سورۃ البقرہ آیت ۶۵ اور  ۶۶

۴۲:۲     وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕيْنَ(۶۵) فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ  (۶۶)

۱:۴۲:۲        اللغۃ

[وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ] جو وَ + لَ + قَدْ + عَلِمْتُمْ (جس میں آخری ’’میم‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ) آگے ملانے کے لیے ہے) کا مرکب ہے۔ ان تمام اجزاء پر الگ الگ پہلے کئی جگہ بات ہوئی ہے مثلاً ’’وَ‘‘ کے استعمالات پر [۱:۴:۱ (۳)]میں۔ ’’ لَ ‘‘ (لام مفتوحہ پر ابھی اوپر البقرہ:۶۴ [۱:۴۱:۲ (۶)] میں۔ ’’ قد ‘‘ کے مواقع استعمال پر البقرہ:۶۰ [۱:۳۸:۲ (۸)] میں بات ہوچکی ہے اور ’’ عَلِمْتُمْ ‘‘ (جس کا وزن ’’ فَعِلْتُمْ ‘‘ ہے) کے مادہ (ع ل م) اور اس سے فعل مجرد (علم یعلم = جاننا) کے باب اور معنی وغیرہ پر [۱:۲:۱ (۴)] البقرہ:۱۳ [۱:۱۰:۲ (۳)] میں بحث ہوچکی ہے۔

·       اس طرح ’’ولقد علمتم‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’اور تم نے ضرور جان لیا‘‘۔  جس کی مختلف بامحاورہ صورتیں (خصوصاً  ’’لقد‘‘ کے مفہومِ تاکید کو ظاہر کرنے کے لیے) اختیار کی گئی ہیں مثلاً ’’اور تم خوب جان چکے ہو‘ اور تم کو ضرور معلوم ہے، اور تم تو جانتے ہی ہو، تم اچھی طرح جان چکے ہو‘‘۔ وغیرہ۔

[ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ ] اس میں ابتدائی ’’الذین‘‘ تو اسم موصول برائے جمع مذکر بمعنی ’’وہ سب جو‘‘ ہے۔ جس کا یہاں ترجمہ ’’ان لوگوں کو جنہوں نے‘‘ ہوگا کیونکہ یہاں]  ’’الذین‘‘ مفعول ہوکر آیا ہے جیسا کہ اعراب میں بیان ہوگا۔ آخری ’’منکم‘‘ جار مجرور (من + کم) ہے بمعنی ’’تم میں سے‘‘۔ درمیانی کلمہ  ’’اعتدوا‘‘ کا مادہ ’’ع د و‘‘ اور وزن اصلی ’’اِفْتَعَلُوْا‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’اِعْتَدَوُوْا‘‘ تھا جس میں واو الجمع سے پہلے والا حرف علت (جو یہاں ’’ و  ‘‘ ہے) گر جاتا ہے اور اس سے ماقبل والے حرف صحیح کی حرکت فتحہ ( ـــــَــــ  )  برقرار رہتی ہے۔ اس طرح یہ لفظ ’’اعْتَدَوْا‘‘ کی شکل میں لکھا اور بولا جاتا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد (عدا یعدُوا= دوڑنا وغیرہ) کے باب و معنی پر البقرہ:۳۶ [۱:۲۶:۲ (۱۹)] میں بات ہوئی تھی اور اس مادہ سے باب افتعال (اعتدَی یعتدِی) کے معنی وغیرہ پر البقرہ:۶۱ [۱:۳۹:۲ (۱۹)]میں بات ہوئی تھی۔ زیر مطالعہ لفظ ’’اِعْتَدَوْا‘‘ اس مادہ سے باب افتعال کا ہی فعل ماضی صیغہ جمع مذکر غائب ہے اور اس کا ترجمہ بنتا ہے ’’وہ حد سے نکل گئے‘‘ اور اس طرح ’’الذین اعتدوا منکم‘‘  کا ترجمہ ہوگا، وہ جو حد سے نکل گئے تم میں سے‘‘ جس کی بامحاورہ صورتیں ’’جنہوں نے زیادتی کی، جنہوں نے تجاوز کیا، جنہوں نے سرکشی کی‘‘  اختیار کی گئی ہیں سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔

۱:۴۲:۲ (۱)    [فِی السَّبْتِ] ’’فِیْ‘‘ کے معنی یہاں ’’کے بارے میں‘‘ ہوں گے ’’فِی‘‘ کے مواقع استعمال کے لیے دیکھئے [۱:۱:۲ (۵)] نیز [۱:۱۴:۲ (۴)] کلمہ ’’السبت‘‘ کا مادہ ’’س ب ت‘‘ اور وزن لام تعریف کے بعد ’’فَعْلُ‘‘ ہے اس ثلاثی مادہ سے فعل مجرد ’’سبَت یسبِتُ سَبْتًا اور  سبَت یسبُتُ سَبْتًا ‘‘ (باب نصر اور ضرب سے) آتا ہے اور اسکے متعدد معنی ہیں مثلاً (۱) ’’ آرام کرنا ‘‘ کہتے ہیں سبَت الرجلُ ای استراحَ  (آدمی نے آرام کیا) (۲) ’’کسی چیز کو کاٹ دینا‘‘ کہتے ہیں ’’سبتَ الشَییَٔ ای قطعَہ (اس نے چیز کو کاٹ دیا) (۳)  ’’سَبْت ‘‘یا ہفتہ منانا یعنی سبت کے احکام کی پابندی کرنا (یہودیوں کے لیے سبت کے کچھ احکام تھے) مثلاً کہیں گے ’’سبَت الرجلُ ای قام بأمر السبت‘‘ یا ’’دخل فی السبْتِ‘‘ (اس نے سبت کی پابندی کی یا وہ ہفتہ کے دن میں داخل ہوا)۔ قرآن حکیم میں اس فعل مجرد سے صرف ایک ہی صیغہ مضارع ایک جگہ (الاعراف:۱۶۳) آیا ہے۔ اور وہ بھی مندرجہ بالا تیسرے معنی میں آیا ہے۔ اس مادہ سے مزید فیہ کا کوئی فعل قرآن میں استعمال نہیں ہوا۔

·       زیرمطالعہ لفظ ’’السبت‘‘ جو اس فعل مجرد کا مصدر بھی ہے اور اس سے اسم بھی ہے اور اس کے بھی اگرچہ کئی معنی ہیں تاہم اس کے مشہور معنی ’’ہفتہ کادن‘‘ (یعنی جمعہ اور اتوار کے درمیان والا دن) ہیں۔ جو یہودی مذہب میں مقدس اور آرام کا دن یعنی مکمل چھٹی کا دن ہے۔ اور ان کی شریعت میں اس کے خاص احکام ہیں اور یہ شریعت موسوی کے اہم احکام میں سے ہیں۔ اِن احکام کی خلاف ورزی پر یہودیوں کے کسی گروہ یا آبادی پر عذاب الٰہی نازل ہونے کا واقعہ قرآن میں (الاعراف:۱۶۰  تا  ۱۶۶) بیان ہوا ہے۔ اور چار دیگر مقامات پر بھی اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے ایک یہ (زیر مطالعہ) مقام ہے۔

·       یہاں ’’فی السبت‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ہے ’’ہفتے کے بارے میں‘‘ اور اسی کو ’’سبت کے بارے میں‘‘ اور ’’دربارۂ  یوم ہفتہ‘‘ کی صورت دی گئی ہے۔ بعض نے صرف ’’ہفتہ کے دن میں‘‘ ترجمہ کیا ہے جو اصل مفہوم (ہفتہ کے احکام کے بارے میں) کو واضح نہیں کرتا اور بعض نے صرف ’’ہفتہ کے دن‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ’’ہفتہ کے دن‘‘ کوئی کام کیا تھا۔ حالانکہ اصل بات ’’ہفتہ کے دن کے احکام کے بارے میں سرکشی کرنے‘‘ کی ہوئی ہے۔

[فَقُلْنَا لَھُمْ]یہ ’’فَ‘‘ (پس)+ ’’قُلْنَا‘‘ (ہم نے کہا) + ’’لِ‘‘ (کو) + ’’ھم‘‘ (ان کو) سے  مرکب جملہ ہے۔ یہ الفاظ کئی دفعہ گزر چکے ہیں ان کا صرف ترجمہ ہی لکھ دینا کافی ہے بلکہ شاید اس کی بھی ضرورت نہیں۔ فعل ’’قُلْنا‘‘ (جس کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے) کے باب اور معنی وغیرہ کے علاوہ خود اس صیغہ فعل ’’قُلْنا‘‘ (جس کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْنَا‘‘ ہے) کے باب اور معنی وغیرہ کے علاوہ خود اس صیغہ فعل (قلنا) کی لغوی وضاحت اور صرفی تعلیل وغیرہ البقرہ:۳۴ [۱:۲۵:۲ (۱)]میں ہوچکی ہے۔ یہاں اس عبارت کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’پس کہا ہم نے ان سے‘‘ یعنی ’’ہم نے ان سے کہا‘‘ اور چونکہ یہاں ’’قلنا‘‘ میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اس لیے اس کا مرادی ترجمہ ’’ان کے بارے میں ہمارا حکم جاری ہوا‘‘ کی صورت میں بھی کیا گیا ہے۔

[کُوْنُوْا] کا مادہ ’’ک و ن‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُلُوْا‘‘ ہے۔ اصلی شکل ’’اُکْوُنُوْا‘ ‘ بنتی تھی جس میں اصل مادہ والی ’’و‘‘ (جو عین کلمہ ہے) کی حرکت ضمہ ( ـــــُــــ )  اس کے ماقبل حرف صحیح ( ’’ ک  ‘‘ جو فاء کلمہ ہے) کو دے دی جاتی ہے اس کے بعد ابتدائی ہمزۂ وصل کی ضرورت نہیں رہتی اور لفظ ’’ کونوا ‘‘ بن جاتا ہے۔ اس فعل (کان یکون) کے معنی و استعمال پر البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲ (۱۰)]میں مفصل بات ہوئی تھی۔ ’’ کُوْنُوْا  ‘‘ اس فعل سے فعل امرکا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس کا ترجمہ ہے ’’تم سب ہو جاؤ‘‘ اس فعل (کان یکون) سے فعل امر کی گردان (کی استعمالی صورت) یوں ہے ’’ کُنْ، کُوْنَا،  کُوْنُوا، کُوْنِیْ،  کُوْنَا اور کُنَّ‘‘۔ اور ہر ایک صیغے میں تعلیل الگ الگ طریقے سے ہوتی ہے۔ بہر حال قابل غور تبدیلی یہ ہے کہ پہلے (واحد مذکر حاضر ) اور آخری جمع مؤنث حاضر صیغے میں ’’و‘‘ (جو عین کلمہ ہے) گرادی جاتی ہے۔ اوریہ قاعدہ تمام اجوف افعال میں استعمال ہوتا ہے۔

۱:۴۲:۲ (۲)    [قرَدَۃً] کا مادہ ’’ق ر د‘‘ اور وزن ’’ فِعَلْۃٌ ‘‘ ہے (آیت میں لفظ منصوب آیا ہے) یہ لفظ ( قِرْدَۃٌ  ) جمع مکسر ہے اور اس کاواحد ’’قِرْدٌ‘‘ بروزن ’’فِعْلٌ ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد  ’’قرَد یَقرِد قَرْدًا‘‘ (باب ضرب سے) آئے تو اس کے معنی ’’مال کمانا اور اکٹھا کرنا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’قرَدَ المالَ لِعَیالہ‘‘(اس نے اپنے گھر والوں کے لیے مال کمایا) اور ’’قرِد یقرَد قَرَدًا ‘‘(باب سمع سے) کے متعدد معنی ہوتے ہیں مثلاً (۱) اونٹ کے بدن پر بکثرت ’’قُراد‘‘ (ایک قسم کی چچڑی ، طفیلی کیڑا) پایا جانا‘‘ (۲) بالوں یا اون کے کنارے خراب ہوجانا (۳) عاجز اور ذلیل ہوکر چپ ہوجانا وغیرہ اور اس مادہ سے مزید فیہ کے  بعض افعال بھی مختلف معانی کے لیے آتے ہیں۔

تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ قرآن  کریم میں تو اس مادہ سے صرف یہی لفظ (قِرْدَۃٌ) بصورت معرفہ یا نکرہ صرف تین جگہ وارد ہوا ہے۔

·       ’’قِرْدٌ‘‘ (جس کی ایک جمع مکسر یہ ’’قِرَدَۃٌ‘‘ ہے جو قرآن میں استعمال ہوئی ہے۔ ویسے اس کی جمع ’’اَقرادٌ‘‘ اور ’’قُرُوْدٌ ‘‘بھی ہوتی ہے) اس مادہ سے ایک اسم ہے جس کے معنی ہیں ’’بندر‘‘ یعنی یہ معروف جانور کا نام ہے جو اپنی شکل و صورت میں انسان سے مشابہت اور ’’نقل اتارنے‘‘ کی استعداد میں مشہور ہے اسے فارسی میں ’’بوزنہ‘‘ اور انگریزی میں monkey یا apeکہتے ہیں۔

۱:۴۲:۲ (۳)     [خَاسِئِیْنَ] اس لفظ کا (جو یہاں عام املاء اور ضبط کے ساتھ لکھا گیا ہے  (قرآنی رسم و ضبط آگے بیان ہوگا) مادہ ’’خ س ء‘‘ اور وزن ’’فاعِلِیْن‘‘ ہے۔ اس مادے سے فعل مجرد ’’خَسَأَ یَخْسَأُ خَسْئًا‘‘ (باب فتح سے) آتا ہے اور لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے بطور فعل لازم اس کے معنی ہیں (۱) ’’عاجز اور ناکام ہونا‘‘ یہ استعمال قرآن کریم میں (الملک:۴) آیا ہے (۲) ’’کتے کا (دھتکارنے پر) دور چلے جانا‘‘ اور اس طرح اس کے معنی ہیں ’’ذلیل ہوجانا‘‘ یہ استعمال بھی قرآن کریم میں (المومنون:۱۰۸) میں آیا ہے۔ اور بطور فعل متعدی اس (فعل) کے معنی ہیں ’’کتے وغیرہ کو دھتکار کر دور بھگا دینا‘‘ قرآن کریم میں یہ متعدی والا استعمال کہیں نہیں آیا۔

·       اس طرح اس فعل کے استعمال (لازم متعدی) میں مطاوعت پائی جاتی ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’ خَسَأہٗ   فَخَسَأ ‘‘ اور بعض کہتے ہیں ’’خَسَأَہ (ف) خَسْأً  فخَسِیَٔ (س) خُسُوْئً ا‘‘ یعنی باب اور مصدر کے فرق کے ساتھ (اس نے اسے دھتکار دیا اور وہ دھتکارا ہوا ہو کر رہ گیا) یوں اس فعل میں ’’حقیر ہونا‘‘ یا ’’ذلیل ہو کر رہ جانا‘‘  کا مفہوم بھی پید ہوتا ہے۔ اس فعل مجرد سے فعل امر کا صرف ایک صیغہ قرآن کریم میں صرف ایک جگہ (المومنون:۱۰۸) آیا ہے اور اس سے مشتق اسم الفاعل (واحد اور جمع) کے صیغے کل تین جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ (خاسِئِین) اس فعل مجرد سے اسم الفاعل کا صیغہ جمع مذکر سالم ہے یعنی یہ ’’خَاسِیٌٔ‘‘ کی جمع (بحالت نصب) ہے اور ’’خاسِیٌٔ‘‘ کے معنی (اوپر بیان کردہ افعال کی روشنی میں) بنتے ہیں: ’’عاجز و ناکام ‘‘ اور ’’ذلیل و خوار‘‘ (ہوجانے والا) اور یہ فعل کے متعدی استعمال اسم المفعول (جو دھتکارا ہوا ہو کر رہ گیا) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اسی لیے اس کا ترجمہ ’’ذلیل، پھٹکارے، دھتکارے ہوئے‘‘ اور ’’ذلیل و خوار‘‘ کے ساتھ ہی کیا گیا ہے۔

[فجعلنا ھا] (یہ بھی برسم املائی لکھا گیا ہے) جو ’’فَ‘‘ (پس) + ’’جَعَلْنَا‘‘ (ہم نے بنا دیا، کردیا)+ ’’ھَا‘‘ (اس کو) کا مرکب ہے۔ اس میں وارد فعل ’’جَعَلْنَا‘‘ (بروزن ’’فَعَلْنَا‘‘کے مادہ (جعل) اور اسے فعل مجرد (جعَل یجعَل= بنانا) کے باب اور معنی و استعمال پرالبقرہ:۱۹[۱:۱۴:۲ (۷)] میں بات ہوچکی ہے اسطرح ’’فجلعنا ھا‘‘ کا ترجمہ ’’ہم نے کیا اس (قصے) کو، ہم نے بنایا اس (واقعہ) کو، ہم نے اس (قصے ) کو بنایا‘‘ وغیرہ کی شکل میں  کیا گیا ہے۔ جس میں ’’واقعہ اور قصہ‘‘وغیرہ کے الفاظ ضمیر ’’ھا‘‘ کی وضاحت کے لیے بڑھائے گئے ہیں۔

۱:۴۲:۲ (۴)     [نَکالاً] کا مادہ ’’ن ک ل‘‘ اور وزن ’’فَعَالًا‘‘ ہے یعنی یہ منصوب ہے (وجہ اعراب میں بیان ہوگی)۔ اس مادہ سے فعل ’’نکَل ینکُل نُکُوْلاً ‘‘ (باب نصر سے) آتا ہے۔ اور کبھی باب سمع سے ’’نَکِلَ ینکَل نَکَلاً‘‘ بھی آتا ہے اور یہ فعل بھی لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں (۱) ’’بزدل ہونا، پیچھے مڑجانا، پسپا ہونا‘‘ اور (۲) ’’کسی کو پیچھے دھکیل دینا، پسپا کرنا‘‘ اور عموماً اس کے ساتھ (لازم متعدی دونوں صورتوں میں) ’’عَنْ‘‘ کا صلہ لگتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’نکَل عن العدوِّ (دشمن کے سامنے سے بھاگ نکلا) یا ’’نکل عن الیمین‘‘ (وہ قسم سے پھر گیا) یا ’’نکَل فلاناً عن الشیِٔ‘‘ (اس نے فلاں کو (اس ) چیز سے پرے بھگا دیا، دور کردیا) اور کبھی یہ فعل ’’باء(بِ) کے صلہ کے ساتھ ’’کڑی سزا دینا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’نکل بِفُلانٍ‘‘ (اس نے فلاں پر آفت لاڈالی۔ یا فلاں کو (دوسروں کے لیے) عبرت بنادیا)۔ اس مادہ سے (عام عربی میں) مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی مختلف معنی کے لیے فعل آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا فعل استعمال نہیں ہوا۔

·       البتہ اس مادہ سے ماخوذ یہی لفظ ’’نکال‘‘ قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے اور ایک جگہ (المزمل:۱۲) لفظ ’’أَنْکَالٌ‘‘ (جو ’’نَکْلٌ‘‘ بمعنی ’’بیڑی‘‘ کی جمع ہے) اور ایک ہی جگہ (النساء:۸۴) لفظ ’’تَنْکِیْلُ‘‘ (جو اس باب تفعیل کا مصدر ہے) آیا ہے۔ ان پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’نکال‘‘ اس ماد ہ سے ماخوذ ایک اسم جامد ہے اور اسکے معنی ’’بندش‘‘، ’’وبال ‘‘اور ’’عبرتناک‘‘ ہیں۔ اور اسی سے اس میں دوسروں کے لیے ’’نمونۂ عبرت، باعثِ عبرت‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں یعنی جس کی حالت دیکھ کر دوسرے لوگ وہ کام کرنے سے رک جائیں اور بچیں۔ اور اسی وجہ سے بعض مترجمین نے ’’نکال‘‘ کا ترجمہ ’’بندش‘‘ اور ’’دہشت‘‘ ہی کیا ہے۔

۱:۴۲:۲ (۵)     [لِّمَا بَیْنَ یَدَیْھَا] کا ابتدائی ’’لِمَا ‘‘ تو ’’لِ‘‘ (کے لیے) اور’’مَا‘‘ (جو کچھ کہ) کا مرکب ہے یعنی ’’اس کے لیے جو کہ ‘‘۔ ’’لام‘‘ (لِ) کے معنی واستعمال پر سورۃ الفاتحہ کے شروع میں [۱:۲:۱ (۴)] میں اور ’’مَا‘‘ کے لیے البقرہ ۲۶ [۱:۱۹:۲ (۳)] دیکھ لیجئے۔

’’ بَیْنَ یَدَیْھَا‘‘ بھی تین کلمات ’’ بَیْنَ،  یَدَیْ‘‘ اور ’’ھَا‘‘ کا مرکب ہے جس میں آخری (ھا) تو ضمیر مجرور مونث بمعنی ’’اس کا/ کے/ کی‘‘ ہے۔

·       لفظ ’’بَیْنَ‘‘ کا مادہ ’’ب ی ن‘‘ اور وزن ’’فَعْلَ‘‘ (لام کی فتحہ ( ــــــَـــــ  ) کے ساتھ ہے)۔ اس مادہ سے متعدد فعل اور دیگر ماخوذ اور مشتق کلمات قرآن کریم بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس مادہ سے فعل مجرد پر ہم وہاں بات کریں گے جہاں اس مادہ سے کوئی فعل سامنے آئے گا (اور یہ موقع ابھی آگے البقرہ:۶۸ [۱:۴۳:۲ (۶)]میں آرہا ہے) یہاں ہم صرف لفظ ’’بَیْنَ‘‘ کے معنی و استعمال پر بات کرتے ہیں۔

·       یہ لفظ ’’بَیْنَ‘‘ جس کا اردو ترجمہ ’’درمیان/ کے درمیان‘‘ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مُبہم (غیر واضح) ظرف ہے جو ’’قَبْل اور بَعد‘‘ کی طرح زمان اور مکان (وقت اور جگہ ) دونو ں  کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی کسی چیز کی اضافت کے بغیر واضح نہیں ہوتے۔ اس کے مضاف الیہ کم از کم دو شخص یا چیزیں ہونے چاہئیں۔ مثلاً کہیں گے ’’بَیْنَ الظہرِ والعصرِ‘‘ (ظہر اور عصر کے درمیان) یا مثلاً ’’ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ‘‘ البقرہ:۱۶۴) یعنی آسمان اور زمین کے درمیان۔

·       البتہ بعض دفعہ دو کی بجائے ایک ہی مضاف الیہ آتا ہے۔ جیسے ’’ بَيْنَ ذٰلِك ‘‘ (الفرقان:۶۷ یا النساء ۱۴۳) یعنی ’’اس کے درمیان جو دراصل ’’بَیْنَ ذٰلک وذٰلک‘‘ ہے یعنی ’’اس اور اس کے درمیان‘‘ یعنی دوسرا مضاف الیہ محذوف ہے۔

·       کبھی ’’بَیْن‘‘ کے درمیان ’’کی بجائے‘‘، ’’ کے سامنے ‘‘کے معنی میں (یعنی أمام یا  قُدَّامَ کی بجائے) استعمال ہوتا ہے جس کی مثال یہی زیر مطالعہ ترکیب ’’بَیْنَ یَدَیْھَا‘‘ ہے جیسا کہ آگے اس کی وضاحت آرہی ہے۔

·       کبھی ’’بَیْنَ‘‘ اور اس کا مضاف الیہ (پورا مرکب اضافی) کسی دوسرے لفظ کا مضاف الیہ ہوکر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’ فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ ‘‘ (الکہف:۷۸) یعنی یہ میرے اور تیرے درمیان کی جدائی ہے)۔ اس صورت میں ’’بینَ‘‘ مجرور ہوکر ’’ن‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ) کے ساتھ  ’’بینِ‘‘ آتا ہے۔

·       کبھی  ’’قَبْل‘‘ اور ’’ بَعد ‘‘کی طرح ’’بینَ‘‘ سے پہلے  ’’مِنْ‘‘ بھی لگتا ہے جس سے یہ (بین) بھی مجرور (بکسر النون)  آتا ہے جیسے ’’ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَم ‘‘ (النحل:۶۶) یعنی ’’گوبر اور خون کے درمیان میں سے‘‘۔

·       اگر دو ضمیروں یا ایک ضمیر اور دوسرے اسم ظاہر سے پہلے ’’ بَینْ ‘‘ مضاف ہوکر آئے تو لفظ ’’ بینَ  ‘‘ کی تکرار کرنی پڑتی ہے (کیونکہ دو ضمیریں باہم عطف نہیں ہوتیں) جیسے ’’ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ  (یونس:۲۹) یا’’ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ ‘‘(النساء:۹۲) میں ہے یعنی ’’ہمارے اور تمہارے درمیان‘‘ یا ’’تمہارے اور ان کے درمیان‘‘ اسی طرح ’’ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا ‘‘ (الاعراف:۸۹) یعنی ’’ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان‘‘۔

·       اس سے اگلا لفظ ’’یَدَی‘‘ ہے۔ یہ دراصل لفظ ’’ یَدٌ‘‘ (بمعنی ہاتھ) کا صیغہ تثنیہ ’’یَدَان ‘‘ تھا جو ’’بین‘‘ کا مضاف الیہ (مجرور) ہونے کی وجہ سے ’’یَدَیْنِ‘‘  ہوگیا۔ اور پھر آگے ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ کی طرف مضاف ہونے کی بنا پر اس کا آخری (اعرابی) نون گر کر باقی’’یَدَی‘‘ رہ جاتا ہے جو اپنے مضاف الیہ (ھا) کے ساتھ مل کر ’’یدَیھا‘‘ بنتا ہے۔

·       اور لفظ ’’یَدٌ‘‘ کا مادہ ’’ی د ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعْلٌ‘‘ ہے اس لفظ کی اصلی ’’یَدْیٌ‘‘ تھی (یعنی یَدْیُنُ) جس میں متحرک حرف علت لام کلمہ (یاء) کی حرکت اس کے ماقبل حرف صحیح (د) کو دی جاتی ہے اور خود اس (یاء) کو ماقبل کی حرکت ضمہ ( ـــــُـــــ )  کے موافق حرف ’’و‘‘ میں بدل دیا جاتا ہے اور لفظ ’’یَدُوْنَ‘‘ بنتا ہے۔ اب اس میں دو ساکن (’’و‘‘اور ’’ن‘‘) جمع ہوجاتے ہیں تو حرف علت (و) گرادیا جاتا ہے اور لفظ ’’یَدُن‘‘ رہ جاتا ہے اسی کو ’’ یَدٌ‘‘ (بتنوین دال) لکھا جاتا ہے۔ یعنی یَدْیٌ= یَدْیُنْ = یَدَیْنُ = یَدَوْنُ = یَدُنْ= یَدٌ۔

·       اس مادہ (یدی) سے (جو لفیف مفروق کی ایک مثال ہے) فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے آتا ہے (۱) یَدیَ یدِیْ (دراصل یَدَیَ یَیْدِیُ)باب ’’ضَرَب‘‘ سے  (وقی یقی کی طرح) آتا ہے (مثال کے مضارع میں فاء کلمہ کو گرا دیا جاتا ہے) اور اس کے معنی ہوتے ہیں ’’کسی کے ہاتھ پروار کرنا‘‘ یا  ’’ہرن وغیرہ جانور کا اگلا پاؤں جال میں پھنس جانا‘‘ اور (۲)یَدِیَ یَیْدیُ یَدْیًا (باب سمع سے) کے معنی ہوتے ہیں ’’کسی کا ہاتھ خشک یا ضائع ہوجانا‘‘ کہتے ہیں: ’’یَدِیَ فُلانٌ (اس کا ہاتھ جاتا رہا یا وہ کمزور ہوگیا) اور اسی باب سے ’’یدِیَ فلانُ من فلانٍ‘‘ کے معنی ہوتے ہیں: ’’فلاں نے فلاں سے حسن سلوک پایا‘‘ اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض افعال بھی مختلف معانی کے لیے آتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ قرآن کریم میں اس مادہ (یدی) سے ماخوذ یہی ایک لفظ ’’یَدٌ (واحد،تثنیہ، جمع ،معرفہ نکرہ اور مفرد یا مرکب مختلف صورتوں میں) ۱۲۰ کے قریب مقامات پر وارد ہوا ہے۔

·       ’’یَدٌ‘‘ کے بنیادی معنی ’’ہاتھ‘‘ ہیں۔ عربی میں کندھے سے لے کر انگلیوں کے سروں تک والے حصے یعنی ’’بازو‘‘ کو  بھی ’’ید‘‘ کہتے ہیں او صرف انگلیوں والے حصے کو بھی ’’ید‘‘ ہی کہتے ہیں ۔اس لیے اس کا اردو ترجمہ حسب موقع ’’بازو‘‘ یا ’’ہاتھ‘‘ کیا جاسکتا ہے اور عربی میں یہ لفظ (یدٌ) مونث استعمال ہوتاہے۔

·       اپنے ان حقیقی معنی کے علاوہ لفظ ’’ید‘‘ متعدد مجازی اور محاوراتی معنی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً (تلوار یا چھری کا) دستہ، آستین، احسان، نعمت، قدرت، طاقت، ہمت، جماعت، گروہ، مددگار، اطاعت و ملکیت اور  رکاوٹ‘‘ کے معنی بھی (حسب موقع) دیتا ہے۔ اور مختلف اَفعال کے ساتھ یہ خاص محاوراتی معنی دیتا ہے۔ جن میں سے بعض قرآن کریم میں بھی آئے ہیں مثلاً ’’ سُقِطَ فِيْٓ اَيْدِيْهِمْ ‘‘ (الاعراف:۱۴۹) کےمعنی ہیں ’’پشیمان ہوئے۔ ہاتھوں کے طوطے اڑگئے‘‘ اور ’’ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ ‘‘ (البقرہ:۹۵ اور متعدد جگہ) کا مطلب ہے ’’ان کے کرتوت‘‘ (لفظی ’’جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا‘‘ یعنی اعمال)

·       ’’ید‘‘ کی جمع مکسر ’’اَیْدٍی‘‘ ہے جس کی اعرابی گردان ’’ ایدٍی۔ ایدیًا۔ ایدٍی‘‘ بنتی ہے۔ ’’ایدٍی‘‘کو ’’ایدٍ‘‘ بھی لکھا جاسکتا ہے۔ مگرجب یہ مضاف ہوکر آئے تو پھر ’’ایدِی‘‘ ہی (تنوین گرنے کا باعث) استعمال ہوتا ہے اور معرف باللام ہوکر بھی یہ ’’الأیدِیْ‘‘ (رفع و جر میں) یا’’الْایْدِیَ‘‘ (نصب میں) ہو جاتا ہے اس کی یہ مختلف صورتیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

·       ’’بین‘‘ اور ’’ید‘‘ کی مذکورہ بالا وضاحت کے بعد اب آپ غالباً  ’’بَینَ یدَیْھا‘‘  کا ترجمہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ بالکل لفظی ترجمہ تو بنتا ہے’’درمیان یا سامنے دونوں ہاتھوں اس کےکے‘‘ جس کی سلیس اردو بامحاورہ صورت ہے۔’’ اس کے دونوں ہاتھوں کے آگے/ سامنے/ درمیان‘‘ اور اسی کو مختصراً  ’’اس کے سامنے/ آگے‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

·       اور اس طرح پوری زیر مطالعہ ترکیب ’’لما بین یدیھا‘‘ کا ترجمہ بنے گا ’’اس/ ان کے لیے جو اس کے سامنے/ آگے تھے/ ہیں‘‘ اور اس میں ضمیر مونث ’’ھا‘‘ چونکہ اس بستی یا جماعت کے لیے ہے جن کاقصہ بیان ہورہا ہے اس لیے ’’لِمَا بَیْنَ یدیھا‘‘ کا وضاحتی ترجمہ ’’ان کے لیے/ جو وہاں موجود تھے/ شہر کے روبرو والوں/ جو وہاں تھے/ جو اس قوم کے معاصر تھے/ جو اس وقت موجود تھے/ اس زمانہ والوں/ اس وقت کے لوگوں/ اس زمانے کے لوگوں (کے لیے)‘‘ کی صورت میں کیاگیا ہے۔ ان سب تراجم میں نص میں غیر موجود بہت سے الفاظ (وقت، زمانہ، وہاں، قوم شہر وغیرہ) کا اضافہ ضمیر ’’ھا‘‘ کی وضاحت کے لیے کرنا پڑا ہے۔

۱:۴۲:۲ (۶)      ]وَمَا خَلْفَھَا] ’’وَمَا‘‘ (اور وہ جو کہ) یہاں سابقہ عبارت کے ’’لِمَا‘‘ کی وجہ سے دراصل ’’وَلِمَا‘‘ کے معنی میں ہے یعنی ’’اور ان/ اس کے لیے جو‘‘ اور ’’خَلْفَھَا‘‘ کی آخری ضمیر مجرور تو (اس کا/ کی) کے معنی میں ہے اور لفظ ’’خَلْفٌ‘‘ (جو یہاں منصوب اور خفیف ہے) کامادہ ’’خ ل ف‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے اس مادہ سے  فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۳۰ [۱:۲۲:۲ (۴)] میں بات ہوچکی ہے۔ ویسے اس مادہ سے فعل کا کوئی صیغہ ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آیا اس مادہ سے فعل کا پہلا استعمال البقرہ:۸۰ میں بابِِ افعال سے آئے گا اور اس مادہ سے فعل مجرد کا ایک صیغہ پہلی دفعہ الاعراف:۱۶۹ میں ہمارے سامنے آئے گا۔

·       یہ لفظ (خَلْفٌ) فعل مجرد (خلَف فُلانًا یخلُف خَلْفًا =وہ فلاں کے پیچھے ہولیا) کا مصدر بھی ہے (بمعنی پیچھے ہوجانا) اور اس سے بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے مختلف معنی ہوتے ہیں مثلاً ’’پیٹھ، نالائق اولاد، بے ہودہ بات‘‘ وغیرہ تاہم اس کے مشہور (یا بنیادی) معنی ’’پیچھے‘‘ ہیں جو ’’أمَام یا  قُدَّام‘‘ (آگے) کی ضد ہے۔

·       یہ لفظ ویسے تو معرب  بھی استعمال ہوتا ہے لیکن جب یہ ظرف (. . . کے پیچھے) کے معنی میں آئے تو پھر یہ اسم مبہم کی طرح مضاف ہوکر آتا ہے اور بوجہ ظرفیت منصوب ہوجاتا ہے اور اس کے آخر پرصرف فتحہ ( ــــــَـــــ  )  آتی ہے یعنی یہ بصورت ’’خَلْفَ. . .‘‘ استعمال ہوتا ہے (بعد اور قبل کی طرح) اور اس سے پہلے ’’مِنْ‘‘ آئے تو یہ مجرور بھی ہوجاتا ہے۔ اس طرح ’’خَلْفَہ‘‘ اور ’’منْ خلفہ‘‘ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی ’’اس کے پیچھے/ بعد‘‘

یہاں آیت زیرِ مطالعہ میں یہ اسی طرح (بطورِ ظرف) آیا ہے۔ اور اس طرح اس ترکیب ’’وما خَلْفَھا‘‘  کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور جو  اس (مؤنث) کے لیے پیچھے ہے/ ہیں/ تھا/ تھے‘‘ اور چونکہ یہاں یہ ماضی کے ایک واقعہ کے سلسلے میں آیا ہے اس لیے ’’جو اس کے پیچھے تھے‘‘ ترجمہ ہونا چاہیے مگر یہاں بھی ضمیر ’’ھا‘‘ چونکہ بستی، قوم یا جماعت یا وقت کے لیے ہے۔ اس لیے اس کا بھی وضاحتی ترجمہ اسم الفاعل کی طرح کیا گیا ہے۔ یعنی ’’پیچھے والوں/ پیچھے آنے والوں/ جو پیچھے آنے والے تھے/ جو مابعد زمانہ میں آتے رہے/ جو اس کے بعد آنے والے تھے/ ان کے بعد والوں/ بعد کے لوگوں‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے یہاں بھی ضمیر ’’ھا‘‘ کی وضاحت کے لیے اصل نص (عبارت) کے الفاظ پر بعض الفاظ کا اضافہ کرنا پڑا ہے۔ اور بعض ترجموں میں ’’ما‘‘ اور ’’ھا‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرنا پڑا ہے۔ جیسے ’’بعد والوں‘‘  کا۔

۱:۴۲:۲ (۷) [وَمَوْعِظَۃٌ]ابتدائی ’’و‘‘ تو بمعنی ’’ اور‘‘ ہے۔ اور لفظ ’’مَوْعِظَۃٌ‘‘ (جو عبارت میں منصوب آیا ہے) کامادہ ’’و ع ظ‘‘ اور وزن ’’مَفْعِلَۃٌ‘‘ ہے۔

اس مادہ سے فعل مجرد ’’وعَظ. . . . . یَعِظُ (دراصل یَوْعِظُ )وَعْظًا وَ مَوْعِظَۃً‘‘ (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’. . . . .کو نصیحت کرنا، نتائج یاد دلانا، سمجھانا‘‘ یعنی یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ آتا ہے ۔اور جس بات کی نصیحت کی جائے (یعنی مفعول ثانی) اس پر یا تو  ’’باء‘‘ (ب) کا صلہ آتا ہے یا ’’ أن‘‘ سے شروع ہونے والا ایک جملہ آتا جیسے ’’ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ  ‘‘ (سبأ:۴۶) یعنی ’’میں تم کو ایک (بات کی) نصیحت کرتا ہوں‘‘ اور دوسری جگہ ہے ’’ يَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا ‘‘ (النور:۱۷) یعنی’’اللہ تم کو سمجھاتا ہے کہ دوبارہ (ایسا کام نہ) کرو۔‘‘ اس فعل سے اسم الفاعل ’’واعظ‘‘ اردو میں بھی عام مستعمل ہے۔

·       لفظ ’’مَوْعِظَۃ‘‘ اس فعل مجرد کا مصدر بھی (بمعنی سمجھانا) اور اس سے ماخوذ ایک اسم بھی ہے۔ جس کے معنی ’’نصیحت،پندو نصیحت‘‘یعنی وہ بات جو سمجھانے کے لیے کی جائے یا ’’واعظ کا قول‘‘ ہیں جسے عربی میں ’’عِظَۃٌ‘‘ بھی کہتے ہیں۔

قرآن کریم میں اس فعل مجرد (وعَظ یَعِظ) سے مختلف صیغے ۱۵ جگہ آئے ہیں۔ اس سے مزید فیہ کا کوئی فعل قرآن میں نہیں آیا۔ (اگرچہ عام عربی میں استعمال ہوتے ہیں) اور لفظ ’’موعظۃ‘‘ (معرفہ نکرہ مختلف حالتوں میں) کل ۹ جگہ آیا ہے۔

[لِلْمُتَّقِیْنَ] ابتدائی لام الجر کے بعد لفظ ’’المتقِین‘‘ ہے جس کا مادہ ’’و ق ی‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر ’’مُفْتَعِلِیْنَ‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ سے باب افتعال (صیغہ اسم الفاعلین کا صیغہ جمع مذکر سالم بحالت جر) ہے۔ باب افتعال سے اس کے فعل ’’اتّقی یَتّقِی اِتّقائً= بچنا، پرہیز کرنا‘‘ کے معنی کے علاوہ اس کے فعل اور اسم الفاعل میں ہونے والی تبدیلیوں یعنی تعلیل صرفی (اصل شکل کیا تھی کیسے بدل گئی) کے بارے میں بحث البقرہ:۲ [۱:۱:۲ (۷)]میں اور اسی لفظ ’’للمتقین‘‘ کے تراجم وغیرہ بھی بیان ہوچکے ہیں نیز البقرہ:۲۱ [۱:۱۶:۲ (۵)]میں کو بھی دیکھ لیجئے۔

 

۲:۴۲:۲      الاعراب

زیر مطالعہ دو آیات (۶۵۔۶۶) بلحاظ اعراب تو تین جملوں پر مشتمل ہیں۔ جو فاء عاطفہ کے ذریعے ملائے گئے ہیں اور یوں  بلحاظ مضمون ایک ہی بڑا جملہ بنتے ہیں۔

(۱) وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ

[وَ] استینافیہ ہے جس سے ایک الگ جملہ شروع ہوتا ہے۔ [لقد] لام تاکید (لَ) اور حرف تحقیق (قد) مل کر تاکید میں زور پیدا کرتے ہیں۔ بعض نحویوں کے نزدیک اس سے پہلے قَسَم کا ایک لفظ محذوف ہے جس کے جواب میں ’’لقد‘‘ کا لام (لَ) آیا ہے ترجمہ بنے گا  ’’بخداضرور ہی‘‘ [علمتم] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ شامل ہے۔ [الذین] اسم موصول ہے جس سے ’’علمتم‘‘ کا مفعول بہ شروع ہوتا ہے اس لیے یہاں ’’الذین‘‘ محلاً منصوب ہے [اعتَدَوا] فعل ماضی صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھُم‘‘ مستتر ہے [منکم] جارّ  (مِنْ) اور مجرور (کم) مل کر فعل ’’اعتدوا‘‘ کی ضمیر فاعلین (ھم) کا بیان (وضاحت) ہے یا تبعیض کے لیے ہے۔

[فی السبت] فِیْ (حرف الجر) اور ’’السبت‘‘ (مجرور بالجر ) کا مرکب ہے۔ اور یہ متعلق فعل ’’اعتدوا‘‘ ہے۔ دراصل یہاں ایک لفظ ’’یوم‘‘ محذوف ہے اصل مراد ’’فی یوم السبت‘‘ ہے یعنی ’’سبت کے دن کے (احکام کے) بارے میں‘‘ یہاں تک کی عبارت (اعتدوا منکم فی السبت) ’’الذین‘‘ کے صلہ کے کام دے رہی ہے اور یہ صلہ موصول مل کر فعل ’’علمتم‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا محلاً منصوب جملہ) ہے اور یہ پوری عبارت (ولقد. . . . السبت) ایک مکمل جملہ فعلیہ ہے۔

(۲)   فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕيْنَ

[ف] عاطفہ تعلیلیہ بمعنی ’’اس لیے‘‘ ہے [قلنا] فعل ماضی مع ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ ہے جس کی علامت آخری  ’’نا‘‘ ہے۔ اسی لیے اسے ’’نون التعظیم‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی جب اس میں ضمیر فاعلی (نحن) اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اس فعل ’’قلنا‘‘ کا عطف سابقہ فعل ’’اعتدوا‘‘ پر ہے یعنی ’’اعتدوا  فقلنا‘‘ (انہوں نے سرکشی کی اس لیے ہم نے کہا) [لھم] جار مجرور (ل + ھم) متعلق فعل ’’قلنا‘‘ ہے یعنی یہ ایک طرح سے ’’قلنا‘‘ کا مفعول ثانی (جسے کچھ کہا جائے) ہے۔  [کُوْنوا] فعل امر ناقص ہے جس میں اس کا اسم ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ [قِردۃ] اس (کونوا) کی خبر (لہٰذا) منصوب ہے [خاسِئِین] (یہ اسم املائی ہے) کو ’’کونوا‘‘ کی خبر ثانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور چاہیں تو اسے ’’قردۃ‘‘ کی صفت بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اور جمع سالم اس لیے آئی ہے کہ یہاں گویا ’’قردۃ‘‘ (بندروں) کو ذی العقول سے تشبیہ دی گئی ہے ورنہ تو صفت ’’خاسِئَۃ‘‘ ہوتی۔ اور یہ صفت موصوف مل کر ’’کونوا‘‘ کی خبر (لہٰذا) منصوب ہیں۔ جملہ ’’کونوا قردۃ خاسئین‘‘ فعل ’’قلنا‘‘ کا مقول (جو بات کہی گئی) یعنی مفعول بہ ہے اس لیے اس (جملے) کو محلاً منصوب کہہ سکتے ہیں۔  ’’کونوا‘‘ یہاں حکم تکلیفی (تشریعی) نہیں بلکہ حکم تکوینی ہے یعنی ’’ہم نے کہا ہو جاؤ پس وہ ہو گئے ذلیل بندر‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو ’’ہو جا‘‘ کہنے کا مطلب ہے اس کے ہوجانے کا حکم جاری کرنا۔ اور وہ ہو جاتی ہے۔

(۳) فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ 

[فَ = فاء] عاطفہ سببیہ ہے بمعنی ’’اس لیے‘‘ [جعلنا] فعل ماضی مع ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ ہے اور [ھا] ضمیر منصوب اس (جعلنا) کا پہلا مفعول بہ ہے اور یہ جملہ فعلیہ (فجعلنا ھا) فائے عاطفہ کے ذریعے سابقہ فعل ’’قلنا‘‘ پر عطف ہے۔ ’’جعلنا ھا‘‘ کی مؤنث ضمیر منصوب (ھا) کا مرجع یا تو وہ ’’ قریہ ‘‘ یا بستی ہے یا وہ ’’امت یا جماعت‘‘ جس میں یہ واقعہ ہوا تھا۔ یا یہ اس فعل (بندر ہوجانا) کے لیے ہے جو ان پر واقع ہوا ہے جسے عربی میں ’’مُسْخۃ‘‘ (مسخ ہوجانا) کہتے ہیں یا یہ اس ’’عقوبۃ‘‘ (سزا) کے لیے ہے جو ان پر نازل ہوئی یعنی ’’ہم نے بنادیا اس قریہ/ بستی/ جماعت/ امت/ قردۃ (بندروں) / عقوبت کو‘‘ (عبرت. . . . . جو آگے آرہا ہے) [نکالاً]فعل ’’جعلنا‘‘ (ہم نے بنادیا) کا مفعول ثانی ہے۔  )’’جَعَل‘‘ کے اکثر دو ہی مفعول آتے ہیں۔ [لِمَا] لام الجر (لِ) اور اسم موصول (ما) ’’جو یہاں مجرور ہے‘‘ مل کر متعلق (نکالاً) ہے یا یوں کہیے کہ ’’نکالًا‘‘ نکرہ موصوفہ ہے جس کی صفت ’’لِمَا‘‘ سے شروع ہوتی ہے یعنی ’’ایسا نکال (عبرت) جو کہ تھا. . . . ‘‘یعنی اس میں نکال (عبرت) کی مزید وضاحت ہے کہ کس کے لیے ’’نکال‘‘(عبرت) بنائے گئے؟  [بینَ یدیھا] میں ’’بین‘‘ تو ظرف مضاف ہے جو ’’یدیھا‘‘ کی طرف (جو خود بھی مرکب اضافی ’’یدی + ھا‘‘ ہے) اور بظاہر یہ (بین) ظرف زمان ہے یعنی اس وقت والے لوگ مراد ہیں۔ یہاں بھی ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ کا مرجع مثل سابق ’’قریۃ یا امۃ‘‘ ہی ہوسکتا ہے [وَمَا] کی واو عاطفہ اور ’’ما‘‘ موصولہ ہے جو یہاں ’’لِمَا. . . . ‘‘ پر عطف ہے [خَلْفَھا] میں  ’’خَلْف‘‘ ظرف (جو زمان کے لیے ہے) ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ کی طرف مضاف ہوکر اس (دوسرے) ’’ما‘‘ کا صلہ بنتا ہے اور یہاں بھی ’’ھا‘‘ کا مرجع وہی (قریۃ، امۃ وغیرہ) ہے جو سابقہ دو ’’ھا‘‘ کا ہے۔ اس طرح ’’ما بین یدیھا‘‘  اور ’’ما خلفھا‘‘ دونوں (الگ الگ ہر ایک ) صلہ موصول ابتدائی لام (جو  ’’لِمَا ‘‘میں ہے) کے ذریعے ’’نکال‘‘ سے متعلق کر دیئے گئے ہیں یا اس کی صفت سمجھ لیجئے ’’یعنی ایسا ’’ نکال ‘‘(عبرت) جو ’’مابین یدیھا‘‘ اور ’’ما خلفھا‘‘ کے لیے تھا۔ [وموعظہ] واو عاطفہ کے ذریعے ’’موعظۃ‘‘ کا عطف بھی ’’نکالاً‘‘ پر ہے یعنی یہ فعل ’’جعلنا‘‘ کے مفعول ثانی پر عطف ہے اس لیے منصوب ہے۔ (جعلناھا نکالاً و موعظۃ) [للمتقین]حرف الجر (لِ) اور مجرور  (المتقین) مل کر ’’موعظۃ‘‘ کی صفت کا کام دے رہا ہے گویا ’’موعظۃ‘‘ بھی نکرہ موصوفہ ہے یعنی ایسی ’’موعظۃ‘‘ (نصیحت جو ’’المتقین‘‘ کے لیے ہے۔ کیونکہ اس سے فائدہ تو وہی حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ نصیحت یوں تو سب کے لیے ہی ہے۔

·       یہاں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس کی قدرے تفصیل آگے (الاعراف:۱۶۳ تا ۱۶۶) میں آئی ہے۔ اس مسخ کی حقیقت کیا تھی۔ اس کے لیے کسی مستند تفسیر کا مطالعہ کر لیجئے۔

 

۳:۴۲:۲     الرسم

زیر مطالعہ آیات میں بلحاظ رسم صرف تین کلمات توجہ طلب ہیں یعنی ’’خاسئین، فجعلناھا ‘‘اور ’’نکالا ‘‘(یہاں ہم نے فرق سمجھانے کے لیے) ان کو رسم املائی کے مطابق ہی لکھا ہے۔ ان کے رسم عثمانی (قرآنی) کی تفصیل یوں ہے:

(۱)’’خاسئین‘‘ جو (بصورت جمع مذکر سالم) قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے (یہاں اور الاعراف:۱۶۶ میں) رسم عثمانی کے مطابق اس میں لکھتے وقت ایک تو الف (بعدالخاء) حذف کردیا جاتا ہے۔ دوسرے ’’ س ‘‘ اور ’’ ی ‘‘ کے درمیان ہمزہ کے لیے کوئی نبرہ (دندانہ) نہیں لکھا جاتا یعنی یہ مذکورہ دونوں مقامات پر بصورت ’’خسین‘‘  لکھا جاتا ہے۔ البتہ ایک جگہ (الملک:۴) جہاں یہ لفظ بصورت واحد آیاہے وہاں اسے ’’ خاسئاً ‘‘ یعنی الف (بعد الخا) کے اثبات اور ہمزہ کے دندانہ کے ساتھ۔ مگر مذکورہ دو (جمع مذکر والے)  مقامات پر اسے الف (بعد الخاء) اور نبرہ (برائے ہمزہ) کے حذف سے ہی لکھا جاتا ہے اور یہ رسم عثمانی کا متفقہ مسئلہ ہے۔

(۲) ’’ فجعلنا ھا ‘‘ کو رسم عثمانی  کے مطابق بحذف الف بعد النون لکھا جاتا ہے یعنی بصورت  ’’ فجعلنھا ‘‘ بلکہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ قرآن کریم میں ضمیر مرفوع متصل (نا) کے  بعد کوئی ضمیر مفعول آئے تو ان کو ملاکر (بحذف الف ’’نا‘‘) لکھا جاتا ہے۔ رسم املائی میں الٹا اس طرح لکھنا غلط سمجھا جاتا ہے۔

(۳) ’’نکالا‘‘ کا رسم مختلف فیہ ہے۔ ’’الدانی‘‘ کے مطابق یہ باثبات الف (رسم املائی کی طرح) لکھا جاتا ہے مگر ابو داؤد کی طر ف منسوب قول کی بنا پر عرب اور بیشتر افریقی ممالک میں اسے بحذف الف لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’ نکلا ‘‘ پھر ضبط کے ذریعے اس محذوف الف کو ظاہر کیا جاتا ہے۔

 

۴:۴۲:۲     الضبط

          زیر مطالعہ قطعہ کے کلمات میں ضبط کا تنوع درج ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔