سورۃ البقرہ آیت ۷۲ اور ۷۳

۴۵:۲      وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِيْهَا      ۭ   وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ  (۷۲) فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا    ۭ  كَذٰلِكَ يُـحْىِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى   ۙ   وَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ  (۷۳)

۱:۴۵:۲       اللغۃ

[وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا] جو ’’وَ‘‘ (اور) + ’’اِذْ‘‘ (جب) + ’’قَتَلْتُمْ‘‘ (تم نے قتل کیا) + ’’نَفْسًا‘‘ (ایک جان یعنی شخص کو) کا مرکب ہے اس جملے کے تمام اجزاء کے معنی اور استعمال پر اس سے پہلے بات ہوچکی ہے چاہیں تو تفصیل کے لیے دیکھ لیجئے: ’’وَ‘‘ کے لیے [۱:۴:۱ (۳)] ’’اِذْ‘‘ کے لیے [۱:۲۱:۲ (۱)] ’’قتلتم‘‘ (قتل یقتل) کے لیے [۱:۳۴:۲ (۴)] اور ’’نَفْسًا‘‘ کے لیے [۱:۸:۲ (۴)] یہاں مترجمین نے ’’نفس‘‘ (نفسًا) کا ترجمہ ’’ایک جان، شخص، آدمی‘‘ سے کیا ہے۔ بعض نے صرف ’’ایک‘‘ کرکے فعل قتلتم کا ترجمہ ساتھ ’’خون کردیا‘‘ کیا ہے یعنی ’’ایک خون کردیا‘‘ باقی حضرات نے ’’قتلتم‘‘ کا ترجمہ ’’مار ڈالا تم نے، مار ڈالا تھا، قتل کیا, یا قتل کر ڈالا تھا‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ تمام تراجم ہم معنی ہی ہیں اور یہاں ’’تم نے قتل کیا‘‘ کا مطلب ہے ’’تمہارے اندر قتل ہوا‘‘۔ کیونکہ سب نے مل کر اسے قتل نہیں کیا تھا، نیز دیکھئے حصہ ’’الاعراب‘‘۔

۱:۴۵:۲ (۱)     [ فَادَّارَئْتُمْ فِیْھَا] (یہاں ’’فادارء تم‘‘ رسم املائی میں سمجھانے کے لیے لکھا گیا ہے رسم عثمانی پر بات آگے ’’الرسم‘‘ میں ہوگی)

 اس میں آخری ’’فیھا‘‘ (فی+ھا) کا ترجمہ تو ہے ’’اس کے بارے میں‘‘ یہاں ضمیر مؤنث (ھا) ’’نفس‘‘ کے لیے ہے جو مؤنث سماعی ہے۔ ’’فَادَّارَئْ تُمْ‘‘ کی ابتدائی ’’فَاء‘‘ (فَ) تو عاطفہ (بمعنی ’’پھر/ پس‘‘) ہے۔ باقی فعل ’’اِدّارَئْ تُمْ‘‘ ہے۔ اس کا مادہ    ’’درء‘‘ اور وزن اصلی ’’تَفَاعَلْتَم‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’تدارَئْ تُم‘‘ تھی۔ عربوں کے تلفظ کا طریقہ یہ ہے کہ باب تفاعل میں فاء کلمہ اگر ت  ث د ذ ز  س  ص  ط  ظ  میں سے کوئی ایک حرف ہو تو ’’تفاعل‘‘ کی ’’ت‘‘ کو بھی اسی حرف میں بدل کر بولتے ہیں۔ اس طرح (مثلاً اسی) ’’تدارَئْ تُمْ‘‘ سے ’’دَدَارَئْ تُمْ‘‘ بنے گا۔ جس میں مضاعف کے قاعدہ کے مطابق ایک ’’ د ‘‘ دوسری ’’ د ‘‘ میں مدغم کرنے سے ایک مشدد (تشدید والی) ’’ دّ ‘‘ پیدا ہوگی۔ یعنی اب یہ لفظ ’’دّارَئْ تُمْ‘‘ بنے گا۔ اب مشدد ’’ دّ ‘‘ کو پڑھنے کے لیے ابتداء میں ایک ہمزۃ الوصل لگا دیا جاتا ہے جو مکسور پڑھا جاتا ہے اور یوں یہ لفظ ’’اِدّارَئْ تُمْ‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے یعنی ’’تدارَئْ تُمْ = دَدَارَئْ تُمْ =دّارَئْ تُمْ= اِدّارَئْ تُمْ‘‘ یہاں زیر مطالعہ آیت میں اس لفظ کے شروع میں ’’فَ‘‘ ہے جس کی وجہ سے ’’فَادّرَائْ تُمْ‘‘ میں ہمزۃ الوصل پڑھنے میں نہیں آتا (مگر لکھا ضرور جاتا ہے)۔

·       بعض علمائے صرف ’’تفاعل‘‘ کی اس تبدیل شدہ صورت کو مزید فیہ کا ایک مستقل باب سمجھتے ہیں یعنی ’’اِفَّاعَلَ یَفَّاعَلُ  اِفَّاعُلًا‘‘ [1] تاہم باب ’’تفاعل‘‘ میں مذکورہ بالا تبدیلی لازمی نہیں ہے۔ مثلاً زیر مطالعہ لفظ کو اپنی اصلی شکل میں ’’فَتَدَارَئْ تُمْ‘‘ بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ مگر قرآن کریم کی قراء ت میں روایت کی پابندی کی جاتی ہے۔ یعنی جس طرح کسی لفظ کا پڑھنا صحابہؓ سے ثابت ہے اسی طرح پڑھا جاتا ہے محض معنی اور گرامر کی بنا پر لفظ نہیں بدلا جاسکتا۔ یہاں زیر مطالعہ آیت میں یہ لفظ اسی طرح مادہ کے حروف کی تبدیلی کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔

·       اس ثلاثی مادہ (د رء) سے فعل مجرد ’’دَرَأٌ .. . . .یَدْرَؤُ  دَ رْأً‘‘ (فتح سے) آتا ہے اور اس کے ساتھ بنیادی معنی ہیں: . . . . .کو ہٹا دینا یا زور سے ہٹا دینا۔ پیچھے دھکیل دینا۔ مثلاً  دَ رَأَہٗ= اس نے اس کو ہٹا دیا۔ اور د رَأہ  الیہ ولہ (یعنی ’’اِلی‘‘ یا لام کے صلہ کے ساتھ)= ’’اُس نے اس کو اس کی طرف چلایا ‘‘  اس کے علاوہ یہ فعل ’’آگ کا روشنی دینا، کسی چیز کو پھیلانا‘‘ اور بطور فعل لازم ’’اچانک نکل آنا اور ستارے کا چمکنا‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے کل تین صیغے چار جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ یہ فعل ’’ہٹا دینا اور دور کردینا‘‘ والے معنی میں استعمال ہوا ہے البتہ ایک جگہ (النور:۲۵) میں ایک اسم مشتق ’’دُ رِّیٌّ‘‘ کے بارے میں امکان ہے کہ وہ ’’چمکنے والے‘‘ معنی کے لحاظ سے اس مادہ سے لیا گیا ہو۔ اس پر مزید بات اپنے موقع پر ہوگی ان شاء اللہ۔

·       زیر مطالعہ صیغہ فعل ’’اِ دَّ ارَئْ تُمْ‘‘ اس مادہ (د رء) سے باب تفاعل کا فعل ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر ہے باب تفاعل کے اس فعل ’’تَدارَأَ  یَتَدَارَؤُ  تَدَارُأً‘‘ کے بنیادی معنی ہیں: ’’باہم ایک دوسرے کی طرف دھکیلنا‘‘۔ یعنی ’’کسی الزام وغیرہ کو اپنے سے ہٹا کر دوسرے پر ڈالنا‘‘۔ اور چونکہ اس باب کی ایک خاصیت ’’مشارکت‘‘ ہے اس لیے اس کا فاعل واحد نہیں آتا بلکہ کم از کم دو آدمی ہوں گے یعنی کہیں گے ’’تدارء الرجلان‘‘ (دو آدمیوں نے الزام کو ایک دوسرے کی طرف دھکیلا) جیسے (تفاخر الرجلان= باہم فخر کیا اور تشابہ الرجلان= باہم ملتے جلتے ہوئے وغیرہ میں ہے۔

·       اس طرح ’’فا دَّارَءْتُم‘‘ کا ترجمہ تو ہوگا ۔ ’’تم نے باہم ایک دوسرے کی طرف ہٹایا/ دھکیلا‘‘ چونکہ ان زیر مطالعہ آیات میں کسی شخص کے قتل (وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا) اور اس کے الزام کو اپنے سے ہٹا کر دوسرے پر ڈالنے کا ذکر ہے اور ’’فیھا‘‘ میں اس کی طرف اشارہ بھی موجود ہے۔ اس لیے بعض اردو مترجمین نے اس عبارت (فَادّٰرَءْتُمْ فِيْهَا) کا ترجمہ ’’پھر لگے ایک دوسرے پر دھرنے/ ایک دوسرے پر دھرنے لگے‘‘۔ سے کیا ہے مگر اس پر محاورہ کی خاطر ’’فیھا‘‘ کا ترجمہ نظر انداز کرنا پڑا ہے۔ بعض حضرات نے اسی کا ترجمہ ’’پھر ایک دوسرے پر اس کو ڈالنے لگے / تو ایک دوسرے پر اس کی تہمت ڈالنے لگے‘‘ کیا ہے۔ اس ترجمے میں ’’فیھا‘‘ کا مفہوم ’’اس کو‘‘ اور ’’اس کی تہمت‘‘ کی صورت میں شامل کیا گیا ہے جو محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے درست سہی مگر لفظ سے ہٹ کر ہے۔

·       اور چونکہ ’’ایک دوسرے پر دھکیل دینا، دھرنے لگنا اور ڈالنے لگنا‘‘ میں ’’جھگڑنے لگ جانا‘‘ کا مفہوم موجود ہے۔ اس لیے بعض مترجمین نے اس (فأدارئتم فیھا) کا ترجمہ ’’اور لگے اس کے بارے میں جھگڑنے/ تو اس میں باہم جھگڑنے لگے/ پھر تم آپس میں اس باب میں جھگڑنے لگے‘‘ سے کیا ہے۔ ان ترجموں میں ’’فیھا‘‘ کا ترجمہ ’’اس میں، اس بارے میں‘‘ اور ’’اس باب میں‘‘ کی صورت میں کیا گیا ہے جو اصل لفظ سے زیادہ قریب ہے۔ باب تفاعل کی ’’مشارکت‘‘ والی بات کو ’’باہم‘‘ اور ’’ آپس میں‘‘ کے الفاظ سے واضح کیا گیا ہے اور یہ تینوں ترجمے اس لحاظ سے زیادہ بہتر ہیں ــــــــــــــــــــــــــ  البتہ بیشتر مترجمین نے ترجمہ میں ’’فادارء تم‘‘ کی ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ کا ترجمہ (تم) کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی (ماسوائے ایک آخری ترجمہ کے)۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس سے پہلے (’’ وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا ‘‘ کے) ’’قتلتم‘‘ کے ترجمہ میں ’’تم‘‘ آچکا تھا۔ (اور وہاں تو سب نے ’’تم‘‘ استعمال کیا ہے) اس لیے اردو محاورے کے مطابق ’’ادّارء تم‘‘ کے ترجمہ میں ’’دھرنے لگے/ ڈالنے لگے‘‘ (وغیرہ) سے پہلے دوبارہ ضمیر ’’تم‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ البتہ جس مترجم نے اس ضمیر کو بھی استعمال کیا ہے تو اس سے ترجمہ مزید واضح ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ اردو میں ’’دھرنے لگے‘‘ وغیرہ کی ضمیر فاعلین ’’وہ سب، تم سب‘‘ اور ’’ہم سب‘‘ ہوسکتی ہے۔ جب کہ عربی میں یہ صورت نہیں ہے بلکہ صرف ’’انتم‘‘ ہے یعنی ’’تم‘‘ ہی۔

·       [وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ] وَاللّٰہُ۔ اور اللہ تعالیٰ ــــ ’’مُخْرِجٌ‘‘ کا مادہ ’’خ ر ج‘‘ اور وزن ’’مُفْعِلٌ‘‘ ہے۔ یعنی یہ اسی مادہ سے بابِ افعال کے فعل (اَخْرَجَ یُخْرِجُ = نکالنا، باہر نکلنا) سے صیغۂ اسم الفاعل ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد (خرَج  یَخْرُجُ= نکلنا) اور اسی بابِ افعال کے فعل کے معنی و استعمال پر البقرہ:۲۲ [۱:۱۶:۲(۱۱)] میں بات ہوچکی ہے۔

·       ’’مُخْرِجٌ‘‘ بابِ افعال سے فعل کا اسم الفاعل ہے اور اس کے لفظی معنی تو ہیں: ’’باہر نکالنے والا‘‘۔ چونکہ یہاں (جیسا کہ اگلی آیت میں بیان ہوا ہے) کسی چھپی ہوئی بات یا راز کےنکالنے کا ذکر ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ’’کھول دینا، ظاہر کرنا یا فاش کرنا‘‘ سے بھی ہوسکتا ہے۔ پھر بعض مترجمین نے تو اسم الفاعل کے ساتھ اس عبارت (وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ) کا ترجمہ ’’اللہ کھولنے والا تھا‘‘، ’’ اللہ ظاہر کرنے والا تھا‘‘ سے کیا ہے۔ جبکہ بیشتر حضرات نے اردو محاورے کو سامنے رکھتے ہوئے ’’اللہ کو ظاہر کرنا تھا/ ظاہر کردینا تھا/ فاش کرنا تھا‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ ایک آدھ مترجم نے مصدری ترجمہ کے ساتھ ’’اللہ کا منظور تھا‘‘ لگا کر کیا ہے یعنی ’’اللہ کو منظور تھا ظاہر کرنا/ کھولنا/ فاش کرنا‘‘ وغیرہ کے ساتھ۔ یہ سب تراجم محاورہ اور مفہوم کی بناء پر ہی درست قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ اسم الفاعل کے ساتھ ترجمہ کرنے والے اصل عبارت سے قریب رہے ہیں۔ اور مفہوم سمجھنے میں بھی کوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی۔ ان تمام تراجم میں صیغہ ماضی ’’تھا‘‘ کے لانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک قصہ کا بیان ہے جس کا تعلق عہدِ ماضی سے ہے ایسے موقع پر جملہ اسمیہ کا ترجمہ بصیغہ ماضی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ سیاقِ عبارت کا تقاضا ہوتا ہے۔

·       [مَا کُنْتُمْ تَکْتَمُوْنَ] یہ پورا جملہ مع تشریح کلمات (جدا جدا) اس سے پہلے البقرہ:۳۳ [۱:۲۴:۲ (۳)] میں گزر چکا ہے اور اس کے تراجم بھی وہاں (الاعراب میں) لکھے گئے تھے جن میں بعض نے کنتم کو فعل ’’کان ناقصہ‘‘ کی صورت میں ’’ہو‘‘اور ’’تھے‘‘ سے ترجمہ کیا ہے اور بعض نے بوجہ قصہ اس کا ترجمہ ماضی استمراری کے ساتھ کیا ہے۔

·       [ؤَقُلْنَا اضْرِبُوْ ہ بِبَعْضِھَا] ابتدائی ’’فَ‘‘ = پس/ پھر ہے اور ’’قُلْنَا‘‘ (ہم نے کہا) اس سے پہلے اسی سورت (البقرہ) میں سات دفعہ آچکا ہے۔ پہلی دفعہ یہ لفظ (قلنا) البقرہ:۳۴ [۱:۲۵:۲ (۱)] (وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ) میں آیا ہے، اور اس کے مادہ ’باب‘ تعلیل اور معنی وغیرہ پر وہاں بھی اور البقرہ:۸ [۱:۷:۲  (۵)] میں بھی بات ہوئی تھی۔

·       [اِضْرِبُوْہُ] میں آخری ضمیر (ہ) تو ’’اس کو‘‘ کے معنی میں ہے اور فعل ’’اِضْرِبُوْا‘‘ کے مادہ (ض رب) باب اور معنی وغیرہ کی اس سے پہلے البقرہ:۲۶ (ان یضرب مثلاً) [۱:۱۹:۲ (۲)] میں اور البقرہ:۶۰ [۲: ۳۸: ۱ (۲)] میں مزید وضاحت ہوئی تھی۔ یہ فعل (ضَرب یضرِب) ایک کثیر المعانی فعل ہے جو مختلف صلات کے ساتھ تیس سے بھی زائد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور خود قرآن کریم میں یہ متعدد معانی کے لیے آیا ہے جن کو ہم حسبِ موقع بیان کرتے جائیں گے۔ (دو حوالے اوپر دیئے گئے ہیں)

·       [ببَعْضِھَا]کی ابتدائی ’’بِ‘‘ یہاں فعل ’’ضربَ‘‘  کا ایک صلہ ہے جو اس چیز سے پہلے لگتا ہے (پتھر، ڈنڈا وغیرہ) جس سے کسی چیز کو مارا جائے۔ اس کی مثال آپ ’’ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَر ‘‘ یعنی البقرہ:۶۰ [۱:۳۸:۲ (۲)] میں پڑھ آئے ہیں۔ ’’بعضھا‘‘ کے ’’بعض‘‘ کے مادہ وغیرہ کی بحث البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۳) اور البقرہ:۳۶ [۱:۲۶:۲ (۱۸)] میں ہوچکی ہے  ’’ضرب. . . . . بِ . . . . ‘‘ کے معنی ہیں۔ ’’اس نے . . . . .کو. . . . .سے مارا ‘‘ مثلاً کہیں گے ’’ضربہ بالید/بالعصا/بالسوط‘‘ یعنی اس نے اسے ہاتھ/ لاٹھی/چابک سے مارا۔‘‘

·       اس طرح اس عبارت ’’ فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا ‘‘  کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ’’پس ہم نے کہا تم مارو اس (ہ) کو اس (ھا) کے بعض (کچھ حصے) سے‘‘ اس آیت کی تفسیر میں ایک قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اکثر مترجمین نے اسی تفسیری قصے کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں ’’بعضھا‘‘ (اس کے بعض) کا ترجمہ ’’اس کا ٹکڑا یا ایک ٹکڑا‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ اور پھر اس ’’تفسیر‘‘ کی وجہ سے یہاں ’’ضرب‘‘ بمعنی ’’پیٹنا‘‘ (مارنا) بھی نہیں بنتا اس لیے یہاں فعل ’’ضرب‘‘ کا ترجمہ ’’چھوا دینا‘‘ سے کیا گیا ہے یعنی ’’ہم نے کہا کہ اس کو اس کے کوئی سے (کسی) ٹکڑے سے چھوا دو ‘‘۔ تاہم بیشتر مترجمین نے ’’اضرِبُوہ‘‘ کا ترجمہ ’’اس کو مارو/ ماردو‘‘ سے ہی کیا ہے جو لفظ سے زیادہ قریب ہے۔

·       اور اسی تفسیری قصے کو ملحوظ رکھتے ہوئے (جسے آپ ان آیات کے ضمن میں کسی تفسیر یا تفسیری حاشیے میں دیکھ سکتے ہیں) اس عبارت میں ’’اضربوہ‘‘ کی ضمیر منصوب (ہ) اس مقتول کے لیے ہے جس کا ذکر ابھی اوپر ’’ وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا ‘‘ البقرہ:۷۳ [۱:۴۵:۲] میں ہوا ہے اور ’’ببعضھا‘‘ کی ضمیر مجرور (ھا) اس گائے کے لیے ہے جس کا قصہ اوپر ’’ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً   ‘‘ البقرہ:۶۷ [۱:۳۲:۲] کے ضمن میں (البقرہ:۶۷ تا ۷۱ میں) بیان ہوا ہے۔ اسی لیے بیشتر مترجمین یہاں تفسیری ترجمہ کرتے ہوئے ’’اضربوہ‘‘ اور ’’ببعضھا‘‘ کی ضمیروں (ہ/ھا) کے لیے ان کے مرجع کو اسم ظاہر کی صورت میں لائے ہیں یعنی ’’اضربوہ = ’’مارو تم اس مردے کو/ مقتول کو/ اس میت پر/ مردے پر‘‘ اور ’’ببعضھا‘‘ یعنی ’’اس گائے کا ایک/ کوئی ٹکڑا/ گائے کے ٹکڑے سے‘‘ وغیرہ۔ ان تمام تراجم کو تفسیری تراجم ہی کہا جاسکتا ہے جن کی صحت اس قصے کی صحت پر منحصر ہے جو اس آیت کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اس کے لیے کسی مستند تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

·       اس تفسیری قصے میں چونکہ ایک خارق عادت (معجزانہ) طریقے کا ذکر آتا ہے لہٰذا اس کی روایتی پڑتال بھی ضروری ہے۔ بہرحال اس بارے میں نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً (براہِ راست) کچھ ثابت نہیں اس لیے بعض مفسرین (مثلاً ابن کثیر اور صاحب المنار) نے فہم آیت کے لیے اس قصہ کو ہی غیر ضروری قرار دیا ہے۔

·       تفسیری مباحث میں جانا ہمارے دائرۂ  کار سے باہر ہے۔ مگر زیر مطالعہ میں فعل ’’ضرب‘‘کے استعمال (اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا = اس کو اس کے بعض سے مارو) سے جو ایک ابہام اور استفہام پیدا ہوتا ہے (یعنی کس کو؟ کس سے؟ کیوں کر؟ کس لیے؟) اس کی ’’وضاحت‘‘ یا  ’’تسکین تجسس کے لیے ’’مقتول، قتل یا قاتل‘‘ کے بارے میں کچھ نہ کچھ بیان کرنا ضروری معلوم ہوا۔ اس ’’بیان‘‘ کی خانہ پری کے لیے قدماء مفسرین تو وہ روایات لائے جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ اور جو بلحاظ سند کسی مضبوط اساس پر نہیں ہیں۔

·       صاحب المنار نے اسے توریت (کتاب استثناء:۲۱) کے ایک حکم سے متعلق قرار دیا ہے جس کا تعلق ’’الزام قتل سے اظہار براء ت کے طریقہ‘‘[2]سے ہے۔ مگر اس صورت میں اسی فقرہ (اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا) کی کوئی وضاحت نہیں ہوتی۔

·       اس ضمن میں حیران کن موقف منکرین سنت کا ہے جو احادیث اور روایات کے غیر مستند ہونے کا بہت شور مچاتے ہیں۔ مگر خود اس آیت کے ضمن میں پرویز صاحب نے ایک من گھڑت قصہ ’’دریافت قاتل‘‘ کا لکھ دیا ہے۔

کہ قاتل کا سراغ نکالنے کی ایک نفسیاتی ترکیب یہ بتائی گئی کہ ’’تم میں سے ایک ایک جاؤ اور مقتول کے کسی حصۂ جسم کو اُٹھا کر لاش کے ساتھ لگا دو (مقتول اور لاش دو الگ چیزیں تھیں؟) چنانچہ جو مجرم تھا جب وہ لاش کے قریب پہنچا تو خوف کی وجہ سے اس سے ایسے آثار نمایاں ہوگئے جو اس کے جرم کی غمازی کرنے کے لیے کافی تھے اس طرح اللہ نے اس قتل کے راز کو بے نقاب کردیا۔‘‘ اور اس ’’خود ساختہ‘‘ قصے کے لیے کسی حوالہ یا سند کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی۔ بلکہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کو محض الفاظ کی بازیگری (قاتل کا سراغ لگانے کی ’’نفسیاتی ترکیب‘‘، ’’جرم کی غمازی، راز کو بے نقاب کرنا، خوف کے آثار‘‘ (وغیرہ) سے مرعوب یا بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ عربی زبان سے ناواقف کیا جانیں کہ یہاں فعل ’’ضرب‘‘ کا بامحاورہ (Idiomatic) اور بلحاظ سیاق استعمال کیا معنی دیتا ہے؟ اور مذکر و مونث ضمائر (’’ہ‘‘ اور ’’ھا‘‘) کا استعمال کس ضرورت کے لیے کیا گیا ہے؟ (شاید ’’حصۂ جسم‘‘ اور ’’لاش‘‘ کا مفہوم اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نکالا گیا ہے۔ کیونکہ اردو میں ’’حصہ‘‘ مذکر اور ’’لاش‘‘ مؤنث ہے۔ رہا تذکیر و تانیث کا عربی میں استعمال تو اس کو ’’ مُلا‘‘  کے سوا کون جانتا ہے؟)

·       اور اس سے بھی زیادہ جاہلانہ مفہوم قادیانیوں نے نکالا ہے جنہوں نے یہاں شخص مقتول سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام لے کر ’’قَتَلْتُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’تم نے قتل کرنے کا دعویٰ کیا‘‘ کرکے اپنا ’’لُچ تلنے‘‘ کی کوشش کی ہے۔ گویا قاتل کی بجائے ’’مقتول‘‘ دریافت کرنا مطلوب تھا۔ پھر ’’ اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا ‘‘  کا ترجمہ کیا ہے۔ ’’اس واقعہ کو اس کے بعض دوسرے واقعات کے ساتھ ملا کر دیکھو‘‘ یہ ہے وہ اندازِ استدلال جس پر قرآن کریم کی آیت ’’ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ‘‘ (یونس:۴۲) پوری طرح چسپاں ہوتی نظر آتی ہے (یعنی جب حق سے منہ موڑا تو پھر گمراہی کے سوا اورکس چیز کی توقع کی جاسکتی ہے) اور قرآن کے ساتھ اس قسم کی ’’باطنی‘‘چالبازیوں اور ’’ذہنی ‘‘بازی گریوں کو دیکھ کر یہ احساس کتنی شدّت سے ابھرتا ہے کہ قرآن کریم کے فہم کے لیے عربی زبان کا سیکھنا کتنا ضروری ہے۔

·       ان لوگوں کے لغت ِ قرآن سے اس تلاعب (بازیگری) کی نسبت تو ان آیات کی اس تفسیری قصہ کے ساتھ (جو کتب تفسیر میں وارد ہوا ہے اور جس کی طرف پہلے اشارہ ہوا ہے) وضاحت اس لحاظ سے بہتر معلوم ہوتی ہے کہ اس میں کم از کم قرآن کریم کی نصّ (الفاظِ عبارت) سے تو انحراف نہیں ہوا۔ اور نہ ہی ضمائر کے مراجع کی تعیین میں سیاق عبارت سے تجاوز ہوا ہے۔

·       اور اگر ہم قصے کی تفسیری تفاصیل کو غیر ضروری سمجھ کر مضمون کے اجمال تک محدود رہیں کہ اس ’’قتل‘‘ اور ’’گائے کے ذبح‘‘ کرنے میں کوئی تعلق ضرور تھا اور یہ ’’دریافت قاتل‘‘ کا کوئی طریقہ تھا جو اگر معجزانہ اورخارق عادت طریقے پر ظاہر ہوا ہو تو ایسا ہونا ’’بالکل ناممکن‘‘ تو نہیں ہوسکتا البتہ اس کے اثبات کے لیے ’’قوتِ روایت‘‘ درکار ہوگی۔ جو موجود روایات میں مفقود یا ضعیف ہے۔ اس لیے اگر ہم اصل قصہ کے ابہام کو دور کرنے کی کوشش ترک کرکے صرف نفس واقعہ پر مجمل ایمان رکھیں تو کیا حرج ہے؟ بقول حافظ ابن کثیر ’’اگر اس واقعہ کی تفاصیل کی تعیین میں کوئی دینی دنیاوی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے واضح کرتا۔ مگر جسے اللہ نے مبہم رکھا ہے اور جس کے بارے نبی معصوم ؐسے کوئی خبر صحیح بھی ثابت نہیں تو پھر ہم بھی اس کو مبہم رکھنا بہتر سمجھتے ہیں۔ ’’فنحن نُبْھِمُہ کما اَبْھَمہُ اللّٰہ‘‘[3]

 [كَذٰلِكَ يُـحْىِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى] اس جملے کے تمام کلمات کے الگ الگ معانی و استعمال پہلے مختلف مقامات پر گزر چکے ہیں:۔ مثلاً ’’کذلک‘‘ = ک+ ذلک اور ’’ک‘‘ کے معنی ہیں ’’کی مانند، کی طرح، جیسا‘‘ چاہیں تو تفصیل کے لیے دیکھئے البقرہ:۱۷ [۱:۱۳:۲ (۱)] ’’ذلک‘‘ اسم اشارہ بعید بمعنی ’’وہ‘‘ ہے۔ (تفصیل کے لیے البقرہ:۲ [۱:۱:۲ (۱)]  دیکھ لیجئے) اس طرح ’’ کذلک‘‘ کا ترجمہ ہوگا  ’’اس جیسا، اس کی مانند اور اس کی طرح‘‘ اور اس کو بامحاورہ اردو میں ’’اسی طرح‘‘ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔

·       ’’یُحْیی‘‘ کا مادہ ’’ح ی ی‘‘ اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُ‘‘ ہے۔ یہ دراصل ’’یُحْیِیُ‘‘ تھا جس میں آخری ’’یاء ‘‘ ماقبل مکسور ہونے کے باعث ساکن ہو جاتی ہے۔ یہ (یُحْیٖ) اس مادہ سے بابِ افعال کا فعل مضارع صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ’’اَحْیا یُحْیٖ إحْیائً‘‘ (زندہ کرنا، زندگی دینا) کے معنی و استعمال پر البقرہ:۲۸ [۱:۲۰:۲(۳)] میں بات ہوچکی ہے۔ (اس مادہ سے فعل مجرد پر بات البقرہ:۲۶ [۱:۱۹:۲ (۱)] میں ہوئی تھی)۔ یہاں (زیر مطالعہ آیت میں) فعل ’’یُحْیی‘‘ کا ترجمہ فعل حال سے بھی ہوسکتا ہے اور مستقبل کے ساتھ بھی۔ یعنی زندہ کرتا ہے/ کرے گا۔ اسم جلالت ’’اللّٰہ‘‘ پر لغوی بحث ’’بسم اللّٰہ‘‘ میں ہوئی تھی۔

·       ’’المَوْتٰی‘‘ کا مادہ ’’م و ت‘‘ اور وزن لامِ تعریف کے بغیر ’’فَعْلٰی‘‘ ہے جو جمع کا ایک وزن ہے۔ جیسے قتِیْل سے قَتْلَی اور مریض سے مَرْضٰی جمع آتی ہے۔ اس طرح یہ (مَوْتٰی) لفظ ’’مَیِّتٌ‘‘ (بروزن فَیْعِلٌ مثل صَیِّبٌ و سَیّدٌ) کی جمع ہے اس مادہ )م و ت) سے فعل مجرد پر بات البقرہ:۱۹ [ ۱:۱۴:۲ (۱۲)] میں ہوئی تھی۔ اور ’’مَیِّتٌ‘‘ اور ’’مَیْتٌ‘‘ (بمعنی مردہ، بے جان) کی ایک دوسری جمع ’’اَمْوَاتٌ‘‘ پر بھی البقرہ:۲۸ [ ۱:۲۰:۲ (۲)] میں بات ہوئی تھی۔

·       یوں اس عبارت (كَذٰلِكَ يُـحْىِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے، ’’اسی طرح اللہ زندہ کرتا ہے مردوں کو‘‘ اسی کو بعض نے بصیغۂ مستقبل ’’زندہ کرے گا/ جِلائے گا‘‘ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔

۱:۴۵:۲ (۲)     [وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ] اس جملے کی ابتدائی ’’وَ‘‘ بمعنی ’’اور‘‘ ہے اور آخری ضمیر (کُمْ) بمعنی ’’تم‘‘ ہے۔ ان کو نکالنے کے بعد باقی فعل ’’ یُرِی ‘‘ بچتا ہے۔ اس کا مادہ ’’رأی‘‘ اور وزن اصلی ’’یُفْعِلُ‘‘ ہے۔ اس کی اصلی شکل ’’ یُرْئِ یُ ‘‘ تھی جس میں خلافِ قیاس ’’ء‘‘ کی حرکت (کسرہ) ماقبل ساکن حرف صحیح (ر) کو دے کر فعل اجوف کی طرح (حالانکہ یہ مادہ مہموز العین ہے) ’’ء‘‘ کو گرا دیا جاتا ہے اور آخری ’’یاء‘‘ ماقبل مکسور ہونے کی بناء پر ساکن ہو جاتی ہے۔ اس طرح یہ لفظ بصورت ’’یُرِیْ‘‘ لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اس مادہ (رأی) سے فعل مجرد کے استعمال پر البقرہ:۵۵ [۱:۳۵:۲(۳)] میں بات ہوئی تھی۔

·       زیر مطالعہ لفظ (یُرِیْ) اپنے مادہ سے باب افعال کا صیغہ مضارع (واحد غائب مذکر) ہے اور اس باب سے فعل ’’أرَیْ . . . . .یُرِیْ (دراصل أَرْئَ یَ، یُرْئِ یُ) إِرَائَ ۃً‘‘ (دراصل  اِرْاَیٌ) کے معنی ہیں:. . .  .کو . . . . .دکھانا۔‘‘ یعنی یہ فعل متعدی ہے اور اس کے دو مفعول آتے ہیں’’جس کو دکھایا جائے‘‘ اور ’’جو چیز دکھائی جائے‘‘ اور اس کے دونوں مفعول بنفسہ (منصوب بغیر صلہ کے) آتے ہیں جیسے اسی زیر مطالعہ حصۂ  آیت (یریکم آیاتہ ) میں ایک مفعول ضمیر منصوب (کُمْ) ہے اور دوسرا ’’ آیات‘‘ (جو آگے مضاف بھی ہے) یعنی ’’وہ دکھاتا ہے تم کو اپنی آیات‘‘۔

·       ’’ آیاتہ ‘‘ (یہ رسم اور ضبط املائی ہے قرآنی رسم و ضبط پر آگے بات ہوگی) میں آخری ’’ہ‘‘ تو ضمیر مجرور بمعنی ’’اس کی / اپنی‘‘ ہے اور کلمہ ’’ آیات ‘‘ (برسم املائی) کی واحد ’’ آیۃ ‘‘ ہے جس کا مادہ ’’ا ی ی‘‘ یا بقول بعض ’’اوی‘‘ ہے۔ اس لفظ (آیۃ) کے وزن اور اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور استعمال وغیرہ پر البقرہ:۳۹ [۱:۲۷:۲ (۱۳)] میں مفصل بحث گزر چکی ہے۔ ’’ آیات‘‘ کا ترجمہ تو ’’نشانیاں‘‘ ہے مگر بعض نے اس مطلب کے لیے ’’نمونے، قدرت کے نمونے، نظائرِ قدرت اور قدرت کی نشانیاں‘‘ سے ترجمہ کیا ہے۔

[لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ]  ’’لعلکم‘‘ کے معنی ہیں ’’شاید کہ تم‘‘ اور بعض نے اس کا ترجمہ ’’تاکہ تم، اس لیے کہ تم، اس توقع پر کہ تم‘‘ سے کیا ہے ’’شاید‘‘ میں تو (لعلّ والا) توقع اور ترجّی (امیدکرنا) کا مفہوم ہوتا ہے مگر ’’تاکہ‘‘ اور ’’اس لیے کہ ‘‘میں توقع (امید) سے زیادہ تعلیل (سبب بتانا) کا مفہوم ہے البتہ ’’اس توقع پر‘‘ اور ’’شاید کہ‘‘ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ’’لعلکم‘‘ اور اس میں شامل حرف مشبہ بالفعل (لعلَّ) کے معنی وغیرہ پر بحث البقرہ:۲۱ [۱:۱۶:۲(۴)] میں ہوچکی ہے۔

·       ’’تَعْقِلُوْنَ‘‘ کا مادہ ’’ع ق ل‘‘ اور وزن ’’تَفْعِلُوْنَ‘‘ ہے جو اس مادہ سے فعل مجرد کا صیغہ مضارع (جمع مذکر حاضر) ہے۔ اس فعل بلکہ خود اسی صیغہ (تَعْقِلُوْنَ) کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ :۴۴ [۱:۲۹:۲ (۸)] میں بات ہوچکی ہے۔ اس کے مطابق ’’تعقلون‘‘ کا ترجمہ ’’تم عقل سے کام لیتے ہو/ لو گے‘‘ بنتا ہے۔ ’’لعلکم‘‘ (شاید کہ تم) کے ساتھ لگنے سے اس کی بامحاورہ صورتیں ’’تم سمجھو/ غور کرو/ عقل سے کام لیا کرو/ سمجھ جاؤ/ عقل پیدا کرو‘‘ ترجمہ میں اختیار کی گئی ہیں۔

 

۲:۴۵:۲      الاعراب

        زیر مطالعہ دو آیات کل چار جملوں پر مشتمل ہیں۔ اس لیے ہر جملے کے بعد وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی گئی ہے۔ ان میں آخری (چوتھا) جملہ ویسے تو دو جملوں کا مجموعہ ہے مگر واو عاطفہ کے ذریعے (اور بلحاظ مضمون بھی) ان کو ایک جملہ بنا دیا گیا ہے۔ ہر ایک جملے کے اعراب کی تفصیل یوں ہے

(۱)  وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِيْهَا

[وَ] مستانفہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں سے ایک اور قصہ شروع ہوتا ہے۔ اور اسے واو العطف بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد والے قصے کا اس سے پہلے والے قصے سے واقعاتی تعلق بھی بنتا ہے۔  [اذ] ظرفیہ ہے جس سے پہلے ایک فعل (مثلاً اذکروا) محذوف سمجھا جاتا ہے [قتلتم] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے (اور مراد یہ ہے کہ ’’تم‘‘ میں سے کسی یا بعض نے قتل کیا۔ کیونکہ سب تو قاتل نہیں تھے)۔ [نفساً] اس فعل (قتلتم) کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامتِ نصب خود تنوین نصب (ــــًـــــ) ہے۔ ویسے فعل فاعل مفعول مل کر یہاں تک ایک جملہ فعلیہ بن جاتا ہے مگر ’’اذ ‘‘ کی وجہ سے جملہ ادھورا لگتا ہے کیونکہ آگے اس ’’جب‘‘ کے بعد ایک ’’پھر‘‘ یا ’’تو‘‘ بھی آنی چاہیے۔ [فادّارء تم] کی فاء (فَ) عاطفہ ہے۔ ’’ ادّارَء تم‘‘ فعل ماضی معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ جس میں ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ شامل ہے اور فاء عاطفہ کے ذریعے اس صیغۂ فعل (ادارء تم) کا عطف (ربط یا تعلق) سابقہ صیغہ فعل ’’قتلتم‘‘پر بنتا ہے۔ ’’یعنی قتل کیا پھر اس کے بعد جھگڑنے لگے‘‘ [فیھا] جار (فی) مجرور (ھا) مل کر متعلق فعل ’’ادارء تم‘‘ ہے۔ اور مؤنث ضمیر ’’ھا‘‘ کا مرجع ’’نفس ‘‘بھی ہوسکتا ہے جو مؤنث سماعی ہے اور ایک محذوف مثلاً ’’تُھْمۃ‘‘ بھی یعنی اس ’’نفس‘‘ (جان) کے قتل کی تہمت ایک دوسرے پر ڈالنے لگے۔ یہاں تک ایک جملہ ہر لحاظ سے مکمل ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہی یہاں وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے۔

(۲) وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ 

یہاں [وَ] مستأنفہ ہے مگر اس کے بعد کی عبارت (جملہ) اپنے سے سابقہ جملے (یعنی نمبر۱) اور بعد والے جملے (نمبر۳) کے درمیان ایک جملہ معترضہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے بعض نحوی اس (قسم کی) ’’و‘‘ کو ’’واو اعتراضیہ‘‘ بھی کہتے اور اس ’’واو‘‘ کو یہاں حالیہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اکثر مترجمین نے اس کا اردو ترجمہ ’’اور‘‘ سے ہی کردیا ہے۔ [اللّٰہُ] مبتدأ (لہٰذا) مرفوع ہے اور [مُخْرِجٌ]اس کی خبر (مرفوع) ہے [مّا] اسم موصول جو ’’مُخْرِجٌ‘‘ کا مفعول بہ (لہٰذا) نصب میں ہے۔ یہاں اسم الفاعل (مُخْرِجٌ) نے فعل (یُخْرِجُ)کا سا عمل کیا ہے جس کی وجہ سے ’’مَا‘‘ مفعول منصوب ہے اگرچہ مبنی ہونے کی وجہ سے اس (ما) میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ [کنتم] فعل ناقص ہے جس میں اس کا اسم ’’انتم‘‘ بھی شامل ہے اور [تکتمون] فعل مضارع معروف جمع مذکر حاضر ہے اور یہ ایک جملہ فعلیہ (فعل مع فاعل) ہے جو ’’کنتم‘‘ کی خبر (لہٰذا محلاً منصوب) ہے اور چاہیں تو پورے جملے ’’کنتم تکتمون‘‘ کو ماضی استمراری کا صیغہ سمجھ لیں جس کے بعد اسم موصول (ما) کے لیے ایک ضمیر عائد محذوف ہے یعنی ’’کنتم تکتمونہ‘‘(تم اسے/ جسے چھپا رہے تھے) بہرحال دونوں صورتوں میں یہ جملہ (کنتم تکتمون) اسم موصول (ما) کا صلہ ہے اور صلہ موصول مل کر ’’مُخْرِجٌ‘‘ کا مفعول بہ ہوکر محلاً منصوب ہے۔ بعض نحوی صرف اسم موصول کو ہی منصوب کہتے ہیں (جیسے ہم نے بھی اوپر لکھا ہے) اور ’’صلہ‘‘ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کا کوئی اعرابی محل نہیں ہوتا۔ حالانکہ صرف اسم موصول الگ جملے کا جزء نہیں ہوتا۔ بلکہ ہمیشہ صلہ موصول مل کر ہی جملے کا کوئی جزء (مبتداء خبر، فاعل، مفعول وغیرہ) بنتے ہیں اور حسبِ موقع وہی ان کی اعرابی حالت سمجھی جانی چاہیے۔

(۳) فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا

یہاں فاء یعنی [فَ] عاطفہ ہے جس میں ترتیب کا مفہوم موجود ہے (پھر/ پس) یعنی ’’قتل‘‘ اور پھر ’’باہمی جھگڑے‘‘ کے وقوع کے بعد یہ ہوا کہ [قلنا] فعل ماضی معروف صیغہ متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ’’نحن‘‘ (اللہ تعالیٰ کے لیے) مستتر ہے [اضربوہ] میں ’’اضربوا‘‘ فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر الفاعلین ’’انتم‘‘ شامل ہے اور آخر پر ضمیر منصوب (ہ) اس (فعل امر) کا مفعول بہ ہے اور یہ مذکرضمیر اس شخص (مقتول) کے لیے ہے (جس کے لیے لفظ ’’نفس‘‘  آیا تھا) پہلے لفظ ’’نفس‘‘ کی تانیث کی بناء پر اس کے لیے مؤنث ضمیر ’’فیھا‘‘ میں (ھا) آئی تھی۔ یہاں بلحاظ معنی یعنی ’’شخص‘‘ یا ’’رجل‘‘ یا ’’قتیل‘‘ کے معنی میں مذکر ضمیر (ہ) آئی ہے۔ یہاں ایک اور چیز بھی نوٹ کیجئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ واو الجمع والے صیغۂ فعل کے بعد اگر کوئی ضمیر مفعول ہوکر آئے تو زائد الف (جو واو الجمع کے بعد لکھا جاتا ہے) ساتھ نہیں لکھا جاتا۔ اس لیے ہم نے یہاں صیغۂ فعل (امر) سمجھانے کے لیے ضمیر سے الگ لکھتے ہوئے اس کے آخر پر زائد الف لکھا ہے  (اضربوا میں) مگر ضمیر مفعول کے ساتھ اس کی ضرورت نہیں رہتی اس لیے آیت میں ’’اضربوہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ [ببعضھا] میں ’’بِ‘‘ حرف الجر اور ’’بعض‘‘ مجرور (بالجر) اور آگے مضاف بھی ہے جس کی وجہ سے وہ خفیف (تنوین اور لام التعریف سے خالی) بھی ہے اور آخر پر ضمیر مجرور ’’ھا‘‘ مضاف الیہ ہے۔ اور یہ پورامرکب جارّی (ببعضھا) متعلق فعل (اضربوہ) ہے۔ اس میں مؤنث ضمیر (ھا) کا مرجع وہ گائے ( البقرۃ) ہے جس کو ذبح کرنے کا قصہ اوپر گزرا ہے۔ اس عبارت کے تراجم پر پہلے حصہ اللغۃ میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔

(۴) كَذٰلِكَ يُـحْىِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى   ۙ   وَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ

[کذلک] جار (کَ) اور مجرور (ذلک) مل کر دراصل یہاں بعد میں آنے والے فعل (یحی) کے محذوف مفعول مطلق کی صفت کے طور پر مقدم آگیا ہے۔ اور اس لیے محلاً منصوب ہے گویا عام سادہ عبارت (نثر) کی ترتیب یوں بنتی ہے: ’’یحی اللّٰہُ الموتی کذلک‘‘ (اس کے پہلے حصے ’’یحی اللّٰہ الموتی‘‘ پر اعرابی بحث آگے آرہی ہے اور اس کے معانی حصہ ’’اللغۃ‘‘ میں بیان ہوچکے ہیں) اور بلحاظ اعراب تقدیر عبارت یوں بنتی ہے۔ ’’یحی اللّٰہُ المَوتی إِحیائً کذلکَ الاحیاء‘‘ یعنی ’’مثل ذلک الاحیاء ‘‘(ک=مثل) یعنی ’’اللہ زندہ کرے گا مردوں کو زندہ کرنا مانند اس (مردہ کے) زندہ کرنے کے‘‘ گویا ’’ذلک‘‘ میں اشارہ ’’إحیاء‘‘ (زندہ کرنا) کی طرف ہے اور اس سے بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مردہ زندہ ہوا تھا جس کے زندہ کیے جانے کی طرف ’’ کذلک ‘‘ میں اشارہ ہے۔ [یحیی] فعل مضارع معروف واحد مذکر غائب ہے اور [اللّٰہ] اس کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے اور [الموتیٰ] مفعول بہ منصوب ہے جس میں مقصور ہونے کے باعث اعرابی علامت ظاہر نہیں ہے۔ یہاں ایک جملہ ختم ہوتا ہے جس کو ’’وَ‘‘ کے ذریعے آگے ملایا گیا ہے۔ [وَ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے اگلے فعل (یُری) کو سابقہ فعل (یُحیی) پر عطف کیا گیا ہے یا یوں کہیے اس واو العطف کے ذریعے دو جملوں کو ملایا گیا ہے۔ گویا دونوں جملوں کو ملا کر ایک جملہ بنا دیا گیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہاں ’’الموتیٰ  ‘‘ کے بعد علامت عدم وقف (لا) لکھی جاتی ہے تاکہ اس ساری عبارت کو مربوط سمجھ کر (اسی طرح ملا کر) پڑھا جائے۔

[یُرِیْکُمْ] میں ’’یُرِی‘‘ تو فعل مضارع معروف کا پہلا صیغہ ہے اور اس میں ضمیر فاعلی (ھو) اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ ’’کُمْ‘‘ ضمیر منصوب اس فعل (یُرِی) کا مفعول اوّل ہے اور (ایتہ) مضاف (آیات) اور مضاف الیہ (ضمیر مجرور ’’ہ‘‘)مل کر فعل ’’یُرِیْ‘‘کا مفعول ثانی ہے اس لیے اس مرکب اضافی (ایتہ) کا پہلا جزء (مضاف) منصوب ہے اور علامتِ نصب اس میں مکسور ’’تاء‘‘ (تِ) ہے۔ [لعلکم] میں ’’لعلّ‘‘ حرف مشبہ بالفعل اور ’’کُمْ‘‘ ضمیر منصوب اس کا اسم ہے [تعقلون] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین ’’انتم‘‘ ہے اور یہ جملہ فعلیہ (تعقلون) ’’لعلّ‘‘ کی خبر ہے۔ اس لیے یہاں اسے محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں۔

 

۳:۴۵:۲     الرسم

زیر مطالعہ دو آیات میں بلحاظِ رسم صرف چار کلمات وضاحت طلب ہیں یعنی ’’فادرء تم ،کذلک ،یحیی اور ایتہ‘‘ ان میں سے مؤخر الذکر تین پر پہلے بھی بات ہوچکی ہے لہٰذا ان کا ذکر مختصراً ہوگا۔ اصل توجہ طلب نیا لفظ ’’فادرء تم‘‘ ہے۔ تفصیل یوں ہے:

’’فَادّٰرَئْ تُمْ‘‘ جس کی رسم املائی یا قیاسی ’’فَادَّارَأْتُمْ‘‘ ہے اس کے رسم عثمانی میں حذف الالفین پر اتفاق ہے یعنی ’’د‘‘ کے بعد والا الف اور ’’ر‘‘ کے بعد والا الف (جو دراصل ہمزہ ساکنہ کی ’’کرسی‘‘ ہے) دونوں لکھنے میں حذف کردیئے جاتے ہیں۔ یہ لفظ مصاحف عثمانی میں ’’فادرتـــــــــم‘‘ (نقطوں کے بغیر) کی شکل میں لکھا گیا تھا  [4]  (اعجام اور نقط یعنی نقطوں اور حرکتوں کے بغیر)۔ اور دراصل اس میں تین ہمزے (یا الف) ہیں پہلا تو ’’ف‘‘ کے بعد ہے یہ ہمزۃ الوصل ہے جو ہمیشہ کسی کلمہ کے شروع میں ہی آتا ہے (یہاں یہ ’’ادّرء تم‘‘ کے شروع میں ہے) یہ ہمیشہ بصورت الف (ا) لکھا جاتا ہے اور یہ چند خاص صورتوں کے سوا کبھی لکھنے میں حذف نہیں ہوتا البتہ کسی ماقبل سے ملا کر پڑھتے وقت تلفظ سے گر جاتا ہے (جیسے یہاں ’’ف‘‘ کے بعد ہے)۔ دوسرا الف وہ ہے جو دال مفتوحہ ( دّ) کے بعد ہے۔ یہ الف جسے ’’لِینہ‘‘ کہتے ہیں اپنے ماقبل کو اشباع (کھینچ کر یا ذرا لمبا کرکے پڑھنا) دیتا ہے اور یوں یہ تلفظ میں ضرور آتا ہے (چاہے کتابت میں محذوف بھی ہو)۔ تیسرا الف اس کلمہ میں وہ ہے جو راء مفتوحہ ( رَ ) کے بعد ہے مگر یہ ساکن (ہمزہ) ہے۔ اس لفظ(فادرء تم) میں جس حذف الالفین کی بات کی گئی ہے۔ اس سے مراد آخری دو الف (یا ہمزے) ہیں یعنی ’’د‘‘ کے بعد والا اور ’’ر‘‘ کے بعد والا۔[5]

·       عربوں کے طریق تلفظ کے مطابق کسی متحرک حرف کے بعد والا ساکن ہمزہ (جیسے یہاں ’’ر‘‘کے بعد ہے) اپنے ماقبل کی حرکت کے موافق حرف میں بدل کر پڑھا جاسکتا ہے۔ (جوازاً) یعنی فتحہ (ـــــَــــ)کے بعد الف کسرہ (ـــــِــــ) کے بعد یا (ی) اور ضمہ (ــــُـــــ) کے بعد ’’و‘‘ میں بدل کر پڑھا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہاں ’’رَئْ‘‘ کو ’’رَا‘‘ بھی پڑھا جاسکتا ہے او رکم از کم ایک قراء ت (ابو عمرو البصری) میں اسے ’’ رَا‘‘ ہی پڑھا گیا ہے گویا جن قراء نے اِسے ہمزہ ساکنہ (رَئْ) پڑھا ہے (اور اکثر نے اسی طرح پڑھا ہے) ان کے نزدیک ’’ر‘‘ کے بعد ایک ہمزہ (ءْ) محذوف ہے اور جس نے اسے ہمزہ لینہ (الف) کے ساتھ پڑھا اس کے مطابق یہاں ’’ر‘‘ کے بعد الف لینہ (ا) محذوف ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر اس لفظ (فادرء تم) کے ضبط کے لیے مختلف صورتیں اختیار کی گئی ہیں۔ جس پر مزید بحث ’’الضبط‘‘ میں آئے گی۔ خیال رہے کہ اصل رسم عثمانی (فادرء تم) دونوں قراء توں اور اس کے مطابق مختلف طریق ضبط کا متحمل ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے بحث ’’الضبط‘‘)

(۲) ’’کذلک‘‘ بلحاظِ رسم ’’ذلک‘‘ کی طرح ہے یعنی اس میں ’’ذ‘‘ کے بعد الف نہیں لکھا جاتا (گو پڑھا جاتا ہے) اور اس لفظ کا رسم املائی بھی یہی ہے۔ حالانکہ قیاسی رسم ’’کذالک‘‘ ہونا چاہیے تھا مگر بہت سے اور لفظوں کی طرح یہاں بھی عام املاء میں بھی رسم عثمانی کی ہی پیروی کی جاتی ہے۔

(۳) ’’یُحیی‘‘ کا رسم املائی تو ’’یُحْیِی‘‘ ہے مگر رسم عثمانی میں صرف ایک ’’ی‘‘ لکھی جاتی ہے۔ البتہ پڑھی دونوں جاتی ہیں (ایک متحرک دوسری ساکن) اور قرآن کریم میں یہ لفظ ہر جگہ اسی طرح (ایک ’’ی‘‘ کے ساتھ) لکھا جاتا ہے۔ البتہ اگر اس کے بعد کوئی ضمیر منصوب (مفعول) آرہی ہو تو اسے دو ’’یاء‘‘ سے ہی لکھا جاتا ہے۔ جیسے کلمہ ’’یُحْیِیْکُمْ‘‘ میں ہے۔ نیز دیکھئے ’’الضبط‘‘ میں۔

(۴) ’’اٰیتہ‘‘ جس کی رسم املائی ’’آیاتہ‘‘ ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ (آیات) مفردیا مرکب (اضافی کے ساتھ) ہر جگہ ’’ی‘‘ کے بعد والے الف کے حذف کے ساتھ (ایت) ہی لکھا جاتا ہے۔ البتہ دو جگہ (یونس:۱۵ ،۲۱)  اور بقول بعض یوسف:۷ میں بھی۔ سے ’’ایات‘‘ یعنی باثبات الالف بعد الیاء لکھا گیا ہے۔ ان پر مزید بات حسب موقع ہوگی۔ خیال رہے کہ اس لفظ (ایات/ ایت) کے شروع میں ایک ہمزہ مفتوحہ (ئَ) بھی محذوف ہے جو تلفظ میں آتا ہے اور اسے بذریعہ ضبط مختلف طریقوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔

 

۴:۴۵:۲     الضبط

رسم کی طرح بلحاظِ ضبط میں کلمہ ’’فادرء تم‘‘ توجہ طلب ہے۔ رسم میں یہ بتایا جاچکا ہے کہ اس کلمہ میں ’’ر‘‘ کے بعد بھی ایک الف (یا ہمزہ) محذوف ہے۔ ہمزہ ساکنہ متوسطہ (یعنی وہ ساکن ہمزہ جو کسی لفظ کے اندر آرہا ہو۔ ابتداء میں یا آخر پر نہ ہو) کی املاء کے بارے میں رسم عثمانی اور رسم املائی دونوں میں یہ قاعدہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ایسے ہمزہ سے ماقبل متحرک حرف کی جو حرکت ہوگی یہ ہمزہ اس حرکت کے موافق حرف پر لکھا جائے گا  [6](یعنی وہ حرف ہمزہ کی کرسی کا کام دے گا) اس طرح ماقبل مفتوح حرف کے بعد ہمزہ الف (۱) پر، ماقبل مضموم ہو تو ہمزہ ’’و‘‘ پر اور ماقبل مکسور ہو تو ہمزہ ’’ی‘‘ پر (یا اس کے نبرہ/دندانہ پر) لکھا جاتا ہے جیسے بأس، بُؤْس اور بِئْس میں ہے۔

·       چونکہ ’’فادرء تم‘‘ کی ’’ر‘‘ کے بعد ایک ہمزہ ساکنہ (اکثر قراء ات میں) پڑھا جاتا ہے اور بعض میں وہ الف لینہ سے بھی پڑھا گیا ہے۔ اور ہمزہ ساکنہ ہو یا الف لینہ صرف تلفظ میں آتا ہے۔ لکھنے میں محذوف ہے (یہ بات پہلے بھی کہیں لکھی گئی ہے کہ مصاحف عثمانی میں کہیں بھی ہمزہ نہیں لکھا گیا تھا۔ اور الف لینہ کا حذف بھی بکثرت ہوا ہے) اور چونکہ ہمزہ متوسطہ ساکنہ ماقبل مفتوح الف کے اوپر لکھا جاتا ہے۔ اس لیے یہاں ہمزہ کے لکھنے کے طریقے میں اختلاف ہوا ہے۔

·       ہمزۂ ساکنہ پڑھنے والوں نے اسے الف کے اوپر لکھا (أ)۔ تاہم چونکہ یہ الف اور صورت ہمزہ (#)دونوں اصل مصحف عثمانی میں نہ تھے اس لیے ان دونوں کو سرخ روشنائی سے لکھا جاتا تھا۔[7] البتہ دور طباعت میں اس فرق کو برقرار رکھنے کے لیے اس (کرسی والے) الف کو عام الف سے نصف بلکہ اس سے بھی کم لمبائی میں (کھڑی زیر ــــــٖــــ کی طرح ) لکھا جانے لگا۔ [8]   یا بعض دفعہ اسے عام الف کی طرح لمبا مگر (اصل الف سے فرق کرنے کے لیے) سطر سے اونچا لکھا جاتا ہے (’’ــــــٰــــ ‘‘کی طرح  [9] اور بعض ’’ر‘‘ کے بعد صرف علامت ہمزۃ القطع (ء) ڈالنے پر اکتفا کرتے ہیں (رَئْ) [10] اورجس قراء ت میں ’’ر‘‘ کے بعد والے ہمزہ کو الف لینہ پڑھا گیا ہے اس کی رعایت سے ’’ر‘‘ کے اوپر ہی محذوف الف کو کھڑی زبر (ــــــٰــــ) کی شکل میں لکھ دیتے ہیں۔ [11] اور ضبط کی یہ ساری صورتیں اصل رسم عثمانی (فادرتم) کے مطابق ہیں یعنی بحذف الالفین ہیں۔ البتہ ایرانی مصاحف میں اس لفظ کو عام رسم املائی (دیکھئے ابتدائے بحث ’’الرسم‘‘ میں) کی طرح لکھنے کا رواج ہوگیا ہےجو رسم عثمانی کے مخالف ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

        زیر مطالعہ قطعہ کے کلمات میں ضبط کا تنوع مندرجہ ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔

 

 

 

یہاں ’’و‘‘ کے بعد استعمال ہونے والی علامت لیبیا کے مصحف میں بطور الف محذوفہ خاص خاص (۱۳۶) کلمات میں استعمال ہوئی ہے۔  جسے وہ ’’حذف خاص‘‘ کی علامت کہتے ہیں اور اس لیےاسے وہ ’’مخصِّص‘‘ بھی کہتے ہیں یہ خذف ’’رسم اور قراءت ‘‘ کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی تفصیل لیبیا کے ’’مصحف الجماہیریہ ‘‘ کے آخر پر دئیے گئے  مقدمہ  بعنوان ’’ التعریف بروایتہ المصحف‘‘ کے تحت رسم ضمن میں صفحہ ’’و‘‘ اور ’’ر‘‘ پر دی گئی ہے۔


 



[1] مثلاً علم الصرف (للسورتی) ص۲۴

[2] دیکھئے تفسیر المنار ۱:۳۴۷

 

[3]   (تفسیر ابن کثیر۱:۱۶۶ ۔ طبع دارالمعارف)

 

[4]  دیکھئے عکوس نسخۂ تاشقند ص ۲۱

[5]  اس پر مزید بحث کے لیے دیکھئے نثر المرجان (ارکاٹی) ۱۶۴:۱۔ جہاں اس کلمہ (فادرءتم) کے رسم عثمانی پر ایک صفحہ سے زیادہ لکھا گیا ہے اور اس کے بارے میں تمام اقوال جمع کردئیے گئے ہیں۔ اور مختصر بیان کے لیے دیکھئے المقنع (الدانی) ص۸۴، شرح عقیلہ (الشاطبی) ص ۱۹۔ لطائف البیان شرح موردالظمآن (زیتحار)  ۲۲:۲ دلیل الحیران (المارغنی) ص ۲۲۲ اور سمیر الطالبین (ضباع) ص ۲۵

 

 [6] رسم املائی کے لیے دیکھئے کتاب الکتا ب (ابن درستویہ) ص ۱۵ نیز نخبۃ الاملاء (خلیفہ) ص ۹ اور رسم عثمانی کے لیے دیکھئے السبیل( زیتحار) ص ۲۵، سمیر الطالبین ص ۱۵۱۔

 

[7]  جسے آپ ۔قلمی مصاحف علاوہ ۔ نائجیریا کے رنگدار مطبوعہ مصاحف میں اب بھی دیکھ سکتے ہیں۔

[8]  اسے آپ سعودی۔ شامی اور لیبی (لیبیا کے) مصاحف میں دیکھ سکتے ہیں۔

[9]  اسے آپ مراکش۔ تونس اور غانا کے مصاحف میں دیکھ سکتے ہیں۔

[10]  اس کے لیے مصری، پاکستانی اور ترکی مصاحف دیکھئے۔

[11]  دیکھئے سمیر الطالبین ص ۴۵ (ادّٰرٰتم)