سورۃ البقرہ آیت نمبر۷

۶:۲ خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ   ۭ   وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ  وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (۷) 

۱:۶:۲ اللغۃ

۱:۲:۶(۱)     [خَتَمَ] کا مادہ ’’خ ت م‘‘ اور وزن ’’فَعَلَ‘‘ ہے ۔ یعنی یہ ثلاثی مجرد کے فعل ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب (پہلا صیغہ) ہے۔ اس مادہ (ختم) سے فعل ثلاثی مجرد باب ضرب سے اور ہمیشہ متعدی آتا ہے۔اکثر صلہ ’’علٰی‘‘ کے ساتھ اور کبھی بغیر صلہ کے (مفعول بنفسہ کے ساتھ) آتا ہے۔ مگر دونوں صورتوں ـــمیں ایک ہی باب (ضرب) سے ہوتے ہوئے بھی ـــمعنی الگ الگ ہوتے ہیں اور عربی میں یہ فرق مصدر کے فرق سے ظاہر ہوتا ہے اس کی تفصیل یوں ہے۔

        ’’عَلٰي ‘‘ کے صلہ کے ساتھ یہ فعل خَتَمَ عَلییَختِمُ خِتامًا کی شکل میں آتا ہے اور اس کے معنی ’’… پر مہر لگا دینا،ـــ کو سر بمہر کردینا‘‘ (تاکہ اب (اس) میں نہ کچھ داخل ہوسکے اور نہ کچھ اس سے نکل سکے) قرآن کریم میں اس فعل سے اور ان معنی کے لیے صیغہ ماضی (خَتَمَ) تین جگہ (البقرہ: ۷، الانعام:۴۶ اور الجاثیہ :۲۳)اور صیغہ مضارع (یَختِمُ)ایک جگہ (الشوریٰ: ۲۴) اور نَختِمُ(جمع متکلم) بھی ایک جگہ (یٰسین: ۶۵) آیا ہے۔ اور ہر جگہ ان صیغوں کے ساتھ صلہ ’’ عَلٰي‘‘ ہی آتا ہے ان (مذکورہ بالا) معنی کے لیے اس فعل کا مصدر عموماً ’’خِتام‘‘ ہوتا ہے جو قرآن کریم میں بھی ایک جگہ (المطففین:۲۶) میں وارد ہوا ہے۔ اردو محاورے اور علی کے صلہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے مترجمین نے یہاں ’’خَتَمَ…‘‘  کا ترجمہ ’’مہر کی، مہر کردی، بند لگادیا، مہر لگادی، مہر لگا رکھی ہے‘‘ سے کیا ہے۔

        صلہ کے بغیر یہ فعل ثلاثی مجرد(اسی باب ضرب سے) خَتَمَ … یَختِمُ خَتماً آتا ہے اور اس کے معنی ’’…(کسی کام)… کو پورا کرلینا‘‘ ہوتے ہیں مثلاً ختم الکتاب: اس نے پوری کتاب پڑھ لی یا ختم العمل: اس نے کام مکمل کرلیا۔ اس صورت میں اس فعل کا مصدر عموماً ’’خَتْم‘‘آتا ہے۔  [اور اسی سے ’’خَتْم القرآن‘‘ استعمال ہوتا ہے] تاہم ان معنوں میںـــ یا صلہ کے بغیر یہ فعل قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔ عربی زبان میں تو اس مادہ (ختم) سے مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی افعال مختلف معنوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں ـــ بلکہ لفظ ’’اختتام‘‘ـــ جو باب افتعال کا مصدر ہے۔ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے مزید فیہ کا بھی کوئی فعل نہیں آیا ہے۔

       [اللّٰہ] کے امکانی مادہ اور اشتقاق وغیرہ پر ’’بسم اللہ‘‘ کی بحث میں بات ہوچکی ہے۔دیکھئے ۱:۱:۱(۲)

۱:۶:۲ (۲)     [عَلٰي قُلُوْبِهِمْ] جو علی (پر) + قلوب (دلوں) +ھُم (ان کے) کا مرکب ہے۔ ان (تین) کلمات میں سے [علی]تو یہاں گزشتہ فعل ’’ختم‘‘ کے صلہ کے طَور پر آیا ہے اور ’’خَتم عَلٰی‘‘ کے معنی اور مصدر پر بات ابھی اوپر گزری ہےـــ تاہم بطور حرف الجّر کے بھی اس (عَلٰی)کے متعدد معنی اور استعمالات ہیں۔ اہم اور زیادہ مستعمل مواقع کا اردو ترجمہ حسبِ موقع (۱)…پر، (۲)…کے اوپر ، (۳)…کے باجود، (۴)… کے ہوتے ہوئے، (۵)…کے موقع پر (۶)…کے خلاف (۷)…کی بنا پر۔ وغیرہ سے کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ (علی) کبھی کسی دوسرے حرف الجّر مثلاً   مِنْ (سے)، بِ (کے ساتھ) اور فی (میں) کے معنی میں بھی آتا ہے ـــاور یہی (علٰی) مختلف افعال کے ساتھ بطور صلہ استعمال ہوکر ان میں متعدد معانی پیدا کرتا ہے۔ یہ بات پہلے بھی (۱:۶:۱(۳)) بیان ہوچکی ہے کہ ضمائر کے ساتھ استعمال ہوتے وقت اس کا ملفوظی الف مقصورہ ’’یاء‘‘ میں بدل جاتا ہے یعنی اسے علٰی (’’علا‘‘) کی بجائے ’’عَلَیْ‘‘ پڑھا جاتا ہے اور (قُلُوْبِ) کا مادہ ’’ق ل ب‘‘ اور وزن ’’فُعُوْلٌ‘‘ ہے۔ یہ لفظ جمع مکسر ہے اس کا واحد ’’قَلْبٌ‘‘ ہے جس کا اردو ترجمہ ’’دل‘‘ ہے۔

        اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد قَلَبَ…یَقلِبُ قَلْبًا (باب ضرب سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’کو اُلٹ دینا/پلٹ دینا‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ فعل حسی نیز معنوی ’’اُلٹ پلٹ ‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’قَلب الرِداءَ‘‘ (چادر کو الٹ دینا۔ اوپر کا حصہ نیچے یا اندر کا حصہ باہر کردینا)’’قلَب الامرَ‘‘ (معاملے کی خوب جانچ پڑتال کرنا)۔ قرآن کریم میں اس کا فعل ثلاثی مجرد بصیغئہ مضارع مجہول صرف ایک جگہ (العنکبوت:۲۱) آیا ہے (اور اس میں بھی بابِ افعال سے ہونے کا احتمال موجود ہے) ۔البتہ مزید فیہ کے ابواب تفعیل، تفعّل اور انفعال سے اَفعال کے کچھ صیغے اور بعض مصادر اور اسماء مشتقہ تیس۳۰ سے زائد مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ ان سب پر اپنی اپنی جگہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔

        کلمۂ ’’قلْب‘‘ (جس کی جمع ’’قلوب‘‘اس وقت زیر مطالعہ ہے) اسی مادہ سے ثلاثی مجرد کا مصدر بھی ہے اور ایک اسم بھی۔ اس کا عام اردو ترجمہ ’’دل‘‘ ہی کیا جاتا ہے۔ یعنی انسانی جسم کا صنوبری شکل کا وہ اندرونی عضو جو بدن میں دورانِ خون کا ذمہ دار ہے۔ یہ لفظ (قلب) بصیغۂ واحد (مفرد یا مرکب) کل ۱۴ جگہ اور اس کی جمع (قلوب) مفرد یا مرکب صورت میں کل ۱۱۲ جگہ (قرآن کریم میں) آئی ہے۔ تاہم قرآن کریم میں’’قلب‘‘کے اعمال و افعال اور صفات و کیفیات جس طرح بیان ہوئی ہیں، ان کا تعلق علم افعال الاعضاء (Physiology) سے نہیں بلکہ نفسیات اور روحانیات سے ہے۔ اس لیے مجازاً ’’قلب‘‘کو حسب موقع باطن، ذہنی کیفیت، عقل، ضمیر، روح، نفس، قوّتِ ادراک وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور قلب کو انسان کی باطنی، روحانی، ذہنی اور نفسیاتی کیفیات و جذبات اور ارادہ و احساسات کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کیفیت ’’دل پر مہر لگ جانا ہے‘‘ جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ قرآن کریم کی سوا سو (۱۲۵)سے زائد ’’ آیات القلب‘‘ اہل تفسیر کا عموماً اور اہل تصوف کا خصوصاً موضوع بحث ہیں۔ بلکہ شاید بعض جدید علوم مثلاً  نفسیات اور تحلیلِ نفسی کے ماہرین کے لیے بھی قابلِ توجہ ہوسکتی ہیں۔ تاہم اس قسم کی بحث میں جانا ہمارے موضوع اور دائرہ کار سے خارج ہے۔

        ’’عَلٰي قُلُوْبِهِمْ‘‘کا ترجمہ بیشتر مترجمین نے لفظ ’’قلوب‘‘  کی جمع کی رعایت سے ’’ان کے دلوں پر‘‘ کیا ہے۔ تاہم بعض نے صرف واحد کے ساتھ ’’ان کے دل پر ‘‘ سے بھی ترجمہ کیا ہے جو شاید اردو محاورے کے اعتبار سے درست ہو مگر الفاظِ عبارت کے لحاظ سے محل نظر ہے۔

۱:۶:۲(۳)     [وَعَلٰي سَمْعِهِمْ] جووَ +عَلی+سَمْع+ھم ہے اور میں ’’و‘‘ تو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے۔ ’’ عَلٰي‘‘ گزشتہ فعل خَتَمَ کا صلہ ہے اور اس (علی)کی تکرار تاکید اور زور کے لیے ہے جسے اردو میں ’’بھی‘‘ یعنی ’’پر بھی‘‘ سے ظاہر کیا جاسکتاہے۔ آخری ’’ھم‘‘ ضمیر مجرور بمعنی ’’ان کا‘‘ہےاور [سَمْعٌ] کا مادہ ’’س م ع‘‘ اور وزن ’’فَعْلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد ’’سَمِعَ … یَسمَع سَمْعًا‘‘ (باب سمِع سے بلکہ اس فعل سے باب کا نام اخذ کیا گیا ہے) آتا ہے۔ اس کے معنی ’’…کو سننا‘‘ یا صرف ’’سننا یا سن لینا‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ فعل ہمیشہ متعدی ہوتا ہے اگرچہ اکثر اس کا مفعول محذوف اور غیر مذکور ہوتا ہے۔

·       ’’سَمْعٌ‘‘ دراصل تو مصدر ہے بمعنی ’’سننا‘‘ پھر یہ ’’سماعت‘‘ (جو خود بھی مصدر ہے اور اردو میں مستعمل ہے) یا قوتِ سامعہ (سننے کی حِس) او ر بعض دفعہ خود ’’کان‘‘(عضو سماعت) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم چونکہ یہ لفظ (سمع) مصدر ہے اور مصدر میں قلت یا کثرت (بلحاظ عدد) دونوں کا احتمال ہوتا ہے اس لیے یہ واحد او رجمع دونوں معنوں کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ جیسے یہاں (آیت زیر مطالعہ) میں آیا ہے۔ ویسے اس کی جمع مکسر ’’اسماع‘‘ وغیرہ آتی ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ لفظ بائیس (۲۲) جگہ آیا ہے اور ہر جگہ بصیغۂ  واحد مگر (عموماً) بمعنی ءجمع ہی استعمال ہوا ہے۔ اور زیادہ تر (۱۲ جگہ) معرف باللّام (السَمْع) اور آٹھ جگہ مضاف ہوکر آیا ہے۔ جس کی بنا پر یہ مصدری معنی (سننا) کی بجائے قوت سامعہ یا عضو سماعت (کان) کے معنی دیتا ہے۔ اور شاید اسی بناء پر بیشتر مترجمین نے ’’عَلٰي سَمْعِهِم‘‘ کا ترجمہ ’’ان کے کانوں پر‘‘ کیا ہے بعض نے صرف واحد کے ساتھ ’’ان کے کان پر ‘‘ کیا ہے یعنی لفظ کی رعایت سے اور جن مترجمین نے اس (سَمْعِهِم) کا ترجمہ ’’ان کی شنوائی‘‘ کیا ہے وہ مصدر کا ترجمہ حاصل مصدر کے ساتھ ہونے کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہے۔

        اس مادہ (سمع) سے بکثرت اسماء اور مختلف ابواب سے بہت سے افعال قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں۔ ہر ایک کا بیان اپنی اپنی جگہ ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

۱:۶:۲(۴)     ]وَعَلٰي اَبْصَارِهِمْ[جو دراصل وَ+علی+ابصار+ھم کا مرکب ہے۔ اس میں وَ (اور) علی(پر اور هم(ان کی) کے معنی تو اب آپ کو معلوم ہی ہو چکے ہیں (ابھی اوپر بھی اس کا ذکر ہوا ہے) البتہ توجہ طلب لفظ ’’ اَبْصَار‘‘ہے (اس لفظ کی عام عربی املاء یہی (ابصار)ہے۔ اس کے رسمِ قرآنی یا عثمانی پر بات ابھی آگے بحث ’’الرسم‘‘ میں آئے گی)

·       اَبْصَار]کا مادہ ’’ب ص ر‘‘ اور وزن ’’اَفعال‘‘ہے۔ یہ جمع مکسّر ہے اور اس کا واحد ’’بَصَرٌ‘‘بروزن ’’فَعَلٌ‘‘ہے۔ اس مادہ (بصر) سے فعل ثلاثی مجرد ’’بَصَرَ یَبصُر بصَرًا (باب کرم سے) اوربَصِر یبصَر بصَرًا (باب سمع سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ’’دیکھنا‘‘ ہیں یہ فعل ’’باء (بِ)‘‘ کے صلہ کے ساتھ بھی آتا ہے اور بغیر صلہ کے بھی اور دونوں صورتوں میں متعدی ہوتا ہے یعنی ’’بصُرَبِہ‘‘ و ’’بصِربہ‘‘ اور ’’بصُرٖہ‘‘ اور ’’بَصِرہ‘‘ کے معنی ’’…کو دیکھ لینا، …کو جان لینا، کو سمجھ جانا، ‘‘ ہوتے ہیں۔ اس فعل میں محض آنکھ سے ’’دیکھ لینا،…کو جان لینا، کو سمجھ جانا‘‘ ہوتے ہیں۔[1]    اس فعل میں محض آنکھ سے ’’دیکھ لینا‘‘ سے بڑھ کر دماغ سے ’’جان لینا‘‘ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے۔ نیز صلہ (بِ) کے ساتھ استعمال زیادہ فصیح شمار ہوتا ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ فعل ہر جگہ باء (بِ) کے صلہ کے ساتھ اور وہ بھی صرف "باب کرُم "سے ہی آیا ہے عربی میں یہ فعل" باب نصر"سے بھی مختلف معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے تاہم قرآن کریم میں یہ باب (نصر) اور اس کے معنی کہیں استعمال نہیں ہوئے۔

·       بَصَرٌ‘‘ (جو ابصار کا واحد ہے) دراصل تو اسی فعل ثلاثی مجرد (باب کرُم یا سمع سے) کا مصدر بمعنی ’’دیکھنا‘‘ ہے۔ پھر یہ بصارت بمعنی ’’نظر، نگاہ، بینائی یا قوت باصرہ (دیکھنے کی حس) اور بعض دفعہ خود آنکھ(عضو ِبصارت) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے[خیال رہے لفظ ’’بصارت‘‘ جو عربی میں ’’بصارۃ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ یہ خود بھی مذکورہ  بالا دونوں ابواب سے ثلاثی مجرد کا مصدر ہے) اور پھر ان ہی (چشم یا آنکھ) کے معنی کے لحاظ سے اس کی جمع ’ ’ ابصار‘‘ آتی ہے اور اسی لیے بیشتر مترجمین نے عَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ‘‘ کا ترجمہ … ان کی آنکھوں پر کیا ہے۔ ورنہ مصدرمیں تو قلت اور کثرت دونوں کا احتمال ہوتا ہے اور اسی لیے واحد (بصَرٌ) بمعنی جمع (ابصار) بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ تاہم لفظ ’’سَمْعٌ‘‘ کے برعکس (جو قرآن کریم میں ہر جگہ بصورت واحد (سمعٌ) ہی استعمال ہوا ہے) ـــ یہ لفظ(بَصَرٌ)زیادہ تر بصورت جمع (ابصار)ہی استعمال ہوا ہے۔ معرف باللام ہوکر (الابصار) بھی اور مضاف ہو کر بھی (جیسےیہاں آیت ِ زیرمطالعہ میں ہے)۔

·       قرآن کریم میں لفظ ’’سمع‘‘ (جیسا کہ اوپر بیان ہواہے) مختلف شکلوں (مفرد مرکب معرفہ نکرہ) میں بائیس (۲۲) جگہ آیا ہے اور ہر جگہ اسی طرح (بصیغۂ واحد) ہی آیا ہے البتہ لفظ ’’اُذُن‘‘ (کان) واحد تثنیہ جمع ہر طرح استعمال ہوا ہے۔ اس پر بات اپنی جگہ ہوگی۔ اس کے مقابلے پر لفظ ’’بصر‘‘ (بصیغہ واحد) زیادہ تر (۸ جگہ) معرّف باللام (البصر) اور دو جگہ مضاف ہو کر آیا ہے۔ اور بصیغہ جمع (ابصار)یہ لفظ معرفہ نکرہ مفرد مرکب شکلوں میں چالیس۴۰ کے قریب مقامات پر وارد ہوا ہے۔ واحد جمع کے اس فرق کے علاوہ جہاں بھی یہ دونوں لفظ (سمع اور ابصار) ساتھ ساتھ آئے ہیں وہاں ’’سمع‘‘ پہلے اور ’’ابصار‘‘ بعد میں آیا ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس فرق کی توجیہ کی کوشش بھی کی ہے۔[2]   یہ اہل تفسیر کا میدان ہے ہم تو اہل عرب کے استعمال اور ان کے ذوقِ فصاحت کو ہی اس کی وجہ سمجھتے ہیں ـــ اس مادہ (بصر) سے بکثرت اسماء و افعال (۱۵۰ کے قریب مقامات پر) آئے ہیں، جن پر اپنے اپنے موقع پر بات ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

۱:۶:۲(۵)      ]غِشَاوَةٌ[کا مادہ ’’غ ش و‘‘اور وزن ’’فِعَالۃُ‘‘ہے اس لفظ کی بھی عام عربی املاءـــ رسم معتاد کے مطابق ـــیہی (غشاوۃ) ہے۔ اس کے رسمِ قرآنی یا رسمِ عثمانی پر بات ابھی آگے ’’الرسم‘‘ میں ہوگی اس مادہ (غ ش و)سے فعل ثلاثی مجرد زیادہ تر باب سمع سے ، متعدی اور بغیر صلہ کے آتا ہے ’’غَشِی… یَغشٰی (دراصل غشِو یَغشَوُ) غَشاوةٌ‘‘ـــ اور اس کے معنی ہیں ’’…کو ڈھانپ لینا، چھپا لینا یا …پرچھا لینا یا …پرچھا جانا‘‘ـــ یہ فعل یائی ا للّام مادہ (غ ش ی) سے بھی اسی باب (سمع) سے اور ان ہی (مذکورہ بالا) معنی کے لیے آتا ہے۔ البتہ ’’یایٔ‘‘ کی صورت میں مصدر ’’غشایۃ‘‘ ہو جاتا ہے۔ مزید فیہ کے باب استفعال سے بھی دونوں مادے ہم شکل (اِستَغشٰی) اور ہم معنی (کپڑا اوڑھ لینا یا لپیٹ لینا) استعمال ہوتے ہیں البتہ، بعض اصحاب لغت (مثلاً اقرب الموارد) کے نزدیک، مزید فیہ کے ابواب اِفعال، تفعیل اور تفعل (اَغْشٰی، غَشَّی، تغشَّی) صرف یائی ا للّام مادے سے آتے ہیں۔ ویسے صرفی تعلیل کے لحاظ سے بھی واوی ہو یا یائی دونوں کی شکل یکساں ہی رہتی ہے۔ اس مادہ (یا ان دونوں مادوں) سے اسماء اور افعال کی متعدد صورتیں قرآن کریم میں وارد ہوئی ہیںـــ ہر ایک کا بیان اپنے اپنے موقع پر آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

·       لفظ ’’ غِشَاوَةٌ‘‘ دراصل تو فعل ثلاثی مجرد کا ایک مصدر ہے۔ پھر مصدر بمعنی اسم الفاعل لیتے ہوئے ’’غشاوۃ‘‘ سے مراد وہ چیز لی جاتی ہے جس سے کسی شے کو ڈھانپنے کا کام لیا جائے یاجو ڈھانپ دینے کاکام دے۔ اور یہ لفظ (غشاوۃ)حسی سے زیادہ معنوی مفہوم کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اورخصوصاًآنکھ یا دل کو ڈھانپ لینے یا ان پر ’’پردہ ڈالنے‘‘ کے معنی دیتا ہے۔ ان معنی کے لیے عربی زبان میں یہ لفظ (غشاوۃ)مثلث الغین ہے۔ یعنی اس کی ’’غ‘‘ پر تینوں حرکات (ـــــَــــ ، ــــــِــــ ، ـــــُـــــ)  پڑھی جاسکتی ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں  (خصوصا روایت حفص میں) یہ لفظ ’’غ‘‘ کی کسرہ (ــــــِــــ) سے ہی پڑھا گیاہے۔اور مندرجہ بالا مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اکثر مترجمین نے اس لفظ کا اردو ترجمہ ’’پردہ‘‘ ہی کیا ہے ۔  ایک صاحب نے غالباً محاورے کے جوش میں اس کا ترجمہ ’’گھٹا ٹوپ‘‘ بھی کر دیا ہے جو بظاہر ’’غِشَاوَةٌ ‘‘ سے زیادہ مُظلِم یا ظلُمات کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔

وَلَھُمْ] میں ’’و‘‘ عاطفہ (بمعنی اور) ہے اور ’’لَھُمْ‘‘ میں ضمیر مجرور (ھُمْ) سے پہلے لام الجرّ (لِ)ہے جو ضمائر کے ساتھ (یائےمتکلم کے سوا) ہرجگہ مفتوح (لَ) پڑھی جاتی ہے۔ یوں ’’وَلَھُمْ‘‘ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے’’ اور ان کے لیے‘‘ (ہوگا یا ہے)

۱:۶:۲(۶)     [عَذَابٌ] لفظ ’’عذاب‘‘ کا مادہ ’’ع ذ ب‘‘اور مادہ ’’فَعَالٌ‘‘ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد مختلف ابواب سے مختلف معنوں کے لیے کبھی لازم اور کبھی متعدی آتا ہے مثلاً ’’عَذَبَ یَعذِبُ عَذْبًا‘‘ (باب ضرب سے) کے معنی ہوتے ہیں: ’’کسی کو روک دینا ‘‘ مثلاً کہیں گے’’عذَب فلانا‘‘۔ اور اسی کے معنی ’’پیاس کی شدت کے باعث کھانا یا نیند چھوڑ دینا‘‘ بھی ہوتے ہیں مثلاً کہیں گے (’’عَذبَ الرَجلُ‘‘)  اور ایسے آدمی کو ’’عاذِب‘‘ کہتے ہیں۔ عذِبَ یَعذَبُ عَذَبًا (باب سمع سے) کے معنی ’’پانی کی سطح پر سبز کائی سی آجانا‘‘ ہیں۔ مثلاً عَذِبَ الماءُ (پانی کا کائی والا ہونا) ـــاور عذُبَ یَعذُب عَذُوبۃً (باب کرم سے) کے معنی ’’پانی کا میٹھا (عَذْبٌ) ہونا‘‘  ہوتے ہیں۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ (عذب) سے فعل ثلاثی مجرد کہیں بھی اور کسی معنی میں بھی استعمال نہیں ہوا۔

·       لفظ ’’عذاب‘‘ جو اس مادہ (عذب) سے ایک جامد اسم ہے اس کے لغوی معنی یوں بیان ہوئے ہیں: ’’ہر وہ چیز جو انسان پر گراں گزرے اور اسے اس کے ارادوں سے روک دے۔‘‘[3] اردو میں ’’عذاب ‘‘ کا ترجمہ ’’سزا‘‘ یا ’’مار‘‘ کیا جاتا ہے۔ خود لفظ ’’عذاب‘‘ بھی اردو میں مستعمل ہے۔ لفظ عذاب عموماً جسمانی سزا یا مار کے لیے آتا ہے۔ مگر بطورِ استعارہ کسی سخت تکلیف دہ ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ عربی کا لفظ ’’عقوبت‘‘ بھی عذاب کے ہم معنی اور اردو میں متعارف ہے۔

·       راغب‘‘ نے ’’مفردات‘‘ میں عذاب کے ان معنوں کی اصل یا مناسبت کے بارے میں تین چار اقوال بیان کئے ہیں۔   [4]  ان میں بظاہر یہی (روک دینا یا رک جانا والے) معنی زیادہ مناسب اصل معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ عذاب کا مقصد سزا پانے والے کو یا دوسروں کا اس کام سے روکنا اور باز رکھنا بھی ہوتا ہے۔ اور چونکہ ’’سزا دینا‘‘ کے لیے عربی میں اس مادہ سے فعل باب ’’تفعیل‘‘ سے (عذّب یعذِّب تعذیبًا)  آتا ہے۔ اس لئے ’’راغب‘‘ نے کچھ معنوی مناسبتیں اس باب (تفعیل) کی بعض ’’خاصیات ‘‘ پر بھی قائم کی ہیں مثلاً اس باب (تفعیل) کی ایک خاصیت ’’ازالہ (ہٹا دینا)‘‘ہے اس لیے تعذیب (عذاب دینا) کا مطلب ’’زندگی کی ’ شیرینی‘ (عذْب) کو ہٹا دینا ‘‘ہےـــ یا مثلاً اس باب کی ایک خاصیت ’’کوئی کام شدت اور کثرت سے کرنا‘‘ بھی ہے۔ اس سے ہی ’’عَذّبہ‘‘ کے ایک معنی ’’عَذَبۃُ السوط‘‘ (کوڑے کے کناروں) سے بہت زیادہ مارنے کے بھی ہوتے ہیں۔ اردو مترجمین میں سے جنہوں نے ’’عذاب ‘‘ کا ترجمہ ’’مار ‘‘ کیا ہے، غالباً ان کے سامنے یہی مؤخر الذّکر مناسبت تھی۔

·       قرآن کریم میں اس مادہ (عذب) سے صرف باب تفعیل کے کچھ صیغہ ہائے فعل اور متعدد مشتق اور جامد اسماء وارد ہوئے ہیں۔ ان کا بیان اپنے موقع پر ہوگا۔ ان شاء اللہ۔خیال رہے کہ صرف یہی لفظ (عذاب) مختلف صورتوں (مثلاً معرفہ، نکرہ، مفرد، مرکب شکل) میں تین سو سے زیادہ جگہ (قرآن کریم میں) وارد ہوا ہے۔ اور بیشتر موصوف ہو کر آیا ہے اور اس کی صفت کے طور پر زیادہ ترعَظِیم، اَلِیم، مُھِین، مُقِیم اور شدید وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کی وضاحت بھی ان شاء اللہ اپنے اپنے مقام پر ہوگی۔

۱:۶:۲(۷)     [عَظِيْمٌ]کا مادہ ’’ع ظ م‘‘ اور وزن ’’فَعِیْلٌ‘‘ ہے۔اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد باب ’’نصر‘‘سے متعدی اور باب  ’’کُرم‘‘ سے لازم آتا ہے مثلاً  عظَم یعظُم عظمًا(نصر) کے معنی ’’کسی کی ہڈیوں پر مارنا‘‘ یا ’’کتے   کو ہڈی ڈالنا‘‘ ہوتے ہیں۔ اور عظُم یعظُم عِظَمًا (کرم) کے معنی ’’بڑا یا عظمت والا ہونا‘‘ ہیںـــ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد کہیں بھی ‘ کسی باب سے اور کسی بھی معنی کے لیے نہیں آیا۔

        البتہ یہ لفظ (عظيم) باب کرم سے صفت مشبّہ بروزن ’’فعیل‘‘ ہے اور اس کا اردوترجمہ ’’بڑا‘‘ یا ’’بہت بڑا‘‘ کیا جاتا ہے اور خود لفظ ’’عظیم ‘‘ بھی اردو میں رائج ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ (عظیم) مختلف صورتوں میں سو سے زیادہ جگہ آیا ہے۔ اور اس مادہ (عظم) سے باب تفعیل اور اِفعال کے (صرف) تین صیغہ ہائے فعل کے علاوہ متعدد اور مختلف المعنی مشتق اور جامد اسماء بھی وارد ہوئے ہیںـــ  ان سب کا بیان بھی اپنی اپنی جگہ آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

        ملاحظہ ! یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آیت ِزیر مطالعہ میں ضمیر مجرور جمع مذکر غائب (ھُم) تین جگہ (قُلُوْبِهِمْ ، سَمْعِهِمْ   اور اَبْصَارِهِمْ) ما قبل مکسور ہونے کے باعث  ’’ ھِم‘‘ (بکسر الھاء) پڑھی جاتی ہے۔ (البتہ ’’ وَلَھُمْ‘‘ میں وہ اپنی اصلی شکل میں ہے۔ کیونکہ یہاں اس کا ماقبل مفتوح ہے۔

 

۲:۶:۲     الاعراب

خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ   ۭ   وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ  وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ 

        یہ آیت تین جملوں پر مشتمل ہے جو واو العطف کے ذریعے ملائے گئے ہیں۔ ہر ایک جملے کی ترکیب یوں ہے۔

(۱)    (خَتَمَ) فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب اور [اللّٰہُ]اس کا فاعل (لھٰذا مرفوع) ہے۔ علامت ِرفع ’’اللّٰہُ‘‘ کی ’’ھا‘‘ کا ضمہ (ـــــُـــــ)ہے۔

        (عَلٰي) حرف الجر ہے جو یہاں فعل (خَتَمَ) کے صلہ کا کام بھی دیتا ہے۔

        [قُلُوْبِهِمْ]میں ’’قلوب‘‘ مجروربالجر (علی)ہے اور ’’ھم‘‘ ضمیر مجرور ہے۔ اور پورے مرکب جاری (عَلٰي قُلُوْبِهِمْ) کو چاہیں تو متعلق فعل (خَتَمَ) سمجھ لیں اور چاہیں تو ’’علی‘‘ کو ’’ خَتَمَ‘‘ کا صلہ سمجھ کر ’’عَلٰي قُلُوْبِهِمْ‘‘ کو مفعول بہٖ اور (لھٰذا) محلاً منصوب قرار دے لیں۔ دونوں صورتوں میں لفظی اردو ترجمہ ’’(اللہ نے)مہر کردی ان کے دلوں پر‘‘ہوگا۔ اس کے بعد[وَ] واو عاطفہ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور اس کے ذریعے اگلی عبارت (عَلٰي سَمْعِهِمْ) کا عطف فعل"ختَم" پر  ہےیعنی "وَختم علی سمعھم" مراد ہے۔ اور یہ]عَلٰي سَمْعِهِمْ[ جس میں ’’علی‘‘ حرف الجرّ اور ’’سمِع‘‘ مضاف بھی ہے اور مجرور بالجر بھی ـــ اور آخری ’’ھم‘‘ ضمیر مجرورمضاف الیہ ہےـــ اور یوں یہ سارا مرکب جاری (عَلٰي سَمْعِهِمْ) بھی ’عَلٰي قُلُوْبِهِمْ‘‘ کی طرح جار مجرور متعلق فعل (خَتَمَ) ہے یا مفعول ہونے کی بنا پر محلاً منصوب ہےـــ ’’سَمْعِهِم‘‘ میں ’’سمع‘‘ کے مصدر ہونے اور اس لیے واحد یا جمع کے لیے یکساں استعمال پر بات ہوچکی ہے۔(۲:۶:۱(۳)البتہ بعض نحوی حضرات یہاں ’’ سَمْعِ ‘‘ کو واحد ہی مان کر اس سے پہلے لفظ ’’مواضع‘‘ (جگہیں) مقدر مان لیتے ہیں گویا تقدیر عبارت (دراصل) یوں ہے: ’’وَعلٰی مَواضِع سَمعِھِم‘‘ (یعنی ان کی سننے کی جگہوں پر) اور مراد اس سے بھی بہرحال وہی ’’کانوں پر‘‘ ہی ہوگا۔

·       بعض مترجمین نے لفظ ’’ سَمْعِ‘‘ (واحد) کا لحاظ کرتے ہوئے عَلٰي سَمْعِهِمْ‘‘ کا ترجمہ ’’ان کے کان پر‘‘ کیا ہے۔ تاہم اکثر نے معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے جمع کے ساتھ ’’ان کے کانوں پر‘‘ ترجمہ کیا ہے ۔ بعض حضرات نے اس پوری عبارت (…عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ) میں ’’ عَلٰي ‘‘ کی تکرار کا ترجمہ تو کیا ہے مگر ضمیر مجرور (ھُم) کا ترجمہ صرف ایک دفعہ کیا ہے یعنی ’’ان کے دلوں پر اور کانوں پرـــ‘‘ اور بعض نے اس کے برعکس ’’ضمیروں‘‘ کا ترجمہ بتکرار مگر ’’علی‘‘ کا ترجمہ صرف ایک بار کیا ہے۔ یعنی ’’ان کے دلوں اور ان کے کانوں پرـــ‘‘ جب کہ بعض نے ’’علی‘‘ اور ’’ھم‘‘ دونوں کی تکرار کو چھوڑ کر ترجمہ کیا ہے یعنی ’’ان کے دلوں اور کانوں پر‘‘ ترجمہ کی مندرجہ بالا (آخری تینوں) صورتیں محاورے اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہیں مگر ان میں قرآن کریم کی اصل عبارت سے قدرے انحراف ضرور موجود ہے۔ یہاں تک (خَتَمَ …سے عَلٰي سَمْعِهِمْ تک) پہلا جملہ فعلیہ ختم ہوتا ہے اس کے بعد اگلا جملہ (اسمیہ) شروع ہوتا ہے۔

(۲)   [وَ] یہاں واو عاطفہ نہیں بلکہ واوالا ستیناف ہے جس سے ایک الگ جملے کی ابتداء ہوتی ہے۔ اگر یہاں بھی ’’واو‘‘ کو عاطفہ مانیں تو (عَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ)جس میں ’’علی‘‘ حرف الجر ’’ابصار‘‘ مجرور بالجر نیز مضاف ہے اور ’’ھم‘‘ ضمیر مجرور مضاف الیہ ہے)ـــ کی حد تک تو بات بن جاتی ہے یعنی اس کا عطف بھی ’’ خَتَمَ اللّٰهُ‘‘ پر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ ’’اور ان کی آنکھوں پر (بھی مہر لگادی) ‘‘ مگر اس صورت میں اگلالفظ (غِشَاوَةٌ) جملہ کی ترکیب میں کسی طرح فٹ نہیں بیٹھتا۔ اس لیے ضروری ہوا کہ اس ’’و‘‘ کو واو    الاستیناف اور اس کے بعد آنے والے جملے کو مستانفہ (الگ جملہ) مانا جائے۔ اس صورت میں یہ پورا مرکب جاری (عَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ) خبرمقدم یا قائم مقام خبر مقدم ہوگا اور ’’غشاوۃ‘‘ مبتدا مؤخر نکرہ ہو کر مرفوع ہے (’’فِی البَیتِ رَجلٌ‘‘کی طرح) اور علامت ِ رفع آخری ’’ۃٌ کے دوضمہ (ــــٌـــــ)ہیں۔ اوراسی لیے اسے تنوین رفع کہتے ہیںـــ  اس ترکیب کے مطابق ’’ عَلٰي سَمْعِهِمْ‘‘ کے بعد وقف ہوگا۔ (جسے اکثر مصاحف میں وقفِ مطلق (ط)سے ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے اردو مترجمین نے اس حصہ آیت (وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ) کو الگ جملہ سمجھتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑاہوا) ہے‘‘ کیا ہے۔ بلکہ لفظ ’’ غِشَاوَةٌ‘‘ کی تنکیر (نکرہ ہونا) کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کا اردو ترجمہ ’’ایک پردہ‘‘ یا ’’ایک بڑا پردہ‘‘ سے کیا جائے۔ اس کے بعد تیسرا جملہ شروع ہوتا ہے۔

(۳)     [وَلَھُم]کی واو کو استیناف کی واو بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد ایک الگ جملہ (لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ) ہے۔ اور چاہیں تو اُسے واو العطف بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے ذریعے اس جملے (لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ) کا عطف اس سے پہلے جملے (عَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ) پر ہے۔ یعنی دونوں جملے ’’اور‘‘ کے ذریعے ملائے گئے ہیں۔ اور اسی نحوی توجیہ کی بنا پر یہاں (یعنی اس دوسری ’’واو‘‘ سے پہلے) بھی وقف کی علامت لکھی جاتی ہے۔ جو بعض مصاحف میں ’’ز‘‘ اور بعض میں ’’صلے‘‘ لکھی ہوتی ہے۔ یعنی ’’الوقف جائز مع کون الوصل اولی‘‘ (یہاں وقف ہوسکتا ہے مگر وصل کا پہلو زیادہ قوی ہے)ـــ استیناف سمجھیں تو وقف کا جواز نکلتا ہے مگر جملے کے جملے پر معطوف ہونے کی بناء پر وصل کی وجہ بہتر معلوم ہوتی ہے۔

        بہر حال [لَھُم] یہاں بھی جار مجرور مل کر خبرـــ یا قائم مقام خبرـــمقدم کا کام دے رہا ہے۔ اور [عَذابٌ] مبتدأ ۔ مؤخر نکرہ ہوکر مرفوع ہے (علامت رفع ’’ب‘‘ کے دو ضمہ (ــــٌـــــ)یعنی تنوین رفع ہے اور (عَظِیمٌ)اس (عذاب) کی صفت ہونے کی بنا پر ہر لحاظ (حالت۔ جنس عدد اور وسعت ہر لحاظ) سے اپنے موصوف (عذاب) کے مطابق ہے۔

 

۲:۶:۳      الرسم

      خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ۔ وَ عَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ

        [خَتَمَ اللّٰہُ] میں لفظ جلالت (اللہ) کی اس مخصوص املاء (جو رسمِ عثمانی اور رسم معتاد۔ دونوں میں یکساں ہے) پر سورۃ الفاتحہ کے شروع میں ’’ بِسمِ اللّٰہ‘‘ کے ضمن میں بات گذر چکی ہے۔(:۳:۱:۱(۲)) (عَلٰی) کا رسم املائی اور رسم عثمانی بھی ـــ دونوں طرح ـــ ’’لام‘‘ کے بعد ’’یاء‘‘ کے ساتھ ہے۔ یعنی یہ پڑھا ’’عَلا‘‘ مگر لکھا ’’ عَلٰی‘‘ جاتا ہے۔ [قُلُوْبِھِمْ] اور[سَمْعِھِمْ] میں ضمیر مجرور متصل (ھم) موصول (ملاکر) لکھی جاتی ہے اور یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ (آگے چل کر) بعض جگہ یہ ضمیر’’ھم‘‘ اپنے ماقبل سے مقطوع (الگ) لکھے جانے کی مثالیں سامنے آئیں گی۔ (وَ عَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ) میں کلمات ’’ابصار‘‘ اور ’’غشاوۃ‘‘ کا رسم بھی مختلف فیہ ہے۔ تفصیل اس کی یوں ہے:

·       بیشتر عرب اور افریقی ملکوں میں کے مصاحف میں یہ ’’اَبْصٰر‘‘ (بحذف الالف بعدالصاد) اور ’’غشٰوۃ‘‘ (بحذف الالف بعد الشین) لکھے جاتے ہیں۔ سعودی، مصری اور شامی مصاحف میں یہ آپ کو اسی طرح لکھے ملیں گے۔

(۱)لفظ ’’ابصار یا ابصٰر‘‘ قرآن کریم میں مفرد یا مرکب شکل میں انتالیس (۳۹) دفعہ آیا ہے۔ اور بعض علمائے رسم کے نزدیک اس کا عثمانی ’’رسم‘‘ ہر جگہ ’’ابصٰر‘‘ (بحذف الف) ہی ہے۔ تاہم دنیائے اسلام کے مشرقی ممالک میں ـــ اور عرب افریقی ممالک میں سے صرف لیبیا ـــ میں اسے ہر جگہ باثباتِ الف (ابصار) لکھنے کا رواج چلا آتا ہے۔ ایران، ترکی، افغانستان، برصغیر اور چین وغیرہ کے مصاحف میں یہی املاء (ابصار) رائج ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ صاحب ’’نثر المرجان‘‘ نے اس لفظ (ابصار) میں اثبات الالف کو اکثریت کا عمل قرار دیا ہے اور ’’حذف الالف‘‘ کو ’’قِیْل‘‘ (کہا گیا ہے) کہہ کر بیان کیاہے (البتہ انہوں نے اپنے ایک اہم مصدر اور مرجع ’’قلمی مصحف الجزری‘‘ میں اس لفظ کے ’’محذوف الالف‘‘ لکھے ہونے کا ذکر کیا ہے۔[5] بیشتر عرب اور افریقی ممالک کے مطابق یہ (اثبات الالف) رسم عثمانی کی خلاف ورزی ہے۔ ’’سمیر الطالبین‘‘ میں ’’حذف الالف بعد الصاد‘‘ کے تحت ’’وابَصٰر کیف جاء‘‘ (یعنی لفظ ’’البصٰر‘‘کا ہر جگہ محذوف الالف لکھاجانا بیان کیا گیا ہے۔[6] مگر یہ متفق علیہ قول نہیں ہے۔ راقم الحروف کو پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ الدانی (’’المقنع‘‘ میں) اور الشاطبی (’’العقیلہ‘‘ میں) محذوف الالف کلمات کی بات کرتے ہوئے اس لفظ (ابصار) میں حذف کے بارے میں بالکل خاموش ہیں اور یہ خاموشی عدم حذف کو مستلزم ہے۔ البتہ ’’مورد الظمآن‘‘ (للخراز)میں’’ابصار‘‘کے محذف الالف ہونے کا قول صرف ابوداؤد (سلیمان بن نجاح) کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔[7]

 (۲) لفظ’’ غِشَاوَةٌ  ‘‘کا بھی یہی قصہ ہے۔ یعنی بیشتر عرب اور افریقی ملکوں کے مصاحف میں یہ کلمہ ’’غِشٰوۃ‘‘ (بحذف الالف بعد الشین) لکھاجاتا ہے اور وہ اسے رسمِ عثمانی کا اتباع سمجھتے ہیں۔ تاہم عرب اور افریقی ممالک میں سے صرف لیبیا اور تمام ایشیائی(غیرعرب) مسلم ممالک ـــ کے مصاحف میں یہ لفظ ہمیشہ ’’ غِشَاوَةٌ  ‘‘ (باثبات الالف بعد الشین) ہی لکھا جاتا ہےـــ یہ لفظ (غِشَاوَةٌ  ) قرآن کریم میں صرف دو جگہ آیا ہے ایک یہاں (البقرۃ:۷) اور دوسرا ’’الجاثیۃ:۲۳‘‘ میں۔۔  سورۃ الجاثیۃ والے لفظ کے محذوف الالف ہونے پر تو مؤلف ’’سمیر الطالبین‘‘ نے دونوں ائمہ رسمـــ یعنی الدانی اور ابوداؤدـــ کا اتفاق بیان کیا ہے۔[8]  اس پر مزید بحث تو اپنی جگہ (الجاثیہ:۲۳) پر کی جائے گیـــ  مگر سورۃ البقرہ :۷ یعنی زیر مطالعہ آیت میں وارد لفظ (غِشَاوَةٌ  )کے محذوف الالف ہونے پر ’’الدانی‘‘ یا ’’الشاطبی‘‘سے کوئی تصریح ثابت نہیں ہے۔ البتہ صرف ابوداؤد سے حذف الالف والا قول منقول ہے  ۔[9] بلکہ صاحب نثر المرجان نے تو یہاں (البقرہ:۷) کے بارے میں ’’اثبات الالف بعد الشین‘‘ (یعنی ’’ غِشَاوَةٌ  ‘‘لکھنے) کو ’’عند الاکثر‘‘ کہا ہے اور ’’خلاصۃ الرسوم‘‘ کے حوالے سے ’’حذفھا البعض‘‘ لکھا ہے اور پھر یہ بھی تصریح کی ہے کہ یہاں ’’الف‘‘ کے حذف یا اثبات کے بارے میں الدانی، الشاطبی، السیوطی اور مؤلف ’’خزانۃ الرسوم‘‘ میں سے کسی نے بھی واضح طور پر کچھ نہیں کہا ہے۔[10] اور جب تصریح نہ ہو تو پھر لفظ کو عام معتاد عربی املاء کے مطابق لکھنا درست اورجائز ہے۔

·       خلاصۂ بحث یہ ہے کہ ان دونوں کلمات (اَبْصَارِاور غِشَاوَةٌ  ) کی مصحف میں کتابت کے بارے میں عرب اور عام افریقی ممالک میں عمل ’’حذف الالف‘‘ پر ہے اور ان کی دلیل ابوداؤد کی تصریح یا ترجیح ہے (جو’’مورد الظمآن‘‘ میں بیان ہوئی ہے۔ ابوداؤد کی اصل کتاب ابھی تک کہیں طبع نہیں ہوئی)اور تمام مشرقی ممالک اور لیبیا میں اثباتِ الف ہی معمول بہٖ ہے۔ تاہم دونوں کے نزدیک اس (اثبات) کی وجہ الگ الگ ہے۔ اہل مشرق میں یہاں اثباتِ الف کی کوئی واضح دلیل کسی کتاب میں نظر سے نہیں گزری۔ غالبا تساہل کی بنا پر عام معتاد رسم کا رواج ہوگیا اور پھر ’’عمل الاکثر‘‘ بن گیا۔ اور ہوسکتا ہے کہ حذف کے بارے میں ’’الدانی‘‘ اور ’’الشاطبی‘‘ کی خاموشی ہی اس کا باعث بنی ہوـــ  البتہ اہل لیبیا کی دلیل واضح ہے کہ وہ بصورت اختلاف (اور ایک کی خاموشی اور دوسرے کی تصریح بھی اختلاف ہی کی ایک صورت ہے) الدانی کو ابوداؤد پر ترجیح دیتے ہیں ۔[11]    اور الدانی کی کتاب’’المقنع‘‘ میں اس (حذف) کے بارے میں کوئی تصریح نہیں ملتی۔ بلکہ الشاطبی (صاحب العقیلہ) جس کی بنیاد ’’المقنع‘‘ ہی ہےـــ وہ بھی اس بارے میں خاموش ہے اور یہی چیز یہاں اثبات الف کو مستلزم ہے۔ رہ گئی اس حذف کے بارے میں ابوداؤد کی (طرف منسوب) تصریح تو وہ (اہل لیبیا) اسے حجت نہیں مانتے۔

اس ساری بحث سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ لفظ ’’صراط‘‘ کی طرح۔[12] ان دو کلمات (اَبْصَارِ اور غِشَاوَةٌ  ) کی باثبات الالف  کتابت رسمِ عثمانی کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے جیسا کہ عرب اور افریقی ملکوں میں خیال کیا جاتا ہے ـــاور ’’ غِشَاوَةٌ ‘‘(یا غِشٰوۃ) کے رسم کے سلسلے میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہاں آخری ’’تا‘‘ہمیشہ مربوطہ (ۃ) لکھی جاتی ہے اور اس لیے بصورت وقف اسے’’ھا‘‘(ہ) پڑھا جاتا ہے۔

        [وَلَھُمْ] میں حرف الجر (لام) اور ضمیر مجرور متصل ملا کر (موصول) لکھے جاتے ہیں۔ اور یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ آگے چل کر قرآن کریم میں ایسے کلمات بھی آئیں گے جہاں یہ حرف جر (لِ) ملا کر (موصول) لکھنے کی بجائے الگ (مقطوع) لکھا جاتا ہے۔ اس پر بات اپنے موقع پر ہوگی[عَذَابٌ] یہ لفظ بالا تفاق باثبات الالف بعد الذال لکھا جاتا ہے۔ رسم عثمانی کے علماء نے اس لفظ (عَذَاب) کے قرآن کریم میں ہر جگہ باثبات الالف لکھے جانے کی تصریح کی ہے۔[13]   یہ لفظ (عَذَاب) قرآن کریم میں معرفہ نکرہ، مفرد، مرکب مختلف شکلوں میں ۳۲۲ جگہ آیا ہے اور ہر جگہ اسی طرح باثبات الالف ہی لکھا جاتا ہے یعنی اس لفظ کا رسم املائی اور رسم عثمانی یکساں ہے۔ اسی طرح اگلا لفظ [عَظِيْمٌ] بھی ہر جگہ باثبات الیاء بعد الظاء لکھا جاتا ہے۔ یہ وضاحت بھی بظاہر غیر ضروری معلوم ہوتی ہے مگر قرآن کریم میں بعض اس سے ملتے جلتے کلمات میں یہ ’’یاء‘‘ (ما قبل مکسور) حذف کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ پڑھی جاتی ہے۔ مثلاً بعض جگہ ’’ابراھیم‘‘ بحذف الیاء لکھاجاتا ہے۔ اس کا ذکر بھی اپنی جگہ آئے گا۔

 

۴:۶:۲     الضبط

        اختلاف ضبط کے سلسلے میں اب تک ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس میں اکثر یہ بھی لکھتے آئے ہیں کہ فلاں طریقِ ضبط کن ملکوں میں رائج ہے۔ امید ہے کہ قارئین اب تک یہ جان چکے ہیں کہ فلاں طریقِ ضبط فلاں علاقے کے مصاحف کی کتابت میں استعمال ہوا ہے۔ اصل ضبط کے قواعد کی مجموعی تعداد دس اور پندرہ کے درمیان بنتی ہے جس میں طریق اعجام (نقطے لگانا) کافرق بھی شامل ہے۔ اس لیے اب ہم ملکوں اور علاقوں کا (بار بار) ذکر کرنے کے بجائے زیر مطالعہ قطعۂ  آیات (پیرا گراف) کے کلمات میں ضبط کے اختلاف کے مواقع اور صورتِ اختلاف ضبط کا ذکر کر دیا کریں گے۔ مثلاً آیت زیر مطالعہ میں اختلافِ ضبط کی حسب ذیل صورتیں موجود ہیں:

(۱)     ہمزۃ الوصل کی علامت ڈالنا یا نہ ڈالناـــ اس کی مثال اسمِ جلالت ’’اللہ ‘‘ کے ضبط میں ملے گی۔

(۲)    ہمزۃ القطع کی علامت قطع ڈالنا یا نہ ڈالنا ۔ اس کا نمونہ ’’ اَبْصَارِهِمْ‘‘ کے ضبط میں آئے گا۔

(۳)    ’’واو ساکنہ‘‘ ماقبل مضموم کی علامت ِ سکون ڈالنا یا نہ ڈالنا۔اس کا اثر قُلُوْبِهِمْ کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۴)    یائے ساکنہ ماقبل مکسور پر علامت ِ سکون ڈالنا یا نہ ڈالنا اور اس ماقابل پر کسرہ ظاہر کرنے کا فرق۔ اس کی مثال کلمہ’’ عَظِيْمٌ‘‘ کا ضبط ہوگا۔

(۵)    الف ماقبل مفتوح پر علامتِ فتحہ یا علامت ِ اشباع (ــــــٰــــ) ڈالنے کا فرق ـــ اس اختلاف کا اثر کلمات ’’ اَبْصَارِهِمْ ،غِشَاوَة اور  عذاب‘‘کے ضبط میں ظاہر ہوگا۔

(۶)    الف محذوفہ (یا مقصورہ) کے ضبط کا فرق کلمات ’’ عَلٰي‘‘ اور ’’ابصار‘‘ اور ’’ غِشاوَةٌ‘‘ (بصورت حذف الالف) کے ضبط میں نمایا ں ہوگا۔

(۷)    اسم جلالت ’’اللہ‘‘ کے ضبط اور علامت ِ اشباع ڈالنے یا نہ ڈالنے کا فرق۔

(۸)    تنوین اظہار اور تنوینِ اخفاء کی کتابت مختلف یا یکساں ہونا۔ تنوین اظہار کا نمونہ کلمہ ’’ عَذَاب ‘‘ میں اور تنوین ِاخفاء کا نمونہ یہاں کلمات ’’ غِشَاوَة ‘‘ اور ’’ عَظِيْم‘‘ کے ضبط میں سامنے آئے گا۔

(۹)     تنوین اخفا کے بعد ’’یرملون‘‘ کے کسی حرف کے ادغام کی علامت (بصورت تشدید) ڈالنا یا نہ ڈالنا۔ یہ فرق ’’ غِشَاوَة‘‘کے بعد ’’ وَلَھُمْ ‘‘ میں ظاہر ہوگا۔

(۱۰)    قلقلہ کے لیے مخصوص علامت ِ سکون کلمہ’’ ابصارهم‘‘ کی ’’ب‘‘پر ظاہر ہوگی۔

(۱۱)    ’’راء‘‘کی ترقیق یا تفخیم کیلئے الگ الگ صورت ’’ر‘‘ یا ’’(#) ‘‘استعمال کرنا ـــیہاں ابصارھم کی ’’ ر‘‘اس کی ترقیق کو ظاہر کرے گی۔

(۱۲)    اسم جلالت ’’اللہ‘‘ کی لام کی تفخیم  کے لیے مخصوص علامت ِ اشباع۔ مندرجہ بالا ہر سہ طریقِ ضبط(۱۵،۱۱،۱۰) صرف تجویدی قرآن مطبوعہ پاکستان کی خصوصیت ہیں۔

(۱۳)   افریقی ممالک کے ’’ف‘‘ اور ’’ق‘‘ کے طریق اعجام (نقطے لگانے) کا فرق۔ کلمہ ’’ قُلُوْبِهِمْ‘‘ کی کتابت میں آئے گا۔

·       اس طرح آیت زیر مطالہ کے کلمات میں اختلاف ضبط کی مندرجہ ذیل ’’مضبوط‘‘ صورتیں بنتی ہیں۔ جن کے ضبط میں کوئی اختلاف نہیں (سوائے اس کے کہ حرکات کی شکل مختلف ہوں یعنی زبر ، زیر ، پیش لکھنے کا انداز مختلف ہے۔ ان کلمات کو لکھنے کی ضرورت نہیں مثلاً یہاں ’’ سَمْعِهِمْ‘‘، ’’ خَتَمَ‘‘ اور ’’ لَھُمْ‘‘ کا ضبط ہر جگہ اور ہر ملک میں یکساں ہے ـــ باقی کلمات میں اختلاف ضبط کی بناء پر حسب ذیل نمونے ملتے ہیں:۔

 



[1] دیکھئے مد القاموس تحت مادہ ’’بصر‘‘

 

[2]  روح المعانی ج۱ ص۱۳۶ پر بھی اس توجیہ کا مختصراً ذکر ہے۔ تاہم جو حضرات تفصیل چاہتے ہیں ان کے لیے علی ناصف النجدی کی کتاب ’’مع القرآن الکریم‘‘ (طبع داراالمعارف) میں شامل بحث بعنوان ’’السمع و البصر فی القرآن الکریم‘‘ (ص۶۱ تا ۷۰) کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

[3] ا   قرب الموارد۔ راغب نے مفردات میں ’’عذاب‘‘ کے معنی ’’ایجاع شدید‘‘ یعنی سخت درد (دکھ) پہنچانا‘‘ بتائے ہیں جو بنیادی طور پر ’’جسمانی مار‘‘ کے لیے ہی ہے۔

 

[4]  دیکھئے: راغب (المفردات) نیزLane کی مد القاموس تحت مادہ ’’عذب‘‘

 

 [5] نثر المرجان ج۱ ص۱۰۶

[6] سمیر الطالبین للضباع ص۵۲

 [7] دلیل الحیران (شرح مورد الظمآن) للمارغنی ص۶۵

[8] سمیر الطالبین ص۵۰

   [9] دلیل الحیران ص ۸۷

[10]  نثر المرجان ج۱ ص۱۰۶

 [11] دیکھئے مصحف الجماھیریہ کا ضمیمہ ’’التعریف بھذا المصحف‘‘۔

[12]  دیکھئے ’’الصراط‘‘ کے رسم پر بحث سورۃ الفاتحہ: ۶ میں (۳:۵:۱(۱)

[13]  دلیل الحیران  ص۴۴