سورۃ البقرہ  آیت ۶۲

۴۰:۲      اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ    ګ    وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  )۶۲)

۱:۴۰:۲       اللغۃ

[اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا] ’’اِنَّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل بمعنی ’’بے شک، یقیناً، تحقیق ‘‘ہے۔ مزید چاہیں تو دیکھ لیجیے[۱:۵:۲] ’’الّذِیْنَ‘‘ اسم موصول بمعنی’’وہ سب جو کہ‘‘ ہے۔ مزید وضاحت کے لیے چاہیں تو الفاتحہ:۷ [۱:۶:۱(۱)]دیکھئے۔ ’’اٰمنوا‘‘ کا مادہ ’’ا م ن‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعَلُوْا‘‘ ہے۔ دراصل ’’أَأْمَنُوْا‘‘تھا۔ مہموز کے قاعدہ تخفیف کے ماتحت اس کا ’’أَ أْ اٰ (ئَ ا ۔ آ)  میں بدل گیا۔ یہ اس مادہ سے بابِ افعال کے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد اور خود اس بابِ (اِفعال) سے فعل ’’آمن یومن‘‘ (ایمان لانا) کے معنی و استعمال پر البقرہ:۳ [۱:۳:۲ (۱)]میں بات ہوچکی ہے۔

اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے‘‘ لوگ میں ’’وہ سب‘‘ کا مفہوم موجود ہے بعض نے ’’ایمان لاچکے ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو عہد رسالت کے حوالے بلحاظ زمانہ درست ہے۔ بعض نے ’’مسلمان ہوئے/ ہیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ ’’مسلمان‘‘، ’’مسلم ہی کی بگڑی ہوئی (اور فارسی ترکی اردو میں مستعمل صورت لفظ ہے۔ لغت اور اصطلاح میں ’’ایمان‘‘ اور ’’اسلام‘‘ دو الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ تاہم عام مفہوم میں دونوں ہم معنی شمار ہوتے ہیں۔ بعض نے ’’الذین آمنوا‘‘ کا ترجمہ صرف ’’مسلمان‘‘ اور ’’ایمان والے‘‘ ہیں (بصورت جملہ اسمیہ) کیاہے جو لفظ سے ہٹ کر ہے۔ اگرچہ بلحاظ مفہوم غلط نہیں ہے۔

۱:۴۰:۲ (۱)     [والذین ھادوا] ’’وَ‘‘(اور) ’’الذین‘‘ (وہ لوگ جوکہ) ہے۔ یہاں ’’الذین‘‘ کی تکرار کی وجہ سے دوسرے ’’الذین‘‘ کے ترجمہ میں ’’بھی ‘‘لانا بہتر ہے یعنی ’’وہ بھی جو کہ‘‘ اگرچہ اکثر مترجمین نے ’’الذین‘‘ کا ہی دو دفعہ ترجمہ کرنا کافی سمجھا ہے۔

’’ھادوا‘‘  کا مادہ ’’ھ و د‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوا‘‘  ہے۔ یہ دراصل  ’’ھَوَدُوا‘‘تھا جس میں واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لکھی بولی جاتی ہے (مثل ’’قالوا‘‘) اس مادہ سے فعل مجرد ’’ھاد   یھُودو   ھوْدًا‘‘ (باب نصر سے مثل قال یقول) آتا ہے۔ اور اس کے بنیادی معنی ’’توبہ کرنا اور حق کی طرف مڑنا‘‘ ہیں۔ عموماً اس کے بعد ’’اِلٰی‘‘ کا صلہ آتا ہے۔ (جب یہ بتانا ہو کہ توبہ کے لیے کسی کی طرف مڑا) جیسا کہ ’’ اِنَّا هُدْنَآ اِلَيْكَ   ‘‘ (الاعراف:۱۵۶) میں آیا ہے۔

·       اس فعل کے دوسرے مشہور معنی ’’یہودی ہونا‘‘ ہیں۔ اس استعمال کے لیے کسی صلہ کی ضرورت نہیں رہتی اور ان معنوں میں یہ فعل قرآن کریم میں دس جگہ استعمال ہوا ہے۔ اور اسی فعل کا مضارع ’’یھُود‘‘ معرف باللام (الیھُود) ہو کر بمعنئ جمع پوری یہودی امت یعنی یہودی مذہب (یہودیت) کے پیروکاروں کے لیے بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ بھی قرآن مجید میں آٹھ دفعہ آیا ہے۔ اور ایک یہودی کو عربی میں ’’یھودِیٌّ‘‘ کہتے ہیں (یہ لفظ بھی قرآن میں ایک دفعہ آیا ہے) اور ’’الیھود‘‘ یعنی جمع والے معنی (یہودیوں) کے لیے لفظ ’’ھُوْدٌ‘‘ بھی قرآن کریم میں تین بار استعمال ہوا ہے جو دراصل اس فعل مجرد ’’ھاد  یھود‘‘ سے اسم الفاعل ’’ھائِد‘‘(ھَاوِدٌ) کی جمع مکسر ہے۔ اور ’’ھُوْدٌ‘‘ ایک پیغمبر کا نام بھی ہے۔ یہ بھی قرآن کریم میں سات جگہ وارد ہوا ہے۔

اور بعض کے نزدیک فعل ’’ھاد‘‘ دراصل عبرانی لفظ ہے۔ تاہم اب یہ لفظ اور اس کے مشتقات (اسم فعل وغیرہ) اصل عربی کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔

اس طرح  ’’والذین ھادو‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’اور وہ بھی جو یہودی ہوئے‘‘ جسے بعض نے صرف ’’یہودیوں‘‘ یا ’’یہودی‘‘ (بمعنی جمع ’’مسلمان‘‘ کی طرح) ترجمہ کردیا ہے۔ جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔

۱:۴۰:۲ (۲)     [والنّصری]کی ’’وَ‘‘ برائے عطف (بمعنی ’’اور‘‘) ہے اور لفظ ’’النَّصارٰی‘‘ (برسم املائی) کا مادہ بظاہر ’’ن ص ر‘‘ اور وزن لام تعریف نکال کر ’’فَعَالٰی‘‘ بنتا ہے۔ جو عربی میں جمع مکسر کا ایک وزن ہے۔ جیسے ’’ندمان‘‘ (پشیمان مرد/ عورت) کی جمع ’’نَدامٰیٰ‘‘ آتی ہے۔ اس طرح گویا ’’نصاری‘‘ کا واحد ’’نَصْرانٌ‘‘ (مذکر) یا ’’نَصْرانَۃ‘‘ (مونث) ہے جس سے مراد حضرت عیسیٰؑ سے منسوب مذہب کا پیروکار (مردیا عورت) ہے (جسے ہمارے ہاں مسیحی یا عیسائی بھی کہتے ہیں) مگر عربی میں یہ لفظ ہمیشہ یائے نسبت کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی ’’نصرانِیٌ‘‘ (مرد) اور ’’نصرانیۃ‘‘ (عورت) ’’نصران‘‘ اور ’’نصرانۃ‘‘ استعمال نہیں ہوتے۔

·       دراصل اس لفظ (نصاری) کا عربی مادہ ’’نصر‘‘ سے کوئی لغوی تعلق نہیں ہے، اس مادہ (نصر) اور عربی کے بعض اوزان سے اس کی مناسبت محض اتفاقی بات ہے۔ اس لیے ڈکشنری میں یہ اسی مادہ کے تحت بیان ہوتے ہیں۔ اس لفظ (نصاری) کا واحد ’’نصرانِیٌّ‘‘ (بروزن اَعرابیٌّ) ہے اور اس کی اصل ’’الناصرۃ‘‘ ہے جو فلسطین کے شمالی علاقہ ’’جلیل‘‘ میں ایک قصبے کا نام ہے (عربی نقشوں میں آپ کو یہی نام نظر آئے گا مگر انگریزی اٹلسوں میں اسے  "Nazareth" لکھا جاتا ہے) حضرت عیسیٰ ؑ کا بچپن اور ابتدائی عمر کا بیشتر حصہ اسی گاؤں میں گزرا تھا۔ اس لیے ان کے پیروکاروں کو ’’نصرانی‘‘ کہا جانے لگا جسے انگر یزی میں Nazarene کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کے لقب ’’المسیح‘‘ کی نسبت سے وہ ’’مسیحی‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ (مسیحیٌ) کسی شکل میں استعمال نہیں ہوا۔ اگرچہ لفظ ’’المسیح‘‘ متعدد (۱۱) جگہ آیا ہے۔ لفظ ’’نصارٰی‘‘  قرآن کریم میں ۱۴ جگہ اور واحد منصوب کلمہ ’’نصرانِیّاً‘‘ صرف ایک جگہ آیا ہے۔

·       نزول قرآن کے زمانے میں دین مسیح کے پیرو کاروں کو اہلِ عرب ’’نصاریٰ‘‘ ہی کہتے تھے بلکہ وہ خود بھی ’’نصاری‘‘ کہلاتے تھے جیسا کہ المائدہ:۱۴ میں آیا ہے ’’قالواِنَّا نصارٰی‘‘ مسیحی کا لفظ عرب دنیا میں بھی مغرب سے آنے والے لفظ ’’کرسچین‘‘ (Christian) کے ترجمے کے طور پر رائج ہوا ہے۔ ’’المسیح‘‘ "Christ" کی عربی ہے اور ’’عیسائی‘‘ کا لفظ صرف بر صغیر میں رائج ہواہے۔یعنی مسیحؑ کے نام ’’عیسیٰؑ‘‘ کی نسبت سے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں نصاریٰ کا ترجمہ بعض نے مسیحی اور عیسائی سے کردیا ہے کیونکہ برصغیرمیں یہی معروف لفظ ہے۔

۱:۴۰:۲ (۳)    [وَالصَّابئین] (یہ اس لفظ کا رسم املائی ہے اس کے رسم عثمانی پر آگے بحث ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی)۔ ’’واو عاطفہ‘‘ اور لام تعریف نکال کر لفظ ’’صابئین‘‘ نکلتا ہے جس کا مادہ ’’ ص ب ء‘‘ اور وزن  ’’فَاعلین‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’صَبأَ یَصْبَأُ صُبُوْئًا‘‘ (باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’باہر نکل آنا‘‘ مثلاً کہتے ہیں۔ ’’صبأ النجمُ‘‘ (ستارہ طلوع ہوا) اور ’’صبأنابُ البَعیرِ‘‘ (اونٹ کا دانت۔ کچلی۔ نکل آیا) پھر اس سے اس میں ’’ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف جانا‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر اسی سے یہ ’’ایک مذہب چھوڑ کو دوسرا مذہب اختیار کرنا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں: صَبأ الرجلُ‘‘ (آدمی نے اپنا مذہب بدل لیا) مکہ کے لوگ آنحضرت کے لیے اور مسلمان ہونے والے صحابہ کرامؓ کے لیے یہی فعل استعمال کرتے تھے۔ ’’مسلمان ہونا‘‘ (اسلم یُسِلم)یا ’’ایمان لایا‘‘ (اٰمن یؤمن) کا فعل ان کے لیے کافر استعمال نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم میں اس مادہ (صبأ) سے کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا بلکہ اس سے مشتق صرف یہی لفظ ’’صابئین‘‘ (بصیغہ جمع الفاعل) معرف باللام شکل میں (مرفوع و منصوب) تین دفعہ آیا ہے۔

·       ’’صابئون‘‘ (جس کا واحد فعل مجرد سے اسم الفاعل ’’صابِیٌٔ ‘‘ ہے، اور جس کی جمع مکسر ’’صابِئَۃ‘‘ بھی آتی ہے اگرچہ قرآن کریم میں صیغہ واحد اور جمع مکسر کہیں استعمال نہیں ہوا۔ ایک مذہب کے پیروکاروں کو بھی کہا جاتا تھا۔ چونکہ یہ لوگ اپنی مذہبی تعلیمات بہت کم ظاہر کرتے تھے اس لیے اس کی حقیقت کے بارے میں اختلاف ہوا ہے۔ وہ شاید ’’ستارہ پرست‘‘ بھی تھے اور غالباً حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام سے بھی نسبت رکھتے تھے۔ ان کے مذہب کے بارے میں اسی  ابہام اور عدم معلومات کی بناء پر اہل عرب اور خصوصا اہل مکہ لفظ ’’صابیٔ‘‘ کو بے دین یا عجیب و غریب دین والا‘‘ کے معنی میں لیتے تھے۔

·       قرآن کریم میں ’’صابئین‘‘ کا ذکر تین جگہ آیا ہے جن میں دو جگہ (البقرہ:۶۲ اور المائدہ:۶۹) تو ان کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ گویا اپنی اصل کے لحاظ سے یہ بھی کبھی (اپنی شکل میں) ایک دین برحق تھا۔ اور یہ بھی کہ صابئین بھی اس زمانے میں یہودو نصاریٰ کی طرح ایک معروف امت تھے۔ تیسری جگہ (الحج:۱۷) میں ان کا ذکر اہل عرب کے لیے معروف مذاہبِ عالم میں سے ایک مذہب کے طور پر ہوا ہے۔

·       ’’صابئین‘‘ کے مذہب کی حقیقت کے بارے میں مذکورہ بالا مقامات پر ہمارے مفسرین نے بھی کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ ان کے بارے میں اس قسم کی تفاصیل ہمارے دائرۂ کار سے خارج ہیں۔ تاہم اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے بعض حوالوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مثلاً شہرستانی نے اپنی کتاب ’’الملل والنحل‘‘ میں ان کے بارے میں زیادہ لکھا ہے۔ ہمارے زمانے کی جدید کتابوں میں سے عباس محمود العقاد کی کتاب ’’ابراہیم۔ ابوالانبیاء‘‘ میں بھی اس کے بارے میں عمدہ معلومات ملتی ہیں۔ ’’قاموس القرآن (للقرشی) ‘‘میں بعض قابل توجہ امور بیان ہوئے ہیں۔

·       آج کل اس مذہب کے پیروکار جو ’’صابِئۃ‘‘ اور ’’مِندائیّین‘‘ (واحد مِندائِیٌّ) کہلاتے ہیں، ایران کے مغربی حصے میں اور جنوبی عراق کے مشرقی حصے میں یعنی دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں دریاؤں کے کنارے پائے جاتے ہیں۔ ان کی مذہبی رسومات میں بہتے دریا کا بڑا دخل ہے۔ ان کی کل آبادی پندرہ ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ ان کے بعض پڑھے لکھے لوگوں نے اپنے ’’صابیٔ‘‘ بچوں کے لیے دینی تعلیمات کے کتابچے بھی لکھے ہیں۔ عراق کے مشہور مجلہ ’’المورد‘‘ کے عدد (۲) ۱۹۷۶ء میں رشدی عُلیان کا ایک مقالہ ’’اصحاب الروحانیات أوِ الصابئۃ المِندائیُّون‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اس میں ان لوگوں کے مذہب، اس کی تاریخ، ان کے عقائد و اعمال اور ان کی مخصوص (علیحدہ) دینی زبان کے بارے میں بہت عمدہ معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں اور ان معلومات کے مصادر کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ فمن شاء فلیر اجعہ

ہمارے مترجمین میں سے بیشتر نے تو ’’صابئین، فرقہ صابئین ، صابی لوگ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے بعض نے ’’بے دین ‘‘ اور بعض نے ’’ستارہ پرست‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس کی وجہ اوپر لغوی بحث میں بیان ہوئی ہے۔

[مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ]میں ’’من‘‘ موصولہ شرطیہ (بمعنی ’’جو کوئی بھی‘‘) ہے، چاہیں تو مزید وضاحت  [۱:۷:۲ (۴)] میں دیکھ لیجئے۔ ’’آمن‘‘ کے مادہ، بابِ فعل اور معانی پر البقرہ:۳ [۱:۲:۲ (۱)]میں بات ہوچکی ہے۔ ’’باللّٰہ‘‘ کی ’’ب‘‘ تو فعل ’’آمن‘‘ کا صلہ ہے۔ اس طرح اس عبارت کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’جو کوئی بھی ایمان لایا اللہ پر‘‘ مگر ’’مَنْ‘‘ کے شرطیہ ہونے کی وجہ سے فعل مستقبل میں بھی ترجمہ ہوسکتا ہے۔ یعنی ’’ایمان لائے یا لائے گا‘‘ کی صورت میں۔

[وَالْیَوْمِ الْاٰخِر] اس پوری ترکیب (وَ + الیوم + الاٰخر) کے کلمات پر البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۷)]میں بات ہوچکی ہے۔ ویسے ’’وَ‘‘ کے لیے الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱(۳)]اور ’’الیوم‘‘ کے لیے الفاتحہ:۴ [۱:۳:۱(۲)]اور کلمہ ’’الآخر‘‘ کے لیے البقرہ:۴ [۱:۳:۲ (۵)]کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ ترجمہ بنتا ہے ’’اور آخری دن پر‘‘ (ایمان لائے) جسے ’’پچھلے دن، آخرت اور قیامت‘‘ سے بھی ترجمہ کیاگیا ہے۔ مفہوم سب کا ایک ہی بنتا ہے۔ تاہم بعض ترجمہ اصل الفاظ سے ہٹ کر ہے مثلاً ’’قیامت‘‘سے ترجمہ کرنا۔

[وَعَمِلَ صَالِحًا] ’’وَ‘‘ عاطفہ ہے اور ’’عَمِل‘‘ کے مادہ، وزن ،بابِ فعل اور معنی وغیرہ البقرہ:۲۵ [۱:۱۸:۲ (۲)]میں اور ’’صالحًا‘‘ کے مادہ، وزن وغیرہ کی بحث البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۶)]میں نیز البقرہ:۲۵ [۱:۱۸:۲ (۳)]میں دیکھئے۔ اس جملے کا ترجمہ بنتا ہے ’’اور اس نے کام کیا اچھا‘‘ جس کی بامحاورہ صورتیں ’’کام کیے نیک، اچھے کام کرتے رہے، اچھے کام کیے، نیک کام کرتے رہے، عمل نیک کرے گا، نیک عمل کرے‘‘ اختیار کی گئی ہیں بصیغہ جمع ترجمہ کرنے کی وجہ  ’’مَنْ‘‘ ہے جو لفظًا واحد مگر بلحاظ معنی جمع ہے۔ اور کہیں ماضی کہیں مستقبل یا مضارع سے ترجمہ کی وجہ ’’مَن‘‘ میں شرط کا مفہوم یا اصل مستعمل فعل (ماضی) کا لحاظ ہے۔

[فَلَھُمْ] جو  ’’فَ‘‘ (پس، تو پھر) + ’’ل‘‘ (کے لیے) + ’’ھم‘‘ (ان) کا مرکب ہے یہ تمام کلمات کئی دفعہ گزر چکے ہیں۔ ترجمہ ہے’’پس ان کے لیے ہے‘‘ جسے بعض نے معنی شرط کے جواب ہونے کی بنا پر ’’ہوگا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے ’’ھُمْ‘‘ کا ترجمہ بھی اسی جوابِ شرط والے مفہوم کی بنا پر ’’ایسوں کے لیے، ایسے لوگوں کو‘‘ سے کیا ہے یعنی ’’جن کی صفات اوپر بیان ہوئی ہیں وہ لوگ‘‘ اور ’’لَھُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’ان کو، ان کا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔

۱:۴۰:۲ (۴)    [اَجُرُھُمْ] میں آخری ضمیر مجرور ’’ھم‘‘ بمعنی ان کا/ کی ہے اور کلمہ ’’اَجْرٌ‘‘ کا (جو یہاں بوجہ اضافت خفیف آیا ہے) کا مادہ ’’ا ج ر‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد زیادہ تر باب نصر سے اور کبھی ضرب سے (أجَر یأجِرُ أجَرًا) آتا ہے اور اس کے متعدد معنی ہوتے ہیں: مثلاً

(۱) اجر یا بدلہ یا ثواب‘‘ کہتے ہیں: ’’أجَرَ ہ اللّٰہُ‘‘ (علی ما فعل) یعنی اللہ نے اس کو اجر (ثواب) دیا (اس پر جو اس نے کیا)

(۲)’’کرایہ پر دینا ‘‘ مثلاً کہتے ہیں: أجَرَ الدارَ فلانًا ای أکْراہ‘‘ یعنی ’’اس نے فلاں کو گھر کرایہ پر دیا‘‘ اور اسی معنی کے لیے یہ فعل باب افعال سے بھی آتا ہے یعنی ’’آجَر الدارَ إِیجارًا‘‘ ’’اس نے گھر کرایہ پر دیا‘‘۔

(۳) کسی کے لیے اجرت پر کام کرنا‘‘ مثلاً کہتے ہیں۔ ’’أجرَ العاملُ صاحَب العملِ‘‘ یعنی’’ مزدور (عامل) نے کام والے (صاحب العمل) کا کام اجرت پر کرنا منظور کرلیا ‘‘یعنی وہ اس کا ’’اجیر‘‘ بن گیا۔ اور اسی معنی کے لیے باب مفاعلہ سے فعل ’’آجر یؤجِر مؤاجَرۃ‘‘ (اجرت پر رکھنا۔ اجیر بنا لینا) بھی استعمال ہوتا ہے اور باب افعال سے  ’’اَجر یُؤْجِرإیجارًا‘‘ ’’اجرت پر کام کرنا یا اجیر بننا‘‘ کے معنی میں  بھی استعمال ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا معانی کے علاوہ یہ فعل مجرد بعض دیگر معانی (مثلاً ہڈی کا غلط جڑنا یا جوڑنا وغیرہ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

·       تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے صرف ایک ہی صیغہ فعل ’’تأجُرَ (نِی)‘‘ صرف ایک جگہ (القصص:۲۷) آیا ہے اور وہ بھی مذکورہ بالا صرف تیسرے معنی (نمبر۳) یعنی ’’کسی کے لیے اجرت پر کام کرنا‘‘ کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ مزید فیہ میں سے صرف باب استفعال کے دو صیغے قرآن کریم (القصص:۲۶) میں آئے ہیں۔ ان تین صیغوں کے علاوہ اس مادہ سے قرآن میں کوئی اور فعل استعمال نہیں ہوا۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’أجْر‘‘ اس مادہ کے فعل مجرد کا مصدر (بمعنی ’’اجرت دینا‘‘) بھی ہے اور بمعنی اسم المفعول (جو چیز بطور اجر یا اجرت دی جائے) بھی استعمال ہوتا ہے جو ’’اجر‘‘ دے دے وہ ’’آجر‘‘ ہے اور جس کو اجر دیا جائے وہ ’’مأجور‘‘ کہلاتا ہے اور جو چیز بطور اجرت دی جائے اسے ’’ماجوربہٖ‘‘ کہتے ہیں، اسی لیے عربی میں کہتے ہیں ’’أجَرَ بکذا‘‘(اس نے اسے فلاں شے اجر میں دی) اور لفظ ’’اجر‘‘ (ماجوربہٖہونے کے لحاظ سے) متعدد معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً ثواب، اجر (یہ دونوں لفظ اردو میں بھی مستعمل ہیں) اور زیادہ تر ’’نیک عمل کی جزاء، نیکی کا پھل، نیک کام کا اجر‘‘ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں لفظ ’’اجر‘‘ ان معنی کے علاوہ مطلقاً ’’اجرت، عوض، (عورت کا حق) مہر اور حق ‘‘کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ بعض اہل لغت (مثلاً صاحب القاموس) نے ’’ثواب‘‘ اور ’’اجر‘‘ میں یہ باریک فرق بیان کیا ہے کہ ’’ثواب‘‘ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے جب کہ ’’اجر‘‘ بندوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے گویا ہر ’’ثواب‘‘ ’’اجر ‘‘ہے مگر ہر ’’اجر ‘‘ ’’ثواب ‘‘نہیں ہوتا۔

لفظ ’’اجر‘‘ (واحد جمع مفرد، مرکب مختلف صورتوں میں) قرآن کریم کے اندر ۱۰۵ جگہ آیا ہے۔ زیر مطالعہ عبارت میں اس کا موزوں ترجمہ ’’ثواب، مزدوری، حق الخدمت، اجر اور صلہ‘‘ کی صورت میں ہوسکتا ہے اور کیا گیا ہے۔

[عَنْدَرَبِّھِمُ] جو ’’عِنْدَ‘‘ (ظرف بمعنی ’’کے پاس، کے ہاں‘‘) + ’’ربّ‘‘ (رب پروردگار) + ’’ھِمْ‘‘(ان کا) سے مرکب ہے یعنی ’’ان کے رب کے پاس/ کے ہاں‘‘

[وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ] اس پوری عبارت (جو دو جملوں پر مشتمل ہے) کے الگ الگ اجزاء کی لغوی وضاحت اور مجموعی ترجمہ پر البقرہ:۳۸  [۱:۲۷:۲ (۱۰)]  ااور [۱:۲۷:۲ (۱۱)]میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔

·       یہاں ’’ولا خوفٌ علیھم‘‘ کا ترجمہ ’’نہیں ان پر ڈر، نہ ان کو ڈر ہے، نہیں ان پر کچھ خوف  اور  کسی طرح کا خوف ان پر نہیں، ان پر خوف نہ ہوگا، نہ ان کو کچھ اندیشہ ہوگا، نہ ان کو کچھ ڈر ہے/ ہوگا ، نہ کسی طرح کا خوف ہوگا، نہ کوئی اندیشہ ان کے لیے ہوگا‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ ’’خوف‘‘ کے نکرہ ہونے کی وجہ سے ’’کچھ یا کوئی‘‘ سے ترجمہ زیادہ بہتر ہے۔ ’’ڈر، خوف، اندیشہ ‘‘سب ہم معنی ہیں۔ البتہ ’’کسی طرح کا‘‘ سے ترجمہ محل نظر ہے کیونکہ یہاں ’’خوفٌ‘‘ مرفوع ہے۔ لاء نفی جنس کے بعد نہیں آیا۔ اگر ’’لاخوفَ‘‘ ہوتا تو ’’کسی طرح کا‘‘ والا ترجمہ درست ہوتا۔ ’’ولا ھم یحزنون‘‘ کے تراجم ’’اور ’’نہ وہ غم کھائیں گے، نہ وہ غمگین ہوں گے، نہ ہی وہ مغموم ہوں گے، نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے، نہ وہ غمناک ہوں گے اور نہ وہ کوئی غم کریں گے‘‘ کی صورت میں کیے گئے ہیں تمام الفاظ ہم معنی ہیں البتہ اس میں بعض حضرات نے ’’ولا‘‘ کی تکرار سے پیدا ہونے والے مفہوم کو واضح نہیں کیا۔ اس پورے حصہ عبارت پر مزید بات آگے ’’الاعراب‘‘ میں آئے گی۔

 

 ۲:۴۰:۲     الاعراب

زیر مطالعہ آیت یوں تو ایک ہی بڑا جملہ ہے جس کے بعض حصے شرط اور جواب شرط ہوکر اور بعض بذریعہ واو عاطفہ باہم مربوط ہیں۔ اس کے الگ الگ اجزاء کی ترکیب نحوی کی تفصیل یوں ہے۔

(۱) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ (عبارت برسم املائی لکھی گئی ہے) [اِنّ] حرف مشبہ بالفعل اور [الذین] اسم موصول اس ’’اِنَّ‘‘ کا اسم ہونے کے باعث یہاں منصوب ہے مگر مبنی ہے لہٰذا علامتِ نصب ظاہر نہیں ہے۔ [آمنوا]  فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ ہوکر ’’الذین‘‘ کا صلہ ہے اور دراصل تو صلہ موصول مل کر ’’اِن‘‘ کا اسم بنتا ہے (بعض نحویوں کے نزدیک ’’صلہ‘‘ کا الگ کوئی اعراب نہیں ہوتا)۔ [والذین] کی واو عاطفہ ہے اور اس کے ذریعے اس ’’الذین‘‘ (موصول) کا سابقہ ’’الذین‘‘ پر عطف ہے یعنی یہ دوسرا ’’الذین‘‘ بھی محلاً منصوب ہے [ھادوا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر اس دوسرے ’’الذین‘‘  کا صلہ ہے اور یہ صلہ موصول ’’الذین آمنوا‘‘ پر عطف ہوکر اسم ’’اِنَّ‘‘ میں شامل ہوجاتا ہے۔ [والنصاریٰ] میں ’’النصاری‘‘ بھی بذریعہ واو العطف اسم ’’اِنّ‘‘ پر عطف ہے اس طرح یہ بھی منصوب ہے مگر اسم مقصور ہونے کے باعث علامتِ نصب ظاہر نہیں ہے۔ [والصابئین] میں بھی ’’الصابئین‘‘ بذریعہ واو العطف اسم ’’اِنّ‘‘ پر عطف ہوکر حالتِ نصب میں ہے اور اس کی علامتِ نصب آخری نون سے پہلے والی ’’یاء ماقبل مکسور‘‘ ( ــِــ   ی) ہے۔ یہاں تک کی ساری عبارت (الذین . . .الصابئین) ابتدائی ’’اِنّ‘‘ کا اسم ہے یعنی یہ مکمل  جملہ نہیں بنا۔ اس کی خبر آگے آرہی ہے یعنی اس عبارت کا اگلی عبارت کے ساتھ معنوی اور اعرابی تعلق ہے۔

(۲)  مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ

اس حصۂ  آیت کی نحوی ترکیب یا اعرابی بحث دو طرح ممکن ہے۔

الف: پہلی صورت یہ ہے کہ [مَنْ] اسم موصول کو بمعنی ’’الذی‘‘ لے کر ’’اِنّ‘‘ کے اسم (مندرجہ بالا جملہ نمبر۱) کا بدل قرار دیا جائے اور یہ بدل ’’بدل البعض من الکُلِّ‘‘ ہوگا۔ (یعنی مندرجہ بالا لوگوں میں سے ایسے لوگ جو) [اَمن] فعل ماضی مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ جملہ فعلیہ بن کر اسم موصول (مَنْ) کا صلہ ہے۔ بلکہ یہاں سے صلہ کی ابتداء ہوتی ہے اور یہاں ایک ضمیر عائد محذوف ہے۔ یعنی یہ ’’مَنْ آمن مِنْھم‘‘ (جو ایمان لایا ان میں سے) ہے [باللّٰہ] جار مجرور (بِ + اﷲ) مل کر متعلق فعل ’’آمن‘‘ ہے۔ [والیوم الآخر] میں واو عاطفہ اور ’’الیوم‘‘ موصوف اور ’’الآخر‘‘ صفت ہے اور یہ مرکب توصیفی (الیوم الاخر) ’’باﷲ‘‘ پر بذریعہ ’’واو‘‘ عطف ہے اور اسی لیے (مجرور پر عطف ہونے کے باعث) خود بھی مجرور ہے گویا یہ عبارت دراصل ’’باﷲ وبالیوم الاخر‘‘ ہے اس کے بعد اگلی [و] بھی عاطفہ ہے جس کے ذریعے اگلا فعل (عمل) سابقہ فعل (آمن) پر عطف ہے یعنی ’’آمن و عمِلَ‘‘ [عمل]فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ ہے اور  [صالحًا] تو صفت ہے جس کا موصوف محذوف ہے یعنی ’’عَملًا صالحًا‘‘ اور یہ محذوف  (عَمْلًا) فعل ’’عمِل‘‘ کا مفعول بہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کا مفعول مطلق بھی۔ اور اس (صالحًا) کی نصب کی وجہ یہی ہے۔ اس ترکیب کے مطابق یہ عبارت (من آمن باﷲ والیوم الآخر وعمل صالحًا) سابقہ عبارت یعنی ’’الذین آمنوا. . . الصابئین‘‘(نمبر۱ مندرجہ بالا) کا ہی ایک حصہ ہے یعنی یہ سب ’’اِنَّ‘‘ کا اسم ہی ہے‘‘ ان لوگوں کو کیا ہو گا؟ یہ ابھی بیان نہیں کیا گیا۔ یعنی اس کی جزا  ابھی بیان نہیں ہوئی وہ آگے (جملہ نمبر۳) میں آرہی ہے۔ (فلھم. . .میں

 ب:  دوسری اعرابی صورت یہ بن سکتی ہے کہ [مَن] کو اسم شرط سمجھ کر (اور اسمائے موصولہ اور اسمائے استفہام ہی اسمائے شرط بنتے ہیں) مبتداء (لہٰذا) مرفوع قرار دیا جائے اس طرح اس کا ترجمہ ’’جو کوئی بھی‘‘ ہوگا اور ’’آمن باﷲ والیوم الاخر و عمل صالحًا‘‘ (جس کے کلمات کی الگ الگ اعرابی کیفیت اوپر (الف میں) بیان ہوچکی ہے) کو اس ’’مَن‘‘ شرطیہ کی خبر سمجھا جائے تو یہاں تک کی عبارت جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ (جس میں بیانِ شرط ہے) مکمل ہوتا ہے۔ اور اس سےاگلی عبارت (فلھم اجرھم . . . جو آگے نمبر۳ میں آرہی ہے) اس کا جوابِ شرط ہے اور شرط و جوابِ شرط پر مشتمل یہ سارا جملہ شرطیہ (من آمن. . .اجرھم) سابقہ جملہ (نمبر۱) کے ’’اِنَّ‘‘ کی خبر بنتا ہے (اِنَّ‘‘ کا اسم اوپر (نمبر۱، نمبر۲ الف میں) آگیا ہے۔ اس میں ’’مَنْ‘‘ شرطیہ کی وجہ سے فعل ماضی (آمن۔۔۔ عمل) کا ترجمہ مستقبل میں ہونا چاہیے تاہم بلحاظ مضمون چونکہ یہاں سابقہ امتوں کا ذکر ہے اس لیے ترجمہ فعل ماضی کے ساتھ (جس کسی نے . . .کیا) بھی جائز ہے اور دونوں طرح کیا گیا ہے۔

(۳)  فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ

اس میں [فَ] مندرجہ بالا پہلی ترکیب (الف) کے مطابق زائدہ ہے جسے بعض دفعہ فائے فصیحہ بھی کہتے ہیں اور یہ وہ ’’فاء‘‘ ہوتی ہے جو کسی مبتداء کی خبر پر خصوصاً ’’الذی‘‘ کے بعد والی عبارت پر آتی ہے یا ’’اِنَّ‘‘ کی خبر پر بھی آتی ہے جیسے کہیں ’’الذی یأتی فلہ دِرھمٌ‘‘ (جو آئے گا اسے درہم ملے گا) قرآن کریم میں ایک مثال ’’ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيْكُمْ ‘‘ (الجمعہ:۸) ہے یعنی ’’بے شک موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تو تم سے ملنے والی ہے‘‘ مندرجہ بالا دوسری ترکیب (بِ) کے لحاظ سے یہ فاء ’’ف‘‘ جوابِ شرط پر آنے والی ’’فاء‘‘ (حرف ربط) ہے۔ [لھم] جار مجرور (ل+ ھم) مل کر خبر(یا قائم مقام خبر) مقدم ہے اور [اجرھم] مضاف (اجر) مضاف الیہ (ھم) مل کر مبتداء مؤخر ہے (خبر جار مجرو ریا ظرف ہو تو مبتدأٔمؤخر آتا ہے) گویا دراصل عبارت تھی ’’فأجر ھم لھم‘‘ اس میں ’’فلھم‘‘ کی تقدیم (پہلے کردینے) سے اس میں حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے جسے اردو ترجمہ میں ’’پس ان ہی کے لیے ہوگا‘‘ سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ جسے بعض مترجمین نے ’’ایسے لوگوں، ایسوں کے لیے‘‘ سے ظاہر کیا ہے [عندَ ربھم] میں ’’عِنَد‘‘ ظرف مضاف لہٰذا منصوب ہے اور ’’ربھم‘‘ مرکب اضافی (’’ب‘‘ مضاف اور ’’ھم‘‘ مضاف الیہ) ’’عند‘‘ کا مضاف الیہ ہے اسی لیے ’’رب‘‘ مجرور ہے جو آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے اور یہ حصہ عبارت (عندربھم) متعلق خبر ہے اور یوں یہ پوری عبارت ’’فلھم اجر ھم عندربھم‘‘ ایک جملہ اسمیہ ہے جو مندرجہ بالا پہلی ترکیب (نمبر۲ الف) کے لحاظ سے ’’اِنَّ‘‘ (جس سے آیت شروع ہوئی تھی) کی خبر اور گویا محلاً مرفوع ہے (خبر ’’اِنّ‘‘مرفوع ہوتی ہے) اور دوسری ترکیب (نمبر۲ ب) کے لحاظ سے یہ جملہ (فلھم اجرھم عندربھم) ’’مَنْ‘‘ شرطیہ سے شروع ہونے والے جملے (من آمن باﷲ والیوم الاخر و عمل صالحًا) کا جوابِ شرط ہے اور پھر یہ پورا جملہ شرطیہ (شرط مع جواب شرط (یعنی مَنْ آمن . . .عند ربھم) ’’اِنَّ‘‘ کی خبر بنتا ہے گویا یہ پورا جملہ (من آمن . . . عندربھم) محلاً مرفوع ہے ترکیب نحوی کے اس فرق سے اردو ترجمہ پرکوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ سوائے اس کے کہ پہلی ترکیب کے مطابق ’’مَن‘‘ کا ترجمہ ’’ان میں سے جو بھی‘‘ اور دوسری ترکیب کے لحاظ سے مطلقاً عموم کے ساتھ یعنی ’’جو کوئی بھی کہ‘‘ سے ہوگا۔

(۴) وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ

[وَ]عاطفہ ہے جس کے ذریعے آنے والے جملے کا سابقہ جملے (نمبر۳۔ فلھم. . . .) پر عطف ہے۔ [لا] نافیہ مشابھۃ ’’بلیس‘‘ (یعنی بمعنی’’لیس‘‘) ہے۔ اس طرح[خوفٌ] اسم ’’لیس‘‘ (لہٰذا) مرفوع ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس’’خوف‘‘ کو مبتدأ سمجھ لیں کیونکہ نفی کے بعد مبتدأ نکرہ آسکتا ہے۔ [علیھم] جار مجرور (علی + ھم) مل کر ’’لا‘‘ (بمعنی ’’لیس‘‘) کی خبر ہے لہٰذا یہ محلاً منصوب ہے (لَیْسَ) کی خبر منصوب بھی آتی ہے اور ’’بِ‘‘ زائدہ لگ کر مجرور بھی۔ یا اسے (علیھم کو) مبتدأ (خوف) کی خبر (لہٰذا) محلاً مرفوع بھی کہہ سکتے ہیں۔

[وَ] عاطفہ ہے اور اس کے بعد کا [لا] بمعنی ’’لیس‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور اگلے فعل ’’یحزنون‘‘ کی نفی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ ’’وَ‘‘ کے ساتھ ’’لا‘‘ کی اس تکرار سے اس ’’وَلَا‘‘ کا ترجمہ ’’اور نہ ہی‘‘ ہوگا [ھم] ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے اور [یحزنون] فعل مضارع مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر ’’ھم‘‘ (مبتدأ) کی خبر بنتا ہے گویا دراصل عبارت تھی ’’و ھم لا یحزنون‘‘ (وہ غم نہیں کریں گے) مگر ’’ولا‘‘ کی تقدیم سے اور ’’لا‘‘ کی تکرار کی وجہ سے ترجمہ ہوگا ’’اور نہ ہی وہ غم کریں گے‘‘ اور اگر اس دوسرے ’’لا‘‘ کو بھی مشابھۃ بلیس سمجھیں تو ’’ھم‘‘ اس کا اسم مرفوع اور ’’یحزنون‘‘ بمعنی ’’حازنین‘‘ ہوکر اس کی خبر (محلاً منصوب) بھی ہوسکتی ہے۔ دونوں صورتوں میں ’’لا‘‘ کی تکرار ترجمہ میں ’’اور نہ ہی ‘‘ کی متقاضی ہے تاہم اردو کے اکثر مترجمین نے اس ’’ہی‘‘ کے بغیر صرف دو دفعہ ’’نہ‘‘ (اصل عبارت کی طرح ) لگا کر ہی ترجمہ کردیا ہے۔

    اس عبارت (لا خوف. . .یحزنون) پر اعرابی بحث البقرہ:۳۸ [۲:۲۷:۲]کے آخر پر بھی گزر چکی ہے۔

 

۳:۴۰:۲     الرسم

زیر مطالعہ آیت میں سے صرف دو کلمات کا رسم قرآنی (عثمانی) عام رسم املائی سے بالکل مختلف ہے۔ یعنی ’’النصاری‘‘ اور ’’الصابئین‘‘ کا۔ اور ایک تیسرے لفظ ’’صالحًا‘‘ کا رسم مختلف فیہ ہے یہاں اور گزشتہ (لغۃ اور اعراب کی) بحث میں کئی جگہ محض سمجھانے کے لیے ان تینوں کلمات کو عام رسمِ املائی کے مطابق ہی لکھا گیا ہے، لہٰذا ان کے رسم عثمانی کی بحث پر توجہ کی ضرورت ہے۔

(۱)’’النصاری‘‘ یہ لفظ رسم عثمانی کے لحاظ سے بالاتفاق بحذف الالف بعد الصاد لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’النصری‘‘ یہ لفظ یہاں اور ہر جگہ (اور یہ قرآن کریم میں کل ۱۴ جگہ آیا ہے) اسی طرح بحذف الف ’’النصری‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ ایرانی اور ترکی مصاحف میں اسے برسم املائی لکھنے کی غلطی عام ہے برصغیر میں یہ غلطی نسبتاً کم ہے۔

(۲) ’’الصابئین‘‘ یہ لفظ عثمانی (قرآنی) رسم الخط کے مطابق بالا تفاق صاد کے بعد الف کے حذف اور’’ب‘‘ اور ’’ی‘‘ کے (دندانوں) کے درمیان ہمزہ کے لیے نبرہ یعنی دندانہ کے بغیر یعنی بصورت ’’الصبین‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ یہ لفظ (جو قرآن کریم میں کل تین جگہ۔ دو جگہ منصوب اور ایک جگہ مرفوع آیا ہے) مصاحف عثمانی میں بصورت ’’الصیں‘‘(ی کے نقطوں کے بغیر) اور ’’الصوں‘‘ لکھا گیا تھا [مصحف عثمانی میں نہ نقاط (اعجام) تھے نہ حرکات (ضبط)] نقاط لگانے کے بعد یہ لفظ ’’الصبین‘‘ اور ’’الصبون‘‘ لکھے جانے لگے۔ ہم پہلے البقرہ:۱۴[۲:۱۱:۲ (۴)] میں( مُسْتَھْزِؤُن) کے ضمن میں) بتا چکے ہیں کہ ہمزۂ قطع کی علامت بعد میں وضع کی گئی۔ بعض قراء ات (مثلاً قالون اور ورش) میں یہ لفظ بغیر ہمزہ کے ہی پڑھا جاتا ہے یعنی ’’صابین‘‘ اور ’’صابُون‘‘ کی طرح اور جو ہمزہ پڑھتے ہیں وہ بھی کتابت میں ہمزہ کے لیے نبرہ (دندانہ) لگاناجائز نہیں سمجھتے (عام املا میں ایسے موقع پر ہمزہ کو یاء کے نبرہ (دندانہ) پر یا اس کے نیچے لکھا جاتا ہے) کیونکہ اس طرح رسم عثمانی پر ایک دندانہ کا اضافہ ہوجاتا ہے اس لیے جن قراء توں (مثلاً حفص اور الدوری) میں ہمزہ پڑھا (اور لہٰذا) لکھا جاتا ہے وہ اس ہمزۂ قطع کی علامت کو ( ( # )) ’’ب‘‘ اور ’’ی‘‘ (اور بصورت رفع ’’ب‘‘ اور ’’و‘‘ کے درمیان (بغیر دندانے کے) لکھتے ہیں۔ اس طرح یہ لفظ ’’الصّٰبِئِیْنَ‘‘اور ’’الصّٰبِئُوْنَ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اور قرأت ورش و قالون والے مصاحف میں ان کو بصورت ’’الصّٰبِیْنَ‘‘ اور  ’’الصّٰبُوْنَ‘‘ہی لکھا اور پڑھا جاتاہے جو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اسے ’’صَبَأَ  یَصْبَأُ‘‘ مہموز سے لیتے ہیں جس پر ’’اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے اور جو اسے ہمزہ کے بغیر بھی پڑھتے ہیں وہ اسے ’’صَبَا یَصْبُوْ‘‘ ناقص واوی سے لیتے  ہیں جس کے معنی مڑ جانا ہیں اس پر مزید بات یوسف:۳۳ میں ہوگی۔ مزید بحث کے لیے مندرجہ بالا حوالہ یعنی۳:۱۱:۲ کی طرف رجوع کیجئے۔  [1]ایرانی اور ترکی مصاحف میں اس لفظ کو بھی رسم املائی کے مطابق لکھنے کی غلطی عام ہے۔

(۳)’’صالحًا‘‘ کے رسم الخط میں الدانی اور ابوداؤمیں اختلاف ہے۔ الدانی کے مطابق لفظ ’’صالح یا صالحاً‘‘ (مرفوع مجرور یامنصوب) جب مشہور پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام (جو قوم ثمود کی طرف بھیجے گئے تھے) کے لیے آئے تو بحذف الف بعد الصاد یعنی بصورت ’’صٰلِح یا صٰلِحًا‘‘ لکھا جائے گا۔ اور جب عام اسم الفاعل (بمعنی ’’نیک، اچھا‘‘) آئے تو اسے باثبات الف یعنی بصورت ’’صالح یا صالحاً‘‘ لکھا جائے گا (یعنی الدانی کے مطابق مصاحف عثمانی میں اسے اس طرح لکھا گیا تھا) مگر ابوداؤد کے مطابق یہ لفظ بطور عَلَم(نام) آئے یا بطور صفت ہر صورت میں بحذف الف بعد الصاد لکھا جائے گا۔ قرآن کریم میں یہ لفظ بطور علم (حضرت صالح   ؑکے نام کے طور پر) دس جگہ آیا ہے ان سب مقامات پر اسے بالاتفاق بحذف الف (صٰلح، صٰلحا) لکھا جاتا ہے۔ اور بطور صفت یہ لفظ قریباً ۳۴ جگہ آیا ہے۔ مذکورہ اختلاف کی بناء پر عرب اور عام افریقی ممالک کے مصاحف میں۔ ابو داؤدسے منسوب قول کے مطابق بحذف الف (صلح/ صلحا) ہی لکھا جاتا ہے۔ مگر لیبیا اور برصغیر کے مصاحف میں ان (۳۴) مقامات پر اسے باثباتِ الف (صالح۔ صالحًا) ہی لکھا جاتا ہے۔ [2]

 

۴:۴۰:۲      الضبط

زیر مطالعہ آیت کے کلمات میں ضبط کا تنوع کسی حد تک درج ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے ’’النصری، الصبئین اور الاخر‘‘ کا طریقِ ضبط غور طلب ہے۔

 

 

 

 

62

 



[1]   نیز دیکھئے سمیر الطالبین ص ۳۴ اور نثر المرجان ج۱ ص ۱۵۶ نیز اتحاف فضلاء  البشر ج۱ ص ۳۹۲۔

 

[2]  دیکھئے المقنع ص ۲۱۔ سمیر الطالبین ص ۵۰ نیز نثر المرجان ج۱ ص ۱۵۶۔