سورۃ البقرہ آیت ۶۷۔۶۸

۴۳:۲       وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖٓ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً     ۭ  قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا  ۭ  قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ(۶۷) قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِىَ    ۭ   قَالَ اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكْرٌ     ۭ  عَوَانٌۢ بَيْنَ ذٰلِكَ    ۭ  فَافْعَلُوْا مَا تُـؤْمَرُوْنَ(۶۸) 

۱:۴۳:۲        اللغۃ

[وَ اِذْ قَالَ مُوْسیٰ لِقَوْمِہٖ] اس پورے جملے اور اس کے تمام اجزاء (کلمات) کی مکمل وضاحت البقرہ:۵۴ [۱:۳۴:۲ (۱)]میں ہوچکی ہے اور الگ الگ ’’وَ ‘‘ [۱:۷:۲ (۱)] اور ’’اِذْ ‘‘ [۱:۲۲:۲ (۱)] ’’قال‘‘ [۱:۲۲:۲ (۲)]  ’’ موسٰی  ‘‘ [۱:۳۲:۲ (۲)] اور ’’لقومہ‘‘ [۱:۳۴:۲ (۱)] میں دیکھئے۔

·       اس عبارت کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور جب کہا موسٰی ؑ نے اپنی قوم کو‘‘ جس کی سلیس بامحاورہ صورت ہے  ’’جب موسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا‘‘ بعض مترجمین نے احتراماً  ’’ کہا  ‘‘ کی بجائے ’’ فرمایا ‘‘ سے ترجمہ کیا ہے ۔ او ربعض نے ’’ اپنی قوم سے ‘‘ کی بجائے ’’اپنی قوم کے لوگوں سے‘‘ کی صور ت میں ذرا وضاحتی ترجمہ کردیا ہے۔ بعض نے ترجمہ کے شروع میں ’’اذ‘‘ کی ظرفیت کی بناء پر ’’وہ وقت یاد کرو‘‘ (جب) کا اضافہ کیا ہے۔

[اِنّ اللہَ یَأْمُرُکُمْ] یہ جملہ ’’اِنّ‘‘ (بے شک) + ’’ اﷲ ‘‘(اللہ تعالیٰ)+ ’’یأْمُرُ ‘‘(حکم دیتا ہے) +’’کُمْ ‘‘(تم کو) کا مرکب ہے۔ اس میں فعل ’’یَأْمُرُ‘‘ کا مادہ ’’ اَ م ر‘‘ اور وزن ’’یَفْعُلُ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (اَمَر یامُر = حکم دینا) کے باب اور معنی و استعمال پر البقرہ:۲۷ [۱:۲۰:۲ (۵)] میں بات کی جاچکی ہے۔ اس طرح اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے تم کو‘‘۔ بعض نے ’’اِنَّ‘‘ کا ترجمہ لفظ ’’تحقیق‘‘ سے کیا ہے۔ جب کہ بعض نے غالباً اردو محاورے کی بناء پر ’’اِنّ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرتے ہوئے ترجمہ صرف ’’تمہیں اللہ حکم دیتا ہے‘‘۔ یا اسم جلالت (اللہ) کی بجائے فارسی میں مستعمل لفظ ’’خدا‘‘ استعمال کیا ہے یعنی ’’خدا تمہیں حکم دیتا ہے‘‘ بعض نے احتراماً ’’اللہ فرماتا ہے تم کو‘‘ اور ’’اللہ تم سے فرماتا ہے‘‘ کو اختیار کیا ہے۔ بعض نے مزید احترام کے لیے اردو محاورے میں بصیغہ تعظیم (جمع) استعمال کیا ہے یعنی ’’اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتے ہیں‘‘ کی صورت میں ترجمہ کردیا ہے اور بعض نے محاورہ اور اختصار کو یوں جمع کردیا ہے ’’اللہ کا حکم تم کو یہ ہے‘‘ ان تمام تراجم کا مفہوم ایک ہی ہے صرف الفاظ کے انتخاب کا فرق ہے۔

۱:۴۳:۲ (۱)     [اَنْ تَذْبَحُوْا] اس میں ’’ اَن ‘‘ مصدریہ ناصبہ ہے جس کا اردو ترجمہ ’’یہ کہ‘‘ یا صرف ’’  کہ‘‘ ہے۔ اس سے پہلے ایک باء (بِ) محذوف ہے جو سابقہ فعل (اَمَرَ) کے دوسرے مفعول ( جس بات کا حکم دیا جائے یعنی ’’ماموربہٖ‘‘ ) کے شروع میں لگتی ہے اور اگر وہ بات ’’ اَن ‘‘ سے شروع ہونے والا کوئی جملہ ہو (جیسے یہاں ہے) تو یہ ’’باء‘‘ (ب) محذوف کردی جاتی ہے ’’اَن‘‘ کے معانی و استعمالات پر البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’تَذْبَحُوْا‘‘ کا مادہ ’’ذب ح‘‘ اور وزن ’’تَفْعَلُوْا‘‘ ہے جو دراصل ’’تَذْبَحُوْنَ‘‘تھا۔ مگر شروع میں ’’أن‘‘ (ناصبہ) لگنے سے منصوب ہوکر اس کا آخری ’’ ن ‘‘ گرگیا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’ذبحَ . . . .یَذبَحُ ذَبْحًا‘‘ (باب فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں’’. . . . . .کا گلا کاٹ دینا‘‘ اور چونکہ اس کا مصدر ’’ذبح‘‘ اردو میں مستعمل ہے لہٰذا اس کا ترجمہ ’’. . . . .کو ذبح کرنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ ان بنیادی معنوں سے یہ فعل بعض مجازی اور محاوراتی معنوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً  ’’پھاڑنا‘‘ ، ’’سوراخ کرنا‘‘  یا ’’ گلا گھٹنے کی سی کیفیت پیدا کرنا‘‘۔ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے۔

·       قرآن کریم میں یہ فعل صرف اپنے بنیادی معنی (ذبح کرنا۔ گلا کاٹنا) میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اور ان معنی کے لیے اس فعل کے مختلف صیغے پانچ جگہ آئے ہیں۔ اور مزید فیہ کے باب تفعیل سے بعض صیغے تین جگہ آئے ہیں اور اس مادہ سے اسم ’’ذبح‘‘ (بمعنی قربانی) بھی ایک جگہ (الصافات:۱۰۷) آیا ہے ان سب پر حسب وقت بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       اس طرح ’’اَنْ تذبحوا‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’یہ کہ تم ذبح کرو یا گلا کاٹو‘‘ اکثر مترجمین نے ’’ اَن ‘‘ کا ترجمہ صرف ’’کہ‘‘ سے کیا ہے جو زیادہ بامحاورہ ہے بیشتر مترجمین نے  ’’تذبَحُوْا‘‘ کا ترجمہ ’’ذبح  کرو‘‘ سے ہی کیا ہے بعض نے اس کا ترجمہ ’’حلال کرو‘‘ کیا ہے جو کہ شرعی اور اصطلاحی ترجمہ ہے کیونکہ ’’حلال کرنا‘‘ سے خاص طریقے پر اور خاص شرائط کے ساتھ ’’ذبح کرنا‘‘ مراد ہوتا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ صرف ’’کاٹو‘‘ سے کیا ہے جو لفظ سے بھی ہٹ کر ہے اور غیر مانوس بھی ہے۔

۱:۴۳:۲ (۲)     [بَقَرَۃً] کا مادہ ’’ب ق ر‘‘ اور وزن ’’فَعَلَۃٌ‘‘ ہے (عبارت میں یہ لفظ منصوب آیا ہے جس پر ’’الاعراب‘‘ میں بات ہوگی) اس مادہ سے فعل مجرد ’’بقر. . . . . یبقُر بَقرًا‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’. . . . کو پھاڑ دینا، چیر دینا‘‘   مثلاً کہتے ہیں ’’بقر البطنَ‘‘  (اس نے پیٹ پھاڑ ڈالا). پھر مجازی طور پر ’’بات کو واضح کرنا، آگاہی حاصل کرنا، خوب بحث کرنا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے  [اور اسی سے لفظ ’’الباقر‘‘ ’’بہت زیادہ علم والا ‘‘ کے معنی میں شیعہ حضرات اپنے پانچویں امام کے لیے بطور لقب یا صفت استعمال کرتے ہیں]۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغہ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا بلکہ قرآن کریم میں تو صرف یہی لفظ (بقرۃ) یا اس کی جمع ’’بقرات‘‘ یا اس کا اسم جنس ’’البقر‘‘ وغیرہ کل ۹ جگہ آئے ہیں۔

·       لفظ ’’بقرۃ‘‘ کی آخری تاء (ۃ) صرف تانیث کے لیے نہیں بلکہ ’’وحدت‘‘ کے لیے بھی ہوسکتی ہے۔ اس کی اصل لفظ ’’بقر‘‘ ہے جو گائے اور بھینس کی جنس (Bovine Cattle) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (جسے عربی میں  ’’بقریات‘‘ بھی کہتے ہیں) یعنی لفظ ’’بقر‘‘ میں ’’گائے بیل بھینس مذکر مؤنث اور جنگلی یا پالتو‘‘ سب شامل ہوتے ہیں۔ اس (بقر) پر تائے وحدت (ۃ) لگنے سے اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ’’ایک بیل‘‘ یا ’’ایک گائے‘‘۔ اگرچہ عربی زبان میں ’’بیل‘‘ (مذکر) کے لیے ایک الگ لفظ ’’ثَوْر‘‘ استعمال ہوتا ہے جس طرح بھینس کے لیے ایک الگ لفظ ’’جَامُوْس‘‘  استعمال ہوتا ہے۔ تاہم گائے (مونث) کے لیے لفظ  ’’ بقرۃ ‘‘ ہی مستعمل ہے۔

·       اسی بنا پر بعض مترجمین نے یہاں ’’ بقرۃ ‘‘ کا ترجمہ ’’بیل‘‘ کیا ہے گویا انہوں نے ’’بَقرٌ‘‘ (اسم جنس برائے گائے بیل) کا ایک فرد (مذکر) مراد لیا ہے۔ اگرچہ اس صورت میں ’’ بقرۃ  ‘‘ سے مراد اس جنس (بقر) کا ایک فرد (مؤنث) بھی مراد لی جاسکتی ہے۔ گویا ’’بقرۃ‘‘ سے مراد ’’ایک گائے ‘‘لینے کی تائید دو باتوں سے ہوتی ہے (۱) ایک تو بقرۃ کی تائے وحدت (ۃ) ماننے سے ایک لفظ کا مطلب ایک ’’بیل‘‘ کے ساتھ ’’ایک گائے ‘‘ بھی بنتا ہے۔ (۲) دوسرے ’’بقرۃ‘‘ عربی میں عموماً  گائے کے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ بیل کے لیے ایک الگ لفظ ’’ثَوْر‘‘ موجود ہے۔ اس کے ساتھ ان آیات میں جن کا مطالعہ ہم نے اب شروع کیا ہے (اور یہ سلسلہ آگے آیت:۷۱ تک چلے گا) ان میں جو ضمیریں اور بعض دوسرے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان سے بھی (جیسا کہ آگے بیان ہوگا) ’’گائے‘‘ کے معنی کی تائید ہوتی ہے۔ بہر حال زیادہ مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’گائے‘‘ ہی کیا ہے۔

·       [قَالُوْا اَتَتَّخِذُنَا] ’’قالوا‘‘ کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلُوْا‘‘ ہے جس کی اصل شکل ’’قَوَلُوْا‘‘ اور اس میں واقع ہونے والی تعلیلِ صرفی اور اس فعل مجرد کے معنی وغیرہ البقرہ:۱۱ [۱:۱۱:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’قالوا‘‘ کا  ترجمہ تو ہے ’’انہوں نے کہا‘‘ اور اسی مفہوم کے لیے (اور سیاقِ قصہ کے اعتبار سے محاورہ کے طور پر) بعض نے ’’وہ بولے‘‘ اختیار کیا ہے۔ بعض نے مزید بامحاورہ بناتے ہوئے ’’وہ کہنے لگے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ یہاں ’’قالوا‘‘ کے بعد ’’لہ‘‘ محذوف ہے یعنی ’’(اس سے ) کہنے لگے‘‘

·       ’’اَتَتَّخِذُنَا‘‘ کا ابتدائی ’’ أ ‘‘ (ھمزہ) استفہامیہ ہے بمعنی ’’کیا؟، آیا؟‘‘ اور ’’ تَتَّخِذُنَا ‘‘ کی آخری ضمیر منصوب ’’نا‘‘ بمعنی ’’ہم کو‘‘ ہے اور لفظ ’’ تَتَّخِذُ ‘‘ کا مادہ ’’ اَخ ذ ‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفْتَعِلُ‘‘ ہے۔ یعنی باب افتعال کا صیغہ مضارع ہے جو دراصل  ’’تأتَخِذُ‘‘ تھا مگر مادہ ’’ا خ ذ‘‘ سے صرف اسی باب (افتعال) کے فعل میں ’’ہمزہ‘‘ (فاء کلمہ) کو بھی ’’ت‘‘ میں بدل دیا جاتا ہے (جیسے مثال واوی کے باب افتعال میں ’’و‘‘ کو ’’ت‘‘ میں بدلا جاتا ہے) جس سے یہ صیغہ  ’’ تتخذ ‘‘ بنا ہے اس مادہ سے فعل مجرد کے باب و معنی کے علاوہ اس سے باب افتعال کے فعل (إتَّخَذَ،  یتَّخِذُ= پکڑ نا، بنا لینا) کے معنی و استعمال وغیرہ بلکہ اس فعل کے مادہ میں اختلاف کی بھی مفصل بحث البقرہ:۵۱ [۱:۳۳:۲ (۵)]میں ہوچکی ہے۔

·       اس طرح ’’ أتتخذنا ‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’کیا تو پکڑتا/ بناتا ہے ہم کو‘‘ تاہم اس کا بامحاورہ ترجمہ اس سے اگلے لفظ ’’ ھُزُوًا ‘‘ کو ساتھ ملائے بغیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ فعل ’’اتّخذ یتّخذ‘‘ کے دو مفعول ہوتے ہیں۔ یہاں اس کا پہلا مفعول تو ضمیر منصوب ’’نَا‘‘ ہے دوسرا مفعول ’’ھُزُوًا‘‘ ہے جو آگے آرہا ہے۔ اس لیے دونوں کو ملاکر ہی ترجمہ مکمل ہوتا ہے۔ اور محاورہ استعمال کرنے کا موقع بھی تب ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے ترجمہ پر ہم اگلے لفظ ’’ھُزوًا‘‘ پر بحث کے بعد بات کریں گے۔

۱:۴۳:۲ (۳)     [ھُزُوًا] کا مادہ ’’ھ ز ء‘‘ اور وزن (بحالت رفع) ’’فُعُلٌ‘‘ ہے۔ اس مہموز اللام ثلاثی مادہ سے فعل مجرد (ھزِیَٔ یَھْزَأُ= دل لگی کرنا) کے باب اور استعمال پر البقرہ:۱۴ [۱:۱:۲ (۵)]میں بات ہوچکی ہے (لفظ ’’مستھزؤن‘‘ کے ضمن میں)

·       زیر مطالعہ لفظ (ھُزُوٌ) دراصل تو فعل مجرد ’’ھزِیَٔ یھزَأ‘‘ کے مصادر (ھُزْئٌ، ھُزُوٌ، ھَزْئٌ، مَھْزَأَۃٌ وغیرہ) میں سے ایک مصدر ہے۔ اور یہ دراصل ’’ھُزُئٌ‘‘ (آخر پر ہمزہ کے ساتھ) ہے۔ اور ماقبل مضموم ہونے کی وجہ سے ’’ء‘‘ کو ’’و‘‘ میں بدل کر (بھی) بولا اور لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’ھُزُوٌ‘‘ البتہ یہ صرف قرأۃ حفص عن عاصم میں (اس طرح لکھا اور پڑھا جاتا) ہے اور یہی قراء ۃ تمام ایشیائی ممالک اور مصر میں رائج ہے۔ باقی قراءتوں (مثلاً ورش، قالون اور الدوری وغیرہ) میں اسے اصل ہمزہ کے ساتھ ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’ھُزُؤًا‘‘ (یہاں ’’ء‘‘ ماقبل مضموم کی وجہ سے ’’و‘‘ کے اوپر (ؤ) لکھا گیا ہے) جس طرح ماقبل مکسور ہونے کی صورت میں ہمزہ ’’ی‘‘ پر لکھا جاتا ہے جیسے اوپر ’’ھَزِیَٔ‘‘ میں ہے)۔

·       یہ کلمہ (ھُزُوًا) اس طرح منصوب صورت میں قرآن کریم کے اندر دس جگہ وارد ہوا ہے۔ اور ہر جگہ اسی طرح فعل ’’اتّخذ‘‘ کے دوسرے مفعول کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے۔ اور یہ لفظ (ھُزُؤٌ) جو دراصل تو مصدر ہے مگر موقع استعمال کے لحاظ سے یہ عموماً  اسم مفعول یعنی ’’مَھْزُوْئٌ بِہٖ‘‘ (جس سے دل لگی کی جائے) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (کسی صلہ کے ساتھ استعمال ہونے والے فعل کے اسم مفعول کے ساتھ بھی وہی صلہ ایک ضمیر کے ساتھ آتا ہے دیکھئے ’’مغضوب علیھم‘‘ کی بحث الفاتحہ:۷ [۱:۶:۱ (۵)]۔ اور مصدری معنی بھی لیے جاسکتے ہیں۔ جیسے اردو میں کہتے ہیں ’’تو نے مجھے مذاق سمجھا ہے؟ یعنی مذاق کی جگہ۔

·       اس طرح ’’اتتخذنا ھزوًا‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ کیا تو پکڑتا/ بناتا ہے ہم کو ٹھٹھا ‘‘ جس کی سلیس صورت ہے ’’  کیا تو ہم کو پکڑتا ہے ٹھٹھے میں ‘‘ یا ’’ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے ‘‘ اسی کو مزید بامحاورہ بنانے کے لیے ’’کیا تو ہم سے ہنسی کرتا ہے‘‘ اور ’’کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو‘‘ سے بھی ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور بعض نے مزید احتراماً اس کا ترجمہ ’’آپ ہم سے ہنسی کر رہے ہیں کیا؟‘‘ سے کیا ہے۔ اسی طرح بعض نے ’’ٹھٹھا‘‘ اور ’’ہنسی‘‘ کے دوسرے مترادفات استعمال کرتے ہوئے ’’ کیا آپ ہم کو مسخرہ بناتے ہیں‘‘ اور ’’کیا تو ہم سے دل لگی کرتا ہے‘‘ کی صورت میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ ان تمام بامحاورہ تراجم میں ’’اتخذ یتخذ‘‘ کااصل لفظی ترجمہ ’’پکڑنا اپنانا‘‘ غائب ہوجاتا ہے اور ’’اتخذہ ھزوًا‘‘  کا مصدری ترجمہ ’’کسی سے ہنسی کرنا/ ٹھٹھا کرنا/ دل لگی کرنا یا مسخرہ بنانا‘‘ بن جاتا ہے جو اردو محاورے کا تقاضا ہے۔

۱:۴۳:۲ (۴)     [قَال اَعُوْذُ بِاللہِ] ’’قال‘‘ (اس نے کہا) کے مادہ (ق ول) اور اس فعل مجرد کے باب، معنی اور تعلیل وغیرہ کے لیے البقرہ:۳۰ [۱:۲۲:۲ (۱)]کی طرف رجوع کیجئے۔

’’اعوذ باﷲ‘‘   پر لغوی بحث ’’استعاذہ‘‘   میں ہوئی تھی (الفاتحہ سے پہلے) تاہم چونکہ اس وقت قطعہ بندی (پیرا گرافنگ) برائے حوالہ شروع نہیں کی تھی اس لیے آئندہ کسی حوالہ کے لیے ہم یہاں مختصراً   اس گزشتہ بحث کا اعادہ کیے دیتے ہیں۔

·       ’’اعُوْذ‘‘ کا مادہ ’’ع و ذ‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفعُلُ‘‘ ہے۔ یہ لفظ دراصل ’’اَعْوُذُ‘‘ تھا۔ جس میں متحرک صرف علت (و) کی حرکت (ضمہ  ــــُــــ ) اس سے ماقبل ساکن حرف صحیح (ع) کو دے دی جاتی ہے اور اب ماقبل ضمہ (ـــــُـــــ)  آجانے کے باعث ’’و‘‘ برقرار رہتی ہے اور لفظ ’’اَعُوذ‘‘ بنتا ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’عاذ یعوذ معاذاً‘‘ (دراصل عوَذ یعْوُذ مَعْوَذًا) یعنی باب نصر سے آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: (کسی سے) اپنی حفاظت طلب کرنا، (کسی کی) پناہ مانگنا یا لینا‘‘ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ نہیں بلکہ (فعل کے بعد) باء (ب) کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ مثلاً کہیں گے ’’عاذ   بہ‘‘ (اس نے اس سے پناہ طلب کی) ’’عاذَہٗ‘‘ کہنا غلط ہے۔ بلکہ اس مادہ سے مزید کے بعض ابواب (افعال، تفعیل اور استفعال) سے آنے والے افعال کے ساتھ ’’باء‘‘ (ب) کا صلہ لگتا ہے جس کی مثالیں آگے چل کر ہمارے سامنے آئیں گی۔

·       اور یہ صلہ (بِ) تو اس مفعول سے پہلے لگتا ہے جس کی پناہ مطلوب ہو مگر جس شخص یا چیز یا برائی وغیرہ کے مقابلے پر یہ حفاظت اور یہ پناہ درکار ہو اس کا ذکر اس (پہلے مفعول) کے بعد اس طرح کیا جاتا ہے کہ (۱) اگر وہ کوئی اسم ہو تو اس سے پہلے ’’مِنْ‘‘ لگتا ہے جیسے ’’اعوذ باللّٰہِ منْ الشیطٰن‘‘ میں ہے اور (۲) اگر وہ کسی فعل سے شروع ہونے والا جملہ ہو تو اس فعل سے پہلے ’’اَنْ‘‘ (کہ) لگتا ہے اور دراصل وہ بھی ’’مِنْ أَنْ‘‘ ہوتا ہے مگر ’’مِنْ‘‘ محذوف کردیا جاتاہے اس کی مثال یہی زیر مطالعہ آیت ہے۔ جس میں (آگے) ’’اَنْ‘‘ سے شروع میں ہونے والا ایک جملہ ہے۔

گویا اس فعل کا استعمال یوں ہوتا ہے۔ ’’اعوذ بِ (۱) مِنْ (۲) یا اعوذبِ (۱) ’’اَنْ‘‘ (۲) یعنی ’’میں پناہ طلب کرتا ہوں (۱)کی (۲)کے مقابلے پر ،یا (۲)سے بچنے کے لیے‘‘۔

یہ لفظ (اعوذ) جو فعل مجرد سے صیغہ مضارع واحد متکلم ہے، قرآن کریم میں سات جگہ آیا ہے اور اسی فعل کے بعض دوسرے صیغے (عذتُ، یعوذون وغیرہ) اور مصدر ’’معاذ‘‘ اور مزید فیہ کے بعض ابواب سے فعل کے صیغے ۹ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔

·       اس طرح ’’اعوذ باﷲ‘‘ کا لفطی ترجمہ تو بنتا ہے‘‘ میں پناہ لیتا ہوں ساتھ اللہ کے‘‘ جس کا سلیس ترجمہ ’’میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں‘‘ کیا گیا ہے اور بعض نے اس کا ترجمہ ’’خدا مجھ کو اپنی پناہ میں رکھے‘‘ یا  ’’خدا مجھے اس سے پناہ میں رکھے‘‘ کی صورت میں کیا ہے یہ ترجمہ اردو محاورے میں درست سہی مگر دراصل یہ ’’اَعاذ نِیَ  اللّٰہُ‘‘ (بابِ افعال کے فعل) کا ترجمہ لگتا ہے۔ اسی طرح بعض حضرات نے سرے سے جملہ فعلیہ (اور اس کے فعل اور فاعل) کا ترجمہ نظر انداز کرتے ہوئے بامحاورہ اردو ترجمہ صرف ’’پناہ اللہ کی، پناہ خدا کی، خدا کی پناہ‘‘ کی صورت میں کیا ہے ایسے موقع اردو محاورے میں ’’طلب کرتا/مانگتا ہوں‘‘ مقدر (Understood) ہوتا ہے۔

[أَنْ اَکُوْنَ]  میں ’’أَن‘‘ (بمعنی ’’کہ‘‘) تو وہی ہے جو فعل ’’عاذ  یعوذ‘‘ کے استعمال میں ’’مِنْ‘‘ کی جگہ آتا ہے اور جس کا ابھی اوپر ذکر ہوا ہے اور یہ بھی دراصل ’’مِنْ اَن‘‘ یعنی ’’اس سے کہ‘‘ کے معنی میں ہے۔

·       ’’اَکُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ک و ن‘‘ اور وزن اصلی ’’اَفْعُلَ‘‘ ہے جو دراصل ’’اَکْوُنَ‘‘ تھا جو اوپر بیان کردہ ’’اعوذ‘‘ کی تعلیل کی طرح ’’واو‘‘ کی حرکت ’’ک‘‘ کو دینے سے ’’اکونَ‘‘ ہوجاتا ہے۔ اس مادہ سے فعل (کان یکون ہونا) کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۱۰ [۱:۸:۲ (۱۰)]میں بات ہوچکی ہے۔

اس طرح ’’اَن اکونَ‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’کہ میں ہوں‘‘ یعنی ’’میں ہو جاؤں‘‘ یا ’’بن جاؤں‘‘

۱:۴۳:۲ (۵)     [مِنَ الْجَاھِلِیْنَ] ’’مِنْ‘‘ تو حرف الجر (بمعنی ’’میں سے‘‘) ہے اور لفظ ’’الجاھلین‘‘ (جو یہاں سمجھانے کے لیے برسم املائی لکھا گیا ہے) کا مادہ ’’ج ھ ل‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فاعِلِیْنَ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’جِھل. . . . .یجھَل جَھْلًا وجَھَالۃً‘‘ (سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں: ’’. . . . کا علم نہ رکھنا، . . . . . کو نہ جاننا، یا. . . . . سے جاہل ہونا‘‘. بنیادی طور پر یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہ بھی آتا ہے ہے اور بعض صِلات کے ساتھ بھی۔ مثلاً کہتے ہیں ’’جھِلَہ، وجھِل بہٖ و جھِل مِنْہُ‘‘ (وہ اس سے بے خبر/ جاہل رہا)۔ ویسے عموماً اس کے ساتھ مفعول مذکور نہیں ہوتا اور اس طرح بلحاظ استعمال یہ فعل لازم کی طرح ’’جاہل ہونا، نادان ہونا‘‘ کے معنی دیتا ہے۔

گویا فعل ’’جھِل‘‘ ہر طرح ’’علِمَ‘‘ (جاننا) کی ضد (الٹ) ہے۔ اگرچہ عربوں کے کلام میں یہ بعض دفعہ  ’’عِلم‘‘ کی بجائے ’’حلمْ‘‘ کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کی مشہور مثال جاہلی شاعر عمرو بن کلثوم کا یہ شعر ہے۔    ؎  ألَا لَا یَجْھَلَنْ احدٌ عَلَیْنا = فنجھَلْ فوقَ جھلِ الجاھلینا‘‘ (خبر دار ہمارے ساتھ کوئی گنوار پن سے پیش نہ آئے ورنہ گنواروں سے بڑھ کر گنوار ثابت ہوں گے) گویا ’’جَھِل علی. . . . .‘‘ کا مطلب ہے ’’سے بدتمیزی کرنا،. . . . کے ساتھ احمقانہ رویہ اختیار کرنا‘‘

’’جَھْل‘‘ بمعنی ’’نادانی‘‘ (بمقابلہ علم و آگہی) کے بھی بعض اہل لغت (مثلاً راغب) نے تین مدارج یا تین اقسام بیان کی ہے۔ (۱) مطلقاً علم ہی نہ رکھنا، یعنی نادان ہونا (۲) کسی چیز کے بارے میں اس کی حقیقت کے خلاف علم یا اعتقاد رکھنا یعنی الٹی سمجھ رکھنا (۳) کسی چیز کے بارے میں اس کے حق اور حقیقت ہونے کے خلاف عمل کرنا (چاہے اس کے بارے میں علم و اعتقاد درست رکھتا ہو یا غلط) یعنی جاہلانہ رویہ اختیار کرنا۔ اس تقسیم کے لحاظ سے زیر مطالعہ آیت میں ’’جاھلین‘‘ سے مراد اس تیسری قسم کے لوگ ہوسکتے ہیں۔

·       اور یہی وجہ ہے کہ بعض مترجمین نے ’’ان اکون من الجاھلین‘‘ (جس کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’ کہ میں ہو جاؤں جاہلوں/ نادانوں میں سے‘‘) کا ترجمہ ’’کہ میں جہالت والوں کا سا کام کروں‘‘ سے کیا ہے جو مفہوم کو واضح کرتا ہے۔ اگرچہ بیشتر حضرات نے الفاظ عبارت کے مطابق ’’ کہ میں جاہلوں/ نادانوں میں سے ہوں‘‘ کی صورت میں ہی ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے اس کا ترجمہ جملہ فعلیہ کی طرح ’’نادان بنوں، نادان بن جاؤں‘‘ سے کیا ہے۔ جس میں ’’مِنْ‘‘ کا ترجمہ ایک طرح سے نظر انداز ہوگیا ہے۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ (جھل) سے فعل مجرد ہی کے کچھ صیغے (زیادہ تر مضارع) پانچ مقامات پر آئے ہیں مزید فیہ سے کوئی فعل نہیں آیا۔ اس کے علاوہ اس فعل (مجرد) سے بعض مصادر اور مشتقات اور ماخوذ اسماء مختلف صورتوں (واحد جمع نکرہ معرفہ وغیرہ) میں ۱۹ جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ان سب کا بیان اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

[قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ] یہ جملہ چار کلمات پر مشتمل ہے یعنی (۱) قالوا (۲) اُدْعُ (۳) لَنَا (۴) ربکَ ہر ایک پر الگ الگ بات پہلے بھی جزوی طور پر ہوچکی ہے۔ یہاں مختصراً  ان کی وضاحت کی جاتی ہے (۱) ’’قَالُوا‘‘ کا مادہ ’’ق و ل‘‘ اور وزن اصلی ’’فعلوا‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد پر بلکہ خود اسی صیغہ (قالوا) کی بناوٹ اور تعلیل وغیرہ پر البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۴)] میں بات ہوئی تھی۔ ’’قالوا‘‘ کا ترجمہ تو ہے ’’انہوں  نے کہا‘‘۔  مگر یہاں سیاق عبارت بیانِ قصہ کی بنا پر اس کا ترجمہ ’’وہ بولے‘‘ اور ’’وہ کہنے لگے‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔

(۲) ’’اُدْعُ‘‘ (جس کو پڑھتے وقت سابقہ فعل ’’قالوُا‘‘ کی لام مضمومہ (لُ) کو اس لفظ ’’ادع‘‘ کی دال ساکنہ ( دْ )سے ملا دیاجاتا ہے اور اس طرح ’’قالوا‘‘ کی واو الجمع اور الف زائدہ کے علاوہ ’’ادع‘‘ کا ابتدائی ہمزۃ الوصل پڑھنے میں نہیں آتے۔ (اگرچہ لکھے رہ جاتے ہیں) اس لفظ (اُدْعُ) کا مادہ ’’و ع و‘‘ اور وزن اصلی ’’اُفْعُل‘‘ ہے دراصل ’’اُدْعُوْا‘‘ تھا جس میں مجزوم ہونے کے باعث آخری ’’و‘‘ گرادی جاتی ہے۔ اور باقی ’’اُدْعُ‘‘ رہ جاتا ہے اس مادہ سے فعل مجرد (دعا یدعو۔ پکارنا) کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ:۲۳ [۱:۱۷:۲ (۷)]میں بات ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’اُدْعُ‘‘ اس فعل مجرد (دعا یدعو) سے فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ اس فعل سے امر حاضر کے چھ صیغوں کی گردان یوں بنتی ہے ’’ادعُ، اُدعُوَا، اُدْعُوْا، اُدْعِیُ، (دراصل اُدْعُوِی) اُدْعُوَا اور اُدْعِیْن (دراصل اُدْعُوِیْنَ) اس فعل کے استعمال میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے ساتھ ’’لام‘‘ اور ’’علی‘‘ کا صلہ لگنے سے معنی ایک دوسرے کے برعکس سے ہوجاتے ہیں یعنی ’’دعا لَہٗ‘‘  کا مطلب ہے ’’ اُس نے اس کے لیے دعاء (خیر) مانگی یا اسے دعا دی‘‘ اور ’’دعا علیہ‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’اس نے اس کے خلاف دعا کی یعنی اسے بددعادی ‘‘۔

(۳) ’’لَنَا‘‘ جو جار مجرور (لام + نا) ہے اس میں ’’لام‘‘ تو مذکور ہ بالا فعل (دعا یدعو) کے صلہ کے طور آیا ہے جس سے ’’دعالِ. . . .‘‘ میں ’’ . . . . کے لیے دعا کرنا‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اور ضمیر مجرور ’’نا‘‘تو بمعنی ’’ہمارے‘‘ (لیے) ہے۔ اس طرح لنا کا ترجمہ تو ہے ’’ہمارے لیے/ہمارے واسطے‘‘ اور یوں اس فقرے  (اُدْعُ لنا) کا ترجمہ بنتا ہے ’’تو دعا کر ہمارے لیے‘‘ یا  ’’پکار ہمارے لیے‘‘۔اور اسی کو مزید سلیس اور بامحاورہ بنانے کے لیے بعض نے اس کا ترجمہ ’’آپ درخواست کیجئے ہمارے لیے‘‘ اور ’’ہمارے لیے درخواست کرو‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ جب کہ بعض حضرات نے سیاقِ عبارت اور بیانِ قصہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’تو ہمارے لیے پوچھ‘‘ اور ’’ہماری طرف سے التجا کیجئے‘‘ کے ساتھ کیاہے جو مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر اصل عبارت سے ہٹ کر ہے۔ اس لیے کہ بظاہر ’’پوچھ‘‘ تو ’’سَلْ‘‘ کا اور ’’ہماری طرف سے‘‘ بظاہر ’’نیابۃً عَنَّا‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

(۴) ’’رَبَّکَ‘‘ جو ’’رب ‘‘+ ’’کَ‘‘ ہے۔ لفظ ’’رب‘‘ کی لغوی تشریح الفاتحہ:۲ [۱:۲:۱ (۳)]میں ہوچکی ہے۔ یہاں ’’رَبَّک‘‘ (جیسا کہ آگے ’’الاعراب‘‘ میں بیان ہوگا) فعل ’’ادع لنا‘‘ کے مفعول کے طور پر آیا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ (اس فعل کی مناسبت سے) ’’اپنے رب سے، اپنے رب کو، اپنے پروردگار سے‘‘ اور ’’اپنے مالک سے‘‘ کی صورت میں کیاگیا ہے۔

·       مندرجہ بالا وضاحت کے بعد اب آپ اس پورے جملے (قالوا ادع لنا ربک) کا مکمل ترجمہ اور مختلف تراجم کا باہمی موازنہ کرسکتے ہیں۔

۱:۴۳:۲ (۶)     [یُبَیِّنْ لَّنَا] اس کے آخری حصے (لَنا) پر ابھی اوپر بات ہوئی ہے یعنی اس کا ترجمہ ’’ہمارے لیے/ واسطے‘‘ ہے۔ اور ’’یُبَیِّنْ‘‘ کا مادہ ’’ب ی ن‘‘ اور وزن ’’یُفَعِّلْ‘‘ ہے یعنی یہ اس فعل کی مجزوم صورت ہے (جس کی وجہ سے ’’الاعراب‘‘ میں بحث ہوگی)

·       اس مادہ (بین) سے فعل مجرد باب ضرب سے آتا ہے اور مصدر کے فرق کے ساتھ اس کے بنیادی طور پر دو معنی ہیں (۱) ’’بان یَبِیْن بَیْنًا‘‘ کے معنی ہیں ’’دور ہوجانا، الگ ہو جانا، جدا ہوجانا‘‘۔ اور اسی سے طلاق کی ایک قسم کے لیے فقہی اصطلاح ’’بائن‘‘ بنی ہے۔ (۲) ’’بَان یبین بیانًا‘‘ کے معنی ہیں ’’واضح ہوجانا اور واضح کردینا‘‘ یعنی یہ  لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے کہیں گے ’’بانَ الشَییُٔ‘‘ (چیز واضح ہوگئی) دوسرے معنی کے لحاظ سے کہیں گے ’’بانَ الشیَٔ‘‘ (اس نے چیز کو واضح کردیا) واضح کر دینے والے کو ’’بائِن‘‘ (اسم الفاعل) بھی کہتے ہیں اور ’’بَیِّنٌ‘‘ (اسم صفت) بھی۔ اور اسی سے مونث ’’بَیِّنَۃ‘‘ بنتا ہے۔ جس کے بنیادی معنی تو ہیں ’’خوب وضاحت کردینے والی چیز‘‘۔ اور اسی کا ترجمہ ’’روشن دلیل، واضح ثبوت اور گواہی‘‘ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

·       ان کے علاوہ یہ فعل مجرد (بان یبین) بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس سے فعل مجرد کا کوئی صیغہ (کسی بھی معنی میں) کہیں نہیں آیا۔ البتہ دوسرے معنی (واضح کردینا یا ہوجانا) کی بھی متعددی صورت (واضح کرنا) سے ماخوذ کلمہ ’’ بَیِّنٌ‘‘ تو صرف ایک جگہ (الکہف:۱۵) آیا ہے مگر اس کا صیغہ مونث ’’بیّنۃ‘‘ مختلف صورتوں (واحد جمع معرفہ نکرہ وغیرہ) میں بکثرت وارد ہوا ہے۔ اور اسی (فعل مجرد) کا ایک مصدر ’’ بَیَانٌ ‘‘ تین جگہ اور ایک دوسرا مصدر ’’ تِبْيَان‘‘ ایک جگہ (النحل:۸۹) آیا ہے۔ ان تمام کلمات پر اپنے اپنے موقع پر بات ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اسی مادہ سے ماخوذ ایک لفظ ’’بَیْن‘‘ (جوظرف ہے) کے معنی واستعمال پر البقرہ:۲۶ [۱:۴۲:۲ (۵)] میں بات ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ اس مادہ سے مزید فیہ کے کچھ افعال بھی قرآن کریم میں آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’یُبَیّن‘‘ اس مادہ (بین) سے باب تفعیل کے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے (’’جزم ‘‘کی وجہ الاعراب میں بیان ہوگی) اس باب (تفعیل) سے اس کے فعل ’’ بَیَّن یُبَیِّن تَبْیِینًا ‘‘ کے بھی دو معنی ہیں (۱) واضح کرنا اور (۲) واضح ہونا یعنی یہ فعل بھی ثلاثی مجرد کی طرح لازم متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح ’’ یُبَیِّنْ لَنَا ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’وہ واضح کردے ہمارے لیے‘‘ اور اسی کو بامحاورہ بنانے کے لیے ’’بیان کردے ہمارے واسطے، بیان فرمادے ہم کو‘‘ کی صورت دی گئی ہے۔ جب کہ بعض نے ’’ہم کو بتا دے/ بتلائے/ بتائے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے فعل  ’’بَیَّن‘‘ میں ’’واضح کردینے والے ‘‘معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’ہم کو اچھی طرح سمجھا دے سے‘‘ سے کیا ہے۔  جو بہت عمدہ وضاحتی ترجمہ ہے۔

اس فعل (بیّن یُبیِّن) سے افعال کے مختلف صیغے قرآن کریم میں ۳۳ جگہ آئے ہیں اور اسی فعل سے کچھ مشتقات (اسم الفاعل وغیرہ) بھی ۶ جگہ آئے ہیں۔

·       [مَا ھِیَ] ’’ مَا ‘‘ استفہامیہ (بمعنی ’’کیا‘‘) اور ’’ھِیَ‘‘ ضمیر مرفوع منفصل بمعنی ’’وہ‘‘ (مؤنث) ہے جو یہاں ’’گائے‘‘ کے لیے ہے۔ (اور یہ مونث ضمیر بھی ’’بقرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’بیل‘‘ کی بجائے ’’گائے‘‘ کرنے کی تائید کرتی ہے)۔ ’’مَاھِیَ‘‘ کا لفظی ترجمہ توبنتا ہے ’’وہ کیا ہے؟‘‘ مگر اس میں مفہوم اس گائے کے بارے میں کس خاص نشانی یا صفت کے بارے میں سوال کا ہے۔ اس لیے بعض مترجمین  نے اس کا ترجمہ ’’وہ کیسی ہے/ کیسی ہو‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔

 [قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ ] ’’قال‘‘ اور ’’یقول‘‘ کے مادہ بناوٹ معنی وغیرہ کئی دفعہ بیان ہوچکے ہیں اگر اب بھی ضرورت سمجھیں تو ’’قال‘‘ کے لیے[۱:۲۲:۲]  اور ’’یقول‘‘کے لیے[ ۱:۷:۲ (۵)] دیکھ لیجئے۔ ’’اِنَّہ‘‘ کا ترجمہ ہے ’’بے شک وہ‘‘ یوں ’’قال انہ یقول‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اس نے کہا، بے شک وہ کہتا ہے ‘‘ بیشتر مترجمین نے غالباً محاورے کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’اِنّ‘‘ کو ترجمہ میں نظر انداز کرتے ہوئے ترجمہ ’’کہا  وہ فرماتا ہے‘‘ سے کیا ہے۔ اوربعض نے ضمیر کی بجائے فاعل  بطور اسم ظاہر ترجمہ کیا ہے یعنی ’’موسٰیؑ نے کہا خدا فرماتا ہے، موسٰیؑ نے کہا اللہ فرماتا ہے، موسٰیؑ نے کہا پروردگار فرماتا ہے‘‘  جب کہ بعض نے احتراماً  ’’موسٰیؑ نے فرمایا‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب تفسیری تراجم ہیں۔

[اِنَّھَا بَقَرَۃٌ] ’’اِنَّھَا‘‘بے شک وہ (مونث) ہے اور ’’بَقَرَۃ‘‘ (گائے) ہے۔ اور یہاں ’’بقرۃٌ ‘‘ کی تنکیر (نکرہ ہونا) اسم موصول کے معنی پیدا کرتی ہے یعنی ’’بَقَرَۃٌ‘‘ یہاں صرف خبر ہی نہیں بلکہ نکرہ موصوفہ بھی ہے اس کا ترجمہ ’’ایک ایسی گائے جو کہ. . . . .‘‘ سے ہوگا۔ یہاں بھی بیشتر مترجمین نے ’’اِنھا‘‘ کے ابتدائی حرف مشبہ بالفعل کا ترجمہ (بے شک یقیناً) غالباً محاورے کی وجہ سے ترک کردیا ہے (یہاں پھر ’’انھا‘‘ کی ضمیر مؤنث ’’بیل‘‘ کی بجائے ’’گائے‘‘ والے معنی کی تائید کرتی ہے) اور ترجمہ صرف ’’وہ ایک گائے ہے جو‘‘ سے ہی کیا ہے۔ جب کہ بعض حضرات نے ’’انھا بقرہ‘‘ (جو جملہ ہے) کا ترجمہ صرف مرکب اشاری (تلک البقرۃ) کی طرح ’’وہ گائے‘‘ سے کردیاہے جو بلحاظ محاورہ (اردو) درست مگر اصل عبارت سے ذرا ہٹ کر ہی ہے۔

۱:۴۳:۲ (۷)     [لَا فَارِضٌ وَّلَا بِکْرٌ] میں ’’لا‘‘ تو نفی کے لیے بمعنی ’’نہ‘‘ یا ’’نہیں ہے‘‘ ہے۔ اور ’’لا‘‘ کی تکرار کی وجہ سے دوسرے ’’ولا‘‘  کا ترجمہ ’’اور نہ ہی‘‘ ہوگا۔ یعنی ’’جو نہ تو  ’’فارض‘‘ ہے اور نہ ہی ’’ بکر ‘‘ ہے اس طرح اس میں تشریح طلب لفظ ’’فارض‘‘ اور ’’بکر‘‘ ہیں۔

·       فارض کا مادہ ’’ف ر ض‘‘ اور وزن ’’فاعِلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد زیادہ تر باب نصر سے ہی مختلف معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱)’’فَرض یفْرُض فَرُوْضًا‘‘ کے معنی ہیں ’’کھلااور وسیع ہونا‘‘ اور (۲) فرَض یفرُض فَرْضًا کے معنی ہیں ’’واجب کرنا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’فرض الامرَ‘‘ (اس نے معاملہ واجب کردیا)۔ اور جس پر کوئی چیز واجب کی جائے اس سے پہلے  ’’علی‘‘ کا صلہ آتا ہے مثلاً کہیں گے ’’فرَضَہ علیہ‘‘ (اس نے وہ (چیز) اس پر واجب کردی) اور لام کے صلہ کے ساتھ ’’فرَض لہ‘‘ کے معنی ہیں ’’اس کے لیے مقرر کردیا‘‘ (اور اس میں بنیادی مفہوم ’’کاٹ کر الگ کرلینا ‘‘کا ہے) البتہ کبھی ’’علی‘‘ یا ’’لام‘‘ (ل) کے بعد آنے والا مفعول محذوف کردیا جاتا ہے اور صرف اصل مفعول (بنفسہ) مذکور ہوتا ہے جیسے ’’ وَفَرَضْنٰهَا ‘‘ (النور:۱) میں ہے یعنی ’’ہم نے اس کو واجب کردیا‘‘ (یہاں کس پر واجب کیا؟ مذکور نہیں ہے) اور (۳) فرُض یفرُض فراضَۃً  (کرم سے) اور فرَض یفرِض فَروضاً (ضرب سے) کے معنی ہیں ، جانور کا بڑی عمر والا ہو جانا ’’یعنی بوڑھا/ بوڑھی ہوجانا‘‘ زیادہ تر یہ لفظ گائے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’فرَضتِ البقرۃ/فَرُضَتِ البقرۃُ‘‘ (گائے بوڑھی ہوگئی)۔

·       اس طرح اس فعل سے اسم الفاعل ’’فارِضٌ‘‘ کے معنی ہیں ’’بوڑھی گائے‘‘ جو کئی بچے جَن چکی ہو اور اس کا پیٹ کھلا یا بڑا ہوگیا ہو یعنی اس میں مندرجہ بالا پہلے معنی (کھلا اور وسیع ہونا) سے بھی مناسبت ہے۔ الثعالبی نے ’’فقہ اللغہ‘‘ میں لکھا ہے کہ عربی میں بوڑھی گائے کو ’’فارِضٌ‘‘ اور بوڑھے بیل کو ’’شَبَبٌ‘‘ کہتے ہیں[1]  بعض اہل لغت (مثلاً البستان) نے لکھا ہے کہ ’’فارض‘‘ کا لفظ گائے کے علاوہ باقی حیوانات کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ بلکہ یہ لفظ کسی بھی پھیلی ہوئی بڑی (مؤنث) چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’لِحْیَۃٌ فارض‘‘ سے مراد ہے ’’بڑی داڑھی‘‘۔ قرآن کریم میں کلمہ ’’فارض‘‘ صرف اسی ایک جگہ آیا ہے۔ البتہ اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق متعدد کلمات (مفروض۔ فریضۃ وغیرہ) ۱۰ کے قریب مقامات پر آئے ہیں اور فعل مجرد سے مختلف صیغے ۹ جگہ وارد ہوئے ہیں۔

·       دوسرے لفظ ’’بِکْرٌ‘‘ کا مادہ ’’ب ک ر‘‘ اور وزن ’’فِعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد زیادہ تر باب نصر سے آتا ہے اور اس میں بنیادی مفہوم ’’سویرا یا جلدی‘‘ کا ہوتا ہے مثلاً ’’بکَر یبکرُ بُکورًا‘‘ کے معنی ہیں: ’’صبح سویرے چل پڑنا‘‘ اور ’’بکرَ علیہ/ الیہ‘‘  (یعنی  ’’علی‘‘ یا ’’اِلٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ) کا مطلب ہے ’’وہ صبح سویرے اس کے پاس آیا‘‘ اور ’’فی‘‘ کے صلہ کے ساتھ یعنی ’’بکر فیہ‘‘ کا مطلب ہے ’’کسی کام میں جلدی کرنا‘‘ یا ’’صبح سویرے اس میں مشغول ہوجانا‘‘ اور باب سمع سے ’’بکرِ یبکَر بَکَرًا‘‘ کے معنی بھی ’’جلدی سے کرنا‘‘ ہیں۔ اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی فعل مختلف معنی کے لیے آئے ہیں تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ قرآنِ کریم میں اس مادہ سے صرف چار کلمات ’’بِکْرٌ، أَبْکار، الإبکار اور بُکرۃٌ‘‘ کل بارہ جگہ آئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ زیر مطالعہ لفظ ’’بِکْر‘‘ ہے جس کے معانی پر ہم یہاں بات کریں گے باقی تین کلمات پر اپنے اپنے موقع پر بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       لفظ ’’بِکْر‘‘ کے متعدد معنی ہیں مثلاً (۱) کنواری لڑکی، (عذراء) (۲) پہلا بچہ جننے والی عورت یا اونٹنی (۳) ماں باپ کا پہلا بچہ (بیٹی ہو یا بیٹا) (۴) نوجوان گائے (جس کے ابھی بچہ ہوا ہی نہ ہو) (۵) کوئی اچھوتا کام جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ ہو۔ وغیرہ۔

·       یہاں لفظ ’’بِکْرٌ‘‘ (جو صرف یہیں ایک جگہ آیا ہے) گائے کی صفت کے طور پر آیا ہے اور اس کا مطلب ہے ’’ایسی نواجوان گائے جس نے ابھی کوئی بچہ نہ جنا ہو۔ اور یہ سابقہ لفظ ’’فارض‘‘ بوڑھی کے مقابلے کا لفظ (ضد) ہے۔ خیال رہے یہ دونوں لفظ بظاہر مذکر ہیں مگر یہی دونوں لفظ مذکر کے علاوہ مونث کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں یعنی ’’بقرۃٌ فارض‘‘ (بوڑھی گائے) اور’’بقرۃٌ بِکْرٌ‘‘ (نوجوان بچھیا)

·       لفظ ’’فارض اور بکر‘‘ کی مندرجہ بالا وضاحت کی روشنی میں ہی اس عبارت ’’لافارضٌ ولا بِکرٌ‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’نہ بوڑھی اور نہ ہی نوجوان (گائے)‘‘ اور تراجم میں اسی کو بامحاورہ صورتیں ’’نہ بوڑھی نہ بیاہی‘‘، ’’نہ بوڑھی  نہ بن بیاہی‘‘، نہ بوڑھی (ہو) نہ بچھیا‘‘، ’’نہ بوڑھی نہ اوسر‘‘ اختیار کی گئی ہیں۔

۱:۴۳:۳ (۸)     [عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِکَ] اس عبارت کے آخری حصہ(بَیْنَ ذٰلِکَ) کا ترجمہ ہے ’’اس کے درمیان‘‘ اس میں ’’ذلک‘‘ تو اسم اشارہ ہے۔ (بمعنی ’’وہ‘‘) اور ’’بَیْن‘‘ (جس کا ترجمہ ’’ . . . . کے درمیان‘‘   ہے) کے معنی اور طریقِ استعمال وغیرہ پر البقرہ:۶۶ [۱:۴۲:۲ (۵)]میں تفصیلاً بات ہوچکی ہے۔

·       ابتدائی لفظ ’’عَوَانٌ‘‘ کا مادہ ’’ ع و ن‘‘ اور وزن ’’فَعَالٌ‘‘ ہے ۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’عان یعُون عَوْنًا‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں عورت یا گائے کا (بڑھاپے اور جوانی کی) درمیانی عمر کو پہنچ جانا البتہ دونوں کے لیے مصدر الگ الگ آتا ہے عورت کے لیے کہتے ہیں ’’عانتِ المرأۃُ عَوْنًا‘‘ (عورت ’’ عوان ‘‘ ہوگئی) اور گائے کے لیے کہتے ہیں ’’عانتِ البقرۃُ عُؤُوْنًا‘‘ (گائے ’’عوان‘‘ ہو گئی) قرآن کریم میں اس فعل مجرد کا کوئی صیغۂ فعل تو کہیں نہیں آیا۔ البتہ مزید فیہ کے بعض ابواب (تفاعل۔ افعال اور استفعال) سے افعال آئے ہیں۔ باب استفعال کے استعمال و معنی پر الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱ (۴)]میں بات ہوئی تھی۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’عَوَانٌ‘‘ (جس کی جمع ’’عُوْنٌ‘‘ ہوتی ہے۔ اور جو قرآن کریم میں صرف اسی ایک جگہ آیا ہے) کے بنیادی معنی ہیں ’’ آدھی عمر (جوانی) والی شے‘‘ زیادہ تر یہ لفظ گائے یا عورت کے لیے ہی آتا ہے۔ اور یہ لفظ اسی طرح مؤنث کے لیے استعمال ہوتا ہے (عَوَانَۃٌ نہیں کہتے) مثلاً کہتے ہیں ’’الحربُ العوانُ‘‘ (ایسی جنگ جو کئی دفعہ لڑی جاچکی ہو) اور عرب کے بعض علاقوں میں ’’نخلۃٌ عوان‘‘ اونچی اور لمبی کھجور (درخت) کو کہتے ہیں۔

·       اس طرح ’’بقرۃ عوان‘‘ کے معنی ہیں ’’گائے جو نہ بوڑھی ہو نہ چھوٹی (بچھڑی)‘‘ اور ’’ بَیْن ذٰلک ‘‘ سے دراصل مراد ہے ’’ بین ذٰلک و بین ذلک‘‘ ایک ’’ذلک ‘‘سے اشارہ ’’بڑھاپے کی طر ف ہے اور دوسرے سے ’’نو جوانی‘‘ کی طرف (’’اُس کے درمیان‘‘) یعنی ’’بینَ فارض و بینَ بِکرٍ‘‘ (بوڑھی اور جوان کے درمیان) اسی لیے اردو مترجمین نے اس (’’عوان بین ذٰلک‘‘) کا ترجمہ ’’درمیان میں بڑھاپے اور جوانی کے‘‘، ’’دونوں عمروں کے وسط میں ہو‘‘، ’’دونوں میں بیچ کی راس‘‘، ’’ان دونوں کے بیچ میں‘‘ کی صورت میں کیا ہے دراصل لفظی ترجمہ تو تھا ’’اس کے درمیان‘‘ اس لیے یہ سب وضاحتی تراجم ہیں یعنی لفظ ’’عوان‘‘ کی وضاحت کی گئی ہے۔ بعض حضرات نے اردو محاورے کی بناء پر شروع میں ’’بلکہ‘‘ کا اضافہ کیا ہے جو دراصل (لافارض ولا بکر والے) ’’نہ یہ نہ وہ‘‘ کے بعد والا ’’بلکہ‘‘ ہے یعنی ’’بلکہ دونوں عمروں کے درمیان‘‘   ’’بلکہ ان کے درمیان‘‘ کی صورت میں۔

[فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ] یہ جملہ تین کلمات یعنی ’’فافعلوا‘‘، ’’ما‘‘ اور ’’تُؤمَرُوْنَ‘‘ پر مشتمل ہے۔ الگ الگ وضاحت یوں ہے:

’’فافعلوا‘‘ کی ابتدائی ’’فاء (فَ)‘‘ عاطفہ سببیہ بمعنی ’’پس، اس لیے‘‘ اور اس کا بامحاورہ (حسبِ موقع ترجمہ ’’اب‘‘ بھی کیا گیا ہے۔ ’’اِفْعَلُوْا‘‘ (جو خود اپنا ’’وزن‘‘ بھی ہے) ’’فعَل یفعَل‘‘ = کرنا کرڈالنا، سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس فعل کے معنی و استعمال پر البقرہ:۲۴ [۱:۱۷:۲ (۱۱)] میں بات ہوچکی ہے۔ اس طرح ’’فافعلوا‘‘ کا ترجمہ بنتا ہے ’’پس کرو تم‘‘ اور اسی کی بامحاورہ صورتیں ’’اب کرو، اب کرڈالو، تو کرلو، اب بجا لاؤ‘‘  اور ’’تو کرو‘‘

·       ’’ممَا‘‘ تو موصولہ بمعنی ’’وہ جو کہ‘‘ ہے اور ’’تُؤْمَرُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ا م ر‘‘ اور وزن ’’تُفْعَلُوْنَ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’أمَر یأمُر‘‘ (حکم دینا) کے باب اور معنی و استعمال پر البقرہ:۲۷ [۱:۱۹:۲ (۱۶)]میں بات ہوچکی ہے۔ ’’تؤمرُون‘‘ اس فعل مجرد سے مضارع مجہُول (جمع مذکر حاضر) کا صیغہ ہے جس کا لفظی ترجمہ تو ہے ’’تم حکم دیئے جاتے ہو‘‘ اور اسی کا (’’ما‘‘ سمیت) بامحاورہ ترجمہ ’’جو تم کو حکم ملا ہے،جو تم کو حکم دیا گیاہے ، جس کا تمہیں حکم ہوتا ہے، جو کچھ حکم تم کو ملا ہے‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ اکثر مترجمین نے یہاں (غالباً اردو محاورہ کی خاطر) ’’تؤمرون‘‘ (فعل مضارع) کا ترجمہ فعل ماضی قریب (قد أُمِرْتم) کی صورت میں کردیاہے۔

 

۲:۴۳:۲       الاعراب

زیر مطالعہ دو آیات کو اعرابی لحاظ سے چھ یا سات مستقل جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے بعض جملے بلحاظ مضمون دوسرے جملے کا حصہ ہی شمار ہوسکتے ہیں۔ اور بعض کو فاء عاطفہ کے ذریعے سابقہ جملے سے مربوط کیا گیا ہے۔ ان سات جملوں کے اعراب کی تفصیل یوں ہے۔

(۱)   وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖٓ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً  

[وَاِذْ] کی واو مستانفہ اور ’’اذ‘‘ ظرفیہ ہے۔ یہ ترکیب ’’وَاِذْ‘‘ اب تک بارہ (۱۲) دفعہ گزر چکی ہے [قال] فعل ماضی معروف کا پہلا (واحد مذکر غائب) صیغہ ہے۔ اور [موسٰی] اس کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے۔ مگر اسمِ مقصور ہونے کے باعث اس میں علامت رفع ظاہر نہیں ہے۔ [لقومہ] لام الجر (ل) اور ’’قومہ‘‘ (مضاف مضاف الیہ) مل کر متعلق فعل ’’قال‘‘ ہے [اِنَّ] حرف مشبہ بالفعل اور [اللّٰہ] اس کا اسم منصوب ہے یہاں فعل ’’قال‘‘ کے بعد آنے کی وجہ سے جملے کے درمیان میں ’’اَنَّ‘‘ (مفتوحہ) کی بجائے ’’إِنَّ‘‘ (مکسورہ) آیا ہے [یأمُرُ] فعل مضارع معروف کا پہلا صیغہ (واحد مذکر غائب) ہے اور [کُمْ] ضمیر منصوب اس (یامر)کا مفعول بہ اوّل ہے (جس کو حکم دیا جائے)[أنْ] مصدریہ ناصبہ ہے جو دراصل ’’بِأَنْ‘‘ ہے جو فعل امر کے دوسرے مفعول (ماموربہ۔ جس بات کا حکم دیا جائے) پر داخل ہوتا ہے (یعنی ’’بِ‘‘ یا ’’بِأن‘‘ یا صرف ’’أن‘‘ استعمال ہوتا ہے) [تَذْبَحُوْا] مضارع منصوب صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جو ’’أَن‘‘ کی وجہ سے منصوب ہے علامت نصب (’’تذبحون‘‘ کے) آخری ’’ن‘‘ کا سقوط (گر جانا) ہے [بقرَۃً] فعل (تَذْبحوا) کا فعل بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ ’’أن‘‘ کو مصدریہ سمجھیں تو ’’أن یذبحوا بقرَۃً= بذِبْحِ بقرَۃٍ (ایک گائے کے ذبح کرنے کا) تاہم اردو مترجمین نے عموماً ’’ان تذبحوا‘‘ (کہ تم ذبح کرو) کی صورت میں ہی ترجمہ کیا ہے۔ اس طرح یہ جملہ فعلیہ ’’یا مرُکم أن تذبحوا بقرۃ‘‘ (’’إن اللّٰہ‘‘ والے) ’’إِنَّ‘‘ کی خبر (لہٰذا) محلاً مرفوع ہے اور پورا جملہ (إِنَّ اللّٰہ. . . . بقرۃ) فعل ’’قال‘‘   کا مقول (مفعول) ہونے کے لحاظ سے محلاً منصوب ہے۔ مندرجہ بالا پورے جملے کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’جب کہا موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے بے شک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے تم کو کہ تم ذبح کرو ایک گائے‘‘   اس عبارت کے بعض کلمات کے معنی میں اختلاف یا تنوع پر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بحث ہوچکی ہے۔

(۲)   قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا   

[قالوا] فعل ماضی معروف ہے جس میں ضمیر فاعلین ’’ھم‘‘ شامل (مستتر) ہے اور اس ’’ھم‘‘ کی علامت صیغۂ فعل کی آخری واو الجمع ہے [ أَ ] استفہامیہ ہے اور یہاں استفہام برائے تعجب ہے۔  [تتخذ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعل ’’أنتَ‘‘ ہے جس کی علامت ابتدائی ’’ت‘‘ ہے [نَا] ضمیر منصوب متصل فعل ’’تتخذ‘‘ کا مفعولِ اول ہے اور [ھُزُوًا] اس (تتخذ) کا مفعول ثانی (لہٰذا) منصوب ہے۔ اگرچہ ابتدائی ’’اِذ‘‘ (جملہ نمبر ا) شرطیہ نہیں ہے۔ مگر سابقہ جملے کی مناسبت سے یہاں ’’قالوا‘‘  کا ترجمہ ’’تو بولے، تو کہنے لگے‘‘ سے ہوسکتا ہے۔ اس حصہِ عبارت (قالوا اتتخذنا ھزوا) کے بامحاورہ تراجم اور ان کی توجیہ پر حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے۔

(۳)   قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ

[قال] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ ہے جو یہاں موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہے [اعوذ] فعل مضارع معروف واحد متکلم ہے جس میں ضمیر فاعل ’’انا‘‘ مستتر ہے۔ اور [باﷲ]جار مجرور (بِ + اﷲ) متعلق فعل (اعوذ) ہیں یا ’’بِ‘‘ اس فعل (عاذ  یعوذ) کا وہ صلہ ہے جو اس کے ’’مفعول اول‘‘ (جس کی پناہ مطلوب ہے) پرآتا ہے۔ اس طرح ’’باﷲ‘‘ کو محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔ [أَنْ] مصدریہ ناصبہ ہے اور یہ دراصل ’’مِنْ أن‘‘ تھا اور یہ ’’مِنْ‘‘ وہ ہے جو اس فعل (عاذ یعوذ) کے ’’مفعول ثانی‘‘ (جس سے بچنا مطلوب ہو) پر آتا ہے [أعوذ اور اس کے ساتھ ’’بِ‘‘ اور ’’مِنْ‘‘ کے استعمال پر بحث استعاذہ میں بھی اور دوبارہ اوپر [۱:۴۳:۲ (۴)]میں بھی ہوئی ہے۔]

[اَکونَ] فعل مضارع منصوب (بوجہ ’’ أن‘‘) ہے۔ علامت  نصب آخری ’’ن‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ )  ہے۔ اس فعل ناقص (أکون) میں اس کا اسم ’’انا‘‘ مستتر ہے۔ افعالِ ناقصہ میں ضمیر الفاعل کو اس فعل کا ’’اسم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بعض جدید علماء نحو، مثلاً دکتور شوقی ضیف، ایسے اسم کو اس فعل ناقص کا ’’فاعل‘‘ اور اس کی خبر (جو منصوب ہوتی ہے) کو اس کا حال (منصوب) کہتے ہیں۔

[من الجاھلین] جار مجرور (من + الجاھلین) مل کر ’’أکون‘‘ کی خبر کا کام دے رہے ہیں۔ لہٰذا محلاً منصوب ہیں۔ (گویا دراصل ’’اَن اکون جاھلاً من الجاھلین‘‘ تھا)۔ اس طرح ’’اعوذ باللّٰہ. . . . . من الجاھلین‘‘ (ساری عبارت) فعل ’’قال‘‘ کا مفعول (مقول) ہو کر محلاً نصب میں ہے۔

(۴)  قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِىَ

[قالوا]فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے [ادْعُ] فعل امر صیغہ واحد مذکر حاضر ہے علامت جزم (فعل امر مجزوم ہی ہوتا ہے) آخری ’’واو‘‘ (اُدْعُوْ کی) کا سکون تھا جو گر گئی ہے جیسا کہ کسی بھی فعل ناقص مجزوم میں آخری ’’و‘‘ یا  ’’ی‘‘  کا حال ہوتا ہے۔ اب علامت جزم آخری ’’ع‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ)  رہ گیا ہے۔ [لنا] جار مجرور (ل + نا) متعلق فعل (ادع) ہے [ربَّکَ] مضاف مضاف الیہ  (رب+ ک) مل کر فعل ’’ادع‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامت نصب ’’ب‘‘ کی فتحہ (ـــــَــــ) ہے سادہ نثر میں یہ عبارت یوں ہوتی ’’ادع ربَّک لَنا‘‘ (یعنی ’’تو پکار اپنے رب کو ہمارے لیے‘‘ [یُبَیِّنْ] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ ہے جو ’’رب‘‘ ہے۔ یہ فعل مضارع مجزوم  ہے۔ ’’جزم‘‘ کی وجہ جو ابِ امر (طلب) میں آنا ہے۔ اور علامتِ جزم آخری ’’ن‘‘ کا سکون ہے۔ [لَنا] جار مجرور (ل+ نا) اس فعل (یُبَیِّنْ) سے متعلق ہے [مَا] اسم استفہام بطور خبر مقدّم (لہذٰا) محلاً مرفوع ہے۔ اور [ھِیَ] ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ (موخر) ہے بعض نحوی حضرات ’’ما‘‘کو مبتد أ اور ’’ھِیَ‘‘ کو خبر (دونوں مرفوع) کہتے ہں۔ اسماء استفہام کا اعراب معلوم کرنے کا طریقہ[۲:۲:۲] میں بیان ہوا تھا۔ اس کے مطابق یہاں پہلی توجیہ (کہ ’’مَا‘‘ خبر مقدّم ہے) بہتر معلوم ہوتی ہے۔ یہ آخری جملہ استفہامیہ (مَاھِیَ) فعل ’’یُبَیِّنْ‘‘ کا مفعول بہ ہوکر محل نصب میں ہے۔ اور (ادع لنا. . . . . ماھی‘‘ تک کی) ساری عبارت فعل ’’قالوا‘‘ کا مفعول (مقول)ہوکر موضع نصب میں ہے۔ اس ترکیب کے مطابق زیر مطالعہ عبارت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’انہوں نے کہا پکار ہمارے لیے اپنے رب کو (کہ) واضح کردے ہمارے لیے کیا ہے وہ (گائے)؟‘‘ اس کی با محاورہ صورتیں (تراجم) بحث ’’ اللغۃ  ‘‘ میں بیان ہوچکی ہیں۔

(۵)   قَالَ اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكْرٌ     ۭ  عَوَانٌۢ بَيْنَ ذٰلِكَ

[قَال] فعل ماضی مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ ہے جو موسٰیؑ کے لیے ہے [اِنَّہ] حرف مشبہ بالفعل ’’اِنَّ‘‘ اور اس کے اسم (ضمیر منصوب متصل ’’ہ‘‘) پر مشتمل ہے  [یقول] فعل مضارع معروف مع ضمیر الفاعل ’’ھو‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور یہ جملہ فعلیہ  (یقول) ’’انہ‘‘ کے  ’’اِنْ‘‘ کی خبر ہے (لہٰذا محلاً مرفوع ہے۔ [اِنَّھا] بھی ’’اِنَّ‘‘ اور اس کے اسم منصوب (ضمیر منصوب متصل ’’ھا‘‘) پر مشتمل ہے یہاں دونوں جگہ جملہ کے درمیان ہونے کے باوجود ’’اِنّہٗ‘‘ اور ’’اِنّھا‘‘ دونوں میں ’’إنَّ‘‘ بکسر الہمزۃ اس لیے آیا ہے کہ ان سے پہلے فعل ’’قال‘‘ ہے اگر کوئی اور فعل ہوتا تو یہ ’’بفتح الہمزۃ ‘‘(أَنَّ) آتا۔ [بقرۃٌ] یہ دوسرے ’’اِنَّ‘‘ (إنھا والا) کی خبر (لہٰذا) مرفوع ہے اور یہ ’’بقرۃ‘‘ یہاں نکرہ موصوفہ ہے جس کی صفت آگے آرہی ہے اس لیے یہاں ’’بقرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’ایک گائے جو‘‘ اور ’’ایسی گائے جو‘‘ کی صورت میں ہوگا۔ [لَا]نافیہ (بمعنی ’’نہیں‘‘ ہے اور [فارِضٌ] ’’بقرۃ‘‘کی صفت ہے (’’فارض‘‘ مؤنث (گائے) کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے) [ولا بِکرٌ] کی ’’و‘‘ عاطفہ ہے جس کے ذریعے ’’لا بکرٌ‘‘ کا عطف ’’لا فارضٌ ‘‘پر ہے۔ اور یہاں بھی ’’لا‘‘ نافیہ ہے اور ’’بکرٌ‘‘ صفت (بقرۃٌ کی) ہے لفظ ’’بِکر‘‘ مذکر مؤنث دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’’بقرَۃ‘‘ کی صفت ہونے کے باعث یہاں ’’فارضٌ‘‘ اور ’’بکر‘‘ بھی مرفوع آئے ہیں جس کی علامت تنوین رفع ( ـــــٌــــ ) ہے جب کسی نکرہ کی صفت ’’لا‘‘ نافیہ کے ساتھ بیان ہوتو عموماً ’’لا‘‘ کی تکرار ہوتی ہے اور ساتھ دو صفات بیان ہوتی ہیں دوسرے ’’وَلَا‘‘ کی وجہ سے معنی میں ایک زور پیدا ہوتا ہے جسے اردو ترجمہ میں ’’اور نہ ہی‘‘ سے ظاہر کیاجاسکتا ہے۔ [عوانٌ] یہ ’’بقرۃ‘‘ کی صفت بھی ہوسکتا ہے۔ (’’فارض‘‘ اور ’’بکر‘‘ کی طرح۔ مگر نفی (لا نافیہ) کے بغیر (یعنی ’’بقرۃٌ عوان‘‘ یہ گائے جو ’’عوان‘‘ ہے۔ ’’عوان‘‘ کے معنی حصہ ’’اللغۃ ‘‘ میں دیکھ لیجئے)۔ اور چاہیں تو یہاں ایک مبتدا محذوف سمجھ کر اس  (عوانٌ) کو اس کی خبر مرفوع کہہ سکتے ہیں یعنی ’’ھِیَ عوانٌ‘‘ یا ’’بَل ھِیَ عوان‘‘ اور یہ جملہ بھی بہر حال ’’بقرۃ‘‘ کی صفت ہی ہوگا [بین ذٰلک] ’’بین‘‘ ظرف مضاف اور ’’ذٰلک‘‘ مضاف الیہ ہے۔ اور یہ دراصل ’’بین ذٰلک و ذٰلک‘‘تھا کیونکہ ’’بین‘‘ ہمیشہ ’’دو چیزوں کے درمیان‘‘ کے لیے آتا ہے اور یہاں (ایک )’’ذٰلک‘‘ سے اشارہ ’’فارض‘‘ کی طرف اور دوسرے (محذوف ’’ذٰلک‘‘) سے اشارہ ’’بکر ‘‘کی طرف ہے اور ’’انھا. . . . . ذٰلک‘‘ (تک) کی عبارت فعل ’’یقول‘‘ کا مفعول (مقول) ہے اور اس ترکیب کے مطابق اس پوری عبارت (قال انہ. . . . .بین ذٰلک) کا لفظی ترجمہ بنے گا ’’اس نے کہا بے شک وہ کہتا ہے کہ بے شک وہ ایک ایسی گائے ہے جو نہ بوڑھی ہے نہ بچھیا (بلکہ) درمیانی  عمر کی ہے اس کے درمیان‘‘ اس کے مختلف بامحاورہ تراجم پر بحث ’’اللغۃ‘‘ میں بات ہوچکی ہے۔

(۶)   فَافْعَلُوْا مَا تُـؤْمَرُوْنَ

[فافعلوا] کی ابتدائی ’’فاء (ف)‘‘ عاطفہ تعلیلیہ (سببیہ) ہے اور بعض نحوی اسے ’’الفاء الفصیحۃ‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ زبان میں فصاحت (وضاحت) کا تقاضا پورا کرتی ہے۔ اس کا ترجمہ تو ’’پس/ اس لیے‘‘ ہے اور یہاں اس کا با محاورہ ترجمہ ’’اب تو‘‘ سے ہوسکتا ہے اس کے بعد ’’اِفْعَلُوْا‘‘ فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ مستتر ہے۔ جس کی علامت اس صیغہ کی واو الجمع ہے۔ اس کا ترجمہ تو ’’تم کرو ‘‘ بنتاہے مگر سیاق عبارت (قصہ) کے لحاظ سے بامحاورہ ترجمہ ’’کر ڈالو‘‘ زیادہ موزوں لگتا ہے۔ [مَا]اسم موصول ہے جو فعل ’’افعلوا‘‘  کا مفعول بہ (لہٰذا) محلاً منصوب ہے (مبنی ہونے کے باعث علامتِ نصب ظاہر نہیں ہے) [تؤمَرُون]فعل مضارع مجہول ہے جس میں ’’نائب فاعلین‘‘ کے لیے ضمیر  ’’انتم‘‘ مستتر (موجود) ہے اور دراصل یہاں سابقہ اسم موصول (مَا) کے لیے ایک ضمیر عائد محذوف ہے یعی یہ ’’مَاتؤمرون بہ‘‘ ہے (وہ جس کا تم حکم دیئے جاتے ہو) اور اگر’’مَا‘‘ کو مصدریہ سمجھ لیں تو عبارت ’’فافعلوا امرَکم‘‘ سمجھی جاسکتی ہے یعنی ’’تم اپنا کام کرو‘‘ (جس کا حکم دیا گیا ہے)

اس طرح مندرجہ بالا پوری عبارت کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’پس (اب) تم کرو وہ چیز جس کا تم حکم دیئے جاتے ہو‘‘ اس کے مختلف بامحاورہ تراجم [۱:۴۳:۲ (۸)]کے بعد بیان ہوچکے ہیں۔

 

۳:۴۳:۲      الرسم

زیر مطالعہ دونوں آیات (۶۷،۶۸) کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم عثمانی (قرآنی) یکساں ہے ماسوائے ایک کلمہ ’’الجھلین‘‘ کے کہ اس کا عام رسم (املائی) ’’الجاھلین‘‘ ہے (اور ہم نے حصہ ’’اللغۃ‘‘ اور ’’الاعراب‘‘ میں کہیں کہیں محض سمجھانے کے لیے اسے برسم املائی لکھا ہے) مگر اس کا قرآنی (عثمانی) رسم الخط متفقہ طور پر بحذف الالف بعد الجیم یعنی بصورت ’’الجھلین‘‘ ہے۔ یہ لفظ بصورت جمع مذکر سالم (جاھلون یا جاھلین) معرفہ نکرہ قرآن کریم میں کل ۹ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ بحذف الف بعد الجیم (جھلون۔ جھلین) ہی لکھ جاتا ہے البتہ صرف ایک جگہ  (البقرہ:۲۷۳) بصیغہ مفرد ’’الجاہل‘‘ آیا ہے وہاں اسے باثبات الف ہی لکھا جاتا ہے۔ جمع مذکر والی جگہوں پر اسے رسم املائی کی طرح باثبات الف لکھنا (جیسا کہ ترکی اور ایرانی میں عام رواج ہے) رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے۔ اس قطعہ(زیر مطالعہ) میں جو لفظ ’’ذٰلک‘‘ آیا ہے اس کے متعلق پہلے بھی کہیں بیان ہوچکا ہے کہ اس کا رسم عثمانی اور رسم املائی دونوں ہی بحذف الف بعد الذال ہیں یعنی اس لفظ کا رسم املائی دراصل رسم عثمانی ہی کے مطابق اختیار کیاگیا ہے اور رواج پاگیا ہے۔

 

۴:۴۳:۲      الضبط

زیر مطالعہ آیات میں ضبطِ کلمات کا تنوع حسب ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے ان نمونوں میں عام طور پر ضبط کی ترتیب یوں ہوتی ہے (۱) برصغیر کا ضبط جس میں کہیں کہیں تجویدی قرآن (مطبوعہ پیکجز لاہور) سے بھی کوئی نمونہ آجاتا ہے (۲) ایران اور ترکی کا ضبط جو عموماً ملتا جلتا ہے (۳) مصر اور دیگر عرب ممالک کا ضبط اور (۴) افریقی ممالک کا طریقِ ضبط۔ خاص طور پر توجہ طلب ضبط کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے۔ مشترک ضبط صرف ایک دفعہ لکھا جاتا ہے۔

67-68a

 


67-68b

 

 



[1]    فقہ اللغۃ (للشعالبی) باب ۱۴۔ طبع عیسی البابی کا ص۹۳  اور طبع تہران کا ۸۶۔