سورۃ البقرہ آیت نمبر ۶۹، ۷۰ اور ۷۱

۴۴:۲       قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنَھَا قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ صَفْرَآءُ فَاقِعٌ لَّوْنُھَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ(۶۹) قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیْنَا وَ اِنَّا اِنْ شَاءَ اللہُ لَمُھْتَدُوْنَ(۷۰)  قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَلَاتَسْقِیْ الْحَرْثَ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیْھَا قَالُوْ ا الــن جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوْھَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۱)

۱:۴۴:۲        اللغۃ

[قَالُوْ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَنَا] اس پوری عبارت کے الفاظ کی لغوی اور اعرابی تشریح و ترجمہ وغیرہ اس سے پہلے (بسلسلہ آیت ۶۸ قطعہ سابقہ) زیر بحث آچکے ہیں  دیکھئے [۱:۴۳:۲ (۵۔۶)]اور [۲:۴۳:۲](الاعراب) میں  ۴؎  یہاں ہم دوبارہ اس کا صرف ترکیبی لفظی ترجمہ لکھ دیتے ہیں ’’انہوں نے کہا تو پکار اپنے رب کو ہمارے لیے (کہ) وہ واضح کردے ہمارے لیے‘‘ اس کے مختلف بامحاورہ تراجم پر سابقہ قطعہ میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ (حصہ اللغۃ میں)

 ۱:۴۴:۲ (۱) [مَا لَوْنُھَا] اس میں ’’مَا‘‘ تو استفہامیہ (بمعنی کیا؟) ہے اور ’’لَوْنُھَا‘‘ مرکب اضافی  (لون + ھا) ہے جس میں ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ بمعنی ’’اس کا‘‘ ہے ’’لَوْنٌ‘‘ کا مادہ ’’ل و ن‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد استعمال نہیں ہوتا۔ البتہ مزید فیہ کے ابواب تفعیل اور تفعل سے اَفعال (بمعنی رنگ دینا، رنگ بدلنا وغیرہ) استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا کوئی صیغۂ فعل کہیں نہیں آیا۔ بلکہ اس مادہ سے ماخوذ صرف یہی لفظ (لَوْن) مفرد یا مرکب صورت میں دو جگہ آیا ہے۔اور اسی کی جمع مکسر ’’اَلْوان‘‘ بھی (مفرد یا مرکب شکل میں) کل سات جگہ آئی ہے۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’لَوْنٌ‘‘ کے بنیادی معنی ’’رنگ‘‘ ہیں۔ پھر بطور استعارہ یہ لفظ ’’نوع‘‘ اور ’’قسم‘‘ وغیرہ کے معنی بھی دیتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ ہرجگہ اپنے بنیادی معنی (رنگ یا رنگوں) کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ یہاں (زیر مطالعہ جملہ میں) ’’مَالونھا؟‘‘ کا ترجمہ ’’اس کا رنگ کیا ہے؟‘‘ بنتا ہے۔ یہاں پھر ’’لون‘‘ کے مضاف الیہ کے طور پر ضمیر مونث ’’ھا‘‘ کا آنا ’’بقرۃ‘‘ کے ’’گائے‘‘  والے ترجمہ کی تائید کرتا ہے (اوپر ’’بقرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’گائے‘‘ یا ’’بیل‘‘ کی بات ہوئی تھی)

[قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ]ٹھیک یہی عبارت اوپر (قطعہ سابقہ میں) بسلسلۂ آیت میں ۶۸ زیر بحث آچکی ہے۔ اگر ضرورت ہو تو دیکھئے [۱:۴۳:۲ (۶)] کے بعد نیز [۲:۴۳:۲](الاعراب میں)  ۵؎ 

۱:۴۴:۲ (۲)     [صفرآء] اس کا مادہ ’’ص ف ر‘‘ اور وزن ’’فَعْلآئُ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے مختلف معانی کے لیے آتا ہے مثلاً (باب ضرب سے) ’’صفَر یصفِر صفیرًا‘‘ کے معنی ہیں ’’ہونٹوں اور منہ سے سیٹی بجانا‘‘ اور (باب سمِع سے) ’’صفِر یصفَر صَفَرًا‘‘  کے (ایک) معنی ہیں ’’خالی ہونا‘‘ مثلاً کہتے ہیں ’’صفِر الإنائُ‘‘ (برتن خالی ہوگیا) اور اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی مختلف معانی کے لیے فعل استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے مجرد یا مزید فیہ کا کوئی صیغہ فعل کہیں نہیں آیا۔ البتہ فعل مجرد سے مشتق اسم صفت (برائے الوان و عیوب) کے دو صیغے دو جگہ اور مزید فیہ کے باب ’’اِفْعِلَال‘‘ سے اسم الفاعل (کا ایک ہی صیغہ) تین جگہ آئے ہیں۔ ان پر حسبِ موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’صفراء‘‘ اس مادہ سے ’’افعل الوان و عیوب‘‘ (اسم صفت) کا صیغہ برائے مؤنث ہے۔ یعنی اس سے مذکر کے لیے ’’اَصْفَرُ‘‘ اور مونث کے لیے لفظ  ’’صَفرائُ‘‘ آتا ہے اور دونوں کی جمع ’’صُفْرٌ‘‘ آتی ہے (خیال  رہے دونوں واحد (مذکر مونث) غیر منصرف اور دونوں کی جمع مُعرب ہوتی ہے اور یہ بصیغہ جمع ’’صُفْر‘‘ بھی قرآن میں آیا ہے۔) اور ان کے معنی ہیں ’’زرد رنگ والا/ والی/ والے‘‘ یا صرف ’’زرد‘‘۔ اور یہ ’’زرد رنگ‘‘ والا مفہوم اس مادہ سے فعل مجرد میں نہیں بلکہ  مزید فیہ کے باب ’’اِفعلال‘‘ میں ہوتا ہے کہتے ہیں ’’اِصفرَّ   یَصْفَرُّ   اِصفِراراً‘‘ (زرد ہوجانا) اس طرح ’’صفراء‘‘ کے معنی ہیں ’’زرد رنگ والی‘‘ یا صرف ’’زرد‘‘ یہاں اس صفت برائے مونث کا گائے کے لیے آنا بھی ’’گائے‘‘ (بجائے بیل) والے ترجمہ کی تائید کرتا ہے۔

۱:۴۴:۲ (۳)     [فَاقِعٌ لَوْنُھَا] اس کے دوسرے حصے (لونُھَا= اس کا رنگ) کے معنی وغیرہ پر ابھی اوپر   ۱:۴۴:۲ (۱) میں بات ہوئی ہے۔

’’فَاقِعٌ‘‘ کا مادہ ’’ف ق ع‘‘ اور وزن ’’فاعِلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’فقِع یفقَعُ فُقُوعًا‘‘ (فتح، نصر اور سمِع سے) بمعنی ’’رنگ کا گہرا یا شوخ زرد ہونا‘‘ آتا ہے۔ اس کا فاعل ہمیشہ ’’لَوْن‘‘ ہی ہوتا ہے کہتے ہیں ’’فقِع لونُہ‘‘ (اس کا رنگ شوخ یا خالص زرد تھا) عربی زبان میں اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل، تفاعل، اِفعال وغیرہ) سے بھی افعال مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس ماد ہ سے کسی قسم کا کوئی فعل کہیں نظر نہیں آیا۔ بلکہ صرف یہی ایک لفظ (فاقع) اسی ایک جگہ وارد ہوا ہے۔

·       ’’فاقع‘‘ اس فعل مجرد سے صیغہ اسم الفاعل ہے جس کے معنی ’’گہرا، خالص اور شوخ ہونے والا (رنگ)‘‘ ہیں۔ یہ زیادہ تر زرد رنگ کے خالص (بغیر کسی دوسرے رنگ کی آمیزش کے) اور شوخ ہونے کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ کسی بھی رنگ کے شوخ یا خالص ہونے کے لیے (بطور صفت) استعمال ہوسکتا ہے۔ تاہم اس کا خاص استعمال ’’زرد رنگ‘‘ کے لیے ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ’’اصفرُ فاقِعٌ‘‘ (شوخ یا خالص زرد رنگ کا) اسی طرح مختلف رنگوں میں شوخی اور عدم آمیزش کو ظاہر کرنے کے لیے کچھ مخصوص (صفاتی) لفظ ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں۔ ’’اسودُ حالِکٌ‘‘ (گہرے کالے رنگ والا) ’’احمُر قانِیٌ ‘‘ (شوخ اور خالص سرخ رنگ والا) ’’اَبیضُ ناصِعٌ‘‘ (خالص اور نمایاں سفید رنگ والا) اور ’’اخضرُ ناضِرٌ‘‘ (شوخ اور چمکدار سبز رنگ والا) وغیرہ۔

’’فاقع لونُھا‘‘ میں ’’فاقع‘‘ گائے کے لیے نہیں بلکہ رنگ کے لیے ہے یعنی ’’شوخ ہے رنگ اس کا‘‘ لفظ’’فاقع‘‘ اس کے اسی شوخی والے مفہوم کو اردو مترجمین نے ’’تیز زرد، خوب گہرا، ڈہڈہا رنگ، ڈہڈا، ڈہڈہاتی رنگت، ڈہڈہاتے رنگ کی‘‘ سے ظاہرکیا ہے جو غالباً خالص ہندوستا نی (اردو) محاورہ ہے۔ بعض حضرات نے صرف ’’زرد رنگ کی‘‘ پر گزارہ کا ہے جس میں وہ ’’شوخ، گہرا اور نمایاں‘‘ ہونے والا مفہوم مفقود ہے۔ یہاں بھی ’’لونھا‘‘ (اس کا رنگ)  میں ضمیر مجرور مونث (ھا) کا آنا ’’بقرۃ‘‘ کے ’’گائے‘‘ والے معنی کی تائید کرتا ہے۔ اس عبارت پر مزید بات ’’الاعراب‘‘ میں بھی ہوگی۔

۱:۴۴:۲ (۴)     [تَسُرُّ]  کا مادہ ’’س ر ر‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفْعُلُ‘‘ ہے۔ جو دراصل ’’تسُرُرُ‘‘ تھا۔ پھر ’’ر‘‘  کی حرکت ساکن ماقبل (س) کو دے کر ’’ر‘‘ کو مدغم کردیا گیا۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’سرَّ . . . . یَسُرُّ سُرْورا/ مَسَرَّۃ ‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے ایک معنی ہیں: ’’. . . . کو خوش کرنا‘‘ یہ فعل بعض دوسرے مصاددر کے ساتھ بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مگر وہ استعمال قرآن کریم میں نہیں آئے۔ یہ فعل متعدی ہے اور مفعول بنفسہ کے ساتھ آتا ہے۔ مجرد سے ان معنی (خوش کرنا) کے لیے یہ صیغۂ فعل صرف اسی جگہ (البقرہ:۶۹) آیا ہے۔ یہی فعل بصیغۂ مجہول (سُرَّ یُسَرَّ سُرُورًا)بمعنی ’’خوش ہونا‘‘ استعمال ہوتا ہے اور اس معنی کے لیے یہ فعل عربی زبان کے ان چند اَفعال میں سے ایک ہے جو زیادہ تر بصیغۂ مجہول ہی استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس سے کوئی مجہول صیغۂ فعل تو کہیں نہیں آیا۔ البتہ اسم المفعول ’’ مَسْرُوْرًا ‘‘ دو جگہ (الانشقاق:۹ ،۳ ۱) اور مصدر ’’ سُرُوْرًا ‘‘ ایک جگہ (الدھر:۱۱) آیا ہے۔ اس مادہ سے مزید فیہ کے بابِ افعال سے ایک دوسرے معنی (چھپا لینا) کے لیے متعدد صیغہ ہائے فعل ۱۸ جگہ اور دیگر مصادر اور بعض ماخوذ کلمات بھی بیس کے قریب مقامات پر آئے ہیں۔ ان سب پر حسب موقع بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’تسُر‘‘ اس فعل مجرد (بمعنی خوش کرنا) سے فعل مضارع معروف کا صیغہ واحد مونث غائب ہے۔ یعنی ’’وہ خوش کرتی ہے‘‘ اور اسی کا بامحاورہ مصدری ترجمہ ’’خوش آنا، خوشی دینا، فرحت بخش ہونا، بھلی لگنا، دل خوش کردینا، اچھی معلوم ہونا‘‘ سے بصیغۂ مونث یا مذکر (بیل کے لیے) کیا گیا ہے۔تاہم یہاں بھی فعل کا بصیغۂ تانیث آنا (بیل کی بجائے) گائے والے معنی کی ہی تائیدکرتا ہے اور اس کا بصیغہ مذکر ترجمہ کرنا (مثلاً ’’خوش کردیتا ہے) کسی طرح درست نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نے تو بصیغۂ مونث ہی ترجمہ کیا ہے یا پھر بلحاظ جنس گول مول ترجمہ (مثلاًً ’’کہ فرحت بخش ہو‘‘) کردیا ہے۔

۱:۴۴:۲ (۵)     [الناظرین] یہ لفظ یہاں سمجھانے کے لیے برسم املائی لکھا گیا ہے ، اس کے رسم قرآنی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی۔ اس لفظ کا مادہ ’’ن ظ ر‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر) ’’فاعلین‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’نظَر. . . ینظُر نَظْرًا‘‘ (نصر سے)’’صلہ‘‘ کے بغیر اور مختلف صلات کے ساتھ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً (۱) . . . . کو دیکھنا (۲) . . . . کی طرف غور سے دیکھنا (۳) . . . . میں غور و فکر کرنا اور (۴) . . . . . کا انتظار کرنا ‘‘  وغیرہ۔ یہ قرآن میں کثیر الاستعمال فعل ہے۔ اس کے مختلف معانی و استعمالات پر البقرہ:۵۰[۱:۳۲:۲ (۱۴)]میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’ناظرین‘‘ اس فعل مجرد سے صیغہ اسم الفاعل (ناظرٌ) سے جمع مذکر سالم ہے۔ ’’ناظرٌ‘‘ کے معنی ہیں ’’دیکھنے والا‘‘ اور اس کاترجمہ قریباً سب نے ’’دیکھنے والوں‘‘ ہی کیا ہے۔ ایک مترجم نے ’’ناظرین‘‘ ہی رہنے دیا ہے اس لیے کہ یہ لفظ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ اگرچہ اس کا اردو استعمال بلحاظ مفہوم عربی سے قدرے مختلف ہے۔

[قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ ؟]اس پوری عبارت کی وضاحت اوپر البقرہ:۶۸ میں [۱:۴۳:۲ (۵)]کے بعد اور [۱:۴۳:۲ (۶)] میں کی جاچکی ہے جس میں مختلف تراجم بھی آگئے ہیں۔

[اِنَّ البَقَرَ] ’’اِنَّ‘‘ کا ترجمہ ’’بے شک‘‘ ہے اور لفظ’’البقر‘‘ یہاں بطور اسم جنس آیا ہے جس کا ترجمہ ’’سب گائے بیل‘‘ ہوسکتا ہے (دیکھئے اوپر لفظ ’’بقرۃ‘‘ پر بحث [۱:۴۳:۲ (۲)] میں۔

·       ’’ذبح بقرۃ‘‘ کے اس قصّے میں صرف یہی ایک ایسا لفظ (آیا) ہے جو گائے کے علاوہ بیل کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ (’’بقرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’بیل‘‘ کرنے کی بات بھی اوپر البقرہ:۶۷ [۱:۴۳:۲ (۲)]میں ہوچکی ہے)۔ اگرچہ یہاں (زیر مطالعہ عبارت میں) بھی لفظ ’’البقر‘‘ گائے بیل دونوں کے لیے بطور جنس ہے۔ اور اس کے معنی لازماً ’’بیل‘‘ ہی نہیں ہوسکتے بلکہ ترجمہ ’’گائے‘‘ بھی ہوسکتا ہے جس کی تائید مختلف صیغہ ہائے فعل اور ضمائر کے استعمال سے ہوتی ہے کہ جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کرتے آئے ہیں۔ نیز یہ کہ ’’البقر‘‘ کا ترجمہ گائے یا بیل بطور مفرد (واحد) نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اسم جنس ہونے کی بنا پر اس کا ترجمہ ’’ساری گائیں‘‘ یا ’’سارے بیل‘‘ یا ’’سب گائیں اور سب بیل‘‘ ہی ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے اس عبارت (اِنَّ البقَر) کا ترجمہ اگلے آنے والے فعل (تشابہ علینا)کے ساتھ مل کر (مجموعی ترجمہ) ہی بہتر ہوگا۔

۱:۴۴:۲ (۶)     [تشابَہَ عَلَیْنَا]آخری مرکب جاری (علینا) کا ترجمہ تو ہے ’’ہم پر‘‘۔ اور ابتدائی لفظ ’’تَشَابَہَ‘‘ (جس کے رسم قرآنی پر آگے بات ہوگی)  کامادہ ’’ش ب ھ‘‘ اور وزن ’’تَفَاعَلَ‘‘ ہے یعنی یہ اس مادہ سے مزید فیہ کے باب تفاعل کا فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد تو استعمال نہیں ہوتا۔ اور اس باب تفاعل کے فعل ’’تشابہ یتشابہ‘‘ کے معنی وغیرہ پر البقرہ:۲۵ [۱:۱۸:۲ (۸)] میں بحث ہوچکی ہے۔

·       ’’تَشا بُہٌ‘‘ کے معنی ہیں ’’دو چیزوں کا باہم ملتا جلتا ہونا کہ جس سے پہچان میں التباس (شک) پیدا ہو‘‘۔ اس فعل کے فاعل ہمیشہ دو (تثنیہ ) یا دو سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا فاعل ایک  نہیں سکتا۔  ’’تشابہ الرجلُ‘‘ (آدمی ملتا جلتا ہوا) کہنا غلط ہے۔ کہیں گے ’’تَشابہ الرجلان‘‘ یا ’’تشابہ الرجالُ‘‘ (یعنی دو یا سب مرد باہم ملتے جلتے تھے) اس فعل کی یہ خصوصیت (جسے مشارکت کہتے ہیں ) بھی تقاضا کرتی ہے کہ یہاں ’’البقرۃ‘‘ کے معنی کم از کم دو یا پھر ’’سب گائے بیل‘‘ ہی ہوسکتے ہیں۔ یعنی سب گائیں اور بیل باہم ملتے جلتے ہیں۔

·          یوں اس پوری عبارت ’’اِن البقر تشابہ علینا‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’بے شک سب گائے بیل باہم ملتے جلتے ہوگئے ہمارے اوپر‘‘ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مترجمین نے یہاں ’’البقر‘‘  کا ترجمہ جو بھی کیا ہے جمع سے کیا ہے یعنی ’’بہت سے بیل‘‘ یا ’’ گایوں‘‘ یا ’’بہتیری گائیں‘‘ کی صورت میں۔ بعض نے بصورت واحد ’’اس بیل‘‘ یا ’’اس گائے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ لام عہد سمجھ لینے سے اس کا ترجمہ ’’اس‘‘ کے ساتھ ہو تو سکتا ہے مگر ’’البقر‘‘ کا ترجمہ واحد سے کرنا درست نہیں ہے۔ ’’البقرۃ‘‘ ہوتا تو بھی بات بن جاتی ’’تشابہ علینا‘‘ کا  بامحاورہ ترجمہ بعض نے ’’شبہ‘‘ اور ’’اشتباہ‘‘ کے لفظوں سے ہی کیا ہے جن کا تعلق اسی مادہ سے ہے اور اردو میں مستعمل ہیں یعنی ’’ہم کو اشتباہ ہوا، قدرے اشتباہ ہوا، ہم کو (گایوں، گائے، بیل) میں شبہ پڑا یا پڑگیا) ‘‘کی صورت میں۔ بعض حضرات نے اردو محاورے پر زیادہ زور دیتے ہوئے اس عبارت کا ترجمہ ’’ہم کو تو (سب گائیں۔ سب بیل یا سب بیل اور گائیں) ایک دوسرے کے مشابہ/ باہم ملتے جلتے/ سب ایک ہی طرح کے/ ایک جیسے لگتے/ دکھائی دیتے ہیں‘‘ ان ترجموں میں جمع کا صیغہ فعل ’’تشابہ‘‘ میں مشارکت کی خصوصیت اور ’’البقر ‘‘ کے اسم جنس ہونے کی بنا پر اختیار کیا گیا ہے۔

[وَ اِنَّا اِنْ شَاءَ اللہُ لَمُھْتَدُوْنَ] اس جملہ کے تمام اجزا کے معنی وغیرہ اس سے پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ اگر چاہیں تو ’’و‘‘ (اور) کی بحث الفاتحہ:۵ [۱:۴:۱ (۳)]میں ’’اِنَّا‘‘ (اِنّ+ نَا=  بیشک ہم) البقرہ:۶ [۱:۵:۲]میں،’’إنْ‘‘ (اگر) البقرہ:۲۳[۱:۱۷:۲ (۱)] میں ’’شاء‘‘ (چاہا، ارادہ کیا) البقرہ: ۲۰ [۱:۱۵:۲ (۸)] میں،  اسم جلالت (اللہ) بحث بسم اللہ  [۱:۵:۲] میں ، لام مفتوحہ (لَ) برائے تاکید البقرہ:۶۴ [۱:۴۱:۲ (۶)]میں اور ’’مھتدون‘‘ (راستہ پانے والے) کو البقرہ:۱۶ [۱:۱۴:۲ (۷)] میں دیکھ لیجئے۔

·       اس طرح اس عبارت کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور بے شک ہم اگر چاہا اللہ نے (تو) ضرور (ہیں۔ ہوں گے) راستہ پانے والے‘‘ تقریباً تمام ہی مترجمین نے یہاں اسم ’’مھتدون‘‘ کا ترجمہ فعل مضارع (بمعنی مستقبل) کے ساتھ کیا ہے یعنی ’’اگر اللہ نے چاہا/ خدا چاہے تو/ ان شاء اللہ ـــــــ ’’ہم راہ پالیں گے، راہ پا جائیں گے، پتہ لگا لیں گے، ٹھیک پتہ لگائیں گے‘‘ کی صورت میں۔ اور بعض نے مزید با محاورہ کرتے ہوئے ’’ٹھیک سمجھ جائیں گے اور (ہم کو) ٹھیک بات معلوم ہوجائے گی‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ مفہوم اور معنی سب کا ایک ہی ہے۔ اور بلحاظ محاورہ اردو ٹھیک بھی ہیں تاہم بلحاظ لفظ ان سب میں ’’مُھتدُون‘‘ کا ترجمہ ’’نَھْتَدِی‘‘ کی طرح کرلیا گیا ہے۔

·       [قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ] یہ پورا جملہ پہلے دو دفعہ گزر چکا ہے دیکھئے البقرہ:۶۸ [۱:۴۳:۲ (۶)]کے بعد نیز البقرہ:۶۹ [۱:۴۴:۲ (۱)] کے بعد۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’’اس نے کہا بے شک وہ ہی کہتا ہے کہ بے شک وہ ایک گائے ہے (جو)‘‘۔

۱:۴۴:۲ (۷)     [لَاذَلُوْلٌ] ابتدائی ’’لا‘‘ تو نافیہ (بمعنی ’’نہیں‘‘) ہے۔ یہاں اس سے اگلی عبارت میں ’’لا‘‘ کی تکرار کی وجہ سے اس پہلے ’’لَا‘‘ کا ترجمہ ’’نہ تو ہے‘‘ سے ہوگا یعنی نہ تو وہ ایسی ’’ذَلُوْل‘‘ ہے جو کہ۔ اور یہ ’’جو کہ‘‘ کا مفہوم ’’ذَلُوْل‘‘ کے نکرہ موصوفہ ہونے سے پیدا ہوا ہے اور ’’ذلُوْل‘‘ کا مادہ ’’ذل ل‘‘ اور وزن ’’فَعُوْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’ذلّ یذِلٌ ذُلًّا وذِلَّۃً‘‘ (ضرب سے) کے بنیادی معنی ’’آسانی سے قابو میں آجانا‘‘ ہیں اس سے اس میں ’’کمزور اور بے عزت ہونااور مطیع  ہونا ‘‘ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اس فعل کے معانی و استعمال پر البقرہ:۶۱ [۱:۳۹:۲ (۱۴)]میں بات ہوچکی ہے۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’ذلولٌ‘‘ اس فعل مجرد سے اسم صفت (بصیغہ مبالغہ) ہے۔ جس کے معنی ہیں: ’’بآسانی قابو میں آنے والا‘‘ پھر اس سے ’’آسان، آسانی سے قابلِ استعمال، سدھایا ہوا، نرم اور باسہولت‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جانورں میں سے ’’ذلول‘‘ وہ ہے جو کسی کام مثلاً سواری یا زراعت وغیرہ کے لیے سدھایا گیا ہو اور اس سے بآسانی کام لیا جاسکتا ہو مثلاً کہتے ہیں ’’بعیرٌ ذلَول‘‘ (سدھایا ہوا اونٹ)ـــ  راستوں میں ’’ذلول‘‘ (جیسے سبیلٌ ذلولٌ) اسے کہتے ہیں جسے کئی بار طے کیا ہو اور بکثرت استعمال ہوتا ہو۔ اور یہ لفظ (ذلول) مذکر مونث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (بلکہ ’’فعول‘‘ کے وزن پر آنے والی تمام صفات (اسماءِ مبالغہ) مذکر مونث کے لیے یکساں ہوتی ہیں) اوپر کی مثال میں ’’بَعیرٌ‘‘ (مذکر) اور ’’سبیل‘‘ (مؤنث) ہر دو کے لیے صفت ’’ذلول‘‘ ہی آئی ہے اور اسی قاعدے کے تحت یہاں یہ صفت ’’بقرۃ‘‘ (گائے) کے لیے آئی ہے۔

·       مندرجہ بالا معانی کی بنا پر مختلف مترجمین نے یہاں ’’ذَلُول‘‘ کا ترجمہ ’محنت والی، محنت کرنے والی، کمیری جس سے خدمت لی جاتی ہو‘‘ سے کیا ہے اور جن حضرات نے ’’بقرۃ‘‘ کا ترجمہ ’’بیل‘‘ کیا ہے انہوں نے  ’’ذلول‘‘ کا ترجمہ ’’جوتا ہوا، ہل میں چلا ہوا، کام میں لگا ہوا‘‘ سے کیا ہے اور شاید ’’گائے‘‘ کی بجائے ’’بیل‘‘‘ ترجمہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں مطلوب ’’بقرۃ‘‘ کے ہل یا کنواں (جیسا آگے آرہا ہے) نہ چلانے‘‘ سے متصف ہونا بیان ہوا ہے اور ہمارے ملک (کے بیشتر علاقوں) میں یہ کام گائے کی بجائے ’’بیل‘‘ سے ہی لیا جاتا ہے ۔ اگرچہ بعض علاقوں میں ’’گائے، (بلکہ بارانی علاقوں میں ’’گدھی‘‘) کو بھی اس کام پر لگادیا جاتا ہے۔

·       لفظ ’’ذلول‘‘ قرآن کریم میں دو جگہ (البقرہ: ۷۱ اور الملک :۱۵) آیا ہے اور ایک جگہ (النحل:۶۹) اس کی جمع ’’ذلَلٌ‘‘ وارد ہوئی ہے۔

۱:۴۴:۲ (۸)     [تُثِیْرُ الْاَرْضَ] لفظ ’’الارض‘‘ (زمین) کی لغوی بحث پہلے البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۴)] میں گزر چکی ہے۔

·       ’’تُثِیْر‘‘ کا مادہ ’’ث و ر‘‘ اور وزن اصلی ’’تُفْعِلُ‘‘ ہے اصلی شکل ’’تُثْوِر‘‘ تھی اس قسم کے (اجوف کے) لفظوں میں اہل زبان حرفِ علت (جو یہاں ’’و‘‘ ہے) کی حرکت ماقبل حرف صحیح کو (جو یہاں ’’ث‘‘ ہے) دے کر حرف علت کو اس حرکت کے موافق حرف علت (یعنی فتحہ کے بعد الف کسرہ کے بعد یاء اور ضمہ کے بعد واو) میں بدل کر لکھتے اور بولتے ہیں یوں یہ لفظ ’’تُثْوِر = تُثِوْرُ = تثیر ہو جاتا ہے۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد ’’ثَار یثُور ثوراً و ثَوْرۃ‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اسکے بنیادی معنی ہیں: ’’جوش میں آنا، بلند ہونا اور بکھر جانا‘‘ اردو میں اس کا ترجمہ ’’اڑنا‘‘ کرسکتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ’’ثار الدخانُ أَوِ الغبار‘‘ (دھواں یا غبار اڑا/ بلند ہوا) اسی طرح ’’ثارالمائُ‘‘ کے معنی ہیں: ’’پانی زور سے اچھل کر نکلا‘‘۔ قرآن کریم میں اس مجرد فعل سے کوئی صیغۂ فعل کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ باب افعال سے فعل کے صرف دو صیغے (مضارع کے) چار جگہ آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’تثیر‘‘ بھی اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع صیغہ واحد مؤنث غائب ہے۔ بابِ افعال کے فعل ’’اثار. . . .یُثیر‘‘ (دراصل اَثوَر یُثوِر) إِثَارَۃً(بجائے اِثوار) کے معنی ہیں:’’ . . . .کو اٹھانا، جوش میں لانا، پھاڑنا، پھیلا دینا‘‘ یہ فعل متعدی اور ہمیشہ مفعول بنفسہ کے ساتھ آتا ہے۔ اردو میں اس کا بامحاورہ ترجمہ مفعول کی مناسبت سے ہی کیا جاسکتا ہے مثلاً ’’أثار الأرض‘‘ کا ترجمہ ’’زمین میں ہل چلانا‘‘ اور ’’أثار الغبار‘‘ کا ’’گردو غبار اڑانا ‘‘اور ’’اثار البعیر‘‘ کا مطلب ’’(بیٹھے ہوئے) اونٹ کو اُٹھا دینا ‘‘ہوگا۔ اور اسی سے ’’اثار الفتنۃ‘‘ فتنہ و فساد برپا کرنا‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

·       یہاں گزشتہ ’’لاذلُول‘‘ کے بعد ’’تثیر الارض‘‘ کا ترجمہ ہوگا ’’ کہ (نہ تو) وہ زمین کو پھاڑتی ہے‘‘ یعنی ہل میں (نہیں) جوتی جاتی۔ اسی کا بامحاورہ ترجمہ کئی طرح کیا گیا ہے مثلاً ’’پھاڑے زمین کو، باہتی ہو زمین، جوتتی ہوزمین کو، کہ جس سے زمین جوتی جائے، کہ زمین جوتے، زمین کو جوتتی ہو‘‘ وغیرہ۔

۱:۴۴:۲ (۹)    [ولَاتَسْقِی] ’’لا‘‘نافیہ (بمعنی نہیں/ ’’نہ‘‘) ہے اور ’’تَسْقِیْ‘‘ کا مادہ ’’س ق ی‘‘ اور وزن ’’تَفْعِلُ‘‘ ہے یہ دراصل ’’تَسْقِیُ‘‘ تھا مگر اہل عرب اس قسم کے مضارع (ماقبل مکسور) کی آخری ’’ی‘‘ کو ساکن کرکے بولتے اور لکھتے ہیں یعنی  تَسْقِیُ = تَسْقِیْ۔

·       اس مادہ سے فعل مجرد سقَی . . . . یسقِیْ سَقْیًا (ضرب سے) کے بنیادی معنی ہوتے ہیں  ’’. . . .کو پانی پلانا‘‘ پھر یہ فعل ’’کھیت وغیرہ کو پانی دینا، آبپاشی کرنا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اس کا ایک مفعول بارش بھی ہوتی ہے مثلاً ’’سقَی اللّٰہ فلانًا الغَیث‘‘ (اللہ نے اس کے لیے بارش اتاری۔ لفظاً= اس کو بارش پلائی۔

·       اس فعل کے ہمیشہ دو مفعول ہوتے ہیں۔ جسے پلایا جائے اور جو چیز پلائی جائے اور دونوں ہی بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتے ہیں۔ پھر (۱) کبھی تو دونوں مذکور ہوتے ہیں جیسے ’’ وَسَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا  ‘‘ (الدہر:۲۱) ’’اللہ نے ان کو پاکیزہ مشروب پلایا‘‘ اور کبھی (۲) دوسرا مفعول (پلائی جانے والی شے۔ پانی، دودھ وغیرہ) محذوف ہوتا ہے جیسے ’’ وَيَسْقِيْن ‘‘ (الشعراء:۷۹) یعنی ’’وہ مجھے پلاتا ہے‘‘۔ ’’کیا؟‘‘ کا جواب محذوف ہے اور (۳) کبھی دونوں مفعول محذوف ہوتے ہیں جیسے ’’ يَسْقُوْنَ ‘‘ (القصص:۲۳) یعنی ’’وہ پلاتے ہیں/ پلا رہے ہیں‘‘ یہاں کس کو؟ کیا؟ نہیں بتایا گیا۔ اور (۴)فعل مجہول آئے تو پہلا مفعول تو نائب الفاعل ہو کر بصورت ضمیر مرفوع متصل آتا ہے اور دوسرا مفعول (اگر مذکور ہو تو) ظاہر اور منصوب ہوتا ہے جیسے ’’یُسْقَوْنَ (یعنی ’’ھم(’’فِيْهَا كَاْسًا ‘‘ (الدہر:۱۷) یعنی ’’وہ اس میں پیالہ (بھر کر) پلائے جائیں گے۔‘‘

·       قرآن کریم میں اس فعل (سقَی  یَسْقِی) سے متعدد صیغے ۸ جگہ آئے ہیں۔ اور ۶ جگہ اس سے فعل بصورت مجہول آیا ہے جو مجرد سے بھی ہوسکتا ہے اور بابِ افعال سے بھی۔ کیونکہ بابِ افعال سے ’’اَسْقٰی یُسْقی  إسقائً‘‘ کے معنی بھی ’’سقی یَسقِی (مجرد) والے ہیں (یعنی ’’پلانا‘‘)۔ اور مجرد اور باب اِفعال دونوں کا مضارع مجہول ’’یُفْعَلُ‘‘ ہی ہوتا ہے۔ فعل مجرد کے علاوہ قرآن کریم میں اس مادہ سے مزید فیہ کے ابواب (اِفعال اور استفعال) سے بھی کچھ صیغے آٹھ جگہ ہی آئے ہیں۔ اور کچھ مصادر اور ماخوذ اسماء (سقایۃ، سُقیا وغیرہ) بھی ایک دو جگہ آئے ہیں۔

·       ’’لا تَسقِی‘‘ اس فعل مجرد سے فعل مضارع  منفی(بلا) کا صیغہ واحد مؤنث غائب ہے (فعل کی یہ تأنیث بھی ’’گائے‘‘ والے معنی کی تائید کرتی ہے) اس عبارت کا لفظی ترجمہ (بوجہ تکرار ’’لا‘‘) بنتا ہے: ’’اور نہ ہی وہ پانی پلاتی ہے‘‘ یعنی ’’ آبپاشی بھی نہیں کرتی ‘‘ اور مراد یہ ہے کہ وہ آبپاشی کے لیے (کنویں وغیرہ پر) استعمال نہیں ہوتی۔ اسی مفہوم کو بعض مترجمین نے ’’وہ پانی نہیں دیتی‘‘ سے ظاہر کیا ہے۔ فتح محمد جالندھری نے اس کا ترجمہ ’’اور نہ موٹھ چلاتی ہے‘‘ سے کیا ہے۔ کم از کم راقم الحروف کو تو یہ ’’ٹھیٹھ محاورہ‘‘ عربی سے بھی مشکل لگا ہے۔ ترجمہ میں ’’آبپاشی‘‘ کا لفظ آگے لفظ ’’حرث‘‘ (کھیتی) آنے کی مناسبت سے موزوں ہے۔ ویسے تو یہ بھی فارسی لفظ ہے تاہم قدرے عام فہم ضرور ہے۔

۱:۴۴:۲ (۱۰)    [الْحرثُ]کا مادہ ’’ح ر ث‘‘ اور وزن (لام تعریف نکال کر)  ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ’’حرَثَ یَحْرُثُ حَرْثًا‘‘اور ’’حرَثَ یَحْرِثُ حَرْثًا‘‘ باب ’’نصر ‘‘اور ’’ضرب ‘‘سے آتا ہے۔ اگرچہ قرآن کریم میں صرف ’’نصر‘‘ سے استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ’’ زرَع ‘‘ کی طرح ہیں یعنی ’’کھیتی کرنا، کاشت کرنا‘‘ کہتے ہیں۔ ’’حرَث الرجلُ‘‘ (آدمی نے کھیتی باڑی کی)۔ اور یہ فعل زمین میں ’’ہل چلانا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں: ’’حرَث الْاَرْض‘‘ (’’اس نے زمین کو کھیتی کے لیے کھودا/الٹا پلٹا/ ہل چلایا‘‘۔ اس کے علاوہ عام عربی استعمال میں یہ فعل بعض دیگر معانی مثلاً کمانا، کمائی کرنا، حرکت دینا، بات یاد رکھنا، خوب مطالعہ کرنا وغیرہ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد کا صرف ایک صیغۂ مضارع ایک جگہ (الواقعہ:۶۳) باب نصر سے اور ’’کھیتی کرنا ‘‘ والے معنی کے لیے ہی آیا ہے۔

·       لفظ ’’حَرْث‘‘ اس فعل مجرد کا مصدر بمعنی اسم ہے جس کا ترجمہ ’’کھیت یا کھیتی‘‘ ہی کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ لفظ مختلف صورتوں (معرفہ نکرہ مفرد مرکب) میں قرآن کریم کے اندر ۱۳ جگہ آیا ہے۔ زیادہ تر تو یہ اپنے حقیقی معنی میں آیا ہے اور کہیں کہیں مجاز اور استعارہ کے طور پر۔ جیسے ’’حرث الدنیا‘‘ (دنیا کی کھیتی) اور ’’حرث الآخرۃ‘‘ (آخرت کی کھیتی)

·       یہاں اس مکمل جملے ’’ولا تسقی الحرث‘‘ (جس کے اجزاء پر لغوی بحث اوپر [:۴۴:۲ :۱(۹۔۱۰)]میں گزری ہے) کا مجموعی لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’ اور نہ ہی وہ پانی پلاتی ہے کھیت کو‘‘ اس کے مختلف بامحاورہ تراجم بھی اوپر بیان ہوئے ہیں۔ البتہ ’’ہ‘‘ کی تکرار (لاذلول. . . .ولا تسقی. . . . .میں) کی وجہ سے اردو ترجمہ جس ’’ہی‘‘ کا تقاضا کرتا ہے اسے بیشتر مترجمین نے نظر انداز کیا ہے۔

۱:۴۴:۲ (۱۱)     [مُسَلَّمَۃٌ] کا مادہ ’’س ل م‘‘ اور وزن ’’مُفَعَّلَۃٌ‘‘ ہے اس مادہ سے فعل مجرد ’’سلِم یسلَم سلامۃً و سلامًا‘‘ (سمع سے) کے معنی ہیں: ’’نجات پانا، سلامتی پانا (عیوب و آفات سے) یہ فعل لازم ہے۔ تاہم کبھی یہ باب نصر سے ایک دوسرے معنی کے لیے متعدی بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’سَلَمَتْہُ الحیَّۃُ‘‘ اس کے معنی ہیں ’’اس کو سانپ سے ڈس لیا‘‘ عربی میں نیک شگونی کے لیے ’’مارگزیدہ‘‘ (جسے سانپ ڈس لے) کو ’’سلیم‘‘ بھی کہتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کوئی صیغہ فعل کسی بھی معنی کے لیے کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ بعض مصادر و مشتقات ۴۳ مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے بعض ابواب (تفعیل اور افعال) سے بکثرت افعال (۳۰ کے قریب جگہ) آئے ہیں۔

·       زیر مطالعہ کلمہ ’’مُسَلَّمَۃٌ‘‘ اس مادہ سے باب تفعیل کا صیغہ اسم المفعولۃ(یعنی برائے مؤنث) ہے۔ اور اس باب (تفعیل) سے فعل ’’سلَّم . . . .یُسلِّم تسلیماً‘‘ عموماً صلہ کے بغیر متعدی بنفسہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے کئی معنی ہوتے ہیں مثلاً (۱) ’’. . . . . .کو (آفات و عیوب سے) بچالینا‘‘ کہتے ہیں ’’سَلَّمَہُ اللّٰہُ مِنْ. . . . .‘‘ (اللہ نے اس کو . . . . .سے بچالیا) (۲) ’’سلَّم . . . . .لِ/ الی . . . . .‘‘ کا مطلب ہے  ’’ . . . . .کو  . . . . . . کے حوالے کردیا‘‘ جیسے کہیں ’’سلَّم الشیَٔ لہٗ والیہ‘‘ (اس نے وہ چیز اس کو دے دی یا خاص اسی کے لیے کردی) ان دو استعمالات میں بعض دفعہ مفعول اور جار مجرور یا صرف جار مجرور محذوف کردیئے جاتے ہیں۔ جس کی مثال الانفال:۴۳ اور البقرہ:۲۳۳ میں ہے۔ (۳) کبھی یہ فعل لازم کی طرح ’’پوری طرح مطیع ہوجانا‘‘ یا  ’’کسی فیصلہ کے دل و جان سے قبول کرلینا‘‘ کے معنی دیتا ہے جس کی مثال النساء:۶۵ میں ہے۔ دراصل ایسے موقع پر بھی کچھ عبارت محذوف ہوتی ہے۔(۴) ’’علی‘‘ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ’’کو سلام کہنا‘‘ یا  ’’. . . . .پر سلام بھیجنا‘‘ ہوتے ہیں یہ استعمال قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے بلکہ اس میں بھی ایک جگہ جار مجرور محذوف ہوا ہے۔

قرآن کریم میں اس فعل کے استعمال کے جن چھ مقامات کی  طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے ان کی مزید وضاحت اپنے اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ عربی زبان میں یہ فعل (سلَّم یسلِّم) بعض دیگر معانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو معاجم میں معلوم کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم یہ دوسرے معانی قرآن کریم میں نہیں آئے۔

·       اس طرح لفظ ’’مُسلَّمۃ‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’بچائی ہوئی‘‘ (عیوب و آفات سے) اس لیے بعض نے اس کا ترجمہ ’’تندرست، بدن سے پوری، پورے بدن کی، صحیح سالم‘‘ سے کیاہے (یعنی بیماری اور جسمانی عیب سے بچائی ہوئی)۔ اور بعض نے اس کا ترجمہ ’’بے عیب، سالم‘‘ (یعنی دوسرے رنگ کی آمیزش سے بچائی ہوئی) کیا ہے۔ جب کہ بعض نے ’’مُسلَّمۃ‘‘ کا الگ ترجمہ ہی نہیں کیا۔ بلکہ اگلی عبارت میں بیان کردہ صفت (لا شیۃ فیھا) کا ہی ترجمہ کردیا ہے (جو ہم ابھی آگے بیان کریں گے) اور جس میں دراصل ’’مسلَّمۃٌ‘‘ (بچی ہوئی یا بچائی ہوئی) کا ترجمہ بھی ایک لحاظ سے شامل ہے (یعنی دھبہ یا داغ سے بچی ہوئی) تاہم ترجمہ میں نص کے ہر ایک لفظ کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

۱:۴۴:۲ (۱۲)     [لا شیۃ فیھا ] ’’لَا (نہیں) اور ’’فِیْھَا‘‘ (فی +ھا =اس میں) ’’شِیَۃٌ‘‘ (جو یہاں منصوب ہے اس کے اعراب پر آگے بات ہوگی) کا مادہ ’’و ش ی‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعلٌ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’وَشْیٌ‘‘ تھی۔ پھر ابتدائی ’’و‘‘ گرا کر ’’ش‘‘ کو کسرہ (ـــــِــــ) دیتے اور آخر پر ابتدائی ’’و‘‘ کے عوض ’’ۃ‘‘ لگا دیتے ہیں (اس تبدیلی اور تعلیل پر مزید بات ابھی آگے فعل مجرد کے بیان میں ہوگی) بعض نحوی کہتے ہیں [1]  کہ یہ دراصل ’’وَشِیَۃٌ‘‘ بروزن ‘‘فَعِلَۃٌ‘‘ تھا پھر ’’و‘‘ گرادی جیسے مضارع بھی ’’و‘‘ گرا کر ’’یَوْشِیْ‘‘ سے ’’یشِی‘‘ بنتا ہے (اس کی وضاحت بھی آگے آرہی ہے) یا دراصل لفظ ’’وِشْیَۃٌ‘‘ بروزن ’’فِعْلَۃٌ‘‘ تھا۔ ’’و‘‘ کو مضارع کی طرح گرا دیتے ہیں اور اس کی کسرہ  (ـــــِــــ) ’’ش‘‘ کو مستقل کردیتے ہیں۔ یوں یہ لفظ بصورت ’’شِیَۃٌ‘‘ بروزن ’’عِلَۃ‘‘ لکھا اوربولا جاتا ہے۔

·       اس مادہ (و ش ی) سے فعل مجرد ’’وَشیَ (الثوبَ) یَشِیْ وَشْیًا وَشِیَۃً‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ’’(کپڑے کو) بیل بوٹے وغیرہ سے سجانا، (کپڑے پر) بیل بوٹا نکالنا‘‘ یا  ’’ ایک رنگ (کے کپڑے) میں دوسرے رنگ (کے کپڑے کو) لگانا ‘‘ یہ کام کرنے والے آدمی (فاعل ) کو  ’’واشی‘‘ اور کپڑے کو ’’مَوْشِیٌّ‘‘ کہتے ہیں۔ پھر استعارہ میں یہ فعل ’’چغلی کھانا‘‘ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’وشیَ بہ الی السلطانِ وشْیًا و وِشَایَۃً‘‘ (اس نے حاکم کے پاس اس کی چغلی کھائی)۔

اس فعل کا بنیادی مصدر تو ’’وَشیٌ‘‘ ہے۔ تاہم مثال واوی (جس میں فاء کلمہ واو ہو) سے باب ’’ضرب‘‘، ’’فتح‘‘ اور ’’حسب‘‘ کے فعل مضارع میں ابتدائی ’’و‘‘ گرادی جاتی ہے  [2](اسی لیے یہاں فعل کا مضارع ’’یَوْشِیْ‘‘ سے ’’یَشِیْ‘‘ ہوگیا ہے) مثال واوی کے ان ابواب کا مصدر اصلی حالت پر بھی رہتا ہے (جیسے یہاں ’’وَشْیٌ‘‘ ہوسکتا ہے)  اور اہل زبان اس (مثال واوی کے مضارع) میں سے عموماً ’’و‘‘ کو نکال کر آخر پر ’’ہ‘‘ بڑھا دیتے ہیں اور ’’و‘‘ کو نکالنے کے بعد اس (مصدر) کے شروع کے صرف (یعنی عین کلمہ) کو کسرہ (ـــــِــــ) دیتے ہیں۔ البتہ باب فتح (یا سَمِع) کی صورت میں مصدر کے اس حرف (عین کلمہ) کو فتحہ (ـــــَـــــ) اور کسرہ (ـــــِـــــ) دونوں لگ سکتی ہیں۔ اسی قاعدے کے تحت ’’وَعَد یَعِد ‘‘ کا مصدر ’’وَعْدٌ‘‘ کے علاوہ ’’عِدَۃٌ‘‘ بھی آتا ہے اسی طرح وَعَظ یعِظ سے ’’وعَظ‘‘ اور ’’عِظۃٌ‘‘ آتا ہے اور وَھَب یھَب سے  وَھَبٌ  کے علاوہ ھِبَۃٌ اور ھَبَۃٌ  بھی آتے ہیں اور وسِع یسَع سے سِعَۃٌ اور سَعَۃٌ استعمال ہوتے ہیں۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ (و شی ) سے کوئی فعل (مجرد نہ مزید فیہ) کہیں نہیں آیا بلکہ صرف یہی ایک لفظ (شِیَۃ) اسی ایک جگہ وارد ہوا ہے جو اس فعل (وشَی یشی) کا ایک مصدر بھی ہے۔ اور بطورِ اسم ’’شِیۃ‘‘ کے معنی کسی جانور میں ہر وہ رنگ ہے جو اس کے مجموعی رنگ سے مختلف ہو۔ زیادہ تر یہ کالے رنگ میں سفید دھبے یا سفید رنگ میں کالے داغ کے لیے استعمال ہوتا ہے (جسے پنجابی میں ’’ڈب‘‘ اورایسے جانور کو ’’ڈبہ‘‘ کہتے ہیں) اس کی جمع ’’شِیَات‘‘ آتی ہے۔

·       اس طرح ’’لاشیۃَ فیھا‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’اس کے مجموعی رنگ (جس کا زرد ہونا۔ بیان ہوچکا ہے) میں کسی اور رنگ کا نشان (تک) نہ ہو‘‘ اکثر مترجمین نے اس قسم کے (مخالف رنگ کے) نشان کو لفظ ’’مُسَلَّمَۃ‘‘ (صحیح سالم) کی روشنی میں عیب سمجھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’داغ اور دھبہ‘‘ سے کیا ہے یعنی ’’جس میں کوئی داغ/ کسی قسم کا داغ دھبہ/ کسی طرح کا داغ/ دھبہ نہ ہو‘‘ بعض نے صرف ’’جو بے داغ ہو‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو شاید زیادہ با محاورہ ہے۔ (بہتر ہو گا اب آپ ایک دفعہ پھر سابقہ کلمہ ’’مُسلَّمۃ‘‘ کی لغوی بحث اور اس کے معانی پر نظر ڈال لیں ۔[۱:۴۴:۲ (۱۱)] میں۔ دونوں عبارتوں کے باہمی تعلق پر ’’الاعراب‘‘ میں مزید بات ہوگی)

۱:۴۴:۲ (۱۳)     [قَالُوا الْآنَ] ’’الآن‘‘ یہاں سمجھانے کے لیے عام رسم و ضبط کے ساتھ لکھا گیا ہے اس کے قرآنی رسم و ضبط پر بحث ’’الرسم‘‘ و ’’الضبط‘‘ میں بات ہوگی) ’’قالوا‘‘ (انہوں نے کہا۔ وہ بولے) اس لفظ کے لغوی پہلو (مادہ، باب اور تعلیل وغیرہ) سے آپ بخوبی واقف ہوچکے ہوں گے ورنہ البقرہ:۱۱ [۱:۹:۲ (۴)]میں دیکھ لیجئے۔

·       ’’الآن‘‘: بلحاظ معنی و ترجمہ یہ لفظ بالکل آسان ہے کیونکہ اس کے صرف ایک ہی معنی ہیں جسے اردو میں ’’اب‘‘ یا ’’اس وقت‘‘ سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کے مادہ و اشتقاق اس کے اِعراب اور اس کے طریق استعمال کے بارے میں قدیم و جدید علمائے لغت و نحو میں بعض دلچسپ اختلافات ہیں۔ مبتدی کے لیے اضافۂ معلومات کی خاطر اور اہل علم کی ضیافتِ طبع اور تسکینِ ذوق کے لیے ہم اس لفظ کے متعلق ان مباحث کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں۔

·       اکثر اہلِ لغت کے نزدیک اس (الآن) کا مادہ ’’ا ی ن‘‘ ہے۔ [3] اس کاوزن (لام تعریف نکال کر) ’’فَعْلٌ‘‘ ہے۔ گویا دراصل یہ ’’اَیْنٌ‘‘ تھا پھر یائے متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر ’’آنٌ‘‘ ہوگیا۔ (اس کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے)

·       بعض نے اس کا مادہ ’’ا و ن‘‘ بیان کیا ہے۔[4]  اس صورت میں ازراہِ قیاس اس کی اصلی صورت ’’اَوَنٌ‘‘ ہونی چاہیے جس میں واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر ’’ آن ‘‘ بن سکتا ہے۔ تاہم بعض نے اس کی اصل اسی مادہ (ا و ن) سے ماخوذ ایک اور لفظ ’’ أوَاَنٌ ‘‘ (بمعنی ’’کسی کام کا مناسب وقت‘‘) قرار دیا ہے (اس پر بھی مزید بحث آگے آرہی ہے) ان کے مطابق ’’أوان‘‘ کی ’’و‘‘ ماقبل مفتوح کے باعث الف میں بدلی تو لفظ ’’أاانٌ‘‘ ہوگیا۔ پھر التقائے ساکنین (دو الف ہونے کی بنا پر) ایک الف گر گیا اور لفظ ’’ آنٌ ‘‘ بن گیا۔ یا پھر ’’ أ وَانٌ ‘‘ کی ’’و‘‘ گرا کر ’’ آن ‘‘ بنا لیا گیا ہے۔[5]   بہر حال اس لفظ (الآن) کے ان دونوں مادوں (این اور اون) کے افعال سے معنوی تعلق اور اسکے (ایک) خاص طریقِ استعمال اور اعراب سے متعلق بعض امور کی تفصیل یوں ہے:

·       یائی مادہ (ا ی ن) کی صورت میں فعل مجرد ’’آنَ یَئِیْنُ أیْنًا‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’(کسی کام کا) وقت آپہنچنا، (بلحاظ وقت) قریب آلگنا‘‘۔ اسی فعل کے ایک معنی ’’تھک کر رہ جانا‘‘ بھی ہیں اور ’’اَیْنٌ‘‘ (جو اس فعل کا مصدر بھی ہے) کے معنی ’’وقت‘‘ بھی ہیں اور ’’تھکاوٹ‘‘ بھی۔ تاہم پہلے معنی (وقت والے) زیادہ مستعمل ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’آنَ اَیْنَکَ‘‘ (تیرا وقت آپہنچا) گویا ’’آنٌ‘‘ (بمعنی وقت) ایک طرح سے ’’ أینٌ  ‘‘ ہی کی دوسری شکل ہے۔ بلکہ بعض نے اس کی تعلیل ہی یوں بیان کی ہے کہ ’’اَیْنٌ‘‘ کی ’’یاء‘‘ کو حرکت دے کر  ’’أَیَنٌ‘‘ بنایا گیا۔ پھر یاء متحرکہ ماقبل مفتوح کو الف میں بدل کر ’’آنٌ‘‘ بنا لیا گیا۔[6]  (دیکھئے اوپر قولِ اوّل)

·       یہ فعل ’’آنَ یَئِیْنُ‘‘ تو قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس کے ہم معنی (وقت آجانا کے لیے) ایک فعل ’’اَنَی یأنِی‘‘  (ضرب) سے ایک صیغہ فعل قرآن کریم (الحدید:۱۶) میں آیا ہے۔ بلکہ اسی مادہ (ا ن ی) اور اسی فعل (انی یانی) کے بعض دوسرے معانی سے ماخوذ الفاظ (آنٍ، اِنائٌ، آنائٌ، آنیۃٌ اور أنّٰی وغیرہ) بھی قرآن کریم میں آئے ہیں۔ اس مادہ (ا ن ی) اور اس کے اِن الفاظ پر تو اپنی اپنی جگہ بات ہوگی یہاں اتنی بات قابل ذکر (اور دلچسپ بھی) ہے کہ بعض حضرات کے نزدیک یہ دوسرا مادہ (ا ن ی) دراصل ہمارے زیر بحث مادہ (ا ی ن) کی ہی مقلوب (الٹی) شکل  ہے۔ [7]اس لیے دونوں سے فعل بھی بالکل ہم معنی آئے ہیں گویا پنجابی کے ’’چاقو‘‘ اور ’’قاچو‘‘ والی بات ہے۔ مختار الصحاح میں (ص۳۶) ابن السکیت کے حوالے سے ایک شعر مذکور ہوا ہے جس میں یہ دونوں فعل ایک ہی معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔ شعر یوں ہے     ؎

اَلَمَّا یَئن لی أن تُجَلَّی عَمایَتِی                                                                                           واُقصِرَ عن لیلی بلی قدانیٰ لِیا

(ترجمہ : کیا بھی تک میرے لیے وقت نہیں آیا کہ میرا اندھا پن روشن (دور) کردیا جائے اور میں ’’لیلی‘‘ سے باز آجاؤں؟ کیوں نہیں اب تو میرے لیے (وہ) وقت آہی گیا ہے)

·       واوی مادہ (ا ون) سے فعل مجرد ’’ آن یئون اَوْنًا ‘‘ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے معنی ’’خوشحال ہونا، آرام کرنا‘‘ ہیں۔ یہ فعل ’’وقت آجانا‘‘ والے معنی کے لیے تو استعمال نہیں ہوتا۔ صرف اس کے مصدر ’’اوْن‘‘ کے متعدد معنی میں سے ایک ’’حِیْنٌ‘‘ (وقت) بھی ہے۔ تاہم ’’وقت‘‘ بلکہ ’’کسی کام کا مناسب وقت کے لیے‘‘ (اس مادہ سے ماخوذ) زیادہ مستعمل لفظ ’’أوانٌ‘‘ ہے۔ جس کی جمع ’’ آوِنۃٌ ‘‘ ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک زیر مطالعہ لفظ (الاَن) کے ’’ آن ‘‘ کی اصل ہی (اوان) ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔

·       عربی میں ’’أوانٌ‘‘ یا ’’ألاَوانُ‘‘ (معرفہ) کا طریقِ استعمال زیر مطالعہ لفظ ’’ألآنَ‘‘ سے بالکل مختلف ہے۔ تاہم اس (اوان) کا ’’الآنَ‘‘ (کے ’’ آن ‘‘ سے معنوی تعلق واضح کرنے کے لیے ہم پہلے ’’أوان‘‘ کے استعمال کی چند مثالیں بیان کرتے ہیں۔ مثلاً عربی میں کہتے ہیں: ’’قَبلَ أَوانِہ‘‘ (اپنے وقت سے پہلے) ’’فی غیرأ وانِہ‘‘ (غلط وقت پر بے وقت) ’’فات الأوانُ‘‘ (ٹھیک وقت تو ہاتھ سے نکل گیا) ’’جاءَ اُوانُ البردِ‘‘ (سردی کا وقت/ موسم آگیا)۔ بلکہ اس کے ساتھ یائی فعل (آن یئین) کو بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً ’’ آن الأَوانٌ ‘‘ (ٹھیک وقت آپہنچا)۔

·       قرآن کریم میں اس دوسرے مادہ (ا و ن) سے کوئی اسم فعل یا حرف استعمال نہیں ہوا۔ عام عربی میں بھی اس مادہ سے بمعنی ’’وقت‘‘ زیادہ تر ’’ أوان ‘‘ ہی استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے یہاں اس (اوان) کے استعمال کی اتنی وضاحت اس لیے ضروری سمجھی کہ بعض نے ’’الآن‘‘ کو اسی (اوان) سے ماخوذ بلکہ اسی کی دوسری شکل قرار دیا ہے۔ (جیسا کہ اوپر گزرا ہے) حالانکہ اس کا استعمال جدا جدا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اکثرحضرات نے ’’الآن‘‘ کا یائی مادہ (ا ی ن) سے متعلق قرار دیا ہے۔ (دیکھئے اوپر قول اول)

·       لفظ ’’الآن‘‘ کے طریق استعمال کے بارے میں تمام قدیم ’’کتبِ لغت و نحو‘‘ میں یہی لکھا گیا ہے کہ:

(۱) یہ لفظ ہمیشہ ’’ال‘‘ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اور یہ ’’ال‘‘ لامِ تعریف نہیں کیونکہ عام معرف باللام الفاظ کے برعکس (جو بصورت ’’تنکیر‘‘ (نکرہ ہوتے وقت) اس ’’ال‘‘ (لام تعریف) سے محروم ہوجاتے ہیں) اس (الآن) کا ’’ال‘‘ کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا بلکہ ’’الذی‘‘ یا اسم جلالت (اللہ) کی طرح یہ ’’ال‘‘ اس کا مستقل حصّہ ہے۔

(۲) یہ لفظ معرب نہیں بلکہ مبنی ہے اور مبنی بر فتحہ (ـــــَــــ) ہے۔ ا س کے آخری ’’ن‘‘ پر ہمیشہ فتحہ (ـــــَــــ) ہی رہتی ہے۔ یعنی یہ لفظ ہر حالت میں ’’الآن‘‘ ہی رہتا ہے۔

نحوی اور لغوی حضرات کی ان دوتصریحات کے مطابق یہ لفظ نہ تو بصورت ’’الآنُ یا ا لآنِ‘‘ استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی ’’آنٌ آناً آنٍ‘‘ کی شکل میں۔ (خیال رہے کہ اوپر جو ہم نے فعل ’’ أنی یأنٰی ‘‘ سے الرحمٰن:۴۴ میں آنے والے اسم الفاعل ’’آن‘‘ کاذکر کیا ہے (بمعنی کھولتا ہوا پانی) وہ دراصل ’’آنٍی‘‘ ہے جو اعرابی گردان میں ’’اَنِی آنیاً آنٍ ہوتا ہے)= اس کا اس ’’این‘‘ مادے والے ’’ آن ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے)۔

·       پھر نحوی حضرات نے اس لفظ (الآن) کے ساتھ ’’ال‘‘ کے بطور جزو لاینفک ہونے کے اسباب پر بڑی بحث کی ہے اور پھر فیصلہ یہ دیا ہے کہ لفظ ہمیشہ بصورت ’’الآن‘‘ ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کا وزن ہی ’’الفعَل‘‘ ہے۔ [8]اسی طرح اس (الآن) کے مبنی ہونے کی بھی مختلف وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ جن میں سے ایک (متنازعہ فیہ دلیل) یہ بھی ہے کہ اس میں اسم اشارہ (ہذا الوقت) کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ (اور اسمائے اشارہ مبنی ہوتے ہیں۔ گویا اس کی بعض مبنی اسماء سے ’’رشتہ داری‘‘ ہے۔) اور اس کے مبنی بر فتحہ (ــــــَــــ) ہونے کی وجہ توخیر اس کا ظرف ہونا ہے یعنی یہ ظرفیت کی بنا پر منصوب (استعمال) ہوتا ہے اور بعض ظروف (مثلاً ایّانَ، اینَ، حیثُ وغیرہ) مبنی ہوتے ہیں۔ لہٰذا ’’ایں ہم بچۂ شتراست‘‘ کے مصداق اس کو بھی ’’پکا مبنی‘‘ سمجھ لیا گیا اور اس کا معرب (متصرف) ہونا ’’نوادرات‘‘ میں شمار کیا گیا ہے۔[9]

·       ’’الآن‘‘ کے معنی ہیں ’’ماضی اور مستقبل کے درمیان موجودہ حاضر وقت‘‘ جسے اردو میں ’’اب‘‘ یا ’’اس وقت‘‘ سے ظاہر کیا جاسکتا ہے (جیسا کہ اوپر شروع میں بیان ہوا ہے) بعض نحوی حضرات نے تو ’’الآن‘‘ سے صرف اتنا ’’حاضر وقت‘‘ مراد لی اجتنی دیر میں آپ یہ لفظ (الآن) بول سکتے ہیں۔ [10] حالانکہ خود قرآن کریم کے استعمال سے (جہاں یہ لفظ مختلف سیاق سباق میں آٹھ جگہ آیا ہے) اس لفظ میں ’’قریب ترین ماضی‘‘ اور’’قریب ترین مستقبل‘‘ کا مفہوم شامل ہونا معلوم ہوتا ہے۔

·       یہ لفظ ایک طرح سے ’’الیومَ‘‘ (آج) کی طرح استعمال ہوتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ ’’الیوم‘‘ تو مطلقاً  ’’دن‘‘ کے معنی میں مُعرَب بھی ہے اور نکرہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی حسب موقع ’’الیومُ۔ الیومِ۔ یومٌ، یومًا، یومٍ‘‘ استعمال ہوسکتا ہے مگر (نحوی حضرات کے بقول) یہ لفظ (الآن) ’’ال‘‘ کے بغیر کبھی استعمال نہیں ہوتا اور ہمیشہ مبنی بر فتحہ ہی رہتا ہے۔ حتیٰ کہ کسی حرف الجر کے ساتھ بھی ’’الآن‘‘ہی رہتا ہے مثلاً کہیں گے: ’’حتی الآن‘‘ (اب تک) ’’الی الآن‘‘ (اب تک) ’’قبلَ الآن‘‘(اب سے پہلے) ’’بعد الآن‘‘ (اب کے بعد) اور یہ استعمال قدیم و جدید معاجم میں مذکور ہے۔[11]

·       نظریاتی مباحث میں نحوی بزرگوں کی مثال بعض دفعہ تو اس بھینس کی سی ہوتی ہے۔ جو دریا میں اترنے کے بعد ’’پار‘‘ جانا بھول جاتی ہے بلکہ پانی میں کھیلتی مزے لیتی بہاؤ کا رُخ اختیار کرلیتی ہے اور بڑی دیر کے بعد اسے کنارہ یاد آتا ہے اس لفظ (الآن) کے مبنی ہونے کے بارے میں (متنازعہ فیہ) دلائل کے انبار لگادینے کے باوجود بعض اہل علم (مثلاً السیوطیؒ) نے اس کا معرب ہونا تسلیم کیا ہے اور اسی رائے کو النحوالوافی میں ’’ آسان اور قابلِ اطمینان ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔   [12]

اور کم از کم بصورتِ اضافت تو ’’ال‘‘ کو بھی اس سے الگ رکھتے ہیں اور اسے بطور معرب بھی استعمال کرتے ہیں (یعنی وہ مبنی برفتحہ بھی نہیں رہتا) مثلاً راغب نے (المفردات میں) سیبویہ کے حوالے سے یہ جملہ (مادہ ’’این‘‘ کے تحت) لکھا ہے ’’الآن آنُک‘‘ (اب تیرا وقت ہے) اس فقرے میں ’’آنُک‘‘ (بطور خبر) مرفوع بصورت مضموم آیا ہے۔ اسی طرح ’’البستان‘‘ میں ہے ’’ آن أینُک او آنُک ای حان حینُک‘‘ (تیرا وقت آپہنچا)۔ یعنی ’’اَینٌ‘‘ اور ’’ آنٌ ‘‘ دونوں معرب ہیں۔ بلکہ المعجم الوسیط (مادہ این) میں تو ’’اَلآنُ آنُک‘‘ (وقت تیرا وقت ہے) بھی لکھا ہے۔ اس میں بطور مبتدأ و خبر (دونوں طرح) ’’آنٌ‘‘ مرفوع بصورت ضمہ ( ــــــُــــ)  آخر (ن) ہے۔

·       اسی طرح جدید معاجم (ڈکشنریوں) میں یہ لفظ بغیر ’’ال‘‘ (لام التعریف) اور بطور اسم معرب ’’آنٌ۔ آناً۔ آنٍ‘‘ استعمال ہوا ہے اور اسے لغۃ فصحی کا استعمال ہی سمجھاگیا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’فی آنٍ واحدٍ‘‘ (بیک وقت) ’’من آنٍ الی اَخرَ‘‘ (کبھی کبھی۔ کسی کسی وقت) اور اسی مفہوم کے لیے ’’آناً بعدَ  آنٍ‘‘ بھی آتا ہے اور ’’آنًا فَاَنًا‘‘ (تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد)[13] جیسے ’’وقتًا فوقتًا‘‘ ہے اور یہی ترکیب (آنًا فاناً) اردو میں بمعنی ’’فوراً  ہی‘‘ استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح القاموس العصری میں ہے۔ أوانٌ = آنٌ = حینٌ = زمَنٌ‘‘ یعنی یہ سب مطلق ’’وقت‘‘ کا مفہوم رکھتے ہیں البتہ ان میں سے صرف ’’آ نٌ‘‘ ہی ایسا لفظ ہے جو بصورت ’’الآن‘‘ یعنی ’’معرف باللام اور ظرف منصوب ہوکر ’’بمعنی ’’اب، اس وقت‘‘ استعمال ہوتا ہے جیسے ’’الیومَ‘‘ بمعنی ’’آج، یہ دن‘‘ استعمال ہوتا ہے۔

·       قرآنِ کریم میں ’’الآن‘‘ آٹھ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ بغیر کسی حرف الجر کے (اصل صورت میں) بطور ظرف منصوب ہی آیا ہے۔ اور ہر جگہ اس کا اردو ترجمہ سب نے عموماً ’’اب‘‘ سے ہی کیا ہے۔

·       ’’الآن‘‘ کے بارے میں یہ ساری بحث دراصل ’’الاعراب‘‘ سے ہی متعلق ہے اس لیے اسے وہیں لے جانا اور بیان کرنا چاہیے تھا تاہم چونکہ اس کا تعلق کسی جملے کی ترکیب سے نہیں بلکہ ایک لفظ کے معنی اور اسکے خاص قسم کے طریقِ استعمال سے ہے۔ اورچونکہ ہماری اس تالیف کا مقصد صرف قرآن کا ترجمہ سکھانا ہی نہیں بلکہ قرآنی کلمات کے حوالے سے عربی زبان کا سکھانا بھی ہے اور ہمارا شعار ہے: ’’عربی سیکھئے۔ قرآن کے لیے، قرآن کے ذریعے‘‘اس لیے ہم نے اس لفظ کے قدیم و جدید استعمال کی بات کی ہے۔ اور ضمناً آپ کو نحوی حضرات کی بحر علم میں شناوری (تیراکی) کی ایک جھلک بھی دکھا دی گئی ہے۔ اگرچہ کوشش میں ہم خود بھی بہاؤکے رخ کافی دور تک بہہ گئے ہیں۔

۱:۴۴:۲  (۱۴)     [جِئْتَ بِالْحَقِّ] اس جملے میں سے لفظ ’’الحق‘‘ (ٹھیک بات، حق، سچ) کے بارے میں آپ البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۶)] میں پڑھ چکے ہیں۔ ’’جئت‘‘ کا مادہ ’’ج ی ء‘‘ اور وزن اصلی ’’فَعَلْتَ‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’جَیَئْتَ‘‘ تھا۔ کسی اجوف مادہ سے (جیسے یہ ہے) فعل ماضی کے جن (آخری نو) صیغوں میں لام کلمہ ساکن ہوتا ہے تو اہل عرب وہاں حرف علت (و/ی) کو گرا دیتے ہیں اور باب ’’نصر یا کرم‘‘ کی صورت میں فاء کلمہ کو (جو یہاں ’’ج‘‘ ہے۔ ضمہ ( ـــــُــــ)  اور باقی ابواب میں کسرہ (ـــــِـــــ) دے کر بولتے اور لکھتے ہیں گویا ’’جَیَئْتَ = جَاءْتَ = جَئْتَ = جِئْتَ‘‘ اب اس کا وزن ’’فِلْتَ‘‘ رہ گیا ہے۔ (قال سے قُلْتَ اور کان سے کُنْتَ اسی قاعدے سے بنتا ہے)۔

·       اس مادہ  (جییْ) سے فعل مجرد ’’جائَ یَجِیْٔءُ (دراصل جَیَأَ یَجْیِیُٔ)مَجِیْئًا‘‘ (ضرب سے) آتا ہے اور اسکے بنیادی معنی ہیں:’’ آنا۔ جانا‘‘۔ پھر اس سے یہ کبھی ’’واقع ہونا/ ہوجانا‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً کہتے ہیں ’’جائَ الامرُ‘‘ (بات واقع ہوگئی) ۔ قرآن کریم میں ’’اذا/ لمَّا جاء امرُنا‘‘ متعدد جگہ آیا ہے۔ یہ (جاء یجییٔ) فعل تو لازم ہے مگر اس کے لیے مفعول استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’ وَلَقَدْ جَاۗءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ ‘‘(القمر:۴۱) یعنی ’’ آل فرعون کے پاس ڈرانے والے آئے‘‘ ایسے موقع پر عربی میں ’’جاء عندہ‘‘ کہنا بالکل غلط ہے۔ قرآن کریم میں یہ فعل منصوب ضمیروں کے ساتھ (جاءہ۔ جائکم۔ جئتَنا۔ جئتمونا) بکثرت استعمال ہوا ہے۔

·       اور اسی فعل (جاء یجییُٔ) میں فعل متعدی کی طرح ’’کرنا‘‘ کے معنی بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ’’جاء الامرَ‘‘ (اس نے (وہ) کام کیا۔ لفظاً  ’’وہ اس کام کے پاس آیا‘‘) قرآن کریم میں ہے ’’ لَقَدْ جِئْتَ شَـيْــــًٔـا نُّكْرًا ‘‘(الکہف:۷۴) یعنی ’’تو نے ایک بہت بُری/نا معقول بات کی/ کام کیا‘‘۔ ویسے اس فعل کے بنیادی معنی (آنا) کو ’’ب‘‘ سے (بمعنی لانا، لے آنا) متعدی بنایاجاتا ہے یعنی ’’جائَ ب. . . . . ‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’وہ. . . . .کو لایا/ لے آیا‘‘ اور پھر اسی سے اس کا مجہول ’’جِییَٔ ب. . . . .‘‘ بمعنی ’’. . . . کو لایا گیا‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے ’’ وَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍۢ بِجَهَنَّمَ‘‘ (الفجر:۲۳) یعنی ’’اس دن جہنم (دوزخ) کو لایا جائے گا‘‘ اس (’’بِ‘‘ کے ساتھ متعدی بنانا) استعمال میں وہ مفعول جس کے پاس کوئی چیز لائی جائے وہ مفعول بنفسہ (بغیر صلہ کے) آتا ہے اور جو چیز لائی جائے اس پر ’’با (بِ)‘‘ کا صلہ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے۔ ’’ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ ‘‘ (الصف:۶) یعنی ’’جب وہ لایا ان کے پاس واضح دلائل‘‘ البتہ اس استعمال میں بعض دفعہ مفعول اول (جس کے پاس کچھ لایا جائے ) محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو سیاق سے معلوم ہوتا ہے۔ جیسے ’’ وَلَمَّا جَاۗءَ عِيْسٰى بِالْبَيِّنٰتِ‘‘ (الزخرف:۶۳) ’’اور جب عیسیٰ ؑ واضح دلائل لائے‘‘ یہاں کن کے پاس؟ غیر مذکور ہے۔ یہ فعل (جاء یَجِییُٔ) قرآن میں کثیر الاستعمال ہے اور مذکورہ بالا تمام معانی کے لیے متعدد جگہ آیا ہے۔ ہر ایک استعمال کی وضاحت اپنے موقع پر آئے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

·       زیر مطالعہ لفظ ’’جئتَ‘‘ اس فعل سے فعل ماضی معروف کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے یعنی ’’تو آیا‘‘۔ مگر اس کے بعد ’’بالحق‘‘ ہے۔ یہ ’’ب‘‘ وہی تعدیہ (متعدی بنانا) والا صلہ ہے جو اوپر مذکور ہوا ہے۔ یوں ’’جِئْتَ ب. . . . . .‘‘ کا مطلب ہے۔ ’’تولایا‘‘ اور پورے فقرے ’’جِئتَ بالحق‘‘ کالفظی ترجمہ بنتا ہے۔ ’’تو حق/ سچ لے آیا‘‘ اسی کا بامحاورہ ترجمہ ’’لایا تو سچ/ ٹھیک بات/ ٹھیک پتہ‘‘ سے کیا گیا ہے۔ بعض مترجمین نے احتراماً ’’تم/ آپ لائے. . . .‘‘ کیا ہے۔ جب کہ بعض نے ’’تو نے ٹھیک بات کہی، آپ نے پوری بات فرمائی، (اب) تم نے سب باتیں درست بتادیں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے جو سیاقِ قصہ اور محاورۂ اردو کے لحاظ سے تو ٹھیک ہے تاہم یہ اصل نص (عبارت) سے ضرور ہٹ کر ہے۔

۱:۴۴:۲ (۱۵)     [فَذَ بَحُوْھَا]جو فَ + ذبحوا + ھا ہے۔ فعل’’’ذَبحَوُ‘‘ کے باب اور معنی (ذبح کرنا) وغیرہ پر ابھی اوپر البقرہ:۶۷ [۱:۴۳:۲ (۱)]میں مفصل بات ہوئی تھی۔ نیز دیکھئے البقرہ:۴۹ [۱:۳۲:۲ (۵)] ’’فذبحوھا‘‘ کا لفظی ترجمہ تو ہے ’’پس انہوں نے ذبح کیا اس کو‘‘ جس کی با محاورہ صورت ’’غرض انہوں نے اسے ذبح کیا‘‘ ہے بعض نے صرف ’’اسے کاٹا‘‘ سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے ’’حلال کیا‘‘ سے۔ یہاں بھی مفعول کے لیے مونث ضمیر (ھا)’’ گائے ‘‘ والے معنی (بجائے بیل) کی تائید کرتی ہے۔

[وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ] یہ پورا جملہ ’’وَ‘‘ (اور) + ’’ما‘‘ (نافیہ یعنی نہیں تھے) + ’’کادوا‘‘ (وہ قریب تھے کہ) +’’یَفْعَلُوْنَ‘‘ (وہ کریں یا کرتے ہیں) اس عبارت کے مذکور تمام اجزاء پر اس سے پہلے بات ہوچکی ہے۔ اور یہ سب الفاظ آسان بھی ہیں۔ قدرے مشکل یہاں فعل مقارب ’’کادُوا‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ک و د‘‘ اور وزن ’’فَعَلُوا‘‘ ہے یعنی ’’ کادُوا ‘‘ دراصل ’’ کَوَدوا ‘‘ سے بنا ہے۔ اس سے فعل ’’ کاد یکادُ کَوْدًا ‘‘ کے معنی اور طریق استعمال پر (کہ اس کے ساتھ فعل مضارع کس طرح استعمال ہوتا ہے) البقرہ:۲۰ [۱:۱۵:۲ (۱)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔

·       اس طرح یہاں ’’وَما کادوا یفعلون‘‘ کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے ’’اور/ حالانکہ وہ نہیں ہوئے تھے قریب (کہ) وہ کریں‘‘ پھر اس کی بامحاورہ صورت ’’وہ نزدیک نہ تھے کہ کریں‘‘، ’’لگتے نہ تھے کہ کریں گے/ کرلیں گے‘‘ ہے اور بعض نے مزید بامحاورہ کرتے ہوئے ’’کرتے ہوئے معلوم نہ ہوتے تھے، (ایسا) کرتے معلوم نہیں ہوتے تھے‘‘ کیا ہے۔ بعض نے  ’’فذبحوھا‘‘ کی مناسبت سے ’’ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے‘‘ کیا ہے گویا ’’یفعلون‘‘ کی بجائے ’’یذبحون‘‘ کا ترجمہ کردیا ہے۔ بعض نے ’’وہ ایسا کرنے والے نہ تھے‘‘ کیا ہے جو ’’وماکانوا فاعلین‘‘ کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے بعض نے ’’ان سے توقع نہ تھی کہ کریں گے‘‘ اور ’’امید نہ تھی کہ کاٹیں گے‘‘ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے جو لفظ سے بھی ہٹ کر ہے اور فعل مقارب والے مفہوم (نفی یا اثباتِ مقاربہ یعنی نزدیک ہونا/ نہ ہونا) سے بھی دور ہے۔ ’’ما کادُوا‘‘ لگتے نہ تھے، معلوم نہیں ہوتے تھے‘‘ والا ترجمہ زیادہ بہتراور بامحاورہ بھی ہے۔ خیال رہے کہ یہاں ترجمہ میں ’’ کہ ‘‘ کا استعمال محاورے کی بنا پر ہے اصل عبارت میں ’’أن‘‘ نہیں ہے۔ اور اس فعل (کاد یکاد) کے ساتھ ’’أن‘‘ (عموماً) استعمال بھی نہیں ہوتا۔

 

۲:۴۴:۲     الاعراب

زیر مطالعہ قطعۂ آیات (۶۹۔۷۱) نحوی اعتبار سے آٹھ مستقل جملوں پر مشتمل ہے جس میں سے بعض بلحاظِ مضمون مربوط ہیں۔ اس طرح ان آیات کو ترکیب نحوی اورجملہ وار تجزیہ کے لیے کل چھ جملوں میں بیان  کیا جاسکتا ہے۔ تفصیل یوں ہے۔

(۱)   قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا

اس کا ابتدائی حصہ (قالوا. . . . . یبین لنا) اس سے پہلے البقرہ:۶۸ میں مع بیان اعراب گزر چکا ہے[۲:۴۳:۲]میں نمبر۴۔ اس عبارت کے بعد وہاں تھا ’’ماھِیَ؟‘‘ اور یہاں ہے [مالونُھا] جو اعرابی صورت وہاں ’’ماھِیَ‘‘ کی تھی وہی یہاں ’’مالونھا؟‘‘ کی ہے۔ یعنی ’’ما‘‘ استفہامیہ بطور خبر مقدم ہے۔ لہٰذا محلاً مرفوع ہے۔ اور ’’لو نُھا‘‘ مضاف مضاف الیہ (لون + ھا) مل کر مبتدأ موخر (مرفوع) ہے۔ (اور بعض کے نزدیک ’’ما‘‘ مبتدا مرفوع اور ’’لونُھا‘‘ خبر مرفوع ہے) بہر صورت ’’لونُھا‘‘ میں علامت رفع ’’ن‘‘ کا ضمہ (ــــُـــــ) ہے (اسماء استفہام کے فقرے میں مبتدا یا خبر واقع ہونے کے فرق کی توجیہ بھی البقرہ:۲۸ کے ’’الاعراب‘‘ میں۲:۲۰:۲ میں  بیان ہوچکی ہے) یہ آخری جملہ اسمیہ (مالونُھا) یہاں فعل ’’یبین‘‘ کا مفعول ہوکر محل نصب میں ہے۔ اس لیے کہ یہاں اگر ’’ما‘‘ نہ ہوتا تو ’’لونُھا‘‘ منصوب ہوکر اس فعل ’’یبین‘‘ کا مفعول بن سکتا تھا یعنی بصورت ’’یُبیِّن لنا لونَھا‘‘ (کہ وہ واضح کرے ہمارے لیے اس کا رنگ)۔ زیر مطالعہ عبارت میں ’’ادع لنا‘‘ سے لے کر ’’لونھا‘‘ تک کی عبارت ابتدائی ’’قالوا‘‘ کا مقول ہوکر محلاً منصوب بنتی ہے یعنی ’’انہوں نے کہی (یہ بات. . . .)

(۲)   قَالَ اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاۗءُ  فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِيْنَ

اس عبارت کا ابتدائی حصہ (قال انہ یقول انھا بقرۃ) بھی اس سے پہلے البقرہ:۶۸ ہی میں بلحاظ اعراب زیر بحث آچکا ہے۔ دیکھئے[۲:۴۳:۲] میں نمبر۵ ۔ وہاں بھی ’’بقرۃٌ‘‘ کے بعد والی عبارت (لافارض ولا بکر عوان بین ذٰلک) اسی لفظ (بقرۃ) کی صفت کے طور پر آئے تھے۔ اور یہاں بھی اسی لفظ (بقرۃ) کے بعد کی عبارت (صفرائُ فاقع لو نھا تسرالناظرین) اسی (بقرہ) کی صفت کے طور پر آئے ہیں۔ اور اس (صفت والی) عبارت کے اعراب یوں ہیں۔

[صفرائُ] بقرۃٌ کی پہلی صفت ہے لہٰذا مرفوع ہے اس میں علامتِ رفع آخری ہمزہ کا ضمہ (ــــــُــــ)  ہے کیونکہ یہ اسم غیر منصرف ہے۔ [فاقعٌ] اسم الفاعل بصورت صفت آیا ہے اور یہ بھی گائے کی دوسری صفت ہے مگر یہاں اس صفت نے (اسم الفاعل ہونے کے باعث) فعل کا سا عمل کیا ہے جس کی وجہ سے [لونُھا] مضاف مضاف الیہ مل کر اس (صفت) کا فاعل ہوکرمرفوع ہوگیا ہے۔ گویا اصل (تقدیر) عبارت تھی ’’فقِع لونُھا‘‘ (اس فعل کے معنی دیکھئےاوپر [۱:۴۴:۲ (۳)]میں) یعنی لفظاً شوخ زرد ہوا اس کا رنگ‘‘ اور ’’فاعل‘‘(لون) کے مذکر ہونے کی وجہ سے اسم الفاعل (فاقع) مذکر آیا ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’فاقِعٌ‘‘ کو خبر مقدم اور ’’لونھا‘‘ کو مبتدا موخر سمجھ لیں گویا دراصل عبارت بنتی ہے ’’لونُھا فاقِعٌ‘‘ (اس کا رنگ شوخ زرد ہے) اور دراصل گائے کی صفت صرف ’’فاقع‘‘ نہیں بلکہ پورا جملہ ’’فاقع لونھا‘‘ہے۔ [تسر] فعل مضارع معروف واحد مؤنث غائب ہے جس میں ضمیر ’’ھی‘‘ برائے ’’فاعلہ ‘‘شامل ہے (یعنی وہ گائے خوش کرتی ہے) [الناظرین] اس فعل (تسر) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے علامت نصب یائے ساکنہ ماقبل مکسور (ـــــِـــــ ی) ہے۔ (’’الناظرین‘‘ کے رسم قرآنی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی) اور یہ پورا جملہ فعلیہ (تسر الناظرین) ’’بقرہ‘‘ کی تیسری صفت ہے (لہٰذا یہ بھی محلاً مرفوع۔ جملہ۔ ہے ) یعنی ’’وہ (گائے) خوش کرتی ہے دیکھنے والوں کو‘‘

·       بعض نحویوں نے ’’تسر‘‘ کی ضمیر فاعل ’’لونھا‘‘ کے ’’لون‘‘ کے لیے قراردی ہے یعنی ’’لو نُھا تسر الناظرین‘‘ (اس کا رنگ خوش کرتا ہے دیکھنے والوں کو) اور ’’لون‘‘ کے لیے صیغہ تانیث (تسر) کی یہ توجیہ کی ہے کہ وہ (لون) مونث (ھا) کی طرف مضاف ہے۔ لہٰذا اسے مؤنث کہا جاسکتا ہے۔ یا کہ یہ یہاں ’’لون‘‘ سے مراد ’’صُفْرَۃٌ‘‘ (زردی) ہے اس لیے بلحاظ معنی صیغۂ تانیث آیا ہے۔ تاہم یہ دونوں تو جیہات تکلف سے خالی نہیں ہیں اور محض ’’علم بگھارنے‘‘ والی بات ہیں۔ مقدم الذکر توجیہ زیادہ معقول اور باآسانی قابلِ فہم ہے۔

(۳)   قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِىَ     ۙ   اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَيْنَا    ۭ  وَاِنَّآ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ

اس عبارت میں ’’قالوا‘‘  کے بعد (مقول) تین جملے ہیں جو مفعول (مقول) ہونے کے لحاظ سے سب محل نصب میں ہیں اور بلحاظ مضمون باہم مربوط ہیں (سب ’’قالوا‘‘ سے متعلق ہیں) ان میں سے پہلے جملہ (ادع لنا ربَّکَ یبین ربَّکَ ببین لنا ماھی؟) کے اعراب بعینہ اسی قسم کے (اور اسی عبارت والے) سابقہ جملے میں (گزشتہ قطعہ میں) بیان ہوچکے ہیں دیکھئے [۲:۴۳:۲]میں نمبر۴۔

·       دوسرا جملہ ’’ان البقر تشابہ علینا‘‘ ہے (یعنی انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ) [اِنّ] حرف مشبہ بالفعل اور [البقرَ] اس کااسمِ منصوب ہے۔[تشابہ] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے جس کی ضمیر الفاعل (ھو) ’’البقرَ‘‘ کے لیے ہے اور یہ جملہ فعلیہ ہوکر ’’اِنّ‘‘ کی خبر ہے۔ لفظ (البقر)اپنی ظاہر صورت کے لحاظ سے (بلحاظ لفظ) واحد ہے اسی لیے فعل ’’تشابہ‘‘ اس کے مطابق واحد مذکر آیا ہے) اور بلحاظ معنی (پوری جنس۔ گائے بیل کے لیے ہونے کی بناء پر) جمع بھی ہے [اس لیے اگر یہاں ’’تشابھت‘‘ یا ’’تشابہُ‘‘ (صیغہ مضارع واحد مؤنث غائب (تَتَشَابُہُ) ایک ’’ تا ‘‘ کے حذف کے ساتھ) ہوتا تو عربی میں میں یہ جائز ہوتا مگر قرآن کریم میں قراء ت روایتِ متواتر کے تحت ہوتی ہے اس میں صرفی یا نحوی قیاس نہیں چلتا۔ البتہ یہ باتیں صرف عربی زبان سیکھنے میں مدد دے سکتی ہیں]۔  [علینا] جار مجرور (علی + نا) ملکر فعل ’’تشابہ‘‘سے متعلق ہیں۔ اس فقرے (ان البقر تشابہ علینا) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے: ’’بے شک سب گائے بیل باہم ملتے جلتے ہوگئے (ہیں )ہم پر‘‘ اس کو بامحاورہ بنانے کے لیے بعض مترجمین نے ’’بہت سے بیل (اور گائیں) ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں‘‘ یا ’’ ہم کو تو بہتیری گائیں (یا بیل) ایک طرح کی دکھائی دیتی ہیں‘‘۔ سے ترجمہ کیا ہے اور چونکہ دو چیزوں کا باہم ملتا جلتا ہونا (جو تشابہ کے بنیادی معنی ہیں) اشتباہ (شبہ میں پڑنا) اور التباس (شک میں پڑنا) کا باعث ہوسکتا ہے  اس لیے بعض مترجمین نے ’’تشابہٌ‘‘ (مصدر) کا ترجمہ ’’اشتباہ‘‘ (مصدر) سے کرلیا ہے یعنی ’’ہم کو قدرے اشتباہ ہوگیا ہے/ ہم کو شبہ ہوگیا ہے/ گایوں میں/ بیلوں میں‘‘۔ اسے ہم توضیحی اور بامحاورہ ترجمہ تو کہہ سکتے ہیں مگر یہ اصل لفظ (تشابَہَ) کے بنیادی معنی سے ذرا ہٹ کر ہی ہے۔ کیوں کہ ایک ہی مادہ (شبہ) سے مشتق ہونے کے باوجود ’’تشابہ‘‘ (باب تفاعل)اور ’’اشتباہ (باب افتعال) کے معنی اور استعمال جدا جدا ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بیشتر مترجمین نے یہاں (غالباً محاورہ کی خاطر) ’’اِنَّ‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کردیا ہے۔

·       تیسرا جملہ ’’واِنَّا شاء اللّٰہ لمھتدون‘‘ ہے یعی پہلی دو باتوں کی طرح یہ بھی ان کے ’’قول‘‘ میں شامل ہے۔

[وَ] ’’اور‘‘ (ساتھ یہ بھی کہا کہ [اِنَّا] یہ ’’اِنَّ‘‘ اور اس کے اسم (ضمیر) منصوب (نا) پر مشمتل ہے یعنی یہ  ’’اِنَّنَا‘‘ کی ہی دوسری شکل ہے۔ قرآنِ کریم میں دونوں صورتیں استعمال ہوئی ہیں [اِنْ] حرفِ شرط ہے اور [شاء] فعل ماضی معروف (واحد مذکر غائب) ہے جس کا فاعل [اللّٰہ] (لہٰذا مرفوع) ہے [لمھتدون] یہ ’’اِنَّ‘‘ (’’اِنّا ‘‘ والا) کی خبر ہے اس لیے مرفوع ہے اور اس پر لامِ مز حلقہ برائے تاکید آیا ہے۔ گویا اصل جملہ تو ہے ’’اِنَّا لمھتدون‘‘

·       اب اس جملہ (انا لمھتدون) کے مبتدأوخبر (اسم اِنَّ اور خبر اِنَّ) کے درمیان جو جملہ بطور (بیان) شرط (اِن شاء اللّٰہ) آیا ہے۔ اس کے جوابِ شرط کے بارے میں نحویوں کی مختلف آراء کی روشنی میں دوصورتیں ممکن ہیں۔

(الف) ایک تو یہ کہ خود جملہ ’’انا لمھتدون‘‘ میں ’’اِنَّ‘‘ کی خبر ’’لمھتدون‘‘ ہی (بمعنی ’’اھتدَیْنا‘‘ اس کا جوابِ شرط موجود ہے۔ کیونکہ شرط کا ’’فعل‘‘ جوابِ شرط میں بھی ایک ’’فعل‘‘ چاہتا ہے۔ گویا بلحاظ معنی تقدیر عبارت یوں بنتی ہے ’’اِن شاء اللّٰہُ (ھدایتَنا) اھتدَینا‘‘ (یعنی اگر اللہ تعالیٰ ہماری ہدایت چاہے گا تو ہم ہدایت پالیں گے) اس صورت میں فعل ’’شاء‘‘ (چاہا) کا مفعول ’’ھدایتَنا‘‘ (ہماری ہدایت) بھی محذوف سمجھا گیا ہے۔ (خیال رہے کہ اوپر بصیغۂ ماضی آنے والے والے افعال (شاء اور اھتدینا) کا ترجمہ بصیغۂ مستقبل ’’اِنْ‘‘ شرطیہ کی وجہ سے مناسب ہے کیوں کہ شرط ماضی پر نہیں ہوتی)

(ب)  دوسری صورت (ان شاء اللہ کے جواب کی) یہ ہوسکتی ہے کہ یہاں جوابِ شرط محذوف ہے اور خود یہ جملہ (انا. . . . لمھتدون) اس پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ جواب شرط کے طور پر مقدم آیا ہے۔ اس لیے کہ جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ (بیان شرط یعنی ’’ان شاء اللہ‘‘) یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عبارت کے درمیان آیا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے جیسے کہتے ہیں ’’اِنک ظالمٌ اِنْ فَعْلتَ کذا‘‘ (بے شک تو ظالم ہوگا اگر تو نے ایسا کیا (کرے گا) تو۔ اس تو جیہ کے مطابق تقدیر عبارت یوں بنتی ہے۔’’انا لمھتدون ان شاء اللّٰہ (ھدایتنا)‘‘ (ہم ہدایت پانے والے ہوں گے اگر اللہ  (ہماری ہدایت چاہے گا تو)

·       دونوں (مندرجہ بالا نمبر۱ و ۲) صورتوں میں فعل ’’شاء‘‘ کا مفعول (ھدایتَنا) محذوف ہے۔ دوسری صورت (انا لمھتدون ان شاء اللّٰہ. . . .) میں کلمہ شرط (ان شاء اللّٰہ)  موخر ہے۔ مگر پہلی صورت (ان شاء اللّٰہ انا لمھتدون) (ای اھتدینا)میں کلمۂ شرط مقدم مانا گیا ہے۔ اور غالباً یہی (پہلی صورت والی) وجہ ہے کہ اردو کے قریباً تمام مترجمین نے اس جملہ (بیان) شرط (ان شاء اللّٰہ) کا ترجمہ پہلے کیا ہے اور (جواب شرط کے طور پر) ’’انا لمھتدون‘‘ کا ترجمہ بعد میں کیا ہے۔

·       اس عبارت (زیر مطالعہ) کا لفظی ترجمہ تو بنتا ہے: ’’اور بے شک ہم، اگر چاہا اللہ نے تو ضرور ہدایت پانے والے ہوں گے‘‘۔ تاہم مندرجہ بالا پہلی صورت کو سامنے رکھتے ہوئے مترجمین نے ترجمہ کی ابتدأ  ’’خدا نے چاہا/ خدا چاہے/ خدا نے چاہا تو‘‘ سے کی ہے اور بعض نے ’’ان شاء اللّٰہ‘‘ ہی رہنے دیا ہے کہ وہ اردو محاورہ میں مستعمل ہے۔ اور اس کے بعد ’’انا لمھتدون‘‘ کا ترجمہ غالباً محاورے کی مجبوری کی  بنا پر جملہ اسمیہ کی بجائے جملہ فعلیہ سے کیا ہے۔ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ جوابِ شرط یہاں فعل ’’شاء‘‘ کے مقابلے پر فعل (اھتدینا) ہی بنتاہے جیسے اوپر بیان ہوا ہے۔ البتہ بصورت فعل ترجمہ بوجہ شرط مستقبل سے ہی کیا ہے یعنی: ’’ہم راہ پالیں گے، ضرور راہ پاجائیں گے، ٹھیک سمجھ جائیں گے، ٹھیک پتہ لگالیں گے، ہمیں ٹھیک بات معلوم ہوجائے گی‘‘ کی صورت میں۔ بظاہر یہ سب ’’لمھتدون‘‘ کی بجائے  ’’لنھتدی‘‘ کا ترجمہ (یا مفہوم) معلوم ہوتے ہیں مگر شرط کے ساتھ مستقبل کا مفہوم اس کے سوا (شاید) پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔

(۴)   قَالَ اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِيْرُ الْاَرْضَ وَلَا تَسْقِى الْحَرْثَ    ۚ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيْهَا   

یہ پوری عبارت اس گائے کی صفت بیان کرتی ہے۔ اس عبارت کا ابتدائی حصہ ’’قال انہ یقول انھا بقرۃ‘‘ اس سے پہلے آیت ۶۸ اور پھر ۶۹ میں گزر چکا ہے دیکھئے[۲:۴۳:۲] نمبر۵ اور[۲:۴۴:۲]نمبر۲ مذکورہ بالا دونوں مقامات کی طرح یہاں بھی ’’بقرۃ‘‘ کے بعد والی عبارت اس (بقرہ) کی تین ہی صفات بیان کرتی ہیں [یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے آیت ۶۸ [۲:۴۳:۲ (۵)] میں بھی تین ہی صفات بیان ہوئی تھیں یعنی ’’لافارض، ولا بکر، عوانٌ بین ذلک‘‘ پھرآیت:۶۹ [۲:۴۴:۲(۲)] میں بھی تین ہی صفات مذکور ہوئی تھیں، یعنی ’’۱؎ صفراء۲؎ فاقع لونھا اور۳؎ تسراالناظرین‘‘ اور اب یہاں بھی تین ہی صفات بیان ہورہی ہیں جن کی اعرابی تفصیل یوں ہے:

[لا ذلولٌ] آیت:۶۸ والے ’’لافارضٌ‘‘ کی طرح یہاں بھی ’’لا‘‘ تو برائے نفی (نہیں) ہے۔ اور ’’ذلولٌ ’’بقرۃ‘‘ کی صفت ہے۔ اسم صفت کے طور پر ’’فَعُولٌ‘‘ کا وزن مذکر مؤنث دونوں کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں: ’’رجل صبور وامرأۃ صبورٌ‘‘۔  اس لیے یہاں ’’ذلولٌ‘‘ بلحاظ صفت ’’بیل‘‘ والے معنی کی تائید نہیں کرتا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں ’’ذلولٌ‘‘ سے پہلے ایک مبتدأ (ہی) محذوف ہو اور یوں یہ جملہ ’’لا ھی ذلول‘‘  بھی  ’’بقرۃ‘‘ کی صفت کا کام دے۔ [تُثیر الارض]میں ’’تثِیر‘‘ فعل مضارع معروف (واحد مونث غائب) ہے جس میں ضمیر الفاعلہ (ھی) موجود ہے۔ اور ’’الارضَ‘‘ اس فعل (تثیر) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے اور یہ فقرہ (تُثیر الارضَ) یا تو ’’ذلولٌ‘‘ کا حال لہٰذا محلاً منصوب ہے یعنی ’’وہ ’’ذلول‘‘ نہیں ہے کہ ایسی حالت میں ہو کہ ہل چلاتی ہو‘‘۔ یاپھر یہ جملہ(تثیرالارض) ’’ذلول‘‘ ہی کی (جو کہ نکرہ موصوفہ ہے) مزید صفت ہوکر محل رفع میں ہے۔ یعنی ’’وہ ’’ذلول‘‘ جو کہ زمین پھاڑتی/ہل چلاتی ہے‘‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے بھی ایک محذوف مبتدأ (ھی) کے ساتھ الگ جملہ سمجھا جائے یعنی ’’ھی تثیر الارض‘‘۔ اگرچہ بعض کتبِ اعراب میں یہ سارے اعرابی امکانات مذکور ہوئے ہیں [14] تاہم درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسے صفت ہی سمجھا جائے اس لیے کہ فعل مضارع کا صیغہ اگر کسی اسم معرفہ کے ساتھ آئے تو عموماً اسے حال قرار دیا جاسکتا ہے جیسے کہیں ’’رأیتُ الرجل یکتب‘‘ (میں نے آدمی کو دیکھا کہ وہ لکھتا تھا(یعنی لکھتے ہوئے دیکھا)۔ اور اگر صیغہ مضارع کسی اسم نکرہ کے بعد ہوتو وہ عموماً اس (نکرہ موصوفہ) کی صفت ہوتا ہے۔ جیسے آپ کہیں ’’رأیت رجلًا یکتب‘‘ (میں نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو لکھ رہاتھا)۔

·       بہر حال اگر اسے حال بھی سمجھا جائے تو بھی اردو میں حال کے ساتھ ترجمہ کرنا محاورے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ اس لیے۔ اور شاید صفت ہی سمجھتے ہوئے بھی۔ اکثر مترجمین نے اردو میں اسکا ترجمہ بصورت صفت ہی کیا ہے۔ یہ تراجم  [۱:۴۴:۲ (۸)]گزر چکے ہیں۔

[ولا تسقِی الحرثَ] میں ’’لا‘‘ تو فعل مضارع کو منفی کرنے کے لیے ہے اور ’’ولا‘‘ کی تکرار کے باعث (پہلے ’’لا ذلولٌ‘‘ کے ساتھ آیا ہے) اردو ترجمہ ’’اور نہ ہی‘‘ سے ہونا چاہیے۔ تاہم چونکہ بیشتر مترجمین نے ’’لا ذلولٌ‘‘ کا ترجمہ ’’نہ تو‘‘ ذلول (کمیری، محنت والی وغیرہ) ہے کرنے کے بعد (تثیر الارض) کا ترجمہ مثبت جملہ کی طرح ’’کہ زمین کو جوتتی ہو‘‘ وغیرہ کی صورت میں کیا ہے۔ [دیکھئے ۱:۴۴:۲ (۸)] اس لیے اس زیر مطالعہ منفی جملہ (ولا تسقی الحرث) کے ترجمہ میں غالباً اردو محاورے کی بنا پر ’’نہ ہی‘‘ نہیں لائے بلکہ سادہ منفی جملے کی طرح کردیا ہے [دیکھئے ۱:۴۴:۲ (۹)] ویسے ’’لا ذلول‘‘ کے ’’نہ تو‘‘ کے بعد یہاں ’’ولا‘‘ کا ترجمہ ’’اور نہ ہی‘‘ سے ہونا چاہیے  مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس جملہ (لاتسقی الحرث) میں ’’لاتسقی‘‘ تو فعل مضارع منفی (واحد مونث غائب) ہے اور ’’الحرثَ‘‘ اس کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ اور یہ پورا جملہ فعلیہ (لاتسقی الحرث) بھی ’’ذلولٌ‘‘ کی صفت (یا حال) ہے۔ اور پھر یہ پورا جملہ (لا ذلول تثیر الارض ولا تسقی الحرث) زیر مطالعہ جملے میں بیان کردہ ’’بقرۃ‘‘ کی تین صفات میں سے پہلی صفت بنتا ہے۔ (یعنی ایسی گائے جو ’’ذلول‘‘ نہ ہو کہ ہل چلاتی اور آب پاشی کے کام آتی ہو)

[مُسلَّمۃ] یہ اس (زیر مطالعہ اعرابی) عبارت میں ’’بقرۃ‘‘  کی دوسری صفت ہے۔ (یعنی ’’بقرۃٌ مسلَّمۃٌ‘‘) اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہاں بھی ایک مبتدأ (ھی) محذوف ہے اور پھر ’’ھی مسلَّمۃ‘‘ بصورتِ جملہ ’’بقرۃ‘‘ کی صفت بنتی ہے۔  [لا شیۃَ فیھا] میں ’’لا‘‘ تو نفی جنس والا ہے اور ’’شِیَۃَ‘‘ اس کا اسم منصوب (مبنی بر فتحہ (ـــــَــــ) ہے اور ’’فیھا‘‘ جار مجرور  (فی + ھا) اس ’’لا‘‘  نفی الجنس کی خبر کا کام دے رہا ہے لہٰذا محلاً مرفوع ہے اور یہ جملہ (لا شیۃَ فیھا) ’’مسلَّمۃ‘‘ کی صفت بھی بن سکتا ہے۔ یعنی ایسی ’’مسلّمۃ‘‘ جو کہ ’’لاشیۃَ فیھا‘‘ ہے۔ اور پھر یہ سب مل کر (مسلمۃ لاشیۃَ فیھا) ’’بقرۃ‘‘ کی صفت بن سکتا ہے۔ (ایسی ’’صحیح سالم‘‘ جس میں کسی طرح کا داغ دھبّہ نہ ہو) اور بھی ممکن ہے کہ اس ’’لاشیۃ فیھا‘‘ (اس میں کوئی داغ نہیں) کو ہی  ’’بقرۃ‘‘ کی تیسری صفت (پہلی’’لا ذلول‘‘ اور دوسری ’’مسلَّمۃ‘‘ سمجھ لیاجائے۔ ’’مسلمۃ لا شیبۃ فیھا‘‘ کے تراجم کے لیے دیکھئے[۱:۴۴:۲ (۱۱۔۱۲]۔

(۵)  قَالُوا الآن  جِئْتَ بِالْحَقِّ  (’’الآن‘‘ کے رسم قرآنی پر آگے ’’الرسم‘‘ میں بات ہوگی) ــــــ  [قالوا] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر الفاعلین (ھم) بھی شامل ہے۔ [الاَن] ظرف زمان (بمعنی ’’اب۔ اس وقت‘‘) فعل ’’جئتَ‘‘ سے متعلق ہے اور [جئت] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعل ’’أنتَ‘‘ (تو) ہے۔ [بالحق] میں ’’باء‘‘ (بِ) تو تعدیہ کے لیے ہے جس سے ’’الحقَّ‘‘ فعل ’’جئتَ ب. . . . .‘‘ کا مفعول بنا ہے اور محلاً منصوب ہے۔ اس کا ترجمہ وغیرہ [۱:۴۴:۲ (۱۴] گزر چکا ہے۔

(۵)   فَذَبَحُوْھَا وَمَا كَادُوْا يَفْعَلُوْنَ

ابتدائی فاء [فَ] عاطفہ ہے اور [ذبحوا] فعل معروف مع ضمیر الفاعلین ’’ھم‘‘ ہے۔ اس میں ’’واو الجمع‘‘ (آخری واو) کے بعد والا الف زائدہ ضمیر مفعول کے ساتھ آنے کی وجہ سے نہیں لکھا گیا۔ الگ فعل کی بات کرتے وقت سمجھانے کے لیے ہم نے یہ الف لکھا ہے۔ [ھا] ضمیر منصوب اس فعل (ذبحوا) کا مفعول بہ ہے اور (اسی) ضمیر کے مفعول آنے کی وجہ سے ’’ذبحوا‘‘ کی بجائے فعل کو بصورت ’’ذبحو‘‘ لکھا گیا ہے۔ [وَ] یہاں حالیہ ہی ہوسکتی ہے [ما] نافیہ ہے اور [کادُوا] فعل مقارب صیغۂ ماضی (جمع مذکر غائب ہے اور اس کے بعد [یفعلون] فعل مضارع معروف (جمع مذکر غائب) ہے اور یہ وہ فعل ہے جسے نحو میں ’’کاد‘‘ کی خبر کہا جاتا ہے، کاد کے استعمال پر البقرہ:۲۰ [۱:۱۵:۲ (۱)] میں بات ہوئی تھی۔ اور جس کے ہونے یا نہ ہونے کو فعل ’’کاد‘‘ کا منفی یا مثبت استعمال متعین کرتا ہے۔ خیال رہے اگر فعل مقارب (کاد) بصورت ماضی منفی ہو (جیسے یہاں ’’ماکادوا‘‘ ہے) تو معنی یہ ہوتے ہیں کہ ’’وہ فعل ہو تو گیا اگرچہ ہوتا لگتا (ہونے کے قریب) نہ تھا‘‘۔ اور اگر فعل مقارب بصورت ماضی مثبت (مثلاً ’’کاد‘‘ وغیرہ) ہوتو مطلب یہ ہوتا ہے کہ ’’وہ فعل(ابھی) ہوا تو نہیں اگرچہ ہونے کے قریب (آ  لگا) تھا‘‘۔

 

۳:۴۴:۲      الرسم

زیر مطالعہ قطعۂ آیات (البقرہ:۶۹۔۷۱) میں بلحاظ ’’الرسم‘‘ صرف مندرجہ ذیل کلمات توجہ طلب ہیں۔ یہاں فرق سمجھانے کے لیے پہلے ان کو عام ’’رسم املائی‘‘ میں لکھا جاتا ہے۔ پھر ان کے رسم قرآنی یا عثمانی پر بات ہوگی۔ یہ کل تین کلمات ہیں۔ یعنی الناظرین۔ تشابہ اور الآن= تفصیل یوں ہے:

(۱) الناظرین۔ کا قرآنی (عثمانی) رسم باتفاق ’’حذف الالف بعد النون‘‘ کے ساتھ ہے یعنی یہ بصورت ’’النظرین‘‘ لکھا جاتا ہے۔ یہ لفظ اس طرح بصیغۂ جمع مذکرسالم )اور بحالت نصب یا جر) قرآن کریم میں کل پانچ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ بالاتفاق علمائے رسم بحذف الالف بعد النون (یعنی ’’النظرین‘‘) ہی لکھا جاتا ہے۔ ترکی اور ایران کے مصاحف میں اسے عام رسم املائی کی طرح باثباتِ الف بعد النون لکھنے کی غلطی عام ہے۔ البتہ قرآنِ کریم میں دو جگہ لفظ ’’ناظرۃ‘‘ (واحد مؤنث) آیا ہے وہاں بالاتفاق اسے باثبات الف (ناظرۃ) ہی لکھا جاتا ہے۔ ان پر مزید بات حسبِ موقع ہوگی ان شاء اللہ تعالی۔

(۲) تشابہَ: یہ لفظ جو باب تفاعل کا صیغہ ماضی (واحد مذکر غائب) ہے قرآن کریم میں اِس (زیر مطالعہ) مقام پر بالاتفاق بحذف الالف بعد الشین یعنی بصورت ’’تشبہَ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں کل تین جگہ آیا ہے۔ (البقرہ:۷۰، آل عمران:۷ اور الرعد:۱۶) اور ایک جگہ ’’تشابَھَتْ‘‘ (صیغہ واحد مؤنث غائب) بھی آیا ہے (البقرہ:۱۱۸)۱ اور پانچ چھ جگہ اس سے مشتق اسم الفاعل (متشابہ وغیرہ) آئے ہیں۔ ان میں سے صرف زیر مطالعہ آیت (البقرہ:۷۰) میں ہی اسے ’’شین‘‘ کے بعد والے ’’الف‘‘ کے حذف کے ساتھ لکھنے پر اتفاق ہے (یعنی ’’تشبہ‘‘ کی شکل میں) باقی مقامات پر اس ’’الف‘‘(بعد الشین) کے حذف و اثبات کے بارے میں ’’الدانی‘‘ اور ’’ابودائود‘‘ میں اختلاف ہے۔ ان مختلف فیہ کلمات (جن میں خود ’’تشابہ‘‘ بھی دو جگہ آتا ہے) کے اسم پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(۳) الآنَ= یہ اس لفظ کا رسم املائی ہے اور یہاں جو بطورضبط  الف (بعد اللام) پر ایک مد  ڈالی گئی ہے یہ بھی عام املائی ضبط ہے قرآنِ کریم میں اس قسم کی مد صرف اس الف ما قبل مفتوح (ــــــِـــــ ا )یا واو ماقبل مضموم ( ــــــُــــ وْ ) یا اس یاء ماقبل مکسور (ــــــِـــیْ) پر لکھی جاتی ہے جن کے بعد کوئی ہمزہ (بصورت الف) سے لکھا جانے والا حرف آئے (جیسے مَآ اُنْزِل، قالُوْآاَنُومن اور فِیٓ اٰذانھم میں ہے)  الآن کی یہ مد اس قسم کی نہیں ہے بلکہ یہ عربی رسم املائی میں اردو کے  آم، آج  کی طرح لکھی جاتی ہے، قرآن کریم میں نہیں ۔

·       یہ لفظ قرآن کریم میں یہاں بالاتفاق بحذف الالف بعد اللام لکھا جاتا ہے یعنی بصورت ’’الن‘‘ اس کا ابتدائی ہمزہ تو ہمزۃ الوصل ہے مگر لام کے بعد والا ہمزہ قطع کا ہے۔ جسے پڑھا ضرور جاتا ہے اور اسے بذریعہ ضبط ظاہر کرنے کے مختلف طریقے ہیں جو آپ ’’الضبط‘‘ کے تحت دیکھیں گے۔

اصل عثمانی مصاحف میں ہمزہ کہیں بھی نہیں لکھا گیا تھا۔ اہلِ زبان میں سے جو کسی لفظ میں ہمزہ پڑھتے (بولتے) تھے تو وہ سمجھ جاتے تھے اور جو اس لفظ میں ہمزہ نہیں بولتے تھے وہ اسے ہمزہ کے بغیر پڑھ لیتے تھے [دیکھئے البقرہ:۱۴[۳:۱۱:۲] میں ’’ مُسْتَہْزِئُ وْنَ ‘‘ کے رسم کی بحث] یوں اس لفظ کو لام اور نون کے درمیان ایک ہمزہ (بغیر نبرہ کے) لکھا جاتا ہے یعنی بصورت’’الْـٰــن‘‘ تاہم افریقی مصاحف میں اس کے ضبط ظاہر کرنے کی اور صورتیں بھی ہیں جو آپ آگے دیکھیں گے مگر سب مصاحف میں اس لفظ کی اصل شکل ’’الــــن‘‘  ہی رہتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ آٹھ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ اسی طرح بحذف الف بعد اللام لکھا جاتا ہے۔ صرف ایک جگہ (الجن:۹) میں یہ باثبات الف بصورت ’’الان‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اس پر مزید بات اپنے موقع پر ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

 

۴:۴۴:۲      الضبط

زیر آیات کے کلمات میں ضبط کا تنوع حسب ذیل نمونوں سے سمجھ سکتے ہیں۔

 

 



 [1]  مثلاً دیکھئے اعراب القرآن للنحاس ۱: ۲۳۶۔ نیز مشکل اعراب القرآن للقیسی ۵۴:۱۔

[2]  باب سَمِعَ سے وسِع یسَع (پھیل جانا) اس قاعدے کا ایک استثناء ہے ورنہ عموماً اس باب کا مضارع اصلی حالت میں رہتا ہے جیسے وَجل یَوْجَل (ڈرنا)۔

 

[3]  مثلاً دیکھئے المفردات (راغب) القاموس المحیط، المعجم الوسیط، البستان۔

 

 [4]  مثلاً المنجد، القاموس العصری اور Hans Wehr بعض نے اس کا ’’اون‘‘ سے ہونا بطور ایک قول کے (یعنی قیل کہہ کر) ذکر کیا ہے مثلاً دیکھئے مشکل اعراب القرآن (للقیسی) ۵۴:۱۔ النحوالوافی ۲۶۴:۲ نیز Lane مادہ ’’اون‘‘

[5]  دیکھئے معجم مفردات الاعلال والا بدال فی القرآن الکریم (للخراط) ص ۴۱۔

[6] معجم مفردات الاعلال (للخراط) ص ۴۰۔

[7]   دیکھئے Lane مادہ این۔ نیز مختار الصحاح ص ۳۶۔

 

 

   [8]   اہل علم حضرات اپنے ذوق کی تسکین کے لیے چاہیں تو دیکھ لیں: البیان (لابن النباری)۹۵:۱۔ Lane(مادہ این)، البستان (مادہ این) ، النحوالوافی۲۶۴:۲، نیز الخراط کی معجم مفردات الاعلال والا ابدال فی القرآن الکریم ص ۴۰۔۴۱۔

[9]    دیکھئے النحوالوافی ۲۵۰:۲

[10]   نفس المصدر: ۲۶۳:۲

[11]  دیکھئے Lane (مادہ این) اور Hans Wehr (مادہ اون ) جہاں یہ سب مثالیں بیان ہوئی ہیں بلکہ مؤخر الذکر کرنے ’’آنئذٍ‘‘ اور ’’آنذاکَ‘‘ (ہر دو بمعنی تب، اس وقت یا اس دن) کا بھی ذکر کیا ہے جو ’’آنَ‘‘ منصوب بظرفیت اور مضاف کی جدید مثال ہے۔

[12]  دیکھئے النحوالوافی ۲۶۴:۲ مع حاشیہ

[13]   دیکھئے Hans Wehr  تحت مادہ ’’اون‘‘۔ یہ ترکیب اور ’’آنٌ‘‘ کا بطور معرب اور نکرہ (بغیر ال) استعمال قدیم کتب و نحو میں مذکور نہیں ہے۔

 

[14]  مثلاً البتیان (للعکبری) ۱:۷۶