سورۃ البقرۃ  آیت ۶۱

۳۹:۲     وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰي طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَقِثَّاۗىِٕهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا   ۭ   قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِىْ ھُوَ اَدْنٰى بِالَّذِىْ ھُوَ خَيْرٌ   ۭ  اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ     ۭ   وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ     ۤ   وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ    ۭ   ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ   ۭ  ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ  (61)

۱ ۳۹:۲      اللغۃ

[وَاِذْ] میں ’’وَ‘‘ مستانفہ ہے اس کے معانی و استعمالات کے لیے چاہیں تو البقرہ:ـــــــ ۸ [۱:۷:۲(۱)]میں دیکھ لیجئے اور’’اِذْ‘‘ ظرفیہ بمعنی ’’جب/ جس وقت‘‘ ہے اس کے طریق استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ:۳۰ [۱:۲۲:۲(۱)]اور یہ پوری ترکیب ’’وَاذ‘‘ (اور جب) اس سے پہلے کئی دفعہ گزر چکی ہے۔

[قُلْتُمْ] کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْتُمْ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’قَوَلْتُمْ‘‘ تھی۔ اس میں واقع ہونے والی تعلیل وغیرہ (یعنی قوَلْتُمْ = قالْتُمْ = قَلْتُمْ = قُلْتُمْ) پر البقرہ:۵۵ [۱:۳۹:۲ (۱)]میں بات ہوئی تھی۔ اور مادہ (قول) سے فعل مجرد کے معنی و استعمال پر بحث البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۴)]میں ہوئی تھی۔ لفظ ’’قُلتم‘‘ اس فعل مجرد (قال یقول= کہنا) سے فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اس کا ترجمہ ہے ’’تم نے کہا‘‘ مگر اس کے شروع میں ’’واذ‘‘ (اور جب) آجانے کی وجہ سے اس کا ترجمہ ’’تم نے کہا تھا‘‘ ہوسکتا ہے۔

[یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ]میں ابتدائی ’’یا‘‘ ندا کے لیے ہے اور یوں ’’یا موسی‘‘ (برسم املائی) کا ترجمہ ہے ’’اے موسیٰ (علیہ السلام ) ’’لن نصْبِر‘‘ کا مادہ ’’ص ب ر‘‘ اور وزن’’لَن نَفعِلَ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد  (صبَر یصبِر = صبر کرنا) کے معنی باب اور استعمال وغیرہ پر تفصیلی بحث البقرہ:ـــــ۴۵ [۱:۳۷:۲(۱)]میں ہوچکی ہے۔

’’لَنْ نَصبِرَ‘‘  اس فعل مجرد سے فعل مضارع منفی ’’بِلَنْ‘‘  کا صیغہ جمع متکلم ہے جس میں ضمیر الفاعلین ’’نحن‘‘ مستتر ہے۔ فعل مضارع کی اس قسم کی نفی (بِلَنْ) سے اس (مضارع) کی صورت اور معنی پر جو اثر پڑتا ہے اس کے متعلق البقرہ:۲۴ [۱:۱۷:۲(۱۲)]میں بات ہوچکی ہے۔

اس کے مطابق یہاں ’’لن نصبر‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’ہم ہرگز صبر نہ کریں گے‘‘ چنانچہ بعض مترجمین نے یہی ترجمہ رہنے دیا ہے۔ بعض حضرات نے ’’صبر‘‘ کے اصل بنیادی معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ہم ہرگز نہ ٹھیریں گے‘‘ اور ’’ہم کبھی نہ رہیں گے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے بعض نے اردو محاورے کا خیال کرتے ہوئے ’’ہم سے نہیں رہا جاتا، ہم سے ہرگز صبر نہ ہوگا،ہم سے کبھی صبر نہ ہوسکے گا، ہم سے صبر نہیں ہوسکتا‘‘ اور ’’ہم بس نہیں کرسکتے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے اور مضارع میں منفی کے زور (اور زمانۂ مستقبل کے مفہوم) کو ’’نہیں کرسکتے، نہیں ہوسکتا، نہیں ہوسکے گا‘‘ وغیرہ سے ظاہر کیا گیا ہے۔

قرآن کریم میں اس فعل مجرد (صبر یصبر) سے افعال کے مختلف صیغے ۵۵ سے زیادہ جگہ آئے ہیں۔

۱:۳۹:۲ (۱)     [عَلٰی طَعَامِ وَّاحِدٍ]۔ اس میں ’’علی‘‘ کا تعلق تو سابقہ فعل  (لن نصبر) کے  ساتھ اس کے صلہ کے طور پر ہے۔

(صبر علی . . .  =  . . . پر صبر کرنا( دیکھیے [۱:۳۷:۲ (۱)]

لفظ ’’طعام‘‘ (جو یہاں مجرور بالجر ہے) کا مادہ ’’ط ع م‘‘ اور وزن ’’فَعَالٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’طعِم. . . .  یطعَم طعامًا و طَعْمًا‘‘  (باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں. . . .’’کھانے کی کسی چیز) کو کھانا، کھالینا‘‘ اور کبھی یہ فعل صرف ’’چکھنا‘‘ کے معنی میں آتا ہے اور کبھی صرف ’’پینا‘‘ کے معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً البقرہ:۲۴۹ میں اس کے دونوں معنی لیے جاسکتے ہیں یعنی ’’چکھنا اور پینا‘‘ اور المائدہ:۹۳ میں یہ فعل ’’کھانا اور پینا‘‘ دونوں معنی کے لیے آیا ہے۔ مذکورہ آیات پر بحث اپنی اپنی جگہ آئے گی۔

·       یہ فعل (طِعم یطعَم) متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے جیسے ’’یطعمہ‘‘ (الانعام:۱۴۵) میں اور ’’لا یطعَمُھا‘‘ (الانعام:۱۳۸) میں ضمیر منصوب ساتھ آئی ہے۔ البتہ بعض دفعہ اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جیسے ’’فاذا طَعِمْتم‘‘ ’’جب تم کھاچکو‘‘ (الاحزاب:۵۳) میں ہے۔

قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مختلف صیغے کل پانچ جگہ آئے ہیں۔ مزید فیہ کے باب افعال سے صیغے ۱۳ جگہ اور باب استفعال سے صرف ایک ہی صیغہ فعل الکہف:۷۷ میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ مجرد و مزید سے مختلف مصادر اور مشتقات ۳۰ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (طعام) جو فعل مجرد کا مصدر ہے۔ بمعنی اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ’’کھائی جانے والی چیز‘‘ (جیسے لفظ ’’شراب‘‘ عربی میں کسی بھی پی جانے والی چیز کے استعمال ہوتا ہے) بعض دفعہ اس لفظ (طعام) کا اطلاق صرف ’’گندم‘‘ پر بھی ہوتا ہے اور بعض دفعہ عام ’’اجناس خوردنی‘‘ پر۔ اور قرآن کریم میں بعض جگہ یہ لفظ ’’گوشت‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ دراصل عبارت کا سیاق و سباق اس کے معنی متعین کرتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’کھانا‘‘ (بمعنی کھانے کی چیز) ہی کیا جاسکتا ہے۔ ویسے لفظ ’’طعام‘‘ بھی اردو میں مستعمل ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ مفرد مرکب مختلف صورتوں میں ۲۴ جگہ آیا ہے اور زیادہ تر مطلق ’’کھانا‘‘ اور ’’خوراک‘‘ کے معنی میں ہی آیا ہے۔

۱:۳۹:۲ (۲)    [واحد] جو مندرجہ بالا مرکب جارّی ’’علی طعام واحد‘‘ [۱:۳۹:۲ (۱)] کا دوسرا حصہ ہے۔ اس لفظ (واحد) کا مادہ ’’و ح د‘‘ اور وزن ’’فاعِلٌ‘‘ ہے۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’وحَد یَحِد‘‘ (دراصل یَوحِد) وَحْدۃً (باب ضرب سے) بھی آتا ہے اور ’’وحِد یحِد‘‘ (بابِ حسب سے) بھی۔ اور بعض دفعہ ’’وحُد یحِد‘‘ (یعنی ماضی باب کُرم سے اور مضارع باب حِسب یا ضرب سے) بھی استعمال ہوتا ہے [اس طرح کے دوغلے باب صرف کی عام کتابوں میں مذکور نہیں ہوتے۔ ویسے یہ ہوتے بھی بہت شاذ ہیں] اور ان تمام صورتوں میں اس فعل کے معنی ’’ایک ہونا، اکیلا ہونا یا رہ جانا‘‘ ہوتے ہیں۔ اس فعل کے آخری (کُرم والے) استعمال سے ہی صفت مشبہ ’’وحید‘‘ بنتی ہے۔ اور عام عربی میں تو اس مادہ (وحد) سے مزید فیہ کے ابواب تفعیل، تفعل، افعال اور افتعال سے بھی افعال استعمال ہوتے ہیں بلکہ اس سے باب تفعیل کا مصدر ’’توحید‘‘ اور باب افتعال کا مصدر ’’اتحاد‘‘ اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ اردو میں  بھی مستعمل ہیں۔ تاہم قرآنِ کریم میں اس مادہ سے فعل مجرد یا مزید فیہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس سے ماخوذ بعض مصادر اور اسماء (واحد، واحدۃ، وحدَہ، اور وحید) ۶۰ کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔

·       لفظ ’’واحد‘‘ اس مادہ کے فعل مجرد سے اسم الفاعل (بمعنی ایک یا اکیلا ہونے یا ہوجانے والا) ہے اس کا عام اردو ترجمہ ’’ایک‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ گنتی کا پہلا عدد بھی ہے یعنی مذکر کے لیے کہتے ہیں ’’واحد، اثنان، ثلاثۃ. . . .  الخ اور مونث کے لیے ’’واحدۃ، اثنتان، ثلاث،. . . . . الخ کہتے ہیں۔ کسی شخص یا چیز کی گنتی کے وقت عدد دراصل تین سے لگتا ہے۔ ’’ایک ‘‘کے لیے ویسے واحد (مفرد) کا لفظ خصوصاً نکرہ کا استعمال کافی ہے مثلاً ’’کتاب‘‘ کا مطلب ہی ہے ’’ایک کتاب‘‘۔ دو کے لیے تثنیہ کا لفظ کام دیتا ہے جسے کتابان یا کِتَابینِ = دو کتابیں۔ البتہ تین کتابوں کے لیے ’’ثلاثۃ کتبٍ‘‘ کہیں گے۔ ایک یا دو کی گنتی ظاہر کرنے کے لیے معدود سے پہلے کوئی عدد نہیں لگتا۔

·       البتہ ’’واحد‘‘ (یا ’’واحدۃ‘‘ برائے مونث) اور ’’اثنان‘‘ یا ’’اثنتانِ‘‘ برائے مونث) بطور صفت کسی چیز کے بعد آتے ہیں۔ مثلاً کہہ سکتے ہیں ’’رجل واحدٌ‘‘ (یا امرأۃ واحدۃ) اسی طرح ’’رجلانِ اثنان‘‘ (یا امرأتانِ اثنتان) اس قسم کی ترکیب میں اردو ترجمہ ’’ہی‘‘ کے ساتھ کرنا چاہیے یعنی ’’ایک ہی مرد‘‘ ایک ہی عورت، دو ہی مرد، دو ہی عورتیں‘‘ وغیرہ۔ قرآن کریم میں لفظ ’’واحد‘‘ کے بطور صفت آنے کی متعدد مثالیں موجود ہیں جیسے ’’الٰہ واحد‘‘ ’’باب واحد‘‘ ’’ماء واحد‘‘ وغیرہ۔ ان سب کا اردو ترجمہ ’’ایک ہی. . . . ‘‘ کے ساتھ ہوگا۔ ایک ہی معبود ، ایک ہی دروازہ، ایک ہی پانی)۔ یہ نکتہ ذہن میں رکھیے گا  آگے چل کر اس قسم کی تراکیب کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ جیسے یہاں ’’طعام واحد‘‘ آیا ہے۔ ’’واحد‘‘ معرف باللام ’’الواحد‘‘ جب مطلق استعمال ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک اسم ہے اپنے اس مخصوص معنی اور استعمال کے ساتھ یہ لفظ (الواحد) قرآن کریم میں ۶ جگہ آیا ہے۔

·       مندرجہ بالا وضاحت کے مطابق اس پوری ترکیب ’’علی طعامٍ واحدٍ‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’ایک ہی کھانے پر‘‘ جسے بامحاورہ کرنے کے لیے، ایک ہی طرح کے کھانے پر‘‘، ’’ایک ہی قسم کے کھانے پر‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ بعض نے ’’ایک کھانے پر‘‘ کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے جو لفظ سے تو قریب ہے مگر اس میں ’’واحد‘‘ کے اسم صفت والے مفہوم کا زور نہیں ہے۔

[فَادْعُ لَنَا] جو دراصل  ’’فَ‘‘ (پس، اس لیے) + ’’اُدْعُ‘‘ (جس پر ابھی بات ہوگی) + ’’ل‘‘ (لام الجر بمعنی …کے لیے) + ’’نا‘‘ (ہمارے) کا مرکب ہے۔ اس میں کلمہ ’’اُدْعُ‘‘ سے پہلے فاء عاطفہ (فَ) کے آجانے کی وجہ سے ابتدائی ہمزۃ الوصل تلفظ سے ساقط ہوجاتا ہے اور ’’فَادْعُ‘‘  پڑھا جاتا ہے۔

·       اس لفظ ’’اُدْعُ‘‘ کا مادہ ’’د ع و‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلْ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’اُدْعُوْ‘‘ تھی جس میں فعل کے مجزوم ہونے کی بناء پر آخری ’’و‘‘ کتابت اور تلفظ دونوں سے ساقط ہوجاتی ہے۔

تمام ناقص افعال میں مجزوم ہونے کی صورت میں آخری ’’و‘‘ یا ’’ی‘‘ ـــــ لام کلمہ کو گرا دیا جاتا ہے) اور باقی ’’اُدْعُ‘‘ رہ جاتا ہے۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’دعا یدعودعائً‘‘ (پکارنا، دعا کرنا) کے معنی اور استعمال پر البقرہ:۲۳ [۱:۱۷:۲ (۷)]میں مفصل بات ہوئی تھی۔

·       ’’اُدْعُ‘‘ اس فعل مجرد سے فعل امر کا صیغہ واحد مذکر  حاضر ہے۔ اس سے فعل امر کی گردان یوں ہوتی ہے۔ ’’اُدْعُ، اُدْعُوَا، اُدْعُوا، اُدعِیْ،اُدعُوَا اور اُدْعُوْن۔ اس فعل کے ساتھ اگر  ’’لام (لِ)‘‘کا صلہ آئے تو اس کے معنی ’’. . . . . کے لیے (اچھی) دعا مانگنا‘‘ ہوتے ہیں اور اگر ’’علی‘‘ کا صلہ آئے تو اس کے معنی ’’. . . . کو بددعا دینا‘‘ ہوتے  ہیں۔ مثلاً کہیں گے ’’دَعَالَہٗ= اس نے اس کے لیے دعا مانگی اور ’’دعا علیہ‘‘ اس نے اس کو بددعادی۔

·       یہاں زیر مطالعہ آیت میں ’’فادعُ لنا‘‘ کا مطلب ہوگا ’’پس تو ہمارے لیے دعا کر، دعا مانگ‘‘ بعض نے زیادہ لفظی ترجمہ یعنی پکار ہمارے واسطے کی صورت میں کیا ہے۔ بعض نے احتراماً ’’تو ‘‘کی بجائے ’’آپ‘‘ کے ساتھ یعنی ’’آپ ہمارے لیے دعا کیجئے، ہمارے واسطے دعا کریں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے ’’لنا‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرتے ہوئے صرف ’’آپ دعا کیجئے، دعا کیجئے، دعا کر‘‘ کے ساتھ ترجمہ کردیا ہے۔ جو بہر حال اصل نص (الفاظِ عبارت) سے قدرے ہٹ کر لہٰذا محل نظر ہے۔

[رَبَّکَ] جو رَبَّ + کَ ہے یعنی ’’اپنے رب کو، اپنے پروردگار کو‘‘ یہ ’’کو‘‘ والا ترجمہ (جیسا کہ آگے ’’الاعراب ‘‘میں بیان ہوگا) کلمہ’’ربّ‘‘ کے یہاں مفعول واقع ہونے کی بناء پر ہے۔ اگر ’’ادع‘‘ (سا بقہ فعل امر) کا ترجمہ لفظی ’’تو پکار‘‘ کیا جائے تو ’’ربَّک‘‘ کا ترجمہ ’’اپنے رب کو‘‘ ہی مناسب ہے اور اگر ’’ادع‘‘ کا ترجمہ ’’دعا کر، دعا مانگ‘‘ سے کیا جائے تو ’’ربک‘‘ کا ترجمہ ’’اپنے رب سے، اپنے مالک سے، اپنے پروردگار سے‘‘ ہی کیا جائے گا۔ یاد رہے اس نے اپنے رب سے دعا مانگی/ کی‘‘ کا عربی ترجمہ  ’’دعا ربَّہ‘‘ ہوگا۔ عربی میں ایسے موقع پر ’’مِنْ‘‘ کا استعمال (یعنی ’’دعا من ربِّہ ‘‘کہنا) بالکل غلط ہوگا۔

لفظ ’’رب‘‘ کے مادہ فعل باب اور معنی و استعمال پر الفاتحہ:۲ [۱:۲:۱(۳)]میں بات ہوئی تھی۔  [یُخْرِجُ لَنَا] کے ’’یُخْرِجْ‘‘ کا مادہ ’’خ ر ج‘‘ اور وزن ’’یُفْعِلُ‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع مجزوم صیغہ واحد مذکر غائب ہے (’’جزم‘‘ کی وجہ پر ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد (خرج یخرَج) کے باب و معنی کے علاوہ اس سے باب افعال کے فعل (اَخرج یُخرج= نکالنا) کے معنی و استعمال کی بھی اس سے پہلے البقرہ:۲۲ [۱:۱۶:۲ (۱۱)]میں وضاحت کی جاچکی ہے۔ ’’لَنَا‘‘ بمعنی ’’ہمارے لیے، ہمارے واسطے‘‘ ابھی اوپر گزرا ہے۔

·       اس طرح زیر مطالعہ عبارت ’’یُخْرِجْ لنا‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’کہ وہ نکال دے ہمارے لیے‘‘ بیشتر مترجمین نے یہاں ’’یُخْرِجْ‘‘ کی ضمیر فاعل (وہ) کا ترجمہ نظر انداز کردیا ہے یعنی ’’کہ نکالے ہمارے لیے، ہمارے لیے نکالے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے جسے صرف اُردو محاورے کی بنا پر درست کہا جاسکتا ہے۔ بعض نے ’’نکالے‘‘ کی بجائے ’’پیدا کرے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو بلحاظ مفہوم ہی درست ہے۔ اور بعض حضرات نے اس جملے (یخرج لنا) کا ترجمہ ہی نظر انداز کردیا ہے اور ’’دعا کیجئے ان چیزوں کی جو. . . . ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ عیب سے خالی نہیں ہے۔

[مِمَّا]  جو منْ + مَا ہے یعنی ’’اس میں سے جو کہ‘‘ (اگر  ’’مِنْ‘‘ تبعیض کے لیے ہوتو) یا اس قسم کی (چیزیں) جو کہ (اگر ’’مِنْ‘‘ بیانیہ سمجھا جائے تو) یہاں بھی بیشتر مترجمین نے غالباً اردو محاورے کے لیے ’’مِنْ‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ’’جو‘‘ یا ’’جو چیزیں‘‘ سے ترجمہ کیاہے البتہ بعض نے ’’ایسی چیزیں جو کہ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ یہ ’’مِنْ‘‘ بیانیہ سمجھنے کی صورت میں درست ترجمہ ہے۔  ’’مِمَّا‘‘ کے دونوں اجزاء ’’مِنْ‘‘ اور ’’ما‘‘ پر البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)]میں بالتفصیل بات ہوئی تھی۔

۱:۳۹:۲ (۳)    [تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ] یہ ایک جملہ فعلیہ ہے جس کے ابتدائی فعل ’’تُنْبِتُ‘‘ کا مادہ ’’ن ب ت‘‘ اور وزن ’’تُفْعِلُ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’نَبت ینبُت نباتًا‘‘ (نصر سے) آتا ہے۔ اور اس کے بنیاد معنی ’’ا   گنا‘‘ ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نبت البَقْلُ‘‘ (سبزی اُگی۔ یعنی زمین سے نکل آئی) پھر اس سے اس فعل میں ظاہر ہونا، نمودار ہونا، نمایاں ہونا اور نشو نما پانا‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ زیادہ تر تو یہ فعل لازم ہی استعمال ہوتا ہے البتہ بعض دفعہ (اگر زمین کو اس کا فاعل بنادیا جائے تو) یہ بطور فعل متعدی بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نبتَتِ الارضُ‘‘ یعنی ’’زمین نے نباتات اگائی ‘‘یا ’’زمین نباتات والی ہوگئی‘‘ بطور فعل لازم)۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کا صرف ایک صیغہ ایک ہی جگہ (المومنون:۲۰) آیا ہے۔ اور مزید فیہ کے صرف باب افعال سے فعل کے مختلف صیغے ۱۶ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے فعل مجرد کے مصدر ’’نبات‘‘ بمعنی ’’نابت‘‘ (اسم الفاعل) یعنی ’’اُگنے والی شے، روئیدگی، نباتات ‘‘۹ جگہ آیا ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’تُنبتُ‘‘ اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع صیغہ واحد مونث غائب ہے۔ اس باب (افعال) سے فعل ’’اَنْبَت. . . یُنْبِتُ اِنْباتًا‘‘ کے بنیادی معنی’’. . . کو اگانا‘‘ہیں ۔ یعنی یہ فعل متعدی ہے اور اس کا فاعل ’’الارض‘‘ (زمین) بھی آسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ بھی۔ مثلاً کہیں گے ’’انبتَتِ الارضَ‘‘ (زمین نے نباتات اگائی یا نکالی) اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں۔ ’’انبتَ اللّٰہُ البقلَ‘‘ (اللہ نے سبزی اگائی) مگر اس باب کے اسم مفعول کے لیے ’’مُنبَت‘‘ کی بجائے ’’مَنْبُوت‘‘ (مجرد سے اسم مفعول) استعمال ہوتا ہے جس طرح فعل ’’اَحَب‘‘ (باب افعال سے اسم مفعول ’’محبوب‘‘ استعمال ہوتا ہے حالانکہ اسم مفعول کا یہ وزن فعل مجرد کے لیے ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس باب (افعال) سے آنے والے افعال میں گیارہ جگہ فاعل کے طور پر اللہ تعالیٰ یا اس کے لیے کسی ضمیر کا ذکر ہے اور صرف چار جگہ بطور فاعل ’’زمین‘‘ یا اس کے لیے کوئی ضمیر آئی ہے۔

زیر مطالعہ جملہ ’’تنبت الارض‘‘ کا دوسرا حصہ (الارض) یہاں بطور فاعل مذکور ہوا ہے۔ لفظ ’’الارض‘‘ (زمین) کے مادہ معنی اور استعمال وغیرہ پر البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲(۴)]میں بات ہوچکی ہے۔

·       اس طرح اس جملے (تُنبت الارضَ) کا ترجمہ تو بنتا ہے۔ ’’زمین اگاتی ہے‘‘ اور محتاط مترجمین نے تو یہی ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’زمین کی اگائی چیزیں‘‘ اور بعض نے ’’زمین کی پیداوار‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ جسے بلحاظ مفہوم و محاورہ درست کہہ سکتے ہیں۔ مگر بہت سے حضرات نے اس کا ترجمہ ’’اگتا ہے زمین سے، زمین سے اگتی ہے، زمین سے اگا کرتی ہے‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ اسے صرف مفہوم کے لحاظ سے ہی درست کہیں تو کہیں ورنہ فعل متعدی کا ترجمہ فعل لازم کی طرح کرنے کی کوئی مجبوری تو نہیں تھی۔

۱:۳۹:۲ (۴)    [مِنْ بَقْلِھَا] یہ ’’من‘‘ (میں سے) یا از قسم‘‘) + بَقْل(جس پر ابھی بات ہوگی) + ھا (اس کی) کا مرکب ہے۔

کلمہ ’’بَقْلٌ‘‘ (جو عبارت میں مجرور اور خفیف ہے) کا مادہ ’’ب ق ل‘‘ اور وزن ’’فعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’بقَل یبقُل بقلًا‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں ’’ظاہر ہونا‘‘ اور یہ بھی ’’اگنا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’بقَل البَقلُ‘‘ کے معنی ہیں ’’سبزی اگی یا ظاہر ہوئی‘‘ اور ’’بقَل وجہُ الغلام‘‘ کا مطلب ہے ’’لڑکے کا چہرہ ’’سبزہ‘‘ والا ہوگیا‘‘۔ یعنی داڑھی مونچھ کے بال ظاہر ہوئے‘‘ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل کا کوئی صیغہ استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ سے صرف یہی ایک لفظ ’’بَقْل‘‘ بھی صرف اسی ایک جگہ (البقرہ:۶۱) آیا ہے۔

لفظ ’’بَقْل‘‘کے معنی ’’سبزی‘‘ ہیں۔ اور چھوٹی جڑی بوٹیوں کو بھی بعض دفعہ ’’بَقل‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ اور اس سے مراد وہ ’’بوٹیاں‘‘یا ’’پودے ‘‘ہیں۔ جن کے پتے اور شاخیں وغیرہ انسان اپنی خوراک کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے بیشتر مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ساگ‘‘ کیا ہے۔ او ربعض نے ’’ترکاری‘‘ کیا ہے۔ اس طرح اس پورے مرکب جاری ’’من بقلھا‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اس (زمین) کے ساگ میں سے‘‘ اور یہاں ’’مِن‘‘ دراصل بیانیہ ہے یعنی اس عبارت میں ’’ماتُنبتُ الارضُ‘‘ جو (زمین اگاتی ہے) کی وضاحت کی گئی ہے( کہ وہ کون سی چیزیں ہیں) اس لیے یہاں ’’مِن‘‘ کا ترجمہ ’’از قسم. . . . ‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ یا ’’جیسے کہ . . . ‘‘ کے ساتھ بھی ۔ اور چونکہ آگے جن چیزوں کا ذکر ہے سب زمین (کے لیے ضمیر) کی طرف مضاف ہوکر آئی ہیں (بقلھا، قثائھا، فومھا، وعدسھا، بصلھا) اس لیے بعض نے ’’زمین کا ساگ، زمین کی. . .  ‘‘ وغیرہ سے ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے اردو محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’ہوا‘‘ لگا کر ترجمہ کیا ہے یعنی ’’ساگ ہوا, ککڑی ہوئی،. . ہوا‘‘ وغیرہ کی صورت میں۔

۱:۴۹:۲ (۵)     [وَقِثَّائِھَا] یہ ’’وَ‘‘ (عاطفہ بمعنی اور) +  ’’قِثاء‘‘ (جس پر ابھی بات ہوگی) + ’’ھا‘‘ (اس کی) کا مرکب ہے۔

کلمہ ’’قثَّائٌ‘‘ (جو عبارت میں مجرور اور خفیف ہے) کا مادہ ’’ق ث ء‘‘ اور وزن ’’فِعَّالٌ‘‘ ہے۔ یہ لفظ بعض دفعہ ’’ق‘‘ کے ضمہ (ـــــُـــــ) کے ساتھ یعنی ’’قُثَّائٌ‘‘ بھی بولا جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا بلکہ مزید فیہ کے بھی صرف بابِ افعال سے فعل آتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’اَقثَأَتِ الارض‘‘  یا ’’اَقثَأَ المکانُ‘‘ اور اس کے معنی ہیں(اس) جگہ یا زمین میں ’’قثاء‘‘ بکثرت ہوئی۔ تاہم قرآن کریم میں اس سے کوئی فعل کہیں بھی نہیں آیا۔

·       لفظ ’’قِثَّاءٌ‘‘ کے معنی ہیں ’’ککڑی‘‘ اور عام مترجمین نے یہی لفظ اختیار کیا ہے (پنجابی میں اسے ’’تر‘‘ کہتے ہیں) یہ (قثاء) اسم جنس ہے جب کسی ایک ککڑی کی بات ہورہی ہو تو اس پر تائے وحدت لگا کر ’’قِثَّاء ۃٌ‘‘ کہیں گے۔ یہ لفظ (قثاء) بھی قرآن کریم میں صرف ایک دفعہ اسی جگہ آیا ہے۔ ’’وقثائھا‘‘ کا مطلب ہے ’’اس کی ککڑی‘‘ یعنی ’’زمین سے اگنے والی ککڑی‘‘

۱:۳۹:۲ (۶)     [وَفُوْمِھَا] وَ(اور) + فُوم + ھا (اس کی) کا مرکب ہے لفظ ’’فُوْمٌ‘‘ جو عبارت میں مجرور اور خفیف ہے) کا مادہ ’’ف و م‘‘ اور وزن ’’فُعْلُ‘‘ہے اس مادہ سے بھی کوئی فعل مجرد استعمال نہیں ہوتا۔ بلکہ مزید فیہ کے بھی صرف باب تفعیل سے ’’روٹی پکانا‘‘ (اِختَبَز) کے معنی میں آتا ہے اور وہ بھی بہت قدیم اور متروک استعمال ہے ۔ قرآن کریم میں اس سے کسی قسم کا صیغۂ فعل کہیں بھی نہیں آیا۔ بلکہ اس مادہ سے یہی لفظ (فوم) صرف اسی جگہ ایک ہی دفعہ آیا ہے۔

لفظ ’’فُوْم‘‘ کے متعدد معنی بتائے گئے ہیں مثلاً (۱) لہسن (۲) گندم (۳) چنا اور (۴) ’’اناج‘‘ یعنی تمام اجناس خوردنی کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں زیر مطالعہ آیت میں اردو مترجمین نے اس کا ترجمہ  ’’گیہوں‘‘ ہی کیا ہے۔ فارسی تراجم میں ’’سیر‘‘ یعنی لہسن اختیار کیاگیا ہے۔ انگریزی والوں نے’’CORN‘‘ہی لیا ہے جو دانۂ گندم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ’’لہسن‘‘ مراد لینے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن مسعودؓ کی قراء ت میں اسے ’’ثَوْم‘‘ بھی پڑھا گیا ہے اور ’’ثوم‘‘ عربی میں لہسن ہی کو کہتے ہیں۔ گویا اس قراءت سے معنی کا تعین ہو سکتا ہے۔ لفظ ’’فوم‘‘ بھی اسم جنس ہے۔ لہسن کی ایک پوتھی یا گندم وغیرہ کے ایک دانہ کو ’’فُوْمہ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’وفومھا‘‘ یعنی اس زمین کا (اُگایا ہوا) ’’فوم‘‘۔

۱:۳۹:۲ (۷)     [وَعَدَسِھَا] ’’وَ‘‘ عاطفہ اور ضمیر ’’ھا‘‘ کے علاوہ اس مرکب کا لفظ’’عَدَس‘‘ (یہ بھی عبارت میں مجرور اور خفیف) ہے۔ اس کا مادہ (ع د س) اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’عدَس یعدِس عَدْسًا‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اسکے معنی ’’جانا،  چلے جانا‘‘ ہوتے ہیں مثلا کہتے ہیں ’’عدَس فی الارضِ‘‘ (زمین میں دور چلا گیا) اور یہ بطور فعل متعدی ’’خدمت کرنا ‘‘کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً ’’عدس فلانًا‘‘  (اس نے فلاں کی خدمت کی)۔ اور بصورت مجہول ’’عدسہ(جو ایک مہلت بیماری ہے) میں مبتلا ہونا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں۔ ’’عُدِس فلانٌ‘‘ (فلاں کو ’’عدسہ‘‘ ہوگیا) تاہم قرآن کریم میں اس سے کسی معنی میں بھی کوئی صیغۂ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ سے صرف یہی ایک لفظ (عدس) اسی (زیر مطالعہ)  ایک جگہ آیا ہے۔ اس لفظ کا اردو ترجمہ ’’مسور‘‘ ہے۔ جو بصورتِ دال یا سالم سالن کے لیے پکایا جاتا ہے۔ یہ بھی اسم جنس ہے۔ مسور کے ایک دانہ یا چند دانوں کی بات ہوتو ’’تائے وحدت لگا کر ’’عدسۃ‘‘ بولتے ہیں۔ عینک کے شیشے (ایک خاص قسم) کو بھی ’’عدسہ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ وہ مسور کے دانے کی طرح درمیان سے موٹا اور پتلے کناروں والا ہوتا ہے جسے انگریزی میں’’ LENS‘‘ کہتے ہیں۔ جو ’’عدسۃ‘‘ (مسور) کا لفظی لاطینی ترجمہ ہے۔

’’وعدسِھا‘‘ کا مطلب بھی ’’اس (زمین) کے (اگائے ہوئے) مسور‘‘ ہے۔

۱:۳۹:۲ (۸)     [وَبَصَلِھَا] یہاں بھی ابتدائی ’’و‘‘ عاطفہ (بمعنی اور) ہے اور آخر پر ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ (بمعنی اس کا/ کی) ہے۔ درمیان والے لفظ ’’بَصَل‘‘ کا مادہ ’’ب ص ل‘‘ اور وزن ’’فَعَلٌ‘‘ ہے (عبارت میں ’’بصل‘‘ مجرور اور خفیف ہے جس کی وجہ ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگی)

·       اس مادہ سے فعل مجرد استعمال ہی نہیں ہوتا۔ مزید فیہ کے باب تفعیل سے فعل ’’کپڑے اتار لینا‘‘ کے معنی دیتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’بَصَّلہ من ثیابہ‘‘ (اس نے اس کے کپڑے اتروا دیئے) اور باب تفعّل سے بھی فعل ان مذکورہ (کپڑے اتروانا کے) معنوں کے علاوہ ’’کسی چیز کے چھلکے پیاز کی طرح تہ بہ تہ ہونا‘‘ کے معنی بھی رکھتا ہے مثلاً ’’تبصل الشیُٔ‘‘ (اس چیز کے چھلکے تہ بہ تہ تھے) تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ اس مادہ سے بھی (گزشتہ الفاظ ’’بَقْل ،فوم، قثاء اور عدس‘‘ کی طرح) صرف یہی ایک لفظ (بصلٌ) صرف اسی ایک جگہ آیا ہے۔

·       ’’بَصَلٌ‘‘ عربی میں ’’پیاز ‘‘کو کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں سندھی میں اب تک پیاز کو ’’بصل‘‘ ہی کہا جاتا ہے اور پنجابی کا لفظ ’’وَصل‘‘ بھی اسی کی بگڑی ہوئی شکل ہے اوریہ (بصل) بھی اسم جنس ہے ۔ پیاز کے ایک یا چند دانوں (گنڈوں) کی بات ہوتو اسے ’’بَصَلَۃٌ‘‘ ہی کہیں گے۔ ’’وَبصَلِھَا‘‘ کاترجمہ’’اور اس (زمین) کے (اُگے ہوئے) پیاز‘‘ ہوگا۔

۱:۳۹:۲ (۹) [قَال اَتستَبْدِلُوْنَ] ’’قال‘‘ (بمعنی ’’اس نے کہا‘‘) جس کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلَ‘‘ ہے، کے مادہ، باب اور معنی و استعمال بلکہ اس کی تعلیل حرفی پر بھی پہلی دفعہ البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۵)] اور اس کے بعد البقرہ:۳۰ [۱:۲۲:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔

’’اَتَسْتَبْدِلُوْنَ‘‘  کا ابتدائی ہمزہ (أ) استفہام کا (بمعنی ’’کیا؟‘‘) ہے۔ اور ’’تستبدلون‘‘ کا مادہ ’’ب دل‘‘ اور وزن ’’تَسْتَفْعِلُوْن‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کا باب، معنی وغیرہ البقرہ:۵۹ [۱:۳۷:۲ (۹)]میں بیان ہوچکے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (تستبدلون) اس مادہ سے باب استفعال کے فعل مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اس باب سے فعل ’’استَبْدَل یَسْتَبدِل اِسْتَبدالاً‘‘ کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کو دوسری چیز سے بدل لینا یا تبدیل کرلینا‘‘ یعنی ’’ایک شے دے کر دوسری لے لینا‘‘ (’’بدل‘‘ اور ’’تبدیل‘‘ عربی لفظ ہیں جو اپنے اصل معنی کے ساتھ اردو میں بھی مستعمل ہیں)۔ اس فعل کا استعمال تین طرح ہوتا ہے (۱) جو چیز بدل کر ’’لی‘‘جائے وہ اس فعل کے ساتھ مفعول ہوکر (براہِ راست) مزکور ہوتی ہے۔ اور جو چیز بدلے میں’’دی‘‘ جائے اس پر باء (بِ) کا صلہ لگتا ہے مثلاً کہتے ہیں: ’’استبدلَ الشیَٔ بکذا‘‘ (اس نے چیز دے کر وہ (فلاں چیز) لے لی (۲) کبھی ’’باء (بِ)‘‘ کے صلہ کی بجائے دوسری (دی جانے یا چھوڑے جانے والی) چیز پر لفظ ’’مکان‘‘ (کی جگہ) بطور ظرف منصوب اور مضاف ہوکر لگتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’استبدل الشیَٔ مکان کذا‘‘ (اس نے وہ چیز دے کر اس کی جگہ فلاں چیز لے لی یا بدل لی) اور (۳) بعض دفعہ دوسری چیز (جس کا ’’بِ‘‘ یا ’’مکان‘‘ کے ساتھ ذکر ہوتا ہے۔ محذوف (غیر مذکور) کردی جاتی ہے اور جو چیز بدل کر لی یا لائی جائے صرف وہی بطور مفعول مذکور ہوتی ہے جیسے ’’استبدلَ الشیَٔ‘‘ (اس نے چیز بدل لی یا بدل کر لے لی)

·       قرآن کریم میں اس باب (استفعال) سے اس فعل کے مختلف صیغے چار جگہ آئے ہیں اور مذکورہ تینوں طریقوں پر استعمال ہوئے ہیں۔ زیر مطالعہ عبارت ’’أتستبدلون‘‘ کا ترجمہ ’’کیا تم بدل کرلیتے ہو/ لینا چاہتے ہو‘‘ ہے جسے بعض نے ’’کیا تم عوض میں لینا چاہتے ہو۔ تم بدلے میں لینا چاہتے ہو، کیا تم بدلے میں مانگتے ہو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے یہ ’’مانگتے ہو‘‘ والا ترجمہ لفظ سے تو ہٹ کر ہے مگر ان لوگوں کے ‘‘مطالبہ‘‘ کی روشنی میں بلحاظ محاورہ بالکل درست ہے۔ اسی طرح بعض نے اس کا ترجمہ صرف ’’کیا تم چاہتے ہو‘‘ کیا ہے جو بلحاظ مفہوم ہی درست کہا جاسکتا ہے۔

۱:۳۹:۲ (۱۰)     [الَّذِیْ ھُوَاَدْنٰی] یہ ’’الذی‘‘ (اس کو جو کہ) + ’’ھَوَ‘‘ (وہ ہے) + ’’اَدْنی‘‘ (جس پر ابھی بات ہوگی) کا مرکب ہے۔ لفظ ’’اَدْنٰی‘‘ کا مادہ ’’د ن و‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعَلْ‘‘ (غیر منصرف) ہے۔ اصلی شکل ’’اَدْنَوا‘‘ بنتی تھی۔ جس میں واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف (مقصورہ) میں بدل جاتی ہے جو بصورت ’’ی‘‘ لکھا جاتا ہے (عربی میں ’’ادنا‘‘ لکھنا غلط  ہے۔)

·       اس مادہ (د ن و) سے فعل مجرد دو طرح آتا ہے (۱) دنَا ید نُو (دراصل دنَوَ یدنُوُا دُنُوّاً (باب نصر سے) آئے تو اس کے معنی ہیں: ’’نزدیک ہونا، قریب ہونا‘‘ یہ فعل لازم ہے مگر جس شخص یا چیز یا جگہ وغیرہ سے نزدیک ہونے کا ذکر کرنا ہوتو اس میں ’’من‘‘ یا ’’اِلٰی‘‘ یا ’’لام‘‘ (لِ) کا صلہ لگتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’دنا منہ/ والیہ/ ولَہ‘‘  (وہ اس کے نزدیک ہوا) ۔ (۲) دنِیَ  یَدْنیٰ (دراصل دنِوَ یدنَوُ۔جس میں آخری ’’و‘‘ کو ’’ی‘‘ میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے(رضِیَ یرضَی کی طرح) دَنَایَۃً (باب سمع) آئے تو اس کے معنی ہیں:’’گھٹیا اور حقیر ہونا یا ہوجانا‘‘۔ اسی سے صفت مشبہ ’’دَنِیٌّ‘‘ (بروزن فعِیْلٌ) آتی ہے جس کے معنی ’’گھٹیا، کم درجے کا، جس میں کچھ بھلائی نہ ہو‘‘ ہوتے ہیں۔ دراصل یہ مہموز اللام مادہ ’’د ن ء‘‘ کے سے معنی رکھتا ہے جس سے فعل مجرد ’’دنَأَ یدنَأُ دنائَ ۃً‘‘ (فتح سے) کے معنی بھی یہی (گھٹیا ہونا) ہوتی ہیں۔ البتہ یہ مہموز والا مادہ قرآن کریم میں نہیں آیا۔

·       قرآن کریم میں اس زیر مطالعہ مادہ (دن و) سے صرف پہلی صورت والے فعل مجرد (نصر والا) سے ایک ہی صیغہ ایک جگہ (النجم:۸) آیا ہے۔  اور مزید فیہ کے بابِ افعال سے بھی ایک ہی صیغہ  (الاحزاب:۵۹) البتہ اس مادہ سے اور اس کے فعل مجرد سے مشتق اسماء (معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں) ۱۳۲ جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ کلمہ (اَدْنَی) اس مادہ (دنو) کے فعل مجرد سے(چاہے جس باب سے سمجھ لیں) افعل التفضیل کا صیغہ برائے واحد مذکر ہے اور دونوں ابواب (مذکورہ بالا) سے اس کا صیغہ مونث ’’فُعْلٰی‘‘ کے وزن پر ’’دُنْییٰ‘‘ بنتا ہے جس کی املاء ’’دنیا‘‘ رائج ہے۔ ’’ادنی‘‘ کی جمع عموماً سالم ’’اَدْنُوْن‘‘ آتی ہے اگرچہ اس سے جمع مکسر اَدَانِیْ (بروزن اَفاعِلُ) بھی آتی ہے اور مونث (دنیا) کی جمع مکسر ’’دُ نیً‘‘ (بروزن فُعُلً) بھی آتی ہے۔ قرآن کریم میں اس لفظ سے (مذکر یا مونث کسی سے بھی) جمع استعمال نہیں ہوئی۔

·       اب اگر اس لفظ (ادنی) کو باب نصر والے فعل (دنایدنو) سے لیا جائے تو اس کے معنی ’’سب سے زیادہ نزدیک، نزدیک ترین‘‘ (دنیاوی زندگی کے فوائد کے لحاظ سے) ہوں گے۔ اور اگر اسے (ادنی کو) باب سمع والے فعل سے سمجھا جائے تو اس کے معنی ’’سب سے گھٹیا یا بے قدر و قیمت یعنی معمولی سا‘‘ ہوں گے۔

قرآن کریم میں یہ لفظ (ادنی) مندرجہ بالا دونوں ہی معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کے ۱۲ جگہ آنے والے صیغوں میں سے کم از کم دو جگہ یہ ’’گھٹیا اور  حقیر‘‘ والے معنی میں آیا ہے اور باقی مقامات پر یہ ’’زیادہ قریب ‘‘والے معنی کے لیے استعمال ہوا ہے۔

·       یہاں زیر مطالعہ عبارت میں بھی یہ لفظ اسی (گھٹیا اور حقیر والے) معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس طرح ’’الذی ھوادنی‘‘ (زیر مطالعہ جملہ) کا ترجمہ بنتا ہے ’’وہ چیز جو کہ گھٹیا یا حقیر ہے‘‘۔ اور اسی ترجمہ کو بیشتر حضرات نے ’’وہ جو ادنی ٰہے، وہ جو ناقص ہے، جو ادنی ٰدرجہ کی ہے‘‘ کی شکل دی ہے۔ بعض نے محاورہ کے لیے ’’الذی‘‘ اور ’’ھُوَ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرتے ہوئے صرف ’’ادنی  ٰچیز، گھٹیا چیز ‘‘سے ترجمہ کردیا ہے۔ جب کہ بعض نے بلا وجہ (یا بہت سی اشیاء کے مطالبہ والے مضمون کی بناء پر) جمع کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’ناقص چیزیں‘‘ یا ’’ادنی  ٰدرجہ کی چیزیں‘‘ کی صورت میں۔

[بِالَّذِیْ ھُوَ خَیرٌ] یہ چار کلمات یعنی ’’ب‘‘(کی بجائے ، کے عوض، کے بدلے میں، کو چھوڑ کر)+ ’’الذی‘‘ (وہ جو کہ، اس کو جو کہ)+ ’’ھُوَ‘‘ (وہ ہے)+ ’’خَیْرٌ‘‘ (زیادہ اچھی، بہتر، عمدہ) کا مرکب ہے۔

اگر دیکھنا چاہیں تو ’’بالجر (ب)‘‘ کے معانی و استعمال کے لیے البقرہ:۴۵ [۱:۳:۲(۱)] اور ’’الذی‘‘ کے لیے الفاتحہ:۷  [۱:۶:۱(۱)]اور کلمہ ’’خَیْرٌ‘‘کے مادہ، وزن، فعل اور معنی وغیرہ کے لیے البقرہ:۵۴ [۱:۳۴:۲ (۵)] میں دیکھ لیجئے۔

·       اس طرح اس حصہ عبارت (بالذی ھو خیر) کا ترجمہ ’’بدلے اس چیز کے جو بہتر ہے‘‘۔ بنتا ہے جسے بعض نے وضاحتی ترجمہ کی صورت دی ہے یعنی ’’اس کے بدلے میں جو زیادہ بہتر ہے‘‘، ’’ ایسی چیز کے مقابلے میں جو اعلیٰ درجہ کی ہے‘‘۔ اور ’’اس چیز کے مقابلے میں جو بہتر ہے‘‘  کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ بعض مترجمین نے ’’الذی‘‘ اور ’’ھو‘‘ کا ترجمہ (اردو محاورے کی بنا پر) نظر انداز کرتے ہوئے ’’بڑھیا (اعلیٰ) چیز کے بدلے، بہتر کے بدلے میں‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ خیال رہے ان تمام تراجم میں ’’بِ‘‘ وہی ہے جو فعل ’’استبدل‘‘ کے ساتھ متروک (چھوڑ دی ہوئی چیز) پر استعمال ہوتی ہے دیکھئے [۱:۳۹:۲ (۹)]

۲: ۳۹ :۲(۱۱)     [اِھْبِطُوْا] کا مادہ ’’ ہ ب ط‘‘ اور وزن ’’اِفْعِلُوْا‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ سے فعل مجرد کے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (ھبَط یھبط=اترنا) کے باب معنی وغیرہ کی وضاحت البقرہ:۳۶ [۱:۲۶:۲ (۷)]میں کی جاچکی ہے۔

یہاں ’’اھبطوا‘‘ کا ترجمہ بطور فعل لازم ’’تم اترو، (جاکر) اترو‘‘ اور ’’اتر پڑو‘‘ سے کیا گیا ہے۔ جس میں مفہوم ’’جاکر رہو، ڈیرہ لگاؤ‘‘ کا ہے۔ فعل ’’ھَبط یھبِط‘‘ کے بنیادی معنی تو (جیسا کہ [۱:۲۶:۲ (۷)] میں بیان ہوا) ’’بلندی‘‘(پہاڑ وغیرہ) سے نیچے اترنے ‘‘کے ہیں۔ تاہم یہ فعل بعض دفعہ ’’نَزَل‘‘ (ض) ’’کسی جگہ پڑاؤ کرنا‘‘ اور ’’انتقل‘‘ (ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانا) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور زیر مطالعہ آیت میں اس کے یہی آخری معنی زیادہ موزوں ہیں۔

۱:۳۹:۲ (۱۲)      [مِصْرًا] کا مادہ ’’م ص ر‘‘ اور وزن ’’فِعْلًا‘‘ (بصورت منصوب) ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’مصَر. . . یمصُر مَصْرًا‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’بکری یا اونٹنی کا دودھ تین انگلیوں یا صرف انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی (سبابہ) سے نکالنا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’مَصَر الناقۃَ‘‘ (اسے پنجابی میں ’’پلکنا‘‘ کہتے ہیں) لیکن اس معنی کے لیے یہ فعل (مجرد) قریباً متروک الاستعمال ہے۔ اس لیے بعض معاجم (ڈکشنریوں) میں اس کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (مثلاً تفعیل اور تفعّل) سے ’’کسی جگہ کی حدود مقرر کرنا‘‘ یا ’’کوئی شہر بسانا‘‘ کے معنی میں فعل آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔

·       ’’مِصْرٌ‘‘ (جو اس مادہ سے ماخوذ ایک اسم ہے) کے بنیادی معنی ’’دوچیزوں کے درمیان ایک حد فاصل ‘‘کے ہیں۔ اور ’’مِصْرٌ‘‘ عموماً کسی شہر یا قصبہ کو کہتے ہیں جس میں تھانہ عدالت موجود ہو اور حدود اللہ کے نفاذ کا بندوبست ہو۔ ابتدائی اسلامی تاریخ میں یہ لفظ ’’صوبائی صدر مقام‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ اور اس کی جمع مکسر ’’اَمْصَار‘‘ ہے۔ اور بصورت تثنیہ (مصْرانِ مصرَینِ) یہ کوفہ اور بصرہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جب یہ لفظ ملک مصر کے لیے آئے تو یہ غیر منصرف (مصرُ۔ مصرَ) ہوتا ہے۔ اور جب کسی شہر کے معنی میں ہو تو معرب ہوتا ہے (جیسے یہاں ہے) قرآن کریم میں لفظ ’’مصر‘‘ بمعنی شہر تو صرف اسی جگہ (زیر مطالعہ) جگہ آیا ہے اور ’’مصر‘‘ (بمعنی ملک مصر) چار جگہ آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ’’مِصْرًا‘‘ کا ترجمہ ’’کسی شہر (میں) سے کیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے اس کا ترجمہ ’’مصر‘‘ ہی کر دیا ہے۔ جو عبارت اور تاریخ دونوں کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔

 [فَاِنَّ لکُمْ] یہ چار کلمات یعنی ’’فاء (فَ) (بمعنی پس۔ چنانچہ) +’’اِنّ‘‘ (بے شک+ لام الجر (لِ) بمعنی ’’کے لیے + ’’کم‘‘ (تمہارے) کا مرکب ہے۔ یہ کلمات پہلے بھی کئی دفعہ گزر چکے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ’’فا (فَ)‘‘ کے لیے البقرہ:۲۲ [۱:۱۶:۲ (۱۰)]’’اِنَّ‘‘ کے لیے البقرہ:ــــ ۶ [۱:۵:۲(۱)]اور’’لام‘‘ (ل) کے لیے الفاتحہ:۲ [۱:۲:۱(۴)]دیکھ لیجئے۔ ’’کُمْ‘‘ تو ضمیر مجرور ہے۔

·       اس طرح یہاں اس عبارت (فاِنَّ لکم)کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’پس تحقیق (یقیناً) تمہارے لیے ہے‘‘ اور اسی مفہوم کو بامحاورہ عبارت میں ’’تو تم کو ملے گا‘‘ (وہاں) تمہیں ملے گا‘‘ ’’(وہاں) مل جائے گا تم کو‘‘ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ یہاں ’’مل جانا‘‘ کے ساتھ ترجمہ اس لیے موزوں ہے کہ یہ ان کے بعض چیزوں کے مطالبہ کرنے کے جواب میں کہا گیا ہے۔ یعنی ایک طرح سے یہ تفسیری ترجمہ ہے ’’یعنی جو مانگتے ہو مل جائے گا‘‘ بلکہ اسی ’’مانگنے‘‘ کا ذکر اگلی عبارت میں ہے۔

۱:۳۹:۲(۱۳)     [مَا سَأَلْتُمْ] ’’مَا‘‘ اسم موصول (بمعنی ’’وہ جوکہ، جو کچھ کہ‘‘) ہے اس (مَا)کے معنی و استعمال پر البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)]میں نیز البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۲)]میں بات ہوچکی ہے۔

اور ’’سَأَلْتُمْ‘‘ کا مادہ ’’س ء ل‘‘ اور وزن ’’فعلتم‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سَأَل. . .یَسْأَلُ سُؤَالًا‘‘ (فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’. . . سے (کوئی چیز) مانگنا‘‘ اور چونکہ اس کا مصدر ’’سُؤَال‘‘ اردو میں بصورت ’’سوال‘‘ مستعمل ہے اس لیے اس کا ترجمہ ’’سوال کرنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ محاوراتی استعمال میں یہ فعل ’’دریافت کرنا، پوچھنا، جواب مانگنا، باز پرس کرنا اور طلب کرنا‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ فعل ان (مذکورہ بالا) سب معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل (سأل یسأل) سے مختلف صیغے (ماضی، مضارع، امر، نہی، معروف، مجہول وغیرہ) ۱۰۶ جگہ آئے ہیں۔ مزید فیہ کے باب تفاعل سے کچھ صیغے آٹھ جگہ آئے ہیں اور مصادر و اسماء مشتقہ ۱۴ جگہ آئے ہیں۔

·       ’’سأل یسأل‘‘ ہمیشہ بطور فعل متعدی استعمال ہوتا ہے۔ جب یہ’’مانگنا اور طلب کرنا‘‘ کے معنی میں آئے تو اس کے دو مفعول ہوتے ہیں (۱) جس سے مانگا جائے (۲) اور جو چیز مانگی جائے اور دونوں بنفسہٖ(بغیر صلہ کے) منصوب ہوکر آتے ہیں جیسے ’’ مَنْ لَّا يَسْـَٔــلُكُمْ اَجْرًا ‘‘ (یٰسٓ:۲۱) یعنی ’’جو تم سے کچھ اجر نہیں مانگتا‘‘ یا ’’ لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا  ‘‘ (طہ:۱۳۲) یعنی ’’ہم تجھ سے کوئی روزی نہیں مانگتے‘‘۔ بعض دفعہ دوسرا مفعول محذوف بھی کردیا جاتا ہے جیسے ’’ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ‘‘ (البقرہ:۲۷۳) میں یہ مذکور نہیں کہ وہ لوگوں سے کیا نہیں مانگتے؟ جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اور کبھی دوسرے مفعول پر ’’من‘‘ (بیان یا تبعیض کے لیے) لگتا ہے جیسے ’’ وَسْـــَٔـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ ‘‘ (النساء:۳۲) میں ’’فَضلَہٗ‘‘ کو ’’مِنْ فضلہ‘‘ کردیا گیا ہے۔

·       اور اگر ’’سأل‘‘ پوچھنا (یعنی جواب مانگنا) دریافت کرنا یا ’’باز پرس کرنا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتو بھی اس کے مفعول تو دو ہی آتے ہیں (۱) ایک وہ جس سے پوچھا جائے (۲) دوسرا وہ جس کے بارے میں پوچھا جائے۔ اس صورت میں پہلا مفعول تو بنفسہٖ آتا ہے اور دوسرے مفعول پر ’’عَنْ‘‘ کا صلہ لگتا ہے جیسے ’’ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ ‘‘ (الاعراف:۱۸۷) یعنی’’وہ تجھ سے پوچھتے ہیں قیامت کے بارے میں‘‘ اور کبھی ’’عن‘‘ کی بجائے (دوسرے مفعول پر) ’’ب‘‘ کا صلہ لگتا ہے جیسے ’’ فَسْـَٔــلْ(فاسأل) بِهٖ خَبِيْرًا  (الفرقان:۵۹) یعنی ’’ اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھ‘‘ اور بعض دفعہ پہلا مفعول حذف کردیا جاتا ہے۔ صرف دو مذکور ہوتا ہے جیسے ’’ سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ ‘‘ (المعارج:۱) یعنی’’ایک پوچھنے والے نے عذاب کے بارے میں پوچھا‘‘ یہاں ’’کس سے پوچھا؟‘‘ مذکور نہیں ہے۔ قرآن کریم میں آگے چل کر یہ تمام استعمالات ہمارے سامنے آئیں گے اور ان پر مزید بات اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’سألتم‘‘ اس فعل مجرد سے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے اور یہاں ’’سأل یسأل‘‘ مانگنا اور طلب کرنا‘‘ کے معنی میں ہے۔ یہاں پہلا مفعول (کس سے مانگا؟) محذوف ہے بلکہ دوسرے مفعول (جو مانگا؟) یعنی ’’مَا‘‘ کی ضمیر عائد بھی محذوف ہے۔ یعنی ’’مَاسألتم‘‘ دراصل (مقدر) ’’مَاسألتُمُونا‘‘ تھا یعنی ’’وہ جو تم نے ہم سے مانگا‘‘ یا ’’جو تم مانگتے ہو ہم سے‘‘ اس طرح ’’مَاسألتم‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ہے ’’وہ جو تم نے مانگا‘‘ اسی کو سیاق عبارت کی بناء پر اردو محاورے کے مطابق ماضی کی بجائے فعل حال سے ترجمہ کیا گیا ہے یعنی ’’جو مانگتے ہو، جو کچھ مانگتے ہو‘‘ اور ’’جس (چیز) کی تم درخواست کرتے ہو‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض نے اصل فعل ماضی کے ساتھ ہی ترجمہ کردیا ہے یعنی ’’جو تم نے مانگا‘‘ کی صورت میں۔

[وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ] جو ’’وَ‘‘ (اور)+ ضُرِبَتْ (ماری گئی) +  ’’علی‘‘ (کے اوپر) + ’’ھِمْ‘‘ (ان) کامرکب ہے  اس میں ’’ھِمْ‘‘ دراصل ’’ھُمْ‘‘ ہی تھا مگر شروع میں ’’علی‘‘ لگنے سے ’’ ھِمْ‘‘ ہوا پھر آگے ملانے کے لیے خلاف قیاس ’’م‘‘ کو کسرہ کی بجائے ضمہ (ـــــُـــــ) دیا گیا ہے۔ اس میں فعل ’’ضُرِبَتْ‘‘ کا مادہ ’’ض ر ب‘‘ اور وزن ’’فُعِلَت‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’ضربَ یضرِب ضربًا‘‘ کا باب اور بعض معانی البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۲)]میں اور پھر البقرہ:۶۰ [۱:۳۸:۲ (۲)]میں بیان ہوچکے ہیں۔ یہ فعل مختلف صلات کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے۔ اس طرح ’’ضربَ . . . علیٰ. . . ‘‘ کے معنی ہوتے ہیں ’’. . .کو . . . پر مسلط کرنا، تھوپ دینا، لازم قرار دینا‘‘.

·       ’’ضُرِبْتْ‘‘ فعل مجہول (فعل صیغہ واحد مونث غائب) ہے۔ اس لیے یہاں ’’ضُرِبَتْ علیھم‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’ماری گئی ان پر‘‘ اور اسی کا بامحاورہ ترجمہ ’’ڈالی گئی،ڈال دی گئی،  لیس دی گئی، مقرر کردی گئی، جمادی گئی (ان پر)‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اور بعض نے ’’چمٹا دی گئی ان سے‘‘ بھی ترجمہ کیا ہے۔ ان سب تراجم میں وہی ’’مسلط کرنا، تھوپ دینا‘‘ والا مفہوم موجود ہے البتہ جنہوں نے ’’جم گئی‘‘ سے ترجمہ کیا ہے وہ درست نہیں کیونکہ فعل مجہول کا ترجمہ فعل لازم سے کرنے کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔

۱:۳۹:۲ (۱۴)     [الذِّلَّۃُ] کا مادہ ’’ذل ل‘‘ اور وزن لام تعریف نکال کر ’’فِعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’ذلَّ یذِلُّ ذُلاًّ وَذِلَّۃً‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی  معانی ہیں: ’’رام ہونا، آسانی سے قابو میں آجانا‘‘ پھر اس سے یہ فعل ’’خوار ہونا، عزت سے محروم ہونا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اسی سے مشتق لفظ ’’ذلیل‘‘ (بروزن فعیل) بمعنی ’’خوار‘‘ اردو میں مستعمل ہے اس لیے اس فعل کا ترجمہ ’’ذلیل ہونا‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے مضارع کا صرف ایک صیغہ ایک ہی جگہ (طہ:۱۳۴) آیا ہے او رمزید فیہ کے بابِ افعال اور تفعیل سے بھی کچھ صیغے تین جگہ آئے ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف معانی کے لیے مختلف مصادر اور اسماء مشتقہ بھی بیس جگہ آئے  ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’الذلۃ‘‘ اس فعل مجرد کا مصدر بھی ہے۔ (بمعنی خوار ہونا) اور یہ اسم بھی ہے اور اس کے معنی ’’خواری، بے عزتی، گھٹیا پن‘‘ کے ہیں۔ اور خود یہی لفظ تائے مبسوط کی املاء (ذلت) کے ساتھ اردو فارسی میں اپنے اصل عربی مفہوم کے ساتھ مستعمل ہے یہی وجہ ہے کہ تمام ارددو فارسی مترجمین نے اس کا ترجمہ یہی (ذلت ہی) کیا ہے۔ یہ لفظ (ذلۃ) مختلف صورتوں (معرفہ نکرہ وغیرہ) میں قرآن کریم کے اندر سات جگہ وارد ہوا ہے۔

۱:۳۹:۲ (۱۵)     [وَالْمَسْکَنَۃُ]کی ’’و‘‘ عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔ اور ’’المسکنۃ‘‘ کا مادہ ’’س ک ن‘‘ اور وزن لام تعریف کے بغیر ’’مَفْعَلَۃٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’سکن یسکُن‘‘ کے باب اور مختلف معانی پر البقرہ:۳۵ [۱:۲۶:۲ (۱)]میں بات ہوئی تھی۔

·       اس فعل کی ایک صورت ’’سکُن یسکُن سُکُونۃ‘‘ (باب کرم سے) کے معنی ہیں ’’مسکین ہونا یا  ہوجانا‘‘ (لفظ ’’مسکین‘‘ بروزن ’’مفْعِیل‘‘ اسی مادہ (سکن) سے ماخوذ ہے اور ’’مسکین‘‘ کے معنی ہیں ’’غریب، تنگدست اور محتاج‘‘ اسی لفظ (مسکین) سے مزید فیہ کا ایک فعل ’’تَمَسْکَنَ یَتَمَسْکَنُ تَمَسُکُنًا ‘‘ بمعنی ’’مسکین ہونا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ [1]

·       ’’الَمسکَنَۃ‘‘ بھی اسی لفظ (مسکین) سے ماخوذ لفط ہے جس کے معنی ہیں: ’’مسکین ہونے کی حالت‘‘ یا ’’مسکینی‘‘ اسی لیے اس (المسکنۃ) کا ترجمہ ’’فقیری، محتاجی، ناداری‘‘ کیا گیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’پستی، پست ہمتی‘‘ بھی کیا ہے جو تفسیری ترجمہ ہے اور فعل ’’سکُن یسکُن‘‘ کے بنیادی معنی (رک جانا) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ لفظ (المسکنۃ) قرآن کریم میں صرف دو بار آیا ہے۔

۱:۳۹:۲(۱۶)     [وبَآءُوْا] ’’وَ‘‘ عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) ہے اور ’’بَائُ وْا‘‘ (یہ اس کا رسم املائی ہے رسم قرآنی پر آگے بحث ’’الرسم ‘‘میں بات ہوگی) کا مادہ ’’ب ء و‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوا‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’بَوَئُ وا‘‘ تھا جس میں واؤمتحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لکھی اور بولی جاتی ہے۔ اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’بائَ یَبُوئُ(دراصل بَوَأَیَبْوُئُ ا بَوْءًا‘‘ (باب نصر) کے معنی ہوتے ہیں: ’’لوٹنا، لوٹ کر آنا‘‘ یہ فعل عموماً لازم ہی استعمال ہوتا ہے مگر جب اس کے ساتھ ’’باء (ب)‘‘ کا صلہ لگتا ہے تو یہ متعدی ہوجاتا ہے (ذھب اورذھَب بِ. . .کی طرح) اس طرح ’’باء بِ. . . ‘‘ کا ترجمہ ہوگا: ’’وہ.  . . کے ساتھ لوٹا‘‘ یا ’’وہ. . . کولوٹا لایا‘‘۔

·       اس فعل کے کچھ اور استعمالات بھی ہیں۔ مثلاً لام کے صلہ کے ساتھ ’’باء لِفلانٍ  بحِقِّہ‘‘ کے معنی ہیں: ’’. . .کے سامنے . . .کا اقرار کرنا‘‘ (یعنی فلاں کے سامنے اس کے حق کا اقرار کیا) اور ’’باء بذنبہ‘‘ کے معنی بھی ’’اپنے گناہ کا اعتراف کرنا‘‘  ہیں ۔ اس فعل کا یہ استعمال قرآن کریم میں تو نہیں آیا۔ مگر حدیث کی مشہور دعا ’’سید الاستغفار‘‘ میں آیا ہے۔ ’’اَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْءُ بِذَنْبِی ‘‘ (میں اپنے اوپر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں او رمیں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں)

·       اس فعل (باء یبُوء) سے مختلف صیغے قرآن کریم میں پانچ جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ ’’بائَ بِ‘‘ یعنی ’’. . . لے کر لوٹنا‘‘ والے معنی کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔ مزید فیہ کے ابواب تفعیل اور تفعل سے اَفعال کے کچھ صیغے بھی گیارہ جگہ آئے ہں اور ان میں سے بعض صیغے رسم عثمانی (قرآنی) کے مطابق خاص طریقے پر لکھے جاتے ہیں۔ ان سب پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

[بِغَضْبِ مِّنَ اللّٰہ] جو ’’ب‘‘ + ’’غَضَب‘‘ + ’’من‘‘ + ’’اللّٰہ‘‘کا مرکب ہے۔ ان میں سے ’’باء ب‘‘ تو اوپر بیان کردہ فعل ’’بَائُ وا‘‘ کا صلہ ہے جس کے معنی ابھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ کلمہ ’’غضب‘‘ جو اردو میں بھی مستعمل ہے) کے مادہ، باب معنی وغیرہ البقرہ:۷ [۱:۶:۱ (۵)]میں بیا ن ہوئے ہیں۔ ’’من‘‘ یہاں کی طرف سے کی جانب سے‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ (’’مِن‘‘ کے استعمالات کے لیے دیکھئے البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۵)]

·       اس طرح اس حصہ آیت ’’وباء وابغضب من اللّٰہ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’وہ لوٹے اللہ کے ایک (بڑے) غضب کے ساتھ‘‘۔ اکثر مترجمین نے الفاظ عبارت سے قریب رہتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’پھرےاللہ کا غضب لے کر‘‘، ’’لوٹے اللہ کا غضب لے کر‘‘، ’’خدا کے غضب میں لوٹے‘‘ سے کیا ہے۔ بعض نے ’’خدا کے غضب میں آگئے‘‘، ’’وہ آگئے اللہ کے غصہ میں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ’’آگئے‘‘ تو ’’لوٹے‘‘ ہی کے قریب ہے۔ اور ’’غضب یا غصّہ کے ساتھ‘‘ کی بجائے ’’غضب یا غصہ میں‘‘ بامحاورہ اردو ترجمہ ہے۔ بعض نے محض مفہوم عبارت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’خدا کے غضب میں گرفتار ہوگئے‘‘ اور ’’اللہ کے غضب کے مستحق ہوگئے‘‘ کی صورت میں کیا ہے جس میں محاورے کا زور زیادہ ہے اور الفاظ سے قریب رہنے کا التزام کم ہے۔

[ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ]  جو ’’ذَلک‘‘  (وہ ـــ بات یا معاملہ) +’’ب‘‘ (اس سبب سے) + ’’اَنَّ‘‘ (کہ بے شک) +’’ھُم‘‘ (وہ سب) کا مرکب ہے۔ جس کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’یہ اس لیے (ہوا) کہ وہ‘‘ اور ’’یہ اس وجہ سے (ہوا) کہ وہ‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ بعض مترجمین نے ’’یہ بدلا تھا اس کا کہ وہ‘‘ اختیار کیا ہے جو لفظ سے ذرا ہٹ کر ہے (مگر غلط نہیں)۔ بعض نے اس ساری عبارت(ذلک بانھم) کا ترجمہ صرف ’’کیونکہ وہ‘‘ کیاہے۔ اس میں ’’ذلِک‘‘ کا ترجمہ نظر انداز ہوگیا ہے جو ایک لحاظ سے ترجمہ کا عیب ہے۔ اگرچہ محاورہ اور مفہوم کے اعتبار سے درست ہے۔

[كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ] ’’کانُوا‘‘ کے مادہ ( ک و ن ) اور اس سے فعل مجرد کے باب و معنی نیز ’’کانوا‘‘ کی شکل اصلی اور اس میں ہونے والی تعلیل وغیرہ پر مفصل بات البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲ (۱۰)]میں گزر چکی ہے اور ’’یکفرون‘‘ کے مادہ (کفر) سے فعل مجرد کے باب، معنی اور استعمال کی بحث البقرہ:۶ [۱:۵:۲ (۱)]نیز البقرہ:۱۹[۱:۱۴:۲ (۱۴)] میں دیکھئے۔ یوں ’’کانوا یکفرون‘‘ کا ترجمہ ’’وہ تھے انکار کرتے یا نہ مانتے‘‘ جس کی بامحاورہ صورتیں یہ ہیں: ’’وہ نہیں مانتے تھے‘‘،منکر ہو جاتے تھے، انکار کرتے تھے، انکار کرتے رہتے تھے‘‘۔

[بِاٰیَاتِ اللّٰہِ] جو ’’بِ‘‘ + آیات + اللّٰہ کا مرکب ہے (لفظ ’’آیات‘‘ کے رسمِ عثمانی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی۔ یہاں سمجھانے کے لیے رسم املائی سے لکھا ہے) اس میں ’’بِ‘‘ (باء)تو اوپر والے فعل ’’یکفرون‘‘ کا صلہ ہے۔ ہم اس سے پہلے [۱:۱۵:۲ (۱)]پڑھ چکے ہیں کہ  ’’کفربِ. . . = . . .کا انکار کرنا،. . .کو نہ ماننا‘‘۔ لفظ ’’آیات‘‘ (برسم املائی) جمع مونث سالم ہے۔ اس کا واحد’’آیۃ‘‘ ہے۔ جس کا مادہ ’’ا ی ی‘‘ اور وزن ’’فَعِلَۃٌ‘‘ اور شکل اصلی ’’أیِیَۃٌ‘‘ ہے۔ جس میں یائے متحرکہ ماقبل مفتوح الف  میں بدل کر لکھی بولی جاتی ہے۔ اس لفظ (آیۃ) کے مادہ، شکل اصلی کی تعلیل کے علاوہ اس مادہ سے فعل مجرد وغیرہ پر البقرہ:۳۹ [۱:۲۷:۲ (۱۳)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث اگر چاہیں تو الفاتحہ:۱ [۱:۱:۱ (۲)]میں دیکھ لیجئے۔ یہاں ’’آیات اللہ‘‘ کا ترجمہ ’’ اللہ کی نشانیوں، اللہ کے حکموں یا حکم‘‘ سے کیا جاسکتا ہے اور کیا گیا ہے۔

۱:۳۹:۲ (۱۷)     [وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ] ’’وَیقتلون‘‘ (اور وہ قتل کرتے تھے)’’یقتلون‘‘ کا مادہ (ق ت ل) اور وزن ’’یَفعُلُون‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’قتل یقتُل‘‘ (مارڈالنا) کے باب اور معنی پر البقرہ:۵۴ [۱:۳۴:۲ (۴)]میں بحث ہوئی تھی۔

کلمہ ’’النَّبِیِیْنَ‘‘(یہ اس کا اسم املائی ہے رسم قرآنی پر بحث ’’الرسم‘‘ میں ہوگی) کا مادہ ’’ن ب ء‘‘ اور وزن اصلی لام تعریف نکال کر ’’فَعِیْلِیْن‘‘ بنتا ہے۔ [2] یہ لفظ یہاں بصورت جمع مذکر سالم (مجرور) ہے۔ اس کا واحد ’’نَبِّیٌ‘‘ بروزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے جس کی اصلی شکل ’’نَبِیْءٌ‘‘ تھی۔ پھر اس میں ہمزہ کو اس کی ماقبل یائے ساکنہ میں مدغم کردیا جاتا ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’ نَبِیْءٌ ‘‘ اور جمع سالم ’’نبِیئُونَ‘‘ بھی مستعمل ہے۔ بلکہ ورش اور قالون (عن نافع) کی قراء ت میں یہ اسی طرح پڑھے جاتے ہیں۔ لفظ ’’نبیٌّ‘‘ کی جمع سالم بھی استعمال ہوتی ہے اور جمع مکسر ’’انبیائُ‘‘ (غیر منصرف) بھی۔ بلکہ دونوں جمعیں قرآن حکیم میں استعمال ہوئی ہیں۔

·       مادہ ’’ن ب ء‘‘ سے فعل مجرد ’’نبأینبَأ‘‘ کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۳۱ [۱:۲۳:۲(۵)]میں بات ہوئی تھی۔ ’’نَبَأٌ‘‘ کسی بہت اہم خبر کو کہتے ہیں۔ اس طرح ’’نَبِیٌّ‘‘ کے معنی ہیں ’’بہت اہم خبریں دینے والا‘‘ مگر اب یہ لفظ ایک دینی شرعی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اور اس سے مراد ہوتا ہے ’’اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی اہم چیزوں (مثل حشر و نشر وغیرہ) کی خبریں دینے والا‘‘ ان  اہم خبروں میں اکثر (مثلاً حیات بعد الموت، فرشتے، جنت، جہنہم وغیرہ) اور امور غیبیہ سے ہیں جن کو انسان حواس نہیں پاسکتے اس لیے بعض حضرات نے ’’نبیٌّ‘‘ کا ترجمہ (قریباً ہر جگہ) ’’غیب کی باتیں بتانے والا/ خبریں دینے والا‘‘ کیا ہے۔ یہ ترجمہ اپنے لغوی اصل کے اعتبار سے یکسر غلط بھی نہیں ہے۔ مگر ’’نبی کے علم الغیب‘‘ کو اپنی ’’کلامی‘‘ شناخت بنا لینے والوں کی طر ف سے یہ ترجمہ بدنیتی سے خالی بھی نہیں ہے۔ بلکہ بقول حضرت علیؓ  ’’کلمۃ الحق یرادبہ الجور‘‘ (بدنیتی پر مبنی حق گوئی) ہے۔ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ دوسری متعدد اصطلاحات کی طرح لفظ ’’نبی‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو اپنے اصل شرعی معنی کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے۔ اس کا ترجمہ کرنے کی تو چنداں ضرورت بھی نہیں رہتی۔ ہاں لغوی تشریح کرنا اور بات ہے۔ اسی لیے ’’ویقتلون النبین‘‘ کا ترجمہ ’’وہ اور نبیوں کو مار ڈالتے/ قتل کرڈالتے تھےیا نبیوں کا خون کرتے تھے‘‘ کیا گیا ہے۔

[بِغَیْرِ الحق] جو ’’بِ‘‘ + ’’غیرٌ‘‘ + ’’الحق‘‘ کا مرکب ہے۔ ’’بِ‘‘ (باء) کے معانی و استعمال البقرہ:۴۵[۱:۳۰:۲ (۱)]میں ’’غَیْر‘‘ کی لغوی تشریح الفاتحہ:۷ [۱:۶:۱ (۴)]میں اور ’’الحق‘‘ کی لغوی (یعنی مادہ، وزن باب معنی وغیرہ) تشریح البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۶)]میں دیکھئے۔

·       اس طرح ’’بغیر الحق‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’بسبب اس کے جو حق کے سوا (کچھ اور) ہے‘‘۔ اردو میں ’’بغیر‘‘ کا لفظ اپنے اصل عربی معنی کے ساتھ رائج ہے۔ اس لیے ’’بغیر الحق‘‘ کا ترجمہ ’’حق کے بغیر‘‘ اور مختصراً ’’ناحق‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ جو اردو محاورے کے عین مطابق بھی ہے۔

[ذٰلِک بما] یہ  ’’ذلک‘‘(وہ. . . ) ـــ’’بِ‘‘(بسبب+بوجہ) ’’ما‘‘ (وہ جو کہ) کا مرکب ہے، اس کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’یہ اس وجہ سے (ہوا) جو کہ‘‘ جس کا عام بامحاورہ ترجمہ ’’یہ اس لیے (ہوا کہ‘‘ ہے۔

۱:۳۹:۲ (۱۸)     [عَصَوْا] کا مادہ ’’ع ص ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے اصلی شکل ’’عَصَیُوْا‘‘ تھی جس میں واو الجمع سے ماقبل والا حرف علت (جو یہاں ’’ی‘‘ ہے) کتابت اور تلفظ دونوں سے ساقط کردیا جاتا ہے اور اب اس کے ماقبل (جو یہاں ’’ص‘‘ ہے) کی حرکتِ  فتحہ (ــــــَــــ)برقرا رہتی ہےــــ  یوں یہ لفظ ’’عَصَوا‘‘ رہ جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’عَصَی. . .  یَعْصِیْ عِصْیَانًا ومَعْصِیَۃً‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہی: ’’. . . کی نافرمانی کرنا ، . . . کا حکم نہ ماننا ‘‘یعنی ’’اس پر عمل نہ کرنا‘‘ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ آتا ہے جیسے ’’ فَعَصٰى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ ‘‘ (المزمل:۱۶) یعنی ’’فرعون نے رسول کی نافرمانی کی‘‘۔ بعض دفعہ اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاسکتا ہے مثلاً زیر مطالعہ آیت میں بھی ’’عَصَوْا‘‘ کے ساتھ یہ نہیں بتایا گیا کہ کس کی نافرمانی کی تھی؟ بہرحال اس فعل کا مفعول عموماً اللہ رسولؐ یا ان کے احکام ہی ہوتے ہیں جو کبھی مذکور ہوتے ہیں کبھی غیر مذکور مگر مفہوم ہوتے ہیں۔ یہ فعل مجرد (عصَی یعصِی) سے مختلف صیغہ ہائے فعل قرآن کریم میں ۲۷ جگہ آئے ہیں۔ اور اس سے مصدر اور اسم صفت کے کچھ صیغے چار جگہ آئے ہیں۔ اس مادہ سے مزید فیہ کا کوئی فعل قرآن کریم میں نہیں آیا۔ اگرچہ عام عربی میں بعض ابواب (مزید فیہ) مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’عصَوا‘‘ فعل مجرد سے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ جس کا ترجمہ ’’انہوں نے نافرمانی کی‘‘ ہے۔ اور اس کو سابقہ کلمات (ذلک بما) کے ساتھ ملانے سے پوری عبارت (ذلک بما عصوا) کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’یہ اس لیے (ہوا) کہ انہوں نے نافرمانی کی‘‘ اور اگر ’’مَا‘‘ کو مصدریہ سمجھیں تو مصدر مؤوّل کے ساتھ مفہوم ہوگا۔ ’’بعصیانھم‘‘ یعنی ’’(یہ بات) ان کی نافرمانی کی وجہ سے (ہوئی)‘‘ اردو کے اکثر مترجمین نے تو اس کا ترجمہ فعل ماضی سے، نافرمانی کی، اطاعت نہ کی، نافرمانی کیے جاتے تھے‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ چند ایک نے ’’ما‘‘ مصدریہ کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے یعنی  ’’بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں کا‘‘ کی شکل میں۔ جب کہ بعض نے جملہ اسمیہ کی طرح ’’بے حکم تھے، نافرمان تھے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو اصل لفظ (نص) سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اسے بلحاظ مفہوم ہی درست کہا جاسکتا ہے۔

۱:۳۹:۲ (۱۹)     [وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ] ’’و‘‘ اور ’’کَانُوْا‘‘ کئی دفعہ گزر چکے ہیں۔ ضرورت محسوس ہوتو ’’وَ‘‘کے لیے[۱:۴:۱ (۳)] اور[۱:۷:۲ (۱)]اور ’’کانوا‘‘ کے لیے البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲ (۱۰)]دیکھ لیجئے۔ یہاں ابتدائی ’’وَّ‘‘ کے مشدد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر ’’وَ‘‘ سے پہلے ’’واو الجمع مفتوح ما قبلَھا‘‘ (وہ واو الجمع جس سے پہلے حرف مفتوح ہو) تو ’’مد ّ ‘‘کے پیدا نہ ہو جانے کی وجہ سے دونوں ’’واؤ  مدغم ہوکر پڑھی جاتی ہیں، اگر واو الجمع کا ماقبل مضموم ہو (جیسے آمنُوا وَعملُوا میں ہے) تو ’’مدّ‘‘پیدا ہوجانے کی وجہ سے ادغام نہیں ہوتا۔ اس واو الجمع مفتوح ماقبلھا کے بصورت وصل پڑھنے کے کچھ اور قاعدے بھی ہیں جو آگے آئیں گے۔

’’یَعتَدُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ع د و‘‘ اور وزن اصلی ’’یَفتعِلُون‘‘ ہے۔ اصل میں ’’یعتدِوُون‘‘ تھا۔ جس کی واو ماقبل مکسر ’’ی‘‘ میں بدل کر ’’یعتدیون‘‘ بنا۔ پھر واو الجمع والے قاعدے کے تحت (جو کئی دفعہ بیان ہوچکا ہے) ’’ی‘‘ گرا کر اس سے ماقبل مکسور حرف صحیح کو (جو یہاں ’’د‘‘ ہے) مضموم کرکے پڑھا جاتا ہے۔ یعنی یعتَدِوُون= یعتدِیُون = یعتدِون = یعتدُوْنَ اس مادہ (ع د و) سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۳۶ [۱:۲۶:۲ (۱۹)] میں بات ہوئی تھی۔

·       کلمہ ’’یعتدون‘‘ اس مادہ سے بابِ افتعال کے فعل مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اعتدٰی یَعتدِی‘‘ (دراصل اعتدَیَ یعتَدِیُ)اعتدائً‘‘ (جو دراصل اعتدایًا تھا) کے معنی ہوتے ہیں ’’حد سے بڑھنا، سرکشی کرنا‘‘ بنیادی طور پر یہ فعل متعدی ہے عموماًاس کا مفعول ’’الحق‘‘ ہوتا ہے جو بنفسہ بھی آتا ہے اور ’’عن‘‘ یا ’’فوق‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی۔ مثلاً کہتے ہیں ’’اعتدی الحقَّ‘‘ اور ’’اعتدی عنِ الحق‘‘ اور ’’اعتدی فوقَ الحق‘‘ سب کا مطلب ہے ’’اس نے حق سے تجاوز کیا، حق کی حد سے بڑھ گیا‘‘۔ مؤخر الذکر یعنی آخری دو استعمال قرآن میں نہیں آئے۔

·       اگر اس فعل کے بعد ’’علٰی‘‘  کا صلہ آئے تو اس کے معنی ’’کسی پر ظلم کرنا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’اعتدی علیہ‘‘ (اس نے اس پر ظلم کیا/ زیادتی کی) بعض دفعہ اس کا مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جیسے اسی (زیر مطالعہ) آیت میں یہ مذکور نہیں کہ وہ کس سے سرکشی کرتے تھے یا کس پر ظلم کرتے تھے؟ (یعنی ’’حق‘‘ یا ’’احکامِ الٰہی‘‘ سے یا ’’لوگوں پر‘‘) قرآن کریم میں اس باب سے اس فعل کے مختلف صیغے ۱۵ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے تین جگہ پر یہ  ’’علٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ آیا ہے اور یہ تینوں مواقع ایک ہی آیت (البقرہ:۱۹۴) میں آئے ہیں۔ صرف ایک جگہ (البقرہ:۲۲۹) یہ فعل مفعول بنفسہ کے ساتھ آیا ہے۔ باقی بارہ مقامات پر یہ فعل مفعول کے ذکر کے بغیر آیا ہے۔ جو سیاقِ عبارت سے سمجھا جاتاہے۔

اس طرح یہاں ’’وکانوا یعتدون‘‘ کا ترجمہ لفظ ’’وہ حد سے بڑھ جاتے تھے‘‘ بنتا ہے۔ جس میں محاورے کا زور پیدا کرنے کے لیے‘‘ وہ حد سے نکل جاتے تھے، حد پر نہ رہتے تھے (دائرہ اطاعت سے) نکل نکل جاتے تھے، حد سے بڑھ بڑھ جاتے تھے، حد سے بڑھے جاتے تھے،  اور حد سے زیادہ بڑھ جاتے تھے‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے بعض نے اسے سابقہ عبارت ’’بما عصوا‘‘ پر بذریعہ ’’واو‘‘ عطف ہونے کی بنا پر یہاں بھی ’’ما مصدریہ‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ’’اور حد سے بڑھنے کا بدلہ‘‘ جو مصدر مؤوّل کے ساتھ یعنی ’’باعتدائھم‘‘ کا ترجمہ ہے۔

 

۲:۳۹:۲      الاعراب

زیر مطالعہ آیت یوں تو خاصی طویل ہے تاہم اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کل سات چھوٹے بڑے جملوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بعض جملے کسی حرف عطف کے ذریعے یا بلحاظ مضمون باہم مربوط ہیں اور بعض مستانفہ جملے ہیں۔ تفصیل یوں ہے۔

(۱) وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰي طَعَامٍ وَّاحِدٍ

[وَ]  عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور مستانفہ  بھی اس لیے کہ یہاں سے ایک اور واقعہ کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ [اِذْ] ظرفیہ ہے۔ نحویوں کے مطابق ظرف مضاف ہوکر آتا ہے اسی لیے فنی طور پر ’’اذ‘‘ کے بعد والا پورا جملہ مضاف الیہ لہٰذا محلاً مجرور ہے۔ [قلتم] فعل ماضی مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے ۔ [یاموسیٰ] ’’یا‘‘ حرف ندا اور ’’موسیٰ‘‘ منادی مفرد ہے لہٰذا یہاں مرفوع ہے علامتِ رفع اسم مقصور میں ظاہر نہیں ہوتی۔ [لن نصبرَ]میں ’’لن‘‘ حرفِ نفی مع تاکید ہے اور ناصب بھی اور یہ فعل مستقبل کے مفہوم کے لیے آتا ہے ’’نصبر‘‘ فعل مضارع منصوب  ’’بِلَن‘‘ ہے۔ علامت نصب آخری ’’ر‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ)ہے اور اس  (نصبر) میں ضمیر فاعلین ’’نحن‘‘ مستتر ہے یوں نفی تاکید اور استقبال کا مفہوم جمع ہونے کی بناء پر ’’لن نصبر‘‘ کا ترجمہ ہوگا، ’’ہم ہرگز صبر نہیں کریں گے‘‘ [علی] حرف الجر اور [طعامٍ] مجرور بالجر ہے اور [واحدٍ] ’’طعام‘‘ کی صفت ہونے کے باعث مجرور ہے اسی لیے دونوں کے آخری پر تنوین الجر (ـــــٍـــــ) آئی ہے۔ یہ سارا مرکب جاری(علی طعام واحد) متعلق فعل (نصبر) ہے اور ’’یاموسی‘‘ سے لے کر ’’طعامٍ واحدٍ‘‘ تک کا جملہ ’’قلتم‘‘ کا مقول (مفعول) ہونے کے باعث محلاً نصب ہے۔

(۲)  فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَقِثَّاۗىِٕهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا

اس نسبتاً لمبے جملے میں [فَ] عاطفہ سببیہ (بمعنی ’’اس لیے‘‘) ہے اور [اُدْعُ] فعل امر مع ضمیر فاعل ’’انت‘‘ ہے۔ اس کا ہمزۂ وصل بوجہ ’’فاء‘‘ پڑھنے میں نہیں آیا۔ [لنا] جار (لِ) اور مجرور (نا) مل کر متعلق فعل (فادعُ) ہے [ربَّک] مضاف (ربَّ) اور مضاف الیہ (ک۔ ضمیر مجرور) مل کر فعل (ادع) کا مفعول بہ ہے۔ اسی لیے ’’ربَّ‘‘ منصوب ہے جو آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے علامتِ نصب اس میں آخری ’’ب‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ) ہے ۔ [یُخرِجْ] فعل مضارع مجزوم (صیغہ واحد مذکر غائب) ہے۔ جزم کی وجہ سے اس کا جوابِ امر (ادع) ہونا ہے اور علامت جزم ’’ج‘‘ کا  سکون (ـــــْـــــ) ہے [لنا] جار مجرور متعلق فعل (یُخرج) ہے [مِمَّا] بھی جار (مِن) اور مجرور (مَا) مل کر متعلق فعل ہے اور اس میں ’’مَا‘‘ اسم موصول ہے [تنبِت] فعل مضارع صیغہ واحد مونث غائب ہے۔ جس کا فاعل [الارضُ] ہے جو مونث سماعی ہے۔ اسی لیے فعل (تنبت) فعل مضارع صیغہ واحد مونث غائب ہے جس کا فاعل [الارضُ] ہے جو مؤنث سماعی ہے۔ اسی لیے فعل (تنبت) بصیغۂ تانیث آیا ہے نیز ’’الارض‘‘ بوجہ فاعل ہونے کے مرفوع ہے علامتِ رفع ’’ض‘‘ کا ضمہ ہے اور یہ جملہ فعلیہ (تنبت الارض) اسم موصول ’’مَا‘‘ (مما والا) کا صلہ ہے جو ’’مِنْ‘‘ (مما والا) کا مجرور بنتا ہے۔ [من بقلھا] کا ’’مِن‘‘ سابقہ ’’من‘‘ (مما والا) کا بدل ہے اور ’’بقلھا‘‘ مضاف (’’بقل‘‘ جو مجرور بالجربھی ہے) اور مضاف الیہ (ھا۔ ضمیر مجرور) مل کر اس ابتدائی ’’مِن‘‘ کا مجرور ہے۔ یہاں ’’مِنْ‘‘ بیانیہ ہے یعنی ’’از قسم. . . ‘‘ کے معنی میں ہے۔ [وقِثائھا] کی ’’وَ‘‘ عاطفہ اور ’’قثائِھا‘‘ مضاف مضاف الیہ مل کر بذریعہ واو عاطفہ ’’من بقلھا‘‘ پر عطف ہےاسی لیے ’’قثاء‘‘مجرور (اور بوجہ اضافت خفیف بھی) ہے۔ اسی طرح [وفومھا۔ وعَدَسھا۔ وبَصَلِھا] بھی بذریعہ واو عطف ’’من بقلھا‘‘ پر عطف ہیں۔  اور اسی’’مِن‘‘ کی وجہ سے ہر ایک مضاف (فوم، عدسِ اور بصل) مجرور آیا ہے اور ہر ایک بوجہ مضاف ہونے کے خفیف (لام تعریف اور تنوین سے خالی) بھی ہے اور مضاف الیہ ضمیر مجرور (ھا) ہر جگہ ’’الارض‘‘ کے لیے ہے۔ یہ جملہ (نمبر۲) بلحاظ مضمون سابقہ جملے (نمبر۱) سے مربوط ہے اور یہ دونوں (نمبر۱ اور۲) فعل ’’قلتم‘‘ کے مقول (مفعول) ہیں لہٰذا محلاً منصوب ہیں۔

(۳)   قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِىْ ھُوَ اَدْنٰى بِالَّذِىْ ھُوَ خَيْرٌ 

[قال] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعل ’’ھو‘‘ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہے۔ [أَ] حرف استفہام ہے اور [تستبدلون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ ہے ۔[الذی] اسم موصول ہے جو فعل ’’تستبدلون‘‘  کا مفعول بہ (لہذٰا منصوب) ہے مگر مبنی ہونے کی وجہ سے علامتِ نصب ظاہر نہیں ہے۔ یعنی ’’وہ چیز جو بدل کر لی جارہی ہے‘‘۔ [ھُوَ] مبتدأ ضمیر مرفوع منفصل ہے اور [ادنی] اس کی خبر (لہٰذا مرفوع) ہے جس میں اسم مقصور ہونے کے باعث علامتِ رفع ظاہر نہیں ہے۔ اور یہ جملہ اسمیہ(ھوادنی= بمعنی وہ گھٹیا ہے) اسم موصول ’’الذی‘‘ کا صلہ ہے اور دراصل تو صلہ موصول مل کر (الذی ھو أدنی) فعل ’’تستبدلون‘‘ کا مفعول اور محلاً منصوب ہے۔ [بالذی] کی ’’بِ‘‘ جارّہ اور ’’الذی‘‘ اسم موصول مجرور بالجر ہے۔ مبنی ہونے کی وجہ سے کوئی ظاہری علامتِ جر نہیں ہے۔ اور یہ جار مجرور(بالذی) متعلق فعل ’’تستبدلون‘‘ ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ یہ اس کے دوسرے مفعول (جو چیز بدلے میں چھوڑ دی جائے) کا کام دے رہا ہے۔ [ھُوَ] ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے۔ اور [خیر] اس کی خبر (لہٰذا) مرفوع ہے۔ اور یہ جملہ اسمیہ (ھوخیر= وہ بہتر ہے) اس دوسرے  ’’الذی‘‘ (بالذی والا) کا صلہ ہے۔ یہ سارا جملہ (أتستبدلون . . . خیر) فعل ’’قال‘‘ کا مقول ہونے کے باعث محل نصب میں ہے۔

(۴)    اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ   

[اھبطوا] فعل امر مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ ہے [مصرًا] اس فعل کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامت نصِب تنوین نصب(ـــــًـــــ) ہے۔ [فاِنَّ]کی فاء (فَ) عاطفہ سببیہ اور ’’اِنَّ‘‘  حرف مشبہ بالفعل ہے جس کا اسم آگے مؤخر ہوکر آرہا ہے۔ [لکم]جار مجرور ملکر خبر ’’اِنَّ‘‘ ہے (یا بقول بعض قائم مقام خبر ہے) جو اس کے اسم سے مقدم (پہلے) آئی ہے اور [مَا] اسم موصول ہے جو ’’اِنَّ‘‘ کا اسم (لہٰذا) منصوب ہے مگر مبنی ہونے کے باعث ظاہر علامت نصب سے خالی ہے [سألتم] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ ہے۔ یہ جملہ فعلیہ ہوکر ’’ما‘‘  کا صلہ ہے اور دراصل تو صلہ موصول مل کر ہی ’’اِنّ‘‘ کا اسم بنتے ہیں۔ گویا دراصل عبارت ’’فان  ما سألتم لکم‘‘ تھی (جو تم مانگتے ہو ملے گا) یہ جملہ نمبر۴ یوں تو مستانفہ ہے مگر بلحاظ مضمون یہ بھی سابقہ جملے (نمبر۳) والے ’’قال‘‘ کے مقول میں داخل ہے۔ یعنی یہ بات بھی ان سے کہی گئی۔

(۵) وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ     ۤ   وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ  

[وَ] مستانفہ ہے اس کے مابعد کا ماقبل پر بلحاظ مضمون عطف نہیں ہوسکتا  [ضُرِبَتْ] فعل ماضی مجہول صیغہ واحد مؤنث ہے۔ اور یہ صیغہ تانیث اس لیے ہے کہ آگے اس کا نائب فاعل (الذلۃ) مونث آرہا ہے۔ [علیھم] جار مجرور (علی + ھم) مل کر فعل ’’ضُرِبت‘‘ سے متعلق ہیں۔ بلکہ  ’’علی‘‘ اس فعل کا صلہ ہے [الذِلَّۃُ] فعل ’’ضُرِبت‘‘ کا نائب فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ علامتِ رفع ’’ۃ‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ)ہے  [والمسکنۃ] ’’وَ‘‘ عاطفہ کے ذریعے ’’الذلۃُ‘‘ پر عطف ہے اس لیے اس کا اعراب بھی نائب فاعل والا (رفع) ہے [وَ] عاطفہ ہے جو مابعد جملے کو ماقبل جملے پر عطف کرتی (ملاتی) ہے [باء وا] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے [بغضبٍ] میں ’’باء‘‘ جارہ (ب) تو صلہ فعل (باؤا) ہے اور ’’غضبٍ‘‘ مجرور بالجر ہے یہ ایک طرح سے فعل ’’باؤا‘‘ کے مفعول بہ کا کام دے رہاہے لہٰذا اسے(بغضب) محلاً منصوب بھی کہا جاسکتا ہے اور چاہیں تو جار مجرور متعلق فعل کہہ لیں[من اللّٰہ] میں ’’مِن‘‘ جارہ (بیانیہ) ہے اور ’’اللہ ‘‘مجرور بالجر ہے۔ اور یہ جار مجرور (من اللّٰہ) ’’غضب‘‘ (جو نکرہ موصوف ہے بمعنی ’’ایسا غضب جو. . .‘‘) کی صفت ہے یا اس (غضب( کا حال بھی سمجھا جاسکتا ہے (یعنی اس حالت میں کہ وہ غضب اللہ کی طرف سے تھا) یہ جملہ (نمبر۵) دراصل دو فعلیہ جملوں ’’ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ‘‘ اور ’’باء وابغضب من اللّٰہ‘‘ پر مشتمل ہے جو عاطفہ واؤکے ذریعے ملادیئے گئے ہیں۔

)۶) ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّۭ 

[ذلک] مبتدأ ہے اور اس سے مراد ’’ذلک الغضب‘‘ ہے جس کا ذکر اوپر آیا ہے۔ تقدیر (دراصل) عبارت کچھ یوں بنتی ہے ’’وقع علیھم ذلک الغضب بِ. . .‘‘ (یعنی یہ غضب ان پر اس لیے پڑا کہ) [بِاَنھم]کی ’’باء‘‘ جارّہ سببیہ ہے یعنی وہ غضب اس سبب سے ہوا کہ ’’أن‘‘ حرف مشبہ بالفعل اور ’’ھم‘‘ ضمیر منصوب اس کا اسم ہے۔ اور [کانوا یکفرون] فعل ماضی استمراری مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر ’’ان‘‘ کی خبر ہے۔ اور چاہیں تو ’’کانوا‘‘ کو فعل ناقص سمجھ کر ’’یکفرون‘‘ کو اس کی خبر قراردیں اس طرح یہ (کانوا یکفرون) جملہ اسمیہ (بمعنی کانو کافرین) ہو کر ’’ان‘‘ کی خبر ہے [بآیات اللّٰہ] میں ’’بِ‘‘ تو فعل ’’یکفرون‘‘ کاصلہ ہے اور ’’آیات اللّٰہ‘‘ مضاف آیات) اور مضاف الیہ (اللہ) مل کر مجرور بالجر (بِ) ہے اسی لیے ’’ آیات‘‘ مجرور ہے اور بوجہ اضافت خفیف بھی ہے۔ علامت جر اس میں ’’اتِ‘‘ ہے یعنی یہ اعراب بالحروف ہے۔ چاہیں تو اس مرکب جاری (بآیات اللّٰہ) کو متعلق فعل (یکفرون) قرار دیں اور چاہیں تو اسے اسی فعل (یکفرون) کا مفعول بہ سمجھ کر محلاً منصوب قرار دے لیں [وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے [یقتلون] کا عطف ’’یکفرون‘‘ پر ہے یعنی ’’کانوا یکفرون وکانوا یقتلون‘‘ اور ’’یقتلون‘‘ فعل مضارع مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے [النبیین]فعل ’’یقتلون‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامت نصب اس میں آخری نون سے پہلی ی (یاء) ماقبل مکسور (ــــــِــــ ی) ہے جو جمع سالم مذکرمیں نصب اور جر کی علامت ہوتی ہے۔ [بغیر الحق] میں ’’باء (بِ)‘‘ جارّہ اور ’’غیر‘‘ مجرور بالجر ہے اور آگے مضاف بھی ہے اور ’’الحق‘‘ اس (غیر) کا مضاف الیہ مجرور ہے اور یہ مرکب جاری (بغیر الحق) متعل فعل ’’یقتلون‘‘ ہے۔ یا ایک مصدر محذوف کی صفت بھی بن سکتا ہے یعنی  ’’یقتلون قتلاً بغیر الحق‘‘ بہرصورت یہ ’’بغیر الحق‘‘ فعل کی تاکید کے طور پر آیا ہے اور یہ ساری عبارت (کانوا سے بغیر الحق تک) ’’انھم‘‘ کے ’’أنَّ‘‘ کی خبر بنتی ہے یعنی ’’یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ ایسے ایسے تھے‘‘۔

(۷)  ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ 

[ذلک] مثل سابق مبتدا ہے اور اس کے ساتھ بھی کچھ عبارت محذوف (مگر مفہوم) ہے جیسا کہ پہلے والے ’’ذلک‘‘ کے ساتھ (جملہ نمبر۶ میں) بیان ہوا ہے [بما] کی ’’بِ‘‘ سببیہ اور ’’ما‘‘ موصولہ یا مصدریہ ہے (یعنی دونوں ممکن ہیں) [عصوا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ مستتر ہے۔ اس طرح یہ جملہ فعلیہ ہوکر اسم موصول (ما) کا صلہ بھی ہوسکتا ہے یعنی ’’بوجہ اس کے جو کہ نافرمانی کی انہوں نے‘‘ اور اگر ’’ما‘‘ کو مصدریہ سمجھیں تو مصدر مؤوّل کے ساتھ عبارت ہوگی ’’بعصیانھم‘‘ یعنی ان کی نافرمانی کی وجہ سے‘‘ [وَ] عاطفہ ہے اور [کانوا] فعل ناقص ہے جس میں اس کا اسم ’’ھم‘‘شامل ہے اور [یعتدون] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر ’’کانوا‘‘ کی خبر ہے اور چاہیں تو ’’کانوا یعتدون‘‘ کو فعل ماضی استمراری سمجھ کر سابقہ فعل ’’بما عصوا‘‘ پر عطف سمجھ لیں یعنی ’’وبما کانوا یعتدون‘‘ یا ما مصدر یہ سمجھ کر اسے ’’وبکونھم معتدین‘‘ کے برابر قرار دیں یعنی اُن کے سرکش ہونے کی وجہ سے‘‘۔

·       یہ جملہ (جس میں  ذلک بِ. . . کی تکرار ہے یعنی وجہ دوبارہ یا دوسری بیان ہوئی ہے) یہ جملہ نمبر۵ میں بیان کردہ ’’غضب و ذلت‘‘ کی دوسری وجہ کا بیان بھی ہوسکتا ہے (پہلی وجہ نمبر۶ میں ان کا ’’کفر بآیات اللّٰہ  ‘‘اور ’’قتل انبیاء‘‘ بیان ہوا ہے) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسرا  ’’ذلک‘‘ اس ’’کفر وقتل‘‘ کے لیے ہو اور مفہوم یہ ہو کہ یہ ’’کفر آیات‘‘ اور ’’قتل انبیا‘‘ تک پہنچ جانا (جو باعث غضب بنا) نتیجہ تھا ان کی نافرمانی ور سرکشی کی انتہا کا۔ بہر حال دوسرے ’’ذلک‘‘ کا محذوف مشارٌ الیہ مثل سابق ’’ذلک الغضب‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور اس سے الگ ’’ذلک الکفر والقتل‘‘ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ذلک کے ساتھ دو مستقل جملے آئے ہیں۔

 

۳:۳۹:۲     الرسم

آیت زیر مطالعہ میں سے اکثر کلمات کا رسم املائی اور رسم قرآنی یکساں ہے۔ صرف پانچ کلمات یعنی ’’یاموسی۔ واحد۔ باء وا۔ بایات اور النبیین‘‘ کا رسم عثمانی عام املاء سے مختلف ہے۔ یہاں ہم نے اس فرق کو سمجھانے کے لیے ان کلمات کو پہلے عام رسم املائی میں لکھا ہے۔ ان پانچ کلمات کے علاوہ دو اور کلمات یعنی ’’ذلک‘‘ اور  ’’مما‘‘ بھی غور طلب ہیں۔ تفصیل یوں ہے

(۱)’’یَامُوسیٰ‘‘ قرآن کریم میں ہر جگہ بحذف الف بعد الیاء یعنی بصورت ’’یموسی‘‘ لکھا جاتا ہے یہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ رسم عثمانی کے مطابق قرآن کریم میں ہر جگہ حرف نداء (یا) بحذف الف اپنے منادیٰ کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے بصورت ’’یـــ . . . ‘‘ پھر اسے پڑھنے کے لیے بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔

(۲) ’’واحد‘‘ کے رسم قرآنی میں اختلاف ہے۔ الدانی نے لکھا ہے کہ ’’فاعل‘‘ کے وزن پر آنے والے کلمات قرآن میں باثبات الف لکھےجاتے ہیں ماسوائے بعض خاص کلمات کے جن کے حذف الف کی تصریح کردی گئی ہو۔ الدانی نے اس کلمہ (واحد) میں حذف الف کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس کے برعکس ابوداؤد کی طرف منسوب قول کے مطابق یہ لفظ (واحد) بحذف الف بصورت ’’وحد‘‘ لکھاجاتا ہے۔[3]   چنانچہ تمام عرب اور بیشتر افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذفِ الف یعنی ’’وحد‘‘ لکھا جاتا ہے۔ لیبیا کے مصاحف میں اور مشرقی ممالک(برصغیر، ترکی، ایران وغیرہ) میں اسے باثبات الف  یعنی ’’واحد‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ بلکہ ارکاٹی نے اس میں اثبات الف پر اتفاق بیان کیا ہے۔[4]

 (۳) ’’بَائُ وا‘‘ ان چھ کلمات میں سے ایک ہے جن میں واو الجمع کے بعد الف زائدہ نہیں لکھا جاتا۔ حالانکہ واو الجمع کے بعد ایک زائد الف کا لکھنا رسم املائی اور رسم عثمانی دونوں کا متفقہ اصول ہے مگر رسم عثمانی میں میں چھ کلمات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ان میں سے ایک یہ (باؤا) ہے جو قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے اور ہر جگہ اسے آخری الف زائدہ کے بغیر بصورت ’’باؤ‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ بلکہ دراصل مصحف عثمانی میں تو اسے ’’باو‘‘ ہی لکھاگیا تھا۔ بعد میں جب ہمزہ قطع کے لیے مختلف علامات مثلاً #ایجاد ہوئیں تو ’’با‘‘ اور ’’و‘‘ کے درمیان لکھی جانے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مصاحف (مثلاً ترکی اور ایران میں) ہمزہ ’’و‘‘ کے اوپر ہی لکھا جاتاہے یعنی بصورت ’’باؤ‘‘ . . .واوالجمع کے بعد الف زائدہ نہ لکھے جانے والے باقی پانچ کلمات پر حسب موقع بات ہوگی۔

(۴) ’’بآیات‘‘ (اللّٰہ) میں لفظ ’’آیات‘‘ جو قرآن کریم میں قریباً ۳۰۰ جگہ آیا ہے ہر جگہ اسے بحذف الف بعد الیاء یعنی بصورت ’’ایت‘‘ ہی لکھا جاتا ہے چاہے مفرد ہو یا مضاف ہو کر آیا ہو. . .  صرف دو یا تین مقامات پر اسے باثبات الف لکھنا ثابت ہے، ان مقامات پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔[5]

دراصل اس لفظ میں دو حرف محذوف ہیں۔ یہ دراصل ’’ئَ ایات‘‘ تھا۔ قرآن کریم میں ہر جگہ ’’الگ ماقبل ہمزہ مفتوحہ‘‘ کو ہمزہ حذف کرکے صرف بصورت الف (ا) ہی لکھا جاتا ہے بلکہ عام رسم املائی میں بھی یہی قاعدہ ہے۔ تاہم چونکہ یہ ہمزہ پڑھا ضرور جاتا ہے۔ اس لیے عام ضبط میں تو اسے بصورت ’’ آ ‘‘ ظاہر کیا جاتا ہے مگر قرآن کریم کے ضبط میں اس (ہمزۂ محذوفہ) کو ظاہر کرنے کے مختلف طریقے (ضبط کے) استعمال ہوتے ہیں. . . ہمزہ کے حذف کے بعد یہ لفظ ’’ایات‘‘ بنتا ہے اور یہی اس کا عام رسم املائی ہے۔ مگر قرآن کریم میں اسے بحذف الف بعد الیاء یعنی بصورت ’’ایت‘‘ لکھا جاتا ہے۔

(۵) ’’النبیین‘‘ جو قرآن کریم میں کل ۱۳ مقامات پر آیا ہے ہر جگہ رسم عثمانی کے مطابق بحذفِ یاء بعد الیاء یعنی صرف ایک یاء کے ساتھ بصورت ’’النبین‘‘ لکھا جاتا ہے۔ بلکہ علماء میں یہ بحث بھی ہوئی ہے کہ محذوف یاء پہلی ہے یا دوسری [6]  بہر صورت اسے ایک ’’یاء‘‘ کے ساتھ ’’النبین‘‘ لکھا جاتا ہے ۔  مگر چونکہ وہ محذوف ’’ی‘‘ پڑھی ضرور جاتی ہے۔ اس لیے اسے بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے مختلف طریقے ہیں جو آپ بحث الضبط میں دیکھیں گے۔ بلکہ رسم عثمانی کا یہ عام قاعدہ ہے۔ یہ کہ جہاں دو ’’یاء‘‘ یا دو ’’واو‘‘ جمع ہوں تو عموماً ایک کو لکھنے میں حذف کردیا جاتا ہے۔ [7] پھر اسے بذریعہ ضبط ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں آگے چل کر سامنے آئیں گی۔

 (۶)  کلمہ ’’ذلک‘‘ کارسم املائی اور رسم عثمانی دونوں بحذف الف بعد الذال ہیں یعنی یہ لفظ رسم معتاد میں بھی رسم قرآنی کے مطابق ہی لکھا جاتا ہے۔

(۷) کلمہ ’’مِمَّا‘‘ جو دراصل ’’مِنْ  مَا‘‘ ہے اس کے متعلق پہلے بھی غالباً البقرہ:۳ کے سلسلے میں لکھا جاچکا ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ موصول (ملا کر) بصورت ’’مما‘‘ لکھا جاتا ہے، صرف تین مقامات پر اسے مقطوع ’’من ما‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اور ان تین مقامات میں سے بھی متفق علیہ فقط ایک مقام ہے۔ ان پر حسب موقع بات ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

۴:۳۹:۲     الضبط

زیر مطالعہ آیت کے کلمات کے ضبط میں بعض فرق قابل غور ہیں۔ خصوصاً ’’اھبطوا‘‘ اور ’’النبین‘‘ کا ضبط۔ اس کے علاوہ ’’اقلاب نون بمیم‘‘ اور الف محذوفہ کو ظاہر کرنے میں ضبط کا تنوع بھی غور طلب ہے۔ ’’اھبطوا‘‘ کے ضبط میں عرب ممالک کے مصاحف میں ہمزۃ الوصل کے لیے کوئی حرکت (جو کسرہ (ــــــِــــ) ہونی چاہیے) نہیں لکھی جاتی بلکہ اسے قاری کی عربی دانی پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو غیر عربی دان کے لیے ضبط کا سب سے بڑا عیب ہے۔ مشرقی ممالک کا طریق ضبط اس لحاظ سے (اور کئی اور پہلوؤں سے بھی) کہیں بہتر ہے۔

 


 



[1]  یہ باب ’’تَمَفْعُلٌ‘‘ کہلاتا ہے۔ اور یہ ثلاثی مزید کا ہی ایک باب ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے عام معروف دس گیارہ ابواب کے علاوہ ۲۳ قلیل الاستعمال ابواب بھی  ہیں جو صَرف کی بڑی کتابوں میں مذکور ہوتے ہیں مثلاً دیکھئے ’’علم الصرف‘‘ للسورتی ص ۲۴۔ ۲۵۔

 

 [2]  بعض نے اسے ’’ن ب و‘‘ سے لیا ہے ’’نبا ینبو=بلند ہونا‘‘۔ اس طرح ’’نبیٌ‘‘ کا مطلب ’’بلند مرتبہ‘‘ بنتا ہے۔

 

[3]   سمیر الطالبین (للضباع) ص۳۹، ۶۱

[4]  نثر المرجان (للارکاٹی) ج۱ ص ۱۵۵

 

[5]  دیکھئے المقنع للدانی ص ۲۰ اور سمیر الطالبین للضباع ص ۳۶

[6] دیکھئے سمیر الطالبین للضباع ص ۶۶ نیز نثر المرجان ج۱ ص ۱۱۵۔

[7]  مزید مثالوں کے لیے دیکھئے سمیر الطالبین ص ۶۵۔ ۶۶۔