سورۃ البقرہ  آیت ۶۳  اور ۶۴

۴۱:۲    وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ   ۭ  خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ  (۶۳) ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ    ۚ  فَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ(۶۴)

۱:۴۱:۲     اللغۃ

[وَاِذْ] کئی دفعہ گزر چکا ہے۔ چاہیں تو ’’وَ‘‘ کے لیے الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱ (۳)]اور البقرہ:۸ [۱:۷:۲ (۱)]دیکھئے اور ’’اِذْ‘‘ کے لیے البقرہ:۳۰ [۱:۲۲:۲ (۱)]دیکھ لیجئے۔ ترجمہ ہے ’’اور جب‘‘۔ [اَخَذْنَا] کا مادہ ’’أ خ ذ‘‘ اور وزن ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے یعنی یہ فعل مجرد کا صیغہ ماضی جمع متکلم ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد(’’أخذ. . . یاخُذ= پکڑنا) کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۴۸[۱:۳۱:۲ (۵)]میں بات ہوچکی ہے۔

[میْثَاقَکُمْ] کی آخری ضمیر مجرور ’’کُمْ‘‘ تو بمعنی ’’تمہارا‘‘ ہے۔ اور کلمہ ’’مِیْثَاقٌ‘‘  کا مادہ ’’و ث ق‘‘ اور وزن اصلی ’’مِفْعَالٌ‘‘ ہے۔ جو اسم آلہ کا مشہور وزن ہے۔ یہ دراصل ’’مِوْثاق‘‘ تھا جس میں ساکن حرف علت (و) کو اس کے ماقبل کی حرکت کسرہ (ــــــِــــ ) سے موافق کرنے کے لیے ’’ی‘‘ میں بدل کر لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (وثِقَ یثقِ = اعتماد کرنا) کے باب معنی اور استعمال کے بارے میں لغوی بحث البقرہ:۲۷ [۱:۲۰:۲ (۳)]میں گزر چکی ہے۔

·       لفظ ’’میثاق‘‘ کا ترجمہ ’’قول واقرار‘‘ ہے۔ اور ’’میثاقکم‘‘ کا ترجمہ ’’تمہارا اقرار‘‘ ہے۔ اس طرح ’’اخذنا میثاقکم‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’ہم نے لیا تمہارا عہد‘‘ (اقرار)۔ مگر یہ ترجمہ اردو محاورے کے مزاج کے موافق نہیں۔ اس لیے اکثر مترجمین نے  ’’میثاقکم‘‘ کا ترجمہ ’’تم سے اقرار، تم سے عہد، تم سے قول و قرار (لیا)‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ یہ اردو میں فعل ’’پکڑنا،لینا‘‘ کے استعمال کے طریقے یا محاورے کے فرق کی مجبوری ہے ورنہ اصل عربی میں ’’المیثاق یا میثاقًا مِنکم‘‘ تو نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے عربی میں کہتے ہیں ’’ظلَمَہٗ‘‘ مگر اس کا اردو ترجمہ ’’اس نے اس پر ظلم کیا‘‘ ہوتا ہے حالانکہ عربی میں ’’ظلم‘‘ کے ساتھ ’’علی‘‘ استعمال نہیں ہوتا۔

·       ویسے زیر مطالعہ کلمات ’’اخذ‘‘ اور ’’میثاق‘‘ کا عربی میں ’’مِنْ‘‘ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کہتے ہیں ’’اخذ میثاقہ‘‘ اور ’’أخذ منہ میثاقہ‘‘ (اس نے اس سے قرار لیا) قرآن کریم میں ’’ . . .سے عہد لینا‘‘   کے لیے فعل ’’اخذ‘‘   کے ساتھ ۹ جگہ ’’میثاق‘‘  مفعول بنفسہ (براہِ راست بغیر صلہ کے) آیا ہے مگر کم از کم تین مقامات (النساء:۲۱ و ۱۵۴ اور الاحزاب:۷) پر فعل ’’اخذ‘‘ کے ساتھ ’’مِنْ. . . ‘‘  کا صلہ اور پھر ’’میثاق‘‘ مفعول منصوب ہوکر بھی آیاہے۔ زیر مطالعہ حصہ عبارت ’’اخذنا میثاقکم‘‘ میں اگرچہ صلہ ’’مِنْ‘‘ نہیں آیا تاہم یہ ’’اخذنا منکم میثاقکم‘‘ کے معنی میں ہی ہے۔ اور اردو مترجمین نے صرف اردو فعل ’’لینا‘‘ کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اصل عربی بلکہ قرآنی استعمال کے بھی مطابق ترجمہ کیا ہے۔

۱:۴۱:۲ (۱) [وَرَفَعْنَا] کی ’’ وَ‘‘ عاطفہ (بمعنی ’’اور‘‘) ہے۔ اور ’’رَفَعْنَا‘‘کا مادہ ’’ر ف ع‘‘ اور وزن ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’رَفَع . . .یرفَع رَفْعًا‘‘(فتح سے) آتا ہے اور زیادہ تر یہ بطور فعل متعدی استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کا مفعول ہمیشہ بنفسہ آتا ہے۔ اس فعل کے بنیادی معنی ہیں: ’’. . .کو اوپر اٹھانا، اونچا کرنا، بلند کرنا‘‘ اور یہ فعل اپنے حقیقی اور مجازی مفہوم یعنی حسی رفع (کسی چیز کو اس کی جگہ سے اوپر کردینا، اٹھانا) اور معنوی رفع (درجہ یا عزت بڑھانا، بلند کرنا) دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

·       اسی لیے یہ فعل متعدد محاوراتی اور اصطلاحی معنی دیتا ہے مثلاً(۱)  ’’رفع صوتَہ‘‘ (اس نے اپنی آواز بلند کی) (۲) ’’رفع الزرعَ بعد الحصادِ‘‘ (اس نے فصل کاٹنے کے بعد اٹھالی یعنی اٹھا لے گیا) (۳) ’’رفع البنائَ‘‘ (اس نے مکان (کی دیواروں) کو اٹھایا۔ اونچا کیا یعنی تعمیر کی) (۴) ’’رفع فلانًا الی الحاکم‘‘ (اس نے فلاں پر حاکم کے پاس مقدمہ دائر کیا) (۵) ’’رفع الحدیثَ الی قائلۃ‘‘ (وہ بات کو بذریعہ سند اوپر اصل قائل تک لے گیا) اور اسی سے اصطلاحاً حدیثِ مرفوع ایسی حدیث کوکہتے ہیں جس کا سلسلہ سند براہ راست نبی کریم تک پہنچتا ہو۔ (۶) ’’رفع العقوبۃَ‘‘ (اس نے سزا (یاجرمانہ) ہٹادیا)۔ ان سب مثالوں میں مفعول بنفسہ آیا ہے۔

·       اور بعض معنی کے لیے یہ فعل لازم متعدی دونوں طرح بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’رفع البعیرُ/ البعیرَ فی سیر‘‘ (اونٹ تیز رفتاری سے چلا/یا اس نے اونٹ کو تیز چلایا)۔ باب کُرم (رفُع یرفُع رِفْعَۃً) سے یہ فعل ’’بلند مرتبہ ہونا‘‘ کے معنی دیتا ہے اور اسی سے ’’رفیع‘‘ صفت مشبہ بمعنی ’’بلند مرتبہ والا‘‘ استعمال ہوتی ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل کے یہ سارے استعمالات وارد نہیں ہوئے۔

·       قرآن کریم میں اس فعل مجرد (رفَع یرفَع) کے مختلف صیغے کل ۲۲ جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ ’’بلند کرنا‘‘ کے معنی میں ہی آیا ہے۔ ان میں سے ۱۲ جگہ تو یہ فعل اپنے حقیقی اور بنیادی معنی یعنی حسی رفع کے لیے استعمال ہوا ہے باقی دس مقامات پر مجاز اور استعارہ کے طور پر معنوی رفع کے لیے آیا ہے۔ کسی لفظ کے (کسی جگہ) حقیقی یا مجازی معنی متعین کرنے میں عبارت کا سیاق و سباق بھی مدد دیتا ہے اور اس کے بارے میں اصول تفسیر اور اصولِ فقہ میں یہ قاعدہ بیان ہوا ہے کہ کسی عبارت میں کسی لفظ سے اصل مقصود تو اس کے حقیقی معنی ہی ہوتے ہیں۔  سوائے اس کہ کوئی ایسا قرینہ (سبب یا وجہ)پایا جائے جو حقیقی معنی مراد لینے سے مانع ہو۔ اور محض ’’کسی کی‘‘ عقل میں نہ آنا ایسا قرینہ نہیں ہے۔

·       اس مادہ (رفع) سے مزید فیہ کا کوئی فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا۔ فعل مجرد کے مذکور صیغوں کے علاوہ بعض مشتق اسماء (رفع، رفیع، مرفوع وغیرہ) بھی کل سات جگہ آئے ہیں۔ ارد ومیں لفظ ارتفاع (بمعنی اونچائی) مرتفع (مثلاً سطح) اور رِفعت (بلندیٔ مرتبہ) عام استعمال ہوتے ہیں۔ یہ اسی مادہ سے مشتق الفاظ ہیں۔

[فَوْقَکُمْ] جو ’’فوق‘‘ (اوپر) + ’’کم‘‘ (تمہارے) کا مرکب ہے یعنی ’’تمہارے اوپر‘‘۔ لفظ ’’فوق‘‘ پر لغوی بحث یعنی اس مادہ سے فعل اس کے باب و معنی وغیرہ کے علاوہ خود ’’فوق‘‘ کے معنی وغیرہ پر البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲۶ (۴)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

۱:۴۱:۲ (۲) [الطورَ] کا مادہ ’’ط و ر‘‘ اور وزن، لام تعریف کے بغیر ’’فُعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’طار یطُور طَوْرًا‘‘ (نصر سے) کے معنی ہیں’’کسی چیز کے قریب جانا یا اس کے ارد گرد منڈلانا‘‘ مثلاً کہتے ہیں: طارہ، و طاربہ و طارحولَہٗ (وہ اس کے قریب ہوا یا اس کے ارد گرد منڈلایا) یعنی یہ فعل مفعول بنفسہ کے ساتھ بھی آتا ہے اور اس کے ساتھ ’’باء (ب)‘‘ کا صلہ بھی استعمال ہوتا ہے عام عربی میں تو اس کے مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل، تفعل وغیرہ) سے بھی مختلف معنی کے لیے فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا (نہ مجرد نہ مزید فیہ)۔ بلکہ قرآن کریم میں تو اس مادہ سے یہی لفظ ’’الطور‘‘ یا ’’طور‘‘ (مضاف ہوکر) دس جگہ آیا ہے اور صرف ایک جگہ (نوح:۱۴) لفظ ’’ اَطْوَارًا  ‘‘ (جو ’’طور‘‘ کی جمع ہے) آیا ہے۔

·       عربی میں ’’طور‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں خصوصاً ایسا پہاڑ جس پر درخت یا جھاڑیاں اگتی ہوں۔ اس کے علاوہ ’’طُوْر‘‘ گھر کے صحن کو بھی کہتے ہیں۔ اور اس چیز کو بھی ’’جو کسی چیز کے کنارے کے قریب یا اس کے بالمقابل‘‘ ہو۔ قرآن کریم میں یہ لفظ آٹھ جگہ معرف باللام ہوکر (الطور) آیا ہے اور دو جگہ ’’سَیْناء‘‘ اور ’’سِیْنِیْنَ‘‘ کی طرف مضاف ہوکر یعنی ’’ طُوْرِ سَيْنَاۗءَ ‘‘ (المومنون:۲۰) اور ’’ وَطُوْرِ سِيْنِيْنَ  ‘‘ (التین:۲) کی صورت میں آیا ہے۔ اور (ان سب مقامات پر) اس سے مراد ایک خاص پہاڑ ہے جو جزیرہ نمائے ’’سینا‘‘ میں ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ’’توریت‘‘ (التورـۃ) ملنے کا یہی مقام تھا۔ بعض مترجمین نے یہاں ’’طور‘‘ کا لفظی ترجمہ ’’پہاڑ‘‘ کیا ہے (کیونکہ خود قرآن میں دوسری جگہ اسی طور کے لیے لفظ’’الجبل‘‘ بھی آیا ہے، الاعراف:۱۷۱) اور بعض نے ’’کوہ طور‘‘ اور ’’طور پہاڑ‘‘ کیا ہے جب کہ بعض نے صرف ’’طور‘‘ ہی رہنے دیا ہے۔

·       یہ ’’رفع طور‘‘ (پہاڑ اونچا کردینا) والا واقعہ کب ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ چاہیں تو اس قسم کے ’’خود ساختہ‘‘ سوالوں کے جواب کے لیے کسی مستند  تفسیر کا مطالعہ کرلیجئے۔ یہاں اس عبارت ’’ورفعنا فوقکم الطور‘‘ (جس کے اجزاء پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور اونچا کیا ہم نے تم پر طور (پہاڑ) کو‘‘ جسے ’’تم پر طور کو اونچا کیا‘‘ اٹھا یا تمہارے اوپر پہاڑ‘‘ کی شکل بھی دی گئی ہے۔ مگر بعض مترجمین نے اس واقعہ کے متعلق تفسیری اقوال کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا ہے مثلاً ’’پہاڑ اٹھا کر تمہارے اوپر لٹکادیا، پہاڑ (طور) کو اٹھا کر تم پر معلق کردیا‘‘ اور ’’پہاڑ کو اکھیڑ کر تم پر لٹکا دیا‘‘ کی صورت میں۔ بلحاظ ترجمہ یہ اصل نص قرآنی سے تجاوز ہے اور عبارت کے الفاظ سے دور جانے والی بات ہے۔ شاید اسی لیے بعض نے بین بین ترجمہ کیا ہے۔ یعنی ’’کوہ طور کو تم پر اٹھاکھڑا کیا‘‘ فہم عبارت کے لیے بنیادی طور پر لغوی اور لفظی ترجمہ ہی اصل ہے۔ محاورہ اور تفسیر کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔

[خُذُوْا] کا مادہ ’’اَخ ذ‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعُلُوْا‘‘ ہے جو تعلیل کے بعد ’’عُلُوْا‘‘ رہ گیا ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’أَأْخُذُوْا‘‘ تھی قیاس صرفی کے مطابق اسے ’’أُوْخُذُوْا‘‘ ہونا چاہیے تھا مگر اہل عرب کے استعمال کے مطابق خلافِ قیاس اس میں (أکَل اور أمَر کے فعل امر کی طرح) ابتدائی ہمزۃ الوصل اور اصل مادہ کا ہمزۃ القطع (فاء کلمہ) ساقط کردیا جاتا ہے اس مادہ سے فعل مجرد (أخذ یأخذ= پکڑنا، لینا) کے باب معنی اور استعمال وغیرہ پر البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۵)]میں بات ہوچکی ہے۔

·       ’’خُذُوْا‘‘ (زیر مطالعہ کلمہ) اس فعل مجرد سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ مذکورہ خلاف قیاس صرفی تعلیل کی بناء پر اس کے فعل امر کی گردان ’’خُذْ، خُذَا، خُذُوْ، خُذی، خُذا اور خُذنَ ہوجاتی ہے۔ یہ فعل قرآن کریم میں کثیر الاستعمال ہے۔ ’’خُذُوا‘‘ کا ترجمہ ’’تم پکڑ لو‘‘ ہے۔ جسے بعض مترجمین نے ’’پکڑے رہو، پکڑے رکھو، پکڑ رکھو‘‘ کی صورت دی ہے بعض نے ’’تھام لو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ’’قبول کرلو‘‘ سے کیا ہے جو لفظ سے ہٹ کر ہے گو بلحاظ مفہوم (سیاق عبارت میں) ٹھیک ہی ہے۔

[ماآتیناکم] میں ابتدائی ’’ما‘‘ موصولہ بمعنی ’’جو کچھ کہ‘‘ ہے چاہیں تو مزید وضاحت کے لیے [۱:۲:۲ (۵)] دیکھ لیجئے۔ آخری ’’کُم‘‘ ضمیر منصوب بمعنی ’’تم کو‘‘ ہے۔ ’’اَتَیْنَا‘‘ (اس کا یہ رسم اور ضبط املائی ہے قرآنی رسم و ضبط آگے چل کر بیان ہوگا) کا مادہ ’’ا ت ی‘‘ اور وزن اصلی ’’أَفْعَلْنَا‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’أَ أْ تَیْناَ‘‘ تھا جس میں متحرک اور ساکن ہمزہ ملکر ’’ آ  ‘‘ (ئَ ا) ہوجاتا ہے۔ یہ اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل ماضی صیغہ متکلم ہے اس مادہ سے فعل مجرد کے باب معنی وغیرہ (أتی یاتِی) پر البقرہ:۲۳ [۱:۱۷:۲ (۴)]میں اور اس کے بابِ افعال (آتی یُوْتی= دینا) کے معنی و استعمال پر البقرہ:۴۳ [۱:۲۹:۲ (۵)]میں بات گزر چکی ہے۔ اس طرح یہاں ’’ما آتیناکم‘‘ کا لفظی ترجمہ پچھلے فعل ’’خُذوا‘‘ کی وجہ سے) ہوگا ’’اس کو جو کچھ کہ دیا ہم نے تم کو‘‘ جسے سلیس صورت (مثلاً جو ہم نے تم کو دیا اس کو) کے علاوہ بعض نے تفسیری ترجمہ کی شکل دی ہے۔ یعنی ’’اس کتاب کو جو ہم نے تم کو دی‘‘ اصل نص (عبارت) میں ’’کتاب‘‘ کا لفظ نہیں ہے اگرچہ یہاں مراد ’’کتاب‘‘ یا اس کے ’’احکام‘‘ ہی ہیں۔

۱:۴۱:۲ (۳)[بِقوۃ] کی ابتدائی ’’باء‘‘(ب) جارۃ (بمعنی ’’کے ساتھ‘‘) ہے اور لفظ’’قوَّۃ ‘‘کا مادہ ’’ق و و‘‘ اور وزن ’’فُعْلَۃ‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’قَوْوَۃُ‘‘ ہے جس میں ساکن اور متحرک واو کو مدغم کرکے لکھا اور بولا جاتا ہے۔ بعض کتب لغت (مثلاً المنجد۔ الوسیط) میں اس کا مادہ ’’ق و ی‘‘ لکھا ہے اس طرح اس کلمہ (قوۃ) کی اصلی شکل ’’قُوْیَۃٌ‘‘ ہے۔ مگر اس سے ’’قُوَّۃٌ‘‘ بننا خلاف قیاس ہے۔ بلکہ صاحب القاموس المحیط نے (اسی لیے) اس کا مادہ ’’قوی‘‘ (یائی اللام) ہونا ذکر ہی نہیں کیا۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’قوِیَ یقوی‘‘ (رضِیَ کی طرح اس میں ’’و‘‘ بھی ’’ی‘‘ ہو جاتی ہے۔ ماقبل مکسور کی وجہ سے) باب سمع سے آتا ہے اور مختلف مصادر کے ساتھ مختلف معنی دیتا ہے (باب وہی رہتا ہے)۔ مثلاً: (۱) ’’قوِی یَقوی قُوَّۃٌ‘‘ کے معنی ہیں ’’مضبوط اور طاقتور ہونا‘‘ کہتے ہیں ’’قوِی الرجلُ‘‘ (آدمی طاقتور بن گیا) (۲) ’’قوِی یَقوی قَوَایۃ‘‘ کا مطلب ہے ’’خالی ہونا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’قوِیَتِ الدار‘‘  (گھر خالی ہوگیا۔ اس کے رہنے والے چلے گئے) (۳) ’’قوِی یَقوی قَویً‘‘ کے معنی ہیں ’’سخت بھوکا ہونا‘‘ کہتے ہیں ’’قوِی فلانٌ (ای جَاعَ= یعنی اس کو سخت بھوک لگی)۔ اس کے علاوہ اس مادہ سے مزید فیہ کے بہت سے ابواب سے بھی مختلف معانی کے لیے افعال استعمال ہوتے ہیں۔

·       تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کے فعل کا کوئی صیغہ کہیں استعمال نہیں ہوا۔ قرآن کریم اس مادہ سے ماخوذ اسم ’’قوۃ‘‘ (جو مصدر بھی ہے) تیس کے قریب مقامات پر وارد ہوا ہے۔ اور اسی مادہ سے مشتق اسم صفت ’’قَوِیٌّ‘‘ معرفہ نکرہ مختلف صورتوں میں دس جگہ آیا ہے۔ زیادہ تر تو یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے صفت (صفاتی نام) کے طور پر آیا ہے۔ اگرچہ ایک دو جگہ انسانی صفت کے طور پر بھی مذکور ہوا ہے۔ اور لفظ ’’القُوَی‘‘  (جو  ’’القوّۃ‘‘کی جمع ہے) صرف ایک جگہ (النجم:۵) میں آیا ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’قوۃ‘‘ کے بنیادی معنی ’’طاقت، ہمت، زور اور مضبوطی‘‘ کے ہیں اور خود یہ لفظ بھی (قوت کی املاء کے ساتھ) اردو میں اپنے اصل عربی معنی میں مستعمل ہے۔ (۱) طاقت اور قوت سے کسی انسان (یا حیوان) کی جسمانی قوت بھی مراد ہوسکتی ہے۔ (مثلاً الروم:۵۴ میں) اور (۲) حسبِ موقع اس سے مراد ’’قلب و ارادہ کی قوت‘‘ بھی ہوتی ہے۔ (جیسے البقرہ:۶۳ ـــ  زیر مطالعہ میں ہے) اور کبھی(۳) ’’کسی کی طرف سے امداد کی قوت‘‘ بھی مراد ہوتی ہے۔ (مثلاً ہود:۸۰ میں) اور (۴) رسی یا تاگے میں بل کھا کر جو مضبوطی پیدا ہوتی ہے اسے بھی ’’قوۃ‘‘ کہتے ہیں (مثلاً النحل:۹۲ میں)۔ بڑے رسے میں جو تین یا چار بل جائے ہوئے حصے (Strands) ہوتے ہیں ان میں ہر ایک کو رسے کی قوت (قوۃ الحبل) کہتے ہیں اور (۵) یہ لفظ افرادی قوت (Man Power) کے معنی بھی دیتا ہے (مثلاً الکھف:۹۵ میں) اسی طرح (۶) یہ لفظ قدرت الٰہیہ (اللہ کی قدرت) کے لیے بھی آتا ہے (مثلاً الذاریات:۵۸ میں) مذکورہ بالا تمام مواقع استعمال قرآن کریم میں موجود ہیں۔ [1] ہم نے ہر ایک معنی کے ساتھ اس کے موقع استعمال کے ایک ایک مقام کا حوالہ دیاہے۔ ان کی مزید وضاحت اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

زیر مطالعہ آیت میں ’’قوۃ‘‘ سے مراد ’’ارادہ   وعمل کی قوت اور مضبوطی‘‘ ہی مراد ہوسکتی ہے۔ اس لیے ’’بِقوَّۃٍ‘‘ کا ترجمہ ’’زور سے، مضبوطی کے ساتھ، مضبوطی سے‘‘ یا  ’’مضبوط‘‘ (تھام لو) ‘‘کی صورت میں کیا گیا ہے۔

[واذکروا] میں ابتدائی ’’وَ‘‘ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور ’’اُذْکُرُوْا‘‘ کا مادہ ’’ذ ک ر‘‘ اور وزن ’’اُفْعُلُوا‘‘ ہے۔ جو اس مادہ سے فعل مجرد (ذکر یذکُر = یاد کرنا) سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس مادہ سے اس فعل مجرد کے باب معنی اور استعمال اور خود اسی لفظ (اُذْکُرُوْا) پر مزید بحث کے لیے البقرہ:۴۰  [۱:۲۸:۲(۲)]کی طرف رجوع کیجئے۔ یہاں ’’اذکروا‘‘ کا ترجمہ ’’تم یاد کرو، یاد کرتے رہو‘‘ ہے بعض نے ’’یاد کرلو‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے جو سیاق و سباق میں عجیب سا لگتا ہے۔

[مَافِیْہِ] یہ  ’’مَا‘‘ (جو کچھ کہ) + ’’فِیْ‘‘ (میں، کے اندر) + ’’ہ‘‘ (اس) کا مرکب ہے۔ اس کا ترجمہ بنتا ہے۔ ’’جو کچھ اس کے اندر ہے‘‘ یعنی ’’جو اس میں ہے‘‘ اور اکثر مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہے۔ بعض نے ’’مَا‘‘ کی مزید وضاحت کے لیے ’’جو احکام‘‘ اور بعض نے ’’جو اس میں لکھا ہے‘‘ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے اردو محاورے کی بنا پر  ’’ما فیہ‘‘ کا ترجمہ مختصراً  ’’اس کے مضمون‘‘ سے کیا ہے جو مفہوم کے لحاظ سے تو درست ہے۔ مگر الفاظ سے ذرا ہٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

[لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ] اس میں ’’لعلکم‘‘ تو حرف مشبہ بالفعل ’’لعلّ‘‘ (بمعنی شاید کہ) اور ضمیر منصوب ’’کُمْ‘‘ (تم) پر مشتمل ہے۔ ’’لعلّ‘‘ کے معنی اور استعمال پر البقرہ:۲۱ [۱:۱۶:۲(۴)]میں بات ہو چکی ہے بعض نے مترجمین نے ’’لعلّ‘‘ کا ترجمہ ’’تاکہ‘‘ سے کیا ہے جسے محاورے اور مفہوم کے اعتبار سے درست کہا جاسکتا ہے ورنہ بظاہر یہ ’’لِ‘‘ (لامِ کَیْ)یا ’’کَیْ‘‘ کا ترجمہ لگتا ہے اگرچہ ان (ل یا کَیْ) کے ساتھ  ’’کم‘‘ نہیں لگ سکتا کیونکہ ان کے بعد تو فعل مضارع ہی آتا ہے۔

اس عبارت کے دوسرے لفظ ’’تَتَّقُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’و ق ی‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفْتَعِلُوْنَ‘‘ ہے اس کی اصلی شکل ’’تَوْتَقِیُوْن‘‘ تھی۔ یعنی یہ باب افتعال سے فعل مضارع کا صیغہ ہے۔ اس مادہ (وقی) سے فعل مجرد بلکہ اس سے باب افتعال کے فعل کے معنی اور استعمال وغیرہ پر البقرہ:۲ [۱:۱:۲ (۷)]میں بات ہوئی تھی۔ اور خود زیر مطالعہ لفظ (تتَّقُون) کی پوری لغوی بحث البقرہ:۲۱ [۱:۱۶:۲ (۵)]میں دیکھئے۔

·       یہاں بھی ’’تَتقون‘‘ کے ترجمہ میں بعض حضرات نے اس کے اصل بنیاد معنی (بچنا) کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’شاید کہ تم بچو، بچ جاؤ‘‘ کو ہی اختیار کیا ہے۔ بعض نے اسی مفہوم کو ’’محفوظ رہو‘‘ کی صورت میں ظاہر کیا ہے۔ بعض نے ’’پرہیز گار بن جاؤ‘‘ اور ’’متقی بن جاؤ‘‘ کیا ہے (متقی کا لفظ اردو میں متعارف ہے)  جب کہ بہت سے مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’تم ڈرو‘‘ سے بھی کیا ہے۔ جو دراصل ’’سزا سے ڈرو‘‘ کے معنی میں ہے۔

۱:۴۱:۲ (۴)     [ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ] ’’ثُمَّ‘‘  کا ترجمہ ’’پھر/ اس کے بعد‘‘ ہے اس لفظ پر البقرہ:۲۸[۱:۲۱:۲ (۴) ] میں بات ہوئی تھی۔

’’تَوَلَّیْتُمْ‘‘   کا مادہ ’’و ل ی‘‘   اور وزن ’’تَفَعَّلْتُمْ‘‘  ہے جو اپنی اصلی شکل میں ہی ہے البتہ ’’یا ئے لینۃ‘‘ (جو یہاں ساکن لام کلمہ ہے) عام ساکن حرف کی طرح نہیں پڑھی جاتی۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد عموماً ’’وَلِیَ  . . .یَلِیْ (دراصل یَوْلِیُ) وَلْیًا‘‘ (باب حسب سے) آتا ہے اور بہت کم ’’ولَی یَلِیْ ولیًا‘‘ (ضرب سے) بھی آتا ہے۔ اور (دونوں صورتوں میں) اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’. . .سے قریب ہونا،. . .کے آس پاس ہونا‘‘ اور اسی سے ’’وَلِیَ یَلِیْ وَلایۃً‘‘ (حسب سے) کے معنی ’’. . .کا مالک اور حاکم بننا‘‘ پیدا ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں: ’’ولِیَ الشیٔ/ علیہ‘‘ (وہ فلاں شے کا کرتا دھرتا بن گیا) گویا اس صورت میں یہ فعل مفعول بنفسہ کے ساتھ بھی آتا ہے اور ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی۔ اور ’’وَلِیَ فُلانًا‘‘ کے معنی ’’فلاں سے محبت کی‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس فعل مجر د سے مضارع کا ایک صیغہ صرف ایک جگہ (التوبۃ:۱۲۳) پر آیا ہے اور وہ بھی اپنے پہلے بنیادی معنی (کے قریب یا آس پاس ہونا) میں آیا ہے۔ البتہ مزید فیہ کے دو ابواب (تفعیل اور تفعل) سے افعال کے مختلف صیغے بکثرت (۱۰۹ جگہ) آئے ہیں۔ ان کے علاوہ مجرد اور مزید فیہ سے متعدد اسماء مشتقہ اور مصادر (ولایۃ، والیٍ، اولیاء، اَوْلَی اور مَوْلًی وغیرہ) ۱۲۳ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’تَوَلَّیْتُمْ‘‘ اسی مادہ (و ل ی) سے باب تفعّل کے فعل ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس باب سے فعل ’’تَوَلَّی . . .یَتَوَلَّی تَوَلِّیًا‘‘ (دراصل تولُّیًا) کے مشہور معنی تین ہیں (۱)’’. . .سے محبت رکھنا‘‘ کہتے ہیں تولّٰی فلانًا (اتخذہٗ ولیًا= اس نے فلاں سے محبت کی/ اسے دوست بنایا) (۱) ’’. . .کا حاکم/ مالک بننا‘‘ مثلاً کہیں گے ’’تَوَلَّی الْامرَ (معاملہ ہاتھ میں لیا/ اس کا حاکم بنا) اور (۳) ’’منہ پھیر لینا/ موڑ لینا‘‘ کہتے ہیں ’’تولّٰی ھاربًا‘‘ (وہ مڑ کر بھاگ نکلا)

·       قرآن کریم میں یہ فعل ان تینوں معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ پہلے دو معنوں (نمبر۲،۱) کے لیے اس فعل کا مفعول (اگر مذکور ہوتو )بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے مگر یہ عموماً محذوف(غیر مذکور) ہوتا ہے۔ آخری (تیسرے) معنی کے لیے اس کے مفعول (جس سے پھرا/ منہ موڑا) پر ’’عن‘‘ کا صلہ آتا ہے کہتے ہیں ’’تولی عنہ‘‘ (ای ترکَہ= اس نے اس سے منہ موڑ لیا)۔ اور اکثر یہ مفعول مع صلہ محذوف کردیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس باب (تفعّل) سے فعل(توَلَّی) کے مختلف صیغے اسی کے قریب مقامات پر آئے ہیں جن میں سے ۱۲ جگہ یہ فعل ’’عن‘‘ کے صلہ کے ساتھ مع ذکر مفعول آیا ہے اور ۵۰ سے زائد مقامات پر ’’پھرنا اور مڑنا‘‘ کے معنی کے باوجود اس کا مفعول اور صلۂ فعل (عن) مذکور نہیں ہوا۔ عموماً سیاق عبارت سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ فعل کہاں کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ البتہ کبھی ایک ہی عبارت میں ایک سے زیادہ معنی کی گنجائش ہوتی ہے جیسا کہ آگے چل کر ایسی مثالیں ہمارے سامنے آئیں گی (مثلاً محمد:۲۲ میں)

·       زیر مطالعہ آیت میں یہ فعل (تولّٰی) ’’پھر جانے، منہ موڑ جانے، روگردانی کرنے‘‘ کے معنی میں آیا ہے۔ کس سے روگردانی؟ یہ مذکور نہیں ہے۔ تاہم سیاقِ عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسی آیت میں مذکور ’’خذوا ما آتیناکم‘‘ اور ’’واذکروا مافیہ‘‘ کے حکم سے ’’پھر جانے اور روگردانی کرنے‘‘ کی بات ہورہی ہے۔ یعنی ’’تم نے روگردانی کی، پھر گئے‘‘ (اس حکم کی تعمیل سے)۔

[مِن بَعْدِ ذٰلِکَ] یہ تینوں کلمات (مِن = سے + بعد = پیچھے اور ذلک = وہ)پہلے کئی دفعہ گزر چکے ہیں ترجمہ بنتا ہے ’’اس کے بعد‘‘ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سے پہلے اس (زیر مطالعہ) آیت کے شروع میں ’’ثُمَّ‘‘ آیا ہے جس کا ترجمہ ہے ’’پھر‘‘ ہے اور اس میں بھی ’’اس کے بعد‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔ اس کے بعد ’’من بعد ذٰلک‘‘ آیا ہے اور اس کا مطلب بھی’’اس کے بعد‘‘ ہے۔ اس طرح  ’’ثُمَّ‘‘ اور ’’من بعد ذٰلک‘‘ کے جمع ہوجانے سے عبارت میں ایک زور اور تاکید کا پہلو پیدا ہو گیا ہے۔ جسے صرف بعض مترجمین نے  ’’من بعد ذلک‘‘ کے ترجمے میں ’’بھی ‘‘ کے اضافے سے ظاہر کیا ہے یعنی ’’من بعد ذلک=اسکے بعد بھی‘‘۔ بیشتر مترجمین نے اس نکتہ کو سامنے نہیں رکھا اور سادہ ترجمہ ’’اس کے بعد‘‘ کی صورت میں کردیا ہے۔

[فَلَوْلَا] جو ’’فاء (فَ) بمعنی ’’پس/ تو پھر + ’’لَوْ‘‘ (اگر) + ’’لَا‘‘ (نہ) کا مرکب ہے ’’فاء‘‘ عاطفہ پر البقرہ:۲۲ [۱:۱۶:۲(۱۰)]میں اور ’’لَوْ‘‘ کے معنی و استعمال پر البقرہ:۲۰[۱:۱۵:۲(۷)] میں بات ہوچکی ہے۔ اس طرح ’’فَلَوْلَا‘‘ کا ترجمہ ’’پس اگر  نہ ہوتا، تو اگر  نہ ہوتی (مہربانی)، تو اگر نہ ہوتا‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔

۱:۴۱:۲ (۵)     [فَضْلُ اللہِ] یہ کوئی مشکل لفظ (مرکب) نہیں ہے۔ اس کا اردو ترجمہ خود ہی ان دو کلمات کو استعمال کرتے ہوئے ’’اللہ کا فضل‘‘ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم مزید لغوی بحث کے لیے اسم جلالت (اللہ) کے بارے میں تو آپ الفاتحہ:۱ [۱:۱:۱ (۲)]کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور کلمہ ’’فَضْلٌ‘‘ کا مادہ ’’ف ض ل‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے مختلف ابواب (سمِع، نصر اور کرم) اور معانی وغیرہ پر البقرہ:۴۸ [۱:۳۱:۲ (۱)]میں بات ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ کلمہ (فَضْلٌ) اس مادہ سے فعل مجرد کا مصدر بھی ہے (بمعنی ’’مال وغیرہ کا ضرورت سے زائد ہونا، بچ رہنا فضِل یفضل (سمع) سے ‘‘ اور ’’فضیلت پانا  فضَل یفضُل (نصر) سے‘‘ وغیرہ۔ اور اس سے اسم بھی ہے یعنی اس کا مطلب (۱) ضرورت سے زائد بچی ہوئی چیز بھی ہے۔ گویا یہ ’’نَقْص‘‘ (کمی) کے مقابلے کا لفظ ہے اس کی ہی جمع ’’فُضُوْل‘‘ ہوتی ہے جو اردو میں بھی ’’فالتو، غیر ضروری اور بے فائدہ بات‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور (۲) کبھی  ’’فضل‘‘ فضیلت (بزرگی) کے معنی بھی دیتا ہے، اور (۳) اور فضل کے معنی ’’ایسا احسان اور نیکی‘‘ بھی ہیں جو از خود (کسی سبب اور وجہ کے بغیر) کسی کے ساتھ کی جائے۔ اور اس معنی کے لحاظ سے ہی یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب یا مضاف ہوکر قرآن کریم میں بکثرت (۵) کے قریب مقامات پر) استعمال ہوا ہے۔ اور دنیا و آخرت میں بندوں پر اللہ کے فضل کے مختلف مظاہر بھی بیان ہوئے ہیں۔

·       قرآن کریم میں متعدد جگہ ’’فضل اللّٰہ‘‘ سے مراد ’’رزق و معاش‘‘ بھی لیا گیا ہے۔ اور ’’بھلائی و احسان‘‘ کے معنی میں تو لفظ ’’فضل‘‘ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ اس لیے بہت سے مترجمین نے اس کا الگ ترجمہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی (یعنی ’’فضل‘‘ کا ترجمہ ’’فضل‘‘ ہی کیا ہے) بعض نے اس کا ردو  بدل ’’عنایت‘‘ اختیار کیا ہے اور یہ لفظ خود عربی (عنایۃ) ہی ہے جس کے معنی ’’توجہ دینا‘‘ ہیں۔

·       لفظ  ’’فضل‘‘  کا ایک خاص محاوراتی (عربی) استعمال ’’فَضْلًا عَنْ. . .‘‘ ہے جس کا ترجمہ ’’. . .تو درکنار، . . .کا تو ذکر ہی کیا؟‘‘ مثلاً کہتے ہیں:’’ لا یملک دراجۃً فضلًا عن السیارۃ‘‘ (کار تو درکنار اس کے پاس تو سائیکل بھی نہیں ہے)۔ تاہم یہ استعمال قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ صرف عربی کے ایک محاورہ سے آشنا کرنے کے لیے ہم نے اس کا ذکر کردیا ہے۔

[عَلیکم] یعنی  علی + کم (تم پر)۔ یہ تو کوئی مشکل مرکب نہیں ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس مادہ (فضل) کے بہت سے افعال (مجرد مزید فیہ مثلاً فَضّل، اَفْضَل، تفضَّل وغیرہ) کے دوسرے مفعول (اگر مذکور ہو تو اس) پر ’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے جیسے کہیں گے فضَّل ھذا علی ذلک= اس نے اِس کو اُس پر فضیلت دی)۔ تاہم کسی کے ساتھ ’’احسان‘‘ کے معنی میں لفظ ’’فضل‘‘ کے ساتھ بھی ’’علی‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کی کم از کم ۱۵ مثالیں موجود ہیں۔ جن میں سے ایک مثال یہ (زیر مطالعہ آیت) ہے۔

[وَرَحْمَتُہٗ] جو ’’وَ‘‘ اور+ ’’رَحْمَۃ‘‘ (رحمت)+ ’’ہ‘‘(اس کی) کا مرکب ہے۔ لفظ ’’رحمۃ‘‘ (عربی املاء یہی ہے) کا مادہ ’’رح م‘‘ اور وزن ’’فَعْلۃٌ‘‘ ہے۔ یہ اس مادہ سے فعل مجرد (رحِم   یرحَم= مہر بانی کرنا) کا مصدر بھی ہے۔ اس فعل کے باب اور معنی وغیرہ پر سورۃ الفاتحہ کے شرو ع میں بات ہوئی تھی یعنی ۱: ۱:۱ (۳) ۔ لفظ ’’رحمۃ‘‘ کے معنی ’’خیر اور بھلائی‘‘ ہیں۔ اردو میں اس کے لیے ’’مہر‘‘ اور ’’مہربانی‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے اور خود یہی لفظ ’’رحمت‘‘ (تائے مبسوطہ کی املاء کے ساتھ) اردو میں اپنے اصل عربی معنی کے لیے عام رائج ہے۔ اور یہ لفظ قرآن کریم میں کثیر الاستعمال لفظ ہے جو ۱۱۳ کے قریب مقامات پر آیا ہے۔

۱:۴۱:۲ (۶)     [لَکُنْتُمْ] یہ ’’لَ‘‘ (تو ، البتہ، تو ضرور ہی) اور ’’کُنْتُمْ‘‘ (تم تھے، تم ہوتے، تم ہوجاتے) کا مرکب ہے۔

        یہاں بلحاظ معنی و استعمال وضاحت طلب لفظ ’’لام‘‘ (لَ) ہے۔

حرف لام (ل) عربی میں متعدد معانی کے لیے اور مختلف طریقوں سے استعمال ہوتا ہے۔ مختصراً  اسے دو قسموں میں تقسیم کرلیتے ہیں (۱) لامِ عاملہ اور (۲) لام غیر عاملہ۔

·       لام عاملہ جارّہ (برائے اسم) بھی ہوتا ہے۔ اور جازمہ (برائے فعل مضارع) بھی۔ لام الجرّ (لام جارّہ) کے استعمال اور اس کے بعض مشہور معانی پر الفاتحہ:۲ [۱:۲:۱ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔

·       لام جازمہ (لامُ الجزم) کو  ’’لام الأمر‘‘ بھی کہتے ہیں یہ فعل امر غائب (یا متکلم) پر داخل ہوتا ہے اور مضارع کو مجزوم کردیتا ہے۔ اور اگر اس (لام) سے پہلے’’و‘‘ یا ’’فَ‘‘ لگ جائے تو یہ لام خود بھی مکسور کی بجائے ساکن ہوجاتا ہے۔ جیسے ’’فَلْیَضْحَکُوا‘‘ (پس چاہیے کہ وہ ہنس لیں) دراصل ’’لِیضْحکُوْا‘‘ تھا مگر ’’فَ‘‘ کی وجہ سے لام ساکن ہوگیا ہے۔

لامِ جارہ اور لام جازمہ ہمیشہ مکسور (لِ) ہوتا ہے البتہ لام جارّہ ضمیروں سے پہلے مفتوح (لَ) پڑھا جاتا ہے ما سوائے ضمیر مجرور واحد متکلم (ی) کے کہ اس کے ساتھ یہ مکسور ہی آتا ہے۔ اور فعل مضارع سے پہلے (لِ) لام جزم (مکسورہ) کا ساکن ہونا ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔

·       کبھی لام مکسور (لِ) کے بعد ’’اَنْ‘‘ یا  ’’کَیْ‘‘ مقدر (Understood) ہوتا ہے اور یہ مضارع کو نصب بھی دیتا ہے مگر یہ نصب دراصل ’’لام‘‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس مقدرہ (أَن یا کَیْ) کی وجہ سے ہوتی ہے اسی لیے اس قسم کے لام کو ’’ لام کی ‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس کا ترجمہ ’’تاکہ‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ یہ  ’’کہ ‘‘ عربی ’’کَیْ‘‘سے لیا گیا ہے۔

·       غیر عاملہ لام (جو نہ کسی اسم کے اعراب پر اثر انداز ہوتا ہے نہ فعل پر) لام عاملہ کے برعکس ہمیشہ مفتوح (لَ) آتا ہے اور یہ زیادہ تر معنی میں زور اور تاکید پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے کبھی (۱) یہ مبتدأ  پر بھی آتا ہے جیسے ’’ لَاَانْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً   ‘‘ (الحشر:۱۳) میں ہے۔ (۲) یہ (لَ) ’’اِنّ‘‘ کے اسم اور خبر پر بھی آتا ہے جیسے ’’ اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ ‘‘ (ابراہیم:۳۹) میں ہے۔  إِنَّ کے اسم پر لام تاکید (لَ) عموماً اس وقت آتا ہے جب اس کی خبر بصورت مرکب جاری یا بصورت ظرف مضاف پہلے آئے جیسے ’’ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ ‘‘ (الروم:۲۲) میں ہے  (۳) کبھی یہ (لَ) فعل مضارع پر داخل ہوکر اس میں فعل حال کے معنی پیدا کرتا ہے جیسے ’’ وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِـيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ‘‘ (النحل:۱۲۴) اور کبھی (۴) یہ لام مفتوحہ ’’لَو‘‘ (اگر) اور ’’لَوْلَا‘‘ (اگر نہ ہوتا) کے جواب پر داخل ہوتا ہے جیسے ’’ لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ‘‘ (الانبیاء:۲۲) میں اور ’’ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ‘‘ (البقرہ:۲۵۱) میں ہے۔ اور (۵) کبھی یہ (لَ)’’ إِنْ‘‘ شرطیہ پر اور جواب قسم پر بھی داخل ہوتا ہے جیسے ’’وَلَئِنْ(جو ’’لَإِنْ‘‘ ہی ہے۔  وَلَىِٕنْ نَّصَرُوْهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ   (الحشر:۱۲) اور قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــــِٕيْنَ     (یوسف:۹۱) میں آیا ہے۔

·       لام تاکید (لَ) کے استعمال کے جو مختلف حوالے قرآن کریم میں سے اوپر دئیے گئے ہیں ان کی وضاحت تو اپنے اپنے مقام پر ہوگی۔ سر دست اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ ’’لام تاکید‘‘ (لَ) کے مندرجہ بالا استعمالات کا اردو ترجمہ حسب موقع ’’البتہ، تو، ہی تو، تو یقیناً، تو پھر تو، تو ضرور ہی‘‘ کی شکل میں کیا جاسکتا ہے۔ لام عاملہ اور غیر عاملہ کے معنی اور موقع و طریق استعمال کی اس سے زیادہ بحث کے لیے کسی اچھی ڈکشنری یا نحو کی کسی کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

·       زیر مطالعہ آیت میں ’’لَکُنْتُم‘‘ پر داخل ہونے والا لام (لَ) اس سے پہلے مذکور حرف شرط ’’لولا‘‘ کے جواب میں ہے اور اس کا ترجمہ ’’تو تم ہوتے، البتہ تم ہوتے، تو تم ہوجاتے، تو ضرور تم ہو جاتے، تو بے شک تم ضرور ہوتے اور تو تم ہوچکے ہوتے‘‘ کی صورت میں کیاگیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔

[مِنَ الْخَاسِرِیْنَ] ابتدائی ’’من‘‘ (جارہ بمعنی ’’میں سے‘‘) کے بعد والے لفظ ’’الخاسرین‘‘ (یہ اس کی املاء معتاد ہے قرآنی رسم پر آگے بات ہوگی) کا مادہ ’’خ س ر‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فاعلین‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد (خسِر یخسر= نقصان اٹھانا) کے باب اور معنی وغیرہ کے علاوہ خود لفظ ’’خاسر‘‘ اور اس کی جمع (خاسرون۔ خاسِرین) کے بارے میں البقرہ:۲۷ [۱:۲۰:۲ (۷) ]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ آیت میں بعض مترجمین نے تو ’’خاسرین‘‘ کا ترجمہ ’’زیاں پانے والوں‘‘ اور ’’ٹوٹے والوں‘‘ (پرانی اردو) سے اور بعض نے ’’تباہ ہونے والوں‘‘ کی صورت میں کیا جو implied معنی ہیں۔ بعض حضرات نے اسم الفاعل کی بجائے (الخاسرین فعل مجرد سے اسم الفاعل کی جمع مذکر سالم کا صیغہ ہے) فعل کی طرح ترجمہ کردیا ہے۔ یعنی ’’بڑے گھاٹے میں آگئے (ہوتے)، (تو تم) خسارے میں پڑگئے ہوتے‘‘ اور بعض نے ’’خراب ہوتے یا تباہ ہوتے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ جو مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر اصل الفاظ سے ہٹ کر ہے۔

 

۲:۴۱:۲     الاعراب
زیر مطالعہ دو آیات (۶۳۔۶۴) بلحاظ ترکیب نحوی دراصل تو سات چھوٹے بڑے جملوں پر مشتمل ہیں جن میں سے بعض واؤ عاطفہ کے ذریعے باہم ملے ہوئے ہیں اور یوں بلحاظ مضمون یہ چار جملے بنتے ہیں جن کا ہم الگ الگ اعراب بیان کریں گے۔

(۱)  وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ  

[وَ] یہاں استیناف کی ہے کہ بلحاظ مضمون یہاں سے ایک نئی بات شروع ہورہی ہے۔ [اِذ]ظرفیہ ہے اس پر نحوی بحث کئی دفعہ پہلے گزر چکی ہے [دیکھئے البقرہ:۳۰[۳:۲۲:۲] اور اس کے بعد بھی کئی جگہ [اَخَذْنَا] فعل ماضی معروف صیغہ متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے [میثاقکم] مضاف (میثاق) اور مضاف الیہ (کم) مل کر فعل ’’اَخَذْنَا‘‘ کا مفعول بہ ہے۔ اس لیے ’’میثاق‘‘ یہاں منصوب ہے۔ علامت نصب ’’ق‘‘ کی فتحہ (ـــــــَـــ) ہے۔ [وَ]  عاطفہ ہے جو مابعد والے جملے کو ماقبل والے جملے سے ملاتی ہے یا بعد والے فعل  (رفعنا) کو سابقہ فعل (اخذنا) سے ملاتی ہے [رَفَعْنَا] ماضی معروف صیغہ متکلم ہے اور یہاں بھی ضمیر تعظیم  ’’نحن‘‘ مستتر ہے۔ [فوقکم] مضاف (فوق) اور مضاف الیہ (کم) مل کر ظرف یا متعلق فعل ہے۔ ظرفیت کی وجہ سے ’’فوقَ‘‘ منصوب ہے  [الطورَ] فعل ’’رفعنا‘‘ کا مفعول بہ اور اسی لیے منصوب ہے۔ علامت نصب ’’ ر ‘‘ کی فتحہ (ــــــَــــ )  ہے۔ یہاں دراصل سادہ عبارت (نثر) یوں بنتی تھی۔ ’’ورفعنا الطور فوقکم‘‘ جس میں ظرف یا متعلق فعل مقدم کرنے سے ترجمہ میں ’’تمہارے ہی اوپر‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح واو عاطفہ کے ذریعے مل کر یہ دو جملے ایک ہی بڑا جملہ بنتے ہیں۔

(۲)  خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاذْكُرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 

یہ جملہ بلحاظ اعراب دو انشائیہ جملوں(جو واو عاطفہ سے باہم مربوط ہیں) اور ایک جملہ اسمیہ (جو بلحاظ مضمون ان سے متعلق ہے) پر مشتمل ہے۔ تفصیل یوں ہے۔

·       [خُذُوا] فعل امر معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ اور اس سے پہلے ایک فعل (مثلاً  قلنا= ہم نے کہا) مقدر ہے [ما] اسم موصول ہے اور یہاں سے فعل ’’خذوا‘‘ کا مفعول بہ شروع ہوتا ہے [آتیناکم]میں ’’ آتینا  ‘‘ (یہ غیر قرآنی ضبط ہے اصل ضبط آگے دیکھئے) فعل ماضی معروف مع ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ ہے اور ’’کم‘‘ ضمیر منصوب مفعول بہ ہے اور یہ جملہ فعلیہ (آتیناکم) اسم موصول ’’ مَا ‘‘ کا صلہ ہے اور صلہ موصول مل کر فعل ’’خذوا‘‘ کا مفعول بہ لہٰذا محلاً منصوب ہے۔ یہاں ’’ما‘‘ کے لے ضمیر عائد محذوف ہے گویا یہ دراصل تھا ’’آتیناکمُو‘‘ یا یہ کہہ لیجئے کہ یہاں اسم موصول’’ما‘‘ بوجہ مفعولیت محل نصب میں ہے۔ [بِقُوۃ] جار (ب) اور مجرور (قوۃٍ) مل کر متعلق فعل (خذوا) ہے اور چاہیں تو اسے فعل ’’خذوا‘‘ کی ضمیر فاعلین (انتم) کا حال بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ’’پکڑو. . . .  قوت سے کام لیتے ہوئے‘‘ کے معنی میں۔ [وَ] عاطفہ ہے جو دو جملوں کو ملاتی ہے یا بعد والے فعل (اذکروا) کو سابقہ فعل (خذوا) پر عطف کرتی )ملاتی (ہے۔

·       [اذکرُوا] فعل امر معروف مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے۔ [مَا] اسم موصول ہے جس کے ذریعے فعل ’’اذکروا‘‘ کا مفعول بہ شروع ہوتا ہے اور [فیہ] جار مجرور مل کر ’’مَا‘‘ کے صلہ کا کام دے رہا ہے اور صلہ موصول مل کر فعل ’’اذکروا‘‘ کا مفعول بہ ہے۔ یعنی ’’ما فیہ  (جو سمجھ اس میں ہے) کو یاد رکھو‘‘۔

·       یہاں تک دو انشائیہ جملے (فعل امر یا کسی اسم استفہام سے شروع ہونے والے جملے کو ’’جملہ انشائیہ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی ’’خبر‘‘ نہیں ہوتی) ختم ہوتے ہیں اس سے آگے [لَعلکم] میں ’’لعلّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل اور ’’کم‘‘ اس کا اسم منصوب ہے اور [تتقون] فعل مضارع مع ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ جملہ فعلیہ بن کر  ’’لعل‘‘ کی خبر (گویا محل رفع میں) ہے اور یہ جملہ اسمیہ ’’لعلکم تتقون‘‘ بلحاظ مضمون سابقہ انشائیہ جملوں سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اس میں اس فعل امر کی تعمیل کا فائدہ یا مقصد بیان ہوا ہے یعنی ’’تم ایسا ،ایسا کرو توقع ہے کہ (شاید) تم کو پرہیز گاری حاصل ہوجائے‘‘۔

(۳) ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ

[ثم] حرف عطف ہے اور یہاں تعقیب (بعد میں واقع ہونا) یعنی ’’پھر یہ ہوا کہ‘‘ کے معنی میں ہے ’’ثُمَّ‘‘ کے لیے دیکھئے[۱:۲۰:۲ (۴)]

[تولّیتم] فعل ماضی صیغہ جمع مذکر مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے۔ [من بعد ذٰلکَ] میں ’’من بعد‘‘ (مرکب جاری) ظرف مضاف اور ’’ذٰلک‘‘ مضاف الیہ (مجرور) ہے اور اس کا ترجمہ بھی ’’اس کے بعد ‘‘ہے اس لیے یہاں ’’ثم‘‘ اور ’’من بعد ذٰلک‘‘ کے اکٹھا ہونے سے ’’من بعد ذٰلک‘‘ کا ترجمہ ’’اس کے بعد بھی ‘‘ سے کرنا بہتر ہے۔ [دیکھئے اوپر حصہ اللغۃ میں]

(۴)  فَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ 

[ف] عاطفہ بمعنی ’’تو پھر‘‘ ہے [لَوْلَا] میں ’’لَوْ‘‘ حرفِ شرط ہے اور اس میں اس کے بعد والی مذکور بات یا چیز کے نہ ہونے (امتناع) کا مفہوم ہوتا ہے (گویا ’’نفی‘‘ کا ایک انداز ہے) اس کے بعد ’’لا‘‘ نافیہ کے لگ جانے سے نفی اور نفی مل کر اثبات کے معنی پیدا ہوتے ہیں یعنی ’’لَوْلَا‘‘ کے بعد بیان کردہ شے کے وجود میں آنے کے امکان کا مفہوم ہوتا ہے۔ اسی کا اردو ترجمہ ’’اگر نہ ہوتا‘‘ ہے یعنی ’’ایسا (جس کا ذکر آگے رہا ہے) ہوا تھا‘‘۔ [فضل اﷲ] مضاف (فضل) اور مضاف الیہ (اللہ) مل کر یہاں مبتدأ  کا کام دے رہا ہے اس لیے مرفوع ہے علامتِ رفع ’’فضلُ‘‘ کی لام کا ضمہ ( ــــــُــــ) ہے۔ بعض نحوی ’’فضل اللّٰہ‘‘ کو ’’لَوْلَا‘‘ کا فاعل قرار دے کر مرفوع کہتے ہیں یعنی وہ ’’لَولا‘‘ کے بعد ایک مقدر فعل کا فاعل ہے (مثلاً ’’ثبت‘‘) اس کے بعد [علیکم] جار مجرور ’’خبر ‘‘کا کام دے رہا ہے۔ (اصل خبر ’’ثابتٌ‘‘ یا ’’حاضرٌ‘‘ کی قسم کا لفظ تھا جو محذوف ہے) یا مقدر فعل ’’ ثَبَت  ‘‘ سے متعلق (فعل) ہے۔ [وَ] عاطفہ ہے جو اگلے مرکب[رحمتُہ] کو جو خود مرکب اضافی ہے ’’فضلُ ﷲ‘‘ پر عطف کرتا ہے اور اسی لیے یہ بھی مرفوع ہے علامتِ رفع ’’رحمۃ‘‘ کی ’’ۃ‘‘ کا ضمہ ( ــــــُــــ) ہے۔ یعنی ’’فضلُ ﷲ و رحمتُہ‘‘ مل کر مبتدأ (یا ’’لولاَ ‘‘کا فاعل سمجھ لیں) ہے۔ جس کی خبر کا کام ’’علیکم‘‘ دے رہا ہے۔

’’لَوْ‘‘  کے طریق استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ:۲۰[۱:۱۵:۲ (۷)]

·       یہاں تک جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ یعنی ’’بیانِ شرط‘‘ مکمل ہوتا ہے اس کے بعد آگے اس کا جواب (شرط) شروع ہورہا ہے۔ [لکنتم] کا ابتدائی لام (مفتوحہ) ’’لَوْ‘‘ کا جواب اور تاکید بھی اس کا ترجمہ ’’تو ضرور ہی‘‘ ہونا چاہیے۔ ’’کنتم‘‘ فعل ناقص ہے جس میں اس کا اسم ’’انتم‘‘ بھی مستتر ہے [من الخٰسرین] جارّ (من) اور مجرور (الخاسرین) مل کر ’’کنتم‘‘ کی خبر کا کام دے رہا ہے بلکہ دراصل تو خبر منصوب ’’الخاسرین‘‘ ہی تھی جس پر ’’مِنْ‘‘ بیانیہ داخل ہوا ہے۔

 

۳:۴۱:۲      الرسم

زیر مطالعہ آیات (۶۳۔۶۴) میں بلحاظ ’’رسم عثمانی‘‘ صرف تین کلمات غور طلب ہیں ’’میثاقکم آتینا کم اور الخاسرین‘‘ (یہاں ہم نے فرق واضح کرنے کے لیے ان کلمات کو رسم معتاد میں لکھا ہے)

 (۱) ’’میثاقکم‘‘ میں لفظ ’’میثاق‘‘ کا رسم مختلف فیہ ہے الدانی نے اس کے حذف الف (بعد الثاء) کی تصریح نہیں کی لہٰذا مشرقی مماالک اور لیبیا میں اسے اسی طرح باثبات الف لکھا جاتا ہے۔ مگر ابو داؤد کی طرف منسوب قول کی بناء پر عام عرب اور افریقی ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الف ’’میثقکم‘‘ لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھئے البقرہ:۲۷[۳:۱۹:۲]کے ضمن میں ’’میثاقہ‘‘ کے رسم کی بحث۔

(۲)’’ اٰتیناکم‘‘ کے بارے میں علمائے رسم کا اتفاق ہے کہ اسے بحذف الف بعد النون کے ساتھ ’’اٰتینکم‘‘ کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔ بلکہ اس بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ضمیر مرفوع متصل (نا) کے بعد جب میں کوئی ضمیر منصوب مفعول آرہی ہو تو ’’نا‘‘  کا الف حذف کرکے ضمیر ملا کر لکھا جاتا ہے۔ عام عربی املاء کے قواعد کے مطابق ایسا لکھنا درست نہیں مگر رسم عثمانی میں یہی درست اور متفق علیہ رسم ہے۔ ترکی اور ایران کے مصاحف میں اسے رسم املائی کے مطابق (باثبات الف) لکھنے کا عام رواج ہوگیا ہے جو رسم قرآنی کی خلاف ورزی ہے۔

(۳) ’’الخاسرین‘‘ رسم قرآنی کے مطابق ہر جگہ (جب بصورت جمع مذکر سالم آئے) اسے بحذف الف بعد الخاء یعنی ’’الخاسرین‘‘ لکھنا رسم عثمانی کا متفقہ مسئلہ ہے۔ اس لفظ کے بارے میں بھی ایران اور ترکی کے مصاحف میں برسم املائی لکھنے کی غلطی عام ہے۔

 

۴:۴۱:۲      الضبط

        ان آیات کے کلمات میں ضبط کا تنوع درج ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔

 



[1]  چاہیں تو مزید بحث کے لیے (راغب کی) المفردات (مادہ ’’قوی‘‘) کی طرف رجوع کریں جہاں ’’قوت‘‘ کی مختلف اقسام کے بیان میں متعدد قرآنی مثالیں دی گئی ہیں۔