۔ [قلنا] فعل ماضی معروف صیغہ متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ مستتر ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [اضرب] فعل امر صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ اس لیے مجزوم ہے علامت جزم آخری ’’ب‘‘ کا سکون ہے اور اس میں ضمیر فاعل ’’انت‘‘ مستتر ہے۔ [بعصاک] میں  ’’بِ‘‘ تو حرف الجر ہے اور ’’عصاک‘‘ مضاف (عصا) اور مضاف الیہ (ک) مل کر مجرور بالجر (ب) ہے۔ لفظ ’’عصا‘‘ میں جو ’’ب‘‘کی وجہ سے مجرور ہے) اسم مقصور ہونے کی وجہ سے علامتِ جر ظاہر نہیں ہے۔ یہ مرکب جارّی (بعصاک) متعلق فعل (اضرب) ہے اور [الحجر] اس کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامت نصب آخری ’’ر‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)ہے۔ اور یہ جملہ انشائیہ (اضرب بعصاک الحجر) فعل ’’قلنا‘‘ کے مقول یعنی مفعول ہونے کے لحاظ سے محلاً نصب میں ہے۔ اور یہ جملہ فائے عاطفہ کے ذریعے سابقہ جملے (نمبر۱) پر عطف ہے یعنی دونوں کے مضمون میں ربط ہے۔

(۳)  فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا

یہاں اس عبارت سے پہلے ایک فعل بلکہ جملہ محذوف ہے جس کی طرف ’’فانفجرت‘‘ کی [فا]اشارہ کررہی ہے اس لیے اس ’’فاء‘‘ کو فائے فصیحہ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ ایک سبب بیان کرہی ہے۔ گویا یہاں پچھلے جملے یعنی ’’اضرب بعصاک الحجر‘‘ (پتھر کو اپنی لاٹھی مار) کے بعد یہ مضمون understood (مقدر یا محذوف) ہے۔ کہ ’’فضَربَ الحجَر‘‘ (پس اس نے پتھر کو مارا) یوں [فانفجرت] کی ’’ف‘‘ فصیحہ بمعنی ’’تو‘‘ یا سببیہ (بمعنی ’’اس کی وجہ سے ،پھر تو‘‘) ہے اور ’’انفجرت ‘‘فعل ماضی صیغہ واحد مونث غائب ہے اور یہ فعل بصیغہ تانیث اس لیے آیا ہے کہ آگے اس کا فاعل ’’بارہ چشمے ‘‘مذکور ہوئے ہیں (ویسے لفظ ’’عین‘‘ بمعنی چشمہ مؤنث سماعی بھی ہے) [منہ] جار مجرور (من + ہ) مل کر متعلق فعل (فانفجرت) ہے یعنی ’’پھوٹ نکلے، جاری ہوگئے اس (پتھر) میں سے‘‘ [اثنتا عشرۃ]اسم عدد مرکب برائے مونث ہے جو فعل ’’انفجرت‘‘ کا فاعل ہونے کی وجہ سے حالتِ رفع میں ہے۔ علامتِ رفع اس (مرکب عدد) کے پہلے حصے ’’اثنتا‘‘ کا آخری الف ماقبل مفتوح (ـــــَــــ ا) ہے جو تثنیہ میں علامت رفع ہوتا ہے۔ عدد کا دوسرا جز ’’عَشْرۃَ‘‘ تو مبنی برفتحہ (ـــــَــــ) ہے اس لیے اس میں علامت رفع ظاہر نہیں ہے (ورنہ یہ عدد تو پورا ہی مرفوع ہے) [عَیْنًا] یہ اسم عدد (اثنتا عشرۃ) کا معدود (تمیز) ہونے کی وجہ سے منصوب ہے (۱۱ سے  ۹۹) تک کے اعداد کی تمیز (معدود) واحد نکرہ اور منصوب ہوتی ہے) اور دراصل تو یہاں عدد معدود مل کر سارا مرکب عددی (اثنتا عشرۃ عینا) فاعل ہے مگر اعراب (رفع) کا اثر صرف پہلے جز، (اثنتا) میں ظاہر ہے یہ جملہ نمبر۳ بھی فائے عاطفہ کے ذریعے سابقہ جملے (نمبر۲) پر عطف ہے۔

(۴)  قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ   

[قد] حرف تحقیق ہے اور [علم] فعل ماضی صیغہ واحد مذکر غائب ہے [کل اناسِ] کا ’’کل‘‘ مضاف ہے اس لیے خفیف بھی ہے اور ’’اناسٍ‘‘ اس کا مضاف الیہ (لہٰذا) مجرور ہے علامت جر ’’س‘‘ کی تنوین الجر (ــــٍـــــ) ہے اور یہ پورا مرکب اضافی (کل اناسٍ)فعل ’’عَلِم‘‘ کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ علامتِ رفع ’’کل ‘‘کے لام کا ضمہ (ــــُـــــ) [مشربھم] مضاف (مشرب) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر فعل ’’عِلم‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب ’’مشربَ‘‘ کی ’’باء‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ)۔ ہے ۔ یہ پورا جملہ مستانفہ ہے۔ یعنی اس کا کسی سابقہ جملے پر عطف نہیں ہے بلکہ یہ ایک الگ مضمون ہے یعنی ’’جان لیا سب لوگوں نے اپنا گھاٹ‘‘۔

(۵)  كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ

یہاں بھی اس عبارت سے پہلے ایک جملہ فعلیہ محذوف ہے یعنی ’’قِیل لھم‘‘ (ان سے کہا گیا) [کلوا] فعل امر معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے [و] عاطفہ ہے اور [اشرَبوا] بھی (’’کلوا‘‘ کی طرح) فعل امر معروف صیغہ جمع مذکر حاضر مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے۔ دونوں فعلوں میں اس ضمیر مستتر (انتم) کی علامت واو الجمع ہے۔ [مِن] حرف الجر ہے اور [رزق اللّٰہ] مضاف (رزق) اور مضاف الیہ (اللہ) مل کر مجرور بالجر (من) ہیں اور یہ مرکب جاری (من رزق اللّٰہ) متعلق فعل (کلواواشربوا) ہے جس میں ’’من برائے تبعیض ہے۔

(۶)  وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ

[وَ] عاطفہ ہے جس سے اس جملے کا عطف سابقہ جملہ (نمبر۵) پر ہے۔ [لا تعثوا] فعل نہی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ بصورت واو الجمع مستتر ہے۔ اور یہ فعل(بوجہ نہی) مجزوم بھی ہے  علامتِ جزم واو الجمع کے بعد والے ’’نون‘‘ کا گر جانا ہے۔ [فی الارض] جار ّ(فی) اور مجرور (الارض) ملکر متعلق فعل ’’لا تعثوا‘‘ ہے۔ اور [مفسدین] فعل ’’لاتعثوا‘‘ کی ضمیر فاعلین (انتم) کا حال (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب اس میں آخری ’’نون‘‘ سے پہلے والی یائے ماقبل مکسور (  ـــــِــــی) ہے جو جمع مذکر سالم میں نصب اور جر کی علامت ہوتی ہے۔ اس جملے کی عام سادہ نثر میں ترتیب یوں ہوگی۔ ’’ولا تعثوا مفسدین فی الارض‘‘ مگر آیت میں فاصلہ کی رعایت سے ’’مفسدین‘‘ کو آخر پر لایا گیا ہے جس سے عبارت  میں شعر کی قسم کا ادبی حسن پیدا ہوا ہے۔

·       مندرجہ بالا ترکیب کے مطابق اس عبارت (جملہ نمبر۶) کا ترجمہ بنتا ہے ’’اور تم سخت فساد نہ ڈالو/ گڑبڑ نہ کرو/ کفر، فساد یا تکبر میں حد سے نہ بڑھو۔ زمین میں فساد پھیلانے والے ہوتے ہوئے‘‘۔ جیسا کہ بحث ’’اللغۃ‘‘ میں  بیان ہوا ہے۔ ’’عثِیَ یعثیَ‘‘ میں بھی فساد ڈالنے کا مفہوم موجود ہے اور ’’مفسدین‘‘ میں بھی۔ اس طرح تو عبارت کا مفہوم بنتا ہے۔ ’’فساد نہ پھیلاؤ فسادی ہوتے ہوئے‘‘۔ اس میں لفظ ’’فساد‘‘ کی یہ معنوی تکرار عجیب سی لگتی ہے۔ اس لیے بعض مفسرین (مثلاً بیضاوی) نے کہا ہے کہ ’’عثی یعثی‘‘ کے معنوں میں جس ’’شرارت یا گڑبڑ یا حد سے نکلنے‘‘ کا مفہوم ہے وہ اچھے یا بُرے (دونوں) مقاصد کے لیے ہوسکتی ہے۔ مثلاً ظالم حاکم کے خلاف بغاوت یا احتجاج۔ بظاہر یہ بھی ’’شرارت یا گڑبڑ پھیلانا‘‘ ضرور ہے۔ مگر یہ دراصل ’’فساد فی الارض‘‘ نہیں بلکہ ممکن ہے کہ ’’اصلاح فی الارض‘‘ کے لیے ہی ہو۔ اسی لیے یہاں ’’لاتعثوا‘‘ کے بعد ’’مفسدین‘‘ حال ہو کر آیا ہے۔

·       گویا ممنوع اور ’’منھیّ عنہ‘‘ وہ گڑبڑ، وہ شرارت یا وہ صورت فساد ہے جس کا مقصد بھی تخریب اور فساد ہی ہو۔ اسی معنی اور مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے اردو مترجمین نے ’’لاتعثوا‘‘ کا ترجمہ ’’مت پھرو‘‘ اور اس کے ساتھ ’’مفسدین‘‘ کا ترجمہ (بطور حال) ’’فسادی بن کر‘‘، ’’فساد پھیلاتے‘‘ اور ’’فساد اٹھاتے‘‘ کیا ہے۔ بعض نے اسے مزید بامحاورہ بنانے کے لیے ’’فساد نہ کرتے پھرنا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے ۔ بعض نے ’’فساد مت پھیلاؤ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جسے صرف مفہوم کے اعتبار سے ہی درست کہاجاسکتا ہے ورنہ لفظ کے اعتبار سے تو یہ ’’لاتفسدوا‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے۔ اس میں نہ تو ’’لاتعثوا‘‘ کا اصل مفہوم ہے اور نہ ہی  ’’مفسدین‘‘ میں مضمر ’’حالت فساد کا ذکر ہے‘‘ بعض نے ’’لا تعثوا‘‘ کا ترجمہ ’’حد اعتدال سے مت نکلو‘‘ کیا ہے جو اس کے اصل معنی کے مطابق ہے۔ اور ساتھ ’’مفسدین‘‘ کا ترجمہ ’’فتنہ وفساد کرتے‘‘ کیا ہے جو ایک طرح سے حال کے ساتھ ہی ترجمہ ہے۔

 

۳:۳۸:۲      الرسم

زیر مطالعہ آیت (البقرہ:۶۰) کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم قرآنی (عثمانی) یکساں ہے لہٰذا بلحاظ رسم اس کے متعلق کسی بحث یا وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔

 

۴:۳۸:۲     الضبط

زیر مطالعہ آیت کے کلمات میں ضبط کے تنوع کو درج ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ زیادہ قابل غور فرق نون مظہرہ و مخفاۃ کے ضبط، ہمزۃ الوصل کے ضبط، الف مقصورہ کے ضبط اور واو الجمع کے بعد والے الف زائدہ کے ضبط میں ہے۔